ڈاکٹرمحمد فضل الرحمٰن الانصاری علیہ الرحمہ سے میرا تعارف

 

عنوان سے یہ مغالطہ پیداہونے کا قوی احتمال ہے کہ شاید مجھے(راقم التحریرکو ) ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمٰن الانصاری القادری علیہ الرحمہسے بالمشافہ ملاقات اوران کی قدم بوسی کی سعادت نصیب ہوئی ہو۔ لیکن افسوس!اس شرف  وسعادت سے محروم ہوں،یعنی آپ سے براہِ راست یا  بلاواسطہ ملاقات کی سعادت نصیب نہیں ہوئی ۔لیکن دیگرذرائع اورقابلِ صد احترام شخصیات کے واسطہ سے تعارف ہوا ہے!

 ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ سے میرا پہلاتعارف یعنی آپ  کی شخصیت کی عظمت وبزرگی سے روشناس کرانے والے میرے سب سے پہلے محسن استاذی جناب شیخ محمد اقبال لاسی صاحب (سابق لیکچررجامعہ  علیمیہ)  ہیں۔آپ ڈاکٹرصاحب سے بے پناہ عقیدت ومحبت رکھتے ہیں۔ اگرچہ آپ نے بھی ڈاکٹر صاحب سے بالمشافہ ملاقات نہیں کی لیکن ڈاکٹر صاحب کی کتب اوران  کے  تربیت یافتہ افراد جو ڈاکٹر صاحب کی زیارت سے مشرف ہوئے ان کی وساطت سے ملنے والی محبت اورعقیدت کے سرمایہ کو منفرد، انتہائی متاثرکن اورشیریں سخن  انداز میں آپ اپنے طلبہ میں منتقل فرمارہے  ہیں۔استاذصاحب کی زبان مبارک  سے آپ کا تعارف سن کردل   میں اس  عظیم شخصیت کے لئے احترام اور محبت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔

 اس جذبۂ محبت کی لَو کو توانا اورمزید جلا بخشنے والی دوسری سحرانگیز شخصیت ڈاکٹر صاحب کے تربیت یافتہ گوہرنایاب استاذ الاساتذہ جناب محترم ابومحمد فہیم انواراللہ خان صاحب مدظلہ العالی  کی ہے۔ آپ جامعہ علیمیہ کے  سابق پرنسپل اورموجودہ ڈائریکٹر ورلڈفیڈریشن ہیں۔آپ جامعہ علیمیہ کے لئے پچاس سال سے زائد عرصہ سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے  ہیں ۔آپ کا اتناطویل عرصہ خدمات سرانجام دینا ہر لحاظ سے قابل فخر اور لائق تحسین صد آفرین امرہے جس کی مثال جامعہ علیمیہ میں تودرکنار دوسرے سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں بھی نہیں ملتی کہ کوئی شخص پچاس پچپن سال تک ایک ہی ادارے میں خدمات سرانجام دے۔

راقم کوبھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کی سعادت   سے مشرّف ہوئے ربع صدی کا عرصہ بیت چکاہے۔ آپ ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ سے بہت گہری محبت وعقیدت رکھتے ہیں اور اپنے لیکچرز میں جابجا دلنشیں،دلآویزومسحورکن  انداز میں حضرت صاحب کے افکار،تعلیمات اورشخصیت کا تعارف کراتے ہیں جس سے سامنے والا  بھی بے خودہوکرحضرت صاحب علیہ الرحمہ کی ذات سے محبت کرنے لگتاہے۔

اسی سلسلہ کی تیسری اہم شخصیت جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب(صدر الوفاق العالمی) کی ہے۔ جوگزشتہ چندبرسوں سے ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کے عرس مبارک کے موقع پر "کچھ یادیں کچھ باتیں " کےعنوان کے تحت علیمیہ اسپیکرزفورم میں حضرت صاحب کی شخصیت کے گونہ گوں  محاسن سے پردہ اٹھاتے  ہیں اورآپ علیہ الرحمہ  کی سعید زندگی کی مبارک ساعتوں کا تذکرہ  دل موہ لینے والے انداز سے  کرتے ہیں۔ علیمیہ فورم ہال میں منعقدہونے والے ایک پروگرام کی ایک نشست میں(جس میں راقم خود بھی موجود تھا ) آپ جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب (صدر الوفاق)نے حضرت صاحب علیہ الرحمہ کی  زندگی کے مختلف پہلوؤں پرکچھ اس انداز سے روشنی ڈالی گویا حضرت صاحب علیہ الرحمہ کی زندگی مجسم تصویربن کرحاضرین کے سامنے آگئی۔ اسی لیکچر کے اختتامی کلمات میں جب حضرت صاحب علیہ الرحمہ  کی وفات حسرت ویاس کا تذکرہ آیا تو اکثر سامعین کی آنکھیں اشکباراوردل بھرّائے ہوئےتھے گویا حضرت  ؒصاحب کی جدائی ورحلت کا جاں گداز سانحہ اسی لمحہ پیش آیاہو ۔ اِنَّالِّٰلہِ وَ اِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُونَ۔

ان ذی وقار اصحاب  کے علاوہ کئی دیگرمحترم ومعزز شخصیات ہیں جن  کے لیکچرز میں بیٹھنے یا جن کی زبان سے حضرت صاحب علیہ الرحمہ کا ذکر مبارک سننے کی سعادت  حاصل ہوئی ۔ان شخصیات کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:

