ڈاکٹرفضل
الرحمٰن الانصاری رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت
متعلم ومعلم
حصول
تعلیم:
رضینا
بالقسمۃ جبار فینا
لنا علم و للجھال مال
"ہم اللہ رب العزت کی اس تقسیم پر
راضی ہیں کہ اس نے ہمارے لئے علم اورجاہلوں کے لئے سیم وزرمتعین ومقدر کیا۔"اس
شعرکے مصداق آپ علیہ الرحمہ کی پوری زندگی
علم کی ترویج واشاعت میں گزری۔آپ علیہ الرحمہ نے کبھی بھی مال ودولت طلب نہیں کیا
اورہمیشہ آپ کی نظریں کمال علم وعمل پر رہیں۔ جیسا کہ عربی محاورہ ہے۔ الجاہل
یطلب المال والعاقل یطلب الکمال۔جاہل مال طلب کرتاہے اور عقلمند کمال (کسب
وہنر) طلب کرتاہے۔آپ کے اس کمال ِکسب وہنر کے چندخواص کاذکر کیاجارہے جن پر عمل
پیراہونا آج کے طالب علم کے لیے نہایت ضروری ہے۔
باادب بانصیب بے ادب بے نصیب
آپ علیہ الرحمہ علم،معلم اورعلم
سے وابستہ اشیاء (کتب،کاغذ،قلم ،دوات،مدرسہ، وغیرہ) کی انتہائی عزت کرتے۔آپ اپنے اکابر، اساتذہ اوربالخصوص مرشد کا بہت ہی
زیادہ احترام فرمایاکرتے تھے۔ یوں توآپ ویسے ہی منکسر المزاج اورنرم خو طبیعت کے
مالک تھے ہی لیکن بالخصوص جب آپ اپنے اساتذہ یا حضرت صاحب (شاہ عبدالعلیم صدیقی ؒ)کی
خدمت میں حاضر ہوتے تو یہ انکساری کمال کی بلندیوں پرنظرآتی ۔
اسی طرح
جب آپ علیہ الرحمہ حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی ؒ کا تذکرہ فرماتے تو الفاظ سے بھی ایک خاص قسم کی
چاشنی اورمٹھاس سی محسوس ہوتی [1] جس سے
قاری بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رسکے۔ کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب۔آپ اس
حقیقت کو سمجھتے تھے کہ اس راہ میں صرف زانوئے تلمذ طے کرنے ،سرجھکانے اوربرہنہ پاء حاضر ہونے سے کامیابی میسرآئے گی۔
رہ ِ طلب میں ادب ہی سے سرفرازی ہے
مزا
کلیم سے پوچھ برہنہ پائی کا (امیر)
"ادب تعلیم کا
جوہرہے زیور ہے جوانی کا [2]" آپؒ اس مصرعہ کے مصداق جوہرتعلیم یعنی ادب کی نعمت سے سرفراز ہونے کے
ساتھ ساتھ ایک اچھے طالب علم کی جمیع صفات وخوبیوں سے متصف نظرآتے ہیں ۔آپ علیہ
الرحمہ تحصیل علم میں ہمہ وقت بیتاب ،مستعد بلکہ اس فارمولہ پر عامل نظرآتے تھے
کہ علم جہاں سے ملے ،جس سے ملے،جیسے ملے،
جب ملے اورجوملے اسے حاصل کیاجائے۔ اس عظیم مقصد کی خاطر آپ کہیں بھی سفر کرنے
،کسی سے دریافت کرنے پر ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے۔ اس موقف کی تائید علامہ اقبال
علیہ الرحمہ کے جوابی خط سے ہوتی ہے جو 16جولائی
1937 کوڈاکٹر فضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ کے نام ارسال کیاگیاتھا ۔ جس میں
علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے آپ(ڈاکٹرانصاری) میں چھپی ہوئی لیاقتوں ،صلاحیتوں ، قابلیتوں
اورآپ کے بلند مقاصد کو مدنظررکھتے ہوئے آپ کی رہنمائی فرمائی۔ذیل میں مکمل خط کامتن
پیش کیاجارہاہے۔
ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال علیہ رحمۃ
المتعال کا حافظ محمد فضل الرحمن
الانصاری علیہ رحمۃ الباری کے نام ایک خط[3]
"جناب
من!
السلام
علیکم ورحمۃ اللہ!
جہاں
تک اسلامی ریسرچ کا تعلق ہے فرانس، جرمنی،انگلستان اوراٹلی کی یونیورسٹیوں کے
اساتذہ کے مقاصد خاص ہیں جن کو عالمانہ تحقیق اوراِحقاق حق کے ظاہری طلسم میں
چھپایاجاتا ہے۔ سادہ لوح مسلمان طالب علم اس طلسم میں گرفتار ہوکرگمراہ ہوجاتا ہے۔
ان حالات میں ، آپ کے بلند مقاصد پر نظررکھتے ہوئے میں بلاتامل کہہ سکتاہوں کہ آپ
کے لئےیورپ جانا بے سود ہے۔
میرکیا
سادہ ہیں،بیمارہوئے جس کے سبب
اسی
عطار
کے لڑکے سے دوا لیتے
ہیں
مصرجائیے
،عربی زبان میں مہارت پیداکیجئے۔ اسلامی علوم،اسلام کی دینی اورسیاسی تاریخ ،تصوف
،فقہ،تفسیرکابغور مطالعہ کرکے محمد عربی ﷺ کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔ پھراگرذہن خداداد ہے
اوردل میں خدمتِ اسلام کی تڑپ ہے ، تو آپ اس تحریک کی بنیاد رکھ سکیں گے جو اس وقت
آپ کے ذہن میں ہے۔ ہاں،یورپ کا فلسفہ پڑھنے کے لئے آپ یورپ کا سفرکرسکتے ہیں۔
اگرچہ مسلمانوں کوموجودہ حالات میں فلسفہ اورلٹریچر کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس صورت
میں بھی Thesis کے ذریعہ ڈگری حاصل کرنا فضول ہے۔ یورپ کے فلسفہ کی مختلف شاخوں
کا مطالعہ کرکے ڈگری حاصل کرنا چاہیے۔میں علیل ہوں اورخط وکتابت کرنے سے
قاصرہوں۔یہ خط بھی ایک دوست کے ہاتھ سے لکھوایاہے۔
والسلام :محمداقبال[4]"
آپ
کثرت طلب علم ہی کی خاطر قلت طعام،منام اورقلت کلام یعنی کم خوراکی ،کم خوابی اورکم کلامی پر عمل پیراتھے۔ مختصراًآپ علیہ الرحمہ صدق
دل سے رب کی رضا کی خاطر علم کے طالب تھے
۔اورایسے طالب علم کے لیے فرشتے اپنے پر
بچھادیتے ہیں ۔ بحر و بر کی تمام مخلوقات اس کے لیے دعاگو ہوتی ہیں۔ آپ علیہ
الرحمہ پر یہ حدیث مبارکہ صادق آتی
ہے۔
''ان الملائکۃ تضع
الاجنحۃ لطالب العلم رضی بمایطلب''[5]
"بےشک
طالب علم کے لئے اس کے طلب علم پر ملائکہ
اپنے پروں کو خوش ہوتے ہوئے بچھادیتے ہیں "۔
آپ کی ابتدائی تعلیم اس بات کی غماز ہے کہ
آپ انتہائی ذہین ، قوی الحافظہ اور بہت جلد یاد کرنے والے تھے۔ آپ نے صرف چھ سال
کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا،جس عمر میں عام بچے ناظرہ بھی نہیں پڑھ پاتے بلکہ
کھیلنا سیکھ رہے ہوتے ہیں ۔اس کے بعد آپ نے درس نظامی سے فراغت حاصل کرنے کے ساتھ
ساتھ بی اے اور ایم اے (فلسفہ) فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن سے کیا ۔ایسا محسوس ہوتاتھا
کہ شاید آپ بنے ہی علم و فلسفہ کے لئے
