ڈاکٹرمحمود احمد غازی     

مقالہ نگار:حافظ عبدالصمد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

﴿ مقدمہ ﴾

اسلام صرف دین ہی نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی ہے۔ انسانیت کی فلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسلام کوبطور مذہب پسند کیا۔ دین اسلام کی ترویج اوربنی نوع انسانی کی ہدایت ورہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ومرسلین کومبعوث فرمایا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ پر اختتام پذیر ہوا۔ ہر ایک نبی ورسول نے اللہ کی وحدانیت بیان کی اوراشاعت دین کے لیے اپنی زندگی وقف کی۔ انبیاء کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مال و جان اورخون پسینہ سے اسلام کی آبیاری کی اس کے بعد تابعین کی ایک جماعت نے یہ حق اداکیا اوراسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہااوراسلام ہم تک اپنی اصلی حالت میں پہنچا، دورحاضر کے علماء ومشائخ اورمذہبی اسکالر اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں ۔ان کی خدمات اسلام کی ترویج میں ایک اہم کردار اداکرتی ہیں ۔ ڈاکٹر محمود غازی کا شمار بھی ان عظیم شخصیات میں ہوتاہے۔ ان شخصیات کی علمی وعملی خدمات کا اعتراف کرنا اوران کا تذکرہ کرنا دراصل ترویج دین کاحصہ ہے۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے دین اسلام کی حقانیت سے معاشرہ آگاہ ہواہے اورتاریخ بھی ان اقوام کوعزت سے ہمکنار کرتی ہے جو اپنے محسنوں کی خدمات کواجاگرکرتے ہوئےان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔

علمی وتاریخی شخصیات کے تذکرے دراصل علم وفن کی تاریخ کا ایک پہلو ہیں ۔ ان کے متعلق منتشر معلومات کو یکجا کرنا ایک اہم علمی اورملی خدمت ہے البتہ جذباتی وابستگی اورذہنی رجحان کے ساتھ وابستہ رہنے کے بجائے غیرجانبدارانہ اورخالص تحقیقی علمی انداز اختیار کرنا چاہیے، عقیدت مندانہ مدح سرائی اورمبالغہ آمیزی کی بجائے ان کے اصل واقعات، حالات زندگی اورخدمات کاتذکرہ ہوناچاہیے اورتحقیقی طریقہ کار کے ذریعے ان شخصیات کی زندگی کے ہر پہلو کواجاگرکیاجائے، بعض اوقات اہل علم حضرات بھی ان علمی وتاریخی شخصیات کی خدمات سے پوری طرواقف نہیں ہوتے کیونکہ ان کے بارے میں معلومات مختلف کتب ورسائل میں منتشر حالت میں درج ہوتی ہیں ۔

ڈاکٹرمحمود احمد غازی نے علم حدیث، علم تفسیر، فقہ ودیگر علوم کی مستند کتابوں کے حواشی و مفہوم اردوزبان میں لکھ کر مسلمانان پاکستان پر ایک عظیم احسان فرمایا۔ درحقیقت موجودہ حالات میں مسلمانوں کی مذہبی سیاسی،علمی اورسماجی اصلاح کا سہرا ڈاکٹرمحمود احمد غازی کے سرہے۔ آپ نے موجودہ دور کی مذہبی بے راہ روی کوروکنے اورعلوم اسلامیہ کے احیاء کے لیے قلمی جدوجہد کی۔ ڈاکٹرمحمود احمد غازی کا شمار ان مستند اسکالرز میں ہوتاہے جو صدیوں میں پیداہوتے ہیں ۔ آپ کی بلندی اقبال کی ایک امتیازی وجہ یہ بھی ہے کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم پربھی آپ کو دسترس حاصل تھی۔ اورکسی گوشہ سے یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ آپ ایک روایتی دین سمجھنے والے انسان کی طرح ہیں ۔ آپ قدیم وجدید میں مطابقت پیداکرنے کے ساتھ ان کو ہم آہنگ بھی کرتے تھے اورزمانہ کے لحاظ سے پیچیدہ مسائل کاعام فہم اندازمیں حل نکالتے تاکہ ایک عام آدمی کوبھی سمجھنے میں دقت پیش نہ آئے اوریہی آپ کی مقبولیت کی ایک بہت بڑی وجہ بھی ہے۔

زیرنظرمقالہ میں ڈاکٹرمحمود احمد غازی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کواجاگرکرنے کی سعی کی جائے گی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کی خدمات کا تحقیقی مطالعہ پیش کیاجائے گا۔ اس سے قبل جامعہ پنجاب ،لاہور کے سکالرز نے ڈاکٹر غازی ؒ کی زندگی کے چند پہلوؤں پرتحقیقی مقالات مرتب کیے ،کچھ تحقیقی مجلات مثلاً معارف ، الشریعہ اوراخبارات وجرائد نے خصوصی صفحات واشاعت میں آپ کی زندگی کے نمایاں پہلوؤں کواجاگرکیاجس میں بعض ایسے گوشے نظرآئے کہ جن سے آپ کے قریب رہنے والے بھی بے خبرتھے۔

الغرض ڈاکٹرمحمود احمد غازی کی شخصیت گوناگوں اوصاف کی مرقع تھی، آپ کی علمی ،دینی اورتبلیغی خدمات کواجاگر کرنے کے لیے راقم نے آپ کی شخصیت کواپنی تحقیق کا موضوع بنایا اوردستیاب وسائل کواستعمال میں لاتے ہوئے ایک تحقیقی نوعیت کا کام پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ زیرنظر مقالہ کو چھ ابواب میں تقسیم کیاگیا ہے۔ابواب کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ:

باب اول:

اس باب میں مختصر موضوع کی اہمیت اورپھر اس باب کو دواہم عنوانات میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلے عنوان میں نام ،ولادت،علاقہ،سلسلہ نسب، خاندان کا تعارف، شادی، اولاد کا مختصرتعارف وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔

دوسرے مرکزی عنوان میں سیرت وکردار سے متعلق حلیہ مبارک،مقام ومرتبہ ،تقویٰ ہمدردی وسخاوت،احباب اوردیگرلوگوں سے تعلق،مزاج ،مطالعہ کا شوق وعادت ، نظم وضبط اورصبر وحوصلہ وغیرہ وغیرہ۔

باب دوم:

اس باب میں ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کی ابتدائی زندگی، تعلیم کا حصول ،اعلیٰ ثانوی تعلیم کا حصول،غازی صاحب نے جن اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے اورپھرغازی صاحب نے جن طلباء کوپڑھایا اورآپ کے شاگرد بنے اس باب میں زیربحث آئیں گے۔

باب سوم:

اس باب میں ڈاکٹر صاحب کے مختلف حیثیتوں پر روشنی ڈالی جائے گی کہ آپ کی بحیثیت عالم وفقیہ(فقہ کی تعریف، ضرورت واہمیت،فقہ کے ماخذ وغیرہ) بحیثیت مدرس کہ آپ کا طریقہ تدریس،انداز تفہیم کیاتھا اورآپ اسباق کس انہماک سے پڑھاتے تھے۔اس کے ساتھ ڈاکٹر صاحب اپنی اعلیٰ ذہانت کی وجہ سے بحیثیت قانون دان بھی مانے جاتے تھے اورآپ نے بحیثیت قانون دان جو کارنامے سرانجام دیئے تھے اس پر مفصل بحث کی جائے گی۔

نظم وضبط زندگی کا اہم حصہ ہونے کے ساتھ مشکل ترین بھی ہے کہ آپ اپنی زندگی میں ایک نظم کے پابند ہوتے ہیں اگرچہ یہ مشکل امرہے مگرپھربھی ڈاکٹرغازی اس پہلوپرہمہ وقت عمل کے پابندرہے اورآپ اپنی زندگی کے اسی نظم کے مطابق زندگی کے شب وروز گزارتے تھے۔

درس وتدریس کے ساتھ گہراتعلق ہونے کی وجہ سے آپ ایک اعلیٰ ذہانت کے ماہرتعلیم بھی تھے۔ڈاکٹرمحمود احمد غازی نے پاکستان میں رائج نظام تعلیم پر کھل کر اپنی رائے کا اظہارکیااورمخلصانہ تجاویز بھی پیش کی ہیں خصوصا دینی مدارس کے نظام تعلیم کے بارے میں آپ کی الگ اورمنفرد رائے تھی جو اس عنوان میں تفصیل کے ساتھ درج کی جائے گی۔

باب چہارم:

ہرمسلمان پر دعوت وتبلیغ فرض ہے جس نے بھی کلمہ طیبہ پڑھا اس پر یہ لازمی ہوجاتاہے کہ وہ اس کلمہ کی منہاج نبوی ﷺ کے مطابق تبلیغ کرے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اس فریضہ کی اہمیت کومدنظررکھتے ہوئے دین اسلام کی دعوت وتبلیغ میں مکمل فعال رہے اورہرجگہ ہر مقام پر جہاد باللسان کرتے ہوئے دین اسلام کی حقانیت سے معاشرہ کو آگاہ کرتے رہے اس کے لیے آپ نے ملکوں کے سفرکیے اورپاکستان میں بھی ہرفورم میں دین اسلام اورتعلیمات اسلام کی ترویج واشاعت میں حصہ لیا۔

اس کے علاوہ سرورکائنات ﷺ کی سیرت طیبہ گویا آپ کی رگ وجان میں حلول کرگیاتھا اورہر موقع پر رسول اللہ ﷺ کی سیرت آپ کی حیات مقدسہ کو اجاگرکیا۔

اس راہ حق میں آپ کو مشکلات ومصائب کاسامنابھی کرنا پڑالیکن آپ ڈٹے رہے اورکسی کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر دین اسلام کی اعتدال ،صبروبرداشت اوررواداری پرمبنی تعلیمات کوبیان کرتے رہے ۔گویا خدمت دین آپ کی زندگی کا اصل الاصول تھا۔

 

باب پنجم:

ڈاکٹر محمود احمد غازی کی سرگرمیوں کااگرمطالعہ کیاجائے تو آپ کی زندگی کئی قسم کی سرگرمیوں سے لبریز ہے لیکن اس باب میں ڈاکٹر غازی کی صرف تعلیمی سرگرمیوں کاجائزہ لیاگیاہے جس میں تعلیمی خدمات، ڈاکٹرغازی کی تصنیفات تراجم اورپھر ڈاکٹر غازی کی خدمات پرناقدانہ تبصرہ بھی کیاگیاہے۔

باب ششم:

موت ہر انسان کوآنی ہے چاہے پہلے ہو یابعد میں ،ڈاکٹر غازی طویل مجاہدانہ زندگی گزارنے کے بعد جب اس دارفانی سے داربقاء کی طرف کوچ کرگئے توآپ کی زندگی پر مختلف شخصیات نے اپنی تاثرات کااظہارکیاان میں اہل علم بھی ہیں ، اہل صحافت بھی، اہل وعیال بھی، استاد بھی ، شاگرد بھی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرغٓزی کی زندگی کا ایک اورگوشہ خط وکتابت کابھی ہے آپ نے مختلف اہل علم کو وقتاً فوقتاً خطوط و پیغامات ارسال کیے۔ اس کے علاوہ ایک مشہور اورنامور مفکر ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے خطوط جوانہوں نے ڈاکٹر غازی کو ارسال کیے اوراخبارات ورسائل کے تعزیتی شذرے اس باب میں یکجاکیے گئے ہیں ۔

مقالہ ھذا کے اختتام پر مقالہ کاخلاصہ ،نتائج بحث اوردوران تحقیق جن کتب سے استفادہ کیاگیاہے وہ درج کی گئی ہیں ۔

مقالہ نگار:حافظ عبدالصمد

اصول الدین۔جامعہ کراچی


باب اول

﴿ حالات زندگی ﴾

کوئی بھی انسان جب اس دنیا میں قدم رکھتاہے تو کسی کومعلوم نہیں ہوتاکہ یہ بچہ بڑھاہوکرکیابنے گا ۔کیا کارنامہ سرانجام دے گا۔ کس طرح شہر ت اورمقبولیت کی بلندیوں کوچھوئے گا۔

اس لیے ہر بچہ فطری طورپرپیداہونے کے بعد ماں باپ کی اولین خواہش کے مطابق اس کی تعلیم وتربیت کے لیے سرگرداں ہوتے ہیں اوران کی نظرمیں یہ مقصد پوشیدہ ہوتاہے کہ ہمارابیٹا دنیا کے مختلف حالات میں کہیں گم ہوکرنہ رہ جائے بلکہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے اس کے پاس کوئی چراغ ہواوراوہ اس چراغ سے روشنی حاصل کرتے ہوئے زندگی کے مختلف اورمشکل حالات کاصبر کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے معاشرے میں اپنامقام حاصل کرے۔

اس دوران کوئی بچہ بڑھاہوکر علم کے نور سے منور ہوجاتاہے اورکوئی ابتدا میں یادرمیان میں اس نورسے محروم ہوجاتاہے ۔ جو اس کی زندگی میں اس کے لیے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بڑااچھاانسان بنے اس کی دنیا میں عزت ہو ،حیثیت ہو ،مقام ہو مگرکچھ تومعاشرے کی نظرہوجاتے ہیں اورکچھ جہد مسلسل کے بعد وہ مقام پالیتے ہیں ان میں ایک نام ڈاکٹرمحمود احمد غازی کاہے۔

ڈاکٹرغازی جس دورمیں پیدا ہوئے وہ آج ہی کا دور ہے کوئی قدیم زمانہ نہیں تھا مگرپھر بھی رواداری اورتحمل مزاجی جیسی اخلاقی اقدار تقریبا ناپید ہیں ، تعصب، تنگ نظری اورکوتاہ فکری عروج پر ہے ،مذہبی لحاظ سے ایک دوسرے کی روائے کو برداشت کرنے کا تصورختم ہوچکاہے ،لیکن ایسے حالات میں ڈاکٹرمحمود احمدغازیؒ امتیازی اوصاف کے حامل تھے ، اعتدال پسندی اوررواداری خصوصی طورپر آپ کی شخصیت کا حصہ تھی، مسلکی اعتبار سے یقیناً آپ ایک مسلک کے پیروکار تھے، مگردوسرے مسالک کے بارے میں منفی رائے نہیں رکھتے تھے، اختلاف رائے کومذہب کا حصہ قراردیتے ،لیکن اختلاف برائے اختلاف یا تنقید برائے تنقید کے اصول سے کوسوں دورتھے، فروعی مسائل پر لاحاصل بحث سے گریز کرتے اورایسی محفلوں میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے۔ دراصل ڈاکٹرغازی کی شخصیت ہمہ جہت اورہمہ گیر تھی ۔ آپ ہر وقت اسلام اورمسلمانان عالم کے لیے بے چین رہتے تھے۔ آپ کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ دین اسلام کواس کی حقیقی تعلیمات کے مطابق سمجھنے کے بعد اس کی اشاعت کوطریقہ نبوی کے مطابق عام کیاجائے۔

ڈاکٹرغازی کبھی بھی جذبات کی رومیں بہنے کے بجائے حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک تھے ان کی نظرمیں جذبات وقتی ہوتے ہیں اورایک مسلمان کی جذبات میں آکر کوئی غلطی سے نہ صرف اسلام بلکہ اسلامی تعلیمات پر دھندچھاجاتی ہے۔

اس لیے ڈاکٹر غازی ہمیشہ افراط وتفریط سے ہٹ کر اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرتے تھے اوریہی آپ کی مقبولیت کی بہت بڑی وجہ بھی ہے۔ الغرض اس باب میں ڈاکٹر غازی کی ابتدائی سوانح حیات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

اسم گرامی:

ولادت:

ڈاکٹرمحمود احمد غازی ؒ ۱۸ ستمبر ۱۹۵۰ کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد پاکستانی ہائی کمیشن دہلی میں تعینات تھے۔ چونکہ کسی ملک کا سفارت خانہ اس ملک کی سرزمین ہی تصورہوتاہے ۔ لہذا ڈاکٹرغازی تفاخر سے کہاکرتے تھے کہ میں خالص پاکستانی سرزمین میں پیداہواہوں ۔؂[1] بعض مصنفین نے آپ کی جائے پیدائش کراچی لکھی ہے۔؂[2] جو کہ درست نہیں ہے۔ اسی طرح بعض تحریروں میں آپ کا سن ولادت ۱۹۴۸ء؁ لکھاگیا ہے ؂[3] ،انڈیاکے ایک اخبار کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۱۳ ستمبر ۱۹۵۰ء؁ ہے؂[4] لیکن ایسانہیں ہے۔ بعض محققین نے آپ کی جائے پیدائش رائے بریلی ،اترپردیش ،انڈیاتحریر ی ہے جب کہ آپ کی خاندانی معلومات کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸ ستمبر ۱۹۵۰ء؁ نئی دہلی ہے۔الغرض ڈاکٹرمحمود احمد غازی ؒ کی ولادت ۱۹۵۰ء؁ میں ہوئی۔والدہ محترمہ کا تعلق مشہور ومعروف صدیقی خاندان سے ہے۔؂[5]

سلسلۂ نسب:

ڈاکٹرمحمود احمد غازی کا سلسلۂ نسب کچھ یوں ملتاہے کہ:

محمود احمد بن محمد احمد بن ظریف احمد بن عبداللہ فاروقی۔

ڈاکٹرغازی کے والدین کا تعلق دہلی سے تھا لیکن والد محترم اپنی تعلیم کے سلسلے میں علی گڑھ سے وابستہ تھے۔؂[6]

ڈاکٹرغازی کا تعلق ٹھیٹھ مذہبی خاندان سے تھا۔ سلسلہ نسب ددھیال کی طرف سے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اورننھیال کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتاہے۔ خاندانی روایات کے بارے میں آپ کے بھائی ڈاکٹرالغزالی نے بتایا کہ قرآن حفظ کرنا ہماری خاندانی روایت ہے۔ خاندان کے تمام مرد افراد پر قرآن پاک حفظ کرنا لازمی تصورکیاجاتاہے ، ڈاکٹر الغزالی کے بیٹے سے لے کر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ہر شخص حافظ قرآن ہے۔ آپ کے چچا ، تایا اورکزن سب نے حفظ کی سعادت حاصل کی ،والداوروالدہ دونوں کو مذہبی ماحول وراثت میں ملا تبلیغی جماعت کے بزرگ حضرت مولانا الیاسؒ اورشیخ الحدیث مولانازکریاؒ آپ کی والدہ کے پھوپھاتھے۔؂[7]

خاندان کا پس منظر اورتاریخی پس منظر:

ڈاکٹرمحمود احمد غازی کا اصلی وطن اورخاندانی سلسلہ تھانہ بھون کے ممتاز خاندان سے ہے۔ بچپن کا زیادہ عرصہ کاندھلہ میں ہی گزارا کیونکہ آپ کی والدہ کاندھلہ کے معروف صدیقی خاندان سے تھیں ۔ڈاکٹرموصوف کے ناناقمرالحسن پیشہ کے لحاظ سے حکیم تھے۔ کاندھلہ کے اس خاندان کے جد امجد مولوی رؤف الحسن کاندھلوی تھے جو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے والد ماجد حضرت مولانامحمد یحییٰ اورحضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے حقیقی ماموں تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے۔

مولوی رؤف الحسن بن مولانا ضیاء الحسن صادق بن مولانا نورالحسن بن مولاناابوالحسن بن حضرت مفتی الٰہی بخش کاندھلوی۔

مولوی رؤف الحسن کے پانچ فرزند گزرے۔

۱۔مولاناحکیم نجم الحسن                     ۲۔مولانااحتشام الحق                       ۳۔مولوی حکیم قمرالحسن

۴۔مولانااظہارالحسن                        ۵۔حضرت مولانا اظہارالحسن

تین دخترتھیں ۔

۱۔جویریہ خاتون،زوجہ مولانا محمد الیاس

۲۔امۃ الدیان،زوجہ مولوی ظہرالحسن کاندھلوی

۳۔امۃ المتین،زوجہ اولیٰ شیخ الحدیث مولانامحمد زکریاکاندھلوی

حکیم قمرالحسن کی کوئی پسری اولاد نہ تھی۔ دوبیٹیاں تھیں ۔ بڑی کی شادی تھانہ بھون کے فاروقی خاندان میں مولانامحمد احمدتھانوی سے ہوئی۔ یہی ڈاکٹرغازی کی والدہ ماجدہ ہیں ۔؂[8]

ڈاکٹرغازی کل تین بہن بھائی تھے برادر اصغر محمدالغزالی ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد میں بطورپروفیسر کام کررہے ہیں ۔ آپ بھی مختلف کتابوں کے مصنف ہیں ۔ بہن عذرانسیم فاروقی صاحبہ آپ کی چھوٹی بہن ہیں ۔ رسمی طورپرکسی ادارہ سے تعلیم حاصل نہ کی ، والد محترم سے قرآن پڑھا اورچالیس سال کی عمر میں اپنی مدد آپ کے تحت قرآن پاک حفظ کرلیا۔ اردو،عربی اورانگریزی زبان میں بھی مہارت پیداکی۔ کئی تحقیقی مضامین لکھے۔ ڈاکٹرغازی کے معروف محاضرات کی محرک آپ کی بہن تھیں ۔ ۴۵ سال کی عمر میں ۲۰۰۴ء؁ کو وفات پائی۔؂[9]

اس کے علاوہ ڈاکٹرصاحب کے خاندان کی جن ممتاز شخصیات کا ذکرملتاہے ۔ ان میں مولانامحمد ادریس کاندھلوی ،مولانامحمد علی کاندھلوی اورمولانامحمد مالک شامل ہیں خاندان کی ارادت وبیعت مولانا اشرف علی تھانوی سے تھی۔؂[10]

شادی:

اولاد کا مختصرتعارف:

شادی یعنی نکاح تمام انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام ماسوائے چند کہ سنت رہا ہے اوریہ اس کائنات کے دوام وبقا کافطری طریقہ ہے۔ کیونکہ جائز اورمستحسن طریقے سے نسل انسانی کی پیداواراس رسم سے جڑی ہوئی ہے۔

جس طرح انسان زندگی کوچلانے اورباقی رکھنے کے لیے خوراک کا سہارالیتاہے اس طرح انسان میں خالق کائنات کی طرف سے ایک اورفطری جنسی خواہش رکھی ہے جس کو وہ نکاح مسنون کے ذریعے پوراکرتاہے۔ ایسے ہی جب ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ جوان ہوئے توشادی کی فکرلاحق ہوگئی جو ہر انسان کو ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں آپ کے رشتے کے لیے بھاگ دوڑشروع ہوگئی اوربالآخر ڈاکٹرمحمود احمد غازی نے عائلی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے محبوب کائناتﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔

ڈاکٹرغازی ۱۵ ،اپریل ۱۹۸۰ کورشتۂ ازداج میں منسلک ہوئے جس سے آپ کی پانچ صاحبزادیاں ہوئیں ۔

سیدہ نائلہ غازی:جن کی شادی محمد ہشام سے ہوئی جو میزان بینک کے منیجر ہیں ۔

ماریہ غازی: آپ ابوبکرصدیقی کے نکاح میں آئیں ۔

رملہ غازی: آپ کی شادی ڈاکٹروقاص امین فاروقی سے ہوئی جوآسٹریلیامیں مقیم ہیں ۔

حفصہ غازی: اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد میں ،اصول دین کی طالبہ ہیں ۔

ھالہ غازی: اسلامی یونیورسٹی کے ادارہ اقتصادِ اسلامی میں سال اول کی طالبہ ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد نرینہ عطانہ کی اس لحاظ سے آپ کی نسبت حضرت لوط علیہ السلام وحضرت شعیب علیہ السلام سے ملتی ہے۔؂[11]

اگرچہ ڈاکٹرمحمود احمد غازی کوزندگی میں نرینہ اولاد کی غم شدت سے محسوس ہوئی لیکن آپ نے کبھی اس سلسلے میں زبان سے کوئی شکوہ وشکایت کااظہارنہیں کیااوراللہ کی رضا پر راضی رہے۔

آپ کا یہ طریقہ نرینہ اولاد سے محروم جوڑے کے لیے بھی بہت بڑاسبق ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی دے کرآزماتاہے اورکبھی محروم کرکے آزماتا ہے لیکن کامیاب انسان وہ ہے جو ان دونوں حالتوں میں صبروشکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضاپر راضی رہے۔

ڈاکٹرغازی نے نرینہ اولاد نہ ہونے کے باوجود بیٹیوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اوربیٹیوں کوخداوندکاانعام سمجھتے ہوئے ہمیشہ ان کی بہترین نگہداشت اورپرورش کی۔ اس لیے بیٹیوں کورحمت سمجھتے ہوئے ان کی اسی طرح تربیت کرنی چاہیے جیسے بیٹے کی کی جاتی ہے۔

سیرت وکردار:

حلیہ مبارک:

مقام ومرتبہ:

اخلاق وعادات:

ڈاکٹر محمود احمد غازی علم ومعرفت کی دنیا میں ہمہ جہت شخصیت تھے۔ اصحاب علم ودانش آپ کو ایک جید عالم دین، مفسر،سیرت نگار، مایہ ناز معلم ،مصنف عربی ،فارسی اورانگریزی زبان کے ماہر کی حیثیت سے جانتے ہیں اوریہ مبالغہ آرائی نہیں ، حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب علم ومعرفت کے آسمان پربدرمنیر بن کے چمکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گوناگوں علمی وعملی صلاحیتوں سے نوازاتھا۔ ان کی ان صلاحیتوں کے پس منظر میں ایک قوت کارفرماتھی۔ جس کو قرآن کی زبان میں تقویٰ کہاجاتاہے اورجس میں جس قدرتقویٰ کاجوہرنمایاں ہوگا،اتنا ہی اللہ تعالیٰ اسے علم و معرفت کی دولت سے سرفراز فرمائیں گے۔ فرمان الٰہی ہے:

وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ؂[12]

"اللہ سے ڈرو ،اللہ تمہیں علم عطافرمائے گا۔"

نماز دین اسلام کے ستونوں میں ایک اہم ستون ہے۔ دین اسلام نے ہرمسلمان پرخالق کی بندگی کے لیے پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ قرآن حکیم نے جابجانماز کی تلقین کے ساتھ حکم دیتے ہوئے اس فریضے کی ادائیگی کاحکم دیاہے۔ نماز کی اہمیت کااندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ مسلمان سے مرنے کے بعد روز آخرت نماز کے بارے میں پوچھاجائے گا جس کی نماز پوری ہوگی وہ کامیاب اورجس کی ناقص وہ عذاب الہی کا شکارہوگا اس لیے قرآن مجید میں تقویٰ اختیار کرنے کی پہلی سیڑھی ایمان بالغیب اورپھر نماز کوقرار دیا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

َیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ ؂[13]

"یعنی وہ نماز قائم کرتے ہیں ۔"

ڈاکٹرصاحب نماز باجماعت کابہت اہتمام کرتے تھے۔ ۱۹۸۵ء؁ میں وزارت مذہبی امور ،اسلام آباد کے زیراہتمام کمیونٹی سینٹر اسلام آباد میں ایک نمائش "بسلسلۂ کتب سیرت" کاانعقاد ہوا اوروطن عزیز کی بڑی بڑی لائبریریوں سے کتب سیرت کونمائش میں رکھاگیا۔ یونیورسٹی کی جانب سے جو لوگ خدمت پر مامورتھے، ان میں چند حضرات کے علاوہ میں (راقم الحروف) اورڈاکٹر غازی بھی شریک تھے۔ اکثردیکھنے میں آتاہے کہ لوگ ایسے مواقع پر بروقت نماز اداکرنے کی پابندی نہیں کرتے لیکن میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کسی بھی نماز میں اپنی مصروفیات کے باوجود تاخیرنہیں کرتے تھے اورجب نمازاداکرتے تو اس میں خشوع وخضوع کا خاص خیال رکھتے اورجونہی اذان ہوتی تو آپ کی توجہ مسجد اورنماز کی جانب مبذول ہوجاتی۔ یہ بہت بڑی سعادت اورکامیابی کی دلیل ہے۔

جس شب آپ کودل کادورہ پڑا ،اس رات کو بھی آپ نے نماز عشاء باجماعت اداکی۔ رات ڈیڑھ بجے جب سینے میں درد محسوس ہونے لگا توآپ کے بھائی ڈاکٹرمحمد الغزالی آپ کو ہسپتال لے گئے اورصبح تک علاج معالجہ کی غرض سے ہسپتال میں رہے۔ جب صبح کی اذان ہوئی تو اپنے بھتیجے حمزہ غزالی سے کہا کہ مجھے وضوکرناہے۔آپ کے فرمانبردار بھتیجے نے آپ کوچارپائی پر ہی وضوء کروایا۔ اسی دوران اپنی اہلیہ سے کہا کہ :پاؤں کی ایڑھیاں صحیح طریقے سے دھوئیں ۔ آپ نے چارپائی پر ہی صبح کی نماز اداکی جو کہ آپ کی زندگی کی آخری نماز تھی۔ نماز کے بعد جب درد دل بڑھنے لگاتوآپ کے بھائی نے کہا:مولاناتھانوی ؒ نے دل کے درد کے لیے جو دعالکھی ہے، آپ کو یاد ہے؟ فرمایا: وہی دعاپڑھ رہاہوں ۔ وہ دعا یہ ہے:

اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ ط لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ ط اِنَّہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ؂[14]

ڈاکٹرصاحب اس آیت کریمہ کاورد کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ نے چونکہ ساری عمر نماز اوروظائف کی ادائیگی میں بسرکی، موت بھی آئی تونماز کے بعد اورآیت کریمہ کی تلاوت کرتے ہوئے۔ سچ فرمایا اللہ کے آخری رسول ﷺ نے کہ جس طرح زندگی گزارو گے، اسی طرح موت آئے گی اورجس طرح موت آئے گی ،قیامت کو اسی حال میں اٹھائے جاؤگے۔

ڈاکٹرصاحب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ عرصہ پانچ سال تک فیصل مسجد کے خطیب رہے اورجنرل ضیاء الحق کی نماز جنازہ بھی آپ ہی نے پڑھائی اورمختلف اسلامی ممالک سے آنے والے نمائندوں اورہزاروں پاکستانیوں نے آپ کی امامت میں نماز اداکی۔

قرآن مجید کی تلاوت:

آپ قرآن کی تلاوت کابہت اہتمام کرتے تھے یہاں تک کہ دوران سفر جب جہاز یا گاڑی میں بیٹھتے تو قرآن کی تلاوت شروع کردیتے۔ آپ کے بیگ میں ہمیشہ قرآن مجید کانسخہ موجود ہوتاتھا۔ آپ کی قرآن سے وابستگی کے بارے میں آپ کی مایہ ناز کتاب "محاضرات قرآنی" واضح ثبوت ہے۔

محبت رسول ﷺ:

متقین کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت کے بعد سب سے زیادہ جناب رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے ہیں اوررسول کی اطاعت کواللہ کی اطاعت اوررسول کی محبت کو اللہ محبت تصورکرتے ہیں ۔ ڈاکٹرغازی اپنے اقوال، اعمال اوراخلاق میں محبت رسول ﷺ کو دنیا وآخرت کی کامیابی کا ذریعہ قرار

احترام رمضان:

رمضان المبارک کا بہت احترام اورروزے کا پابندی سے اہتمام فرماتے اورماہ رمضان میں گھر پر قرآن شریف سناتے تھے۔ ایک دفعہ ماہ رمضان میں ، میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب ! روزے کیسے جارہے ہیں ؟ کہنے لگے، اللہ کاکرم ہے ،بہت اچھے جارہے ہیں ۔ میں نے دوبارہ سوال کیا کہ منزل سنارہے ہیں ؟ تو کہنے لگے:"مجھ جیسے نالائقوں کا کیا سنانا ہے" یہ کہہ کر کچھ آبدیدہ سے ہوگئے جو کہ ان کی رقت قلبی اورجذبہ ایمانی کی دلیل ہے۔) بس گزارہ ہوجاتاہے ،منزل تراویح میں سنادیتاہوں ۔" اس واقعہ سے رمضان کے احترام ،خشیت الٰہی اوررات کے قیام کا آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں ۔

حج کی ادائیگی:

ڈاکٹر صاحب مرحوم کوحرمین شریفین سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ نے متعدد عمرے اورنوحج اداکیے۔ قارئین کرام یہ پرھ کر حیران ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب کو بانی پاکستان اورمصور پاکستان سے اس قدر محبت تھی کہ آپ نے ایک حج قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی طرف سے اورایک حج علامہ محمد اقبالؒ کی طرف سے اداکیا اورمیرے علم کے مطابق یہ شرف صرف اورصرف ڈاکٹرصاحب ہی کوحاصل ہے۔

گیس ضائع نہ کریں :

ڈاکٹر صاحب کے ایک شاگرد جو کہ اب خود بھی ماشاء اللہ ڈاکٹر ہیں یعنی ڈاکٹر شیخ تنویر احمد(اسسٹنٹ پروفیسر،اسلامک یونیورسٹی) ایک دن ڈاکٹر صاحب کے تقویٰ کاایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے کہ:

"ڈاکٹر غازی کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ آپ نے کلاس روم میں سوئی گیس کے ہیٹرکاپائلٹ جلتاہوادیکھاتوکہنے لگے،اگرضرورت نہیں ہے توپائلٹ بندکردیاجائے۔یہ قومی ملکیت ہے اورگیس ضائع ہورہی ہے۔ آپ خود اٹھے اورپائلٹ بندکردیا۔"

 

غصہ کی حالت میں وضو:

ڈاکٹرصاحب کے پی اے عابد علی (جودفتری معاملات میں آپ کی معاونت کرتے) کاکہناہے کہ اگرکسی معاملے میں ڈاکٹر صاحب کو غصہ آجاتا تو جوابی کاروائی کرنے کی بجائے آپ فوراً وضو کرنے لگتے اورتھوڑی ہی دیر بعد طبیعت میں بشاشت پلٹ آتی۔ علاوہ ازیں آپ دفتری اوقات میں بھی ہمیشہ باوضورہتے اوراگرکوئی آپ کے سامنے آپ کی تعریف کرتاتوانتہائی ناپسندیدگی کااظہارکرتے۔

ہمدردی وسخاوت:

احباب سے تعلق:

مستقل مزاجی:

جب انسان شہرت کی بلندیوں کوپالیتاہے اورعنداللہ مقبول ہوجاتاہے توکچھ لوگ اپنے مفاد کے لیے اورکچھ مفاد عامہ کے لیے اس فرید کو خریدنے اورطرح طرح کی پیشکش کرنے لگ جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرصاحب کی خداداد صلاحیتوں کوبھانپ کر بہت سے لوگوں نے آپ کو خریدنا چاہا مگرآپ نے ہر پیش کش کوٹھکرادیا اور قرآن حکیم کی اس آیت کی عملی تصویر بنے رہے۔ فرمان الٰہی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔؂[15]

ترجمہ:"بے شک وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے۔"

کا دامن مضبوطی سے تھام لیا کہ بادِ مخالف کے تندوتیز جھونکے آپ کے پائے استقامت کومتزلزل نہ کرسکے اور"قل آمنت باللہ ثم استقم"کا عملی نمونہ پیش کیا۔اس ضمن میں ڈاکٹر کی ایک علمی تقریر سے جس کا عنوان "اسلام اورمغرب۔۔۔۔موجودہ صورتحال" ہے، ان کی استقامت کا ایک قابل تقلید واقعہ پیش کیاجاتاہے۔ آپ نے دوران تقریر میں کہا:

"اکتوبر ۱۹۷۴ء؁ میں ایک پروفیسر صاحب امریکہ سے تشریف لائے۔ وہ ایک مشہور امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف اداروں کادورہ کیا۔ وہ ادارہ تحقیقات اسلامی میں بھی آئے۔ میں اس زمانے میں ادارہ تحقیقات اسلامی میں کام کرتا تھا۔ نوجوان تھا، مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہوچکاتھا۔ عربی اچھی جانتاتھا،انگریزی سے بھی شدبدہوگئی تھی۔تھوڑی بہت فرنچ بھی میں نے سیکھ لی تھی۔ وہ پروفیسر صاحب بہت لوگوں سے ملے ، مجھ سے بھی ملے۔ مجھ سے ملنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں الگ سے گفتگو کرناچاہتاہوں ، تم مجھ سے ملنے کے لیے آؤ۔ میں ان سے ملنے چلاگیا۔ دوران ملاقات انہوں نے کہا ، میں تمہیں اسکالرشپ دیناچاہتاہوں امریکہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے۔ تم امریکہ کی جس یونیورسٹی میں چاہو، میں تمہیں اسکالرشپ دے سکتاہوں ۔ میں نے سنا ہواتھا کہ ہارورڈ صف اول کی یونیورسٹی ہے اورایم آئی ٹی ہے اورپرسٹن ہے، تین یونیورسٹیوں کا بڑاچرچاتھا، اس لیے میں نے ان کا نام سنا ہواتھا۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے ہارورڈ میں داخلہ دلوادیں ۔انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے: میں تمہیں ہارورڈ میں داخلہ دلوادوں گا۔ کام یہ ہوگا کہ تم ایک سال کے لیے امریکہ آؤ ،ہارورڈ یونیورسٹی میں کورس ورک کرو، پھر میرے پاس آؤ۔تین مہینے میرے پاس کورس ورک کرو، پھر واپس پاکستان آجاؤ۔ انہوں نے جو نقد وظیفہ بتایا وہ اتناتھا جتنا اس وقت حکومت پاکستان کے سیکرٹری کوبھی تنخواہ نہیں ملتی تھی، کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو بھی نہیں ملتی۔پاکستان میں رہ کریہ وظیفہ ملناتھا۔انہوں نے بتایا کہ کام یہ ہوگا کہ پاکستان میں رہ کریہ معلومات جمع کرو کہ پاکستان میں دینی مدارس کیاکام کرتے ہیں ، کتنے دینی مدارس ہیں ؟کون کون علمائے کرام ان کو چلارہے ہیں ،وہ کیاکیاپڑھاتے ہیں ،کیا ذہن بناتے ہیں ؟ اورجولوگ ان سے تیار ہوتے ہیں ، وہ بعد میں کیا کام کرتے ہیں اور ان کا رویہ مغرب کے بارے میں کیساہوتاہے؟ یہ ساری معلومات جمع کرکے آؤ، پھر میرے ساتھ بیٹھ کراس کو مرتب کرو، اس کی بنیاد پر تمہیں ہارورڈ یونیورسٹی پی ایچ ڈی کی ڈگری دے دے گی۔ سچی بات ہے، میں اللہ تعالیٰ کی تحدیث نعمت کے طورپر عرض کرتاہوں کہ مجھے اس وقت یہ لگا کہ یہ توصاف صاف جاسوسی کاکام ہے۔ دوران گفتگو پروفیسر صاحب نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کا ایک پروجیکٹ مصر کے لیے ہے، ایک بنگلہ دیش اورانڈونیشیا کے لیے ہے۔ اب یہ چار بڑے ملک جوآبادی کے لحاظ سے صف اول کے ممالک تھے، جہاں دینی تعلیم کا پرائیویٹ نظام بڑا غیرمعمولی تھا، وہاں کے لیے یہ کیوں تحقیق ہورہی تھی؟ اس پر لاکھوں روپے کے یہ مصارف کیوں کرائے جارہے تھے؟ میں نے کوئی ذاتی عذربیان کرکے معذرت کرلی کہ میں سردست امریکا نہیں جاسکتا، لیکن اس وقت میں جب بھی اس نوعیت کے مختلف معاملات کودیکھتارہتاہوں تومجھے یہ لگتاہے کہ مغربی دنیا کم ازکم ۱۹۷۴ء؁ سے اس نکتہ پر سوچ رہی تھی کہ دنیائے اسلام میں دینی تعلیم کا مستقبل کیاہے،ماضی کیاتھا اورحال کیاہے؟ اب پچھلے آٹھ دس سال سے اس میں زیادہ شدت آگئی ہے۔"؂[16]


