عید میلاد النبیﷺعلماء ومحققین کی نظر میں
محمد سرفراز صابری (پرنسپل الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ)
لَقَدْ
مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ
اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ
وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْامِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔(آل
عمران٣:١٦٤)
ترجمہ: یقینا بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ
نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انھیں میں سے پڑھتا ہے ان پر اللہ کی
آیتیں اور پاک کرتا ہے انہیں اورسکھاتا ہے انہیں قرآن اور سنت اگرچہ وہ اس سے پہلے
یقینا کھلی گمراہی میں تھے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے
پوری دنیا کے ایمان والوںسے مخاطب ہوکرفرمایا کہ میرے پیارے حبیب حضرت محمدﷺکی
دنیا میں آمدتمام مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے، اس لئے کہ نبی کریم علیہ التحیۃ
والتسلیم کی دنیا میں آمد سے پہلے انسان کھلی گمراہی میں تھا آمدِ مصطفیﷺسے ہر سو
پھیلے ہوئے کفر و شرک اور ضلالت و گمراہی کا بھیانک اندھیرا چھٹنا شروع ہوگیا ۔
چہار سو ایمان کے نور کی روشنی پھیلنا شروع ہوئی اوردیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف ازلی
سعادتوں اورابدی مسرتوں کا نورچمکنے لگا۔
تعمیر کعبہ کے وقت جو دعا حضرت ابراہیم و
حضرت اسماعیل علیہما السلام نے بارگاہ ِ خداوندی میں پیش کی تھی کہ ان صفات والا
رسول مبعوث فرمایا جائے۔ اب بتایا جارہا ہے کہ وہ دعا مقبول ہوئی اور وہ رسول کریم
ان تمام صفات حمیدہ سے متصف ہو کر تشریف فرماہوگیا۔ آپ کے تشریف لانے سے ایسا عظیم
انقلاب رونما ہوا کہ دنیا حیران رہ گئی کہ عرب کے درندہ صفت انسان کیسے فرشتہ سیرت
بن گئے۔ جنھیں کوئی اپنا غلام بنانا بھی پسند نہیں کرتا تھا کیونکر آئین جہانبانی
میں دنیابھر کے استاد ہوگئے۔ جن کی گھٹی میں شراب تھی۔ ظلم و ستم جن کا شعار تھا۔
کفر و شرک اور فسق و فجور کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتے بھٹکتے صدیاں گذر چکی
تھیں۔ ان میں یہ مکمل تبدیلی اور ہمہ گیر انقلاب کیونکرآیا۔ وہ جو نہ تھے راہ پر
اوروں کے ہادی کیسے بن گئے۔ جنہوں نے کبھی ان حقائق پر غور
کیا ہے وہی اس نبی معظم کی شان رفیع کو جان سکتے ہیں۔ تلاوت آیات ، تعلیم کتاب و
حکمت کے علاوہ تزکیہ نفس اور تربیتِ صالحہ سے یہ مبارک انقلاب روپذیر ہوا۔
یہی وہ احسان تھا جس کا ذکر اللہ سبحانہ و
تعالیٰ اپنے لاریب کلام میں یوں فرمارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر بہت بڑا
اور نہایت عظیم احسان ہے کہ اس نے ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر آیات
قرآنیہ تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتاہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں
تھے۔
اس تحریر سے ہماری غرض محض مسلمانوں کے اتفاق و اجتماع کو قائم رکھنا اور اس
مغالطے کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے جو مسلمانوں کے اتحاد کو مزید ختم کرنے کے لئے
پیدا کیا جارہا ہے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فرقہ بندی سے
