کلمہ الفلاح
کی فصاحت و بلاغت اور جامعیت
محمد شاہد
خان (جامعہ علیمیہ اسلامیہ)
اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اس کی دل آویز
تعلیمات و ہدایات دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کی ضامن ہیں۔ اس پسندیدہ ترین
دین پر عمل پیرا ہوکر دونوں جہاں کی خوشیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ اسلام کی تعلیمات و ہدایات
رب نے جس زبان کے ذریعے عطا فرمائی وہ عربی زبان ہے۔ اور جس زبان کو اللہ تعالیٰ نے''عربی
مبین'' کی صفت سے متصف فرماکر دنیاکی تمام تر زبانوں پر فوقیت وبالا دستی کے تاج سے
سرفراز فرمایا ہے۔ اپنا آخری کلام عربی زبان میں نازل فرماکر قیامت تک آنے والوں کے
لئے رشد و ہدایت کا سرچشمہ جاری فرمادیا ہے۔ قرآن پاک میں جو بھی کلمہ آیاہے وہ تمام
کے تمام فصاحت و بلاغت کے خوبصورت اور حسین و جمیل زیور سے آراستہ و پیراستہ ہےں۔ اس
کی دلربائی اور رعنائی انسانی قلوب و اذہان کو حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن
کردیتی ہے۔ قرآن پاک میں ایجاز واعجاز کے جاذب نظر اور خوشبو دار پھول بھی جابجا مسکراتے
ہوئے نظر آتے ہیں۔اس گلشن میں مختلف انواع و اقسام کے رنگارنگ پھول اپنی خوشبو سے فضا
کو معطر کررہے ہیں۔ جنہوں نے اس کے لافانی حسن و جمال کوبنظر غائر دیکھا ہے وہ نفوس
قدسیہ اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔الغرض قرآن پاک کلام معجز و مؤجز
ہے۔ اس میں فصاحت وبلاغت زبان وبیان کے ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر ہیں۔ قرآن پاک میں
جو بھی لفظ اورکلمہ استعمال کیا گیا ہے ۔وہ حکمت سے خالی نہیں ہے۔ بلکہ ایک ایک کلمہ
کے حسنِ انتخاب پر داد و تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔
عربی زبان
میں کامیابی وکامرانی کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ۔ مثلاً الظفر، الفوز،
النجاۃ اور الفلاح وغیرہ۔ جو کامیابی و کامرانی پر دلالت کرتے ہیں۔ ہم ہر لفظ کا معنی
و مطلب بیان کریں گے پھر ہم دیکھیں گے کہ سب سے جامع و مانع ترین لفظ کون سا ہے۔؟؟؟
امام احمد
بن فارس رازی علیہ الرحمہ لفظ ظفر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
یدل
احدہما علی القہر والفوز والغلبۃ والاخر علی قوۃ فی الشیئ فالأول ھو الفلج والفوز بالشی۔(مقاییس
اللغۃ احمد بن فارس رازی، ج2، ص 333-334، ناشر)
ترجمہ:لفظ ظفر،
قہر، فوز اور غلبہ پر دلالت کرتاہے۔ اور دوسرا کسی چیز میں طاقت و قوت کے ہونے پر بھی
دلالت کرتاہے۔ اولاً اس سے مراد کامیابی و کامرانی اور غلبہ کا کسی چیز کے ذریعے سے
ملنے کے ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ :
مِن
بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَکُمْ عَلَیْْہِمْ (سورۃ الفتح : 9)
دوسرا یہ
ہے کہ کسی چیز میں طاقت و قوت کے ہونے پر بھی دلالت کرتا ہے ۔ ناخنوں کو عربی زبان
میں الظُّفُر کہتے ہیں۔ جب کسی کے ناخن نکلتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ظفَّر فی الشی۔ اس
چیز میں قوت و طاقت پیدا ہوگئی ہے۔ جس شخص کے ناخن بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اس شخص کو کہا
جاتاہے کہ رجل أَظفر۔ یعنی اس شخص کے ناخن بڑھے ہوئے ہیں۔ جب سبزہ بھرپور قوت و طاقت
سے نکلتاہے تو اس موقع پر اہلِ عرب کہتے ہیں کہ
ظفّر النبتُ
تظفیراً۔
یعنی سبزہ
بھرپور قوت سے نکلا ہے۔
امام راغب
اصفہانی علیہ الرحمہ لفظِ ظفر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
الظُّفُر
یقال فی الانسان وفی غیرہ۔ قال اللہ تعالیٰ (کل ذی ظُفُرٍ) ای ذی مخالب ویعبر عن السلاح
بہ تشبیہاً بظفر الطائر إذ ہو لہ بمنزلۃ السلاح۔(مفردات، فی غریب القرآن، امام راغب
اصفہانی، ص 314، ناشر ،نورمحمد کتب خانہ کراچی)
الظُفُر
انسان اور دیگر حیوانوں کے ناخنوں کو کہتے ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
(کل ذی ظُفُرٍ)
ترجمہ:
یعنی ناخنوں
سے زخمی کرنے والے کو کہا جاتاہے۔ اور پرندے کے ناخن کو ہتھیار سے تشبیہ دی گئی ہے
کہ اس کی حیثیت ہتھیار کی طرح ہے کہ جس کے ذریعے سے دشمن پر حملہ کرکے جان بچائی جاتی
ہے۔ اور اپنا بھرپور طریقے سے دفاع کیا جاتاہے۔ اس کا شکار کیا جاتاہے۔ جس پرندے کے
ناخن ہوتے ہیں ان ناخنوں کے ذریعے سے وہ اپنے شکاری کا شکار کرتاہے۔ اس کو چیر پھاڑ
کر رکھ دیتاہے۔
اگر شیر
کے ناخن کاٹ دیئے جائیں تو شیر کی طاقت و قوت ختم ہوجائے گی وہ اپنے شکاری کا شکار
کرنے سے عاجز ہوجائے گا۔ اس کو چیر پھاڑ نہیں کرسکے گا۔ ناخنوں میں قوت و طاقت ہوتی
ہے ۔ اس قوت کے ذریعے سے شکار میں آسانی ہوجاتی ہے۔ برسبیل تذکرہ بیان کیا جارہاہے
کہ قربانی کے ایام میں قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ ناخن نہ ترشوائے۔ کیونکہ
اگر ناخن کٹے ہوئے ہونگے تو وہ جانور کی کھال اتارنے میں دقت محسو س کرے گا۔ اور جملہ
ضروریات کو ادا کرنے سے بھی قاصر ہوگا۔ اسی لیے مستحب ہوتا ہے کہ و ہ قربانی کے ایام
