The insight is the grace of God 

آئرش فلاسفر اورکیمسٹ رابرٹ بوئیل(Robert Boyle 1626-1691) بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے:

“The insight did not come from “painful effort but, so to speak, by the grace of God”.[1]

"جیسا کہ کہاجاتاہے کہ بصیرت(علم لدنی) تکلیف دہ کوششوں سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ(محض)اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حاصل ہوتی ہے۔" 

Tales of alien abduction sound perfectly reasonable

ایک سائنسدان جم ال خلیلی(Jim Al-Khalili 1962) تو خلائی مخلوق(اور اس کی صلاحیتوں )  کوبھی بلالیت ولعل تسلیم کرنے کی بات کرتاہے۔

When it comes to the world of the quantum, we really are crossing into a quite extraordinary domain….each of which is in its way so astonishingly strange that it even makes tales of alien abduction sound perfectly reasonable. [2]

جب کوانٹم فزکس کی دنیا کی بات کی جائے  ہم حقیقتاً ایک غیرمعمولی دنیا سے گزررہے ہیں۔  ان میں سے ہر ایک اتنی حیرت انگیز اورعجیب ہے کہ خلائی مخلوق کے دنیا پر قبضے کی باتیں بھی عقلی طورپربالکل صحیح محسوس ہوتی ہیں۔

The mysterious is a source of all true art and science

یہ باطنی معاملہ ،مخفی اسرار اورپوشیدرموز تمام علوم کا سرچشمہ  اورمنبع  ہے۔جسے بعض عظیم سائنسدان بھی قبول کرتے ہیں۔جیسا کہ البرٹ آئن سٹائن(Albert Einstein) اپنی کتاب “What I believe” میں لکھتاہے:

“The most beautiful thing we can experience is the mysterious. It is a source of all true art and science.” [3]

"سب سے خوبصورت چیز جس تجربہ سے  ہم  گزرسکتے ہیں وہ مخفی اسرار ہیں۔یہ تمام حقیقی علوم وفنون کا ذریعہ ہے۔"

 

Scientific intuition can be accurate

 

مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن  (Albert Einstein) وجدان سے معلوم حقائق کو بغیر تجربات کے بھی صحیح تسلیم کرتاہے کیونکہ تجربات جب وجدان سے معلوم حقائق کو  ثابت کررہے ہیں تولامحالہ وہ وجدان ہی تھا جو ان حقائق تک پہنچنے کا ذریعہ بنا:

“Scientific intuition can be so accurate that a theory is convincing even before the relevant experiments are performed.” [4]

"صرف سائنسی وجدان سے حاصل کیاگیا نظریہ بھی بغیر متعلقہ تجربات سے گزرے بلاشک وشبہ صحیح ہوسکتاہے۔"


 After the knowledge of God, the next aim must be to know His attributes

  جس قدر انسان کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے وہ رب کی صفات کے بارے میں غوروخوض شروع کردیتاہے۔اسی لئے بعض مذہب کو ماننے والے سائنسدانوں  پربھی جتنے کائنات کے رموز واسرار کھلتے جاتے ہیں وہ اسی قدر رب کی صفات اورصنعت پر غور وفکر میں محوہوجاتے ہیں۔جیسا کہ Joule نے 1873 میں لکھاتھا:

After the knowledge of, and obedience to, the will of God, the next aim must be to know something of His attributes of wisdom, power, and goodness as evidenced by His handiwork.( Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 7)

رب کی ذات کی معرفت اوراس کی رضا کی اطاعت کے بعد اگلا مقصد اس کی صفات  الحکیم،القادر،البر وغیرہ کا علم حاصل کرنا ہے جیسا کہ اس کی صنعت وکاریگری سے عیاں ہے۔

 How to inspire

 اس نکتہ کی وضاحت ایک مشہور سائنسدان آنڈری میری ایمپر (Andre Marei Amper 1775-1836) کے الفاظ میں:

“[My father] never required me to study anything, but he knew how to inspire in me a desire to know.” [5]

"میرے والدکو مجھے پڑھنے کا کہنے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن وہ جانتے تھے کہ میرےاندرطلبِ علم (علم کی تڑپ) کیسے پیداکی جائے"

 Hypotheses

جون کاستی (John Casti)  اس مفروضہ سے تھیوری بننے تک کے عمل کی کچھ یوں وضاحت کرتاہے:

"Our observation give rise to hypotheses that  are studied with experiments. Hypotheses that are supported by experiments may become empirical relationships, or laws. Laws may become part of an encompassing theory with wide explanatory power." [6]

"ہمارا مشاہدہ ایک مفروضہ کوجنم دیتاہے ۔ جس کا تجربات کی مدد سے مطالعہ کیاجاتاہے۔ مفروضہ جوتجربات سے ثابت ہوجائے وہ قانون بن جاتاہے۔اورقانون جو تمام ترسائنسی مشاہدات،تجربات اورقوانین سے گزرکر آخرکار نظریہ کے درجہ تک پہنچ سکتا ہے۔"

Laws are never quite complete

اس حقیقت کو سائنسدان خود تسلیم کرتے ہیں لیکن بالفاظ دیگر(یعنی خوبصورت لبادے میں اوڑھ کر ):

“Science progresses mainly because both existing theories and laws are never quite complete.” [7]

"سائنس کی ترقی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ دونوں قانون (Laws) اورنظریات (Theories) کبھی بھی (ہمیشہ کے لئے) مکمل نہیں ہوتے۔"