منع فرمایا اور ''اللہ کی رسی'' کو مضبوطی سے تھامنے کی تاکید فرمائی ہے لیکن امت
کی بدنصیبی کہ وہ اس ''اتفاق و اتحاد'' سے محروم رہی۔ نت نئے فتنے جنم لیتے رہے ،
ابلیس بھولے بھالے مسلمانوں کو فرقہ بندی کے جہنم میں دھکیلتا رہا۔ یہ سلسلہ صدیوں
سے آج تک جاری ہے ۔ اسلام اور مسلمان اپنے نادان دوستوں کی زد سے نکلنے نہیں پائے۔
آج متفقہ اور اجتماعی نوعیت کے معاملات بھی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں۔
بارہ (١٢) ربیع الاول شریف کو ہمیشہ سے مسلمان اپنے پیارے نبی کی ولادت کی خوشی
مناتے آرہے ہیں لیکن شاید لوگوں کو یہ بھی پسند نہیں کہ مسلمان اپنے نبی کا ''یوم
پیدائش'' اجتماعی خوشی کی شکل میں منائیں۔ چنانچہ اسے بند کرنے کے مطالبے پمفلٹوں ،
کتابوں اور تقریروں کے ذریعے کئے جانے لگے اورلوگوں کو جان بوجھ کر وسوسوں میں
مبتلا کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے پیداکئے جارہے ہیں ۔ ان وسوسوں کی بنیاد
ان چیزوں کو بنایا جارہاہے جنہیں کوئی مسلمان بھی پسند نہیں کرتا۔
اگر یہی اصول ہو کہ کسی جائز کام میں اگر خواہشات یا ناجائز افعال درآئیں تو اس
اصل کام ہی کو حرام اورناجائز قرار دیاجانے لگے توپھر کوئی جائز کام بھی سرانجام
نہ دیا جاسکے گا۔ نکاح ہوسکے گا نہ عیدین اور نہ ہی جمعوں کے اجتماعات ، حتی کے
بعض مقامات پر تو نماز پنجگانہ بھی ناجائز ہوجائے گی لیکن یہ اصول درست نہیں، بلکہ
آپ مجلس نکاح سے ممنوعات کوروکیں گے نہ کہ نکاح کی تقریبات کا انعقاد ہی حرام قرار
دے دیاجائے گا۔
عید میلاد النبیﷺکی تقریبات منعقد کرنے والے احباب سے بھی التماس ہے کہ ایسے مواقع
پر بعض لوگ جو ناجائز حرکات کرتے ہیں اس کی حوصلہ شکنی کریں اور سخت سرزنش سے کام
لیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ عید میلاد پاک کی کسی تقریب میں کوئی مسلمان حضور کا
غلام ایسا عمل نہیں کرتا جس سے اس محفل یا جلوس کی بے حرمتی ہوتی ہو، ہاں ممکن ہے
جو لوگ ان اجتماعات سے منع کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنائے ہوئے ہیں وہی ایسی
حرکات کرنے والوں کو آپ کے جلسوں یا جلوسوں میں بھیجتے ہوں کیونکہ جن کے نزدیک
اللہ کے رسول کے روضہ اطہر ، گنبد خضرا کو گرانا عبادت ہے کیا بعید کہ وہی ان بے
ادبانہ حرکتوں کے ذمہ دار ہوں۔ تاہم عقیدت مندان محافل میلاد کے لئے ضروری ہے کہ
ان محفلوں میں باوضو ہوکرسنجیدگی سے شمولیت کریں۔ درود و سلام کی کثرت کریں تاکہ
اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اورپیارے رسولﷺکی محبت نصیب ہو۔ آپ کا محافل میلاد منعقد
کرنا انسانی فطری تقاضہ ہے۔
کیونکہ زندہ اورباوقار قوم ہمیشہ اپنے نجات
دہندہ اورمحسن کو یاد رکھتی ہے ۔ اس کے دن مناتی ہے اور عام کاروبار زندگی میں
تعطیل ہوتی ہے۔ آنے والی نئی نسل کو اپنے قائد اور راہنما کی عظمت بتاکر اس سے
وابستگی پیداکرنے کی بھرپور شعوری کوشش کی جاتی ہے۔
ہر قوم اپنی تاریخ کے روشن ایام ہر سال
بطور یادگار مناتی ہے جس سے افراد کے جذبات واحساسات قومی وفاکیشی سے لبریز ہوتے ہیں
اور یہ فطری بات ہے کہ انسان اپنی قومی زندگی کے ایام مناکر فخر محسوس کرتاہے۔
