کیا  کبھی  روک بھی  سکتے  ہیں سفر سورج کا

ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمن الانصاری القادری رحمۃ اللہ علیہ

تحاریر،تقاریر،تصاویر ،تدابیر،افکار،اذکاراورتربیت یافتہ افراد کا مختصر تعارف

 

دنیا میں دو قسم کے افرادپائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ، ناتواں اور بے قیمت ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ارذل العمر کو پہنچ جاتے ہیں اور موت ان کو  اپنی گرفت میں لے کرگمنامی کی وادی میں پھینک دیتی ہے جس کے بعد ان کا اس دنیا سے نام و نشان مٹ جاتاہے۔دوسرا  گروہ ان افراد پر مشتمل ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دانائی، حکمت ، علم، فہم ، فراست اور تدبر میں اضافہ ہوتارہتا ہے یہاں تک وہ اس دنیا سے رحلت (سفر) کرنے کے باوجود مثلِ آفتاب و ماہتاب نمایاں، چمکدار اور روشن رہتے ہیں ۔ جن کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی۔یعنی کہ موت بھی ان کی شہرت کو کم نہ کرسکی بلکہ ان کو دوام اور ابدیت عطاکرجاتی ہے۔بقول شاعر

موت کو سمجھے ہے غافل اختتام زندگی

ہے  یہ  شامِ  زندگی  صبحِ  دوام زندگی

ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاری القادری  علیہ الرحمہ کا تعلق اس دوسرے گروہ سعید سے ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کا تذکرہ اور چرچابڑھتا جارہا ہے اورجن کے مقصد اور مشن میں مزید عروج آتاجارہاہے آج جب کہ ہم آپ کا پینتالیسواں عرس مبارک منارہے ہیں اس وقت آپ کو اکناف عالم میں یاد کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔دنیا کے کئی ممالک میں آپ کے نام لیوا اور چاہنے والے موجود ہیں اور تاقیامت موجود رہیں گے جو آپ کے مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں و سرگرداں ہیں۔

ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ تھے۔ مختلف عظیم افراد کسی ایک جہت میں کام کرتے ہیں لیکن آپ نے مختلف جہات میں اس قدر اعلیٰ، بہترین اورمنظم کام کیا جو شاید کسی ادارہ یا تنظیم سے بھی نہ ہوسکے۔ اگر تحریر کے میدان میں دیکھا جائے تو آپ کا تصنیفی و تحریری کام اتنا عمدہ،جامع اور اتنازیادہ ہے کہ ہماری زندگیاں اس کے پڑھنے اور سمجھنے میں ہی صرف ہوجائیں اوراگر تقریر کے میدان میں دیکھا جائے تو امت مسلمہ کی ضرورت کے پیش نظرمختلف النوع  موضوعات پر مختلف زبانوں میں اتنی دلکش ودلنشیں تقاریرکیں کہ جب بھی آپ نے منبر و محراب ،اسٹیج اور روسٹرم سنبھالا آپ نے اس کا حق اداکردیا اور علم کے بے بہا موتی نچھاور کیے اور علم کے دریاؤں کو حباب (بلبلہ )میں بند کردیابقول ابن انشا:

 ؎               دریابہ حباب اندر،طوفاں بہ سحاب اندر

جب آپ علیہ الرحمہ نے تبلیغی اسفار فرمائے تو آپ نے تن تنہا انتہائی کامیابی کے ساتھ دنیا کے گوشے گوشے تک اسلام کا  پیغام پہنچایاگویا کہ مبلغین کی ایک جماعت بھی یہ کام نہ کرسکتی تھی۔ آپ کی اس عظیم الشان کامیابی کا سبب علوم قدیمہ وجدیدہ میں مہارت ،خلوص  ،اسلام اورمسلمانوں سے بلاکسی  دنیاوی غرض،لالچ یا خوف کے محبت تھی۔آپ حق کا پیغام کسی بھی فورم پر پہنچانے سے  دریغ نہ کرتے تھے۔ شیخ الجامعہ (سندھ وکراچی)اے بی اے حلیم آپ کی یاد میں منعقدہ  تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کی تائید کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

"مولاناا نصاری تمام مذاہب اورمشرقی ومغربی علوم کے ماہر تھے، انہوں نے اسلام کوبہترین شکل میں پیش کیا، ان کا مشن کامیاب رہا اوربہت سے غیرمسلم ان کے خلوصِ محبت اورجذبہ کو دیکھتے ہوئے اسلام لے آئے، ان کے دل میں اسلام اورملک کی محبت تھی اورانہی خوبیوں کی وجہ سے وہ اسلامی دنیا میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے۔"؂[1]

ایساکیوں نہ ہوتا کہ غیرمسلم آپ کی صحبت میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے جاتے ہیں ،اسلام اور ملک کی خدمت میں قربان ہوئے جاتے ہیں ،اے بی اے حلیم صاحب کے اقتباس کی وضاحت میں علامہ اقبال علیہ رحمۃ المتعال کا یہ شعرپیش خدمت ہے:

نہ تخت وتاج میں ،نہ لشکروسپاہ میں ہے

جو  بات  مردِقلندر  کی  بارگاہ میں ہے

اگر افراد کی تربیت کے حوالے سے دیکھا جائے توآپ نے اپنے مشن اور نصب العین کو آگے بڑھانے کے لیے مختصر سے عرصے میں سینکڑوں ذی شعوراور نابغۂ روزگار شخصیات تیارکیں جوآپ کے مشن کے حصول کے لیے دیوانہ اور پروانہ وار اپنا تن،من اور دھن قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔

کسی بھی ادارہ کا قیام ایک انتہائی کٹھن ،دشوار،سخت اورنازک  مرحلہ ہوتاہے۔لیکن جب آپ نے ادارہ قائم کرنے کا ارادہ فرمایا تو یہاں بھی آپ کے راستے میں کوئی رکاوٹ آپ کے ارادے کو متزلزل نہ کرسکی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جب آپ اپنی کسی منزل اورمقصد کا تعین فرمالیتے تو منزل مقصود خود آپ کے قدموں میں حاضر ہوجاتی۔بقول شاعر

اے جذبہ دل گر میں چاہوں  ہر  چیز مقابل آجائے

منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے

الغرض جو کام بڑے بڑے ادارے ،تنظیمیں اور جماعتیں نہ کرسکیں وہ ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ نہ صرف تن تنہا فرماگئے۔ بلکہ اس خلوص،حسن اورسلیقہ مندی  سے آپ نے کام سرانجام دیئے کہ ان کاموں کو دوام بھی حاصل ہوگیا۔

اولیاء اللہ کی بشارت:

آپ کی بزرگی وعظمت کے آثار آپ کی ولادت با سعادت سے قبل ہی ظاہر ہوناشروع ہوگئے تھے۔ جن کاتذکرہ شیخ محمد جعفر(مرحوم) اپنے مضمون “Thus He Lived”(اس طرح آپ نے زندگی گزاری) میں کیاہے۔شیخ جعفر(مرحوم)  تحریرفرماتے ہیں:

بچےکی ولادت کا وقت قریب آنے پر(ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ  کی ولادت باسعادت کے موقع پر) آپ ؒ کے والدین کومولانا مشتاق احمدانصاری علیہ الرحمہ (آپؒ کی والدہ کے تایا) کی جانب سے ایک پوسٹ کارڈ موصول ہوا، جوان دنوں شملہ میں مقیم تھے،اس پوسٹ کارڈ میں ان کے خاندان میں ایک بچے  کی پیدائش کی خوشخبری دی گئی اور اس بچے کا نام"محمدفضل الرحمٰن" رکھنے کی ہدایت کی گئی ۔کچھ عرصہ بعد جب مولانامشتاق احمد انصاری  علیہ الرحمہ مظفرنگر تشریف لائے تو انہوں نے لڑکے کا نام "محمدفضل الرحمٰن "رکھنے کی وجہ کچھ ان الفاظ میں بیان فرمائی:

"مراقبہ کے دوران مجھے ایک مسجد دکھائی دی، جس میں نومولود کے نانا جان علی حسن صاحب تشریف فرماتھے۔یہ  اولیاء اللہ کامجمع  تھا، جن میں دینِ اسلام کی نمایاں، مشہور اوربزرگ شخصیات مثلاً غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی ،خواجہ معین الدین چشتی، داتاگنج بخش علی ہجویری، اور خواجہ نظام الدین اولیاء اور ایک میزبان شخصیت علیہم الرحمۃ  موجودتھیں۔ یہ سب اولیاء اللہ حسن صاحب کی گود میں گلاب کے پھول ڈال رہے تھے۔

اس معاملہ نے  مولانامشتاق کو ورطۂ حیرت  میں ڈال دیاکہ جناب علی حسن صاحب اس قدرعظیم انسان ہیں، جنہیں یہ اعزاز مل رہا تھی ،بلاشک وشبہ علی حسن بن مولانا کریم بخش انصاری ایک مشہور ومعروف اور نیک سیرت بزرگ ہیں، لیکن مولانا مشتاق آپ کو ملنے والے اس اعزاز پر حیرت اورخوشی کے ملے جلے جذبات میں مبتلاتھے۔

مولانامشتاقؒ مزید فرماتے ہیں:میں اس کی وجہ جاننے کے لیے مسجد کے دروازے پرکھڑا انتظارکرنے لگا، ایک بزرگ باہرتشریف لارہے تھے،میں نے ان سے جناب علی حسن صاحب پر اس انعام واکرام کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یہ اولیاء اللہ علی حسن صاحب کو نواسے کی پیدائش کی خوشخبری سنانے کے لیے آئے ہیں جو اسلام کی خوشبوسارے عالم میں اسی طرح پھیلائے گا، جس طرح گلاب کے پھول  کی خوشبواطراف میں پھیل جاتی ہے اوران بزرگوں نے اس بچہ کا نام محمد فضل الرحمن رکھنے کی ہدایت کی ۔؂[2]

اس واقعہ  سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آپ اللہ کے چنیدہ بندے  تھے۔آپ سے کوئی بڑا اوراہم کام لیاجاناتھا ۔ اسی لیے شاید  آپ کا نام بھی الہام کیاگیا  اورپہلے ہی سے مقرر کردیاگیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب

ولادت باسعادت:

١٤ شعبان ١٣٣٣ھ بمطابق ١٤، اگست ١٩١٤ء (کیا حسنِ اتفاق ہے کہ شمسی و قمری ہر دو اعتبار سے آٹھویں مہینے کی ١٤ تاریخ)،کو مظفر نگر ، یوپی انڈیا میں اس دنیا کے افق پر کبھی نہ غروب ہونے کے لیے ایک روشن ستارہ طلوع ہوا (جس   کی ولادت باسعادت کی خوشخبری عظیم بزرگانِ دین دے چکے تھے)۔جس نے اس دنیا سے تاریکیوں ،جہالتوں اور ظلمتوں کو ختم کرنے کے لیے علم اور اچھے اخلاق کا نور ہر سو پھیلانے کی کوشش کی۔ اس طرح آپ کی ولادت کا دن اس دنیا سے شب جہالت کی ظلمتیں کافور کرنے کا سبب بنا۔

ہوگئی    کافور  ساری   ظلمتیں

روشنی ہی روشنی ہے ١٤، اگست

تصاویر(آپؒ کی صورت و سیرت):

قرآن مجید میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے:

وَّ صَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ ؂[3]"اورتمہاری تصویر کی تو تمہاری صورتیں اچھی بنائیں۔"

اس آیت مبارکہ کی تشریح میں علامہ صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ "تمہیں راست قامت پاکیزہ رو متناسب الاعضاء کیا۔ "

جب ہم حضرت علامہ ڈاکٹرانصاری  علیہ الرحمہ کی تصاویر کودیکھتے ہیں توہمیں وہ اعلیٰ وجاہت  کا نمونہ نظرآتی ہیں۔نیزآپؒ  ظاہری و جسمانی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ باطنی ، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے بھی بہت خوبصورت اور خوب سیرت تھے۔آپ کی تصویر کی مزید وضاحت یہ ہے کہ آپ پاکیزہ دہن، ذہن، بدن،قلب اور رہن سہن رکھتے تھے۔

خوش  جمال  و خوش  خصال   و غمگسار  و بردبار

تھاپہاڑوں سے بھی بڑھ کر ان کاعزم وحوصلہ                 (سید خضرحسین)

آپ علیہ الرحمہ کی خوش جمال وخوش خصال  تصاویر کا پُرنور خاکہ جناب پروفیسرڈاکٹر شکیل اوج  (مرحوم)  کے الفاظ میں ملاحظہ کریں:

