پیر نصیر الدین شاہ ؒ رباعیات سلسلہ دوم
اوقات
اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰى (37) ثُـمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّ ٰ ى (38) فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَـرَ وَالْاُنْثٰى (39) اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلٰٓى اَنْ يُّحْيِىَ الْمَوْتٰى (40)کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔(القیامۃ:37 تا 40)
اتنا نہ اکڑ نہ اتنے جذبات میں رہ
حد سے نہ گزر دائرہ ذات میں رہ
اک قطرہ ناپاک نسب ہے تیرا
اوقات یہی ہے تیری اوقات میں رہ
ذہنی افلاس
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ۔لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا (النساء:۵۴)
ذہنا ً مفلس ہے تو حسد کرتاہے
محسود کو پیش خود کو رد کرتاہے
جو کچھ وہ کسی کو دے یہ اس کی مرضی
ارے خالق پہ بھی اعتراض، حد کرتاہے
محفل
محفل میں بے خوف و بلا حراس آسکتاہے
آنا ہمیں اس کا راس آسکتاہے
سیدھا ہو جو قبلے کی طرح نیت کا
وہ شخص ہمارے پاس آسکتاہے
محفل
محفل میں میری ہر ایک آسکتاہے
کچھ دیر سخن کا لطف پاسکتاہے
جوبیٹھنا چاہے وہ سکون سے بیٹھے
جوجانا چاہے وہ جاسکتاہے
منزل کا نشان راہ نما سے پوچھو
فن کی باتیں فن آشنا سے پوچھو
قارون میں ہے کون شہر میں حاتم کون
فطرت کے یہ چونچلے گدا سے پوچھو
ارباب نظر
بے کار ہے محوسخانی ہونا
مغرور وضع میں ہمہ دانی ہونا
ارباب نظر کی چپ کو چپ مت سمجھو
یہ چپ ہی تو ہے عین معانی ہونا
چشم خریدار
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
افسوس کہ ہم دیرسے بازار میں آئے
دین سے
دور، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں
دین سے
دور، نہ مذہب سے الگ بیٹھا ہوں
تیری دہلیز
پہ ہوں، سب سے الگ بیٹھا ہوں
ڈھنگ کی
بات کہے کوئی، تو بولوں میں بھی
مطلبی ہوں،
کسی مطلب سے الگ بیٹھا ہوں
بزم احباب
میں حاصل نہ ہوا چین مجھے
مطمئن دل
ہے بہت، جب سے الگ بیٹھا ہوں
غیر سے
دور، مگر اس کی نگاہوں کے قریں
محفل یار
میں اس ڈھب سے الگ بیٹھا ہوں
یہی مسلک
ہے مرا، اور یہی میرا مقام
آج تک خواہش
منصب سے الگ بیٹھا ہوں
عمر کرتا
ہوں بسر گوشۂ تنہائی میں
جب سے وہ
روٹھ گئے، تب سے الگ بیٹھا ہوں
میرا انداز
نصیرؔ اہل جہاں سے ہے جدا
سب میں
شامل ہوں، مگر سب سے الگ بیٹھا ہوں
دِیں ہمہ اُوست، مجموعہ حمد و نعت از سید نصیر الدین نصیرسے لئے گئے چند نعتیہ اشعار
مجھ پہ بھی چشمِ کرم
اے مِرے آقا! کرنا
حق تو میرا بھی ہے
رحمت کا تقاضہ کرنا
میں کہ ذرہ ہُوں مجھے
وسعتِ صحرا دےدے
کہ ترے بس میں ہے قطرے
کو بھی دریا کرنا
میں ہوں بےکس ، تیرا
شیوہ ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار ، تیرا
کام ہے اچھا کرنا
تو کسی کو بھی اٹھاتا
نہیں اپنے در سے
کہ تری شان کے شایاں
نہیں ایسا کرنا
تیرے صدقے ، وہ اُسی
رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے ،جس رنگ میں
چاہا مجھے رُسوا کرنا
یہ ترا کام ہے اے آمنہ
کے درِ یتیم!
ساری امت کی شفاعت،
تنِ تنہا کرنا
آل و اصحاب کی سنت
، مرا معیارِ وفا
تری چاہت کے عوض ،
جان کا سودا کرنا
مجھ پہ محشر میں نصیر
اُن کی نظر پڑ ہی گئی
کہنے والے اسے کہتے
ہیں "خدا کا کرنا"
Post a Comment