شیخ الحدیث علامہ سید محمد ہاشم فاضل شمسی قدس سرہٗ
مرتبہ: سید محمد سلمان چشتی، خانقاہ چشتیہ شیخپورہ نوادہ بہار(بشکریہ سید تاج شمسی صاحب)
ولادت
9 رمضان المبارک
1332 ھ بروز یکشنبہ دس بجے دن مطابق 2 اگست 1914ء بمقام محلہ چاندپورہ،موضع کا ندھا ( صوبہ بہار ، بھارت )،آستانہ
عالیہ حضرت مخدوم فرید الدین طویلہ بخش ؒ جو اجد اد مادری میں ہیں۔حضرت
نور قطب عالم پنڈوا کے خلیفہ اوربرادر نسبتی (بہنوئی) ہیں۔ مخدوم جہاں
حضرت مخدوم شرف الدین احمد منیری ؒ کے اواخر ایام میں ان کی طلب پر حضرت طویلہ بخش
بہار میں طریقہ چشتیہ کو رواج دینے کے لئے تشریف لائے۔مخدوم فریدالدین ابن سید
ابراہیم بن سید جمال الدین جمال الاولیاء بن سید محمد بدایونی حضرت محبوب الٰہی
نظام الدین اولیاء کے عم بزرگوار ہیں۔ جب آئینہ ہند حضرت سراج الدین عثمان المعروف
اخی سراج سلطان جی محبوب الٰہی کی خدمت میں رہ کر شریعت وطریقت کی تعلیم وتربیت کے
بعد بحکم شیخ پنڈوہ (بنگال) روانہ ہونے لگے تو باجازت شیخ حضرت سید محمد بدایونی
کو ساتھ لے گئے تاکہ شیخ کی ایک ظاہری نشانی اورشیخ سے دوری میں تسکین قلب کا باعث
رہیں۔
شجرہ
نسب:
آپ کا سلسلہ نسب حضرت سید نا قطب الدین مودو د چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے سیدنا امام علی نقی تک پہنچتا ہے۔حضرت مولانا سید محمد
ہاشم فاضل شمسی بن سید محمد قاسم مودودی بن سید واجد حسین بن سید انور علی بن سید
فتح علی شیخپوروی(بہوڑی شاہ) بن سید غلام عبد اللہ بن خواجہ سید فصیح اللہ چشتی بن
خواجہ سید عنایت اللہ چشتی بن خواجہ سید تاج محمود حقانی چشتی بن خواجہ سید قطب
الدین ثانی چشتی بن خواجہ سید عبداللہ چشتی بھکری ثم شیخپوروی(بانی خانقاہ چشتیہ
شیخ پورہ نوادہ) بن خواجہ سید اسد اللہ چشتی بھکری بن خواجہ سید برہان الدین چشتی
بن خواجہ سید عبد الرحمن چشتی بن خواجہ سید محمد جان چشتی بن خواجہ سید سمعان ثانی
چشتی بن خواجہ سید محمد منصور چشتی بن خواجہ سید قطب الدین مودود چشتی قدست
اسرارہم۔
خاندانی حالات: فاضل شمسی کا آبائی سلسلہ نسب بواسطہ سیدنا مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ سیدنا امام علی نقی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ان کے مورث اعلیٰ چشت بہشت سے انتقالِ مکانی کر کے سندھ میں بمقامِ بھکر آباد ہوئے۔دسویں صدی ہجری کے اختتامی برسوں میں اکبرِ اعظم کے سپہ سالار نے بھکر کا قلع فتح کیا اور بھکر میں آباد مختلف خانوادہ سادات کو حکم دیاکہ وہ اس جگہ سے منتقل ہو جائیں کیونکہ اس قلعہ اور قرب و جوار کے خطے میں وہ فوجی چھاؤنی بنانا چاہتے ہیں۔سادات کے خاندان وہاں سے منتشر ہو کر مختلف آبادیوں میں منتقل ہو گئے۔کوئی پرانا سکھر کوئی روہڑی کوئی دوسرے علاقوں میں جا بسے۔فاضل شمسی کے جدّ اعلیٰ خواجہ سید اسد اللہ شاہ کنج نشین بھکری نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ٹھٹھہ کو اپنی رہائش کے لئے پسند فرمایا۔اور یہاں آباد ہو گئے۔