 ان عظیم شخصیات میں والدمحترم جناب  مولاناحافظ ابوعلی محمد رمضان صاحب زیدمجدہ، جناب وصی الحسن انصاری صاحب (مرحوم) سابق وائس پریزیڈنٹ الوفاق العالمی للدعوۃ الاسلامیۃ، جناب حبیب بٹ  صاحب (مرحوم) سابق پریزیڈنٹ الوفاق العالمی للدعوۃ الاسلامیۃ،جناب شیخ محمد جعفر صاحب (مرحوم)سابق جنرل سیکرٹری الوفاق العالمی؂[1] ، جناب منظرکریم صاحب  (مرحوم) سابق جنرل سیکرٹری ، جناب عمران  نذرحسین صاحب (سابق پرنسپل علیمیہ)، استاذمحترم جناب پروفیسر شمیم ہاشمی صاحب مرحوم (سابق لیکچرر علیمیہ)،استاذمحترم پروفیسرمشیربیگ صاحب (مرحوم)سابق لیکچرر علیمیہ، جناب مفتی محمد ظفراللہ صاحب (مرحوم)سابق مفتی جامعہ علیمیہ، ڈاکٹرالیاس صاحب(سابق اسسٹنٹ سیکرٹری ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز)،ڈاکٹرسیدعبدالمالک کاشف صاحب(سابق لائبریرین و ہومیو ڈاکٹروسائیکو ہومیو تھراپسٹ، جرنلسٹ وایجوکیشنسٹ)،استاذ جناب انوارالحسن صاحب مرحوم (سابق لیکچرر علیمیہ)،استاذمحترم جناب محمد یوسف صاحب مرحوم(سابق لیکچرر علیمیہ)، جناب عابد سعیدصاحب مرحوم؂[2](سابق پرنٹر مینارِٹ)،استاذ محترم عطاء الرحمٰن انصاری صاحب مدظلہ العالی(سابق لیکچرر علیمیہ)، استاذ جناب محمد صادق بلوچ صاحب مدظلہ العالی (سابق لیکچرر علیمیہ)،جناب عبدالقادر شوغلے صاحب ، جناب عبدالرشید انصاری صاحب وغیرہ شامل ہیں۔

بہرحال ان  شخصیات کے علاوہ حضرت صاحب کے بارے میں لکھی گئی کتابیں اور آپ ؒ کی شخصیت پرتحریرکئے گئے مضامین بھی آپ کی شخصیت کے مختلف گوشوں  کواجاگرکرتے ہیں۔ بالخصوص آپؒ کے مکتوبات جو کہ ڈاکٹرعمیر محمود صدیقی صاحب نے بڑی جانفشانی ،محنت اورمحبت سےجمع کرکے  مکتوبات انصاری کے نام سے شائع کیے ہیں ،آپ علیہ الرحمہ کے کردار کی عظمت  وبلندی  کا منہ بولتاثبوت ہیں۔

ان سب سے بڑھ کر آپ علیہ الرحمہ کی اپنی سدابہاروپرکیف زندہ تحریریں اورکتابیں جو خود قوت گویائی متصف ہیں اور اپنے قاری سے ہمکلام ہوتی ہیں ۔نیز آپؒ کی آڈیو سی ڈیز جن میں آپ کی اپنی دلنشیں اورسحرانگیز آواز میں تقاریر وخطبات موجود ہیں۔ان سے جو بھی شخص کسی بھی وقت جس قسم کی رہنمائی (منقولاً و معقولاً)کاطالب ہو یہ اسے مایوس نہیں کرتیں ۔آپ سے عقیدت رکھنے والاشخص یہ تحاریر پڑھتے اورتقاریرسنتے وقت محبت و وارفتگی کی کیفیت میں اس حد تک محو ہوجاتا ہےاور اسےیوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ گویا یہ کتب اس (قاری) پر  اتررہی ہوں۔ جیسا کہ کسی شاعر نے ایسے ہی موقع کے لیے خوب کہا ہے:

یہ معجزہ بھی اس کی چاہت، ہوسکتاتھا

وہ لفظ بولے تو دل پہ جیسے کتاب اترے

نیز اگرمحبت غالب ،جذبہ صادق،طبیعت موافق اورمزاج صالح  ہو تو آپ علیہ الرحمہ کی خوبصورت، بارعب، بارونق اورپُرجمال وجلال تصاویر؂[3]  (جو پاکیزگی،سادگی، وجاہت، رعب، دلکشی اور نفاست کا حسین امتزاج ہیں) اور آپ علیہ الرحمہ  کا مزار مبارک بھی ملاقات و تحصیل ِ علم   وحکمت کے لئے اہم ذرائع  ثابت ہوسکتے ہیں۔جو  محبت اورخلوص  سے دیکھنے والے ہر طالب علم پر روحانی توجہ ڈالتے ہیں اورلاینحل عقدے ، ادق منطقی استدلالات، علمی  موشگافیوں اور پیچیدہ گرہوں کوسمجھنے وسلجھانے میں مدد کرتے ہیں۔اگرکوئی شخص اس امرپر حیران ہو کہ  تصویر اور مزار سے رہنمائی چہ معنی دارد۔ایک تصویریا مزار ؂[4]   سے علم وحکمت کے موتی کیسے مل سکتے ہیں؟ تو ان احباب سے گزارش ہے کہ اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے D. H. Howe کی لکھی گئی کتاب English for Colleges (جوسابقہ بی اے کے انگریزی کے نصاب  میں شامل تھی )  میں"دیوقامتی آنکھ" (Giant Eye) کا مضمون پڑھ لیں جس میں تحریر ہے کہ 1928ء میں کیلی فورنیا میں قائم کی گئی پالومررصدگاہ (Observatory)  جو اس وقت کی سب سے بڑی رصد گاہ تھی وہاں بلندی پر چڑھ کراس دیوقامتی آنکھ کی طرف گہرائی میں دیکھنے والے افرادآسمان کی بیکراں وسعتوں(زمین سے کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر موجود چیزیں) کے راز جان لیتے ہیں۔وہ رازجو براہ راست آسمان کی طرف دیکھنے سے بھی معلوم نہیں ہوسکتے۔یعنی آسمان کی بیکراں وسعتوں کے سربستہ رازجاننے کے لئے  بلندی کی طرف سراٹھانا لازم نہیں بلکہ سرخم کرنے سے تووہ راز آشکار کئے جاسکتے ہیں جوسرآسمان کی طرف اٹھانے سے بھی آشکارنہ ہوں گے۔جس طرح یہاں آسمان کی وسعتوں کو جاننے کے لئے سراٹھانے کی ضرورت نہیں اسی طرح کسی سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس کا  ظاہری جسم وشکل وصورت میں وہاں ہونابھی ضروری نہیں۔

