شہر کراچی قدامت کے آئینہ میں

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اظہار دلبری

اللہ وارث الکریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اس ناچیز کم فہم کوتاہ ادراک کو اس قلمی نسخہ بنام جمال قطب کواز سر نو مرتب کرنے کا شوق عقیدت وہمت عطافرماکر تشنگان معرفت کو مسرور کرنے کی توفیق عنایت فرمائی کیوں کہ اس قلمی نسخہ میں حضرت سید ناقطب عالم بخاری قدس سرہ کے حالات مصدق روایت کے ساتھ نقل ہیں ۔وگرنہ عہد سندھ میں تو اکثر بزرگان دین سے متعلق غیر تحقیق شدہ حکایات وافسانے ہی زبان زد عام ہیں اوروہ ہی مختلف کتابوں کی زینت اب تک بنے ہوئے ہیں جن کی کوئی سند مصدق نہیں اس کی تصحیح سہرا ھمارے صاحب علم تاریخ داں حضرات کے سر تھا مگر افسوس کہ تاریخ دان حضرات نے اس سلسلہ میں تحقیق کی زحمت تک گوارانہ کی جس کے سبب تاریخ افسانے اور حکایت ہوکررہ گئی۔ اگر ہم تاریخ بزرگان دین اولیاء کراچی کے سلسلہ میں اپنے ہم وطن تاریخ داں حضرات اور خاص کر محکمہ اوقاف کراچی کے قائم کردہ ریسرچ بورڈ پر جتنابھی احتجاج کریں وہ بے جا نہ ہوگاکیوں کہ کسی حقیقی واقعہ کی تحقیق نہ کرنا یا حقیقت سے چشم پوشی اختیار کرنا ایک تاریخ داں ومحقّق کوسزا وار نہیں تاریخ دان کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی واقعہ کی حقیقت کو حق گوئی کے ساتھ پیش کرے کیوں کہ اس تاریخی قصبے کا ایک درویش کے ہاتھوں فتح ہونا جو کہ قدیم کفرستان تھا کوئی غیر معمولی بات نہیںکہ جس نے بہت کم وقت میں اس ساحل سمندر پر آباد کفر پرستوں کو کفر سے پاک کر کے اس سر زمین پر اللہ اکبر کی صدا بلند کر کے دین اسلام کا پرچم لہرادیا ،اور بے شمار افراد کو داخل اسلام کر کے ان کی دینی وروحانی تعلیم وتربیت کا وہ فریضہ انجام دیا کہ جس کے سبب برصغیر سے حجاز مقدس جانے والے مسلم افراد کی سر اقائم ہوگئی کہ جہاں سے دینی وروحانی تعلیم وتربیت پاکر بے شمار افراد حج مقدس ادا کرنے روانہ ہوتے اور یہی نہیں آپ نے انہی میں سے اکثر صاحب ذوق افراد کو جن کے دل میں مخلوق خدا کی خدمت کا جذبہ موجود تھا انہی کی خاص روحانی تعلیم وتربیت کر کے اطراف قصبہ کے مختلف علاقوں میں معمور کیا کہ جن کی پر خلوص کا وشوں سے آج یہ ایک قدیم قصبہ شہر کراچی (قلعہ اسلام)کی صورت اختیار کر کے جہان عالم میں آشکار ہوا اور جواب آپ کے سامنے ایک بین الاقوامی شہرو بندرگاہ کی حیثیت سے موجود ہے اس شہر کراچی کی پاک سر زمین میں دین اسلام کے وہ جانباز و شہباز مجاہدین روحانی اولیاء کا ملین آرام فرما ہیں جن میں حضرت سید عبد اللہ الا شتر المعروف سید عبداللہ شاہ غازیؒ متوفی (١٥١ ؁ھ)حضرت مصری شاہ غازی ؒ متوفی حضرت سید نور علی شاہ شہید علم بردارؒ متوفی حضرت جمن شاہ بخاری متوفی حضرت سید یوسف شاہ غازی متوفی حضرت سخی سلطان المعروف منگھو پیر ؒ متوفی(٦٦٨ھ) حضرت سید محمد شاہ دولہا بخاری ؒ متوفی(٦٨٠ھ) حضرت پیر حاجی غائب شاہ ظاہر مزار (١٨٨٥ھ)حضرت سید شیر شاہ بخاری متوفی(١٢٩١ھ) حضرت سید عبد الکبیر المعروف میوہ شاہ غازی ؒ متوفی(١٢٩٥ھ) حضرت مولانا منشی حاجی محمد بشیر قریشی القادریؒ متوفی (١٣٠٠ھ)حضرت قبلہ قاضی نور محمد قریشی متوفی (١٩٣٨ھ)حضرت علامہ مفتی عبد الکریم درسؒمتوفی (١٣٤٤ھ)حضرت مولانا حافظ شاہ غلام رسول القادری ؒمتوفی(١٩٧١ئ)اور بے شمار اولیاء عظام وعلماء اکرام علیہم اجمعین کے اکثرمزارات محکمہء اوقاف حکومت سندھ کی زیر نگرانی ہیں اور ان مزارات سے محکمہ اوقاف کو لاکھوں روپے ماہانہ کی آمدنی ہے مگر افسوس کہ اس رقم کا ایک چوتھائی حصہ بھی محکمہ اوقاف اشاعت دینی وروحانی اشاعت پر اورنہ ہی ان مزارات کی تعمیر مرمت پر صرف کرتاہے مزارات پراعراس کی تقریب ولنگر وغیرہ سب عقیدت مند حضرات کے مالی تعاون خیر ہی سے انجام پاتی ہیں پس محکمہ اوقاف کراچی نے اپنی زیرنگرانی ریسرچ ایک ڈرامائی سیل قائم کیاہواہے جس کے ممبران کاکام تنخواہ وصول کرنا اور اولیاء کراچی پر کوئی تحقیق نہ کرناہے اور نہ ہی اب تک ریسرچ سیل نے کوئی مسند کتاب اولیاء کراچی پر شائع کی جس سے آج تک ان اولیاء عظام پر حاضری سے مشرف ہونے والے عقیدت مند افسردہ   ہیں خیراللہ وارث الکریم محکمہ اوقاف کراچی کودینی وروحانی مصد ق اشاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

محترم قارئین اکرام راقم الحروف کودینی وروحانی مطالعہ ومضمون نگاری وشاعری کاشوق اسکول کے زمانے سے ہیدامن گیر رہاہے مختلف دینی روحانی شخصیات پر مضامین نعت ونغمے ومناقب سلام وغیرہ مختلف اخبارات وکتابچوں کی صورت میں میرے کرم فرما حضرات طباعت کرکے مفت تقسیم کرتے ہے یہ سلسلے تحریراب بھی جاری ہے جمال قطبِ عالم کی وجہ تحقیق کہ جب میں اردو کالج گیارھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا کہ ایک روزدرگاہ شریف میں حضرت قبلہ مولوی عبدالوارث قادری المعروف مولانا برتن والے ساکن قدیم عیدگاہ میدان بندرروڈکراچی نے دوران گفتگو راقم سے فرمایا کہ آپ کے پردادا(حضرت مولوی شاہ خدابخش مینائی )متولی اول درگاہ قدیم بخاری سرانے اپنے زمانے میں حضرت بابا قطب عالم شاہ بخاری کی سوانح حیات جمع کرکے مترجم کی تھی جس کی ایک نقل آپ دادابزرگ (حضرت منشی شاہ عبدالخالق مینائی متولی دوم درگاہ بخاری سرا)کے پاس موجودتھی ہم نے اس قلمی نسخہ کی زیارت اس وقت کی تھی کہ جب ایک افغانی شخص نے اپنے آپ کو حضرت بابا قطب عالم شاہ بخاری ؒکی اولاد ہونے کا دعوی کیا تھا توآپ کے دادابزرگ ؒ نے اس قلمی نسخہ سوانح ء حیات میں تحریر شجرہ نسبی حضرت سید بابا سید قطب عالم شاہ بخاری قدس سرہ کی روشنی میں اس افغانی کو باطل قرار دیا تھا کیوں کہ حضرت بابا سید قطب عالم شاہ بخاری قدس سرہ نے عقد نہیں فرمایا تھا ،اسلیے اولاد ہونے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا ۔

 پھر ١٩٦٤ء ؁میں ایک وکیل صاحب جو کہ فرید آباد بھارت کے رہنے والے تھے اور سٹی کوٹ کراچی میں پیشہ وکالت پر تھے نے بھی حضرت بابا قطب عالم شاہ بخاری قدس سرہ کی اولاد ہونے کا دعویٰ باطل کیا تھا اور سند میں ایک عجیب وغریب خود ساختہ شجرہ نسبی تحریر کر کے شائع بھی کیا تھا جس پر سابق چیئر مین مذہبی امور کمیٹی درگاہ شریف ہذا جناب ملک ریاض محمد صاحب (مرحوم)نے بھی وکیل صاحب کے دعویٰ کو باطل قرار دیا تھا ،اور فی زمانہ بھی کچھ خود ساختہ پیر حضرات بھی اولاد ہونے کے زبانی دعویٰ دار ہیں۔

 لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ کے گھر میں وہ قلمی نسخہ تلاش کریں میں اس کو شائع کرنے میں آپ سے تعاون خیر کروں گا ۔تاکہ حضرت بابا سید قطب عالم شاہ بخاری قدس سرہ کے عقیدت مندوں کے حضرت کے اصل حالات یعنی اصل حقیقت حال روشن ہو اور خود ساختہ دعویدار پیروں کے دعویٰ بھی باطل ہوں ۔حضرت مولانا صاحب مرحوم کی گفتگو نے راقم کی عقیدت ومحبت کے شعور کو خوب بے دار کیا کہ رات ہی کو گھر میں قلمی نسخہ تلاش کرنا شروع کردیا ۔اور حضرت بہزاد لکھنوی مرحوم کی غزل کا مطلع پڑھتا رہا کہ

اے جذبہ ء دل اگر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے

منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے

 پس پھر کیا تھا گھر میں اجداد کی قدیم کتابوں میں تلاش جاری تھی کہ دوسرے روز محترمہ بڑی امی جان نے فرمایا کہ آخر ان بوسیدہ پرانی کتابوں میں کیا تلاش کر رہے ہو،اس پر میں نے عرض کیا کہ میں وہ قلمی نسخہ تلاش کر رہا ہوں کہ جسمیں حضرت بابا قطب عالم شاہ بخاری قدس سرہ کے حالات وشجرہ وغیرہ تحریر ہے ،اس پر بڑی امی جان نے فرمایا کہ اگر ان کتابوں میں نہیں ہو تو پھر تمہارے چچا میاں کے پاس ہوگی کیوں کہ ایک لکڑی کا صندوق جس میں کافی پرانی کتابیں تھیں وہ لے گئے تھے ،شاید تمھاری مطلوب کتاب بھی اسی میں ہو ،اور ساتھ ہی فرمایا کہ تم ان کے گھر ہر گز نہ جانا وگر نہ تمہارے والد خفا ہونگے ،کیوں کہ ہم لوگوں کا ان کے گھر آنا جانا نہیں ہے ۔آخر کار میں نے اپنی جستجو جاری رکھی اور گھر کی تمام کتابوں کی صفائی کر کے ترتیب سے آراستہ کر دیں چند ماہ بعد درگاہ شریف میں جناب عبد الستار بھائی میمن سے ملاقات ہوئی دوران گفتگو میں نے اپنی قلبی بے قراری کا اظہار کیا تو جناب عبد الستار بھائی میمن نے فرمایا کہ اس میں فکر کی کوئی بات نہیں اگر آپ کی جستجو سچی ہے تو آپ رات کو خدمت کے بعد مزار شریف پر اپنی درخواست پیش کریں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی درخواست بہت جلد منظور ہوگی ۔

 اسی دوران حضرت باباسید نا قطب عالم شاہ بخاری ؒکا سالانہ عرس ماہ ٢٥ربیع الثانی کو آگیا ،تو راقم نے بے قراری کے عالم میں حضرت کی شان میں ایک منقبت تحریر کر کے دربار عالی میں پیش کی جس کو عقیدت مندوں نے بہت پسند خاطر کیا، اس حوصلہ افزائی کے سبب میں نے حضرت کی شان میں ایک مجموعہ مناقب نیام قطب عالم مرتب کیا جس میں دیگر شعراء کی تحریر کردہ مناقب بھی شامل تھی اس مجموعہ مناقب کو ١٩٨٥ء میں محترم المقام جناب عبد العزیز پٹیل صاحب نے بڑی عقیدت و محبت سے شائع کر کے سالانہ عرس مبارک کے موقع پر عقیدت مند حضرات میں مفت تقسیم کیا اور مجموعہ مناقب کو ارباب سخن نے بڑی قدر و عقیدت سے آنکھوں سے لگایا مگر اس مجموعہ مناقب کی اشاعت کی حوصلہ افزائی نے اور بھی قلمی نسخہ کو حاصل کر نے کی بے قراری میں شدت پیدا کردی اور رات ،دن اسی حسرت دلی میں بسر کرتا رہا کہ ایک روزنماز جمعۃ المبارک ادا کرنے قادری مسجد سولجر بازار کراچی حاضر ہوا ۔نماز کے بعد حضرت قبلہ صاجزادہ عنایت رسول قادری ؒ سے شرف نیاز حاصل ہوا جناب نے کمال شفقت ومحبت سے مجھ ناچیز کو مجموعہ مناقب کی خوبصورت اشاعت پر مبارک بادو حوصلہ افزائی فرمائی تو میں نے عرض کیا کہ یہ سب آپ بزرگان کی دعا کا ثمر ہے اور عرض کیا کہ آپ میرے چچا میاں (قبلہ ابراہیم شاہ مینائی کراچوی) کے ہم مکتب ہیں ،برائے کرم مجھ کو ان کے گھر کا پتہ عنایت فرمادیجئے اس پر فرمایا کہ میں کل ہی ان کی بیمار پرسی کو گیاتھا وہ کافی بیمار ہیں اللہ تعالیٰ انھیں صحت یا بی عطا فرمائے آمین ،بعد مجھ کو پتہ تحریر کر کے عنایت کیا ،پس پھر کیا تھا میں نے جلد ہی اجاز ت لی اور مسجد سے سیدھا چچا میاں کے گھر کی تلاش میں یا وارث الکریم کا ورد کرتے ہوئے دردولت پر حاضر ہوا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی کہ کون صاحب ہیں اس پر میں نے اپنا تعارف عرض کیا تو اندر گھر میں آنے کی اجازت ملی میں گھر میں داخل ہوا تو محترمہ چچی صاحبہ نے اپنا تعارف کرتے ہوئے بڑی شفقت سے پیش آئیں میں نے اول بے قراری سے چچا میاں کا حال پوچھا تو بولیں کہ وہ ڈاکٹر کے پاس گئے ہیں آتے ہی ہونگے پھر میں نے چچی صاحبہ کو اپنے آنے کا مقصد بیان کیا کہ مجھ کو کافی عرصہ سے حضرت بابا قطب عالم شاہ بخاری ؒ کی قلمی سوانح حیات کی تلاش ہے اور گھر پر بھی تلاش کرنے کے باوجود اب تک حاصل نہ ہوئی ، گھر والوں کا خیال ہے کہ وہ آپ کے گھر میں ہے ،اس پر چچی جان بولیں کہ دیکھوں سامنے کمرے میں لوہے کی الماری کے اوپر ایک لکڑی کا صندوق ہے شاید اسی میں ہو دیکھ لو ، بس پھر کیا تھا بے ساختہ کمرے میں داخل ہو کر صندوق اتارا اور دیکھا کہ اس میں دس بارہ کتابیں کچھ قلمی اور شجرے وغیرہ موجود تھے میں نے کتابیں دیکھنی شروع کردیں ابھی دوچار کتابیں قلمی ہی دیکھی تھیں کہ وہ مقصوددلی ہاتھ آہی گئی کہ جس کی تلاش تھی میں نے اس نسخہ کو سینے سے لگا کر تسکین پائی تو خوشی میں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تو چچی صاحبہ نے سینے سے لگاکر خوب ہی شفقت فرمائی اور چائے نوش کرنے کا حکم فرمایا ،ابھی چائے ہاتھوں ہی میں تھی کہ چچا میاں اپنے بڑے صاحبزادے کے ہمراہ تشریف لائے تو چچی صاحبہ نے میرا تعارف کروایا تو چچا میاں بے ساختہ سینے سے لگالیا اور والد والدہ صاحبہ اور گھر والوں کی خیریت سے آگاہی حاصل کی دوران گفتگو میں نے عرض کیا کہ چچا جان اگر یہ نسخہ آپ کے پاس نہ ہوتو شاید جناب کی نیاز ہی حاصل نہ ہوتا،کیوں کہ یہ سب کرم نوازی حضرت بابا قطب عالم شاہ بخاری قدس سرہ کی ہے پھر میں نے چچا میاں سے درخواست کی کہ کیامیں اس نسخہ کو گھر لے جاکر مطالعہ کرلوں یا اس کی فوٹوکاپی کرلوں اس پر قبلہ چچامیاں صاحب نے فرمایا کہ اس نسخہ میں ھمارے خاندان کا شجرہ اور ھمارے دادا بزرگ کی کراچی آمد کا حال بھی تحریر ہے لہذا اس کی حفاظت ضرور کرنا میں نے عرض کی کہ اگرمیں اس نسخہ کوطباعت کرکے شائع کردوں،اس پر فرمایا کہ اول بھائی صاحب (یعنی راقم کے والدبزرگ)سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے کیوں کہ وہ خاندان میں بڑے ہیں اگر ان سے اجازت حاصل کرلی توتم کوان سے اور بھی معلومات حاصل ہوں گی۔تم خوشی سے اس نسخہ کا مطالعہ کرو،پھر تھوڑی دیربعد اجازت حاصل کرکے خوشی خوشی گھر کے بجائے عیدگاہ میدان حضرت مولوی عبدالوارث صاحبؒ کی دوکان پر حاضر ہوا اور قلمی نسخہ کی نقل دیکھی تو مولوی صاحب نے اول اس کو بڑی عقیدت کے ساتھ آنکھوں سے لگالیا اور فرمایا صاحب کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر واحسان ہے کہ اس نے تمھاری دلی حسرت کو شادکام کیا پس اس پر کام شروع کردو اگر کوئی مشکل پیش آئے تو اول اپنے گھر والوں سے وگرنہ مجھ فقیرسے آگاہی حاصل کرنا،اگر مجھ سے بھی مسئلہ حل نہ ہوات توپھررات کوصاحبِ مزار حضرت باباقطب عالم شاہ بخاریؒ سے درخواست کرنا،انشاء اللہ تعالیٰ کوئی مشکل مشکل نہیں رہے گی۔پھر مولوی صاحب کے ہمراہ نماز عشاء کے لیے درگاہ بخاری اولیاء مسجد میں آیا نماز ادا کی اور درگاہ شریف پر سلام فاتحہ خوانی کے بعد عرض کیا کہ حضور آپ میری اس سلسلہ میں روحانی راہ نمائی فرمائیں تاکہ آپ کے مصدق حالات سے مخلوق خداکوآگاہی نصیب ہو غرضیکہ میں دوماہ تک اس قلمی نسخہ کامطالعہ کرتارہا،پھرباقاعدہ اس کی نوک پلک درست کرنا شروع کردی،اور اکثر مقامات پر اپنی سن رسیدہ پھُوپھی اماں جان سے تصدیق کرتارہا آخر کار میں نے اس قلمی نسخہ کواز سر نو مرتب کرکے نسخہ کی تاریخی خصوصیت کے پیش نظر اس قصبے کی قدامت عہد رسالت سے عہد باعہد١٩٤٧ئ؁تک کے تاریخی اقتباسات درجہ بدرجہ تحریرکردیئے ہیں تاکہ موجودہ دور کے تاریخ دان حضرات پر بھی اس قدیم بخاری سَراشہر کراچی کی خدمت دین کی حقانیت آشکار ہوجائے ابھی اقتباسات تحریر کرنے کاکام جاری تھا کہ حضرت قبلہ مولوی عبدالوارث قادری عرف مولابرتن والے ساکن عیدگاہ میدان اور قبلہ چچارحلت فرماگئے۔

خیر کچھ ہی دنوں میں نسخہ کو کتابی صورت میں ترتیب و تدوین کرکے مکمل کردیا،تواول راقم نے حضرت صاحبزادہ عنایت رسول صاحب قادری کی خدمت می پیش کیا،جس کا مطالعہ کرنے کے بعد جناب نے اپنے خیالات تحریر کرکے کرم نوازی فرمائی پھر یہ کتابی نسخہ حضرت مولانا حکیم اکبر درس صاحب کی خدمت میں پیش کیا جناب نے بھی اپنے خیالات کاتحریری اظہارفرمایا۔پھر حضرت مولانا سید منورہ علی شاہ الجیلانی صاحب اور جناب محترم محمد عثمان دموہی نے بھی خاص توجہ سے مطالعہ فرماکر اپنے خیالات کااظہار فرمایا جوکہ کتاب ھذا کے شروع صفحات میں عکس موجود ہے میں اپنے ان کرم فرماحضرات کا دلی مشکور ہوں کہ انھوں نے اپنے خیالات کا اظہارفرماکر اہل کراچی کو مسرور فرمایا۔

میں ناشر جناب عبدالعزیزپٹیل صاحب کا بھی مشکور ہوں کہ جناب نے اس تاریخی کتاب کی طباعت واشاعت فرماکر تاریخ کراچی میں اضافہ فرماکرہرخاص و عام عقیدت مندان اولیاء عظام کومسرورفرمایا۔

آخر میں درخواست ہے کہ ان حضرات کے لئے بھی دعائے مغفرت فرمائیں کہ جنھوں نے اس نسخہ کوکتاب کی صورت میں آشکار کرنے میں جاں فشانی کی۔

طالب دعا

خواجہ فقیردلبرعلی شاہ وارثی کراچوی عفی عنہ

 

 

 

 

 

 

 

شہر کراچی قدامت کے آئینہ میں

محترم قارئین اکرام محققین وتاریخ داں وجغرافیہ داں وماہرین آثار قدیمہ کے شواہد ومشاہدات وبیانات بیان کرنا ازحد ضروری ہیں۔

کیوں کہ فی زمانہ تاریخ مطالعہ وتحقیق کاذوق ہم سے جاتارہاہے،اور پھر اس قدیم بخاری سراپرتاریخی روشنی بھی ازحدضروری ہے کیوں کہ تاریخ دان سند نے اس قدیم اسلامی آثار بخاری سراسے چشم پوشی اختیارکی ہے۔

بقول ڈاکٹرغلام رسول مہر(تاریخ سندھ عہد کلہوڑہ) حصہ ششم (جلد اول) صفحہ نمبر٢ تحریر کرتے ہیں کہ

عہدکلہوڑہ سندھ کی تاریخ کا درخشاں باب ہے مگر ہمارے پاس اس عہد کے متعلق چند افسانوں یا چند نیم افسانوی ،نیم تاریخی داستانوں اور غیر تحقیق حکایتوں کے سوا کون سے اندوختہ تھاکہ جس کی بناپر تاریخ مرتب کرنے کاحوصلہ کسے ہوسکتاتھا اس عہد کے متعلق مورخین کی غفلت شعاری کا اندازہ مشکل نہیں۔

خیر قارئین اکرام اب راقم قدامت کے سفر میں داخل ہوتاہے کیوں کہ اس قدیم قصبے کی تاریخی قدامت کے تاریخ میں بے شمار شواہد موجود ہیں ۔

شہر کراچی کی تاریخی قدامت کو محققین نے سکندر اعظم کی فوجوں کے کراچی بندرگاہ کے قریب قیام کرنے کو کراچی شہر کی تاریخ کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے،مگر بقول ماہرین آثار قدیمہ کراچی شہرکا آغاز سکندر اعظم کے دور سے بھی کہیں ہزاروں سال قبل کاہے جس کا ثبوت کراچی کے قرب وجوار میں کئی مقامات پر کھدائی کے بعد دریافت ہونے والے وہ اہم قدیمی تاریخی آثار ہیں جنھوں نے کراچی شہر کی تاریخ کو سکندر اعظم کے دور سے بھی ہزاروں سال قبل قدامت کا رنگ دے دیا ہے اگر ہم شہر کراچی کے قرب و جوار سے دریافت ہونے والے قدیم تاریخی آثار کی قدامت کے اعتبارسے شہر کراچی قدیم پتھر کے ابتدائی دور سے شروع ہوکر قدیم پتھر کے آخری دور پھر نئے پتھر کے دور اور پھر لوہے اور تانبے کے ادوارسے ہوتاہوا اسلامی دور تک جاپہنچتاہے۔

قارئین اکرام محققین وتاریخ داں و ماہرین آثار قدیمہ کے شواہد ومشاہدات کی روشنی میں اب یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شہر کراچی کے خط کی قدامت قبل از تاریخ کے ادوار سے تعلق رکھتی ہے۔

اور پھر ہندوؤں کی اپنی مذہبی روایت کے مطابق رام لکشمن اور سیتا ماتا نے ہنیگلاج(بلوچستان)جاتے ہوئے (رام بسرام باغ)موجودہ آرام باغ کراچی میں ایک رات قیام کیا تھا۔

وہ ہندمورخین جو رام کو حقیقی کردار مانتے ہیں رام کا زمانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ٢٥٠٠ سال قبل مقرر کرتے ہیں۔

قارئین محترم غور فرمائیں کہ انھیں تاریخی روایتوں سے اس طرح یہ آمد وقیام کا واقعہ اب سے تقریبا ساڑھے چارہزار سال قبل ظہور پذیر ہواہوگا۔دیگر ماہرین آثار قدیمہ نے لیاری ندی کے کنارے قبل مسیح کی ایک تہذیب کے باقیات آثار کاسراغ لگایاتھا اندازہ ہے کہ یہ تہذیب لیاری ندی سے دریائے حب تک پھیلی ہوئی ہوگی،اس تہذیب کے لوگوںنے لیاری ندی کے کنارے وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی زرخیززمینوں کوآبادکیاہوگا۔

بھیرومل مہرچندایڈوانی ،اپنی کتاب (قدیم سندھ)میں بیان کرتاہے کہ''حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے قبل سند ھ میں ململ کا نفیس کپڑا تیارہوتاتھا جودوردراز ممالک کوبرآمد کیاجاتاتھا،مشہورہے کہ قدیم مصر کے لوگ اپنے مردوں کو اسی ململ کاکفن پہناتے تھے''۔

قارئین محترم کراچی کے قرب وجوا ر میں پھیلے ہوئے قدیم آثار اس بات کاواضح ثبوت ہیں کہ کراچی کاخطہ دنیا کے قدیم ترین خطوں میں سے ایک ہے اور یہ کہ کراچی کوہردورمیں مختلف ناموں سے یادکیاگیاہے۔

١۔ککرالہ   ٢۔دیبل   ٣۔دربو   ٤۔کراثیر   ٥۔کراشی

٦۔کرنچی   ٧۔کلاچی چوکن  ٨۔قلاچی   ٩۔خراچی   ١٠۔گرانچرداراجا

١١۔قلاچی جوکنڈ  ١٢۔کراچوجوگوٹھ  ١٣۔کرلاچی  ١٤۔کراچے  ١٥۔کراچی ٹاؤن

محترم قارئین،کراچی شہرکوقدیم زمانے سے ہی مختلف اقوام کے مسکن ہونے کا اعجاز حاصل رہاہے۔کیوں کہ یہاں قدرتی قدیم بندرگاہ کی بدولت قرب وجوار کے لوگوں کے ساتھ بیرونی ممالک کے لوگ بھی بحصول ِ روزگار آتے اور اسی خطہ شہر کے ہوکررہ جاتے،راقم کے خیال کے مطابق کراچی کے مختلف نام ہونے کا سبب مختلف زبانوں کے افراد کاکراچی میں رہائش پذیر ہوجانا اور ان کا اپنی اپنی زبانوں یعنی فارسی ،عربی،سندھی،بلوچی،ایرانی،ہندی، گجراتی،میمنی،مرہٹی، بنگالی،انگریزی،پنجابی،پشتو،مالباری،اردو وغیرمیں گفتگو کرنا اور اپنی اپنی زبانوں میں تلفظ اداکرناشایدکراچی کے مختلف نام ہونے کا سبب ہو۔کراچی کواسلامی عرب دور میں ''دیبل''اور''دربو''کے نام سے یادکیاجاتاتھا۔

سندھ میں اسلامی عہد عرب دور کا آغاز باقاعدہ طورپرمحمد بن قاسم کے سند فتح کرنے سے ہوتا ہے۔جس وقت محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اس وقت دیبل یادربومیں مہاراجہ چچ کا بیٹاراجہ داہر حکومت کرتاتھا۔محققین نے قلعہ بند شہردیبل ،دربوکی فتح کے بیان میں محمد بن قاسم کی آمد وفتح کا حال تحریر کیا ہے کہ وہ مکران سے بیلا،حب ندی،منگھوپیرکے راستے دیبل فتح کرنے آیا اور جنگی سازو سامان وغیرہ سمندری راستے بحری جہازوں کے ذریعہ دیبل لایاتھا۔

قارئین محترم یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ وہ محققین جودیبل کوساحل سمندر پر بیان کرتے ہیں اور دیبل کا جائے وقوع شہر کراچی کے قرب وجوار میں بناتے ہیں ان ہی محققین میں مشہور یورپین تاریخ داں ''مسٹرایلیٹ''بھی شامل ہے جوکراچی شہرکودیبل قراردیتاہے۔

مسٹرایلیٹ کے مطابق دیبل منصور ہ سے چھ منزل کے فاصلے پر واقع تھا یہ چھ منزل کا فاصلہ نہ تو حیدرآبادکابنتاہے اور نہ ہی ٹھٹھہ کابلکہ اس کا سراسراطلاق شہر کراچی پرہی ہوتاہے۔

مزید یہ کہ دیبل بحیرہ عرب کے کنارے ایک قلعہ بند شہر تھا جس محمد بن قاسم نے فتح کیاتھا،اکثر محققین وماہرین آثار قدیمہ کا خیال ومشاہدہ ہے کہ وہ منوڑہ کا جزیرہ تھا جواس وقت ایک قلعہ بند شہردیبل کے نام سے معروف تھا۔

ممتاز تاریخ داں محترمہ محمودہ رضویہ اپنی تصنیف ''ملکہ مشرق''میں کراچی کو دربوبندرثابت کرنے کے لیے مندرجہ ذیل استدلال پیش کرتی ہیں کہ

''بعض مورخین نے دیبل کا نام دربو لکھاہے دراصل عربی زبان میں الدرب یادرب راستے کو کہتے ہیں ،اس لیے عرب سندھ کی جس بندرگاہ میں آئے انھوں نے اسے الدرب یا درب یعنی ہند کا راستہ کہا اور کثرت استعمال سے لفظ درب سے دربو بن گیا۔اور بعض مسلم یورپین مورخین نے اس کی تحقیق کی تصدیق کی ہے جس میں خاص طور پر سے''بوٹانیکل ریسرچ'' نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ

عربی افواج نے دیبل آمد کے وقت جن جن راستوں میں قیام کیا،وہاں کھجوروں کے درخت بھی آباد ہوئے کیوں کہ عربی افواج خوردونوش کے لیے کھجورکثرت سے استعمال کرتے تھے،یہ کھجوروں کے قدیم درخت حب ندی منگھوپیر،ملیر ندی کے اطراف میں ہیں اس دور یعنی ٩٣ھ ؁میں مسلمانوں کی آمد کی یادگار ہیں اور یہی کراچی میں عرب مسلم افواج کی آمد وقیام کی واضح شہادت بھی ہے۔

محمد بن قاسم نے اول دیبل موجودہ کراچی کو ٩٢ھ؁ میں فتح کرکے الور،برہمن آباد ،سپستان،سہوان،ملتان فتح کیے۔ابھی محمد بن قاسم کو سندھ فتح کیے تین ہی برس ہوئے تھے کہ ٩٦ھ ؁ مطابق ٧١٤ئ؁ میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے وفات پائی اور اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک برسراقتدارآیا توا س نے سب سے پہلے محمد بن قاسم کو سندھ کی گورنری سے معزول کرکے عراق طلب کیا اور محمد بن قاسم کی جگہ سند ھ کی گورنری پر یزیدبن ابی کبشہ السکسی کوسندھ روانہ کیا۔

یدبن ابی کبشہ السکسی نے سندھ آتے ہی اول محمد بن قاسم اور کے رفیق مجاہدین کو گرفتار کرکے بغداد روانہ کردیا،جہاں خلفیہ سلیمان بن عبدالمالک نے انھیں قیدخانہ میں بند کرکے قتل کروادیا۔

 غرضیکہ سندھ میں تقریبًا ٣٠ برس بنوامیہ نے حکومت کی بنوامیہ کے دور میں سندھ میں دس گورنر مقرر کئے گئے بنوامیہ کے زوال اقتدار کے بعد بنو عباس بر سر اقتدار آئے ان کی جانب سے بھی سندھ میں ٣١گورنر مقرر ہوئے ۔

 محترمہ قارئین اب راقم عباس عہد خلافت میں داخل ہوتا ہے احس التقاسیم کے مصنف شمس الدین محمد بن بشاری مقدسی تحریر کرتے ہیں کہ

 ''دیبل ساحل سمندر پر اس طرح واقع تھا کہ سمندر کے چڑھاؤ کے وقت سمندری پانی دیبل کے قلعہ کی دیواروں سے ٹکراتا تھا اور اس کے مضافات ساحل سمندر ے اطراف ایک سو گاؤں آباد تھے ''۔

 چچ نامے کے مطابق ''دیبل ایک قلعہ بند شہر تھا اس کے باشندے بہت خوشحال اور متمول تھے اور اس شہر دیبل میں کئی عالی شان عمارتیں تھیں جسمیں سب سے اونچی عمارت ایک مندر تھا ۔جس کا گنبد اس قدر بلند تھا کہ وہ بہت دور سے نظر آتا تھا اور اس گنبد کی چھوٹی پر ایک بہت بڑا ریشمی پرچم لہراتا رہتا تھا ۔

 مندر میں دیبل نامی دیوتا کے مجسمہ کی پوجا ہوتی تھی اور اس میں کثرت سے پجاری ہمہ وقت موجود رہتے تھے اور بے شمار دولت کے نذرانہ پیش ہوتے تھے''۔ اور ''قدیم داستان مہا بھارت میں درویدی کے بیان میں دیول رشی کے سلسلے میں دیبل کا نام آیا ہے ''۔

 محترم قارئین ،چچ نامے اور ہندؤوں کی قدیم مذہبی کتاب مہا بھارت کی روایت سے شہر کراچی کی اقدامت اور بھی قوی تر ہوجاتی ہے ۔

 حضرت امام صاغانی اپنی کتاب (العیاب الکندی)میں دیبل کے بارے میں یوں بیان فرماتے ہیں کہ

 ''دیبل سندھ کے قصبوں میں سے ایک قصبہ ہے جس کی بندر گاہ میں بڑے بڑے بحری جہاز ٹہرتے ہیں ،یہاں کے تمام رہنے والے نیک نیت ہیں ،مگر موجودہ حاکم بد باطن ہے اس کا تعلق بحری ڈاکوؤں سے ہے ،وہ بحری جہازوں کو لوٹ کھسوٹ کے مال میں اپنا حصہ لیتا ہے ۔''

 محمد بن قاسم کی فتح کے بعد دیبل جو ایک طویل عرصے تک دنیا بھر میں ایک خوشحال اور متمول شہر کی حیثیت سے معروف رہا مگر ٢٨٠ھ؁ میں ایک ناگہانی آفت کا شکار ہو کر تباہ وبرباد ہوگیا تھا ۔

 دیبل کی تباہی کے بارے میں عرب کے معروف مورخ ''کامل ابن اثیر''یوں بیان کرتے ہیں کہ

 ''سندھ کے آخری عرب دور کے گورنر عبد اللہ بن عمر ھباری کے زمانے ٢٨٠ھ؁مطابق ٨٩٣ئ؁ میں یہ واقعہ رونما ہوا تھا کہ اس روز دیبل شہر میں مکمل سورج گرہن تھا شام ٤ بجے کے قریب ہر طرف اندھیرا چھا گیا اور اس شدت کی آندھی آئی جو تمام رات چلتی رہی رات کو اس وقت جب دیبل شہر کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں گہری نیند سوئے ہوئے تھے ،تقریباً ایک تہائی رات گزر چکی تھی کہ اچانک ایک خوفناک زلزلہ آیا جس نے پورے شہر کو تہس و نہس کر ڈالا تباہی اس قدر شدید تھی کہ مشکل سے ہی کوئی سو گھر صحیح سلامت بچ سکے ،اس رات زلزلے کے چھ زبر دست جھٹکے محسوس کئے گئے جو لاشیں ملبے کے نیچے سے نکالی گئیں ان کی تعداد ایک لاکھ تھی اور جو زخمی ہوئے یا بچ گئے ان کی تعداد اس کے علاوہ تھی ۔''

 حضرت علامہ سیوطی ؒ اپنی تصنیف ''تاریخ خلفاء ''میں دیبل شہر کی تباہی کا مختصرًا حال ہوں تحریر کرتے ہیں کہ :

 ''خلیفہ معقصد باللہ کے زمانے میں ایک قاصد نے دربار میں اطلاع پہنچائی ،اس وقت سندھ دمشق کے ماتحت تھا ،اس وقت سندھ پر اہل سمہ کا قبضہ ہوگیا تھا ''۔شاید اسی زلزلے کے سبب دیبل کہیں جزیروں یعنی منوڑہ بابا بھٹ،کیماڑی ،کلفٹن ،گزری وغیرہ میں تقسیم ہوگئے ہونگے ۔

 کیونکہ انگریز کے دور میں قیام پاکستان سے قبل ان جزیروں ،کلفٹن ،گزری وغیرہ کو ایک دوسرے سے ملادیا گیا تھا ،جب کہ کیماڑی بندر گاہ کو نیپیئر مول برج کے ذریعے کراچی شہر سے ملادیا گیا تھا ۔

 قارئین محترم ،کراچی کے حوالے سے حضرت سید عبد اللہ الاشترالمعروف بابا عبد اللہ شاہ غازی ؒ کا ذکر آمدو شہادت کا حال بھی تحریر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں ،کیونکہ آپ ؒ کی آمد و شہادت عہد بنو عباسیہ میں خلیفہ المنصور عباسی کے دور ١٣٩ھ؁ میں سندھ میں ہوئی ہے ،آپ ؒ ہی پہلے امام زادہ سادات الحسنی ہیں جو سندھ میں وارد ہوئے ،آپ کی شاہدت ١٥١ھ؁ کراچی سادات الحسنی ہیں جو سندھ میں وارد ہوئے ،آپ کی شہادت ١٥١ھ؁ کراچی میں ساحلی سمندر موجودہ کلفٹن میں ہوئی تھی آپ کا نسب پدری پانچ واسطے اوپر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے ۔

 حضرت سید عبد اللہ الاشتر المعروف سید بابا عبد لالہ شاہ غازی ؒ ابن حضرت سید محمد نفس ذکیہ ؓ ابن حضرت سید عبد اللہ مخص ؓ ابن حضرت سید امام حسن مثنیٰ ؓابن حضرت سید امام حسن ابن حضرت سیدنا حید کرار علی کرم اللہ وجہہ۔

 حضرت علامہ ابن اثیر تاریخ الکامل جلد پنجم صفحہ نمبر ٣٠ پر تحریر کرتے ہیں کہ ''حضرت سید عبد اللہ الاشتر ''المعروف سید بابا عبد اللہ شاہ غازی ؒ کی سندھ میں آمد خلیفہ منصور عباسی کے دور میں ہوئی جبکہ خلیفہ منصور عباسی کا آغاز خلافت ١٣٧ھ؁ مطابق ٧٥٤ئ؁ ہے ،پھر ہجری مطابق ١٤٦ئ؁میں بغداد شہر میں آقامت اختیار کی پھر ١٥٧ھ؁ مطابق ٧٧٤ئ؁ میں وفات پائی اور خلیفہ منصور عباسی کے دور خلافت میں آپ ؒ حضرت سید عبد اللہ الاشتر کے والد بزرگگ حضرت سید محمد نفس ذکیہؓ نے ١٣٨ھ میں عباسیوں کے ظلم و ستم کے خلاف باقاعدہ مدینہ منورہ سے تحریک کا آغاز کیا ،آپ ؓ کی اس تحریک میں حضرت امام ابو حنیفہ ؓ ''متوفی ١٥٠ھ؁'' وحضرت امام محمد مالک ؓ ''متوفی ١٧٩ھ؁ نے بھر پور ساتھ دیا تھا ۔جس پر عباسی گورنر نے حضرت امام محمد مالک ؓ کو عباسی خلافت کے خلاف آواز بلند کر نے کے جرم میں کوڑے بھی لگوائے تھے ،غرضیکہ حضرت سید محمد نفس ذکیہ ؓ نے تحریک کے سلسلہ میں اپنی بھائی حضرت ابو الحسن سید ابراہیم ؓ کو بصرہ روانہ کیا اور اپنے صاحبزادے حضرت سید عبد اللہ الاشترؒ المعروف عبد اللہ شاہ غازی ؒ کو سندھ روانہ کیا تھا ۔

 تاریخ ابن اثیر اور تاریخ ابن خلدون کے بیان کے مطابق ''آپ ؒ کو والد بزرگ نے عباسیوں کے ظلم وستم کے خلاف تحریک کے سلسلہ میں بحیثیت نقیب سندھ روانہ کیا تھا ،''لیکن حضرت میاں شاہ مانا قادری ؒ کے بیان کے مطابق آپ ؒ نے تحریک سے زیادہ دین اسلام کی تبلیغ وروحانی تعلیمات کی خاطر سندھ میں کام کیا اور بارہ سال تک سندھ میں قیام فرما کر ہزاروں غیر مسلم افراد کو داخل اسلام کیا اور بے شمار مسلمانوں کو روحانی تعلیمات سے فیضیاب فرمایا ۔''(اولیاء سندھ)

 محترم قارئین ،اگر ہم آپ ؒ کے سندھ آمد ١٣٩ھ؁ میں ١٢ جمع کریں تو آپ کی شہادت کا سن ١٥١ھ؁ بر آمد ہوتا ہے ۔دیگر یہ کہ ٢٩٥ھ؁ بمطابق ٩٠٧ئ؁ میں حضرت سیدنا بدیع الدین زندہ شاہ مدار ؒ کی کراچی آمد کا حال بھی قلمی نسخہ اور دیگر سوانح میں عیاں ہے کہ آپ ؒ کر بلا سے براستہ ایران کوئٹہ (بلوچستان ) کراچی وارد ہوئے اور رتن نامی دیونی کو زیر کر کے زمین میں بھسم کر دیا جہاں بعد میں ہندؤوں نے مندر تعمیر کردیا تھا جس کے آثار اب بھی اکبر روڈ، صدر کراچی میں موجود ہیں ۔اور جہاں آپ سیدنا بدیع الدین زندہ شاہ مدار ؒ نے قیام کیا تھا وہ چلہ گاہ آج بھی اکبر روڈ صدر کراچی میں موجود ہے ۔(مدار اعظم نمبر)اور حضرت مخدوم جلال حسین جہاں جہانگشت اوپتی ؒنے بھی ٹھٹہ جاتے وقت ایک شب آپ ؒ کے چلہ گاہ میں گزاری تھی ۔

 دیگر یہ کہ اگر ہم شہر کراچی کے شمال و مغرب کی جانب توجہ کریں تو ہم کو سلسلہ چشتیہ کی وہ روحانی شخصیت نظر آتی ہیں جو اس خطہ کراچی میں سب سے پہلے تشریف لائے وہ ہیں حضرت حاجی سخی منگھو پیر سلطان ؒ المعروف بابا منگھو پیر ؒ کی ذات بابرکت نے ٦٦٨ھ؁ میں مطابق١٢٧٠ئ؁ میں وصال فرمایا حضرت حاجی سخی منگھو پیر سلطان ؒ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر قدس سرہ ''متوفی ٦٦٤ھ؁ کے مرید کامل و اکمل خلفاء میں آخری روشن چراغ ہیں ۔

 آپ ؒ حضرت منگھوپیر ؒ اپنے پیرو مرشد شیخ فرید الدین شکر گنج قدس سرہ کے حکم سے کراچی کے اطراف (بستی)موجودہ منگھوپیر میں دعوت حق کیلئے تشریف لائے جہاں آپ نے بے شمار افراد کو داخل اسلام کر کے سلسلہ طریقت عالیہ چشتیہ میں شامل کیا اور خوب ہی دینی وروحانی فیضان سے فیض یاب کیا آپ ؒ نے بستی کی اس مسجد میں قیام فرمایا جو فاتح سندھ محمد بن قاسم کی آمد سندھ کی اول یادگار ہے جو تا حال بھی آپ کے مقبرہ کے ہمراہ آباد ہے ۔

 جناب مرزا شیر علی قانع ٹھٹھوی ؒ اپنی تصنیف ''تحفۃ الکرام ''میں حضرت منگھو پیر ؒ اور خطہ منگھو پیرؒ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ

 ''حضرت حاجی سخی سلطان منگھو پیر ؒ حضرت شیخ الاسلام بابا فرید الدین مسعود گنج شکر قدس سرہ کے مرید خاص وخیلفہ ء مجاز چشتیہ تھے ،آپ منگھو پیر ؒ نے ٨ذی الحجہ ٦٦٨ھ؁ بمطابق ١٢٧٠ئ؁ میں وصال فرمایا ۔

 آپ کے مریدین وعقیدت مندوں نے آپ کو فاتحہ سندھ محمد بن قاسم کی یاد گار مسجد کے جنوبی صحن میں تدفین کیا آپ کے مزار مبارک پر ہمہ وقت زائرین کی حاضری کا سلسلہ صبح تا شام جاری رہتا ہے ۔''

کمانڈر کا ریس بیان کرتا ہے کہ

 ''یہ قدیم علاقہ منگھو پیر ؒ شہر کراچی سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر شمال کی سمت واقع ہے اس علاقہ کو١٩٢٧ئ؁سے قبل ہی بر طانوی دور حکومت میں پکی سڑک کے ذریعے شہر سے ملادیاتھا،یہ مقام ہمیشہ سرسبزوشاداب رہاہے،اس خطہ کی شہرت کی اصل وجہ یہاں واقع حضرت سخی حاجی منگھوپیر سلطان پیرؒکامقبرہ ہے مقبرہ پر ہمیشہ زائرین کاتانتابندھارہتاہے منگھوپیرؒکے علاقے میں دو چشمے پانی کے جاری ہیں ان میں سے ایک گرم پانی کا اور دوسرا ٹھنڈے پانی کا چشمہ جاری ہے ،گرم پانی کے چشمے میں غسل کرنے سے نہ صرف جلدی بیماری دور ہوجاتی ہے بلکہ جذام اور گردے کی بیماری کا بھی خاتمہ ہوجاتاہے۔مزار مبارک کے قریب ایک پانی کا تالاب بھی واقع ہے،جس میں کئی مگرمچھ موجود ہیں ،مزار مبارک پر منت مانگنے والے ان مگرمچھوں کے لیے بکرے لے کر آتے ہیں جنھیں یہ ذرا سی دیر میں ہڑپ کرجاتے ہیں۔''

کچھ محققین کا خیال ہے کہ محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے قبل یہ علاقہ (منگھوپیر)شہری آبادی ہوگا۔جوبعد میں کسی حادثے کا شکار ہوکر تباہ وبرباد ہوگیاہوگا۔

قارئین محترم قدامت کے اس سفر میں اب راقم ترخانی دور پھر مغل دور کی جانب تاریخی مطالعہ پیش کرتاہے۔

ڈاکٹرمحمود الحسن اپنی تصنیف میں ترخان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں کہ ''امیر تیمور نے اپنے کئی امراء کو ان کی بہادری اور غیر معمولی کارناموںپرترخانکے خطاب سے نوازاتھا۔''