آیئے ماضی کے آئینے میں دیکھیں ہمارے اسلاف
کیا نمونہ چھوڑ گئے۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ ثناء خوان رسول نے
آپ کی ولادت اور حسن و جمال کا بیان آپ کے سامنے یوں کیا۔
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النسائ
خلقت مبرا من کل عیب
کأنک قد خلقت کما تشآئ
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی عقیدت
ملاحظہ ہو:
وانت کما ولدت اشرقت
الارض وضائت بنورک الافق
فنحن فی ذالک الضیاء فی
النور وسبل الرشاد نخترق
یعنی یارسول اللہﷺجب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کے نور سے
زمین روشن ہوگئی اور آپ کے نور سے تمام آسمانی فضائیں پُر ہوگئیں ۔ پس ہم اسی نور
میں رشد وہدایت کے راستوں پر چل رہے ہیں۔
صحیح بخاری شریف، صحیح مسلم شریف، ترمذی، ابن ماجہ، ابو داؤد ، نسائی اور مشکوٰۃ
شریف کے علاوہ دیگر کتب احادیث، سیر و تواریخ میں حضور کا خود اپنا میلاد پاک
پڑھنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سننا مشہور و متواتر ہے
ولادت مصطفیٰ کی خوشی کرنے پر کافر کو ثمرہ
ترجمہ: حدیث پاک : حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ، ثوبیہ ابولہب کی
کنیز تھی جسے اس نے حضورﷺکی ولادت کی خوشی میں آزاد کردیاتھا۔ ابولہب کے مرنے کے
بعد اس کے بعض اہل خانہ (حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اسے بہت بری حالت میں
خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا مرنے کے بعد تیراکیاحال رہا؟ ابولہب نے کہا تم سے
جدا ہوکرکوئی آرام نہیں پایا ۔ ہاں پیر کے دن تھوڑا سا سیراب کیاجاتاہوں۔ اس لئے
کہ میں نے حضور کی ولادت کی خوشی میں ثوبیہ کوآزاد کیاتھا۔(بخاری جلد دوم ،صفحہ
٧٦٤، فتح الباری جلد ٩ ،صفحہ ١١٨)۔
علامہ عینی رحمہ اللہ تعالیٰ ، علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ ،ملا علی قاری ،
علامہ خفاجی، امام قسطلانی ، علامہ جلال الدین سیوطی نے اس حدیث سے ثابت کیاہے کہ
حضور کی ولادت کی خوشی کرنے پر کافر کو فائدہ پہنچ سکتا ہے توہم مسلمانوں کو بدرجہ
اولیٰ فضل ربانی حاصل ہوگا۔
میلاد شریف ہمیشہ سے مسلمان مناتے آئے ہیں
غیرملکی آقاؤں کا مال ہضم کرنے کے لئے بعض نادان و ناسمجھ لوگ وقتافوقتا مسلمانوں
کی دلآزاری کرتے اور امت کے متفقہ اوراجماعی معاملات کو اختلافات کی بھینٹ چڑھانے
کا شوق رکھتے ہیں اور کلمہ پڑھ کر بھی ''پیغمبر دشمنی'' کا گھناؤنا کردار اداکرتے
ہیں ، اور یہ باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ محفل میلاد کا انعقاد بدعت اور گناہ
کا کام ہے۔ اسلاف میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
آئیے اس سلسلہ میں اپنے اسلاف سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کا محفل میلاد کے حوالہ سے
کیانقطہ نظر ہے تاکہ دجل و فریب کا غبار چھٹ جائے اور ہمیں طمانیت حاصل ہوجائے۔
شارح بخاری امام قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
حضور علیہ السلام کی ولادت کے مہینے میں تمام مسلمان ہمیشہ سے محافل میلاد منعقد
کرتے چلے آرہے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانے پکاتے رہے اور دعوت طعام کرتے رہے ہیں