ابھی حضرت کا عنفوانِ شباب تھا لیکن علم و عمل اور زہد و تقویٰ کی شہرت اور کرامت و ولایت کے آثار نے ان کو مرجع خلائق بنا دیا تھا۔مغل شہنشاہ شاہجہان رحمۃ اللہ علیہ ملکہ نور جہاں کے خوف سے مرکز سلطنت سے دور ٹھٹھہ میں خائف و ترساں شاہزادگی کے دن گزار رہے تھے۔شاہجہانی مسجد،شربتِ گلاب،عرقِ گلاب اور عطرِ گلاب آج بھی اس عظیم شہنشاہ کی یادگار موجود ہیں۔
شاہجہاں کو حضرت خواجہ سیداسد اللہ شاہ کنج نشین بھکری سے عقیدت ہو گئی۔اور اپنی خوف و پریشانی ان سے بیان کی حضرت نے دلاسا اور تسلّی دی اور ساتھ ہی یہ بشارت بھی دی کہ تمہارے قتل پر کوئی قابو نہیں پائے گا اور ان شاء اللہ تم ہندوستان کے بادشاہ بنو گے اور مُسلم حکمرانوں میں طعیل العھد اور یادگار حکمران رہو گے۔
جب یہ بشارت پوری ہوئی اور شاہجہاں تخت نشین ہوئے تو انہوں نے سندھ کے گورنر کےنام فرمان جاری کیا کہ خواجہ سید اسد اللہ شاہ کو مع اہل و عیالاور متعلقین بہ اعزاز و اکرام دھلی روانہ کر دیں۔چنانچہ یہ خاندان ٹھٹھہ سے دہلی منتقل ہو گیا۔اور شریعت و طریقت کی تعلیم میں مشغول ہو گیا۔خواجہ سید اسد اللہ شاہ کنج نشین بھکری کے دو بیٹے تھے بڑے عبداللہ جو عبدل اسد اللہ کہلائے اور چھوٹے احمد اللہ جو احمد اسد اللہ کے نام سے پکارے جاتے ۔خواجہ سید عبداللہ اپنے والد ماجد سے شریعت و طریقت کی تعلیم کے بعد حسبِ ارشاد باطنی سیاحت عالم کے لئے روانہ ہوئے۔صوبہ بہار کے ایک غیر آباد دشت میں جہاں آج ان کا مزار مبارک اور تقریباً ایک ہزا ر مکانات پر مشتمل شیخ پورہ نامی بستی آباد ہے۔نماز و وضو کے ارادے سے رکے ۔پانی میسر نہ تھا تیمم کا ارادہ کیا اور عصائے مبارک کو زمین میں گاڑا۔زمین سے پانی ابلنے لگا اور عصائے مبارک کے سرے پر کونپلیں نمودار ہو گئیں۔سرکارِ عالمﷺ کی طرف رجوع کیا اسی جگہ اقامت گزیں ہونے کا فرمان صادر ہوا۔تعمیلِ حکم میں آپ مقیم ہو گئے۔اطراف و جوار کے ہندو بڑی تعداد میں آنے اور مشرف بہ اسلام ہونے لگے۔دور دراز سے مسلمان بھی آ کر حلقہ ارادت میں داخل ہو کر وہیں آباد ہونے لگے۔
چند برسوں کے بعد بہاریوں کا ایک قافلہ دارالخلافہ دہلی گیااور خواجہ سید اسد اللہ شاہ کنج نشین بھکری کو خواجہ عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کے حالات سے مطلع کیا۔سید اسد اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ سلطان معظم شاہ جہاں کے یہاں تشریف لے گئے۔خواجہ عبداللہ کے حالات سے آگاہ کیا۔شاہجہان نے بہار کے گورنر کے نام دو فرامین جاری کئے ایک فرمان میں خانقاہ کے اخراجات و مصارف یعنی لنگر و عرس کے لئے جاگیر اور دوسرے فرمان میں خواجہ عبداللہ کی اولاد نسل کی مدد معاش کےلئے جاگیر کے احکام تھے۔
۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد حکومت انگلشیہ نے خانقاہ کے متعلق جاگیریں ضبط کر لیں اور جو جائیداد خواجہ عبداللہ کی اولاد کی مدد معاش کے لئے تھی اس لئے ضبط نہیں کیا کہ ورثاء میں تقسیم ہوتی ہوئی کوئی بڑی جائیداد نہیں رہی تھی۔بہرحال یہ شاہجہانی عطیہ تقسیم ہوتا ہواوالدِ بزرگوار سید محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ متوفی کراچی ۱۹۷۵ء تک پہنچا اور اس کے عوض ضلع لاڑکانہ میں کلیم کی زمین ملی۔