سندھ میں ترخانی اول حکمران مرزاعیسیٰ ترخانی تھا،سندھ میں ترخانی دورحکومت ٣٨برس رہے۔جس کا آخری حکمران مرزا جانی بیگ ترخانی تھا ۔ترخانوں کا ابتدائی دور انتہائی شاندار اور امن و آتشی کاامین تھا مگر بعد کے ترخانی حکمرانوں کارویہ عوام کے ساتھ قطعی غیر ہمدردانہ اور آمرانہ تھا۔''

ہمیں ترخانی دور میں کراچی کی اس قدیم بندرگاہ بحیرہ عرب کے کنارے کیماڑی کاسولہویں صدی عیسوی میں بھی موجودگی کاحال تصنیف (المحیط)سے ہوتاہے۔یہ تصنیف ترکی جہازداں کیپٹن سعید علی نے برصغیر میں بندرگاہوں کی تحقیقات(المحیط)کے نام سے عربی زبان میں مرتب کی تھی،جس کا بعد میں انگریزی میں ترجمہ مسٹربیرون جوزف دان ہمیرنے کیا تھا۔

 غرض یہ کہ آخری ترخانی حکمراں مرزا جانی بیگ کے دور میں شہنشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے نامور سپہ سالار میاں عبدالرحیم خان خانان کوسندھ کی تسخیر کے لیے دہلی سے ١٥٧٠ئ؁میں روانہ کیا ،جہاں مرزا جانی بیگ اور خان خانان کی فوجوں میں نصر پورکے قریب گھمسان کی جنگ ہوئی اور سندھ کی فتح خان خانان کا مقدر ہوئی،پھر خان خانان نے ٹھٹھہ کے اطراف کی خوب سیر کی اور اس سیر میں خان خانان نے مرزا جانی بیگ کے ہمراہ لاری بندر سے جنوب کی سمت بحری سفر کرکے جزیرہ (من ہارا)گئے تھے،یعنی جزیرہ ئ منوڑہ کی سیرکی تھی جہاں وہ ایک دن ورات قیام و سیر کرکے واپس لاری بند آئے تھے۔خان خانان دولت خان لودھی کو سندھ کا گورنرمقررکرکے واپس مغلیہ سلطنت دہلی کی جانب روانہ ہوا''۔

 ڈاکٹر عظیم الشان حیدر اپنے تحقیقاتی مقالے (ہسٹری آف کراچی )میں تحریر کرتے ہیں کہ ''خان خانان نے جس (من ہارا)جزیرے کی سیر کی تھی اسے مصنفین نے موجودہ جزیرہ منوڑہ کراچی قرار دیاہے''۔

دیگر یہ کہ ''کاریس ''اور ''ہیڈ''نے ١٨٣٦ئ؁ اور ١٨٣٧ئ؁ میں بالترتیب دریائے سندھ کے ڈیلٹاکاسروے کیاتھا۔

خان خانان کے دورہ کردہ جزیرے کو(مونارا)لکھا ہے جو کہ دریائے سندھ کے دہانے کے نزدیک واقع ہے ۔

 محترم قارئین، اب راقم اپنے اصل مضمون حضرت بابا سیدناقطب عالم سیدعبدالوہاب علم شاہ بخاری قدس سرہ کی (دربوبندرسندھ)یعنی موجودہ کیماڑی بندرگاہ کراچی آمد ١٠٢٥ھ؁ مطابق ١٦١٦ئ؁بعہد نورالدین جہانگیر،ہندوؤں کی قدیم عبادت گاہ (رام بسرام سیج شالہ باغ)یعنی موجودہ آرام باغ کراچی کاتاریخی پس منظر قلمی نسخہ بنام جمال قطبِ عالم کی روشنی میں پیش خدمت کرتاہوں،جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرتاآیا ہوں کہ ایک مسلم درویش کے ہاتھوں ہندوؤں کی اس عبادت گاہ کوفتح کرنے کے حقیقی واقعہ سے چشم پوشی اختیار کی گئی ہے،محترم قارئین اس چشم پوشی کی وجہ راقم کے خیال میں یہ ہوسکتی ہے کہ سلطنتِ مغلیہ کے تخت و تاج کے لیے اس وقت نئی نئی سیاست بازی کابازار گرم تھا تو دوسری جانب سلطنت مغلیہ سے دور ریاستوں میں نواب حضرات نے اپنی اپنی چھوٹی ریاستوں میں اپنی خودمختار حکومت کرنی شروع کردی تھی اورپھر مغلیہ سلطنت کی جانب سے اس دور میں جو گورنر مقررہوتے تھے وہ ریاستوں کے مرکز میں قیام پذیر ہوتا تھا کیوں کہ اس وقت ٹھٹھہ سندھ کا مرکزی شہر تھا شاید اس کو شہر اور زرخیز قصبات سے ہی فرصت نہ ہویااس کو اپنی مغلیہ سلطنت یعنی مرکز کی تخت وتاج کی سیاست بازی کی فکرہو اوروہ اطراف سندھ اور پھراس ویراں حال قصبہ کی جانب توجہ کیسے کرتا اور اس دور کے تاریخ داں کو بھی شہروں اور مرکزکا حال تحریر کرنے سے ہی فرصت نہ ہوگی۔

جب کہ ہندوتاریخ داں نے اپنی اس عبادت گاہ(رام بسرام شیج شالہ)کاحال توضرور تحریرکیامگرایک مسلم درویش کے ہاتھوں اس کی فتح کاحال شیاد اس لیے تحریر نہیں کیا کہ تاریخ سندھ میں ہندومت کا مذاق نہ بنے۔

 خیر جوبھی ہو،مگرحقیقت ہے،ایک نہ ایک دن ضرور ظاہرہوجاتی ہے چشم پوشی کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیوں کہ یہ نظام قدرت ہے کہ آپ جس چیز یاجس حقیقت کوجس قدر پوشیدہ رکھیں گے وہ ایک نہ ایک دن ضرور ظاہرو عیاں ہوجائے گی۔جیسا کہ آج سے تین صدی قبل کی حقیقتِ حال آج اس قلمی نسخہ بنام جمال قطب عالم سے عیاں ہورہی ہے۔

قارئین محترم!آج سے تین صدی قبل بخار ی سرامیں اطراف سندھ وہندسے حجاز مقدس جانے والے مسلمان زائرین اس بخاری سرامیں آتے اور قیام کرتے،بخاری سرا قیام کے ساتھ ساتھ طعام ودرس دینی وروحانی سے بھی آراستہ تھی۔

کلہوڑہ دور میں بخاری سرا پر ایک طائرانہ نظرکہ بخاری سراکارقبہ مغربی سمت موجودہ نرسنگ میس سول ہسپتال مینشن روڈ سے حقانی چوک تک مغرب سے مشرقی سمت نرسنگ میس سول ہسپتال سے جوبلی سینما تک اور مغرب حقانی چوک سے سعید منزل ایم اے جناح روڈ تک۔یہ بخاری سرا کھجوروں کے درختوں کی فصیل سے آراستہ تھی۔(نقشہ)

بخاری سرا میں بے شمار افراد اندرون سندھ وہند وپنجاب سے آتے اور قیام کرکے دینی وروحانی تعلیمات کافیضان بھی حاصل کرتے اور حجاز مقدس کو روانہ ہوجاتے پھر واپسی بھی بخاری سرامیں آتے اور قیام کرتے پھراپنے گھروں کوروانہ ہوجاتے۔

قارئین محترم جیسا کہ راقم کراچی کی قدامت میں ذکر کرآیا ہے کہ کراچی سندھ کاقدیم حصہ ہے یہ ١٦٩٧ئ؁ سے ١٧٥٧ئ؁ تک پھر١٧٨١ئ؁ سے ١٧٨٤ئ؁ تک والی قلات(بلوچستان)کے قصبے میں رہا۔غرض یہ کہ ١٧٢٩ئ؁ میں کراچی قصبہ والی قلات میرعبداللہ خان قلاتی کے زیرنگرانی میں تھا کہ ١٧٢٩ئ؁ میں قصبہ کراچی بخاری سرا کے اطراف گزری ،کورنگی،لانڈھی،ملیرندی،منگھوپیر،کھڈ(لیاری)میں ماہی گیروں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں۔مگر اسے پہلے ٢٨٠ھ؁ میں قدیم دیبل شہر بندرگاہ یعنی موجودہ کیماڑی بندرگاہ زلزلہ سے تباہ ہوگئی تھی۔پھر ٨ صدی بعد پھر زلزلہ سے تباہ ہوگئی تھی مگر ١٧٢٩ئ؁ مطابق ١١٤١ھ؁ میں کھڑک بندر سے ہجرت کرکے آنے والے ہندوتاجروں میں ممتاز تاجر سیٹھ بھوج مل کی سرپرستی میں ساحل سمندر موجودہ میٹھا در اور کھارادر کے نام سے از سر نوشہر آباد کرکے فصیل شہر تعمیرکروائی ،فصیل شہر ٣٥ایکڑعلاقہ میٹھا در اور کھارادر پر محیط تھی اس فصیل شہرکے دودروازے تھے،مغربی سمندری سمت دروازے کا نام کھارا در یعنی سمندر کے کھارا پانی ہونے کی نسبت رکھا اور دوسرے دروازہ کانام میٹھا در رکھا یعنی یہ درواز شمال مشرقی سمت لیاری ندی کے میٹھے پانی کی نسبت رکھا۔کیوں کہ زمانہ قدیم میں ملیر ندی سے لیاری ندی میں میٹھا پانی جاری تھا۔

محترم قارئین ١٧٢٩ئ؁ مطابق ١١٤١ھ ؁ میں از سر نو کراچی شہر آبادہونے کے سبب یہ قدیمی بندرگاہ پھر سے برصغیر میں ملکہ مشرق کے نام سے(موجودہ کیماڑی بندرگاہ )معروف ہوئی۔

فصیل شہر میں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور باہر اطراف میں غریب ہندوؤں اور مسلمان مچھیرے چھوٹی چھوٹی بستیوں میں آباد تھے۔

 مگر جیسے جیسے بندرگاہ ترقی کرتی رہی اور اندرون سندھ وہند سے ہندو اور مسلمان بحصول ِ روزگار آتے گئے اور آباد ہوتے گئے ۔فی زمانہ کیماڑی بندرگا وشہر کرچی دنیا کی دیگر ممالک کے مقابلہ میں ذرا ترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی عوام کے لئے بحصول روزگار کافیضان قدرت کا ثمرہے۔

اس زمانہ میں کراچنی بندرگاہ کی ترقی کے پیش نظر ایک وسیع قافلہ مال سرائے بھی بندرگاہ کے قریب موجود ریلوے سٹی اسٹیشن کے بالمقابل موجودہ سندھ مدرسہ کی جگہ بنائی گئی تھی جس میں تجارتی مال حفاظت سے رکھنے اور مسافر تاجروں کے قیام کرنے کا بھی انتظام کیا گیا تھا اور کچھ ہی عرصہ میں یہ قافلہ مال سرائے ایک تجارتی منڈی بن گئی تھی۔

ہندوؤں کے اس قافلہ مال سرائے کے قائم ہونے سے قدیم بخاری سرا پر کوئی فرق نہیں آیاتھا کیوں کہ بخاری سرا میں قیام و طعام کے لیے کوئی ٹیکس وغیرہ وصول نہیں کیاجاتاتھا جبکہ ہندوؤں کے اس قافلہ سرائے میں ہرآنے و جانے وقیام کرنے والے تاجروں سے ٹیکس وصول کیا جاتاتھا۔

بعد انقلاب زمانہ قافلہ مال سرائے کی جگہ١٨٩٠ئ؁ میں سندھ مدرسہ اسلامیہ تعمیر ہوگیا مگر بخاری سرا سے آج بھی بے سہارا لوگ اور تشنگان راہ معرفت کے لیے فیضان جاری و ساری ہے۔

قارئین محترم اب راقم ٹالپوروں کے دورمیں کراچی کی اس قدیم بخاری سراکا تاریخی پس منظر پیش کرتا ہے۔

سندھ میں کلہوڑہ دور کے آخری حکمران میاں عبدالنبی کلہوڑہ نے ١١٩٤ھ؁ بمطابق١٧٨٠ئ؁ میں ٹالپور قبیلہ کے سردارمیربجارخان ٹالپورکوقتل کردیا اور میاں عبدالنبی کلہوڑہ ،ٹالپوروں کے خوف سے سندھ کی حکمرانی چھوڑ کر قلات فرار ہوگیاتھا اور والی قلات سے فوجی مدد حاصل کرکے واپس سندھ میں ٹالپوروں کوزیرکرنے حملہ آور ہوا۔

 ٹالپوروں نے ہر چند اپنی سابق وفاداری کی نسبت میاں عبدالنبی کلہوڑہ کو سندھ واپس آکر اپنی آبائی حکمرانی قبول کرنے کی دعوت دی اور وہ بھی ٹالپوروں کی وفاداری پر حسب سابق یقین کرکے سندھ واپس آنا چاہتا تھا مگر اس کے خود غرض احباب نے اسے ٹالپوروں سے ہراساں کیا کہ اگر آپ بغیر فوج کے سندھ گئے تو ٹالپورآپ کو اپنے سردار میر بجارخان ٹالپور کے قتل کے بدلہ آپ کوقتل کردیں گے۔

بس میاں عبد النبی کلہوڑہ ،ٹالپوروں کو زیر کرنے قلاتی افواج کے ساتھ ٹالپوروں پر حملہ آور ہو ا۔ٹالپوروں نے میاں عبد النبی کلہوڑہ کو شکست دی اور میاں عبد النبی کلہوڑہ اس حملہ میں شکست کھا کر واپس قلات روانہ ہوا ،اس حملہ میں میاں عبد النبی کلہوڑہ کے ساتھ والی قلات کا داماد میر رزق خان بروہی ٹالپوروں کے ہاتھوں قتل ہوا ۔

غرضیکہ جب میاں عبد النبی کلہوڑہ ٹالپوروں کے ہاتھوں سندھ سے شکست کھا کر واپس قلات پہنچا تو والی قلات نے اپنے داماد میر رزق خان بر وہی کے خون بہا میں کراچی بندر گاہ واپس حاصل کر لی تھی ۔

 سندھ کلہوڑۃ دو ١٦٩٩ئ؁ میں محمد یار کہوڑہ سے شروع ہو کر میاں فقیر صدیق علی خان کلہوڑہ ١٧٨١ئ؁ میں خاتمہ ہوا ۔پھر سندھ کی عوام نے ١٧٨٢ئ؁ میں باقاعدہ یمر فتح علی خان ٹالپور کو سندھ کا حاکم مقرر کیا یعنی ١٧٨٢ئ؁ میں باقاعدہ یمر فتح علی خان ٹالپور کو سندھمیں ٹالپور عہد حکمرانی شروع ہوا ،اور میر نصیر خان ٹالپور ١٨٤٣ئ؁ میں خاتمہ ہوا۔

 قارئی ن محترم !میر فتح علی خان ٹالپور نے بر سراقتدار آتے ہی والی قلات سے کراچی بندرگاہ واپس حاصل کر کے سندھ میں شامل کر لیا اور شہر کراچی و بندرگاہ کی ترقی وحفاظت کے لئے انتظامات کیلئے اور خاصکر بندرگاہ کی حفاظت کے لئے جزیرہ منوڑہ میں ایک قلعہ ١٧٩٧ئ؁ میں تعمیر کر وایا ،جسمیں ہمہ وقت فوجی متعین رہتے تھے اور ایک گورنر اور دوسرا گورنر شہر میں بھی انتظامات کے لئے مقرر کیا ۔ٹالپور دور میں بندر گاہ کی حفاظت کے لئے کافی ہوا ۔یہ دور شہر و عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کافی اچھا ثابت ہوا جسمیں شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کو اولیت حاصل تھی ۔

میر فتح علی خان ٹالپور کے کراچی بندر گاہ حاصل کرنے کے سلسلہ میں ناومل ہوت چند اپنی یاداشت میں یوں تحریر کرتا ہے کہ

میر فتح علی خان ٹالپور والی سندھ نے شہر کراچی بندرگاہ کو میر قلات سے واپس حاصل کرنے کے لئے اول ١٧٩٢ئ؁ میں پندرہ ہزار بلوچوں پر مشتمل ایک لشکر جرار اپنے مشہور جرنیل میاں فقرو کی سر براہی میں حیدر آباد سندھ سے کراچی فتح کرنے روانہ کیا اس لشکر نے کراچی پہنچ کر لیاری ندی کے کنارے پڑاؤ کیا اور دوسرے دن شہر کراچی جو کہ میٹھا در اور کھارا در جو دو محلوں پر مشتمل فصیل بند شہر تھے کا محاصرہ کیا یہ ٹالپوری افواج ٢ماہ تک محاصرہ کر کے واپس نا کام حیدر آباد روانہ ہوگئیں ۔

پھر ١٧٩٣ء میں میر فتح علی خان ٹالپور نے دوبارہ کراچی حاصل کرنے کے لئے ٹالپوری بلوچ افواج روانہ کی یہ بھی دو ماہ شہر کراچی کا محاصرہ کر کے ناکام واپس ہوئی ۔

 پھر ١٧٩٤ئ؁ میں والی سندھ میر فتح علی خان ٹالپور نے اپنے برادر میر کرم علی خان ٹالپور کی سر پرستی میں ایک لشکر جرار حیدر آباد سندھ سے روانہ کیا ۔جہاں میر کرام علی خان ٹالپور نے اپنی افواج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ،فوج کے اول حصے کو لیاری ندی کے کنارے پڑاؤ کرکے شہر پر گولہ باری کرنے کا حکم دیا اور دوسرے فوجی حصے کو قدیم بخاری سرا میں پڑاو کا حکم دیا میر کرم علی خان ٹالپور دن دن کو لیاری ندی کے کنارے فوج کے اول دستے کی کمان کرتا اور شب کو بخاری سرا میں قیام کر کے عبادت الٰہی میں بسر کرتا تھا ۔

ابھی شہر کراچی کا محاصرہ جاری تھا اور دونوں طرف سے گولہ باری جاری تھی کہ ایک دن نماز فجر کے بعد جب میر کرم علی خان ٹالپور حسب معمول لیاری ندی روانہ ہونے کے لئے تیار تھا کہ بخاری سرا کے مسند نشین خادم دادا خیر محمد پیر نے میر صاحب کو ان کے ہاتھوں کراچی شہر فتح ہونے کی خوشخبری سنائی۔

جب میر کرم علی خان لیاری ندی پہنچا تو حالات کے پیش نظر میر صاحب نے شہر کراچی کے سر کردہ ہندو سیٹھ بھوج مل کے بیٹے دریا نومل کے نام ایک خط روانہ کیا ۔

سیٹھ دریانومل نے میر صاحب کا خط پاکر والی قلات کو خط تحریر کیا تو والی قلات نے سیٹھ دریا نومل کو جوابی خط میں تحریر کیا کہ

 ''میں اس وقت کسی جنگ کا متحمل نہیں اگر آپ لوگ ٹالپوروں سے کراچی بندر گاہ بچالیں اور اگر آپ لوگ کراچی بندرگاہ ٹالپوروں سے بچانے میں ناکام ہوگئے تو آپ لوگوں پر کسی قسم کا الزام عائد نہیں کیا جائے گا ۔''

سیٹھ دریا نومل نے جب والی قلات کا جوابی خط پایا تو شہر سے ٹالپوروں پر گولہ باری بند کرنے کا حکم دیا ۔

اور چند شرائط میر کرم علی خان ٹالپور کو تحریر کر کے روانہ کیں جس کو میر صاحب نے منظور فرماکر محاصرہ ختم کرنے کا حکم دیا پھر سیٹھ دریا نومل نے میر صاحب کا حکم پاکر اپنے دادا کے بھائی بلرام داس (فی ١٨١١ئ؁ )اور چند ہندؤں سیٹھوں کو اپنے ہمراہ لیکر میر صاحب کی خدمت میں حاضرہ ہوا۔

میر صاحب اس وقت بخاری سرا میں قیام پذیر تھے کے سیٹھ دریانومل (فی ١٨٢٥ئ) نے شہر کراچی کی چابیاں پیش کی ۔

خادم بخاری سراحضرت دادا خیر محمد پیر ؒ (قلمی نسخہ جمال قطاب عالم میں نقل کرتے ہیں )کہ

جس وقت سیٹھ دریا نومل اور سیٹھ بلرام داس اور چند ہندؤلوگ بخاری سرا میں میر کرم علی خان ٹالپور کو شہر کراچی کی چابیاں پیش کرنے حاضر ہوئے تو میر صاحب نے ان کا استقبال کیا اور بڑی عزت دی ۔

 جب سیٹھ دریا نومل نے شہر کی چابیاں میں صاحب کو پیش کیں تو میر صاحب نے چابیاں درگاہ شریف کی چوکھٹ پر رکھ کر ساتھ ہی قدیم بخاری سرا اولیاء مسجد میں دو نفل شکرانے کے ادا کئے اور مزار مبارک پر حاضری دی بعد مجھ میرے والد (حضرت دادا غلام احمد ) کو حکم دیا کہ فوج کے سامان رست میں سے غریب مسکینوں کیلئے لنگر تیار کرو جہاں شام تک خوب لنگر تقسیم ہوتا رہا ۔

 دوسرے دن سیٹھ دریا نومل نے بھی اپنی جانب سے بخاری سرا میں حاضری کے بعد غریب و مسکینوں میں گیہوں اور کپڑا تقسیم کیا اور میر صاحب سے گفتگو میں مصروف ہوگئے کیونکہ میر صاحب اور سیٹح دریا نومل میں پرانی دوستی تھی یہ واقعہ ١٧٩٤ئ؁ مطابق ١٢٠٩ھ؁ میں ظہور ہوا تھا ۔

 غرضیکہ ٹالپوروں کو شہر کراچی بندرگاہ حضرت شیخ الشیوخ عالم قطب دربو بندر مملک سندھ کے روحانی فیوض وبرکات کی بدولت حاصل ہوا تھا کیونکہ اس سے پہلے دو مرتبہ ٹالپور قصہ بندر سندھ کراچی حاصل کرنے میں ناکام ہوکر واپس حیدر آباد چلے گئے تھے ۔مگر اس مرتبہ میر صاحب نے بخاری سرا میں راتوں کو عبادت الٰہی میں بسر کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں تو اللہ تعالیٰ نے بخاری سرا کے فیوض وبرکات کے طفیل ٹالپوروں کو فتح مقدر کی ۔''

حضرت دادا خیر محمد پیر ؒ بیان نقل کرتے ہیں کہ

''بعہد کلہوڑۃ اور بعہد ٹالپور میران حکمران بخاری سرا میں اشیاء خورونوش و نقد نذر انے بے پیش کرتے تھے اور والی قلات بھی غلہ ونقد غذا پیش کرتے تھے ۔ٹالپوروں کے دو ١٨٠٩ئ؁ میں شہر کراچی کی آبادی ٣٥٠٠ہزار افراد پر مشتمل شہری آبادی ہوگئی تھی اور اطراف چھوٹی چھوٹی بستیوں اس کے علاوہ تھی۔

کیونکہ کیماڑی بندر گاہ کی ترقی کے سبب دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگ بلامذہب وملت بحصول روز گار آتے رہے اور شہرو اطراف بستیوں میں آباد ہوتے گئے ۔''

حضرت خادم دادا تاج محمد پیر ؒ بیان کرتے ہیں کہ

''ٹالپور حکمران سندھ کی طر فےس برابر نذرانہ خورد و نوش ونقدی بخاری سرا میں سالانہ پیش ہوتا تھا مگر نائب حاکم کراچے علی رکھا کے کراچی سے جانے کے بعد سے بند ہوگیا مگر ٹالپور رئیس صاحبان جب بھی کراچی آتے ہیں تو وہ ازخود ہی نذرو غیرہ کر جاتے ہیں ۔''

 قارئین محترم ٹالپور دور میں کراچی کی ترقی کا باقاعدہ آغاز ہوا تو کراچی شہر کی آبادی میں بھی خوب اضافہ ہوتا گیا اور قدیم شہر میٹھا در اور کھارادر کے اطراف فصیل شہر کے باہر کئی محلے آباد ہوئے جن میں اول جوڑیا بازار آباد ہوا پھر فروری ١٨٤٣ئ؁ میں برطانوی افواج کے قبضہ کے بعد تو حکومت برطانیہ نے بحصول زر خوب ہی کراچی بندرگاہ کو ترقی دی۔

 قارئین محترم ! کراچی برطانوی افواج کا قبضہ کرنے والا شہر کراچی کا مہ ہندو سیٹھ بھوج مل کا پڑپوتا سیٹھ ناومل ہوت چند کا کردار عمل بھی تاریخی کراچی میں سیاہ باب ہے کہ وہ برطانوی افواج کی ہمدردی اور مسلمانوں کی دشمنی میں ہمہ وقت مسلمانوں کو زیر کرنے میں پیش پیش نظر آتا ہے ناومل کی ہمدردی وخدمت گزاری کے سبب حکومت برطانیہ نے اس کاماہانہ وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا ۔

 برطانوی افواج کے کراچی پر قبضہ کرتے ہی اس نے برطانوی افواج کے اعجاز میں شام کو اپنے گھر میں دعوت جشن دی تھی اور افواج کے قیام کے لئے اس نے بخاری سراکے شمالی مغربی حصے یعنی (موجودہ سول ہسپتال)کی جگہ کیمپ کرنے کا مشورہ دیا تھا جس پر عمل ہوا ۔

 جب برطانوی افواج نے صدر کینٹ بازار کے علاقہ میں اپنا مستقل کیمپ قائم کر لیا تو سابق کیمپ کی جگہ فوجی ڈسپنسری قائم کی گئی اور کچھ ہی عرصہ بعد ناومل نے کمشنر کو مشورہ دیا کہ اس ڈسپنسری کو باقاعدہ ہسپتال کا درجہ دیکر تعمیر شروع کر دی جائے جس کو کمشنر نے منظور کر لیا اور یوں بخاری سرا کے شمالی مغربی حصے پر ہسپتال تعمیر ہوگیا ۔غرضیکہ نومل بخاری سرا کے خطہ کو کم از کم کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔

اس طرح عرصہ بعد جنوب مغربی حصہ میں ڈاؤ میڈیکل کالج تعمیر ہوگیا ۔

کیانکہ بخاری سرا کے بانی فتح رام بسرام سیج شالہ بندر سندھ حضرت سیدنا قطب عالم سید عبد الوہاب علم شاہ بخاری قدس سرہ نے ١٠٢٥ھ؁ میں ہندؤں کے اس رام بسرام سیج شالہ کو فتح کر کے دین اسلام کا پرچم بلند کیا تھا ۔

ناومل نے اس مذہبی دشمنی کا حساب برابر کرنے کے لئے مسلمانوں کو ہر مقام پر زیر کرنے میں خوب بد کردار ادا کیا تو دوسری جانب بخاری سرا کے مشرقی حصے میں ١٨٣٤ء کراچی میں مرنے والے ایک برطانوی فوجی کو دفن کر کے عیسیٰ قبرستان (١) کی بنیاد رکھی مگر مسلمانوں نے بھی اپنی اس قدیم مسلم بخاری سرا کو بچانے کیلئے جانی ومالی بہت کوششیں کیں آخر کار ١٨٩٣ء میں مشرقی حصے میں زائرین حجاز مقدس جانے والوں کے لئے کراچی کارپوریشن کے تعاون سے مولوی مسافر خانہ (٢)تعمیر کیا گیا ۔

ص١۔عیسیٰ فوجی قبرستان تواب باقی نہیں اس قبرستان کی جگہ ایم اے جناح روڈ پر اقبال سینٹر تعمیر ہوگیا ہے ۔

ص٢۔اور مولوی مسافر خانہ میں ١٩٤٧ئ؁ میں ہندوستان سے آنے والے مہاجرین بھائیوںنے عارضی قیام کیا تھا مگر اب وہ مستقل قیام پذیر ہیں ۔

 غرضیکہ مسلم دشمن ہندؤ سیٹھ ٹیکم داس واد مل نے میو نسپل کمیٹی کے صدر مسٹر جیمز کیوری سے ملکر ١٨٩٥ئ؁ میں مولوی مسافر خانے کے تینوں اطراف شمالی میں پٹیل روڈ مغرب میں امباجی ویلاجی روڈ (پھول والی گلی)اور مشرق میں مرزا آدم خان روڈ تعمیر کروا دئیے اور یوں یہ مسلمانوں کی قدیم بخاری سرا جہاں مسلمانان کراچی قدیم زمانے سے نماز جمعہ وعیدین ادا فرما تے تھے ،مسلم دشمنوں نے کم سے کم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی اور یہ ہی نہیں ناومل نے ١٨٢٦ئ؁ میں بخاری سرا کی بچی کچی زمین پر مندر تعمیر کرنے کی بھی کوشش کی تھی اور یہ سب حکومت برطانیہ کے ایماں پر سر توڑ کوششیں کرتا رہا مگر اس وقت کے علماء کرام ومشائخ عظام اور صاحب ایماں افراد نے ہندؤوں کی ہر جسارت بد کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔آخر کار مسلمانان کراچی نے حضرت مولانا منشی محمد بشیر قریشی ؒ (سر کردہ جمعیت المسلمین ومتولی جامعہ مسجد اسلامیہ قصیا بان صدر کینٹ بازار کراچی ) کی سر پرستی میں اس قدیم بخاری سرا کی بچی کچی زمین پر باقاعدہ مسلم عید گاہ کے نام سے از سر نوسنگ بنیاد رکھا گیا ۔

غرضیکہ اس بخاری سرا(موجودہ عید گاہ میدان ایم اے جناح روڈ) کراچی کی پاک سر زمین کو مسلمانوں نے اپنی جانی ومالی نذرا نے پیش کر کے بچایا ہے ۔

 کیونکہ ١٨٨٦ء ہنری نیپیئر بروسن ارسکن کمشنر سندھ کے آخر دور میں ہندؤں نے عین نماز جمعہ المبارک بخاری سرا موجودہ عید گاہ میدان ایم اے جناح روڈ کراچ میں مسلمانوں پر عین نماز کے وقت حملہ کردیا جسمیں ١٣ مسلمان شہید اور ٢٠ زخمی ہوئے اس پر حضرت مولانا منشی حاجی محمد بشیر صاحب قریشی داناپوری ؒ ،حضرت مولوی عبد اللہ درس ؒ حضرت مولوی شاہ خدا بخش مینائیؒ، حضرت قاضی نور محمد صاحب قریشی ،جناب سیٹھ جمعہ خان بلوچ کی سر پرستی میں مسلمانوں نے حکومت برطانیہ سے ہندؤوں کے اس عمل بد کے خلاف سخت احتجاج کیا مگر حکومت برطانیہ نے ہندؤں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی پھر مسلمانوں نے سیٹھ جمع خان بلوچ کی زیر نگرانی حفاظت مسلم جماعت تشکیل دی جسمیں ٣٠٠ مسلم نوجوان مجاہدین نے حفاظت المسلمین میں حصہ لیا ۔ان مجاہدین میں سر کردہ مسلم جماعتوں کے فرزند بھی شامل تھے ۔انہی مجاہدین نے ہر مسلم آبادی یعنی مسلم محلوں میں رات دن گشت کر کے مسلمانوں کی حفاظت کی ۔

 ابھی اس حملہ کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ پھر ہندؤوں نے حکومت برطانیہ سے ساز باز کر کے بخاری سرا موجودہ عید گاہ میدان کے مغربی حصے سے ایک سڑک تعمیر کروادی جواب یعقوب خان روڈ کے نام سے موجود ہے ۔

غرضیکہ باقیہ اطراف بخاری سرا کی زمین کو ١٩٠٠ئ؁ تک ہندو کارپوریشن نیلام کرتی رہی اور یوں یہ مسلمانوں کی قدیم سر بخاری عید گاہ میدان ٣٢٠٠٠ ہزار گز تک محیط رہ گئی ۔

پھر ١٩٣٣ء میں مغربی سمت یعقوب خان روڈ سے باقاعدہ کچھی میمن مسلم جماعت کے مالی تعاون سے اس بخاری سرا ععید گاہ میدان بندر روڈ پر قبل نما دیوار اور محراب و ممبر اور بندر روڈ پر صدر کینٹ گزری کے پہاڑی پتھروں کا تعمیر کیا گیا جو آج بھی یادگار موجود ہے ۔

قارئین محترم ! بخاری سرا کی زمین کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اس سر زمین بخاری سر ا میں برصغیر میں چلنے والی ہر تحریک آزادی کے جلسے منعقد ہوتے رہے ۔

خطہ بخاری سرا نہ صرف ان تحاریکوں سے متاثر ہوا بلکہ ان پر اثر انداز بھی ہوئی ایسی بخاری سرا کے خطہ پر کراچی کے حریت پسند مسلمانوں نے ان تحریکوں میں بے مثال کردار ادا کر کے تاریخ آزادی میں اپنے نام سنہر حروف سے رقم کروائے ،چاہے وہ ریشمی رومال کی تحریک ہو یا تحریک خلافت یا تحریک پاکستان ۔

حضرت شاہ خدا بخش مینائی (سابق متولی اول)درگاہ شریف بخاری سرا (قلمی جمال قطب عالم ؒ) میں نقل کرتے ہیں کہ

 ''جب برصغیر میں ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی کی ابتداء ہوئی تو سندھ کے حریت پسند سندھیوں اور کراچی میں متعین محب وطن مسلمانوں نے بھی برطانوی انگریزوں کے خلاف علی بغاوت بلند کردیا تھا ،اس تحریک کے لئے بخاری سرا کا ہی وسیع میدان کار آمد تھا کہ خفیہ منصوبہ ومیٹنگوں کے لئے خاص محافظ تھا ۔١٣،١٤ ستمبر ١٨٥٧ئ؁ کی شب کو کراچی میں مقیم بمبئی نیٹوانفنٹری کی ٢١ویں رجمنٹ نے کمشنر سندھ سر بار ٹلے فرئیر اور دوسرے اعلیٰ انگریز افسران کو قتل کر نے کا منصوبہ بنایا تھا مگر یہ تمام منصوبہ سیٹھ ناومل ہندو غدار کے راز فاش کرنے کی وجہ سے ناکام ہوگیا تھا ، اس بغاوت میں اکثریت سے اودھ ،لکھنو او ر دہلی کے نوجوان شامل تھے راز فاش ہونے کی وجہ سے ہ سب انگریز حکومت کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ،جن میں کچھ کو اس وقت گولیوں سے بھون دیا گیا اور کچھ حریت پسند محب وطن کا کورٹ مارشل کے بعد پھانسی پر لٹکادیا گیا اور کچھ صدر بازار موجودہ ایمپریس مارکیٹ صدر کراچی کے میدان میں میں توپ کے منہ سے باندھ کراڑادیا گیا اور باقی کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی ۔

 ١٨٥٧ئ؁ کی تحریک کا ایک واقعہ حضرت شاہ عبد الخالق سینائی (سابق متولی دویم بخاری سرا)بیان کردہ ہے کہ حضرت علامہ منشی محمد بشیر صاحب دانا پوری ؒ وحضرت قاضی نور محمد صاحب قریشی (قاضی شہر کراچی ) کی بھی زبانی سنا جو حضرت شاہ خدا بخش مینائی ؒ (از خود جمال قطب عالم ) میں نقل کرتے ہیں کہ

 ''جس وقت برطانوی افسران کو اپنی فوجی بغاوت کی اطلاع ملی تو ان کو گرفتار کر کے کسی کو گولی مار کر شہید کیا تو کسی کوپھانسی دیکر شہید کیا اور کچھ حریت پسند محب وطن سپاہیوں کو توپ کے منہ سے باندھ کر اڑا نے کا حکم دیا ،تو توپ خانہ کے سر کردہ افسر مسٹر کرنل اسٹار ٹلز نے پہلے بخاری سرا کے میدان (موجودہ عید گاہ میدان ایم اے جناح روڈ کراچی ) میں رات ہی کو توپ خان لاکر صبح کی تیاریاں شروع کردی تھیں مگر حضرت بابا بڑے پیر ؒ (حضرت سید قطب عالم شاہ بخاری ؒ) نے اپنی روحانی قوت وتصرف سے توپ کے نظام کو ہی خراب حال کر دیا تھا ۔

 توپ خانہ پر مقرر انگریز فوجیوں نے ہر چند کوشش کی مگر وہ ناکام ہوئے ،ان میں کہیں انگریز فوجی جوانوں نے بچشم دید دیکھا اور از خود اپنے افسر مسٹر اسٹارٹلز سے بیان کیا کہ سر ایک بزرگ ہاتھ میں تلوار لیکر سفید گھوڑے پر سوار ہمارے طرف آیا جب وہ قریب آیا تو ہم پر دہشت طاری ہوگئی اور اس مسلم بزرگ کی آنکھوں سے بجلی ہماری طرف برسی وہ بجلی توپ خانہ پر بھی پڑی ۔جس کے سبب توپ خانہ خراب ہوگیا ،ہم نے تین مرتبہ کوشش کی مگر ہر مرتبہ وہ مسلم بزرگ اپنی قبر سے بر آمد ہوتا اور سفید گھوڑے پر سوار ہو کر ہمارے سامنے آتا بس اس کی آنکھوں کی بجلی سے ہمارا توپ خانہ اور گولے ناکارہ ہوگئے ،سر ہم میں سے اکثر جوانوں کو بخار ہوگیا ہے ۔

 مسٹر کرنل اسٹار ٹلز نے اپنے فوجی جوانوں کے بیان کردہ چشم دید واقعہ کے پیش نظر توپ خانہ کو صدر کینٹ بازار کے میدان (موجودہ ایمپریس مارکیٹ) میں منتقل کرنے کا حکم دیا جہاں دوسرے دن حریت پسند محب وطن افراد کو توپ کے منہ سے باندھ کر اڑادیا گیا ۔(از قلمی جمال قطب عالم ؒ)

تحریک خلافت کا تاریخی جلسہ زیر اہتمام آل انڈیا خلافت تحریک بھی بخاری سرا کے وسیع تر میدان (موجودہ عید گاہ میدان ایم اے جناح روڈ کراچی ) میں مورخہ ٨ جولائی ١٩٢١ئ؁ کو حضرت مولانا محمد علی جوہر ؒ کی زیر صدارت میں منعقد ہوا تھا ۔جس میں برصغیر سے سرکردہ خلافت تحریک کے رہنما مولانا شوکت علی ؒ،مولانا حسین احمد مدنی ،ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا نثار احمد کانپوری ،پیر مجدد سر ہندی ،سوامی شنکر اچاریہ نے شرکت کی تھی ۔

 اس جلسہ کا اہتمام مولانا مفتی عبد الکریم درس، سر حاجی عبد اللہ ہارون ،مولانا محمد صادق کھڈہ والے (لیاری) منشی احمد الدین (دبدبہ حیدری پریس) مولانا عبد الکریم بلوچ ،منشی شاہ عبد الخالق مینائی ( متولی بخاری سرا) حکم فتح محمد سہوانی وغیرہ نے کیا تھا ۔

 یہ جلسہ سندھ کی تاریخ میں برطانوی حکومت کے خلاف کسی بغاوت سے کم نہ تھا کیونکہ یہ سندھ کے عوم کو اتحاد اور بالخصوص برطانیہ کے خلاف آمادہ کرنے کی کوشش تھی ۔ (پاکستان کی تحریک میں سندھ کا حصہ)

قدیم بخاری سراعید گاہ میدان بندر روڈکراچی کے امام خطیب

 قارئین محترم جب کہ راقم قلمی نسخہ بنام جمال قطب عالم کے حوالہ سے عرض کرآیا ہے کہ اس کفرستان (رام بسرام سیج رام باغ)موجودہ آرام باغ کراچی کی سرزمین کو ١٠٢٥ھ؁ میں حضرت سیدنا قطب عالم شاہ بخاری ؒ نے اپنے روحانی تصرفات سے فتح کیاتھا،غرض یہ کہ آپ کے قیام فرمانے کے سبب یہاں مسلم بخاری سرا قائم ہوئی جس کے ساتھ ہی موجودہ بخاری الاولیاء مسجد بھی وجود میں آئی پھر اطراف قصبہ آپ کی دینی و روحانی تبلیغ و اشاعت سے غیر مسلم افراد داخل اسلام ہوتے گئے اور یوں بخاری سرا کے وسیع میدان میں نماز جمعہ وعیدین ادا ہونے لگی۔پھر ١٧٢٩ئ؁میں از سرنومیٹھا در اور کھارادرشہر آباد ہوا مگر١٨٠٠ئ؁تک مسلمانوں کا مرکزی طور پرنماز جمعہ و عیدین کا اجتماع اسی قدیم بخاری سرا کے وسیع میدان میں منعقد ہوتارہا۔

 غرض یہ کہ قبلہ حافظ شاہ غلام رسول القادریؒ کے کنارہ کش ہوتے ہی کئی افراد نے جامع مسجد قصابان صدر اور عید گاہ میدان بندر روڈکراچی کے انتظامات حاصل کرنے کے لیے سرگرم کوششیں کی اور عید گاہ میدان بندرروڈ کراچی کے تعمیر کے سلسلہ میں کئی زبانی کمیٹیاں بنی مگر ١٩٤٦ئ؁میں جامع مسجد عیدگاہ قصابان بندرروڈ کراچی ایسوسی ایشن رجسٹرڈ نمبر١٤٣کا قیام عمل میں آیا ۔اس کمیٹی کے چیئرمین سرغلام حسین ہدایت اللہ تھے یہ کمیٹی ١٤ ممبران پر مشتمل تھی ممبران میں حضرت حافظ شاہ غلام رسول قادریؒ،جناب پیر الہی بخش (مرحوم)جناب حاجی عبداللہ ہارون(مرحوم)جناب میرایوب خان (مرحوم)ودیگر عمائدین شامل تھے۔اس کمیٹی نے جو ١٩٤٧ئ؁کو اس قدیم بخاری سراعید گاہ میدان قصابان بندرروڈ پر ایک عظیم الشان جامع مسجد ٣٢٠٠٠ہزار مربع گززمین کا ریزویشن کارپوریشن میں منظور ی کے لیے داخل کیاتھا۔جس کوکارپوریشن نے منظورکرکے ٣٢٠٠٠ہزار مربع گززمین کو باقاعدہ طور پر جامع مسجد عید گاہ قصابان کے لیے وقف عام قرار دیا۔

 اگست ١٩٤٧ئ؁ کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بانی پاکستان محمد علی جناح و دیگر سرکردہ مسلم لیگ عمائدین نے اس قدیم بخاری سراعید گاہ میدان بندرروڈ میں نماز عیدالفطرحضرت علامہ ظہور الحسن درس کی امامت میں ادا فرمائی تو بعدنماز قائد اعظم محمد علی جناح نے ہزار ہافرزندگان توحید کے اس مبارک اجتماع میں اعلان فرمایا کہ اس قدیم عیدگاہ کو ایک عظیم الشان جامع مسجد تعمیرکیاجائے گا۔

 ریزویشن پاس ہونے کے بعد کارپوریشن نے اس وقف پلاٹ کے شمالی حصے پرایک عارضی میٹرنٹی ہوم قائم کردیا۔پھر ١٩٤٧ئ؁میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے لیے اس عید گاہ میدان میں ایک عارضی کیمپ قائم کیا گیاجوتاحال بھی اس عید گاہ میدان قصابان میں رہائش پذیر ہیں۔پھراس عید گاہ میدان کے صدرکینٹ جنوبی حصے پر بلدیہ کارپوریشن نے ایک عارضی اسکول قائم کردیا۔

 پھر اس عید گاہ میدان قصابان کے وقف پلاٹ کو ١٩٦٣ئ؁ میں محکمہ اوقاف نے اپنی زیرنگرانی میں لے لیا تو نمازیوں اور اہل علاقہ نے مجلس عمل کے نام سے ایک کمیٹی جناب حاجی مرزا الیاس بیگ(مرحوم)کی سرپرستی میں تشکیل دی پھر ١٩٧١ئ؁میں باقاعدہ مجلس عمل کورجسٹرڈکردیاگیا۔پھرمجلس عمل باقاعدہ حکومت وقت سے مطالبہ کرتی رہی کہ اس ٣٢٠٠٠ہزار مربع گزپر جامع مسجد تعمیر کی جائے یا پھر حکومت مجلس عمل رجسٹرڈ کو باقاعدہ طور پر جامع مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دے۔

 جناب حاجی مرزا الیاس بیگ (مرحوم)تاحیات مسجد کی تعمیر کی کوشش فرماتے رہے پھر آپ کے صاحبزادے جناب حاجی مرزا مشرف بیگ مجلس عمل کے صدر مقررہوئے تو محکمہ اوقاف حکومت سندھ نے اس جامع مسجدکی تعمیر کا پروگرام پیش کیاجس میں مارکیٹ وسینٹرشامل تھا۔مجلس عمل نے محکمہ اوقاف کے اس تعمیری پروگرام کونامنظورکیا اور مطالبہ کیا کہ اس مکمل وقف پلاٹ ٣٢٠٠٠ہزار مربع گزپرجامع مسجد ہی تعمیر ہوگی۔

 آخر کار مجلس عمل رجسٹرڈ نے باقاعدہ مسجد کی مکمل وقف آراضی کا ایک عظیم الشان نقش وماڈل بنوایا اس سلسلہ میں جناب حاجی مرزا مشرف بیگ اور جناب نور احمد ہاشمی مرحوم کی خدمات اظہر من الشمس ہیں ،پھر مجلس عمل نے ملک کے معروف علماء کرام و مشائخ عظام کے ہاتھوں اس جامع مسجد عیدگاہ قصابان کا سنگ بنیاد رکھوایا۔غرض یہ کہ محکمہ اوقاف حکومت سندھ اور مجلس عمل رجسٹرڈ کمیٹی کے بیچ مسجد تعمیر کا مسئلہ مسئلہ کشمیر سے کم نہیں۔

 اس مسئلہ کے پیش نظر راقم نے ١٩ئ؁میں مجلس عمل کے جنرل سیکریٹری وسابق صوبائی وزیر اوقاف سندھ جناب حافظ محمد تقی صاحب کو رائے پیش کی تھی کہ وہ مولوی مسافر خانہ کوا ز سرنوتعمیر کرواکر وقف پلاٹ عید گاہ میدان کے رہائش ودوکان دار حضرات کو اس میں منتقل کردیا جائے اس عمل سے محکمہ اوقاف کو بھی فائدہ ہوگا اور مکمل وقف پلاٹ پر باآسانی عظیم الشان جامع مسجد تعمیر ہوجائے گی۔

 قارئین محترم !اس قدیم بخاری سراعید گاہ میدان میں قیام پاکستان کے بعد دین اسلام کی ممتاز شخصیات نے اعزازی طور پر امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دئیے ہیں جن میں حضرت علامہ عبدالعلیم میرٹھی،حضرت علامہ ظہورالحسن درس،حضرت مولانا عبدالحی حقانی،حضرت مولانا عبدالحامد بدایونیؒ،حضرت مولانا محمد یعقوب خان قادری(کیماڑی والے)حضرت مولانا شفیع اوکاڑویؒ،حضرت علامپ عبدالمصطفیٰ الاہرزی،حضرت علامہ شاہ احمد نورانی،حضرت مولانا قاری محمدعلی شاہ قادری،حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی،حضرت علامہ ڈاکٹرمحمودالحسن صاحب ،حافظ محمد عمردہلوی وحافظ احسان الہی دہلوی وغیرہ اور دیگر اسلامی ممالک کی دینی وروحانی شخصیات نے بھی اعزازی طور پر امامت و خطابت کی سعادت حاصل کی ہے،محکمہ اوقاف کی جانب سے حضرت مولوی حافظ عبدالغفور صاحب نقشبندی خوش گو امام وخطیب حیات ہیں اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت عطافرمائیں۔ آمین

اسلامی عہد حکومت

حضور پرنور رحمت للعالمین محبوب العالمین سیدنا محمدرسول اللہ ؐ یوم وصال حق۔١٢ ربیع الاول ١١ھ بمطابق ٦٣٢ئ؁ بمقام مدینہ منورہ شریف

خلفائے راشدین

امیرالمؤمنین حضرت سیدناابوبکر صدیق ابن قحافہ ؓ ١١ھ بمطابق ٦٣٢ء تا ١٣ھ بمطابق ٦٣٤ئ

