پیر نصیر الدین شاہ ؒ رباعیات


صورت و سیرت

صورت میں اگرچہ ہو نگینوں کی طرح

پر فرق ہے سیرت میں زمینوں کی طرح

عالی نسبوں کے گھر سے بھی بعض اوقات

اولاد نکلتی ہے کمینوں کی طرح

اہمیتِ خواص اشیاء

انسان جوانی کے سوا کچھ بھی نہیں

امواج روانی کے سوا کچھ بھی نہیں

اشیاء میں ضروری ہیں خواص اشیاء

الفاظ معانی کے سوا کچھ بھی نہیں

وقت کے فیصلے

نادار کو سلطنت عطا کرتاہے

اور رنگ نشینوں کو گدا کرتاہے

کل تم نے کہا تھا وقت کیا کرلے گا

اب دیکھ لیا کہ وقت کیا کرتاہے

متکبر نمازی

بنتا ہے نمازی بھی جھگڑتابھی ہے

ہرروز غریبوں کورگڑتابھی ہے

یا چھوڑ میری نماز یا کبر اپنا

جھکتا بھی ہے کم بخت اکڑتابھی ہے

طارق عزیز کے نام

خم ہے سرانسان تو حرم میں کچھ ہے

لوگ اشک بہاتے ہیں تو غم کچھ ہے

ارے بے وجہ کسی پر نہیں مرتا کوئی

 ہم پہ کوئی مرتا ہے تو ہم میں کچھ ہے


عالم ہے تو پھر جہول کیوں بنتا ہے

فاضل ہے توپھر فضول کیوں بنتاہے

اپنے پی کوئی تازہ شریعت نہ اتار

امت ہے تو پھر رسول کیوں بنتا ہے

 

لہجے میں اگر رس ہو تو دوبول بہت ہیں

انسان کو رہتی ہے محبت کی زباں یاد


موجود فضیلت بھی کوئی ہے کہ نہیں

تعلیم سے نسبت بھی کوئی ہے کہ نہیں

پوشاک قیمتی پہن لی تو نے

اپنی تیری قیمت بھی کوئی ہے کہ نہیں

 

 

ضائع فرما نہ سرفروشی کو میری

مٹی میں ملا نہ گرم جوشی کو میری

آیا ہوں کفن پہن کر اے رب غفور

دھبہ نہ لگے سفید پوشی کو میرے

 

آنکھ سے آنکھ ملا کر میرا ایمان لیا

تو وہی شخص ہے میں نے تجھے پہچان لیا

 

خم ہے سرانسان تو حرم میں کچھ ہے

لوگ اشک بہاتے ہیں تو غم میں کچھ ہے 

غزل

کبھی ان کا نام لینا کبھی ان کی بات کرنا

مرا ذوق ان کی چاہت مرا شوق ان پہ مرنا

وہ کسی کی جھیل آنکھیں وہ مری جنوں مزاجی

کبھی ڈوبنا ابھر کر کبھی ڈوب کر ابھرنا

ترے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے

نہ کسی کی بات سننا، نہ کسی سے بات کرنا

شب غم نہ پوچھ کیسے ترے مبتلا پہ گزری

کبھی آہ بھر کے گرنا کبھی گر کے آہ بھرنا

وہ تری گلی کے تیور، وہ نظر نظر پہ پہرے

وہ مرا کسی بہانے تجھے دیکھتے گزرنا

کہاں میرے دل کی حسرت، کہاں میری نارسائی

کہاں تیرے گیسوؤں کا، ترے دوش پر بکھرنا

چلے لاکھ چال دنیا ہو زمانہ لاکھ دشمن

جو تری پناہ میں ہو اسے کیا کسی سے ڈرنا

وہ کریں گے نا خدائی تو لگے گی پار کشتی

ہے نصیرؔ ورنہ مشکل، ترا پار یوں اترنا 



ان کے انداز کرم ، ان پہ وہ آنا دل کا

ہائے وہ وقت ، وہ باتیں ، وہ زمانا دل کا

نہ سنا اس نے توجہ سے فسانا دل کا

زندگی گزری ، مگر درد نہ جانا دل کا

کچھ نئی بات نہیں حُسن پہ آنا دل کا

مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا

وہ محبت کی شروعات ، وہ بے تھاشہ خوشی

دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا

دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے

روگ دشمن کو بھی یارب ! نہ لگانا دل کا

ایک تو میرے مقدر کو بگاڑا اس نے

اور پھر اس پہ غضب ہنس کے بنانا دل کا

میرے پہلو میں نہیں ، آپ کی مٹھی میں نہیں

بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ،ٹھکانا دل کا

وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے

“ ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا “

خوب ہیں آپ بہت خوب ، مگر یاد رہے

زیب دیتا نہیں ایسوں کو ستانا دل کا

بے جھجک آ کے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں

آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا

نقش بر آب نہیں ، وہم نہیں ، خواب نہیں

آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا

حسرتیں خاک ہوئیں، مٹ گئے ارماں سارے

لٹ گیا کوچہء جاناں میں خزانا دل کا

لے چلا ہے مرے پہلو سے بصد شوق کوئی

اب تو ممکن نہیں لوٹ کے آنا دل کا

ان کی محفل میں نصیر ! ان کے تبسم کی قسم

دیکھتے رہ گئے ہم ، ہاتھ سے جانا دل کا،،،

شاعرِ ہفت زُباں پیر سیّد نصیر الدین نصؔیر گیلانی


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post