باب دوم

﴿ تعلیم وتعلم

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل وشعور عطاکرکے تمام حیوانات سے ممتاز کیاہے اور یہ امتیاز انسان کو اللہ رب العزت کی طرف بذریعہ علم عطاکیاہے کیونکہ علم انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی اورگمراہی سے نکال کر ہدایت کی طرف لے جاتاہے اس لیے علم کی فضیلت واہمیت بیان کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتاہے کہ علم کا لغوی واصطلاحی مفہوم واضح کردیا جائے ۔ لغت کے اعتبار سے علم سہ حرفی لفظ ع۔ل۔م کا مجموعہ ہے اسی سے تعلیم ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کا ادراک کرنا، صاحب منجد کہتے ہیں کہ "معرفۃ الاشیاء بحقائقھا" حقیقت شئ کا ادراک اور یقین و معرفت۔ علم رکھنے والے کو عالم کہتے ہیں ۔ تعلیم کا مطلب ہے علم سیکھنا اورسکھانا (عَلَّمَ یُعَلِّمُ تَعۡلیۡماً)معلم سکھانے والے کواور متعلم سیکھنے والے کو کہتے ہیں ۔"؂[17]

ابن منظور "لسان العرب" میں علم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :

"العلم نقیض الجھل عَلِمَ علماً وعلم ھونفسہ"؂[18]

"علم جہالت کی ضد ہے، علم کے معنی سیکھنے سکھانے کے ہیں اوراپنے نفس کو جاننا۔

راغب اصفہانی علم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:

"العلم ادراک الشئ بحقیقتہ وذلک ضربان احدھما ادراک ذات الشئ والثانی الحکم علی الشئ بوجود شئ ھوموجود لہ او نفی شئ ھو منفی عنہ۔"؂[19]

"علم کسی شئ کے حقیقت کے ادراک کوکہتے ہیں اورعلم کی دوقسمیں ہیں ۔ کسی شئ کی ذات کا ادراک اوردوسراکسی چیز پر کسی چیز کی موجودگی کے سبب حکم لگانا جوموجود ہو یانفی کرنا بوجہ منفی ہونے کے۔"

قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لفظ علم ۸۰ مقامات پر معرفہ اورنکرہ استعمال ہواہے جب کہ اس سے بننے والے الفاظ علم یعلم یعلمون ،علم یعلم علیم اورعلامہ وغیرہ تو سینکڑوں بارآئے ہیں ۔ قرآن حکیم میں لفظ عقل اسم یا مصدر کے طور پر کہیں استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس کا متبادل لفظ"الالبال" سولہ (۱۶) اورالنہی دو(۲) مقامات پر عقل کے معنی میں آیاہے۔ قرآن پاک میں لفظ عقل کے مشتقل بھی اننچاس(۹۴) مرتبہ استعمال ہوئے ہیں ۔ اسی طرح لفظ فکر کے مشتقات اٹھارہ(۱۸) مرتبہ ،فقہ کے اکیس(۲۱)،حکمت کے بیس(۲۰) اورلفظ برھان دیگرالفاظ کی طرف منسوب ہوتے ہوئے اوربدون نسبت کے سات(۷) مقامات پر آیا ہے۔ یہ الفاظ ان الفاظ کے علاوہ ہیں جن کا استعمال علم اورفکر کی جگہ ہوا جیسے انظروا (غورکرو) ینظر (بغوردیکھتے ہیں )وغیرہ۔؂[20]

ماہرین یورپ علم کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں ۔

It denotes an attempt on the part of the adult members of a human society to shape the development of the coming generation in accordance with its own ideals of life. ؂[21]

"علم کسی انسانی معاشرہ کے سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کی ان کوششوں کا نام ہے جو وہ اپنے تصورحیات کے مطابق اپنی آئندہ نسل کی ترقی کی تشکیل کے لیے کرتے ہیں ۔"

مذکورہ بالا مفہوم کے تناظرمیں یہ کہاجاسکتا ہے کہ علم کا مفہوم صرف آگہی ہی نہیں ہے بلکہ حیات انسانی میں تغیرات کی سبیل کا جاننا بھی اس ضمن میں آتاہے ۔ کیونکہ جب تک علم اپنے حقیقی معنوں میں اجاگر نہیں ہوگا اس وقت تک اپنی اہمیت، افادیت اورنفع نقصان کو بھی واضح نہیں کرسکے گا لہذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ معلومات کا صحیح مفہوم جاننے ہی کی وجہ سے حیات انسانی پر کسی بھی قسم کی مثبت یا منفی تبدیلی کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔

مفہوم تعلیم:

"علم یعلم تعلیماً مصدر ہے ، جس کے معنی ہیں انسان کو سکھانا ، مہذب بنانا اورشائستہ اطوار کا پابند بنانا۔ (۱) تعلیم فطری تقاضوں کے مطابق نمو کانام ہے۔(۲) اپنی معلومات متعلم تک منتقل کرناتعلیم کہلاتا ہے۔ تعلیم اخلاق کی تعمیر وتشکیل کا نام ہے ۔ تعلیم سے مراد ہے :

الف۔ معلومات پہنچانا          ب۔ مہارت پیداکرنا                       ج۔ اچھے کردار وسیرت کی تشکیل اسلام نے جہالت کے مقابلہ میں ہمیشہ علم کواہمیت وفوقیت دی ہے اورجہالت سے نفرت کا اظہارکیاہے اورایسابایں وجہ ہے کہ اسلام ایک عقلی و شعوری دین ہے جو انسانی زندگی میں ارتقاء کوجاری و ساری رکھنے کے اصول رکھتا ہے لہذا اسلامی تعلیمات کے مطابق بقاء انسانی کا راز شعور آگہی میں ہے جو کہ علم کی بدولت ہی حاصل ہوسکتی ہے، اسی لیے اسلام نے ہمیشہ جہالت کے خلاف جدوجہد کانظریہ دیاہے اور علم والوں کو ہی ہمیشہ اہمیت و فوقیت دی ہے۔"؂[22]

القصہ معلوم ہوا کہ تعلیم کے وسیع ترمفہوم میں وہ تمام معلومات وتجربات شامل وشمار ہوتے ہیں جو" من المھد الی اللحد"(گود سے گورتک) ہر فرد باضابطہ یا بے ضابطہ رسمی یا غیر رسمی طورپر خود سے حاصل کرتاہے یا اسے حاصل کروایا جاتاہے۔"؂[23]

علم انسان کو چونکہ روشنی اورہدایت کی طرف لے جاتاہے جب کہ اس کے بالمقابل جہالت اندھیروں اوربدتہذیبی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈال دیتی ہے۔ لہذا اس کا نتیجہ ہے کہ جہالت کے نتیجہ میں جو معاشرے وجود میں آتے ہیں وہ انسانی معاشرے نہیں کہلاسکتے یعنی ان معاشروں کی حالت گویا حیوانات کے باڑوں اورجنگلوں کی مانند ہے اسی بات کو قرآن یوں بیان کرتاہے۔

اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَ هُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ ط اِنْ هُمْ اِلَّا کَا لْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِيْلاً ؂[24]

"کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے ہیں یا کچھ سمجھتے ہیں نہیں ہیں یہ مگر چوپایوں کی مانند بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ۔"

متذکرہ بالا بحث اوردرج بالا حوالہ جات سے یہ حقیقت بھی بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ علم ہی وہ نابغۂ روزگار ہے جس کی بدولت انسان کو اورانسانی شعور کو بلند مرتبہ کا حصول ہوتاہے اوریہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علم کی بدولت ہی اہلِ علم کائنات اوراس کے رب کو سمجھ پاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک بہترین سماجی زندگی کی داغ بیل پڑتی ہے اورتہذیبی وتمدنی ترقی و عروج حاصل کیاجاسکتاہے۔ قرآن نے علم کی فضیلت و اہمیت کواجاگرکرتے ہوءے اس قدر التزام اوراہتمام برتاہے کہ نبی علیہ السلام کی حیثیت کوہی بطورمعلم واضح کیاہے اورآپ علیہ السلام کے فرائض منصبی میں تعلیم کو بھی شامل کیاہے چنانچہ ارشاد ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْاعَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَکِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ۔؂[25]

"البتہ تحقیق اللہ نے مؤمنین پر احسان کیا کہ ان میں الٰہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا، جو ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتاہے، ان کا تزکیہ کرتاہے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے۔"

آیت متذکرہ بالا نبی علیہ السلام کو بطورمعلم متعارف کرارہی ہے اورتعلیم کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کے فرائض منصبی میں تزکیہ نفس کو بھی شامل کررہی ہے اوردوسرااہم ترین فریضہ"تزکیہ نفس" بیان کررہی ہے ۔ تزکیہ نفس سے مراد دل کی پاکیزگی اورتربیت کا نظام ہے جس میں تدریجاً نفس میں طہارت وپاکیزگی کوپروان چڑھایاجاتاہے اورشرور وسیّاٰت سے دورکیاجاتاہے بایں طور کہ نفس و قلب اپنی فطری حالت پرمحفوظ رہتے ہیں اوران میں کسی قسم کابگاڑ نہیں رہتا۔ عرب عالم عبدالرحمٰن نحلاوی اپنی کتاب میں اس بابت تحریر کرتے ہیں :

"التزکیۃ التنمیہ والتطہیر والسُّموّ باالنفس اِلٰی بارئھا وابعادھا عن الشرور المحافظۃ علی فطرتھا۔"؂[26]

انسان کی اصلاح کے لیے صرف تعلیم کافی نہیں ہے بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا ہونا بھی ضروری ہے گویا تعلیم بدون تربیت بے معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے نبی علیہ السلام کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کافریضہ بھی سپرد کیا اورتزکیہ نفس کوتعلیم کا مقصد قراردیا۔ اللہ نے انسان کے دل میں فسق وفجور اورتقویٰ ونیکی دونوں کا الہام پیدا کیاہے اوراس کے بعد انسان کو ایک خاص حد تک اختیار دے دیا کہ وہ اپنے اختیار سے راہِ معصیت اختیار کرے یا صراطِ مستقیم کا راہی بن جائے اب جب وہ اپنے اختیار سے ان دونوں میں سے کوئی راہ اختیار کرتاہے تو اسی اختیار پر اسے ثواب یا عذاب ملتاہے ۔ قرآن اس بابت کہتاہے:

"نَفْسٍ وَّمَاسَوّٰئهَا ۔فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰئهَا ۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰئهَا "؂[27]

یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ انسانوں میں سب سے زیادہ مکمل و جامع اورمتوازن ومعتدل اسوۂ حسنہ نبی علیہ السلام کی ذات مبارکہ ہی ہے اور یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ قیامت تک آنے والے انسانوں میں جس کی زندگی آپ علیہ السلام کے اسوۂ حسنہ سے قریب ترین ہوگی فلاح و نجات اسی قدر اس کا مقدرہوگی۔ کیونکہ ہم منشورحیات(قرآن مجید) کے بارے میں یہ بھی جانتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے قرآن کو کسی مخصوص علم کی کتاب نہیں سمجھا بلکہ اس کی فکر پر آپ نے ایک انقلابی جماعت کی تشکیل کی اوراسی کی فکر پر آپ علیہ السلام نے معاشرے کے اس طبقۂ فکر کے افکار ونظریات کے خلاف جدوجہد کی داغ بیل ڈالی جو انسان اورانسانیت کی تباہی کاباعث بنتاجارہاتھا۔"؂[28]

اسلام میں علم کی ضرورت دین و دنیا دونوں کے لیے مسلم ہے اس حوالہ سے سید محبوب حسن نہایت خوبصورت انداز سے اسلام میں علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :

"حصول علم کے بارے میں اسلام کا نکتہ نظر انتہائی وسیع اورہمہ گیر ہے علم دنیا کے لیے بھی ضروری ہے کہ اوردین کے لیے بھی ، علم انفرادی عزت و عظمت کے لیے بھی ضروری ہے اوراجتماعی عزت وعظمت کے لیے بھی، علم سے افراد کی شرافت و تہذیب بھی ہے اورملی شرافت اورتہذیب بھی، علم صحیح عقائد ،عبادات ومعاملات کے لیے بھی ضروری ہے اورحقوق وفرائض واخلاق کے لیے بھی۔ علم دنیوی ترقی کا زینہ بھی ہے اورحکمت وعرفان کاقرینہ بھی، علم خداپرستی اوراطاعت شعاری بھی سکھاتا ہے اورمختلف انسانی صلاحیتوں کوجلابھی بخشتا ہے۔"؂[29]

اسلام میں علم اورتعلیم مقصودِ حیات ہے نہ کہ وسیلہ۔ اسلام کی خصوصیت ہے کہ اسلام نے علم کو ہمیشہ مقصد سمجھا نہ کہ وسیلہ کیونکہ اسلام کا نکتہ نظر یہ ہے کہ "تعلیم کا اصلی مقصد صرف انسانی پیدائش کے منشاء کو پوراکرنا، اچھے اخلاق سے آپ آراستہ ہونا اوردوسروں کو آراستہ کرنا، اپنے علم کی روشنی سے جہل اور نادانی کے اندھیروں کودورکرنا، نہ جاننے والوں کو سکھانابھولے بھٹکوں کوراہ دکھانا حق کو پھیلانا اورباطل کو مٹانا ہے۔"؂[30]

اہمیت علم اورحدیث:

احادیث نبویہ ﷺ میں جب ہم علم کی اہمیت کے حوالہ سے تتبع کرتے ہیں تو ہمیں نظرآتاہے کہ نبی علیہ السلام نے اپنے صحابہ کو علم کی اہمیت اورقدرومنزلت اجاگرکرتے ہوئے فرمایا:

"تعلمواالعلم وعلموہ الناس۔"؂[31]

خود بھی علم سیکھو اوردوسروں کو بھی علم سکھاؤ۔"

نبی ﷺ اپنی بعثت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے اہم ترین مقصد بعثت معلم کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

"انما بعثت معلما۔"؂[32]

"مجھے توسکھانے والا ہی بناکر بھیجاگیاہے۔"

"بعثت لاتمم حسن الاخلاق۔"؂[33]

"مجھے اس لیے بھیجاگیاہے کہ میں بہترین اخلاق کی تکمیل کروں ۔"

یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ انسان کی اخلاقی اورروحانی ترقی علم کی پیدوار سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسا عملی ماحول جہاں تربیت کا عملی نظام موجود ہو کیونکہ علم توکتابیں دیتی ہیں لیکن تربیت استاد کرتاہے۔ لہذابچوں کی اورمتبعین کی اخلاقی تربیت کے لیے استاد کاہونا ضروری ہے اوراستاد بھی وہ جو اپنی ذمہ داریوں کوبطریق احسن اداکرسکے اس لیے کہ استاد ایک طرح سے والد کے مقام پر ہوتاہے۔ جیسے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:

"انی انالکم مثل الوالد۔"؂[34]

"میں تمہارے لیے والد کی طرح ہوں ۔"

اورچونکہ معاشرتی ترقی وارتقاء کاراز حصول علم ہی میں پوشیدہ ہے اس لیے آپ علیہ السلام حصول علم کو فرض قراردیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

"طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ۔"؂[35]

"علم کا حصول ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔"

علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ایک موقعہ پر آپ علیہ السلام نے فرمایا:

"انما العلم ایۃ محکمۃ اوسنہ قائمۃ اوفریضۃ عادلۃ۔"؂[36]

"علم توآیات محکمات ،سنت قائمہ یا فریضہ عادلہ ہے اس حدیث کے ذیل میں امام غزالی نے علوم کو فرض عین اورفرض کفایہ میں تقسیم کیا ہے۔ آپ تحریر کرتے ہیں :

"فرض عین تو معرفت الٰہی پر مبنی علوم ہیں ۔ جب کہ فرض کفایہ سے مراد وہ علوم ہیں جو انسان کی مختلف ضرورتیں پوری کرتے ہیں مثلاً طب،زراعت وغیرہ۔ معاشرہ میں کچھ لوگ ضرور ایسے ہونے چاہیئے ہیں جو ان کی تحصیل کریں وگرنہ توپورامعاشرہ گنہگار ہوگا۔"؂[37]

نبی علیہ السلام نے اپنی حیثیت کو بطورمعلم واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

"ان اللہ لم یبعثنی معنقا ولامتعنقا ولکن بعثنی معلما میسرا۔"؂[38]

"یقیناً اللہ نے مجھے لوگوں پر سختی کرنے والا وعجب چین(نقطہ چین) بناکرنہیں بھیجا بلکہ مجھے آسانی والا معلم بناکرمبعوث فرمایا۔"

اسی طرح آپ علیہ السلام نے صحابہ کو بھی ہمیشہ اس بات کی تلقین فرمائی کہ لوگوں پر آسانی کریں ۔ ان کو تنگی اورسختی میں نہ ڈالیں ۔ یعنی اشاعت علم میں نرمی اختیارکریں ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:

"علموا ویسروا ولاتعسروا واذاغضب فاسکت"۔؂[39]

"تم تعلیم دو اورآسانی پیداکرو اورتنگی نہ کرو، جب کوئی غصہ میں ہوتو اسے خاموش ہوجانا چاہئے ۔"

"عن انس بن مالک : قال جاء رجل الی رسول اللہ ﷺ فقال: یارسول الہ ای الاعمال افضل؟ قال:قال : العلم باللہ عزوجل قال: یارسول اللہ ای الاعمال افضل؟ قال:قال : العلم باللہ عزوجل قال: یارسول اللہ ای الاعمال افضل؟ قال:قال : العلم باللہ عزوجل قال: یارسول اللہ اسئلک عن العمل وتخبرنی عن العلم فقال رسول اللہ ﷺ ان قلیل العمل ینفع مع العلم وان کثیر العمل لاینفع مع الجھل۔"؂[40]

"حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیااورپوچھا کہ کونسے اعمال افضل ہیں ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کا علم، حتی کہ اس شخص نے نبی علیہ السلام سے دومرتبہ یہی سوال کیا اورآپ نے ہرمرتبہ یہی جواب فرمایا پھر وہ نبی علیہ السلام سے بولا میں آپ سے افضل عمل کی بابت دریافت کرتاہوں جب کہ آپ مجھے علم کے متعلق جواب مرحمت فرماتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ تھوڑا سا عمل جو علم کے ساتھ ہو وہ اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو نفع دیگا لیکن جہل کے ساتھ کیاگیا عمل جو اگرچہ زیادہ ہی کیوں نہ کچھ سود مند نہ ہوگا۔"

امام رازی اس بابت صراحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیاگیا کہ علم کیاہے؟ فرمایا: دلیلِ عمل۔عرض کیا کہ عقل کیاہے فرمایا: بھلائی کی راہنما۔"؂[41]

ابتدائی زندگی:

بچپن میں ڈاکٹر غازی کی زبان میں معمولی سی لکنت تھی، جو شاید بعد میں بھی قائم رہی۔لکنت کی وجہ سے بچپن میں پڑھنے میں دشواری ہوتی حفظ قرآن کے لیے جب آپ کے والد آپ کو مدرسہ میں داخلہ کے لیے لے کرگئے توقاری حضرات آپ کی لکنت کے باعث مایوس ہوگئے لیکن ڈاکٹر صاحب نے کمال محنت کے ساتھ اس دشواری پر قابو پایا اورحفظ مکمل کیا۔

تعلیم وتربیت:

تعلیم وتربیت کا ہمیشہ ساتھ رہاہے کیونکہ علم تربیت کے بغیر اورتربیت علم کے بغیر بے فائدہ ہے اس لیے تعلیم وتربیت کاایک ساتھ ہوناضروری ہے جب ہی انسان انفرادی و اجتماعی زندگی میں کامیاب ہوسکتاہے گوڈاکٹرغازی علم و تربیت دونوں سے آراستہ تھے کیونکہ آپ کے والد محترم ایک مذہبی شخصیت کے مالک تھے، لہذا اپنی خاندانی روایات کے پیش نظر ڈاکٹر صاحب کی دینی تعلیم کا خصوصی اہتمام کیا۔ آپ کی تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کاندھلہ میں اپنی نانی صاحبہ کے پاس رہتے تھے۔ اس قیام کے دوران مولاناصدیق احمد کے مدرسہ میں داخلہ لیا اورحفظ قرآن کے لیے حافظ عبدالعزیز کی شاگردی اختیار کیا۔؂[42]

کراچی میں قیام کے دوران بھی حفظ قرآن کا سلسلہ جاری رہا یہاں قاری وقاء اللہ پانی پتی اور حافظ نذیر احمد سے نوعمری میں حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ آپ کی عمر تقریباً نو سال تھی۔؂[43]

حفظ قرآن ایک نعمت کے ساتھ ایک عظیم شان رکھتی ہے کیونکہ کتاب اللہ خاص اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اوریہ سعادت ملنے کے بعد خالق بھی بندے سے راضی اورخوش ہوتے ہیں اورجب اس کی تعلیمات پر عمل کیاجائے یعنی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کوحرام اور حلال کردہ چیزوں کوحلال سمجھے تو یہ دنیوی سعادت کے ساتھ اخروی سعادت کابھی ضامن ہے۔

اعلیٰ تعلیم:

تعلیم ایک ایسا سلسلہ ہے کہ جو مستقل جاری رہتاہے اورکبھی ختم ہونے والانہیں کیونکہ دنیامیں اورنئی نئی ایجادات اورنئے نئے مسائل کاسامناکرناپڑتاہے ۔ اس لیے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد اگلا مرحلہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کاہوتاہے۔ ڈاکٹرمحمود احمد غازی رحمہ اللہ نے فارسی کی ابتدائی کتب والد صاحب سے گھرمیں پڑھ لیں تھیں ۔ بعد میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے باقاعدہ طورپر مدرسہ عربیہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا۔ درس نظامی کی ابتدائی کتب یہاں سے مکمل کیں ۔جامعہ اشرفیہ لاہور سے بھی درس نظامی کاکچھ حصہ پڑھا اس کے بعد شیخ القرآن مولاناغلام اللہ خان کے مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں داخلہ لیا۔ ١٩٦٦ء میں درس نظامی یہاں ہی سے مکمل ہوا، قرآن پاک کی تفسیر کے لیے شیخ القرآن سے استفادہ کرنے کاموقع بھی میسرآیا۔

مدرسہ تعلیم القرآن میں ان دنوں دورہ حدیث پشتومیں ہواکرتاتھا۔ کیونکہ طلبہ کی اکثریت پختون تھی پشتوذریعہ تعلیم ہونے کے باعث ڈاکٹر صاحب کو دشواری کاسامنا کرنا پڑتاتھا۔ لیکن آپ کی درخواست پر دورہ حدیث عربی میں شروع ہوا تو چند طلبہ نے اعتراض کیا۔ لیکن چونکہ کتب عموماً عربی زبان میں تھیں جس کی وجہ سے ان کے اعتراضات کاجواز نہ تھا احادیث کی کتب سنن ابی داؤد اورموطاامام مالک ،مولاناعبدالشکور کامل پوری سے پڑھیں ۔؂[44]

درس نظامی کی کامیاب تکمیل کے بعد فارسی آنر کا امتحان ١٩٦٨ء میں امتیازی نمبروں سے پاس کیا اورگولڈ میڈل کے حقدار قرارپائے۔؂[45]

فارسی زبان میں دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنی محنت اورکوشش سے اتنی مہارت حاصل کرلی کہ شعروشاعری کے لیے فارسی زبان کو استعمال کیا۔ آپ کی کئی نظمیں ماہنامہ "تحقیقات" ایران پاکستان ریسرچ سینٹر اسلام آباد میں شائع ہوئیں ۔؂[46]

عصری تعلیم:

اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ اعلیٰ عصری تعلیم بھی وقت اورزمانہ کی ضرورت ہے اس لیے ڈاکٹر غازی نے عصری تعلیم میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اوراپنی تعلیم بطور پرائیویٹ امیدوار کے میٹرک اورایف اے کاامتحان اپنی مدد آپ کے تحت پاس کیا۔ دریں اثناء آپ نے درس وتدریس کاآغاز سترہ سال کی عمرمیں کیا۔ لیکن علم کی پیاس ابھی باقی تھی چنانچہ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اپناتعلیمی سفربھی جاری رکھااورپنجاب یونیورسٹی لاہور سے ١٩٧٢ء میں ایم اے عربی اور ١٩٨٨ ئ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔؂[47]

آپ کی تعلیم و تربیت کاسلسلہ زندگی بھر رسمی وغیررسمی انداز میں جاری رہا، تدریس کے شعبہ سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ لائبریری جانا آپ کا معمول تھا۔ عربی، فارسی اورانگریزی زبانوں پرمشتمل کتب کے مطالعہ کاشو ق تھا۔ ان زبانوں پر از خود عبور حاصل کیا انگریزی زبان میں مہارت کا یہ حال تھا کہ آپ نے پی ایچ ڈی کا مقالہ انگریزی زبان میں پیش کیا۔

مطالعہ میں قانون اورفقہ خصوصی دلچسپی کے مضامین تھے، شعبہ قانون کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں ۔ FEL کا امتحان پاس کیا۔ ایل ایل بی میں بھی داخلہ لیا لیکن ناگزیر حالات کی بناء پر ایل ایل بی کے امتحان کے دوپرچوں میں شرکت نہ کی جس کی وجہ سے امتحان ادھورا رہ گیا۔؂[48]


باب سوم

﴿ شخصیت کے مختلف پہلو

انسان کی زندگی میں کئی سارے مثبت اورمنفی پہلو ہوتے ہیں بعض اوقات مثبت پہلو منفی پہلوپر غالب ہوتے ہیں اورکبھی منفی پہلو مثبت پہلوؤں پرغالب آجاتے ہیں لیکن اس دنیا میں ایسےانسان بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی کامطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو ان کی زندگی میں منفی پہلوؤں کا سرے سے وجود نہیں ہے یا ان کے زندگی کے مثبت پہلوؤں نے منفی پہلوؤں کو چھپالیا ہے۔ ان ہی اشخاص میں سے ایک شخصیت ڈاکٹرمحمود احمد غازی رحمہ اللہ کی ہے۔

ڈاکٹرمحمود احمد غازی کی زندگی بڑی جدوجہد اورمصروفیت سے عبارت ہے کیونکہ علم کو آپ نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیاتھا اوراس کی گہرائی میں اترگئے تھے اس لیے ذہن وقلب میں کبھی منفی پہلوکا خیال یاآیانہیں یا اس کودبالیاتھا۔ آپ کو جب بھی کسی نے پایاتوآپ ہمیشہ کسی نہ کسی سوچ میں ۔

بحیثیت مدرس:

تدریس کاپیشہ ایک عظیم پیشہ ہے خود رسول اللہ ﷺ نے

ڈاکٹرغازی اپنی عملی زندگی میں درس وتدریس سے وابستہ رہے ۔ عمل تدریس کاآغاز سترہ سال کی عمر میں مدرسہ فرقانیہ راولپنڈی سے کیا، جہاں آپ عربی کے استاد مقررہوئے علاوہ ازیں مدرسہ ملیہ اسلامیہ راولپنڈی میں درس وتدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے اوراسی دوران لاہور سے مولاناگلزار احمد مظاہری نے آپ کو علماء اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے عہدے کی پیشکش کی۔ غازی صاحب نے خود بتایا کہ وہ مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کے درمیان افہام وتفہیم کے قائل ہیں مگر باوجود اس کے چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر یہ پیشکش قبول نہ کی۔ تب سے آپ اکی درس وتدریس کا مرکز راولپنڈی اوراسلام آباد ہی رہا۔؂[49]

مدرسہ ملیہ اسلامیہ میں تدریسی فرائض کی بجاآوری کے دوران آپ مختلف لائبریریوں سے مستفید ہوئے۔ مصری شاعر شیخ صاوی شعلان سے آپ کی ملاقات ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد کی لائبریری میں ہوئی۔ شیخ صاوی شعلان مصر کے مشہور شاعر ہیں ، اورحکومت پاکستان کی درخواست پر کلام اقبال کی تقریب کے لیے تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹرغازی کوکلام اقبال سے ذاتی دلچسپی تھی، لہذا مصری شاعر کے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے۔ اس کام میں مشغولی کی وجہ سے مدرسہ ملیہ میں تدریس سے مستعفی ہوگئے ۔کلام اقبال پر تفصیلات جمع کرنے اورمطالعہ کی گہرائی نے آپ میں عربی زبان کا ذوق پیداکیا۔ عربی میں مہارت کے سبب ادارہ تحقیقات اسلامی میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی جسے آپ نے قبول کیااوریوں ادارہ میں خدمات سرانجام دینا شروع کیں ۔؂[50]

تدریس کے سلسلے میں ڈاکٹرصاحب اسلامی یونیورسٹی سے ایک طویل عرصہ تک منسلک رہے۔ اسلامی یونیورسٹی میں جب فیکلٹی آف شریعہ اینڈ لاء کا آغاز ہوا تو طلبہ کو پڑھانے کے لیے ایسے اساتذہ درکار تھے، جونصاب پر عبوررکھتے ہوں اوریونیورسٹی کے ماحول اورنظام سے بھی واقف ہوں ۔ اس مقصد کے لیے ادارہ تحقیقات اسلامی کے جن اسکالرز کاانتخاب کیا گیا، ان میں ڈاکٹرغازی بھی شامل تھے اسی دوران شریعہ اکیڈمی، اسلامی یونیورسٹی میں وکلاء اورججز کے لیے ایک تربیتی پروگرام کاآغاز ہوا۔ ڈاکٹرصاحب اس پروگرام کے بھی روح رواں تھے۔ آپ کے لیکچرز کا خصوصی انتظام کیاگیا۔ شریعہ اکیڈمی میں آپ کی شہرت کا سبب "الاحکام السلطانیۃ" کی تدریس تھی اس کے علاوہ دعوہ اکیڈمی جواسلامی یونیورسٹی کاایک ذیلی ادارہ ہے ،میں بھی درس وتدریس کی خدمات سرانجام دیں ۔

ڈاکٹرموصوف بنیادی طورپر اسلامی یونیورسٹی میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔ لیکن باقی جامعات کے طلبہ اوراساتذہ بھی آپ سے استفادہ کرتے۔ مختلف جامعات میں منعقد ہونے والے سیمینار اورورکشاپوں میں آپ شرکت کرتے ،اپنے علمی اورتحقیقی خطبات سے سامعین کوقیمتی معلومات فراہم کرتے۔ایم فل اورپی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے خصوصی خدمات سرانجام دیں ، پاکستانی جامعات میں سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے خاص لگاؤ تھا یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بھی رہے۔

٢٠٠٦ء میں آپ کی صدارت کی مدت مکمل ہوئی ۔ اسی دوران آپ کو قطریونیورسٹی کے شعبہ معارف اسلامیہ کی طرف سے کام کرنے کی پیشکش ہوئی جو آپ نے قبول کرلی اور یوں قطریونیورسٹی میں آپ کی خدمات کاآغاز ہوا۔ قطرمیں رہ کر ڈاکٹرغازی کواپنی خالص غذامیسر آئی، آپ معاشرتی مصروفیات سے آزاد ہوگئے،آپ کو خلوت ملی، تنہائی ملی، طلبہ اوراسکالرز ملے اوربہت وقیع لائبریری ملی۔ ڈاکٹرصاحب نے قطرکے قیام کوبہت مفید بنایا اوران اوقات ولمحات سے خوب استفادہ کیا، آپ بتاتے تھے کہ قطر میں ان کو نئی زندگی اوربہت سارے نئے جہات سامنے آئے؂[51] ،اسی طرح ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں تقریباً ٢ سال تدریسی خدمات سرانجام دیں ۔

تحقیق وتعارف

ڈاکٹرغازی صاحب بنیادی طورپربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسرتھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ اسلامی یونیورسٹی تک محدود نہ تھے بلکہ تمام جامعات میں علوم اسلامیہ کے طلبہ آپ ؒ سے مستفید ہوتے تھے۔آپ صحیح معنوں میں علوم اسلامیہ کے پروفیسرتھے۔ جس ادارہ اور جس یونیورسٹی سے آپ کولیکچر،سیمینار اورکانفرنس میں شرکت کی دعوت ملتی آپ فوراً تیار ہوجاتے۔ آپ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مطالبہ بالکل نہیں کرتے تھے۔ لیکچرز دینے کا معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ رہائش ،خوراک اورسفر کے ضمن میں کوئی تکلف ان کے ہاں نہیں تھا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا بہت خصوصی تعلق تھا۔ آپ اس کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبررہے۔تقریباً ہر سال ربیع الاول کے مہینہ میں سیرت کے موضوع پر لیکچردینے کے لیے آپ تشریف لاتے تھے۔ کلیہ عربی و علوم اسلامیہ کو پہلے دن سے آپؒ کی سرپرستی حاصل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ کے لیے یونیورسٹی کیمپس میں مستقل بلاک کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس کے افتتاح کے لیے ڈاکٹرانوار حسین صدیقی نے ڈاکٹرغازی صاحب کو دعوت دی۔ ڈاکٹرغازی صاحبؒ نےبلاک کاافتتاح کیا اور اس موقع پر بہت پرمغز گفتگوفرمائی۔ آپؒ کہتے تھے کہ:

"یہ یونیورسٹی علامہ اقبال کی طرف منسوب ہے اورآپؒ کو علامہ اقبال سے قلبی اورجذباتی عقیدت ہے اس لیے یہاں آنے کواپنے لیے سعادت اورباعثِ فرحت سمجھتے ہیں ۔"

کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ میں جب بھی ایم فل اورپی ایچ ڈی پروگرام کی ورکشاپ ہوتی ہم آپ کو دعوت دیتے تو آپ اپنی دیگرمصروفیات چھوڑکرتشریف لاتے اورگھنٹوں طلبہ کے ساتھ بیٹھ کران کے خاکہائے تحقیق پر گفتگوفرماتے۔

ڈاکٹرغازی صاحبؒ"معارف اسلامی" کی مجلس مشاورت کے ممبررہے اورمحض ممبر نہیں رہے بلکہ بہت Active Memberرہے۔ "معارف" کا ہر عدد آپؒ بڑے التزام کے ساتھ پڑھتے تھے اوربتاتے تھے کہ انہوں نے "معارف" کے سارے مقالات پڑھ لیے ہیں ۔

کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ کے کئی اسکالرز نے ڈاکٹرغازی صاحب کی نگرانی میں ایم فل اورپی ایچ ڈی کے مقالات مرتب کیے۔ شاگردوں کے ساتھ آپ کارویہ غیرمعمولی مشفقانہ ہوتاتھا۔ Viva-Voce کے دوران زیربحث مقالہ کے تمام پہلوؤں کوبڑی تفصیل کے ساتھ اجاگر کرتے تھے اورطلبہ کو رہنمائی فراہم کرتے تھے۔ ایک موقع پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ایک اسکالر کے مناقشہ مین ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ اسکالر نے ڈاکٹرغازی صاحب کے اشراف میں مقالہ لکھاتھا۔ میں بیرونی ممتحن کی حیثیت سے تھا۔ جب مناقشہ مکمل ہوا توڈاکٹر صاحب نے ان تمام سوالات پر ایک ایک کرکے بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگوفرمائی جو اس اسکالر سے کیے گئے تھے اورفرمایا کہ:

"اسکالر میں ابھی اتنی پختگی نہیں آئی کہ موضوع کے سارے پہلوؤں کو سمجھ سکے البتہ اپنی سطح کے مطابق اس نے محنت کرلی ہے اورامید ہے کہ مستقبل میں مزید محنت کرے گا۔"

 

بحیثیت منتظم:

ڈاکٹرغازی نے ١٩٩٤ء تا ٢٠٠٤ء اسلامی یونیورسٹی میں بطورنائب صدر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں ۔ مختلف امورمیں غیرمعمولی دلچسپی کے باعث نائب صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود تمام انتظامی امور آپ کی حسب منشاء طے پائے، ڈاکٹرحسین حامد حسان کے بعد ڈاکٹراحمد العسال یونیورسٹی کے قائم مقام صدر ہوئے لیکن اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث ملکی و غیرملکی دوروں پر ہوتے ، چنانچہ یونیورسٹی کے تمام معاملات عملاً آپ کے زیرنگرانی تھے۔

٢٠٠٤ء میں ڈاکٹرصاحب کو اسلامی یونیورسٹی کا صدر چناگیا، آپ نے اپنی شبانہ روز محنت سے یہ ثابت کیاکہ وہ واقعی اس عہدے کے لیے موزوں تھے، یونیورسٹی کے مالیاتی نظام کو شفاف بنایا اوراس میں بہتری کے لیے عملی اقدامات کیے، مختلف کلیات کو بہتر کیا، کلیہ شریعہ اینڈ لاء کے امور کو اپنی ذاتی نگرانی میں رکھا اورطلبہ کے لیے اسکالرشپ کاآغاز کیا اس کے علاوہ یونیورسٹی کی عمارت کی تکمیل میں آپ نے فعال کرداراداکیا۔

یونیورسٹی کے انتظام وانصرام میں امانت ودیانت اورتحمل مزاجی آپ کا خاصہ تھا۔انتظامی ومالیاتی امورمیں انتہائی احتیاط سے کام لیتے۔

٢٠٠٤ء میں ڈاکٹرغازی صاحب کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے بطورِ صدرمنتخب کرلیا۔ یہ وہ دورتھا جب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی مالیاتی بحران کاشکارتھی اور یونیورسٹی کے کئی یونٹس عملاً معطل ہوکررہ گئے گے۔ ڈاکٹرغازی صاحبؒ نے سب سے پہلے یونیورسٹی کے مالیاتی معاملات پر توجہ دی اورحکومتِ وقت کے ساتھ اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی کے فنڈز میں معقول اضافہ کرایا۔ علاوہ ازیں بیرون ملک کے کئی اداروں کے ساتھ رابطہ کرکے یونیورسٹی کومالی طورپرمستحکم کردیا۔ آپ نے یونیورسٹی کے بنیادی کلیات پر توجہ دی۔ کلیہ شریعہ اینڈ لاء کے امورومعاملات کوخوددیکھا۔ اس کی فیکلٹی کوبڑھایا اوراقسام میں اضافہ کیا۔ کلیہ اصول الدین میں طلبہ کے لیے اسکالرشپ کااہتمام کیا اوربہت سارے ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے کلیہ اصول الدین دوبارہ زندہ ہوگیا اورکلاسیں طلبہ سے بھرگئیں ۔ کلیہ عربی کے اقسام میں منطقی ترتیب کے مطابق اضافہ کیا۔ آپ کہاکرتے تھے کہ یہ تینوں کلیات اسلامی یونیورسٹی کی جان ہیں ۔ یہ کلیات مخدوم ہیں اورباقی کلیات خادم ہیں ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی عمارت ڈاکٹرغازی کی یادگار ہے۔ اس عمارت کی تعمیر پر آپ نے بہت خاص توجہ دی۔ آپ کہتے تھے کہ حالات کاکچھ پتہ نہیں چلتا۔ اس لیے عمارت کی تعمیر میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔جتنافنڈ دستیاب ہے اسے استعمال کرلینا چاہیے۔ فنڈز کے استعمال میں آپؒ اگرچہ حددرجہ محتاط تھے لیکن جہاں واقعی ضرورت ہوتی تھی وہاں خرچ کرتے تھے۔ جب آپ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل تھے توہرسال اکیڈمی کے بجٹ سے ایک بڑی معقول رقم بچاتے تھے۔ آپؒ کا منصوبہ تھا کہ جب یہ فنڈ دس کروڑ تک پہنچ جائے تو اس کی بنیاد پر دعوۃ ٹرسٹ قائم کریں گے اوراس طرح دعوۃ اکیڈمی اپنے پروگراموں کے چلانے میں گورنمنٹ کے فنڈز کی محتاج نہیں رہے گی۔ اس منصوبہ کے تحت آپ نے مطلوبہ رقم کا سترفیصدحصہ جمع کرلیاتھا اوراگرآپ کودعوۃ اکیڈمی میں مزید دوسال رہنے کا موقع مل جاتا تودعوہ ٹرسٹ قائم ہوجاتا۔ لیکن ایسانہیں ہوسکا بعد میں وہ رقم یونیورسٹی کے دیگرمدات میں استعمال کی گئی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدرکی حیثیت سے آپؒ نے یونیورسٹی کے ظاہری اورمعنوی استحکام کے لیے کئی اقدامات کیے اوریونیورسٹی کے تشخص کونمایاں کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اب حالات ایسے نہ تھے کہ یونیورسٹی کا اصل تشخص کماحقہ برقراررہے۔ ٢٠٠٦ء میں آپ کے منصب کی مدت پوری ہوئی تو اس میں تمدید نہیں کی گئی۔