مٹادے   اپنی   ہستی  کو   اگرکچھ مرتبہ چاہے

کہ دانہ خاک میں مل کرگل و گلزار ہوتاہے

یعنی دانہ بظاہرمٹنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ منفعت بخش بن جاتاہے۔جووہ اپنی ظاہری حیات میں نہ کرسکتاتھا۔اس لئے ضروری نہیں ہر وہ چیز جس نے خاکی رِدا اوڑھ لی ہے وہ اپنی قیمت کھوچکی ہے بلکہ یہ تو وہ ہیں جن کی قیمت بے حدوحساب بڑھ جاتی ہے۔ (وباللہ التوفیق)

؎         صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے         (اسداللہ غالب)

 جہاں تک مزار مبارک سے رہنمائی لینے  کا تعلق ہے تو اس جانب بھی  اشارہ استاذ محترم جناب شیخ محمد اقبال لاسی صاحب  نے فرمایا تھا ۔آپ نے دوران تدریس اور اپنے خطابات میں محبین انصاری کی اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ میں (راقم)ان تمام عظیم شخصیات کا احسان مند اورزیربار ہوں جن کی نگاہِ کرم کے طفیل مجھے حضرت ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمہ سے متعارف ہونے کا شرف حاصل ہوا اورعاجز یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھنے کے قابل ہوا۔

اہل معانی:

یہی میرا مبلغِ علم (Source of Knowledge) ہے اور یہی شخصیات میرے لیے الفاظ "حافظ ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمہ" کے معانی ومفاہیم بیان کرنے والی  ہستیاں بھی ہیں ۔ ان شخصیات سے  قبل یہ الفاظ مجھ پر کوئی خاص کیفیت و تاثر طاری نہ کرتے تھے لیکن ان عظیم شخصیات سے ملنے کے بعدمجھےان الفاظ کی عظمت  کا کسی قدرادراک ہوا اوران کے معانی سے آشنائی حاصل ہوئی ۔ان ہستیوں کو میں اہل معانی سے موسوم کرسکتاہوں ۔یہ اہل معانی  ہی وہ افراد ہیں جونکتہ دانی کے فن سے آشناکراتے ہیں۔جس فن سے آشنائی انسان کو علوم وفنون کی معرفت کی جانب گامزن کردیتی ہے۔ان ہی اہل معانی (اساتذہ کرام) کے پاؤں کی خاک بن جانا بھی عظیم  سعادت  ہے۔

الٰہی  کر مجھے  تو  خاکِ پا  اہلِ  معانی  کا

کہ کھلتا ہے اسی صحبت سے نسخہ نکتہ دانی کا

باعثِ تحریر

زیر نظرتحریر کوئی باقاعدہ تحقیقی کتاب یا تصنیف نہیں  اور  نہ ہی یہ تحریر کتاب کے اندازمیں  لکھی گئی  ہے بلکہ یہ ان مضامین کا مجموعہ  ہےجو عاجز نے ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پرتحریر کیے ہیں ۔ان مضامین  میں سے اکثر وقتاً فوقتاً ماہنامہ "دی مناریٹ انٹرنیشنل " میں شائع ہو چکے ہیں۔

ان مضامین  کے جمع کرنے کی بنیادی وجہ جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب(صدرالوفاق العالمی للدعوۃ الاسلامیہ) کے حکم کی تعمیل  اوردل میں پائی جانے والی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہےکہ حضرت ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ صاحب سے اظہارمحبت کرنے کی سعادت  حاصل ہوجائے اور حضرت صاحب کے محبین  اورنام لیواؤں کی طویل فہرست میں اس عاجز کا نام بھی شامل ہوجائے۔ یہاں میں اپنے محسن  علامہ مولانا سرفراز صابری صاحب (پرنسپل :جامعہ علیمیہ) کا  بے حدممنون وشکرگزار ہوں جنہوں نےمضامین لکھنے میں میری قدم بقدم رہنمائی فرمائی اور  میرے پہلے مضمون  سے لے کر آخری مضمون  تک  بہت اخلاص اور باریک بینی سے اصلاح فرمائی اورانہیں چھپنے کے قابل بنایا۔(اللہ رب العزت انہیں بہترین جزاعطافرمائے)۔

حفظ ماتقدم!

اگر ان اوراق کو پڑھ کرکوئی یہ سمجھے کہ عاجز(راقم الحروف) نے حضرت صاحب کی مدح میں مبالغہ آرائی کی ہے یا انہیں مافوق الفطرت اور مافوق قوت بشر ظاہرکرنے کی کوشش ہے تو ان کے لئے چند گزارشات ہیں :

سب سے پہلے تو علامہ اقبال علیہ الرحمہ کا ایک قول پیش خدمت ہے:

"ہرصحیح مومن فوق البشر ہے اوراسلام وہ بہترین سانچہ ہے جس میں فوق البشر ڈھلتے ہیں۔"؂[5]