میں ناخن نہ کاٹے۔ الغرض لفظِ ظفرکا مطلب کامیابی و کامرانی اور غلبہ حاصل کرنے کے
ہیں۔
اس کا دوسرا
مطلب کسی شے میں طاقت و قوت کے ہونے میں بھی ہے۔ عربی زبان میں انسانی اور حیوانی ناخن
کو بھی ظُفر کہاجاتاہے۔
اب ہم دیکھتے
ہیں کہ لفظِ نجات کا کیا مطلب ہے۔
امام احمد
بن فارس رازی علیہ الرحمہ لفظِ نجات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
یدل
احدہما علی کشط و کشف والآخر علی ستر وإخفائ۔(مقاییس اللغۃ احمد
بن فارس رازی، ج2، ص 542، ناشر)
ترجمہ:
نجات کسی چیز کے ڈھکن کو اٹھانے اور ظاہر کرنے پر دلالت کرتاہے۔ اور دوسرا اس کا مطلب
جو کہ ستر پوشی اور کسی چیز کے چھپانے پر بھی دلالت کرتاہے۔
النجا ء
والنجاۃ والنجوۃ اس بلند زمین کے خطے کو کہتے ہیں کہ جہاں سیلاب کا پانی نہ پہنچ سکے۔
تو اس وقت اہلِ عرب کہتے ہیں کہ نجا من السیل۔ یعنی وہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ
گیا ہے گویا کہ لفظ نجات اس شے کے لیے استعمال ہوتاہے کہ جس کے چلے جانے سے نجات مل
گئی ہو۔ اس سے محفوظ و مامون ہوجانے کے لیے لفظِ نجات استعمال کرتے ہیں۔
لفظِ نجات
کا استعمال کسی چیز کو چھپانے کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔ تاکہ اس کو نقصان نہ پہنچ
جائے۔ اس کے علاوہ جو زمین سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ جائے اس کے لیے بھی نجات کا
لفظ استعمال ہوتاہے۔ نجات کا بنیادی مطلب بچانے کے ہیں۔
اب ہم دیکھتے
ہیں کہ لفظ فوز کا مطلب کیا ہے۔
لفظ فوز
کے بارے میں امام احمد بن فارس رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
کلمتان
متضادتان فالأولی النجاۃ والأخری الھلکۃ۔(مقاییس اللغۃ احمد
بن فارس رازی، ج2، ص 333-334، ناشر)
ترجمہ:
لفظِ فوز کے دو متضاد مطلب ہیں۔ اس کا ایک مطلب نجات کے ہیں۔ دوسرا ہلاکت کے ہیں۔
امام راغب
اصفہانی علیہ الرحمہ لفظِ فوز کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ
فَوَّزَ
الرجل إذا ھلک ۔ لمن مات بأنہ نجا من حبالۃ الدنیا۔(مفردات، فی غریب القرآن،
امام راغب اصفہانی، ص 387، ناشر ،نورمحمد کتب خانہ کراچی)
ترجمہ:
جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کے لیے کہتے ہیں کہ فَوَّزَ الرجل۔ یعنی وہ شخص مرگیاہے۔
لفظِ فوز کا اس لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ جو مرگیا تو بلاشبہ وہ دنیا کے پھندے سے
آزاد ہوگیا ہے۔ وہ نجات پاگیا ہے۔
کہا جاتاہے
کہ کسی بھی شخص کے لیے موت سے بڑھ کر کوئی خیر نہیں ہے۔ یہ بات جب کہی جاتی ہے جب دنیا
کی حالت بیان کرنی ہو اور جب آخرت کی حالت بیان کرنا ہو کہ جس میں اس کو نعمتیں و برکتیں
نصیب ہونگی تو اس کے لیے الفوز الکبیر یعنی بڑی کامیابی حاصل ہوئیں۔ تو اس وقت لفظ
فوز بڑی کامیابی و کامرانی کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔
لفظِ فوز
کے حوالے سے امام خلیل بن احمد علیہ الرحمہ نے مختصر و جامع تعریف کی ہے کہ
الظفر
بالخیر و النجاۃ من الشر۔ یقال فاز بالجنۃ ونجا من النار۔(کتاب العین ، امام
خلیل بن احمد، ۔۔۔)
ترجمہ:
فوز: خیر کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کو کہتے ہیں اور نجات شر سے بچنے کو کہتے ہیں۔
اس لیے کہا جاتاہے کہ اس نے جنت حاصل کرلی ہے اور دوزخ سے نجات پالی ہے۔
اب ہم دیکھتے
ہیں کہ ظفر ، فوز اور نجات کے مابین بنیادی فرق کیا ہے۔
امام ابو
ہلال عسکری علیہ الرحمہ ان کلمات کے مابین بنیادی فرق کو بیان فرماتے ہیں:
إن
النجاۃ ھی الخلاص من المکروہ۔(الفروق اللغویۃ،امام ابو ہلال عسکری، ص237،
ناشر)
ترجمہ:
بے شک نجات مکروہ چیز سے خلاصی کو کہتے ہیں۔
یعنی وہ
چیز جس کو انسان ناپسند کرتا ہو ۔ اس سے پناہ مانگتا ہو۔ جس کسی پر بھی ظلم و زیادتی
کی جاتی ہے تو وہ اس ظلم و زیادتی کو ناپسند کرتا ہے ۔ اس سے نجات کے طریقے ڈھونڈتا
ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
وَاِذْ
نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْۤءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ
اَبْنَآئَکُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَ کُمْ ط وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآء
مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْم'' ( البقرۃ :٤٩)
ترجمہ:
اور یاد کرو جب نجات بخشی ہم نے تمہیں فرعون سے جو پہنچاتے تھے تمہیں سخت عذاب (یعنی)
ذبح کرتے تھے، تمہارے بیٹوں کو اور زندہ رہنے دیتے تھے تمہاری عورتوں کو اور اس میں
بڑی بھاری آزمائش تھی تمہارے رب کی طرف سے''۔
وَ
ٰیقَوْمِ مَالِیْۤ اَدْعُوْکُمْ اِلَی النَّجٰوۃِ وَتَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَی النَّار
(غافر:٤١)
ترجمہ:
''اور اے میری قوم!میرا بھی عجیب حال ہے کہ میں تو تمہیں دعوت دیتا ہوں نجات کی طرف
اور تم بلاتے ہو مجھے آگ کی طرف''۔
ٰۤیاَ
یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ
عَذَابٍ اَلِیْمٍ (صف:١٠)
''اے ایمان
والو! کیا میں تمہیں آگاہ کروں تمہیں ایسی تجارت پر جو بچالے تمہیں درد ناک عذاب سے''۔