" ۔۔۔ میں نے کتاب میں چھپی ہوئی جو تصاویر ہیں، اُن میں اتنا دیکھا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے ان کو واقعتاً دیکھاہے، جبکہ حقیقتاً نہیں دیکھا۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ جو میرے ذہن پر نقش ہوگئے اور نہ جانے کیوں بار بار میرے ذہن میں آجاتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی کے ذہن میں اس طرح بار بار آجائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس شخصیت کا عکس اس کے اوپر بہت زیادہ پڑ گیا ہے ۔۔۔۔ میں نے اُن کو جو دیکھا تصویروں کے اندر تومجھے اتنے خوبصورت اتنے پُر نور اور اتنے نورانی لگے کہ میں بتا نہیں سکتا۔"؂[4]

کیا ہی محبت بھرے الفاظ میں اپنے محبوب کی تصویر کشی کی گئی ہے۔جب ایک شخص مسلسل اور ہمہ وقت نورانی افکار،افعال،اعمال،اذکار،اقوال پر عمل کرتارہے تو وہ مجسم اورسراپا نور بن جاتاہے ۔ جس طرح بعض درختوں کے پھلوں میں حلاوت وشیرینی ہوتی ہے لیکن ان کے تنے اورپتوں میں کڑواہٹ لیکن بعض درخت مجسم مٹھاس اورشیرینی بن جاتے ہیں جہاں سے بھی چکھاجائے مٹھاس  ہی مٹھاس بلکہ وہ تو مٹھاس تقسیم کرنے والے بن جاتے ہیں جیسا  کہ"گنّا"۔دنیا میں شکر(چینی) کی فراہمی کا سب سے بڑا اوراہم ذریعہ یہی ہے ۔ اسی طرح آپ علیہ الرحمہ بھی اتنے نورانی بن گئے کہ اب آپ سے ملنے والے ،آپ سے فیض لینے والے، آپ کا نام لینے والے، آپ کی کتب پڑھنے والے ، آپ کی تقاریرسننے والےالغرض آپ سے وابستہ ہونے والے افراد بھی نہ صرف اس نور سے حصہ پانے والے بنے بلکہ انوارتقسیم کرنے والے بن گئے ۔؂[5]

الغرض آپ علیہ الرحمہ کی شخصیت میں قدرت نے حسن و جمال، بلندی کردار واخلاق سب جمع کردیئے تھے ۔ آپ اس قول " ولی اللہ کی رؤیت رب کویاد کرنے کا باعث بنتی ہے"کی عملی تصویر تھے اور ہیں ۔ آپ کو دیکھ کر اللہ رب العزت کی یاد دل میں پیدا ہوتی ہے۔

اندازِ بیاں :

ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ کا انداز بیاں اورآپ کی تقاریر آپ کے اسلام کے بہترین فہم وتدبرکی گواہی دیتی ہیں ۔ آپ کے خطبات ، تقاریر و انداز گفتار کو سمجھنے سے پیشتر یہ جان لینا نہایت ضروری ہے کہ بہترین انداز گفتگو اورتقریر پیش کرنے کے دوطریقے ہیں ۔

نفسیاتی  اورمنطقی طریقہ                              

نفسیاتی طریقہ (Psychological Method)،منطقی طریقہ(Logical Method)
نفسیاتی طریقہ یہ ہے کہ جس میں مقرر یا مصنف اپنے مافی الضمیر کو سہل،سادہ،دلکش اور دلنشیں انداز میں پیش کرے تاکہ کسی بھی علمی سطح اورمقام کا حامل قاری و سامع اس کلام کا مطلب بخوبی سمجھ جائے۔ اس کے برعکس منطقی طریقہ یہ ہے کہ  اپنے کلام کو مدلل،مدقق اور علمی موشگافیوں سے پُر کرکے پیش کیاجائے خواہ قاری یا سامع  اسے سمجھ سکے یا نہ سمجھ سکے۔بالفاظ دیگر نفسیاتی طریقہ میں سامعین کی ذہنی سطح ،علمیت اورجاذبیت مدنظررکھی جاتی ہے اورمنطقی طریقہ میں موضوع یا عنوان کی جامعیت۔ لیکن جب ہم ڈاکٹر محمد فضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ کی تحاریر و تقاریر ان دوطریقوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو ہم حیران و ششدر رہ جاتے ہیں کہ آپ نے کس خوبصورت انداز وپیرائے میں ان دونوں طریقوں کو جمع کیا ہے۔موقع ومحل کی مناسبت سے جہاں جس طریقہ کی ضرورت ہوتی آپ علیہ الرحمہ اس ہی طریقہ کا انتخاب کرتے اور آپ کی تحاریر وتقاریر خود اس انداز میں ڈھل جاتی۔ جس سے اس بات کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ آپ بلند پایہ فلسفی ، دانشور، دانا اور حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین نفسیات دان بھی تھے۔

زمان و مکان اورمو قع ومحل کے آداب

عموماً دیکھا گیا ہے کہ علماء کے کردار ورویوں میں سختی پائی جاتی ہے۔وہ اس امر کاادراک نہیں رکھتے کہ زجروتوبیخ کی شدت بنے بنائے کام کو بگاڑ دیتی ہے۔لہجہ اوراحکام میں نرمی جتنی عمدہ کام دیتی ہے سختی وترش روئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔اصلاح وترقی کے لئے اندرونی بیداری کی ضرورت ہے۔خارج سے احکام کا نفاذ اندرونی اصلاح نہیں کرتا۔اس حوالے سے شریعت و طریقت کی  مثال  انتہائی موزوں ہوگی۔ شریعت میں اعضاء و جوارح کو عبادت(دورکعت فجر) کے لئے آمادہ کرنا پڑتاہے لیکن طریقت میں اعضاء وجوارح خود آدمی کو آمادہ کرتے ہیں۔راہِ طریقت اندرونی اصلاح  اس حد تک کردیتی ہے کہ اب پوری رات قیام بھی دشوار محسوس نہ ہوگا۔

آپ علیہ الرحمہ تبلیغ دین کے لئے  زمان و مکان اورمو قع ومحل کے آداب سمجھتے تھے ۔ صحیح دین کی تبلیغ موقع ومحل سے کام لینے ہی  کی وجہ سے ممکن ہے۔ حق بات بھی اس انداز سے کی جائے کہ سامنے والے کی حتی الامکان دل آزاری ودل شکنی نہ ہو۔ مثلاً ضروری نہیں ہر سچ بولاجائے ۔جھوٹ بولنے کی ممانعت ضرور ہے لیکن ہر سچ ہر جگہ اور ہر وقت کہنا امرشریعت نہیں۔یعنی دوسروں کو ان کی خامیاں گنواکر اوراپنی علمی برتری جتلاکر ہی ان کی اصلاح  کی جائے۔اس موقع پر حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ایک بزرگ کووضوکا صحیح طریقہ سکھانے کا عمل ذہن میں لاتے ہوئے اس نکتہ کوبآسانی سمجھا جاسکتاہے کہ آپ حضرات ذی وقار نے دورطفولیت میں کس بصیرت ،فقاہت،حیاء سے کام لیتے ہوئے اس بزرگ کی اصلاح کی ۔فتدبر!

قصہ مختصر:

حدیث مبارکہ میں بعض بیان کو جادو کہاگیا ہے۔حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: "ان من البیان لسحرا"؂[6] بعض بیان (تو) جادو ہیں یعنی وہ جادو کی طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس حدیث مبارکہ کے دو مفہوم ہیں :

ایک مفہوم تو یہ کہ اگر اس کلا م سے نفسانی خواہشات اورسفلی جذبات ابھرتے  ہوں تووہ جادو کی مانند حرام ہیں دوسرا یہ کہ اس کلام کی تاثیر جادوکی طرح ہوتی ہے۔محاورۃً اس سے مراد یہ ہوگا کہ وہ کلام اتناسحرانگیز  ہےکہ غیر مرئی اورغیر محسوس طریقےسےوہ کلام دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔ ساحرالبیان سامعین کے قلوب کوپگھلاکرجس سانچے میں ڈھالناچاہتا ڈھال لیتاہے۔  حقیقتاً  آپ علیہ الرحمہ کی تحاریر و تقاریر ایسی ہی جادور اثر ہیں۔ اورکیوں نہ ہو جب کہ وہ نفسیاتی طریقہ ، منطقی  طریقہ  دونوں طریقوں کا حسین امتزاج ہیں  اورموقع ومحل کی مناسبت سے ہیں ۔ آپ کی گفتگوکا یہ انداز تھا کہ اگرکبھی ایسے افرادسے بھی خطاب کرتے جو سننے کے لیے تیار نہ ہوتے تو وہ بھی آخر مکمل توجہ اور یکسوئی آپ کی جانب مرکوز کرنے پر مجبور ہوجاتے۔ لفظ توجہ اور یکسوئی اس امر کو ظاہرکرتے ہیں کہ باقی تمام معاملات چھوڑ کر وہ آپ کی خوش کلامی ، خوش گفتاری، سخن دلنوازی، کلام کی صداقت اور اثرپذیری  اورسحربیانی کی طرف متوجہ ہوجاتے اور ان پر ایک سحرساطاری ہوجاتا تھا ۔ گویا وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ مقرر جو کچھ کہہ رہا ہے یہ تو ان کے اپنے دل کی آواز ہے۔ یہ صدائیں ان کے قلوب میں گونج رہی ہیں۔بقول اسداللہ خاں غالب

دیکھنا    تقریر    کی    لذت   کہ   جو    اس    نے   کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

یہ مقام کسی بھی مقرر کا نقطہ عروج ہوتا ہے اور جس کا ہرمقررمتمنی وآرزومند ہوتاہے۔ یہ صلاحیت بہت ہی کم افراد میں پائی جاتی ہے لیکن ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔

تحاریر(اسلوب تحریر)

ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ نے اپنی ابتدائی زندگی میں ہی لکھنا شروع کردیاتھا آپ نے اس سلسلے میں سب سے پہلی کتاب The Beacon Light  تحریر کی جب کہ آپ کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی۔ آپ کی ابتدائی تحاریر کو پڑھنے والا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ آپ کی پہلی و ابتدائی تحریر ہے بلکہ یہ مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے قلم کا تسلسل لگتاہے۔ ایسے شخص کی بلندئ پرواز کا عالم کوئی کیا جانے کہ جہاں اس کے روحانی پیشوا، استاد ،مربی، سپہ سالار ،اور مشنری(تبلیغی) کام میں قائد  کا آخری قدم اور اس کے تجربات ومشاہدات سے بھرپور زندگی کانقطہ عروج ہو وہی اس کے مشن اور نصب العین کا نقطہ آغاز بن جائے۔یقیناًوہ اپنے مشن کو بلندیوں کی انتہاء پر لے جائے گا اور فتح وکامرانی سے ہمکنار ہوگا۔ (سبحان تیری قدرت!)

آپ علیہ الرحمہ نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر جامع کتب کے ساتھ ساتھ کتابچوں اورمضامین کا ایک طویل سلسلہ (سیریز) تحریر فرمایا۔جو" خیر الکلام ما قل و دل"(بہترین کلام وہ ہے جومختصر لیکن جامع(دلائل سے بھرپور) ہو) کی مصداق ہیں ۔ کیونکہ آپ علیہ الرحمہ کی قوتِ مشاہدہ قوی، حافظہ مضبوط، یادداشت دیر پا ، ذہن پر ہر نقش گہرا اور آپ ہرعلم و فن کے تمام گوشوں اور پہلوؤں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اسی گہرائی اور گیرائی کی وجہ سے آپ کی تحاریراختصار مگر جامعیت کے ساتھ ساتھ سادگی وسلاست ،روانی و شستگی، وضاحت وصراحت کا بہترین نمونہ ہیں ۔ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کے قلم کا آخری و انتہائی کام، آپ کی مکمل زندگی کاجامع نچوڑ ، اسلام کے فہم وفراست کا خلاصہ ، مسلمانوں اورانسانیت کے لیے ایک گراں قدر سرمایہ و تحفہ بے بدل بنام:

The Quranic Foundations and Structure of Muslim Society

(قرآنک فاؤنڈیشن اینڈ اسٹرکچر آف مسلم سوسائٹی؂[7] )ہے۔ ڈاکٹرانصاری نے اس علمی شاہکار میں اسلام کی سب سے زیادہ خوبصورت، مکمل اور جامع تصویر کشی کی ہے۔ ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی یہ کتاب امت مسلمہ کے لیے ایک نادر و نایاب تحفہ ہے۔ ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی زندگی کا مقصدقرآن کریم کے معانی  ومفاہیم ، اسرار ورموز،حکمت وبصیرت اور اس کی تعلیمات  کا حصول اور ان کی نشرواشاعت تھا۔اس سلسلے میں آپ نے اپنی زندگی قرآن مجید میں غوروفکروتدبر میں صرف کی اورطویل وکٹھن مسافت کے مصائب سہہ کر آپ نے بڑی جانفشانی سے اس کتاب کو تصنیف کیا۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد قرآن مجید کوآئینی حیثیت دینا تھا۔ اس کتاب کے ذریعے ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ مسلمانوں کے اندرانقلاب آفریں تغیر برپاکرنا چاہتے تھے اور آپ کے نزدیک قرآن کریم ہی وہ واحد ضابطہ حیات ہے جو انہیں اس انقلاب کی قوت مہیاکرسکتاہے۔ دوسری قوموں کے سامنے جھکنے کی  ذلت و رسوائی سے بچاسکتا اور کامیابی سے ہمکنار کرسکتاہے۔اس کتاب پرکوئی تبصرہ کرنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔

نیز صدر الوفاق جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب بارہااپنی تقاریر میں فرماچکے ہیں کہ

"جس طرح اباجان نے قرآنک فاؤنڈیشن مرتب کی اسی نہج پر آپ احادیث مبارکہ پر بھی ایک جامع  ووقیع کام کرنا چاہتے تھے۔جس کے متعلق آپ(ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ) فرماتے تھے کہ اگر یہ کام ہوگیا تو پھر مسلمانوں میں تفرقہ بازی ختم ہوجائے گی ۔ لیکن آپ علیہ الرحمہ  کو اس عظیم وسعید کام کی مہلت ہی نہ مل سکی اورامت کے اختلافات ختم کرانے کی تشنگی باقی رہ گئی۔"؂[8]

کتب انصاری

یوں تو قرآنک فاؤنڈیشن جیسی شاہکار کتاب جو خود مجمع العلوم ہے اس کے بعد آپ کی دیگر کتب کے تعارف کی ضرورت نہیں ۔ لیکن پھر بھی آپ کی دیگر شہرہ آفاق کتب کے نام درج ذیل ہیں جن کے ناموں ہی  سے آپ کی تبحرعلمی کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے کس قدرعلمی تنوع اورجامعیت کے ساتھ دودرجن سے زائد کتب تصنیف فرمائیں:

      The Beacon Light

       The Quranic Foundation And Structure Of Muslim Society

      Islam And Christianity In The Modern World

       The Christian World in Revolution

       Islam in Europe and America

       Islam And Western Civilization

       Beyond Death

      What Is Islam?

       Which Religion?

10۔   Islam Verses Marxism

11۔   Communist Challenge to Islam

12۔   Muslims And Communism

13۔   Through Science And Philosophy To Religion

14۔   Humanity Reborn

15۔   Islam

16۔   Philosophy Of Worship In Islam

17۔   Foundations Of Faith

18۔   Ethics of the Quran

19۔   Islamic Morals and Metaphysical Philosophy

20۔    Meaning of Prayer

21۔   Muhammad: The Glory Of Ages

22۔    A New Muslim World In Making: March Of Islam In The West

23۔   The Present Crisis In Islam And Out Future Educational Programme

24۔    Islam To The Modern Mind (By Yasien Mohamed)

25۔    Islamic Intellectual Revival of the Modern Mind, Mahdie Kriel

26۔   قرآن کا عمرانی فلسفہ

27۔   اسلام اور مارکس ازم

آپ کی تدابیر:(امت مسلمہ کو اپنا گم گشتہ مقام دلانے کے لیے آپ کی تدابیر)

حضور اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: لَا عَقْلَ کَا لتَّدْ بِیْرِ؂[9]

تدبیر کے مثل کوئی عقل نہیں۔یعنی عقل کاتدبیر سے بڑھ کرکوئی عمل  نہیں۔ایک عربی محاورہ ہے کہ لا تَقُلْ بِغَیْرِ فِکْرٍ ولاتَعْمَلْ بِغَیْرِ تَدْبیْرٍ۔غوروفکر کے بغیر کچھ نہ کہو اور تدبیر(Planning) کے بغیر کوئی عمل نہ کرو۔عقل مند شخص اپنی تدابیر ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ اورتدابیر اپنے  عواقب ونتائج  سے پہچانی جاتی ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ نے بھی دورحاضر میں مسلمانوں کی اخلاقی بے راہ روی اورکم زور علمی محاذ و مقام کو سمجھتے ہوئے کچھ تدابیر اختیار کیں۔آپؒ یہ جان چکے تھے کہ اگر کوئی مستقل ، مؤثر اوردیرپا تبدیلی اس امت خوابیدہ کو جگانے کے لیے ہوسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف ایک ایسا ادارہ قائم کرنے سے ہوگی جہاں قدیم و جدید،دینی و دنیاوی، فکری و نظری علوم کی تدریس کے ساتھ ساتھ طلبہ کی اخلاقی وروحانی تربیت کا بھی عملی اہتمام کیا جائے ۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے آپ نے الجامعۃ العلیمیۃ اسلامیۃ کی بنیاد رکھی۔ اور آپ کا تخلیق کردہ یہ نابغۂ روزگار ادارہ یعنی الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیہ اگست کے مہینے میں وجود میں آیا۔ ویسے تواگست کا مہینہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بہت ہی بابرکت رہا ہے۔کہ یہ اگست کا ہی مہینہ تھا کہ مملکت خدادا د پاکستان قائم ہوئی اور آپ(ڈاکٹر صاحب) کی ولادت باسعادت بھی ١٩١٤ء میں اگست ہی کے مہینے میں ہوئی۔

ثانیاً:علیمیہ کے قیام کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ عملی تبلیغ  کے دوران آپ اس حقیقت سے آشکار ہوئے کہ وقتی تبلیغ اگرچہ بہت مؤثر ہے اورسینکڑوں ہزاروں افرادکی ہدایت کا باعث ہے لیکن یہ موجودہ بحران کا ایک مستقل حل نہیں ۔اس کے مستقل حل کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایساطریقہ وضع کیا جائے جہاں ایسے افراد کی کثیر تعداد تیارہوجوخود ان افراد کی ہمہ وقت رہنمائی اورہدایت کے لیے میسرہوں۔

اس تعلیم وتربیت کے لیے مدنی منہج(طریق نبویﷺ) ہی بہترین ہوسکتا تھا۔ایک ایساادارہ تعمیر کیاجائے جہاں دنیا کے مختلف خطوں کے بہترین افراد آکرتربیت حاصل کریں اورپھراپنی قوم کے افرادکواپنی  مادری زبان میں تعلیم دیں۔ جیسا کہ مختلف قبیلوں سے لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں آکرتعلیم حاصل کرتے اورحصول تعلیم کے بعدپھر اپنے قبیلوں میں واپس لوٹ جاتے اوروہاں کے مقامی افرادکی تعلیم وتربیت کرتے۔ اس طرح وہ آپ ﷺ کی خدمت میں اپنے ماحول کی آلودگیوں اورآلائشوں سے پاک رہ کر تعلیم حاصل کرتے۔آپ علیہ الرحمہ نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔آپ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔جس کے لیے ماحول کا صاف ستھراہونانہایت ضروری ہے جس کے لیے انہیں سابقہ ماحول سے باہر لانا ازحد ضروری ہے اس کے بغیر ایسا ناممکن ہے۔ اس لیے آپ مختلف ملکوں سے طلبہ کو اپنے ساتھ لائے اوریہاں کے روحانی ماحول میں ان کی تربیت کی۔ اسی لیے آج ہم دیکھتے ہیں جن افراد کی آپ علیہ الرحمہ نےتربیت فرمائی ان کی پہچان ہی منفرد ہے۔

قبل اس کے کہ آپ کے قائم کردہ ادارے کے نصاب کے متعلق کچھ کہا جائے ،یہاں بہترین نصاب کیا اور کیسا ہونا چاہئے کے متعلق کچھ معروضات پیش کرنا ضروری ہیں ۔ جن کے بعد ہمیں یہ علم ہوگا کہ آپ کس قدر نباض اورزمانہ شناس تھے کہ آپ نے آج سے تقریبا ٦٠ سال قبل اپنی دانش، حکمت اور بصیرت سے اس امر کا احاطہ کرلیا کہ اس امت کے مسائل آج کیا ہیں ، کل کیا ہوں گے اور ان کا ممکنہ حل کیا ہوسکتاہے۔

بہترین نصاب:

نصاب تحصیل علوم  کے لئے شاہراہ پر گامزن ہونا ہے۔بایں معنی اس کی مثال راستہ (Gate way)  کی ہوئی۔شاہراہ جس قدر پختہ وبہترین بنی ہوگی اس پر سفر اتنا ہی آسان ،دلچسپ اورکامیاب ہوگا۔ اس لئے   علوم کی کامیاب تحصیل کے لئے نصاب کا بھی بہترین وجامع ہونا ضروری ہے۔

کسی بھی نصاب کے بہترین وجامع (Comprehensive)  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فرد کی انفرادی دلچسپیوں کی حفاظت کرے، فرد کی نفسیاتی ضروریات و تقاضوں کو پورا کرے، قوم کی ترقی کا ضامن ہو،معاشرتی فکر وسوچ کا عکاس ہو، تمدنی اور موجودہ زمانے کی تمام ضروریات و تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، تہذیبی اور ثقافتی قدروں کی حفاظت کرے ، اعلیٰ اخلاق اوربہترین تربیت سے ہمکنار کرے ، فرد ، معاشرے ، ملک اور قوم کی معاشی  وسیاسی ضروریات کو پوراکرے، مذہبی ہم آہنگی اور برداشت کا مادہ پیدا کرے، عالمی دنیا سے دوستی اور بھائی چارہ پیدا کرے، قومی ،ملی و ملکی سوچ سے ہم آہنگ ہو، عصری تقاضوں اورجدید ٹیکنالوجی کے پیش نظر تغیر و تبدل کو قبول کرے اورقابل عمل ہو یعنی اس پر عمل کیا جاسکتا ہو وغیرہ وغیرہ۔

جب آپ کے مرتب کردہ نصاب کو ہم  مذکورہ بالا  اوصافِ حمیدہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو یہ نصاب ہمیں ان اوصاف سے بڑھ کر نظر آتاہے۔عربی مقولہ ہے کہ  "فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ "(عقلمند شخص کے ہرکام کے پسِ منظرمیں دانائی کارفرماہوتی ہے)کے تحت آپ نے نصاب میں جو بھی مضامین شامل کیے ہیں وہ اپنی جگہ پر دُرِّ بے بدل ہیں ویسے تو ہر کام میں ہمیشہ مزید بہتری کی گنجائش ہوتی ہے مگر آج ساٹھ سال بعد بھی ہم اس نصاب کے بارے میں غوروفکر اور سوچ و بچار کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس مقام پر اس دانا نے کوئی خلاچھوڑ ا ہے جسے پُر کیا جائے ہماری عقلیں حیران و پریشان ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتیں اور ہمیں کہیں کوئی کمی اور خلا نظر نہیں آتا۔ یہ سب آپ کے اخلاص، لگن و انتھک محنت کی وجہ سے ہوا کہ اپنے ارد گرد پھیلائے ہوئے دامِ صیاد(جال) سے محفوظ رہے اور اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے۔بقول شاعر:

لگن ہو جس کے دل میں پہنچ جاتے ہیں منزل تک

حوادث  راستے  میں دام  پھیلایا  ہی   کرتے  ہیں

دوسرے الفاظ میں جو عزم مصمم اور یقین کی دولت سے مالامال ہوکر قافلہ میں شریک ہوں کہ وہ ضرور منزل پر پہنچیں گے تونہ صرف ایسے افراد کو منزل سے روکنا ناممکن ہوتا ہے بلکہ ایسامحسوس ہوتاہے کہ انہیں خود منزلیں ہی پناہ دے رہی ہیں۔ہاں اگرکوئی بے یقینی کا شکار ہو،تذبذب میں گرفتارہو،بے اعتمادی میں مبتلاء ہو توایسے افراد کے قدم بہک ہی جاتے ہیں اوروہ منزل کے نام ونشاں کی گرد بھی نہیں پاتے۔

جو یقین کی راہ پہ چل  پڑے،انہیں منزلوں نے پناہ دی

جنہیں وسوسوں نے ڈرادیا،وہ قدم قدم پر بہک گئے

آپ کے اقوال بیش بہا(دُرِّ منثور):

ایک عاقل ،دوراندیش ،جہاندیدہ  سیاح نورد(بامقصدسیاحت بغرض تبلیغ اسلام) جو بصیرت، حکمت، دانش، معرفت، خداخوفی اورخداترسی ،خیرخواہی،اخلاص کی دولت سے بھی مالا مال ہو۔ اس  کے اقوال یقیناً بیش بہاتحفہ، سرمایہ گرانمایہ اورنعمت بے بدل ہیں ۔ آپ  بھی ایسے ہی ایک فرد ہیں جن کے اقوال میں حکمت و دانش کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔جن کے دہن سے اقوال آفتاب کی کرنوں کی طرح اطراف کو جگمگادیتے ہیں گویا جب آپ کلام کرتے ہیں تو روشنی کا کرنیں نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