امیرالمؤمنین حضرت سیدناعمر ابن خطاب ؓ ١٣ھ بمطابق٦٣٤ء تا ٢٤ھ بمطابق ٦٤٤ئ

امیرالمؤمنین حضرت سیدناعثمان غنی ابن عفان ؓ ٢٤ھ بمطابق ٦٤٤ء تا ٣٥ھ بمطابق ٦٥٦ئ

امیرالمؤمنین حضرت سیدناعلی ابن ابی طالب ؓ ٣٥ھ بمطابق ٦٥٦ء تا ٢١ رمضان ٤٠ھ بمطابق ٦٦١ئ

امیرالمؤمنین حضرت سیدناامام حسن ؓ ٢١رمضان ٤٠ ھ بمطابق ٦٦١ء تا ربیع الاول ٤١ھ بمطابق٦٦١ء ۔وصال ربیع الاول ٤٩ ھ بمطابق ٦٦٩ئ

سندھ میں اسلامی عہد

 محترم قارئین اکرام :آنحضور پر نور سید عالم رحمت العالمین سرور کائنات ؐ ٦٣برس دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کی تکمیل فرما کراس دنیائے فانی سے ١٢ ربیع الاول ١١ھ ؁ہجری بمطابق ٦٣٢ئ؁ عیسوی بظاہر پردہ فرماگئے تو ١٤ ربیع الاول ١١ھ ؁ بمطابق ٦٣٢ئ؁ کو حضرت سیدنا ابو بکر صدیق اکبر ؓ، امۃ المسلمین کے اول خلیفہ امیر المومنین مقررہوئے ۔ آپ ؓ کے عہد خلافت میں عراق وایران حضرت خالد (١)بن ولید ؓ اور حضرت مثنیٰ بن حارث شیبانیؓ کے ہاتھوں فتوحات کا آغاز شروع ہوگیا تھا ۔

 آ پ کے وصا ل١٣ھ؁ بمطابق ٦٣٤؁کے بعد حضرت عمرابن خطاب ؓ امۃ المسلمین کے دوئم خلیفہ امیرالمومنین مقرر ہوئے،آپ ؓ کے عہد خلافت ١٥ھ؁ بمطابق ٦٣٦؁ عیسوی میں حضرت عثمان(٢) بن ابی عاص ثقفی ؓ بحرین کے گورنر مقرر ہوئے،حضرت عثمان بن ابی عاص ؓ خود تو عمان میں رہے مگر اپنے بھائی حکم (٣)بن ابی عاص کو اپنا نائب بناکر بحرین بھیجا اور کچھ ہی ماہ بعد حضرت عثمان بن ابی عاص ؓ نے اپنے بھائی حکم بن ابی عاص کو بحر ہند پر حملہ کرنے کا حکم دیا،جہاں حکم بحرہند کے ساحلی علاقوں پر کامیاب حملے کرکے بحرین واپس ہوا۔اسلامی عہد ِ عرب میں تاریخ دان حضرات نے حکم بن ابی عاص کے اس حملے کو بحر ہند پر پہلا حملہ قرار دیاہے۔

 پھر کچھ ہی ماہ بعد حضرت عثمان بن ابی عاص ثقفی ؓ نے اپنے چھوٹے بھائی مغیرہ(٤)بن ابی عاص کو بحیرہ عرب ساحلِ سندھ کے معروف شہر(دیبل)دربو بندر موجودہ(کراچی بندرگاہ)پر حملے کے لیے بھیجا یہ بھی شہر دیبل ،دربو بندر پر کامیاب حملہ کرکے اسی ملک میں آسودہ لحد ہوا(بحوالہ ء کتاب الاشفاق ابن درید)

 محترم قارئین اکرام ،عرب اسلامی عہد خلافت حضرت عمرابن خطابؓ میں ملک ہند پر عرب افواج کا دوسرا حملہ اور سندھ میں پہلا حملہ تھا۔پھر حضرت عمرابن خطاب ؓ کے بعد ٢٤ھ؁ بمطابق٦٤٤؁ عیسوی میں حضرت عثمان غنی ؓ کے عہد خلافت میں خلیفہ وقت کی توجہ برابر ہندوستان پر مرکوز رہی اور گورنر عراق عبداللہ(٥)بن عامر بن کریز کو اس کا حکم دیا جنھوں نے تحقیق کے لیے حکم (٦)بن جبلہ العبدی کو ملک ہند روانہ کیا تھا۔

 پھرامیر المؤمنین سیدنا علی مرتضیٰ اسداللہ الغالب ؓ نے اپنے دور خلافت ٣٩؁ ہجری میں بھی حارث بن مرہ عبدی کو ملک ہند کی طرف بھیجا اور انھوں نے بھی کامیابی حاصل کی اور ٤٦؁ ہجری میں جام شہادت نوش کیا(از مشائخ احمد آباد جلد اول ص ٧)

 حضرت سیدنا علی مرتضیٰ اسداللہ الغالب ؓ کی شہادت ٢١ رمضان المبارک ٤٠ ؁ہجری میں ہوئی ،آپ کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کثرت رائے سے حضرت سیدنا امام حسن ؓ کے دست حق پر بیعت کرکے امیر المومنین نامزد کیا ،مگر ماہ ربیع الاول ٤١ ؁ ہجری میں منافقین اسلام کی شورشوں اور مسلمانوں کے آپس میں کشت و خون سے دل برداشتہ ہو کر یعنی اتحاد المسلمین کی خاطر خلافت سے دستبردار ہوئے۔

 حضرت سیدنا امام حسن ؓ کی دستبرداری کے بعد حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان جن کے زیر اقتدار آدھی اسلامی سلطنت تھی اب پوری اسلامی سلطنت کے خلیفہ بنے آپ ہی سے اموی حکومت کا آغاز ہوا۔

 حضرت معاویہ کے دور حکومت ٤٤ ؁ ہجری مہلب ابن ابی صفرہ نے ملک ہند کی جانب جہاد کی تسلسل کو جاری رکھا،والی سجستان عباد بن زیاد نے ٥٣ ؁ ہجری میں سندھ اور کچھ فتح کرتے ہوئے گجرات کی بندرگاہ (قندھار)گندھارا تک سخت مقابلہ کیا(معجم البلان ص ١٦٧)

 غرض یہ کہ قارئین اب سند ھ کے حوالہ سے اسلامی عہد کی فتوحات اموی دور فاتح سند ھ محمد بن قاسم ثقفی سے لے کر عباسی عہد حکومت ،ھباری دور پھر فاطمی اسماعیلی دور غزنی پھر مغلیہ عہد میں ترخانی دور،کلہوڑہ دور پھر ٹالپور دور پھر برطانوی افواج کا سندھ پر قبضہ تا قیام پاکستان کا حال مختصر تاریخ کے حوالہ سے تحریر کرنے کی جسارت کی تاکہ اسلامی عہد خاص کر برصغیر سندھ میں اسلامی تبلیغ واشاعت کا پس منظر سامنے آجائے۔

 محترم قارئین اکرام:یہ بات ہماری اسلامی عہد دور بنو اموی میں رائج ہوئی کہ اسلامی منصب خلافت کو اپنی ذاتی شخصی حکومت تصورکرلیاگیا،اور خلفائے راشدین کے نقشِ خلافت اسلامیہ کو پس پشت ڈال کر یعنی قرآن و حدیث نبوی ؐ کو بھول کر اپنی شخصی اقتدار و سلطنت حاصل کرنے کے لالچ میں اپنے ہی کلمہ گو مسلمان بھائیوں کو بے دریغ قتل کیا گیا،جس کے سبب اسلام دشمن قوتوں نے خوب ہی فائدہ حاصل کیا کہ اسلامی فتوحات و اشاعت دین کے کاموں میں وہ فائدہ نہ ہوا،جو کہ فاتح سندھ محمد بن قاسم ثقفی کے ہاتھوں ہوا تھا۔

 برصغیر سندھ میں محمد بن قاسم کی فتوحات سے خوف زدہ ہوکرخلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے برسراقتدار آتے ہی محمد بن قاسم کوگرفتارکرواکرقید ہی میں قتل کردیا۔اگر محمد بن قاسم ثقفی کچھ عرصہ اور سندھ میں قیام کرتا تو یقینا وہ تمام برصغیر کو سلطنت اسلامیہ میںداخل کردیتا مگر خلیفہ بغداد سلیمان بن عبدالملک نے محمد بن قاسم کی فتوحات وشہرت کو اپنے اقتدار سلطنت کے لیے خطرہ خیال کرتے ہوئے ،گورنری سے بے دخل کرکے قتل کردیا،خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کا یہ عمل اشاعت اسلام کے خلاف ہوا کہ برصغیر سے اسلامی فتوحات کاسلسلہ ختم کردیا،جس کے سبب اسلام دشمن قوتوں کو خوب ہی تحفظ مذہب حاصل ہوا۔

 مگر اس پُرآشوب دور میں بھی دین اسلام کے سچے مجاہدین عاشقِ رسول ؐ اولیاء اللہ نے خوب ہی برصغیر میں تبلیغ واشاعت دین اسلام کا کمال فریضہ انجام دیا کہ جن کی روحانیت سے لاکھوں غیر مسلم داخل اسلام ہوکر دینی وروحانی تعلیمات سے فیض یاب ہوئے۔

محترم قارئین اکرام یہ حقیقت بھی تاریخ دان عالم پر عیاں وروشن ہے کہ ان روحانی بزرگان دین اولیاء اللہ نے بے تخت وتاج،بے شمشیر وزر دین اسلام کی جو خدمات انجام دیں ہیں وہ بڑے فرماں رواں بھی نہ کرسکے اور یہی نہیں وہ ہر دور میں اسلام دشمن فتنہ وفساد کا بھی مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ جھوٹے نبوت کے دعویٰ دار کی صورت میں ہوں یا کہ مسلمانوں کے بیچ فرقہ واریت کی صورت میں یہ روحانی مجاہدین اسلام عاشقانِ رسول ؐ ہر دور میں ہر ظالم حکمران کے سامنے بے خوف شمشیر بکف نظر آتے ہیں۔

 غرض یہ کہ عہد اسلامیہ خلفائے راشدین کے بعد شخصی حکومت کے قیام کے سبب اسلام دشمن قوتوں نے اسلامی عہد حکومت کے کئی حصے کردیئے پھر اپنی ناپاک حکمت کے ساتھ اسلامی ممالک میں اپنے خاص افراد کو مختلف لباس و صورتوں میں بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کے بیچ فتنہ و فساد کراتے رہیں تاکہ پھر سے یہ مسلمان ایک قوت ایک جان نہ بن سکیں ،دشمن اسلام یہودیوں کا یہ عمل سیاست تاحال بھی مسلمانوں کے خلاف جاری ہے کہ وہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کا دست وگریبان کرانے اور ایک دوسرے کو کافر قراردے کر آپس میں کشت خون کرانے میں مصروف ہیں تاکہ مسلمانوں کی ایمانی وروحانی قوت کم از کم ہوتی جائے اور یہودی فی زمانہ بھی مسلمانوں کے بیچ فرقہ واریت کی صورت میں عمل پیرا ہیں تاکہ مسلمان ایک ملک میں رہ کر بھی ایک قوت نہ بن سکے تو دوسری طرف اسلامی ممالک میں نوجوان نسل میں خاندانی منصوبہ بندی کی آڑ میں فحاشی و عریانیت کے نت نئے گر سمجھائے جانے کابھی سلسلہ جاری ہے۔دشمن اسلام یہودی لابی اس عمل بد سے پوری اسلامی دنیا میں حیوانیت اور شہوانیت کا یہ کام فی زمانہ بڑی زبردست تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں اوربڑی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دشمن اسلام یہودی لابی یہ کام ایک منظم طریقے سے اسلامی ممالک کی زیرسرپرستی انجام دے رہے ہیں۔غرض یہ کہ مسلمانوں کی نسل کشی کا اس بہتر عمل ان کی نظر میں نہیں کے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

 دیگریہ کہ یہودی بینکرز جو اپنی مکاری سے آج دنیا کی مالیات کے اداروں کے مالک ہیں اسلام دشمنی کی خاطر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی قوت ایمانی وروحانی کوکم از کم کرنے کے لیے بڑی دریادلی سے رقم خرچ کررہے ہیں۔

 خیر اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے صدقے ہمارے اسلامی ممالک کے فرماں روا ہوں کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے اور اپنے اپنے ملک میں اسلامی نظام مصطفٰی ؐ نافذ کرنے اور اسلام دشمن یعنی یہودی قوتوں کے ہر فتنے و فساد سے نمٹنے کی اور آپس میں اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے اخوت ومحبت وامداد کرنے کی توفیق عطافرمائیں۔

اے رب العزت دنیائے عالم میں پھر سے سنت نبوی ؐ پر عمل کرنے والے مجاہدین اسلام خلفائے راشدین کے دور خلافت کی یاد تازہ فرما اور تمام عالم اسلام کے مسلمانوں کو یک جان کردے۔

 ص١:حضرت خالدبن ولید ؓ قریشی کے فرزند نیک نام ہیں،مخرومی میں ان کی والدہ ماجدہ لبابۃ العغریٰ جو ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کی بہن ہیں زمانہ اسلام سے پہلے آپ کا شمار اشراف قریشی میں سے ہوتاتھا،آنحضرت ؐ نے آپ ؓ کو ''سیف اللہ''کاخطاب عطافرمایاتھا،٢١ھ؁ بمطابق ٦٤٢؁ عیسوی میں آپ ؓ نے وصال حق فرمایا،آپؓ نے وصال سے پہلے حضرت ابن خطاب ؓ سے کچھ وصیت ضروری فرمائی آپؓ سے آپؓ کے خالہ زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت علقمہؓ اور حضرت جبیر بن نفیرؓ نے حدیث مبارک کی روایت کی ہے ۔(بحوالہ اسماء الرجال)

 ص٢: حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ قبیلہ بنو ثقیف سے ہیں،آپ ؓ آنحضرت ؐ کی بارگاہ رسالت میں بنو ثقیف کے ایک وفد کے ہمراہ ٢٩ سال کی عمر میں حاضر ہوکرمشرف بااسلام ہوئے ۔آنحضرت ؐ نے آپ ؓ کو طائف سے ہٹاکرعمان اور بحرین کا گورنر مقرر کیا تھا۔آنحضرت ؐکے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد قبیلہ بنوثقیف نے بھی مرتد ہونے کا ارادہ کیا تو آپ حضرت عثمان بن ابی عاصؓ ہی نے اہل قبیلہ سے فرمایا کہ اہل قبیلہ ثقیف تم تمام لوگوں میں اسلام لانے میں سب سے آخر میں تھے تو پھر مرتد ہونے میں تو سب سے پہل مت کرو،بس آپ ؓ کے اس ارشاد سے اہل قبیلہ ثقیف مرتد ہونے سے رک گئے آپ ؓ سے ایک گروہ تابعین نے حدیث شریف کی روایت کی ہے۔(بحوالہ اسماء الرجال ص٦٣)

 ص٣ حضرت حکیم بن ابی العاص ؓ حکیم کی کنیت ابو عثمان یا ابو الملک ہے وہ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کے بھائی اور شرف صحبت حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ممتاز ہیں بعض ارباب فقہ حدیث ان کی مرویات کو (مرسل)بتاتے ہیں ،مرسل سے احادیث کی وہ قسم ہے جس کی سند میں ایک راوی چھوٹ گیا ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہوجاتی ہے اور استدلال میں طبعاً پیش کی جاسکتی ہے(مترجم)بحوالہ نذھۃ الخواطر)

 ص٤: مغیرہ بن ابی العاص اپنے بھائی حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ کے حکم سے سندھ کے مشہور شہر(دیبل)موجودہ جزیرہ منوڑا کراچی پر حملہ آور ہوئے اور فتح کیا اور آپ شہید ہوئے اسی ملک میں آسودہ لحد ہیں۔(مترجم)بحوالہ نذھۃ الخواطرص ٥٦)

 ص٥:حضرت عبداللہ بن عامر بن کریز قریشی ؓ حضرت عثمان غنیؓ کے ماموں کے بیٹے ہیں۔آنحضرت ؐ کے زمانے میں پیداہوئے آپ ؐ کے پاس لائے گئے آپ ؐ نے دم کیا تھتکارا اور اعوذ پڑھی جب حضور ؐ نے پردہ فرمایا تو آپؓ کی اس وقت عمر ١٣ برس تھی حضرت عثمان غنی ؓ نے آپؓ کو خراساں اور بصرہ کا حاکم بنادیا تھا جہاں آپؓ برابر حاکم رہے یہاں تک کہ حضرت عثان غنیؓ شہید کردیئے گئے جب حضرت معاویہ نے بعہد اموی حکومت قائم کی توآپ کو دوبارہ خراساں اور بصرہ کی حکمرانی واپس دے دی آپؓ نے ہی خراساں فتح کیا اور کسری ٰ شاہ فارس انہی کی گورنری کے زمانے میں قتل کیا گیا اس پربھی اتفاق ہے کہ آپ ؓ ہی نے فارس کی تمام اطراف کو اور اسی طرح عامہ ،خراساں ، اصفہان ، کرمان اور حلوان کو فتح کیا ،آپ ہی نے بصرہ کی نہر کھدوائی ٥٩ھ؁ میں آپ نے بصرہ میں وصال فرمایا(بحوالہ اسماء الرجال ص٦٩)

 ص٦: حکیم بن جبلہ ابن حصین ابن اسود ابن کعب ابن عامر ابن حارث ابن الدیل ابن عمروابن غنم ابن حکیم بروزن فعیل کے بجائے حکیم بروزن فعیل سے زیادہ مشہور ہیں اور روایت میں جبلہ کے بجائے جبل بھی مذکور ہے،یہ نسبت نامہ ابن اثیر نے (اسد الغابہ)میں لکھا ہے۔

 حضرت عبداللہ بن عامر بن کریزؓ نے آپؓ کوبحکم امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی ؓ ہندوستان جغرافیائی اور معاشرتی حالات طلب کرنے کے لیے ملک ہند روانہ کیا۔

 جب حکیم واپس خراساں حاضر ہوئے تو اس کو عبداللہ بن عامربن کریز نے امیر المؤمنین کے حضور رپورٹ پیش کرنے کے لیے روانہ کردیا۔

 حکیم نے امیر المؤمنین حضرت عثمان غنیؓ کے حضور رپورٹ پیش کی کہ ''وہاں پانی کی قلت ہے پھل ردی ہیں ،چورنڈر ہیں اگر لشکر زیادہ تعداد میں ہوں تو فاقوں سے ہلاک ہوجائیں اگر کم ہوتو دشمن اسے ختم کردے گا''

حضرت سیدنا عثمان غنیؓ نے فرمایا کہ ارے حکیم یہ رپورٹ ہے یا سحع،حکیم نے عرض کیا کہ حضور وہاں کے حالات یہی ہیں۔تب حضرت عثمان غنیؓ نے ادھر فوج بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا(باروایت ابن اثیر)و(نزھۃ الخواطر)

 ص٧:حضرت معاویہ بن ابو سفیان نے جن قواعد کے مطابق اپنی اموی حکومت کو چلایا وہ خلافت راشدہ کو دیکھتے ہوئے بالکل مختلف تھا گو کہ ایرانی اور رومی طرز کی شخصی حکومت کا آغاز ہوا حضرت معاویہ نے ایک بادشاہ کی حیثیت سے حکومت کی اور اپنے بیٹے یزید کو اپنی حیات زندگی میںہی ولی عہد نامزد کرکے ولی عہدی کی بیعت لے کر سلطنت اسلامیہ میں موروثی حکومت کی بنیاد رکھی تو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ،حضرت امام حسین ؓ بن علیؓ حضرت عبدالرحمن بن ابو بکرؓ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اسلامی خلافت کو موروثی حکومت میں تبدیل کرنے کے خلاف آوازے حق بلند کی اور حضرت معاویہ سے سخت احتجاج کیا مگر حضرت معاویہ نے اس مخالفت پر کوئی خاص توجہ نہ دی اور یوں اسلامی عہد میں شخصی اموی حکومت کی داغ بیل پڑھی(از تاریخ اسلام بحوالہ خلافت بنو امیہ دمشق تحریر امتیاز پراچہ)

 ص١٨ :المھلب بن ابی صفرۃ ،ابو صفرہ کے بیٹے ،ازدی ہیں ،خوارج کے ساتھ ان کے مخصوص مقامات اور مشہور لڑائیاں منقول ہیں،آپ نے سمرہ اور ابن عمرؓ سے حدیث مبارکہ کی سماعت کی ہے،آپ سے ایک جماعت نے روایت کی ہے عبدالملک بن مروان کے عہد میں ملک خراساں کے مقام مروالروذ میں ٨٣ھ؁ میں وفات پائی۔بصرہ کے تابعین میں پہلے طبقہ کے تابعی ہیں۔(بحوالہ اسماء الرجال ص١١٥)

حکمراں بعہد بنو امیہ

(١) حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓ ربیع الاول ٤١ھ بمطابق ٦٦١ء تا رجب ٦٠ھ بمطابق ٦٨٠ئ

(٢)یزیدبن معاویہ بن ابو سفیان ؓ رجب٦٠ ھ بمطابق ٦٨٠ء تا ربیع الاول٦٤ھ بمطابق ٦٨٣ئ

(٣)معاویہ ثانی بن یزیدبن معاویہ ؓ ربیع الاول ٦٤ ھ بمطابق ٦٨٣ء تا جمادی الاول٦٤ھ بمطابق ٦٨٣ئ

حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بن العوام بن خویلد ٦٤ھ تا ٧٣ھ اور مروان بن حکم بن ابو العاص بن امیہ کی متوازی حکومتیں

(٤)خلیفہ مروان بن حکم بن ابو العاص بن امیہ محرم ٦٥ ھ بمطابق٦٨٥ء تا رمضان ٦٥ھ بمطابق ٦٨٥ئ

(٥)خلیفہ عبدالملک بن مروان بن حکم بن ابو العاص بن امیہ رمضان ٦٥ ھ بمطابق٦٨٥ء تا شوال ٨٦ھ بمطابق ٧٠٤ئ

(٦)خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان بن حکم شوال ٨٦ھ بمطابق ٧٠٤ء تا جمادی ثانی ٩٦ھ بمطابق ٧١٥ئ

(٧)خلیفہ سلیمان بن عبدالملک بن مروان بن حکم جمادی ثانی ٩٦ھ بمطابق ٧١٥ء تا صفر ٩٩ھ بمطابق ٧١٧ئ

(٨)خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن حکم صفر ٩٩ھ بمطابق ٧١٧ء تا رجب ١٠١ھ بمطابق ٧٢٠ئ

نوٹ:آپ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا اموی دورِ خلافت خلفائے راشدین کی یاد تازہ کرتاہے آپ کو اپنے اخلاق ،نیک دلی اور پارسائی کی وجہ سے بنوامیہ کی تاریخ میں خاص مقام حاصل ہے آپ نے آل رسول ؐ کا پاس و لحاظ خوب فرمایا۔

(٩)خلیفہ یزیدثانی بن عبدالملک رجب ١٠١ھ بمطابق ٧٢٠ء تا شعبان ١٠٥ھ بمطابق ٧٢٤ئ

(١٠)خلیفہ ہشام بن عبدالملک شعبان ١٠٥ھ بمطابق ٧٢٤ء تا ربیع الثانی ١٢٥ھ تا ٧٤٣ء

(١١)خلیفہ ولید ثانی بن یزید بن عبدالملک ربیع الثانی ١٢٥ھ تا ٧٤٣ء تا جمادی ثانی ١٢٦ھ بمطابق ٧٤٤ئ

(١٢)خلیفہ یزیدناقص بن ولید بن عبدالملک جمادی ثانی ١٢٦ھ بمطابق ٧٤٤ء تا ذی الحجہ ١٢٦ ھ بمطابق ٧٤٤ئ

(١٣)خلیفہ ابراہیم بن ولید بن عبدالملک ذی الحجہ ١٢٦ ھ بمطابق ٧٤٤ء تا صفر ١٢٧ ھ بمطابق ٧٤٤ئ

(١٣)خلیفہ مروان ثانی بن محمد صفر ١٢٧ ھ بمطابق ٧٤٤ء تا ذی الحجہ ١٣٢ھ بمطابق ٧٥٠ئ

عہد خلافت ِ حکمرانی بنو امیہ کا خاتمہ

 نوٹ:قارئین اکرام ،عہد خلافت اموی کے تیسرے خلیفہ معاویہ ثانی بن یزید بن معاویہ بن ابوسفیان کی وفات کے بعد عرب عہد اسلامیہ میں دو متوازی حکومتیں قائم ہوگئیں تھیں کیوں کہ سانحہ کربلا کے بعد اہل حجاز نے یزید اموی کے سیاہ کارناموں کے پیش نظرجس میں امام عالی مقام جگر گوشہ ء رسول ؐ ، حضرت سیدناامام حسین واہل بیت علیہم السلام کی ناحق شہادت وکشت وخون ،مسجد نبوی ؐ روضہ حضور پرنور علیہ الصلوۃ والسلام کی بے حرمتی کرنا اور تین روز ت اہل مدینہ شریفہ پر قتل وغارت گری کابازار گرم کرنا پھر خانہ ء کعبہ شریفہ پر سنگ باری کروانا غرض یہ کہ یزید پلید کاعہد تاریخ عالم میں سیاہ کارناموں سے داغ دارہے وہ بلاشبہ اموی عہدخلافت پر بدنماداغ بھی ہے،جس سے اہل حجاز نے دل برداشتہ ہوکر حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے دست مبارک پربیعت خلافت کرنا شروع کردی تھی،اور کچھ عرصہ بعد تو تیسرے اموی خلیفہ معاویہ ثانی بن یزید پلید کی وفات کے بعد توتمام عالم اسلام حضرت عبداللہ ابن زبیر ؓ کی خلافت پر متفق ہوچکے تھے،صرف اموی خاندان کے وہ افراد جو مسند خلافت اسلامیہ کو اپنی وراثت موروثی تصور کرتے کہ جس کی ابتداء حضرت معاویہ بن ابو سفیان سے ہوئی تھی وہ ختم کرنے یا دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے مگر اس اموی خلافت باطل کاسہراپھرسے مروان بن حکم کے ہاتھوں بلندہوا،جب کے تمام عالمِ اسلام کے مسلمانوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے دست حق پرست پر بیعت کرکے مسلمانوں کے حق میں ان کی خلافت کوتسلیم کرلیا تھا ،مگر اقتدار کے نشے میں مروان بن حکم نے خاندان بنوامیہ سے بیعت لینا شروع کردی،آخر کیوں؟

 جب کہ مروان بن حکم کا تعلق بنو امیہ کی دوسری شاخ بنو عاص امیہ سے تھا اور سب اس کے والد حکم بن عاص کو از خود حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے جلاوطن کردیاتھا۔

ایک روایت میں وارد ہے کہ عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں نبی کریم ؐ کے دور میں کوئی بھی بچہ پیداہوتا تو وہ ضرور آپ ؐ کی خدمت اقدس میں لایا جاتا آپ ؐ اس کے لیے دعا فرماتے،ایک دن مروان ابن الحکم لایا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ توبزدل ہے بزدل کا بیٹا ہے ملعون ہے ملعون کا بیٹا ہے۔(حیات الحیوان اردوجلد اول٢٢٩)

 غرض یہ کہ حضرت معاویہ نے مروان بن حکم کو اپنے عہد خلافت میں مدینہ کا گورنر مقرر کیا تھا جو یزید کی وفات پر مدینہ سے شام پہنچا اور اقتدار خلافت اموی حاصل کرنے کی جد وجہد میں سرگرم ہوا،آخر اس نے مقام جابیہ میں بنو امیہ ،بنوکلب،بنوعنان،بنوسکسک بنو طے نے روح بن زبناع کی رائے اور چند شرط پر بیعت کرلی کہ خالد بن یزید ابھی کم سن ہے،جب سنِ شعور کوپہنچے گا امارت اس کے سپرد کردی جائے گی،مگر مروان بن حکم نے اپنے بیٹے عبدالملک بن مروان کوخلیفہ وقت مقررکرنے کے پیش نظر خالد بن یزید کی ماں سے نکاح کرلیا،بعد ہ مروان کو اپنے بیٹے عبدالملک کی بیعت ِ خلافت لینے کے عمل نے مروان کوخود اس کی بیوی خالد بن یزید کی ماں نے رمضان مبارک کی ایک رات اپنی چند باندیوں کی مدد سے مروان کا گلاگھونٹ کرماردیا،مروان کی موت ٦٥ھ میں ہوئی غرض یہ کہ مروان کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا عبدالملک بن مروان تخت اموی پر بیٹھا''عبدالملک بن مروان اپنے والد سے چار ہاتھ آگے بڑا ظالم وجابر ،خونریز طبیعت کاحکمران تھا(دفیات الاعیان)اس کا دور خلافت مسلمانوں کے لئے اور بھی نہایت پُرآشوب دورتھا ایک طرف حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ مقابل تھے تودوسری طرف مختلف شورشیں وبا کی طرح پھیلیں کہ جس سے مسلمان کئی حصوں میں تقسیم ہوکرایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوئے۔

 اس وقت عراق خاص طور پر ان نئی تحریکوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا مگر خلیفہ جابر عبدالملک بن مروان بھی اپنے باپ مروان بن حکم سے شرانگیزی میں کچھ کم نہ تھا اس نے اپنے اموی سلطنت کووسیع کرنے میں بغداد میں خوب کشت وخون کا بازار گرم کیا اور آخر کار وہ بغداد پربھی قبضہ کرکے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کوا پنے راستے سے ہٹانے کی طرف متوجہ ہوا،اور حجاج بن یوسف کو ٧٢ھ؁ میں تین ہزار کوفی و شامی لشکر کے ہمراہ مکہ مکرمہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور اہل مکہ ومدینہ شریف سے اپنی بیعت ِ خلافت لینے کے لیے روانہ کیا کہ اے حجاج! پہلے عبداللہ بن زبیر ؓ کو میری اطاعت قبول کرنے کی دعوت دینا اور وہ اگر میری اطاعت قبول کرلیں توا ن کو امان نامہ دینا وگرنہ ان کا اور ان کے ساتھیوں کا کام تمام

کردینا۔

 حجاج بن یوسف نے مکہ معظمہ کامحاصر ہ کرکے منجنیقوں سے خوب ہی سنگ باری کی جس سے خانہ کعبہ کاطواف کرنے والے مسلمان شہید وزخمی ہوئے۔غرض یہ کہ خانہ کعبہ کی خوب ہی بے حرمتی کی گئی یہ زمانہ ماۃ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ تھا اور ایام حج اداکرنا حاجیوں کے لیے مشکل ہوگیا تھا،ایسے میں حضرت عبدللہ بن عمرؓ کے کہنے پر حجاج نے سنگ باری موقوف کردی ابھی ایام حج ختم ہی ہوئے تھے کہ حجاج نے پھر مکہ معظمہ کامحاصرہ کرکے سخت سنگ باری شروع کردی،ایک عرصے تک سنگ باری ومحاصرے کاسلسلہ جاری رکھا کہ جس کے سبب اہل مکہ معظمہ کے لیے رسد کی آمد ورفت ختم ہوچکی تھی،جس سے وہ سخت پریشانی کے عالم میں تھے آخرکارحجاج نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو شہید کردیا،اور آپ کا سرمبارک اپنے خلیفہ جابر عبدالملک بن مروان کے پاس روانہ کردیا۔حضرت اسماء ؓ نے لاش دفن کرنے کی اجازت چاہی مگر جابر ظالم حجاج بن یوسف نے انکار کردیا۔

 قارئین اکرام اہل مکہ معظمہ کاناحق کشت وخون کرنا اور عبداللہ بن زبیر ؓ و اہل مکہ معظمہ سے جبراً بیعت لینا اور کعبہ شریف پر سنگ باری کرکے نذر آتش کرنا عہد اموی پر بدنما داغ نہیں تو اور کیا ہے۔تاریخ عالمِ اسلام آج تک خون کے آنسوں بہارہی ہے ۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی شہادت ٧٣ھ؁ کے بعد اب امویوں کے ظلم وستم کے مد مقابل کوئی نہ تھا۔

عہد بنو امیہ میں سندھ کے گورنر

فاتح سندھ محمد بن قاسم ثقفی ١١ رمضان ٩٢ھ بمطابق ٧١١ تا جمادی الثانی ٩٦ھ بمطابق ٧١٥ئ

(١) گورنر والی سندھ یزید بن ابی کبشۃ السکسکی ١٢ جمادی الثانی ٩٦ھ بمطابق ٧١٥ء تا ٣ رجب ٩٦ھ بمطابق ٧١٥ء کو سندھ میں وفات ہوئی

(٢) قائم مقام گورنر والی سندھ عامر بن عبداللہ

(٣) گورنر والی سندھ حبیب بن المہلب ابن ابی صفرہ ٩٦ھ بمطابق ٧١٥ء تا ١٠٠ ھ بمطابق ٧١٨ء

(٤) گورنر والی سندھ عمربن مسلم الباھلی ١٠٠ ھ بمطابق ٧١٨ء تا ١٠٧ھ بمطابق ٧٢٥ئ

(٥) گورنر والی سندھ جنید بن عبدالرحمن المری ١٠٧ھ بمطابق ٧٢٥ء تا ١١١ھ بمطابق ٧٢٩ئ

(٦) گورنر والی سندھ تمیم بن زید عتبی ٧٢٥ء تا ١١١ھ بمطابق ٧٢٩ء

(٧) گورنر والی سندھ حکم بن عوانہ کلبی

(٨)نائب گورنرعمربن محمد بن قاسم ثقفی ١٢١ ھ بمطابق ٧٣٨ء تا ١٢٥ھ بمطابق ٧٤٣ئ

عمربن محمد بن قاسم ثقفی ١٢١ ھ بمطابق ٧٣٨ء تا ١٢٥ھ بمطابق ٧٤٣ئ

یزید بن عرار ١٢٥ھ بمطابق ٧٤٣ء تا ١٣٠ھ بمطابق ٧٤٧ئ

 ١٣٠ ہجری مطابق ٧٤٧ عیسوی میں منصور بن جمہور کلبی نے سند ھ پر قبضہ کرکے اموی گورنر سندھ یزید بن عرار کوقتل کردیا اور خود سندھ کا والی بن گیا اور اپنے بھائی منظور بن جمہور کلبی کو اپنا نائب بناکر (دیبل)کراچی روانہ کردیا،یہ خود مختار حاکم تھا جب ١٣٢ھ میں ابوالعباس عبداللہ السفاح نے اموی حکومت کاخاتمہ کردیا اور بنو عباس کی خلافت حکومت کا اعلان کرکے خود بنوعباس کا حکمران خلیفہ وقت مقرر ہوا تومنصور بن جمہور کلبی نے سندھ میں عباسی خطبہ جاری کردیا۔مگر اس کی سند ھ میں خود سری کی وجہ سے خلیفہ ابو العباس کی اجازت سے وزیر خاص ابومسلم خراسانی نے ایک لشکر مغلس بن عبدی کی زیرکمان سندھ روانہ کیا،مغلس بن عبدی نے پہلے سندھ کے مشہور شہر دیبل پر حملہ کیا جس میں منصور بن جمہور کلبی کا بھائی (حکم دیبل)منظور بن جمہور کلبی ماراگیا اور دیبل کوتسخیر کرکے وہ منصور شہر کی جانب چلا جہاں منصور بن جمہور کلبی بھی شہر سے باہر مقابلے پرآیا ،دونوں افواج میں خوب جنگ ہوئی آخر کار مغلس بن عبدی قتل ہوااور آخر کار عباسی افواج نے شکست کھاکربغداد کی راہ لی اور منصور بن جمہور کلبی فتح یاب ہوکر واپس منصورہ شہر میں آیا۔

 جب ابو مسلم خراسانی کوعباسی افواج کی شکست اور مغلس بن عبدی کے قتل کی اطلاع ہوئی توبڑاافسردہ ہوا اور کچھ عرصہ بعد ١٣٤ھ ؁ میں خلیفہ وقت ابوالعباس سے اجازت لے کر موسیٰ بن کعب کی زیر کمان ٢٥ ہزار کا لشکر جرار سندھ روانہ کیا۔موسیٰ بن کعب چشم زدن میں سندھ آپہنچا،موسیٰ بن کعب تمیمی بڑامدبرپولیس جنرل تھا اس نے دیبل میں کچھ روز قیام کرکے شہر منصور ہ کے حالات کا اندازہ لگاکر منصورہ شہرپر حملہ کیا ،منصورہ بن جمہور کلبی کو شکست ہوئی اور عباسیوں کاسندھ پر قبضہ ہوگیا اور دوسرے دن منصور بن جمہور کلبی کو قتل کردیا اور سندھ میں مکمل عباسی خطبہ جاری کرکے انتظام میں مصروف ہوا،موسیٰ بن کعب ١٤٠ھ؁ میں اپنی جگہ اپنے بیٹے عینیہ بن موسیٰ بن کعب کو سندھ کا نائب مقرر کرکے بغداد روانہ ہوگیاتھا۔

شجرہ نسب بنو عباس

حضرت ہاشم

وہب  عبدالمطلب  اسد

حضرت سیدنا امیر حمزہ  حضرت سیدنا عبداللہ  حضرت سیدناعباس  حضرت ابوطالب

حضور پرنور سیدعالم ختم المبین محمد رسول اللہ ؐ   حضرت عبداللہ بن عباس حضرت سیدنا امیر علی کرم اللہ وجہہ

   علی بن عبداللہ

محمد بن علی   سلمان  موسی  عبداللہ   محمد

اسماعیل   ابوالعباس عبداللہ السفاح  ابوجعفر عبداللہ منصور  ابراہیم  داؤد  عیسیٰ

محمد   رابعہ محمد مہدی  ہادی

موسیٰ  عیسیٰ   ہارون الرشید  عبداللہ مامون الرشید  محمد امین

محمد رشید  ابواسحق المتعصم باللہ

جعفر المتوکل باللہ  احمد المستعن باللہ

عہد بنوعباسیہ میں خلیفہ ء وقت

(١) اول خلیفہ ابو العباس عبداللہ السفاح (بانی عہد خلافت عباسیہ) ربیع الثانی ١٣٢ھ بمطابق ٧٤٩ تا ذی الحجہ ١٣٦ ھ بمطابق ٧٥٤ئ

ْ(٢) خلیفہ ابوجعفر عبداللہ المنصور عباسی محرم ١٣٧ ھ بمطابق ٧٥٤ء تا ذی الحجہ ١٥٨ھ بمطابق ٧٧٥ئ

ْ(٣) خلیفہ محمد المہدی عباسی بن ابوجعفر عبداللہ المنصور عباسی ذی الحجہ ١٥٨ھ بمطابق ٧٧٥ء تامحرم ١٦٩ ھ بمطابق ٧٨٥ئ

ْ(٤) خلیفہ موسیٰ الھادی عباسی بن محمد المہدی محرم ١٦٩ ھ بمطابق ٧٨٥ء تاربیع اول ١٧٠ھ بمطابق ٧٨٦ئ

ْ(٥) خلیفہ ہارون الرشید عباسی بن محمد مہدی ربیع اول ١٧٠ھ بمطابق ٧٨٦ء تا جمادی ثانی ١٩٣ھ بمطابق ٨٠٩ئ

ْ(٦) خلیفہ الامین الرشید عباسی بن ہارون الرشید جمادی ثانی ١٩٣ھ بمطابق ٨٠٩ء تا محرم ١٩٨ھ ٨١٣ئ

(٧) خلیفہ المامون الرشید عباسی بن ہارون الرشید محرم ١٩٨ھ ٨١٣ء تا رجب ٢١٨ھ بمطابق ٨٣٣ئ

(٨) خلیفہ العتصم باللہ عباسی رجب ٢١٨ھ بمطابق ٨٣٣ء تا ربیع اول ٢٢٧ھ بمطابق ٨٤١ئ

(٩) خلیفہ الواثق باللہ عباسی ربیع اول ٢٢٧ھ بمطابق ٨٤١ء تا ذی الحجہ ٢٣٢ھ تا ٨٤٧ئ

(١٠) خلیفہ المتوکل علی باللہ عباسی ذی الحجہ ٢٣٢ھ تا ٨٤٧ء تا شوال ٢٤٧ ھ بمطابق ٨٦١ئ

 نوٹ :عباسی خلیفہ متوکل باللہ کے بعد چونکہ عباسی خلافت برائے نام رہ گئی لہذا مورخین متوکل کوآخری عباسی خلیفہ قرار دےتے ہیں بنو عباس کے عہد خلافت کی داستان عروج متوکل باللہ پر ختم ہوئی لہذا متوکل باللہ کے بعد کے خلفائے عباسیہ کے اسم گرامی تحریرہیں۔

(١١) خلیفہ المنتصر باللہ ٢٤٧ ھ تا ٢٤٨ھ

(١٢) خلیفہ المستعین باللہ ٢٤٨ھ تا ٢٥٢ھ

(١٣) خلیفہ مستعز باللہ ٢٥٢ھ تا ٢٥٥ھ

(١٤) خلیفہ مہتدی باللہ ٢٥٥ھ تا ٢٥٦ھ

(١٥) خلیفہ المعتمدعلی باللہ ٢٥٦ھ تا ٢٧٩ھ

(١٦) خلیفہ المعتضد باللہ ٢٧٩ھ تا ٢٨٩ھ

(١٧) خلیفہ مکتفی باللہ ٢٨٩ھ تا ٢٩٥ھ

(١٨) خلیفہ المقتدر باللہ ٢٩٥ھ تا٣٢٠ھ

(١٩) خلیفہ القاہر باللہ ٣٢٠ھ تا ٣٢٢ھ

(٢٠) خلیفہ الراضی باللہ ٣٢٢ھ تا ٣٢٩ھ

(٢١) خلیفہ ابراہیم المتقی باللہ ٣٢٩ھ تا٣٣٣ھ

(٢٢) خلیفہ المستکفی باللہ ٣٣٣ھ تا ٣٣٤ھ

(٢٣) خلیفہ المطیع اللہ ٣٣٤ھ تا ٣٦٣ھ

(٢٤) خلیفہ الطایع اللہ ٣٦٣ھ تا٣٨١ھ

(٢٥) خلیفہ القادر باللہ ٣٨١ھ تا ٤٢٢ھ

(٢٦) خلیفہ القائم باللہ ٤٢٢ھ تا ٤٦٧ھ

(٢٧) خلیفہ المقتدی بامراللہ ٤٦٧ھ تا ٤٨٧ھ

(٢٨) خلیفہ المتظہر باللہ ٤٨٧ھ تا ٥١٦ھ

(٢٩) خلیفہ المستر شد باللہ ٥١٦ ھ تا ٥٢٩ھ

(٣٠) خلیفہ الرا شد باللہ ٥٢٩ھ تا ٥٣٠ھ

(٣١) خلیفہ المتقفی لامراللہ ٥٣٠ھ تا ٥٥٥ھ

(٣٢) خلیفہ المستنجد باللہ ٥٥٥ھ تا ٥٦٦ھ

(٣٣) خلیفہ المستضی باللہ ٥٦٦ھ تا ٥٧٥ھ

(٣٤) خلیفہ الناصر الدین ٥٧٥ھ تا ٦٢٢ھ

(٣٥) خلیفہ الظاہر بامراللہ ٦٢٢ھ تا ٦٢٣ ھ

(٣٦) خلیفہ المستنصر باللہ ٦٢٣ ھ تا ٦٣٩ھ

(٣٧) خلیفہ المعتصم باللہ ٦٣٩ھ تا ٦٥٦ھ

عہد بنو عباسیہ میں گورنر والی سندھ

(١) گورنر موسیٰ بن کعب تمیمی ١٣٤ھ تا ١٤٠ھ

(٢) گورنرعینیہ بن موسیٰ بن کعب تمیمی ١٤٠ھ تا ١٤٢ھ

(٣) گورنرعمربن حفص بن عثمان بن ابی صفرہ ١٤٢ھ تا ١٥١ھ

(٤) گورنرھشام بن عمروالتغبی ١٥١ھ تا ١٥٧

(٥) گورنر معبد بن الخلیل تمیمی ١٥٧ تا ١٥٩ھ

(٦) گورنر روح بن تمیم المہلب ١٥٩ھ تا ١٦٠ھ

(٧) گورنر بسطام بن عمرو ١٦٠ھ تا ١٦١ھ

(٨) گورنر روح بن تمیم المہلب یکم صفر ١٦١ھ تا ذی الحجہ ١٦١

(٩) گورنرنصر بن محمد بن الاشعث محرم ١٦٣ھ تا شوال ١٦٣ھ

(١٠) گورنرزبیر بن عباس ۔۔۔۔۔۔۔۔ھ تا ۔۔۔۔۔۔۔ھ

(١١) گورنرمصبع بن عمرو التغبی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھ تا ۔۔۔۔۔۔۔ھ

(١٢) گورنرنصر بن محمد بن الاشعث ١٦٣ھ تا ١٦٤ھ

(١٣) گورنرلیث ابن طریفی

نائب سالم الیویسی ١٦٤ھ تا ١٧٠ ھ

(١٤) گورنر اسحاق بن سلیمان علی ہاشمی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھ تا ۔۔۔۔۔۔۔ھ

(١٥) گورنرطیفور بن عبداللہ بن منصور الحیری ۔۔۔۔۔۔۔۔ھ تا ۔۔۔۔۔۔۔ھ

(١٦) گورنرجابر بن الاشعث الطائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھ تا ۔۔۔۔۔۔۔ھ

(١٧) گورنر سعید بن سلیم بن قتیبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ھ تا ۔۔۔۔۔۔۔ھ

(١٨) گورنرعیسیٰ بن جعفر بن منصور عباسی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھ تا ۔۔۔۔۔۔۔ھ

 نائب محمد بن عدی ثعلبی

(١٩) گورنرعبدالرحمن عرضی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھ تا ۔۔۔۔۔۔۔ھ

(٢٠) گورنرایوب بن جعفربن سلیمان ۔۔۔۔۔۔۔۔ھ تا ۔۔۔۔۔۔۔ھ

(٢١) گورنرداؤد بن یزید بن تمیم المہبلی ١٨٤ھ تا ٢٠٥ھ

نائب مغیرہ بن تمیم المہلبی

(٢٢) گورنربشر دلود بن یزید بن تمیم المہبلی ٢٠٥ھ تا ٢١٣ھ

(٢٣) گورنرغسان بن عباد ٢١٣ھ تا ٢١٦ھ

(٢٤) گورنرعمران بن موسیٰ بن یحیٰ بن خالد برمکی ٢١٦ ھ تا ٢٢٦ھ

(٢٥) گورنرعنبہ بن اسحاق النضبی ٢٢٦ھ تا ٢٣٥ھ

(٢٦) گورنرھارون بن ابی خالد مروزی ٢٣٥ھ تا ٢٤٠ھ

نوٹ

خلیفہ متوکل باللہ عباسی نے سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا ٢٤٠ھ؁ میں جب قبیلہ یماینہ اور نیز اریہ میں کشمکش ہوگی تو آپ کو قتل کردیا گیا (کامل) تو عمر ابن عبد العزیز ہباری نے موقع دیکھ کر سندھ پر قبضہ کر لیا تھا۔

عہد عباسیہ سندھ میں ہباری خاندان

١۔ گورنر عمر بن عبد العزیز ھباری ٢٤٠ھ تا ٢٧٠ھ

٢۔ گورنر عبد اللہ بن عمر ہباری ٢٧٠ھ تا ٣٦٧ھ

٣۔ گورنر عمر بن عبد اللہ بن عمر ھباری ٣٠٣ھ تا ٣٦٧ھ

نوٹ: عبد اللہ بن عمر ھباری کے دو شوال ٢٨٠ھ؁ دبیل میں سورج گرھن ،چاند گرھن لگا پھر زلزلہ آیا اس کی خبر دربار خلافت بغداد میں حکم معتضد باللہ کے حضور پیش ہوئی کہ دیبل زلزلہ سے تباہ ہوگیا ہے ۔