ہیں۔آپ کا اوڑھنا بچھونا تعلیم وتعلم ہی تھا۔ اس لئے آپ نے اسی تعلیم پر اکتفا نہ کیا بلکہ آپ نے اس وقت پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جب
کہ پی ایچ ڈی خال خال ملتے تھے۔
آپ علیہ الرحمہ کے غیرمعمولی تعلیمی کیرئیر کی شہادت جناب صدر الوفاق مصطفیٰ
فاضل انصاری صاحب بھی دیتے ہیں ۔آپ اپنے ایک مضمون میں اس تعلیمی کیفیت کو کچھ اس انداز سے رقم کرتے
ہیں:
"مجھے یاد ہے میری دادی مرحومہ مجھے بتایا کرتی تھیں کہ کم عمری میں
انصاری (والد صاحب) اپنا صبح کا سبق دہرایا نہ کرتے تھے۔اورجب سنانے کا کہا جاتا
تو وہ پورا سبق بآسانی بغیر کسی غلطی کے سنادیاکرتے تھے۔آپ ؒحقیقتاً ایک غیر
معمولی بچے تھے جیسا کہ آپ(ڈاکٹرانصاریؒ) کی والدہ حسن آراء بیگمؒ بیان فرماتی ہیں۔ آپ کی تحمل مزاج،نرم خوء،پراعتماد اورخوش باش شخصیت
نے خاندان کے تمام افراد کے دل موہ لیے۔ آپ کی تعلیمی
کامیابیاں آپ کے تمام تعلیمی کیرئیر پر محیط ہیں۔ جس میں آپ کو کئی گولڈ میڈلز سے
نوازا گیا۔ آپ ؒ کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بہترین گریجویٹ کا خطاب دیاگیا۔ آپ شعبہ علوم اسلامیہ کے چمکتے ہوئے ستارے تھے۔یہاں آپ علیہ الرحمہ نے
اپنی بے مثال کارکردگی سے اعدادوشمار کے
نئے ریکارڈ قائم کئے جو آج تک ناقابل تسخیر ہیں۔ آپ نے تھیولیوجی کے علاوہ شعبہ
عمرانیات اورفلسفہ میں بھی آسمان کی بلندیوں
کوچھولیا۔"[6]
ایک تمثیل:کیمرہ [7] اور کمپیوٹر
آپ علیہ الرحمہ نے اس قدرمتنوع پیچیدہ،ادق
اور مختلف جہات مضامین میں اس قدر نمایاں، شاندار و امتیازی کامیابیاں حاصل کیں کہ
عقل دنگ رہ جائے ،اور اسی عالمِ تحیر میں مستغرق انسان سوچتا ہے کہ ایک ہی شخص
مختلف علوم وفنون میں بیک وقت اس درجہ کمال
حاصل کرلے کہ بظاہرایک خواب یا افسانہ معلوم ہو،یاالٰہی آخر یہ ماجراکیاہے!اس کرشماتی طاقت و قوت سے
پردہ کیسے اٹھایاجائے!
خواب
تھا جوکچھ کہ دیکھا جوسنا افسانہ تھا
لیکن جدید سائنسی
آلات (کیمرہ اور کمپیوٹر[8] )کی ایجاد نے اس راز سے پردہ اٹھادیا کہ اگر یہ انسان کی ایجاد
کردہ مصنوعی ذہانت والی مشینیں اتنی سرعت،
صحت ، حسن اوردوام کے ساتھ بظاہر معجز نما(انسانی بساط سے باہر) کام سرانجام دے
سکتی ہیں توانسان کیوں نہیں۔یقیناً وہ بھی جہدِ مسلسل ، عمل پیہم ،مشقِ متواتر
وتمرینِ استمراری سے ایسا کرسکتا ہے۔ آپ نے واقعی ایسا کردکھایا۔ کیونکہ آپ علیہ الرحمہ کی آنکھیں مانند
کیمرہ، آپ کی سماعت مثلِ ریکارڈر جو آواز سنی فوراً ذہن نشین کرلی، آپ کا حافظہ
مثلِ کمپیوٹرتھاکہ جو چیز یا منظر دیکھا ہمیشہ کے لئے ذہن میں محفوظ کرلیا[9]، اور جب چاہا اسے لوگوں کو سنادیا یا دکھا دیا اس کا نقشہ
کھینچ دیا یا بڑی سے بڑی تصویر کشی اپنے الفاظ سے کرڈالی۔
شعور اور اس کی حالتیں :
انسانی شعورکے متعلق اگر غوروفکر کیا جائے
تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ درحقیقت
انسانی روح کا خاصہ ہے۔اسی لئے اس کوسمجھنا سمجھانا آسان نہیں۔شاید اسی لئے
نفسیات دانوں نے نفسیات کی تعریف سے شعورکو خارج کردیا۔جب کہ پہلے نفسیات شعور کا
ہی علم کہلاتاتھا:Psychology
is a science of consciousness.
بہرحال شعور کی بہتر تفہیم کے لئے اسے
تین حالتوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے: اولاً :شعور (Consciousness)، ثانیاً: تحت
الشعور (Sub-Consciousness)اور ثالثاً: لاشعور (Un-Consciousness)۔
شعور:
یہ تصورات معانی اورمدرکہ میں تصفیہ
کرتاہے۔دماغی اور جسمانی اعضاء میں خبررسانی کے بکثرت ٹیلی فون ہیں جو 28 میٹر فی
سیکنڈز کی رفتار سے دماغی اعضاء کو خبریں پہنچاتے رہتے ہیں۔گویا ہمارا جسم ایک
طلسمی صندوق ہے جو عجائبات قدرت کا کرشمہ ہے۔ اس میں پانچ قوتیں اوربھی ہیں جن کو
حواس خمسہ کہتے ہیں۔ [10]
بالفاظ دیگرشعوری حالت سےمرادیہ ہےکہ انسان بالکل چوکس(Alert)اورمتوجہ
(Attentive) ہو۔اپنی ذات(حالت،ہیئت،کیفیت،صلاحیت،لیاقت)
اوراپنے گردوپیش (ادنیٰ دائرہ یعنی اپنے
اردگرد سے لے کرانتہاء درجہ کائنات کے
اسراررموز) سے باخبر ہو۔ انگریزی زبان میں اسے Consciousness کہتے ہیں۔اور نفسیات کی اصطلاح میں شعوردراصل عقل کی ایک ایسی کیفیت ہے
جس میں قوت متخیلہ، قوت مفکرہ اور قوت حافظہ باہم مربوط ہوں اور یہ قوتیں اپنے
جواسیس (جاسوس یعنی حواس خمسہ) اور ترجمان (زبان) کی مدد سے اپنے امورسرانجام دیں
اور انسان کو باخبر رکھیں ۔جیسا کہ امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
والقوۃ المخیلۃ فی مقدم الدماغ کالخازن،والقوۃ المفکرۃ فی
وسط الدماغ،والقوۃ الحافظۃ فی آخرالدماغ،واللسان کالترجمان،والحواس الخمس جواسیس۔ [11]
"قوت متخیلہ دماغ کے ابتدائی حصہ میں
ہے خزانچی کی مانند،قوت مفکرہ دماغ کے وسط
میں ہے، قوت حافظہ دماغ کے آخری حصے میں ہے،زبان کی حیثیت ترجمان کی ہے اورحواس
خمسہ جاسوسی پر مامور ہیں۔"
شعور كے
مقابلے میں عموماً لاشعورکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔لغت میں حالتِ لاشعور سے مراد مکمل بے ہوشی (Fainting Fit) ہے۔لیکن نفسیات میں اس سے
مراد دماغ میں موجود ایسی یاداشتیں (Memories)
جو
عموما انسان کی ناتمام خواہشات کی حیثیت میں اس کے ذہن کے نہاں گوشوںمیں غیرفعال ہوں
اوریہ عملی زندگی میں کسی تحریک کے بغیر سامنے نہیں آتیں۔ زندگی کے ابتدائی ایام
سے موت تک بے شمار باتیں انسانی یاداشت میں
موجود رہتی ہیں۔
شعور اورلاشعور کی درمیانی حالت تحت الشعور ( Subconscious Mind) انسانی ذہن کا دوسرا حصہ ہے۔لغت میں تحت الشعور یعنی غنودگی (Drowsiness)کی حالت بیداری میں رہتے ہوئے گہرے خیالات میں کھوجانا