؎               وہ بولتاہے تو ایک روشنی سی ہوتی ہے

اسی روشنی (نور)کی ایک ہلکی سی کرن میں   عبادت کی تعریف حضرت علامہ ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ کے قلم مبارک سے ملاحظہ ہو:

"اگر وہ احکام خداوندی کی اطاعت کرتاہوا دائرہ شریعت کے اندررہ کر زندگی گزارتاہے تو اس کا ہردنیوی کام یا مشغلہ ایک عبادت ہے۔عبادت کے اس ہمہ گیرپہلو بہ پہلو جو ساری زندگی پر حاوی ہے اسلام نے زندگی کے چند خاص اوضاع وارکان بھی بتائے ہیں جو انسانی زندگی کی تعمیر میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔"؂[10]

اس تعریف سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں عبادت چند مخصوص اعمال کا نام نہیں ہے جنہیں طوعاً وکرہاً ،خواہی نہ خواہی ،بلا سوچے سمجھے،مشینی انداز یاروبوٹ کی مثل کرلیاجائے ۔یوں تو ویسے بھی یہ انسانی فطرت ہے کہ کتنا ہی باریک بین ،پیچیدہ اوردشوارکام ہی کیوں نہ ہو جب انسان اس کام کو باربار کرتا ہے تو کام کے عمل سے میکانکی  انداز(Mechanical Process) سے گزرجاتا ہے۔جیسا کہ انجن  بنانے والا یا ڈرائیونگ کرنے والا گزرجاتاہے ۔ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم نماز ،تلاوت ،وظیفہ،ذکر اذکار اوردعاکے عمل سے بھی روبوٹ کے انداز میں یعنیFed Data پرعمل کرتے ہوئے گزرجاتے ہیں کہ ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی ہم کیا پڑھ اورکررہے ہیں۔جس کی وجہ سے ہم  ان اعمال سے پیدا ہونے والے نور ، بصیرت اورفہم سے محروم ہیں اور ان اعمال سے پیداہونے والی اچھائیوں  کے  اثرات ہماری زندگیوں پرمرتب نہیں ہورہے ہیں۔ ورنہ دعا اور تلاوت قرآن میں حقیقتاً اتنی تاثیر ہے کہ اگرکوئی شخص پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹانے کے لئے بھی یقین کے ساتھ  دعاکرے یا تلاوت کرے۔تو ضرور بالضرور وہ پہاڑ  اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:

"حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک بیماری میں مبتلا شخص کے کان میں کچھ پڑھا جس سے اسے افاقہ ہوا۔آپ ﷺنے پوچھاکہ تم نے اس شخص کے کان میں کیاپڑھا ہے انہوں نے جواب دیا کہ سورۃ المومنون أفحسبتم أنما خلقناكم عبثا سے آخرتک تلاوت کی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا:لو أن رجلا موقنا قرأ بها على جبل لزال"اگرکوئی صاحب یقین اس کو پہاڑ پر بھی پڑھے تو وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔"؂[11]

آپ کے افکارعالیہ:

حدیث مبارکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کاارشادمبارک  ہے :

من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین۔؂[12]

اللہ رب العزت جس سے بھلائی کا ارادہ کرتاہے اسے دین میں فقاہت عطاکرتاہے۔

اس حدیث کے مفہوم کو منظوماً والد محترم ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:

اللہ جس سے چاہے بھلائی وہ خوش نصیب                 ہوگا فقیہ دینِ محمد(ﷺ) وہ عنقریب

جب انسان کو یہ فقاہت ، فراست و بصیرت  حاصل ہوجائے تو اس کے فہم کایہ  عالم ہوتاہے کہ روز و شب میں گزرنے والے معمولی سے معمولی واقعات و حادثات جو عام افراد کے لیے صرف ایک واقعہ یا حادثہ کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن یہی واقعات ان حضرات قدسیہ کےلئے رب کا عرفان و معرفت کاسبب ہوتے ہیں۔جس میں ہر لمحہ اضافہ ہوتارہتاہے۔ بقول شاعر

انقلابات جہاں واعظِ رب ہیں دیکھو

پھر تغیر سے صداآتی ہے فافہم،فافہم

آپ اپنے فہم وفراست کی وجہ سے " الحکمۃ ضالۃ المؤمن فحیث وجدھا فھو احق بھا"؂[13] (حکمت ودانائی مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں کہیں اس کو پائے وہ اس کا زیادہ حقدارہے) کی عملی تفسیر تھے۔یہاں حکمت کی وضاحت کرنا غیرمتعلق نہ ہوگا کہ یہ حکمت ہے کیا؟جس کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد فرمایاگیا ہے کہ جسے حکمت سے نوازا گیا اسے خیر کثیرعطاکیاگیا۔

يُّؤْتِي الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ  وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا کَثِيْرًا ؂[14]

اللہ تعالیٰ جسے چاہتاہے حکمت عطافرماتاہے۔ اورجسے حکمت عطا کی گئی پس اسے خیر کثیرسے نوازا گیا۔

امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ  اس حکمت کو نورسے تشبیہ دیتے ہیں ایسا نور جو رشدو ہدایت کا سبب ہو،آپ فرماتے ہیں:الحکمۃ والعلم نوریھدی بہ اللہ من یشاء؂[15]

حکمت اورعلم نورہیں اوراللہ عزوجل ان کے ذریعے جنہیں چاہتا ہےہدایت عطا فرماتاہے۔

امام راغب اصفہانی ؒ حکمت کی تعریف ان الفاظ میں  بیان کرتے ہیں:

الحکمۃ اصابۃ الحق بالعلم والعقل؂[16] یعنی علم اورعقل کے ذریعے حق کوجانناحکمت کہلاتاہے۔

جب کہ علامہ  ابن منظور افریقیؒ کے نزدیک بہترین اورافضل چیز کو علم کے ذریعے جاننا حکمت کہلاتاہے۔آپ تحریر فرماتے ہیں:

الحکمۃ عبارۃ عن معرفۃ افضل الاشیاء بافضل العلوم۔؂[17]

یعنی افضل اوربہترین چیز کو علم کے ذریعے جاننا حکمت کہلاتاہے۔ یعنی حکمت علم کا سب سے اونچا درجہ ہے۔اورحکمت کا بلند ترین مقام تقویٰ ہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

رَأسُ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللہ؂[18] "حکمت کا بلند ترین مقام تقویٰ ہے۔"

حکمت کی ان تمام ترتوضیحات وتشریحات کی روشنی میں  جب ہم ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کی ذات گرامی کودیکھتے ہیں تو آپؒ کو بعطائے خداوندی اوربفیضانِ رسالت(ﷺ) ان تمام اوصاف سے متصف پاتے ہیں۔ ڈاکٹرانصاریؒ کی علم ہنر و حکمت میں یکتائی  اس خوبصورت شعر کی صورت میں بیان کی جاسکتی ہے:

حکمت وعلم وہنر میں کون ہے ان کی مثال

کوئی    ان   سا   ہے   کہاں ،   عالم    مفکر   پارسا                              (سید خضرحسین)

 آپ علیہ الرحمہ کی حکمت ودانائی ،فہم وفراست،علم وبصیرت  کا نہ صرف مسلمان طبقہ بلکہ غیر مسلم طبقہ بھی قائل تھا۔جس کی طرف جناب پروفیسر محمود صدیقی  صاحب کچھ یوں  اشارہ کرتے ہیں:

"غیرمسلم ان کی علمی بصیرت کے اس قدرمداح تھے کہ ان کوگریٹ تھنکر کا خطاب دیاگیا ، وہ کوئی سیاسی شخصیت یاسرمایہ دار نہیں تھے لیکن عالم اسلام میں لاکھوں افراد کے دلوں میں ان کا ایک مقام ہے۔"؂[19]

جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر کیاگیا مذکورہ بالا اوصاف  حمیدہ سے متصف ہونے کی بنا پر آپؒ  کے افکار بھی یقیناً بیش بہاتحفہ، سرمایہ گرانمایہ اورنعمت بے بدل ہیں ۔ نیز آپؒ کو جہاں کہیں بھی قابل قدر فرد،کتاب،کلام اورحکمت کے موتی ملے آپ ان کو چنتے رہے اوران کو اپنی ایک تسبیح میں پروتے رہے۔ آپ اس بات کے قائل تھے حکمت و دانائی جب ملے ، جہاں سے ملے اور جس سے ملے اسے حاصل کرو یہ ہماری ہی گمشدہ میراث ہے۔

جب ہم  آپؒ کے افکار پر غوروفکر کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آپؒ جاہ پرستی، فرقہ واریت، مسلکی تعصب،نفرت ، حسد اوربغض سے کوسوں دور تھے۔آپ ؒ ان مذموم فکروں کو مسلمانوں کے لئے سم قاتل سمجھتے تھے۔جن کی وجہ سے امت ِ مسلمہ کا شیرازہ بکھرا ہواہے اوریہ امت اس وقت  ذات پات اورلسانی تعصبات کا شکار ہوچکی ہے۔

ذاتوں میں خاندانوں میں تقسیم ہوگئے

ہم   مادری   زبانوں  میں   تقسیم ہوگئے

 آپ علیہ الرحمہ امت محمدیہ(علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کے اس مرض کو سمجھ چکے تھے ''تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰي''؂[20] یعنی کہ آپ علیہ الرحمہ  انہیں ایک جمعیت(متحد) سمجھتے ہیں لیکن ان کے دل متفرق ہیں اور یہ سب ایک دوسرے سے متنفر اوربیزارہیں۔ اس پرمستزاد  یہ کہ انہیں  قیادت بھی ان رہنما ؤں کی ملی ہے  جو تفرقہ بازی اورانتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔وہ قطعاً امن وامان اوراخوت وبھائی چارہ کے قائل نہیں کیونکہ ان کے معاش (پیٹ پوجا)اورمادی مفادات کا تمام ترانحصار ان ہی کی تفرقہ بازی اورانتشار میں ہے۔تو ایسی صورت میں امن وآشتی  کا خواب بھی دیکھ لینا بہت بڑی بات ہے۔

وہ  رہنما  ہیں کہ تفریق پر ہے جن کی معاش

ہم ایسے خواب میں بھی امن وآشتی دیکھیں

آپ علیہ الرحمہ نے اپنی تمام طاقتوں اورقوتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے اس منتشر اور بکھری ہوئی امت کو یکجااوراکھٹا کرنے کی کوششیں کیں اور اس امت کو  گم گشتہ پیغام یاد دلایا اور ایک ہی نعرہ اور فکر دی

      Back to Quran and Back to Muhammad

یعنی لوٹ آؤ قرآن کی طر ف اور محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف۔

آپ علیہ الرحمہ نے ہمیشہ اپنے اس مشن ،مقصد اور نصب العین(لوٹ آؤ قرآن کی طر ف اور محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف) کو سامنے رکھا ،اس پیغام کولے کراکناف عالم میں گئے اوروہاں کے باشندوں کو اس کی طرف بلایا ۔ اگر کہیں کسی بھی قسم کی  کوئی رکاوٹ آپ کودرپیش آئی وہ رکاوٹ بھی آپ علیہ الرحمہ کے پہاڑ جیسے حوصلے کو پست نہ کرسکی، بقول شاعر

دلوں کے حوصلے بڑھ کر گھٹا نہیں کرتے

پہاڑ   اپنی   جگہ   سے   ہلا   نہیں  کرتے

لیکن اگر کوئی آپ علیہ الرحمہ  کے اس منہج و طریقہ کواس مثل کی مانند" زمانہ با تو نسازد تو بازمانہ بساز"'' چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھرکی؂[21] ''(در مع الدار حیث دار) کا نام دے تو یہ آپ کے ساتھ صریح ناانصافی اورظلم ہوگاکیونکہ آپ  اس پر عمل پیرا تھے کہ

زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز

زمانہ تیرے موافق نہیں تو تُو اسے اپنے موافق بنانے کے لئے تگ و دو کر

لہذا آپ دریاؤں میں طغیانی کے باوجود پانی کے بہاؤ پر  بہنے والے نہیں تھے بلکہ ان طوفانوں کی تمام تر شدت کے باوجودان کے سامنے بندباندھنے اوران کے رخ موڑنے والوں میں سے تھے۔جس کا واضح ثبوت آپ علیہ الرحمہ کا مغربی تہذیب کے سیلاب  کو روکنا اورباطل افکار کے طوفانوں کا رخ موڑناتھا ۔ بقول شاعر