نیزمافوق الفطرت  سے مراد کیا ہے۔ کئی ٹن وزن اٹھانا شایدایک انسان کے لئے مافوق الفطرت کہلائے ،لیکن ہاتھی (ایک جانور)کے لئے نہیں، بلند فضاؤں میں اڑنا انسان کے لئے مافوق الفطرت  کہلائے، لیکن شاہین(ایک پرندہ) کے لئے نہیں۔سمندرکی تہہ میں اترنا انسان کے لئے مافوق الفطرت کہلائے ، لیکن آبی جانوروں کے لئے نہیں،ایک لمحہ میں بڑے سے بڑے منظر کاعکس ذہن میں محفوظ کرناعام انسان کےلئے مافوق الفطرت کہلائے لیکن کیمرہ ( بے جان چیز) کے لئے نہیں،لاکھوں کروڑوں کتابوں کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلینا انسان کے لئے مافوق الفطرت کہلائے لیکن ایک کمپیوٹر(مصنوعی ذہانت رکھنے والی بے جان چیز)کے لئے نہیں۔۔۔،کیا اشرف المخلوقات  اور اپنے رب کی خوشنودی چاہنے والاجب کہ اس کا رب بھی اس سے راضی ہو اور اس کی سماعت، بصارت،ہاتھ اور پاؤں بن جائے تو وہ انسان بے جان چیزوں(کمپیوٹر اورکیمرہ) اور جمیع مخلوقات کے ذریعے وقوع پذیر ہونے والے کام بھی سرانجام نہیں دے سکتا! کیایہ افعال(کرامتیں) اس کے ہاتھوں ظاہر نہیں ہوسکتے۔ اس موقف کی تفہیم کے لئے  یہ دواحادیث پیش خدمت ہیں ۔جو اس موضوع کی مناسبت سے بطور سند پیش کی  جاسکتی ہیں۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اللّٰه   :إن اللّٰه عزوجل قال: من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب ، وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه ، وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه ، فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به ، وبصره الذي يبصر به ، ويده التي يبطش بها ، ورجله التي يمشي بها ، وإن سألني لأعطينه ، ولئن استعاذني لأعيذنه۔؂[6]

حضرت ابوہریرہ ﷜روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ  رب العزت کافرمان ہے کہ جس نے میرے ددست اور ولی سے دشمنی کی میرا اس سے اعلان جنگ ہے۔میرا بندہ میرا  تقرب کسی اور عمل سے جو مجھے پسند ہوا تنا حاصل نہیں کرتا جتنا کہ اس عمل سے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کر تا ہوں  میں اس کا وہ کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی وہ آنکھ ہو جاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے  اور وہ ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ کام کرتا اور وہ پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے  اب اگر وہ مجھ سے کوئی سوال کرے گا تومیں اسے دوں گا اور اگر میری پناہ میں آنا چاہے گا تو میں اپنی پناہ میں لے لوں گا۔

ان ہی خداد اد صلاحیتوں کے حامل گوہرنایاب کے بارے میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ اپنے اشعار میں کچھ یوں گویا ہوتے ہیں:

ہاتھ   ہے    اللہ    کا     بندۂ  مومن    کا    ہاتھ                   غالب   و   کار آفرین،    کارکشا،     کارساز

خاکی   و   نوری      نہاد    بندۂ    مولا     صفات                   ہردوجہاں سے غنی اس کادل  ہے  بے نیاز

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل                   اس   کی   ادا   دلفریب،  اس  کی   نگہ  دلنواز

ایک دوسری حدیث مبارکہ میں حضور ﷺ اللہ رب العزت کے چنیدہ(بظاہر مفلوک الحال) بندوں کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

إن لله عباداً اختصهم  تبارك وتعالى  بمنزلة وفضيلة ليست لغيرهم من الناس، ومن هؤلاء من أخبر عنه صلى الله عليه وسلم بقوله:"رُبَّ أشعثَ مدفوع بالأبواب لو أقسم على الله لأبره" ؂[7]

"بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  میں سے بعض کو اس منزلت اورفضیلت پر چن لیتاہے جو دوسرے  لوگوں کو میسرنہیں آتی اورا نہی میں سے بعض کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کتنے ہی بکھرے بالوں والے ہیں جنہیں دروازوں سے پیچھے دھکیل دیاجاتاہے اگر وہ اللہ کی قسم کھالیں تو اللہ ضرور ان کی قسم کوپوراکرے گا۔"

بطور دلیل یہ دواحادیث مبارکہ پیش کرنے کے بعد کسی اور سند یا دلیل کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں ۔حالانکہ تاریخِ عالم سے بہت سی نظائر اس ضمن میں بیان کی جاسکتی ہیں۔ ویسے بھی عربی محاورہ ہے : العاقل تکفیہ الاشارۃ ۔ عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتاہے۔وہ دورسے اٹھتا ہوا دھواں دیکھ کرجلتی ہوئی  آگ کا ادراک کرلیتاہے۔اس کے لئے ہاتھ آگ میں  جلاناضروری نہیں۔

نیز کوانٹم فزکس؂[8] کےاس دور میں تو ویسے بھی اب کسی کو یہ مقام ،احوال،کیفیات غیرمعمولی  یا مبالغہ آمیز نہ محسوس ہونی چاہئیں ۔جیسا کہ ایک سائنسدان جم ال خلیلی(Jim Al-Khalili 1962) تو خلائی مخلوق(اور اس کی صلاحیتوں )  کوبھی بلالیت ولعل تسلیم کرنے کی بات کرتاہے۔

“When it comes to the world of the quantum, we really are crossing into a quite extraordinary domain….each of which is in its way so astonishingly strange that it even makes tales of alien abduction sound perfectly reasonable.” [9]

"جب کوانٹم فزکس کی دنیا کی بات کی جائے  ہم حقیقتاً ایک غیرمعمولی دنیا سے گزررہے ہیں۔  ان میں سے ہر ایک اتنی حیرت انگیز اورعجیب ہے کہ خلائی مخلوق کے دنیا پر قبضے کی باتیں بھی عقلی طورپربالکل صحیح محسوس ہوتی ہیں۔"

 بہرحال جب ایک فرد تقرب کے اس مقام پر فائز ہوجاتاہے تو اس ممدوح کی مدح  سرائی میں کچھ بھی کہاجائے ،کتنا بھی کہاجائے، کیسے بھی کہاجائے،کبھی بھی کہاجائے اورکہیں بھی کہاجائے مبالغہ نہیں بلکہ وہ حقیقت واقعہ ہی قرارپائے گی۔