یا پھر بالکل دم سادھ لینا(حبسِ دم)۔علم النفس کی رو سے تحت الشعور حیات مستعار کے تمام حالات،کیفیات،مشاہدات،مسموعات
اور واقعات جوانسانی زندگی پر کسی بھی درجہ اثرانداز ہوں یہ انہیں محفوظ کرلیتاہے۔
اوران کے تاثراتی حصے کانٹ چھانٹ کر انہیں لاشعور کے سپرد کر دیتا ہے۔ یعنی کہ
انسان جو کچھ سنتا، دیکھتااوربولتا ہے وہ ہمیشہ اس کے ذہن (لاشعور) میں موجود
رہتاہے۔جس کی تصدیق نفسیات دان بھی کرتے ہیں ۔
جیسا
کہ مذکورہ بالاسطورمیں بیان کیاجاچکاہے کہ لاشعور ایک وسیع وعریض سمندر ہے۔ انسان زندگی
بھر جو آواز سنتا ، تصویر یا کوئی چیز دیکھتا، الفاظ و جملے سنتا یا پڑھتا ،چیزیں
چکھتا،یاکسی چیز کو محسوس کرتا یا چھُوتاہے
وہ اس کے لاشعور کے بحر ذخار میں جمع ہوجاتے ہیں ۔ لیکن انسان کا اپنے لاشعور پر
کوئی تصرف و نظم اور کنٹرول نہیں ہوتا۔ جس طرح ایک خوابیدہ شخص اپنے اردگرد کے
ماحول سے بے خبر اور اس میں مطابقت وموافقت پیداکرنے سے قاصر ہوتاہے۔وہ کتنا ہی ذی
عقل وشعور اوربڑا عالم ہی کیوں نہ ہو اپنے
علم سے حالت نیند میں وہ کوئی فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔اسی طرح یہ تمام
چیزیں (جو اس کے لاشعور میں ہیں) اس کے لیے معاون و مددگار نہیں ہوتیں۔ اچانک کوئی
خیال آجائے تو پچاس ساٹھ سال قبل کی بات بھی ذہن میں آجائے اور نہ آئے توچندگھنٹے پیشتر کی بات بھی وہ یاد
نہ کرسکے ۔
لیکن
اگر کوئی شخص اپنے لاشعور پر مکمل کنٹرول (قابو) اور دسترس پالے تو وہ بحرذخار اور
علم کے سمندر میں موجود تمام قیمتی موتی و جواہرات سے فائدہ اٹھاسکتاہے۔انسان جس
طرح اپنےسامنے موجود اشیاء و افراد کے بارے میں اپنی معلومات کو بروئے کار لاتا ہے
اسی طرح اس کے سامنے حاضر و غائب کا تصور یکساں ہوجاتا ہے ۔ جس طرح وہ اپنی کتابوں
کی الماری کے بارے میں جانتا ہے کہ یہ کس ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں اور اس میں کون
کون سی کتابیں موجود ہیں اور کون سی کتاب کس شیلف میں رکھی ہے بالکل اسی طرح اس کے
لاشعور کی تمام معلومات بھی اس کے شعور کا حصہ بن جاتی ہیں اور انہیں استعمال
کرسکتا ہے۔اس شعور(آگہی) اور لاشعور کی بحث کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔بقول شاعر
بھید کھلتے رہے
الجھتے رہے ایک الجھن ہے آگہی کیا ہے
بعض لوگ اسرار رموز کی ان پیچیدہ اورلاینحل گرہوں میں اس طرح الجھتے ہیں کہ ان پر بھید کھلنے کے بعد بھی الجھنیں حل نہیں ہوتی
بلکہ ایک الجھن سے نکلتے ہی دوسری الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کیوں کہ انہیں اطمینانِ قلب
اورکامل ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوتی جس کی وجہ سے یہ آگہی ان کی دیوانگی میں بدل
جاتی ہے۔بقول شاعر
لوگ دیوانے ہوہی
جاتے ہیں سوچ کر آگہی کے بارے میں
لیکن اگر کوئی شخص کامل ایمان اورراسخ یقین کے ساتھ راہ حق پر سفر کرتا رہے اوراس کا لاشعور اور تحت
الشعور بھی اس کے شعور کے دائرہ کار میں آجائیں اوروہ شعور کی انتہائی بلند ترین سطح
پر پہنچ جاتاہے ۔
وجدان:
یہاں وجدان کے موضوع کو بھی زیربحث
لاناغیر متعلق نہ ہوگا۔ شعور کی وہ حالت جہاں
حقائق ماوراء حس ومشاہدہ بلا ارادہ منکشف ہوں اسے وجدان کہتے ہیں۔اس پرسائنسدان
بھی یقین رکھتے ہیں۔جیسا کہ مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) وجدان سے
معلوم حقائق کو بغیر تجربات کے بھی صحیح تسلیم کرتاہے کیونکہ تجربات جب وجدان سے
معلوم حقائق کو ثابت کررہے ہیں تولامحالہ
وہ وجدان ہی تھا جو ان حقائق تک پہنچنے کا ذریعہ بنا:
“Scientific intuition can be
so accurate that a theory is convincing even before the relevant experiments
are performed.” [12]
"صرف سائنسی وجدان سے حاصل کیاگیا نظریہ
بھی بغیر متعلقہ تجربات سے گزرے بلاشک وشبہ صحیح ہوسکتاہے۔"
اب اس
وجدان کو سائنسی وجدان سے موسوم کیاجائے یا پھر روحانی وجدان سے بہرکیف وجدان ضرور
ہے۔ نیز سائنسی وجدان کسی کا واضح اوریقینی ہوتا ہے لیکن کسی کے ذہن میں ایک ہلکا
سا خاکہ یا تصور(Imagination) ہو جو غیر واضح ہو
اورممکن ہے کہ وہ مبہم تصور( وجدان) تجربات سے صحیح ثابت بھی نہ ہوسکےکیونکہ
یہ صاحب وجدان پر منحصر ہے کہ اس کا آئینہ دل کس قدر صاف ہے۔جس قدر یہ آئینہ صاف
ہوگا اس قدرسہولت،صحت اوراختیار سے انسان اس امرکوانجام دے لے گا۔بقول لالہ موجی
رام موجی
دل کے
آئینے میں ہے تصویر یار جب
ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
پھرعوام
الناس کی حد تک تو یہ کہنا صحیح ہے کہ ان کاوجدان بلاارادہ ،غیرواضح اورمبہم
ہوتاہے ۔ لیکن کچھ ہستیوں کے بارے میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہاں وجدان بھی انتہائی
بلند ترین سطح کا حامل ہوتاہے اوربالکل بھی غیرارادی، غیر شعوری ،غیرواضح
یا مبہم نہیں
ہوتا۔
جس طرح انسان کو ظاہری حواس خمسہ عطاہوئے ہیں اسی طرح انہیں
اندرونی حواس بھی عطا ہوتے ہیں جو پراسرار اوربلندترین سطح پر کام کرتے ہیں۔ یہ
بھی پانچ حواس ہیں۔ان حواس خمسہ کی پانچ جہات ہیں۔ اس طرح باطنی حواس سے وہ شعور
کی اس بلندترین سطح پر فائز ہوتے ہیں۔ توشعور کی بلند ترین سطح پر فائز فرد نہ صرف
تقویٰ کی بھی بلند ترین سطح پر فائز ہوجاتاہے بلکہ اب وہ معرفت الٰہی،ذات اورکائنات کی بھی بلندیوں
کوچھورہاہوتاہے۔ اب اس کے سامنے کارخانۂ قدرت کے عجائب،پوشیدہ راز ،مخفی اسراراورمستتراحوال
مکمل طور پر عیاں وبیاں ہوجاتے ہیں ۔
ان
عظیم مینارہ نور ہسیتوں میں شاہ عبدالقادر
جیلانی،خواجہ معین الدین چشتی(علیہم الرحمہ) وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ وہ افراد
