کسی کو تکلیف نہ دیا کرو ورنہ خود تکلیف میں
پھنس جاؤ گے
تحریر: مرزا ذاکر علی
اُس انجان شخص کا یہ جملہ اسد کو بار بار پریشان
کر رہا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کسی کو تکلیف دینے سے خود پر تکلیف کیوں
آئے گی؟ اور کیسے؟ اس نے اپنے بڑوں سے اس حوالے سے پوچھا لیکن اس کو کوئی ایسا جواب
نہ ملا جس سے وہ مطمئن ہو جاتا پھر اس نے کتابوں کا مطالعہ شروع کیا لیکن وہاں سے بھی
مایوس ہو کر لوٹا، وہ دن بدن اسی سوال پر غور کرتا گیا حتی کہ اس کی فکر میں اس سوال
کے علاوہ کوئی بات ہی نہ تھی۔
ایک دن گھر کی طرف لوٹ رہا تھا کہ اس کو ایک
بزرگ شخص گزرتے ہوئے نظر آئے چونکہ وہ جس کسی بڑے شخص کو دیکھتا فوراً اپنا سوال پوچھتا،
تو اس نے سوچا ان بزرگ سے بھی پوچھ لیتا ہوں، وہ قریب گیا اور اس نے سلام کیا۔ بزرگ
نے اس کے سلام کا جوب دیتے ہوئے کہا: بیٹا کچھ پریشان لگ رہے ہو سب خیریت ہے نا؟ کوئی
مسئلہ تو نہیں ہے؟ بزرگ کے اس انداز سے بات کرنے سے اس کو بہت ہلکا پن اور اپنائیت
محسوس ہوئی گویا اس کو آدھا جواب مل گیا تھا، اس نے کہا: انکل مجھے بس ایک سوال پوچھنا
ہے وہ یہ کہ کیا کسی کو تکلیف دینے سے خود کو تکلیف ملتی ہے؟ اور کیسے؟
بزرگ نے کہا: بیٹا اس کا جواب تو تم صرف کانوں
سے سن ہی نہیں بلکہ آنکھوں سے دیکھ بھی سکتے ہو، یہ ایسی حقیقت ہے جو بالکل سامنے ہے
لیکن لوگ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے، ہاں یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ کسی کو تکلیف نہ دیا
کرو ورنہ خود تکلیف کا شکار ہو جاؤ گے، بھلے سے دیر یا جلد۔
اسد نے کہا: لیکن انکل ایسا کیوں ہوتا ہے؟
بزرگ بولے: بیٹا دوسروں کا احساس کرنا ان کا
دل میں درد رکھنا ان سے محبت سے بات کرنا ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کرنا ان کی مدد
کرنا ان کی عزت کرنا ان کی اچھائی بیان کرنا اور اخلاق کا جتنا دائرہ ہے اس کو اپنانے
کا اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے اور اسی کو کامیابی کا راستہ قرار دیا ہے دنیا میں
بھی اور آخرت میں بھی اب کوئی انسان ان سب کو یا ان میں سے بعض کو چھوڑ کر اپنی مرضی
سے کوئی راستہ اختیار کرے تو اس کا مطلب وہ اپنے ہاتھ سے ناکامی لکھ رہا ہے جس کے نتیجے
میں اس پر تکلیف یا مصیبت آجاتی ہے اور اس کا ذمہ دار وہ خود ہوتا ہے کیونکہ اس نے
دوسرے کے ساتھ برا کیا نتیجتاً اس پر تکلیف ڈال دی گئی الا یہ کہ اس پر اللہ رحم فرما
دے۔ لیکن دوسروں کو تکلیف دینے کے بعد خود پر تکلیف کا آنا اکثر اوقات میں دیکھا گیا
ہے بیٹا۔
اسد نے کہا: جزاک اللہ انکل مجھے اب جواب مل
گیا لیکن ایک اشکال اب بھی باقی ہے وہ یہ کہ ایسا کیسے ہوتا ہے ایک مثال ہی دے دیجیے؟
بزرگ بولے: بیٹا اس کی تو کئی مثالیں ہیں اب
دیکھو ایک شخص نے دوسرے کے پیسے چرا لیے یا رشوت لے لی یا کوئی اور طریقہ سے ناحق پیسے
وصول کیے، ایسا کرنے سے اس نے دوسروں کو مال کے سبب تکلیف دی، جب گھر آٰیا تو سب ٹھیک
تھا دو دن بعد اس کا بچہ اچانک بیمار ہوا اور بیماری اس قدر شدید ہوئی کہ سہی ہوتے
ہوہتے ۱۰ دن لگ گئے، بچہ کی
