غلامی و غلامانہ زندگی سے ہر شخص نفرت کرتاہے۔کوئی بھی شخص خود
پر غلامی کا ٹیگ یا ٹائٹل نہیں لگاناچاہتا۔غلامی ایک قسم کی ذلت، قید اورتنگی ہے۔ لیکن اگر بغورمشاہدہ کیا جائے تو
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج لوگوں کی ایک
بڑی تعداد غلامانہ(ذلت ،قید اورتنگی میں)
زندگی بسر کررہی ہے۔ اس غلامی کو انہوں بسروچشم خوشی سے قبول کیاہے۔
ایک وقت تھا لوگوں کو جسمانی غلام بنایاجاتاتھا ۔ ان کے جسم پر حکمرانی کی جاتی تھی۔ کسی بھی ملک کوبزورشمشیر فتح کیا جاتاتھا تاکہ ان لوگوں پر حکمرانی کی جاسکے۔ لیکن آج جسمانی وظاہری غلامی کا دور گزرچکا۔ اب لوگوں کو ذہنی غلام بنایاجاتاہے۔ بظاہر وہ آزاد ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی مرضی سے نقل و حرکت کرسکتے ہیں ،وہ ذہنی غلامی کے سبب درحقیقت پنجہٴ شکاری میں ہوتے ہیں۔ ان کے شکاری( آقا) ان سے جو کام لینا چاہتے ہیں وہ اسے انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔اپنے آقاؤں کی مخالفت کرنا تو دور کی بات وہ دل میں بھی اس کے خلاف نہیں سوچ سکتے۔یہی وہ ذہنی غلامی ہے۔جس کی ایک بدترین شکل نوکری ہے۔یقیناًنوکری بدترین ذہنی غلامی ہے۔لیکن آج کے دور میں روزگار کا مطلب ہی نوکری بنادیا گیاہے۔اس غلامی( نوکری پیشہ) کی توقیر اس معاشرے میں مزید بڑھ جاتی ا ورالٹا نوکری نہ کرنے والا(چھوٹا کاروباری یا آزاد پیشہ) بے توقیر ہوتاہے۔ بقول حاتم علی مہر
ساری عزت نوکری سے اس زمانے میں ہے مہرؔ
جب ہوئے بے کار بس توقیر آدھی
رہ گئی
اس نوکری کی بدترین غلامی ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نوکر
اسے غلامی ہی نہیں سمجھتا ۔ ایسا شخص آزاد ہونے کی کوشش کیسے کرے گا۔ میرے نزدیک نوکری ایک قیدی کی سی نفسیات پیدا کرتی ہے جس کے دو عوامل ہیں۔
(1)
لگی بندھی تنخواہ:
ملازمت پیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ نوکری مل جائے گی تو ایک لگی بندھی تنخواہ ملتی
رہے گی۔ یہ بھی اس کے لئے ایک جال کی
مانندہے ۔اس طرح وہ جیل میں قید ایک قیدی
کی زندگی گزارنے پر بخوشی راضی رہتا ہے جہاں اسے دو وقت کھانا بروقت ملتا رہے۔ نوکری
کے پیچھے بھاگنا بہت ہی حقیر چیز کے پیچھے بھاگناہے۔ اس طرح وہ اعلیٰ (آزادی) کے
عوض ادنیٰ (غلامی ) خرید لیتا ہے۔
(2) ملازمت سے ہٹ کر کچھ اور نہ کرنے کی ہمت:
ایسا انسان اپنی نوکری یا اس سے ملتی
جلتی ملازمت سے ہٹ کر کچھ کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کام سے
ہٹ کر کوئی نیا کام نہیں کرسکتا۔اگرچہ وہ صلاحیت رکھتا ہے لیکن وہ ایک خاص ماحول و
ذہنی کیفیت میں مسلسل رہ کر وہاں سے ہٹ کر اسے کچھ نظر نہیں آتا۔بعض اوقات وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اسے اپنی ملازمت چھوڑنے
کی ضرورت ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ یہ سب