١٩٩١ء میں آپ کو دعوۃ اکیڈمی کے ساتھ ساتھ شریعہ اکیڈمی کے مدیر عام کی حیثیت سے فرائض سونپے گئے۔ اس اکیڈمی کے ساتھ آپ کا انسلاک اس کے آغاز ہی سے تھا۔ ڈاکٹرصاحبؒ نے شریعہ اکیڈمی میں کئی شعبے قائم کیے۔ اس کی لائبریری پر بطورِ خاص توجہ دی اورفقہ واصولِ فقہ کے علاوہ مروجہ قوانین سے متعلق Basic Sources اورمراجع سے اسے مزین کروایا۔ اکیڈمی سے مطبوعات کا سلسلہ جاری کرایا۔ آپؒ کی خواہش تھی کہ عربی میں جتنی بھی تفاسیرِ احکام ہیں ان کا مروجہ اردومیں ترجمہ کرایا جائے اوراکیڈمی کی طرف سے انہیں شائع کرایاجائے۔ اس ضمن میں امام ابوبکرجصاص کی "آیات الاحکام" اورامام قرطبی کی "الجامع لایات الاحکام" پر آپ کی خصوصی نظرتھی۔ اس مقصد کے لیے آپ نے فنڈز کا اہتمام کرلیاتھا اورکام کا آغاز بھی ہوگیاتھا لیکن بوجوہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ تفسیر قرطبی کی پہلی جلد بعد میں شریعہ اکیڈمی کی طرف سے چھپ گئی ہے۔ آیات الاحکام کاترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے لیکن جو خاکہ ڈاکٹرصاحب کے ذہن میں تھا اس کے مطابق یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا۔

١٩٩٤ء سے ٢٠٠٤ء تک ڈاکٹرغازی صاحب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر رہے۔ بظاہر آپ نائب صدر تھے لیکن حقیقی معنوں میں یونیورسٹی کے تمام امور آپؒ کے حسب منشاء جلتے تھے۔ اساتذہ اورطلبہ کے جتنے مسائل ہوتے تھے وہ آپ حل کرتے تھے اور آپ کا دفتر ہر وقت ایک جمگھٹے کا منظرپیش کرتاتھا۔ ڈاکٹرحسین حامد حسان کے بعد ڈاکٹر احمد العسال یونیورسٹی کے قائم مقام صدربنے۔ ڈاکٹرعسال مزاجا ًادارتی امور سے کوسوں دور تھے اوراکثر و بیشتر بیرون ملک رہتے تھے۔ اس لیے یونیورسٹی زیادہ تر ڈاکٹرغازی صاحب کے ذمہ رہتی تھی۔ ڈاکٹراحمد العسال (مرحوم) کے بعد جب ڈاکٹرحسن شافعی یونیورسٹی کے رئیس مقرر ہوئے توانہیں ڈاکٹر غازی صاحبؒ پرنہ صرف یہ کہ اعتماد تھا بلکہ سوفیصد انحصارتھا۔

١٩٩٩ء میں ڈاکٹر غازی صاحبؒ کی مصروفیات میں ایک اوراہم اضافہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد جب "قومی سلامتی کونسل" قائم کی تو آپ کو اس کونسل کا رکن منتخب کیا۔ اس کونسل کی چونکہ بہت اہم ذمہ داریاں تھیں اس لیے ڈاکٹر غازی صاحب انتہائی مصروف ہوگئے۔قومی سلامتی کونسل کے رکن ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹرصاحب نے بہت اہم اورمفید کام کیے۔ اب جب ہم اس وقت کی صورتِ ھال کاتجزیہ کرتے ہیں توہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹرغازی صاحبؒ نے کونسل کی رکنیت کیوں قبول کی تھی؟ قومی سلامتی کونسل کی رکنیت قبول کرکے آپؒ نے اس Vision کو استعمال کیا۔ جو اللہ جل شانہ نے آپ کو عطافرمایاتھا۔ بعض حضرات ڈاکٹرغازی صاحب پر اعتراض کرتے تھے کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے قائم کردہ قومی سلامتی کونسل کی رکنیت قبول کرکے جنرل موصوف کے ہاتھ مضبوط کیے۔ ڈاکٹر صاحب کہاکرتے تھے کہ جنرل پرویز کے ہاتھ ویسے مضبوط تھے ۔ انہیں ہمارے سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم نے صورتِ حال کوبڑ ی تفصیل کے ساتھ دیکھ کر اس کونسل کی رکنیت اختیار کی تھی۔

٢٠٠٠ء میں جنرل پرویز مشرف نے امورِمملکت چلانے کے لیے وزراء پرمشتمل ایک کابینہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا توڈاکٹر غازی صاحب کو مذہبی امور کی وزارت کے لیے منتخب کرلیا۔ ڈاکٹرصاحب نے اگست ٢٠٠٠ء میں وزارتِ مذہبی امور کا قلم دان سنبھالا اوردو سال تک اس وزارت کے ساتھ منسلک رہے۔ وفاقی وزیرکی حیثیت سے ڈاکٹرغازی صاحب نے کئی اقدامات کیے۔ آپ کی خواہش تھی کہ زکوٰۃ کی وہ رقوم جو اربوں کی مقدار میں جمع ہیں انہیں Invest کیاجائے اوراس طریقے سے Invest کیاجائے کہ اس کا فائدہ ملک کے غریب طبقہ کوہو۔ اس مقصد کے لیے آپ نے بہت تفصیل کے ساتھ پلاننگ کی تھی۔ لیکن ہمارے ملک میں چونکہ مفید منصوبہ کے اجراء میں کئی اژدہا حائل ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر غازی صاحب کا واسطہ بھی بڑے بڑے اژدہاؤں سے پڑا اورانہیں اپنی پلاننگ پر عمل کرنے کی فرصت نہیں دی گئی۔

ڈاکٹرصاحب ١٩٨٨ء کے بعد مسلسل انتظام و انصرام کے امورسے بھی منسلک رہے ۔ انتظامی معاملات میں آپؒ حددرجہ محتاط رہتے تھے۔ آپؒ نے ہمیں کئی بار بتایا کہ انتظامی امورمیں وہ دواصولوں کوپیش نظر رکھتے ہیں ۔ ایک امانت ودیانت اوردوسراتحمل وبرداشت۔

امانت و دیانت کے لحاظ سے آپ ضرب المثل تھے۔ تحمل وبرداشت کاملکہ بھی آپ کا غضب کاتھا۔ ایک مرتبہ اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ نے آپ کے دفترکا محاصرہ کرلیا اور صبح سے شام تک آپ کے دفتر کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ ڈاکٹرغازی ؒ صاحب سکوت اورخاموسی کے ساتھ دفتر میں بیٹھے رہے۔ عشاء کے بعد جب طلبہ نے محاصرہ اٹھایا تو آپؒ دفتر سے نکل آئے۔ پورادن یونیورسٹی کی انتظامیہ کو نہیں بتایا ۔ حالانکہ ان دوں آپ نائب رئیس تھے اورصاحبِ اختیار تھے۔ ہمیں اس واقعہ کاعلم ہوا توبہت دکھ ہوا۔

غازی صاحب بنیادی طورپر یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اورپروفیسر کے ساتھ طلبہ کا یہ سلوک بہت ناپسندیدہ تھا۔ ہم نے آپؒ کے دفترجاکر ملاقات کی اوراس واقعہ پر افسوس کا اظہارکیا۔ دورانِ گفتگو ہمارے ایک ساتھی نے کہا:

"ڈاکٹر صاحب !آپ کم از کم حافظ بشیر صاحب کو اطلاع کردیتے وہ آجاتے اوران طلبہ کو سمجھا کراٹھادیتے۔"

ڈاکٹرغازی صاحب نے فرمایا:

"مسئلہ طلبہ کانہیں تھا۔ مسئلہ ان حضرات کا تھا جو ان طلبہ کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ اگرمیں مزاحمت کا راستہ اختیار کرتاتو ان کا مقصد پورا ہوجاتا۔ اخبارات میں سرخیاں لگ جاتیں یونیورسٹی کا Image خراب ہوتا اورمجھے بھی سرخیوں کازینت بنایاجاتا۔ فرمایا:

میں توفائدہ میں رہا ۔ وہ لوگ باہر بیٹھے رہے میں اندربیٹھ کر اپنا کام کرتارہا۔ پڑھتا رہا۔ لکھتا رہا۔ عبادت کرتارہا۔میرا رویہ مثبت رہا ان کا منفی رہا۔ اب سارے لوگ ان کوبرابھلا کہتے ہیں ۔ جولوگ ان طلبہ کی Back پر تھے وہ اپنے مقصد میں ناکام رہ گئے۔"

حکومتی عہدہ وذمہ داریاں :

٢٠٠٦ء میں جب ڈاکٹر غازی صاحب کی مدت صدارت پوری ہوگئی تو آپ کو کلیہ معارفِ اسلامیہ قطر کی طرف سے Offer آئی۔ آپ مزاجاً اسلام آباد کوچھوڑکرنہیں جاناچاہتے تھے۔ یہاں کے کئی اداروں کے ساتھ آپ کا دیرینہ انسلاک اوروابستگی تھی۔ لیکن قسمت میں چونکہ قطرکا سفر اور وہاں کا قیام لکھاہواتھا اس لیے آپؒ نے بالآخر کلیہ معارفِ اسلامیہ کی Offer کو Accept کرلیا اور اسلام آباد کوخیرآباد کہہ دیا قطرمیں رہ کرڈاکٹرغازی صاحبؒ کو اپنی خالص غذامیسر آئی، آپ معاشرتی مصروفیات سے آزاد ہوگئے،آپ کو خلوت ملی، تنہائی ملی، طلبہ اوراسکالرز ملے اوربہت وقیع لائبریری ملی۔ ڈاکٹرصاحب نے قطرکے قیام کوبہت مفید بنایا اوران اوقات ولمحات سے خوب استفادہ کیا، آپ بتاتے تھے کہ قطر میں ان کو نئی زندگی اوربہت سارے نئے جہات سامنے آئے ۔

٢٠١٠ء کے اوائل میں آپ پاکستان تشریف لائے۔ یہاں اگرچہ آپؒ کی ذاتی مصروفیات تھیں لین اس کے باوجود کئی جامعات نے جب آپؒ کو دعوت دی تو آپ ان کے پروگراموں میں شریک ہوئے۔ جب قطر واپس جانے کی تیاریوں میں تھے تووفاقی شرعی عدالت میں بطورِ جج آپ کا تقرر کیاگیا۔ اب آپؒ کے سامنے دوChoices تھے۔ یا توقطرواپس جاکر بہت ساری مراعات ،مفادات اورتسہیلات کے ساتھ زندگی گزاریں یا اسلام آباد میں رہ کر اپنے گھرمیں عام معمول کی زندگی گزاریں ۔ ڈاکٹرصاحب نے اپنے ملک کی خدمت کو ترجیح دیتے ہوئے کلیہ معارفِ اسلامیہ ،قطرکی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اوروفاقی شرعی عدالت کو بطور جج Join کیا۔ ڈاکٹرغازی صاحب ؒ اس سے پہلے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ کے جج رہ چکے تھے اوراسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے تھے ان اداروں کی ساری ترتیب وترکیب اورتخطیط میں آپ شامل رہے تھے۔ وفاقی شرعی عدالت میں بطورجج آنے کے بعد آپؒ کی خواہش تھی کہ اب محض تحقیق کے مجال تک اپنے آپ کو محدودرکھیں اوروہ بہت سارے منصوبے جو آپ کے ذہن میں تھےان پر کام کریں ۔

ماہرتعلیم:

دینی مدارس کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب کی ایک ذاتی سوچ تھی۔ آپؒ کی یہ سوچ دینی مدارس اورکلیات و جامعات کے ساتھ ایک طویل عرصہ کے انسلاک کی پیداوارتھی۔ آپؒ چاہتے تھے کہ دینی مدارس کے نظام پر نظرثانی کی جائے اورنصاب میں ترمیم وتخفیف کی جائے۔ دینی مدارس کی تعداد میں منطقی ترتیب پیداکی جائے۔ ہر صوبے میں ایک مرکزی جامعہ ہو اور باقی مدارس اس کے ساتھ منسلک ہوں ۔ تمام مدارس میں دورہ حدیث تک درجات نہ ہوں بلکہ بعض مدارس میں ابتدائی درجات ہوں ۔ بعض متوسطہ اورمحض ان مدارس میں موقوف علیہ اوردورہ حدیث کا درجہ ہو۔ جن کے پاس قابل اساتذہ اورمناسب وسائل موجود ہوں ۔

٢٠٠١ء میں جب ڈاکٹر غازی صاحبؒ مدرسہ تعلیم الاسلام (تبلیغی کالج) کراچی کی تقریبات میں ہمارے ساتھ تشریف لے گئے تو وہاں کے علماء اورمہتممین مدارس کے سامنے آپؒ نے اپنامنصوبہ بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ آپ کی خواہش تھی کہ وزارتِ مذہبی امور کا فنڈادھر ادھر خرچ ہونے کے بجائے دینی مدارس کی Up gradation پر خرچ ہو۔ لیکن یہ منصوبہ بھی بہت ساری حائل رکاوٹوں کی بناء پر کامیاب نہ ہوسکا۔

بحیثیت فقیہ:

دین اسلام کسی ایک ملک، قوم یا زمانے کے لیے مخصوص نہیں ۔ اسلام تمام انسانیت کا دین ہے اور قرآن کریم انسانیت کے اسی دین کا ترجمان ہے۔ قرآن کی تعلیم عالمگیر اورہمہ گیر ہے۔ جتنی کہ خود انسانیت ہے۔ مشیت ایزدی کاظہورانسانیت کے تقاضوں کی صورت میں ہی ہوتاہے۔ قرآن چونکہ انسانیت کے انہی تقاضوں کا آئینہ دار ہے۔ اس لیے وہ خدا کا قانون ہے۔

دین اسلام کی اس آفاقیت کوبرقرار رکھنے کے لیے علماء محققین اورفقہاء نے اہم کردار اداکیا ہے اوراب بھی ان کی ذمہ داری ہے کہ بدلتے ہوئے دورکے تقاضوں کے مطابق فقہ کی تدوین کی جائے تاکہ عصری تقاضوں کے مطابق معاشرے کی تشکیل کی جائے اورمسلمانوں کی مجموعی ترقی کا سامان ہوسکے۔ فقہ کیا ہے؟ فقہ نے عرب کے رسم و رواج پر کیا اثر چھوڑا ؟ عہد نبوی ﷺ میں فقہ کی کیا حیثیت رہی ؟ فقہ کے بنیادی ماخذ کون سے ہیں ؟ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔

لغوی تعریف:

"لفظ فقہ عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا لغوی مادہ ف۔ق۔ھ ہے۔ اس مادہ کے معنی موضوع لہ یہ ہیں ۔ سمجھ بوجھ اورکسی متکلم کے معنی مقصود کی تہہ تک پہنچ کر بات کوپوری طرح سمجھ لینا۔ کسی لفظ کے معنی موضوع لہ سے ہٹاکر یا ترقی دے کر اسے معنی مجاز ، استعارہ یا معنی منقول عرفی اور معنی منقول فنی میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔ اس وقت اس کے معنی مقصود وہی ہوتے ہیں جس کے لیے یہ لفظ استعمال کیاگیاہو۔"؂[52]

"فقہ جس کے لغوی معنی سمجھ اوردریافت کرنے کے ہیں لیکن دین اسلام میں اس علم کو کہتے ہیں جس یں زمانے اورحالات کے اعتبار سے اموردنیاوی، یعنی مناکحات ،معاملات اورعقوبات سے بحث کی جاتی ہے۔ گویا فقہ ایک ایساعلم ہے جو انسان کے اعمال وافعال کی آزادی کی وسعت اورحدود سے بحث کرتاہے۔ یعنی بالفاظ دیگرقانون کامترادف ہے۔

اس کے لغوی معنی مسطرکے ہیں ۔ لیکن اصطلاحاً "باہمی سلوک اورروابط کے مجموعہ اقدار" کا نام قانون ہے۔"؂[53]

فقہ کے معنی پہ اظہار خیال کرتے ہوئے غلام احمد پرویز لکھتے ہیں کہ:

"غوروفکر کرنا یاکسی چیز کو سمجھ لینا ہیں عام طورپر اس لفظ کا استعمال اس قسم کے غوروفکر کے لیے ہوتاہے جس میں انسان محسوس مشاہدات سے مجرد حقائق کے متعلق کسی نتیجہ پرپہنچے۔ قرآن کریم میں علم و عقل ،غوروفکر اورتفقہ کی بڑی تاکید آئی ہے۔۔۔۔اب ہمارے ہاں فقہ کا لفظ اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتاہے اوراس سے مراد ہوتی ہے وہ احکام شریعت جن پر کسی خاص امام کے پیروعمل پیراہوتے ہیں ۔ یہ احکام ان ائمہ کے مرتب کردہ ہوتے ہیں ۔ ان پر عمل کرنے والوں کے تفقہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا وہ ان پر تقلیداً عمل کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اس قسم کی فقہ کا کوئی ذکرنہیں ۔"؂[54]

قرآن حکیم میں لفظ فقہ ثلاثی مجرد کے مختلف صیغوں میں باربار اورباب تفعل میں بھی ایک بارموجود ہے ۔جملہ بیس بارآیاہے۔ جس کی کچھ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں ۔

فَمَالِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا؂[55]

فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ؂[56]

بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا؂[57]

قرآن مجید میں یہ مادہ جہاں کہیں آیاہے اپنے اصل معنی موضوع لہ کے لیے آیاہے۔ کہیں مجاز،استعارہ یا منقول الیہ معنی کے لیے نہیں آیا ہے۔ ہر جگہ اس کے ایک ہی معنی مقصود ہیں ۔ یعنی بات کو اچھی طرح سمجھنا اوربات کی تہہ کو پہنچ کر معنی مقصود کواچھی طرح سمجھ لینا۔

اصطلاحی تعریف:

علوم اسلامیہ کی اصطلاح میں علم الفقہ کہتے ہیں اس فن کو جس میں کسی صورت واقعہ پر اللہ و رسول کے حکم یا اس سے مستفاد کسی حکم شرعی کوبیان کرکے اس کی تطبیق صورت واقعہ پر کی جاتی ہے اورجو عالم یہ خدمت انجام دیتاہے اسے اصطلاحا ًفقیہ کہاجاتاہے۔

فقہ کی اصطلاحی تعریف کتب فقہ میں کچھ یوں نقل کی گئی ہے کہ:

"المصطلح فعرفوہ بالعلم الاحکام الشرعیۃ الفرعیۃ العلمیۃ من حیث استنباطھا من ادلتھا التفصیلیۃ"؂[58]

"اصطلاح میں فقہ کہتے ہیں احکام شرعیہ ،فرعیہ،عملیہ کے سمجھنے اورجاننے کوباعتبار اس کے استنباط کے ادلہ تفصیلیہ سے۔"

فقہ کی کتابوں میں ایسے بہت سارے احکامات ملتے ہیں ، جن کے لیے کوئی صریح حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا ،اورنہ سنت رسول میں کوئی حکم ملتاہے۔ اس وقت ایک فقیہ پوری دیانتداری سے اس کی سعی بلیغ کرتا ہے کہ صحابہ﷢ کا اس سلسلہ میں کوئی تعامل مل جائے اورانفرادی عمل نہ ہو، بلکہ اجماعی عمل قیاس ہمیشہ کسی ایسے واقعہ اورحکم پر کیاجاتاہے جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو۔ اس طرح ہر فقیہ کی یہ مخلصانہ اوردیانتدارنہ کوشش ہوتی ہے کہ اللہ ورسول کاکوئی حکم نہ ٹوٹے ،اورصورت واقعہ جو پیش آئی ہے اس کا کوئی حل کتاب اللہ و سنت رسول اللہﷺ کے بموجب نکل آئے۔

ذیل میں فقہ اسلامی کے مختلف ادوار پر تفصیل پیش خدمت ہے۔

عہد نبوی ﷺ میں فقہ:

دین کی سمجھ بوجھ پیداکرنے اورمعاشرے کی ہر طرح کی رہنمائی وحی کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دورمیں فرمائی۔قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے:

وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ؂[59]

ترجمہ: اوروہ کتاب اورحکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔

آپ ﷺ نے ایک معلم کی حیثیت سے معاشرے کی زندگی کے جملہ مسائل میں رہنمائی فرمائی۔ اسی مقصد کے لیے آپ ﷺ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے ساتھ ہی ایک ادارہ صفہ کے نام سے قائم کیا تاکہ دین کے مختلف شعبہ جات کے حوالے سے تعلیم وتربیت کااہتمام کیاجائے۔

"صفہ مسجد نبوی کا ایک مشہور تعلیمی ادارہ تھا۔ اگرچہ اس ادارے کا ایک استعمال یہ بھی تھا کہ نومسلموں میں جن لوگوں کے رہنے سہنے کا نظم نہ تھا ان کی وہ سکونت گاہ تھی۔ لیکن اس سے زیادہ جو کام اس ادارہ سے عہد نبوت میں لیاجاتاتھا وہ زیادہ تر دین کے مختلف شعبوں کی تعلیم وتعلم ہی کا کام تھا ،روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ عہد نبوت کی اس تعلیم گاہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد بیک وقت کبھی کبھی اسی پچاسی تک پہنچ جاتی تھی۔"؂[60]

اسی ادارے سے جہاں معاشرے کے عام افراد کوبنیادی دینی تعلیمات سے بہرہ مند کیاجاتاتھا وہاں "مختلف رجحانات اورفطری مناسبتوں کااندازہ کرکے مخصصین کی ایک جماعت بھی صحابہ میں آنحضرت ﷺ نے تیارکی تھی۔"؂[61]

"فقہ اسلامی کا دور اول عہد رسالت اورعہد صحابہ ﷢ پر مشتمل ہے۔اس دور کے ابتدائی حصے میں خود صاحب وحی علیہ الصلوٰۃ والسلام موجود تھے، قرآن مجید نازل ہورہاتھا۔ جیسے جیسے ضرورت پیش آتی رہی ۔لوگ صورت واقعہ کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کرتے تھے۔ اورآپ یاتووحی الٰہی سے یاخود اپنے اجتہاد سے حکم دے دیاکرتے تھے، جیسا کہ ہم قرآن مجید کی سورۃ مجادلۃ میں اوردوسری سورتوں میں فقہی احکام پاتے ہیں ، یا صحیح احادیث مرفوعہ میں رسول اللہ ﷺ کے فتاویٰ دیکھتے ہیں ۔

اس دور میں فقہ کے دو ہی ماخذ تھے ایک کتاب اللہ اوردوسرا قول، فعل یا اجازت رسول اللہﷺ جسے سنت رسول کہاجاتاہے۔ کیونکہ صحابہ کرام ﷢ اگرکسی صورت حال میں کوئی فتویٰ دیتے تھے تو صرف اس صورت میں دیتے تھے جب کہ خود رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف فرمانہ ہوتے تھے اوراس پر مزید اطاعت یہ تھی کہ جب وہ اس کے بعد حضور ﷺ کے سامنے حاضر ہوتے تو اپنے فتویٰ کی تصحیح واصلاح رسول اللہ ﷺ سے کرالیتے تھے۔"؂[62]

اس دورمیں جوبھی مسائل سامنے آتے تھے اور واقعات پیش آتے تھے ان کے حوالے سے خود رسول اللہ ﷺ فیصلہ فرمادیتے تھے۔ شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں :

"زماں آنحضرت ﷺ مردماں درہہ انواع علوم چشم برجال آنحضرت ﷺ وگوش برآواز دے می واشتند ہر چہ پیش می آمداز مصالح جہاد بدنہ وعقد جزیہ واحکام فقیہ وعلوم زہدیہ ہہ ازاں حضرت ﷺ استفسار نودن۔"؂[63]

ترجمہ: آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہرقسم کے علم کے متعلق لوگوں کی نگاہیں آنحضرت ﷺ کے جمال مبارک پر جمی ہوئی تھیں ان کے کان حضور ﷺ کی آواز پر لگے ہوئے تھے جہاد کی مصلحتوں صلح وجزیہ کا معاہدہ ،فقہی احکام ،زہد کے متعلق علوم وغیرہ کے متعلق جو باتیں بھی پیش آتی تھیں سب کے متعلق آنحضرت ﷺ سے دریافت کرلیتے تھے۔

"رسول ﷺ پر آیات احکام یعنی فقہی آیتیں اکثر ان واقعات کے جواب میں نازل ہوتی تھیں جواسلامی سوسائٹی میں پیدا ہوجایاکرتے تھے ۔ یہی واقعات ہیں جن کو اسباب نزول کے لفظ سے تعبیر کیاجاتاہے۔"؂[64]

محمد عربی ﷺ نے مکے میں اپنے رب کے حکم کوعلی الاعلان بیان کیا۔ قرآن کریم کانصف سے زائد حصہ ہجرت مدینہ سے قبل مکی دورہی میں آپ ﷺپر نازل ہوا اورجتنا قرآنی حصہ مکے میں نازل ہوا وہ فقہی قانون سازی پر زیادہ مبنی نہ تھا کیونکہ نزول قرآن کا اولین مقصود دعوت الی اللہ ،توحید الٰہی اوران مختلف معبود ان باطلہ کا ابطال تھا جن کی لوگ اسلام سے قبل عبادت کیاکرتے تھے ۔ قیام آخرت پر دلائل پیش کرنا اوردعوت الی اللہ کی راہ میں پیش آنے والے مصائب ومشکلات برداشت کرنے کے لیے سابق انبیاء ومرسلین کے مختلف واقعات کے ذریعے رسول اکرم ﷺ کوتسلی دینا ہے۔ جہاں تک تفصیلی قوانین کامعاملہ ہے تو اس کابہت بڑا حصہ مدنی سورتوں میں نازل ہوا جومجموعی طورپرقرآن کے تہائی حصہ سے کچھ زائد ہے۔"شیخ حضری کے مطابق قرآن کا مکی حصہ تقریباً٣٠/١٩ اورمدنی حصہ ٣٠/١١ ہے"۔؂[65]

مکی اورمدنی سورتوں کے درمیان مفسرین نے طرز بیان معانی اورمضامین کے اعتبار سے مختلف وجوہ فرق بیان کی ہیں ۔ "مکہ مکرمہ میں جو آیات نازل ہوئیں ہیں ان میں بیشتر میں کلیات دین کی تفصیل ہے توحید ونبوت،حشر ونشر،جزاء وسزا،انذار وتبشیر،اورتذکیر وتحذیر سے متعلق مضامین بیان کیے گئے ہیں ۔ جگہ جگہ حق تعالیٰ کی عظمت و ہیبت اوراس کے قہر وعذاب کی اہمیت بیان کی گئی ۔اوراہل جہنم کے احوال سنائے گئے۔باربارعبرت ونصیحت کے انداز میں خدا اورخداکے پیغمبروں اورآخرت پرایمان لانے کے لیے حکم دیاگیا،اورباربارغوروفکر کی دعوت دی گئی کہ یہ لوگ خود اپنی عقل اوربصیرت سے حق کو سمجھ سکیں ۔بت پرستی کی مذمت اوردلائل توحید ایسے عبرت آموز طریقہ سے بیان کیے کہ ادنیٰ سمجھ رکھنے والے پر بھی یہ بات ظاہر ہوجائے کہ اپنے ہاتھوں سے گھڑے ہوئے بتوں کی عبادت کرنایقیناً انسان کی سب سے بڑی حماقت ہے۔ حقائق معنویہ کوکثرت سے امثال کے رنگ میں اس بیان فرمایاگیا کہ وہ معنوی حقیقت اورباطنی امر مشاہد ومحسوس ہوکرنظروں کے سامنے نمایاں ہوجائے۔ پھر ان تمام امور کے لیے تعبیر بھی ایسی اختیارکی گئی کہ ہر ہر کلمہ اورہر ہر ترکیب اپنے انداز سے دنیا کے مایہ ناز فصحاء وبلغاء اورشعراء وخطباء کومقابلہ سے عاجزکررہی تھی۔ اس لیے کہ ان آیات میں بالخصوص خطاب اہل مکہ کو تھا اور وہ اپنی شاعری اورفصاحت وبلاغت پر اس قدرنازاں تھے کہ اپنے قصائد بیت اللہ کی دیواروں پر ہل من مبارز (ہے کوئی مقابلہ کرنے والا) کے اعلان کے ساتھ لٹکایاکرتے۔ اس کے بالمقابل مدنی آیات میں مضامین نہایت سہل تعبیر اورواضح انداز میں بیان کیے گئے کیونکہ آیات مدنی میں اصل مخاطب اہل کتاب تھے اس وجہ سے حقائق کو بسط وتفصیل اوردلائل کے رنگ میں پیش کیاگیا اور بہت سی آیات میں ان کومناظرہ کی دعوت دی گئی۔ ان کے حسد و عناد ،غروروتکبر تلبیس بین الحق والباطل ،کتمان حق اورتحریف آیات اللہ کو ظاہر کیاگیا۔ تورات وانجیل کے لیے مؤید ہونابیان کیاگیا۔ اورتمام کتب سماویہ کااصول دین میں اتفاق ظاہرکرتے ہوئے اہل کتاب کو ایمان باللہ والرسول کی دعوت دی گئی۔ اور یہ کہ تورات وانجیل پر ایمان رکھنے کا مقتضیٰ رسول آخرالزمان پر ایمان لانا اورقرآن کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ آیات مدینہ کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ ان میں عبادات ومعاملات سے متعلق احکام عملیہ حلال و حرام کے مسائل کثرت سے ذکرکیے گئے ۔ غزوات وغنائم احکام خراج وجزیہ کے مسائل اوراس کے مصارف ،اصول مملکت کی تحقیق وتوضیح کی گئی۔"؂[66]

فقہی احکام کی ایک کثیرتعداد اپنی قانون سازی میں ان واقعات سے متعلق تھی جو وقوع پذیر ہوچکے تھے، یا ان سوالات سے متعلق تھی جو صحابہ کرام ﷢ آنحضور ﷺ سے پوچھتے تھے۔ جب مسلمان آپ ﷺ سے مختلف امور ومعاملات کے حوالے سے رجوع کرتے جو ان سے مخفی ہوتے تھے ،تو آپ ﷺ کبھی تو اپنی رائے کے مطابق ان کی رہنمائی کرتے اورکبھی وحی الٰہی کا انتظار کرتے۔ وحی الٰہی بعض معاملات میں آپﷺ کی رائے سے برعکس ہوتی جیسا کہ اسیران بدر کے معاملے میں ہوا کہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر ﷜ کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے مشرکین سے فدیہ قبول کرلیا اوران کے قتل کرنے کے بارے میں حضرت عمر﷜ کی رائے کوقبول نہ کیاتو اس کے بعد یہ ارشاد الٰہی نازل ہوا:

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآَخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ؂[67]

ترجمہ: کسی نبی کے لیے یہ زیبانہیں ہے کہ اس پاس قیدی ہوں جب تک وہ زمین میں دشمنوں کواچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اوراللہ غالب اورحکیم ہے۔ اگراللہ کانوشتہ پہلے نہ لکھا جاچکاہوتا توجوکچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کوبڑی سزادی جاتی۔

ماخذ فقہ

فقہ کے عام طور پہ چارماخذ بیان کیے جاتے ہیں :

    قرآن حکیم

    سنت رسول ﷺ

    اجماع

    قیاس

شریعت کے حوالے سے جتنی بھی قانون سازی کی جاتی ہے ان ہی دوبنیادی ماخذین کومدنظررکھاجاتاہے اورپھر اس کے بعد اجماع ،قیاس،اجتہاد،استحسان کی جتنی صورتیں سامنے آتی ہیں وہ حالات وزمانہ کی تبدیلی کے ساتھ جو مسائل سامنے آتے ہیں انہیں حل کیاجاتاہے۔ لیکن قیاس ،اجتہاداوراستحسان کی جوبھی نوعیتیں ہیں ان کے لیے بنیادی دوماخذ قرآن وسنت ہی سے براہ راست یاکسی اوردلیل کے ذریعے استدلال کیاجاتاہے۔ عموماً فقہاء کے ہاں قرآن، حدیث ،قیاس،اجماع چاروں احکام کو مستقل ماخذ تسلیم کیاجاتاہے لیکن اس کے بارے میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ:

"اصل ماخذ قرآن مجید ہے۔ حدیث قیاس اور اجماع قرآن کریم ہی سے ماخوذ اورمستنبط ہیں اورہر ایک کا اپنااپنامقام ہے۔"؂[68]

ذیل میں فقہ کابنیادی اوراولین ماخذ قرآن حکیم کی تفصیل پیش خدمت ہے:

قرآن مجید:

قرآن حکیم فقہ کا اولین اوربنیادی ماخذہے۔"قرآن" اصل میں لفظ قراۃ یعنی پڑھنا سے مشتق ہے ۔ لہذا قرآن کالغوی مطلب قراءت کرنا بنتاہے۔ اس کی تعریف ایک ایسی کتاب کے طورپرکی جاسکتی ہے جس میں خدا کاکلام موجود ہے جو رسول ﷺ پر عربی زبان میں نازل اورتواتر کے ساتھ منقول ہے۔ یہ حضرت محمدﷺ کے نبی ہونے کا ثبوت،مسلمانوں کے مستند ترین رہنما کتاب اورذریعہ کا اولین ماخذ ہے۔ اس پر علماء کا اتفاق ہے اورکچھ کے خیال میں تو یہ واحد ماخذ ہے اورباقی تمام ماخذ قرآن کی توضیح ہی کرتے ہیں ۔ اس تعریف میں اشارۃً مذکورقرآنی صفات کو مختصرا ً پانچ نکات میں پیش کیاجاسکتا ہے ۔یا باتخصیص طورپر حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا،اسے تحریر میں لایاگیا، یہ متواتر ہے، یہ خداکالاثانی کلام ہے اوراسے صلوٰۃ میں پڑھاجاتاہے۔"؂[69]

قرآن حکیم کا نزول سورۃ العلق کی اس آیت سے ہوا:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ؂[70]

ترجمہ:"پڑھو اپنے رب کے نام سے۔"

اورقرآن حکیم کا اختتام سورۃ المائدۃ کی درج ذیل آیت سے ہوتاہے:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ؂[71]

ترجمہ:"آج میں پوراکرچکاتمہارے لیے دین تمہارا اورپوراکیا تم پر میں نے احسان اورپسند کیا میں نے تمہارے واسطے دین اسلام کودین۔"

 

مرحلہ وارنزول قرآن کی حکمت:

قرآن بتدریج تھوڑاتھوڑا سانازل ہوا ۔ پہلے نزول کے بارے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے:

بَلْ هُوَ قُرْآَنٌ مَجِيدٌ ۔ فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ۔؂[72]

ترجمہ:"کوئی نہیں یہ قرآن ہے بڑی شان کا لکھا ہوالوح محفوظ میں ۔"

دوسرے نزول کے بارے ارشاد ربانی ہے:

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ؂[73]

ترجمہ: "ہم نے اس کو اتارا شب قدرمیں ۔"

دوسرے مقام پہ فرمایا:

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ؂[74]

ترجمہ: " ہم نے اس کو اتارا ایک برکت کی رات میں ۔"

مذکورہ دونوں آیات یہ وضاحت کرتی ہیں کہ وحی کا دوسرامرحلہ ایک ہی رات میں تکمیل پذیرہوا۔ جو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے ایک بیان کی جاتی ہے ۔

"قرآن حکیم آخری تین مراحل میں ہی تھوڑاتھوڑا کرکرے نوع انسانی پر نازل ہوا یہ عمل تئیس برس پر محیط تھا۔"؂[75]

حضرت محمدﷺ اورصحابہ کرام ﷢ نے خود قرآن زبانی یاد کیا اس امر نے اس میں سہولت پیداکی کہ قرآن تئیس برس کے دوران مخصوص واقعات کے حوالے سے تھوڑاتھوڑا کرکے نازل ہوا۔ قرآن خود مرحلہ بہ مرحلہ نزول کی منطق ان الفاظ میں واضح کرتاہے:

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآَنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا؂[76]

ترجمہ:"اورکہنے لگے وہ لوگ جو منکر ہیں کیوں نہ اترااس پر قرآن سارایک جگہ ہوکر۔ اسی طرح اتارا تاکہ ثبت رکھیں ہم اس سے تیرادل اورپڑھ سنایا ہم نے اس کو ٹھہرٹھہر کر۔"

"قرآن حکیم کی ١١٤ سورتیں چھوٹی بڑی ٦٢٣٥ آیات ہیں ۔ سب سے چھوٹی سورۃ الکوثر اورسب سے لمبی سورۃ البقرۃ ٢٨٦ آیات پر مشتمل ہے۔ہر سورت کا الگ عنوان ہے۔ طویل ترین سورتیں شروع میں اورچھوٹی آخرمیں ہیں ۔ ہر سورت کے اندرآیات کی اورخود سورتوں کی ترتیب دوبارہ دی گئی اورانجام کار محمد ﷺ نے اپنی عمرمبارک کے آخری برس میں اسے حتمی صورت دی۔ اس ترتیب کے مطابق قرآن کا آغاز سورۃ الفاتحۃ اوراختتام سورۃ الناس پر ہوتاہے۔"؂[77]

دوسرے مقام پہ ارشاد فرمایا:

وَقُرْآَنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا ؂[78]

ترجمہ: اورپڑھنے کاوظیفہ کیاہم نے جداجدا پڑھے تو اس کو لوگوں پرٹھہرٹھہر کراوراس کو ہم نے اتارتے اتارتے اتارا۔"

قرآن حکیم کے مرحلہ وارنزول کافائدہ اہل ایمان کو یہ ہوا کہ انہوں نے اسے ازبر کردیا اور ایک مسلسل روحانی بالیدگی اورمضبوطی کے حوالے سے تربیت کاعمل بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ مرحلہ وارنزول کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ" اس عہد کے عربوں کی وسیع پیمانہ پہ ناخواندگی کے پیش نظر اگرساراقرآن ایک ہی بارمیں نازل ہوجاتا تو وہ اسے سمجھنا مشکل پاتے۔" ؂[79]

قرآنی نزول کی ترتیب احکامات اس وقت کے حالات وضرویات کے مطابق تھی۔

"ابتداء میں ساری توجہ چھوٹے عقائد اور توہمات کی تردید پرمرکوز ہے۔ یہ اسلام سکھانے کے اگلے مرحلے کی تیاری تھی جس کا تعلق اساسی عقیدے اوراسلام کے نظام اقدار سے تھا، پھراصول ہائے عبادت بتائے گئے جن کے ذریعہ معاملات کے قواعد کی بھرپور توضیح ہوگئی لیکن یہ تدریج کے نظری پہلو کا محض ایک وسیع تربیان ہے۔۔۔۔قرآن کا ایک خاصہ بڑا حصہ ان سوالات کے جواب میں نازل ہوا جو لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے وقتاً فوقتاً پوچھے اوران واقعات کے حوالے سے بھی جو زمانہ وحی کے دوران پیش آئے۔ تدریج نے مسلمانوں اورحتی کہ رسول اللہ ﷺکی رہنمائی کا موقعہ فراہم کیا۔آخرمیں نسخ کا موضوع آتاہے یعنی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے کسی سابقہ حکم کو منسوخ کرکے نیاحکم آنا۔ یہ امر بھی قرآن کے مرحلہ بہ مرحلہ نزول کے ساتھ منسلک ہے۔ چنانچہ لوگوں کی زندگیوں سے مربوط معاملات کے حوالے سے قرآنی قانون سازی یک دم نافذ نہ ہوئی۔ یہ ٹکڑوں میں نازل ہوئی تاکہ کوئی مشکل نہ پیش آئے۔" ؂[80]