ان راتوں میں انواع و اقسام کی خیرات کرتے رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس پر بہت رحمتیں
کرتے ہیں، جس نے ربیع الاول کی ہر رات کو عید بنالیا۔ (مواھب لدنیہ ، جلد ١، صفحہ
٢٧)
خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اورمحفل میلاد
١۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''جس نے حضورﷺکا
میلاد شریف پڑھنے پر ایک درہم بھی خرچ کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا''۔
٢۔ دوسرے خلیفہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''جس نے آپ
کے میلاد کی تعظیم کی گویا اس نے اسلام کو زندہ کیا''۔
٣۔تیسرے خلیفہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''جس نے حضورﷺکے
میلاد شریف پر ایک درہم خرچ کیا گویاوہ بدروحنین میں شامل ہوا''۔
٤۔چوتھے خلیفہ حضرت سیدناعلی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ نے فرمایا:جو میلاد پڑھنے کا
سبب بنا وہ دنیا سے دولت ایمان سلامت لے جائے گا اور جنت میں بغیر حساب کے داخل
ہوگا۔ (النعمۃ الکبریٰ:ص٧۔٨)
امام جلال الدین الکتانی فرماتے ہیں:
''یوم میلاد انتہائی بابرکت دن ہے جس نے اس دن خوشی منائی وہ جہنم کی آگ سے محفوظ
ہوگیا''۔ (سبل الھدیٰ ،ج١،ص ٤٤)
فدائے رسول علامہ عبدالرحمن جامی فرماتے ہیں:
''حضورﷺکی میلاد کی خوشی منانا خوش نصیبی کی علامت ہے''۔ (شواہد النبوۃ، ص ٤٧)
مسلمانان مکہ ومدینہ ، مصرو شام، یمن اور تمام عالم اسلام ربیع الاول کا چاند
یکھتے ہی دھوم دھام سے محافل میلاد منعقد کرنا شروع کردیتے ہیں اور بھرپور خوشیاں
مناتے ہیں۔ (المیلاد النبوی ،ص ٥٨)
امام سخاوی رحمہ اللہ تعالیٰ متوفی ٩٠٢ ئ
'' ربیع الاول میں حضورﷺکی ولادت کی خوشی میں تمام مسلمان بڑی بڑی محافل منعقد
کرتے ہیں ۔ صدقہ و خیرات تقسیم کرتے ہیں اورآپ کی ولادت کے واقعات کابیان
ہوتاہے''۔ (سبل الھدیٰ، ج١،ص ٤٣٩)
ابن تیمیہ کا قول ہے:
''اگر محفل میلاد کے انعقاد کا مقصد تعظیم رسول ہے تو اس کے کرنے والے کے لئے
اجرعظیم ہے''۔ (اقتضاء الصراط المستقیم ، ص ٢٩٧)
حافظ ابوذرعہ عراقی سے میلاد شریف کے متعلق سوال کیا گیا توفرمایا:ربیع الاول میں
حضور علیہ السلام کے نور کے ظہور کی خوشی میں لوگوں کو تبرک بانٹنا مستحب ہے۔ (تشنیف
الاذان،ص١٤٤)
علامہ ملا علی قاری نے فرمایا:
تمام علماء و مشائخ محفل میلاد کی اس قدر تعظیم کرتے ہیں کہ کوئی اس محفل میں
شرکت سے انکار نہیں کرتا۔ (انوار ساطعہ،١٤٤)
شیخ العرب والعجم حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مولد شریف تمام اہل حرمین کرتے، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے۔ (شائم
امدادیہ، ص ٧٤)
مشرب فقیر کا یہ ہے کہ محفل مولود شریف میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ
کر منعقد کرتاہوں اور قیام میں لطف ولذت محسوس کرتاہوں۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ مطبوعہ، دیوبند، ص ٥)
علامہ اسماعیل حقی رحمہ اللہ تعالیٰ ، امام سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا حضور
کی ولادت پر اظہار تشکر کرنا ہمارے لئے مستحب ہے۔ (روح البیان ، ج٩، ص ٨٠)
