لفظِ رمضان کے لسانیاتی اسرار ورموز
محمد شاہد خان (جامعہ
علیمیہ اسلامیہ)
لفظ رَمَضَ کے حوالے سے امام راغب اصفہانی علیہ
الرحمۃ رقم طرازہیں :
شھر رمضان ھو من الرمض ای شدۃ وقع الشمس۔
یقال ارمضتہ فرمض رَمِضَۃٌ ای احرقتہ الرمضاء وھی شدۃ حرالشمس ۔وارض رَمِضَۃٌ ۔
ترجمہ: رمضان کامہینہ الرمض سے ہے ۔جس کا مطلب
ہے کہ سورج کا شدت سے واقع ہونا۔کہاجاتا ہے کہ ارمضتہ فرمض رمضۃً میں نے اسے گرم کیا
پس وہ گرم ہوگیا۔یعنی سخت ترین گرمی نے اس کو جلادیا۔ اورالرمضاء سورج کی سخت گرمی
وحرارت کوکہتے ہیں۔ جوزمین گرم ہو تو اس کے لئے عرب کہتے ہیں کہ ارض رمضۃ کہ یہ زمین
گرم ہے۔
صاحب العین رقم طراز ہیں
:
رمض الانسان رمضاً اذا مشی علی الرمضائ۔
انسان بہت گرم ہوا جب وہ تیزدھوپ میں چلا۔
صاحب مقاییس اللغۃ لفظ رمضان کے حوالے سے لکھتے
ہیں :
الراء والمیم والضاد اصل مطَّردٌ یدل علی
حدۃ فی شی من حر وغیرہ۔الرمض حر الجارۃ من شدۃحر الشمس
لفظ
رمضان میں اصل تین حروف ہیں۔ رمض۔ جو کسی چیز میں حرارت کی وجہ سے حدت پر دلالت کرتا
ہے۔ الرمض۔ سورج کی شدید حرارت و گرمی سے پتھر کے گرم ہونے کوکہتے ہیں۔
صاحب مقاییس اللغۃ مزید لفظ رمضان کاتاریخی
پس منظر بیان کرتے ہیں:
وذکر قوم ان رمضان اشتقاقہ من شدۃ الحر۔
لانھم لما نقلوا اسم الشھور عن اللغۃ القدیمۃ سموھا بالازمنۃ ۔ فوافق رمضان ایام رمض
الحر۔
قوم نے ذکر کیاہے کہ بے شک رمضان شدید حرارت
سے مشتق ہے ۔ کیونکہ ان لوگوں نے جب مہینوں کے نام قدیم لغت سے نقل کئے تو اس کو زمانے
کی حالت دیکھ کر نام دیا لہذا رمضان کاسخت گرمی کے دنوں سے موافقت ہوئی تو اس کانام
رمضان قراردیا۔
صاحب مقاییس اللغۃ لفظ رمض کے حوالے سے لکھتے
ہیں کہ رمض کا لفظ اس وقت بھی استعمال کیا جاتا ہے جب کہاجاتاہے کہ اذا احرقتہ الرمضاء
جب سورج کی تیز دھوپ کسی کو جلادے ۔ تو اس وقت
الرمضاء کہاجاتاہے یعنی سخت ترین گرمی ۔ اس موقع پر عرب مثال اس طرح دیتے ہیں:
رمضت اللحم علی الرضف اذا انضجتہ۔
جب میں نے گوشت کو پکایا تو گوشت کوگرم پتھر
پر گرم کیا۔
امام ابن منظور الافریقی علیہ الرحمۃ لکھتے
ہیں :
ورمضت قدمہ من الرمضاء ای احترقت۔
اور سخت گرمی سے اس کے پاؤں گرم ہوگئے یعنی
اس کے پاؤں جل گئے۔
آپ مزیدمثالیں پیش کرکے لفظ رمض کی وضاحت اس
طرح پیش فرماتے ہیں:
رمضت الغنم ترمض رمضاً اذا رعت فی شدۃ الحر
فحبنت رأاتھا واکبادھا واصابعا فیھا قرح۔
مویشی بہت گرم ہوگئے جب ان مویشیوں کوگرمی کی
شدت میں چرایاگیا تو اس سے ان کے پھیپھڑے اورجگر میں سوجن ہوگئی اور اس میں زخم ہوگیا۔
یقال رمض الراعی موایشہ وارمضھا اذا رعاھا
فی الرمضاء واربضھا علیھا۔
کہاجاتاہے کہ چرواہے نے اپنے مویشیوں کو چرایا۔
جب اس نے اپنے مویشیوں کوسخت دھوپ میں چرایاتو انہیں تکلیف اوردرد پہنچایا توحضرت عمرفاروق
رضی اللہ عنہ نے اس چرواہے سے فرمایا:
علیک الظلف من الارض لا تُرَمِّضْھا۔
تمہیں زمین پر ''ظلف'' جیسی جگہ کواختیار کرناچاہئے۔
اوران کودکھ و تکلیف مت دو۔
امام ابن منظور الافریقی علیہ الرحمہ الظلف
کے بارے میں فرماتے ہیں:
الظلف من الارض المکان الغلیظ الذی لارمضاء
فیہ۔
ظلف اس سخت جگہ کو کہتے ہیں جہاں گرمی کی تپش
وحرارت نہیں پہنچتی ہے۔یعنی وہ انتہائی سخت زمین ہوتی ہے کہ وہاں تیز دھوپ کا اثرنہیں
پڑتاہے۔
اسی لفظ رمض کے حوالے سے آپ مثال پیش کرتے ہیں