قُلْ
مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہ، تَضَرُّعًا
وَّخُفْیَۃً ج لَئِنْ اَنْجٰئنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ قُلِ
اللّٰہُ یُنَجِّیْکُمْ مِّنْھَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ (الانعام:٦٤)
ترجمہ''آپ
فرمایئے کون نجات دیتا ہے تمہیں خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں جسے تم پکارتے ہو گڑگڑاتے
ہوئے اور آہستہ آہستہ (اور کہتے ہو) اگر نجادت دی اللہ نے ہمیں اس (مصیبت) سے تو ہم
ضرور ہوجائیں گے''۔
امام ابو
ہلال عسکری علیہ الرحمہ لفظِ فوز کا بنیادی فرق بیان فرماتے ہیں کہ
الفوز:
ھو الخلاص من المکروہ مع الوصول إلی المحبوب(الفروق اللغویۃ،امام
ابو ہلال عسکری، ص237، ناشر)
ترجمہ:
فوز اس مکروہ چیز سے خلاصی کو کہتے ہیں کہ جو مطلوبہ اور پسندیدہ چیز کے حصول کے ذریعے
سے حاصل ہو۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے فائزین کا لفظ استعمال فرمایا
ہے کہ انہوں نے دوزخ سے نجات پائی ہے اور جنت کو حاصل کرلیا ہے۔
آپ فرماتے
ہیں کہ
ولما
کان الفوز یقتضی نیل المحبوب ۔ قیل فاز بطلبتہ۔(الفروق اللغویۃ،امام
ابو ہلال عسکری، ص237، ناشر)
اور جب
کہ فوز محبوب ترین چیز کے حصول کا تقاضہ کرتی ہے کہا جاتا ہے کہ فاز بطلبتہ ۔ یعنی
اس نے اپنی مطلوبہ چیز کو حاصل کرلیا ہے۔
اللہ تعالیٰ
نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے کہ
لَایَسْتَوِیْ
ۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ط اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ
(الحشر:٢٠)
ترجمہ
''یکساں نہیں ہوسکتے دوزخی اور اہل جنت۔ اہل جنت ہی کامیاب لوگ ہیں''۔
وَمَنْ
یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ، وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰۤئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ
(سورۃ
النور: ٥٢)
ترجمہ:''
جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتاہے اور اس کے رسول کی اور ڈرتا رہتاہے اللہ سے اور
بچتا رہتاہے اس( کی نافرمانی) سے تو یہی لوگ کامیاب ہیں''۔
وَمَن
یُطِعْ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْماً (سورۃ الاحزاب:
٧١)
''اور جو
شخص حکم مانتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا تو وہی شخص حاصل کرتا ہے بہت بڑی کامیابی''۔
اَلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ
لا اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ ط وَاُولٰۤئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ (سورۃ توبۃ:
٢٠)
''جو لوگ
ایمان لائے اور ہجرت کی اور جہاد کیا راہ خدا میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے بہت
بڑا ہے (ان کا) درجہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں''۔
اس کے بعد
امام ابو ہلال عسکری علیہ الرحمہ فوز اور ظفر کے مابین بنیادی فرق کو بیان فرماتے ہیں۔
إن
الظفر ھو العلو علی المناوی المنازع۔(الفروق اللغویۃ،امام ابو ہلال عسکری،
ص237، ناشر)
بلاشبہ
ظفر متنازع جگہ پر غلبہ پالینے کو کہتے ہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
مِن
بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ (فتح :٢٤)
ترجمہ:باو
جود یہ کہ تمہیں ان پر قابو (غلبہ) دیا تھا۔
آپ فرماتے
ہیں کہ
وقد
یستعمل فی موضع الفوز یقال ظفر ببغیتہ۔ ولا یستعمل الفوز فی موضع الظفر۔(الفروق
اللغویۃ،امام ابو ہلال عسکری، ص237، ناشر)
تحقیق لفظ
ظفر فوز کی جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ کہا جاتاہے کہ ظفر ببغیتہ۔ اس نے اپنے
باغیوں پر غلبہ پالیا ہے۔ لیکن لفظ فوز ظفر کی جگہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ
یہ نہیں کہا جاتاہے فاز بعدوہ۔ کہ اس نے اپنے دشمنوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ بلکہ
یہ کہا جاتاہے کہ ظفر بعدوہ ۔ کہ اس نے اپنے دشمنوں پر غلبہ پالیاہے۔ اسی طرح لفظ ظفر
فوز کے استعمال میں فرق پیدا کرتاہے۔
اب ہم دیکھتے
ہیں کہ کلمہئ فلاح کا کیا مطلب ہے
فلاح کالغوی
معنی:
امام محمد
بن مکرم مصری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ:
اَلْفَلَحُ
وَ الْفَلَاحُ: الفوز والنجاۃ والبقاء فی النعیم والخیر۔(لسان العرب،ج٢،ص٥٤٦)
ترجمہ:''
فلح اور فلاح کا مطلب ہے کہ نعمت و خیر کے معاملے میں کامیابی و کامرانی اور نجات و
بقا کے ہیں''
اس لیے
جب کوئی عرب کسی کو دعا دیتاہے تو یہ دعائیہ کلمات اداکرتاہے۔
''بشرک
اللہ بخیر وفَلَحٍ''اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و عافیت اور فلاح و کامیابی کی
خوشخبری دے۔
قال
الازھری علیہ الرحمۃ:وانما قیل لاھل الجنۃ مفلحون لفوزہم ببقاء الابد۔(لسان العرب،ج٢،ص٥٤٦)
ترجمہ:''امام
زہری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اہل جنت کو فلاح یافتہ اس لیے کہا گیا ہے کہ فلاح میں
ابدیت پائی جاتی ہے۔ ان کے لیے کامیابی و کامرانی ہمیشہ رہے گی''۔