ابھی تو چند لفظوں میں سمیٹا ہے تجھے میں نے             ابھی میری کتابوں میں تیری تفسیر باقی ہے

ترتیب:

موضوع کی مناسبت سے اس  تحریرکا آغاز حضرت ڈاکٹر مولانافضل الرحمن الانصاری القادری  علیہ الرحمہ کے مختصرتعارف  اورتعارف ثانی سے کیا گیا ہے ۔اس کے بعدعلامہ سرفراز صابری صاحب کے دومضامین  شامل ہیں جو آپ نے ڈاکٹرصاحب علیہ الرحمہ کی فکراورپیغام کو عام کرنے کے لئے تحریرکیے  ہیں۔ ان کے بعدسب سے پہلے حضرت صاحبؒ کے استاذمحترم،معلم،مربی،شیخ، مرشد،خسر اورروحانی والد جناب شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ پر مضمون ہے۔ جس کے بعد ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ کی زندگی کے مختلف گوشوں پر"ہفت مضامین" کی صورت میں قلم اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔؂[10]

ہوگیا  تو قبرمیں وہ چرخ ہفتم کی مثال

تیری گردِ راہ جس آئینے کا جوہر ہوئی             (سید نظرزیدی)

ہفت مضامین کے بعد الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ  کے امتیازی اوصاف بیان کیے گئے ہیں اور الوفاق العالمی للدعوۃ الاسلامیۃ  کے مختلف شعبوں کا مختصرتعارف کرایاگیاہے۔ان اوراق کے آخرمیں انصاری کوئز مرتب کیا گیا ہے جو کل 313 سوال وجواب پر مشتمل  ایک مختصرکتابچہ ہے ۔

جہاں تک مضامین کے عنوان کا تعلق ہے تو ہرمضمون کا عنوان ایک مصرعہ کی صورت  میں  قائم کیاگیا ہے ۔جس میں اس موضوع سے ایک خاص ربط وتعلق اورحضرت ڈاکٹرانصاری صاحب کی شخصیت کا دمکتا پہلو پایاجاتاہے۔قارئین مکمل مضمون پڑھنے کے بعد جب اس مصرعہ کودوبارہ پڑھیں گے تو عنوان قائم کرنے  کی وجہ  اور مصرعہ کامفہوم بخوبی سمجھ جائیں گے۔

دائرہ کا سفر:

ان اوراق کی مجموعی تعداد 360 ہے۔اورجیومٹری سے واقف کاربخوبی جانتے ہیں کہ °360 ڈگری زاویہ سے ایک دائرہ مکمل ہوجاتاہے۔ہمارے اطراف واکناف میں کئی دائرے موجود ہیں۔جن میں لوگ سماتے ، نکلتےاورسفر کرتے رہتے ہیں۔

میں دائروں سے نکل رہاہوں                 وہ   دائروں    میں    سما رہا   ہے

اب یہ انسان پر محیط ہے کہ وہ کس قسم کے دائرہ کامسافرہے۔اوراس کا دائرہ کار کتنا ہے۔بعض اپنی ذات کے دائرہ سے نکلنا پسند نہیں کرتے۔ان کا پسندیدہ ترین مقام ان کی ذات اورانا کا خول ہوتاہے۔لیکن ایسے افراد اول تو کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں کرپاتے اوراگرکوئی مقام حاصل کر ہی لیں تو انسانیت کو ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔اس لئے ان کا کسب کمال حاصل کرنا نہ کرنا برابر ہے۔ ان کے بارے میں سید تابش اَلْو َرِی کہتے ہیں:

وہ کائنات سے کیسے کرے گا کسبِ کمال

جو  اپنی  ذات سے باہر نکل نہیں سکتا

اورعندالبعض بھی الگ الگ دائرے ہوتے ہیں۔جن کا یہاں ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ ویسے تو جناب ابن انشاء نے بھی دائرہ پر بہت بلیغ تحریر رقم کی تھی۔ ۔۔۔بہرحال ان تمام دائروں کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:

نسل، قومیت،  کلیسا، سلطنت، تہذیب،  رنگ

خواجگین نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات

بعض اوقات انسان کو زندگی گزارنے کے بعد(اواخرعمر) یہ  احساس ہوجاتاہے کہ وہ اپنی پوری زندگی ایک دائرے میں سفرکرتارہا لیکن بسا اوقات اس وقت کا ادراک عبث وبے سود ہوتاہے:

شاید سفر ہماراکسی دائرے میں ہے

رستے سے کوئی میل کا پتھرنہیں گیا

لیکن ان تمام دائروں سے ہٹ کر حضرت ڈاکٹر انصاری صاحبؒ صراط مستقیم  کے راہی تھے۔ آپ علیہ الرحمہ اللہ رب العزت کا کلام (قرآن مجید)جو زمان و مکان سے پاک ہے اور حضوراکرمﷺ کا آفاقی وابدی پیغام لے کر ان تمام چھوٹے بڑے  گروہی،مسلکی ، لسانی،وطنی، اختلافات اوردائروں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اعلائے کلمۃ الحق  میں مصروف رہے۔ جن حضرات نے  آپ علیہ الرحمہ کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔

اِعتذار:

اس تحریر میں اگرعلمی کم مائیگی و بے بضاعتی کے سبب کوئی نادانستہ غلطی  ،خامی،کوتاہی نظرآئے یا کسی کی دل آزاری اوردل شکنی  ہوگئی ہو تواس سے صرفِ نظربلکہ درگزرکیا جائے کیونکہ درحقیقت یہ کوئی علمی وتحقیقی مقالہ نہیں اور نہ ہی اس بندہ عاجز کا یہ مقام ہے  بلکہ یہ توآزردہ اور شکستہ دل؂[11]  فردکے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہے۔جس نے قلم کاسہارالے کر ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاریؒ صاحب سے اپنی قلبی عقیدت اورمحبت کا اظہار کیا ہے۔ جہاں تک اظہارمحبت کا تعلق ہے اس میں کسی بھی فردکو محدود وپابند نہیں کیاجاسکتاہے کہ وہ اپنی محبت کا اظہار کسی خاص پیرائے اور خاص حد تک کرے۔ یہ اوراق تحریر کرنے کا مقصد وحید اس محبت کا اظہار ہے:بقول حفیظ الرحمن احسن