تھے جواندرونی حواس کی بلندترین سطح پر
فائز تھے ۔
[13]
اس بحث
کی روشنی میں جب ہم ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کا جائزہ
لیتے ہیں تو آپ علیہ الرحمہ کی زندگی اس تصورکی بعینہ تصدیق ،خاکہ کی کامل تصویر اوران اقوال کا عملی نمونہ نظر آتی ہے۔
مطمئن اپنے یقیں پہ اگر انسان
ہو جائے
سِر حجابوں میں جو
پنہاں ہے نمایاں
ہوجائے
جس طرح مذکورہ بالا سطورمیں کیمرے کی مثال دی جاچکی ہے کہ کیمرے کی آنکھ
سیکنڈز میں بڑی بڑی تصاویر اورمناظر کی معمولی سے معمولی جزئیات کے ساتھ عکس بندی کرلیتی
ہے۔ اسی طرح ایسے شخص کی آنکھ بھی معمولی سے معمولی اشیاء سے لے کر بڑی سے بڑی
تحریر کو سیکنڈ یا ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی اپنے ذہن(لاشعور) میں ہمیشہ کے
لیے محفوظ اور نقش کرلیتی ہے۔ اگرچہ تفصیل
بیان کرتے وقت وہ اس کو سیکنڈ میں بیان نہیں کرسکتا اوران جزئیات کی تفصیل بیان
کرنے کے لیے اسے کچھ وقت درکار ہوگا ۔جس طرح تصویر کے سامنے ہوتے ہوئے بھی اگر ہم
اس کی تفصیلی وضاحت کریں تو یہ وقت طلب کام ہے۔ جس انسان کو اپنے شعور پر مکمل
دسترس اور کنٹرول ہوتو ایسے شخص کا لاشعور بھی اس ترتیب و تنظیم کے ساتھ ہوتاہے کہ
وہ اپنی تمام معلومات اورخزانہ علم کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال
کرتاہے۔جیسا کہ اولیاء اللہ کی زندگیوں میں ہمیں نظرآتا ہے۔ مبلغ اسلام ڈاکٹرحافظ
محمد فضل الرحمن الانصاری القادری علیہ
الرحمہ بھی ان ہی اولیائے کرام میں
سے ہیں جن کے سامنے یہ دنیا مثل کف ید ہے۔یعنی وہ اپنی ہتھیلی پر موجود اشیاء کی
طرح ان اسرار واحوال کا ادراک رکھتے ہیں۔
قرآن مجید کا قلب ودماغ کے ذریعے شعور میں داخل ہونا:
شعور کی اس انتہائی ترقی،اخلاص،للہیت کی وجہ سے انسان اس
درجہ پرفائز ہوجاتاہے کہ خودقرآن مجیداس کے قلب پراترتامحسوس ہوتاہے۔جس کی وضاحت علامہ
اقبال علیہ الرحمہ کے الفاظ میں:
"قرآن مجید قلب
کے راستے سے بھی شعور میں داخل ہوتاہے اوردماغ کی راہ سے بھی سمجھ میں آتاہے دماغ
کی راہ سے سمجھ آنے کا مطلب یہ ہے کہ حقائق کا ادراک علم اورفکر تجربے اورمشاہدے
کی روشنی میں ہو۔"
جب علامہ اقبال علیہ الرحمہ سے قلب کے راستے "قرآ ن مجید" کے "شعور"
میں داخل ہونے کے متعلق استفسار کیا گیا
توآپ علیہ الرحمہ نےاپنے والد
محترم کے حوالے سے بیان کرکے اس رمزسے کچھ یوں پردہ اٹھایا:
"بیٹا قرآن مجید وہی شخص سمجھ سکتاہے جس پر اس کا نزول ہو ۔مجھے تعجب ہوا
کہ حضور رسالت مآب ﷺ کے بعد قرآن پاک کیسے کسی پرنازل ہوسکتاہے۔معلوم ہوتاہے
کہ وہ میرے دل کی بات سمجھ گئے کہنے لگے:
تمہیں کیسے یہ خیال گزرا کہ اب قرآن مجید
کسی پر نازل نہیں ہوگا کیوں نہ تم اس کی تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ تم پر نازل
ہورہا ہے ایسا کروگے تو یہ تمہاری رگ و پے میں سرایت کرجائے گا۔۔۔۔۔شعور انسانی کی
تکمیل کے ساتھ ساتھ بالاخر جب وہ مرحلہ بھی آگیا کہ زندگی اپنے مقصود کو پالے تو
ذات محمدیہ بھی اپنی پوری شان سے جلوہ گر ہوگئی۔ حضوررسالت مآب ﷺ تشریف لائے ۔باب
نبوت بند ہوا انسانیت اپنے معراج کمال کو پہنچی اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
اسوہ حسنہ وکاملہ ہی ہراعتبار سے ہمارے لئے حجت و مثال اورنمونہ ٹھہرا، اب جتنا
بھی کوئی اس رنگ میں رنگتا چلاجائے گا اتنا ہی قرآن مجید اس پر نازل ہوتا رہے گا
یہ مطلب تھا میرے یہ کہنے کا قرآن مجید اسی کی سمجھ میں آسکتا ہے جس پر اس کا نزول
ہو"
[14]
جوہر ایمان کی قدرشناسی
آپ
علیہ الرحمہ دولتِ ایمانی کی قدروقیمت سے بخوبی آشنا تھے۔آپ فارسی محاورہ
"پدرم سلطان بود"کے تحت صرف مسلم اوردینی گھرانے میں پیدا ہونے پر فخر
نہیں کرتے بلکہ جس طرح جوہری ہی ہیرے یا موتی کی صحیح قدرکرسکتاہے(قدرِ زر زرگرشناسی
قدرِجوہر جوہری) کے محاورہ کے مصداق آپ
اسلام اور ایمان کی دولت کے ساتھ ساتھ اس کے دینی وایمانی تقاضوں کی بھی معرفت رکھتے ہیں [15]۔ یہی
وجہ ہے کہ یہ ایمانی دولت،دینی غیرت، مذہبی جوش وخروش،علمی جاہ وجلال اورصوفیانہ
رنگ آپ کے خدوخال سے بدرجہ اتم ظاہر ہوتاہے۔آپ علیہ الرحمہ پر علامہ
اقبال علیہ رحمۃ المتعال کا فرمایا ہوا یہ شعرمن وعن صادق آتاہے :
چوں ہمی گویم
مسلمانم بلازم کہ دانم مشکلات لا الہ
الا اللہ
''جب
میں کہتاہوں کہ مسلمان ہوں توکانپ اٹھتاہوں ۔کیونکہ میں ان مشکلات کوجانتاہوں جو
لاالہ الااللہ
کے اعتراف کے بعدلازماً پیش آتی ہیں''۔
واضح
مقاصد کاتعین
"الدنیا
مزرعۃ الآخرۃ" (دنیا آخرت کی کھیتی ہے )۔ انسان دنیا میں کھیل کود،تفریح طبع اوروقت گزاری کے لئے نہیں آیا بلکہ دنیاوی
زندگی اس کے سامنے ایک کڑا امتحان ہے۔اور اس دارالامتحان میں اس کے پاس مہلت بھی
بہت کم ہے:جیسا کہ جناب سید گلزار بخاری صاحب اپنی ایک نعت کے شعر میں فرماتے ہیں:
ہمیں یہ تونے شعور
بخشا کہ زندگی بے ہدف نہیں ہے
بشر کو بہرِ کشاکش
امتحان پیدا کیا گیا
ہے
آپ علیہ
الرحمہ اس مقولہ پر عمل پیرا تھے نیز آپؒ کی ایک اور خوبی اس حدیث نبوی ﷺ من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔[16] پر
مکمل عمل تھا ۔
"آدمی
کی اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی اس کا لایعنی (عبث وبیکار) امورکوچھوڑ دینا
ہے۔"[17]
اس
حدیث کا منظوم مفہوم والد محترم نے کچھ یوں پیش کیا ہے:
بے کار ہو جو بات کوئی چھوڑ
دیجئے اسلام کایہ حصہ عادت بنائیے
آپ کی
تمام زندگی اسی سے عبارت ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کبھی بھی بیکار وعبث