الفَلَاح:
الفوز بما یغتبط بہ و فیہ صلاح الدھر۔(لسان العرب،ج٢،ص٥٤٦)
ترجمہ:
فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے کہ جس میں رشک ہو اور اس میں زمانے کی ساری خوبیاں پائی
جاتی ہیں۔
حدیثِ اذان
میں آتاہے کہ حی علی الفلاح یعنی ھلم بقاء الخیر۔
ترجمہ:آؤ
کامیابی و فلاح کی طرف یعنی ہمیشہ قائم و دائم رہنے والے خیر کی طرف آؤ''
امام محمد
بن مکرم مصری کلمہئ فلاح کے حوالے سے مزید تحریر فرماتے ہیں کہ:
الفَلَحُ:
فلحت الارض إذا شققتہا للزراعۃ۔ وإنما قیل لہ فَلّاحٌ لانہ یفلح الارض ای یشقہا۔(لسان العرب،ج٢،ص٥٤٨)
ترجمہ:
میں نے زراعت و کاشت کاری کے لیے زمین کو چیرا، اور اسی لیے کسان کو فلّاح کہا جاتاہے
کہ وہ زمین کو چیرتا ہے۔
کلمہئ فلاح
کے حوالے سے لغت کے امام خلیل بن احمد الفراھیدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ:
الفَلَحُ
لغۃً البقاء فی الخیر وفلاح الدھر۔(کتاب العین، امام خلیل بن احمد، ج3، ص
1414،
ترجمہ:
''لغوی طور پر فلح کا مطلب ہے کہ ایسی خیر کے جس میں بقاء ودوام اور زمانے میں کامیابی
کے ہیں''۔
آپ مزید
لکھتے ہیں کہ:
او
إنما قیل لہ فلاح تشبیہاً بالأکار۔ فلحت الأرض شققتہا والعرب تقول الحدید بالحدید یفلحُ۔
اور اسی
لیے کسان کو اکّار سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یعنی وہ لوہے جیسی سخت چیزسے زمین جیسی سخت
چیز کو چیرتا ہے۔میں نے زمین کو چیرا۔ اور عرب کہتے ہیں کہ لوہے سے لوہے کو کاٹا جاتاہے۔
اسی لیے کسان و کاشت کار کو فلّاحٌ کہاجاتاہے۔ (کتاب العین، ج٣، ص١٤١٤)
امام احمد
بن فارس رازی لکھتے ہیں کہ:
الفلاح:
البقاء والفوز و قول الرجل لإمرأتہ استفلحی بأمرک معناہ فوزی بأمرک۔(معجم مقاییس
اللغۃ، احمد بن فارس رازی، ج٢، ص٣٣٠،ناشر دارالکتب العلمیۃ ،بیروت)
''فلاح کا
مطلب بقاء اور کامیابی کے ہیں۔ جیسے کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہتاہے کہ اپنے معاملے
میں فلاح طلب کرو یعنی اپنے معاملے میں کامیابی طلب کرو۔
امام ابوہلال
عسکری علیہ الرحمۃ رقم طراز ہیں کہ:
الفلاح
: نیل الخیر والنفع الباقی اثرہ وسمی الشی الباقی اثرہ فَلَحاً۔(الفروق
اللغویۃ،ص٢٣٧، ناشر دارالکتب العلمیہ بیروت،لبنان)
''فلاح خیر
کے راستے اور باقی رہنے والے نفع و فائدہ کے اثر کو کہتے ہیں۔ اس لیے جس چیز کا اثر
باقی رہے اس کو فلح کہتے ہیں''۔
امام راغب
اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ :
الفلاح:
الظفر وإدراک بُغتیَۃٍ۔
ترجمہ:
کامیابی اور مطلوبہ شے کا حصول مراد ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک دنیوی اور دوسری اخروی۔
الدنیوی:
الظفر بالسعادت التی تطیب بہا حیاۃ الدنیا وہوالبقاء والغنی والعزُّ۔
ترجمہ:
دنیوی فلاح سے مراد یہ ہے کہ وہ کامیابی جو دنیا کی زندگی کو اچھاکردے۔ اور وہ بقاء
غنا اور عزت ہے۔
اخروی کامیابی
اور فلاح کی چار اقسام ہیں۔
بقاء بلا
فناء: ایسی بقا و دوام کہ جس کو فنا نہ ہو۔
وغنی بلا
فقر: ایسا غنیٰ کہ جس میں فقر و فاقہ نہ ہو۔
وعز بلا
ذل: ایسی عزت واحترام کہ جس میں ذلت نہ ہو۔
وعلم بلا
جھلٍ: ایسا علم کہ جس میں جہالت نہ ہو۔
(المفردات فی غریب القرآن، امام راغب اصفہانی،ص385،مکتبہ نورمحمد کتب خانہ)
امام راغب
اصفہانی علیہ الرحمہ نے لفظ فلاح کے معنی میں توسع پیدا فرمایا ہے۔ اس میں وسعت اور
کثرتِ نعمت کا ذکر فرمایا ہے کہ
جس شخص
کو فلاح و کامیابی کی عظیم دولت نصیب ہوجائے تو وہ اپنے دامن میں ان گنت نعمتیں، برکتیں،
رحمتیں اور عظمتیں سمیٹ لیتاہے کہ جس میں فنا اور زوال کا اندیشہ تک نہ ہو۔ کیونکہ
انسان کے دل کے نہاں خانوں میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ مجھے یاد رکھا جائے۔ مجھے فنا
اور زوال نہ ہو۔ انسان زندگی بھر عزت، دولت، جاہ و جلال کے لئے انتھک محنت کرتاہے تاکہ
اس کو یاد رکھا جائے۔ اس کا ہر دور اور ہر زمانے میں چرچا ہوتارہے۔ اس کے حصول کے لیے
وہ جدوجہد کرتاہے۔ اور انسانی فطرت و جبلت میں یہ خواہش پنپتی رہتی ہے اور انسان مختلف
اوقات میں اس کا تذکرہ بھی کرتارہتاہے۔ اگر ایسے شخص کو اسی نعمت عظمیٰ سے سرفراز کیا
جائے کہ ایسی بقا اور دوام سے سرفراز کیا جائے کہ جس کو فنا نہ ہو۔ ایسی عزت و عظمت
کا تاج پہنایا جائے کہ جس کی روشنی ماند نہ پڑے۔ ایسے علم و حکمت کے نور سے منور کیا
جائے کہ وہ سراپا نور ہی نور بن جائے۔ اس کے نور سے تمام کے تمام اندھیرے چھٹ جائیں
۔ الغرض انسانی کامیابی و کامرانی کا تصور اورخیال جو انسان کے ذہن میں ہے یا نہیں
ہے وہ تمام کی تمام کامیابی اس کو حاصل ہونگی۔ اور وہ دنیا اور آخرت کی تمام تر کامیابی
و کامرانی لفظ فلاح سے واضح ہوجاتی ہیں۔ تاکہ انسان اس لفظ کو سماعت کرنے کے بعد انسان
اس کے حصول کے لیے بدرجہ اتم جدوجہد کرے۔ اور اسلام اسی فلاح کی طرف دعوت دیتاہے تاکہ
انسان نہ صرف دنیا میں سرخرو ہو بلکہ آخرت میں بھی سرخروئی حاصل کریں۔
امام راغب
اصفہانی علیہ الرحمہ نے لفظ فلاح میں توسع پیدا کیا تھا کہ ایسی بقا کہ جس کو فنا نہ