نہیں ہے اوروں کے عیب وخطا پہ میری نظر

میں سر بہ  جَیب  محبت  کی   خانقاہ   میں   ہوں

اس محبت کو خود سے جدا کرنے کا تصور بھی روح فرساں ہے کیونکہ عاجز کے پاس اظہار محبت کے علاوہ اور ہے ہی کیا۔اس سے ماسوا اپنا حال تو وہی ہے جس کے بارے میں جناب بہادر شاہ ظفر فرماتے ہیں:

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر

پڑی    اپنی   برائیوں   پر جو   نظر    تو    نگاہ    میں    کوئی    برا     نہ   رہا

کلمات تشکر:

اللہ رب العزت کا شکر بجالانے کے ساتھ ساتھ کارخیر میں تعاون کرنے والے حضرات گرامی کا بھی شکریہ اداکیاجاناچاہئے۔حدیث مبارکہ ہے : من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ"جو شخص لوگوں کاشکرگزار نہیں ہوتا وہ اللہ تعالی کا شکر ادا نہیں کرتا۔"؂[12]

آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس قول مبارک پر عمل کرتے  ہوئے راقم ان تمام افراد کا تہہ دل سے شکرگزار ہے جنہوں ان اوراق کے تحریر کرنے میں (راقم کی) کسی بھی قسم کی رہنمائی  کی یا ان اوراق  کا پروف پڑھ کر اغلاط کی اصلاح کی۔ ویسے توراقم گزشتہ سطور میں اساتذہ کرام اورحضرت صاحب علیہ الرحمہ کی طرف رہنمائی کرنے والے حضرات گرامی کے لئے" اہل معانی" کے عنوان سے حروف سپاس نذرکرچکاہے ۔ لیکن بعض احباب جن میں جناب پروفیسرزاہد الحق صاحب،جناب پروفیسر علامہ عابد علی سیفی صاحب،جناب پروفیسرسید محمد ذوالقرنین صاحب،جناب ظفرالحسن صاحب، جناب علامہ محمد شاہد خان صاحب،جناب علامہ محمد ذہیب سمول صاحب ،جناب علامہ محمد صدیق صاحب ،جناب علامہ عبیداللہ  علیمی صاحب ،جناب اصغرعلی صاحب ودیگر چند احباب ایسے  ہیں جن کا وہاں تذکرہ نہ کیاجاسکا تھا۔راقم ان تمام احباب کا بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکرگزار ہے۔

دعا:

یہ دعا جاتی ہے جذبوں کے پروں سے اڑکر     

ہاتھ   تو  اُٹھّیں   مگر  دل   بھی   دعا  تک   پہنچے             (منظربھوپالی)

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ الوفاق العالمی للدعوۃ الاسلامیہ  اورالجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ کے ہرآنے والے لمحے کوسابقہ لمحے سے بہتر اوربلندترفرما ئے۔

 حضور اکرم،نورمجسم ﷺ کی ذات بالا صفات  میں سے ایک صفت کے طفیل یعنی "وَلَلْآَخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَى"؂[13] (ہر آنے والا لمحہ آپ ﷺ کے لئے پہلے سے بہتر ہے) کی کیفیت سے اس ادارے کو بھی سرفراز فرمائے۔ جس میں (حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ روز بروز آپ کے درجے بلند کرے گا اور عزت پر عزت اور منصب پر منصب زیادہ فرمائے ساعت بَساعت آپ کے مراتب ترقیوں میں رہیں گے؂[14])

 انتظامیہ اورجملہ متعلقین ادارہ ھذا کو ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کے مشن کی تکمیل اور حضرت  شاہ محمدعبدالعلیم صدیقی  اور ڈاکٹرفضل الرحمٰن الانصاری علیہما الرحمہ کے نقوش جلیلہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ نیزجس طرح یہ  نفوس قدسیہ اپنی حیات طیّبہ میں رب سے ملاقات کے شوق اورحضورﷺ کے دیدار کی آرزوسے معمور تھیں ہمیں بھی دنیا میں محبت سے سرشار اتباع وپیروی نبئ اکرم ﷺ کی توفیق دے  اورآخرت میں  دیدارِ نبی اور رؤیت الٰہی سے سرفراز فرمائے۔

کر  عطا   اپنا   مجھے شوقِ لقا

دین و دنیا کی خرابی سے بچا

اے اللہ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، اے اللہ! جو تو پھیلا دے اسے کوئی سمیٹ نہیں سکتا ، جسے  تو دور کردے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا ، جسے تو قریب کردے اسے کوئی دور نہیں کرسکتا ، جس سے تو قبض کرلے  اسے کوئی دینے والا نہیں ہے اور جسے تو عطاکرے اس سے کوئی چھیننے والانہیں ۔اے اللہ! ہم پر اپنی رحمتیں ،برکتیں، فضل نازل فرما اور بہترین رزق  عطا فرما ۔ اے اللہ! ہم تجھ سے کبھی نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں جو ہمیشہ قائم رہیں اور تیری اطاعت میں حائل نہ ہوں ۔ اے اللہ!ہم تجھ سے ہر تنگی میں آسانی اورہر جنگ کے دن امن کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اس چیز کی برائی سے جو تو نے عطا کی اور اس چیز کے شر سے جو تو نے ہم سے روک لی۔