شراب کے استعمال پہ پابندی قانون سازی کے بتدریج قرآنی طریقہ کار کی دلچسپ مثال پیش کرتی اور قانون سازی کے وظیفے اورفطرت کی جانب سے قرآن کے رویئے پہ روشنی ڈالتی ہے۔ اس حوالے سے قرآن حکیم کی درج ذیل ملاحظہ فرمائیں :

"يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا" ؂[81]

ترجمہ: تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب کا اورجوئے کا،کہہ دے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اورفائدے بھی ہیں لوگوں کو اوران کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے فائدہ سے۔

"اس زمانے میں شراب نشے میں پڑنے کی اجازت تھی۔" ؂[82]

اس کے بعد شراب نوشی پہ مکمل طورپہ پابندی عائد کردی گئی اورانہیں شیطان کا کام قرار دیاگیا اس حوالے سے ارشاد خداوندی ہوا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" ؂[83]

ترجمہ:اے ایمان والو شراب اورجوا اوربت اورپانسے ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔

علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن کا سار متن متواتر ہے یعنی ہمہ گیر طورپرقبول شدہ شہادت کے ذریعہ اس کی معتبریت ثابت شدہ ہے۔ یہ نسل درنسل حافظے اورتحریری صورت میں بھی موجود رہا ہے۔ چنانچہ

"قرآن کی مختلف قراء توں کی معتبریت ثابت کرنے کے لیے تواتر سے کم کوئی بھی شہادت قبول نہیں کی جاتی۔" ؂[84]

سنت نبوی ﷺ

سنت یا حدیث کو فقہ کا دوسرا ماخذ تسلیم کیاجاتاہے۔"سنۃ کا لفظی مطلب راستہ یا اچھی طرح چلاہو راستہ ہے ، لیکن یہ اصطلاح مروج دستور یا طے شدہ طرز عمل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ سنۃ یا سنت کوئی اچھی یا بری مثال بھی ہوسکتی ہے۔ اورکوئی فرد یا فرقہ یا برادری کوئی سنت قائم کرسکتی ہے۔ قبل از اسلام عرب میں عرب لوگ برادری کے قدیم اورجاری دساتیر کے لیے سنت کی اصطلاح استعمال کرتے تھے جو انہیں اپنے اجداد سے ورثے میں ملی تھی۔ لہذا کہاجاتاہے کہ عرب کے قبل از اسلام ہرقبیلے کی اپنی اپنی سنت تھی جسے وہ اپنی شناخت اورتفاخر کی بنیاد سمجھتے تھے۔" ؂[85]

سنت کا متضاد بدعت ہے ، جس سے مراد سابقہ مثال اورماضی سے تعلق کانہ ہونا ہے۔ قرآن میں لفظ سنت اوراس کی جمع سنن متعدد موقعوں پر استعمال ہوا ہے۔(کل سولہ مرتبہ) ان تمام مثالوں میں سنت سے مراد کوئی جانا ماناطرز عمل یا دستور ہے۔"؂[86]

قرآن حکیم کی درج ذیل آیات جن میں لفظ سنت کا استعمال ہواہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

" سُنَّۃُ الْاَوَّلِین"؂[87]

ترجمہ: ان پر رسم پہلوں کی۔

" لِسُنَّۃِ اللّٰہ" ؂[88]

ترجمہ: اللہ کی رسم۔

" سُنَن" ؂[89]

ترجمہ: روایات ،انداز ہائے حیات۔

"سولہ جگہوں پہ سنۃ اللہ آیاہے۔" ؂[90]

"علمائے حدیث کی نظرمیں آنحضرت ﷺ سے روایت کردہ تمام باتیں ، آپ ﷺ کے افعال ،اقوال اورپسندیدہ باتیں سب سنت ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ کے خدوخال اوراوصاف بیان کرنے والی تمام روایات بھی سنت کہلاتی ہیں ۔ تاہم فقہ کے علماء مؤخرالذکر کوسنت شمار نہیں کرتے۔" ؂[91]

قرآن حکیم میں سنت النبی کی اصطلاح استعمال نہیں ہوئی ۔ لیکن اس کے متبادل طورپر"اسوہ حسنہ" کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ قرآن کی آیت ملاحظہ فرمائیں :

"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ "؂[92]

ترجمہ: رسول کا اسوہ حسنہ تمہارے لیے نمونہ ہے۔

"قرآن کے بعد سنت شریعت کا دوسرا مرکزی ماخذ ہونے کے ناطے مجتہد کو قرآن وسنت کی فوقیت کے درمیان ترجیح کاخیال رکھنا لازمی ہے۔چنانچہ کسی مخصوص مسئلے کا حل تلاش کرتے وقت فقیہ کو صرف سنۃ کی طرف رجوع کرنا چاہئے جب وہ قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے میں ناکام ہوجائے۔ اگرقرآن میں متن واضح ہوتواس پر ہی عمل کرناچاہئے۔اور اسے سنت کی کسی بھی متضاد مثال پر اولیت دینا ہوگی۔ سنت پر قرآن کی اولیت جزا اس امر کانتیجہ ہے کہ ساراقرآن وحی ظاہر پر مشتمل ہے۔" ؂[93]

فقہ کے دوسرے ماخذ یعنی حدیث کے متعلق اہل علم میں اختلافات موجود ہیں ۔

"کچھ لوگ اسے اس معنی میں دین کا ماخذ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے ہم پلہ ہے اوراسے وحی غیرمتلو ،مثلہ معہ ، جیسی اصطلاحات سے یادکرتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ملک کا روشن خیال طبقہ جسے متجدد دین کا گروہ کہاجائے توزیادہ مناسب ہوگا ۔ حدیث کی دینی حیثیت کا منکر ہے وہ اسے محض تاریخ کی حیثیت دیتاہے۔" ؂[94]

اجماع امت:

اجماع فقہ اسلامی کا تیسراماخذ ہے۔

"اسلام کے قانونی تصورات میں سب سے زیادہ اہم ہے۔" ؂[95]

"اجماع عربی لفظ اجمع کا Verbal Noun ہے جس کے دومطلب ہیں :تعین کرنا اورکسی چیز پر متفق ہونا، اول الذکر کی ایک مثال اجمع فلاں علی کذا ہے، یعنی فلاں فلاں نے فلاں کا فیصلہ کیا۔ اجمع کا یہ استعمال قرآن وحدیث دونوں میں ملتاہے۔ مؤخرالذکر کا مطلب "مکمل اتفاق رائے" ہے اس لیے کہاجاتاہے ۔ اجمع القوم علی کذا ، یعنی لوگ فلاں فلاں پر متفق الرائے ہوگئے۔ اجماع کا دوسرامطلب عموماً اول الذکر کو بھی اپنے اندرشامل کرلیتاہے۔ لہذا جب بھی کسی چیز پر اتفاق رائے موجود ہوتواس پر فیصلہ بھی موجود ہوگا۔ فیصلہ واحد یا کئی افراد بھی کرسکتے ہیں ۔ جب کہ متفقہ فیصلہ صرف متعدد افراد کے ذریعے ہوسکتاہے۔" ؂[96]

"اجماع کی تعریف کسی بھی دورکی (آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد) امت مسلمہ کے مجتہدی کے کسی بھی معاملے میں متفقہ فیصلے کے طورپرکی جاتی ہے۔ اس تعریف میں مجتہدین کا ذکر عام لوگوں کے اتفاق رائے کو اجماع کے دائرے سے خارج کردیتا ہے۔ اسی طرح"کسی بھی دورکے مجہتدین" سے مراد وہ دورہے جس میں متعدد مجتہدین اکھٹے ہوئے ہوں ۔ چنانچہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک یا زائدمجتہدین واقعے کے بعد دستیاب ہوئے ہوں ۔ تعریف میں "کسی بھی معاملے میں " سے مراد یہ ہے کہ اجماع کا اطلاق تمام شرعی ،عقلی اور عرفی و لغوی معاملات پرہوتاہے۔" ؂[97]

اجماع صرف آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد ہی واقع ہوسکا۔ کیونکہ آپ ﷺ کی زندگی میں شریعت پر آپ ﷺ ہی واحد اعلی ترین سند تھے، چنانچہ دوسروں کا اتفاق یا اختلاف کوئی اثرنہیں ڈالتاتھا۔

"ہر امکانی اعتبارسے اجماع پہلی بار مدینہ میں صحابہ﷢ کے درمیان واقع ہوا۔ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ﷢ پیش آنے والے مسائل پر آپس میں صلاح ومشورہ کیاکرتے تے۔ اوران کا اجتماعی اتفاق رائے امت نے قبول کیا۔ صحابہ کرام ﷢ کے بعد یہ قائدانہ کردار تابعین کومل گیا اورپھرتبع تابعین کو ، مؤخرالذکر جب کسی نکتے پر اختلاف کاشکارہوئے تو صحابہ کرام ﷢ اورتابعین کے خیالات وطرز عمل سے رجوع کیا۔ اس طرح نظریہ اجماع ترقی کے لیے ایک زرخیز زمین بن گئی۔اجماع کاجوہر خیالات کی فطری نشوونما میں ہے۔ اس کا آغاز انفرادی فقہاء کے ذاتی اجتہاد سے اور اختتام خاص مدت کے لیے مخصوص رائے کی ہمہ گیرقبولیت پر ہوتاہے۔ اتفاق رائے پیداہوجانے تک اختلافات کو برداشت کیاجاتاہے اوراس دوران امت پر کوئی خیالات زبردستی لاگوکرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔" ؂[98]

اس تصور پر صدرالاسلام میں نظری اعتبار سے خوب خوب بحثیں ہوتی رہیں ۔ لیکن عملاً اس کی حیثیت ایک خیال سے آگے نہیں بڑھی ۔

"ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ممالک اسلامیہ میں یہ تصور ایک مستقل ادارہ کی صورت اختیار کرلیتا۔ شاید اس لیے کہ خلیفہ چہارم کے بعد جب اسلام میں مطلق العنانی ملوکیت نے سراٹھایا تو یہ اس کے مفاد کے خلاف تھا کہ اجماع کو ایک مستقل تشریعی ادارے کی شکل دی جاتی۔ اموی اورعباسی خلفاء کا فائدہ اسی میں ہی تھا کہ اجتہاد کا حق بحیثیت افراد مجتہدین ہی کے ہاتھ میں رہے۔ اس کی بجائے کہ اس کے لیے ایک مستقل مجلس قائم ہو۔" ؂[99]

شریعت کی نشوونما میں اجماع ایک اہم کردار ادارکرتاہے ، فقہ کا موجودہ مجموعہ اجتہاد اوراجماع کے طویل عمل کی پیدوار ہے۔ چونکہ اجماع امت کی زندگی میں خیالات کے فطری ارتقاء اورقبولیت کومنعکس کرتاہے، اس لیے اجماع کابنیادی نظریہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوسکتا۔ یہ خیال کہ اجماع کا سلسلہ تبع تابعین کے بعد سے رک گیاتھا، شاید اجتہاد کا دربند کرنے کی غرض سے پیداہوا۔ چونکہ اجماع کا منبع اجتہاد میں ہے ، لہذا اجتہاد کا دروازہ بند ہونے سے اجماع کاسلسلہ بھی ختم تصورکرلیاگیا۔

"قرآن وسنت کے برعکس اجماع الوحی الہام میں براہ راست شریک نہیں ۔ ایک عقیدے اورشریعت کے ثبوت کی حیثیت میں اجماع بنیادی طورپرایک منطقی ثبوت ہے۔ اجماع کی تھیوری اس نکتے پر واضح نہیں ہے کہ اجماع کودیئے گئے اعلیٰ رتبے کی نوعیت کا تقاضہ ہے کہ صرف ایک مطلق اورہمہ گیر اتفاق رائے ہی مانا جائے گا۔ البتہ اجماع کے منطقی مواد پر مطلق اتفاق رائے حاصل کرنا مشکل ثابت ہوا ہے۔" ؂[100]

وقوع پذیری کے انداز کی بنیاد پر اجماع کی دواقسام تمیز کی گئی ہیں :

الاجماع الصریح:جس میں ہر ایک مجتہد اپنی رائے بول کر یا اشارے سے دیتاہے۔

الاجماع السکوتی: جس میں کسی مخصوص دور کے کچھ مجتہدین کسی واقعے کے حوالے سے واضح رائے دیتے ہیں جب کہ بقیہ خاموش رہتے ہیں ۔" ؂[101]

اجماع کی سند:

اجماع کی سند کی تعریف شرعی ثبوت کے طورپر کی جاتی ہے جس پر مجتہدین نے اپنے اجماعی اصول کی بنیا دکی حیثیت میں انحصار کیاہو، اجماع کے لیے سند ضروری ہے کیونکہ

"سند کے بغیر یہ محض رائے بن کر رہ جائے گا۔ علماء کی اکثریت کے مطابق اجماع کی بنیاد متن کی کسی اتھارٹی یا اجتہاد میں ہونی چاہئے۔ علامہ الامدی نے نشاندہی کی ہے کہ امت کا کسی ایسی چیز پر متفق ہونا خلاف قیاس ہے۔ جس کی ماخذوں کوئی بنیاد موجود نہی ہو۔ علماء اس بارے میں متفق ہیں کہ اجماع کی بنیاد قرآن یا سنت پر ہوسکتی ہے۔" ؂[102]

قیاس:

قیاس فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ ہے۔ اس کامطلب"قانون سازی میں مماثلتوں کی بناء پر استدلال سے کام لیاجائے۔" ؂[103]

قیاس کا لغوی مطلب "ناپنا یا لمبائی،وزن یا کسی چیز کے معیار کااندازہ لگاناہے، اسی لیے ترازو کو مقیاس کہتے ہیں ۔ چنانچہ عربی جملے"قامۃ الثوب بالاذراع" کا مطلب ہے:کپڑا گز سے ناپاگیا۔ قیاس کا مطلب موازنہ بھی ہے۔دوچیزوں کے درمیان برابری یا مشابہت بتانے کے نکتہ نظرسے ۔ چنانچہ "زید یقاس علی خالد عقلہ ونسبہ۔" کا مطلب ہے کہ زید ذہانت اورنسب میں خالد کے ساتھ موازنہ رکھتاہے۔ لہذا قیاس دوچیزوں کے درمیان برابری یا قریبی مشابہت کا پتہ دیتاہے ، جن میں سے ایک کسوٹی بناکر دوسری کوپرکھاجاتاہے۔

تکنیکی لحاظ سے قیاس کا مطلب کسی شرعی اصول کو اصل سے نئی صورت میں لانا ہے، کیونکہ مؤخر الذکر کی علت بھی سابق الذکر والی ہے۔ اصل صورت ایک مخصوص متن سے منضبط ہوتی ہے، اورلگتاہے کہ قیاس نئی صورت پر بھی وہی حکم نافذ کرے گا۔

اصل اورنئی صورت میں علۃ مشترک ہونے کی وجہ سے ہی قیاس کا اطلاق یاجواز ہے۔ قیاس سے رجوع اسی صورت میں جائز ہے جب نئی صورت کا حل قرآن ،سنت یا قطعی اجماع میں نہ ملتاہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں قیاس سے رجوع کرنا بے کارہوگا جب کوئی پہلے سے موجود قانون نئی صورت کا حل پیش کرسکتاہو۔ نصوص اوراجماع کے دائرے سے باہر معاملات میں ہی قیاس کی مدد سے ان ماخذوں سے قانون مستنبط کیاجاسکتا ہے۔" ؂[104]

فقہاء کے ہاں لفظ قیاس کبھی کبھی ایک عام اصول کے معنوں میں بھی استعمال ہواہے۔ چنانچہ آپ کو اکثر ایسے بیانات ملتے ہیں کہ فلاں فلاں حکم ثابت شدہ قیاس کے متضاد ہے۔


 

باب چہارم

دعوت وتبلیغ کی سرگرمیاں

 

باب ھذامیں درج ذیل عنوانات کے تحت بحث پیش کی جائیگی۔

1.     دعوتی سرگرمیاں

2.     خدمات سیرت

3.     دعوت دین کا اثر

4.     راہ حق میں مشکلات ومصائب

5.     پرامید داعی

6.     خدمت دین

 

 

خدمات سیرت

سیرت نگاری درحقیقت اس عقیدت اورمحبت کااظہار ہے جومسلمانوں کواپنے آقا حضرت محمدﷺ کی ذات گرامی اورآپ ﷺکی تعلیمات سے ہے۔ ؂[105]

سیرت نگاری کا آغاز پہلی صدی ہجری میں ہوا۔ حضور اکرم ﷺ کے غزوات کے بارے میں تفصیلات پر مشتمل تالیفات کوابتدائی دورمیں "سیر" یا "سیرت" کا عنوان دیاجاتا تھا اورجن کتب میں ایسا مواد شامل ہوتاہے وہ "مغازی" کے نام سے مشہور تھیں ۔

"مغازی" پر باقاعدہ پہلی تصنیف محمد اسحاق طلبی کی ہے جو ایک تابعی ہیں ۔ یہ کام دوسری صدی میں ہوا۔ اس کے بعد"سیرت ابن ہشام" کے نام سے ایک جامع کتاب امام محمد بن عبدالمالک المعروف ابن ہشام کی ہے۔؂[106]

سیرت نگاری کافن چوتھی صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری تک عروج پر رہا اور عربی زبان میں بے شمار اورعربی زبان میں بے شمار کتب منظرعام پرآئیں ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ مختلف ناموں سے مثلاً مغازی، شمائل، خصائص،خطبات نبوی،بعثت،واعلام نبوت کے نام سے نظم ونثر کی صورت میں جاری رہا۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں کسی شخصیت کے بارے میں اتنا نہیں لکھا گیا جتنا سرکار مدینہ ﷺ کی شان میں صرف مسلمانوں نے ہی نہیں غیرمسلم مصنفین نے بھی لکھا۔ قرآن کریم کا یہ دعویٰ اس پہلو کی نشاندہی کرتاہے:

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ؂[107]

اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کسی اورنبی نے نہیں آنا لہذا آپﷺ کی تعلیمات کوقیامت تک باقی رکھنا مقصود تھا اوردوسری بات کہ آپ ﷺ کسی مخصوص علاقہ گروہ یا کسی محدود وقت کے لیے نبی نہ تھے بلکہ آپ ﷺ کی بعثت کے بارے میں ارشاد ہے:

تصانیف:

تدریس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر غازی صاحب کا تعلق قلم و قرطاس کے ساتھ برابر قائم رہا۔ ادارہ تحقیقات اسلامی کا عربی مجلہ"الدراسات الاسلامیہ" ١٩٨١ء سے آپ کے زیرادارت چھپتارہا۔ اس مجلہ نے آپ کی ادارت کے دورمیں نمایاں ترقی کی۔ ١٩٨٧ء تک آپ مسلسل اس کے مدیر رہے۔ آپ نے مدیر کی حیثیت سے "الدراسات الاسلامیہ" کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا۔ عربی زبان کے ساتھ فطری اورقلبی لگاؤ کی بناپر آپ ہر ایک مقالہ کو خود پڑھتے تھے اورتفصیل کے ساتھ ایڈٹ کرتے تھے۔ شروع میں " کلمہ العدد" کے عنوان سے اداریہ لکھتے تھے۔ ان ادارتی نوٹوں کوپڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر غازی صاح کو اس دورمیں عربی محاورہ کے استعمال پر کتنا عبور حاصل تھا۔

 ١٩٨٤ءمیں آپ کو"فکرونظر" کی ادارت کی ذمہ داری ملی۔ "فکرونظر" ادارہ تحقیقات اسلامی کے آرگن کی حیثیت سے مشہور ہے۔ شروع شروع میں اس میں ہر نوع کے مقالات چھپتے تھے۔ ڈاکٹر غازی صاحب نے اسے باقاعدہ Stream Line کیا۔ اس کے معیار پربھرپورتوجہ دی۔ جس کی وجہ سے "فکر ونظر نے تحقیقی مجلات کی صف میں ایک نمایاں حیثیت اختیار کرلی۔

١٩٨٨ء میں جب دعوۃ اکیڈمی کے اندرونی امور اورمعاملات میں پیچیدگی اورتناؤ پیداہوا اوراس تناؤ نے بالآخر گھمبیر شکل اختیارکرلی تویونیورسٹی کی انتظامیہ نے دعوۃ اکیڈمی کے مدیر عام کی حیثیت سے ڈاکٹرغازی کا انتخاب کیا۔مجھ اب تک وہ دن یاد ہے جب ڈاکٹرغازی صاحب بہت سادگی کے ساتھ دعوۃ اکیڈمی کے دفتر واقع کراچی کمپنی تشریف لائے۔ ہم لوگوں نے آپ کا استقبال کیا آپ سیدھے آڈیٹوریم تشریف لے گئے۔ دعوۃ اکیڈمی کے تمام رفقاء کوجمع کیا گیا۔ آپ نے بہت جچے تلے انداز میں خطاب کیا اوربتایا کہ دعوۃ اکیڈمی کے تقریباً تمام پروگراموں سے انہیں پوری طرح واقفیت حاصل ہے۔ وہ کوشش کریں گے کہ دعوۃ اکیڈمی کو مزید Promotion ملے اوراس کی Projection قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہو۔ بعد میں ڈاکٹرغازی صاحب نے مدیر عام کے دفترمیں بیٹھ کرہمارے ساتھ خصوصی نشست کی اس نشست میں آپ نے بتایا کہ بنیادی طورپر آپ کا تعلق کتاب اورقلم و قرطاس سے ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے آپ کو فائلوں کے ڈھیر کی طرف بھیجاہے اورکہنے لگے کہ آپؒ حسبِ معمول قلم و قرطاس کے ساتھ اپنے تعلق کو برقراررکھیں گے۔ ڈاکٹرغازی صاحب نے جب دعوۃ اکیڈمی کے مدیر عام کی حیثیت سے قلم دان سنبھالا تواس وقت دعوۃ اکیڈمی میں تین شعبے کام کررہے تھے۔ ایک شعبہ تربیت ائمہ دوسرا شعبہ اسلامی خط وکتابت کورسز اورتیسرا شعبہ میڈیا۔آپ نے وقت کے ساتھ ساتھ تربیتی پروگراموں کوبڑھایا مثلاً آرمی آفیسرز کے لیے تربیتی پروگرام شروع ہوا۔ اساتذۃ کے لیے ورکشاپس کا سلسلہ شروع ہوا۔ اہل صحافت کے لیے مختصر دورانیے کے پروگرام منعقد ہونا شروع ہوئے۔ بچوں کے ادب کا شعبہ قائم ہوا۔ بین الاقوامی تربیت ائمہ کے پروگرام کاآغاز ہوا۔ دعوۃ اسٹڈی سینٹرقائم کیاگیا۔ "دعوہ" کے نام سے اردو میگزین اور Da’wah Highlights کے نام سے انگریزی میگزین کااجراء ہوا۔ دعوتی پروگراموں کا سلسلہ بین الاقوامی سطح تک بڑھایا گیا۔ امریکہ ،برطانیہ،جرمنی کے علاوہ افریقہ اور یورپ کے کئی ممالک میں دعوتی پروگراموں کا انعقاد پورے تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔

تصانیف کا تعارف:

ڈاکٹرمحمود احمد غازی شعبہ تصنیف میں ایک خصوصی مقام رکھتے تھے، علوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت ہی آپ کی زندگی کا ہدف تھا اور اس ہدف کے حصول کے لیے آپ نے تحریر و تقریر کو ذریعہ بنایا، آپ نے مختلف موقعوں پر مختلف ادوار میں خطبات ارشاد فرمائے جن میں آپ نے قیمتی معلومات اپنے سامعین کو فراہم کیں ۔ قلم و قرطاس کے ساتھ آپ کا تعلق اوائل عمری ہی میں قائم ہوا اور پھر تاحینِ حیات تصنیف وتدوین کاسلسلہ جاری رہا۔ اردو،عربی اور انگریزی زبان میں کئی ایک قابل قدر کتب مدون کیں ۔ اس کے علاوہ تحقیقی اور علمی رسائل و جرائد میں آپ کے سینکڑوں مقالات شائع ہوئے تصنیف کے شعبہ میں فقہ اوراسلام کا قانون بین الممالک آپ کی خصوصی دلچسپی کے موضوع تھے۔ ہر ایک موضوع پر آپ کا کام انتہائی تحقیقی اور وقیع نوعیت کا ہے۔آپ کی تصانیف کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ قدرت نے آپ کو قدیم اورجدید علوم و فنون میں کس قدر مہارت اوربصیرت عطاکی تھی۔

ڈاکٹر مرحوم کے افکار ونظریات کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ آپ معتدل مزاج کے مالک تھے۔ آپ کی طبیعت قدیم اورجدید نظریات کا مرقع تھی، آپ کی اعتدال پسندی آپ کی تصانیف میں نمایاں نظرآتی ہے آپ نے اپنی تصانیف میں دین و دنیا کی تفریق کے تصور کو اسلام کی روح کے منافی قراردیاہے۔ دینی مدارس میں جدید عصری علوم کی تدریس کے لیے جو اقدامات تجویز کیے گئے وہ اسی نظریہ کے تناظر میں شامل ہیں ۔

دینی علوم و تفسیر ،حدیث ،فقہ،سیرت وغیرہ کے علاوہ جن موضوعات کو آپ نے احاطہ تحریر میں لایا ان میں علم الکلام، اسلامی ریاست کے خدوخال ،معیشت وتجارت،اسلام اور مغرب ،علامہ اقبال کی شاعری، اسلامی بینکاری ، مسلمانوں کا نظام تعلیم جیسے اہم مضامین شامل ہیں ۔

فاضل مصنف کی تصانیف کومختلف گروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ ایک قسم آپ کے محاضرات کی ہے جو آپ نے مختلف اداروں کے تعاون سے ارشاد فرمائے جنہیں بعد میں صوتی تسجیل سے صفحہ قرطاس پرمنتقل کیاگیا اور مختلف پبلشرز نے شائع کیے۔ سلسلہ محاضرات ہی آپ کی شہرت کاسبب بنا۔

دوسری قسم کی کتب وہ ہیں جنہیں آپ نے خود باقاعدہ طورپرتالیف کیا اورکتابی شکل میں شائع کیا اس کے علاوہ تصنیف کے شعبہ میں آپ کا کام مختلف قسم کی کتب کی تقدیم ،متعدد زبانوں میں تراجم اورکئی ایک کتب کے تعارف اورتبصرے کی شکل میں موجود ہے۔

اس باب میں ڈاکٹر موصوف کی چیدہ چیدہ تصانیف کامختصر تعارف پیش کیاجائے گا۔ اس سے قبل آپ کی تصانیف کی فہرست شامل کی جاتیی ہے جو اردو،عربی اورانگریزی کتب پر مشتمل ہے۔

اردوکتب:

١۔         محاضرات قرآنی                            ٢۔        محاضرات حدیث

٣۔        محاضرات سیرت                           ٤۔        محاضرات فقہ

٥۔        محاضرات معیشت وتجارت               ٦۔        محاضرات شریعت

٧۔        ادب القاضی                                ٨۔        اسلامی شریعت اور عصر حاضر

٩۔        خطبات کراچی                              ١٠۔       قرآن ایک تعارف

١١۔        مسودہ قانون وقصاص ودیت              ١٢۔       محکمات عالم قرآنی

١٣۔       قواعد فقہیہ                                   ١٤۔       احکام بلوغت

١٥۔       اصول فقہ                                    ١٦۔       اسلام اورمغرب

١٧۔      اسلامی بینکاری                              ١٨۔       تقنین الشریعۃ

عربی کتب

١۔                تحقیق وتعلیق السیر الصغیر

٢۔               القرآن الکریم المعجزۃ العالیۃ الکبریٰ

٣۔              یا ام الشرق

٤۔               تاریخ العرکۃ المجددیۃ

انگریزی کتب:

1.     The Hijra

2.     An Analytical Study of the Sanusiyyah Movement.

3.     Renaissance and Revivalism in Muslim India.

4.     The Shorter Book on Muslim International Law.

5.     State and Legislation in Islam.

6.     Prophet of Islam: His life and works

7.     Qadianism ؂[108]

 

محاضرات قرآنی:

سلسلہ محاضرات کی اولین تصنیف ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹرغازیؒ کے ان خطبات پر مشتمل ہے جو آپ نے اسلام آباد میں اپریل٢٠٠٣ء میں ارشاد فرمائے۔ان خطبات کا اصل محرک ڈاکٹرغازی کی چھوٹی بہن محترمہ عذرانسیم ہیں جنہوں نے درس قرآن کی ضرورت واہمیت کے پیش نظر اس سلسلہ کا انتظام کیا۔ ان خطبات کی اولین مخاطب راولپنڈی ، اسلام آباد کی تعلیم یافتہ خواتین ہیں جو درس قرآن کے پروگراموں میں دلچسپی سے شرکت کرتی رہتی ہیں ۔ لیکن عموما درس قرآن کے اجتماعات میں جو خواتین مدرسات یہ خدمات انجام دیتی ہیں ان کا تعلیمی پس منظر خالص دینی علوم میں تخصص کا نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے درسِ قرآن کی ان مجالس میں بعض پہلوؤں میں تشنگی رہ جاتی ہے۔ ڈاکٹر غازی نے ان خطبات میں اس کمی کوپورا کرنے کی کوشش کی ہے۔

 ان خطبات کی زبان تحریری نہیں بلکہ تقریری تھی۔ بعد میں محترمہ عذرا نسیم فاروقی نے صوتی تسجیل سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا اور الفیصل پبلشرز نے لاہورسے کتابی شکل میں پبلش کیا ۔

 محاضرات قرآنی بارہ ابواب پر مشتمل ایک تصنیف ہے جو قرآن پاک کے اہم اوربنیاد مضامین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

تدریس قرآن اورقرآن پاک کی نشرو اشاعت کا سلسلہ نزول قرآن کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ اولین مدرس تھے اورانہوں نے قرآن کی تعلیم وتفہیم سے صحابہ کرام ﷢ کی زندگیوں کو قرآن کے سانچوں میں ڈھالا۔ اسی طرح صحابہ کرام﷢ نے بھی قرآن پاک کی درس وتدریس کواپنی زندگی کامقصد بنالیا۔ اوررسول اللہ ﷺ کے بعد بہترین مفسرین قرآن یہی حضرات تھے۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عباس،حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب ﷢ کے نام خاص طور پر قابل ذکرہیں ۔

اسی طرح تابعین اورتبع تابعین کے دورمیں تفسیر اورعلوم القرآن کومحفوظ رکھنے کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دیں ، ان میں حضرت مجاہد،حضرت سعید بن جبیر،حضرت عکرمہ،حضرت عطاء بن ابی رباح اورحضرت قتادہ کے نام مفسرین کی فہرست میں امتیازی مقام رکھتے ہیں ۔تفسیر قرآن کے سلسلے میں مختلف رجحانات دیکھنے میں آئے ۔ مثلاً تفسیر بالماثور ،ایسی تفسیر جس میں صحابہ کرام﷢ کی روایات کو جمع کیاہو۔ اس کا سب سے بڑا اورقدیم ماخذ تفسیر طبری ہے اس کے علاوہ تفسیر میں دوسرا رجحان تفسیر کا لغوی اورادبی رجحان ہے۔ اس سلسلہ کی اولین کتاب "مجازالقرآن" کے نام سے مشہورہے۔ تیسرارجحان تفسیربالرائے کاہے۔ جس میں مفسر اپنی رائے اوربصیرت کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے۔ اس کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہے کہ یہ ذرائع مستند ہے یانہیں ۔

ڈاکٹرمحمود احمد غازی نے اپنی کتاب محاضرات قرآنی میں تفسیر اورمفسرین قرآن کے عنوان پر ایک طویل بحث شامل کی ہے۔ اس کے علاوہ مطالعہ قرآن کی ضرورت واہمیت پر ایک نئے اسلوب سے گفتگو کی ہے۔ آپ نے اپنی تقریر میں مطالعہ قرآن مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلموں کے لیے بھی ضروری قراردیا کیونکہ مطالعہ قرآن سے انسانی تاریخ اور انسانی نفسیات جیسے اہم علوم میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ قرآن حکیم کی جمع وتدوین ،تفسیر اورعلم تفسیر،قرآن کا نزول ، اعجاز القرآن اورمفسرین قرآن جیسے اہم عنوانات کتاب کا خاصہ ہیں ۔

جدید دورمیں مطالعہ قرآن کے تقاضے اورضروریات کے نام سے ایک مفصل مضمون آپ کے خطبات کاحصہ ہے۔ مسلمانوں کے تعلیمی نظام میں قرآنی تعلیمات کو عملی طورپر نافذ کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی سطح پر تمام قوانین کی بنیاد بھی قرآن حکیم کی تعلیمات پر ہونی چاہئے ۔ مضامین قرآن کے سلسلہ میں ڈاکٹر غازی کا نظریہ ہے کہ انسان کی دنیاوی واخروی زندگی کی اصلاح ہی اصل میں قرآن کا مضمون ہے۔ وہ تمام امور جو بالواسطہ یا بلا واسطہ انسان کی حقیقی کامیابی کے ضامن ہیں ان سب سے قرآن مجید میں بالواسطہ یابلاواسطہ بحث کی گئی ہے۔

محاضرات قرآنی کی افادیت کوڈاکٹرعبدالحمید خان عباسی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔

"ان محاضرات کامطالعہ کرنے سے یہ حقیقت قاری پر عیاں ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے قرآنی علوم پر لکھے جانے والے علمی ذخیرہ کا بغور مطالعہ کیاہے۔ قرآن مجید کے علوم اور مضامین پر اردوزبان میں لکھی جانے والی کتب میں محاضرات قرآنی سہل اورسلیس انداز میں عمدہ اضافہ ہے۔ محاضراتِ قرآنی میں قرآن مجید کی عمومیت،شمولیت، اکملیت اورآفاقیت کونہایت عمدہ اورسہل انداز میں ثابت کیاگیاہے۔؂[109]

محاضرات قرآنی کی اہمیت عصری تقاضوں کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ثناء اللہ رقمطراز ہیں :

"محاضرات قرآنی میں قرآنیات کے حوالے سے تقریباً تمام موضوعات کا احاطہ کرنے اورطویل اوردقیق موضوعات کو مختصر اورعام فہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں محاضرات قرآنی کامطالعہ عام قاری کو دوسری بہت سی کتب سے مستغنی کرتاہے وہاں ایک محقق کے علمی سفر کے لیے راہ ہموار کرتاہے۔ ایک مدرس کے لیے انداز تدریس کا سامان بھی فراہم کرتاہے۔ علوم القرآن کے موضوعات کوبنیادی ماخذ کی روشنی میں عصرجدید کی ذہنی ضرورتوں کوپیش نظر رکھ کر زیرِ بحث لایاگیا ہے۔"؂[110]

زیرنظرکتاب کا مطالعہ قرآن پاک کے معلم اور متعلم کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ڈاکٹر غازی نے مطالعہ قرآن کے ضمن میں تمام بنیادی امورکوجامع انداز سے سمونے کی کوشش کی ہے۔

علوم القرآن کے موضوع مولاناتقی عثمانی کی تصنیف"علوم القرآن" ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جس میں وحی کی حقیقت ،تفسیر و تاویل کے لغوی واصطلاحی مفہوم، نزول قرآن، ناسخ ومنسوخ، حفاظت قرآن سے متعلق شبہات اوران کا جواب ،مضامین قرآن ،چند عظیم مفسرین کرام اور ان کی تفاسیر کا مختصرتعارف بیان کیاگیا ہے۔ عنوانات کے لحاظ سے یہ کتاب محاضرات قرآنی سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔کتاب ھذا کامطالعہ اگرمحاضرات قرآنی کے تناظرمیں کیاجانئے تومحاضرات قرآنی کے امتیازی خصائص کا علم ہوتاہے کیونکہ ڈاکٹرغازیؒ نے اپنے محاضرات میں جدید دور کی ضروریات اورتقاضوں کوبھی موضوع بنایا ہے۔

محاضرات قرآنی کے مطالعہ سے ان مصادر ومآخذ کااندازہ ہوتاہے جن سے فاضل مصنف نے استفادہ کیا،شاہ عبدالعزیز ،مولاناعبیداللہ سندھی اورمولانااحمد علی لاہوری کے دروس قرآن کے اسالیب اورمناہج کوبھی کسی حد تک مآخذ ومصادر کادرجہ دیاگیا مصنف نے اپنے محاضرات میں شاہ ولی اللہ کی کتاب الفوز الکبیر فی علم التفسیر کاباربارتذکرہ کیاہے۔ اس کے علاوہ مولانااشرف علی تھانوی کی تفسیر بیان القرآن،مولانامفتی محمد شفیع کی معارف القرآن بھی بنیادی مآخذ ہیں ۔

اللہ کے ہاں استدعا ہے کہ مصنف کی اس کاوش کو شرف قبولیت عطافرمائے۔

محاضرات حدیث:

محاضرات حدیث ڈاکٹر محمود احمد غازی کی شہرہ آفاق کتب میں سے ایک ہے۔ اس سے قبل محاضرات قرآنی کی عنوان سے ایک تالیف شائع ہوچکی ہے۔ جس میں علوم قرآنی، تاریخ قرآن،کتاب وحی اورتفسیر قرآن جیسے موضوعات پرتبصرہ کیاگیاہے۔

زیرِ نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس میں حدیث ،لغوی واصطلاحی مفہوم،علوم حدیث، تدوین حدیث اورمحدثین حضرات کے مختلف انداز بیان پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

محاضرات حدیث دراصل ان خطبات پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر غازی نے ادارہ"الھدیٰ" کے تعاون سے ادارہ الھدیٰ میں ارشاد فرمائے ان خطبات کی تعداد بارہ ہے جو ٢٠٠٣ء میں ارشاد فرمائے گئے۔ ان خطبات کو حسین الحق حقانی نے کمپوز کرکے کتابی شکل میں ترتیب دیا اورالفیصل پبلیکیشنز نے ٢٠٠٥ء میں لاہور سے شائع کیا اوراب تک اس کتاب کے چھ ایڈیشن آچکے ہیں ۔ اس سے اس کی ضرورت واہمیت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ کتاب کا مقدمہ خود ڈاکٹر غازی نے تحریر کیا اورمقدمہ میں کتاب کے چیدہ چیدہ مقاصد کی نشاندہی کی۔

محاضرات حدیث کے بارہ خطبات کی مخاطب خصوصا وہ خواتین ہیں جو اہل علم اورقرآن کریم کی درس وتدریس سے کسی نہ کسی واسطہ سے منسلک ہیں اورظاہربات ہے کہ فہم قرآن کے لیے حدیث وسنت کی ضرورت واہمیت سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا۔ مقدمہ میں ڈاکٹرغازی نے نہایت عجزو انکساری سے اپنی کم علمی کا اعتراف کیاہے جو کہ اعلیٰ ظرفی کی ایک مثال ہے ۔ کتاب کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء اوررسول اللہ ﷺ پر درود وسلام سے کیاگیا اس کے بعد حدیث کا تعارف ایک نئے اسلوب میں کرایاگیا۔

حدیث اور سنت کے اصطلاحی مفہوم میں محدثین کے مابین پائے جانے والے اختلافات پر پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کے مدلل جوابات ارشاد فرمائے ۔احادیث کی مختلف اقسام ، احادیث کے جواب اوراحادیث کی مستند کتب پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔

حدیث کے ضمن میں علم اسماء الرجال کوکلیدی حیثیت حاصل ہے۔ علم حدیث میں یہ مشکل ترین مضمون ہے۔ مذکورہ کتاب میں ڈاکٹر غازی نے اس عنوان پر سیر حاصل تبصرہ کیا ۔ راویوں کی شخصیت، کردار کے بارے میں تفصیلات درج ہیں اورکسی راوی کی روایت کردہ حدیث کے قابل قبول ہونے یا ناقابل قبول ہونے کی شرائط اوراصول وقواعد پر ایک طویل گفتگو شامل ہے۔

تدوین حدیث کے سلسلہ میں پانچ ادوار کاذکرکیاگیا ہے۔ تدوین حدیث درحقیقت اس عقیدت اورمحبت کا اظہار ہے جو اہل ایمان کو اپنے نبیﷺ سے ہے۔ جس محنت اورکاوش سے یہ اہم کارنامہ انجام پایا انسانی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ تدوین حدیث کے سلسلہ میں پیداہونے والے شکوک وشبہات کے مدلل جوابات شامل ہیں ۔