کیسے کرے؟انسان جب پہلی دفعہ کسی نوکری کی تلاش میں جارہا ہوتا ہے تو اس کے پاس ذرائع کھلے
ہوتے ہیں وہ کسی بھی جانب نکل سکتاہے لیکن جب وہ کچھ عرصہ نوکری اختیار کرلیتاہے تواس
کے پاؤں میں بیڑیاں پڑجاتی ہیں۔ اب اس کی زندگی کے تمام اختیارات اس کے ہاتھوں سے نکل
کر اس کارپوریٹ کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی زندگی کی دیگر مصروفیات
بھی اس نوکری کی موافقت میں طے پاتی ہیں۔ نوکری سے ہٹ کر وہ ایک لحظہ بھی نہیں سوچ
سکتا:
ہمارے پیروں میں بیڑیاں ہیں ملازمت کی
ہمارے وعدے ہماری چھٹی
سے منسلک ہیں
اس موضوع پرمزید کچھ تحریر کرنے سے قبل یہاں ایک کہانی پیش کروں گا جو میرے مدعا کی وضاحت کردے گی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک درخت کے نیچے بل میں آزاد منش چوہا رہتا تھا۔ وہ دن بھر ادھر ادھر گھوم
پھر کر اپنی شکم پروری کرلیتا۔ سارا دن آزادی سے
گھومتا پھرتا رہتا۔ رات کو اپنے مسکن یعنی بل میں آکر سوجاتا۔ کئی دفعہ اسے
روکھے سوکھے پربھی گزارا کرنا پڑتا۔ ایک دفعہ اس کی ملاقات وہیں قریب ہی کسی گھر میں رہنے والے ایک دوسرا چوہے سے ہوئی جو اس
گھر میں نوکری کرتاتھا۔جسے مدد کے لئے ایک
ساتھی کی ضرورت تھی۔ یہاں آسانی کے لئے ہم آزاد چوہے کو ایف اور ملازم چوہے کو ایس
کے نام سے موسوم کرلیتے ہیں۔
جب ان دونوں کی ملاقات ہوئی تو ایس نے ایف سے کہا تمہاری گزر بسر کیسی ہورہی ہے۔ ایف نے کہا بڑی
مشکل اورتنگدستی سے ۔ ایس نے کہا کہ میرے پاس
ایک حل ہے جس سے تمہارے دن پھر جائیں گے۔ تمہیں
اطمینان سےتین وقت اچھا کھانا ملے گا۔تم
فارغ البال بلکہ خوشحال ہوجاؤ گے۔تمہیں چوری
چھپے ذلت سے کھانے یا اس کے لے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ لیکن اس کے لئے تمہیں میری مالکن کے پاس نوکری کرنا
پڑے گی۔ ایف نے کہا نوکری یا غلامی میں نہیں کرسکتا اور یہ کہہ کر انکار کردیا۔
اب ایس نے ایک دوسری چال چلی ۔ اس نے ایف کو اپنے گھر دعوت پر
بلایا۔ اسے دانے سے بھرا ہوا ایک جار دیا۔ اسے کہا یہ تمام کا تمام اناج تمہارا ہے۔
تم اس پر چڑھ کر اسے کھالیاکرو۔ اپنے سامنے اتنا بہترین ،اچھا ،تازہ اور خوشبوداراناج پاکراسے
بہت خوشی ہوئی۔ اس نے سوچا اب کئی دن تک وہ خوشی خوشی رہ سکتا ہے۔اب اسے کھانے کی تلاش میں
ادھر بھاگ دوڑ کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ روز آتا اور اس جار پر بیٹھ کراناج کھانے لگتا۔ چوتھے روز اس نے شاید کچھ زیادہ ہی
کھالیا۔جب اس نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اس نے محسوس کیا کہ وہ کافی گہرائی میں جاچکا
ہے اوروہ اچھل کرباہر نہیں نکل سکتا ۔یعنی
اب وہ پھنس چکا ہے اور وہ اس سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اسے زندہ رہنے کے لئے اب دوسروں