بیماری میں جو پیسہ لگا وہ اس رقم سے زیادہ تھا جو اس نے چوری کی تھی۔ اب تم ہی دیکھو
دوسروں کو تکلیف دینے سے، لوٹ کر آنے والی تکلیف تین چار گنا زیادہ تھی بیماری میں
کئی سارے پیسے خرچ ہوئے، ذہنی ٹینشن و اذیت ہوئی، گھر کا ماحول خراب ہوا پورے دس دن
تک تکلیف سے گزرنا پڑا۔
اسد بولا: حضرت آپ نے بہت ہی واضح مثال دی ہے
ایسا تو دیکھا بھی گیا ہے لیکن اس طرح تو پہلی مرتبہ آپ سے سنا ہے۔
بزرگ بولے: بیٹا یہ دنیا و کائنات اللہ کی زیر
نگرانی چل رہی ہے وہ سب دیکھ رہا ہے سن رہا ہے کون کس کے ساتھ کیا کر رہا ہے کیسے کر
رہا ہے کیوں کر رہا ہے وہ سب جانتا ہے تو بعض اوقات لوگوں کو درست راستے پر لانے کے
لے تکلیف و مصیبت بھی ڈال دیتا ہے تاکہ لوگ جو اب تک برائیوں میں جگڑے ہوئے تھے وہ
سدھر کر اللہ کے راستے پر آجائیں۔
اب دیکھو ایک شخص نے دوسرے کے ساتھ احساس و
محبت کرنے کے بجائے اس کا دل دکھایا یا اس پر رحم کرنے کے بجائے اس پر ظلم کیا یا اس
کی عزت کرنے کے بجائے اس کو زلیل کیا یا اس کی اچھائی بیان کرنے کے بجائے اس کی غیبت
و چغلی کی تو ان سب کی وجہ سے سامنے والے کو تکلیف پہنچی نتیجتاً اس کے بدل میں اس شخص پر کیا کیا تکالیف آ سکتی
ہیں اس کا اسے اندازہ بھی نہیں، دل دکھانے والا بے چین ہو سکتا ہے کیونکہ سکون کا معاملہ
دل سے ہوتا ہے تو اس نے کسی کا سکون چھینا بدلے میں اس پر کوئی ایسی تکلیف آ سکتی ہے
جس سے اس کا سکون چھن جائے، ظلم کرنے والے کے ساتھ مال کے نقصان کا معاملہ بھی ہو سکتا
ہے عزت و جان کے حوالے سے بھی مسائل آ سکتے ہیں لیکن بیٹا جس وقت تکلیف آتی ہے اُس
وقت تکلیف دینے والے کو پتا ہی نہیں ہوتا وہ کہتا ہے میرے اوپر کیوں پریشانی آگئی اچانک؟
وہ یہ اندازہ بھی نہیں کر پاتا کہ اس نے دوسرے کو جو پریشانی یا تکلیف دی تھی اس کے بدلے میں وہ پریشان ہوا ہے۔
اسی
طرح دوسروں کو زلیل کرنے والا بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے اور غیبت و چغلی کرنے کے
والا ذہنی دباؤ اور ٹینشن کا شکار ہو سکتا ہے جس کے سبب سکون جاتا رہے گا۔
اسد نے کہا: انکل بہت شکریہ آپ نے تو میرا مسئلہ
ہی حل کر دیا میں کتنے عرصے سے اس جملے کی وضاحت کی طلب میں تھا۔ مجھے صرف جواب ہی
نہ ملا بلک بہت سی نئی باتیں سیکھنے کو ملیں جیسے کامیابی کے راستے کی آپ نے بات کی۔
بزرگ بولے: بیٹا یہ تو چند مثالیں تھیں جو میں
نے بیان کیں وگرنہ ایک انسان اپنی زندگی میں کیا کچھ نہیں کرتا اور اسکے ساتھ کیا کچھ
نہیں ہوتا لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سوچتا نہیں ہے کہ میں کوئی کام کیوں کر
رہا ہوں اور اگر میرے ساتھ کچھ ہوا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ کیوں ہوا اس کی کیا
وجہ ہے؟ اگر اس پر انسان سوچ لے تو آہستہ آہستہ اس کو اپنے حوالے سے اسبابی معاملات
کی خبر ہونے لگے گی اور پھر وہ خود کو اللہ کے راستے پر لانے کی کوشش کرے گا اور دھیرے
دھیرے اس کی زندگی سکون میں آنے لگے گی۔
اسد نے ایک بار پھر ان بزرگ کا شکریہ ادا کیا
اور اپنی آنے والی زندگی کو انہیں بزرگ کی صحبت میں کامیاب راستے پر ڈھالنے کی کوشش
میں لگ گیا۔
Post a Comment