کاموں میں مشغول نہیں ہوئے۔بلکہ آپ ہمہ وقت تعمیری واصلاحی امورمیں مصروف رہے۔
آپ علیہ
الرحمہ زمانہ طالب علمی سے ہی واضح مقاصد کے حامل تھے یعنی کہ آپ کا
مقصد،نصب العین(Figure)
متعین تھا اور آپ کبھی اپنے اس نصب العین سے غافل نہ رہے۔ اورارد گرد کے ماحول (Back
Ground) کی تمام تررنگینیاں، مسائل ومشکلات آپ کو مقصد سے نہ ہٹاسکیں۔ کیونکہ
بسا اوقات انسان کی توجہ اپنے فگر (مقصد ومنزل)سے ہٹ کر بیک گراؤنڈ پر منتقل
ہوجاتی ہے جس کے باعث منزل نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔اور وہ مقصد میں ناکام
ہوجاتاہے۔ لیکن آپ علیہ الرحمہ کے ساتھ ایسا نہ تھا اور آپ علیہ
الرحمہ کی مثال ایک حقیقی اور باعمل مسلمان کی ہے ۔جس پر جناب اکبرالٰہ
آبادی کا یہ شعر صادق آتاہے:
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں
خریدار نہیں ہوں
اس حدیث مبارکہ پر ایک
حقیقی باعمل،ذی شعورمسلمان کی طرح مکمل عمل کرتے ہوئے آپ علیہ الرحمہ طالبِ
دنیابن کر نہ رہے بلکہ اس فانی دنیامیں محض رضائے الٰہی کے طالب رہے۔اور اپنی
زندگی کولایعنی ، لغوکاموں(دنیامیں اقتدار،جائیداد ،شہرت اورمال کے حصول )میں صرف
نہیں کیا۔ چونکہ آپ جانتے تھے کہ رب کی بارگاہ میں اس دنیاکی وقعت
مچھر کے پرجیسی بھی نہیں۔اتنی ہیچ، بے وقعت دنیا کے پیچھے بھاگنا چہ معنی دارد۔ اسی
بے وقعتی کی وجہ سےآپ نے دنیاکے پیچھے بھاگنے کے بجائے اسےٹھکر ادیا ۔جب آپ نے اسے
ٹھکرادیا تو اس کے صلے میں اللہ رب العزت نے آپ کو مرجع الخلائق بناتے ہوئے شہرت
کے بام عروج پر پہنچادیا۔بقول وسیم بریلوی
نہیں چلنے لگی یوں میرے پیچھے یہ دنیا میں نے ٹھکرائی بہت
ہے
الغرض ڈاکٹر
انصاریعلیہ الرحمہ، رحمٰن کے فضل اور اپنے انصار (اولیاء کرام) کی مدد
سے کبھی اپنی حقیقی منزل سے غافل نہ ہوئے۔
ہمہ وقت، ہمہ پہلو علم اور اوصافِ حمیدہ کے حصول میں مصروف رہے اور بیک گراونڈ کو
اپنے تابع اور مغلوب رکھنے پر غالب و قادر رہے۔یہاں یہ بات بھی زیر محل رہے کہ جو
افرادمقصد چھوڑ کر بیک گراؤنڈ کی اشیاء کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ وہ خود بیک گراؤنڈ میں چلے جاتے ہیں وہ خودکبھی بھی نمایاں ( فگر) نہیں بنتے
یعنی کبھی کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کرپاتے بلکہ زندگی میں ہی لوگوں کے اذہان سے محو ہوتے ہوئے اس دنیا سے گزرجاتے
ہیں اور قصہ پارینہ بن جاتے ہیں ۔
جوش
کردار:
آپ علیہ
الرحمہ یقین کامل اورواضح مقاصد کے تعین کے ساتھ ساتھ جوش کردار کے بھی حامل تھے۔
اوراگرکوئی شخص یقین کامل اورجوش کردار کےساتھ کچھ سرکرناچاہے وہ کبھی اپنے عزائم میں ناکام نہیں ہوتا کیونکہ ان کے سامنےکوئی قوت رکاوٹ نہیں بن سکتی
اورانسان نہ صرف اپنے نیک عزائم میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے بلکہ وہ شخص ماضی ،حال و مستقبل سے آگاہ ہوجاتاہے
کیونکہ اس کے سامنے تقدیر کے راز بھی راز
نہیں رہتے بلکہ عیاں ہوجاتے ہیں ۔بقول ڈاکٹرعلامہ محمداقبال علیہ الرحمہ
راز ہے راز ہے تقدیر
جہانِ تگ و تاز
جوش
کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز
قصہ
مختصر:
آپ علیہ
الرحمہ نے اپنی زندگی کے اس مختصردورانیہ
اورقلیل عمر کو غنیمت سمجھا اور ہر لمحہ بڑا گراں مایہ انداز سے گزارا، دنیا کی
ناپائیداری اور بے ثباتی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا
سے دل لگانے کے بجائے وطن اصلی یعنی آخرت کی فکر اوراپنے رب کے سامنے جوابدہی کو
نہ صرف خوداپنے قلب وذہن میں حاضر وغالب رکھا بلکہ اس کی جیتی جاگتی عملی تفسیر بن
کر ہر دیکھنے والی آنکھ اور نفس کو بھی اس امر کی یاد دلائی۔
جگہ جی لگانے کی یہ دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں
ہے
طریقۂ
تدریس:
قبل اس
کے کہ ہم ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی بطور استاد خدمات کا جائزہ لیں ہمارے
لئے پہلے اچھے استاد کے لیے چند بنیادی
اور اہم خصوصیات کا جاننا نہایت ضروری ہے۔جن اوصاف سے متصف ہوکر کوئی بھی فرد ایک
بہترین معلم قرارپاسکتاہے۔
بہترین
معلم کی صفات:
ایک اچھے معلم اوراستاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشرے کا بہترین فردو اعلیٰ کردار کا حامل ہونے
کے ساتھ ساتھ علم و فن میں ماہرو یکتاہو،صحت مند مطالعہ کا ذوق رکھتاہو،پاکیزگئ بدن،دہن
،ذہن ،وطن، اورلباس پرعامل ہو،بلندئ فکرونظرکاحامل
ہو،زمانہ شناس(بصیراً لزمانہ) بلکہ زمانہ ساز ﴿عہدسازشخصیت﴾ ہو،معاشرے کے مسائل اورضروریات سے
آگاہ ہو،علم دینے میں بخیل نہ ہو، کردارسازی کے فن میں ماہر ہو، غوروفکرکرنے
والا ہو،کام کی لگن رکھتا ہو،مشن کی تکمیل کےلئےتن من دھن سب لٹانےوالاہو، (Time Management) وقت کا بہترین انتظام استعمال کرناجانتا ہو طالب علم سے مخلص ہو، علم دینے کا فن
جانتا ہو، طلبہ سے لگاؤ رکھتا ہو، طلبہ کی نفسیات
اورفطرت کاعلم رکھتاہو،ان کی صلاحیتوں کو
جانتا ہو، اوران صلاحیتوں کو مثبت انداز میں اجاگر کرنے والا ہو اورطلبہ کی ذہنی
سطح کے مطابق انہیں تعلیم دیتا ہو(یعنی
انہیں مشکل ،پیچیدہ اور ادق نکات بھی آسان اورعام فہم انداز سے سکھاتاہو)،جو
موضوع پڑھاتا ہو اس میں خود بھی دلچسپی لیتا ہو اورطلبہ کے لئے بھی دلچسپ اندازمیں
پیش کرتاہو، اپنے دیئے ہوئے سبق پرپہلے خود عمل کرتا ہو اور عمل کی ترغیب بعد میں دیتا
ہو، اپنےذاتی کردار کامحاسبہ کرتاہو،ہمیشہ نئےعلوم اورنئی ٹیکنالوجی کواپنانے والا
ہو، پراعتماد ہو
اور ابہام وتذبذب کا شکار نہ ہو کیونکہ پراعتماد استاد ہی طلبہ میں سوال کرنے