 ٣٧٩ھ؁ میں ایک بلوہئ عام سندھ میں پیدا ہوا اور صمہ جو نبو کندہ کا غلام تھا نے عبد اللہ بن عمر ھباری کو شکست دے کر سندھ پر قبضہ کر لیا کچھ دنوں کے بعد عبد اللہ بن عمر ھباری نے اپنی حالت سنبھالی اور اپنا مورثی ملک غاصب سے چھین کر پھر سندھ کا مالک بن گیا ،بنو سامہ کا خاندان عمان میں آباد تھا ،اس کی شاخ بنو منبہ ملتان میں آباد تھی ،غالبًا اس ملکی بدامنی سے فائدہ اٹھا کر ملتان کے بنو سامہ نے ٢٩٠ھ؁ مطابق ٩٠٢ئ؁ میں اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا تھا ۔اس وقت سندھ کے دو حصے ہوگئے تھے ،شمالی حصے کا پایہ ء تخت ملتان اور جنوبی حصے کا پایہء تخت منصورہ سندھ تھا ، ٣٣٠ھ؁ میں ملتان کا حاکم ابواللباب منبہ ھن اسد قریشی تھا ۔

 غرضیکہ ٣٠٣ھ؁ میں عبد اللہ عمر ھباری کے بعد اس کا لڑکا عمر بن عبد اللہ ھباری شہر منصورہ سندھ میں تخت پر بیٹھا اور اسی طرح ٣٧٥ھ؁ تک ایک کے بعد دوسرا تخت نشین ہوتے رہے لیکن اسی وقت سے سندھ میں اسماعلیوں کا اثر بڑھ رہا تھا ،تب بھی ٤٠١ھ؁ تک ھباری خاندان سندھ پر حکومت کرتا رہا ۔

سندھ میں اسماعیلی

 اسماعیلی ،شیعوں کا ایک فرقہ ہے جو اس زمانہ میں مصر اور شمالی افریقہ پر قابض تھے ان کا مرکزی امام مصر کے پایہ ء تخت قاہرہ میں رہتا تھا، یہ نسب کے لحاظ سے فاطمی معروف ہیں ۔اس فرقہ اسماعیلی کے داعی اور مبلغ عباسیوں کے عہد میں دو دراز صوبوں میں جاکر اپنے فرقہ پھیلاتے تھے ۔

 ٢٧٠ھ؁ میں عبد اللہ بن عمر ھباری کے آخری دورئے حکومت ٣٠١ھ؁ میں ہشیم نامی ان کا پہلا داعی سندھ میں آیا اور اپنے کام یعنی اسماعیلی فرقہ کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہو گیا اس کے بعد یکے بعد دیگر اسماعیلی داعی آتے رہے اور ملک سندھ کو انقلاب کے لئے تیار کرتے رہے ،یہ لوگ اپنا تبلیغ و اشاعت کا کام بہت ہی مخفی طور پر انجام دیتے تھے ،ان کو قاہرہ سے تمام احکام ملتے یہاں تک کہ اسماعیلی امام عبد العزیز باللہ (المتومی ٣٨٦ھ کے عہد میں جلم بن شیبان کو فوجی مدد کے ساتھ سندھ بھیجا گیا ،جس نے اچانک سندھ میں بنو سامہ قریشی سے ٣٦٧ھ؁ حکومت چھین لی اور خود سندھ پر قبضہ کر لیا ۔جلم بن شیبان اسماعیلی سندھ میں پہلا اسماعیلی حاکم تھا ،پھر اس نے ملتان پر قبضہ کر کے فاطمی خلیفہ کا سکہ اور خطب جاری کردیا ۔اس نے اپنے اسماعیلی فرقہ کی خوب ہی تبلیغ واشاعت کے ساتھ ساتھ سلطنت کو بھی بہت مضبوط بنایا کہ آس پاس کے ہمسایہ ہندہ راجا ہوں سے ربط وضبط بڑھا کر ایک دوسرے کی امداد کرنے کا معاہدہ کر لیاتھا ۔

غرضیکہ سندھ پر ٤١٦ھ؁ تک اسماعیلوں نے خود مختار حکومت کی ٣٧٥ ھ؁ میں حاکم ملتان شیخ حمید تخت نشین ہوا پھر شیخ نصر (المتوفی ٣٩٠ھ؁) اس کے بعد اس کا لڑکا ابو الفتوح داؤد تخت نشین ہوا تو اس نے لاہور کے راجا جے پال کو محمود غزنوی کے مقابلہ میں فوجی امداد دی تھی ،اس جرم میں سلطان محمود غزنوی ٤٠١ھ؁ میں ملتان فتح کر کے غزنہ روانہ ہوگیا تھا ،تو اسماعیلی ملتان سے بھاگ کر سندھ آنا شروع ہوئے اور اجانگ سندھ کے منصورہ پر قابض ہوگئے ۔مگر ٤١٩ھ؁ میں سلطان محمود غزنوی نے ریاست سندھ منصورہ پر بھی قبضہ کر لیا ور اس طرح سندھ کا کل علاقہ غزنوی بادشاہ کے ماتحت آگیا تھا ایک تاریخی روایت کے مطابق محمود غزنوی نے سومناتھ فتح کرنے کے بعد واپسی پر سندھ کو بھی فتح کیا ،پھر سلطان شہاب الدین غوری نے ٥٧٠ھ؁ مطابق ١١٧٥ئ؁ میں لاہور کے غزنی خاندان کے آخری بادشاہ خسرو ملک کو مغزول کر کے پنجاب اور سندھ پر قبضہ کیا اور ٥٩٠ھ؁ بمطابق ١١٩٤ئ؁ میں گجرات اور بندھل کھنڈ کو فتح کرنے کے بعد اپنے ایک غلام قطب الدین ایبک کو اپنا نائب مقرر کرنے واپس غزنی چلا گیا شہاب الدین محمد غوری کو ٦٠٢ھ؁ مطابق ١٢٠٦ئ؁ میں وسطی پنجاب سے واپسی پر قتل کر دیا گیا ۔

١٢٠٦ئ؁ سے لیکر ١٥٢٦ئ؁ تک کا زمانہ تاریخ ہند میں سلطانوں یا پٹھانوں کے عہد کے نام سے معروف ہے ۔

عہد غزنی   ٩٨٠ئ؁ سے ١١٨٦ئ؁ تک حکومت کی

خاندان خلجی  ١١٨٦ئ؁ سے ١٣٢١ئ؁ تک حکومت کی

خاندان تغلق  ١٣٢١ ئ؁ سے ١٤١٣ئ؁ تک حکومت کی

خاندان سادات  ١٤١٣ئ؁ سے ١٤٥١ئ؁ تک حکومت کی

خاندان لودھی ١٤٥١ئ؁ سے ١٥٢٦ئ؁ تک حکومت کی

 محترم قارئین اکرام ۔اب ہم تاریخ کراچی کی قدامت کے سفر میں عہد مغلیہ بادشاہ شاہ محمد جلال الدین اکبر کے دور اقتدار کی جانب تاریخ مطالعے میں داخل ہوتے ہیں شاہ جلال الدین اکبر بادشاہ نے اپنے دور اقتدار میں تسخیر سندھ کے لیے ٩٩٩ھ؁ مطابق ١٥٩٠ئ؁ میں عبد الرحیم خان خانان کو سندھ پہنچا جہاں ١٠٠٠ھ؁ مطابق ١٥٩١ئ؁ میں عبد الرحیم خان خانان نے سندھ کے ترخانی حکمران مرزا جانی بیگ کو تسخیر کر کے سند کو بھی مغل سلطنت میں شامل کر لیا ۔پھر تو سندھ میں بھی مغلیہ دور کا آغاز ہوا ور ہندوستان سے بھی علماء وفضلا ومشائخین کے ساتھ ساتھ دیگر علوم وفنون کی بھی سندھ میں آمد ورفت شروع ہوئی ۔

 مغل سلطنت کی جانب سے سندھ کے گورنر یا نواب بھی مقرر ہوتے رہے محمود خان لودھی کو امول مغلیہ سندھ کا گورنرمقرر کیا گیا جو باقاعدہ سندھ کے انتظام وحفاظت کا نگراں تھا اس کے بعد دیگر والی و گورنر مقرر ہوتے رہے عبد الرحیم خان خانان کے تسخیر سندھ کے بعد ٹھٹھہ لاری بندر سے کیماڑی بندر ،جزیرہ منوڑہ میں ایک دن ورات قیام کرنے کا حال تاریخ سندھ میں تحریر ہے غرضیکہ سندھ کافی عرصہ مغلوں کے زیر اثر رہا ،مگر شہزادوں کی آپس کی اقتدار کی خانہ جنگی نے ایک وسیع مغل سلطنت کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ۔آخر کار علاقائی نواب صاحبان نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور یوں یہ مغل سلطنت دہلی تک برائے نام سلطنت مغلیہ کے نام سے آخری سانسیں لیتی رہی ۔

 غرضیکہ سندھ میں ترخانی عہد کا خاتمہ مرزا جانی بیگ پر ہوا پھر کلہوڑہ عہد میاں یار محمد کلہوڑہ سے شروع ہوکر میاں عبد النبی کلہوڑہ پر ختم ہو کر تالپور عہد میر فتح علی خان تالپور سے شروع ہو کر میر نصیر خان تالپور تک سندھ میں ٤٣ ١٨ئ؁ سے سندھ برطانیہ افواج کے قبضہ میں آگیا اور یوں سندھ مسلمان حکمران کے ہاتھوں سے ١٨٤٣ئ؁ تا ١٩٤٧ئ؁ تک اسلام دشمن قوت برطانوی سا مراج کے ہاتھوں میں آگیا اور یوں برصغیر میں مسلمان آپس میں دست و گریبان ہوئے یہ ان کی سیاست تھی کہ مسلمان ایک قوت نہ بن سکے اور ہم مسلمانوں پر حکومت کرتے رہیں اور اپنا مقصد و غرض حاصل کرتے رہیں جو انھوں نے خوب حاصل کیا ۔

کلہوڑہ اور داؤد پوتروں کا دعویٰ اصل نسل

 محترم قارئین اکرام ،کلہوڑہ اور داؤد پوتروں کا دعویٰ ابتداء ہی سے یہ ہے کہ وہ حضرت عباس (عم حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام ) کی نسل سے ہیں داؤد پوتروں اور کلہوڑہ ایک ہی نسبی شاخ عباسیہ کی دو روشن کرن ہیں یہ کلہوڑہ عباسیہ خاندان کے بزرگوں نے سندھ میں تزکیہ وارشاد کی مسند آراستہ کر کے شہرت اور اثر ورسوخ حاصل کیا ۔یہ کلہوڑہ بزرگ سلسلہ طریقت عالیہ سہر ورد یہ میں بیعت وصاحب مجاز تھے ،ان کا آبادئی سلسلہ سندھ میں پیری و مریدی کا تھا ۔پھر وہ شاہی منصب دار بنے اور آہستہ آہستہ پورا سندھ ان کے دائرہ حکومت میں آگیا ۔

کلہوڑہ عہد اس وجہ سے بھی بطور خاص اہم واقدام تھا کہ سندھ کا نام اسی زمانے میں نئے سرے سے زندہ ہوا اور اس نے اپنی طبعی حیثیت واستقلال حاصل کیا (از تاریخ سندھ عہد کلہوڑہ )

محترم قارئین اکرام ۔اب ذیل میں سندھ میں کلہوڑہ حکمران کے اسم گرامی ودورحکومت تحریر کرتا ہوں ۔

سندھ میں کلہوڑہ حکمراں

١۔ میاں یار محمد خان کلہوڑہ  ١١١٣ھ بمطابق ٠١ ١٧ء تا صفر ١١٣١ھ بمطابق ١٧١٨ء

٢۔ میاں نور محمد خان کلہوڑہ  صفر ١١٣١ھ بمطابق ١٨ ١٧ء تا ١١٦٧ھ بمطابق ١٧٥٣ء

٣۔ میاں مراد یاب خان کلہوڑہ   ١١٦٧ھ بمطابق ٥٣ ١٧ء تاشوال،جون ١١٧١ھ بمطابق ١٧٥٧ء

٤۔ میاں غلام شاہ کلہوڑہ شوال ، جون  ١١٧١ھ بمطابق ٥٧ ١٧ء تا ٢٥صفر ، ٨نمبر ١١٧١ھ بمطابق ١٧٥٧ء

٥۔ میاں عطر خان کلہوڑہ٢٥ صفر ، ٨ نومبر   ١١٧١ھ بمطابق ٥٧ ١٧ء تا یکم شوال ، جون ١١٧١ھ بمطابق ١٧٥٨

٦۔ میاں غلام شاہ خان کلہوڑہ یکم شوال ، جون   ١١٧١ھ بمطابق ٥٨ ١٧ء تا جمادی اول ، اگست ١١٨٦ھ بمطابق ١٧٧٢ء

٧۔ میاں محمد سرفراز خان کلہوڑہ جمادی الاول ، اگست  ١١٨٦ھ بمطابق ١٧٧٢ء تا ربیع الاول ، مئی ١١٨٩ھ بمطابق ١٧٧٥ء

٨۔ میاں محمود خان کلہوڑہ  ۔۔۔۔۔۔ ھ تا  ۔۔۔۔۔ھ

٩۔ میاں غلام نبی خان کلہوڑہ ۔۔۔۔۔۔ ھ تا  ۔۔۔۔۔ھ

١٠۔ میاں عبد النبی خان کلہوڑہ ۔۔۔۔۔۔ ھ تا  ١١٩٤ھ بمطابق ١٧٨٠ئ

 محترم قارئین ! کراچی سندھ کا قدیم حصہ ہے اس کی بندرگاہ کو برصغیر کی قدیم بندرگاہ دیبل (دربو ) ہونے کا عجا ز حاصل ہے مگر کلہوڑہ دور کے حکمران میاں یار محمد کلہوڑہ نے کراچی بندرگاہ کو والی قلات میر محراب خان کے خون بہا میر سمندر خان کو بحکم اورنگ زیب عالمگیر ١٦٩٧ئ؁ میں نذر کیا تھا ۔پھر سندھ میں جب میاں غلام شاہ کلہوڑہ بر سر اقتدار آیا تو ١٦٥٧ئ؁ میں کراچی بندرگاہ کو واپس والی قلات میر نصیر خان اول سے حاصل کر کے سندھ میں شامل کر لیا ۔پھر میاں عبد النبی خان کلہوڑہ جو کلہوڑہ دور کا آخری حکمران تھانے کراچی بندرگاہ کو ١٧٨١؁ میں والی قلات میر نصیر خان کو اس کے داماد میر رزق خان بر وہی کے خون بہا میں نذر کر دیا ،پھر سندھ میر فتح علی خان تالپور تھا نے ١٧٨٤ئ؁ میں والی قلات میر نصیر خاں سے کراچی بندر گاہ کو واپس حاصل کر کے پھر سے سندھ میں شامل کر لیا ،لہٰذا ذیل میں ہم میران والی قلات احمد زئی کے اسم گرامی درجہ کرتے ہیں ،کیونکہ کراچی اول ١٦٩٧ئ؁ سے ١٧٥٧ئ؁ تک والی قلات کے پاس رہا پھر ١٧٨١ئ؁ سے ١٧٨٤ئ؁ تک والی قلات کے پاس رہا تھا ،جب کہ سندھ میں کلہوڑہ حکمران میاں یار محمد کلہوڑہ سے لے کر میاں مراد یاب خان کلہوڑہ تک کراچی والی قلات کے پاس رہا ۔پھر میاں غلام شاہ کلہوڑہ سے لے کر میاں غلام نبی کلہوڑہ کے عہد تھ کراچی بندرگاہ سندھ میں رہا مگر آخری کلہوڑہ حکمران میاں عبد النبی کلہوڑہ نے میر بجار خان تالپور کا قتل کروادیا جس کے خوف سے کہ تالپوراسے قتل نہ کردیں سندھ سے فرار ہو کر براستہ کراچی قلات روانہ ہوگیا ،والی قلات سے فوجی امداد حاصل کر کے تالپوروں کے مقابل پر آیا ،مگر تالپوروں نے اس کو شکست دی اس جنگ میں والی قلات میر نصیر خان کا داماد میر رزق خان بر وہی قتل ہوا ،جس کے خون بہا میں والی قلات نے میاں عبد النبی کلہوڑہ سے کراچی بندرگاہ پھر سے حاصل کر لی ،مگر جب میر فتح علی خان تالپورہ سندھ کا اول تالپور حکمراں مقرر ہوا تو اس نے کراچی بندرگاہ کو پھر سے والی قلات سے حاصل کر لیا۔

والی ء قلات

احمد زئی حکمران

١۔ میر یلتاز کان اول  ١٦٦٦ئ؁ تا ١٦٩٥ئ؁

٢۔ میر محراب خان  ١٦٩٥ئ؁ تا ١٦٩٧ئ؁ کراچی بندر گاہ قلات میں

٣۔ میر سمندر خان  ١٦٩٧ئ؁ تا ١٧١٤ئ؁

٤۔ میرا حمد خان چہارم  ١٧١٤ئ؁ تا ١٧١٦ئ؁

٥۔ میر عبد اللہ خان  ١٧١٦ئ؁ تا ١٧٣١ئ؁

٦۔ میر محبت خان اول  ١٧٣١ء تا ١٧٣٣ئ؁

٧۔ میرا یلتاز خان  ١٧٣٣ئ؁ تا ١٧٣٦ئ؁

٨۔ میر محبت خان دوئم  ١٧٣٦ئ؁ تا ١٧٤٧ئ؁

٩۔ میر نصیر خان اول  ١٧٤٧ئ؁ تا ١٧٩٤ئ؁

١٠۔  میر محمود خان اول  ١٧٩٤ئ؁ تا ١٨١٧ئ؁

١١۔ میر محراب خان دوئم  ١٨١٧ئ؁ تا ١٨٣٩ئ؁

١٢۔ میر شاہنواز خان  ١٨٣٩ئ؁ تا ١٨٤١ئ؁

١٣۔ میر نصیر خان دوئم  ١٨٤١ئ؁ تا ١٨٥٧ئ؁

١٤۔ میر خدا داد خان اول  ١٨٥٧ئ؁ تا ١٨٦٢ئ؁

١٥۔ میر شیر دل خان  ١٨٦٢ئ؁ تا ١٨٦٤ئ؁

١٦۔ میر خدا داد خان دوئم  ١٨٦٤ئ؁ تا ١٨٩٣ئ؁

١٧۔ میر محمود خان دائم  ١٨٩٣ئ؁ تا ١٩٣١ئ؁

١٨۔ میرا محمد اعظم خان  ١٩٣١ئ؁ تا ١٩٣٣ئ؁

١٩۔ میر احمد یار خان  ١٩٣٣ئ؁ تا ١٩٧٧ئ؁

٢٠۔  میر محمد داؤد خان  ١٩٧٧ئ؁ تا ؁ئ

نقشہ سلطنت خدا داد ٹالپور

مملکت سندھ ١٨١١ئ؁

ٹالپور میروں کا جدی

شجرہ نسب

میر زنگی خان  میر مبارک خان

میر بجار خان  میر عیسیٰ خان  میر ٹالھے خان  میر آلھے خان

میر بھالہ خان  رامن خان   اللہ دتہ خان   ہلیل خان جد ہیلانی

میر شاہو خان  میر جنید خان (جد ٹھوڑھا)میر شہک خان (جد بھر گڑی ) میر سلیمان خان عف ککو خان

میر ہوتک خان  میر بجار خان  میر جتک خان  میر علی خان   میر جیوں خان

میر میرن خان  میرد پھر خان  میر سفری خان  میر شہید اد خان  میر شہک خان  میر شہک خان  میر شاہو خان

میر نندا خان  میر چاکر خان  میر بہرام خان  میر خیرو خان  میر سہراب خان

میر بجار خان شہید  میر صوبیدا خان شہید  میر محمد خان   عبد اللہ خان شہید  

میر بہرام خان  میر غلام حسین خان  میر فتح علی خان  میر غلام علی خان  مہر کرم علی خان

میر مراد علی خان  میر صوبیدار خان  میر محمد خان   میر نور محمد خان  میر محمد نصیر خان

میر محمد خان   میر یار محمد خان  میر حسین علی خان  میر شہیداد خان  میر حسن علی خان  میر عباس علی خان  میر عبد الحسین خان

ٹالپور

 محترم قارئین اکرام ،ٹالپور اصل نسبی بلوچ ہیں ،ٹالپور ،کلہوڑہ ،دور میں منظر عام پر آئے ،انھوں نے کلہوڑہ حکمران نے اپنی فطری کمزوری کے سبب سے بد گمانی اختیار کی لیکن ٹالپور ان پر اپنی جانیں نچھاور کرتے رہے اور کلہوڑہ حکمراں بید ردی سے اپنے جانٹاروں کو قتل کرتے رہے ،آخر دور کے کلہوڑہ حکمرانوں کے ظلم و ستم کے سبب عوام نے کئی مرتبہ تخت و تاج حکمرانی کلہوڑوں سے چھین کر میروں ٹالپوروں کی نذر کیا مگر میران ٹالپوروں نے ہر بار تخت و تاج عوام سے لے کر اپنے آقا کلہوڑوں کے قدموں میں ڈال دیا کیونکہ آخری کلہوڑہ حکمران میاں عبد النبی نے تو اپنے اقتدار کی خاطر اپنے ہی بھائی و بھتیجے کو قتل کروادیا تھا ،غرضکہ آخر کار میاں عبد النبی کلہوڑہ سندھ سے اپنی حکومت چھوڑ کر از خود قلات فرار ہوا ۔پھر بھی ٹالپوروں نے سندھ سے اپنی حکومت چھوڑ کر از خود قلات فرار ہوا ۔پھر بھی ٹالپوروں نے سندھ کے حکمرانی پر کلہوڑہ خاندان کے ایک فرد میاں صادق علی فقیر کلہوڑہ کو مسند نشین کیا اور سندھ کی حکمرانی کا کام حسب سابق از خود اپنے ہاتھوں میں رکھا ۔جب کلہوڑ وے از خود اپنے ہاتھوں ختم ہوگئے تو ٹالپورہ اور سندھ کی عوام نے سندھ کی حکمرانی میر فتح علی خا کے عنان اختیار میں دی اس ٹالپور حکمران نے بہت تھوڑے عرصے میں سندھ کی سر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیا ۔اگر چہ برطانوی انگریزوں نے دھو کے اور فریب سے اس ٹالپور خاندان کو ١٨٤٣ئ؁ میں تخت وتاج حکمرانی سندھ سے محروم کر دیا ،مگر بعد قیام پاکستان پھر سے سیاسی ،معاشی اور اخلاقی اعتبار سے اس ملک خدا داد پاکستان کے ہر دور میں اقتدار اعلیٰ پر فائز ہوتے رہے ۔

سندھ میں تالپور حکمران

١١٩٨ھ؁ بمطابق ١٧٨٤ تا ١٢٥٩ھ؁ بمطابق ١٨٤٣

 محترم قارئین اکرام ،میر فتح علی خان ٹالپور ١٧٨٤ئ(١١٩٨ھ) میں آخری کلہوڑہ حکمران میاں عبد النبی کلہوڑہ کے ایک عرصے بعد سندھ کی عوام کے ایماں پر اور سندھ میں افغانستان کے زیر سایہ ١٧٨٤ء (١١٩٨ھ) سے ١٨٠٢ئ(١٢١٧ھ)تک حکمران رہا ،میر فتح علی ٹالپور نے سندھ کو سات حصوں میں تقسیم کر کے چار حصے اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے مختص کر لئے تھے ۔ان کا دارالخلافہ حید آبادتھا ،دو حصے میر سہراب خان اور ایک حصہ میر ٹھار وخان کے حصے میں آیا ،اول آلذکر کا دارالسلطنت خیر پور اور آخر الذکر کا مرکز میر پور قرار پایا ۔میر فتح علی خان ٹالپور کے تین بھائی میر غلام علی ،میر کرم علی اور میر مراد علی ٹالپور تھے ۔یہ چاروں بھائی ملکر جنوبی سندھ کا نظم و نسق چلاتے تھے ،سندھ میں یہ ٹالپور حکومت چوباری حکومت کے نام سے معروف تھی ،خیر پور ،میر پور کے میران ،حید آباد کے میر حکمران کو ہی اپنا سر براہ مانتے تھے ،ہر میر کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے یا بھائی کو اس کی جگہ جانشین سلطنت مقرر کرتے یا ہوتے تھے ۔

جنوبی سندھ کے ٹالپورحکمران

اول حکمران :میر فتح علی خان ٹالپور  ١٧٨٤ء بمطابق ١١٩٨ھ؁ تا ١٨٠٢ء بمطابق ١٢١٧ھ؁

حکمران  :میر غلام علی خان ٹالپور ١٨٠٢ء بمطابق ١٢١٧ھ؁ تا ١٨١١ء بمطابق ١٢٢٦ھ؁

حکمران : میر مراد علی خان ٹالپور  ١٨٢٨ء بمطابق ١٢٤٣ھ؁ تا ١٨٣٣ء بمطابق ١٢٤٩ھ؁

حکمران  : میر نور محمد خان ٹالپور  ١٨٣٣ء بمطابق ١٢٤٩ھ؁ تا ١٨٤١ء بمطابق ١٢٥٧ھ

حکمران  : میر نصیر خان ٹالپور ١٨٤١ء بمطابق ١٢٥٧ھ؁ تا ١٨٤٣ء بمطابق ١٢٥٩ھ

 محترم قارئین اکرام ٹالپور حکمران نے سندھ میں ١٧٨٤ء (١١٩٨ھ) تا مارچ ١٨٤٣ئ(١٢٥٩ھ)تقریباً ٦٠ سال تک حکومت کی ٹالپور حکمران میں میر نصیر خان ٹالپور آخری حکمران تھا ،کیونکہ ٢٤ مارچ ١٨٤٣ئ(١٢٥٩ھ) میں برطانوی افواج نے سندھ کو مکمل اپنے قبضے میں لیکر برطانوی قانون نافذ کر دیا تھا ۔

 سندھ پر برطانوی افواج کا کمانڈر انچیف مسٹر چارلس نیپئیر سندھ کا ول برطانوی گورنر مقرر ہوا ،وہ بڑا مکار ظالم جنرل تھا ،چارلس نیپئیر نے ازخود ایک موقع پر سندھ پر قبضہ کرنے کابیان میں اقرار کیا ہے ۔

''اگرچہ سندھ پر قبضہ کرنے کا ہمارے پا س کوئی جواز نہ تھا تا ہم ہم نے سندھ پر قبضہ کر لیا ،اور یہ ہماری مکاری و دغا بازی کا عمل حکومت برطانیہ کے حق میں ایک بڑا مفید کرشمہ حصول زر ثابت ہوا ۔''

محترم قارئین اکرام ،اب ہم آپ کو فروری ١٨٤٣ئ(١٢٥٩ھ) کراچی سے ٹالپور حکومت کا ختم اور برطانوی قبضہ کے بعد کے گورنر زو کمشنر زکا حال بیان کرتے ہیں ۔

١۔گورنر جنرل سندھ مسٹر چالس نیپئیر فروری ١٨٤٣ئ(١٢٥٩ھ) تا اکتوبر ١٨٤٧ء (١٢٦٣ھ)

 مسٹر چارلس نیپئیر کے گورنر سندھ کے عہد سے سبکدو شی ہونے پر گورنر جنرل ہند نے سندھ کی صوبائی حیثیت ختم کر کے سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے منسلک کر دیا اور سندھ میں بمبئی کے گورنر کے زیر نگرانی سندھ میں کمشنر مقرر کئے ۔

١) کمشنر سندھ ۔ مسٹر رابرٹ کیتھ پرنگل ۔یکم اکتوبر ١٨٤٧ئ(١٢٧٣) تا دسمبر ١٨٥٠ء (١٢٦٧) ھ تا جنوری ١٨٥١ئ(١٢٦٧ھ)

٢) کمشنر سندھ ۔مسٹر بار ٹلے فرئیر

جنوری ١٨٥١ء (١٢٦٧ھ) تا اکتوبر ١٨٥٩ئ(١٢٧٦ھ)

نوٹ: مسٹر بار ٹلے فرئیر تبدیلی آب و ہوا کے لیے لندن گیا تو ١٨٥٦ء میں جنرل جیک کو قائم مقام کمشنر سندھ مقرر کیا جب جنرل جیکب کو قائم مقام کمشنر سندھ مقرر کیا جب جنرل جیکب کو قائم مقام کمشنر سندھ مقرر کیا تو جنرل جیکب ایران گئے تو قائم مقام کمشنر سندھ مسٹر ایلس کو مقرر کیا پھر فرئیر رخصت سے واپس آیا ور اکتوبر ١٨٥٩ء (١٢٧٦ھ) تک کمشنر سندھ کے عہد پر فائز رہا ۔

٣) کمشنر سندھ ۔ مسٹر جو ناتھن ڈنکن انویریرٹی  اکتوبر  ١٨٥٩ء بمطابق ١٢٧٦ھ؁ تا مارچ تا ١٨٦٢ء بمطابق ١٢٧٨ھ

٤) کمشنر سندھ ۔مسٹر سیمونیل مینسفیلڈ  مارچ ١٨٦٢ء بمطابق ١٢٧٨ھ؁ تا ١٨٦٧ء بمطابق ١٢٨٤ھ؁

 قائم مقام مسٹ ریڈی رابرٹس 

٥) قائم مقام کمشنر سندھ ۔مسٹر ہیولاک  ١٨٦٧ء بمطابق ١٢٨٤ھ؁   تا ١٨٦٨ء بمطابق ١٢٨٥ھ؁

٦۔ کمشنر سندھ ۔ مسٹرو لیم میری ویدر  ١٨٦٨ء بمطابق ١٢٨٥ھ تا ١٨٧٧ء بمطابق ١٢٩٤ھ؁

٧۔ کمشنر سندھ ۔ مسٹر فرانس ڈیوس میل ولی  ١٨٧٧ء بمطابق ١٢٩٤ھ تا ٩ ١٨٧ء بمطابق ١٢٩٦ھ؁

٨۔ کمشنر سندھ ۔ مسٹر ہنری نیپئیر بروس ارسکن  جون ١٨٧٩ء بمطابق ١٢٩٦ھ تا اپریل ١٨٨٧ء بمطابق ١٣٠٤ھ

٩۔ کمشنر سندھ مسٹر ٹریور   ١٣ اپریل ١٨٨٧ء بمطابق ١٣٠٤ھ؁ تا جنوری ١٨٨٨ء بمطابق ١٣٠٥ھ؁

١٠۔  کمشنر سندھ ۔مسٹر چارلس پر چرڈ  جنوری ١٨٨٨ء بمطابق ١٣٠٥ھ؁ تا دسمبر ١٨٨٩ء بمطابق ١٣٠٧ھ؁

١١۔ کمشنر سندھ ۔ مسٹرایوانس جیمس   دسمبر ١٨٨٩ء بمطابق ١٣٠٧ھ ؁ تا دسمبر ١٨٩٥ء بمطابق ١٣١٣ھ؁

١٢ ۔ کمشنر سندھ ۔مسٹر سر چارلس اولیونٹ   دسمبر ١٨٩٥ء بمطابق ١٣١٣ھ؁ تا دسمبر ١٨٩٦ء بمطابق ١٣١٤ھ؁

١٣۔  کمشنر سندھ ۔مسٹرایوانس جیمس دسمبر ١٨٩٦ء بمطابق ١٣١٤ھ؁ تا دسمبر ١٨٩٧ء بمطابق ١٣١٥ھ؁

١٤۔  کمشنر سندھ ۔مسٹروینگٹ جون ١٨٩٧ء بمطابق ١٣١٥ھ؁ تا جنوری ١٨٩٨ء بمطابق ١٣١٦ھ؁

١٥۔ کمشنر سندھ ۔مسٹرآرجائلس  جنوری ١٨٩٨ء بمطابق ١٣١٦ھ تا دسمبر ١٨٩٨ء بمطابق ١٣١٧ھ ؁

١٦۔ کمشنر سندھ ۔مسٹرایوانس جیمس جنوری ١٨٩٨ء بمطابق ١٣١٦ھ تا دسمبر١٩٠٠ء بمطابق ١٣١٧ھ ؁؁

١٧۔ کمشنر سندھ ۔مسٹرینگ سینڈ  جنوری١٩٠٠ء بمطابق ١٣١٧ھ ؁؁ تا ١٩١٤ء بمطابق ١٣٣٢ھ؁

١٨۔ کمشنر سندھ ۔مسٹرولیم ہنری لوکس  ١٩١٤ء بمطابق ١٣٣٢ھ ؁؁ تا ١٩١٩ء بمطابق ١٣٣٧ھ؁

١٩۔ کمشنر سندھ ۔مسٹرپی آر کیڈل  ١٩١٩ء بمطابق ١٣٣٧ھ تا ١٩٢٤ء بمطابق ١٣٤٣ھ؁

٢٠۔ کمشنر سندھ ۔مسٹربی اے تھامس ١٩٢٤ء بمطابق ١٣٤٣ھ؁ تا ١٩٢٨ء بمطابق ١٣٤٧ھ؁

٢١۔ کمشنر سندھ ۔مسٹروالٹر ہڈسن ١٩٢٨ء بمطابق ١٣٤٧ھ؁ تا ١٩٣١ء بمطابق ١٣٤٩ھ؁

٢٢۔ کمشنر سندھ ۔مسٹرہنری اٹینلی لارنس  ١٩٣١ء بمطابق ١٣٤٩ھ تا ١٩٣٣ء بمطابق ١٣٥٢ھ؁

٢٣۔ کمشنر سندھ ۔مسٹرآر ای گبسن   ١٩٣٣ء بمطابق ١٣٥٢ھ تا اپریل ١٩٣٦ء ١٣٥٥ھ ؁

 نوٹ:اپریل ١٩٣٦ ئ؁ میں مسلم لیگ اور کانگریس کے زور پر سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرکے پھر سے صوبے کا درجہ دے دیا گیا اس کے بعد سندھ میں کمشنر ان کا سلسلہ منقطع کردیاگیا اور سندھ میں پارلیمانی نظام کورواج دینے کے لیے مسٹر سرلینسی لارڈ گراہم کو سندھ کا گورنر مقررکیا گیا۔

٢۔ گورنرسندھ۔مسٹر سرلینسی لارڈ گراہم  اپریل ١٩٣٦ء بمطابق ١٣٥٥ھ تا اپریل ١٩٤١ تا ١٣٦٠ھ؁

٣۔ گورنرسندھ۔مسٹر سرہوچ ڈاؤ اپریل ١٩٤١ بمطابق ١٣٦٠ھ؁ تا جنوری ١٩٤٦ء بمطابق ١٣٦٥ھ؁

٤۔ گورنرسندھ۔مسٹر سرفرانس مووی جنوری ١٩٤٦ء بمطابق ١٣٦٥ھ؁ تا ١٤ اگست ١٩٤٧ بمطابق ١٣٦٦ھ

شروع ١٨٤٣ئ؁ سے برطانوی دور حکومت ١٤ اگست ١٩٤٧ئ؁ کوختم ہوگئی اور ١٤ اگست ١٩٤٧ئ؁ (١٣٦٦ھ)آزادی یعنی قیام پاکستان کے وقت سندھ کے پہلے مسلمان گورنر سر غلام حسین ہدایت اللہ مقرر ہوئے جن کا مرقد بخاری سرا ء کے زیر سایہ عید گاہ میدان ایم۔اے جناح روڈ پر ہے۔(ہسٹری آف کراچی)

حوالہ جات

تاریخ اسلام  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امتیاز پراچہ

تاریخ سندھ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعجاز الحق قدوری

تاریخ بلوچستان  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرگل خان نصیر

سفرنامہ بلوچستان  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہنری یوٹنجر

تاریخ کلہوڑہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام رسول مہر

منوڑا   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر عبدالحمید خان

مکہ مشرق   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمودہ رضویہ

یادداشت  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیٹھ ناؤ مل

سندھ بولی جی تاریخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھیرومل مہر چندایڈوانی

وادی ملیر  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمید ناصر

قلمی جمال قطب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی شاہ خدابخش مینائی

کراچی تاریخ کے آئینہ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد عثمان ذموھی

تاریخ تالپور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا غلام فرید

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 بعد حمد وصلوٰۃ کے جاننا چاہیے کہ حق تعالیٰ عزوجل نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے واسطے اپنے محبوب افضل واکرام ومکرم حضور محمد مصطفی ؐ کو بھیجا اور اپنا خاص کلام ،کلام الٰہی قرآ ن پاک آپ ؐ پر نازل فرمایا اور چراغ رہنمائی کا آپ ؐ کے دستِ قدرت میں دیا اور اپنی کمال مہربانی سے جہان عالم کو شرک اور کفر کی تاریکی سے نکال کر ہمارے دلوں کو نور ِ ایمانی سے روشن کیا۔

 پس انہی صاحب ِ ایمان کا مذہب دین اسلام ہے اور تمام سابقہ مذاہب پردین اسلام قرآن پاک و شرعِ محمد ی ؐ کو غالب وافضل تاقیامت فرمادیا کہ اب تمام بنی آدم دین اسلام قبول کرکے اطاعت محمدی ؐ میں اپنی زندگی بسر کریں۔

 کہ اے بنی آدم یہی تمھارے حق میں بہتر ہے اور تمھارے رب تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی پسندیدہ دین ہے۔

 اور یہ سب حق تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب نور مجسم محمد مصطفیٰ ؐکے صدقہ عطا و فضل فرمایا ہے،یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی نعمت ہے کہ بنی آدم اس پر جس قدر بھی شکراداکرے وہ کم ہے ،کیوں کہ حق تعالیٰ نے اپنے محبوب حضور پر نور ؐ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکربھیجا نبوت کو آپ ؐ پر ختم فرمادیا۔

 یہ سب حق تعالیٰ کی آپ ؐ سے محبت کی ابتداء اور عشق کی انتہاء کا ظہور قدرت ہے۔

عرضیکہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی تعلیمات کے لیے قرآن پاک و شرع محمدی ؐ کو لازمی قرار دیا اور ایسی پر آئمہ علیھم السلام واصحاب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم علیھم اجمعین بعدہ اولیاء عظام کا بھی ظاہر و باطن عمل نیک ایسی دین اسلام پر رہاکہ وہ تاحیات قرآن وسنت نبوی ؐ کی تبلیغ واشاعت کافریضہ انجام دیتے رہے یعنی دنیا کے ہر کونے میں اولیا ء اللہ نے دین اسلام پھیلایا آج سے تین صدی پہلے اس سرزمین کراچی میں ''حضرت قطب عالم سید عبدالوہاب عالم شاہ بخاریؒ نے (رام شالہ باغ قصبہ دربوبندرسندھ)'' موجودہ آرام باغ کراچی جو اس وقت ہندوؤں کی مذہبی عبادت گاہ تھی کو اپنے ظاہر و باطن نیک عمل سے فتح کرکے دین اسلام کا جھنڈا بلند کیا ،زیرغور قلمی یادداشت سوانح ھذا بنام جمال قطبِ عالم راقم کے والد بزرگ سیدی ومرشدی حضرت مولوی حافظ شاہ خدا بخش کاظمی مینائی لکھنوی ثم کراچوی ؒ ابن حضرت مولوی شاہ حبیب اللہ کاظمی مینائی فرنگی محلیؒ کو بدست خادم قدیم بخاری سرا میاں فقیر تاج محمد پیر (مرحوم)سے دستیاب ہوئی تھی۔جس کو خوش خطی کے لیے دے دیا ہے کیوں کہ وہ میرے خوش خصال تلمیذ ہیں۔

اس قلمی یادداشت کی روایت تین زبانوں ہندی،سندھی،فارسی، میں تحریر تھی جس کا قبلہ والد بزرگ علیہ رحمۃ نے جمال قطب عالم کے نام سے اردو میں ترجمہ کرکے محفوظ کردیا تھا۔راقم نے بعد وصال والد بزرگ علیہ رحمۃ کے اس یادداشت میں ان کے حالات اپنے وطن لکھنو سے ہجرت کرکے ملتان پھر کراچی آمد اور قدیم بخاری سرا موجودہ عید گاہ میدان بندر روڈ کراچی کا مصداق روایت کے ساتھ حال قلم بند کردئیے ہیں ۔اصل قلمی نسخہ جو کے کافی قدیم خستہ حال اوراق میں تھا وہ راقم کے پاس دیگر جدی تبرکات میں محفوظ تھا مگر افسوس کہ زمانہ انقلاب تحریک پاکستان کی مصروفیات کے سبب توجہ نہ ہونے کے باعث وہ دیگر جدی تبرکات جو قدیم زمانے سے ایک لکڑی کے صندقچہ میں دیمک لگنے سے سمندر بود کرنی پڑی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قلمی نسخہ کی اردو نقل کافی حد تک محفوظ رہی ۔راقم نے اس کو از سر نو جہاں جہاں دیمک لگ گئی تھی درست کردیا ہے لہٰذاہ میں حضرت مولانا مفتی عبدالکریم درس صاحب وجناب خان احمد خان بلوچ (لیاری گوائز)جناب موسیٰ بھائی(کھارادر)جناب فیض محمد بلوچ(کھڈہ)جناب عبدالغنی خان (صدربازار)جناب چوہدری نذیر احمد صاحبان کا مشکور ہوں کہ جن صدق زبانی بیان کردہ روایات اس یادداشت جمال قطب عالم میں نقل ہوئی اس کے بعد راقم نے اس یادداشت بنام جمال قطب عالم کو منشی رحمت علی ملتانی کو خوش خطی کے لیے دے دیا ہے تاکہ اس کی ایک نقل حکم دین محمد کو بھی دیں دے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللھم صل علی محمد فی الاولین وصل علی محمد فی الاخیر وعلی الہ واصحابہ وزیاتہ والا ولیاء امتہ ،وفقراء طریقتہ،وعلماء شریعتہ اجمعین برحمتہ یا ارحم الرحمین۔

چند سطر حصول برکات

نورِدید:مخلص و محب اخی فی الدین مسمی عزیز قلبی نورِ چشمی سادات کاظمی مکرمی مولوی شاہ خدابخش کاظمی مینائی سہروردی لکھنوی ثم کراچوی دافیض ظلہ حاضر متولی درگاہ بخاری سرا قدیمی قصبہ کراچے بندرملک سندھ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محرر از فقیر خادم الفقراء نام قاضی نورمحمد قریشی عفی عنہ

ساکن شہر پناہ میٹھا در کراچے

بعد سلام ودعا کہ عاجز عرض نویسندہ کے روبرودستی روزنامچہ جو مکتوب اردو باسم جمال قطب ِ عالم رُئیدادِ عمری الشیخ علم کلاں پیر حضرت سید عبدالوہاب المعروف بابا علم شاہ بخاری اُوچی نوراللہ مرقدہ کی مرقد مبارک قدیم بخاری سرا قصبہ کراچے بندر سندھ مصداق ہے یہ دستی روزنامچہ جو برسہابرس سے طاق دانِ خادمان میں محفوظ تھا ،یہ ١٢٧٤ھ؁ بدست خادم جدّی درگاہ بخاری سَراعزیزم فقیر محمد پیر خلف الرشید الصدق خادم دادا مولوی خیر محمد پیر(مرحوم ) سے مکرمی مولوی شاہ خدا بخش مینائی سلمہ، کو دستیاب ہوا جو کہ سندھی ،ہندی ،فارسی خط میں مگر برباد حال اوراق میں تھا جو کہ مینائی سلمہ، نے ایسی گھڑی میں اس دستی روزنامچہ کو اُردو کا جامہ زیب کرکے مکتوب مرتب یا جب کہ قصبہ کے اہل ھنود ایک عرصے سے الشیخ علَم حضرت سید عبدالوہاب المعروف کلاں پیر بابا علَم شاہ بخاری اُونچی نوراللہ مرقدہ کے وجود المقصود بالذات کے قدیمی عداوت کے سبب انکاری تھے،جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ حضرت کلاں پیر بابا علم شاہ بخاری نوراللہ مرقدہ نے ١٠٢٥ھ؁ میں اس قدیم کفرستان رام دھرم شالہ کے نظام بدکوزیر کرکے دین اسلام کا جھنڈا اس خطہ میں اونچا کیا اور اسی خطہ میں بود وباش اختیار کرکے دین اسلام کی تعلیم پھیلانے کے لیے بخاری سرا کے نام سے خانقاہ آباد کی جہاں خطہ کے بے شمار اہل ھنود آپ کے دست مبارک پر دین اسلام قبول کرکے کامل مسلمانی اختیار کی،بخاری سرا میں طرفیں قصبہ کے بے سہار ا غریب مسکین لوگ دینی و باطنی ذکر اللہ کی تعلیم پاتے اور حج بیت اللہ شریف ومقدس مقامات کی زیارت وغیرہ جانے والے لوگ یہاں آتے جاتے منزل کرتے تھے۔

مُحَرِّر ھذا کے اجداد اکرام قاضی القریشی بھی قدیم زمانے عہد حکمرانی کلہوڑہ سے اسی قصبہ شہر کراچے کے قاضی القضات مامور ہوتے رہے ہیں جو درگاہ بخاری سَرا کی حاضری کو سعادت جانتے تھے کیوں کہ یہ درگاہ بخاری سَرا بڑی منسب الدعوات ہے۔

مکرمی مینائی سلمہ، نے اس قدیم دستی روزنامچہ جو کہ مصداق ہے کا خاطر خواہ جمالِ قطبِ عالم کے اسم سے اردو میں نقل کرکے مکتوب کی صورت میں مزین کردیاہے یہ اہل قصبہ شہر کراچے کے مسلمانوں کے لیے اللہ رب العالمین کا فضل ہے اور مکرمی مینائی سلمہ کی نسبت باطنی کاقوی ثمرہ ہے کیوں کہ برگزیدہ اہل اللہ کے اذکار مخلوق ِ خدا کے واسطے خیر وبرکت کے ساتھ نفع صراط مستقیم بھی ہے۔اللہ تعالیٰ مکرمی مینائی سلمہ کی اس سعی ِ مشکور کو جزاک اللہ فی الدارین خیرا، فرمائے ۔آمین ،والسلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی خیر المرسلین

تمھید

 اما بعد: رب العالمین نے سب سے پہلے اپنے نور پاک سے ایک نور پیدا کیا جس کی خبر خود اس مُلھم صادق نے اس طرح منادی فرمایا

اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہ نُوری پھر یہی نور بارباعث اِختراع کل مخلوقات کا ہوا رب العالمین نے اپنی قدرت کاملہ سے اس پھیلائی ہوئی زمین پر جس کو ازخود پانی پر پیدا کرکے بکلے پہاڑ کی نہ ہلنے والی میخوں سے سکون میں لاکر اپنی کسی دوسری مخلوق کو اس پر آباد کررکھا تھا،اس کے بجائے اس انسانی شکل و صورت کاایک ایساجوڑا جو اس وقت تک حجاب تھے عدم سے ظہور میں نہ آیا تھا اپنا ماتحت ،خلیفہ بناکربھیجا۔

 اِنَّ اللہّٰ خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰے صُوْرَۃٍ اور اس کل مخلوق پر جو اس سے پہلے پیداکرچکا تھا،اس کو حاکم بنایا اور پیدائش کا سلسلہ اس سے لگاتار مسلسل جاری رکھ کر اس کی اولاد کوتمام روئے زمین پر پھیلادیا اور اس کی ھدایت اور راہنمائی کے لیے انہی میں سے ایک کو چناؤ کیا اور تاج نبوت اور رسالت کے عہدہ سے سرفراز کرکے جدا جدا قوموں پر یک بعد دیگرے حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک وقتا فوقتا بھیجتارہا،باقی عام مخلوق کوان کے زیر اطاعت رکھا حتیٰ کہ کل دنیا آباد ہوچکی اور چپہ چپہ زمین پر اس انسان کا دخل ہوچکا اور اس نے اپنی عقل خدادا سے قدرت کے ایسے راز سربستہ کھولنے شروع کردئیے جن کا ظہور اس وقت نہیں ہوا تھا۔

پس ایسی مخلوق کی ھدایت کے لیے آخر میں ایک ایسے نبی کو مبعوث فرمایا کہ جس کی شان رب العالمین نے از خود اعلان فرمایا کہ