ہر باب کے آخرمیں لوگوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات مرحمت فرمائے جن سے حدیث کے موضوع پر دریافت کے نئے اسلوب پیداہوتے ہیں ۔ کتاب کے آخرمیں علم حدیث کونئے دور کے مسائل سے ہم آہنگی پیداکرنے کی ضرورت پر زوردیا۔ علوم حدیث میں تحقیق وجستجو کی آج بھی ضرورت ہے آج بھی ان علوم میں تحقیق کے ایسے گوشے موجود ہیں جو اہل علم اورطلبہ حدیث کی توجہ کے مستحق ہیں ۔

عصرحاضر کا یہ تقاضا ہے کہ احادیث کے بنیادی ماخذ سے ایسی احادیث جمع کی جائیں جو ایک موضوع سے متعلق ہوں ۔ خصوصاً ایسے مجموعے تیار کیے جائیں جو جدید مسائل کے متعلق ہوں ۔

کتاب کی امتیازی خصوصیات کا ذکرکرتے ہوئے ڈاکٹرتاج الدین ازہری نے ان الفاظ کا استعمال کیا ہے:

"محاضرات حدیث، حدیث اور متعلقہ علوم کا ایک بہترین گلدستہ ہے جس میں ڈاکٹر غازی مرحوم نے محاضرات دیتے وقت اس فن سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات دینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اس فن سے متعلق شبہات دورکرنے کی پوری کوشش کی ہے اور مخالفین کے اعتراضات کا ذکرکرکے ان کا مدلل رد کیاہے۔ حدیث کی مختلف تعریفوں میں تطبیق دی ہے۔؂[111]

کتاب کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ علم حدیث بہت سے علوم وفنون کا سرچشمہ ہے۔ ان میں علم کلام،فقہ ،اصول فقہ، علم تاریخ اورعلم سیرت قابل ذکر ہیں ۔ ڈاکٹرغازی نے اپنی کتاب میں حدیث کے سائنسی معلومات کی روشنی میں مطالعہ کی افادیت کاذکربھی کیاہے اورایسے حقائق کا ذکر کیا جو رسول اللہ ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کردیئے تھے۔ لیکن عصرحاضر کا سائنسدان آج ان تک رسائی حاصل کرپایاہے۔

کتاب کے مطالعہ سے اس کے مآخذ ومصادر کا اندازہ ہوتاہے جن میں علامہ عبدالغنی مقدسی کی کتاب"الکمال فی اسماء الرجال " جو فلسطین سے شائع ہوئی اسی طرح علامہ یوسف المزی کی کتاب"تھذیب الکمال فی اسماء الرجال" اورعلامہ ابن عساکر کی کتاب "تاریخ دمشق" شامل ہیں ۔ تفسیری حوالہ جات کے لیے علامہ ابن جریر طبری کی تفسیر طبری قابلِ ذکر ہیں ۔ جب کہ احادیث کے حوالہ جات کے لیے صحاح ستہ میں سے صحیح مسلم اورصحیح بخاری کوبطور بنیادی مآخذ استعمال کیاگیا۔

محاضرات شریعت:

سلسلہ محاضرات کی پانچویں کتاب محاضرات شریعت ہے۔ یہ کتاب بھی ڈاکٹر غازی کے بارہ خطبات پر مشتمل ہے۔ ان خطبات کی ایک امتیازی بات یہ بھی ہے کہ یہ خطبات اسلام آباد اوردوحہ(قطر) میں مختلف اوقات میں مختلف مجالس میں ارشاد فرمائے گئے۔ خطبات حسب معمول تقریری انداز میں دیئے گئے اورمختلف مراحل سے گزر نے کے بعد الفیصل پبلشرز نے لاہور سے کتابی شکل میں شائع کیے۔

شریعت کا جامع تعارف پیش کرنے میں ڈاکٹر غازی نے اس کے اہداف کی نشاندہی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی شریعت کو امت مسلمہ کے عالمگیرکردار کے پسِ منظر میں دیکھاجائے۔ اسلامی شریعت، مسلم معاشرہ کی تشکیل میں ایک اہم کردار اداکرتی ہے۔

عصرحاضر میں شریعت کے بارے میں کچھ غلط فہمیوں نے جنم لیا۔ لامذہب طبقہ کاخیال ہے کہ شریعت ایک قدیم نظام ہے جو اپنی افادیت کھوچکاہے لہذا اس روشن خیال دورمیں اس پر عمل کرنا ممکن نہیں ۔ ہماری بدقسمتی کہ دنیائے اسلام میں حکمرانوں کی اکثریت کاتعلق بھی اسی طبقہ سے رہاہے اس لیے شریعت کے بارے میں اس طبقہ کے تحفظات ہیں۔  ایسے حالات میں ان شکوک وشبہات کاموثرجواب ناگزیر تھا۔ ڈاکٹرغازی نے اپنی کتاب میں انہی مقاصد کا تعین کیا ہے۔

خطبات کراچی:

یہ تصنیف بھی ڈاکٹرغازی کے ان محاضرات پر مشتمل ہے جو آپ نے مولانا سید زوار حسین شاہ کی یادگار میں دارالعلم والتحقیق کراچی میں ارشاد فرمائے۔ ان کا آغاز ٢٠٠٧ء میں ہوا اورہر سال ایک خطبہ کا اہتمام کیا جاتارہا۔ ابتدائی چار خطبات ڈاکٹر غازی نے ارشاد فرمائے ۔ آپ کے سانحہ ارتحال کے باعث یہ روایت ڈاکٹرسید سلیمان ندوی کے ہاتھوں جاری رہی۔

یہ خطبات اہم ترین موضوعات پرتھے۔ ان اہمیت کے پیش نظرسید عزیزالرحمن نے ابتدائی طورپر مختلف کتابچوں کی شکل میں شائع کیا اوربعد میں ان محاضرات کوایک مجموعے کی شکل میں مدون کیا اور"خطباتِ کراچی" کے نا م سے فروری٢٠١٢ء میں زوار اکیڈمی کراچی سے شائع کیا۔

محاضرات معیشت وتجارت:

سلسلہ محاضرات کی چھٹی کڑی ہے یہ محاضرات ٢٠٠٩ء کودوحہ(قطر) میں ارشادفرمائے گئے۔ ان خطبات کے مخاطبین تعلیم یافتہ حضرات تھے جن میں سے اکثرت تجارت وکاروبار سے منسلک تھی۔ خطبات کوڈاکٹر غازی کی بیٹی محترمہ حفصہ غازی نے صفحہ قرطاس پرمنتقل کیا اورمحمد فیصل نے الفیصل ناشران لاہور سے اپریل ٢٠١٠ء کو شائع کیا۔

کتاب بارہ محاضرات پر مشتمل ہے جو ٤٥٩ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ کتاب کا مقدمہ ڈاکٹرغازی نے تحریر کیا جس میں آپ نے ان محاضرات کی ضرورت واہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح آج سے کچھ دہائیاں قبل سیاست اورریاست کے معاملات اہمیت کے حامل تھے آج کے دور میں معاشی نظریات انسان کی توجہ کا مرکز ہیں اور جب سے عالمگیریت کا تصور متعارف ہواہے دنیا کی تمام اقوام کو اپنی اقتصادیات ومعاشیات کومستحکم بنانے کی فکر دامن گیر ہونے لگی کمیونزم اورسرمایہ داری نظام کی ناکامی کے باعث اسلام کی معاشی تعلیمات اپنامقام بنارہی ہیں ۔ اقوام عالم کی دلچسپی اسلام کے معاشی نظام میں نظرآنے لگی حالات کے ان تناظر میں اس امر کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ اسلام کے مالیاتی نظام کا ایک واضح تصور دنیا کے سامنے پیش کیاجائے ۔ یہ محاضرات اسی ضرورت کی ایک کڑی ہے۔

State and Legislation in Islam.

ڈاکٹرغازیؒ کی انگریزی تصنیف آپ کی انگریزی زبان میں مہارت کی آئینہ دار ہے ۔ شریعہ اکیڈمی، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے شائع ہوئی،٢٠٠٦ ء میں اس کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔

کتاب پانچ ابواب میں منقسم ہے، جو ١٧٩ صفحات پر محیط ہیں ۔ کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹرغازیؒ نے اسلامی ریاست کا عمومی تعارف پیش کیا، اس موضوع پر اس سے قبل ہونے والے کام کا تذکرہ بھی کیا۔ڈاکٹر غازیؒ ان دنوں اسلامی یونیورسٹی میں طلباء کو اسلام کے دستوری نظریئے کے بارے میں پڑھایاکرتے تھے اور اس مقصد کے لیے اس موضوع پر کئی مضامین تحریر کیے، موجودہ کام دراصل انہیں مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے زیادہ کا تعلق آج کے سیاسی اورآئینی اصولوں کے تناظرمیں اسلامی ریاست کے تصور اور نوعیت سے ہے ڈاکٹرموصوف نے اس امید کا اظہار کیا کہ اسلامی سیاسی وآئینی نظریات کے طلباء کے لیے بالخصوص اورعام قارئین کے لیے بالعموم مذکورہ کتاب دلچسپی کاباعث ہوگی۔

ڈاکٹر محمد طاہر منصوری(ڈائریکٹر شعبہ تحقیق واشاعت ،شریعہ اکیڈمی اسلام آباد ) نے تقدیم کے عنوان سے ڈاکٹر غازیؒ کی مساعی کو سراہا ہے۔ تالیف کے مقاصد کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ بلاشبہ اس موضوع پر اس سے قبل بہت کچھ لکھاگیا ہے،لیکن کچھ نکات اب بھی تشنہ ہیں ، اس ایڈیشن میں اسی تشنگی کودورکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کتاب کے آغاز میں ڈاکٹرفدا محمدخان(جج وفاقی شرعی عدالت اسلام آباد) نے مصنف کا تعارف مختصرالفاظ میں پیش کیا، اورمذکورہ تصنیف کی اہمیت کے بارے میں لکھا کہ کتاب میں اسلام کے نظریہ ریاست اورآئین سازی کے بارے میں تحقیقی مواد شامل ہے جو خصوصاً مغرب میں اسلام کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے ازالے کا باعث ہوسکتا ہے۔

تراجم:

ادب القاضی :

لفظ قضاء کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کو لازمی قرار دینا ، فیصلہ کرنا اور اصطلاحی مفہوم میں قضاء سے مراد عدالتی فیصلہ ہے جو کسی مستند حاکم کی طرف سے جاری ہوا ہو اور اس پر عمل کرنا ضروری ہو۔

ادب القاضی سے مراد وہ امور اور احکام ہیں جن کو شریعت نے پسند کیا ہو۔ عدل و انصاف کا نفاذ ، ظلم و زیادتی کی حوصلہ شکنی اور شرعی حدود کی پاسداری یہ تمام امور ادب القاضی میں داخل ہیں ۔

فقہ اسلامی در حقیت اسلام قانون کی ایک شکل ہے۔ اس میں زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے مکمل راہنمائی موجود ہے فقہ اسلامی کے تمام عنوانات مثلاً عبادات، معاملات ، اسلام کا فوجداری قانون، اسلام کا قانون بین الاقوام اور اسلام کا دستوری قانون وغیرہ پر جداگانہ تصانیف موجود ہیں ۔ تصنیف و تالیف کی تاریخ کا جہاں ذکر ہو تا ہے وہاں ادب القاضی اور اس کے مختلف علوم و فنون کے آغاز و ارتقاء کا ذکر بھی ملتا ہے ۔

رشید قاضی ابو یوسف جو امام اعظم کے شاگرد ہیں اور ایک معروف فقیہ گزرے ہیں ، انہوں نے اپنی تصنیف اپنے شاگردوں سے تحریر کرائی لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ یہ کتاب حوادث زمانہ کا شکار ہوگئی اور ہم اس سے مستفید نہ ہو سکے۔ تیسری صدی سے اس موضوع پر مختلف نامور فقہاء نے کتابیں تالیف کیں ۔ مثلاً قاضی ابو عبد اللہ نے دہ کتابیں لکھیں (1) ۔ کتاب ادب القاضی ۔ (2) کتاب المحاضر والجلاد۔ اور قاضی ابو جعفر احمد بن اسحاق نے کتاب ادب القاضی لکھی۔ لیکن یہ کتب تاریخ کے دھند لکوں میں گم ہو کر رہ گئیں ۔اس عنوان پر قدیم ترین کتاب جو آج دستیاب ہے وہ امام ابو بکر احمد بن عمر و کی کتاب ادب القاضی ہے۔

اردو زبان میں ادب القاضی کے عنوان پر پہلی کتاب "فتاویٰ عالمگیری " کا اردو ترجمہ ہے ۔ دوسری کتاب "ہدایہ" ہے ۔ جو کہ علامہ برہان الدین کی کتاب کی اردو شرح ہے۔ ان کے علاوہ اصول فقہ اسلامی، اسلام کا قانون شہادت، اسلام کا نظام عدالت اس عنوان کی معروف کتابیں ہیں ۔ ؂[112]

ادب القاضی از ڈاکٹر محمود احمد غازی :

ادارہ تحققات اسلامی نے ایک سلسلہ "تراجم و مصادر قانون اسلامی "کے نام سے شروع کیا زیر نظر کتاب اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ مصنف نے سادہ اور قابل فہم زبان میں عنوان کی وضاحت و بلاغت کوبرقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ قانون اور وکالت سے وابستہ حضرات کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے تمام قوانین ، دیوانی و فوجداری جداگانہ انداز میں ترتیب دئے ہیں ۔

قانون اور عدالت کے موضوعات کے متعلق آیات قراآنی اور احادیث نبوی کو مناسب ترتیب دی گئی ۔ قرآنی آیات کے ترجمہ کے لیے شاہ عبد القادر، مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے تراجم سے استفادہ کیا گیا۔ احادیث نبویﷺ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے تراجم سے استفادہ کیا گیا۔ احادیث نبویﷺ کے لیے صحاح ستہ کو مستند ذرائع کے طور پر استعمال کیا گیا۔ موطا امام مالک ، صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور جامع ترمذی سے احادیث کے حوالہ جات دئیے گئے۔ ثانوی ماءخذ میں چند اہم اردو تفاسیر کو شامل کیا گیا، جن میں موضح القرآن از شاد عبد القادر دہلوی، بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی، تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور تدبر القرآن از مولانا امین احسن اصلاحی قابل ذکر ہیں ۔ اسلام کے عدالتی نظام ، ثبوت ، گواہی اور دعویٰ وغیرہ کے بارے میں احادیث کے ضمن میں اتنا مواد شامل کیا گیا ہے جو اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیےکافی ہوگا۔اسلام کے نظام قضاء کے بارے میں مذاہب اربعہ کے نظریات بیان کیے ہیں ۔ مختلف امور کے بارے میں ائمہ اربعہ کے نظریات کا تقابلی جائزہ پیش کیا اور جن مسائل کے بارے میں ائمہ اربعہ کا اختلاف زیادہ واضح نہیں وہاں صرف حنفی نقطہ نظر بیان کیا گیا۔ اسلامی نظام قضاء کی فرضیت و اہمیت واضح کرنے کے لیے غیر اسلامی حکومت کے نظام قضاء کا مختصر خاکہ بھی پیش کیا گیا قاضی کے لیے مقرر معیار اور شرائط کا ذکر بھی شامل ہے۔ نظام قضاء کے ساتھ ساتھ احتساب کا ذکر کرتے ہوئے امر باالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری بھی ریاست کو سونپی گئی ہے، اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ منکرات کو طاقت کے زور سے رو کے ۔

آخر میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے تجاویز مرتب کی گئیں ۔ اس کے لیے خلافت کے نظام کو ضروری قرار دیا اور ایک اسلامی ریاست کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا۔

زیر نظر کتاب شعبہ قانون سے وابستہ جج صاحبان، وکلاء ، طلبہ قانون اور اسلامی شریعت کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔

ادب القاضی ایسی گراں قدر تصنیف ہے جس کا ڈاکٹر غازی کے تعارف اور شہرت میں اہم کردار ہے ۔ڈاکٹر غازیؒ کے فقہ سے فطری تعلق کا اظہار اسی تالیف سے ہوتا ہے۔

ادب القاضی کی اشاعت اول اسی عہد میں ہوئی جب پاکستان میں اسلامائیز یشن کا آغاز ہو رہاتھا(7)۔

کتاب السیر الصغیر:

امام شیبانی کی تصنیف "کتاب السیر الصغیر" ایک شہرہ آفاق کتاب ہے، ڈاکٹرغازی نے اس کتاب کے متن کی تدوین کی اورانگریزی میں ترجمہ بھی کیا، اس کام کے لیے آپ نے جن مصادر و مآخذ سے استفادہ کیا ان میں "الکافی فی فروع الحنفیہ" جو امام حاکم کی کتاب ہے اور دوسری امام سرخسیؒ کی کتاب"المبسوط" ہے۔ ڈاکٹر غازیؒ نے ان دوکتابوں کے دقیع مطالعہ اورتقابلی جائزہ کے ذریعہ السیر الصغیر کا ایک مستند متن تیارکیا۔

Qadianism

آپ کی یہ تصنیف ختم نبوت کے موضوع سے تعلق رکھتی ہے۔ فاضل مصنف نے رسول اللہﷺ کی ختم نبوت کوواضح کرتے ہوئے غلام احمدقادیانی کے جھوٹے دعوے کی دوالفاظ میں تردید کی۔ قادیانیوں کی مختلف تنظیموں کے کردار پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔

The Life And Work Of The Prophet Of Islam:

یہ کتاب سیرت النبیﷺ کے متعلق ہے ، ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد نے شائع کی۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹرحمیداللہ ہیں جنہوں نے یہ کتاب فرانسیسی زبان میں تالیف کی۔ ڈاکٹرمحمود احمد غازی نے اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔

اس کے علاوہ کچھ انگریزی کتب اوربھی ہیں جن میں سے بعض شائع ہوچکی ہیں اوربعض ابھی زیر طبع ہیں ۔ اردو زبان میں آپ کی کتاب اصول فقہ، فقہ کے شعبہ میں اہمیت کی حامل ہے جس میں آپ نے پاکستان کے آئین وقانون کوخصوصی طورپر موضوع بنایا۔ پاکستانی آئین کی اسلامی دفعات کا ذکرکیا، اس ضمن میں مزید بہتری لانے کی تجویز دی ہے۔

اس کے علاوہ تقتین الشریعہ بھی فقہی موضوعات سے عبارت ہے آپ کی یہ تصنیف شریعہ اکیڈمی، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ جس میں ڈاکٹر غازی نے فقہ کے بنیادی اصول وضوابط بیان کیے ہیں ، اسلامی قوانین کے امتیازی خصائص کاذکرکیا ۔ اسلام کے نظام عدالت پر بھی مصنف نے تفصیل سے روشنی ڈالی۔


باب ششم

ڈاکٹرغازی اہل علم کی نظرمیں

 

علمی حلقوں میں ڈاکٹراحمد غازیؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ، علمی لحاظ سے موصوف کی شخصیت متنوع پہلوؤں سے عبارت ہے۔ قومی وبین الاقوامی فورم پر اسلام اورعالم اسلام کے موقف کی بھرپور تائید کی۔ ڈاکٹرموصوف ایک طرف تو دینی مدارس سے فارغ التحصیل تھے تودوسری طرف جدید عصری علوم پر بھی دسترس حاصل تھی۔ اپنے علمی کمال کے بل بوتے پر مختلف عہدوں پر فائز رہے، وفاقی وزیر ،شرعی عدالت کے جج، سپریم کورٹ کے شریعت بینچ کے ممبرہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پربھی آپ نے اپنی ذمہ داریاں کماحقہ انجام دیں ۔ اپنے کام کی وسعتوں کے پیش نظر آپ کا حلقہ احباب بھی وسیع تھا۔ اسلامی یونیورسٹی اورقطریونیورسٹی دوحہ میں تدریسی وانتظامی ذمہ داریاں انجام دینے کی وجہ سے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد فیض یاب ہوئی۔ عدل و انصاف کے شعبہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے وکلاء اورجج صاحبان کے ساتھ بھی دوستانہ روابط قائم رہے۔

ڈاکٹرغازیؒ کی زندگی کے بارے میں شائع ہونے والے مختلف مضامین میں آپ کی نجی اورگھریلوسرگرمیوں کا ذکربھی ملتاہے، اہل خانہ کے ساتھ آپ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے ملازمین بھی آپ کے حسن سلوک کے معترف ہیں ، ان کے ساتھ آپ کا رویہ دوستانہ تھا۔ ایک زاوئیے سے دیکھا جائے توآپ کے گھریلو ملازمین آپ کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔

راقم الحروف کی یہ کوشش ہوگی کہ ان صفحات میں ڈاکٹر غازیؒ کے مختلف شخصیات کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کوواضح کرنے کےلیے ایک تحقیقی بحث شامل کی جائے ۔ اس مقصد کے لیے راقم نے سوالنامہ ،انٹرویوز اورمختلف رسائل وجرائد سے استفادہ کیا ہے۔

 

ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری(ڈائریکٹر ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد)

ڈاکٹرمحمود احمد غازی کے بارے میں اپنی رائے کااظہاریوں کرتے ہیں :

"اسلامی تعلیمات ڈاکٹر غازی کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھی۔ دیانت،امانت اورتقویٰ میں ان کا کوئی ثانی نظرنہیں آتا۔ ڈاکٹرغازی نے اپنی ملازمت کے آخری دن دفترکی گاڑی استعمال نہ کی اوراس کا عذر یہ پیش کیا کہ میں اب صدر نہیں ہوں ۔ تاریخ ،سیرت،فقہ، حدیث،علم الکلام،فلسفہ، ادب اورشعر سب میں ان کو دلچسپی تھی۔ وہ وقت ضائع نہ کرتے تھے۔" ؂[113]

قاری محمد حنیف جالندھری (سیکرٹری جنرل وفاق المدارس،ملتان)

"ڈاکٹر غازی ایک عالمی، تاریخی ،انفرادی اورجامع شخصیت تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سے کمالات سے نوازاتھا ،وسعت مطالعہ میں اپناثانی نہیں رکھتے تھے ایک دفعہ رمضان المبارک میں مراکش کے سفرمیں ، میں ان کے ساتھ تھا۔ دروس حسنیہ میں شرکت کے بعد جب ہم بازارگئے تووہاں بھی ڈاکٹرصاحب نے کتابوں کی خریداری کی اورفرمایا کہ میں جہاں بھی جاتاہوں کتاب ضرورخریدتاہوں ۔ وزارت کے دنوں میں ڈاکٹرغازی کے ہمراہ فریضہ حج کی ادائیگی کاموقع ملا،آپ نے ہمارے ساتھ عام حاجیوں کی طرح وقت گزارا،کسی قسم کاپروٹوکول نہ تھا۔" ؂[114]

سید عزیزالرحمٰن ،مہتمم دارالعلم والتحقیق،کراچی

دارالعلم وتحقیق کاآغاز٢٠٠٧ء میں ہوا۔ ادارے کی افتتاحی تقریب میں ڈاکٹرغازیؒ کو دعوت دی گئی، اس موقع پر آپ نے "اسلام اورمغرب" کے موضوع پر خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے قبل سید عزیرالرحمٰن کوڈاکٹرموصوف کی تقاریر وخطبات سننے کا کئی بار اتفاق ہوا، جن سے آپ متاثر تھے، اس حقیقت کے پیش نظر ڈاکٹرغازیؒ کو دعوت دی گئی تھی۔ سید عزیزالرحمٰن ،ڈاکٹرغازیؒ کو عبقری شخصیت قراردیتے ہیں ۔ دارالعلم والتحقیق میں جب خطبات کا سلسلہ شروع کیاگیا تو یہ طے پایا کہ ہر سال یہ خطبہ ڈاکٹرغازیؒ فرمائیں گے۔ ڈاکٹرغازیؒ کے انداز تحریر کے بارے میں سید عزیزالرحمٰن رقمطرازہیں :

"ڈاکٹرصاحب کو اللہ تعالیٰ نے عجیب صلاحیتوں سے نوازاتھا۔ مسلسل انتہائی عالمانہ گفتگو کرنے کا ملکہ رکھتے تھے، آپ کی گفتگو انتہائی مربوط ہوتی، اس طرح کہ گویاکوئی لکھاہوامتن پڑھ رہے ہوں ۔ بہت سے مقامات پر آپ کی تقریر کے پورے پورے جملے تحری ہیں ، اسی طرح منتقل ہوجاتے ہیں جیسے گفتگو میں اداکیے گئے تھے۔ پھر نہایت دقیق،پیچیدہ اورفنی مباحث کوعام فہم اسلوب میں پیش کرنے کا ملکہ بھی بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، ڈاکٹرصاحب اس حیثیت سے ممتاز وفائق نظرآتے ہیں ۔ عالم اسلام پر جس قدرگہری نظران کی تھی ، کتابی دنیا سے تعلق رکھنے والے اوردرس وتدریس سے وابستہ افراد میں بھی یہ خوبی خال خال نظرآتی ہے۔

سید عزیزالرحمٰن نے اپنی گفتگو میں ڈاکٹرغازیؒ کی مختلف شعبوں میں خدمات کا تذکرہ بھی کیا۔ آپ کی نظرمیں ڈاکٹرغازیؒ ایک انتھک مجاہد کی طرح مختلف محاذوں پرسرگرم عمل رہے۔ جن حضرات نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کیا وہ بہت سے واقعات اورشواہد سے واقف ہوں گے۔ سید عزیزالرحمٰن کی رائے ہے کہ یہ تمام معلومات امانت ہیں اورلوگوں تک پہنچانا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔" ؂[115]

ڈاکٹرغازیؒ کے امتیازی خصائص کاتذکرہ کرتے ہوئے سید عزیزالرحمٰن کہتے ہیں کہ:

"ڈاکٹر صاحب نہایت جفاکش ،محنتی اوردل دردمند رکھنے والے محقق،عالم،مفکر،داعی اوررفیقہ تھے۔ انتہائی متدین اورحددرجہ متقی شخص تھے۔ برس ہابرس کامشاہدہ ہے کہ سرکاری دفتری ذمہ داریوں میں سرکاری مراعات سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھاتے۔" ؂[116]

ڈاکٹرصاحبزادہ ساجد الرحمن(ڈائریکٹر ،دعوہ اکیڈمی،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد)

ڈاکٹرغازیؒ ایک عرصہ تک دعوہ اکیڈمی سے وابستہ رہے اس لحاظ سے دونوں شخصیات ایک دوسرے سے خوب واقفیت رکھتی تھیں ،ڈاکٹرغازی کی صلاحیتوں کے بارے میں بتاتے ہیں :

"ڈاکٹرمحمود احمدغازی کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ وہ ایک ہمہ جہت و ہمہ پہلوشخصیت تھے اورقدیم وجدید علوم کا حسین امتزاج تھے ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ علم دین کی ترویج واشاعت ،اقداراسلامیہ کے فروغ اورملک وملت کی بھلائی کے لیے صرف تھا۔" ؂[117]

ڈاکٹرصہیب حسن (صدرجمعیت اہل حدیث، برطانیہ)

"ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایک عبقری شخصیت تھی۔ آپ نے پوری زندگی بغیرمسلکی تعصب کے علمی ودینی خدمات انجام دیں ، ڈاکٹرصاحب نے میرے والد مرحوم سے بھی اجازت حدیث حاصل کی تھی۔"؂[118]

پروفیسر ڈاکٹرابراہیم(شعبہ اردو،جامعہ ازہر،قاہرہ)

"ڈاکٹرغازیؒ عالم اسلام کے ایک مایہ ناز محقق اور فقیہ تھے ،ڈاکٹر غازیؒ جیسے معتدل فکر اور متوازن شخصیت کے مالک علماء اورمحققین کی موجودگی تمام عالم اسلام کے لیے باعث رحمت تھی۔"؂[119]

ڈاکٹرمحمد الغزالی(جج وفاقی شرعی عدالت،اسلام آباد)

آپ ڈاکٹرغازی کے برادراصغر ہیں ۔ زندگی کا بیشتر حصہ ایک ساتھ گزرا ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلفی تھی، ڈاکٹر غازی کے بارے میں گفتگوکرتے ہوئے بتاتے ہیں :

"ڈاکٹر غازی کو بچپن سے ہی حصولِ علم کا بہت ذوق وشوق تھا اورکبھی بچپن میں بھی کھیل کھلونے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ کتاب سے بہت زیادہ دلچسپی اورعلم کا حصول ان کی اولین ترجیح تھی۔"؂[120]

محمدموسیٰ بھٹو،مصنف"عصرحاضر کی شخصیات میری نظرمیں "

محمد موسیٰ بھٹو اپنی اس کتاب کی تالیف کے بارے میں بتاتے ہیں کہ برصغیر کی مختلف اہم شخصیات کے ساتھ میرے روابط رہے ہیں ، اسی وجہ سے مختلف اہلِ علم سے خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔ ان حضرات کے خطوط کا بڑاذخیرہ میرے پاس موجود تھا، ان خطوط کی بنیاد پر ایک کتاب ترتیب دینے کاخیال آیا۔ کتاب کی تدوین کے بارے میں مولانا امینی اورڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ نے توجہ دلائی کہ عصرحاضر میں دعوت اسلامی اوردورجدید میں اسلامی فکر کی تشکیل نو اورمفکرین کے عنوان پر کتاب لکھی جائے۔ چنانچہ اس تحریک کے پیش نظر اس موضوع پر قلم اٹھایا۔

محمد موسیٰ بھٹو نے مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ قد آور شخصیات کواپنی کتاب کی زینت بنایا ہے، ان میں سے ایک ڈاکٹرغازی ؒ بھی ہیں ۔ مصنف نے ڈاکٹرغازیؒ کو"اصحاب علم و دانش " کی فہرست میں ذکرکیا ہے۔ فاضل مصنف ڈاکٹرغازیؒ کوملک وملت کے لیے روشنی کی ایک کرن سمجھتے ہیں ، آپ کے بقول:

"ڈاکٹرمحمود احمدغازی ملک و ملت کا بڑاسرمایہ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں جن صلاحیتوں ،خوبیوں اورکمالات سے نوازا ہے انہیں دیکھ کر ملک و قوم کے بارے میں یہ حوصلہ بڑھتاہے کہ جس قوم میں اس طرح کی شخصیتیں موجود ہوں ان شاء اللہ وہ قوم سرسبز و آباد ہوگی۔"

ڈاکٹرغازیؒ کی ذات کے بارے میں مزید کہتے ہیں :

"ا ن کی ساری سعادتوں میں جہاں ان کے گہرے مطالعے ومشاہدے اورطویل تجربات کوعمل دخل ہے وہاں ان کی ایک خاص صفت کوبھی بنیادی عمل دخل حاصل ہے ۔ وہ صفت ان کے بڑے پَن سے دستبرداری ،چھوٹے پن کا مظاہرہ اورعاجزی وخاکساری کا رویہ ہے۔"؂[121]

پرویز مشرف دور میں ڈاکٹرغازیؒ کا سرکاری عہدے پر فائز ہونا بعض لوگوں کی رائے کے مطابق درست فیصلہ نہ تھا۔ محمد موسیٰ بھٹو نے اس حوالہ سے تنقیدی شذرہ تحریرکیا ہے۔

ڈاکٹرغازی کی یہ حکمت سمجھ نہ آسکی کہ وہ ریاستی اداروں کے ذریعہ علمی اوردعوتی خدمات سرانجام دینے اوراپنی زندگی اورصلاحیتوں کوخالص علمی اوردعوتی سرگرمیوں میں صَرف کرنے بجائے حکمرانوں سے قرب اوران کی پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعہ کے طورپر کیوں استعمال ہونے لگے۔ حکمرانوں سے قرب اوروزارت کا عہدہ بجائے خود غلط نہیں ۔لیکن ایسے حالات میں جہاں ہمارے حکمران عالمی طاقت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اورذہنی طورپرسیکولرہوں ، اس طرح کی حکومت کی وزارت میں کارہائے نمایاں سرانجام دینا تو درکنار،اپنی علمی اوردعوتی حیثیت اورزندگی بھر کی ریاضتوں وجدوجہد سے قائم اپنی امتیازی شان کوبرقراررکھنا ہی دشوار ہے۔"؂[122]

اپنے اس تاثراتی نوٹ میں مصنف نے ڈاکٹر غازیؒ سے معذرت بھی ، مصنف کا مقصود نہ توتنقید ہے اورنہ ہی خودنمائی۔

حیران خٹک:

حیران خٹک ،ماہنامہ دعوۃ،دعوۃ اکیڈمی،اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد کی مجلس مشاورت کے رکن ہیں ۔ ڈاکٹرغازی چونکہ اسلامی یونیورسٹی سے ایک عرصہ تک منسلک رہے ہیں ، اوردعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل کے طورپر خدمات سرانجام دیں ۔ حیران خٹک کی دعوۃ اکیڈمی میں تعیناتی کا سبب بھی ڈاکٹرغازیؒ ہیں ، ڈاکٹر موصوف کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کوبیان کرتے ہوئے حیران خٹک رقمطراز ہیں :

"ڈاکٹرغازیؒ درویش صفت انسان تھے، اگرچہ وہ ملنے ملانے میں زیادہ گرم جوشی کا اظہارنہیں کرتے تھے، لیکن میں عادت کے مطابق آپ کے ساتھ بے تکلفی برتتا، کبھی کبھی یہ بے تکلفی بے ادبی کی حدود کوبھی چھولیتی تھی، لیکن ڈاکٹرصاحب میرے مزاج سے بخوبی واقف تھے، اس لیے میری باتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتے۔"

ڈاکٹر محمود غازیؒ ایک انسان تھے، اورانسان معصوم عن الخطاء نہیں ہوسکتا،لیکن امانت ودیانت کے لحاظ سے ڈاکٹر صاحب جن بلندیوں پرفائز تھے اس کا اس دورمیں تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ غازی صاحب اس لحاظ سے گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے، اور انہوں نے عملی طورپر یہ بات سمجھائی کہ امانت و دیانت کسے کہتے ہیں ۔"؂[123]

حیران خٹک کو ڈاکٹرغازیؒ کی صحبت طویل عرصہ تک حاصل رہی ، آپ کی رائے ان کے ذاتی تجربات ومشاہدات پرمبنی ہے۔

آغارفیق احمد خان:

عزت مآب جناب آغارفیق احمد خان ،وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ہیں اور ڈاکٹرغازیؒ آپ کی رفاقت میں شرعی عدالت کے جج کی حیثیت سے کام کرتے رہے، اس حوالہ سے آغارفیق احمد خان آپ کی صلاحیتوں سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹرغازیؒ کی تعلیمی خدمات کاتذکرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ان الفاظ کااستعمال کیا:

"ڈاکٹرغازیؒ نے تعلیمی،تحقیقی اورقانون کے شعبہ میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں ۔ قرآن،حدیث،سنت،فقہ سمیت اسلامی معیشت پر ان کی کتب ، اسلامی ادب میں قابل قدر اضافہ ہیں ۔ انہوں نے اسلام کے سیاسی اورمعاشی نظام پر تحقیقی کام کیا، ان کے پیش نظر ملک میں متوازن سیاسی اور اقتصادی نظام رائج کرنے کی ابتداء کرناتھی۔"؂[124]

مولانازاہد الراشدی:

ڈاکٹرغازی کے علمی مقام و مرتبہ کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

"میری نظر میں برصغیر میں دوایسی شخصیات ہیں جو مغرب کو آج کے دورکی زبان میں حجۃ اللہ البالغہ پڑھاسکتے ہیں اورامام شاہ ولی اللہؒ کافلسفہ سمجھاسکتے ہیں ، ان میں اول شخصیت مولانامفتی تقی عثمانی اوردوسری ڈاکٹرمحمواحمدغازیؒ ہیں ۔"؂[125]

 

 

 

 

 

 

مختلف اہل علم کے نام

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط

بنام : جناب مسعود احمد برکاتی

برادر مکرم و محترم جناب مسعود احمد برکاتی صاحب دامت برکاتکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا گرامی نامہ ( بحوالہ ھ۔ن۲۰۰۴،مورخہ ۲۷،جون ۲۰۰۴ء) بر وقت مل گیا تھا ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں بروقت جواب نہ دے سکا ۔ امید ہے کہ آپ حسب سابق اس کوتاہی کو بھی معاف فرمائیں گے ۔

            میرا رشتہ بھی ہمدرد نونہال سے کم و بیش نصف صدی پرانا ہے ۔ میں نے بہت بچپن میں ، تقریباً چار سال کی عمر سے ، ہمدرد نونہال پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے اپنے والد مرحوم کی زیر نگرانی تین ساڑھے تین سال کی عمر سے ہی گھر میں نوشت وخواند کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ شروع کے ایک دوسالوں میں نہ تو پورا سالہ سمجھ میں آتا تھا اور نہ میری یہ بساط تھی ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چند سال کے اندر اندر نہ صرف رسالے کے مضامین سمجھ میں آنے لگے بلکہ میرا اشتیاق بھی بڑھتا گیا۔ مزید دو ایک سال بعد میں نے تعلیم و تربیت بھی پڑھنا شروع کر دیا ، لیکن جو اشتیاق ہمدرد نونہال کے نئے شمارے کے لیے پورے مہینے رہتا تھا، وہ ابھی تک یاد ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمدرد نونہال کے مضامین میں بچوں کے مزاج اور نفسیات کا خاص لحاظ رکھا جاتا ہے ۔

            ہمدرد نونہال نے ایسی تربیت کر دی تھی کہ کوئی غیر سنجیدہ یا غیر معیاری تحریر پڑھنے کو کبھی دل نہیں چاہا۔ بچوں کے بہت سے رسالوں میں جنوں اور پریوں ، جادو اور ٹوٹکوں ، چوری اور ڈاکے جیسے تصورات پر مبنی کہانیاں کثرت سے چھپتی تھیں ، لیکن ان میں کبھی بھی میرا دل نہیں لگا۔ ہمدرد نونہال کے جو مضامین میں بہت شوق سے پڑھتا تھا ، ان میں مسلمانوں کے کارناموں پر مبنی تاریخی کہانیاں اور واقعات نمایا ں ہوتے تھے ۔ ہمدرد نونہال اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ مولوی اسماعیل میرٹھی کی درسی کتابیں میرے والد مرحوم نے مجھے حفظ قرآن کے دوران ہی پڑھا دی تھیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد کی زندگی میں اردو زبان کبھی بھی مشکل مضمون معلوم نہ ہوئی ۔

            ہمدرد نونہال نے میری تعلیم اور تربیت دونوں میں حصہ لیا۔ آج اگر اردو لکھنے اور بولنے کا کوئی سلیقہ حاصل ہے تو اس کا ابتدائی بیج رکھنے میں ہمدرد نونہال ہی شامل ہے ۔

میری دعا ہے کہ یہ رسالہ اسی طرح قائم دائم رہے۔

والسلام

محمود احمد غازی

(بشکریہ یہ ’’ہمدرد نونہال‘‘ ، نومبر ۲۰۰۴ء)

 

 

 

 

 

 

 

 

بنام : مولانا زاہد الراشدی

(۱)

برادر مکرم و محترم جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اپریل ۲۰۰۲ء کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ آپ کے دیرینہ لطف و کرم سے موصول ہوا۔ میں روز اول ہی سے اس رسالے کا باقاعدہ قاری ہوں ۔ آپ کی تحریروں اور مضامین میں جو اعتال اور توازن ہوتا ہے ، وہ گزشتہ کچھ عرصے (ہمارے ہاں ) کم ہوتا چلا جارہا ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی تحریریں ملک میں ایک متوازن اور معتدل مذہبی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔

زیر نظر شمارے میں اپنی ایک تحریر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ۔ حیرت اس لیے کہ اس عنوان سے کوئی مضمون لکھنا یاد نہیں تھا اس لیے ابتداء ًا خیال ہوا کہ شاید یا تو غلطی سے میرا نام چھپ گیا ہے یایہ میرے کسی ہم نام کی تحریر ہے ، لیکن جب اصل مضمون پڑھا تو اندازہ ہو اکہ عنوان آپ کا اور معنون اس نا چیز کا ۔ غالباً آپ نے میرا وہ لیکچر ملاحظہ فرمایا ہوگا جس سے یہ اقتباس لے کر شائع کیا گیا ہے ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کرام اس پورے لیکچر کو بالاستیعاب مطالعہ فرمائیں ۔ آپ کے عطا کردہ اس عنوان سے خیال ہوتا ہے کہ شاید میری کتاب ’خطبات بہاول پور‘ آپ کے لیے دلچسپی کا موضوع ہوگی ۔ پتہ نہیں آپ کویہ کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوایا نہیں ۔

علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے مابین فکری مماثلتوں کے موضوع پر پروفیسر محمد یونس میو کا مضمون اچھا ہے ، لیکن بہت مختصر ۔ شاید ان کو یہ تجویز کرنا موزوں ہو کہ مولانا رومیؒ کے افکار اور پیغام کے بارے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے نظریا ت و خیالات کا تقابلی مطالعہ نہ صرف دلچسپ ہوگا بلکہ دونوں اکابر کے نقطہ نظر میں حیرت انگیز مماثلتیں بھی اس کے ذریعے سامنے آئی گی۔ میری طرف سے پروفیسر محمد یونس صاحب کو مبارک باد پیش کردیں ۔

والسلام

نیاز مند

ڈاکٹر محمود احمد غازی(الشریعہ، مئی ۲۰۰۲ء)

)

۱۷ ، اگست ۲۰۱۰ء

۶، رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ

برادر مکرم و محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

            مجھے معلوم ہوا ہے کہ چند سال قبل آپ نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر کوئی مشاورت منعقد فرمائی تھی جس میں بہت سے اہل علم نے اپنی آراء کا اظہار فرمایا تھا ۔ کیا یہ آراء تحریری صورت میں دستیاب ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؟ مزید بر آں غیر اہل حدیث اور گیر سلفی علماء میں کون کون سے حضرات طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے کے قائل رہے ہیں ؟ ایک درمیانی راستہ حضرت مفتی کفایۃ اللہ صاحب نے اختیار فرمایا تھا ۔کیا دوسرے اہل افتاء کے ہاں بھی یہ رجحان ملتا ہے ؟

بہرحال اس موضوع پر جتنا مواد فراہم ہو سکے ، وہ مجھے ارسال فرمادیں ۔

رمضان المبارک کی نیک ساعتوں میں بھی یا د فرمائیے ۔

 

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

مخدوم و معظم جناب حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب دامت برکاتکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے ، آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ کل آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ معلوم نہیں آپ کو یہ تاثر کیوں ہوا کہ اکیڈمی نے سندھی زبان میں لٹریچر کا منصوبہ ترک کر دیا ہے ۔ یہ تاثر غالبًا گزشتہ چند ماہ کی سست رفتاری سے پیدا ہوا ہے ۔ یہ سست رفتاری بعض انتظامی دقتوں اور دفتری طریقۂ کار کی طوالت اور پیچیدگی کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی ۔ تاہم ہماری پوری کوشش یہ ہے کہ سندھی اسلامی ادبیات کے میدان میں جو کچھ ہم کر سکتے ہیں ، اس سے دریغ نہ کیا جائے ۔ اس ضمن میں آپ سے ماضی میں جو گفتگوئیں ہوتی رہی ہیں ، ان کی روشنی میں حتی المقدور کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ استاد محمد قطب کی کتاب ’’اسلام اور جدید ذہن کے شبہات‘‘ کے بارے میں دفتری کار روائی ایک ناگزیر انتظامی مشکل کی وجہ سے ہوگئی تھی جواب الحمد للہ دور ہوگئی ہے۔ اس ضمن میں جلد ہی آپ کو دفتری مراسلہ مل جائے گا۔

            سندھ نیشنل اکیڈمی کے ساتھ تعاون کی تجویز اچھی ہے ۔ کیا یہ ممکن ہوگا کہ اس پر آپ تفصیلی تجویز انگریزی میں ٹائپ کرا کر ہمیں بھیج سکیں ؟

            بائبل ، قرآن اور سائنس سندھ کے اہم اہل علم کو بھیجنے کے لیے آپ سے گزارش ہے کہ ایسے افراد کے پتے ہمیں ارسال فرمائیں ۔ ہم ایک ہفتے کے اندر اندر ان کو یہ کتاب ارسال کردیں گے ۔

اگر آپ جیسے مخلص اہل علم و فکر ہی کسی مایوسی یا غلط فہمی کا شکار ہوں گے تو ہم جیسوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔

دعاؤں میں یاد فرماتے رہنے کی درخواست ہے ۔

والسلام

محمود احمد غازی

(۲)

مؤرخہ:۳۰،اکتوبر۸۹ء

برادر مکرم و محترم جناب حافظ موسیٰ بھٹو صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ آپ کا گرامی نامہ مؤرخہ ۲۵ ستمبر مجھے ایک غیر ملکی سفر سے واپسی پر ملا۔ اس کے ہمراہ پتوں کی فہرست بھی مل گئی ۔ ہم ان سب اہل علم کو سندھی زبان کی کتابیں بھیج رہے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ اب تک ’’اسلام اور جدید ذہن کے شبہات‘‘ کی کمپوزنگ مکمل ہو گئی ہو گی ۔ آپ سے گزارش ہے کہ جونہی پروف ریڈنگ اور تصحیح مکمل ہو،کتاب ہمیں ارسال کردیں ۔ یہ غالباً آپ کے ذہن میں ہوگا کہ اس کتاب کے مختلف ابواب الگ الگ کتابچوں کی شکل میں ضائع کیے جائیں گے اور ایک ہی پیش لفظ جو میری طرف سے ہے ہر کتاب میں شامل ہوگا۔

            آپ سے مسلسل دعاؤں میں یادرکھنے کی درخواست ہے ۔

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

 

 

 

(۳)

برادر مکرم و محترم جناب حافظ محمد موسیٰ صاحب بھٹو

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ آپ کا گرامی نامہ کئی روز ہوئے مل گیا تھا ،لیکن میں مختلف مصروفیات کی بنا پر جواب ارسال نہ کر سکا۔

            آپ کی مرسلہ کتاب ’’السلام اور ہمارے مسائل ‘‘بروقت مل گئی تھی اور اس وقت اس سے استفادہ بھی کرنے کا موقع مل گیا تھا ۔ میں آپ کی تحریروں اور کتابوں کا ایک عرصہ سے مداح ہوں ۔ آپ کی ہر تحریر میں نہ صرف صحیح اسلامی خیالات پڑھنے کو ملتے ہیں بلکہ ملک و ملت کے مسائل پر آپ کا انداز فکر بڑا پختہ اور حقیقت پسندانہ ہوتا ہے ، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آپ کی ان فاضلانہ تحریروں کو وہ قبول عام حاصل نہیں ہوا جس کی اس وقت شدید ضرورت ہے ۔

            آپ کے حسب ارشاد جناب عبد الغنی فاروق کی کتاب ’’ہم کیوں مسلمان ہوئے ‘‘کا کمپوز شدہ مواد ان شاء اللہ ارسال کر دیا جائے گا ۔ میں جلد ہی اس بارے مین آپ سے رابطہ قائم کروں گا۔

والسلام

مخلص

محمود احمد غازی

 

 

 

)

برادر مکرم و محترم جناب حافظ محمد موسیٰ صاحب بھٹو

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔

            آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۸،اکتوبر موصول ہوا۔ آپ کے خطوط پڑھ کر ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے ، اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم اپنے خطوط کا سلسلہ منقطع نہ فرمائیے ۔

            آپ کو یاد ہوگا کہ کئی ماہ قبل میں نے یہ گزارش کی تھی کہ دور جدید میں دعوت دین ، اس کا فلسفہ اور اسلوب و منہاج کے عنوان سے ایک جامع کتاب اکیڈمی کے لیے مرتب کردیجئے جس میں آپ کی اب تک کی تحریروں کا خلاصہ آجائے ۔ہم اس کو اپنے پروگرام میں شائع کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کراسکیں ۔

            مجھے امید ہے کہ آپ کے پاس اکیڈمی کی تمام اردو، انگریزی اور سندھی مطبوعات موجود ہوں گی ۔

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

 

 

(۵)

برادر مکرم و محترم جناب حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۲۰ جنوری موصول ہوا جس کے ہمراہ آپ نے ماہنامہ بیداری میں شائع شدہ اپنے فاضلانہ مضامین کی ایک فہرست بھی ارسال فرمائی ہے ۔ ہم یقینا ان تحریرون سے استفادہ کریں گے اور وقتاً فوقتاً یہ تحریریں آپ سے منگواتے رہیں گے۔

            شاید آپ کے علم میں ہو کہ اکیڈمی نے ڈاکٹر رفیع الدین کی دو کتابیں شائع کی تھیں اور ان کو بڑے پیمارے پر اندرون و بیرون ملک علمی حلقوں میں پہنچایا تھا ۔ مولانا محمد تقی امینی کی کتابیں خالص فنی قسم کی ہیں اور وہ اکیڈمی کے موضوع سے براہ راست متعلق بھی نہیں ہیں ۔یوں بھی پاکستان میں کئی ادارے ان کی اشاعت کر رہے ہیں ۔ کبھی ملاقات ہو تو مخدوم و معظم جناب ڈاکٹر غلام مصطفی خان دامت برکاتہم کی خدمت میں سلام عرض کر دیں ۔ ان سے مراسلت کا سلسلہ شروع کیا تھا ، لیکن مسلسل سفروں کی وجہ سے میں اس کو جاری نہ رکھ سکا۔

والسلام نیاز مند

محمود احمد غازی

 

 

 

 

۹۹۔۱۔۲۰

بنام :ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن

(۱)

اسلام آباد ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کے دونوں گرامی نامے بر وقت موصول ہوگئے تھے ۔؂[126] لیکن میں قبل ازیں جواب ارسال نہ کر سکا جس کے لیے دل سے معذرت خوہا ہوں ۔ حضرت مولانا سید فضل الرحمان صاحب از حد مبارک باد کے مستحق ہیں کہ شش ماہی تحقیقی مجلہ السیرہ کا اجراء فرمار ہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائیں اور وسائل سے مالا مال فرمائیں ۔ رسالہ کا نکالنا تو آسان ، لیکن اس کا جاری رکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلا شمارہ اس وقت شائع کیا جائے جب آئندہ تین چار تیار شمارے موجود ہوں ۔ مزید بر آں علمی اور تحقیقی رسائل معاشی طورپر viableنہیں ہوتے ۔ اکثر و بیشتر ان پر خرچ ہی کرنا پڑتا ہے ۔ ان کی فروخت سے یافت ہونا شاذ و نادر صورتوں میں ہی ممکن ہو پاتا ہے ۔ لہٰذا آئندہ تین چار شماروں کے مواد کے ساتھ ساتھ ان شماروں کے اخراجات کی فراہمی بھی ضروری ہے ۔علمی اور تحقیقی رسائل میں اشتہارات سے بھی زیادہ آمدنی نہیں ہو پاتی ، لہٰذا اس مد سے بھی کسی خاص مدد کی امید نہ رکھنی چاہئے ۔

            رسالہ کو محدود معنوں میں سیرت کے موضوعات تک محدود نہ رکھیے ، بلکہ اگر اس کا دائرہ کا رمعارف نبوت یا علوم نبوت یا پیغام سیرت رکھا جائے تو موزوں ہو۔

            محترم جناب سید معید احمد شاہ صاحب علیل تھے ، اب ٹھیک ہیں اور ہسپتال سے گھر آگئے ہیں ۔ ؂[127]

والسلام

نیاز مند و طالب دعا

محمود احمد غازی

محترم جناب سید عزیز الرحمان صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۳۱ ، جنوری ،۲۰۰۱ء بنام ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب وفاقی وزیر مذہبی امور ، زکوٰۃ وعشر موصول ہوا۔

            ڈاکٹر غازی صاحب نے آپ کے مراسلے اور السیرۃ انٹر نیشنل کا شکریہ ادا فرمایا ہے ۔ ؂[128] آپ نے اپنے مکتوب میں جن دیگر امور کی جانب ڈاکٹر صاحب کی توجہ مبذول کروائی ہے ، اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے مجاز افسروں کو مناسب غورو خوض اور ضروری کاروائی کے لیے ہدایات جاری کردی ہیں ۔ ؂[129] اس سلسلے میں ہونے والی پیشرفت سے آپ کو جلد آگاہ کیا جائے گا ۔

والسلام

سید قمر مصطفیٰ شاہ

پرنسپل سٹاف آفیسر برائے وزیر محترم

 

 

 

 

 

)

اسلام آباد ، یکم اگست ۲۰۰۱ء

برادر مکرم ومحترم جناب سید عزیز الرحمان صاحب

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبر کاتہ

            آپ کے متعدد گرامی نامے اور ششماہی عالمی السیرۃ کے شمارے موصول ہوئے ۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ وقتاً فوقتاً اپنے مفید مشوروں اور تجاویز سے رہنمائی فرماتے رہتے ہیں ۔

            سیرت کانفرنس کی بابت آپ نے جو امور تحریر فرمائے تھے ، ان پر غور و خوض کر کے اس سال سیرت کانفرنت کے انتظامات بہتر بنائے جارہے ہیں مجھے امید ہے کہ آپ حسب سابق اپنے مفید مشورون سے نوازتے رہیں گے ۔

والسلام

نیاز مند و طالب دعا

محمود احمد غازی

 

 

 

 

 

(۴)

اسلام آباد، ۹ ،جولائی،۲۰۰۲ء

محترم جناب سید عزیر الرحمان صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کا وقیع رسالہ عالمی السیرۃ باقاعدگی سے ملتا رہتا ہے۔ اس کے عالمانہ مضامین اور تحقیقی مقالات نے اس رسالے کو بہت جلد ایک نمایاں مقام عطا کر دیا ہے ۔ اس سے خوشی ہوئی کہ آپ پروفیسر سید محمد سلیمؒ کے افکار و خیالات پر رسالہ تعمیر افکار کے تعاون سے ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کر رہے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ تعمیر افکار کا یہ خصوصی شمارہ ایک اہم تاریکی دستاویز ہوگا۔ پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم کا علمی مقام اس بات کا متقاضی ہے کہ ان پر ایک نہیں ، بہت سے رسائل کے خصوصی شمارے شائع کیے جائیں ۔ انہوں نے علم و تحقیق کے مختلف میدانوں میں جتنا وقیع کام کیا ہے ، اس پر دیر تک اہل علم تحقیق کرتے رہیں گے ۔

            میں بڑے اشتیاق اور شدت سے رسالہ تعمیر افکار کے خصوصی شمارے کا منتظر ہوں ۔

والسلام

نیاز مند ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

 

 

 

(۵)

تاریخ :۱،۸،۲۰۰۶

برادر مکرم جناب مولانا حافظ سید عزیر الرحمان صاحب زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ کتابیں اور مقالہ ؂[130] سب ہدایا ایک ساتھ موصول ہوئے ۔ جزاکم اللہ ۔

مقالہ الحمد للہ بہت عالمانہ ہے ۔ جلد سے جلد اشاعت کا اہتمام فرمائیے ۔ عجیب تو ارد ہے کہ یہی موضوعات میرے ذہن میں بھی ہیں جو آخری تین خطبات میں زیر بحث آئیں ۔؂[131] توارد پر ایک لطیفہ ملاقات سناؤں گا۔

            محترم ڈاکٹرکشفی صاحب کا بھی دلی شکریہ اداکردیں ۔ ان سے ملاقات کی لذت ابھی تازہ ہے۔ ؂[132]

آج ان شاء اللہ خطبہ ہشتم ہے، ہفتہ تک بارہ خطبے ہوجائیں گے۔ جیسے ہی کسی خطبہ کی نقل تیار ہوئی،آپ کو ارسال کردوں گا۔؂[133]

والسلام

نیاز مند و طالب دعا

محمود احمد غازی

 

 

 

 

دوحہ :قطر

۱۶،اکتوبر، ۲۰۰۹ء

جمعۃ المبارک

برادر مکرم جناب ڈاکٹر سید عزیر الرحمان صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ عرصہ دراز سے ، غالبًا اگست کے اوائل کی ملاقات کے بعد سے آپ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، خدا کرے خیر ہی ہو۔

            اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلامی بنکاری والی تقریر پر نظر ثانی ہوگئی ہے ۔ ؂[134] لیکن اب بھی مزید نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ اس لیے گزارش یہ ہے کہ ایک بار کھلا کھلا کمپوزر کرا کے مجھے واپس بھیج دیں ۔ انشا ء اللہ اس بار تاخیر نہ ہوگی۔

            پروفیسر عبد الجبار شاکر صاحب کے اچانک رخصت ہوجانے سے بہت صدمہ ہوا ۔ا للہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔ بہت مخلص اور متدین انسان تھے۔ ان کے اہل خانہ میں سے کسی سے رابطہ ہو تو میری طرف سے تعزیت بھی کر دیں اور ان کا نمبر وغیرہ بھیج دیں تاکہ میں براہ راست بھی رابطہ کر سکوں ۔

            ان کا ذاتی کتب خانہ بہت عالی شان اور وسیع تھا ۔ کتابوں کا واقعی بہت عالمانہ اور اچھا ذوق رکھتے تھے ۔ اللہ کرے کہ کتب خانہ سلامت اور یکجا رہے ۔ خالد اسحاق صاحب مرحوم کے کتب خانہ کی طرح تتر بتر نہ ہو ۔

            ’’اسلام اور مغرب ‘‘والے مقالات کا کیا ہوا؟ ؂[135] یہ صرف استفسار ہے ، اصرار نہیں ۔ دعوہ اکیڈمی ( کراچی مرکز ) کی سر گرمیاں کیسی چل رہی ہیں ؟ والد صاحب سے سلام عرض کر دیں ۔

والسلام

محمود احمد غازی

تاریخ :۱۶ ،ستمبر ۲۰۱۰

برادر مکرم جناب ڈاکٹر سید عزیر الرحمان صاحب زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔

            کل کی زحمت دہی پر نادم اور شرمندہ ہوں ۔ بلا وجہ گرمی میں میں آپ کو ( محض اپنے ذاتی کام کے لیے ) پچاس میل سے سفر کی زحمت دی ۔؂[136] براہ کرم درگزر فرمائیے گا۔ کتابیں ( تاریخ الحرکۃ المجددیۃ ) کے نسخے مل گئے ، جزاکم اللہ ۔ قرآن نمبر کے لیے منتخب کردہ خطبہ پر سر سری نظر ثانی کر دی ہے ۔؂[137]

والسلام

نیاز مند و طالب دعا

محمود احمد غازی

 

 

 

 

 

 

)

۹،اکتوبر ،۲۰۰۸

۲۰، شوال المکرم،۱۴۲۹ھ

دوحہ قطر

برادر مکرم و محترم جناب مولانا ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

            وعدے کرنے میں بہت سخی واقع ہوا ہوں ،نبھانے کے معاملہ میں صفر ہوں ۔ اس شکل سے نکلنے کا واحد راستہ صبر ہی ہے ، لہذا صبر سے کام لیجئے۔

بینکاری والی تقریر میں معاملہ صفر سے ذرا آگے بڑھا ہے ۔ ثبوت کے طور پر یہ آدھی تقریر ارسال خدمت ہے ۔بقیہ بھی جلد ہی پیش کر دوں گا ۔ گزارش یہ ہے کہ تصحیحات کے بعد تین گناہ spaceپر ٹائپ کرائیے گا، اس لیے کہ ایک بار مزید اصلاح ہو گی تو یہ بے سرو پا گفت گو قابل اشاعت ہو سکے گی۔

بقیہ وعدوں کے ایفا کی رفتار کا اندازہ آپ کو ہوگیا ہوگا۔

 

والسلام

نیاز مند

ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

۲۵ ،اکتوبر، ۲۰۰۸،

۲۶، شوال المکرم ،۱۴۲۹ھ

برادر مکرم و محترم جناب مولانا ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے!

آج اپنے کاغذات میں یہ مقالہ نظر پڑا۔ یہ میں نے مکہ مکرمہ کی کانفرنس(جون۲۰۰۸) میں پڑھا تھا۔ یاد آیا کہ آپ نے اس کی نقل بھیجنے کو کہا تھا ۔ تاخیر ہی سے سہی ،مگر تعمیل ارشاد کی سعادت ہوگئی۔

والسلام

نیاز مند

ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

 

 

 

 

 

(۱۰)

برادرم مکرم و محترم جناب مولانا ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمٰن صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مزاج گرامی!

            اسلامی بینکاری والی تقریر کا آخری حصہ ارسال خدمت ہے ۔ اس میں کم از کم دوبار مزید اصلاح و ترمیم کرنا ہوگی، جب جاکر یہ قابل طباعت ہو سکے گی۔ دوبارہ جب بھیجیں تو تین گنا spaceپر ٹائپ کرائیے گا تاکہ اصلاح میں آسانی رہے۔

 

والسلام

نیاز مند

ڈاکٹر محمود احمد غازی

۲۳ اکتوبر ،۲۰۰۸

(معاف کیجئے گاکہ علم اور ہمت کے ساتھ ساتھ قلم نے بھی جواب دے دیا ہے ۔)

 

 

 

 

بنام : حافظ صفوان محمد چوہان

مورخہ ،۱۴، ۴،۲۰۰۵ء

برادر مکرم و محترم جناب حافظ صفوان محمد چوہان زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کا گرامی نامہ چند روز قبل ملا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں بروقت جواب ارسال نہ کر سکا۔ اس سے خوشی ہوئی کہ آپ کمپیوٹر اور انٹرنیت جیسے شعبوں سے وابستہ رہتے ہوئے( جو خالص فنی اور سائنسی نوعیت کے ہیں ) دینی اور ملی موضوعات سے بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس ذوق میں برکت عطافرمائے اور آپ کو زیادہ سے زیادہ دینی اور ملی کاموں میں تعمیری حصہ لینے کی مزید توفیق عطا فرمائے ۔

            میری ناچیز گفتگو کو آپ نے پسند فرمایا۔ ممنون ہوں ۔ یہ زبانی اور فی البدیہہ گفتگو تھی جس میں مرتب خیالات اور پختہ نتائج پیش کرنا آسان نہیں (کم از کم میرے لیے ) ۔ اب خیال ہو رہا ہے کہ اس transcriptionکو سامنے رکھ کر اس میں تفصیلی نظر ثانی اور حک و اضافہ کروں تاکہ جو باتیں وہاں زیادہ تفصیل سے عرض نہیں کیا جاسکیں ، وہ تفصیل سے سامنے آجائیں ۔

            ’’الشریعہ‘‘ کے بارے میں میرے تاثرات بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں ۔ اس کا ساراکریڈٹ مولانا زاہد الراشدی صاحب کو جاتا ہے ۔

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

بنام : ڈاکٹر سید شاہد حسن رضوی

مکرمی جناب ڈاکٹر سید شاہد حسن رضوی صاحب

السلام علیکم

آپ کا ارسال کردہ سہ ماہی الزبیر موصول ہوا۔ اس سے قبل بھی ایک دو شمارے پڑھنے کا موقعہ ملا تھا۔ ایک انتہائی خوشگوار حیرت اس سے ہوئی کہ بہاول پور کا یہ رسالہ علم و ادب کے بڑے بڑے مراکز سے نکلنے والے بھاری بھر کم رسالوں سے کم نہیں ۔ زیر نظر شمارے میں مشفق خواجہ مرحوم کے نام جو گوشہ مختص کیا گیا ہے وہ بھی خاصے کی چیز ہے ۔

            میری ناچیز تحریریں عموماً دینی اور فقہی موضوعات پر مشتمل ہوتی ہیں جو شاید آپ کے رسالے کے لیے غیر موزوں ہوں ۔ البتہ کبھی کبھی عربی یا فارسی میں کچھ اشعار نظم ہو جاتے ہیں جن کی حیثیت معنوی اعتبار سے صرف ذاتی احساسات اور لفظی اعتبار سے محض تک بندی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یوں یہ بھی آپ کے معیار سے فروتر سمجھی جائے گی۔

            البتہ ایک گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ وہ یہ کہ عموماً اہل دین اور اہل تقویٰ کی ادبی کاوشوں کو اہل ادب کی بارگاہ میں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی ۔ اس دربار میں وہی لوگ باریاب ہو سکتے ہیں جو اخلاقیات اور روحانیات کے لباس سے یا تو عملاً عاری ہوں یا کم از کم نظری طور پر عاری ہونے کے دعوے دار ہوں ۔ اگر سہ ماہی الزبیر اس رجحان کی اصلاح کی کوشش کرے تو یہ ایک بڑی خدمت ہو گی ۔ مثال کے طور پر اردو کے مشہور شاعر محسن کا کوروی کا کلام کسی بھی اعتبار سے اردو کے بڑے بڑے اساتذہ کے کلام سے کم نہیں ، لیکن ہماری ادبی تاریخیں اور تنقیدی تحریریں ان کے ذکر سے کالی ملتی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں بہت سے ایسے لوگ جن کی شعری کاوشیں بہت پست معیار رکھتی ہیں ، ادیبوں اور نقادوں کے ہاں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں ۔؂[138]

اس خط کے جواب میں بندہ نے اپنے والد صاحب کا مضمون :

 ’’محسن کاکوری کی نعتیہ شاعری‘‘الزبیر میں بھجوایا جو شمارہ ۴، ۲۰۰۶ء میں چھپا۔ اس پر غازی صاحب کا خط شاید شمارہ ۔۱، ۲۰۰۷ء میں چھپا ہوگا لیکن یہ رسالہ مجھے فی الوقت نہیں مل رہا۔(حافظ صفوان محمد)

بنام : شہزاد چنا صاحب

(۱)

مورخہ ۴، جنوری ،۲۰۰۶ء

برادرم جناب شہزاد چنا صاحب

آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ اس کے ہمراہ’’قرآن : ایک تعارف‘‘ کے سندھی ترجمے کی پہلی قسط بھی موصول ہوئی ۔ جزاکم اللہ ۔

سندھی زبان میں لٹریچر کی تیاری کے لیے بہتر مشورہ اور رہنمائی مولانا امیر الدین مہر صاحب ہی دے سکتے ہیں ۔

والسلام

ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

 

 

 

 

 

(۲)

مورخہ ۲۲ مارچ، ۲۰۰۶ء

برادر مکرم و محترم جناب شہزاد چنا صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کا گرامی نامہ مورخہ ،۱۳،مارچ،۲۰۰۶ء موصول ہوا۔ ’’الفاروق‘‘اور ’’وینجھار ‘‘کے تازہ شمارے بھی مل گئے ۔ اس سے خوشی ہوئی کہ ’’الفاروق‘‘ کے ایڈیٹر مولانا محمد حسین شاد نے بھی اس کاوش کو پسند کیا ہے ۔ عربی لفظ’’نجماً نجماً‘‘ کا ترجمہ ’’تھوڑا تھوڑا‘‘ٹھیک ہے۔ مفسرین کرام نے آیت قرآن کے لیے ’’تھوڑا تھوڑا‘‘ کا لفظ خلاف ادب سمجھا، اس لیے اس کے بجائے ’’نجماً نجماً‘‘کی اصطلاح استعمال کی جن کے لغوی معنی’’ستارہ ستارہ‘‘ کے ہیں ۔ گویا قرآن مجید رشد و ہدایت کی ایک کہکشاں ہے جس کے ستارے ایک ایک کر کے اتر رہے تھے اور کہکشاں کی تکمیل کر رہے تھے۔ اس لفظ میں جو معنویت اور خوبصورتی ہے ، وہ کسی اور لفظ میں ممکن نہیں ۔ جس صاحب ذوق اور صاحب دل مفسر نے پہلی بار یہ اصطلاح استعمال کی، اس کے ذوق کو سلام کرنا چاہئے ۔

والسلام

ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

 

 

 

)

مورخہ ۳۱، جنوری ۲۰۰۶ء

برادر مکرم ومحترم جناب شہزاد چنا صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ مورخہ ۲۵، جنوری ، ۲۰۰۶ء موصول ہوا۔ ’’قرآن پاک: ایک تعارف‘‘کے سندھی ترجمہ کی دوسری قسط بھی موصول ہوئی ۔ اس سے خوشی ہوئی کہ مولانا امیر الدین مہر صاحب اس ترجمہ پر نظر ثانی فرما رہے ہیں ۔ اگر مولانا کی رائے میں اس کتابچے کے سندھی ترجمہ کی اشاعت مفید ہو تو اس کے مکمل ہو نے پر ایک کتابچے کی شکل میں شائع کرنے پر غور کریں اور مشورہ دیں ۔

            اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا ہے ۔ اب دوسرے ایڈیشن کی طباعت کا مرحل درپیش ہے ۔ چونکہ مولانا امیر الدین مہر صاحب اس کو ساتھ ساتھ ملاحظہ بھی فرمار رہے ہیں ، اس لیے ان سے درخواست کریں کہ کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں جو ترامیم، اضافے اور اصلاحات ضروری ہوں ، ان کی نشان دہی فرمادیں ۔

            میری طرف سے مرکز کے تمام احباب اور مولانا امیر الدین مہر صاحب کو سلام عرض کردیں ۔

والسلام

محمود احمد غازی

 

 

بنام : محمد عمار خان ناصر

(۱)

03/8/06

برادر مکرم و محترم جناب مولانا عمار ناصر صاحب ، مدیر الشریعہ گوجرانوالہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ مسجد اقصیٰ کی شرعی حیثیت کے بارے میں آپ کا فاضلانہ مقالہ بر وقت مل گیا تھا ۔ میرے لیے اس کے مندرجات کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا تو دشوار ہے ، اس لیے کہ میں نے مسجد اقصیٰ کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ مطالعہ کیا تھا ، اس پر خاصی مدت گزر چکی ہے ۔ اب از سر نو مطالعہ تازہ کرنے کے لیے کتابوں کی ورق گردانی ناگزیر ہے جس کی سردست فرصت نہیں ۔ تا ہم اگر آپ چاہیں تو علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب احکام اہل الذمہ کا مطالعہ فرمائیں جس میں انہوں نے شروط عمریہ پر تفصیل سے بحث کی ہے ۔ میری ناچیز رائے میں شروط عمریہ ہی اس معاملہ میں مسلمانوں کے موقف کی فقہی اور آئینی بنیاد فراہم کرتی ہیں ۔

            تاہم یہ غور ضرور کر لیں کہ کیا موجودہ حالات میں یہ بحث اٹھانا مفید ہوگا! میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اور بے شمار مسائل در پیش ہیں ۔ اس صورت حال میں ایک نئی اختلافی بحث کھڑی کر دینا مناسب نہیں ۔ علم اور خاص طور پر علم دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاں ایک بڑا اعزاز ہے ، وہاں ایک مقدس امانت بھی ہے ۔ اس کو استعمال کرنے میں انتہائی احتیاط اور ذمہ داری سے کام لینا چاہئے ۔ اگر ہم میں سے کسی کے علم کا استعمال اس انداز سے ہو کہ امت مسلمہ کو اس کا نقصان یا پاداش برداشت کرنا پڑے تو شاید یہ علم کا بہتر استعمال نہیں ۔ مزید مشورہ برادر مکرم جناب مولانا زاہد الراشدیا ور اپنے جد محترم سے فرمالیں ۔

والسلام

ڈاکٹر محمود احمد غازی

نائب رئیس الجامعہ

(٢)

۱۶، اگست، ۲۰۱۰ء

برادر عزیز و مکرم جناب مولانا محمد عمار خان صاحب ناصر

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ مورخہ ۲۶ جولائی کل سفر حرمین سے واپسی پر دیکھا۔ دعوت کا شکریہ۔ جزا کم اللہ

۳۰ ستمبر کو جمعرات ہے اور عدالتی مصروفیت کا دن ہے ۔ میں اتوار کے روز صبح کے وقت دستیاب ہو سکتا ہوں ۔آپ ستمبر /شوال کے مہینہ میں کوئی سا اتوار رکھ لیں ۔

            والد مکرم کی خدمت میں سلام عرض کر دیں ۔ آپ کی تحریر بابت تو لیت بیت المقدس کیا الگ سے بھی چھپی ہے ؟

اس کی ایک نقل درکار ہے ۔

والسلام مخلص

محمود احمد غازی

 

 

 

 

بنام : محمد رضا تیمور

۱۹، اکتوبر، ۲۰۰۷ء

برادر مکرم جناب محمد رضا تیمور ایم فل

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ ملا۔ ممنون ہوا۔ جزا کم اللہ !

            اس سے خوشی ہوئی کہ آپ کو محاضرات کا یہ سلسلہ پسند آیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کو قارئین کے لیے نافع اور ناچیز مولف کے لیے تو شہ آخرت بنا ئے ۔

            آپ شوق سے ان کی تلخیص کیجئے ۔مناسب یہ ہوگا کہ پہلے کسی رسالہ میں ایک ایک محاضرہ شائع کرتے رہیے۔ قارئین کے تبصرہ اور رد عمل سے افادیت کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔ اس کام کیلیے گوجرانوالہ کا الشریعہ موزوں معلوم ہوتا ہے ۔ اس کے لیے پہلے مولانا زاہد الراشدی سے استمزاج کر لیں ۔

والسلام

 

 

 

 

بنام : شبیر احمد خان میواتی

۰۰۔۹۔۴

برادر مکرم جناب مولانا شبیر احمد خان صاحب میواتی زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            گرام نامہ مورخہ ،۱۷،۸،۲۰۰۰ء موصول ہوا۔ جزاکم اللہ ۔ آپ نے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے ، ان کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں ۔ آپ سے درخواست ہے کہ اپنی دعوات صالحہ میں یاد فرماتے رہیں ۔

            حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے لیے میرے بھی وہی احساسات ہیں جن کا آپ نے اظہار فرمایا ہے ۔ اللہ کرے ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔

والسلام

مخلص

محمود احمد غازی

 

 

 

 

بنام : مولانا حیدر علی مینوی

برادر مکرم و محترم جناب مولانا حیدر علی مینوی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ میں ایک عرصہ دراز سے آپ کو یہ عریضہ ارسال کرنے کا ارادہ کر رہا تھا، لیکن میرے پاس آپ کا پتہ نہ تھا۔

اگر بہ سہولت ممکن ہو تو استاذ جلیل حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مینوی رحمہ اللہ کی تالیف جواہر الاصول کے نسخے ارسال فرمادیں ۔

میں یہاں اگست کے اوائل تک مقیم ہوں ۔ پھر قطر واپس جانا ہے جہاں میں آج کل مقیم ہوں ۔

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

 

 

 

بنام : نعمت اللہ سومرو

مورخہ ،۲،اکتوبر ، ۱۹۹۱ء

برادر مکرم و محترمجناب نعمت اللہ سومرو صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ آپ کا خط مورخہ ۲۱ ، ستمبر موصول ہوا کہ آپ کے علاقے میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جلد از ہماری ان مشکلات کو دور فرمادے ۔

            یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ لوگ شاہ عبد اللطیف لائبریری کے اہتمام میں بہت سے دینی پروگرام منعقد کر رہے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی یہ تعمیری کوششیں بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوں گی اور آپ اسلام کے پیغام امن و مساوات کو عام کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔ اس سلسلے میں اکیڈمی اپنے وسائل کے مطابق آپ کی ہر خدمت کے لیے تیار ہے ۔

            قطر ٹیلی ویژن کے جس پروگرام کا آپ نے ذکر کیا ہے ، وہ پہلے سے اکیڈمی میں موجود ہے اور اس کو اردو میں منتقل کرانے کی تجویز زیر غور ہے ۔

والسلام مخلص

محمود احمد غازی

 

 

مکاتیب ڈاکٹرحمیداللہؒ بنام ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ

(١)

ڈاکٹرحمیداللہؒ عالم اسلام کے نامورمحقق، مفکر اورسیرت نگار تھے۔ آپ کی علمی ،فکری تحقیقی وتصنیفی زندگی تقریباً اسی پچاسی سال کے طویل عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔ ڈاکٹرحمیداللہؒ کا تعلق خاندان نوائط سے تھا۔ نوائط کا نسبی تعلق عرب کے معزز قبیلے بنوہاشم کی ایک شاخ سے تھا۔ یہ لوگ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ نوائط نے حجاج بن یوسف کے ظلم وستم سے تنگ آکر ہجرت کی اوریہ خاندان جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں پر آکرآباد ہوگیا تھا۔ یہ خاندان اپنی دین داری،شرافت اورعلمی رجحانات وخدمات کے لحاظ سے بہت معروف ومشہور ہے۔۔؂[139]

ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ ١٦ محرم ١٣٢٦ہجری بمطابق ١٩٠٨ء بروز چہارشنبہ کو فیل خانہ جو کہ حیدرآباد (دکن) کا قدیم محلہ تھا، میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام ابومحمدخلیل اللہ تھا جو کہ مددگار معتمد مال گزاری حیدرآباد تھے اوروالدہ کا نام بی بی سلطان تھا۔ آپ کی پانچ بہنیں اورتین بھائی تھے۔ ایک بھائی کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔ بہنوں کے نام امۃ العزیز بیگم، امۃ الوہاب بیگم، امۃ رقیۃ بیگم،امۃ الصمد بیگم، حبیبۃ الرحمن اوربھائیوں کے نام محمد صبغت اللہ ،محمد حبیب اللہ اورمحمدغلام احمدہیں ۔

ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ کی تعلیم کا آغاز گھر سے دینی تعلیم سے ہوا۔ ان کی رسم بسم اللہ والد محترم نے پڑھائی۔ کچھ عرصے تک خود بیٹے کو درس دیتے رہے۔ پھر حیدرآباد کی مشہوردرس گاہ دارالعلوم میں داخل کرایا جہاں وہ چھٹے درجے تک پڑھتے رہے۔ چھٹی جماعت کے بعد انہیں مدرسہ نظامیہ میں شریک کرایا۔ ایک سال وہ وہاں پڑھتے رہے۔ اس زمانے میں انگریزی تعلیم حاصل کرنا معیوب سمجھاجاتاتھا،مگر ڈاکٹرحمیداللہؒ انگریزی زبان کی اہمیت سے واقف تھے ۔ انہوں نے انگریزی تعلیم اپنے والد صاحب کی اجازت کے بغیر حاصل کرناشروع کی۔

ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے بعد ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ نے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا۔ ١٩٢٨ء میں ڈاکٹرصاحب نے جامعہ عثمانیہ سے فقہ میں بی اے کیا۔ اس وقت آپ کی عمر ٢٠ سال تھی۔ ١٩٣٠ء میں ایم اے کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا اور اسی سال ایل ایل بی بھی کرلیا۔ جامعہ عثمانیہ میں تحقیقات علمیہ کے لیے علیحدہ شعبہ ١٩٣٠ء میں قائم کیاگیا۔ ڈاکٹرصاحب اس شعبہ کے پہلے طالب علم تھے۔ ان کی تحقیق کا موضوع "اسلامی ویورپی قانون وبین الممالک کا تقابلی مطالعہ" تھا۔ ایم اے میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہونے پر ڈاکٹرصاحب کوجامعہ عثمانیہ سے دو سال کے لیے ٧٥ روپے ماہوار وظیفہ ملا تھا۔ ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ نے جامعہ عثمانیہ سے درخواست کی کہ انہیں تحقیقی کام کے لیے مواد جمع کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے اوروہاں ان کا وظیفہ بھی جاری رکھاجائے جو جامعہ عثمانیہ نے قبول کی۔