کی جرأت پیدا کرسکتا ہے، قوت برداشت کا حامل ہو اور منفی ردعمل کا اظہار نہ کرتا
ہو، عالی ظرف ہو یعنی معافی اور درگذر سے کام لیتاہو،پُروقار اوربارعب ہو،صابر
اوربُردبار ہو،والد کی طرح شفیق ہو، تعصب سے پاک ہو اور پسند و ناپسند کی پرواہ کیے
بغیر حق گوئی اور بیباکی کو اپناتا ہو، معاشرے کا ایک سرگرم کارکن ہواور امر
بالمعروف ونہی عن المنکرکا داعی ہو،تعلیم وتعلم کے عمل پرکسی دنیاوی انعام یا تحسین کا طالب نہ ہو، آسانیاں تقسیم کرنے
والا اورمحبت بانٹنے والا ہو،وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ
بالا صفات و خصوصیات کے حامل اچھے استاد پیدا کیے بغیر کوئی بھی نظام تعلیم اپنے مقاصد
حاصل نہیں کرسکتا۔ کھوکھلے اور زوال پذیر معاشرے میں استاد کو پہلے خودآشنا ہوکر اپنی
اصلاح کرنی ہے اس کے بعد ہی وہ تعمیر کردار کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ استاد خود کو
پیغمبروں کی میراث معلمی کے وارث کہتے ہیں لہٰذا انہیں معلم انسانیت و فخر انسانیتﷺ
کے اسوہ حسنہ سے راہنمائی حاصل کرکے کردار سازی کرنا ہے۔
جب ہم
ان خصوصیات و اوصاف کی روشنی میں ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی زندگی کا
مطالعہ کرتے ہیں تو ہم آپ کو ان تمام صفات سے متصف پاتے ہیں ۔ اگر آپ کے علوم کی
معرفت دیکھی جائے توآپ بحرِ بیکراں تھے ،علم پھیلانے میں سخی، سکھانے کے فن سے نہ
صرف آشنا بلکہ آپ کے وضع کیے ہوئے طریقے آنے والی نسلوں کے لیے طرقہائے تعلیم میں
شمار ہونے لگے۔الغرض آپ کے جملہ اوصاف کا احاطہ کرنا اہل قلم و قرطاس کے لئے
ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہے:
اس شخص کے اوصاف کا مشکل ہے احاطہ
یہ کام نہیں اہل قلم
کے لئے آساں (عبدالقیوم طارق)
سائینٹِفک
اسپرٹ
اگرکوئی استاد کسی طالب علم کو علوم وفنون سے کچھ نہ دے
لیکن صرف اس طالب علم میں پڑھنے کا جذبہ پیداکردے یہ استاد کا اس طالب علم پر بہت
بڑا احسان ہے۔ کیونکہ ایسے متعلم کے لئے اب کبھی کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آئے گی۔ جو
روح اس کے اندرپھونکی جاچکی ہے وہ تمام مشکلات اورمصائب کو اڑالے جائے گی۔ اس نکتہ
کی وضاحت ایک مشہور سائنسدان آنڈری میری ایمپر (Andre Marei
Amper 1775-1836) کے الفاظ
میں:
“[My father] never required me to study
anything, but he knew how to inspire in me a desire to know.” [18]
"میرے
والدکو مجھے پڑھنے کا کہنے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن وہ جانتے تھے کہ میرےاندرطلبِ
علم (علم کی تڑپ) کیسے پیداکی جائے"
جب ہم آپ
علیہ الرحمہ کی جانب دیکھتے ہیں تو آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ
طالب علم میں علم کی بیتابی،حرص اورتڑپ پیداکرنے کے علاوہ صرف معلومات وحقائق کاخزانہ ہی نہیں فراہم کرتے بلکہ ان خزانوں کی کانوں
تک دسترس دے دیتے ۔یعنی صرف سائنسی حقائق
ومعلومات سے آگہی ہی نہیں دیتے بلکہ آپ سائینٹفک اسپرٹ اپنے طلبہ میں منتقل کردیتے
تھے۔یہاں جناب مظفر حسین صاحب کے مضمون " قرآن حکیم اورسائنسی انداز فکر" میں سے ایک اقتباس کا حوالہ نہایت ہی
موزوں اورموقع کی مناسبت سے ضروری ہوگا جس میں وہ ایک عظیم استاد کی سب سے بڑی خوبی بیان فرماتے
ہیں:
"یہ دونوں چیزیں(سائنسی حقائق
اورسائنسی طریقہ) توہرکہیں سے حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن جو بات "حقیقی
فرق" پیداکرتی ہے وہ درحقیقت"فیضانِ نظر" ہے جسے ایک استاد اپنے
شاگرد میں منتقل کرتاہے۔یہی "فیضانِ نظر" ہے
جسے وہ سائینٹفک اسپرٹ General
Scientific Spirit کا نام دیتاہے اورجو کسی شخص کوسچااسکالر
اورمحقق بناتا ہے چنانچہ کریبز(Hans Adolf Krebs)یہ نتیجہ اخذ
کرتاہے :سب سےبڑی بات تو یہ ہے کہ ایک
عظیم استاد یا سائنسدان اپنے شاگرد کے ذہن میں حقائق کے بارے میں معلومات سے کہیں
زیادہ ایک ذہنی رویہ (Attitude) منتقل
کرتاہے۔"[19]
اس خوبی کے تناظرمیں جب ہم آپ علیہ الرحمہ کی
شخصیت کو دیکھتے ہیں تو واقعی آپ سے پڑھنے والے تمام طلبہ کے اندر Scientific
Spirit بدرجۂ اتم نظرآتی ہے۔یعنی آپ کے "فیضان نظر"نے ان کے
اندر خود فیضان دینے کی صلاحیت پیداکردی
اور وہ مثل قمر شمس کی روشنی لے کر چودہویں کے چاند کی مانند دمکنے لگے جس کی
روشنی میں بآسانی دیکھا جاسکتاہے۔
سحرانگیزشخصیت:
ان
خوبیوں کے علاوہ بھی آپ علیہ الرحمہ میں لاتعداد خوبیاں تھیں جو آپ کو
ہردلعزیز استاد اور سحرانگیز شخصیت کے منصب پر فائز کرتی ہیں،مثلاً:بولنے میں انداز
دھیما لیکن سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہوتی، گفتار میں نرم خو اور ٹھہرٹھہر
کربولنے والے، آواز صاف کلام فصیح ، لہجہ و لِحن واضح، سمجھانے میں شفیق،آپ کی
کلاس میں گورے کالے، امیر غریب ، شہری دیہاتی میں کوئی امتیاز نہ تھا آپ اپنے
طالبعلموں سے ایک والد سے بڑھ کر محبت والفت رکھنے والے تھے۔ لیکن اصول وضوابط اور
حق گوئی پرکوئی سمجھوتہ نہ تھا کوئی جاہ و منصب ،سرمایہ و دولت اور قرابت داری آپ
کو حق گوئی اور مشن سے نہ ہٹاسکی۔الغرض آپ کے ہاں خیال کی بلندی،تصورکی وضاحت،
فکرکی گہرائی، تدبیرکی جامعیت،عقل وخرد کی انتہا، حکمت و دانش کے موتی بدرجہ اتم
موجود تھے۔ آپ علوم ومعرفت، فنون و مہارت، اخلاق و تربیت ،افکارو نظریات کا وہ
سمندر تھے جس میں سفینہ کے بغیر ہم مکمل معرفت نہیں حاصل کرسکتے۔بقول مرزااسداللہ
خاں غالب
ورق تمام ہوا اور مدح
باقی ہے سفینہ
چاہئے اس بحرِ
بیکراں کے لیے
سفینۂ
بحرِ بیکراں:
یعنی کوئی ذریعہ چاہئے کہ جس سے ہم ان کی معرفت حاصل کرسکیں۔کوئی