لَولَاکَ لَولَاکَ لَمَا اَظْھَرْتُ الرَّبوبِیَّۃَ

 کہ اے میرے محبوب ؐ اگر تو نہ ہوتا میں ہرگز ہرگز اپنی ربوبیت ظاہر نہ فرماتا ا ور ظاہر کہ اگر ربوبیت کاظہور نہ ہوتو تو یقینا مربوبیۃ نہ ہوتی کہ کوئی شے نہ ہوتی کہ ماسوائے اللہ ،اللہ تعالٰی کے وجود کے ،خدائی کا ظہور اسی نور کی خاطر رہاہے۔

 غرض یہ کہ آپ ؐ کے نور پاک سے پہلے کچھ نہ تھا گویا آپ ؐ کو حضرت آدم ؑ کی پیشانی میں روشن کیا اور مخلوق کی ہدایت وراہنمائی کاسلسلہ نبوت جاری فرماکا آخرکار اپنے پیارے نبی ؐ کو ایک ایسی مکمل کتاب (قرآن) عطافرماکر مخلوق کی ہدایت وراہنمائی کے لیے بھیجا کہ جس کی شان میں ذَالِکَ الکِتَابُ لَارَیبَ بیان فرمایا۔

 جس کے روبرو کل عالم کے علماء وعقلاء کی گردنیں جھک گئیں اور اس کے آگے سب کو سرتسلیم خم کرنا پڑا اس کی بشارت تمام سابقہ کتاب الہیہ آسمانی میں دی گئیں اور بعض میں آپ ؐ کااسم مبرک روحی فدا خاتم المرسلین ،محمد واحمد و محمود وبشیر ونصیر ومنیرمنادی فرمایا اور اپنے کلام پاک جابجا اس امرکی تاکید فرمائی کہ (اطیع اللہ واطیع الرسول)پرعمل کرو اور اس اسم پاک راحت جان وقلب کوجب زبان پر لاؤ یاکسی سے سنو تو درود وسلام بھیجو۔

یا ایھا الذین آمنو ا صلو ا علیہ وسلمو تسلیماً

اور شریعت محمدی ؐ بہمہ وجود (اکملت لکم دینکم )کی منادی کرکے مکمل کی گئی اور (اتممت علیکم نعمتی)فرماکرمورد احسان بے پایان کیا گیا۔

حضور اقدس روحی فدا ؐ نے اس محل شریعت میں چار ستون اپنے اصحاب کبارسے قائم فرمائے اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ دوم حضرت عمر فاروق اعظمؓ سوم حضرت عثمان غنیؓ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریمؓ راں بعد ان سے ہدایت و رشد کا سلسلہ بذریعہ آئمہ علیہم السلام اور اور اولیاء اللہ کے سپرد فرمایا جو اب تک اس دنیا میں جاری وساری ہے۔

متذکرہ بالا اصحاب کبارمیں اول سلسلہ نقشبندیہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے نسبت باطنی جاری ہوا جو مخلوق کی دینی وروحانی ہدایت وراہنمائی کے لیے اب بھی جاری ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔باقی کل اولیاء اللہ کا سلسلہ رشدوہدایت بفیض حضرت سیدنا مولیٰ علی ابن ابی طالب ؓ سے جاری و ساری ہے۔

کہ جن کی شان میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے منادی فرمائی کہ انا مدینۃ العلم وعلی بابھا

کہ آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ؓ سے مخلوق خدا کی ہدایت و راہنمائی کے لیے دنیائے تصوف میں چار پیر اور ان سے ١٤ خانوادہ جاری ہوئے جو الحمدللہ اب بھی فیض باز ہیں جن میں قادریہ ،چشتیہ،نظامیہ،صابریہ،سہروردیہ،وغیرہ وغیرہ جاری و ساری ہیں ،خاکسار ذرہ بے مقدار کا سلسلہ نسبی جدی سادات کاظمیہ حضرت موسیٰ کاظمؓ سے ہے اور بسلسلہ طریقت سہروردیہ ،قادریہ،چشتیہ،جوسنیہ،بذریعہ آئمہ علیھم السلام سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ؓ کے واسطے سے سردار انبیاء رحمت عالم نورمجسم سیدنا محمد مصظفیٰ ؐ سے جاملتاہے۔

زیرچشم دید روزنامچہ دستی بعبارت سندھی ،ہندی،فارسی بدست خادم جدّی پشتی بخاری سرا بندر سندھ کراچے مخدوم جناب فقیر تاج محمد پیرپسرداداخیر محمد پیرؒ سے محررکوحاصل ہواجوکہ شکستہ حال تھا۔اس فقیر نے حسب ہدایت مبتحر الشیخ الفقہ ،الزاھد طبیب حاذق بحرالعلوم تفسیر قرآنی اخی فی الدین حضرت مولوی عبداللہ درس الحنفی الصدیقی ثم قادری دام ظلکم صدر کینٹ بازار کراچے اردو میں تغیر کردیا ہے تاکہ صاحبان محب الاولیاء اللہ اس کے مطالعہ سے مستفیض ہوکر داخل حسنات ومولود عنایات بزرگان دین ہوں۔

الخیر اندیش محرّر مرتب

فقیر وحقیر عاجز طالب دعا

حافظ شاہ خدا بخش کاظمی مینائی عفی عنہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الا ان اولیا ء اللہ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون

جامع تذکرہ

الغیاث السندھ قطب اولیاء ١٨٥١ئ

فی الجامع اذکار قطب اولیاء واحد ١٢٧٦ھ

الشیخ الشیوخ العالم سید السادات قطب عالم غوث زماں

حضرت سید عبدالوہاب علم شاہ بخاری اوچی قدس اللہ سروہ شاہراہ بندر(سندھ)انڈیا بتاریخ دست یاب نسخہ ء قلمی بعبارت ہندی ،فارسی، سندھی

از سر نو ترتیب اردو

بنام جمال قطب عالم

حضرت الشیخ الصالح مولوی الحافظ شاہ خدا بخش کاظمی مینائی

سہروردی،قادری ،چشتی لکھنوی ثم کراچوی السندھیؒ ومتولی الاول درگاہ شریف بخاری سرا شاہراہ بندرکراچی مُلک سندھ انڈیا

حسب ارشاد :الشیخ الفقیہ ،الزاھد طبیب حاذق بحرالعلوم مدرس قرآنی

اخی فی الدین حضرت مولوی عبداللہ درس الحنفی الصدیقی

دام ظلکم کوارٹر صدر کینٹ بازار کراچی

روایت نمبر ١ جمال قطب عالم

حضرت سیدنا امام الدین عرف امام محمد کلاں بخاریؒ(١) کا بیان حضرت نور احمد(٢) اچھے نقل کرتے ہیں کہ

الشیخ الشیوخ العالم الغیاث السندھ قطب اولیاء

حضرت سید عبد الوہاب المعروف (٣) علم شاہ بخاری ؓ بن حضرت سید حامد شاہ بن حضرت سید علی شاہ بن حضرت سید جلال الدین ثالثؒ بن حضرت سید رکن الدین ابوالفتحؒ بن حضرت شمس الدین حامد کبیرؒ بن حضرت سیدناناصر الدین محمودنوشہ بخاریؒ بن حضرت سید جلال الدین المعروف مخدوم جہانیان جہاں گشت بخاری اوچی قدس سرو آپؒ بعہد جلا ل الدین اکبر ١٣رجب المرجب ٩٩٩ھ بمطابق ١٥٩١ ء بمقام اوچ شریف (موجودہ ضلع بہالپور صوبہ پنجاب میں پیداہوئے آپ کی تاریخ ولادت رفیع الدرجات سے ٩٩٩ھ برآمد ہوتی ہے جس روز آپؒ کی ولادت ہوئی اسی دن حضرت سیدنامولامشکل کشائؒ کی ولادت کادن ١٣رجب المرجب تھا۔یہ سبب ولادت نسبت جدی کافیضان تھا جو کہ حضرت باباسید علم شاہ بخاری قدس سرہ کے روپ میں جلوہ گر ہوا۔(روایت نمبر ا جمال قطب عالم)

١۔ آپ کا تعارف صفحہ نمبر  ٢۔ آپ کا تعارف صفحہ نمبر

٣۔ آپ بخاریؒ کے نام کے سات علم کی وجہ تسمیہ یا تو کثرت استعمال یا پھر زبان کے تلفظ کے سبب علم سے عالم شاہ بخاری ہوگیا ہے ،کیونکہ آپ کے والد بزرگ نے آپ کو دیگر تبرکات کے ہمراہ ایک سبز علم بھی عنایت فرمایا تھا جو آپ کے دست مبارک میں ہمہ وقت رہتا تھا ۔اس علم کے سبب آپ کا خطاب علم شاہ بخاری معروف ہوگیا تھا ،جب متولی اول حضرت مولوی شاہ خدا بخش مینائی ؒ نے از نوکتبہ کندہ کر دیا تو اسی پر قطب عالم تحریر کیا تھا ۔

حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاری ؒ کا بیان نور احم اچھے نقل کرتے ہیں

آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد بزرگ حضرت سید حامد شاہ بخاری سے گھر پر ہی حاصل فرمائی ۔ابھی آپ کی عمر شریف ٨ برس کی تھی کہ والد بزرگؒ سے قرآن پاک حفظ فرمالیا پھر ١٧ برس کی عمر شریف میں مزید تعلیم دینیہ حدیث وفقہ تک کی ملتان میں حاصل فرمائی ۔ابھی آپ زیر تعلیم ہی تھے کہ شاہ جلال الدین(١) (ص ١ شاہ جلال الدین اکبر نے جمادی الثانی ١٠١٤ھ بمطابق ١٦٢٥ میں وفات پائی۔) اکبر نے وفات پائی ۔آپ ؒ ملتان سے تعلیم دینیہ حاصل فرما کر واپس اوچ شریف اپنے والد بزرگ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔اس وقت والد بزرگ کا فی بیمار تھے ۔بیماری کے باوجود بھی آپ ؒ نے اپنے نیک بخت فرزندکی روحانی تعلیم وتربیت فرمائی اور آپؒ نے بھی بہت جلد نعمت باطنی حاصل فرمالی تو والد بزرگؒ نے آپ کو اپنے دست مبارک سے اپنے آبائی تبرکات خرقہ دستار سہر ورد یہ سے سرفراز فرماکر ایک سبز علم عنایت فرماکر اشاعت دین اسلام کے روانہ فرمادیا ۔جہاں آپ ؒ ٢١ برس کی عمر میں ملک پنجاب کے اطراف قصبات میں اشاعت دین کا فریضہ سبز علم لئے ادا فرماتے ہوئے حج بیت اللہ شریف ومدینہ منورہ شریف حاضری کے لئے پاپیادہ ہی روانہ ہوئے ۔روایت نمبر ٢

حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاری ؒ کا بیان نور احمد اچھے ؒ نقل فرماتے ہیں کہ

 اس وقت آپ کے دست مبارک میں سبز علم ہمہ وقت رہتا تھا کہ جس کی نسبت سے آپ ہر خاص و عام میں علم شاہ بخاری ؒ معروف ہوگئے ۔ایک روز آپ نے شہر ملتان میں یہ آیات کریمہ تلاوت فرمائی کہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

من تقرب الی شبر افقد تقرب الیہ مصرولۃ

(جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھے اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے )

 بس آپکا یہ تلاوت فرمانا تھا کہ ہزاروں لوگ جمع ہوگئے اور آپؒ کے دست مبارک پر بیعت توبہ کی اور میں (امام الدین محمد کلاں بخاری ؒ)نے بھی اسی دن آپ ؒ کے دست مبارک پر بیعت توبہ وطریقت سہر وردیہ کی تھی اور کچھ روز آپ ؒ کی خدمت میں رہ کر منازل طریقت کی تکمیل کی پھر آپؒ نے خرقہ ودستار سہروردیہ سے نواز کر رشد و ہدایت خدمت خلق کرنے کا حکم ارشاد فرماکر ١٠٢٠ ھ ماہ شعبان المعظم میں پاپیادہ ہی حرم شریف ملک عرب روانہ ہوئے ۔روایت نمبر ٣

حضرت سید داؤد بغدادی ؒ کا بیان حضرت نور احمد اچھے نقل کرتے ہیں کہ

 ایک روز حضرت شیخ شیوخ العالم حضرت سید عبد الوہاب باب علم شاہ بخاریؒ نے مجھے (سید داؤد بغدادی) سے ارشاد فرمایا کہ جب ہم کو وہاب غیبی اشارہ ہوتو ہم ملک ایران ،عراق ،شام ،بیت المقدس و ترکی کے مقدس مقامات و مزارات کی زیارت کرتے بارگاہ ربا العالمین کعبہ اللہ شریف میں حاضر ہوئے یہ زمانہ مناسک حج کا تھا ،پھر ہم مسجد نبوی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے جہاں ہم نے از خود ہی ایک عرصہ جاروب کشی کی سعادت حاصل کی کہ ایک شب کو عالم رویا میں حضور سیدنا محمد رسول اللہ ؐ نے ہم سے دلی شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے ملک عجم جانے کا حکم ارشاد فرمایا ۔اس وقت بارگاہ حضور رسالت ؐ میں حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ و حضرت سیدنا عمر ابن خطاب ؒ اور حضرت سیدنا عباس علمدار بھی موجود تھے ۔اول جدی بزرگ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے ہم کو اپنی زبان مبارک چسائی پھر حضور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے سبز دستار مبارک سر پر باندھی پھر حضرت سیدنا عمر فاروق اعظمؓ نے تلوار عنایت کی اور حضرت سیدنا عباس علمدار نے سبز علم عنایت فرمایا کہ اذان فجر حضرت بلال حبشی ؓ نے دی ہم سب نے سنت فجر ادا کی پھر حضرت سیدنا بلال حبشیؓ نے درولت سرور کونین علیہ الصلٰوۃ والسلام پر جاکر درودو سلام پیش کیا تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام مصلا مامت پر جلوہ افروز ہوئے اور نماز فجر کی امامت فرمائی ۔

 فرمایا کہ جب ہم بیدار ہوئے تو صبح صادق کا وقت تھا بس ہم یہ حکم پاکر نماز فجر ادا کرتے ہی ملک عرب سے عجم روانہ ہوئے ۔روایت نمبر ٤

حضرت نور احمد اچھے بیان نقل کرتے ہیں کہ

حضرت شیخ شیوخ العالم کبیر اولیاء حضرت سید عبد الوہاب علم شاہ بخاری قدس سرہ نے ایک روز بعد نماز ظہر (بستی)ملیر ندی میں ارشاد فرمایا ۔

کہ جب ہم ملک عجم وارد ہوئے تو حضرت قطب الاقطاب حضرت قطب الدین (١) (ص١  آپ حضرت سید داؤد بغدادیؓ کا تعارف صفحہ نمبر ) بختیار کا کی اوشی قدس سرہ کے مزارمبارک پر حاضر ہو کر معتکف ہوئے تھے جہاں کافی درویشوں اور ہندؤوں سادھوں سے بھی ملاقات ہوتی تھی ،ابھی کچھ ہی روز گزارے تھے کہ حضرت قطب الاقطابقدس سرہ نے عالم رویا میں حضرت شیخ محمد نصیر الدین الدین (٢)چشمی قدس سرہ کے مزار مبارک میں معتکف ہونے کا حکم ارشاد فرمایا تو ہم حضرت شیخ محمود چشتی قدس سرہ کے مزار مبارک میں حاضر ہوئے اور کچھ روز کے لیے معتکف ہوگئے جہاں ایک روز حضرت شیخ محدث(٣) دہلوی ؒ کے فرزند اکبر حضرت مولانا نور الحق مشرقی ؒ سے نیاز حاصل ہوا۔پھر آپ ہی کے سبب حضرت شیخ محدث دہلوی قدس سرہ کی مجلس میں حاضر ہو کر فیض یاب ہوا حضرت شیخ نور الحق مشرقی ؒ کی اس وقت عمر شریف ٤٢ یا ٤٣ برس کی ہوگی وہ سرکار شاہی معزز عہدے پر ممتاز (ہیں ) تھے مجھ سے قیام دہلی بڑی شفقت ومحبت و احترام سادات فرماتے (رہے)تھے اور آپ ہی کے سبب جناب مرزا احسام الدین احمد (نقشبندی ؒ) سے بھی نیاز حاصل ہوا تھا ۔وہ نقشبندی طریق کے کامل و اکمل اور منصب شاہی کے عہدے پر بھی ممتاز تھے ایک روز آپ مرزا صاحب ؒ کی دعوت پر حضرت شیخ کلاں نقشبند حضرت باقی باللہ کے صاحبزادگان حضرت خواجہ کلاں (٦)ؒ، حضرت خواجہ خرد ؓ (٧) سے شرف نیاز حاصل ہوا تھا اس وقت حضرت خواجہ کلاں کی عمر ١٣ یا ١٤ برس کی ہوگی اور یہ بھی حضرت شیخ محدث دہلوی ؒ کے زیر تعلیم و تربیت (ہیں ) تھے ۔

فرمایا کہ

پھر ہم کچھ ماہ دہلی سے بحکم حضرت شیخ نصیر الدین محمود چشتی قدس سرہ اپنے جدی بزرگ قطب عالم حضرت سید برہان(٨) الدین بخاری ؒ کے مزار پر انوار کی زیارت کے لئے ملک گجرات روانہ ہوئے ۔روایت نمبر ٥

 

ص١۔ آپ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کے مریدو خلیفہ اعظم وجانشین تھے آپ نے ١٤ ربیع الاول ٦٣٣ھ میں وصا ل حق فرمایا مزار مبارک مہ ولی دہلی (بھارت )میں مرجع خلالق ہے ۔ (از تذکرہ اولیاء چشت)

ص٢۔ آپ حضرت سلطان امشائخ سید محمد نظام الدین اولیاء ؒ محبوب الٰہی کے مرید و خلیفہ العظم جانشین تھے آپ ؒ نے ١٨ رمضان المبارک ٧٥٧ھ دہلی میں وصال فرمایا مزار مبارک چراغ دہلی (بھارت ) میں مرجع خلالق ہے ۔(ازنذھتی الخواطر)

ص٣۔ آپ محدث دہلوی ؒ نے با عہد شاہجہان جون ١٦٤٦ء میں وصال فرمایا مزار مبارک قطب صاحب دہلی مہر ولی حوض شمس کے کنارے پر مرجع خلالق ہے ،راقم دوران سفر زیارت دہلی حضرت محدث دہلوی کے مزار مبارک پر بھی حاضری کی سعادت سے مشرف ہوئے ہیں ۔(محدث دہلوی)

ص٤۔ آپ ؒ حضرت محدث دہلویؒ کے فرزند اکبر تھے عہد شاجہانی میں معزز عہدوں(قضاہ اکبر آباد) پر ممتاز رہے بڑے کامل واکمل تھے والد بزرگ حضرت محدث دہلویؒ کے وصال کے بعد مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے صاحب تالیف تھے آپ نے ٩٠برس کی عمر شریف میں ١٦٦٣ء میں وصال فرمایا ۔(از تاریخ دہلی)

ص٥۔ آپ حضرت خواجہ باقی باللہ نور اللہ مرقدہ کے مرید وصاحب مجاز خلیفہ طریقت تھے ۔آپ کے والد قاضی نظام الدین بد خشانی مخاطب بہ غازی خان اکبر کے مقربین میں سے تھے ۔آپ ٩٧٧ھ بد خشا قصبہ قندھار میں پیدا ہوئے والد کی وفات کے بعد موروثی منصب آپ کو ملا ۔ابو الفضل اور فیضی کی بہن آپ ہی کے عقد (نکاح ) میں تھی آپ نے ١٦٣٣ء آگرہ میں وفات پائی پھر آپ کو دہلی لاکر آپ ؒ کے مرشد حضرت باقی باللہ ؒ کے پائیں مزار دفن کیا گیا ۔(از تذکرہ دہلی )

ص٦۔ آپ حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے فرزند اکبر خواجہ کلاں ؒ غرہ ربیع الاول ١٠١٠ھ؁ میں پیدا ہوئے آپ کا نام عبید اللہ رکھا خواجہ کلاں کے خطاب سے معروف تھے ۔

ص ٧۔ آپ بھی حضرت خواجہ باقی باللہ کے فرزند اصغر عبد اللہ المعروف خواجہ خرد ؒ فروری ١٦٠٦ئ؁ کو دہلی میں پیدا ہوئے خواجہ خرد کے خطاب سے معروف تھے ۔(ازاو لیائے دہلی)

ص٨۔ آپ قطب عالم سید محمد برہان الدین بخاریؒ بن حضرت سیدنا ناصر الدین محمود نوشہ بخاری آپ قطب العالم ١٤رجب المرجب ٧٩٠ھ؁ بمقام اوچ ضلع بہاول پور پنجاب میں پیدا ہوئے بحکم حضرت سید صدر الدین راجن قتال بحیثیت مبلغ اسلام گجرات کاٹھیا واڑ کے صدر مقام پتن تشریف لے گئے جہاں آپ ؒ نے ٨ ذی الحجہ ٨٥٠ھ؁ میں انتقال فرمایا مگر صاحب معارج الولایت ٨٥٩ھ؁ میں آپ نے وصال حق فرمایا مزار مبارک پیران پتن گجرات میں مرجع خلائق ہے ۔(از تاریخ گجرات)

 حضرت سید داؤد بغدادی کا بیان حضرت نور احمد اچھے نقل کرتے ہیں کہ ایک روز بعد نماز عصر حضرت شیخ کبیر اولیاء بابا علم شاہ بخاری ؒ نے مجلس میں ارشاد فرمایا کہ جس وقت ہم دہلی سے ملک گجرات اپنے جدی بزرگ قطب العالم حضرت سید محمد برہان الدین بخاری قدس سرہ کے مزار مبارک کی زیارت وقدم بوسی کو حاضر ہوئے تو ہم نے ایک شب حجرہ مزار مبارک ہی میں بسر کی کہ ہم کو عالم رویا میں حضرت جدی قدس سرہ نے حضرت شید الطارفین شیخ محمد بن (١)حضرت شیخ حسن محمد چشتی ؒ سے ملاقات کرنے کا حکم ارشا د فرمایا۔ سو ہم صبح ہی نماز فجر ادا کر کے جناب شیخ میں حاضر ہوئے ۔

اس وقت حضرت شیخ قدس سرہ حلقہ مریدین میں رونق افروز تے حضرت شیخ قدس سرہ نے ہمیں دیکھ کر بڑی ہمدردی وشفقت کے ساتھ اپنے ہمراہ بٹھایا ۔اس وقت مجلس میں حضرت شیخ علی متقی ثانی(٢) اور حضرت شیخ سراج الدین(٣) اور حضرت شیخ قدس سرہ کے پوتے جناب شیخ یحییٰ بن شیخ محمودؒیگر مریدین کے ہمراہ حاضرتھے کہ شیخ قدس سرہ نے اہل مجلس کو مخاطب فرماکرہماری بابت ارشاد فرمایا کہ یہ(سید عبدالوہاب علم شاہ بخاریؒ)مادرذات ولی اللہ آل رسول ؐ ہیں ان کو نہ ہی دنیاوی اورنہ ہی روحانی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے کیوں کہ انہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک سے خرفہ و دستار روحانی حاصل ہے یہ کامل و اکمل ہیں ہم ان کے جدی قطب العالم قدس سرہ کے حکم جو ہم کو شب گزشتہ ملا ہے کہ صاحبزادہ صاحب ارشاد کو قادریہ نوربخشیہ وچشتیہ نظامیہ طریقت کا خرفہ و دستار جو ہم کو اپنے جدی بزرگان سے ورثہ طریقت وشریعت میں عطاہوا ہے وہ نذرکریں بس حضرت شیخ محمد بن حسن محمد چشتی ؒ نے یہ فرماکر اپنے دست مبارک سے خرفہ و دستار عنایت کی اور ہماری طر ف انگشت شہادت کرکے ارشاد فرمایا کہ ایں قطب العالم دربوبندراست،کہ بدست ممدوح کفرستان دربوبندر بت شرآذر شکن کردی۔

دوسرے دن حضرت شیخ قدس سرہ نے ہم کو (دربوبندر قصبہ)کراچی جانے کا حکم ارشاد فرمایا تو ہم ایک حجازی قافلہ کے ہمراہ بندررکھنبائت گجرات سے دربور بندر(٥) کراچی وارد ہوئے۔(روایت نمبر ٦)

 ص١: آپ شیخ محمد ؒ بن حضرت شیخ حسن محمد چشتیؒ بن شیخ احمد ؒ بن حضرت شیخ نصیر الدین ؒ حضرت شیخ مجددالدین ؒ بن سراج الدین بن حضرت خواجہ کمال الدین ؒ علامہ ہمشیرزادہ حضرت مخدوم نصرالدین محمودؒ روشن چراغ دہلی۔٩٥٦ھ ؁ میں پیداہوئے اور ٢٩ ربیع الاول ١٠٤١ھ؁ کو وصال فرماگئے مزار مبارک شاہ پور احمد آباد (بھارت )میں مرجع خلائق ہے۔(تاریخ گجرات)

 ص٢: آپ شیخ علی متقی ثانی بن شیخ ابو محمد ؒ بن شیخ حسین ؒ بن شیخ راجاؒ حضرت سلمان فارسیؓ کی اولاد میں سے ہیں آپؒ حضرت شیخ محمد قدس سرہ کے مرید و خلیفہ ہیں اپنے وقت کے صاحؓ تقویٰ اور پرہیز گار ی میں بے مثل تھے ١١رجب المرجب ١٠٤٠ھ؁ میں وصال فرمایا۔آپ کا مزار مبارک صاحب گنبد ہے جو شاہ بھیکن کے روضہ کے مقابل قدیم اساول احمد آباد میں مرجع خلائق ہے۔(از مشائخ احمد آباد)

 ص٣: آپ ؒ حضرت شیخ محمد چشتی ؒ کے فرزند سوئم تھے ١٠٥٠ھ؁میں وصال فرمایا مزار مبارک آپؒ کا آپ ؒ کے والد بزرگ کے مزار کے ہمراہ زیر سایہ ہے۔

 ص٤: آپ حضرت شیخ یحییٰ بن محمود بن شیخ محمد چشتی حسن محمدؒ کے فرزند ارجمند ہیں۔آپ نے اپنے چچا حضرت شیخ احمد سراج الدین ؒثانی سے دینی و روحانی تعلیم و تربیت حاصل فرمائی آپ ٢٠ رمضان المبارک ١٠١٠ھ؁ میں پیدا ہوئے ٢٨ صفر ١١٠١ھ؁ مدینہ منورہ شریف میں وصال حق فرمایا۔(از تاریخ گجرات)

 ص٥: کیماڑی کی قدیم بندرگاہ کو زمانہ قدیم میں مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے ۔اعجازالحق قدوسی نے بھی اپنی تصنیف تاریخ سندھ حصہ اول میں اور محترمہ محمودہ رضویہ اپنی تصنیف ملک مشرق میں بھی شہر کراچی کی اس موجودہ بندرگاہ کیماڑی ہی کو دربو بندرقرار دیتی ہیں اور پھر حضرت قطب عالم شاہ بخاریؒ کی آمد ہی سے عیاں ہے کہ دربوبندر سندھ یہی موجودہ کیماڑی بندرجوشہر کراچی کے مغرب حصہ میں موجود ہے۔(دلبرشاہ)

حضرت مولوی حاجی محمد عثمان دیدؒ کا بیان حضرت نور احمد اچھےؒ نقل کرتے ہیں کہ (اللھم بارک لنا فیھا)

 جس وقت سلطان الاصفیاء مخدوم اولیاء حضرت سید عبدالوہاب علم شاہ بخاری قدس سرہ اللہ کھنبائت بندر گجرات سے دربوبنر ملک سندھ قصبہ (کرلاشی)کراچی وارد ہوئے اس وقت ١٠٢١ھ؁ میں آپ کی عمر ٢٦ برس ہوگی(١)۔

 جس وقت آپ (رام بسرام شالہٰ)موجودہ آرام باغ وارد ہوئے تو آپؒ کے دست مبارک میں سبز علم عربی لباس رنگ سفید کمر میں تلوار اور سرپر دستارکلاں سبز رنگ کی زیب تھی۔

 اس وقت یہاں سمندر کے کنارے کچھ مسلمان اور ہندو مچھیرے آباد تھے اطراف چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں ان میں کچھ مسلمان اور ہندو مچھیرے آباد تھے ۔ان میں کچھ شریف لوگ اپنی گزر بسر کے لیے ماہی گیری (مچھلیاں پکڑنے کے ماہر تھے) ان میں ٹانگا مارا قبائل کے اکثر لوگ سمندری مسافروں کو لوٹ مارکرکے گزربسر کرتے تھے۔

 سب سے پہلے باباؒ(حضرت سید علم شاہ بخاریؒ) نے اس بستی میں قیام فرمایا تھا اور اہل ٹانگا مارا قبائل کو دعوت حق دی تھی حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ کی نظر عنایت سے اہل قبائل ٹانگا مارا نے توبہ کی اور نیکی کے راستہ پر آگئے تھے۔

 جس وقت حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ نے اس بستی میں قیام فرمایا اس وقت بستی میں ایک لڑکی پر جن کا سایہ تھا وہ چلتے جہازوں کو روک لیتی تھی اہل ٹانگا مارا قبائل والے اس کے بڑے عقیدت مند تھے وہ جو حکم دیتی اہل ٹانگا مارا اس کو قبول وعمل کرتے۔

 ایک روز لڑکی نے حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ قدس سرہ سے شرانگیزی کی تو حضرت بابا قدس سرہ نے ایک ہی توجہ میں اس پر جو جن تھا حاضر کرلیا جن غیر مسلم تھا اس لیے وہ لڑکی بستی اور سمندری مسافروں سے شرانگیزی کرتی تھی۔بس حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ نے اس جن سے بیعت توبہ لے کر داخل اسلام کیا پھر اس کو دینی تعلیم وتربیت دے کر مرید بنایا اور کچھ عرصہ کے بعد اس جن کو ملک عرب روانہ کردیا۔پھر تو لڑکی کے والدین نے بھی بابا(حضرت سید علم شاہ بخاریؒ )کی خوب ہی خدمت کی اور لڑکی کی بھی شادی کردی۔حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ کی بے شمار کرامات جو ہم نے دیکھی ہیں زبان بیان کرنے اور قلم تحریر کرنے سے قاصر ہے۔

ص ١: ١٠٢٥ھ؁ آپ کی عمر شریف ٢٦ برس تھی لہذا آپ کا سن ولادت ٩٩٩ھ؁ ہوئی۔

 سمندر کے اس طرف جزیرہ (دربو)دیبل ہندوؤں کامقدس مندر تھا جو تاحال خستہ بے نام و نشان ہے(قصبہ کرلاشی سندھ)کراچی بندرگاہ کے کنارے (پورب)مشرق کی سمت سمندر سے کچھ کوس کے فاصلے پر ایک وسیع میدان ہندوؤں کا مقدس رام بسرام تھا اس میدان میں ایک میٹھا پانی کا چشمہ وتالاب تھا اسکے اطراف ہندو یاتریوں کے لیے (بسرام شالا)رام سرابنی ہوئی تھی۔یہاں ہندو یاتری منزل کرکے (اتر)شمال کی سمت(لاری)لیاری ندی پار کرکے ب دریا کے راستہ رام چندر جی سیتا ماتا کی یاترا کودریا ہنگال پار کرکے جبلوں میں ہنگلاج جاتے تھے۔

 ایک روز حضرت شیخ العالم کبیر اولیاء حضرت بابا علم شاہ بخاریؒ قدس سرہ ہندوؤں کے اس رام بسرام میں وارد ہوئے اور وضو کرنے کے لیے چشمہ تالاب پر رونق افروز ہوئے تو میں نے آپ کو وضوکرنے سے روک دیا اس پر آپؒ نے فرمایا۔فَبِایِّ اٰلٰاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان

یہ تو اللہ تعالیٰ کی نعمت عام ہے اس کے استعمال سے کسی جان دار کو منع کرنا یاروکنا کسی مذہب میں روا نہیں۔اس پر میں نے عرض کیا کہ یہ رام لکشمی جی اور سیتاماتانے جب یہاں (بسرام)قیام کیا تھا ۔تو یہ میدان اس وقت بنجر بے سبز برگ تھا مگر رام لکشمی جی نے اپنی کرپا سے یہ میٹھا چشمہ پانی کا جاری کیا اور ہنگلاج کو روانہ ہوگئے سو ہم ہندو برسوں سے یہاں رام بسرام کی پوجاکرتے آرہے ہیں اور اس چشمہ کے پانی سے رام جی وسیتا ماتاکی کرپا حاصل کررہے ہیں اس پر ہم ہندو یاتریوں کا ہی حق ہے کیوں کہ ہم لوگ اس جگہ برسوں سے یہاں (رام بسرام)موجودہ آرام باغ کی پوجا کررہے ہیں۔

ص ١: غیر مسلم نام پنڈت پرکاش ناتھ اسلامی نام حاجی محمد عثمان دیدؒ

 اس پر آپ ؒ بابا حضرت سید علم شاہ بخاریؒ نے فرمایا کہ تمہارے رام لکشمن وسیتا ماتابھی تواللہ تعالیٰ ہی کے بندے تھے انہوں نے حق تعالیٰ کی وحدانیت وصمدانیت کاپیغام عام کیا اور اخوت انسانی کی تعلیم دی تھی مگر افسوس کہ تم لوگوں نے (رام لکشمن جی)کی تعلیمات پر عمل تک نہیں کیا اور ان کی وفات کے بعد اندھیرے میں چلے گئے اور ان کی پوجا شروع کردی یہ ہی تم لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور آج تک کررہے ہو۔اس پر میں نے حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ سے عرض کیا کہ ہم ہندو کا دھرم ہے کہ جس دن اس تالاب پر کسی مسلمان نے ہاتھ ڈالا تو یہ خشک ہوجائے گا۔آپؒ ایک آدمی کی وجہ سے ہزاروں ہندو یاتری اس (پاویتر)پاک ستھرے پانی سے محروم ہوجائیں گے اس وقت میں حضرت شیخ العالم کبیر الاولیاء حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ قدس سرہ سے بڑی منت سماجت کی تو آپ ؒ خاموسی سے (رام بسرام)موجودہ آرام باغ سے اتر شمال کی سمت چل دیئے اور ایک یا آدھے کوس کے فاصلے پر درختوں کے بیچ سایہ میں قیام پذیر ہوئے جہاں اب آپ حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ کامزار فیض باز موجود ہے۔

وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ

 حضرت نور احمد اچھے ؒ ولد حاجی محمد عثمان دید از خود بیان نقل کرتے ہیں کہ میری عمر اس وقت ١٩ یا ٢٠ برس کی ہوگی میں اپنے والد کے حکم سے یاتریوں کے لیے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر آرہاتھا کہ میری نظر حضرت شیخ کبیر الاولیاء بابا سید عبدالوہاب حضرت علم شاہ بخاریؒ قدس سرہ پر پڑی کہ یہ تو وہ ہی مسلمان درویش ہے جو کچھ روز پہلے رام بسرام تالاب پر آئے تھے جہاں آپ قدس سرہ قیام فرما تھے وہاں ایک عجیب سی مست خوشبو مہک رہی تھی کہ میں بھی اسی طرف باباؒ کے حضور حاضر ہوا۔اس وقت آپ ؒقدس سرہ عبادت الٰہی میں مصروف تھے ۔اس وقت میں نے خوشبو کے ساتھ ساتھ حضرت بابا قدس سرہ میں ایک عجیب سی کشش دیکھی کہ میرا دل اور آنکھیں آپ حضرت بابا قدس سرہ کو دیکھتی ہی رہیں ابھی میں خوشبو اور حیرت انگیز کشش میں محو تھا کہ آپ حضرت بابا قدس سرہ عبادت الٰہیہ (ظہر کی نماز)سے فارغ ہوئے تو مجھے اپنے قریب بلالیا اور بڑے پریم سے پوچھا کہ تمہارا نام کیاہے میں نے اپنا نام پریم داس بتایا بعد میں بابا نے میراحال پوچھا تو میں اپنا اپنے والد (پنڈت پرکاش ناتھ)کاتمام حال جلسمیر راجپوتان سے تاحال رام بسرام میں آمد و قیام کا عرض کیا بابا قدس سرہ سے عرض کیا کہ باباؒ آپ کب تک اس جنگل میں قیام کریں گے اس پر حضرت بابا قدس سرہ نے فرمایا کہ ہم کو یہاں قیا م کرنے کا اشارہ بحکم الٰہی ہواہے سو اب ہم یہیں قیام کریں گے اس پر میں عرض کیا کہ باباؒ نہ تو یہاں کھانے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی پینے کے لیے اس حضرت بابا قدس سرہ نے فرمایا

واللہ خیر الرازقین بس اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا رازق ہے

 میں نے پھر حضرت بابا قدس سرہ کے حضور عرض کیا کہ باباؒ ہمارے ہندو لوگ تو یہاں سے کسی مسلمان کو گزرنے تک نہیں دیتے وہ آپ ؒ کو یہاں کیسے قیام کرنے دیں گے۔بابا یہاں سے کچھ کو س فاصلے پر مسلمانوں کی بستی ہے آپؒ وہاں چلے جائیں تو اچھا ہے کہ وہاں آپؒ کے کھانے ،پینے اور قیام کرنے کا بھی انتظام ہوجائے گا۔اس پر حضرت بابا قدس سرہ نے فرمایا

وھو القوی العزیز وحسبنا اللہ ونعم الوکیل توکلت علی اللہ

 جو کچھ اس دنیا میں ہوگا اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اللہ تعالٰی نے اس دنیا میں اور اس دنیا میں جو شے بھی پیدا فرمائی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق کا حق ہے اگر کوئی ایک مخلوق اس پر دعویٰ کرے تو وہ باطل ہے اس پر میں نے حضرت بابا قدس سرہ سے عرض کیا کہ ہمارے ہندو بیان کرتے ہیں کہ (جونی)پرانی شاستریوں میں لکھا ہے کہ رام لکشمی جی اور سیتا ماتا نے (ہنگول) بلوچستان جاتے وقت دن کو(گری)گزری کی پہاڑیوں میں قیام کیا تھا اور رات کو اس میدان میں (بسرام) قیام کیا تھا،جب صبح ہوئی تو ان کو پانی کی ضرورت ہوئی تو رام لکشمی جی نے اپنی شکتی سے پانی کا چشمہ جاری کردیا اور یہاں سے وہ (سہنگول)بلوچستان چلے گئے اس لئے ہم ہندو یاتری یہاں آتے اور پوجا کرتے ہیں اور چشمہ تالاب کے پانی کو پوپتر مانتے ہیں۔میں نے بابا سے عرض کیا کہ اگر آپ کے رام میں (شکتی) طاقت ہے تو آپ بھی اپنے لیے پانی زمین سے جاری کرلیں وگرنہ ہمارے یہ ہندو لوگ آپ کو یہاں قیام کرنے نہیں دیں گے۔

وھو علی کل شی ء قدیر

(اللہ ہر شے پر قادر ہے)

اور وہ ہی راز ق ہے وہ اپنے بندوں کی ضرورت پوری کرنے والا ہے یہ فرماکر حضرت بابا قدس سرہ نے اپنے علم کو بہت زور سے بآواز بلند یہ کلمہ شریف

لا الہ الا انت یا مغیث اغثنی یا اللہ

فرماکر زمین پر مارا کہ چشم زدن میں پانی جاری ہوگیا۔پھر فرمایا کہ

لطیف بعبادہ یرزق من یشآئ

 اور پانی بھی ایسا کہ جیسے آب شیریں بس میں حیرت زدہ ہوگیا اور جب میں نے باباؒ کی طرف دیکھا کہ آپ کا(مکھڑا چندرما)صورت چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا بس باباؒ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا

بسم اللہ الرحمن الرحیم سبحان الخالق قاضی الحاجات

(پاک ہے وہ ذات اللہ تعالیٰ کی پیدا کرنے والا حاجتوں کو پوراکرنے والا)

 فرمایا کہ یہ سب حق تعالیٰ کی عطا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق حق ہے حضرت بابا قدس سرہ کی یہ فیاضی اور کرامت دیکھ کر مجھے اپنے دھرم سے بیزاری ہوئی اور میں حضرت بابا قدس سرہ کے قدم بوس ہوا تو میری زبان سے بے ساختہ

لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ

 کلمہ طیبہ جاری ہوگیا میں نے دل سے دین اسلام قبول کرلیا پھر حضرت بابا قدس سرہ نے مجھے اس چشمہ کے پانی سے (اشنان)غسل کروایا اور(عبادت اللہ)دورکعت نماز توبہ پڑھائی اور دین اسلام کی ضروری باتیں بتائیں اور میرا اسلامی نام نور احمد رکھا اور پیارسے حضرت بابا قدس سرہ مجھ کو (خوب)اچھے کہہ کر مخاطب فرماتے تھے۔

سبحان اللہ الرقیب الحفیظ المومن المھیمن الحکیم

 اس کے بعد حضرت بابا قدس سرہ نے مجھے واپس(رام بسرام سیچ)موجودہ آرام باغ جانے کا حکم فرمایا میں خوشی خوشی لکڑیا لے کراپنے والد کے پاس پہنچا اس وقت سے میرے دل سے کلمہ طیبہ کا ذکر جاری تھا سو میں میں اپنے والد کو اپنا اور حضرت بابا قدس سرہ کا سارا حال بیان کیا۔اس پر میرے والد نے کوئی غصہ کا اظہار نہیں کیا ۔رات بھر میرے دل سے کلمہ طیبہ کا ذکر جار ی تھا اس ذکر کی آواز میرے والد نے بھی سنی تو حیران ہوگئے ۔بس صبح ہوتے ہی مجھے ساتھ لے کر فرمایا کہ مجھے بھی حضرت بابا قدس سرہ کے پاس لے چلو جب میرے والد اور میں چلے تو ہندو یاتریوں نے کہا کہ پنڈت جی صبح ہی بغیر پوجا کے کس طرف چلے خیر توہے۔میرے والد نے جواب دیا کہ سب خیر ہے اور حضرت بابا قدس سرہ کی طرف چل دیئے۔

جس وقت ہم(پدر وپسر)با پ وبیٹے حضرت بابا قدس سرہ کے حضور حاضر ہوئے تو اس وقت حضرت بابا قدس سرہ قرآن پاک کی یہ آیات

یایھا النفس المطمنۃ۔ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔فادخلی فی عبدی ۔وادخلی فی جنتی۔

 تلاوت فرمارہے تھے کہ یک بہ یک حضرت بابا قدس سرہ کی ہم پر نظر کرم پڑی تو میں نے آپؒ کی قدم بوسی کی پھر آپؒ نے میرے والد سے مخاطب ہوکرفرمایا کہ پنڈت جی جس جستجو میں تم ہواس کا وقت آگیا ہے۔لو غور سے میری صورت کو دیکھو تم کو رام لکشمی جی کا(درشن)دیدار ہوگا جب میرے والد نے باباؒ کے چہرہ کو غور سے دیکھا ہی تھ اکہ بے ہوش ہوگئے۔

 حضرت بابا قدس سرہ نے اپنا دست مبارک پشت پر مارا تو وہ ہوش میں آئے اور حضرت بابا قدس سرہ کے قدموں میں اپنا سررکھ دیا اور باآواز بلند کلمہ شریف پڑھ لیا اور پنے جسم سے سب مالاوتاگے وغیرہ توڑ ڈالے۔

حضرت بابا قدس سرہ نے فرمایا کہ پنڈت جی تم اندھیرے میں تھے

سبحان اللہ الخالق النور المصور

(پاک ہے اللہ پیداکرنے والا صور نور کی بنانے والا)

اور اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آتا کیون کہ میرے والد ایک عرصہ سے رام لکشمی کے (درشن)دیدار کی حسرت میں تھے کہ جب حضرت بابا قدس سرہ کی صورت میں رام لکشمی جی کا (درشن)دیدار ہوگیا تو ان کی یہ حسرت ایک پل میں پوری ہوگئی اور وہ بھی اسلام میں داخل ہوگئے۔حضرت بابا قدس سرہ نے میرے والد کا اسلامی نام محمد عثمان عرف دیدرکھا۔عرض کہ حضرت باباقدس سرہ نے ہم دونوں باپ بیٹے کو نماز وقرآن پاک بھی ازخود ہی پڑھایا اور نورانی ذکر اللہ وغیرہ کی بھی تعلیم دی بس اس دن سے ہم حضرت بابا قدس سرہ کی خدمت ہی میں رہتے ہیں۔

پھر کچھ عرصہ کے بعد جب میرے والد نے روحانی ذکر اللہ سے کامل تسکین حاصل کرلی تو حضرت بابا قدس سرہ نے انہیں حج بیت اللہ شریف و زیارت روضہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی حاضری کے لیے ایک عجمی قافلہ کے ساتھ روانہ کردیا۔

جب ساتھ یا آٹھ ماہ کے بعد میرے والد حج و زیارت کرکے قافلہ کے ہمراہ حضرت بابا قدس سرہ کے حضور حاضر ہوئے تو ان کے آنے سے ایک روز قبل ہی حضرت بابا قدس سرہ نے مجھے والد کے آنے کی خوشخبری سنائی تھی کہ صبح حاجی دید ہمراہ اما م ا لدین کلاں اور سید داؤد بمعہ اہلیہ کے آنے والے ہیں۔دوسرے دن نماز چاشت کے وقت میرے والد وغیر ہ قافلہ کے ہمراہ حضرت بابا قدس سرہ کے حضور بخاری سراحاضر ہوئے۔

 ہمارے حضرت بابا قدس سرہ بڑے روشن ضمیر وکشف وکرامات والے شیخ کبیر ونصیر تھے۔حج بیت اللہ شریف اداکرنے کے بعد تو میرے والد میں بہت(شکتی)روحانی طاقت آگئی تھی کہ قافلے والے بھی ان سے بہت عقیدت ومحبت کرتے نظر آتے تھے۔حضرت بابا قدس سرہ نے حضرت امام الدین محمد کلاں بخاریؒ کا اور حضرت داؤد بغدادیؒ اور ان کی اہلیہ کا تعارف کروایا کہ ان کا نام سید امام الدین کلاں (بخاریؒ) ہے یہ ہم سے ملتان میں مرید ہوئے تھے ان کو ہم نے سہروردیہ طریقت کا خرقہ ودستار بھی عطاکی تھی ان کا اور ہمارا نسب اوپر سے ایک ہے۔

 پھر حضرت بابا داؤد بغدادی اور ان کی اہلیہ کا تعارف کروایا کہ جب ہم بغداد شریف حضرت سیدنا غوث الثقلین بغدادیؒ کے روضہ مبارک میں معتکف تھے تو یہ وہاں ہی مرید ہوئے تھے ان کا نسب حضور غوث الثقلین بغدادیؒ سے ہے ان کو ہم نے بحکم حضور غوث الثقلین ؒ خرقہ و دستار سہروردیہ عنایت کی تھی سو اب یہ اپنے جدی بزرگ حضور غوث الثقلین ؒ کے حکم پر یہاں ہمارے پاس حاضر ہوئے ہیں سو اب یہ سب بحکم الٰہی یہاں ہمارے پاس ہی قیام کریں گے۔قافلہ کے کچھ لوگ حضرت بابا قدس سرہ کے دست مبارک پر بیعت بھی ہوئے تھے وہ لوگ کچھ روز حضرت بابا قدس سرہ کی سرابخاری میں ہی قیام پذیر تھے حضرت بابا قدس سرہ نے ان لوگوں کی بھی روحانی تعلیم و تربیت کرکے اپنے اپنے علاقہ میں خدمت خلق کرنے کا حکم فرماکر روانہ کردیاتھا میرے والد اور حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاریؒ وحضرت بابا داؤد بغدادی میں بڑی دوستی و محبت تھی وہ ایک دوسرے کا از حد احترام کرتے تھے ۔میں حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاریؒ کو عم فی طریقت اور حضرت بابا داؤد بغدادی ؒ کو جد فی طریقت کہہ کر مخاط کرتاتھا اور آپ بغدادی ؒ کی اہلیہ کو مادر فی طریقت کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔حضرت بغدادی کی کوئی اولاد نہی ہے وہ مجھے مادوالا پیار وشفقت فرماتی تھیں۔حضرت بابا قدس سرہ کے وصال سے ایک عشرہ بعد ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک فرزند نیک عطا فرمایا ۔حضرت عم فی طریقت نے اس کا نام عارف اللہ المعروف بچل شاہ رکھا وہ بڑے ہوکر فاضل بنے تو اس کی شادی کردیی اس کے ایک فرزند کی ولادت کے بعد وہ مست مجذوب ہوگیا تھا۔غرض یہ کہ حضرت بابا قدس سرہ بھی حضرت جد فی طریقت کی عزت واحترام فرماتے تھے۔بس ان سب کے آنے سے حضرت بابا قدس سرہ کی سرابخاری میں خوب ہی رونق ہوگئی تھی پھر تو اطراف بستی والے بھی دینی روحانی تعلیم و تربیت حاصل کرنے آتے حضرت بابا قدس سرہ نے ان کی تعلیم و تربیت کے لیے میرے والد اور عم فی طریقت کو مقرر کردیاتھا اور ادھر رام بسرام سیج کے پجاریوں کو حضرت بابا قدس سرہ کے (شالا)سرابخاری میں یہ رونق ایک آنکھ نہ بھاتی تھی وہ آئے دن جادو منتر وں کے حملے کرتے تھے مگر حضرت بابا قدس سرہ کی (شکتی)روحانی طاقت ان کے جادو منتروں کو زیر کرتی تھی۔(روایت نمبر٨)