ہو۔ ایسی غنا کہ جس میں فقر و فاقہ نہ ہو۔ ایسی عزت و احترام کہ جس میں ذلت نہ ہو۔
اور ایسا علم کہ جس میں جہالت نہ ہو لیکن سید محمد مرتضیٰ زبیدی علیہ الرحمہ نے تاج
العروس میں لفظ فلاح میں نہ صرف غایت درجے کی وسعت پیدا فرمائی ہے بلکہ اس لفظ کی جامعیت
کو بھی بیان فرمایا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ
لیس
فی کلام العرب کلہ اجمع من لفظہ الفلاح لخیری الدنیا والآخرۃ کما قالہ ائمۃ اللسان(تاج العروس،
سید محمد مرتضیٰ زبیدی، ج 2، ص 199،ناشر دارالفکر)
ترجمہ:
جیسے کہ
اہل لسان نے کہا ہے کہ عربی زبان کے تمام تر لفظوں میں لفظ فلاح سے زیادہ جامع ترین
لفظ پوری عربی زبان میں نہیں ہے جو لفظ دنیا اور آخرت کی کامیابی اور خیر کے لیے استعمال
ہوتاہو۔
یعنی اس
سے مراد یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی تمام تر کامیابی و کامرانی ، برکتیں ، نعمتیں، رحمتیں،
عظمتیں اور رفعتیں اس لفظ میں پوشیدہ ہیں۔ عرب دنیا و آخرت کی سب نعمتوں کے حصول کے
لیے لفظ فلاح کا استعمال کرتے ہیں کہ اس کے دامن میں تمام نعمتیں موجودہیں۔
الغرض اس
لغوی بحث کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ فلاح اس کامیابی و کامرانی کو کہتے ہیں کہ
جس میں نعمت کا اثر باقی رہے۔ اس کو دوام اور ہمیشگی کا مقام حاـصل ہو۔
وہ ابدالاباد اور قائم و دائم رہے۔اس میں ایسی عزت و عظمت عطا کی جاتی ہے کہ جس میں
ذلت نہ ہو۔ ایسا غنیٰ عطاکیاجاتاہے کہ جس میں فقر و فاقہ نہ ہو۔ ایسی بقا و دوام کہ
جس میں فنا اور زوال نہ ہو۔ ایسا علم عطاکیا جاتا ہے کہ جس میں جہالت نہ ہو ۔ غرض یہ
کہ عربی زبان میں دنیا اور آخرت کی تمام کی تمام نعمتیں اسی لفظِ فلاح میں موجود ہیں۔
دوسرا یہ کہ جب کسی بھی نعمت اور نفع حاصل کرنے کی تگ و دو کی جاتی ہے تو اس کے لیے
سخت ترین محنت کی حاجت ہوتی ہے۔ جب کسان کو زندگی گزارنے کے لیے اناج کی ضرورت ہوگی
تو وہ اس اناج کے حصول کے لیے زمین کا سینہ چاک کرے گا اور اس زمین کو چیر کر بیج بوئے
گا تاکہ اس سے مطلوبہ شے حاصل کی جاسکے۔
انسان جس
قدر عربی زبان کی فصاحت و بلاغت پر غور وفکر کرتاہے تو اس کی غوروخوض کی صلاحیت و قابلیت
میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ عربی زبان کے حروف کی بھی جداگانہ خصوصیت ہیں۔ ہر حرف کی
اپنی خاصیت اور صفت ہے۔ اور ان ہی صفات کا اثر معنی پر بھی ہوتاہے۔ مثلا اگر کسی حرف
میں مجہورہ ، مشددہ کی صفت پائی جاتی ہے تو اس کے معنی میں بھی شدت و حدت اور قوت و
طاقت کا عنصر غالب نظر آئے گا۔ اگر کسی حرف میں صفتِ مہموسہ اور رخوہ پائی جاتی ہے
تو اس میں نرمی ، ملائمت اور رخاوت کا پہلو عیاں ہوگا۔ اگر کسی حرف میں حرف تفشی جس
کی صفت پھیلاؤ اور وسعت ہے ۔ جس حرف میں یہ صفت پائی جائے گی تو اس کے معنی میں پھیلاؤ
اور وسعت کارنگ نمایاں نظرآئے گا۔
اب ہم دیکھتے
ہیں کہ کلمہ الفلاح میں کون کون سی صفت مضمر ہےں۔ ہر حرف کی اپنی ایک بنیادی اور نمایاں
خصوصیت ہے۔ جس سے اس کے معنی پر اثرپڑتاہے۔ سہ حرفی کلمہ میں اگرچہ ہر حرف کی اپنی
ایک مخصوص صفت ہے لیکن اس میں سب سے مرکزی اور کلیدی کردار عین کلمہ کا ہوتاہے۔ اگر
عین کلمہ مضبوط اور طاقتور ہے تو اس کی قوت و طاقت کا اثرلام اور فاء کلمہ پر بھی ہوگا۔
اگر عین کلمہ کمزور ہے تو اس کا اثر لام اور فاء دونوں کلموں پر ہوگا۔
ابوالفتح
عثمان بن جنّی فرماتے ہیں کہ: العین أقوی من الفاء واللام:(ابوالفتح
عثمان بن جنّی،کتاب الخصائص،ج١، ص٥٠٧، ناشردارالکتب العلمیہ بیروت ،لبنان)
ترجمہ:
''عین کلمہ فاء اور لام کلمے کے مقابلے میں سب سے زیادہ قوی ہوتاہے''۔ لیکن کبھی کبھی
لام اور فاء کلمہ بھی عین کلمے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس سے انکار نہیں ہے لیکن مرکزی
و کلیدی کردار بالفاظ دیگرے سہ حرفی کلمے کا روحِ رواں عین کلمہ ہی ہوتاہے۔
کلمہ فلح
کی صفات مندرجہ ذیل ہیں۔
ف: مہموسہ۔رخوہ۔
مستفلہ۔منفتحہ۔مذلقہ۔
ل: مجہورہ۔متوسطہ۔
مستفلہ۔منفتحہ۔مذلقہ۔منحرفہ۔
ح: مہموسہ۔رخوہ۔
مستفلہ۔منفتحہ۔مصمتہ۔
صفات کا
معنی پر اثر:
اس سہ حرفی
کلمے میں بنیادی اور مرکزی کردار عین کلمہ کا ہے۔ اور عین کلمہ ''ل''ہے۔ جس کی صفات
مجہورہ۔متوسطہ۔ مستفلہ۔مذلقہ اورمنفتحہ۔یعنی اس عین کلمہ ''ل'' کی صفت یہ ہے کہ نہ
تو یہ مشددہ میں سے ہے اور نہ ہی مہموسہ میں سے ہے یعنی نہ تو اس میں قوت و شدت پائی
جاتی ہے اور نہ ہی اس میں ملائمت اور رخاوت کا عنصر ہے۔ بلکہ یہ متوسطہ کی صفت کا حامل
ہے۔ اس کی صفت یہ ہے کہ معنی میں اعتدال اور میانہ روی کا معنی پایاجائے گا۔ اس عین
کلمہ میں مذلقہ کی صفت پوشیدہ ہے یعنی کہ اس میں تیزی اور سرعت کا پہلو اجاگر رہے گا۔
اس کے معنی میں اور اثر میں تیزی اور برق رفتاری کا جوہر شامل رہے گا۔ فلَّاح کسان
کو کہا جاتاہے ۔ کسان زمین کا سینہ چیرتا ہے نہ تو اس میں بہت زیادہ قوت و طاقت کا
استعمال کیا جاتاہے اورنہ ہی نرمی اور آسانی سے زمین کو چیراجاتاہے بلکہ بقدر ضرورت
طاقت اورنرمی اختیار کی جاتی ہے اس میں اعتدال اور میانہ روی اختیارکی جاتی ہے۔ لام