سفینہ چاہئے جو اس بحربیکراں سے ہمیں آشنا کرسکے۔ تو وہ ذریعہ اور سفینہ سینۂ مصطفی فاضل انصاری سے بڑھ کر کونسا
ہوسکتاہے کہ جس نے اس دنیا میں آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو ڈاکٹر انصاری کی گود میں پایا
اور پھر ٢٨ سال مسلسل اس ذات کی نگرانی میں گذار کر مکمل تربیت ورہنمائی حاصل کی
اور ڈاکٹر انصاری کے شب و روز کے تمام معمولات کے عینی شاہد اور امین رہے ہیں اور
آپ کی زندگی کے ہر گوشے میں ڈاکٹر انصاری کی جھلک ، فکر اور دوراندیشی نظرآتی
ہے۔ادارے کی خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کے فرزند
رشیدجناب مصطفی فاضل انصاری صاحب اطال اللہ عمرہ اس ادارےکےصدر اور
جملہ انتظام وانصرام کے نگران ہیں۔آپ کا عملی میدان Administration کاہے لیکن اس
کے ساتھ ساتھ آپ انگریزی زبان و ادب میں بہت زیادہ دلچسپی و شغف رکھتے ہیں یہاں تک
کہ آپ پر Speaker Native کا گمان
ہوتاہے۔
آپ PIA کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر ہیں ۔اس حوالے سے
آپ کی تعیناتی (Posting) دنیا
کے مختلف ممالک میں رہی ہے ۔آپ چونکہ قابل،ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ ،نہایت اعلیٰ
خاندانی اقدار ووقار کے حامل ، دانا،بینا،جہاں دیدہ شخص ہیں اس لیے
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے ان قوموں کی کامیابی و عروج کے اسباب کا بغور
مشاہدہ کیا جو اس وقت دنیا پر حکمرانی کررہی ہیں اور اپنے نظریات وافکار پوری دنیا
پر مسلط کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہیں ۔ اور یہی صلاحیتیں واچھی خصال و عادات آپ
ادارہ کے تمام طلبہ میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے شب و روز فکر مندرہتے
ہیں۔اللہ رب العزت آپ کا سایہ ادارے پر تادیر قائم رکھے تاکہ آپ اپنے والد محترم کے مشن کی تکمیل
کرسکیں۔(آمین)
خلاصہ کلام:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کاقول
ہے:''اس شخص کو کبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتاہے''۔
ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن
انصاری علیہ الرحمہ بھی ان افراد میں سے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی علم
کے حصول اور اس کے فروغ میں صرف کردی۔ چونکہ علم صفاتِ الٰہی میں سے ایک
صفت ہے اور زندگی کی علامت ہے اور علم کو کبھی موت نہیں آسکتی تو ایسے شخص
(عالم)کوبھی کبھی موت نہیں آسکتی وہ اس دنیا میں امر ہوجاتاہے۔
یہ امرِ واقعہ ہے کہ آج پینتالیس سال سے
زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آپ علیہ الرحمہ کی تعلیمات ایک زندہ حقیقت
کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں۔ آپ کی تعلیمات پڑھ کر ہمارے دل میں بھی یہی خیال
آتاہے کہ ایسے شخص کے نقش قدم پر چلنا چاہئے اور ان کے بتائے ہوئے پیغام اورراستے
کوجو درحقیقت حضور پرنور رسول اکرم ﷺ کا ہی لایا ہوا پیغام و راستہ ہے اپنانا
چاہئے۔ اور اپنی زندگی آپ کے مشن پر قربان کردینی چاہئے تاکہ دنیا میں امن و
سلامتی و آشتی کا بول بالا ہواور آخرت میں ہم اللہ رب العزت کی رحمت اور رسول اکرم
ﷺ کی شفاعت کے مستحق قرار پائیں۔ بقول شاعر
[1] ۔ آپ
علیہ الرحمہ نےحضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ پرتحریرکئے گئے ایک مضمون کا آغاز غالب کے اس شعر سے کیا:
زباں پہ بارِ خدایا یہ
کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے
بوسے مری زباں کے لئے
جس سے بخوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ آپ
علیہ الرحمہ کس محبت،عقیدت واحترام سے
اپنے استاد محترم،مربی ومرشد کا ذکرخیر فرماتے تھے۔
[2] ۔ چکبت
برج نارائن کے اس شعرکا دوسرامصرعہ کچھ یوں ہے: وہی
شاگرد ہیں جوخدمت استاد کرتے ہیں
جس سے بخوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ آپ
علیہ الرحمہ کس محبت،عقیدت واحترام سے
اپنے استاد محترم،مربی ومرشد کا ذکرخیر فرماتے تھے۔
جب مسلمانوں نے ترک کئے احکام المتعال اورپسِ
پشت ڈالی شریعتِ سید بشروصاحب جمال، اورکئے انہوں نے اقدارِ اسلامی پامال،آیا ان پر
بدترین زوال،فرنگیوں نے جب دیکھی یہ صورتحال،چلی انہوں نے شاطرانہ چال،بچھایا عیاری
سے ایسا جال ، کئے بغیر جنگ و جدال، کرلئے شہر کے شہریرغمال،اور ہوگئے مسلط گروہِ مغضوب
و ضال،مسلمانوں کے پاس تھی نہ کوئی ڈھال، گزرتے رہے یونہی ماہ و سال،نہیں ملتی جس کی
تاریخ میں کوئی مثال، تاتار نے بھی کیاتھا اگرچہ دجلہ و فرات کوخون سے لال ،لیکن اب
توہے نہ رکنے والا زوال، کیونکہ امت تو ہے بس گروہ جُہال،اہل بصیرت توہیں بس خال خال،
پیدا ہوئے اُس وقت بعض رجال،جن میں سے ایک تھا ڈاکٹر محمد اقبال علیہ رحمۃ المتعال،
چمکا افق پرجو مثلِ ہلال،شاعری تھی جس کی باکمال،فکر تھی جس کی پُر جمال، نہیں تھی
جس میں حب دنیا و مال،جو تھا عاشق رسول( ﷺ ) و حضرت بلال(٭)،اس پرمخفی نہ تھا قوم کا
احوال،جب دیکھا شاہین ہے بغیر پر و بال،بلکہ ادھڑ گئی ہے اس کی کھال،لیتے ہیں بس یہ
طوطا فال،رہ گئے ہیں صرف ظاہری مقال یعنی جل تو جلال آئی بلا کو ٹال، لیکن نہ تھی کوئی
عملی صورت حال،اس کوہوا بہت رنج وملال، دیا الٰہ آباد میں خطبہ فقید المثال،دکھایا
ان کوشاندار ماضی کااحوال،کہاہے یہ قرآن و سنت چھوڑنے کا وبال،دکھائی مسلمانوں کو راہ
اعتدال،رہنمائی کی جانب فکرصالح و نیک اعمال،کیا حیات صحابہ سے استدلال اوربتایا فلسفہ
عروج وزوال،کہا کہ اگرتم مل کرکروقتال توکفار کی نہیں کوئی مجال،کہ چھین لیں تمہارے
اموال،جس نے کیا مغربی افکار کا ابطال،ڈاکٹرانصاریؒ نے بھی انہیں کیاخط ارسال، ان سے