کہ عرب اپنی گفتگو اورمعاملات میں لفظ رمض کا کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ عرب ایسے مواقع
پر کہتے ہیں :
وقد ارمضنی ھذا الامر فرمضت۔
یقینا اس معاملے نے مجھے آگ بگولہ کردیا ہے
اس لئے میں نے غصہ کیا۔''
امام ابن منظور الافریقی علیہ الرحمہ لفظ رمضان
کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے ابن دُرید علیہ الرحمہ کا قول نقل فرماتے ہیں
:
لمانقلوا اسماء الشھور عن اللغۃ القدیمۃ
سموھا بالازمنۃ التی ھی فیھا فوافق رمضان ایام رمض الحر وشدتہ فسمی بہ۔
امام ابن دریدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جب
قدیم لغت سے مہینوں کے نام نقل کئے گئے تو اس مہینے کو اس زمانے کی جو حالت تھی اس
کے مطابق رکھا گیا ۔ لہذارمضان کی تیز دھوپ اور اس کی شدت دیگردنوں سے زیادہ پائی گئی
تو اس لئے اس کورمضان سے موسوم کیاگیاہے۔آپ فرماتے ہیں:
شھررمضان ماخوذمن رمض الصائم رَمِضَ اذا
حَرَّ جوفہ من شدۃ العطش۔
رمضان کا مہینہ رَمِضَ سے ماخوذ ہے روزہ دار
تکلیف محسوس کرتا ہے جب پیاس کی شدت سے اس کا جوف گرم ہوجاتاہے۔
امام رازی علیہ الرحمۃ لفظ رمضان کی وجہ تسمیہ
بیان فرماتے ہیں :
انہ ماخوذ من الرمض وھوحرالحجارۃ من شدۃ
حرالشمس والاسم الرمضاء ۔فسمی ھذا الشھر بھذا الاسم امالارتماضھم فی ھذا الشھر من حر
الجوع او مقاساۃ شدتہ۔
رمضان الرمض سے ماخوذ ہے اور وہ سورج کی شدید
گرمی سے پتھر کے گرم ہوجانے کو کہتے ہیں۔ اس کا اسم الرمضاء ہے اور اس مہینے کو الرمضاء
کا نام دیاہے جیسے کہ اس مہینے میں بھوک کی حرارت اور اس کی بھرپورشدت،تکلیف اورجلن
کی وجہ سے اس کو رمضان کہتے ہیں۔
اور اس مہینے کورمضان اس لئے بھی کہاجاتاہے
:
سمی بھذا الاسم برمض الذنوب ای یحرقھا
گناہوں کو جلانے کی وجہ سے اس مہینے کو رمضان
کہتے ہیں۔ اورآپ ؐ نے فرمایا :
انما سمی رمضان لانہ یرمض ذنوب عباداللہ۔
بے شک رمضان کوجونام دیاگیا ہے کیونکہ یہ اللہ
کے بندوں کے گناہوں کوجلادیتا ہے۔
گناہوں کوجلادینے کے حوالے سے امام قرطبی علیہ
الرحمۃ فرماتے ہیں :
انما سمی رمضان لانہ یرمض الذنوب ای یحرقھا
بالاعمال الصالحۃ۔
بے شک رمضان کو جو نام دیا گیا ہے وہ اسلئے
کیونکہ وہ گناہوں کوجلادیتا ہے یعنی نیک اعمال کے ذریعے سے گناہوں کوجلادیتاہے۔اس سے
مراد یہ ہے کہ نیکی کی قوت و طاقت سے گناہ وبدی ختم ہوجاتے ہیں۔
ویسے تو ایک مسلمان پورے سال اللہ تعالیٰ کی
عبادت وریاضت کرتاہے لیکن اس بابرکت مہینے میں نیکی اوربھلائی کرنے کاجذبہ ولگن بدرجہ
اتم بڑھ جاتا ہے۔
رمضان کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے اہل علم حضرات
نے بہت لکھاہے۔ امام قرطبی نے ایک اوروجہ تسمیہ بیان کی ہے:
وسمی الشھر بہ لانھم کانوا یرمضون اسلحتھم
فی رمضان لیحاربوا بھا فی شوال قبل دخول الاشھرالحرم۔
اس مہینے کورمضان اس لئے کہاجاتاہے کیونکہ عرب
اس مہینے میں اپنے اسلحے کوگرم کیاکرتے تھے تاکہ اس کے ذریعے سے شوال میں حرمت والے
مہینوں سے قبل جنگ کی جاسکے۔
اس لغوی بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ لفظ رمض
کا مطلب ہے :
1.
سورج کا شدت سے واقع
ہونا۔
2.
الرمضاء سورج کی سخت
ترین گرمی و حرارت کو کہتے ہیں۔
3.
جب زمین گرم ہوجائے
تو اس وقت عرب کہتے ہیں کہ ارض رَمِضَۃٌ زمین گرم ہے۔
4.