ممکن ہے آنے والے دنوں میں بہت سی سائنسی تھیوریز تبدیل ہوجائیں۔ جیسا کہ کلفورڈ اے پک اوور اپنی کتاب میں لکھتاہے:

Neverthless, even the great scientific laws are not immuteable, and laws may have to be revised centuries later in the light of new information. [8]

"تاہم حتی کہ عظیم سائنسی قوانین بھی غیرمتنازعہ  نہیں ہیں۔اورشاید صدیوں بعد ان پرنئی معلومات کی روشنی میں  از سرنوغورکرنا پڑے گا۔"

 Ultimate reality 

وکٹر جے اسٹینجر(Victor J. Stenger 1935-2014) بھی سائنس کی اس کمزوری کوتسلیم کرتے ہوئے لکھتاہے:

Further discussion on what the model implies about “Truth” or “Ultimate reality” falls into the area of metaphysic rather than physic, since there is nothing further the scientist can say based on the data” [9]

"۔۔۔جہاں تک حق،ابدی سچائی (Ultimate Reality) کا تعلق ہے تو یہ طبیعات(Physics) کے بجائے مابعد الطبیعات (Meta Physics) کا میدان ہے ۔ سائنسدان حقائق اورکوائف کی بناء پر اس موضوع پر کچھ بھی نہیں کہہ سکتے"



From Religion comes a man’s purpose


  ایک اورسائنس دان ولیم ہنری بریگ(William Henry Bragg 1862-1942) سائنس کی اتنی کمزوری ضرور تسلیم کرتاہے کہ انسانی زندگی کے مقاصد کا تعین  کرناسائنس کا کام نہیں ہے بلکہ ان کا تعین مذہب ہی کرسکتاہے:

“From Religion comes a man’s purpose; from science his power to achieve it” [10]

" انسانی زندگی کے مقصد کا تعین مذہب کرتاہے اوراس مقصد کی تکمیل کے لئے قوت سائنس بہم پہنچاتی ہے۔"

The grip of a Church

سام حارس(Sam Harris 1967) (The Language of Ignorance) میں لکھتاہے:

"Every European intellectual lived in the grip of a Church that thought nothing of burning scholars alive for merely speculating about the nature of stars…This is the same Church that did not absolve Galileo of heresy for 350 years (in 1992)" [11]

"ہریورپی ذہین (فرد)چرچ کے پنجہ میں گرفتار رہ چکا ہے  جس کا کام محض سائنسدانوں کو زندہ جلانا ہے۔وہ (چرچ) ستاروں کی فطرت پر صرف اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں ،یہ وہی چرچ ہے جس نےساڑھے تین سوبرس قبل گلیلیو(Galileo) کی نظریہ(Theory)  کوہضم نہیں کیا تھا۔"

 The Muslims were the leading scholars

 یہ مسلم سائنسدان ہی تھے جنہوں اجرام فلکی کی ساخت، بناوٹ، ماہیت، کیفیت ، مدار،حجم اوران کی تخلیق پر غوروفکر کیااوران سے متعلق صحیح اور مستند معلومات جمع کیں۔اس کی صراحت خود مغربی سائنسدان بھی کرتے ہیں۔ماریزیواکارنیو(Maurizio Iaccarino 1938)  کے الفاظ ملاحظہ کریں:

The Muslims were the leading scholars between the seventh and fifteenth centuries, and were the heirs of the scientific traditions of Greece, India and Persia,…….The transfer of the knowledge of Islamic science to the west ….paved the way for the Renaissance, and for the scientific revolution in Europe." [12]

"ساتویں سے پندرھویں صدی کے درمیان مسلمان سرکردہ علماء(سائنسدان) تھے اور وہ یونان،ایران اورانڈیا کے سائنسی روایات کے وارث تھے۔۔۔اسلامی سائنس کی مغرب کی  طرف منتقلی نے سائنسی علوم کا دوبارہ احیاء کیا اور یورپ میں سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی۔"

 The laws enable humanity to create and destroy

  کلفورڈ اے پک اوور  اپنی کتاب میں لکھتاہے:

“The laws enable humanity to create and destroy_sometimes they change the very way we look at reality itself.” [13]

"قوانین انسان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ کچھ تخلیق کریں یا تباہی لائیں اوربعض اوقات وہ راستہ ہی بدل دیتے ہیں جس پر ہم خودحقیقت دیکھتے ہیں۔"

۔  سائنس مطلقاً شر نہیں ہے بلکہ سلیم الفطرت سائنس دان تو خود رب کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں بلکہ انہیں تو کائنات کے ہر ذرے ،ہرقانون قدرت اورتھیوری سے اللہ رب العزت کے وجود اور وحدانیت  کی گواہی ملتی ہے۔ ان کے نزدیک ہر قانون قدرت رب کی تعریف وحمد وثناء میں مشغول ہے۔ جیسا کہ ماریہ مشعل نے 1866 سے میں تحریر کیاتھا:

A hymn of praise to God.

Every formula which expresses a law of nature is a hymn of praise to God.

ہر وہ فارمولہ جو قانون قدرت کااظہار کرتاہے وہ اللہ کی حمد ہے جس میں اس کی تعریف ہے۔

( Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 489)


 



[1] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 6

[2] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 29

[3] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 170

[4] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16

[5] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 214

[6] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 18

[7] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16

[8] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16

[9] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 24

[10] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 6

[11] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 32

[12] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 32

[13] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post