پوچھا ایک سوال،کیامغرب سے حاصل کروں علمی کمال،آپ نے دورکیا ان کا اشکال،علوم اسلامیہ
کا مغرب سے ملنا ہے محال، چاہتے ہو اگر کوئی کمال،کرو محنت غدو وآصال،جب ہوا اقبال
کا وصال،جان دے کر ہوگیا لازوال۔
(٭) اقبال کس کے عشق کا
یہ فیض عام ہے رومی فنا
ہوا ، حبشی کو دوام ہے
[7] ویسے بھی
یہ حقیقت ہے کہ اچھا اور بہترین کیمرہ تو صرف50 میگا پکسل یا اس سے کچھ زیادہ کا ہوسکتا ہے لیکن اس کے برعکس انسانی آنکھ کا کیمرہ
576 میگا پکسل کاہوتا ہے یعنی تقریباًفزیکلی 9 گنا زیادہ طاقتورہے لیکن فعالیت کے
اعتبار سے کئی گنا زیادہ، اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اس طاقتور کیمرہ
اوراس کے ساتھ اپنے کمپیوٹر(ذہن) کا استعمال کس حدتک اور کتنا کرسکتا ہے۔
[8] ایک انسانی
دماغ تقریباً سو بلین نیورونز پہ مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح کی برقی لہریں ہیں جوان عصبی خلیوں سے ترتیب پانے کے بعد یاداشت کو محفوظ کرنے سے لیکر
افعال کی انجام دہی تک عمل کرتی ہیں۔ ایک انسانی دماغ کمپیوٹر کے مقابلہ میں معلومات
ذخیرہ کرنے کے اوران معلومات پر عمل اورردعمل کے اعتبار سے ایک لاکھ گنا بڑا
اورتیز رفتار ہوتاہے۔ انسانی دماغ کے اندر چھوٹے چھوٹے برقی سرکٹ ہوتے ہیں۔ جس کے اندر
انسانی افعال بالخصوص ردعمل چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔جو انسانی ذہانت کی بنیاد بھی کہلائے
جا سکتے ہیں۔ ان ہی کی فعالیت کی بنیاد پہ ذہانت کا معیار طے ہوتا ہے۔
Brains, however, are great at
parallel processing and sorting information. They are so good at some
activities that we take their strengths for granted, like being able to
recognize a cat, tell a joke, or make a jump shot. Brains are also about
100,000 times more energy-efficient than computers (Frits van Paasschen)
"دماغ ،تاہم، معاملات کےحل اورمعلومات کی جانچ میں بہت
حد تک متوازی ہے۔ کچھ سرگرمیوں میں تو وہ اتنا اچھا ہے کہ اس کی قوت مسلمہ ہے۔جیسا
کہ بلی کی پہچان(اشیاء کی پہچان یعنی باہم امتیاز کرنا) ،لطیفہ سنانے کے لئے (خودکار
انداز میں صورتحال کے مطابق کلام کرنا)، کسی بات کوچھوڑ کراگلی پر جانے کے لئے(موافقت
اورمخالفت دونوں صورتوں میں)۔ دماغ کمپیوٹر کے مقابلے میں تقریباً ایک لاکھ گنا زیادہ
طاقت اورمہارت رکھتا ہے"۔
ذہانت کا ارتقاء ذہنی
نشوونما کا سب سے اہم اورنمایاں پہلو ہے
لیکن اس(ذہانت) کا ارتقاء تنہا نہیں ہوتا بلکہ انسان کی شخصیت میں دیگرپہلوؤں مثلاً
حافظہ،یادداشت،توجہ،تجزیہ،زبان دانی،سماج وثقافت وغیرہ کے ساتھ نشوونما پاتاہے۔
دماغ کے پھیلاؤ کا عمل تعلیم وتعلم سے خاص ہے۔جیسے جیسے انسان دماغ کا استعمال
کرتا ہے اس کے اندر نئی اعصابی شاخیں نشوونما پانے لگتی ہیں یوں دماغ اپنے وسعت کا
عمل فی نفسہٖ شروع کر تا ہے۔ اس ذہن میں اللہ رب العزت نے اتنی صلاحیتیں ودیعت کی
ہیں جو تسخیرِ کائنات کر لینے کے لیے بھی کافی ہیں۔اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ
اپنی ذہنی قوتیں کس حد تک استعمال کرتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ ذہن
رکھنے والا فرد بھی اپنی ذہانت کا بمشکل 10فی صد حصہ استعمال کرپاتا ہے۔لیکن یہ
قیداولیاء کرام کے لئے نہیں ہے۔
[9]
۔ اس امر کی شہادت جناب صدر الوفاق مصطفیٰ
فاضل انصاری علیہ الرحمہ بھی
دیتے ہیں ۔آپ اپنی دادی محترمہ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتی تھیں کہ
تمہارے اباجان کی ذہنی صلاحیت اور یاد
کرنے کی کیفیت اتنی اعلیٰ اوربلند تھی کہ جو چیز ایک بار پڑھ لی ذہن پر نقش ہوگئی۔
جب پہلی دفعہ تمہارے والد کو قاری صاحب پڑھاکر گئے تو میں نے مغرب کی نماز سے قبل
کہا کہ میں نماز پڑھ کر تمہارا سبق سنوں گی۔لیکن وہ فرماتی ہیں کہ تمہارے والد(
ڈاکٹرفضل الرحمن صاحب علیہ الرحمہ) اسی طرح باادب بیٹھے رہے۔ جب والدہ
محترمہ نماز سے فار غ ہوئیں تو آپ نے انہیں مکمل سبق زبانی سنادیا جس پر وہ فرماتی
ہیں کہ میں خود حیران رہ گئی۔وباللہ التوفیق
[12] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover,
Oxford University Press, 2008, pg 16
[15]
۔ جس قدر انسان کی معرفت میں اضافہ ہوتا
ہے وہ رب کی صفات کے بارے میں غوروخوض شروع کردیتاہے۔اسی لئے بعض مذہب کو ماننے
والے سائنسدانوں پربھی جتنے کائنات کے
رموز واسرار کھلتے جاتے ہیں وہ اسی قدر رب کی صفات اورصنعت پر غور وفکر میں
محوہوجاتے ہیں۔جیسا کہ Joule نے 1873 میں لکھاتھا:
After the knowledge of, and obedience to, the will of God, the next aim
must be to know something of His attributes of wisdom, power, and goodness as
evidenced by His handiwork.( Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover,
Oxford University Press, 2008, pg 7)
رب کی
ذات کی معرفت اوراس کی رضا کی اطاعت کے بعد اگلا مقصد اس کی صفات الحکیم،القادر،البر وغیرہ کا علم حاصل کرنا ہے
جیسا کہ اس کی صنعت وکاریگری سے عیاں ہے۔
[17]
۔ بعض محدثین کے نزدیک یہ حدیث ربع اسلام ہے، بعض کے نزدیک ثلث اسلام ، بعض کے
نزدیک نصف اسلام یا بعض کے نزدیک تواس حدیث پر عمل کرنا مکمل اسلام ہے۔لیکن افسوس
کا مقام ہے کہ آج مسلمان بحیثیت قوم اس حدیث پر عمل نہیں کررہے۔ بلکہ ان کی تمام
ترزندگی لایعنی کاموں اورخرافات میں بسرہورہی ہے۔(عافانااللہ منہا)
[18] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford
University Press, 2008, pg 214
Post a Comment