جناب دادا محمد حسن جان پیر پسر حضرت نور احمد (خوب)اچھے ؒ اپنے والد بزرگ کا بیان نقل کرتے ہیں کہ

رام بسرام پجاریوں میں حضرت بابا قدس سرہ کا بڑا دشمن میرا ماموں پنڈت دیوناتھ تھا جو پجاریوں میں بڑاجادوگرتھا وہ ہمارے مسلمان ہونے کے انتقام میں سرا میں آنے جانے والوں پرجادو منتر کرتاتھا۔آخر ایک روزا س نے حضرت بابا قدس سرہ کے ایک مسافر مرید کے پیروں پر جادو کردیا کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا ۔میرے والد نے اس مرید کو حضرت بابا قدس سرہ کے حضور پیش کرکے ظالم جادوگر کے جادو کا حال بیان کیا تو حضرت بابا قدس سرہ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ کر اس مرید پر دم کر کے دعا کی کہ اے میرے اللہ یہ ترا بندہ ہے اس کو جادو کے اثر دکھایا کہ وہ بیمار مرید صحت یاب ہوا اور اسی شب کو اللہ تعالیٰ نے اس جادو گر کو خاکستر کردیا کہ وہ سو تے میں آگ لگنے سے جل کر ہلاک ہوگیا جب حضرت بابا قدس سرہ کو یہ خبر ملی تو فرمایا

امن شافکیکفرانا اعتدنا للطمین نارا احاطہ بہم سراد قہہا

حضرت نور احمد(خوب) اچھے نقل کرتے ہیں کہ

 ابھی میرا لڑکا محمد حسن ٢٥ ربیع الثانی ١٠٤٦ھ میں سوا سال یلعی ٥ اماہ کا تھا کہ میں دن کے وقت زمین پر کام کر رہا تھا کہ یک یک گھوڑے پر سوار لانگو (ماہی گیر)مچھیرے نے خبر دی کہ حضرت شیخ الشیوخ العالم ہادی نصیر کبیر اولیاسیدنا علم شاہ بخاری قدس سرہ کو ہندو یا تریوں نے شہید کر دیا ہے بس میں گم صم ہوگیا لانگو نے مجھے حوصلہ دیا بس میں یہ خبر سن کر لانگو کے ساتھ ہی گھوڑے پر سوار ہو کر بستی آیا اور اپنے سسروغیرہ کو اطلاع کی کہ بستی کے کافی لوگ جمع ہوگئے یہ لوگ بھی حضرت بابا قدس سرہ کے مرید وعقیدت من تھے ان میں سے کچھ بستی کے جوان میرے ساتھ چلے اور جب ہم حضرت بابا قدس سرہ کے سرابخاری پر پہنچے تو(ٹانگامارا)قبائل کے کافی لوگ بھی جمع تھے ۔میں نے ان سے عم فی طریقت (حضرت سید امام الدین محمد کلاں ؒ ) اور جد فی طریقت (حضرت سید بابا داؤد بغدادی ؒ ) کا حال پوچھا تو جنوں (ماہی گیر)مچھیرے نے بتایا کہ عم فی طریقت (حضرت سید امام الدین محمد کلاں ؒ)٢دن ہوئے حب بستی حضرت بابا قدس سرہ کے حکم سے فقیر نور لا کی ملاقات کوگئے ہیں اور جد فی طریقت( حضرت بابا داؤد بغدادی ؒ) نے لانگو کو آپ کو اطلاع کرنے بستی روانہ کیا اور خود عم فی طریقت (حضرت سید امام الدین کلاں بخاری ؒ)کو اطلاع کرنے حب بستی گئے ہیں ۔

 میں حضرت بابا قدس سرہ کے پاس گیا دیکھا کہ خون جاری ہے اور اس مبارک جسم سے جدا ہے ۔بس میں نے پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا تو لالو (ماہی گیر)مچھیرے نے بتایا کہ ایک عشرہ ہو کر ٢٠٠ سو ہندو یا تریوں کا قافلہ (رام بسرام) موجودہ رام باغ میدان میں آیا ہے ان کا گرو سردارپنڈت ناتھ شیو رام ہے ۔اس کو بسرام کے بچاریوں نے بتایا کہ تیرا بھائی پنڈت پر کاش ناتھ اور اس کا لڑکا پریم داس دونوں کو ایک مسلمان دوریش نے مسلمان کر کے اپنے پاس رکھ لیا ہے اور وہ دونوں اسی مسلمان درویش کے (دھرم) دین اسلام کا (پرچار) اشاعت وخدمت کرتے ہیں سو تیرا بھائی پنڈت پر کاش ناتھ ابھی کچھ عرصہ ہوا مرگیا ہے اور اس کے لڑکے کی درویش نے مسلمانوں میں شادی بھی کردی ہے اس پر ناتھ شیورام کل شام پتہ کرکے حضرت بابا قدس سرہ کے پاس سرا آیا اور غضب ناک ہوکر کہنے لگا کہ میرا بھائی پر کاش ناتھ کہاں ہے اس پر بابا ؒ نے بڑے (پریم)محبت سے بتایا کہ وہ مسلمان ہو کر انتقال کر گیا ہے اس کا بیٹا حیات ہے وہ کل آئے گا تو تم اس سے ملاقات خود کر لینا بس حضرت بابا قدس سرہ کی باتوں پر وہ اور بھی غصہ میں آگیا اور کہنے لگا کہ تم نے ان کا (دھرم )مذہب خراب کردیا ہے اب اگر تم یہاں علاقہ میں صبح نظر آئے تو سب کو قتل کر دوں گا ۔اس زمین پر ہمارے رام جی کے (پوتروں چرن)پاک قدم آئے ہیں اور تم مسلمانوں کو اس (زمین)علاقہ پر کوئی حق نہیں ہے پھر وہ چلا گیا ۔آج صبح ٢٥ ربیع الثانی ٤٦ کو وہ اپنے ٦٠تلواروں سے مسلح یا تریوں کے ہمراہ آیا ۔اس وقت حضرت بابا قدس سرہ کے پاس مجلس میں ہم سب ٢٥ مرید ین غلام حاضر تھے اور حضرت بابا قدس سرہ شہادت حضرت سیدنا امام حسین بیان فرما رہے تھے کہ پنڈت ناتھ شیوارام نے آتے ہی حضرت بابا قدس سرہ کی سرا کا محاصرہ کر لیا اور سرا سے بے دخل ہونے کا علان کر دیا اس پر (حضرت)بابا داؤد بغدادی ؒ نے اپنی تلوار نیام سے باہر نکالی تو حضرت بابا قدس سرہ نے انکے ہاتھ سے تلوار لے لی اور فرمایا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا حکم ہے اور (حجت)جھگڑے فساد میں کچھ نہیں رکھا اور پھر حضرت بابا قدس سرہ نے (حضرت)بابا داؤد بغدادیؒ کو حکم دیا کہ چلو اچھے کی بستی میں چلو بس حضرت بابا قدس سرہ کے اس حکم پر(حضرت) بابا داؤد بغدادیؒ نے سرا کا (اسباب ) سامان وغیرہ (اسپ )گھوڑے پر رکھا اور حضرت بابا قدس سرہ اور ہم سب لوگ روانہ ہوئے ۔ابھی ہم آدھے کوس پر ہی گئے تھے کہ پیچھے سے شیوارام نے حملہ کر دیا ۔بس ہندؤں کا حملہ کرنا تھا کہ ہم نے بھی ان کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اللہ کے فضل سے اور حضرت بابا قدس سرہ کی دعا سے ہم نے ١٨ ہندؤں یا تریوں کو جہنم واصل کیا اور کچھ زخمی ہوئے اور کچھ بھاگے ۔حضرت قدس سرہ نے فتح کی خوشی میں شکرانہ کے نفل نماز پڑھنے کا حکم دیا ابھی ہم لوگ نماز ہی میں تھے کہ ظالم ناتھ شیورام (ناگاہ ) اچانک پیچھے سے پھر حملہ کر کے حضرت بابا قدس سرہ کو شہید کر دیا اور میرا بھائی اللہ رکھو کو اپنی بستی میں دفن کر دیا ہے مگر بابا داؤد بغدادیؒ کے حکم پر ہم لوگ حضرت بابا قدس سرہ کی لاش کی حفاظت کر رہے ہیں کہ جب تک اچھے اور امام کلاں نہیں آتے کوئی کچھ عمل نہیں کرے ۔

 حضرت بابا داؤد بغدادی ؒ کی اہلیہ نے فرمایا کہ تم حضرت بابا قدس سرہ کے غسل شریف کا انتظام کرو اور حضرت بابا قدس سرہ کے جسم و سر مبارک کو آسرا لے چلو کیونکہ اب کافی مسلمان جمع ہوگئے ہیں اور سرا کے اطراف اپنے مسلح آدمیوں کو مقرر کرو اور صبر سے ہر کام کرو جب تک تمہارے جد فی طریقت اور امام کلاں آجائیں گے جد مادر فی طریقت کا حکم پاکر میں نے حضرت جدی مادر فی طریقت کو بمعہ (اسباب)سامان وغیرہ کہ ١٣ مسلح ٹانگا مار جوانوں کے ہمراہ سرا کی جانب روانہ کیا کہ پہلے پہنچ کر سرا کو آراستہ کریں ۔

 پھر ہم حضرت کے سرو جسم مبارک کو لے کر سرا کی جانب روانہ ہوئے اطراف کی بستیوں کے مسلمان مریدین آنے شروع ہوگئے میں نے جنو ماہی گیر کو ٤ مسلح آدمی کے ساتھ حب بستی روانہ کیا تا کہ عم فی طریقت (حضرت امام محمد کلاں ؒ )اور جدفی طریقت (بابا داؤد بغدادیؒ)جلد آجائیں کیونکہ حضرت بابا قدس سرہ کا خون نہیں رک رہا تھا عرض یہ کہ خیر سے حضرت عم فی طریقت اور جدفی طریقت تشریف لائے تو صبرو تحمل کرنے کا حکم فرمایا اور مجھ کو سرا میں چشمے کے پاس ایک گہری لمبی چوڑی خندق کھود نے کا حکم فرمایا سو میں نے کچھ لوگو ں کی مدد سے خندق کھودی پھر حضرت عم فی طریقت نے فرمایا کہ اس خندق کے بیچ میں لحد کھودو پھر لحد کھودی حضرت عم فی طریقت نے حضرت بابا داؤد بغدادی ؒ کو نماز جنازہ پڑھانے کی دعوت دی مگر جدفی طریقت نے فرمایا کہ یہ سعادت حق تعالیٰ نے آپ کو مقدر کی ہے کیونکہ حضرت بابا قدس سرہ نے آپ کو کلاں فرمایا ہے ،پھر یہ سعادت کلاں بھی آپ ہی کا مقدر ہے عرض یہ کہ عم فی طریقت نے نماز جنازہ پڑھی ۔پھر جد فی طریقت اور میں نے حضرت بابا قدس سرہ کو لحد میں اتارا اور عم فی طریقت پہلی لحد میں موجود تھے ۔

 ابھی ہم حضرت بابا قدس سرہ کو تدفین کرکے بیٹھے تھے کہ خبر آئی کہ ہندو یا تری پھر حملہ کرنے والے ہیں ۔اس پر میں نے تلوار نیام سے نکالی اور گھوڑے پر سوار ہوکر چلا تو حضرت عم فی طریقت نے حضرت بابا قدس سرہ کا علم شریف اٹھایا اورگھوڑے پر سوا ہوئے غرض یہ کہ ہم سب رام بسرام کی جانب چلے جب ہم رام بسرام شالا پہنچے تو حضرت عم فی طریقت نے باآواز بلند ہندو یا تریوں سے مخاطب ہو کر نیکی کی دعوت دی کہ اسلام سچا دین ہے اگر تم لوگ اپنی خوشی سے اسلام قبول کر لو تو یہ تمہارے حق میں اچھا ہے اور جو دین اسلام اپنی خوشی سے قبول کرے گا اس کو جان کی امان ہے اور جو قبول نہ کرے گا وہ یہاں سے بے دخل ہو جائے کچھ ہندو یا تریوں نے تو آپ کے دست مبارک پر دین اسلام باخوشی قبول کر لیا ۔مگر پنڈت ناتھ شیو رام کو یہ بات کب اچھی لگتی بس جب اس نے یہ منظر دیکھا تو وہ کچھ ہندو یا تریوں کے ساتھ حملہ آور ہوا ۔

روایت نمبر ١٠

لانگو ماہی گیر کا بیان حضرت دادا محمد حسن جان پیر ؒ نقل کرتے ہیں کہ جب ناتھ شیو رام نے حملہ کیا تو سب سے پہلے ناتھ شیو ارام کے مقابلہ پر آپ کے والد (نور احمد اچھے)آئے اور ایک ہی وار میں ناتھ شیو رام کا سر جسم سے جدا کر دیا پھر تو کچھ ہندو یا تریوں نے ایمان قبول کیا اور کچھ بھاگ کھڑے ہوئے آپ کے والد بزرگ نے رام بسرام شالا کو نذر آتش کر کے خاکستر کر دیا تو حضرت عم فی طریقت (حضرت امام محمد کلاں ؒ) نے اذان دی اور شکرانہ کے نفل نماز ادا کئے بس اس دن سے تاحال اس میدانی علاقہ میں حضرت بابا قدس سرہ کا علم اونچا روشن ہے ۔روایت نمبر ١١

حضرت نور احمد اچھے ؒ نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت بابا علم شاہ بخاری قدس سرہ عام طور پر سفید عمامہ زیب سر رکھتے تھے جس کی بندش گول ہوتی تھی ۔کبھی کبھی سبزو سیاہ عمامہ بھی زیب سر فرماتے تھے اور تہبند استعمال کرتے تھے اور زرد چادر ہمہ وقت شانوں پر ہوتی تھی آپکی پیشانی فراخ ہلالی ابروئے پیوستہ چشم گلابی شرمیلی اور بینائی برق گھنٹی ریش مبارک ابریشم انگلشت لمبی ہتھیلیاں اور قدم مبارک لمبے قد سیدھا ہموار آپ کا رنگ جسم سرخ وسفید نورانی تھا آپ دم مجردر ہے ۔

روایت نمبر ١٢

حضرت نور احمد اچھے نقل کرتے ہیں کہ

 ایک روز عم فی طریقت اکبر حضرت سید امام محمد کلاں بخاری ؒ اور راقم (نوراحمد اچھے)حضرت شیخ الشیوخ عالم کبیر الاولیاء قدس سرہ کے ہمراہ (دربو بندر )کیماڑی کراچی کے کنارے کنارے (دکھن )جنوب کی طرف (اسپ)گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہوئے کچھ کوس کے فالے پر ایک (کوہ)پہاڑی کے دامن میں چشمے پر قیام کیا پھر حضرت قدس سرہ نے حکم دیا کہ (کوہ )پہاڑی(١)پر چڑھو سو ہم حضرت قدس سرہ کے ہمراہ (کوہ) پہاڑی کے اوپر پہنچے جہاں ایک قبور قبلہ نما قائم تھی حضرت قدس سرہ کچھ دیر خاموش قبور کے پاس آنکھیں بند کئے بیٹھے رہے پھر فاتحہ خوانی کی اور نیچے قبور پر آئے اور فاتحہ خوانی کی اس دوران عم فی طریقت حضرت سید امام محمد کلاں بخاری ؒ نے حضرت شیخ الشیوخ عالم قدس سرہ کے حضور عرض کیا کہ حضور یہ کن کی قبور ہیں حضرت قدس سرہ نے فرمایا یہ اوپر والی قبل نما قبور حضرت سید عبد اللہ ابو (٢) محمد الاشتر حسنی ابن حضرت سید محمد نفس ذکیہ ابن حضرت سید عبد اللہ المحض ابن حضرت سید حسن مثنیٰ ابن حضرت سید امام حسن کی ہے ۔

آپؒ سندھ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قیام پذیر تھے کہ خلیفہ المنصور ظالم کے حکم سے (سفیع بن عمر)صوبیدار نے آپ کو شہید کر دیا تھا ۔آپ کی لاش کو اہل سندھ عقیدت مندوں نے بے حرمتی کے خوف سے یہاں (کوہ) پہاڑی پر مدفن کر دیا تھا کیونکہ اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموی سخت دشمن تھے ۔وہ نہ صرف اہلبیت کے افراد کو شیہد کرتے بلکہ ان کی لاشوں کی بھی بے حرمتی کرتے تھے اور اموی عہد سے یہ ظلم بد کا رواج اب تک جاری ہے ۔

 محبان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خوف کے عالم میں آپ کو قبلہ نما شب کی تاریکی میں ہی یہاں مدفن کر دیا تھا کیونکہ آپ کا سر مبارک جسم سے جدا تھا سر مبارک کو بد بخت سفیع بن عمر نے دربار منصور محل بغداد کے سامنے پیش کر کے دنیا کی مال و دولت اور شہرت حاصل کرنے کی خواہش میں یہ عمل بد کیا ۔مگر خلیفہ منصور بڑا چالباز اور ہوشیار تھا اس نے اہل دربار کے سامنے محبان اہل بیت کے خوف سے سفیع بن عمر کو خوب ہی ذلیل ورسوا کیا اوریہ قبور آپ کے شہید محبان ساتھیوں کی ہیں ۔روایت نمبر ١٣

حضرت سید عبد اللہ ابو محمد الاشتر حسنی وحسینی سادات میں سے ہیں آپ کو حضرت عبد اللہ شاہ غازی کے نام سے شہرت حاصل ہے ۔آج سے ایک صدی قبل یہ علاقہ غیر آباد ساحل سمندر تھا ۔آپ کے مزار مبارک پر حاضری دینے والے عقیدت مند حضرات نے یہ علاقہ آباد کر دیا تھا ۔زمانہ قدیم میں محرم الحرام کے جلوس علم شریف شہر سے روزانہ ہو کر آپ کے ہی مزار مبارک پر علم ]یش کیا جاتا تھا اب یہ علاقہ شہر کراچی کے معروف ترین علاقوں میں سے ہے اس کا مغربی حصہ کیماڑی بندر گاہ سے جا ملتا ہے د٢وسرا جنوبی حصہ گذری آبادی سے جا ملتا ہے ۔

 حضرت بابا سید داؤد بغدادی کا بیان حضرت نور احمد اچھے ؒ نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت بابا قدس سرہ اکثر شب کو رتن تلاؤ کے بیچ (بٹاؤ ) ٹیلہ پر جاتے اور عبادت میں شب بسر فرماتے تھے ۔یہ بڑا پانی کا تلاؤ تھا اس کے بیچ میں ایک (خرد کوہ) پہاڑوں کا چھوٹا ٹیلہ تھا ۔اسکے اطراف میں پانی (قدآدم) گہرا تھا ۔جب حضرت بابا قدس سرہ وہاں جاتے تو بغیر (بیٹری) کشتی کے پاپیادہ ہی تشریف لے جاتے ایک روز آپ حضرت بابا قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور تلاؤ میں اترے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے ہم خشک زمین پر چل رہے ہیں اور چشم زدن میں اس (کوہ)ٹیلہ پر جا پہنچے حضرت بابا قدس سرہ اور میرے پیر بالکل خشک تھے ۔

(ص١۔ یہ وہ پہاڑی ساحل سمندر کے کنارے کلفٹن کے نام سے معروف ہے ۔اس پہاڑی کی چوٹی پر آپ کا جسم مبارک دفن ہے اور نیچے پہاڑی پر آپ کے محبان ساتھیوں کے مزارات ہیں ۔

روایات نمبر ١٤

حضرت سید امام الدین محمد کلاں ؒ نے حضرت بابا قدس سرہ سے اس مقام کی نسبت پوچھا یہ کونسا مقام ہے تو حضرت باباقدس سرہ نے فرمایا اس علاقہ میں ایک ہندو دیونی رتن نامی کی حکومت تھی ۔وہ بڑی ظالم جادو گرنی تھی لوگوں پر خوب ہی ظلم کرتی اور اپن پوجا کرواتی تھی جب حضرت شیخ سیدنا قطب المدار قدرۃ کلاں سید بدیع الدین کو مدینہ شریفسے حکم ملا کہ ملک ہند جاؤ تو آپ قدرہ کلاں ؒ(بلجستان)بلوچستان ہوتے ہوئے ملک سندھ قصبہ(دربوبندر)کراچی وارد ہوئے اور اس مقام (رتن تلاؤ ) پر قیام فرما کر اللہ کے کرم سے اس دیونی رتن کے جادو کو زیر کر کے دیونی کو زیر زمین بھسم کر دیا تو اس علاقہ کے لوگوں نے آزادی حاصل کی اور آپ حضرت قدرۃ کلاں ؒ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے آپ حضرت قدرۃ کلاں ؒ اس (کوہ)پر چہل روز عبادت الہیہ فرما کر راجستھان مل ہند روانہ ہوگئے تھے اور جب ہمارے جدی مخدوم الاولیاء سید جلال الدین حسسین بخاری اوچی نور اللہ مرقدہ اوچ سے تھتھہ (ٹھٹھہ)وارد ہوئے تو ٹحٹھہ سے قصبہ در بو بندر بھی اس مقام پر عبادت میں بھی اس مقام پردو گان عبادت شب بسر کر کے واپس تھتھہ (ٹھٹھہ) وارد ہوئے تھے اسلئے ہم بھی اکثر شب کو یہاں عبادتمیں بسر کرتے ہیں یہ جگہ بڑی خیر و برکت والی ہے ۔

 حضرت بابا قدس سرہ اکثر اس مقام پر شب بسر کرتے اور سورۃ مزمل تلاوت فرماتے تھے ایک روز جب حضرت بابا قدس سرہ نے اخی فی الدین (حاجی محمد عثمان دیدؒ) اور مجھ کو ا س مقام پر سورۃ مزمل تعلیم فرمائی تھی ۔

روایت نمبر ١٥۔

 (ص١۔ حضرت مولوی شاہ خدا بخش مینائی تحریر فرماتے ہیں کہ زمانے قدیم میں اس مقام کے اطراف ایک بستی آباد تھی اور یہ تالاب کافی بڑھا تھا ۔

 حضرت مولوی عبد اللہ درس ؒ فرماتے ہیں کہ اس دیونی رتن جس مقام پر بھسم ہوئی تھی وہاں ہندؤوں نے مندر قائم کر دیا تھا جواب بھی ہے ۔حضرت منشی شاہ عبد الخالق مینائی تحریر فرماتے ہیں کہ یہ علاقہ رتن نامی دیونی کے نام سے معروف ہے اس علاقہ میں حضرت بدیع الدین زندہ شاہمدار ؒ کی چلہ گاہ با فیض موجود ہے ۔

 زمانہ قدیم میں یہ تالاب کافی وسیع موجود ریڈیو پاکستان تک تھا اور ادھر موجودہ فرئیر مارکیٹ تک تھا بعد انقلاب زمانہ یہ خشک ہوتا چلا گیا اور آبادی ہوتی چلی گئی اب یہ علاقہ انگریزوں کے دور سے تاحال بڑا رونق پذیر گنجان آبادی ہے ۔ہماری پیدائش بھی اس علاقہ میں ہوئی تھی ۔حضرت سیدنا بدیع الدین زندہ شاہ مدار ؒ۔کی یہ چلہ گاہ موجودہ ریگل چوک صدر بازار اکبر روڈ پر واقع ہے ۔ہزاروں عقیدت مندان حاضری کا شرف و مراد حاصل کرتے ہیں ۔

 زمانہ قدیم میں اس چلہ گاہ کا احاطہ بڑا وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا تھا ۔مگرمحکمہ اوقاف کے زیر نگرانی آنے کے بعد اس کے کافی حصہ پر لوگ قابض ہوگئے اور کچھ مغربی حصہ میں مسجد تعمیر ہوگئی۔ یہاں حضرت بدیع الدین زندہ شاہ مدار ؒ کا سالانہ عرس مبارک ماہ جمادی الاول تین روزہ منعقد ہوتا ہے ۔

حضرت سید بابا داؤد بغدادی ؒ کا بیان حضرت نو احمد اچھے ؒ نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت شیخ العالم کبیر الاولیاء حضرت بابا سید عبد الوہاب علم شاہ بخاری قدس سرہ (گاہے گاہے) کبھی کبھی (تھتھہ (ٹھٹھہ)بھی تشریف لے جائے تھے ۔جہاں آپ ؒ حضرت سید عبد اللہ (١)شاہ ابن سید محمد البغدادی کے پاس قیام فرماتے ۔

 حضرت شیخ تھتھہ سید عبداللہ شاہؒ شیخ کلاں غوث الثقلین سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد میں سے تھے۔حضرت بابا قدس سرہ بھی ان کا احترام ومحبت فرماتے تھے۔

 حضرت شیخ تھتھہ سید عبداللہ شاہؒ بھی صاحب ِ کشف و کرامت بزرگ تھے ہزار ہا آدمی مرید و خادم تھے اور دینی وروحانی تعلیمات کا سلسلہ بھی وسیع تر جاری تھا۔ایک روز حضرت بابا قدس سرہ اور شیخ تھتھہ حضرت سید عبداللہ شاہؒ ہم کلام تھے کہ حضرت بابا قدس سرہ نے آپ شیخ تھتھہ سے مخاطب ہوکرفرمایا کہ یہ کس کا فرزند ہے تو حضرت شیخ تھتھہ ؒ نے فرمایا کہ یہ میرابیٹا(٢)سید حسن ہے تو حضرت بابا قدس سرہ نے فرمایا کہ اس کی پشت سے اوتا(اولیائ)پیداہوگا یہ صاحب کمال بزرگی والا ہے۔ہمارے شیخ الشیوخ عالم قدس سرہ حنفی حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے پیرو تھے ۔تھتھہ میں گاہے گاہے فقیرسرمدستؒ (٣)سے بھی حضرت بابا قدس سرہ کی ملاقات ہوئی وہ (فقیر سرمدستؒ)ہمہ وقت ایک ہندو لڑکے چندہی کی محبت وحسن کا دم بھرتے اور جوش عشق میں عاشقانہ (بھجن)اشعار گاتے تھے۔(روایت نمبر١٦)

 ص١:آپ حضرت سید عبداللہ شاہ قادری المعروف اصحابی باباؒ نے ١٠٦٠ھ؁ ١٦٥٠ئ؁ میں ٹھٹھہ میں وصال فرمایا مزارمبارک مکلی ٹھٹھہ سندھ کے قدیم قبرستان میں مرجع خلائق ہر خاص وعام ہے ۔(اولیا ئے سندھ)

 ص٢:آپ حضرت سید حسن قادری (پشاوری کی جمادی الآخر ١٠٢٣ھ؁ ١٦١٤ئ؁ ٹھٹھہ میں ولادت ہوئی آپ حضرت سید عبداللہ شاہ (اصحابیؒ)کے فرزند نیک نام ہیں والد بزرگ کے وصال ١٠٦٠ھ؁ کے بعد آپ نے پشاور صوبہ سرحد میں سکونت اختیار کی اور ١١١٥ھ ١٧٠٤ئ؁ ؁ میں وصال فرمایا مزار مبارک پشاور سرحد میں مرجع خلائق ہے حضرت شاہ محمد غوث گیلانی قادری ثم لاہوری آپ ہی کے فرزند دلبندجامع علوم ظاہر وباطن کاشف رموز طریقت وحقیقت تھے(متوفی ١١٥٢ھ ١٧٣٩ء لاہور)

 ص٣: آپ حضرت حکیم سرمد مست دہلوی مقتول قدس سرہ آپ سوداگر تھے دہلی سے واپسی پر آپ کی نظر ایک ہندو لڑکے چند پڑی جو حسن و جمال میں یکتا تھا کہ اس پر یک یک عاشق ہوگئے اور جملہ اسباب اس کے حسن وجمال پہ صدقے کردیا اور جب چند دکن چلا گیا تو آپ بھی (حیدرآباد دکن )وارد ہوئے اور پھر دہلی تشریف لائے آپ صاحب کرامت بزرگ تھے بعہد اورنگ زیب عالمگیر ١٠٧٠ھ ١٦٦٠ء میں شہید کیا گیا مزار مبارک جامع مسجد دہلی صدر گیٹ کے سامنے مرجع خلائق ہے۔(معلومات کے لیے دیکھیئے۔خزینۃ الاصفیاء وخم خانہ تصوف)

 تعارف:حضرت سیدنا امام الدین محمد کلاں بخاری المعروف اخی فی طریقت امام شاہ درویش بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت سید محمد ابراہیم شاہ بخاری ؒ اپنے والد بزرگ حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاریؒ بن حضرت سید سلطان علی شاہ بن حضرت سید قطب شاہؒ بن حضرت سید عزت الملک محمود شاہؒ بن حضرت سید رضا شاہؒ بن حضرت سید بدرالدین شاہؒ بن حضرت سید عبدالرزاق شاہ ؒبن حضرت سید عبداللہ شاہؒ بن حضرت سید نظام الدین شاہؒ بن حضرت عبداللہ قتال بخاری ؒ بن حضرت سید جلال الدین حسین مخدوم جہانیاں جہاں گشت ؒ سے جاملتا ہے آپ کا حضرت امام الدین نام،خطاب امام محمد کلاں تھا آپ کلاںؒ١٠٠٢ھ ١٥٩٤ئ؁ میں ملتان میں پیداہوئے۔(روایت نمبر ١٧)

آپ کی عمر ابھی ١٧ برس تھی کہ آپ نے حضرت سیدنا قطب( دربوبندر سندھ ) عبد الوہاب بابا علم شاہ بخاری قدس سرہ کے دست مبارک پر ملتان میں بیعت توبہ وطریقت سہروردیہ کی تھی اور حضرت باباقدس سرہ کی نگاہ فیض باز نے آپ کو بہت جلد منازل سلوک اور حضرت بابا قدس سرہ کی نگاہ فیض باز نے آپ کو بہت جلد منازل سلوک طے کر واکر دستار خرقہ سہر وردیہ سے سرفراز فرما کر اشاعت دیں کا حکم فرمایا ۔جہاں آپ بحکم مرشد قدس سرہ برس تک کامل خدمت اشاعت دینیہ فرماتے رہے پھر بحکم مرشد قدس سرہ حج بیت اللہ وزیارت روضۃ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے مشرف ہوکر ملک بغدادسے (دربو بندر سندھ ) کراچی اپنے مرشد حضرت بابا علم شاہ بخاری قدس سرہ کے حضور بخاری سر اوار دہوئے ۔روایت نمبر ١٨

 حضرت بابا سید داؤد بغدادی ؒ کا بیان حضرت محمد عارف اللہ بچل شاہ کی زبانی حضرت دادا فتح محمد پیر ؒ نقل کرتے ہیں کہ

عم فی طریقت اکبر حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاری ؒ حضرت شیخ الشیوخ العالم کبیر اولیا ء سید بابا علم شاہ قدس سرہ کے شہادت کے بعد بخاری سرا مسند ارشاد رشد و ہدایت پر جلوہ افروز ہوئے۔

 حضرت سید علی ثانی شیرازی ٹھٹھویؒکی پوتی جنابہ سیدۃ زلیخا بی بیؒ سے آپ کا عقد ہوا جن کے بطن سے حضرت سید محمد ابراہیم اور سید معصوم شاہ اور دختر سیدۃ سام بی بی پیداہوئی تھیں۔(روایت نمبر ١٩)

 حضرت باباسید داؤد بغدادی کا بیان حضرت دادا محمد حسن جا ن پیر ؒ نقل کرتے ہیں کہ حضرت شیخ الشیوخ العالم کبیر الاولیاء سید عبدالوہاب علم شاہ بخاری قدس سرہ کی شہادت کی خبر پہ ٹھٹھہ سندھ کے بزرگ حضرت سید عبداللہ شاہ ابن سید محمود بغدادیؒ کے فرزند صالح حضرت سید حسن شاہ (ٹھٹھوی تیسرے روزبمعہ( احباب )مریدین کے بخاری سرا وارد ہوئے اور حضرت بابا قدس سرہ کی(لحد)مزار مبارک پر فاتحہ خوانی کے بعد سب حاضرین مجلس کی موجودگی میں عم فی طریقت (حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاریؒ)کو حضرت بابا علم شاہ بخاری قدس سرہ کا خرقہ ودستار کلاں باندھ کر حضرت بابا قدس سرہ کا علم عنایت فرمایا۔غرض کہ آپ حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاریؒ حضرت بابا سید علم شاہ بخاری قدس سرہ کی جگہ ٦٤ برس کی عمر میں بخاری سرا میں مسند رشد وہدایت پر جلوہ افروز ہوئے اور حضرت سید حسن شاہ ٹھٹھوی دوپہر کے طعام نوش فرمانے کے بعد واپس ٹھٹھہ روانہ ہوئے تھے۔بس اس دن سے ہم سب حضر ت سید امام الدین محمد کلاں بخاری قدس سرہ ؒ کے ظل حمایت زیر سایہ بسرکررہے تھے۔

 حضرت سید امام محمد کلاں بخاریؒ نے حضرت بابا سید علم شاہ بخاری قدس سرہ کے وصال کے ایک برس بعد حضرت سید جلال الدین ثانی بن حضرت سید علی ثانی شیرازی ٹھٹھوی ؒ کی دختر نیک اخترجناب سیدہ زلیخا بی بیؒ سے عقد(نکاح) شادی کی تھی جن کے بطن سے حضرت سید محمد ابراہیم شاہ بخاریؒ اور سید معصوم احمد شاہ بخاریؒ اور ایک دخترسیدہ سالم بی بیؒ پیداہوئیں۔(روایت نمبر ٢٠)

حضرت دادا محمد حسن جان پیر ؒ اپنے والد بزرگ حضرت نور احمد اچھےؒ کا بیان نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت سید امام محمد کلاں بخاریؒ نے حضرت شیخ الشیوخ العالم کبیر اولیاء سیدنا عبدالوہاب علم شاہ بخاری قدس سرہ کی شہادت کے ٤سال بعد ١٣ شعبان المعظم ١٠٧١ھ میں وصال فرمایا۔ان کا عقد ٹھٹھہ کے شیرازی بزرگ حضرت سید علی ثانی کی پوتی سے ہواتھا جن سے سید محمد ابراہیم سید معصوم احمد شاہ اور ایک دختر سیدہ سالم بی بی پیدا ہوئی تھی۔آپ کے وصال کے بعد کلاں ؒ کی اہلیہ بمعہ بچوں کے اپنے والد بزرگ کے گھر ٹھٹھہ چلی گئی تھیں۔

 سید محمد ابراہیم ؒ وسید معصوم احمد نے مجھ سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی تھی اور بیعت ہوئے تھے سید محمد ابراہیم ؒ نے اپنے نانا بزرگ کے زیر سایہ ٹھٹھہ ہی میں علوم دینیہ کی تعلیم حاصل کرکے فاضل ہوئے تھے اور اپنے بزرگ سے ہی منازل سلوک طے کی تھی۔سید معصوم احمد شاہ ٢٠ برس کی عمر ١٠٦٩ھ؁ ٹھٹھہ ہی میں وصال کرگئے تھے اور وہی محلہ شیرازی میں مدفن ہے۔ جب جوان ہوئے تو والدہ صاحبہؒ نے وصال فرمایا تو آپ بمعہ اپنی ہمشیرہ سیدہ سالم بی بی ؒ کے واپس بخاری سرا(دربو بندر)کراچی وارد ہوئے پھر میں نے اپن صاحبزادی آپ کے عقد میں دی اور آپ سید محمد ابراہیمؒ کی خرقہ ودستار بندی جدی جو آپ کے آبائی سادات بخاری اوچ اور سہروردیہ سے بھی سرفرازفرماکر آپ کے والد بزرگ حضرت سید امام الدین محمد کلاں ؒ کی مسند رشد و ہدایت بوستان بخاری پر فائز کیا جہاں وہ حضرت سید امام الدین محمد کلاں ؒ کے مرید ین ٹانگا مارا قبائل کی رشد وہدایت دینی وروحانی میں مصروف ہے۔

 حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاریؒ نے ١٣ شعبان المعظم ١٠٧١ھ بمطابق ١٦٦١ء بعد نماز ظہر وصال فرمایا اور (اتر)شامل سمت بوستان(١) بخاری میں مدفن کیا گیا بوستان بخاری درگاہ شریف بخاری سرا سے آدھا کوس کے فاصلہ پر (اتر)شمال کی سمت واقع ہے۔(روایت نمبر٢١)

 حضرت دادا فقیرمحمد پیر(متوفی ١٢٧٦ھ بمطابق ١٨٦٠ء کابیان متولی درگاہ شریف بخاری سراحضرت مولوی شاہ خدابخش مینائی ؒ نقل کرتے ہیں کہ حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاریؒ کامزار مبارک جیسلمیر کے راج گری والوں کی بستی میں بفیض قائم ہے۔

 متولی دوئم حضرت منشی شاہ عبدالخالق مینائی نقل کرتے ہیں کہ حضرت سید امام الدین محمد کلاںبخاری ؒ کا مزار مبارک موجودہ رنچھوڑ لائن کے عقب (مارواڑی لائن گزدرآباد میں امام شاہ درویش کے نام سے معروف ومرجع الخلائق ہے انقلاب ِ زمانہ مزار شریف کے اطراف باغ ختم ہوگیا ہے اور اس پر آبادی ہوگئی ہے۔

حضرت دادا فتح محمد پیر نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت سید محمد ابراہیم شاہ بخاری (١) کے فرزند اکبر حضرت سید معصوم علی شاہ بخاریؒ اپنے والد بزرگ کے وصال کے بعد مسند رشد وہدایت پر جلوہ افروز ہوئے تھے آپ حضرت سید معصوم علی شاہ بخاریؒ نے باقاعدہ مزار پدر کے مقابل ایک خانقاہ بخاری(٢) تعمیر کروائی جہاں سے آپ نے خوب ہی اشاعت دعوت حق کا کام کمال فریضہ انجام دیا کہ ہموقت خانقاہ بخاری پر ہزار ہالوگ حاضر ہوکر رشد و ہدایت کے فیضان سے بہرہ ور ہوتے تھے آخیر آپ نے ٦ رجب المرجب ١٢٩٩ھ کو اسی بخاری خانقاہ میں وصال حق فرمایا بعد وصال آپ کے فرزند نیک نام حضرت سید حاجی محمد اسماعیل شاہ بخاریؒ مسند خانقاہ بخاری پر جلوہ افروز ہوئے آپ سید محمد اسماعیل شاہ بخاری ؒ صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے آپ سے بے شمار کرامتوں کا ظہور ہوا۔(روایت نمبر٢٢)

 ص١: حضرت سید محمد ابراہیم شاہ بخاری ؒ کا مزار مبارک قائد اعظم محمد علی جناح کی مقام ولادت وزیر مینشن کھاراد ر پولیس چوکی کے مقابل مرجع الخلائق ہے۔

 ص٢: بعد انقلاب زمانہ خانقاہ شاہ بخاریؒ کی جگہ پر جامع مسجد معصوم شاہ بخاری ؒ کھاردر پویس چوکی تعمیر ہوگئی ہے حضرت سید معصوم علی شاہ بخاریؒکے مزارات جامع مسجد کے احاطہ میں مرجع الخلائق ہےں۔

حضرت دادا روشن علی پیرؒ نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت سید محمد اسماعیل بن حضرت سید معصوم علی شاہ بن حضرت سید محمد ابراہیم شاہ بخاریؒ کو اللہ تعالیٰ نے عشق رسول ؐ کے سبب آپ سید محمد اسماعیل شاہ کو بے شمار فیوض وبرکات عطافرمائے تھے۔آپ حج بیت اللہ شریف وروضہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے تھے۔آپ نے ٣ذی الحجہ کو خانقاہ بخاریؒ میں جام شہادت نوش فرمایا اور وہیں آپ کو تدفین کیا گیا۔بعد وصال کے آپ کے برادر خورد حضرت سیدمحمد صالح(١) شاہ بخاری مسند پر جلوہ افروز ہوئے آپ نے صفر المظفر کو وصال فرمایا اور وہیں مزار مبارک ہے۔(روایت نمبر ٢٣)

 ص١: حضرت سید محمد صالح شاہ بخاری کے مزار مبارک کا انقلاب زمانہ نشان نہ رہا ١٣٢٦ھ؁ کو حضرت دادا خیر محمد پیر کو بشارت دی پھر آپ نے از سر نو مزار مبارک کو ظاہر تعمیر کیا جب سے آپ زندہ شاہ کے علاہ ظاہر شاہ پیر کے نام سے معروف ہیں۔

جد فی طریقت

حضرت سید بابا داؤد بغدادی

المعروف دادا پیر ؒ تعارف

 حضرت نور احمد اچھے ؒ نقل کرتے ہیں کہ

جد فی طریقت ہادی نصیر

حضرت سید بابا داؤد بغدادی بن حضرت سید محم شاہ بغدادی ؒ حضرت غوث الثقلین میراں محی الدین شیخ عبد القادر جیلانی ثم بغدادی ؒ کی اولاد میں سے تھے ۔آپ اپنے جدی بزرگ حضرت غوث الثقلین ؒ کے حکم سے روضہ غوثیہ بغداد میں حضرت شیخ الشیوخ العالم کبیر ال اولیاء سیدنا عبد الوہاب علی شاہ بخاری اوچی قدس سرہ کے دست حق پر ١٠٣٠ھ؁ ٤١ برس کی عمر میں بیعت و خرقہ ودستار سہر ورد یہ سے مشرف ہوئے تھے پھر بحکم جدی بزرگ (حضرت محمد عثمان حاجی دید ؒ ) کے ہمراہ بغداد سے ایک قافلہ کے ہمراہ بخاری سرا بمعہ اہلیہ کے واد ہوئے تھے حضرت شیخ الشیوخ العالم بابا قدس سرہ نے آپ کو لنگر وغیرہ کی خدمت سپرد فرمائی تھی ،جہاں آپ بمعہ اہلیہ صاحبہ ؒ کے تادم خدمت انجام فرماتے رہے ۔آپ جد فی طریقت اپنے حضرت شیخ العالم بابا قدس سرہ اور حضرت عم فی طریقت ؒ اور میرے والد بزرگ (حضرت حاجی محمد عثمان دید) سے بخاری سرا میں سب سے سن رسیدہ تھے اور آپ کی کوئی او لاد نہ ہوئی تھی کہ ایک روز حضرت شیخ الشیوخ العالم بابا قدس سرہ نے آپ کو ایک سیب عنایت فرما کر ارشاد فرمایا کہ یہ آدھا تم اور آدھا اپنی اہلیہ کو کھلادو۔اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا کہ حضرت شیخ الشیوخ العالم باباقدس سرہ کے وصال سے ایک سال بعد یکم رجب المرجب ١٠٤٧ھ بمطابق ١٦٣٧ء کو آپ کے ہاں فرزند پیدا ہوا عم فی طریقت (حضرت سید امام محمد کلاں بخاری ؒ) نے بچے کے کان میں اذان دی اور لب مبارک چسایا اور نام سید محمد عارف اللہ خطاب بچل شاہ رکھا ۔حضرت جد فی طریقت بڑے کامل واکمل روشن ضمیربزرگ تھے آپ نے ١٧ رجب المرجب ١٠٦٢ھ میں وصال فرمایا ۔آپ کو آپ کی شب بیدار گاہ پر دفن کیا گیا ۔روایت نمبر ٢٤

حضرت دادا فتح محمد پیر ؒ نقل کرتے ہیں کہ

حضرت دادا سید داؤد بغدادی کی خدمت غسل و نماز جنازہ و تد فین میرے دادابزرگ (حضرت نور احمد اچھے ؒ ) انجام دی تھی اور پھر ان کی جگہ بخاری سرا میں مسندر شدو ہدایت پر جلوہ افروز ہوئے تھے حضرت دادا سید داؤ بغدادی ؒ کی لحد بخاری سرا سے آدھا ایک کوس کے فاصلہ (اتر ) شمال کی سمت مرجع خلائق ہے میرے والد بزرگ (حضرت دادا محمد حسن جان پیرؒ) نے آپ کی لحد کو پختہ بنایا تھا ۔

نوٹ: حضرت دادا سید داؤد بغدادی ؒ کا مزار مبارک موجودہ رنچھوڑ لائن میں دادا پیر پیلس اسلم روڈ گدی چوک کراچی میں مرجع الخلالق ہے ۔

روایت نمبر ٢٥۔

حضرت سید محمد عارف اللہ المعروف بچل شاہ مستان ؒ

 حضرت دادا محمد حسن جان پیر ؒ نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت سید محمد عارف اللہ المعروف بچل مستان ؒ فرزند حضرت دادا سید داؤد بغدادی ؒ ١٠٤٨ھ بمطابق ١٦٣٧ء کو بعد نماز فجر بخاری سرا میں پیدا ہوئے ۔ حضرت سید امام الدین محمد کلاں بخاری ؒ نے آپ کے کان میں اذان دی اور نام محمد عارف اللہ خطاب بچل شاہ رکھا ۔

 آپ ؒ نے قرآن کریم کی ابتدائی تعلیم میرے والد بزرگ (حضرت نور احمد (خوب)اچھے ؒ)سے حاصل فرمائی پھر (محمد حسن جان ؒ) سے قرآن کریم حفظ فرمایا پھر آپ کی والدہ ماجدہ صاحبہ ؒ نے آپ کو دیگر علوم دینیہ حاصل کرنے ٹھٹھہ روانہ فرمادیا جہاں حضرت امام الدین محمد کلاں بخاری ؒ کی اہہلیہ کے زیر سایہ آپ دینی علوم حاصل فرماتے رہے پھر ١٤ برس کی عمر میں واپس بخاری سرا حاضر ہوئے تو والد بزرگ (حضرت دادا سید داؤد بغدادی) نے آپ کی روحانی تعلیم و تربیت خود فرمائی آپ بڑے عابد وزاہد شب بیدار تھے پھر ١١ربیع الثانی ١٠٦١ھ میں آپ کو والد بزرگ (حضرت دادا سید داؤد بغدادی ؒ) نے بیعت فرماکر اپنا جدی قادری خرقہ ودستار سے مشرف فرمایا ۔روایت نمبر ٢٦

حضرت دادا فتح محمد پیر ؒ نقل فرماتے ہیں کہ

حضرت دادا محمد حسن جان پیر ؒ نے طریقت سہر ورد یہ کا خرقہ ودستار عطار فرما کر آُ ؒ کو اپنے والد بزرگ (حضرت دادا سید داؤد بغدادیؒ) کے وصال ١٠٢٦ھ مسند ورشدو ہدایت پر ١٥سال کی عمر میں فائز کیا تھا ۔آپ جدی نسبت قادری سے سرشار صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ٣ فرزند سید معصوم شاہ بغدادی ؒ ، سید محمد قطب شاہ بغدادیؒ عطا فرمائے تھے اور ایک دفتر میں عائشہ بی بی ۔ حضرت سید معصوم شاہ کو بستی (اطراف ملیر ندی) سے واپسی پر کچھ کوس کے فاصلہ پر کچھ راہزنوں نے ١٥ برس کی عمر میں ١٠٩٢ھ بمطابق ١٦٨٢ء میں شہید کر دیا تھا ۔