کلمہ ''ح' کی ایک صفت مستفلہ ہے۔ اس کے معنی میں پستی اورنیچے تک اثرجانے کا پہلو نمایاں
ہے۔ جب کسان زمین کو چیرتا ہے تو اس کا گہرا اثرپڑتاہے۔
علاوہ ازیں
عین کلمہ ''ل''کی صفت متوسطہ بھی ہے۔ اس میں نہ ہی مشددہ کی صفت ہے اور نہ ہی مہموسہ
کی صفت پائی جاتی ہے۔ لیکن فاء کلمہ ''ف'' اور لام کلمہ ''ح'' میں صفت مہموسہ اور رخوہ
کا عنصر شامل ہے۔ تو یہ دونوں کلمات عین کلمہ ''ل'' کے مددگار و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اور اس کو نرمی اور ملائمت کا اثر دینے میں اپنا کردار اداکرتے ہیں۔ جس کا اثر اس کے
معنی پر پڑتاہے یعنی کسان بڑی ہی آسانی اور سہولت کے ساتھ زمین میں کاشت کاری کرنے
کے بعد بیج بوتاہے۔ اور بیج بونے کا عمل سہل انداز میں وقوع پذیر ہوتاہے۔
فاء کلمہ''ف''
اور عین کلمہ ''ل'' کی صفات مذلقہ بھی ہے۔ جس کے معنی میں تیزی اور سرعت کا معنی پایاجاتاہے۔
سہ حرفی کلمہ میں عین کلمہ مرکزی اور بنیادی کردار اداکرتاہے۔ جس کی صفت مذلقہ ہے۔
عین کلمہ کا اثر فاء اور لام دونوں پر ہوتاہے۔لیکن فاء کلمہ ''ف'' کی بھی صفت مذلقہ
ہے ۔ جس نے معاون و مددگار کے طور پر کردار اداکیاہے۔ اس سے عین اور فاء کلمے کے معنی
کے اثر میں اضافہ ہوگیاہے۔ اس کی اثر پذیری دوآتشہ ہوگئی ہے۔اس کی برق رفتاری اور تیزی
میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ لیکن اس برق رفتاری میں معمولی سا اثر اورٹھہراؤ لام کلمہ
''ح''کی وجہ سے ہوا ہے۔
کیونکہ
لام کلمہ ''ح'' کی صفت مصمۃ بھی ہے۔ جس کے معنی میں سہل پسندی اور سست رفتاری کا جوہر
غالب رہتاہے۔ اور خاموشی کا پہلو بھی جابجانظرآتاہے۔ یعنی کہ بیج انتہائی سست رفتاری
اور آہستہ آہستہ نشوونما پاتارہتاہے اس کے وجود میں برق رفتاری جاری رہتی ہے لیکن بظاہر
سست رفتاری اور خاموش نشوونما اوربڑھوتری جاری و ساری رہتی ہے۔
حاصل کلام
یہ ہے کہ کسان زمین کا سینہ چیرتاہے اس میں بڑی ہی آسانی اورسکون و اطمینان کے ساتھ
بیج بوتاہے ۔ وہ بیج اپنے وجود میں بڑی ہی برق رفتاری اور تیزی سے نشوونما پاتاہے۔بظاہر
وہ بیج سست رفتار نظرآتاہے لیکن اندرونی طورپر وہ سرعت اورتیزی سے بڑھ رہاہوتاہے۔ اور
یہ نشوونما کا عمل تیزی سے جاری و ساری رہتاہے۔
برسبیل
تذکرہ بیان کیا جارہا ہے کہ اہلِ لسان نے ''فلح'' سے علمِ اشتقاقِ کبیر کے اعتبار سے
افعال ستہ نکالیں ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔
فلح۔ پھاڑنا
،چیرنا
حلف۔ عہد
و پیمان
لحف۔ لحاف
وغیرہ سے ڈھانپنا۔
فحل۔ ڈھونڈنا
حفل۔ جمع
ہونا۔(اسی سے محفل ہے)
لفح۔ لفح
بالسیف(تلوار سے مارنا)
اس پوری
بحث کاحاصل کلام یہ ہے کہ فلح کے معنی میں نہ ہی سختی ہے اور نہ ہی نرمی ہے۔ بلکہ اس
میں اعتدال اور میانہ روی کا رویہ شامل ہے ۔ اس میں باطنی طور پر برق رفتاری کا جوہر
پوشیدہ ہے اور ظاہری طورپر سست رفتاری کا اظہار ہوتاہے۔ لیکن اس عمل میں قوت و طاقت
اور اثرپذیری قائم و دائم رہتی ہے اگرچہ آہستہ آہستہ ہو لیکن جاری و ساری رہتی ہے۔
بالآخر منزل پر پہنچ ہی جاتی ہے۔
اسلام کی
دلآویز ہدایات وتعلیمات آفاقی و عالمی ہیں۔ اس پر عمل کرکے انسان دونوں جہان میں کامیاب
و کامران ہوسکتاہے۔ جو بھی نیکی کرے گا اس کا اثر اور اس کا پھل لازمی پائے گا۔ اس
کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے کو ایسی بقاء ملے گی کہ جس کو فناء نہ ہو۔ ایسا غنی
کہ جس میں فقر و فاقہ نہ ہو۔ ایسی عزت و احترام کے تاج سے سرفراز فرمایاجائے گا کہ
جس میں ذلت و مسکنت کا شائبہ تک نہ ہوگا۔ اور ایسا علم عطاکیاجائے گا جس میں جہالت
نہ ہوگی۔ یعنی کہ ایسی کامیابی و کامرانی کی نعمت کبریٰ سے نوازاجائے گا کہ انسان اس
نعمت کا اثرظاہری و باطنی طورپردیکھے گا۔ اس پر عمل کرکے انسان دونوں جہاں میں سرخرو
ہوگا۔ دنیا وآخرت بہترین ہوجائے گی۔ اسی لیے عربی زبان میں کامیابی و کامرانی کے لیے
جو کلمہ اور لفظ سب سے زیادہ جامع و مانع ہے وہ ''فلاح'' ہے۔ کیونکہ عرب جب کسی کو
دعا دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ (بشرک اللہ بخیر و فلح) کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و عافیت
اور فلاح وکامرانی کی خوش خبری دے۔ یعنی وہ خوشی اور خیر وعافیت جو ہمیشہ ہمیشہ رہے۔
جس خوشی اور خیر کو فنا نہ ہو۔ اصل خوشی اور خیر تو وہی ہے کہ جو ہمیشہ اور ابدالآباد
رہے۔ اسلام فلاح کے راستے کی دعوت دیتاہے۔ جنہوں نے اس پر عمل کیا وہ کامیاب ہوگئے۔کیونکہ
دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جب انسان نیکی کا بیج بوئے گا تو اس نیکی کا پھل بھی کھائے
گا۔ اور اگر وہ بدی کا بیج بوتا ہے تو اس کو اس بدی کا پھل بھی کھانا پڑے گا۔ کیونکہ
جو اللہ کا بندہ نیک عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے عمل کی جزا عطا فرمائے گا اور
جوبدی کرے گا تو وہ اس عمل کی سزا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف میں دوبندوں
کی مثالیں بیان فرمائیں ہیں۔ ایک مومن ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین رکھتا