اے اللہ ہماری گمراہی کو ہدایت سے، ظلمت کو نورسے ،کج روی کو صراط مستقیم سے، شقاوت کو سعادت سے،جہالت کو علم نافع سے، بدامنی کو امن سے،بے باکی کو حیاء سے، انتشار کو اتفاق سے، افتراق کو اتحاد سے، کمزوری کو طاقت سے ،بزدلی کو بہادری سے،حزن کو خوشی سے، سنگدلی کو نرم دلی سے،مایوسی کو امید سے،شکستگی کو سلامتی سے ، مرض کو صحت سے، تنگدستی کو تونگری سے تبدیل کردے۔اورہمیں رحمت وبرکت،سکون ومحبت،طمانیت وقناعت اور ہمت و حوصلہ عطافرما جوہم سے روٹھ چکا ہے۔

اے اللہ !اس ادارے کے ساتھ دامے، درمے، سخنے یعنی مالی،بدنی،قلمی،معاشرتی اور اخلاقی غرض کسی بھی قسم کا تعاون کرنے والے افراد کو اپنی شان کے مطابق اجروانعام سے نوازتے ہوئے انہیں دنیا اورآخرت  دونوں جہانوں میں  کامیابیوں اورکامرانیوں سے سرفراز فرما۔

اے اللہ!ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرما، ہمارے اورہماری آنے والی نسلوں (اولاد اور طلبہ) کےعلم وعمل میں برکت عطافرمااورہمارےقلوب میں دین اسلام کی دعوت واشاعت کی تڑپ پیدافرما۔

یااِلٰہی! میری ،میرے والدین  کریمین،اساتذہ کرام، میری مرحومہ ہمشیرہ (بنتِ ؒرمضان)؂[15]،  میرے احباب،متعلقین اورجملہ مسلمانوں کی بخشش ومغفرت فرما۔آمین ۔بجاہ سیدالمرسلینﷺ

فسھل یاالھی کل صعب

بحرمۃ سید الابرارسھل

                                                                                والسلام :ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

غفرلہ ولوالدیہ ولمشائخہ

yahyaramzan@gmail.com




؂[1] ۔ حضرت جعفرصاحب مرحوم کا نام ذہن میں آتے ہی مجھے ایک واقعہ یاد آجاتاہے کہ جب ١٩٩٣ء؁ میں راقم نے ابتدائی جماعت

(Preparatory Class)(موجودہ صف اللغۃ ) کا امتحان پاس کیا تو اس وقت جنرل سیکرٹری جناب شیخ محمد جعفر صاحب (مرحوم)، استاد محترم جناب انوار اللہ صاحب اوراس وقت کے صدر الوفاق جناب حبیب بٹ صاحب (مرحوم) تینوں حضرات ذی وقار و حشم نے مجھے سالانہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پر سو سو روپے بطور انعام دیئے اور سرانوار صاحب  کاکہاہوا جملہ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے کہ یہ ہمارے ادارے کے سب سے کم عمر طالب علم ہیں۔

؂[2] ۔  آپ بہت بہترین کاتب اورخطاط تھے۔میری معلومات کے مطابق آپ نے کم ازکم دومکمل قرآن مجید کے نسخوں کی کتابت کی جو آپ کی بہترین خطاطی  کا اعلیٰ شاہکار ہیں۔جن میں سے ایک نسخہ  سابق لائبریرین جناب شمیم الدین صدیقی صاحب کے پاس آج بھی موجود ہے۔اوروہ اس نسخہ پر تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں۔یوں یہ نسخہ قرآن جناب عابد سعید صاحب کے لئے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

؂[3] ۔  ڈیل کارنیگی نے  ایک جگہ  تحریر کیا ہے کہ جب کبھی وہ کسی ایسے مسئلہ میں الجھ جائے جس کا اسے حل نہ مل رہا ہو تو وہ ابراہم لنکن کی تصویر اپنے سامنے رکھ کرسوچتا ۔ جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ اسے مسئلہ کا حل  مل جاتا ۔حقیقتاً ایسا ہی ہے کہ جوشخص کسی شعبہ میں عَلم(عظمت کا نشان) سمجھا جائے اس کے میدان کے درپیش مسائل اسے سامنے رکھ کر یا دل میں سوچنے سے ایک خاص قسم کی تقویت حاصل ہوتی ہے۔بالاخر انسان کسی ممکنہ حل تک پہنچ جاتاہے۔مثلاً کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی سینے پر لکھنے سے شیطان اس شخص کے قریب نہیں پھٹکتا ۔ اسی طرح عالم،فقیہ،فلسفی،چٹان کی مانند حوصلہ  رکھنے والے صاحب کردار شخص  کی تصاویرسے علم وحکمت کے ساتھ جرأت وحوصلہ بھی حاصل ہوتاہے۔