رو  میں  تنکے  کی  طرح  بہنا  تو کچھ مشکل نہیں

بات توجب ہے کہ طوفانوں کے رخ موڑ دے

لہذا آپ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے اورآپ کی  ذات پر تنقید کرنے والے اور اس طرح کے کلمات کہنے والے آپ کو اپنے مشن سے نہ کبھی ہٹا سکے اور نہ ہی ہٹا سکتے تھے کیوں کہ آپ اس بات پر عمل پیراتھے کہ اگر ان بے جا تنقید کرنے والوں کا تعاقب کیا جائے تو یہ منزل تک رسائی میں مزیدتاخیر کا باعث بنے گا۔ لہذا ان کا تعاقب کرنے اوران  کے پیچھے بھاگنے  کے بجائے  میں کیوں نہ منزل کی طرف دوقدم اورآگے بڑھالوں۔توایسے شخص کو اپنے مشن سے کبھی نہ کوئی ہٹا سکا اور نہ ہی ہٹا سکے گا۔

کیا  کبھی  روک بھی  سکتے  ہیں سفر سورج کا

وہ اندھیرے جو اجالوں سے حسد رکھتے ہیں

آپ کے اذکار(آپ کا تذکرہ)

آپ علیہ الرحمہ  کی زندگی کے حالات کا جاننا، آپ کا مسائل سے نبر د آزما ہونے کے طریقہ سے آگاہ ہونا، آپ کے تبلیغی اسفار کا مطالعہ کرناصحافت میں آپ کے کارہائے نمایاں کا ذکرخیرکرنا، دشمنان و گستاخان رسول کے  سامنے سینہ سپرڈٹے رہنے کا تذکرہ کرنا،تعلیمی نظام کی اصلاح وبہتری کے لئے کیے گئے آپ کے اقدامات کو سمجھنا ،نصاریٰ وقادیانیوں کوحکیمانہ اورمؤمنانہ فراست سے چاروں شانے چت کرنا اور آپ کی دیگرمساعئ جلیلہ کا علم رکھنا آج کے نوجوان،بزرگ، طالب علم ، استاد، الغرض زندگی کے تمام شعبوں کے افراد کے لیے نہایت ضروری ہے۔یہ ذکر ایک مہمیز اور تحریض کی حیثیت رکھتا ہے اورآپ کا ذکر و تذکرہ کرنا ویسے بھی باعثِ رشد و ہدایت وموجب خیرو برکت  ثابت ہوگا (انشاء اللہ)۔بقول شاعر

مجھے  غرض  کسی  سے  نہ  واسطہ  مجھے  کام اپنے ہی کام سے
تیرے ذکر سے تیری فکر سے تیرے نام سے تیری یاد سے

آپ کے تربیت یافتہ افراد:

معاشرے کی انقلابی ، دیرپا اوردائمی اصلاح  کے لیےسب سے اہم امر افراد کی کردار سازی ہے۔ کردار سازی کے بغیر انقلاب برپاکرنا( اصلاح معاشرہ) ناممکن ہے۔حضور اکرم ﷺ نے بھی   سب سے پہلے حکومت قائم کرنے کی طرف توجہ نہیں فرمائی (حالانکہ آپ ﷺکو پیش کش بھی کی گئی تھی) بلکہ آپ ﷺ نےپاکیزہ افراد کا گروہ تیارکیا یہ (گروہ)وہی نفوس قدسیہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں جونہ صرف آپ کے دست وراست بنے بلکہ مثل پروانہ آپ پر جانثاری کے جذبہ سے سرشار تھے۔علامہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب اطال اللہ عمرہ اس نکتہ(یعنی افراد کی کردار سازی ) کی وضاحت کچھ یوں فرماتے ہیں:

"رسول اللہ ﷺ نے جس انسانی اثاثے سے انسانی تاریخ کا فقید المثال انقلاب برپاکیا، اس کے لیے سب سے پہلے افراد تیارکیے،ان کے نفوس کا تزکیہ کیا ، ان کے قلوب واذہان کو رذائل سے پاک کیا، ان میں جوہرِ اخلاص کوٹ کوٹ کربھرا، انہیں راہِ حق میں مشکلات کو برداشت کرناسکھایا، ہر وہ آپ ﷺ کی تربیت کے سانچے میں ڈھل کرکندن بن ۔ چشمِ فلک نے آج تک اتنا پاکیزہ انسانی معاشرہ نہیں دیکھا۔"؂[22]

بہرکیف آپ علیہ الرحمہ نے آقائے نامدار  رسول عربی ﷺ  کی سنت پر عمل کرتے ہوئے  دنیا بھر سے آئے ہوئے علوم قدیمہ وجدیدہ  سے بے بہرہ  افراد کو تعلیم وتربیت کے سانچے میں ڈھال کر مثل کندن بنادیا۔ ان کی صحیح تعلیم و تربیت  سےان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کونکھارا اور ان عام افراد کوبلندکردار اور عالی افکار علماء میں ڈھالا۔بقول علامہ الطاف حسین حالی

بے ہنروں میں ہیں قابلیت کے نشاں

پوشیدہ ہیں وحشیوں میں اکثرانساں

عاری ہیں لباس تربیت سے ورنہ ہیں

طوسی ورازی انہیں شکلوں میں نہاں

کردارسازی:

لیکن کردارسازی یاشخصیت سنوارنااتناآسان نہیں!یہ  مجسمہ سازی کے فن سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ کیونکہ مجسمہ تو بے جان چیزوں سے بنتا ہے ۔ خواہ لوہا،موم، سونا ،مٹی وغیرہ کسی بھی مادہ سے بنایا جائے ہوتا بے جان ہے اور انسان کے ہاتھوں میں کھلونے کی مانند ہوتاہے۔ جس کی اپنی کوئی مرضی اور خواہش نہیں ہوتی۔ اسے جس انداز سے بھی موڑا،توڑا،جوڑا یا پھر چھوڑا جائے اسی طرح مدتوں پڑا رہے گا۔انسان اس میدان میں جتنا ماہر ہوتاجائے گا اسی قدر مجسمہ بہتر سے بہتر ،آسان سے آسان اور کم وقت میں تیار ہوجائے گا۔ لیکن اس کے برعکس  کردار سازی کرنا اتنا آسان نہیں۔یہاں ہر شخص ایک نیافردہے ،ہردن ایک نیا دن ہے،  اس کے لیے نیاانداز،نئی فکر،نیااسلوب  جدید طرزچاہیے۔ کیونکہ انفرادی اختلافات،خاندانی پسِ منظر، ماحول،تربیت، ذوق،مزاج، طبیعت، سرشت  ودیگر بہت سے عوامل ہیں جو کردارسازی پر اثراندازہوتے ہیں۔ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا مطلوبہ مقاصدونتائج فراہم نہیں کرتا۔اس کے  لئے  اخلاص اورللہیت کے ساتھ  ساتھ عمل پیہم،جہدِمتواتر، سعئ مسلسل، نظم وضبط،سلیقہ مندی اور اعلیٰ طریقہ کار  کا اپنایاجانا نہایت ضروری ہے جو نفسیاتی(Psychological) ، ذہنی (Intellectual) ، جسمانی(Physical)، روحانی (Spiritual)، جذباتی(Emotional)، سماجی (Social)، جمالیاتی(Aesthetical) الغرض انسانی زندگی کے ان تمام پہلوؤں  اورشعبوں پر محیط ہو۔

اس کے علاوہ تربیت بہت ہی صبر آزما ،طویل المیعاداور کل وقتی کام ہے جو مہینوں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ایک عمل پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے۔یہ اساتذہ اور والدین سے ہمہ وقت تحمل، بردباری اور برداشت کے ساتھ وقت کاتقاضہ کرتا ہے۔ ان سے صدق اور  خلوص کامتقاضی ہے۔ ہاں جب مندرجہ بالا تمام امور کے ساتھ صداقت کی مہک بھی اس تدریس میں شام ہو تو پھر انسان واقعی پتھردل افراد کی بھی کردار سازی کرسکتاہے۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی  تدریس  سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

 سب سے بڑھ کر تربیت اورکردار سازی کے لئےظاہری  بصارت سے زیادہ نورِ بصیرت اور دوسروں کے اندر جھانکنے  کی صفات سے متصف ہونا اشد ضروری ہے۔ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ  کو اللہ رب العزت نے ان تمام  صفات متصف فرمایا تھا۔  آپ علیہ الرحمہ  کے صاحبزادے اپنے ایک مضمون میں اس  حقیقت کا کچھ یوں اظہار کرتے ہیں:

"اللہ رب العزت نے آپ علیہ الرحمہ کو انسانی فطرت  پہچان لینے کی منفرد صلاحیت سے مالامال کیاتھا اورآپ علیہ الرحمہ کو دوسروں کے اندرجھانک لینے اوران کے ذہن پڑھ لینے کی غیر معمولی بصیرت عطا فرمائی تھی ۔یہ ایک عام مشاہدہ تھا کہ اپنے خطابات میں آپ سوفیصد اس مسئلہ کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے جو ایک فرد کے ذہن موجود ہوتا اورجواب میں ٹھیک اس کے مسئلہ کا حل پیش کرتے۔ایک وصف جو صوفیا میں بالعموم پایاجاتاہے۔ "؂[23]

اس انداز تربیت کے حامل شخص کے تربیت یافتہ افرادپرکسی قسم کاتبصرہ کرنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہوگا! بس اتنا ہی کہنے پر اکتفاکروں گا کہ آپ کے تربیت یافتہ افراد(آپ کی حقیقی وروحانی اولاد) ہمارے لیے مشعلِ راہ، راہنما، لائق سیادت وقیادت ہیں۔ اگرچہ ان افراد کی ایک بہت طویل فہرست ہے۔ ان میں سے ہرایک ہمہ پہلو دُرّ ثمین اور گوہر نایاب و بے بدل ہے جس کا کوئی ثانی  ونظیر نہیں ہے۔لیکن یہاں صرف چند ایک کے اسماء گرامی ہی نقل کروں گا  جن میں آپ کے فرزند ارجمند جناب مصطفی فاضل انصاری صاحب (صدر ورلڈفیڈریشن آف اسلامک مشنز)، جناب شیخ جعفرصاحب (مرحوم) علامہ پروفیسر ابومحمد فہیم انوار اللہ صاحب (ڈائریکٹروسابق پرنسپل جامعہ علیمیہ)،ڈاکٹر عمران نذر حسین صاحب(سابق پرنسپل جامعہ علیمیہ)، ڈاکٹر وافی محمدصاحب، ڈاکٹر محسن ابراہیم صاحب ، جناب ڈاکٹر عالمگیر صاحب(بنگلہ دیش)عبدالرشید اسماعیل صاحب، جنا ب شیخ علی مصطفی صاحب (سابق پروفیسر جامعہ علیمیہ) ، پروفیسرمشیربیگ صاحب (مرحوم) وغیرہ جیسے سینکڑوں نفوس آپ کے مشن اور مقصد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں ۔ رب کریم ان میں سے مرحومین کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے اورجوحضرات بقید حیات ہیں ان تمام نفوس قدسیہ کو اپنی حفاظت ورحمت اور امان میں رکھے اور ان کی اسلام اور دین کے لیے کی گئی خدمات کو قبول فرمائے۔(آمین)

الغرض آپ (ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاری علیہ رحمۃ الباری)اسم بامسمیٰ تھے اوراس امت پر رحمٰن کا فضل اور اسلام اورمسلمانوں کے انصار بن کر دنیا میں تشریف لائے۔آپ علیہ الرحمہ ہمارے لیے صراط الذین انعمت علیہم کا نمونہ اوراس کی عملی تفسیر ہیں ۔آپ ایسے بطلِ جلیل ہیں جو تلاطم و طوفان سے گھبرانے والے نہیں بلکہ ہر تلاطم و طوفان کے باوجود ماہر تیراک کی طرح  بحر ذخار سے بھی کامیاب و کامران نہ صرف خود ہوئے بلکہ اپنے اردگرد کے تمام افراد کو اس گرداب اوربھنور سے نکال لائے اور وہ تلاطم و گرداب صرف آپ کی قدم بوسی ہی کرسکے اس کے علاوہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچاسکے۔ بقول شاعر

تلاطم خود بخود بے تاب رہتاہے سلامی کو

اگر  تیراک  اچھا ہو تو دریا کچھ نہیں کہتا

یا ایک اور شاعر کے الفاظ میں اس صورتحال کو کچھ یوں بیان کیاجاسکتاہے کہ جو افراد پختہ ارادوں کے ساتھ ساتھ توکل علی اللہ کی نعمت سے مالا مال ہوں وہ موجوں کی طغیانی سے گھبراتے نہیں ہیں:

ارادے جن کے پختہ ہوں نظرجن کی خداپرہو

تلاطم خیز موجوں  سے  وہ  گھبرایا نہیں کرتے

رحلت:

آپ علیہ الرحمہ 11جمادی الاول 1394ھ بمطابق 3 جون 1974ء کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔اگرچہ آپ کی فرقت کا احساس ہرآنکھ کو اشکبار اوردل کوغمگین کردیتاہے۔ لیکن  !