جب سال کے مہینوں کے
نا م رکھے گئے تو پورے سال میں جس مہینے میں سب سے زیادہ گرمی ہوئی تو اہل زبان نے
اس مہینے کو رمضان کانام دے دیا۔یعنی بہت زیادہ گرمی وحرارت کی شدت وحدت اس مہینے میں
پائی جاتی ہے۔۔
5.
سخت گرمی کی وجہ سے
پاؤں گرم ہوجائیں تو اس موقع پر بھی لفظ رمض استعمال کیاجاتاہے۔
6.
جب اہل زبان گوشت کوپتھر
پر رکھ کر گرم کرتے ہیں تو اس صورت حال میںبھی لفظ رمض کا استعمال کیاجاتاہے۔
لب لباب یہ ہے کہ لفظ رمضان میں انتہائی درجے
کی گرمی کی حدت اورحرارت کی شدت کاعنصرپایاجاتاہے۔
اب ہم لفظ رمضان کے حروف اصلیہ کی صفات کو جانتے
ہیں کہ ان حروف ثلاثہ کی کیاکیاصفات ہیں جو اس میں پنہاں ہیں۔لفظ رمضان کے اصل میں
تین حروف ہیں۔ ر۔م۔ض۔ حروف مندرجہ ذیل خصوصیات سے متصف ہیں۔
رمض:
ر:مجہورہ۔متوسطہ۔مستفلہ۔منفتحہ۔مذلقہ۔منحرفہ۔مکررہْ
م:مجہورہ۔متوسطہ۔مستفلہ۔منفتحہ۔مذلقہ۔
ض:مجہورہ۔رخوہ۔مستفلہ۔مطبقہ۔مصمتہ۔مستطیلہ۔
رمض میں فاء کلمہ ''ر'' ہے۔ عین کلمہ ''م''
ہے اور لام کلمہ''ض'' ان میں سے ہر کلمہ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے
زیادہ اثرانداز ہونے والا کلمہ عین کلمہ ہوتاہے ۔ علماء لسانیات کے مطابق ہر کلمہ اپنی
جگہ قوی اورطاقت ور ہوتا ہے لیکن عین کلمہ سب سے زیادہ ''قوی'' اور ''طاقت ور'' شمار
ہوتاہے۔ اس کا اثرفاء اور لام دونوں کلموں پر ہوتاہے۔ عین کلمہ سب سے بنیادی اور مرکزی
کردار اداکرتاہے۔ اگر عین کلمہ کی صفت میں مجہورہ ومشددہ کی صف پائی جاتی ہے تو عین
کلمہ دوسرے دونوں کلموں میں بھی طاقت و قوت کا جوہر پیدا کرنے کی قوی صلاحیت رکھتاہے۔
اوراگر عین کلمہ ہی کمزور اورناتواں ہے تو اس کی کمزوری اور ناتوانی دوسرے کلموں پر
بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر کسی کلمے میں صفت مہموسہ ورخوہ پائی جاتی ہے تو وہ دیگرکلموں
میں نرمی اور رخاوت پیداکردیتی ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ رمض کے کلمے کی کیاکیاصفات
ہیں اور ان صفات کادیگر کلموں کی صفات پر کس طرح اثرہوتاہے۔
اس لفظ رمض میں فاء کلمہ کی صفت مجہورہ اورمتوسطہ
ہے۔ اور عین کلمہ کی صفت بھی مجہورہ اور متوسطہ ہے۔ اور لام کلمہ کی صفت مجہورہ اور
رخوہ ہے۔ یعنی اس کلمے میں سب سے بنیادی اورمرکزی کردار عین کلمہ ''م'' ہے۔ اس کی ہی
صفت کا اثر دیگرکلموں کی صفات پر اثرانداز ہوگا۔ عین کلمے کی صفت مجہورہ ومتوسطہ یعنی
اس کے معنی میں نہ تو قوت و طاقت کاغلبہ ہوگا اورنہ ہی اس میں رخاوت ونرمی وغیرہ ہوگی۔
بلکہ اس کی صفت میں میانہ روی اوراعتدال نظرآئے گا۔اس کی صفت میں توازن نظر آئے گا۔
اسی لئے رمض کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی دھوپ میں نہ انتہائی درجے کی شدت وحدت ہوتی ہے
اور نہ ہی اس میں نرمی اور رخاوت پائی جاتی ہے بلکہ اس کی دھوپ میں اعتدال اور توازن
ہوتاہے۔ یعنی اس کو معتدل رکھا جاتاہے اس میں جب چاہتے ہیں شدت وحدت پیداکردی جاتی
ہے اور جب چاہتے ہیں اس میں نرمی پیداکردی جاتی ہے۔ اس کا توازن برقرار رکھاجاتاہے۔
لفظ رمض میں عین کلمہ''م'' ہے اس لئے لفظ ''شمس'' میں بھی عین کلمہ ''م'' ہے اور
''م'' کلمہ کا ملیت و اکملیت کوثابت کرتاہے۔ اس میں کسی بھی جہت کی مکمل صفات وخصوصیات
کا ظہور ہوتاہے۔ اور لفظ رمض میں عین کلمہ ان تمام کلموں کی صفات میں اعتدال اور توازن
پیدا کرتاہے۔ اس میں سے بے اعتدالی اور غیرمتوازن اشیاء کا اخراج کردیتا ہے ۔ لہذا