؂[4] ۔  مزارمبارک کا جہاں تذکرہ آیا ہے وہیں باباعبدالرسول  مرحوم ( جنہیں محبت واحترام سے چاچا پکاراجاتاتھا) کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ جامعہ علیمیہ کی تاریخ ان کے بغیر ادھوری اورنامکمل ہے۔ انہوں نے تین سے چار دہائیاں انتہائی جانفشانی، تندہی اور بے لوثی سے  ادارہ کی خدمت میں صرف کیں۔جامعہ علیمیہ کا شاید ہی کوئی ایسا گریجویٹ یا طالب علم  ہو جو بابا عبدالرسول سے واقف نہ ہو۔ یوں ان سے وابستہ یادیں بہت گہری اوربہت پرانی ہیں۔ ان کے اپنے احوال،اساتذہ کے ان کے متعلق اقوال، طلبہ کے ان سے متعلق سوال غرض کئی امور ایسےہیں جو ذکر کئے جاسکتے ہیں لیکن یہ امور اس وقت زیربحث نہیں اس لئے ان سے صرف نظرکرتے ہوئے صرف ایک واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے:"ایک دفعہ ایک طالبعلم کے چہرے پر دانے نکل آئے۔ بابا نے جب اسے دیکھا تو مزار پر لے جاکر کہا کہ یہاں سے کچھ مٹی (خاک شفاء) اپنے چہرے پر مل لو تمہیں ضرور شفاء مل جائے گی۔ پھر کہا! اتنے عظیم بزرگ یہاں مدفون ہیں اورتمہارے دانے صحیح نہیں ہورہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے (کتنااعتقاد تھا صاحب مزارسے!)" یہ اوراس قسم کے کئی دیگر واقعات ہیں جو بابا کو علیمیہ کی تاریخ میں زندہ جاوید رکھیں گے۔کیونکہ میرے نزدیک انسان کی عظمت بڑے عہدے میں نہیں بلکہ جوبھی ذمہ داریاں اس کے سپرد کی گئی ہوں اگر وہ انہیں بطریق احسن انجام دیتا ہے ، جانثاری سے اپنے امورسرانجام دیتاہے  یہاں تک کہ اس پوسٹ کے لئے وہ ایک عَلم یا نشان بن جائے یہی اس کہ عظمت کا ثبوت ہے ۔جہاں تک بابا کاتعلق ہے وہ ان اوصاف پر من وعن پورااترتے  ہیں!

 یہاں پر یہ ذکربھی بہت اہم ہوگا کہ  بابا کی خاص بات مزاراورصاحبِ مزار سے بہت عقیدت واحترام  رکھنا تھا۔ آپ(ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ) کے مزار پر سایہ کئے ہوئے نیم کے درخت ، اس درخت کے قرب وجوار میں  رہنے والے حشرات الارض اور اس درخت پربیٹھے طیور کا بھی بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور اپنی جیب خاص سے ان کے لئے کبھی چینی ،کبھی پراٹھا کبھی کچھ کبھی  کچھ منگواکروہاں ڈالتے۔ چاچا سے دوستی کے خواہاں طلبہ آپ کو کوئی چیز اطراف مزار ودرخت ڈالنے کے لئے لادیتے یا ان سے کوئی خوشبو (اگربتی، جوچاچاخود بناتے تھے) خرید  لیتے تو بابا اس(طالبِ علم) کے گہرے دوست بن جاتے اورپھر ان کی دوستی کے درمیان عمر کاتفاوت بھی آڑے نہ آتاتھا۔ اللہ رب العزت چاچا کی مغفرت فرمائے اوران کے درجات بلند فرمائے۔آمین

؂[5] ۔ مکالمات اقبال،سعید راشد علیگ،ص443

؂[6] ۔ رواه البخاري

؂[7] ۔ صحیح  مسلم

؂[8] ۔ کوانٹم فزکس کا جب ذکر آیا تو اس امر کی صراحت بھی ضروری ہے کہ آپ علیہ الرحمہ اس میدان سے بھی بخوبی واقف تھے۔ جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب صدرالوفاق بارہا اپنی تقاریر میں یہ بات پیش کرچکے ہیں کہ ایک دفعہ آپ اپنے ایک دوست سے  کوانٹم فزکس کی کسی تھیوری پر بات کررہے تھے ۔ایک مقام پر آپ کچھ الجھ گئے تو ان کے والد محترم(ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ )  جو وہاں قریب ہی تھے انہوں نے فوراً مسئلہ کی  وضاحت فرمائی اورکہا کہ فلاں کتاب  کے فلاں صفحہ پر دیکھ لو جب اس کتاب میں دیکھا تو بعینہ اس صفحہ پرانہی الفاظ میں وہاں مرقوم تھا جن میں آپ نے وضاحت فرمائی تھی۔کیا ہی علمی شان تھی !کیا ہی تبحرعلمی تھی!سبحان اللہ!

[9] Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 29

؂[10] ۔ حضرت صاحب ؒ نے بھی 1938ء میں  اسلام کا دفاع کرتے ہوئے ماہنامہ Genuine Islam کے لیے سات بہترین اورلاجواب مضامین(ہفت مضامین) تحریرکیے تھے ان ہی کی پیروی کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ  کی حیات مبارکہ پرہفت مضامین تحریرکرنے کی کوشش کی ہے۔

؂[11] ۔  اس شکستگی اورآزردگی کا سبب مسلمانوں کی زبوں حالی  اورپستی  کی انتہاء ہے کہ اسلام کا کوئی جوہر آج ہم میں نہیں پایاجاتا۔نہ صداقت،نہ امانت،نہ دیانت،نہ اخلاق ،نہ عمل،نہ علم اورنہ ہی تربیت۔اس کے برعکس ہر قسم کی بداخلاقیاں  اوربرائیاں ہماری ثقافت،معاشرت ،تہذیب کا حصہ بن چکی ہیں مثلاًجہالت،سودخوری،رشوت،رہزنی ،ملاوٹ،دھوکہ دہی، وغیرہ وغیرہ، اوراس پر مستزاد ہماری قومی بے حسی بلکہ!!! جسے  دیکھتے ہوئے الطاف حسین حالی کی یہ رباعی ذہن میں ابھرتی ہے جو انہوں نے مسدس حالی کی ابتدا  میں تحریر کی ہے:

پستی  کا   کوئی    حد    سے   گزرنا   دیکھے             اسلام    کا    گر    کر    نہ    ابھرنا   دیکھے

مانے نہ کبھی کہ مد  ہے ہر جزر  کے  بعد     دریا     کا     ہمارے     جو     اترنا    دیکھے

؂[12] ۔ ترمذی شریف ۔ رقم 1955

؂[13] ۔  سورۃالضحیٰ:4

؂[14] ۔  تفسیر خزائن العرفان ،حضرت صدر الافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ، سورۃالضحیٰ:4

؂[15] ۔  جن کا وصال 20 مئی 2017 بمطابق 23 شعبان المعظم 1438ھ میں 38 برس کی عمر میں   ہوا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post