دل  کو  سکون ،  روح  کو  آرام آگیا     

موت آگئی کہ دوست کا پیغام  آگیا                 (جگر)

واقعی یہ موت نہیں دوست کا پیغام تھا ۔یہ جدائی نہیں دوست سے  وصال  کا وقت تھا ۔آپ علیہ الرحمہ کے رحلت کے واقعات کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:

علیمیہ اسپیکرفورم میں ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کے عرس کے موقع پرمنعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے   آپ کےآخری لمحات اوروصال کے چشم دید گواہ وعینی شاہد آپ کے صاحبزادہ جناب مصطفیٰ فاضل انصاری زیدمجدہ نےآپ کی رحلت کا واقعہ جس  پُرسوزکیفیت میں بیان فرمایا ہے اس میں اہل ایمان اور عشاق کے لیے بڑی لذت ومسرت کا سامان ہے۔ ان تفصیلات(رب کی عنایات وسعادتوں کے نزول کی کیفیت) کو باربارسننے کادل چاہتاہے اوریہ آہستہ آہستہ دل کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اوربے اختیار زبان پر آتاہے کہ ایسی سعادت کی موت پر ہزاردنیاوی زندگیاں قربان!

صدر الوفاق جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب فرماتے ہیں کہ جب ابا جان سفرآخرت پر روانہ ہونے والے تھے اس وقت آپ کے خون میں  یوریا کی مقدار بہت زیادہ  بڑھی ہوئی تھی ۔حضرت علیہ الرحمہ کے معالج جناب  ڈاکٹرمحمد علی شاہ صاحب جو آپ کے مرید بھی تھے وہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

"اگر کسی شخص کے خون میں یوریا کی اتنی زیادہ مقدار ہو توگویا رگوں میں خون کے بجائے آگ دوڑ رہی ہے ، ایسا فرد تو کامہ میں چلا جاتاہے اوراپنے ہوش وحواس سے بیگانہ ہوجاتاہے  لیکن حیرت ہے حضرت صاحب نہ صرف شعور ی کیفیت میں ہیں بلکہ مسلسل مسکرارہے ہیں اورتلاوت قرآن  مجیدبھی لبوں پر جاری ہے۔(سبحان اللہ) "؂[24]  

صدر الوفاق جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب نے ایک مضمون میں اپنے والد علیہ الرحمہ کے ان الوداعی لمحات کی کچھ یوں منظرکشی کی ہے۔یہ مضمون Dr. Ansari: The Ghazali of his Age میں بعنوان"Thus he lived" شائع ہوچکا ہے۔

"یہ بروز پیر3جون  1974 کے لمحات تھے۔ جب ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ شدید تکلیف  میں  مبتلاتھے۔ انہوں نے اپنے معالج سے کہا کہ کیا تم مجھے تھوڑا سا سہارانہیں دے  سکتے۔ اس کے جواب میں  ڈاکٹرانصاری نے دیکھا کہ ان کے معالج کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہنے لگی اور ناامیدی اور بے بسی ان کے چہرہ سے عیاں تھی ۔(یہ دیکھ کر) اسلام کے ایک بہادر مجاہد کی طرح ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہنے کہا ٹھیک ہے۔یہ الوداع کہنے کا وقت  ہے۔انہوں نے مجھے تمام دروازے اورکھڑکیا کھولنے اورجگہ بنانے کا حکم دیا۔فضامیں سورہ رحمن کی خوبصورت اوربلند آواز گونجنے لگی۔ جس میں آپ علیہ  الرحمہ دل کی گہرائیوں سے اپنے آقا کا شکر بجالارہے تھے۔جیسے ہی آپ سورہ رحمن  کے اختتام پر پہنچے آپ علیہ الرحمہ کی آواز ایک خاص ردھم میں آہستہ ہونا شروع ہوگئی۔اس تمام اثنا میں آپ علیہ الرحمہ بارباراپنا دایاں ہاتھ بلند کرتے  گویا کہ کسی سے ہاتھ ملارہے ہوں۔تمام گھرنورسے جگمگااٹھا۔آواز آنا بالکل بندہوچکی تھی۔ لیکن کوئی بھی آپ علیہ الرحمہ کی زبان ہلتی ہوئی دیکھ سکتا تھا گویا کہ آپ  اللہ، اللہ ، اللہ کہہ رہے تھے۔اور پھر حرکت بھی بند ہوگئی ہے۔ پاکیزہ روح اپنے آقا سے ملنے روانہ ہوچکی تھی۔آقا بزرگ وبرتر،رحمن ورحیم سے۔ اللہ رب العزت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ کی روح امن و سلامتی میں رکھے اورانعامات  اوراپنی بہترین برکات سے نوازے ۔آمین۔"؂[25]

قبلہ جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب  اپنی ایک تقریر میں مزیدفرماتے ہیں کہ آخری وقت ابا جان علیہ الرحمہ سورۃ رحمٰن کی بلند آواز میں خوش الحانی سے تلاوت فرمارہے تھے اور بار بار اپنے داہنے  ہاتھ کو بلند کرتے  جب پہلی دفعہ آپ نے ہاتھ بلند کیا تو میں (مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب)سمجھا  کہ مجھے طلب فرمارہے ہیں میں جیسے ہی اپنی نشست سے اٹھا تو والدہ محترمہ(جو خود بہت بڑی ولیہ تھیں) نےمجھے روک دیا اورکہا بیٹا تمہیں نہیں بلارہے۔جیسے جیسے سورہ رحمن کی تلاوت تکمیل تک پہنچ رہی تھی آپ کی آواز دھیمی ہونا شروع ہوگئی ۔تلاوت کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ سے "اللہ،اللہ اللہ" کہا اورپھرخاموش ہوگئے۔والدہ محترمہ نے کہا "چلے گئے"۔؂[26]

آہ   وہ   عاشق    کلام    اللہ                    عالم   و   فاضل   و   ولی  اللہ

دیکھ کس شان سے ہوا رخصت                     بر  زباں   لا  الہ   الا  اللہ

سبحان اللہ! اس واقعہ کو سننے کے بعد ذہن میں دفعۃً(اچانک)یہ آیت مبارکہ  گونجتی  ہوئی محسوس ہوتی ہے:يَاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ .ارْجِعِيْ ۤ اِلٰي رَبِّکِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً. فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ . وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۔"اے اطمینان والی جان  اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی ۔پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو اورمیری جنت میں آ۔" ؂[27]

نیز جیسا کہ صدر الوفاق مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب نے فرمایا کہ آپ ہاتھ اس طرح بلند کررہے تھے گویا نہ نظرآنے والی مخلوقات کو سلام کررہے ہوں۔ یقیناً یہ نورانی مخلوق (فرشتے ) ہی ہوں گے جس کی طرف قرآن مجید کی سورہ حم السجدہ میں بھی ذکرملتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۤئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۔ نَحْنُ اَوْلِيَاؤُکُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ  وَلَکُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ ۔ ؂[28]

جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہی ہے  پھر وہ اس پر قائم رہے( ایمان اورنیک اعمال صالحہ پر قائم رہے) ان پر فرشتے اتریں گے (موت کے وقت اورکہیں گے) نہ خوف کرو(موت اس کے بعد پیش آنے والے واقعات پر) نہ غمناک ہو ؂[29] (جو دنیا میں تم پیچھے چھوڑ کر جارہے ہو اولاد ،مال  ودیگر اشیاء ان کی فکر نہ کرو بے شک اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے ان کی حفاظت کرے گا) اوربہشت کی جس کا تم سے  وعدہ کیاجاتاہے خوشی مناؤ، ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے (تمہاری حفاظت اور تمام ضروریات کے کفیل تھے) اورآخرت میں بھی تمہارے رفیق ہیں(تمہارے ساتھ رہیں گے یہاں تک کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤاورجنت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے) اور وہاں جس نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گی (جنت میں جس نعمت کی انسان خواہش کرے گا وہ اسے فوراً مل جائے گی)اورجوچیز طلب کرو گے تمہارے لئے موجود ہوگی۔خدا غفور رحیم کی طرف سے مہمان نوازی ہوگی(یہ سب عنایات  اللہ عزوجل کی جانب سے، نیز ان پاکیزہ نفوس کومہمان نوازی کاشرف  بھی بخشاجارہاہے)۔ [30]

نیز صدر الوفاق مزید اسی کیفیت کو اجاگرکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس وقت ایک خاص قسم کے نور سے کمرہ معمور تھا اور خاص قسم کی اعلیٰ خوشبو چارسو پھیلی ہوئی تھی جنہیں لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔[31]

اس وقت حجرہ مبارک میں والدہ ماجدہ (زوجہ محترمہ ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ) ، ڈاکٹرصاحب (معالج)، حضرت جعفر شیخ صاحب، دیگرافراد اورمیں خود(جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب) بھی موجود تھا۔

اس واقعہ سے ایک اور چیز مترشح ہے کہ عموماً ایسے مواقع پر لواحقین بین کرتے ہوئے، نوحہ کناں اورسینہ کوبی میں مبتلادکھائی دیتے ہیں لیکن یہاں الحمدللہ  علی احسانہ! ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کی تعلیم تربیت کا اثراس کٹھن مقام پر بھی بدرجہ اتم نظرآتا ہے اورآپ کے لواحقین صبر وتحمل کی عمدہ مثال پیش کرتے نظرآتے ہیں۔ اس موقعہ کو دیکھتے ہوئے ذہن دفعۃ اس حدیث مبارکہ کی طرف چلاجاتاہے:انما الصبر عند الصدمۃ الاولیٰ؂[32]  

آپ ﷺ نے فرمایا صبر توپہلی چوٹ پرہوتاہے۔(یعنی صبر تو صدمہ کی ابتداء وآغاز میں ہوتا  جب  انسان صدمہ سے نڈھال ہو،دل خون کے آنسو رو رہا ہو،غم انتہاء حدوں کو چھورہا ہو،اس وقت انسان رضائے الٰہی کی خاطر صبرسے کام لے،ضبط کے بندھن کو ہاتھ سے نہ جانے دے یہی صبر کہلائے گا۔ورنہ اس  نظام کائنات میں انسان کی سرشت میں رکھا ہی ایسا گیا ہے کچھ مدت گزرنے کے بعد سانحہ کتنا ہی عظیم وبڑا کیوں نہ ہو انسان کے ذہن سے محوہوجاتاہے اور آخر کار انسان کو صبر آہی جاتاہے لیکن جس پر مرورِ زمانہ مرہم رکھ دے وہ صبر نہیں کہلائے گا۔یہ پورا واقعہ خودمصطفیٰ فاضل  انصاری صاحب  نے بیان فرمایا ہے۔ جس کے وہ چشم دید گواہ ہیں۔

آخری الفاظ کلمہ طیبہ  ہونے پر جنت کی بشارت:

امام ابوداود روایت کرتے ہیں: عن معاذ بن جبل قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة " ؂[33]

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس کا آخری کلام "لا إله إلا الله" ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔

عالِم کی موت:

حدیث مبارکہ میں  ہے  کہ عالم کی قبر میں اللہ رب العزت اس کے علم کو ایک صورت وشکل میں بھیجتا ہے جو قیامت تک اس عالم کی مؤنس اور محافظ ہوگی ۔

وعن ابن عباس قال: قال رسول الله :إذا مات العالم صور الله له علمه في قبره، فيؤنسه إلى يوم القيامة ويدرأ عنه هوام الأرض. ؂[34]

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب عالم کا انتقال ہوجاتاہے اللہ تعالیٰ اس کا علم صورتاً  (کسی شکل وصورت میں)قبر میں اس کے پاس بھیجتا ہے جو قیامت تک اس کا مؤنس ہوگا اور اس کوحشرات الارض سے بچائے گا۔(یعنی تمام قسم کی ایذاء پہنچانے والی چیزوں سے یہ اس عالم کی حفاظت کرے گا۔)

متعلم اور معلم کی فضیلت:

ایک اورروایت میں متعلم اورمعلم کی فضیلت میں آتاہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ خیرسیکھو اور اسے سکھاؤ۔بے شک میں اس کی قبر کو روشن کردوں گا جس سے اسے وحشت کا احساس نہیں ہوگا۔

وأوحى الله إلى موسى :تعلم الخير وعلمه الناس، فإنى منور لمعلم العلم ومتعلمه قبورهم لا يستوحشوا بمكانهم. ؂[35]