ابن حجر عسقلانی اور حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے میلاد شریف کی اصل سنت سے ثابت کی
ہے۔ (سیرت حلبیہ ، ج١، ص ٨٠)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ''مسلمان ہمیشہ سے محفل میلاد
منعقد کرتے آرہے ہیں'' (ماثبت السنۃ:ص٧٩)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
میرے والد بزرگوار (شاہ عبدالرحیم) نے مجھے خبر دی فرمایا کہ میں میلاد النبی کے
روز کھانا پکوایاکرتاتھا۔ میلاد پاک کی خوشی میں ، ایک سال میں اتنا تنگدست تھا کہ
میرے پاس کچھ نہ تھا ، مگر چنے بھنے ہوئے تھے، وہی میں نے لوگوں میں تقسیم کئے تو
خواب میں کیا دیکھتا ہوں آنحضرتﷺکے روبرو بھنے ہوئے چنے رکھے ہوئے اورآپ ہشاش بشاش
ہیں۔ (درثمین ، ص ٤٠)
اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں:جس کو حضرت کے میلاد کا حال سن
کرفرحت حاصل نہ ہو اور اس نعمت کے حصول پر شکر خدانہ کرے وہ مسلمان نہیں۔ (شمامہ
عنبریہ، ص١٢)
شیخ قطب الدین الحنفی فرماتے ہیں:
شب ولادت بارہ ربیع الاول کو ہر سال مسجد حرام میں اجتماع عام ہوتاہے جس میں تمام
علماء و فقہاء حاضر ہوتے اور کعبہ شریف سے ایک جلوس مشعل بردار حضورﷺکے مقام ولادت
کی زیارت کوجاتاہے۔ (الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام ، ص ١٩٦)
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:
ہمارے نبی رسالت مآبﷺکے جشن ولادت کے اظہار کے لئے مجلس میلاد قائم کرنے میں
اختلاف ہے اگر بدعات محرمات سے خالی ہو تو جائز ہے جیسا کہ ابن جوزی، نووی، ابن
حجر ، سخاوی، سیوطی نے بیان کیا اور اس کی اصل انہوں نے پیر اور عاشورہ کے دن روزہ
رکھنے والی حدیثوں سے نقل فرمائی ہے۔ (ھدیۃ المھدی، ص ٨٩)
مولانا خلیل انبیٹھوی لکھتے ہیں:
نفس ذکر فخر عالم علیہ السلام کو کوئی منع نہیں کرتا بلکہ ذکر ولادت آپ کا مثل ذکر
و دیگر سیر و حالات کے مندوب (مستحب) ہے۔(براہین قاطعہ ،ص٤)
اکثر محدثین ، فقہاء سیرت نگار اور مؤرخین نبی کریمﷺکی ولادت پاک کی تاریخ ١٢ ربیع
الاول (ربیع النور) بروز پیر بیان فرمائی ہے۔ لیکن افسوس کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے یہ
پراپیگنڈہ کیاجارہاہے کہ بارہ ربیع الاول ''ولادت رسول'' کا دن نہیں بلکہ ٩ ربیع
الاول ہے۔ حالانکہ بارہ ربیع الاول پر سب کا اتفاق اورعمل ہے ۔
علاہ معین کاشفی ہروی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے:
کہ ربیع الاول کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عالم وجود میں آئے
اور اکثر کہتے ہیں کہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ تھی۔(معارج النبوۃ، ج٢، ص ٨٤)
امام ابن جوزی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
قال محمد بن اسحق ولد رسول اللہﷺیوم الاثنین عام الفیل الاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من
شھر ربیع الاول۔ (الوفا،ج١، ص٩٠)
شیخ الاسلام ابن حجر مکی لکھتے ہیں:
وکان
مولدہ لیلۃ الاثنین لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاول ۔یعنی
آپ کی ولادت بارہ ربیع الاول پیر کے روز ہوئی۔(النعمۃ الکبریٰ:ص٣٩)
محمد بن اسحاق المطبلی لکھتے ہیں:
حضور کی ولادت باسعادت پیر بارہ ربیع الاول کوہوئی تھی۔ (سیرت ابن ہشام ، ج١، ص