ہے۔ اور دوسرا بندہ اللہ کو نہیں مانتاہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتاہے بت پرستی
میں مگن رہتاہے۔ یہ مومن بندہ اور یہ مشرک دونوں کے دو باغ ہوتے ہیں۔ لیکن مشرک مال
و دولت ، افرادی ، قوت اور وسیع و عریض باغ کی وجہ سے فخر کرتاہے۔ اور کہتاہے کہ میں
مال و دولت اور افرادی قوت میں تم سے زیادہ ہوں۔ حالانکہ میں شرک کرتاہوں۔ آخرت پر
بھی ایمان رکھتا ہوں ۔ سب نعمتیں میرے دامن میں موجود ہیں۔ لیکن وہ مومن اس مشرک باغبان
کو سمجھاتا رہتاہے کہ تو اس ذا ت کا انکار کرتا ہے کہ جس نے تجھے مٹی سے بنایا ہے۔
تجھے عقل و فہم دی ہے۔ مال و دولت اور افرادی قوت کی نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔ اگر
ناشکری اور شرک کرو گے تو تمام نعمتیں چھین لی جائیں گی۔ اور دنیا تو عارضی ہے لیکن
نیک عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا ہے۔ لیکن وہ مشرک کیونکہ مال و دولت ، افرادی قوت اور
وسیع و عریض باغ کے سحر میں جکڑا ہواتھا۔ وہ ہوش کے ناخن لے رہاتھا۔ پھر ایک دن ایک
آندھی آتی ہے اور اس کا تمام تر مال و اسباب ۔ افرادی قوت اور وسیع و عریض باغ برباد
کردیتی ہے ۔ اور پھر وہ کف افسوس ملتے ہوئے کہتا
یَا
لَیْتَنِیْ لَمْ أُشْرِکْ بِرَبِّیْ أَحَداً
''کاش! میں
نے کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بنایا ہوتا ہے۔''
کیونکہ
اس نے شرک کیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے تمام تر نعمتیں چھین لی ۔
اس نے شرک
اور بت پرستی کا بیج بو کر اپنے تمام تر مال و دوولت ، افرادی قوت اور وسیع و عریض
باغ کے تباہ ہوجانے کے بعد اس شرک کی تباہ کاریوں سے پناہ طلب کی اور حسرت بھرے الفاظ
میں اپنے غم کا اظہار کیا کہ
''کاش! کہ
میں شرک نہ کرتا''۔
جس نے شرک
کیا اس کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اورجو اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا اس کا باغ محفوظ و مامون
رہتا۔
اسی طرح
اللہ تعالیٰ نے سورۃ سبا میں اسی خوشحال اور ترقی یافتہ زندگی گزاتے ہیں۔ ان کے ملک
میں سرسبز و شاداب باغات اور لہلاتے ہوئے کھیت کھلیان ہوتے ہیں۔ ان کا آبپاشی کا نظام
بے مثال ہوتاہے۔ کسی بھی چیز کی کمی اور فقدان نہیں تھا۔لیکن جب انہوں نے اللہ تعالیٰ
کی نافرمانی کرنا شروع کی اور نفس پرستی، شیطان پرستی اور بت پرستی میں ملوث ہوئے تو
اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو برباد کردیا۔ ان کے کفر و شرک کی نحوست کی وجہ سے پوری
''آبادی'' میں ''بربادی'' آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ
نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے کہ
لاَ یُفْلِحُ
الْمُجْرِمُونَ سورہ یونس: ١٧(فلاح نہیں پائیں گے جرم کرنے والے)
وَلاَ یُفْلِحُ
السَّاحِرُونَ سورہ یونس: ٧٧(جادو گری کرنے والے فلاح نہیں پائیں گے)
ُ لَا یُفْلِحُ
الْکَافِرُونَ سورہ مؤمنون: ١١٧(کفر کرنے والے فلاح نہیں پائیں گے)
لَا یُفْلِحُ
الظَّالِمُونَ سورہ قصص: ٣٧(ظلم کرنے والے فلاح نہیں پائیں گے)
الغرض وہ
لوگ جو جرم کرتے ہیں، ساحری اور جادوگری کرتے ہیں، مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔
مظلوموں کا جینا حرام کرتے ہیں ۔ اللہ کی زمین پر کفر و شرک کرتے ہیں وہ لوگ فلاح نہیں
پائیں گے۔ وہ لوگ کامیابی و کامرانی کی دولت سے محروم ہونگے۔ نہ صرف وہ دنیا میں خیر
سے محروم ہوں گے بلکہ آخرت میں بھی خیر سے محروم ہونگے۔ جب وہ اپنے نامہئ اعمال کی
زمین پر جرم، جادوگری، کفر و شرک اور ظلم کا بیج بوئےں گے تو اس کی فصل دنیا اور آخرت
میں کاٹےں گے۔
اللہ تعالیٰ
ایک قانون ہے کہ وہ اپنے بندوں کی نیکیوں کو ضائع نہیں کرتاہے۔ اپنے بندے کی نیکی کا
پھل لازمی دیتا ہے۔ اور کوئی بھی نیکی رائیگاں نہیں جاتی ہے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح
ہے کہ
حضرت موسیٰ
علیہ السلام حضرت خضرت علیہ السلام کے ہمراہ محو سفر ہوتے ہیں۔ آپ جب ایک گاؤں میں
پہنچتے ہیں اور ایک دیوار کو دیکھتے ہیں کہ وہ خست حالی کا شکار ہے۔ اس کے گرنے کا
اندیشہ تھا۔ تو حضرت خضر علیہ السلام نے اس دیوار کی مرمت کردی ۔ اس پر موسیٰ علیہ
السلام نے فرمایا کہ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس دیوار کی مرمت کے عوض اس گاؤں کے باشندوں
سے اجرت لے لیتے تاکہ اپنی بھوک کو مٹاسکتے۔ پھر حضرت خضر علیہ نے فرمایا کہ
وَأَمَّا
الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہُ
کَنزٌ لَّہُمَا وَکَانَ أَبُوہُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّکَ أَنْ یَبْلُغَا أَشُدَّہُمَا
وَیَسْتَخْرِجَا کَنزَہُمَا رَحْمَۃً مِّن رَّبِّکَ (سورۃ الکہف:٨٢)
ترجمہ باقی
رہی دیوار (تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ) وہ شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے
ان کا خزاہ موجود تھا۔ اور ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا۔ پس آپ کے رب نے ارادہ فرمایا