پر انحصار کرنا تھا۔ اب نہ وہ گھوم
پھر سکتاہے نہ وہ اپنی پسند کا اناج حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے پاس انتخاب کا بھی حق نہیں ۔ اگر اسے زندہ رہنا ہے تو
اسے جو کچھ بھی برتن میں ڈالا ہوا ملے گا اسے وہی کھانا ہے۔اب وہ محتاج ہے کہ کوئی
اس جار میں دانے ڈالے ۔اب جو جار میں دانا ڈالے گا اس شخص پر وہ انحصار کرے گا اس کی
ہر بات اسے ماننا پڑے گی۔ اب وہ ان کی غلط اور صحیح بات میں امتیاز بھی نہیں کرسکتا۔بلکہ
اسے ایک خوشامدی اور مالک کی ہاں میں ہاں ملانے والا بننا پڑے گا۔
اس طرح ایف ٹریپ ہوکر نوکری کرنے پر مجبور ہوگیا ۔ حالانکہ کچھ
دن پہلے جو اس نے نوکری سے انکار کیا تھا آج
اسےغلامی اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس کہانی کا ڈراپ سین یہ تھا کہ
ایک سال بعد ذرا سی غلطی پر اس چوہے کو
نوکری سے نکال دیا گیا ۔ اب وہ آزاد منش تو نہ تھا جو بھاگنے دوڑنے کی مشقت برداشت
کرسکے۔نوکری سے برخواست کئے جانے کا پروانہ لیتے ہی اس کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا تھا۔اور وہ
غش کھا کر گرپڑا ۔ کہانی یہاں ختم ہوئی۔
آج کی یہ ملازمت پیشہ دنیا اس کہانی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ملازم کے پاس اس
کے سوا کوئی اختیار نہیں کہ وہ ایک چھوٹی فرم (پنجرے) کے بجائے بڑی فرم(پنجرہ) کو اختیار
کرلے۔اپنی قیمت تھوڑی زیادہ وصول کرلے۔ ایک بار جب انسان کسی بھاری تنخواہ کے ساتھ
کسی نوکری میں شامل ہوجائے ہیں تو وہ یہ بھول
جائے کہ وہ اس سے نکل سکتاہے۔ اب وہ اس چوہے کی طرح جار میں پھنس چکاہے ۔ اب اگر وہ
باہر نکلنا چاہے گا تو اس کے یہ بہت مشکل ہوگا الا یہ کہ حادثاتی طورپر وہ جار ٹوٹ
جائے۔
اور اب اس کارپوریٹ میں میں ترقی کا انحصار انسان کی مہارت پر نہیں بلکہ دوسروں کو انتظامی معاملات میں جکڑکراس غلامانہ نظام کو فروغ دینے پر ہے ۔ لیکن یہ ذہن
میں رہے انسان اس دنیا میں کتنی ہی ترقی کرلے
لیکن ہے وہ ملازم اور دوران ملازمت کارپوریٹ کو کسی کی خوشی ، غمی سے کوئی
سروکار نہیں۔کوئی مررہا ہو یا جی رہا ہو
وہاں سے چھٹی نہیں ملے گی۔ کوئی مربھی رہا
ہے تو وہ کارپوریٹ میں آکر مرے اگرملازمت جاری رکھنی ہے اوراسے
اس دن کی تنخواہ چاہئے ۔نیزجب تک کوئی اس کارپوریٹ کے کام کا ہے وہ ملازمت
پر رہے گا جوں ہی اس کی افادیت کم ہوئی تو مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جائے گا۔
مشورہ:اگر کوئی انسان اپنی بھلائی
چاہتا ہے تو وہ کبھی کسی ایک ذریعہ پر انحصار
نہ کرے۔ اول تواپنے ذاتی کاروبار کی کوشش کی جائے بالفاظ دیگر نوکر بننے کے بجائے مالک بننے پر
توجہ کی جائے ۔لیکن بالفرض اگر کوئی ملازمت
پیشہ ہے بھی تواسے چاہئے کہ وہ اپنی ملازمت کے علاوہ بھی اپنی صلاحیتوں کونکھارے ۔اول
تو کسی تجارت سے وابستہ ہوجائے یا پھر کم از