١٨٢)
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
بارہ ربیع الاول ولادت کا دن ہے۔ اس پر اہل مکہ کا عمل ہے۔ اسی تاریخ کو وہ مقام
ولادت کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ (ماثبت من السنۃ:ص٩٨)
علامہ نوربخش توکلی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
حضور اقدسﷺبارہ ربیع الاول دوشنبہ کے دن فجر کے وقت کہ ابھی بعض ستارے آسمان پر
نظر آرہے تھے، پیدا ہوئے۔ (سیرت رسول عربی، ص ١٤)
نواب صدیق حسن بھوپالی لکھتے ہیں:
ولادت شریف مکہ مکرمہ میں وقت طلوع فجر کے روز دوشنبہ دوازدھم ربیع الاول عام فیل
کوہوئی ۔ جمہور علماء کا قول یہی ہے ۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی نے اس پر اتفاق
کیا ہے۔ طیبی نے کہا روز دوشنبہ دوازدہم ربیع الاول کو پیدا ہوئے بالاتفاق۔ (الشمامۃ
العنبریۃ، ص٧)
مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
الغرض جس سال اصحاب الفیل کا حملہ ہوا اس ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ روز
دوشنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہے۔ آج پیدائش عالم کا مقصد لیل و نہار کے
انقلاب کی اصل غرض ، آدم اور اولاد آدم کا فخر ، کشتی نوح کی حفاظت کا راز ،
ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور موسیٰ و عیسی علیہ السلام کی پیش گوئیوں کا مصداق
یعنی ہمارے آقائے نامدار محمد رسول اللہﷺرونق افروز ہوئے۔ (سیرت خاتم الانبیاء ص٨)
سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب روایت کرتے ہیں:
امام ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت جابر بن
عبداللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آپ ١٢ ربیع الاول کو پیداہوئے تھے، اسی کی تصریح
محمد بن اسحاق نے کی ہے اورجمہور اہل علم میں سو یہی تاریخ مشہور ہے۔ (سیرت سرور
عالم ،ج٢،س ٩٣۔٩٤)
اہل علم کی تحقیق و کاوش کا فکری نتیجہ
ولادت نبوی ہمارے رسول مقبولﷺکی ولادت باسعادت موسم بہار میں دوشنبہ کے دن ١٢
ربیع الاول شریف عام الفیل ٥٧١ء کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ تاریخ انسانیت میں یہ دن
سب سے زیادہ بابرکت ، سعید اور درخشاں وتابندہ تھا۔ (دائرہ معارف اسلامیہ، ج١٩، ص
١٢)
دعوت فکر
دلائل آپ نے ملاحظہ فرمائے اور اکابری امت کے فرمودات آپ کے سامنے آگئے تو کیا دین
وانصاف رکھنے والا شخص حق پہچاننے میں کسی قسم کی الجھن محسوس کرے گا؟
محافل میلاد کیا ہیں:
ذکر مصطفی سننے اور سنانے کے بہانے، کون ایمان والا ہوگا جو اس جان ایمان کے
ذکر سے منہ موڑے گا۔ خدا کی قسم محبت تو خود بخود ذکر حبیب کے لئے مجبور ہوتی ہے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالیٰ شفاء شریف میں حدیث پاک بیان فرماتے ہیں
من احب شیأا اکثر ذکرہ
اپنے پیارے نبی کی ولادت کی خوشی منانا عشق
رسول کا اولین تقاضہ ہے اور ولادت پاک بارہ ربیع الاول بروز پیر کے ہونے میں اب
کسی مغالطے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اب جس کا جی چاہے بارہ ربیع الاول کو ابلیس
کے ساتھ رہ کر گزارے اور جس کا جی چاہے امت مصطفیٰ کے ساتھ مل کر محفل میلاد منعقد
کرے اوراظہار مسرت کرے۔
Post a Comment