عین کلمہ کیونکہ ''م'' ہے۔ اس میں کاملیت اور اکملیت کا جوہرپایاجاتا ہے ۔ لہذا یہ
اپنی تمام ترصفات کو ساتھ لے کر دیگرکلموں پر اثرانداز ہوتی ہے۔
اس فاء عین اور لام کلمے کی مشترکہ صفت مستفلہ
ہے۔ اس صفت کا معنی پریہ اثرپڑتاہے کہ اس چیز کا اثرانتہائی نچلی اورگہری سطح تک بھی
جاتاہے۔یعنی وہ چیز اثرپذیری کے اعتبار سے نچلی سے نچلی سطح تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اسی
لئے رمض کا مطلب ہے کہ دن کا بہت گرم ہونا اور جب تیز دھوپ کی وجہ سے ریت سخت گرم ہوجائے
تو اس کے لئے بھی رمض کا لفظ استعمال کرتے ہیں یعنی ریت کا ایک ایک ذرے تک سورج کی
تپش و گرمی کااثر پہنچ گیا ہے کیونکہ صفت مستفلہ کا اثر نچلی سے نچلی سطح تک بھی پہنچ
جاتاہے۔ لہذا عین کلمہ''م'' صفت مستفلہ کا حامل ہے۔ اس صفت کا اثر نچلی سطح تک جاتاہے۔اور
عین کلمہ سب سے زیادہ مرکزی اور بنیادی کردار اداکرتا ہے۔ اوردیگر کلموں کی صفات کو
بھی نکھارتا ہے اور فاء اور لام کلمہ کی صفت بھی مستفلہ ہے۔ ان دونوں کلموں کی صفات
نے عین کلمہ کی صفت کا ساتھ دے کر اس کی اثرپذیری کو دگناکردیا ہے۔ اس سے صفت مستفلہ
کہ جس کے اثر میں گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے اس کا اثر نچلی سطح تک بھی پہنچ جاتاہے
اور اس میں کئی گنااضافہ ہوجاتاہے۔
اس لئے رمض کے حروف کی صفت مستفلہ کا اظہار
اس مثال میں واضح طریقے سے ہوتاہے کہ سخت گرمی میں مویشی چرنے سے تیز دھوپ اور سخت
گرمی کا اثرمویشیوں کے پھیپھڑوں اور جگر تک اس کا اثر پہنچتاہے اور اس میں سوجن پیداہوجانے
سے زخم ہوجاتاہے۔
اس لفظ رمض کے عین اورفاء کلمے کی صفت منفتحہ
ہے۔ اس کی صفت یہ ہے کہ وہ چیز کھلی ہوئی ہوگی۔ اس کا ظاہری طورپروجود ہوگا وہ پوشیدہ
اور پنہاں نہیں ہوگی۔ سورج جب نکلتا ہے تو اس کی روشنی ،کرن اور تیز دھوپ ظاہر ہوتی
ہے تووہ کوئی پوشیدہ اورچھپی ہوئی نہیں ہوتی ہے۔ اس عین کلمہ ''م'' کی صفت ِ منفتحہ
کے مددگار کے طور پر فاء کلمہ ''را'' کہ جس کی صفت بھی منفتحہ ہے اس کے تعاون اور مدد
سے اس کی ظاہری وجود میں اضافہ ہوگیا ہے اور سورج کی دھوپ واضح اور زیادہ ظاہر ہوجاتی
ہے۔ عین کلمہ ''م''اور فاء کلمہ ''ر'' نے تومدد کی ہے لیکن لام کلمہ ''ض'' کی صفت نے
اپنی صفت مطبقہ کوظاہر کیاہے کہ جس صفت کا اثر یہ ہے کہ اس کی روشنی طبق کی طرح ہوگی
۔ یعنی اس کی روشنی ظاہر ہوگی لیکن صرف اسی جگہ سے جہاں سے وہ روشنی آرہی ہوگی۔ اگرکوئی
چیز اس کی روشنی کے درمیان حائل ہوجائے تو وہ روشنی ظاہر نہیں ہوگی کیونکہ صفت مطبقہ
ایک طبق کی صورت میں اس روشنی کوظاہر ہونے سے روکتی ہے۔ جہاں سے وہ روشنی آتی ہے۔
لفظ رمض میں عین کلمہ ''م'' کی صفت مذلقہ ہے۔
اس صفت کا اثر یہ ہے کہ اس میں تیزی اور سرعت کا عنصر غالب رہتاہے۔ اس میں برق رفتاری
کی خاصیت پوشیدہ ہوتی ہے۔ یعنی جب زمین پر گرمائش پڑتی ہے اس کی گرمائش زمین کے ایک
ایک حصے اورگوشے میں تیزی اور سبک رفتاری سے حرارت و تپش پیداکردیتی ہے۔ اس عین کلمہ
کی صفت کا اثر دیگر کلموں پر بھی پڑتا ہے۔ لہذا دایاںبازو فاء کلمہ ''ر'' کی بھی صفت
مذلقہ ہے ۔ اس میں بھی تیزی اورتیز رفتاری پائی جاتی ہے۔ ''ر' کلمہ کی صفت کے عین کلمہ
کی صفت سے ملنے کی وجہ سے ان کی برق رفتاری اور تیزی میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ روشنی
پہلے کے مقابلے میں اب دونوں کلموں کی مشترکہ صفات کی وجہ سے ان میںمزید تیزی اور سرعت
