نیک اور صالح اعمال سے کیا مراد ہے  اور ان کی کیا اہمیت ہے

قرآن کریم میں جگہ جگہ نیک اعمال کرنے کا حکم اور ترغیب دی گئی ہے:

عمل صالح(نیک عمل)سے مراد ہر وہ عمل ہے  شعوری کیفیت میں اطاعت الہیہ اور تزکیۂ اخلاق کے نتیجے میں پیدا ہو ۔ انسان کے وہ اعمال جو اللہ رب العزت کی رضا و منشا کے تحت ہوں، وہی اعمال صالحہ ہیں۔نیز یہ  اعمال ستائش کی توقع اورتنقید کے  خوف سے بھی مبرا ہوں۔عمل صالح کا لفظ ہی بتاتا ہے کہ اس سے مراد درست عمل ہے۔ درست عمل صرف وہی ہو سکتا ہے، جو اللہ رب العزت کے نظام اور اس کی حکمت کے مطابق ہو۔

اہمیت

نیک اعمال انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو طیب بنانے کے لئے بنیادی اکائی  کے حامل ہیں۔ انسان کے لئے اخلاقی نظام اور صالح رویہ ہے، جو ہم دوسروں سے اپنے لیے چاہتے اور دوسرے ہم سے اپنے لیے چاہتے ہیں۔اور سب سے بڑھ کریہ اعمال اللہ تعالیٰ کی خاطر کر یں یہی صالح رویہ ماحول اور معاشرے کے حوالے سے ہمارا نیک عمل ہے۔  اور ہمارے لئے پاکیزہ زندگی کی ضمانت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَيٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُون[ النحل:۹۷]

جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقینا ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقینا ہم انہیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے

نیز یہ انسان کے ایمان کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے۔کیونکہ اعمال سیئیہ شیطان کو ایمان کی چوری موقع مہیا کرتے ہیں۔ چوری اس وقت ہوتی ہے جب صاحب مال غافل ہو۔ صاحب مال کو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ مال چوری ہو گیا۔ یہی کام جھوٹ اور دیگر برائیاں بھی کرتی ہیں کہ انسان کو غافل بنادیتی ہیں۔ جب کہ نیک اعمال انسان کو ہمہ وقت چوکنا رکھتے ہیں وہ شخص رب کی رحمت سے ایمان کی دولت سلامت رکھنے میں کامیاب رہتاہے۔

قرآن کریم کی روشنی میں نیک اعمال کے قبول ہونے کی شرائط کیا ہیں؟

ایمان : عمل کی قبولیت کی سب سے پہلی شرط ایمان ہے۔ ایمان کے بغیر کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں۔

اِخلاصِ نیت: عمل صالح اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کی نیت سے ہو۔ اس میں ریا، تکبر وغیرہ نفسانی اغراض شامل نہ ہوں۔

سنت کے موافق ہونا: اس کا سنت اور شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ خلافِ سنت اور خلافِ شریعت عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں۔

اعمال کے قبولیت کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم نیں کی جاسکتی ۔ لیکن کچھ علامات ہیں جن سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اس کے اعمال قبول ہوئے یا نہیں۔

تقویٰ۔گناہوں سے بچنا،نیکی کی طرف میلان ہونا وغیرہ

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے متعلق فرمایا  إن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر

بے شک نماز فحش اور منکرات سے روکتی ہے۔ اب ایک شخص اگر منکرات سے باز آتاہے تو(انشاء اللہ) اللہ رب العزت کے ہاں اس کی نماز بھی مقبول ہوگی ۔وغیرہ

انسان کی اپنی طبیعت اور شخصیت پر نیکی کے اثرات

جس طرح اعمال کے ظاہری و مادی اثرات ہوتے ہیں جنہیں ہم نفع و نقصان کی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں بعینہ اس کے روحانی اثرات بھی ہوتے ہیں جنہیں فوری طوری پر اس دنیاوی زندگی میں شاید نہ پرکھا جاسکے بہرحال وہ اپنی تاثیر کے لحاظ سے انسان پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ایمان و عمل صالح انسانی شخصیت کی تعمیرنو کا عمل ہے۔ یہ اس کے پرانے ڈھانچے کوزمیں بوس کرکے  نئے سرے سے تعمیر کرنے کا وہ کام ہے جسے قرآن تزکیہ نفس کہتا ہے۔

ہر انسان کو علم و عقل کی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے۔ بعض افعال اور اوصاف کو برا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان میں مبتلا ہو، اور بعض افعال و اوصاف کو اچھا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان سے اجتناب کر رہا ہو۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت میں ودیعت کیا جانے والا یہ فطری شعور کسی خارجی رہنمائی کے بغیر بھی ازخود اپنے اظہار کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔جب انسان اچھاکام کرتا ہے تو اس کے اندر سے اس کے لیے مسرت اور سرور کی شعاعیں نکلتی ہیں اور جب وہ برا کام کرتا ہے تو ان سے نفرت اور بغض کی شعاعیں نکلتی ہیں۔

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post