حضرت سید معصوم شاہ بغدادی ؒ کو جائے شہادت پر ہی تدفین کیا گیا ۔

آخری عمر میں آپ حضرت بچل شاہ پر مجذو بیت کا غلبہ طاری ہوگیا تھا پھر تو آپ کو نہ تو خردونوش اور نہ ہی لباس زیب تن کرنے کی خبر رہی ۔آپ حضرت بچل شاہ ؒ پر عرفان الٰہی کا ایسا غلبہ ہوا کہ دنیائے بے ثبات سے بے نیاز ہوگئے اور اپنے وقت میں تمام مجذبان میں صاحب کمال مقام پر فائز ہوئے آخر ٢ ذی الحجہ ١١٢٩ھ کو ٨٢ سال کی عمر میں وصال حق فرمای اور آپ کا مزار لب شاہراہ بندرگاہ بخاری سرا سے ایک کوس کے فاصلے پر مرجع خلائق ہے ۔روایت نمبر ٢٧

ص ا: حضرت دادا فقیر محمد پیر ؒ کا بیان حضرت متولی اول مولوی شاہ خدا بخش مینائی ؒ نقل کرتے ہیں کہ آپ کا مزار مبارک لب شاہراہ بندر واقع ہے۔

حضرت شاہ منشی عبدالخالق مینائی نقل کرتے ہیں کہ

آپ کا مزار مبارک موجودہ محلہ گاڑی کھاتہ بندرروڈ پرمستان شاہ کے نام سے مرجع الخلائق ہے ۔ایک مسلمان میمن سیٹھ نے آپ کے مزار مبارک کو از سر نو تعمیر کروایا ہے آپ کے مزار مبارک کے دروازے کے ساتھ آپ کے خادم کا مزار مبارک ہے۔

تعارف

حضرت سید محمد قطب شاہ بخاریؒ

حضرت دادا فتح محمد پیر نقل کرتے ہیں کہ

حضرت سید محمد قطب شاہ بغدادی ابن حضرت سید محمد عار ف اللہ عرف بچل شاہ مستانؒ ابن حضرت سید داؤد بغدادی ابن حضرت سید محمد شاہ بغدادی ؒ ١٠٧٩ھ؁ ١٦٦٨ئ؁ ماہ ذی الحجہ میں پیدا ہوئے۔روایت نمبر ٢٨

حضرت دادا فتح محمد پیر ؒکا بیان دادا روشن علی پیرؒ نقل کرتے ہیں کہ

حضرت سید محمد قطب شاہ بغدادی بن حضرت سید محمد عارف اللہ عرف بچل شاہ مستان ؒ نے میرے دادا بزرگ (دادا محمد حسن جان پیرؒ) سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل فرمائی تھی اور ١٠٩٢ھ میں اپنے والد بزرگؒ سے شریف بیعت قادریہ و زسہروردیہ سے مشرف ہوئے اور میرے والد بزرگ (دادا فتح محمد ؒ) سے علوم دینیہ کی ابتدائی تعلیم بھی حاصل فرمائی ۔آپ بڑے بہادر صاحب جلال بزرگ تھے انوار جمال غوثیہ ہموقت چہرہ مبارک سے عیاں رہتاتھا۔آپ کو جدی خرقہ ودستار کے ساتھ حضرت دادا فتح محمد پیرؒ سے بھی خرقہ ودستار سہروردیہ حاصل تھا۔آپ نے اطراف میں خوب ہی اشاعت اسلام کی خدمت انجام دی آپ کی کرامت سے بھیم پورہ کے بڑے بڑے سادھو ں نے سرخم کیا اور بھیم مندر کے بڑے بڑے جادوگر پجاریوں کو زیرکیا آپ صاحبِ کشف و کرامت بزرگ تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک فرزند سید حیدر علی شاہ بغدادی اور ایک دختر سیدۃ بغدادی خاتون عطا فرمائی تھی آپ نے یکم ذیقعدہ ١١٤٤ھ کو وصال فرمایا مزار مبارک بخاری سرا سے ایک یا دو کوس کے فاصلہ پر بستی مندر بھیم پورہ مغرب کی سمت مرجع خلائق ہے۔روایت ٢٩

تعارف

حضرت سید حید ر علی شاہ بغدادی

ابن سید محمد قطب شاہ ابن سید بچل شاہ مستانؒ ابن داؤد بغدادی ؒ آپ رمضان ١١٠٧ھ؁ میں پیدا ہوئے ۔حضرت دادا فتح محمد پیرؒ سے قرآن پاک حفظ کیا پھر دینی وروحانی تعلیم وتربیت حضرت سید معصوم علی شاہ بخاریؒ سے حاصل کی ۔١٨ سال کی عمر میں والد بزرگ سے شرف بیعت حاصل کیا۔٣٧ سال کی عمر میں مسند رشد وہدایت پر جلوہ افروز ہوئے اور اپنے آبائی مریدین کی دینی و روحانی تعلیم وتربیت فرماتے رہے پھر سفر حجاز مقدس حج بیت اللہ شریف فرماکر واپس کراچی تشریف لائے ایک فرزند سید عرب شاہ بغدادیؒ پیدا ہوئے۔آپ حضرت سید حیدر شاہ بغدادی نے ١١ ربیع الثانی ١١٩١ھ؁ بمطابق ١٧٧ئ؁ کو وصال فرمایا لحد مبارک لیاری ندی کے کنارے (اتر) شمال کی سمت واقع ہے۔بعد آپ کے فرزند اکبر حضرت سید عرب شاہ بغدادی ؒ نے ٣٧ سال کی عمر میں مسند رشد وہدایت گرم کی آپ ١١٣٦ھ میںپیدا ہوئے اور ١٢٠١ھ میں وصال فرماگئے۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے دودختران رابعہ ثانی حضرت سیدہ بی بی آمنہ صاحبہ اور حضرت سیدہ بی بی بانوصاحبہ عطافرمائی۔یہ دونوں بہنیں اپنے وقت کی رابعہ ثانی تھیں۔حافظ قرآن دین وروحانی علوم سے سراپا کامل واکمل آراستہ تھیں اور حضرت سیدہ بی بی آمنہ صاحبہؒ ١١٩٠ھ میں کراچی میں پیداہوئیں۔حضر ت سیدہ بی بی بانو صاحبہؒ ١١٩٣ھ کراچی میں پیدا ہوئیں۔

دونوں ہمشیرہ مجرد تھیں ہمہ وقت عبادت الٰہی میں مصروف رہتیں اپنے آبائی مریدین کو دینی وروحانی تعلیم وتربیت بھی دیتیں۔سالہا سال روزہ سے رہتیں اور افطار بھی صرف ایک پیالہ پانی سے فرماتیں اور سحری بھی اسی طرح کرتیں۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان کو سیف اور ہاتھوں کو سخی فرمایا تھا اہل کراچی نے ان رابعہ ثانی دختران سے خوب ہی دینی وروحانی فیض حاصل کیا اور حضرت سیدہ بی بی آمنہ صاحبہؒ نے ٢٥ ربیع الثانی ١٢٨٨ھ اور دختر ثانی حضر ت سیدہ بی بی بانو صاحبہؒ ١٢ ربیع الاول ١٢٨٩ھ کو وصال فرمایا۔مزار مبارک دونوں سیدہ صاحبہؒ کے اپنے والدہ بزرگ اور دادابزرگ حضرت سید حیدر شاہ بغدادی کے ہمراہ مرجع خلائق لیاری ندی (اتر)شمال کے کنارے جنوں کے قبے کے نام سے معروف ہیں۔روایت ٣٠

نوٹ:آپ کے ایک عقیدت مند جناب شیخ دین محمد نے گنبد ومزارات اور سیع احاطہ تعمیر کروایا تھا جو ٢١ ربیع الاول ١٢٩٠ھ بمطابق ١٨٧٣ء ؁ کو مکمل ہوا اس تعمیر پر ایک ہزار چھ سو روپے خرچ ہوئے تھے۔یہ جنات کے قبے کے نام سے معروف ہے کیوں کہ یہاں کثرت سے جنات آباد تھے اور وہ ہی خدمت اس احاطہ کی کرتے تھے اور وہ کسی کو پریشان نہیں کرتے تھے مگر جب یہ سید زادیاں مدفن ہوئیں تو بے پردگی کے سبب خادم جناتوں نے قبے میں ریتا بھر دی تاکہ مرد اندر نہ جاسکے اور باہر ہی سے فاتحہ خوانی کریں۔روایت فقیر محمد پیر

حضرت متولی دویم شاہ عبدالخالق مینائی نقل کرتے ہیں کہ

١٣٥٤ھ بمطابق ١٩٣٦ء میں حضرت سیدبابا عنبر علی شاہ وارثیؒ نے بحکم شیخ حج بیت اللہ کے لیے بمبئی سے سفر فرمایا تو بمبئی سے کراچی وارد ہوئے اور کچھ دن درگاہ حضرت سید بابا عالم شاہ بخاری ؒ میں قیام فرمایا کہ ایک روز عالم رویا میں حضرت عالم شاہ بخاری ؒ نے آپ کو یہاں جنات کے قبے میں چلہ کشی کرنے کا حکم فرمایا سو آپ یہاں وارد ہوئے ٤٠ یوم جلہ کشی فرمائی کہ پھر عالم رویامیںحضرت سید حیدر شاہ بغدادی ؒ نے حکم دیا کہ قبہ کو صاف کریں اور کوئی مرد اندر نہ آئے باہر سے ہی فاتحہ خوانی کرے آپ یہ خدمت انجام دے کر حجاز مقدس روانہ ہوگئے۔

بعد شیخ دین محمد کا انتقال ١٩٣٧ء میں ہوا تو قبہ کے باہر تدفین کیا گیا اور آپ کے خاندان نے یہاں ایک خادم مراولد ابراہیم کو ماہانہ وظیفہ پر مقرر کیا اس نے ایک زیتون عرف حاجرا سے عقدکرلیا اور وہ بھی قبہ ہی میں رہےں قیام پاکستان کے بعد مراد ولد ابراہیم انتقال کرگیا تو شیخ دین محمد کے ہمراہ دفن ہوا پھر حاجرامائی بڑی دلیر ی سے کافی عرصہ اس قبرستان میں خدمت کرتی رہیں پھر عبدالستار مالی بابا کو اس نے اپنے پاس پناہ دی۔روایت محمد علی بلوچ مرحوم

١٩٥٠ء میں حضرت بابا عنبر شاہ وارثی دوبارہ کراچی وارد ہوئے اور بحکم شیخ یہاں ہی قیام پذیر ہوئے اور قبہ کی از سر نو احاطہ کی مرمت وغیرہ کرائی اور عبدالستار مالی بابا اور مائی حاجرا کو ماہانہ وظیفہ دیتے رہے پھر ٢٦ ربیع الثانی ١٩٥١ئ؁ میں آپ نے احاطہ قدیم کا باقاعدہ ٹرسٹ رجسٹرڈ کرواکرحکومت سے لیز کروالیا تھا۔آپ حضرت بابا سید عنبر علی شاہ وارثی چشتی اجمیریؒ سلسلہ عالیہ وارثیہ کے ممتاز روحانی اور نعت گو شاعر تھے آپ نے قبہ کے ہمراہ جس حجرہ شریف میں چلہ فرمایا تھا اسی حجرہ میں ٥ مئی ١٩٩٣ء میں مدفن ہوئے ۔آج کل راقم الحروف احاطہ کی جاروپ کشی انجام دے رہا ہے۔

جامع معقولات ومنقولات شیخ الزاہدین حضرت مولوی حاجی محمد عثمان دیدؒ

حضرت نور احمد اچھے اپنے والد بزرگ کا تعارف نقل کرتے ہیں کہ میرے والد بزرگ کا ہندی نام پرکاش رام ناتھ تھا جو ٩٧٥ھ بمطابق ١٥٦٨ء راجپوتانے کے قصبے جیسلمیر میں پیدا ہوئے۔آپ ؒ کے والد میرے دادا موہنا رام ناتھ اپنے وقت کے زبردست (جوتشی)پنڈت شاہی نسل سے تھے ۔آپ نے ابتدائی مذہبی تعلیم اپنے والد موہنا رام ناتھ سے حاصل کی اور پنڈت بنے جوان ہوئے تو چچا ہری ناتھ کی دختر سے شادی کی جن سے ایک فرزند(میں)پریم داس ناتھ پیدا ہوا اور میرے بعد میری بہن للچھمی پیداہوئی جو ٣ سال کی عمر میں انتقال کرگئی۔

آپ اپنی (پتنی)بیگم یعنی میری ماتا جی کی موت کے بعد دنیا سے کنارہ کش ہوگئے پھر کچھ عرصے بعد یعنی ١٥٧٩ء یک یک مجھے(پریم داس ناتھ)کو ہمراہ لے کر رام لکشمی جی وسیتاماتا کی (یاترا)زیارت کو روانہ ہوئے اور یہاں بندر دربو سندھ رام بسرام کی یاترا کو آئے پھر یہاں سے ہنگلاج (بلوچستان)رام لکشمی جی کی یاترا کو روانہ ہوئے کچھ عرصہ وہان (رام شالا) رام مندر میں قیام پذیر ہوئے کہ ایک روز رام مندر کے(مہا پجاری)بڑے پجاری نے میرے والد کو حکم دیا کہ اب تم رام بسرام سیج میں جاکر (سیوا)خدمت کرو۔

پھر والدمجھے ہمراہ لے کر ہنگلاج (بلوچستان)سے (رام بسرام سیج)موجودہ آرام باغ وارد ہوئے اور رام بسرام سیج کی(سیوا)خدمت میں مصروف ہوگئے کہ کسی روز تو رام لکشمی جی کا(درشن)دیدار ہوگا۔ابھی اسی جستجو میں تھے کہ ١٠٢٦ ھ میں (حقیقی رام کی کرپا)یعنی اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہوئی کہ حضرت شیخ الشیوخ العالم کبیر الاولیاء ہادی نصیر سیدنا عبدالوہاب بابا علم شاہ بخاریؒ اوچی قدس سرہ اللہ العزیز کے روپ میں رام لکشمی جی کے(درشن)دیدار ہوا اور اسی وقت ٥١ برس کی عمر میں مشرف بااسلام ہوئے۔

حضرت بابا قدس سرہ نے آپ کا اسلامی نام محمد عثمان خطاب دید رکھا اور میں (پرم داس ناتھ)نے تو ایک روز قبل ہی حضرت بابا قدس سرہ نے میرا اسلامی نام نوراحمد خوب یعنی اچھے رکھا تھا اور پھر باقی زندگی حضرت بابا قدس سرہ کے زیر سایہ ہی گزاری۔

آپ نے بحکم شیخ قدس سرہ حج بیت اللہ وزیارت روضہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سعادت بھی حاصل فرمائی تھی۔غرض یہ کہ حضرت بابا سید علم شاہ قدسر سرہ کی نظر فیض باز نے آپ کو ایک کامل واکمل مسلمان ولی بنادیاتھا۔آپ نے کئی ہندوؤں کو داخل اسلام کیا۔روایت نمبر ٣١

حضرت محمد حسن جان پسر حضرت نور احمد اچھےؒ اپنے والد بزرگ کابیان نقل کرتے ہیں کہ

میرے دادا(حضرت حاجی محمد عثمان دیدؒ) حضرت بابا قدس سرہ کے دست مبارک پہ مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد توان میں بڑی (یعنی)روحانی طاقت آگئی تھی کہ انہوں نے ظالم دشمن جادو گروں کے جادو منتروں کو زیر کردیا تھا ۔روایت نمبر ٣٢۔

حضرت محمد حسن جان ؒ اپنے والد بزرگ حضرت نور احمد اچھے ؒ کا بیان نقل کرتے ہیں کہ

میرے دادا (حضرت حاجی محمد عثمان دید ؒ ) نے ١٣ صفر ١٠٣٥ھ؁ مطابق ١٦٢٥ء بمقام حب ندی کے اطراف (لسبیلہ )حضرت نور لا فقیر کی بستی میں وصال فرمایا تھا ۔ایک روز نماز کے بعد حضرت بابا قدس سرہ نے حاجیوں کے قافلہ کے ساتھ لنگر نوش فرمایا اور کپڑے وغیرہ بھی تقسیم کیے کیونکہ حاجیوں کے اکثر قافلے حضرت بابا ہی کے بخاری سرا میں منزل کرتے تھے ان حاجیوں میں اکثر حاجی ملک پنجاب و ہندو سندھ کے مسلمان ہوتے تھے ۔اسی دوران حضرت بابا قدس سرہ کا ایک مرید بنام(حضرت )فقیر نور لانے آپ ؒ کے حضور عرض کی کہ بابا بستی والے بہت سرکش ہوگئے ہیں ۔وہ مجھ کو نماز تک پڑھنے نہیں دیتے بہت پریشان کرتے ہیں غرض کہ حضرت بابا قدس سرہ نے (حضرت) فقیر نور لاکی درخواست قبول کر کے اس کے ساتھ جانے کا قصد فرمایا اور حضرت جد فی طریقت (حضرت بابا داؤد بغدادی ؒ) کو مہمانو کی خدمت کرنے اور عم فی طریقت (حضرت سید امام کلاںؒ) کو درس دینے کا حکم فرمایا اور مجھے (نور محمد اچھے ) اور میرے والد بزرگ (حضرت حاجی محمد عثمان دیدؒ) کو اپنے ہمراہ چلنے کا حکم فرمادیا ۔غرض کہ میں اور میرے والد بزرگ ؒ اور فقیر نور لا حضرت بابا قدس سرہ کے ہمراہ (اتر) شمالی کی جانب (دلیری)موجودہ لیاری ندی کے راستہ حب دریا کے پار بستی میں شب کو پہنچے جہاں (حضرت فقیر نور لارہتے تھے ۔

 حضرت بابا قدس سرہ نے شب عبادت الٰہی میں بسر فرمائی جب صبح فجر کا وقت ہوا تو آپ ؒ نے والد بزرگ (حاجی محمد عثمان دیدؒ )کو اذان فجر دینے کا حکم فرمایا میرے والد بزرگ ؒ نے ابھی اذان دی کہ بستی کے سارے سرکش لوگ جمع ہوگئے اور شوروغل غپاڑا کرنے لگے اس پر حضرت بابا قدس سرہ نے ان لوگوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ اب صبح ہوگئی ہے اندھیرا ختم اجالا ہوگیا ہے حضرت بابا کی یہ بات سن کر کسی نے دم نہیں مارا وہ سب کے سب خاموش بیٹھ گئے ہم لوگوں نے دورکعت سنتت فجر ادا کی پھر حضرت بابا قدس سرہ نے نماز فجر کی امامت فرمائی ۔پھر سلام پھیر کر حضرت بابا قد سرہ نے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی کہ اے اللہ تو ان کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور الحمد شریف پڑھ کر ان کی طرف دم کیا تو وہ سب کے سب مرد، عورت،بچے حضرت بابا قدس سرہ کے قدم بوس ہوئے حضرت بابا قدس سرہ نے ان لوگوں سے اپنے دست مبارک پر بیعت لی اور توبہ پڑھوائی۔

 کیونکہ اس بستی میں مسلمان بھی آباد تھے مگر وہ دین اسلام کی تعلیمات سے بے خبر تھے اور کچھ لوگ تو نہ ہندو اور نہ ہی مسلمان ان کا کوئی دھرم ہی نہیں تھا وہ سرکشی کو ہی اپنا دھرم جانتے تھے مگر ان کو بھی حضرت بابا قدس سرہ نے بفضل حق تعالیٰ اپنی روحانی طاقت سے نیکی کی طرف چلایا یہ لوگ حضرت بابا قدس سرہ کے سامنے ہی نیکی کی طرف آگئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی خوب ہی عبادت کرتے اور محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرنے لگے تھے ہم ابھی کچھ روز بستی میں ہی تھے کہ میرے والد بزرگ کو بخار ہوگیا اور وہ بخار کے مرض میں ہی ١٣ صفر ١٠٣٥ھ انتقال کر گئے ۔

 حضرت بابا قدس سرہ نے ان کو سورۃ مزمل بخشی تھی جب وہ تبلیغ دین کے لئے جاتے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد سورۃ مزمل تلاوت فرماتے تو لوگ ان کے گرد جمع ہوجاتے اور سورۃ مزمل شریف کی برکت سے غیر مسلم داخل اسلام ہوتے دادا بزرگ نے میرے والد کو اور میرتے والد بزرگ نے مجھ کو یہ سورۃ (مزمل) بخشی ہے ۔

 حضرت بابا قدس سرہ کے فقیر میرانؒ اور میں نے والد بزرگ کو غسل دیا بعد اس کے حضرت بابا قدس سرہ نے ہم دونوں کو بھی غسل کرنے کا حکم فرمایا اور اپنے فقیر منڈہ اناؒ اور فقیر گلدرؒ کو نور لاؒ کے مکان سامنے پہاڑی کے دامن درخت کے سایہ میں قبر کھود نے کا حکم فرمایا اور نماز جنازہ از خود حضرت بابا قدس سرہ نے پڑھی اور دعا فرمائی اور فقیر٥ نورؒلا کو وہاں رہنے خدمت کرنے کا حکم فرمایا ۔اس وقت سے تا حال والد بزرگ کی لحد کی خدمت کرتا ہے ۔حضرت فقیر منڈہ انا ؒ اور حضرت فقیر گلدرؒ حضرت بابا قدس سرہ کے فیض یافتہ سچے مرید تھے حضرت بابا قدس سرہ نے ان کو حضرت فقیر نور لاؒ کی ہر طرح اعانت کرنے کا حکم فرما کر تیسرے روز فاتحہ خوانی کر کے میں اور حضرت بابا قدس سرہ واپس بخاری سرا کے لئے روانہ ہو کر دوسرے دن صبح جب ہم سرا پہنچے تو جدی فی طریقت (حضرت بابا داؤد بغدادیؒ) نے پوچھا کہ بھائی حاجی دید کہاں ہے تو حضرت باباقدس سرہ نے با آواز بلند

انا للہ وانا الیہ راجعون

پڑھا ۔اس پر میں نے آب دیدہ ہو کر کہا کہ وہ وفات پاگئے ہیں ۔بس پھر کیا تھا جدی فی طریقت (حضرت بابا داؤد بغدادی ؒ) نے بھی آب دیدہ ہو کر کہا کہ آہ وہ خوش نصیب تھا کہ وہ آپ حضرت سیدی قدس سرہ کے ہاتھوں دفن ہوا ۔آہ کاش میں بھی آپ حضرت سیدی قدس سرہ کے ہاتھوں دفن ہوتا ۔اس پر حضرت بابا قدس سرہ نے فرمایا ۔

انا للہ ما الصابرین

موت ایک پل ہے جو دوست کو دوست سے ملاتی ہے

سرا میں موجود لوگوں نے مجھ سے افسوس اور دعا مغفرت کی روایت نمبر ٣٣۔

حضرت دادا محمد حسن جان پیر ؒ پسر حضرت نور احمد اچھے ؒ اپنے والد کا بیان نقل کرتے ہیں کہ

بعد حج بیت اللہ شریف کہ حضرت بابا قدس سرہ نے میرے والد بزرگ (حضرت حاجی محمد عثمان دیدؒ)کو خرقہ و دستار ارشاد عطا فرما کر حکم فرمایا کہ

اطراف کی بستیوں میں اشاعت دین اسلام کریں میرے والد بزرگؒ حضرت بابا قدس سرہ کے حکم پر اطراف کی بستیوں میں تبلیغ دین کرتے اور کئی ہندؤوں کو مسلمان بھی کیا تھا۔کیونکہ حضرت بابا قدس سرہ نے والد بزرگ ؒ اور مجھے قرآن پاک حفظ بھی کروایا تھا جب والد بزرگ ؒ سورۃ مزمل کی تلاوت فرماتے تو لوگ خود بخود ان کی شیریں آواز سن کر ان کے گرد جمع ہوجاتے میرے والد بزرگ ؒ پر یہ سب کرم نوازی حضرت بابا قدس سرہ کی دعاؤں سے تھی حضرت بابا قدس سرہ کی نظر کرم نے والد بزرگؒ کو ایک کامل و اکمل مسلمان ولی بنا دیا تھا ۔بفضل سبحان الغفور الرحیم ۔

روایت نمبر ٣٤۔

ص١۔ حضرت فقیر میران ؒ آپ حضرت بابا عالم شاہ بخاری قدس سرہ کے مرید صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے مزار مبارک ویندر لسبیلہ حب میں مرجع خلائق ہے ہر سال ماہ جمادی الثانی میں عرس شریف ہوتا ہے ۔

ص٢۔ حضرت فقیر منڈہ اناؒ بڑے کامل درویش مرید حضرت بابا عالم شاہ قدس سرہ کے بلوچستان میں گزرے ہیں صاحب کشف وکرامت سیلانی بزرگ تھے آپ کا مزار مبارک سرانام پشین کے قریب نئی گلی میں ہے ۔

ص٣۔ حضرت فقیر گلدر پیر ؒ بھی حضرت بابا عالم شاہ بخاری ؒ کے مرید صاحب کشف و کرامت بزرگ بلوچستان میں گزرے ہیں مزار مبارک گلدر لسبیلہ حب میں ہے ہر سال جمادی الثانی میں عرس ہوتا ہے ۔

ص٤۔ حضرت فقیر نور لا یہ حضرت بابا عالم شاہ بخاری قدس سرہ کے مرید و خادم عابد وز زاہد درویش نیک نام تھے حب ندی کے اطراف بستی میں حضرت حاجی محمد عثمان دید ؒ کے مزار کے ساتھ قبر ہے ہر سال عرس ہوتا ہے ۔(ازتذکرہ بلوچستان(

تعارف حضرت نور احمد اچھےؒ

حضرت دادا محمد حسن جان پیرؒ اپنے والد بزرگؒ کا تعارف نقل کرتے ہیں کہ

 میرے والد بزرگ حضرت نور احمد اچھے ١٦٥٤سمیت بکرمی ہندی ١٠٠٥ھ بمطابق ١٥٩٧ء میں جیسلمیر راجپوتانے (بھارت ) میں ایک ہندو شاہی نسل پنڈت گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد بزرگ کا ہندی نام پنڈت پر کاش رام ناتھ تھا ،داخل اسلام ہونے کے بعد آپ کا نام حضرت حاجی محمد عثمان دیدؒ رکھا گیا ۔آپ کم سنی میں اپنے والد کے ہمراہ جیسلمیر راجپوتانے سے (یہاں دربو بندر رام بسرام سیج) موجودہ آرام باغ کراچی وارد ہوئے ١٦٧٤سمیت بکرمی ہندی بمطابق ١٠٢٦ھ بمطابق ١٦١٧ئ؁ ٢١ برس کی عمر میں حضرت شیخ الشیوخ العالم کبیر الاولیاء ہادی نصیر حضرت سیدنا عبد الوہاب عل شاہ بخاری اوچی قدس سرہ کے دست حق پر اپنے والد بزرگ سے ایک روز قبل ہی مشرف بااسلام ہوئے تھے اور بہت جلد آپ ؒ نے حضرت شیخ الشیوخ العالم قدس سرہ سے حفظ قرآن پاک کیا تھا اور دینی وروحانی تعلیم و تربیت بھی آپ سے یہ حاصل کی تھی ۔آپ حضرت شیخ الشیوخ العالم سید علم شاہ بخاری قدس سرہ کی نگاہ فیض باز سے اعلیٰ دینی وروحانی مقام پر فائز ہوئے تھے ۔روایت نمبر ٣٥۔

حضرت نور احمد اچھےؒ کا بیان حضرت دادا محمد حسن جانؒ پیر ؒ نقل کرتے ہیں کہ

 ایک روز صبح کے وقت دو بھائی بنام عبد الغنی وعبد النبی بلوچ حضرت بابا قدس سرہ کے پاس دعا کے لئے حاضر ہوئے اور بعد دعا عرض کیا کہ بابا ہماری بستی میں ہمارے ساتھ چلئے حضرت بابا قدس سرہ نے یہ دعوت قبول فرمائی اور ان کے ہمراہ چلنے کا قصد فرمایا کہ میں (نور احمد اچھےؒ ) اور عم فی طریقت (حضرت امام محمد کلاں ؒ) کو بھی ساتھ چلنے کا حکم ہوا ۔سو ہم (اسپ )گھوڑوں پر سوار ہو کر روانہ ہوئے دوران سفر میں نے حضرت بابا قدس سرہ سے ان دونوں بھائیوں کا حال دریافت کیا تو حضرت بابا قدس سرہ نے فرمایا کہ یہ دونوں برادر ہمارے مرید ہیں ۔جب ہم ان کی بستی اطراف (مالری ندی) ملیر ندی میں پہنچے تو سب لوگوں نے حضرت بابا قدس سرہ سے سلام و دعا وقدم بوسی کی یہ سب لوگ بستی والے حضرت بابا قدس سرہ کی آمد سے بہت خوش تھے کہ حضرت بابا قدس سرہ کے ہمراہ ہم سب نے بستی کی مسجد میں قیا کیا ۔جہاں اہل بستی نے ہماری خوب ہی خاطر ومدارات کی دوسرے دن صب کو اہلیہ عبد الغنی حاضر خدمت ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ لڑکی کے (عقد)کے لئے دعا کریں آپ حضرت بابا نے دعا خٰر کی دوسرے دن صبح حضرت بابا قدس سرہ نے عبد الغنی کو حکم دیا کہ تم اپنی لڑکی نوربی کا (عقد)نکاح ہمارے اچھے سے کردو اور دوسری لڑکی فیض بی کا (عقد )نکاح اپنے بھائی عبد النبی کے لڑکے غلام رسول سے کردو اور عبد النبی کی لڑکی زبیدہ کا (عقد) اپنے لڑکے خیر محمد سے کردو ان دونوں بھائیوں نے باخوشی حضرت قدس سرہ کے اس حکم تسلیم کیا اور دوسرے دن ہی ربیع الاول کے ماہ میں ہم سب کا (عقد) نکاح ہوگیا حضرت بابا قدس سرہ نے از خود نکاح پڑھایا ۔اس روز بستی میں خوب خوشی منائی گئی ۔بعد نکاح کے حضرت بابا قدس سرہ نے مجھے اسی بستی کی مسجد کے حجرہ میں بمعہ اہلیہ قیام کرنے اور عبد الغنی کی زمین پر کام کرنے کا حکم دیا ۔

سو میں بستی ہی میں قیام پذیر ہو گیا ۔

 تیسرے دن حضرت بابا قدس سرہ اور عم فی طریقت (حضرت امام محمد کلاں بخاری ؒ) واپس بخاری سرا روانہ ہوگئے بستی والے میری بہت عزت و احترام کرتے تھے کیونکہ میں حضرت بابا قدس سرہ کے حکم سے پانچ وقت اذان وامامت کی بھی خدمت مسجد میں انجام دیتا تھا اور دن کو اپنے سسر عبد الغنی کی زمینوں پر کام (کاشتکاری )کرتا تھا اور بعد نماز مغرب درس قرآن پاک کی تعلیم دیتا تھا بستی کے کافی بچوں نے مجھ سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی تھی ۔شادی کے بعد ماہ یا ١٥ روز میں حضرت بابا قدس سرہ کے حضور بخاری سرا حاضری دیتا یا پھر کبھی بابا قدس سرہ یا کبھی عم فی طریقت (حضرت سید امام محمد کلاں ؒ) از خود میری خیریت دریافت کر نے بستی میں تشریف لاتے تھے ۔روایت نمبر ٣٦۔

حضرت دادا محمد حسن جان پیرؒ کا بیان حضرت دادا فتح محمد پیر ؒ نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت سید بابا داؤد بغدادی ؒ کے وصال ١٧٠٨ سمیت بکرمی ہندی بمطابق ١٣ رجب ١٠٦٢ھ بمطابق ١٦٥٢ء کے بعد حضرت دادا نور احمد اچھے ؒ بستی (اطراف ملیر ندی کراچی ) کو خیر باد فرما کر بخاری سرادرگاہ حضرت شیخ الشیوخ العالم قدس سرہ میں مسند ارشادا تولیت پر جلوہ افروز ہوئے ۔جہاں آپ ؒ نے ١٦سال تک کامل رشد وہدایت کی خدمت انجام دی اور ١١جمادی اور ١١ربیع الاول بمطابق ١٠٧٨ھ بمطابق ١٦٦٧ئ؁ میں وصال فرمایا ۔روایت نمبر ٣٧۔

حضرت دادا تاج محمد پیر نقل کرتے ہیں کہ

 آپ کا مزار مبارک بندر دربو اور بخاری سرا کے بیچ درمیان ١ یا ٢ کوس کے فاصلہ پر مرجع الخلائق ہے آپ کے مزار مبارک و گنبد آپ کے پو تے حضرت دادا فتح محمد پیر ؒ ابن حضرت دادا محمد حسن جان پیر ؒ نے تعمیر کروایا تھا ۔آپ حضرت اچھےؒ کی (لحد) مزار مبارک اچھی پیر ؒ کے نام سے اہل ٹانگا مارا قبائل میں معروف ہے ۔(اچھے قبر بمبئی بازار میں مرجع الخلائق ہے ) روایت نمبر ٨ ٣)

حضرت داد فتح محمد پیرؒ نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت داد نور احمد اچھے پیرؒ کو اللہ تعالیٰ نے دو فرزند اور ایک دو دختر عطا فرمائی تھی جن میں فرزند اکبر حضرت دادا محمد حسن جان پیر ؒ فرزند اصغر حضرت داد محمد حسین مست پیرؒ دختر فاطمہ بی بی اور نور بی بی تھیں ۔حضرت دادا محمد حسین مست پیرؒ اپنے والد بزرگؒ ہی کی حیات میں بہت کم سنی میں بستی میں ہی وفات پاگئے تھے ۔

روایت نمبر ٣٩۔

 

تعارف حضرت مولوی الحافظ شاہ خدا بخش کاظمی مینائی

 حضرت منشی شاہ عبد الخالق کاظمی مینائی (متولی دوئم درگاہ بخاری سرا شاہرہ بندر (سندھ ) انڈیا اپنے والد بزرگ ؒ حضرت متولی الاول درگاہ بخاری درا شاہراہ بندر (سندھ)انڈیا کا تعارف نقل کرتے ہیں کہ

 حضرت مولوی الحافظ شاہ خدا بخش کاظمی ١٢٢٥ھ بمطابق ١٨١٠ء لکھنو یو پی انڈیا میں پیدا ہوئے آپ کے والد بزرگ حضرت مولوی شاہ حبیب اللہ کاظمی مینائی ،فرنگی محل کے فاضل علماء میں بڑے عابد و زاہد متبع سنت بزرگ تھے ۔آپ کا نسبتی تعلق لکھنو کے معروف بزرگ حضرت شیخ شاہ محمد مینا لکھنوی قدس سرہ کی حقیقی ہمشیرہ جن کا عقد سادات کاظمیہ میں ہوا تھا سے جا ملتا ہے حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم ؓ بن حضرت سید عبد اللہ کاطمیؒ بن حضرت شاہ عون اللہ کظمیؒ بن حضرت شاہ حبیب اللہ کاظمیؒ بن حضرت حضرت شاہ ذکر اللہ کاظمیؒ بن حضرت شاہ نور اللہ کاظمیؒ بن حضرت شاہ امان اللہ کاظمیؒ بن شاہ جمال اللہؒ کاظمیؒ بن شاہ حمید اللہ کاظمیؒ بن حضرت عبد الحمید اللہ کاظمیؒ بن حضرت شاہ عبد الحبیب اللہ کاظمیؒ بن شاہ خدا بخش کاظمیؒ بن منشی شاہ عبد الخالق کاظمیؒ مینائیؒ۔

 حضرت شیخ شاہ محمد مینائی لکھنویؒ کے وصال ٥٧٠ھ بمطابق ١٤٦٥ء کے ایک عرصہ کے بعد تک حضرت شیخ قدس سرہ کی درگاہ شریف کے جملہ حقوق آپ ہی کے اجداد بزرگان کو تولیت ہوئے جو ١٢٥٩ھ بمطابق ١٨٤٣ء تک آپ ہی کے پاس رہے ۔حضرت مولوی شاہ حبیب اللہ کاظمی مینائیؒ کے دو فرزند نیک نام حضرت مولوی حافظ شاہ خدا بخشؒ اور حضرت منشی شاہ محمد ابراہیم مینائی تولد ہوئے ۔

حضرت مولوی شاہ خدا بخش قدس سرہ خاندانی تنازع کے سبب ١٢٥٩ھ بمطابق ١٨٤٣ء اپنی والدہ صاحبہ ؒ کے ہمراہ لکھنو سے دہلی ،دہلی سے ملتان (پنجاب ) اپنے ماموں جان حضرت قبلہ حافظ محمد فیض اللہ چشتیؒ کے گھر وارد ہوئے ۔آپؒ کے ماموں جان نیک صفات بزرگ صاحب مجاز و نسبت حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی کے مرید خاص تھے آپ ؒ نے تجارت کے ساتھ ساتھ پیری ومریدی کا بھی سلسلہ جاری فرمادیا تھا ۔

 آپ کا وسیع کاروبار ،عطریات و تیل وغیرہ کا تھا کہ ملک عرب وغیرہ میں بھی عطریات وتیل ہی کی تجارت فرماتے تھے آپؒ نے کچھ ہی دنوں می گھر کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ کاروبار کی بھی اپنے ہمشیر زادے(حضرت مولوی شاہ خدا بخش کاظمیؒ ) کے سپرد فرمادی جہاں آپؒ نے گھر کے ساتھ کاروبار میں بھی دیانت داری کا کمال فرض ادا فرمایا ۔کچھ ہی ماہ جب آپؒ کے ماموں جان قبلہؒ نے وصال فرمایا تو کچھ ماہ بعد ہی عزیز و احباب نے آپؒ کا عقد حضرت قبلہ ماموں جانؒ کی دختر نیک اختر جناب حیات النساء صاحبہؒ سے کر دیا آپ کی اہلیہ بھی بڑی فاضلہ وکاملہ تھیں ۔غرض کہ آپ حضرت مولوی شاہ خدا بخش خاطمی مینائیؒ ١٢٦٣ھ بمطابق ١٨٤٧ء ملتان سے اپنی والدہ صاحبہ ؒ واہلیہ صاحبہ کے ہمراہ کراچی وارد ہوئے ۔

جناب خان احمد خان بلوچ کراچوی بیان کرتے ہیں کہ

ایک روز حضرت مولوی شاہ خدا بخشؒ صاحب نے مجھے (خان احمد خان )سے بیان فرمایا کہ جس وقت ہم کراچی وارد ہوئے اس وقت کراچی کا حال اچھا ترقی پر تھا ۔اس دن انگریز جنرل چارلیس نیپیئر کی حکومت کا آخری دن تھا شہر کراچی کے بڑے بڑے لوگ شام کو کیماڑی بندر اس کو الوادعی کرنے گئے تھے ۔اس کے بعد گورنر جنرل بمبئی لارڈ آکلینڈ نے سندھ کو بمبئی کے ماتحت کر کے مسٹر رابرٹ کیتھ پرینگل کو سندھ کا کمشنر بنادیا تھا اس وقت ہم نے کراچی کے معروف ہندو سیٹھ نؤمل کے گھر کے قریب ہی کرایہ پر مکان لے کر قیام کیا تھا سیٹھ ناؤمل کے گھر کے قریب ہی کرایہ پر مکان لے کر قیام کیا تھا سیٹھ ناؤمل فرنگیوں کا بڑا آلہ کار تھا اس کا زیادہ وقت انگریزوں کے ساتھ ہی گزرتا تھا ۔

 جب ہم اس کرایہ کے مکان میں تھے اس وقت ہمارا کوئی کاروبار نہیں تھا ۔مگر کراچی کے ہندو بنیوں پر قبلہ ماموں جان ؒ اور میرے ہاتھ کی کافی رقم باقی تھی جب میں نے ان ہندو بنیوں سے باقی رقم طلب کی تو انہوں نے حساب و کتاب سند طلب کیا جب میں نے دو ایک روز میں ان لوگوں کو حساب آمدو وصول یابی کی کتاب دکھائی تو کچھ رقم وصول ہوئی اور باقی رقم دینے کا وعدہ ماہانہ کر لیا۔ میں نے رقم وصول یابی کا ذکر گھر پر والدہ صاحبہ سے کیا تو میری اہلیہ نے کہا کہ آخر ہم اس کرایہ کے مکان میں کب تک بسر کریں گے اس پر والدہ صاحبہ ؒ نے مجھ کو حکم فرمایا کہ کوشش کر کے کوئی اپنا مکان یا زمین خرید کر لو تو کرایہ سے بھی جان آزاد ہوجائیگی دوسرے دن میں نماز جمعہ کے لئے (بڑی)مسجد میں گیا تو بعد نماز جمعہ میرے ہمسائے فتح محمد نے قبلہ قاضی نور محمد صاحب قریشی سے میرا تعارف کروایا ۔قبلہ قاضی صاحب نے فرمایا کہ اگر آپ کو میری مدد کی ضرورت ہو تو میں ہمہ وقت حاضر ہوں میں نے عرض کیا کہ میں کرایہ کے مکان میں ہوں اگر مجھے کوئی اپنا مکان مل جائے تو اچھا ہوگا اس پر قبلہ قاضی صاحب ؒ نے فرمایا کہ آپ کل عصر کی نماز یہاں ہی ادا کریں تو میں اپنے دوست سے بات کر کے آپ کو کل عصر کی نماز کے بعد آگاہ کر دوں گا میں دوسرے دن پھر نماز عصر ادا کرنے مسجد میں گیا۔نماز کے بعد قبلہ قاضی صاحب سے نیاز حاصل کیا تو قبقلہ قاضی صاحب ؒ نے فرمایا کہ مبارک ہو میرے دوست کا مکان کافی دن سے کرایہ پرتھا اور کرایہ دار نہ تو کرایہ ادا کرتا تھا اور نہ ہی خالی کرتا تھا بس کل ہی اس کامکان خالی ہوگیا ہے اور اب وہ کرایہ پر نہیں مول دینا چاہتا ہے میں نے عرض کیا کہ مکان کہاں ہے تو فرمایا کہ چلو میرے ساتھ ،میں اور قبلہ قاضی صاحب مکان دیکھنے پاپیادہ ہی جو نا مارکیٹ پہنچے اتفاق سے مالک مکان در محمد بلوچ بھی موجود تھے ہم نے مکان دیکھا مجھے پسند آیا اور اسی وقت سودا ہوگیا۔میں نے قبلہ قاضی صاحب کا شکر یہ ادا کیا اور ہم نے واپس مسجد میں آکر نماز مغرب باجماعت ادا کی پھر میں نے دو نفل شکرانہ کے بارگاہ الٰہی میں نذر کئے اور قبلہ قاضی صاحب نے فرمایا کہ کل ہی سامان وغیرہ لے کر آباد ہوجاؤ میں نے عرض کیا کہ آنجناب والا کے حکم پر انشاء اللہ عمل ہوگا اور اجازت لی اور گھر آکر مزدوروں سے سامان وغیرہ نئے مکان میں منتقل کر وایا اور بعد نماز ظہر ہم بمعہ اہلیہ ووالدہ صاحبہ کے رہائش پذیر ہوئے ۔ابھی دو ہی ماہ اس مکان میں ہوئے تھے کہ دیواسیٹھ نے بھی باقی رقم عنایت کر دی تو میں نے اپنے مکان کے نیچے بازار میں ایک دوکان کا سودا کر لیا اور از خود ہی عطریات اور تیل کا وربا پھر سے شروع کر دیا مگر سانس کی بیماری کے سبب اور پھر والدہ صاحبہ ؒ کے حکم پر میں نے وہ دوکان کرایہ پر ایک بلوچ بنام محمد عثمان کو دے دی۔

روایت نمبر ٥٠

جناب موسیٰ بھائی میمن اول رکن کمیٹی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی شاہ خدا بخش ؒ متولی صاحب نے ایک روز فرمایا کہ ایک روز میں صدر بازار کے لئے چلا تو (شاہراہ بندر) روڈ پر عیسائی قبرستان سے پہلے میدان میں ایک بزرگ کا مزار مبارک جو کہ ایک بڑے خندق نما گڑھے میں دیکھا تو میں نے وہاں موجود خادم دادا (تاج محمد پیرؒ) سے پوچھا کہ یہ کس بزرگ کا مزارہے تو اس نے بتایا کہ یہ بڑے پیر علم شاہ بخاری ؒ کا مزار ہے میں نے نیچے اتر کر فاتحہ خوانی کی اور کچھ دیر میں نے قیام و کشف کیا تو بڑی روحانی تسکین پائی پھر خادم (تاج محمدؒ) نے مجھے چشمے کا پانی پلایا سبحان اللہ پانی بڑا شیریں تھا ۔پھر میں نے خادم (تاج محمد ؒ) کو کچھ پیسہ نذر کیا وہ بہت خوش ہوا اور دعائیں دیتا رہا اسی دن صدر کینٹ بازار میں قبلہ قاضی نور محمد قریشی صاحب کی معرفت حضرت اخی فی الدین مولوی عبد اللہ درسؒ اور حضرت قبلہ منشی حاجی محمد بشیر صاحب قریشیؒ (سر کردہ جمعیت المسلمین ) سے شرف نیاز حاصل ہوا اس وقت قبلہ قاضی نور محمد صاحب ؒ اور قبلہ منشی حاجی محمد بشیر محمد صاحب ؒ قریشی سن رسید تھے اور اخی فی الدین حضرت عبد اللہ درسؒ مجھ سے ٥یا ٦ برس بڑے تھے ۔پھر تو اخی فی الدین مولوی عبد اللہ درس صاحبؒ قبلہ کی شفقت و محبت نے مجھے اپنے تنہا ہونے کا احساس ہی ختم کردیا اور

تو من شدی تو جان شدی

تو جاں شدی تو من شدی

کی کیفیات تادم قائم ہوگئی ۔

 غرض یہ کہ میں اس روز سے حضرت بابا علم شاہ بخاری ؒ کی درگاہ شریف پر حاضری دیتا تھا ایک روز میں نے خادم (تاج محمدؒ) سے درگاہ شریف کی بابت پوچھا تو خادم (تاج محمدؒ) نے بتایا کہ وہ یہاں (درگاہ شریف ) پر پشت در پشت خدمت کرتے آرہے ہیں ۔

خادم تاج محمد پیر نے بیان کیا کہ ہمارے خاندان کے بڑے بزرگ حضرت دادا محمد عثمان حاجی دید پیر ؒ اور ان کا فرزند حضرت دادا نور احمد اچھے پیر ؒ اس درگاہ کی خدمت کرتے تھے ان کے بعد ہمارے خاندان میں جو بڑا لڑکا ہوتا ہے وہ ہی اس درگاہ شریف کا خدمتگار اور خاندان کا بزرگ ہوتا ہے حضرت دادا نور احمد اچھےؒ کا بڑا لڑکا حضرت دادا محمد حسن جان پیرؒ پھر حضرت دادا فتح محمد پیرؒ پھر حضرت دادا روشن علی پیرؒ پھر حضرت دادا عبد الکریم پیرؒ پھر حضرت دادا غلام احمد پیرؒ پھر میرے والد بزرگ حضرت دادا ص لومی خیر محمد پیرؒ والد بزرگ کے بعد اب میں (تاج محمد پیر) خدمت کرتا ہوں باقی خاندان و گھر والے(بستی) اطراف ملیر ندی میں رہتے ہیں اور ہر جمعرات کو حاضری دیتے ہیں ،یہ سب لوگ زمینداری کرتے ہیں جو کھیوخاندان کے رئیس لوگ حضرت دادا نور احمد اچھےؒ کے مرید تھے اور تر خانوں کے رئیس لوگوں نے بھی ہمارے خاندان والوں کو زمین دی تھی خاندان کے لوگ زمینداری کرکے ہی گزر بسر کرتے ہیں ۔میرے دو لڑکے اور دو لڑکیاں جوان ہیں ۔میں کبھی ماہ یا ١٥ دن کے بعد اپنے گھر (بستی ) اطراف ملیر ندی میں جاتا ہوں پھر ایک شب و دن گزار کر واپس آجاتا ہوں ۔روایت نمبر ٥١