آگئی ہے۔ لہذا گرمائش ظاہر ہوتے ہی وہ تیزی سے پھیلتی ہے ۔ اس عین کلمہ ''م'' اور فاکلمہ
''ر'' صفت مذلقہ سے متصف ہےں لیکن اس میں لام کلمہ ''ض'' کہ جس کی صفت مصمۃ ہے ۔ اس
صفت مصمۃ کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خاموشی اور سست رفتاری پائی جاتی ہے۔ یعنی لفظ رمض
میں تیزی اوربرق رفتاری تو جاری وساری ہے لیکن لام کلمہ ''ض''کی صفت مصمتہ کے ظاہر
ہونے سے اس تیز رفتاری میں معمولی سی کمی واقع ہوئی ہے۔ زیادہ فرق نہیں پڑا۔ لیکن کچھ
نہ کچھ فرق ضرور پڑگیاہے۔
لفظ رمض میں لام کلمہ کی ایک نمایاں اور خاص
جوصفت ہے وہ صفت مستعلیہ ہے۔ اس صفت میں بلندی اور درازی کا عنصر غالب رہتاہے۔ جن حروف
میں صفت مستعلیہ پائی جاتی ہے تو ان میں اڑان اور بلند پروازی کی طرف بڑھنے کا رجحان
ہوگا اور بلندی کی طرف جائیں گی۔
اس لفظ رمض میں جو صفت مستعلیہ ہے اس صفت کا
دوسرے حروف کی صفات سے باہم مل کر ایک حسین امتزاج بنتاہے یعنی لفظ رمض کی مشترکہ صفت
مستفلہ ہے۔ اس صفت کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز کا اثر نچلے سے نچلے درجے تک جائے گا۔ انتہائی
نچلی سطح تک اس کی اثر پذیری ہوگی یعنی گرمی اور تیز دھوپ کااثر نچلی سے نچلی سطح تک
پہنچے گا اور انتہائی درجے کی تیزگرمی محسوس کی جائے گی اس میں سے شدید ترین حدت اور
حرارت کا اخراج ہوگا۔ جب وہ تپش اورگرمائش انتہائی نچلے درجے تک جائے گی تو اس وقت
لفظ رمض میں لام کلمہ ''ض'' کی ایک اورمزید صفت بھی ہے جو صفت مستعلیہ کہلاتی ہے۔ جس
کامطلب یہ ہے کہ اس صفت میں بلندی اور درازی پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شے اوپر کی
طرف جاتی ہے۔یعنی جب گرمائش اور تیز دھوپ کی وجہ سے جو حرارت زمین کے انتہائی نچلے
درجے تک پہنچ گئی ہے تو اس کے بعد صفت مستعلیہ ظاہر ہوتی ہے تو یہ گرمائش اوپرکی طرف
جاتی ہے۔اوروہ گرمائش بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ جب وہ زمین پر ریت کے سب
سے نچلے ذرے کو بھی گرمائش اور حرارت دیتی ہے تو یہ گرمی اوپر کی طرف آتی ہے اور اس
وقت کسی کے پاؤں کو جلاتی ہے تو عرب اس موقع پررمض کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
رمضت قدمہ من الرمضاء ای احترقت۔
سخت گرمی سے اس کے پاؤں جل گئے۔(لسان العرب)
اس کے علاوہ لفظ رمض کے فاء کلمے کی دوامتیازی
خصوصیات ہیں جو دیگر کلموں میں مفقود ہیں۔ فاء کلمہ''ر'' کی امتیازی اوربنیادی وصف
صفت منحرفہ اورصفت مکررہ ہے۔ اس صفت میں تکرار فعل ہوتاہے۔ یعنی جب کسی کلمے میں
''ر'' آتاہے تو اس چیز میں تکرار پائی جاتی ہے۔ وہ چیز باربار ظہور پذیرہوتی ہے۔ مثلا
لفظ' 'شجر'' میں ''ر'' ہے اس کی صفت میں تکرار کافعل پایاجاتاہے۔ یعنی درخت بڑھتے رہتے
ہیںاور اس میں بڑھوتری ہوتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ''رُعاف ''ناک سے خون جاری ہونے کوکہتے
ہیں اوراس میں بھی تکرار فعل پایاجاتاہے۔ جب نکسیر پھٹ جاتی ہے خون بہتارہتاہے۔ لہذا
رمض میں فاء کلمہ ''ر'' ہے کہ جس کی صفت منحرفہ اور مکررہ ہے۔ اس میں ایک فعل بار بار
ہوتاہے ۔ رمض سخت ترین گرمی اور تیز دھوپ کوکہتے ہیں ۔ سورج کی تیز دھوپ اورسخت گرمی
پتھر پر باربار پڑتے رہنے سے پتھر گرم ہوجاتاہے۔ اس گرم پتھر کوعربی زبان میں الرَّضفُ
کہتے ہیں۔ عرب لفظ رمض کو اس انداز میں استعمال کرتے ہیں ک:
رمضت اللحم علی الرضف اذا انضجتہ۔
ترجمہ:جب میں نے گوشت کوپکایاتو میں نے گوشت
کو گرم پتھر پر گرم کیا۔
یعنی جب اس سخت ترین گرم پتھر پر گوشت رکھاجاتا