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی خیر (نیکی) سیکھو اورلوگوں کو سکھاؤ  بے شک میں سیکھنے والے اورسکھانے والے کی قبر کو روشن کردوں گا اوران کو اس مکان(قبر) سے وحشت محسوس نہ ہوگی۔

صدقۂ جاریہ:

ایک حدیث مبارکہ میں حضور ﷺ نے انسان کے نیک اعمال کے ثواب کے متعلق فرمایا کہ انسان کے نیک اعمال کا سلسلہ موت کے ساتھ ہی منقطع ہوجاتاہے سوائے ان چند امور کے:وہ عالم جو علم پھیلانے میں مصروف ہو، یا کسی نے نیک صالح اولاد چھوڑی ہو جو نیک کام کرنے کے ساتھ اپنے والدین کے لیے استغفار کرتی ہو،یا کسی نے قرآن مجید وراثت میں چھوڑا ہو ،یا کسی نے مسجد کی تعمیر کی ہو،یا کسی نے مسافرخانہ تعمیر کیا ہو یا پھر کسی نے نہر جاری کی ہو۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ۔؂[36]

بے شک مؤمن کے اعمال اورنیکیوں میں سے مرنے کے بعد جو اسے پہنچتاہے اس میں  علم جو اس نے پھیلایا ہو،نیک اورصالح بیٹا،قرآن کریم جو ورثہ میں چھوڑاہو،یا مسجد کی تعمیر کی ہو، یامسافرخانہ تعمیر کیاہو،یانہر جاری کی ہو، یا صدقہ مال سے نکالا ہو، اپنی صحت میں اور زندگی میں وہ مرنے کے بعد بھی اسے پہنچتارہے گا۔

کشف الخفاء میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ  "وهو شامل للتصنيف والتعليم"؂[37] اس میں تصنیف اورتعلیم دونوں شامل ہیں۔

اگر اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہم انصاری صاحب کی جانب دیکھتے ہیں بتوفیقہ تعالیٰ آپ کو اس حدیث میں بیان کیے گئے تمام اوصاف سے متصف پاتے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ تمام عمر علم سیکھنے ،سکھانے ،پھیلانے  بلکہ لٹانےمیں مصروف رہے،کتابیں لکھنے،لکھوانے اورشائع کرنے میں مشغول رہے، نیز اللہ رب العزت نے آپ کو ولد صالح سے بھی نوازا جو آپ کے مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف کار ہیں، آپ نے وراثت میں صورتاً ومعناً قرآن مجید  بھی چھوڑا ، آپ علیہ الرحمہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں ایک مسجد نہیں بلکہ کئی عظیم الشان مساجد بھی تعمیرکروائیں، آپ نے مسافرخانہ (ہاسٹل یعنی دارالاقامہ) بھی تعمیر کیا جہاں مسافر طلبہ کے قیام و طعام اوردیگرضروری امور کا بلامعاوضہ بہترین انتظام ہے۔ جامعہ علیمیہ کی صورت میں آپ نے علم کی ایک نہر بھی جاری فرمائی جو صدقۂ جاریہ ہے اورانشاء اللہ تاقیامت جاری رہے گی اور علم کے متلاشیوں کی پیاس بجھاتی رہے گی۔

کوئی یقیں کرے گا اک ایسی عظمت بھی         کبھی تھی حصۂ دنیا  کبھی  تھی جزوِ  جہاں(مجید امجد)

قطعہ تاریخ وفات:

جناب راغب مراد آبادی نے آپ کا قطعہ تاریخ (1974ء)کچھ یوں تحریر کیا:

تبلیغ  سے  بلند  کی  اسلام  کی  شان

تعلیم  کی  شمعیں  بھی  جلائیں ہرآن

پوچھو  کوئی   محرمانِ   علم  دیں   سے

جولاں گہِ علم دیں تھے فضل الرحمن؂[38]

جناب آرزو اکبر آبادی نے قطعہ تاریخ وصال(1394ھ) کچھ یوں لکھا:

وہ مبلغ تھے  نرالی   شان  کے                               اہلِ  دل  کو  ہے  انہی    کی  جستجو
جانشینِ   حضرتِ  عبدالعلیم                             جن کی شہرت ہے جہاں میں چارسو
دامنِ رحمت میں جاکرسوگئے                        عبدِ   حق   فضلِ   رحماں    آرزو
؂[39]
مزار مبارک:

آپ کا مزار مبارک  المرکز الاسلامی ،شمالی ناظم آباد ،بلاک بی،کراچی کے احاطے میں ہے۔جس پر ایک طویل قامت اورگھنا نیم کا درخت سایہ کیے ہوئے ہے۔اس نیم کے درخت کی ساخت و ہیئت کو اگرغور سے دیکھا جائے تو یہ بھی آپ کی بزرگی وکرامت کی گواہی دیتاہے ۔ کیونکہ وہ درخت خاص اس سمت میں اور اس انداز سے بڑھا ہوا ہےکہ اس نے آپ کے مزار پر مکمل طور پر ایک سائبان  قائم کردیا ہے۔ لیکن اس کے برعکس دوسری جانب درخت بالکل بھی نہیں بڑھا ہوا۔فتدبروا یا اولی الابصار؂[40]

آپ علیہ الرحمہ ایسے افراد میں سے ہیں جن کے پردہ فرماجانے کے باوجودبھی  دنیا کی محفلوں اورتقریبات میں ذکر خیر جاری رہتاہے۔ آپؒ پر مقالہ جات لکھے وسنائے جاتے ہیں۔ جن سے عوام الناس رشد وہدایت،علوم ومعرفت حاصل کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ مندرجہ بالا سطورمیں بیان کیاگیاہے۔ جہاں آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو اجاگر کیے جاتے ہیں۔اس لیے آپ  پر یہ شعر صادق آتاہے :

میں آج مرکر بھی بزم وفا میں زندہ ہوں

تلاش  کر مری محفل ، مرامزار نہ پوچھ

عرس مبارک:

تقریبات عرس کی تفصیل سے قبل عرس منانے کے بارے میں ڈاکٹرانصاری  علیہ الرحمہ  کا نقطہ نظر پیش خدمت ہے:

وہ تمام جنہوں نے اپنی زندگیاں رب کی رضا جوئی کی خاطر گزاردیں ،ان کے انمٹ نقوش تاریخ کے چہرے پر ثبت ہیں۔یہ سالانہ فنکشن  ان بزرگوں کی یاد میں منعقد کیاجاتا رہاہے، لیکن  اس کی صحیح غرض وغایت صحیح طورپر نہیں سمجھی گئی ۔(عرس  کیوں منعقد کیاجاتاتھا؟آج عرس تو منایا جاتا ہے لیکن ان عظیم شخصیات کے حقیقی پیغام کو بھلادیاگیاہے)

یہ عرس کہلاتاہے۔ یہ مسرت وخوشی کا موقع ہے۔ہم اللہ رب العزت کا شکر اداکرتے ہیں کہ اس نے ہمیں ایسا متقی نیکوکارشخص عنایت کیا ۔یہ درحقیقت (ان لوگوں کی )ایک کانفرنس ہے جو ان (بزرگوں)کے مشن پر یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنی تمام زندگیاں نبی اکرم ﷺ کے مشن کی تکمیل کے لئے وقف کردی تھیں،وہ مشن تھا، اس دنیا میں (سنتوں کا )احیاء اور روشنی لانے کا،نیکی اور تقویٰ پھیلانے کا،اچھائی اور خوبصورتی پھیلانے کا۔

جس کے لئے یہ مریدایک جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں وہ (بزرگ)دفن ہوئے تھے۔وہاں ان کے مشن کے بارے میں آگاہ کیاجاتاہے اور اس کی ترقی (ترویج واشاعت )کے بارے میں گفتگوکی جاتی ہے۔(تاریخی اعتبار سے)یہ تقریبات  عرس درحقیقت اس انداز میں شروع ہوئی تھیں۔لیکن آہستہ آہستہ جس طرح تمام تقریبات رسمی ہوگئی ہیں ،لوگ اصل مقصد بھول گئے  اور ظاہری شکل و صورت برقراررکھے ہوئے ہیں(رسماً اس شخص کی یادمنائی جاتی ہے لیکن اس کے مشن کے فروغ کے بارے میں کچھ کوشش نہیں کی جاتی)۔ ؂[41]

جس طرح آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ عرس منانے کا ایک مقصد رب کی شکر گزاری ہے اودوسرامقصد  اس عظیم شخصیت کے مشن کی تکمیل کے بارے میں غوروفکر اورعملی اقدامات  کرنا ہے۔اگریہ نہ کیاگیا تو رسماً عرس منانے کے کماحقہ نتائج برآمد نہ ہوں گے۔

تقریباتِ عرس  کی تفصیل:

ادارہ ہذا میں حضرت صاحب کی ان تعلیمات کو مدنظررکھتے ہوئے  آپ علیہ الرحمہ کا عرس مبارک ہرسال قمری اعتبار سے 11 جمادی الاولیٰ کومنایا جاتاہے۔اس سلسلے میں الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیہ کے زیر اہتمام ہفت روزہ تقریبات عرس منعقدکی جاتی ہیں۔ان تقریبات کی تیاری تقریباً ایک ماہ پیشتر ہی شروع کردی جاتی ہے۔ان پروگرامز کے عنوان اورترتیب  کچھ یوں ہیں:

قرآن خوانی:

امت مسلمہ کی قرآن خوانی پرمداومت رہی ہے۔ ہر زمانہ اور ہرقریہ میں مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی وفاتحہ خوانی کا مسلم معاشروں میں التزام کیاجاتا رہاہے ۔جیسا کہ امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ تصریح فرماتے ہیں:

ان المسلمین ما زالوا فی کل عصر ومصر یجتمعون ویقروٴن لموتاهم مِن غیر نکیر فکان ذلک اجماعًا؂[42]

 یعنی امت مسلمہ کی اس عمل پر مداومت ہے کہ ہر زمانہ اور شہر میں جمع ہوتے ہیں اور اپنی میت کے لیے قرآن پڑھتے ہیں، پس عملاً یہ اجماع ہوگیا۔

امت مسلمہ کی شاندارروایات پر عمل پیراہوتے ہوئے ادارہ ھذا میں بھی اس سلسلے میں تمام اسٹاف ، جامعہ علیمیہ اور دارالحفظ والتجوید کے طلبہ اور عوام الناس مل کرقرآن خوانی میں شرکت کرتے ہیں۔ جس کے اختتام پرجناب حضرت ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ کے درجات کی بلندی اور   جملہ مرحومین کے ایصال ثواب ،ملک وقوم وادارے کی ترقی کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔ اورآخرمیں شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔

کچھ یادیں کچھ باتیں:

اس سلسلے کا دوسرا اہم پروگرام کچھ یادیں کچھ باتیں کے عنوان سے منعقد ہوتاہے۔ جس میں چند ایک بار استاذ الاساتذہ سابق پرنسپل جناب علامہ مولانا ابومحمد فہیم انواراللہ صاحب مدظلہ العالی نے گفتگوفرمائی لیکن اکثر صدرالوفاق صاحبزادہ  جناب مصطفی فاضل انصاری صاحب کی خصوصی گفتگو ہوتی ہے۔ جس میں آپ (صدر الوفاق) ڈاکٹر صاحب کی حیاتِ مبارکہ پرسیرحاصل گفتگوفرماتے ہیں۔ اور ان کی سعید اوربامقصد زندگی کے مختلف پہلوؤں پرروشنی ڈالتے ہوئے آپ کی صفاتِ حمیدہ کا تذکرہ بڑی عقیدت واحترام سے کرتے ہیں۔نیز آپ ڈاکٹر صاحب کے حوالہ سے اپنے تجربات ، مشاہدات اور واقعات بیان فرماتے ہیں۔اس بیان کے دوران آپ کے چہرے کے تغیرات ونشیب فراز سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ آپ اپنے والد ماجد سے کس قدرمحبت کرتے ہیں۔اس خطاب کے دوران آپ کی  وارفتگی اوروالہانہ پن  اپنے بام عروج پر ہوتاہے۔

ڈاکٹرانصاری کوئز:

اس سلسلے کا تیسرا پروگرام جسے ڈاکٹرانصاری کوئز کا خطاب دیاگیا ہے۔ اس کوئز میں جامعہ کی تمام کلاسز  سے تین تین طلبہ شرکت کرتے ہیں۔ یوں کل شرکاء کی تعداد 24 ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں طلبہ بہت زیادہ جوش وخروش سے حصہ لیتے ہیں جس کا اندازہ اس امرسے لگایا جاسکتاہے کہ بعض اوقات  مقابلہ برابر(ٹائی) ہوجاتاہے اورپھر آخرمیں صرف ایک سوال کے جواب پر فاتح ٹیم کا تعین کیاجاتاہے۔