۱۹۵۷ء میں خانقاہ سے متعلق جاگیر کی ضبطی کے بعد جدِ بزرگوار سید واجد حسین رحمۃ اللہ علیہ بھائیوں اور بہنوں کو لے کر شیخ پورہ سے تقریباًبارہ کوس کے فاصلے پر اپنی پرنا نیہال موضع کاندہا منتقل ہو گئے جہاں اپنہ نانہالی میراث کے علاوہ ان کی ایک لاولد خالہ نے اپنی جائیداد بہنوں کی اولاد میں تقسیم کردی۔
موضع کاندہا میں امیر کبیر سید علی بن شہاب ہمدانی کی اولاد کی ایک شاخ کشمیر سے منتقل ہو کر عہد اورنگ زیب میں آباد ہوگئی تھی۔سلطان عالمگیر نے ان کو عطایا اور جاگیر سے نوازا تھا۔یہ لوگ معاش سے مستغنی ہو کر دین کی خدمت و اشاعت میں مشغول تھے۔یہی موضع کاندہا مولیٰنا شمسی صاحب کا وہ وطن تھا جہاں سے ۱۹۴۵ء میں ہجرت کے کر سندھ میں بحیثیتِ مہاجر داخل ہوئے۔دوسرے لفظوں میں جہاں سے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے تقریباً چار سو سال بعد وہیں لوٹ آئے۔
تعلیم و تربیت:
تعلیم کا آغاز اپنے گھر
سے کیا پھر مدرسہ سلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ ( بھارت ) میں داخل ہوئے، جہاں آپ کے چچا
مولانا سید معین الدین زیر تعلیم تھے اور نصاب کے آخری مرحلہ میں تھے۔ آپ مدرسہ
میں ممتاز طلباء میں شمار کئے جاتے تھے۔ مدرسہ شمس الہدیٰ کا نصاب تعلیم پندرہ سال
پر محیط تھا، جسے فاضل شمسی نے گیارہ سال میں مکمل کر لیا۔ پھر پٹہ یونیورسٹی سے
بی اے کیا۔ مادر علمی کی نسبت سے ’’فاضل شمسی ‘‘ کہلائے ۔ آپ نے تحصیل علم کے لئے
جن علماء کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا وہ سب علم دین کے بحر بیکراں تھے مثلا
مولانا سید عبید اللہ قادری ، مولانا محمد سہول بھاگلپوری ۔ مولانا نادیانت حسین ۔
ملک العلماء علامہ ظفر الدین محدث بہاری ( صاحب صحیح البھاری ) وغیرہ ( انوار حدیث
، المرکز الاسلامی کراچی(
سند
حدیث:
۱۹۴۸ء
میں کلکتہ سے پاکستان تشریف لے کر آئے اور حیدر آباد سندھ میں پراونشنل لائبریری
اور میوزیم کی بنیاد رکھی اور ۱۹۶۹ء تک اس سے وابستہ رہے۔ اسی عرصہ میں حکومت
پاکستان کی طرف سے جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں ’’شیخ التصوف ‘‘ کی حیثیت سے مقرر
کئے گئے ، ابھی چھ ماہ ہی گذرے تھے کہ حکومت سندھ نے آجپ کو واپس لائبریری میں
بلوالیا کیوں کہ لائبریری کے انتظامی معاملات بہت دگر گوں ہو رہے تھے۔ دسمبر ۱۹۶۹ء کو آپ نے لائبریری سے
ریٹائر منٹ لے لی۔
۱۹۵۹ء
میں آپ ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے وابستہ ہوئے جہاں آپ نے محفل ’’درس قرآن ‘‘ کا
سلسلہ شروع کیا اور پانچ پاروں کی تفسیر پیش ی۔ لائبریری سے سبکدوش ہونے کے بعد ۱۹۷۰ء کو مولانا مفتی محمد
خلیل خان برکاتی آپ کو اپنے مدرسہ درالعلوم احسن البرکات حیدرآباد میں بحیثیت
’’شیخ الحدیث ‘‘ لے گئے، جہاں آپ نے چار سال تک درس حدیث دیا ۔ بعد ازاں ۱۹۷۴ء کو علیمیہ انسی یوں
آف اسلامک اسڈیز ( المعروف جامعہ علیمیہ المرکز الاسلامی ) شمالی ناظم آباد کراچی
تشریف لے گئے اور لیگل ایڈوائزر کی حیثیت سے تاحیات وابستہ رہے۔ یہیں سے جاری ہونے