کم ایسا ہنرضرور سیکھ لے جہاں اس کے لئے راہیں آزادانہ طور پر کھلی ہوں۔ یوں نوکری
کے لئے مارے مارے پھرنا ،در در کی ٹھوکریں کھانا ، ذلت اٹھانے سے وہ محفوظ رہے گا۔بقول
شائستہ مہہ جبیں
نوکری کے لئے پھرتے ہیں ہزاروں در در
ہاتھ میں کوئی ہنر
ہو تو مزہ آ جائے
اور پھر کسی بھی اونچ نیچ میں آپ اپنے آجر کو یہ کہہ سکیں گے۔
نوکری چھوڑ کے باصرؔ
اپنا
کام کریں گے
آخرمیں سید قطب شہید رحمہ اللہ کی ایک لازوال تحریر
’’غلام‘‘ سے ماخوذ ایک تحریر یہاں پیش خدمت ہے۔
''غلام''
وہ نہیں، جن کو حالات کے جبر نے غلامی کی بیڑیوں میں جکڑ لیا ہو۔
''غلام''
تو وہ ہیں، جن پر سماج کا کوئی جبر ہے، نہ معاش کی سختی۔ کھاتے پیتے اور آسودہ حال
ہوتے ہوئے خود کو سجا سنوار کر غلاموں کی منڈی میں رضاکارانہ پیش ہوتے ہیں۔
''غلام''
تو وہ ہیں جن کے مسکن حویلیاں اور محلات ہیں۔ مربعوں اور جاگیروں کے مالک ہیں۔ جن کے
لئے روزگار کی کمی ہے نہ حلال کمانے اور کھانے میں کوئی رکاوٹ۔ نہ تو ان کے مال و دولت
پہ کسی کا زور آور کا زور چلتا ہے ، نہ ان ہی کی انکی زندگی کسی کے رحم کرم کی محتاج
ہے۔
مگر اس سب کے باوجود یہ پورے اخلاص کے ساتھ
''آقاؤں'' کے در پر بھیڑ کئے رہتے ہیں۔ ''غلامی'' کے حصول اور آقاؤں کی خدمت کا موقع
پانے کے لیے مسلسل دھکم پیل کرتے ہیں۔ ان کے نصیب جاگ اٹھتے ہیں اگر ذلت کا طوق گلے
میں پہننے یا پیروں میں ڈالنے کو بیڑیاں کبھی مل جائیں! غلامی کے یہ تمغے پا کر جھوم
جھوم جاتے ہیں!
اگر کبھی
ایک آقا ان کو دھتکار دے، تو یہ ماہیِ بے آب کسی دوسرے آقا کی غلامی میں جانے کے لئے
پھڑپھڑانے لگتے ہیں۔ کبھی ان میں سے کوئی ایک ذلیل کرکے غلامی سے نکالا جائے تو ہزاروں
کو اپنی قسمت کے جاگ اٹھنے کی آس لگ جاتی ہے۔
غالباً
ان کو ذلت کی ایک اضافی حس حاصل ہوتی ہے۔ اگر
ان پر کوئی ایسا وقت آ جائے جب انہیں کسی کی "غلامی کا اعزاز" حاصل نہ ہو،
تو ایسے میں انہیں اپنا آپ ادھورا لگنے لگتا ہے۔ غلامی کی ذلت کی طلب میں ان کا حال
بُرا ہو جاتا ہے۔ ”عزت و آبرو” سے رہنا ان کے لیے ایک بوجھ بن جاتا ہے جو ان کے کاندھے
دہرے کر دیتا ہے، انہیں اس بوجھ سے آزاد ہو کر ہی چین آتا ہے ۔
”غلام” وہ
نہیں ہیں جن کی پیٹھوں پر آزادی غصب کرنے والوں کے تازیانے برستے ہیں۔ غلام تو وہ ہیں
جن کی گردنیں بظاہر آزاد ہوتی ہیں لیکن جن کے دل غلام بنانے والوں کی عقیدت سے سرشار
ہوتے ہیں۔ غلامی جن کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔
غلام وہ
ہیں جن کی آنکھیں آزادی کی روشنی سے چندھیانے لگتی ہیں اور وہ اس آزادی سے بھاگ کر
غلاموں کے باڑے کو ہی جائےعافیت جانتے ہیں!
”آزادی”
لینے کی خوائش اور عمل کو یہ غلام طبعیت لوگ ”بغاوت” جانتے ہیں۔ ”خودداری” ان کی نظر
میں ایک انحراف ہے اور ”عزت نفس” باقاعدہ ایک جرم! بشکریہ ایقاظ (Eeqaz)
Post a Comment