حصول علم اورتحقیق کا شوق ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ کو یورپ لے گیا جہاں کی لائبریریوں اوردرس گاہوں سے آپ نے خوب استفادہ کیا۔ اکتوبر١٩٣٢ء میں جب وہ تحقیقی کام کے سلسلہ میں استنبول میں تھے تو جرمنی کی بون یونیورسٹی کے پروفیسر کرنیکو نے ان کو بون آنے کی دعوت دی۔ جامعہ عثمانیہ نے ان کو اجازت دے دی کہ وہ اپنا مقالہ بون یونیورسٹی کو پیش کرسکتے ہیں ۔ بون یونیورسٹی میں قیام کے دوران مخطوطات سے استفادہ کیا۔ برلن میں بعض نادر ونایاب مخطوطات دریافت کیے۔ بون یونیورسٹی میں ١٩٣٣ء میں ڈاکٹرصاحب نے اپنا تحقیقی مقالہ"اسلام کے بین الاقوامی قانون میں غیرجانب داری" کے موضوع پرپیش کیا۔ اس مقالہ پر آپ کو ڈی فل کی ڈگری عطاکی گئی۔۔ اس کے بعد آپ پیرس آئے۔ ١٩٣٤ء میں آپ نے پیرس کی مشہور و معروف سوربون یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے داخلہ لیا۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا "عہد نبوی اورخلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری"۔ گیارہ مہینے کی قلیل مدت میں مقالہ مکمل کیا اور ٣١ جنوری ١٩٣٥ء کوانہیں ڈی لٹ کی سند نہایت اعزاز کے ساتھ عطاکی گئی۔ جرمنی اورفرانس کی جامعات سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کا ارادہ ماسکویونیورسٹی سے تیسری ڈاکٹریٹ حاصل کرنے کاتھا، لیکن آپ کے وظیفہ کی مدت ختم ہوگئی۔ اعلیٰ ڈگریز کے حصول کے بعد ڈاکٹرصاحب وطن تشریف لائے اورمادر علمی جامعہ عثمانیہ سے وابستہ ہوگئے۔ جہاں وہ دینیات اوراسلامی قانون کی تعلیم دیتے رہے۔ یہ سلسلہ ١٩٤٨ء تک جاری رہا۔

تقسیم ہند کے بعد ریاست حیدرآباد کا سقوط ہوگیا تو ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے پیرس کو اپنا مستقل رہائشی مقام بنانے کافیصلہ کیا۔ انہوں نے فرانس کے ممتاز ادارے نیشنل سینٹر آف سائنٹیفک ریسرچ National Centre of Scientific Research میں شمولیت اختیار کرلی۔ کچھ عرصہ ترکی میں مہمان پروفیسرکی حیثیت سے تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ١٩٥٧ء میں ڈاکٹرذ کی ولیدی طوغان نے (جواستنبول یونیورسٹی میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر تھے)۔ ڈاکٹرصاحب کو مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مدعوکیا۔ ان کے لیکچروں میں طلبہ کے علاوہ تعلیم یافتہ افراد اور دانشوروں کی خاصی تعداد شریک ہواکرتی تھی۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ڈاکٹر صاحب کے علم و فضل اورسیرت وکردار کی شہرت سارے ملک میں پھیل گئی۔ پچیس برس تک وہ استنابول یونیورسٹی ،ارض روم یونیورسٹی اوردیگر جامعات میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے جاتے رہے۔ وہ سال میں تین مہینے ترکی اورباقی ایام پیرس میں گزارتے تھے۔ یورپ کے قیام کے دوران ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے جرمنی اورفرانس کی یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سرانجام دیں ۔ پیرس میں آپ نے مستقل قیام کیا۔ وہاں کتب خانوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ پیرس کوبہت پسند کرتے تھے۔ وہاں پر رہتے ہوئے انہوں نے تحقیق کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔

ڈاکٹرمحمدحمیداللہ ایک بلند پایہ محقق ،عالم دین، ادیب اورداعی اللہ تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی تحقیق ،تصنیف وتالیف اوراسلام کی خدمت میں صرف کردی۔ انہوں نے بے شمار علمی خزانہ ورثے میں چھوڑا ہے جو دین اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت ہے اورقابل فخر سرمایہ ہے۔ انہوں نے قرآن وحدیث ،فقہ و قانون اورسیرت النبیﷺ جیسے متنوع ومختلف موضوعات پر تقریباً ایک ہزار مقالات اورایک سوستر وقیع کتب یادگار چھوڑی ہیں ۔ محمد حمیداللہ کا علمی وفکری سرمایہ صرف ان کے مطبوعہ وغیرمطبوعہ کتب ومقالات تک ہی محدود نہیں رہا۔ ان کے مکاتیب بھی علوم ومعارف کا ایک وقیع گنجینہ ہیں ۔ ان مکاتیب سے نہ صرف مختلف اسلامی علوم وفنون کے حوالے سے قیمتی ومفید معلومات فراہم ہوتی ہیں بلکہ ان سے ڈاکٹرصاحب کی شخصیت ان کے اصول زندگانی ،ان کے عادات ومعمولات اوران کی گوناگوں دلچسپیوں کابھی پتہ چلتاہے۔

(2)

ڈاکٹرمحموداحمد غازیؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ عالم اسلام کے نامور اسکالر،مفکراورداعی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ہیں ۔ ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ کی علمی وتحقیقی خدمات کے قدردان تھے۔ دونوں صاحبان علم کی علمی دلچسپیاں فقہ اسلامی،اسلام کے قانون بین الممالک اورسیرت طیبہ میں تھیں ۔ ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ نے نہ صرف ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ کی علمی مطالعات وتحقیقات سے استفادہ فرمایا بلکہ ان کو متعارف کروانے میں بھی اہم کرداراداکیا۔ ڈاکٹر غازیؒ صاحب نے ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ کی وفات پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"مجھے ذاتی طورپر ان سے ملنے کا ١٩٧٣ء میں نیاز ہوا اوران کے دنیا سے تشریف لے جانے کے آخری مہینوں تک جاری رہا۔ اس زمانے میں ڈاکٹرصاحب کے قلم سے کوئی ایسی تحریرنہیں نکلی جوانہوں نے کبھی اپنے دستخط یا دستخط کے بغیر مجھے اس کے ارسال سے مشرف نہ فرمایا ہو۔ اس دوران میں باربارایسے مواقع آئے کہ ڈاکٹر صاحب نے بعض زیرتحقیق معاملے میں مجھے اس کا مستحق سمجھا، اس قابل گردانا کہ مشاورت کا شرف عطاکرسکیں ۔"۔؂[140]

ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ نے ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ کے حوالے سے اپنے تاثرات میں اس بات کا بھی ذکرفرمایاکہ

"ڈاکٹرصاحب کے اس وقت میرے پاس ١٢٤ خطوط محفوظ اوردستیاب ہیں ۔ ممکن ہے کہ کچھ اورخطوط بھی کاغذات سے مل جائیں ۔ ان خطوط کومرتب کرنے کا پروگرام ہے اوران خطوط کی تمہید میں یہ ساری فداشتیں جو ابھی تک حافظے میں ہیں ، لکھی نہیں گئیں ، اس تمہید میں لکھنے کا پروگرام ہے۔ بظاہرتمہید بھی ١٥٠۔٢٠٠ صفحے کی ہوگی۔"؂[141]

ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ صاحب نے اپنے نام ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ کے یہ خطوط کمپوزکروالیے تھے اوراب وہ ان خطوط کا پس منظربیان کرتے ہوئے تفصیلی حواشی لکھنا چاہتے تھے،مگربیرونی سفر اوردیگرمصروفیات کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ راقم نے ڈاکٹرصاحب کے حکم پر ان خطوط کی پروف خوانی کی اوراس خواہش کا اظہارکیاکہ اگرآپ اجازت دیں توان خطوط میں جن علمی نکات کی نشاندہی کی گئی ہے ، ان کے حواشی میں لکھ دوں اورجوامور آپ سے متعلق ہیں ، ان کی آپ خود وضاحت کردیں ۔ آپ نے اس تجویز کوپسند کیا اورفرمایا کہ کوئی وقت مقرر کرلیتے ہیں ،مگراللہ تعالیٰ کو کچھ اورہی منظور تھا۔ اس کے بعد ملاقات کی نوبت نہ آسکی اورآپ اپنے رب کے حضورحاضر ہوگئے۔

ماہنامہ 'الشریعہ' کی اس خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ کے لے ابتدائی دس خطوط ہدیہ قارئین ہیں ۔ تمام ١٢٤ خطوط پر حواشی کا کام جاری ہے، ان شاء اللہ ششماہی معارف اسلامی کے خصوصی شمارے بیاد ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ میں ان کو شائع کیاجائے گا۔

خط نمبر١

بسم اللہ الرحمن الرحیم

١٧ ربیع النور١٣٩٤ھ

مکرمی زادمجدکم

سلام مسنون۔آپ کا عنایت نامہ کل یہاں پاریس ہوکرآیا۔ممنون ہوا۔

اگرکسی شخص کوقابل طباعت فرانسیسی آتی ہو اورمصارف طباعت کا بھی انتظام کرسکتا ہوتو:

أ‌.      عشرہ مبشرہ میں سے ہر ایک کے حالات

ب‌. حضرت بلال﷜،صہیب﷜ وسلمان فارسی﷜ میں سے ہر ایک کے حالات

ت‌. ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے حالات

ث‌. دیگرممتاز صحابیات رضی اللہ عنہن کے حالات

ج‌.    اخلاقی قصے کہانیاں ،لطائف ،ضرب الامثال

ح‌.    اردو کے شہ کاروں کے ترجمے

خ‌.    تصوف پراچھی کتابیں جوخلاف شریعت نہ ہوں

غرض آغاز ہے، ابتدائی نوعیت کی کتابیں بھی نومسلموں اوران کی اولاد کو درکار ہیں اوربلند پایہ کتابیں بھی، السعی منا والاتمام من اللہ۔کاردنیا کسے تمام نکرد۔

مجھے یہاں مئی کے آخرتک رہناہے۔

نیازمند

محمدحمیداللہ

خط نمبر٢

بسم اللہ الرحمن الرحیم

٢١ رجب ١٣٩٤ھ

مکرمی دام لطفکم

سلام مسنون

آج صبح عنایت نامہ ملا،شکرگزارہوں۔

آپ کا سوال فرانسسی تالیف کے متعلق ایساہے جس کا خود آپ ہی نے جواب دے دیا ہے کہ عبدالقدوس صاحب آپ کی مددفرمانے والے ہیں۔ دوسرے سوال کے سلسلے میں یہ محض حسن ظن ہے کہ فرنگستان میں ہر چیز تیار ملتی ہے ، ضرورت بس ایک پوسٹ کارڈ یا ایروگرام کے لکھنے کی ہے۔ یورپ میں مردم شماری کے وقت کبھی مذہب دریافت نہیں کیاجات، کسی کو معلوم نہیں کہ کہاں کتنے مسلمان ہیں۔

کافی عرصہ ہوا پروفیسر ماسین یوں Massignon نے سالنامہ عالم اسلام Annuai nedu monde musulman شائع کرناشروع کیا تھا۔ اس میں ہر قسم کے معلومات تھے۔ اب تو مؤلف کی وفات بھی ہوچکی ہے۔ معلومات کی"صحت " کا اندازہ اس سے کیجیے کہ انگلستان میں دس بارہ نومسلم ہیں، فرانس میں ایک بھی نہیں!

فرانس میں آج کل پچیس تیس لاکھ مسلمان ہیں جن میں خاصے نومسلم بھی ہیں۔ میرے اندازے میں شہر پاریس ہی میں دس ہزار سے کچھ زیادہ نومسلم ہیں۔ یہاں فی الحال France-Islam نامی ایک فرانسسی ماہنامہ ہے۔ تین اسلامی انجمنیں قابل ذکر ہیں:

Centre Cultural Islamique,

Amicale des Musulmans

Association des Etudiants Islamiques

انگلستان میں سو سے زائد مسجدیں ہیں۔ پاریس میں اب بارہ پندرہ ہوچلی ہیں۔

انگلستان میں کم از کم نو گرجامسلمانوں کی مسجدوں کا کام دیتے ہیں تو پاریس میں دو۔ باقی فرانس میں مزید دو کا مجھے علم ہے، مگر ان خبروں کی اشاعت سے ہمیں مشکلیں ہی پیش آئیں گی کیونکہ ہر ملک و قوم میں تنگ نظراورمتعصب لوگ بھی ہوتے ہیں اوروہ شورمچائیں تو روادار لوگ بھی ہاتھ روک لیتے ہیں۔

راوس کے مسلمان کے متعلق کوئی پندرہ بیس سال قبل فرانسسی وزارت خارجہ نے ایک کتاب شائع کی تھی۔ مؤلف کا نام  Bennigsen  ہے مگراب اس کا ملنا ممکن نہیں۔

                                                                                                            والسلام

                                                                                                            محمدحمیداللہ

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

خط نمبر٣

بسم اللہ الرحمن الرحیم

١٧ محرم ١٣٩٥ھ

مکرمی

سلام مسنون

عنایت نامہ ملا۔شکریہ۔پابہ رکاب ہوں ۔

آپ کا سوال مجھے بھایا نہیں۔ کسی بھی موضوع کولیاجاسکتا ہے، اہمیت عنوان کونہیں مندرجات کوہوتی ہے۔ ہر موضوع پر کام ہوسکتاہے۔

                                                                                                            نیازمند

                                                                                                            محمدحمیداللہ

 

 

 

 

 

 

 

 

خط نمبر٤

بسم اللہ الرحمن الرحیم

٢٥ ذوالقعدہ ١٣٩٦ھ

مکرمی دام لطفکم

سلام مسنون۔عید مبارک

عنایت نامہ ملا اوریہ معلوم کرکے مسرت ہوئی کہ آپ کی محترم وعزیز ہمشیرہ نے اپناکام مکمل کرلیا ہے۔ میری مبارکباد پہنچائیں،توقع ہے کہ یہ چھٹے (آخری)اڈیشن پرمبنی ہے۔

اگر وہ چاہتی ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں ۔کہ میں بھی ترجمے پر ایک نظرڈال لوں تو براہ کرم ارسال سے قبل مجھ سے پوچھ لیں۔ اگر وصولی کے زمانے میں، میں پاریس میں نہ رہوں  توبستہ بھیجنے والوں کو واپس ہوجائے گا۔سمندری ڈاک دو ماہ سے زیادہ لیتی ہے۔

                                                                                                            مخلص

                                                                                                            محمدحمیداللہ

مکرر

براہ کرم کبھی پارسل نہ بھیجیے۔وہ لازما چنگی خانہ جاتی ہے اورچنگی نہ بھی لی جائے تو اجرت کار بارہ فرانک(تقریباً چھتیس روپے) لی جاتی ہے۔ امید کہ خیال رکھاجائے گا۔

 

 

 

خط نمبر٥

بسم اللہ الرحمن الرحیم

٦ محرم ١٣٩٨ھ

محترمی زادمجدکم

سلام مسنون

آپ کا عنایت نامہ استنابول والوں کی عنایت سے کل یہاں آیا، شکریہ۔عزیز آپا جان کو میری مبار ک باد  فرمائیں۔ میں دو دن میں جرمنی کے سفرپرجارہاہوں۔ دو ایک ہفتوں میں واپس آنے پر مکرر جنوبی فرانس جاناہے۔ فروری میں ترکی کا سفردرپیش ہے۔(اس سال استانبول کی جگہ ارضردم کی دعوت آئی ہے) اوروہاں کثیر سرکاری فرائض میں اس کا وقت نہ ملے گا کہ آپا جان کا کام کروں۔ اصل کتاب بھی ساتھ نہ ہوگی(میں اشرف صاحب کو ساتواں اڈیشن تصحیح کے بعد ان کی فرمائش پر بھیج چکا ہوں، معلوم نہیں چھپا یا نہیں) چھٹے اڈیشن میں عربی متن بہت غلط چھپے ہیں۔

ان حالات میں التجاء ہے کہ ساری کتاب ایک ساتھ اس طرح بھیجیں کہ وہ مثلاً جون کے آغاز میں فرانس آئے۔ احتیاطاً پتہ لینڈ لیڈی کالکھیے تاکہ میری غیر حاضری میں بھی ڈاکیا بستہ پہنچادے۔

خدا کرے آپ سب خیرو عافیت سے ہوں۔

                                                                                                                        نیازمند

                                                                                                                        محمدحمیداللہ

LA CONCIRGE

POUR Mr. Hamidullah

R,Rue De Tournan

25006- Paris/ France

خط نمبر٦

بسم اللہ الرحمن الرحیم

٢٧ ربیع الانور١٤٠٠ھ

مخدوم ومحترم متعنا اللہ بطول حیاتکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ نے اس ناچیز کی جو قدر افزائی اورمہمان نوازی اسلام آباد میں فرمائی، اس پر ممنونیت  کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں پاتا۔ حفظکم اللہ وعافاکم۔

بہاولپور کا سفر متعین ہوچکاہے۔ ان شاء اللہ پاریس سے ٥ مارچ کو نکلوں گا اورایک دن کراچی میں  آرام لے کر آگے روانہ ہوجاؤں گا۔ ٨ تا ٢١ مارچ وہاں درس ہیں۔ پھر فرانس واپسی ہے۔ ابھی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آیا مختصر قیام ہی کے لیے سہی،اسلام آباد آسکوں گا۔ سب احباب کوسلام مسنون عرض کرتاہوں۔

غازی صاحب آپ کے رفیق تھے جن کے ہاں آپ کی ہمراہی میں رات کی دعوت ہوئی تھی۔ بعض چیزیں دریافت کی تھیں جو ذیل مں درج ہیں۔ ان سے فرمادیں تونوازش ہوگی:

Paul Coudere, Le Caiwdrier مطبوعہ پاریس کے مطابق یہودیوں نے کالدیا والوں سے تقویم لی۔ ان کے مہینے اب یہ ہیں۔

1. Tishre        2.Marsahevan           3. Kislew       4. Tebet         5. Sebat          6. Adar

7. Nisan         8. Lyar                       9. Sivan         10. Tamoug  11. Ab           12. Elul

یہودیوں کی Civil  تقویم تِشری کے مہینے سے شروع ہوتی ہے ،خزاں میں ، اوریہ مہینہ کبھی اکتوبر اورکبھی ستمبر میں آتاہے کیونکہ مہینے تو قمری ہوتے ہیں لیکن نسی کرکے تیرھواں مہینہ وقتاً فوقتاً آدار کے بعد بڑھاتے ہیں اور یہ زائد مہینہ  Veadar کہلاتا ہے ۔ مگر مذہبی تقویم میں سال کا آغاز ماہ نیساں سے ہوتاہے جو مصر سے نکلنے اور دریا عبور کرنے  (Peskha) کی یاد سے مربوط ہے۔ نسی کے باعث ماہ نیساں اپریل سے کبھی زیادہ دورنہیں ہوتا۔

                                                                                                            نیازمند

                                                                                                            محمدحمیداللہ

 

خط نمبر٧

بسم اللہ الرحمن الرحیم

٢١ شعبان ١٤٠٠ ھ

محترمی

سلام مسنون ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

نوازش  نامہ ملا۔مضمون کے ص:٧ پر Rune Genuنہیں  Rene Guenon۔ص:١ پر عاقل نہیں آکؤیلAquil  قلینڈی نام ہے۔ص١ پر اپنے محل میں"کی جگہ"اپنے محل کے قریب۔ص٣:مشل والی شاں، امیشل مصطفیٰ وال ساں Vichel Valsam  ہے۔ص٥پر"اس پادری کو چند سال قبل ایک پادری کے قتل کے جرم میں"کو"ایک عورت کے قتل کے جرم"پڑھئے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے لاہور چند سال قبل وہاں کے وزیراعظم کی صدارت میں دیے ہوئے لیکچر کا خلاصہ کسی  کا لکھا ہواہے، مگراستدعا ہے کہ شائع نہ فرمائیں۔ آج فرانس میں پوپ کے حکم سے حکومت کی سیاست بدل گئی ہے، تعصب توعناد اور دشمنی میں مبدل ہوگیا ہے۔ چنانچہ حال ہی میں پارلیمنٹ نے قانون بنایا ہے کہ جو مسلمان یہاں متوطن ہوگئے ہیں ، لیکن اجنبی قومیت کے ساتھ، ان میں ہر سال پینتیس ہزار کو اپنے اصلی وطن کو واپس جانےپر مجبورکیاجائے ۔ اس کا اطلاق خاص کر بیس پچیس لاکھ الجزائریوں پر ہوتاہے اوران کی جگہ پرتگالیوں کو مزدوری کے لیے بلایاجارہاہے۔ فرانس میں نومسلموں کی روز افزوں کثرت سے کلیسا پریشان ہوگیا ہے۔ یہودی اورکمیونسٹ بھی حیران ہیں۔ گذشتہ ہفتے ایک کمیونسٹ اخبار کے ایڈیٹر نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کے نامہ نگار کو اس موضوع پر سوالات کا انٹرویو میں جواب دوں۔ میں نے ٹال دیا اورادب سے کہا جامع مسجد کو جاکر وہاں کے ناظم سے پوچھ لو۔

 ان حالات میں قطعاً مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ دشمنوں کو معلومات مہیا کیے جائیں۔ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ۔

                                                                                                            نیازمند

                                                                                                            محمدحمیداللہ

 

مکرر:

 کیا حدیث قدسی پر کسی مطبوعہ علمی کام کا آپ کوکوئی علم ہے؟ میری ایک نومسلم شاگرد عائشہ اس پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ رہی ہے۔ Zwenier  کا مضمون مسلم ورلڈ میں اور Mouton  کمپنی کی شائع کردہ حالیہ انگریزی کتاب سے میں واقف ہوں۔ معلوم نہیں اردو فارسی ،عربی ،ترکی میں کوئی چیز آپ کے علم میں ہو۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

خط نمبر٨

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دوشنبہ،٩ رمضان المبارک ١٤٠٠ ھ

محترمی

سلام مسنون ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عنایت نامہ  ملا۔خیر وعافیت کی اطلاع سے مسرت ہوئی۔

اگرموقع ہوتوالجزائر کے ذمہ دارلوگوں سے کہئے کہ مراکش میں جامع قرویین ہے، تونس میں جامع زیتونہ ہے، مصرمیں الازہر،مگرالجزائر میں کوئی اسلامی بڑی درسگاہ نہیں اورالجزائریوں کواپنے ہمسایوں کے ہاں جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دورِ استعمار میں پیداشدہ اس خلا کو اب جلد سے جلد پُرکرناچاہیے کہ آدمی کوپیٹ بھی ہے اور دماغ بھی۔ صرف کسی ایک کھِلائیں تودوسرابھوکا مرجائیگا۔

ستمبر کے اواخرتک توسفرکاکوئی پروگرام نہیں ہے الا ماشاء اللہ۔ آپ کی تشریف آوری سے مسرت ہوگی، لیکن یونیورسٹی کے اساتذہ ابھی گرمائی تعطیلوں میں غائب ہی رہیں گے۔ کوشش فرمائیے کہ کسی اتوار کویہاں رہیں تاکہ جمعیۃ الطلاب الاسلامیین کے ہفتہ واراجلاس میں (جو صرف اتوارکوہوسکتاہے) تشریف رکھ سکیں اوران کو مخاطب فرماسکیں۔

رمضان مبارک ،یوسف صاحب اوران کی عزیز اہلیہ کوبھی میراسلام فرمادیں۔

کیا اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی جلد ع یا م شائع ہوگئی ہیں؟ عرصے سے زیر طبع تھیں۔ جواب کی کوئی جلدی نہیں۔

                                                                                                            نیازمند

                                                                                                            محمدحمیداللہ

 

خط نمبر٩

بسم اللہ الرحمن الرحیم

٢٣ ذی القعدہ ١٤٠٠ ھ

محترم ومکرم زاد مجدکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک ہفتے کی پرواز کے بعد الحمدللہ آج آپ کا عنایت نامہ پہنچ گیا۔ خیروعافیت کی اطلاع سے مسرت بھی ہوئی اوراطمینان بھی ہوا، خاص کرترکی کے انقلاب کے باوجود آپ کے لیے ازہر کے سفر کاموقع ملا۔ واللہ علی مایشاء قدیر۔

افسوس ہوا کہ آپ پاریس کے کتب خانہ عام کو نہ جاسکے۔ اگرمعلوم ہوتا کہ آپ کے رفیق اس میں دشواری محسوس کرتے ہیں تو میں آپ کو ساتھ لے جاتا۔ توپ کاپی سرائے کے سلسلے میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے دست مبارک کے متعلق جب میں نے دریافت کیاتھا تو بتایاگیا تھا کہ جب سلطان محمد فاتحؒ نے استانبول کو فتح کیا، مشہور حدیث نبوی کی حقانیت ثابت کی۔ تووہاں قیصر روم کے خزانہ خاص الخاص میں یہ مساعد بھی ملا۔(معلوم نہیں کیوں، اس کو ادب سے دفن کرنے کی جگہ محفوظ رکھا ہے؟) باقی کس حد تک وہ صحیح ہے اور اس کی تاریخ و سرگزشت کیاہے، یہ اللہ تعالیٰ جانے۔

آپ کی مجلس کے سرنامہ پر موناگرام میں"تعاونوا علی البروالتقویٰ" کی آیت پاک کے متعلق ہے۔ (سورہ٥،آیت٢) آپ نے کبھی غورفرمایا کہ یہ کفار سے برتاؤ کے متعلق ہے، "مابین المسلمین" طرز عمل کے لیے نہیں۔ اس آخر کے لیےانما المؤمنون اخوۃ وغیرہ آیتیں ہیں۔ حدیث میں المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ(تین دن سے قطع مومن نہ کرناچاہئے وغیرہ)

کیا آپ کو ایک زحمت دے سکتاہوں ؟ لاہور کے محمد اشرف صاحب نے میری کتاب چھاپی ہے۔ وہ یہاں نہیں ملتی۔ اس کی مجھے شدید اورفوری ضرورت ہے۔ کیا وہ اسلام آباد میں مل سکتی ہے؟ اس کا ایک نسخہ ہوائی ڈاک سے ،بل کے ساتھ روانہ فرماسکیں تو خوشی کا باعث ہوگا اورہمیشہ شکرگزاررہوں گا۔کارلائق سے یاد فرمائیں۔

                                                                                                            نیازمند

                                                                                                            محمدحمیداللہ

خط نمبر١٠

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سہ شنبہ،٤ ذی الحجہ ١٤٠٠ ھ

محترم ومکرم زاد مجدکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،عید مبارک

کتاب ابھی ابھی پہنچ گئی، دلی شکریہ۔

یہ چوری کا ایڈیشن ہے ۔ پہلی دفعہ دیکھ رہاہوں۔اللہ ہم لوگوں کو اسلام فروشی سے بچائے۔ مید برآں اجازت نہ مانگنے میں اس میں ایک مضرت یہ بھی ہے کہ کتاب کی تازہ تصحیحیں اوراصلاحیں نہیں ہوئی ہیں اورپرانی غلطیاں برقراررہتی ہیں۔

بہرآپ کا دلی شکریہ۔ میں نے کراچی میں ایک رشتہ دار کولکھ دیا ہے کہ کتاب کی قیمت اورڈا ک کے مصارف آپ کو منی آرڈر سے بھیج دیں۔

میں ان شاء اللہ عیدالاضحیٰ جزیرہ ریونیوں میں گزاروں گا۔ دو ایک دن میں جارہاہوں اوردوہفتوں میں واپسی ہوگی۔واللہ المستعان۔

                                                                                                            نیازمند

                                                                                                            محمدحمیداللہ

 

 

 

 

رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے

(١)

حضرت مولاناغلام رسول خاموش اورحضرت مولانا مرغوب الرحمٰن قاسمی کی وفات سے پہلے ملت اسلامیہ، خصوصاً برصغیر کے دینی وعلمی حلقوں کو ایک اورحادثہ سے دوچارہوناپڑاتھا۔ یہ تھا ڈاکٹرمحمود احمد غازی کے انتال پر ملال کا حادثہ جو ٢٦ ستمبر ٢٠١٠ء کو پیش آیا۔ ڈاکٹرصاحب اس دور کے ان ممتاز اہل علم ودانش  میں تھے جو پاکستان اورعالم اسلام میں جاری اسلامیت اورمغربیت کی کشمکش میں اسلام کے ایک وفادار اورجاں باز سپاہی کا کردار اداکررہے تھے۔ ویسے تو مختلف اسلامی علوم میں ان کو عبور حاصل تھا، مگر فقہ وہ قانون میں ان کو زبردست مہارت حاصل تھی اورقدیم علمی سرمائے کو جدید اسلوب میں پیش کرنے میں ان کو غیرمعمولی ملکہ حاصل تھا۔ وہ پاکستان کے فیڈرل شریعہ عدالت کے جج بھی تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم دینی مدارس میں ہوئی تھی۔ بعد میں انہوں نے یونیورسٹیوں کی ڈگریاں بھی حاصل کیں اور راقم کے اندازے کے مطابق قدیم و جدید کے درمیان توازن قائم رکھنے میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے اوراہل نظرجانتے ہیں کہ اس کا کہنا تو آسان ہے، مگر ہرجزئیہ اورہر فکر اورہر تعبیر میں یہ بہت ہی دشوار کام ہے۔

یہ راقم مولاناعیسٰی منصوری صاحب کا شکرگزار ہے کہ انہوں نے ڈاکٹرصاحب مرحوم  کی شخصیت کے بارے میں اپنے تاثرات پر مشتمل مفصل مضمون "الفرقان" میں اشاعت کے لیے ارسال کیا جو اس شمارے میں شامل کیاجارہاہے۔ دل کی گہرائیوں سے دعاہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم ڈاکٹر غازی صاحب کی مغفرت فرمائے، ان کی زندگی بھرکی مساعی کو قبول فرماتے ہوئے ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطافرمائے اوران کے تمام پس ماندگان اورمتعلقین ومحبین کو صبرواجر عطافرمائے۔

گزشتہ سال کے آخری دنوں میں مذکورہ بالاتینوں شخصیتوں کے اٹھ جانے سے بلاشبہ بہت بڑی کمی ہوئی ہے۔ اب ہم سب کی ذمہ داری اورزیادہ بڑھ گئی ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ اپنے اسلاف سے خدمت دین کی اس  امانت کی وراثت قبول کریں اوراسی اخلاص ،استغنا اورعزم وحکمت کے ساتھ کام کو جاری رکھیں۔محترم قارئین سے ان تینوں حضرات کے لیے دعاؤں اورمسنون طریقے پر ایصال ثواب کے اہتمام کی بھی گزارش  ہے ۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آَمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ(الحشر)

مولاناخلیل الرحمن سجاد نعمانی

(ماہنامہ الفرقان لکھنو)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

(٢)

احقر ١٦ شوال المکرم کو چنیوٹ جارہاتھا۔ راستے میں مخدوم ومکرم حضرت مولانا مشرف علی تھانوی مدظلہم نے فون پر اطلاع دی کہ جناب ڈاکٹرمحمود احمد غازی صاحب انتقال کرچکے ہیں۔ ٢ بجے اسلام آباد میں ان کا جنازہ ہوگا۔ اچانک ملنے والی اس خبر سے بہت افسوس ہوا۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔

ڈاکٹرمحمود احمد غازی مرحوم باقاعدہ درس نظامی اورعصری تعلیم کے فاضل تھے۔ ان کے والد مرحوم کا حضرت حکیم الامت تھانویؒ سے خاص تعلق تھا، اس لیے ان کی تربیت اورنشوونما بڑے دین اورعلمی ماحول میں ہوئی جس کا اثر ان کی زندگی پر آخردم تک قائم رہا۔ عصرجدید کے چیلنج اوردورحاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھ کردین کی تبلیغ اورتعلیم وتربیت کے حوالے سے وہ ہمیشہ فکر مندرہے اورانہوں نے ہمیشہ اہل علم کو بھی اس طرف متوجہ کیا۔ اپنی علمی ودینی،فکری صلاحیتوں کی بنیاد پر انہوں نے چیلنجوں کا خوب مقابلہ کیا اوراس محاذ پر اہل علم اوردین کی نمائندگی کی۔ مرحوم بڑے فاضل اورقابل جوہر تھے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر بہت ساذخیرہ چھوڑاہے جو اہل علم کے لیے یقیناً قابل قدر ہے۔ ان کے بعض افکار سے اختلاف کیاجاسکتا ہے، لیکن جہاں تک ان کے اخلاص اوردرد دل کے ساتھ عالم اسلام کے لیے گرانقدر خدمات کا تعلق ہے، اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اورپس ماندگان کوصبر واجر سے نوازیں۔

احقر کو ان سے مستفید ہونے کا موقع نہیں ملا، لیکن جو ملاقاتیں ہوئیں، ان کاگہرانقش اب تک احقر کے قلب پر موجود ہے۔ دارالعلوم الاسلامیہ لاہورمیں ایک دومرتبہ ان سے ملاقات ومجلس ہوئی۔ احکام القرآن کی تقریب میں ان کا خطاب ذی شان بھی سنا۔ اس میں انہوں نے جب آیت قرآنی:

وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا   (١٧:١٦)

میں "أَمَرْنَا" کی وضاحت کی تو سامعین بڑے ہی محظوظ ہوئے۔ بعد میں حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے اپنے خطاب میں ان کی بڑی تعریف فرمائی۔

حضرت والد صاحبؒ سے جب ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے بڑے متاثر ہوئے۔ حضرت نے ان سے امام جصاص کے تحریر فرمودہ مقدمہ احکام القرآن کاذکرفرمایا تو انہوں نے اسلام آباد اسلامی یونیورسٹی میں تلاش کرنے کا وعدہ کیا۔ حضرت والد صاحب سے تاثر ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے بڑے اصرار سے حضرت کو راضی کرکے اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بنایا اورپھر ان کی وفات پر بڑے گہرے دکھ کا اظہارکیا۔ چند سال قبل احقر ان کی دعوت پر اسلام آباد میں منعقدہ سہ روزہ بین المذاہب کانفرنس میں حاضر ہوا اوران کا فاضلانہ خطاب بھی سنا۔

ایک مرتبہ جنرل پرویز مشرف کی دعوت پر اسلام آباد میں حضرات علماء کرام تشریف لے گئے۔ احقر بھی حاضر ہواتوڈاکٹر صاحب نے بڑی محبت کا مظاہرہ فرمایا۔ وہ خود بھی صاحب فضل و کمال اورعالم وفاضل تھے،اس لیے اہل علم کے بحد قدردان تھے۔ ان کے جانے سے علمی اورتحقیقی دنیامیں ایک نیاخلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماویں اوراس خلا کو پورا کرنے کی بعدکے حضرات کوتوفیق عطافرمائیں۔

مولانامفتی عبدالقدوس ترمذی

(ماہنامہ الحقانیہ،ساہیوال)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

(٣)

وفاقی شرعی عدالت کے جج، مجمع الاسلامی کے ممبر،قومی سلامتی کونسل واسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن، شریعت اپیلٹ کورٹ کے سابق جج اوربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق صدر ڈاکٹرمحموداحمدغازی صاحب ١٦ شوال المکرم ١٤٣١ھ /٢٦ ستمبر٢٠١٠ء کوحرکت قلب بندہونے سے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ ڈاکٹرصاحبؒ حافظ قرآن،عالم دین، مشہوراسکالر،دینی و دنیاوی علوم کے جامع،اسلامی اصول و ضوابط پر مطلع اوردرجنوں کتابوں کے مؤلف تھے۔

سن ولادت١٨ ستمبر ١٩٥٠ء ہے۔ مقام ولادت کراچی ہے۔ والد محترم کا نام محمد احمدہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حفظ وناظرہ کی تعلیم مدرسہ اشرفیہ جیکب لائن کراچی میں قای حافظ نذیراحمدمتوفی ١٢ ذوالحجہ ١٤١٠ھ/٨ جولائی ١٩٩٠ء سے حاصل کی۔ اس کے بعد جامعۃ العلوم اسلامیہ علامہ یوسف بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا اوردرس نظامی کی کتابیں پڑھیں۔ ١٩٦٠ء کے لگ بھگ غازی صاحب نے دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راوالپنڈی میں داخلہ لیا اوروہیں سے فراغت پائی اوربانی جامعہ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ سے بھی استفادہ کیا جب کہ غازی صاحبؒ نے ١٩٧٢ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ چونکہ غازی صاحب دینی و دنیاوی علوم کے جامع ،دینی مدارس وجامعات اوراسکول وکالجز کے اسرار ورموز پر مطلع تھے اور ساتھ ملک و ملت کے بھی خیرخواہ تھے، اس لیے غازی صاحب ملک کے درجنوں اداروں کے اہم عہدوں پر فائز رہے اورقومی وملی خدمات سرانجام دیں۔

غازی صاحب نے ٢٠٠٢ء سے ٢٠٠٤ء تک بطوروفاقی وزیر برائے مذہبی امور فرائض سرانجام دیے۔٢٠٠٤ء سے ٢٠٠٦ء تک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدررہے جب کہ محترمہ بے نظیربھٹو کے دورمیں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اورنواز شریف کے دورمیں شریعت اپیلٹ کورٹ کے جج رہے۔ غازی صاحب عرب  ممالک کی جدید ڈکشنری مجمع الاسلامی(؟)کے تاحیات ممبر تھے اور یہ واحد مذہبی اسکالرتھے جوغیر عرب تھے۔ ٢٦ مارچ ٢٠١٠ء کوغازی صاحب وفاقی شرعی عدالت کے جج مقررہوئے اورآخری دم تک اس خدمت میں مصروف رہے۔

غازی صاحب کی پوری کوشش تھی کہ دینی مدارس کے علماء کرام کو عصری تعلیم سے روشناس کرائیں اور دینی مدارس کے نظام تعلیم میں اس طرح ردوبدل کیاجائے کہ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ عصری علوم کے بھی ماہرہوں اورغازی صاحب کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ تنقیدی مضامین پر چراغ پا ہونے کی بجائے انتہائی متانت اورسنجیدگی کے ساتھ ان مضامین کوپڑھتے اورخیر مقدم بھی کرتے تھے۔

غازی صاحب کا ایک مضمون ہفت روزہ تکبیر کراچی،شمارہ٥ فروری ٢٠٠٤ء میں شائع ہوا تھا اور راقم نے اس مضمون کے بعض اقتباسات پر اپنااظہار خیال کیاتھا۔یہ تنقیدی اظہار خیال جب ماہنامہ حق نوائے احتشام کراچی،شمارہ صفر المظفر١٤٢٥ھ/اپریل٢٠٠٤ء میں شائع ہوا توغازی صاحب نے فون پر رابطہ فرمایا اوربراماننے کے بجائے حوصلہ افزائی فرمائی۔ غازی صاحب کی ایک تالیف بنام "مسلمانوں کادینی وعصری نظام تعلیم" ہے۔ صفحات ٢٥٦ ہیں ۔ اس کتاب پر تبصرہ ماہنامہ حق نوائے احتشام ،شمارہ ربیع الاول ١٤٣١ھ/مارچ٢٠١٠ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب کے بعض اقتباسات پر بھی تنقید ہے، لیکن غازی صاحب نے حسب معمول فون پرسلام کلام کیا اورانتہائی مودبانہ ومشفقانہ اندازمیں گفتگوفرمائی۔اس سے اندازہ ہوا کہ غازی صاحب  بے حد وسیع الظرف اورتحقیقی وعلمی شخص تھے۔

رجب المرجب ١٤٢٦ھ/اگست٢٠٠٥ء کو ہمارے ادارے سے "متاع احتشام الحق" کے نام  سے سات سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب منظرعام پرآئی۔ حسب معمول ایک نسخہ غازی صاحب کی خدمت میں بھی بھیجاگیا۔نسخہ ملنے کےبعد غازی صاحب نے جو خط بھیجا وہ یہ ہے:

برادرمکرم ومحترم جناب مولاناحافظ محمد صدیق ارکانی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا پہلا گرامی نامہ چند روز قبل موصول ہوا۔ اس سے خوشی ہوئی کہ آپ اپنے رسالہ کاخصوصی شمارہ شائع کررہے ہیں۔ ابھی اس کا جواب دینے کی نوب نہیں آئی تھی کہ خصوصی شمارہ کی ایک کاپی بھی موصول ہوگئی۔جزاکم اللہ۔ میری طرف سے مولاناتنویرالحق صاحب کی خدمت میں شکریہ کے جذبات پہنچادیجیے۔ رسالہ کے مضامین اورتصاویر نے چالیس سال پرانی یادیں تازہ کردیں۔