والے انگریزی ماہنامہ ’’دی منارٹ ‘‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ سے بھی منسلک رہے۔
تحصیلِ علم سے فارغ ہو کر مدرسہ اسلامیہ اورنگ آباد ضلع گیابہار میں عربی ادب اور حدیث کے مدرس ہوئے۔۱۹۳۶ء میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں تفسیر و حدیث کی مدرسی پر فائز ہوئے۔۱۹۴۰ء یہاں سے مشہور عالم خدا بخش اورنٹیل لائبریری میں ماہرِ مخطوطات اور ریسرچ کیٹلاگر کے علمی عہدہ پر متعین ہوئے۔۱۹۴۴ء اوائل ۴۷ء میں وہاں سے رائل ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ میں ماہرِ مخطوطات اور اسکالر کیٹلاگر کی خدمت پر مامور ہوئے۔وہاں سے پاکستان آگئے(۱۹۴۸ء) یہاں سندھ پراونشل لائبریری اینڈ میوزیم کی اسکیم حکومت سندھ کے سامنے رکھی اور بالآخر بانی لائبریرین و میوزیم کے عہدہ پر نامزد ہوئے۔(۱۹۵۲ء) اس کے علاوہ دارالعلوم برکاتی میں سالہا سال شیخ الحدیث اور مفسر ِقرآن بھی رہے۔
۱۹۶۵ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں شعبہ تصوف کے صدر کی حیثیت سے شیخ التصوف کے عہدہ پر بلالئے گئے۔وہاں قیام کے زمانے میں سندھ پراونشل لائبریری کے انتظامات غیر تسلی بخش ہونے لگے لہٰذا جلد ہی سندھ گورنمنٹ نے مولیٰنا کو واپس لائبریری میں بلا لیا۔جہاں سے مولانا نے دسمبر ۱۹۶۹ءمیں اپنی درخواست پرریٹائرمنٹ لے لیا۔۱۹۸۱ء سے گورنر سندھ نے آپ کو سندھ یونیورسٹی کا ممبر اور ممبر سنڈیکیٹ نامزد کیا ہےاور اب تک یہ ذمہ داریاں آپ انجام دے رہے ہیں۔حیدرآباد میں مولانا بیس سال سے زائد عرصہ سے قاضی شہر ہیں اور عیدین کی نماز یہی پڑھاتے ہیں۔
دسمبر ۱۹۸۱ء تک مولانا حیدرآباد ہی میں مقیم رہے۔البتہ وسط جنوری ۱۹۸۲ء سے آپ نے ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز (المرکز الاسلامی) کراچی میں ایڈوائزر کی حیثیت سے خدمت ملت قبول کر لی ہے۔
تصنیف
و تالیف :
فاضل شمسی تحریر و
تقریر دونوں میں صاحب کمال تھے ۔ درج ذیل کتب ورسائل آپ کے یاد گار اور صدقہ جاریہ
ہیں اور بعض رسائل کئی بار چھپ کر عام ہوئے ہیں ۔
٭
قرآن اور الہامی فیصلے
٭
توحید یا نشلیث(عیسائیوں کے نظر یہ تین خدا کارد ) مطبوعہ جمعیت قادریہ سکھر طبع
ثانی ۱۳۸۷ھ؍ ۱۹۶۷ء
٭
اسلام کا آخری اور ابدی پیغام ہدایت
٭
اسلام میں نظام اطاعت
٭
اسلام ایک عملی مذہب ہے
٭
عالمگیر نبوت ( حضور سب کے نبی ہیں (
٭
صلوۃ و سلام مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور
٭
انوار حدیث مطبوعہ المرکز الاسلامی ، کراچی
٭
اسلام میں دستور کی تلاش
٭
وثیقہ خلافت
٭
جہاد و قتال
٭
ایصال ثواب
٭
بیمار قوم اور اس کاعلاج
٭
سکون کا راستہ
٭
اقلیت و اکثر یت
٭
فلسفہ نماز
٭
شیطان کے فریب
٭
تلاش حق
٭
گناہ و تقدیر
٭
روسی راکٹ قرآن کی نظر میں
٭
عید قربان اور مسلمان
٭
تنشیط الاذھان یعنی تنقید حفظ الایمان (مولوی اشرف تھانوی کے کتابچہ کا رد شدید(
٭ ا
س کے علاوہ جدید انداز میں قرآ ن پاک کی تفسیر بھی لکھی جس میں عقلی دلائل سے بحث
کی گئی۔
ابتدائی پانچ پاروں کی تفسیر آپ کی زندگی میں زیر طبع تھی۔ ( ماخوذ عظمتوں کے پاسبان ص ۲۸۸
Post a Comment