حضرت قبلہ متولی اول صاحب ؒ نے بیان فرمایا کہ

 اس وقت حضرت شیخ الشیوخ العالم سیدنا و مولانا سید عبد الوہاب بابا قطب عالم شاہ بخاری اوچی بڑے پیر قدس سرہ کا مزار مبارک ایک وسیع میدان میں اس حال میں جلوہ گر تھا کہ مزار مبارک کے اطراف پھلوں اور کھجوروں کے درخت کثرت سے آباد تھے دور سے سبز باغ کا حسین منظر نظر آتا تھا اس وقت مزار مبارک سطح زمین سے کوئی دس یا گیارہ ہاتھ نیچے ایک خندق نما گڑھے میں خستہ حالت میں موجود تھا اور مزار مبارک پر دو یا تین کپڑے کی چادریں پڑھی تھیں مزار مبارک میں نیچے اترنے کے لئے پتھر کے قدم بنے ہوئے تھے مزار مبارک پہاڑی پتھر کا بنا ہوا تھا اور سنگ مر مر کا کتبہ نسب تھا جو خستہ حالت میں تھا کتبہ پر تحریر بذٰا کنندہ تھی ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

لا الہ اللہ محمد رسول اللہ

قبور اقدس

فضل اعلیٰ یا وہاب

١٠٤٦ھ

الشیخ الشیوخ العالم قطب دربو بندر ملک سندھ

 حضرت سیدنا ومولانا سید عبد الوہاب علی شاہ بخاری ؒ بن حضرت سید حامد شاہ بخاریؒ بن حضرت سید علی بن حضرت سید جلال الدین ثالثؒ بن حضرت ابو الفتح رکن الدینؒ بن حضرت سید ابو حامد کبیر شمس الدین بن حضرت سید ابو محمود ناصر الدین نوشہؒ بن حضرت مخدوم الشیخ کلاں سید جلال الدین حسین جہاں جہانگشت بخاری اوچیؒ ایں بالا نسب یا زدھم حضرت سیدنا امام علی نقی ملتصق است بست پنج ربیع الآخر ١٠٤٦ھ مانند ١٦٣٦ء بمانند ١٦٩٣ البکرمی الہندی بروز جمعہ، بصد مسند ارشاد آراسراء بخاری ہادی و نصیر و کبیر سالکان دیں عم فی الدین طریق سہر ورد یہ حضرت سیدنا امام محمد کلاں بخاری دام ظلہ کم کندہ نوشین عبد شیخ علم نور احمد خوب عفی عنہ بخاری سراء ہنجار بحر ساحل در بو ملک سندھ الہند

 اور مزار مبارک پر کوئی گنبد یا سائبان نہیں تھا مگر درختوں کا سایہ رہتا تھا اوپر مزار مبارک کے قدموں کی جانب مسجد کے گوشہ میں پانی کا چشمہ جاری تھا اس چشمے کا پانی آسیب زدہ مریضوں کے لئے آب حیات تھا جمعرات کو حاضری دینے والے مریض لوگ اس پانی کو نوش و غسل کرتے تھے ۔

 میں نے جمع بھائی میمن کے لڑکے محمد یوسف کو اسی پانی سے صحت یاب ہوتے دیکھا تھا وہ بہت سخت آسیبی مریض تھا ڈاکٹروں وغیرہ نے لا علاج قرار دے دیا تھا سو میں نے اس کو حضرت ہی کے چشمے کا پانی استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔سو اللہ تعالیٰ نے حضرت سید بابا علم شاہ بخٰاری قدس سرہ کے طفیل بہت جلد ہی صحت یاب فرمادیا تھا میں پابندی کے ساتھ مزار مبارک پر ہر روز حاضری دیتا ہوں ۔ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک شب عالم رویا میں میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ مزار مبارک پر موجود ہیں جب میں ان کے قریب گیا تو دیکھا کہ وہ نورانی صورت بزرگ سفید لباس میں ملبوس ہیں ۔ان بزرگ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میاں یہ قطب عالم غوث زمیاں کی جلوہ گاہ ہے حاضری کے ساتھ ساتھ یہاں خدمت بھی انجام دو ۔جب میری آنکھ کھلی تو نماز فجر کا وقت تھا بس میں نے نماز فجر ادا کی اور ناشتہ وغیرہ کر کے مزار مبارک پر حاضر ہوا ۔حاضری کے بعد میں نے خادم تاج محمد ؒ پیر سے جو خود بھی روحانی تعلیمات سے واقف الحال صاحب نسبت تھا سے میں نے اپنا خواب بیان کیا تو اس پر وہ بولا کہ مجھے بھی کافی دن سے یہ ہی فکر لا حق تھی کہ اب میرا مرض (دق) بڑھتا جارہا ہے میرے لڑکوں میں سے اور نہ ہی خاندان میں سے کوئی یہاں خدمت کرنے کو تیار ہے ۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ حضرت بابا علم شاہ بخاریؒ نے آپ کو خدمت کرنے کا حکم فرما دیا ہے آپ بڑے خوش نصیب ہیں اب آپ خوشی سے خدمت کریں بس میں نے اسی دن سے شام کو قبل از مغرب چراغ روشن کرنے کی خدمت وغیرہ شروع کر دی ہندو، مسلمان کیا اہل کراچی آپ حضرت سید بابا علم شاہ بخاریؒ کو بڑے پیر کے نام سے یا کرتے ہیں ۔میں نے یہاں انگریزوں کو بھی عقیدت و احترام سے حاضری دیتے دیکھا ہے ۔روایت نمبر ٥٢

 حضرت مولوی عبد الکریم درسؒ اپنے والد بزرگ حضرت مولوی عبد اللہ درس الحنفیؒ کی زبانی حضرت مولوی شاہ خدا بخش مینائی ؒ کا بیان کرتے ہیں کہ ١٨٤٩ اتوار کے روز کمشنر سندھ عزت مآب مسٹر پرنگل صاحب بہادر کی سواری درگاہ شریف ہٰذا پر حاضری کے لئے آئی ان کے ہمراہ اور بھی انگریز اور ہندو سیٹھ ناؤ مل بھی تھا ۔حاضری کے بعد حضرت مولوی شاہ خدا بخش مینائیؒ نے کمشنر صاحب بہادر سے درخواست کی کہ مجھے درگاہ شریف ہذا از سر نو تعمیر کرنے کی اجازت سرکاری طور پر عنایت کی جائے کیونکہ درگاہ و مسجد کی خستہ حالی آپ کے سامنے ہے اس پر صاحب بہادر نے سیٹھ ناؤ مل کو حکم دیا کہ وہ آپ ( متولی صاحبؒ ) کو لے کر صبح ٩ بجے کمشنر آفس میں مجھ سے ملاقات کریں اور یہ فرما کر صاحب بہادر نے خادم تاج محمدؒ کو کچھ روپے نذر کئے اور تشریف لے گئے ۔بس میں دوسرے دن صبح بعد نماز فجر ہی درگاہ شریف میں حاضر ہو کر خادم تاج محمد کے ہمراہ ناشہ کر کے سیٹھ ناؤ مل کے انتظار میں تھا کہ کوئی ٨ بج کر ١٣ منٹ پر سیٹھ ناؤ مل کی سواری آئی سیٹح ناؤ مل نے حاضری دی اور پھر مجھے اپنے ہمراہ لے کر کمشنر آفس صاحب بہادر کے پاس حاضر ہوا کمشنر صاحب بہادر وقت کے بہت پابند تھے وہ ہمارے انتظار میں ہی تھے خیر ملاقات ہوئی تو میں نے صاحب بہادر سے درخواست کی کہ مجھ کو بڑے پیر (حضرت سید بابا علم شاہ بخاریؒ) کے قدیم احاطہ میں درگاہ شریف و مسجد از سر نو تعمیر کرنے کی سر کاری طور پر اجازت دی جائے کیونکہ درگاہ شریف و مسجد کافی خستہ حال ہو چکی ہے ۔میری در خواست پر صاحب بہادر نے فرمایا کہ مسجد ، مندر ،چرچ ،درگاہ بنانے کی سب کو اجازت ہے پھر میری در خواست پر صاحب بہادر نے درگاہ شریف کے لئے دو لیمپ روشنی کے سر کاری طور پر نصب کرنے کا حخم جاری کیا اور تعمیر میں ہر چند تعاون کرنے کا بھی وعدہ فرمایا دوسرے روز سیٹھ ناؤ مل نے اپنی نگرانی میں دو لیمپ روشنی کے نصب کرا کے روشن کئے جب سے در گاہ شریف میں سرکاری لیمپ روشن ہوئے ہیں تو لوگ رات کو بھی حاضری کے لئے آنے لگے ۔غرض کہ حضرت متولی شاہ خدا بخش صاحبؒ نے خادم تاج محمد اور والد بزرگ( حضرت مولوی عبد اللہ درسؒ) کو کمشنر صاحب بہادر سے اپنی ملاقات کا حال بیان کیا تو میرے والد بزرگ (حضرت مولوی عبد اللہ درسؒ) نے حضرت متولی صاحبؒ سے فرمایا کہ اب آپ کو اس نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئیے ۔غرض کہ حضرت متولی صاحب ؒ نے دوسرے دن ہی گزری کے پہاڑی پتھر اور دیگر سامان منگوا کر درگاہ شریف کے اوپر کے حصہ زمین کے اطراف ٤ ہاتھ گہری کھودائی کروا کر ٤ ہاتھ اونچی پہاڑی پتھروں کی دیوار بنادی اور اس کا راستہ شمال اور دوسرا جنوب کی سمت رکھا احاطہ بندی کے اس کام میں دو دن صرف ہوئے جس پر بمعہ مزدوری ٢٧٨ روپے خرچ آیا ۔پھر تیسرے دن نیچے حجرہ مزار مبارک کے اطراف چار دیواری اوپری سطح زمین سے ایک ہاتھ اونچی تعمیر کروائی اور حجرہ مزار مبارک کے اطراف لکڑی کی جعفری اور اوپر سائبان پھر خاص مزار مبارک کو سنگ مر مر کا اور سرا ہنے مزار کتبہ کو بھی دوبارہ قطب عالم کے خطابکے ساتھ کنندہ کروا کر نصب کیا اور پرانے کتبہ کو اپنے پاس محفوظ رکھ لیا اس حجرہ مزار مبارک کی تعمیر میں ٨٨٩ روپے خرچ ہوئے تھے پھر دوماہ کے بعد قدیم بخاری اولیا مسجد کی بھی پہاڑی پتھرو ں سے مضبوط اطراف دیوار تعمیر کروائی اور وضو کے للئے ایک عدد پانی کی ٹنکی بھی بنادی اور سات ہی چشمے کے اطراف بھرتی کروا کے ٣ ہاتھ اونچی دیوار بنائی اس کام میں ١٥ دن صرف ہوئے اور کل ١٠٧٥روپے خرچ آیا تھا اس کام میں (حضرت قبلہ متولی شاہ خدا بخش صاحب ؒ) نے کسی سے کوئی روپیہ طلب نہیں فرمایا تھا جب کہ کراچی کے ہندو اور مسلمان سیٹھوں نے اس کام میں حصہ لینے کی حسرت کی مگر (حضرت متولی شاہ خدا بخش مینائیؒ) نے از خود ہی بفضل حق تعالیٰ اپنی جیب خاص سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کیا تھا ۔توایت نمبر ٥٣

جناب فیض محمد بلوچ ولد احمد خان بلوچ کا بیان حضرت منشی شاہ عبد الخالق مینائی نقل کرتے ہیں کہ

مجھ سے میرے والد بزرگ احمد خان بلوچ نے بیان فرمایا کہ مجھ سے حضرت متولی شاہ خدا بخش صاحبؒ نے ایک روز بیان فرمایا کہ

 خادم تاج محمد نے مجھ کو پہلے ہی درگاہ شریف کی خدمت سپرد کردی تھی ۔میں نے خادم تاج محمد ؒ کی بیماری کے سبب ایک خادم بنام محمد بلوچ کو ماہا نہ ٨ روپے پر مقرر کر دیا تھا ۔ایک روز خادم تاج محمد نے مجھے اپنے خاندان کی قلمی یاداشت جو کہ کافی خستہ حالت میں تھی دی کہ یہ میرے خاندان کے بزرگوں کے ہاتھ کی ہے میں نے اس قلمی یاد داشت کو گھر جا کر رات کو پڑھا تو اس میں فارسی ،ہندی ،سندھی زبان میں ہر ایک نے حالات (نقل ) تحریر کئے تھے ۔میں نے اس یاد اشت کو ہو بہو ارو زبان میں منتقل تحریر کرنا شروع کردیا میں نے اس قلمی یاداشت سے حضرت سید بابا علم شاہ بخاری ؒ کا کتبہ ملایا تو وہ بھی عین الیقین تھا اور آپ ؒ کی تاریخ شہادت بھی ٢٥ربیع الثانی ١٠٤٦ھ تحریر تھی ۔روایت نمبر ٥٤

حضرت مولوی شاہ خدا بخش مینائیؒ اپنی یاداشت میں تحریر نقل فرماتے ہیں کہ

جب ماہ ربیع الثانی کا چاند نظر آیا تو خادم تاج محمد پیر نے بتایا کہ چاند کی ١١ تاریخ کو یہاں در گاہ شریف میں عرس مبارک ہوگ اچاند کی دس تاریخ ١١شب کو مجلس ذکر شریف میلاد شریف ہوگا اور صبح ١١ تاریخ کو جلوس چادر شریف لیاری کواٹرز سے آئے گا۔ پھر دعا خیر کے بعد لنگر ہوگا اس پر میں نے خادم تاج محمد سے عرض کیا کہ حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ کی شہادت کا دن تو ٢٥ ربیع الثانی ١٠٤٦ھ ہے پھر یہ عرس چاند کی ١١ ربیع الثانی کو کیوں ہوتا ہے ۔اس پر خادم تاج محمدنے بتایا کہ ہمارے حضرت دادا روشن علی پیر ؒ حضرت بابا علم شاہ بکاری ؒ کے حک سے بغداد بڑے پیر حضرت غوث پاک ؒ کے روضے پر حاضری کے لیے گئے تھے اور حضرت غوث پاکؒ کے گدی نشین نے ان کو اجازت بیعت قادریہ اور قصیدہ غوثیہ بخشا تھا ور پیر صاحب بغدادی ؒ نے حضرت دادا روشن علی پیرؒ کو ہر سال گیارہویں شریف کا ختم و لنگر کرنے کا حکم دیا تھا سو یہ عرس حضرت دادا روشن علی پیرؒ نے شروع کیا تھا پھر دادا ہی کے زمانے میں لیاری والے مرید لوگ یہاں چادر کا جلوس بھی لانے لگے سو یہ اب تک جاری ہے اس عرس کی وجہ سے بابا صاحب ؒ کو سب لوگ بڑے پیر کہتے ہیں ۔

 بعد میں نے خادم تاج محمد سے عرض کیا کہ انشاء اللہ تعالیٰ ١١ ربیع الثانی کو حضرت بابا سید علم شاہ بخاری ؒ کا سالانہ عرس بھی ہوگا ۔اس پر خادم تاج میں نے فرمایا کہ آپ مالک و مختار ہیں ۔غرض یہ کہ میں نے ٨ ربیع الثانی کو لنگر وغیرہ کا سامان جوڑ یا بازار سے لاکر خادم تاج محمد کے سپرد کر دیا ۔یہ میرا یہاں (درگاہ شریف) پر پہلا عرس تھا مجھ کو یہاں کے رسم و رواج کا علم نہ تھا۔سو خادم تاج محمد ہر کام کی آگاہی کرتا رہا ۔١٠ ربیع الثانی ١٨٥١ء بعد نماز عصر ہی سے اطراف گوٹھوں سے اور ملیر بستی سے بھی خادم تاج محمد کے خاندان کے لوگ آنے شروع ہوگئے تھے بعد نماز مغرب حضرت سید عبد الکبیر میوہ شاہ مست بزرگ سے بھی درگاہ شریف میں نیاز حاصل ہوا ۔خادم تاج محمد پیر نے میرا تعارف کروایا ۔یہ بزرگ مست الست صاحب کرامت بزرگ سادات قادریہ میں سے تھے ان کے ہمراہ ہر وقت کافی لوگ حصول مراد ودعا کے لئے رہتے تھے بعد نماز عشاء لیاری ندی کے سیاہ فارم مکرانی لوگوں حضرت سید شیر شاہ بخاری ؒ (والی شیر شاہ ولیج کراچی المتوفی ١٢٩١ھ بمطابق ١٨٧٤ ) کے ہمراہ آئے اور دف پر بلوچی زبان میں نعتیہ اور حضرت غوث الثقلین ؒ کی شان میں مناقیب پڑھی اور ١٠ بجے شب یہ سلسلہ اختتام کو پہنچا ۔دو دراز کے لوگ درگاہی پر مقیم رہے پھر صبح ١١ ربیع الثانی کا دن طلوع ہوا میں حسب معمول صبح حاضری کے لئے گیا اور کام وغیرہ میں خادم تاج محمد کے ساتھ مصروف رہا کہ ٤ بجے دن ہی میں اخی فی الدین حضرت مولوی عبد اللہ درس قبلہ فیض محمد بلوچ لیاری کواٹر والوں کی جلوس چادر شریف کے ہمراہ تشریف لائے چادر وغیرہ پیش کرنے کے بعد نماز عصر ہم سب نے آپ ہی کی امامت میں ادا کی پھر بعد نماز عصر حضرت قبلہ منشی حاجی محمد بشیر قریشی صاحبؒ و حضرت قبلہ قاضی نور محمد صاحبؒ بھی تشریف لائے اور مجلس میلاد شریف شروع ہوئی بعد نماز مغرب دعا خیر کے بعد موسیٰ بھائی میمن کی جانب سے لنگر تقسیم ہوا میں نے اخی فی الدین کو وہ قلمی یاداشت کا نسخہ جو کہ خستہ حال تھا دکھا یا کہ اس میں اور حضرت ؒ کے سر اہنے جو کتبہ کنندہ نصب تھا اس میں بھی حضرت قدس سرہ کی تاریخ شہادت ٢٥ ربیع الثانی ١٠٤٦ھ بمعہ شجرہ نسبی کے موجود ہے مگر یہاں آپ صاحب مزار کے سالانہ فاتحہ وغیرہ کا کوئی سلسلہ نہیں ہے ہمارے لکھنو میں تو ہر خانقاہ ودرگاہوں پر تو صاحب مزار کے ماہانہ نہیں تو سالانہ یوم وصال پر فاتحہ خوانی کا اہتمام ضرور ہوتا ہے ۔اس پر حضرت قبلہ قاضی نور محمد صاحب قریشی نے فرمایا کہ یہاں قدیم زمانہ سے گیارہویں شریف ہی کی مجلس و لنگر وغیرہ ہوتا ہے اگر آپ کی حسرت ہے کہ حضرت ؒ کی سالانہ فاتحہ خوانی کرنے کی تو آپ ٢٥ ربیع الثانی کو ضرور اہتمام کریں یہ تو ایصال ثواب بعدہ حضرت اخی فی الدین حضرت مولوی عبد اللہ درس صاحب ؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے تو ٢٥ ربیع الثانی کو ضرور فاتح خوانی و مجلس کا اہتمام کریں بعدہ حضرت قبلہ منشی حاجی محمد بشیر قریشی صاحب ؒ نے فرمایا کہ یہ اچھا نیک عمل ہے ان حضرات کی حمایت نے میری اس حسرت کو اور بھی روشن کر دیا ۔بس پھر میں نے دوسرے دن ہی ١٣ ربیع الثانی ١٨٥١ء کو دعوت نامہ خادم محمد بلوچ کے ہاتھ تقسیم کر وادئیے اور حسب دستور اعلان کر وادیا اور لنگر وغیرہ اور غسل مزار مبارک کے لئے عرق گلاب وصندل غلاف وغیرہ اور علم وغیرہ بھی ٢٠ ربیع الثانی بمطابق ٢٧ فروری ١٨٥١ء کو شہر واطراف لیاری و حب ندی ولسبیلہ سے لوگ آنے شروع ہوگئے اور شام ٤ بجے اخی فی الدین حضرت مولوی عبد اللہ درسؒ وحضرت قبل قاضی نور محمد صاحب ؒ کے ہمراہ تشریف لائے ۔ہم لوگ اولیاء ابھی اولیاء مسجد میں ہی تھے کہ خادم محمد بلوچ نے بتایا کہ صاحب بہادر پرنگل اور نئے صاحب بہادر کمشنر سندھ عزت مآب کرنل مینل ومسٹر آئی ایف یسٹر بھی سرکاری فوج ہمراہ اور ان کے ساتھ حضرت شیر شاہ بخاری (والی شیر شاہ ولیج کراچی ) بھی تشریف لائے ہیں پھر ہم سب لوگ ان کے استقبال کے لئے باہر گئے وہ سب درگاہ شریف میں حاضری کے لئے چلے صاحب بہادر پرنگل صاحب بہادر میونل صاحب وغیرہ کافی دیر تھ حجرہ مزار میں خاموش بیٹھے رہے پھر اوپر محفل میں حاضر ہوئے سیٹھ ناؤ مل بھی ان کے ہمراہ تھا ۔اس محفل میں یک یک حضرت میوہ شاہ مجذوب نے ایک دستار سبز رنگ کی میرے سر پر باندھ کر ارشاد فرمایا کہ ایں متولی است ،ایں متولی است ،ایں متولی است کمشنر صاحب بہادر پرنگل صاحب پہلے ہی مسلم بزرگوں کی عقیدت ومحبت سے سرشار تھے وہ جناب میوہ شاہ مجذوب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان ہی کے پاس تشریف فرما ہوئے اسی دوران خادم تاج محمد بھی ایک دستار سبز رنگ کی محفل میں لایا اور حاضرین محفل میں موجود حضرت قبلہ قاضی نور محمد صاحب ؒ وحضرت قبلہ حاجی منشی محمد بشیر صاحبؒ قریشی واخی فی دین حضرت قبلہ مولوی عبد اللہ درس ؒ حضرت شیر شاہ بخاری ؒ وغیرہ ہم سے مخاطب ہو کر بولے کہ مجھ کو کل شب رویا میں حضرت سید بابا علم شاہ بخاری ؒ نے حکم دیا کہ ہماری درگاہ کی دستار تولیت جناب (مولوی شاہ خدا بخش مینائی ) کو باندھ دو پھر جملہ بزرگان نے دستار میرے سر پر باندھی اور دعا خیر کی اخی فی الدین وغیرہ نے نذر پیش کی اس پر صاحب بہادر نے مجھ کو مبارک باددی ۔

بعد حضرت قبلہ منشی صاحب ؒ اور قاضی صاحب ؒ قبلہ نے وعظ فرمایا اور مسلمانوں کے مسائل بھی بیان کئے کیونکہ صاحب بہادر کمشنر صاحب بھی محفل میں موجود تھے اور سابق صاحب بہادر پرنگل صاحب تو خود حکومت سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے چکے تھے کیونکہ وہ مسلمانوں سے بہت ہمدردی کرتے تھے اس لئے انگریز حکومت ان کو برداشت نہیں کرتی تھی اور نہ ہی ان کی سفارشات کی حمایت کرتی تھی ۔حضرت قبلہ قاضی صاحبؒ نے سیٹھ ناؤ مل کی نیت کو جانچ کردرگاہ شریف کی انتظامیہ کمیٹی بنانے کا اظہار کیا اس پر سیٹھ ناؤ مل نے کہا کہ اس میدان میں کیونکہ دسہرہ کا میلہ بھی ہوتا ہے لہٰذا کمیٹی ہندو اور مسلمان ممبران پر بنائی چاہئے ۔اس پر اخی فی الدین نے کہا کہ اس میدان پر یہ قدیمی بزرگ کا مزار مبارک ہے اس پر صرف مسلمان کمیٹی ہوگی بعدہ حضرت قبلہ منشی حاجی محمد صاحبؒ نے فرمایا کہ گئے برس پنڈت سے پوسولام نے مجھ سے میلہ دسہرہ کی اجازت لی تھی سو میں نے پنڈت سے کہا تھا کہ اگر خادم تاج محمد اجازت دیں تو میری طرف سے اور مسلمانوں کو کوئی انکار نہیں ۔حضرت قبلہ قاضی صاحب نے سیٹھ ناؤملسے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ یہاں صرف مسلم تہوار وغیرہ ہی منعقد ہوتے ہیں اور دوسرے بڑے اجتماع نماز عیدین کا بھی حضرت قبلہ منشی صاحب کے زیر نگرانی منعقد ہوتا ہے اور آپ ہندؤں کے تہوار ننگو باغ (لیری) لیاری ندی کے کنارے شیواجی کا موجودہ کلا کوٹ میں دسہرہ کا میلہ تو ہر سال ہوتا ہے پنڈت پر سورام کی اپنا ہندؤں سے نہ چاقی کی وجہ سے انہوں نے یہاں اپنی طرف سے میلہ دسہرہ منایا تھا ۔پھر اسی میلہ کے بعد سے کوئی میلہ یہاں منعقد نہیں ہوا اس کے بعد حضرت اخی فی الدین ؒ نے فرمایا کہ آج محفل میں خادم قدیم تاج محمد پیر اور (حضرت ) میوہ شاہ ؒ نے اپنے دست مبارک سے درگاہ شریف کی تولیت کی دستار حضرت برادر فی الدین مولوی شاہ خاد بخش مینائیؒ کو باندھ دی ہے کیونکہ درگاہ شریف و مسجد کو بھی از سر نو آپ ہی نے اپنی جیب خاص سے تعمیر کروایا ہے اور از خود کافی عرصہ خدمت انجام دے رہے ہیں لہٰذا برادر (حضرت ) مولوی شاہ خدا بخش ہی درگاہ کمیٹٰ کے ممبران کا انتخاب کریں اس پر میں نے قبلہ قاضی صاحب ؒ کی خدمت میں عر ض کیا کہ جناب ہی ممبران کا اعلان کر دیں ۔کیونکہ قبلہ قاضی صاحب قاضی شہر تھے میری اس عرض پر قبلہ قاضی صاحب نے فرمایا کہ ہر

ہر انکہ خدمت کردن او مخدوم شد

کہ جو شخص خدمت کرتا ہے وہی عزت پاتا ہے

 میں قبلہ منشی صاحبؒ آپ کے ساتھ ہر خدمت میں شامل ہی ممبران کمیٹی کا انتخاب آپ خود کریں ۔بس پھر میں نے جناب سید محمد اسماعیل ولد حضرت سید چھٹن شاہؒ اور جناب سیٹھ موسیٰ بھائی (بمبئی والے) جناب حاجی جمعہ خان بلوچ اور خادم تاج محمد کے نام کا اعلان کر دیا ۔بس اعلان کرنا تھا کہ سیٹھ ناؤمل کو بڑا احساس ہوا کہ اس کا شعبدہ کا میاب نہیں ہوا کیونکہ وہ مسلمانوں سے بڑی مخاصمت رکھتا تھا اور درگاہ شریف کے اس میدان میں مندر تعمیر کر کے قبضہ حاصل کرنا چاہتا تھا وہ انگریزوں کا بڑا ہمدرد اور مسلمانوں کا دشمن تھا ۔ آخر سیٹح ناؤمل نے ٢٥ روپے کمیٹی کو نذرانہ دے کر اپنی احساس شرمندگی کو دور کیا پھر حضرت قبلہ منشی صاحبؒ نے بھی ٣ روپے اور اخی فی الدینؒ نے ٢ روپے قبلہ قاضی صاحب ؒ نے ٢ روپے موسیٰ بھائی میمن نے ٣ روپے جناب حاجی جمعہ خان بلوچ نے ٤ روپے اسماعیل شاہ نے ایک روپی صاحب بہادر پر نکل نے ٢ روپے نیئے صاحب بہادرنے دو روپے ،مسٹر آئی ایف یسر نے ٢ روپے اور حاضرین میں سے کل ٣٥ روپے جمع ہوئے یوں یہ کل ٨١ روپے جمع ہوئے میں نے یہ روپے موسیٰ بھائی میمن کے پاس درگاہ شریف کے خرچ کیلئے جمع ہے۔ کہ اس کا حساب و کتاب آپ ہی کریں پھر موسیٰ بھائی نے ماہانہ نذرانے کی بات کی تو میں نے عرض کیا کہ یہ اچھی بات ہے میں ماہانہ ٥ روپے کمیٹی میں آپ کے پاس جمع کردونگا میر ا اس بات پر جناب جمعہ خان نے کہا کہ میں ماہانہ ٣ روپے اور سید اسماعیل شاہ نے کہا کہ میں ماہانہ ایک روپے پھر تو کافی لوگوں نے ماہانہ نذرانہ مقرر کرے اور پر ماہ پابندی کے ساتھ موسیٰ بھائی کے پاس جمع کرتے تھے اس روپے میں خادم فقیر محمد اور خادم ثانی محمد بلوچ کا ماہانہ وظیفہ کے ساتھ بوقت ضرورت درگاہ شریف پر خرچ ہوتا ہے ۔غرض کہ بعد اس کے ہم سب نے (طعام )لنگر کھایا اور یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ ہمارے ہمراہ بیٹھ کر صاحب بہادر اور انگریزوں نے بھی لنگر نوش کیا ۔کجا ہندی کھانے اور کجا انگریز لوگ یہ سب حضرت بابا سید علم شاہ بخاری ؒ کی کرام تھیں اس اول عرس شریف کے بعد میں اخی فی الدینؒ کے ہمراہ حضرت خواجہ بزرگؒ کے عرس مبارک میں اجمیرشریف روانہ ہوگیا تھا ۔پھر دوسرے سال ١٨٥٢ء میں اللہ تعالیٰ نے بزرگان دین کے طفیل میرے ہاں ایک فرزند بنام شاہ عبد الخالق مینائی عطا فرمایا ۔روایت نمبر ٥٢ جناب عبد الغنی خان ابن جناب حاجی جمعہ خان بلوچ کا بیان حضرت شاہ عبد الخالق مینائی نقل کرتے ہیں کہ

مجھ کو میرے والد (حاجی جمعہ خان بلوچ ) نے بیان کیا تھا کہ ٢٠ اپریل ١٨٨٥ء کو جب کمشنر سندھ صاحب بہادر مسٹر ہنری ارسکن نے پہلی انگریزی ٹرام گاڑی کا افتتاح کر کے سوار ہوئے تھے ،ان کے ہمراہ رئیس قندھار جناب عزت مآب خان شیر علی خان ،فوجی سالار اعلیٰ مسٹر جی لک ،ڈاکٹر جے پولن حضرت منشی محمد بشیر صاحب قریشی ؒ (صدر بازار والے ) جناب قاضی شہر قبلہ قاضی نور محمد صاحب قریشی ودیگر معزز ین بھی سوار ہوئے تھے یہ ٹرام گاڑی جب بندر روڈ پر شور مچاتی ہوئی پہنچی تو صاحب بہادر نے ٹرام گاڑی روکنے کا حکم دیا اور از خود درگاہ شریف پر ہمراہ سب کے حاضر ہوئے کچھ دیر خاموش رہے ۔درگاہ شریف میں پہلے سے موجود حضرت مولوی عبد اللہ درس صاحبؒ اور آپ کے والد حضرت متولی شاہ خدا بخش مینائیؒ نے ان سب کی مشروبات سے خاطر وتواضع کی پھر یہ دونوں بزرگ بھی صاحب بہادر کے اصرار پر ٹرام گاڑی میں سوار ہو کر کیماڑی گئے تھے ۔روایت نمبر ٥٣

 حضرت اسماعیل ولد حضرت سید چھٹن ؒ شاہ کا بیان حضرت منشی شاہ عبد الخالق مینائی ؒ نقل کرتے ہیں کہ

میں (سید محمد اسماعیل ؒ ) اور قبلہ متولی حضرت مولوی شاہ خدا بخش مینائیؒ حضرت سیدی ومرشدی ومولائی بابا سید میوہ شاہ غازی ؒ سے محلہ کھارادر سے ملاقات کر کے درگاہ شریف آئے دیکھ کہ خادم تاج محمد ؒ انتقا کر گیا ہے میں نے خادم محمد بلوچ کو گوٹھ ملیر ندی خادم تاج محمد کے گھر والوں کو اطلاع کرنے روانہ کیا موسیٰ بھائی میمن نے کفن و غسل وغیرہ کا انتظام کیا۔قریب ٤ بجے خادم تاج محمد پیر (مرحوم) کے گھر والے و احباب آگئے ۔قبلہ متولی (حضرت شاہ خدا بخش مینائیؒ )نے خادم تاج محمد (مرحوم) کے فرزند اکبر یوس علی سے کہا کہ درگاہ حضرت بابا سید عالم شاہ بخاری ؒ کے قدموں کی طرف تدفن کر دیں تو اچھا ہے اس پر خادم تاج محمد کے فرزند یوسف علی نے کہا کہ نہیں ہم ان کو حضرت دادا فتح محمد ؒ کے ساتھ ہی اپنی بستی (ملیر ندی) میں تدفن کریں گے اس کے بعد حضرت مولوی عبد اللہ درس (صدر بازار والے ) نے نماز پڑھائی اور ہم لوگ بھی جنازہ کے ساتھ ملیر ندی گئے اور دوسرے دن واپس آئے پھر تیسرے دن سوئم میں شرکت کے لئے بستی ملیر گئے اور قبلہ متولی حضرت شاہ خدا بخش مینائی ؒ نے اپنے دست مبارک سے خادم تاج محمد کے فرزند اکبر علی یوسف کی دستار بندی کی پھر خاندان کے لوگوں نے دستار بندی کر کے اس کو دادا اور پیر کا خطاب دے کر خاندان کا بزرگ تسلیم کیا ۔پھر ہم لوگ شام کو واپس شہر آگئے اب درگاہ شریف پر محمد بلوچ ہی خدمت کرتا ہے اور کمیٹی سے ماہانہ ٨ روپے وصول کرتا ہے یہ منگھو پیر کا رہنے والا ہے نمازی آدمی نیک سیرت خوش خلق ہے اور مجھ سے مرید بھی ہے ۔روایت نمبر ٥٥

حضرت منشی شاہ عبد الخالق مینائی (متولی دوئم درگاہ شریف ہذا ) نقل فرماتے ہیں کہ

 حضرت قبلہ مولوی عبد اللہ درس صاحبؒ میرے والد بزرگ (حضرت شاہ خدا بخش مینائی ؒ) کے دینی بھائی بڑی شفقت و محبت کرنے والے بزرگ تھے ۔قبلہ والد بزرگؒ نے آپ ہی کے حکم پر جونا مارکیٹ سے رتن تلاب پر سکونت اختیار کی تھی ،جہاں میں (منشی عبد الخالق) پیدا ہوا تھا ۔حضرت قبلہ مولوی عبد اللہ درسؒ نے ١٣ ربیع الثانی ١٣٣٣ھ بمطابق ١٩١٥ء کو ایک صدی سے زائد عمر پاکر صدر بازار مدرسہ مجددیہ درسیہ میں وصال فرمایا آپ کے فرزند حضرت مولانا عبد الکریم درس صاحب ؒ نے اپنے والد بزرگ کی حیات ہی میں مسند رشدو ہدایت پر دینی وسماجی خدمت انجام دینا شروع کردی تھی سندھ کے بڑے علماء میں (نام ) معروف ہیں میرے والد بزرگ (حضرت مولوی شاہ خدا بخش مینائی ؒ ) کی نماز جنازہ آپ ہی نے پڑھی تھی آپ اپنی والد بزرگ کی طرح وضع داری کے بڑے پابند ہی ہر سال گیارہویں شریف و حضرت بابا سید عالم شاہ بخاری ؒ کے عرس مبارک کی مجلس میں واعظ و دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت نازل فرمائے ۔روایت نمبر ٥٦

 جناب چوہدری نذیر احمد صاحب ساکن صدر بازار والے نے حضرت متولی شاہ خدا بخش مینائی ؒ کا بیان جناب منشی شاہ عبد الخالق سے بیان کیا اور آپ نے نقل کیا کہ

حضرت (حضرت قبلہ مولوی عبد اللہ درسؒ ) نے صدر بازار میں اپنے کوارٹر کی بنیاد ١١ ربیع الثانی ١٢٨٧ھ بمطابق ١٨٧٠ء کو رکھی تھی پھر اسی میں درس قرآنی دینا شروع کر دیا تھا آپ بڑے متفی حق گو صاحب نسبت وبکمال بزرگ تھے بے شمار الحدیث شریف آپ کی نوک زبان پر تھیں آپ نے تفسیر قرآن پاک بھی از خود ہی تحریر کی تھی آپ کے فرزندگان میں جناب مولانا عبد الکریم درس بڑے فاضل عالم دین ہیں ۔وہ میری بڑی عزت و احترام کرتا ہے،اور اپنے والد کے مدرسہ کو درسیہ مجدد یہ کے نام سے جاری کر دیا ہے کافی بچے حفظ قرآن وعلوم دینیہ وعربیہ اور فارسی سندھی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں حضرت منشی محمد بشیر قریشی صاحب ؒ نے اپنی دختر نیک اختر بھی آپ کے عقد میں دی ہے اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمر میں برکت عطا فرمائے آمین ۔ میں (شاہ خدا بخش مینائی نامی) نے بھی بنائے کا شانہ درسیہ لکھا تھا ۔

قطعہئ تاریخ بنائے جا طبع مدرسہ درسیہ مجددیہ

الشیخ الحدیث والتفسیر ربانی  مولوی عبد اللہ درس شکل نورانی

بنائے مدرسئے درسیہ نامی طبع  بحر العلوم درس قرآن بود زبانی

آپ حضرت متولی مولوی شاہ خدا بخش مینائی ؒ نامی تخلص فرماتے تھے ۔روایت نمبر ٥٧

 حضرت قبلہ منشی محمد بشیر قریشی القادریؒ ( بانی وصدر جمعیت المسلمین صدر کینٹ بازار کراچی) دینی وروحانی علوم و نسبت طریقت قادریہ سے سرشار تھے شہر کراچی میں ہر قوم کے افراد آپ کا بڑا ادب و احترام کرتے تھے ۔آپ کی دو دختران اور فرزند بنام محمد نظیر قریشی اور ایک بڑے فزند اافغانستان میں مقیم ہیں (سائیں) عبد القریشی ؒ تھے ۔فرزند عبد الغنی نے دوریشی اختیار کر لی تھی وہ سیلانی تھے آپ کی بڑی دختر حضرت حافظ علیم الدین گجراتی پنجابی کے عقد میں تھیں اور دوسری صاحبزادی حضرت مولانا عبد الکریم درس کے عقد میں تھیں ،حضرت قبلہ منشی محمد بشیر قریشی صاحب ؒ نے ایک صدی سے زائد عمر پاکر ٣٠ ذی العقد ١٣١٣ھ بمطابق ١٨٩٤ء میں وصال فرمایا تھا یہ دور حکومت مسٹر ایوانس جیمس صاحب بہادر کمشنر سندھ کا تھا ۔آپ کے وصال کے غم میں اس دن مسلمان و ہندؤں نے تجارت بازار بند کردئیے تھے آپ کی اول نماز جنازہ حضرت اخی فی الدین حضرت مولوی عبد اللہ درسؒ نے مسجد میں پڑھائی تھی پھر لوگوں کی کثرت کے پیش نظر دوسری نماز جنازہ آپ کے داماد جناب حافظ علیم الدین صاحب نے صدر بازار کے بڑے میدان ( موجودہ جہانگیر پارک ) صدر میں پڑھائی تھی کیونکہ جناب حافظ علیم الدین ؒ سے قبل حضرت حاجی منشی محمد بشیر قریشی صاحب قبلہ ؒ حضرت اخی فی الدین حضرت مولوی عبد اللہ درس صاحبؒ ہی کی اقتدار میں نماز تراویح ادا فرماتے تھے ۔روایت نمبر ٥٨

حضرت شاہ عبد الطیف شاہ بخاری کچھی ؒ امام شریف مسجد فرئیر مارکیٹ کراچی کا بیان جناب ماسٹر عبد اللہ ابن حضرت منشی شاہ عبد الخالق مینائی لکھنوی ؒنقل کرتے ہیں کہ

 حضرت مولوی شاہ خدا بخش (متولی اول درگاہ حضرت سید عالم شاہ بخاریؒ ) کے دو صاحب زادے اور ایک صاحبزادی مولد ہوئی تھیں ان میں فرزند اصغر شاہ اللہ بخش مینائی ١٨٦٠ء میں ہیضۃ کی بیماری میں وفات پاگئے تھے اور فرزند اکبر حضرت منشی شاہ عبد الخالق مینائی ؒ ١٨٥١ء میں اسی شہر کراچی رتن تلاب میں پیدا ہوئے تھے پھر ١٨٥٥ ء میں دختر نور بیگم پیدا ہوئی حضرت مولوی شاہ خدا بخش مینائی لکھنوی ثم کراچوی ؒ نے اپنے فرزند اکبر جناب منشی شاہ عبد الخالق مینائیؒ کی اپنے حیات ہی میں (جدی) خاندان کا ظمی سادات کی اور درگاہ شریف حضرت بابا سید علم شاہ بخاریؒ کی تولیت کی دستار بندی بھی کر دی تھی۔

 حضرت منشی شاہ عبد الخالق مینائیؒ نے ابتدائی دینی تعلیم و تربیت اپنے والد بزرگ سے حاصل فرمائی اور مولوی عبد اللہ میمن کے مدرسہ مظہر العلوم کھڈر (لیاری) کے فرزند جناب مولوی محمد حسن سے تعلیم دینیہ حاصل فرما کر منشی فاضل ہوئے تھے آپ خاموش طبع دوریش صفت بزرگ پابند صوم و صلٰوۃ تھے ۔آپ نے اپنی گزر بسر کے لئے صدر بازار میں ایک درزی خانہ کھولا تھا جہاں انگریزوں کے سرکاری کپڑے بھی سلائی ہوتے تھے اس کاروبار میں بڑی خیرو برکت ہوئی تھی ۔آپ بڑے سخی تھے آپ تا حیات درگاہ شریف کی خدمت اپنی جیب خاص سے کرتے تھے ۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے ٤ فرزند اور ٥ دختران عطا فرمائی تھیں جن میں فرزند اکبر (راقم) ماسٹر شاہ عبد اللہ مینائی، شاہ محمد ابراہیم مینائی، شاہ غلام محمد مینائی، شاہ عبد الجبار مینائی ،تھے جناب ماسٹر شاہ عبد اللہ مینائی کو بھی اللہ تعالیٰ نے ٥ فرزند اور ٣ دختران عطا فرمائی ہیں فرزند اکبر شاہ محمد مینائی شاہ عبد الحمید مرحوم ،شاہ عبد الرفیق ،شاہ عبد السلیم ، شاہ صوفی عبد الرشید المعروف خواجہ دلبر شاہ بالحمد للہ تعالیٰ سب حیات ہیں ۔

 حضرت قبلہ منشی شاہ عبد الخالق مینائیؒ آخری عمر میں گوشہ نشین ہوگئے تھے آپ نے اپنی حیات مبارک ہی میں درگاہ شریف حضرت سید بابا عالم شاہ بخاری ؒ کی انتظامات جاری وساری رکھنے کے لئے ایک درگاہ انتظامیہ کمیٹی اپنی نگرانی میں مقرر کردی تھی جس کے ممبران جناب بابا صوفی عبد الرحمٰن ؒ (شہید) جناب ملک ریاض محمد جناب عبد القادر میمن ،بچو بھائی مارواڑی ،جناب خادم نور محمد والد محمد بلوچ تھے ،یہ انتظامیہ کمیٹٰ ١٩٤١ء تک آپ متولی دوئم حضرت منشی شاہ عبد الخالق مینائیؒ کی زیر نگرانی خدمت کرتی رہی ۔پھر ٨ذی الحجہ ١٩٤١ء کو آپ متولی دوئم نے ٩٠ برس کی عمر میں وصال فرمایا ۔آپ کے وصال کے بعد حضرت بابا صوفی عبد الرحمن ؒ (شہید) کے اسرار پر درگاہ شریف کی تولیت جناب ماسٹر شاہ عبد اللہ مینائیؒ نے جناب ملک ریاض محمد (چچا) کے سپر د کردی یعنی درگاہ شریف کمیٹی کا صدر مقرر کردیا تھا ١٩٤٩ء میں ملک ریاض محمد صاحب (چچا ) جناب ایم ڈی ملک جناب بابو محمد حنیف جناب مولوی محمد عبد الوارث (مولانا برتن والے)جناب انعام الٰہی (حکیم جی) جناب مولانا عاشقین صاحب مرحوم پر مشتمل تھی ۔ اس انتظامیہ کمیٹٰ کے دور میں درگاہ شریف و بخاری اولیاء مسجد عقیدت مند حضرات کے تعاون سے از سر نو تعمیر ہوئی تھی ۔جس میں قدیمی احاطہ پر ہی گنبد وغیرہ اور بخاری اولیاء مسجد اور حجرہ درگاہ شریف کا دروازہ خاص چاندی کا تعمیر ہوا اور ١٠١تولہ سونے کا چاند ستارہ گنبد پر نصب کیا گیا تھا ۔ابھی اس کمیٹی کو ١٤ہی برس خدمت کرتے گزرے تھے کہ اپریل ١٩٦٣ء کو محکمہ اوقاف نے درگاہ شریف کی پیٹیوں پر سیل لگادی تو صدر کمیٹٰ نے کمیٹٰ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اجلاس میں حاضر ممبران کو بتایا کہ محکمہ اوقاف درگاہ شریف کو اپنے قبضۃ میں لینا چاہتی ہے ۔اجلاس میں موجود ممبران نے تجویز پیش کی کہ اگر محکمہ اوقاف درگاہ شریف کا قبضہ لینا چاہتی ہے تو پھر تحریری طور پر درگاہ شریف کی تمام ملکیت قاعدے کے مطابق اندراج کر کے سپرد کی جائے اور اگر کسی کاروائی یا انتظام میں ہماری کمیٹی کی مدد چاہئے تو کمیٹی محکمہ اوقاف کی خواہش کے مطابق ان کی مدد کرے گو کہ محکمہ اوقاف نے درگاہ شریف کو باقاعدہ اپنی زیر نگرانی میں لیکر سابق صدر کمیٹی کی خدمت اعلیٰ کے پیش نظر R.P.Cکا چیئر مین جناب ملک ریاض محمد (چچا) کو ہی مقرر کیا جو تا حیات درگاہ R.P.Cکمیٹی کے چیئر مین رہے آخر آپ نے تادم خوب وضع داری سے خدمت انجام دی اور ١٩٨٥ء میں وصال فرماگئے ۔بعد جناب عبد العزیز پٹیل اور ملا نجم الحسن ملنگی عرف ملاحسن عبد الستار بھائی میمن اور یہ راقم الحروف خدمت انجام دیتے رہے پھر ١٩٨٨ء میں راقم الحروف کی درخواست پر محکمہ اوقاف نے جناب نجم الحسن کو R.P.Cکمیٹی کا چیئر مین مقرر کر دیا جناب ملا نجم الحسن نے بھی عقیدت مند حضرت کے مالی تعاون خیر سے از سر نو درگاہ شریف و مسجد کی مرمت و آرائش کی خوب خدمت انجام دی درگاہ شریف کے منیجر اوقاف ولی محمد لاکھوں اور چیئر مین ملا نجم الحسن میں چپقلش کے سبب ملا نجم الحسن نے چیئر مین شپ سے ١٩٩٩ء میں کنارہ کشی اختیار کی۔

تو محکمہ اوقاف نے محکمہ جانی ملبوس کمیٹی قیام کردی جس سے درگاہ شریف کے سابق انتظامت میں خوب ہی بد انتظامی خرابی پیدا ہوتی چلی گئی آخر کار محکمہ اوقاف نے با اثر معززین شہر کراچی کی درخواست پر پھر ملا نجم الحسن کو R.P.Cدرگاہ کمیٹی کا چیئر مین مقرر کردیا جو تا وقت عرس ولنگر ومحفل سماع کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post