ہے تو کیونکہ اس میں تپش وحرارت سرایت کرگئی ہوتی ہے اور اس پتھر کے اندر کے تمام ذروں
کو حرارت ملتی ہے۔تو اس حرارت اورسخت گرمی سے گوشت گرم ہوتا ہے تو اس کو باربار حرارت
ملتی ہے اور اس کومسلسل اور مستقل دی جانے والی حرارت اورتپش گوشت کے اندر تک سرایت
کرجاتی ہے اوراس کی انتہا تک پہنچ کر اس کے ایک ایک ریشے کو گرم کردیتی ہے۔
اور اس موقع پر لفظ رمض کے فاء کلمے ''ر'' کی
صفت منحرفہ اورمکررہ کی مرقع رعنائی اور ززیبائی جلوہ آرا ہوتی ہے۔
اس تمام بحث کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ
لفظ رمض کا مطلب سخت ترین گرمی اور شدید ترین حدت و حرارت کو کہتے ہےں۔ اس میں انتہائی
درجے کی گرمی پائی جاتی ہے اور یہ گرمائش اور تپش کے اعتبار سے نچلی سے نچلی سطح تک
پہنچ جاتی ہے۔ اور یہ گہرائی وگیرائی میں پہنچ کر گرمی اور تپش دینے کے بعد اوپر کی
طرف آتی ہے اور بلندی پر پہنچ کر پھر گرمائش پہنچاتی ہے۔ اوریہ اوپر بھی گرمائش اورحرارت
پیدا کرتی ہے۔
رمض کا تعلق کیونکہ سورج سے ہے۔ سورج کی شدید
ترین گرمی اور حرارت سے کسی بھی چیز کا سخت گرم ہوجانا اور جل جانے کے عمل کے لئے رمض
کا لفظ استعمال کیاجاتاہے ۔ اور رمض سورج سے حاصل ہوتی ہے ۔ عربی زبان میں ''شمس
''سورج کوکہا جاتا ہے۔ لفظ رمض اورشمس کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ لفظ شمس میں تین
حروف میں فاء کلمہ ''ش'' جب بھی کسی لفظ میں استعمال کیاجاتاہے تو اس میں پھیلا ؤ اورو
سعت کا معنی پایاجاتاہے کیونکہ ''ش'' حرف تفشی ہے۔ اس میں وسعت اورپھیلاؤ کا معنی ہوتاہے
۔ عین کلمہ''م'' میں کاملیت اور واکملیت پائی جاتی ہے۔ وہ ہرمکمل حیثیت میں اپنی گو
ناگوںخوبیوں کوظاہر کرتی ہے۔ یعنی بدرجہ اتم صفات کا اظہارکیاجاتا ہے۔ گویا کہ سورج
کی تیز دھوپ اور سخت ترین گرمی مکمل طور پر زمین پر پڑتی ہے اور اس کے پھیلاؤ اور وسعت
میں اضافہ ہوتاچلاجاتا ہے اورہر شے اس کے دائرہ کارمیں آجاتی ہے ۔ کیونکہ اس کا پھیلاؤ
وسیع وعریض ہوتاہے ۔ ایک لمحے کے لئے چشم تصور سے دیکھا جائے کہ جس وقت سورج اپنی تمام
ترتوانائیوں کے ساتھ تیز دھوپ اورآگ برساتی ہوئی گرمی برسارہی ہو اس کی شدت وحدت اور
گرمائش مکمل طور پر ہر شے کواپنے احاطے اوردائرہ کار میں لئے ہوئے ہو۔ اور اس حرارت
کاپھیلاؤ بڑھتاچلاجائے تواس وقت ذی روح کا کیاحال ہوگا۔ اس قیامت خیز ،عبرت ناک اور
خطرناک گرمی کے عالم میں اس عالم کا کیا حال ہوگا۔ ہرکوئی حال سے بے حال ہو رہا ہوگا
اور ایسے میں لفظ شمس کے لام کلمے ''س'' کی صفت صفیرہ کا اظہار ہوتا ہے جس صفت کا مطلب
یہ ہے کہ اس میں سیٹی کی طرح آواز نکلتی ہے۔
یعنی جب اس صفت کااظہار ہوتاہے تو اس وقت نوع
انسانیت اور ہر جاندارشے کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ اورانسانیت سخت گرمی اور تیز دھوپ
کی وجہ سے چیخ و پکار کرتی ہیں۔ اول فول بکتے ہیں کیونکہ سخت ترین گرمی اور تیز دھوپ
کے باعث لوگ حال سے بے حال ہوجاتے ہیں گویا کہ لفظ رمض اور لفظ شمس کا گہراتعلق ہے۔
دونوں نے مل کر گرمی کی شدت اورحرارت کوکئی گنا کردیاہے۔
کلمہئ رمضان پورے قرآن پاک میں صرف و صرف ایک
مقام پرآیاہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْہِ
الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ
مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃ''
مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ
وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰئکُمْ وَلَعَلَّکُمْ
تَشْکُرُوْنَ (سورۃ البقرۃ:١٨٥)
اس آیت مبارکہ کا ''کلمہئ رمضان ''سے گہراتعلق
ہے۔ قرآن پاک کے اول مخاطبین عرب کے بادیہ نشین ہیں۔ ان کے چاروں طرف پہاڑ ی ،صحرائی
اورریگستانی علاقہ ہے۔ دیگر علاقوں کے مقابلے میں صحرائی ،ریگستانی اورپہاڑی علاقوں
میںگرمی اور دھوپ کی شدت وحدت میں ناقابل تصور اضافہ ہوجاتا ہے ۔یوںتو پورے سال میں
گرمی پڑتی ہے۔ لیکن جس مہینے میں سب سے تیز دھوپ اور چلچلاتی گرمی پڑتی ہو ان سخت ترین
گرمی کے دنوں کو عرب نے رمضان کانام قراردیا ہے۔ ایسی گرمی اورتپش کہ جس سے ہر''ذی
روح'' بلبلااٹھے ۔ اور پیاس کی شدت سے گلاخشک ہی رہے ۔پانی سے پیاس بجھانے کے لئے لاکھ
جتن کئے جائیںلیکن پیٹ پھول جاتاہے لیکن پیاس کی آگ بجھنے کانام ہی نہیں لیتی۔ اس غضبناک
اور جان لیوا گرمی کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رمضان کے روزے فرض قراردیئے
اور روزے بھی صبح صادق سے غروب آفتاب تک ،بقائمی ہوش وحواس کھانے پینے وغیرہ سے اپنی
ذات کوروکنا ہے۔ حرام سے تو بچنے کا حکم ہی ہے بلکہ اس مبارک مہینے میں حلال چیزوں
سے بھی اپنے آپ کوروکنا ہے ۔ بھوک اور پیاس کی آگ کو برداشت کرناہے۔ زندگی آزمائش کا
نام ہے۔ آسمان سے سورج زمین پر آگ برساتا ہے۔ سورج کی گرم روشنی زمین پر پھیل جاتی
ہے ۔اور ہر شے اپنے دائرہ کار میں لے کرگرم کرتی ہے اور اس کو جلادیتی ہے ۔ زمین کا
ذرہ ذرہ تیز دھوپ اورحرارت کے باعث پاؤں کوجلادیتی ہے اور سورج کی سخت گرمائش انسانی
وجود کوگرم کردیتی ہے اور گرمی اند رتک سرایت کرکے وجود کونقصان اوراذیت کا سامان پیداکرتی
ہے۔ ایسے سخت موسم میں اللہ تعالیٰ نے رمضان میں روزے فرض قراردیئے ۔ لیکن وہ ذات اپنے
بندوں کونوازناچاہتی ہے۔ اس کوحوصلہ افزائی اور جذبے پیداکرنے کے لئے اولاًفرمایا:
اس رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں نزول
قرآن کامژدہ جانفزا سنایا اور نزول قرآن پاک کے اغراض ومقاصد بھی واضح ترین اسلوب سے
بیان کئے کہ اس کے نازل کرنے کامقصد نوع انسانیت کی رشد وہدایت اوررہنمائی کرناہے اس
میں واضح اور روشن ہدایت کاسرچشمہ ہے۔ کتاب ہدایت میں حق وباطل میں فرق کیاگیاہے تاکہ
انسانیت حق وباطل کاادراک کرسکیں اورحق کے راستے پر گامزن ہوکرمقصد حیات کوپاسکیں۔
اس رمضان المبارک میں روزے فرض کئے گئے ہیں
لیکن شرعی عذر کے تحت اگر کوئی روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھتاہو تو اس کے لئے''یُسر''کا
دروازہ کھلا ہے اور اس کوآسانی اورسہولت دی گئی ہے کہ وہ اس کافدیہ اور کفارہ اداکرسکے۔
تاکہ اللہ کے بندے اپنے رب کی معرفت حاصل کرسکیں۔ تو اس آیت مبارکہ میں رب تعالیٰ اپنے
بندوں کوحوصلہ اور ترغیب دے رہاہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جس وقت
رب کی پکار آئے تو فوراً کسی حیل وحجت کے لبیک کہاجائے۔
پھر رؤف ورحیم صفت سے متصف اور رحمۃ للعالمین
کے تاج کے حامل آپ ؐ نے اپنی امت کی رہنمائی اور ان پر شفقت ورحمت کرتے ہوئے کئی ایک
مواقع پر گل افشانی فرمائی ہے۔
جب ہم آپ ؐ کی انمول احادیث مبارکہ کامحبت بھری
نگاہوں سے مطالعہ کرتے ہیں کہ ہمیں اس وقت محسوس ہوتاہے کہ آپ ؐ نے کس طرح اپنی امت
کاخیال رکھاہے۔ شب وروز امت ہی کاخیال رہا ،چاہے آپ عرش پر رہے یا فرش پر رہے۔ آپ کو
ہمارا ہر لمحہ اور لحظہ کا خیال رہالیکن افسوس ہمیں آپ کا خیال نہ رہااوراپنے نبی