ڈاکٹرانصاری تقریری مقابلہ:

ان پروگرام کی ہی ایک کڑی تقریری مقابلہ ہے ۔جہاں حضرت صاحب کی ذات وخدمات کے حوالے سے دیئے گئے عنوان پر ہر جماعت سے کم از کم ایک طالب علم عربی،اردو یاانگریزی زبان میں بھرپورتیاری کے ساتھ مقابلہ میں حصہ لیتاہے۔

تحریری مقابلہ:

اسی طرح تحریری مقابلے  کا انعقاد کیاجاتاہے ۔ جہاں حضرت صاحب کی ذات وخدمات کے حوالے سے دیئے گئے عنوان پر ہر جماعت سے کم از کم ایک طالب علم عربی،اردو یاانگریزی زبان میں ایک جامع مقالہ تحریر کرتاہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیےان مقابلہ جات میں دیئے گئے کچھ موضوعات کے نام  پیش خدمت ہیں:

1.      ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ اور ان کے معاصرین

2.      ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ اور شاہ عبدالعلیم صدیقی ؒ

3.      ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ اور مغربی تہذیب

4.      ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ کی تعلیمی اورتنظیمی خدمات

5.      ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ بحیثیت  مبلغ اسلام

6.      ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ کی تعلیمی  وتنظیمی خدمات

7.      ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ کی سماجی و فلاحی خدمات

8.     ڈاکٹرفضل الرحمٰن الانصاریؒ اورسیرت نگاری

9.     الدكتور فضل الرحمن الانصاری ومقا مه في العلم

10.                        الدكتور فضل الرحمن الانصاری وافكاره وجهده في اصلاح الامة

11.  Islam and Socialism

12.  Dr. Fazl ur Rahman as a Scholar of Comparative Religion

13.  Dr. Fazl ur Rahman as a Missionary of Islam

14.    Dr. Fazl ur Rahman as a Reformer

علیمیہ گریجویٹ فورم:

اس سلسلے کا ایک اوراہم پروگرام علیمیہ گریجویٹ فورم کے نام سے منعقد کیاجاتاہے جس میں  علیمیہ کے فاضلین( گریجویٹس) علیمیہ فورم ہال میں حضرت صاحب علیہ الرحمہ  کی حیات کے مختلف پہلوؤں اورگوشوں کواجاگرکرتے ہیں،آپ کے حوالے سے علمی وتحقیقی مقالے پیش کرتے ہیں اورآپ  کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

عرس مبارک کی اختتامی  پُروقارتقریب:

عرس مبارک کی  جان ،آن  اورشان ، اس کا آخری عظیم الشان پروگرام یعنی حضرت صاحب کی یاد میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔جس تقریب کی تیاری کےسلسلے میں ادارے کی بلڈنگ ،مزارمبارک اورمسجد برقی قمقموں سےسجائی اورجگمگائی جاتی ہے۔یوں یہ شبِ ظُلمت صبحِ نو کا منظرپیش کرتی نظرآتی ہے۔ اس پروگرام کی باقاعدہ ابتداء نماز عصر کے بعد قرآن خوانی سے ہوتی ہے ۔ جس کے بعدآپ علیہ الرحمہ کے مزارشریف اورمتصل  قبور پر پھولوں کی چادر چڑھائی جاتی ہے اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔اس وقت فضاء بہت ہی پاکیزہ اورمعطر محسوس ہوتی جس سے قلبی سکون اورروحانی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔

ابرِ رحمت  ان کی مرقد پرگہرباری کرے

حشر تک  شانِ  کریمی  نازبرداری  کرے

مرکزی پروگرام بعدنماز مغرب:

پروگرام کے اس حصہ میں ملک کے نامور وجلیل القدر علماء کرام،پروفیسرحضرات اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد  ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔  یہ پروگرام ہفتہ کے دن  بعد نماز عصر شروع ہوکر تقریباً 10 بجے تک اختتام پذیر ہوتاہے۔

گزشتہ چند سالوں سے ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کے عرس مبارک کے موقع پر حضرت صاحب علیہ الرحمہ کے حوالے سے کوئی نہ کوئی نئی کتاب منظرعام پر لائی جاتی ہے۔اس تالیف وتصنیف کا زیادہ ترکام علیمیہ کے دوذی وقاراسکالرز جناب ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب  اور ڈاکٹر حامد علی علیمی صاحب کی جانب سے کیا گیا ہے۔ بالخصوص جناب ڈاکٹر عمیرمحمودصدیقی صاحب اس سلسلے میں انتہائی متحرک اورسرگرم  ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں حضرات کی سعئ جمیلہ کوقبول فرمائے اور انہیں اسی لگن و جذبہ سے اس تحقیق وتصنیف کے عمل کو جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔نیزاس تحقیق وتصنیف کے لئے تحریض وتحریک  کا تمام تر سہرا جناب مصطفی فاضل انصاری صاحب(صدرالوفاق العالمی للدعوۃ الاسلامیۃ) اور جناب محمد سرفراز صابری صاحب(پرنسپل الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ) کو جاتا ہے جنہوں نے محبان انصاری کو حضرت صاحب کی ذات کے حوالے سے کام کرنے پر آمادہ کیا۔

اس پروگرام کے آخر میں دعا اورصلوٰۃ وسلام سے قبل  اسلامک سینٹر کے دارالحفظ میں حفظ کی تکمیل کرنے والے طلبہ کی تقریب تقسیم اسناد وانعامات بھی منعقد کی جاتی ہے۔ جن کے ساتھ ساتھ عرس مبارک کے درج بالا پروگرامز میں اول ،دوم  اورسوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ بھی شیلڈز ، اسناد اور انعامات سے نوازے جاتے ہیں۔آخر میں علیمی لنگر کا اہتمام بھی  کیاجاتاہے۔

خلاصہ کلام:

آپ علیہ الرحمہ کومعرفت الٰہی وعرفان نفس کا جو بلند مقام حاصل ہوا یہ محض رب کی عطاو توفیق ہی سے تھا۔ اسی معرفت کے  سبب  آپ علیہ الرحمہ نے اپنی عمرفانی کے تمام لمحات کوسعید بنادیا۔مختصرعمرکے باوجود وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے  جوکسی انسان کے بس کا کام نہیں تھا تاوقت یہ کہ اسے توفیق الٰہی حاصل نہ ہو۔بقول جگرمرادآبادی

اللہ اگر توفیق نہ دے انساں کے بس کا  کام نہیں

فیضانِ محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں



؂[1] ۔  تذکرہ اکابر اہلسنت،علامہ محمدعبدالحکیم شرف قادری، (مضمون :مبلغ اسلام مولاناڈاکٹرفضل الرحمن انصاری۔382)

؂[2] ۔  The Minaret, 1974, pg 12-13

؂[3] ۔  سورۃ المؤمن:64

؂[4] ۔ یہ جملہ جناب پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج صاحب(مرحوم) نے  اپنی  تقریربعنوان" مبلغِ اسلام ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری قادری رحمۃ اللہ علیہ" میں فرمایاتھا۔ یہ تقریر مؤرخہ ١٥/ مارچ ٢٠١٤ء، بروز ہفتہ بعد نمازِ عشاء بمقام اسلامک سینٹر، بلاک بی نارتھ ناظم آباد کراچی میں منعقدہوئی تھی،  جس میں ڈاکٹر صاحب نے خصوصی خطاب کیا تھا،راقم بھی اس تقریب سعید میں حاضر تھا۔

؂[5] ۔ مفہوماً:صحبت بااہل دل،علامہ سید ابوالحسن علی ندوی،129

؂[6] ۔  صحیح بخاری

؂[7] ۔جس کے حصہ اول کا اردو ترجمہ "قرآن کے بنیادی اصول اورمسلم سماج کا ڈھانچہ" کے نام سے اوکھلا ،نئی دہلی،انڈیا سے شائع ہوچکاہے۔جب کہ اس کا حصہ دوم بھی ترجمہ ہونے کے بعد چھپنے کے مراحل میں ہے۔

؂[8] ۔  بحوالۂ جناب صاحبزادہ مصطفیٰ فاضل انصاری ،صدرالوفاق العالمی للدعوۃ الاسلامیۃ،نیزآپ  یہ بھی فرماتے ہیں کہ شاید ابھی  مسلمانوں کی آزمائش کا دور مزید باقی تھا اورمسلمانوں کی فرقہ بندی ختم ہونا منظور خدا نہ تھا اسی لئے اباجان اس کام کی تکمیل نہ کرسکے۔واللہ اعلم بالصواب

؂[9] ۔  مشکوٰۃ المصابیح

؂[10] ۔  صقالۃ القلوب،اسلام کا فلسفہ عبادت،ص64

؂[11] ۔  مسند ابویعلیٰ

؂[12] ۔  متفق علیہ

؂[13] ۔  ترمذی شریف

؂[14] ۔  البقرۃ :269

؂[15] ۔  ترجمان السنہ،ج1،ص 50،علامہ بدرعالم میرٹھی

؂[16] ۔  مفردات القرآن،ج1،ص126

؂[17] ۔  لسان العرب،ج5،ابن منظور افریقی، القاہرہ

؂[18] ۔  سنن ابی داؤد

؂[19] ۔  تذکرہ اکابر اہلسنت،علامہ محمدعبدالحکیم شرف قادریؒ،(مضمون:مبلغ اسلام مولاناڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری۔ 382)

؂[20] ۔  سورۃ الحشر:14

؂[21] ۔  جناب الطاف حسین حالی کا یہ شعرمکمل کچھ یوں ہے:

صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی             چلوتم ادھرکو ہوا جدھر کی

؂[22] ۔  اہل دین کی آفات، علامہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب،ماہنامہ الحق(اپریل مئی 2018)،ص38

؂[23] ۔ Dr. Ansari: The Ghazali of his Age, Pg :34

؂[24] ۔    بحوالہ جناب صدر الوفاق العالمی مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب

؂[25] ۔ Dr. Ansari: The Ghazali of his Age, Pg :31

؂[26] ۔    بحوالہ جناب صدر الوفاق العالمی مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب

؂[27] ۔    سورۃ الفجر:27-30

؂[28] ۔    سورۃ حم السجدہ:30-32

؂[29] ۔  یہ اللہ کے نیک بندے اس وقت بھی اپنے مقصد ،اصلاح احوال اورپیچھے رہ جانے والے افراد(امت مسلمہ) کے ایمان اورجان کی حفاظت،اپنے قائم کئے گئے اداروں ،مساجد اوردیگر متعلقہ چیزوں کی فکر میں مبتلاء ہوں گے لیکن اللہ رب العزت کی طرف سے انہیں خوشخبری دی گئی ہے کہ تمہیں ان تمام امور پر فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ رب العزت  کی ذات ہمیشہ  باقی رہنے والی ہے۔ اوروہ  ان تمام کی تمام ضروریات کی کفیل اورمحافظ ہے۔اس سے وہ شخص شاداں وفرحاں اپنی جان جان آفریں کے سپردکردیتاہے۔

؂[30] ۔    مفہوماً:دلیل الفالحین،علامہ محمد بن علان الصدیقی الشافعی،ج2،ص37

؂[31] ۔    احادیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ ان امورکاذکرموجود ہے کہ مومن بندے کے  وصال کے وقت آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اوروہ اس  بندہ مومن کے لئے جنت کا کفن اورخوشبو بھی اپنے ساتھ لاتے ہیں۔یقیناًاس نورانی مخلوق کی آمد  سے روشنی اور جنت کی خوشبوچاروں جانب پھیل جاتی ہے۔

؂[32] ۔  متفق علیہ

؂[33] ۔  سنن ابی داود ،حدیث نمبر: 3116

؂[34] ۔  بشرى الكئيب بلقاء الحبيب، السيوطي

؂[35] ۔  بشرى الكئيب بلقاء الحبيب، السيوطي

؂[36] ۔  سنن ابن ماجہ

؂[37] ۔  کشف الخفاء، شیخ اسمعیل العجلونی الشافعی

؂[38] ۔  روزنامہ جنگ کراچی،12 جون 1974ء

؂[39] ۔  ایضاً

؂[40] ۔  اس دوررس نکتہ کی طرف  علامہ محمد صدیق،لیکچرر الجامعہ العلیمیہ نے دوران طالبعلمی ایک تقریری مقابلے میں اشارہ کیا تھا ۔اس مقابلہ میں جناب محمد صدیق صاحب کو پہلی پوزیشن سے نوازاگیاتھا۔

؂[41] ۔  ۔مفہوماً: Islam to the Modern Mind, pg 250

؂[42] ۔   مرقات،شرح مشکوٰۃ  (۱۹۹:۴)

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post