والسلام ڈاکٹرمحموداحمد غازی

رئیس الجامعۃ الاسلامیۃ العالمیۃ

اسلام آباد،پاکستان

مورخہ:٨ ،اگست٢٠٠٥ء

غازی صاحب کی متعدد تالیفات ہیں جن میں محاضرات ،قانون بین الممالک ،اسلام اورمغرب تعلقات ،مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم،اسلامی بنکاری،ایک تعارف،آداب القاضی ،قرآن مجید:ایک تعارف  معروف ہیں۔ محاضرات نامی کتاب چھ جلدوں پر مشتمل ہے اورہر جلد ١٢ خطاب کا مجموعہ ہے۔

غازی صاحب ؒ کو سات زبانوں پر عبورتھا اورپس ماندگان میں ایک بیوہ اورپانچ بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ غازی صاحبؒ کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے،جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے اورپس ماندگان کوصبر جمیل کی دولت سے مالا مال کرے۔

مولانامحمد صدیق اراکانی

ماہنامہ حق نوائے احتشام ،کراچی

 

 

 

 

 

 

(٤)

آسمان علم وتحقیق کا ایک درخشندہ ستارہ گزشتہ دنوں اچانک بحرفنا میں ڈوب گیا۔ مسند علم و عرفان کی ایک ایسی شمع یکایک بادِ فنا کی ستم ظریفی سے ہمیشہ ستم ظریفی سے ہمیشہ کے لیے بجھ گئی ہے جس کی تلاش میں کہکشائیں بھی جلائی جائیں توبھی اس کی تلافی ممکن نہیں۔

؎            اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

جناب ڈاکٹر محمو داحمدغازی عالم اسلام اورخصوصاً پاکستان کے لیے بہت بڑا علمی سرمایہ تھے۔ پاکستان اوربرصغیر میں آپ کے پائے کے قابل اورفاضل افراد گنے چنے ہی نہیں بلکہ ایک دوافراد ہی ہیں۔ جناب ڈاکٹر صاحب کی علمی،تحقیقی،فنی،ادبی اورتعلیمی خدمات اتنی زیادہ اوروسیع ہیں کہ ان کا احاطہ ایک طالب علم کے بس کی بات نہیں۔

یقیناً ڈاکٹر صاحب اس وقت علم وتحقیق کے میدان میں حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ کے بعدبہت نمایاں مقام پر فائز تھے۔ آپ کچھ عرصے میں اداروں اورکیڈمیوں کاکام کرگئے۔ طبیعت میں تواضع کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ کم گوئی اورخاموشی آپ کی نمایاں خصوصیت تھیں اورعلمی نخوت وتکبر سے بھی آپ کوسوں دورتھے۔

آپ اگرچہ جدید علوم وفنون میں ممتاز تھے اورآپ پر عصر حاضر کے رنگ کا عکس بھی کافی گہراپڑچکا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم وفنون پر بھی آپ کی دسترس کسی شیخ اورکسی دینی وعلمی مستند ترین شخصیت سے کم نہیں تھی۔

آپ ایک ایسے دریاکی مانند تھے جس میں قدیم وجدید دونوں علوم پانی کی مانند جمع تھے اور ایسا علمی خزانہ تھے جو جمع ہونے کی بجائے خود کوخرچ کرنے پر ترجیح دیتے تھے۔ دراصل آپ کی بنیاد ہی اسلامی مدرسے سے بنی تھی اورعلوم شرعیہ میں کمال بھی آپ نے کراچی کے ایک بڑے علمی ادارے سے حاصل کیاتھا۔ پھر بعد میں اپنی جدت پسند اورخداداد صلاحیتوں سے آپ ترقی کرتے کرتے علم وعرفان کے بلند ترین مسانید پر فائز ہوگئے۔ آپ کے قیمتی قلم سے کئی علمی اورتحقیقی ضخیم کتابیں منصہ شہود پرجلوہ گرہوئیں اورآپ کے پرمغزعلمی مقالات،تقاریر،علمی سیمیناروں کی جان ہواکرتے تھے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے صدراورفیصل مسجد کی خطابت بھی آپ نے کئی برس تک کی۔ اس کے علاوہ دیگرکئی علمی وتحقیقی اداروں کے آپ رئیس رہے اورکافی عرصہ وفاقی وزیر مذہبی  امورپاکستان بھی آپ رہے۔ اس وقت آپ وفاقی شرعی عدالت کے معززجج کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

پاکستان جو پہلے ہی مفلسی اورغربت کے ہاتھوں گھرا ہواہے اوراس کا تعلیمی اورعلمی سرمایہ بھی آہستہ آہستہ گھٹتا چلاجارہاہے، اب ڈاکٹر صاحب جیسی قیمتی شخصیت کے اٹھ جانے کے باعث تو علمی وتحقیقی مفلسی بھی پاکستان کے حصے میں آگئی ہے۔ تعلیمی انحطاط روزبروز بڑھتاچلاجارہاہے۔ درسگاہیں ویران ،حقیقی طالب علم ناپید اوراساتذہ وپروفیسر علم وادب سے بے خبر۔ایسے ماحول اورایسے ملک میں آپ جیسے عظیم ،معلم،استاد،مفکراورمحقق کابچھڑجانا مزید گہرے صدمے کے باعث ہے۔ اب توپورے ملک میں لے دے کرچند ہی نابغے باقی ہیں۔ اللہ انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اورڈاکٹرصاحب کے مقامات اعلیٰ علیین میں مقررفرمائے اوران کے پس ماندگان کوصبر جمیل عطافرمائے۔

مولاناراشد الحق حقانی

(ماہنامہ الحق،اکوڑہ خٹک)

 

 

 

 

 

 

(٥)

ملک کی بے حد قابل احترام اوروقیع علمی شخصیت ،جسٹس وفاقی شرعی عدالت اورسابق صدربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جناب ڈاکٹرمحمود احمد غازی حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔

ڈاکٹرمحموداحمد غازیؒ وطن عزیز کی ان ہستیوں میں شامل تھے جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پہچان تھے، اس کے علمی مقام و مرتبہ کی شناخت تھے۔ وہ دینی اورجدید وقدیم علوم کے ایسے عظیم اسکالر تھے جن پرکوئی بھی قوم فخرکرسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے اعزازات سے نوازاتھا۔ وہ کئی ایک قومی وملی اورعلمی وتدریسی مناصب پر فائز رہے اورہرجگہ سزاوار احترام ٹھہرے۔وہ تحریر وتقریر دونوں ہی میدانوں کے شہسوارتھے۔ ان کی تصنیف کردہ کتب علم کاایساخزینہ ہیں جن سے آنے والی نسلیں مدت مدیرتک استفادہ کرتی رہیں گی۔

ڈاکٹرمحموداحمد غازی کے اچانک سانحہ ارتحال سے اسلامی، علمی اور قومی وملی حلقوں میں بہت بڑاخلا پیداہوگیا ہے۔ ایسا خلا جسے قدرت الٰہیہ فوری طورپر پُرکردے توکوئی بعید نہیں۔وماذلک علی اللہ ببعید۔بظاہرایساممکن نظرنہیں آتا۔ ہم قحط الرجال کے جس بدترین دورسے گزررہے ہیں، ڈاکٹرمحمود احمد غازی کی رحلت نے اس کی شدت میں کچھ اضافہ کردیا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی مغفرت تامہ کے لیے دست بدعاہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اوران کی بشری لغزشوں سے درگزرفرماتے ہوئے ان کے درجات کوبلند فرمائے۔ انہیں انبیاء واتقیاء اورصلحاء کی معیت نصیب ہو اوران کی اخروی زندگی ان کی اس حیات مستعار سے کہیں زیادہ قابل رشک ٹھہرے۔ آمین۔ ہم ان کے سبھی لواحقین بالخصوص ان کے برادرگرامی جناب ڈاکٹرمحمدالغزالی سے اظہارتعزیت کرتے ہوئے ان کے لیے صبرجمیل کے طالب ہیں۔

ڈاکٹرزاہد اشرف

(ماہنامہ المنبر،فیصل آباد)

(٦)

٢٦ ستمبر کو معروف اسکالر، علمی وادبی اورتحقیقی کاز کے حوالے سے جدید و قدیم علوم کے متبحر عالم دین، اسلامی یونیورسٹی کے سابق صدر،سابق وفاقی وزیر مذہبی امور وسابق خطیب فیصل مسجد ،وفاقی شرعی عدالت کے جج،ڈاکٹر محموداحمد غازیؒ بھی حرکت قلب بند ہونے سے راہی جنت ہوگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔

ڈاکٹرمحموداحمد غازیؒ ایک وسیع المطالعہ شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کیاا وربھرپور استقامت اورعزیمت کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری زندگی بسرکردی۔ وہ جدید اورقدیم علوم پر گہری نظررکھتے اوراپنی بات بڑے سلیقے سے کہنے کا ہنرجانتے تھے۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگ اتنے شستہ اوراتنے اعلیٰ اسلوب میں اپنامدعا بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان کے ساتھ میری سب سے پہلی ملاقات مولانا سیدچراغ الدین شاہ صاحب کے مدرسہ کے سالانہ جلسہ دستار بندی میں ہوئی۔ میں جلسہ گاہ میں پہنچاتو ایک عالمانہ ، فاضلانہ خطاب شروع تھا۔ خطیب کی اردو سے علم وادب چھلکتا تھا، جگہ جگہ قرآن کی آیات سے استدلال، احادیث سے استشہاد اورمتنبی اورحماسہ کے عربی اشعار بھی بطوردلیل پیش کیے جارہے تھے۔ میں نے دریافت کیا ،خطیب کون ہیں؟ بتایاگیا کہ مرکزی وزیرجناب ڈاکٹرمحموداحمد غازی ہیں۔ اسی شام دسترخوان پراکھٹے بیٹھے اورچند لمحوں میں موصوف بے تکلف ہوگئے۔ مجھے اس روز اس پر اورزیادہ خوشی ہوئی کہ موصوف میری اکثرکتابوں کو جانتے بھی تھے، مطالعہ بھی کیاتھا اورانہیں میری بعض جدید کتب کی طلب بھی تھی۔ انہوں نے کئی بارجامعہ ابوہریرہ آنے کی خواہش ظاہرکی تھی۔ ماہنامہ القاسم کوشوق سے دیکھتے بلکہ فرماتے کہ میں اس کے انتظارمیں رہتاہوں۔

گزشتہ کئی سالوں سے ان کے علمی افادات بھی منظرعام پر آنے لگے۔قرآنیات ،احادیث اورفقہ پر ان کے  علمی لیکچرز  ان کے وسیع وعمیق مطالعہ اورعلم وتحقیق کامظہرہیں۔ ان کے  خطبات ،محاضرات قرآن،محاضرات حدیث،محاضرات سیرت سے دین اورمطالعاتی حلقوں میں ان کا علمی مقام بہت بڑھ گیا تھا۔ بلاشبہ وہ اسلام اور پاکستان کے سلسلہ میں مخلص تھے۔ ان کے سانحہ ارتحال سے ہم بہت مخلص خادم علم، خادم اسلام اورخادم پاکستان سے محروم ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماوے اوران سے جوفائدہ مسلمانوں کو پہنچ رہاتھا وہ پہنچتا رہے اوراگران سے کوتاہیاں ہوئی تھیں،اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے اوران کے درجات بلند فرمائے ۔آمین۔

مولاناعبدالقیوم حقانی

(ماہنامہ القاسم،نوشہرہ)

(٧)

ممتاز محقق اورعالم دین ، اسٹیٹ بینک کے شعبے کے چیئرمین، سابق ڈائریکٹر دعوۃ اکیڈمی،بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کے سابق سربراہ اورفیصل مسجد اسلام آباد کے سابق  خطیب ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ  اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ علمی حلقوں میں ان کی جدائی کی خبر سے انتہائی صدمے کی کیفیت طاری ہے۔ آپ کاندھلہ کے علمی خانوادے کاتسلسل تھے۔ آپ کی غیرمعمولی قابلیت، تحقیق  اوروسعت خیالی نے آپ کو ہر طبقے میں ہر دلعزیز بنارکھاتھا۔ جس انداز میں مدارس کے ساتھ آپ کا مسلسل رابطہ اورمحبت بھراتعلق تھا، بالکل اسی طرح ملکی اورغیرملکی یونیورسٹیوں اورحکومتی اداروں میں بھی آپ کی بے انتہاء پذیرائی تھی۔ سابق صدر ضیاء الحق نے آپ کی قابلیت کی بنا پر آپ کو اپناترجمان بنایاتھا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی انہیں اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبربنانے کے ساتھ اہم ذمہ داریاں تفویض کررکھی تھیں۔ نواز شریف نے اپنے دورحکومت میں انہیں وفاقی شرعی عدالت  کا جج اپائنٹ کیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے انہیں وفاقی مذہبی امور کا وزیر بنایا جس سے ان کی موافقت نہ ہوسکی اورجلد ہی انہیں اس سے الگ ہوناپڑا۔

آپ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سب سے کامیاب اورہردلعزیز سربراہ رہے۔ آپ کے زمانے میں یونیورسٹی کے ماحول میں اسلامی ثقافت کا رنگ غالب رہا۔ آپ نے گوپردے کو قانونی حیثیت تونہ دی ،لیکن اس زمانے میں نوجوان لڑکیوں میں اسلامی لباس کارجحان ترقی کرتارہا۔ دعوۃ اکیڈمی بھی آپ کی ڈائریکٹرشپ میں ہی منظم اورفعال ادارے کے طورپر سامنے آئی تھی۔ آج دعوۃ اکیڈمی کے مفید پروگرامز اورہمہ جہت کارکردگی میں ڈاکٹر صاحب کی خصوصی توجہ کا بڑادخل ہے۔ ہر محقق علمی شخصیت کی طرح آپ کے نقاد بھی موجود رہے۔ خاص طورپر پرویز دورمیں عہدہ قبول کرنے پر ان پر بہت تنقید ہوئی۔ خاص طورپر ممتاز محقق محمد موسیٰ بھٹو نے اس حوالے سے خصوصی مکاتبت فرمائی تھی جو ان کی کتاب میں  شائع ہوچکی ہے۔ ان خطوط سے اندازہ ہوتاہے کہ ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ اپنے اسلاف کی طرح تحمل اورتواضع کے پیکرتھے۔ کسی موقع پر وہ تنقید کی وجہ سے اشتعال کا شکار نہ ہوئے۔ حفظ مراتب کے ساتھ باسلیقہ گفتگو کا اللہ تعالیٰ نے انہیں خصوصی ملکہ عطافرمایاتھا۔ موصوف کو اردو کے علاوہ عربی اورانگریزی تحریر وتکلم پریکساں عبور تھا۔

عالمی کانفرنسوں اورسیمینارز میں کسی بھی زبان میں بے تکلف گفتگو ان کا طرہ امتیاز تھی۔ موصوف نے جدت پسندی کے نام پر اجماع سے ہٹے ہوئے نظریات کا ہمیشہ مردانہ وارمقابلہ کیا۔ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ سیرت، فقہ اورخصوصیت سے فقہ المعاملات میں خصوصی درک رکھتے تھے۔ ان کے محاضرات(لیکچرز) سیرت ،فقہ اورمعیشت چھپ کر داد وتحسین وصول کرچکے ہیں۔ ملک کی کوئی اہم لائبریری نہ ہوگی جس میں ان کی کتب کو خصوصیت سے جگہ نہ دی جاتی ہو۔ کراچی کے معروف علمی ادارہ جامعۃ الرشید کے زیرنگرانی قضا کورس میں انہوں نے جو ساڑھے چارگھنٹے پرمغزبیان کیاتھا، اسے لازوال شہرت ملی تھی۔ یہ بیان پاکستان بھر کے نامور دارالافتاؤں کے جید مفتیان کرام کے سامنے کیاگیا تھا جسے اس کی روانی ،ٹھوس استدلال اورجامعیت کی وجہ سے بے حد پسند کیاگیاتھا۔ جامعۃ الرشید کے سالانہ کنونشن میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طورپر تقریباً آٹھ ہزار سامعین کے سامنے انہیں دولاکھ کتابوں پر مشتمل ڈیجیٹل لائبریری اورلیپ ٹاپ دیاگیاتھا۔ ان کی علمی قابلیت کی وجہ سے انہیں مختلف نصابوں کی تشکیل میں شریک کیاجاتارہاہے۔

گزشتہ کچھ زمانے سے وہ قطرمیں خدمات انجام دے رہے تھے اورگاہے گاہےاسلام آباد،کراچی اورلاہور بھی چکرلگاتے تھے۔ اس بار اسلام آباد میں قیام کے دوران انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اورداعی اجل کولبیک کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ احادیث میں یہ مضمون موجود ہے کہ قیامت کے قریب جہالت کا غلبہ ہوگا اور علم اٹھالیاجائے گا۔ علم اٹھانے کی صورت یہ ہوگی کہ زمانے کے نبض شناس علما کو اٹھالیاجائے گا۔ اس وقت ہم کسی ایسی ہی صورت حال کا شکارہیں یا انہیں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کیاجارہاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جہالت کے عذاب سے محفوظ رکھیں۔ ان کی علمی خدمات اور عملی جدوجہد یقیناً اس قابل ہے کہ ہر پاکستانی ان پر رشک کرے، ان سے استفادہ کرے اورامید رکھے کہ جس اللہ تعالیٰ نے انہیں اتناعملی کام کرنے کا موقع عنایت کیا، وہ ان لغزشوں اورخطاؤں کومعاف کرکے انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔ ان کے درجات بلند فرمائیں اوراپنی عادت کے مطابق قحط الرجال کے اس دورمیں نئے رجال عطافرمائیں۔آمین۔

ہفتہ روزہ "ضرب مؤمن" کراچی

(٨)

یہ خبر دل ودماغ پر بجلی بن کرگری کہ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور اوروفاقی شرعی عدالت کے جج ،مایہ ناز استاد،محقق اوردانش ور مولانا ڈاکٹرمحمود احمد غازی ٢٦ ستمبر کودارفانی سے کوچ کرگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔اسلامی تعلیمات کے حوالے سے جن چند گنے چنے لوگوں کو سنجیدہ غوروفکر اوراعلیٰ درجے کاافہام اللہ تعالیٰ نے عطافرمایا ہے، ڈاکٹرمحمود احمد غازی اسی عمدہ جماعت کے فرد فرید تھے۔ پاکستان میں ان کے نام اورکام کو جاننے والے دسیوں،ہزاروں لوگ ہیں توبیرون ملک بھی ان کے قدردانوں کی کمی نہیں۔ڈاکٹرمحمود غازی اپنے علم و فضل کی گہرائی اورمزاج کی شرافت اورمتانت کے حوالے سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ اب جب کہ سنجیدہ غوروفکر کرنے والے لوگ علمی حلقوں میں دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں ،ڈاکٹرمحمود غازی کے جانے سے یہ کمی شدت سے محسوس کی  جارہی ہے۔

ڈاکٹرصااحب مرحوم ٢٠٠٢ء تا ٢٠٠٤ء وفاقی وزیرمذہبی  امور رہے۔ انہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے پرویز مشرف کے دینی مدارس کے نصاب ونظام تعلیم کے خلاف ناپاک منصوبوں کو جس حکمت سے ناکام بنایا، وہ ان کے اخلاص کاغماز ہے۔ وزارت سے سبکدوشی ان کے اسی "جرم" کی سزاتھی۔ ٢٠١٠ء میں انہیں وفاقی شرعی عدالت کا جج مقرر کیا گیا۔ انہوں نے چالیس سے زائد ممالک کے سفرکیے، اندرون وبیرون ملک مختلف  موضوعات پر ہونے والی ایک سو سے زائد کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اسلامی قوانین ،اسلامی تعلیم،اسلامی معیشت اوراسلامی تاریخ سے متعلق اردو،انگریزی ،عربی میں تیس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ قادیانیت کے رد میں ایک مستقل کتاب انگریزی میں تحریر کی۔ وہ اپنی شاندار زندگی کاسفرساٹھ سال میں مکمل کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرہوگئے۔

غم کی اس گھڑی میں مجلس احراراسلام  پاکستان کے امیر حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری،سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ، مدیر نقیب ختم نبوت سید محمد کفیل بخاری اورراقم ،مرحوم ڈاکٹرصاحب کے اہل خانہ اوران کے بھائی ڈاکٹرمحمدالغزالی سے تعزیت مسنونہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پس ماندگان کوصبر جمیل عطافرمائے اورڈاکٹر صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ دین اسلام کے حوالے سے ان کی کوششوں کوشرف قبولیت بخشے۔آمین

محمد عابد مسعود ڈوگر

(ماہنامہ نقیب ختم نبوت،ملتان)



؂[1] ۔ روزنامہ جہاد،پشاور،۳۱جنوری ۲۰۱۱ء؁

؂[2] ۔ روزنامہ اسلام،کراچی،۲۸ ستمبر ۲۰۱۰ء؁

؂[3] ۔ روزنامہ دعوت،نئی دہلی،یکم اکتوبر ۲۰۱۰ء؁؁

؂[4] ۔ روزنامہ جدید خبر،نئی دہلی،۲۷ ستمبر ۲۰۱۰ء؁

؂[5] ۔ پروفیسر ڈاکٹرمحمود احمد غازی ؒ ،شخصیت اورخدمات۔ ڈاکٹر علی اصغرچشتی ص۲،خصوصی اشاعت معارف اسلامی،جنوری ۲۰۱۱ء؁

؂[6] ۔ ششماہی معارف اسلامی،جنوری تاجون ۲۰۱۱ء؁،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد،ص ۳۱۲

؂[7] ۔ روزنامہ جہاد،پشاور،۳۱جنوری ۲۰۱۱ء؁

؂[8] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری ۔۲۰۱۱ء؁،ص۴۰

؂[9] ۔ ششماہی معارف اسلامی،جنوری تاجون ۲۰۱۱ء؁،ص ۳۹

؂[10] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری ۔۲۰۱۱ء؁،ص۴۰

؂[11] ۔ القرآن،سورۃ البقرۃ،آیت۲۸۲

؂[12] ۔ ششماہی معارف اسلامی،جنوری تاجون ۲۰۱۱ء؁ ،ص ۳۱۴

؂[13] ۔ القرآن،سورۃ آل عمران ،آیت۳

؂[14] ۔ القرآن،سورۃ انفال ،آیت۶۳

؂[15] ۔ القرآن،سورۃ حم السجدۃ ،آیت۳۰

؂[16] ۔ غازی،ڈاکٹر،محمود احمد،اسلام اورمغرب تعلقات،ص۳۰،۳۲،۳۱،زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،کراچی،۲۰۰۹ء؁

؂[17] ۔ لویس معلوف،المنجد،عربی اردو،ص۶۷۷،دارالاشاعت کراچی ۱۹۹۴ء؁

؂[18] ۔ ابن منظور ،لسان العرب،مادہ علم ،ج/۴،ص۳۰۸۳،دارالمعارف قاھرہ، س۔ن۔

؂[19] ۔ اصفہانی،حسین بن محمد مفضل راغب، المفردات فی غرائب القرآن، ص ۹۸، نورمحمد اصح المطابع،س۔ن۔

؂[20] ۔ قرضاوی،ڈاکٹریوسف،رسول اکرم ﷺ اورتعلیم،مترجم ارشاد الرحمان،نگارشات لاہور ،ص ۱۱،۱۲

؂[21] ۔ Encyclopedia Britannica (1768) Vol-7, p 964-3.5

؂[22] ۔ القرآن سورۃ زمر آیت نمبر۔۹، القرآن سورۃ انعام ،آیت ۳۵ اور سورۃ مجادلہ ،آیت ۱۱

؂[23] ۔ افضل حسین، فن تعلیم وتربیت،ص،۴۰،اسلامک پبلی کیشنز،لاہور ۲۰۰۸ء؁

؂[24] ۔ القرآن سورۃ فرقان ،آیت ۴۴

؂[25] ۔ القرآن سورۃ آل عمران،آیت ۱۶۴

؂[26] ۔ عبدالرحمٰن نحلاوی،اصول التربیۃ الاسلامیۃ واسالیبھا، ص ۱۵۵، المکۃ العربیۃ السعودیۃ،دارالفکر

؂[27] ۔ القرآن سورۃ الشمس،آیت ۹

؂[28] ۔ الطاف جاوید، انقلاب مکہ اورفہم جدید کے منہاج،ص ۳۷،نگارشات ،لاہور، ۱۹۹۶ء؁

؂[29] ۔ واسطی،سید محبوب حسن،مولاناالسیرہ،حضور کا تعلیمی انقلاب، ص ۸۱،زوار اکیڈمی،کراچی ،جون ۲۰۰۰ء؁

؂[30] ۔ ندوی، ریاست علی، اسلامی نظام تعلیم، معارف پریس، اعظم گڑھ،ص۹،۱۹۳۸ء؁

؂[31] ۔ سنن دارمی، ج/۱،ص۸۴،رقم،۱۲۲،مطبع نظام کانپور،۱۲۹۳ھ

؂[32] ۔ ابوعبداللہ قزوینی،ابن ماجہ،محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ،ج/۱،ص۹۸، رقم ۲۲۹، دارالفکر بیروت،س۔ن۔

؂[33] ۔ مسند احمد ،ج/۲،ص۲۸۱،مطبع میمنیہ مصر، ۱۳۰۶ھ

؂[34] ۔ الاحسان بہ ترتیب صحیح ابن حبان۔ ج/۴،ص۲۷۹،دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ ۱۹۸۷ء؁

؂[35] ۔ ابوعبداللہ قزوینی،ابن ماجہ،محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ،ج/۱،ص۷۹،محولہ بالا

؂[36] ۔ السجستانی ،سلیمان بن اشعث،سنن ابوداؤد،کتاب الفرائض،مترجم ،خورشید عالم،دارالاشاعت،کراچی،س۔ن۔

؂[37] ۔ الغزالی،محمد،ابوحامد،احیاء العلوم،دارالمعرفۃ،بیروت،ج/۱،ص۲۴۲،س۔ن۔

؂[38] ۔ القشیری،مسلم بن حجاج،امام،صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب بیان ان تخیر امرأۃ۔

؂[39] ۔ القرآن سورۃ احزاب،آیت ۱۲، بلاشبہ رسول کی ذات میں تمہاری لیے اچھی مثال ہے۔

؂[40] ۔ ابن عبدالبر،یوسف، مختصر جامع بیان العلم وفضلہ،ص۴۶، حدیث ص۴۶،مکتبہ تجاریہ،مصر،۱۹۹۲ء؁

؂[41] ۔ رازی،مفاتح الغیب،ج/۱ص۲۵۱،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت ۱۹۹۹ء؁۔

؂[42] ۔ ششماہی معارف،اسلامی،جنوری تاجون،۲۰۱۱ء؁،ص۲

؂[43] ۔ ماہنامہ الشریعہ،جنوری فروری،۲۰۱۱ء؁،ص۴۱

؂[44] ۔ ماہنامہ الشریعہ،جنوری فروری،۲۰۱۱ء؁،ص۴۲

؂[45] ۔ روزنامہ جہاد،پشاور ٣١ جنوری ،۲۰۱۱ء؁

؂[46] ۔ ششماہی ،معارف اسلامی،جنوری تاجون،۲۰۱۱ء؁،ص۴٣

؂[47] ۔ روزنامہ جہاد،پشاور ٣١ جنوری ،۲۰۱۱ء؁

؂[48] ۔ ماہنامہ الشریعہ،جنوری فروری،۲۰۱۱ء؁،ص٢٣

؂[49] ۔

؂[50] ۔

؂[51] ۔

؂[52] ۔ عبید اللہ بن الحسین الکرخی،امام ،اصول الکرخی،مترجم عبدالرحیم اشرف بلوچ،اسلام آباد،ادارہ تحقیقات اسلامی ، ١٤٠٢ھ،ص٣

؂[53] ۔ تنزیل الرحمن،مجموعہ قوانین اسلام، جلد٣،ص٨٣٤،اسلام آباد ١٩٦٩ء

؂[54] ۔ پرویز،تبویب القرآن،لاہور،طلوع اسلام،١٩٧٧ء،ص١١٠٤

؂[55] ۔ القرآن:٤،٧٨

؂[56] ۔ القرآن:٩،١٢٢

؂[57] ۔ القرآن:٤٨،١٥

؂[58] ۔

؂[59] ۔ القرآن:٢،١٢٩

؂[60] ۔ مناظراحسن گیلانی،مولانا، مقدمہ تدوین فقہ، مکتبہ رشیدیہ،کراچی،١٩٧٦،ص٩٣ تا ٩٤

؂[61] ۔ ایضاً:ص٩٤

؂[62] ۔ عبیداللہ بن الحسین الکرخی،امام،اصول الکرخی،(مترجم:عبدالرحیم اشرف بلوچ)،محولہ بالا،ص٦

؂[63] ۔ الدسوقی،ڈاکٹر ،امام محمد بن حسن شیبانی اوران کی فقہی خدمات، اسلام آباد،ادارہ تحقیقات اسلامی، ٢٠٠٥ء،ص١٨٧

؂[64] ۔ محمدالخضری،علامہ ،تاریخ فقہ اسلامی،محولہ بالا،ص١٢

؂[65] ۔ خضری،امام،تاریخ التشریع الاسلامی،قاہرہ،١٩٣٠ء،ص٨

؂[66] ۔ محمدمالک،مولانا،التحریر فی اصول التفسیر،کراچی،قرآن محل،س ن ،٣٥ تا٣٦

؂[67] ۔ القرآن:٨،٦٧

؂[68] ۔ قمر احمد عثمانی، مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ ،لاہور،دوست ایسوسی ایٹس، ١٩٦٦ء،ص٨٣

؂[69] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) ،ص ٢٩، نگارشات ،لاہور،٢٠٠٩ء

؂[70] ۔ القرآن:٩٦:١

؂[71] ۔ القرآن:٥:٣

؂[72] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٠

؂[73] ۔ القرآن:٩٧:١

؂[74] ۔ القرآن:٤٤:٣

؂[75] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٠

؂[76] ۔ القرآن:٢٥:٣٢

؂[77] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٠

؂[78] ۔ القرآن:١٧:١٠٦

؂[79] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٢

؂[80] ۔ ایضاً:ص٣٢ تا ٣٣

؂[81] ۔ القرآن:٢:٢١٩

؂[82] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٣

؂[83] ۔ القرآن:٥:٩٠ تا٩١

؂[84] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٣

؂[85] ۔ سرور، پروفیسر،ارمغان شاہ ولی اللہ،لاہور،سندھ ساگراکیڈمی،١٩٩٧ء،ص ٣٦ تا٥٧

؂[86] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٦٣

؂[87] ۔ ایضاً،ص٦٣

؂[88] ۔ القرآن:١٨:٥٥

؂[89] ۔ القرآن:٤٨:٢٣

؂[90] ۔ القرآن:٣:١٣٧

؂[91] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٦٣

؂[92] ۔ ایضاً:ص٦٣ تا٦٤

؂[93] ۔ القرآن:٣٣:٢١

؂[94] ۔ قمر احمد عثمانی، مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ ،لاہور،محولہ بالا،ص٦٣

؂[95] ۔ ایضاً،ص٢٩

؂[96] ۔ ایضا،ص٢٠٤ تا ٢٠٥

؂[97] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٢٠٤ تا٢٠٥

؂[98] ۔ ایضاً،ص٢٠٦

؂[99] ۔ قمر احمد عثمانی، مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ ،لاہور،محولہ بالا،ص٢٩ تا٣٠

؂[100] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٢٠٣

؂[101] ۔ ایضاً،ص٢٢١

؂[102] ۔ ایضاً،ص٢٤

؂[103] ۔ قمر احمد عثمانی، مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ ،لاہور،محولہ بالا،ص٣٤

؂[104] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٢٣٣

 

؂[105] ۔

؂[106] ۔

؂[107] ۔

؂[108] ۔ محبوب الرحمن قریشی، ڈاکٹر،ڈاکٹرمحمود غازی،ص٣٩تا ٤١،گومل یونیورسٹی پاکستان،٢٠١٣ء

؂[109] ۔ ششماہی معارف اسلامی،ص٣١

؂[110] ۔ ششماہی معارف اسلامی،ص٦٠

؂[111] ۔ ششماہی معارف اسلامی،ص٦٠

؂[112] ۔ محبوب الرحمن قریشی، ڈاکٹر،ڈاکٹرمحمود غازی،ص٣٩تا ٤١،گومل یونیورسٹی پاکستان،٢٠١٣ء

؂[113] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٦٨

؂[114] ۔ انٹرویوبذریعہ ٹیلی فون مورخہ ١٠ اپریل،٢٠١٣ء

؂[115] ۔ ڈاکٹرغازی،محموداحمد۔خطبات کراچی،ص٨

؂[116] ۔ ششماہی السیرۃ عالمی فروری٢٠١١ء،زواراکیڈمی پبلی کیشنز ،کراچی ،ص٣٨٨

؂[117] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٦٨

؂[118] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٨٣

؂[119] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٧٩

؂[120] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٨٠

؂[121] ۔ عہدحاضرکی شخصیات میری نظرمیں ،ص٣٨٥

؂[122] ۔ عہدحاضرکی شخصیات میری نظرمیں ،ص٣٨٨

؂[123] ۔ ماہنامہ دعوۃ،دعوۃ اکیڈمی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد،ص١٦٨

؂[124] ۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی،٢٨ ستمبر٢٠١٠ء

؂[125] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص١٢٣

؂[126] ۔ ۱۹۹۹ء میں شش ماہی السیرۃ کے اجرا کے موقع پر اہل علم کو خطوط لکھے گئے تھے ۔ بعض حضرات کو یاد دہانی کے لیے اس کی نقل مکرر روانہ کی گئی تھی۔ یہ خط اس کے جواب ہی موصول ہوا تھا۔

؂[127] ۔ سید سعید احمد شاہ صاحب ادارہ تحقیقات اسلامی میں ناظم مطبوعات تھے۔ یونیورسٹی کی نہایت قابل احترام بزرگ شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ دادا جان مولانا سید زوار حسین شاہؒ سے بیعت تھے۔ اسی نسبت سے ڈاکٹر صاحب نے خط میں ا ن کا تذکرہ کیا تھا۔

؂[128] ۔ ان دنوں السیرۃ کا چوتھا شمارہ شائع ہوا تھا جو ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ارسال کیا گیا تھا۔

؂[129] ۔ حج کے معاملات اور وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام ہر سال منعقد ہونے والی سیرت کا نفرنس کے بعض امور کی جانب ڈاکٹر صاحب کی توجہ دلائی تھی۔ اس کے جواب میں ان کے دفتر سے یہ خط موصول ہوا۔

؂[130] ۔ راقم نے ایک تقریب میں سیرت نگاری پر ایک گفتگو کی تھی جو اس وقت شائع نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریک پریہ مضمون شائع آنے کی ہمت ہوئی اور یہ مضمون ’’مطالعہ سیرت کی وسعت، بر اعظم پاک و ہند‘‘ کے عنوان سے شش ماہی السیرۃ کے شمارہ نمبر ۱۸ میں شائع ہوا ہے۔

؂[131] ۔ ان محاضرات کے عنوانات ہیں : مطالعہ سیرت پاک و ہند میں ۔ مطالعہ سیرت دور جدید میں ۔ مطالعہ سیرت مستقبل کی ممکنہ جہتیں ۔ یہ مجموعہ محاضرات سیرت کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے ۔

؂[132] ۔ ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام میں کراچی تشریف لائے تو ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفیؒ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔پھر راقم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کشفی صاحب کے ہاں حاضر ہوا تھا۔ اس کا ذکر ہے ۔

؂[133] ۔ ان دنوں ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کے محاضرات سیرت جاری تھے ، اس کاذکر ہے۔

؂[134] ۔ تقریر جامعۃ الرشید کراچی کی گئی تھی اور اپنے موضوع پر نہایت مفصل تقریر تھی۔ یہ پہلے دو اقساط میں ماہنامہ تعمیر افکار کراچی کے جنوری ، فروری۲۰۱۰ء کے شماروں میں شائع ہوئی تھی۔ بعد میں اسے کتابی شکل میں ’’اسلامی بینکاری ۔ ایک تعارف ‘‘ کے عنوان سے دارالعلم و لتحقیق کی طرف سے شائع کیا گیا۔(صفحات۱۱۱۔ مارچ۲۰۱۰ء)

؂[135] ۔ ڈاکٹر صاحب کے یہ چھے محاضرات راقم نے مرتب کیے تھے ۔ ان کی اشاعت میں تاخیر ہوتی چلی گئی۔ مجموعہ’’اسلام اور مغرب تعلقات‘‘ کے عنوان سے دسمبر ۲۰۰۹ء میں دارالعلم و التحقیق سے شائع ہوا۔(صفحات ۲۲۱)

؂[136] ۔ یہ خط راقم کے نام ڈاکٹر صاحب کا آخری خط ثابت ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی عربی کتاب تاریخ الحرکۃ المجدیۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت سے ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے اسکے کچھ نسخے ذاتی طور پر خریدنے کا عندیہ ظاہر کیا تو راقم نے دو نسخے حاصل کر کے ارسال کر دئیے تھے ۔ ان کی رقم کی ادائیگی کے لیے ڈاکٹر صاحب مصر تھے۔ راقم نے عرض کیا کہ عند الملاقات وصول کر لوں گا، اس کی فکر نہ فرمائیں ۔ ۱۴ ، ستمبر کو ڈاکٹر صاحب اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈو ائزی ورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے تشریف لائے ۔ یہ میٹنگ ۱۵، ستمبر کو تھی۔ اسی روز وہاں سے فراغت کے بعد ڈاکٹر صاحب کی ائیر پورٹ روانگی تھی۔ ان کا حکم ہوا کہ میں اسٹیٹ بنک میں ہی مل لو ۔ اس لیے وہاں جانا ہوں جس کا خط میں ذکر ہے اور راقم کو رقم کی ادائیگی وہ ذاتی کام تھا جس پر ڈاکٹر صاحب معذرت کر رہے ہیں ۔ اللہ اکبر!

؂[137] ۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ خطبہ ان کی سلسلہ محاضرات کی آخری کتاب ’’محاضرات معیشت و تجارت‘‘کا ابتدائی خطبہ ہے جس میں معیشت کی قرآنی ہدایات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ راقم نے ان میں چند حوالوں کا اضافہ کر کے اسی ملاقات ہی میں مضمون ڈاکٹر صاحب کو پیش کیا تھا تاکہ وہ ایک نظر اسے ملاحظہ فرمالیں ۔ یہ خطبرہ ان شاء اللہ ماہ نامہ تعمیر افکار کے قرآن نمبر میں شائع ہوگا۔

؂[138] ۔ بشکریہ سہ ماہی الزبیر، بہاولپور، شمارہ ۳، ۲۰۰۶ء، ص۲۸۹

؂[139] ۔ عمری،محمد یوسف کوکن، مولانا،خانوادہ قاضی بدرالدولہ ، دارالتصنیف مدراس،١٩٦٣ء،ج١/ص٢١۔٢٢

یوسف کوکن نے قاضی بدرالدولہ کے خاندان اور ان کے علمی کارناموں سے متعلق دوجلدوں پر مشتمل ایک کتاب "خانوادہ قاضی بدرالدولہ" کے نام سے لکھی ہے۔ وہ اپنی اس کتاب میں نائطی خاندان کے بارے میں لکھتے ہیں:

"قاضی بدرالدولہ کا خاندان نائطی کہلاتا ہے جو اپنے حسب ونسب ، عزو شرف ،دینی و دنیوی وجاہت اورخصوصی رسم ورواج کے لحاظ سے خاص کر جنوبی ہند میں ایک امتیازی شان رکھتا ہے۔ نوائط جمع ہے نائط کی اور یہ لفظ "ط" اور"ت" کے ساتھ دونوں طرح لکھا جاتاہے۔ قدیم مؤرخین اورتذکرہ نگار"ت" سے ہی لکھاکرتے تھے"۔

؂[140] ۔ غازی، محمود احمد،ڈاکٹر،علم وعمل کا پیکر۔ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ درششماہی معارف اسلامی ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ،٢٠٠٣ء، جلد ٢ شمارہ ٢ ،ص٣٩٥

؂[141] ۔ ایضاً

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post