ؐ کوبھلادیا جو باخع لنفسک کے پیکر ہیں۔
کتنا کم ظرف تھا جومجھ کو بھلابیٹھا
ندیمؔ
میں تومخلص تھا کسی ماں کی دعاؤں کی
طرح
لہذا جب ہم آپ ؐ کی ذخیرہ احادیث میں رمضان
المبارک کا عرق ریزی سے مطالعہ کرتے ہیں توہمیں یہ علم ہوتاہے کہ آپ ؐ نے اپنی امت
کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کے لئے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے بارے میں کئی
ایک مقام پرگل افشانی فرمائی ہے۔
اس بابرکت مہینے کاپہلاعشرہ جسے رحمت قراردیاگیا
ہے اس کے دوسرے عشرے کو مغفرت حاصل کرنے کاعشرہ قراردیاتو آخری عشرے کو جہنم سے نجات
کا عشرہ قراردیا ہے۔ تاکہ امت ہرعشرے میں رحمت و رضوان کواپنے دامن میں سمیٹے ۔ اس
بابرکت مہینے میں قرآن پاک نازل فرماکر رشد وہدایت کا راستہ آسان اور سہل فرمایا۔ اس
کتاب ہدایت کے ایک ایک حرف سے دس نیکیاں ملتی ہیں اور دس گناہوں کومٹادیا جاتاہے اور
دس درجات بڑھادیئے جاتے ہیں ۔ اس مہینے میں مسجد وں اورگھروںمیں ہرلمحہ ولحظہ تلاوت
قرآن سے فضاؤں کو معطرکیاجاتاہے ۔ مسجدوں میں تراویح کی صورت میں مکمل قرآن پاک سے
قلب وذہن کوجلابخشی جاتی ہے۔اور اللہ کے نیک اورچنیدہ بندے راتوں میں اپنے رب کی تسبیح
وتہلیل اورتحمید تقدیس میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ دن بھرروزے کی حالت میں رہ کر ان خوش
بختوں اورسعادت مندوں میں شمارہوتے ہیں جوجنت میں ''باب ریّان''سے جنت میں داخل ہونگے۔
اس خاص باب سے صرف وصرف روزے دار ہی گزریں گے۔ دن بھر روزہ رکھ کر اس خوش نصیبی کوحاصل
کرتے ہیں اور قیام اللیل میں اپنے رب کے حضور التجاء ومناجات کرتے ہیں۔ اس بابرکت مہینے
کی آمد پر اللہ تعالیٰ کافضل اس طرح ہوتاہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور
جہنم کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین وغیرہ کوپابند سلاسل کردیاجاتاہے۔
فضل الٰہی مزید ہوتا ہے کہ نیکیوں کااجر دگناکردیاجاتا ہے۔ ایک فرض کا ثواب ستر(
٧٠) فرائض کے برابر قراردیاجاتاہے۔ سنت کاثواب فرض کے برابر ہوجاتاہے۔ اور اس امت کاخاصہ
یہ ہے کہ آخری عشرہ جو کہ جہنم سے نجات کا عشرہ ہوتاہے تو اس میں اللہ کے نیک بندے
مسجدوں میں اعتکاف کرتے ہیں اور شب وروز عبادت وریاضت میں بسرکرتے ہیں ۔ پھر اس آخری
عشرے کے طاق راتوں میں ''لیلۃ القدر'' تلاش کرتے ہیں اوراس نعمتِ کبریٰ سے مستفید ہوتے
ہیں جو کہ ہزارمہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔الغرض رمضان المبارک کامہینہ برکت ، فضیلت
اوررحمت سے لبریز ہے۔اس مہینے کی سخت ترین گرمی اورتیز دھوپ اس مہینے کی برکتیں ،فضیلتیں
اوررحمتیں حاصل کرنے سے کافورہوجاتی ہیں۔اورانسان ان مصائب و آلام اورمسائل کاسامنا
کرکے اس مہینے کی نعمتیں ،برکتیں ،فضیلتیں اوررحمتیں حاصل کرنے کے لئے ان تھک کوشش
و کاوش کرتاہے گویا کہ اس مہینے کی سخت گرمائش اورشدید تپش اس کے لئے ضرب الحبیب زبیب
کہ مصداق بن جاتی ہے یعنی محبوب کی مارمیٹھی ہوتی ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ لفظ رمضان میں انتہائی درجے
کی سخت ترین گرمی اورشدید درجے کی حرارت کا عنصر پایاجاتاہے۔ سورج کی تیز دھوپ زمین
کی ہرشے کوگرم اور جلاکررکھ دیتی ہے کہ مخلوق خدابھی اس گرمی سے پناہ مانگتی ہے اورگرمی
ناقابل برداشت ہوجاتی ہے کہ ہرشے حال سے بے حال ہوجاتی ہے ۔الغرض لفظ رمضان میں بدرجہ
اتم گرمی پائی جاتی ہے اور وہ گرمی قیامت خیز اورہوش ربا ہوتی ہے ۔
Post a Comment