کہ وہ دونوں بچے اپنی جوانی کو پہنچیں اور نکال لیں اپنا خزانہ ۔ یہ (ان پر) ان کے
رب کی خاص رحمت تھی۔
کیونکہ
ان کا باپ ایک نیک اور صالح شخص تھا۔ اس نے نیکی کی تھی۔ اس کی نیکی کا پھل اس کے بیٹے
کھارہے ہیں۔ اور نیکی کو دوام حاصل ہوتاہے۔ اس کو ایسی بقا نصیب ہوتی ہے کہ جس کو فنا
نہ ہو۔ اور اس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ عبد من عبادنا کا انتخاب فرماتاہے۔
اللہ تعالیٰ
نے اپنے پاک کلام میں فرمایا ہے کہ
قَدْ
اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِھِمْ خَاشِعُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ
ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْن۔وَالَّذِیْنَ
ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ ۔اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ
فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ۔فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰۤئِکَ ھُمُ
الْعٰدُوْنَ ۔وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ
ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ۔اُولٰۤئِکَ ھُمُ الْوَارِثُوْنَ۔الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ط ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ (سورۃ المؤمنون: ١۔١١)
ترجمہ:
''بے شک دونوں
جہاں میں بامراد ہوگئے ایمان والے۔ وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے
ہیں۔ اور وہ جو ہر بے ہودہ امر سے منہ پھیرے ہوتے ہیں۔ اور وہ جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ بجز اپنی بیویوں کے اور ان کنیزوں
کے جو ان کے ہاتھوں کی ملکیت ہیں تو بے شک انہیں ملامت نہ جائے گی۔ اور جس نے خواہش
کی ان دو کے ماسوا تو یہی لوگ حد سے بہت زیادہ تجاوز کرنے والے ہیں۔ نیز وہ (مؤمن بامراد
ہیں) جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی نمازوں
کی پوری حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وارث ہیں۔ جو وارث بنیں گے فردوس (بریں) کے، وہ اس
میں ہمیشہ رہیں گے۔
امام قرطبی
علیہ الرحمہ اس آیت مبارکہ کے تحت ایک حدیث مبارکہ نقل فرماتے ہیں کہ
حضرت انس
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے کہ:
لما
خلق اللّٰہ جنۃ عدن و غرس اشجارہا بیدہ قال لہا تکلمی فقالت قد افلح المؤمنون
ترجمہ''جب
اللہ تعالیٰ نے جنت عدن کو پیدا فرمایا اور اس میں اپنی دستِ قدرت سے درخت لگائے اور
اس سے کہا کہ مجھ سے کلام کرو۔ تو درختوں نے کہا کہ قد افلح المؤمنون۔
ترجمہ:بے
شک مؤمنین فلاح پاگئے۔
اس آیت
مبارکہ اور حدیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو مژدہ جانفزا سنایا ہے کہ جنہوں
نے نیک اعمال کئے مثلاً ، جنہوں نے خشوع و خضوع سے نماز ادا کی اور بے ہودہ او ر لغو
باتوں اور کاموں سے اعراض کیا اور زکوٰۃ کو ادا کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنی
عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جائز طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔ امانت میں خیانت نہیں کرتے
ہیں۔ تو ایسے لوگ کامیاب و کامران ہونگے۔ اور دنیا و آخرت میں فلاح پائیں گے۔ ایسے
نفوس قدسیہ کے بارے میں قرآن پاک اورجنت الفردوس بھی خوشخبری کی نوید سناتی ہے کہ
قد افلح
المؤمنون یعنی بے شک دونوں جہاں میں بامراد ہوگئے ایمان والے
دین اسلام
اسی فلاح کی طرف دعوت دیتاہے کیونکہ الدنیا مزرعۃ الآخرۃ ۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
انسان اس زمین پر جو بھی نیک بیج بوتاہے اس شخص کو اس فصل کو ہرحال میں کاٹنا ہوتاہے۔
اگر خراب بیج بوتاہے تو محنت رائیگاں جاتی ہے۔ اور اگر صحیح بیج بوئے گا تو اس سے فوائد
ثمرات حاصل کریں گے۔ عقلمند شخص وہی ہے جو اعمال صالحہ کا بیج بوئے تاکہ دنیا اور آخرت
میں اس کا پھل کھاسکے۔بقول شاعر
اس دار
مکافات میں سن اے غافل
بیداد کرے
گا آج، کل پائے گا
قرآن پاک
میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اعمال صالحہ کی ترغیب دی ہے۔ اور مختلف اعمالِ صالحہ
کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ مثلاً اسی طرح سورۃ المؤمنون میں بھی اعمال صالحہ کا ذکرفرمایا
ہے۔ جو ان اعمال صالحہ پر عمل کرے گا تووہ کامیاب وکامران ہوگا۔ لہذا جس دن ''صورۃ
المؤمنون'' ''سورۃ المؤمنون'' کے سانچے میں ڈھل گئی اور انہوں نے ''سورۃ المؤمنون
''کے زیور سے اپنے اعمال کو آراستہ و پیراستہ کریں گے توان کی دنیا اور آخرت سنور جائے
گی۔ اور راقم الحروف کے نزدیک ''صورۃ المؤمنون'' سے مراد مسلمانوں کی عالمی ''صورت
حال'' مراد ہے۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کے شب و روز ''سورۃ المؤمنون''
کے سانچے میں ڈھالیں۔ تاکہ ''صورۃ المؤمنون'' قابل رشک بن جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا
ہے کہ وہ ہمیں ''فلاح یافتہ''نفوس قدسیہ میں شامل فرماکر دونوں جہاں کی ''فلاح'' عطافرمائے(آمین)
Post a Comment