ڈاکٹرحافظ محمدفضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ

 کی خدمات

 

اولیاء اللہ کی جگ بیتی کامطالعہ کرنا اوران کی شخصیات کے متعلق جاننانہ صرف دلچسپ، پُرلطف اور معلومات افزا ہے بلکہ یہ قارئین کی زندگیوں کی اصلاح کے لیے بیش بہا اور قیمتی خزانہ   بھی ہے کیونکہ ان کی سیرت ہمارے لیے مشعل راہ،شمع زندگی اور قندیل حیات ہونے کے سبب ہمیں وہ روشنی اورنور فراہم کرتی ہے  جو کردار سازی کے لیے ایک موثر اورکارگرنسخۂ کیمیاء ہے۔

شخصیت کی ضرورت کتاب سے بھی زیادہ ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی آمد کے باوجود کتب وصحائف کی تعداد صرف ١٠٤ ہے باقی دیگر انبیاء صرف اپنی شخصیت اورعملی کردار سے ہی راہِ ہدایت دکھانے والے تھے۔

نیک بندوں کی سوانح کا مطالعہ کیاجائے توانکا کرداراتنا اعلیٰ اوربرتر نظرآتا ہے کہ آج کے دورکے لحاظ سے یہ صرف افسانوی کردار لگتا ہے۔لیکن یہ صرف قصے یا افسانے نہیں بلکہ عملی کردار کے حامل افراد تھے۔جن کی مثل ہمیں آج کہیں نہیں ملتی اوران کی نظیر ڈھونڈنااگرمحال نہیں تو مشکل ضرورہے۔ ان ہی نفوس قدسیہ میں سے ایک پاکیزہ اورلافانی شخصیت ڈاکٹرعلامہ حافظ محمد فضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ کی ہے ۔ بقول فراق گور کھپوری

اک کشش ہوتی ہے اسلاف کی جگ بیتی میں

قصہ گو  عہد  گزشتہ  کے  کچھ  افسانے سنا

صحافتی خدمات:

اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر محمد فضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ کوزبان اورقلم کی زبردست لیاقت، قابلیت وصلاحیت ودیعت فرمائی تھی۔یہ کہنا کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ اپنی بلند فکر،اعلیٰ سوچ اورتخیل کی بلندپروازی کو الفاظ کا جامہ پہنا تے ہوئے مجسم شکل بناکر سامعین وقارئین کو آنکھوں سے دکھانے کی قوت وطاقت رکھتے تھے۔ یعنی وہ خیال جو آپ کے ذہن میں ہوتا آپ نہایت ہی شاندار،بلیغ وفصیح  اسلوب میں انہیں الفاظ کی ایسی قبا دیتے اوران کی اتنی شاندار خاکہ نویسی یا نقشہ کشی کرتے  گویا سامنے والا انہیں اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ رہا ہو،جیسا کہ جوش ملیح آبادی کہتے ہیں:

جب سوچ کو فکروں کی قَبادیتاہوں

الفاظ کو آنکھوں سے دکھادیتاہوں

ان خداداد صلاحیتوں کی بناء پراگرآپ چاہتے تو شاندار دنیاوی مستقبل( کیریئر)آپ کا منتظرتھا۔ آپ نے آغاز ہی Publicity Officer  کی حیثیت سے کیا تھا جہاں آپ کا مشاہرہ 396 روپے تھا(یہ اس وقت کے لحاظ سے ایک معقول  اوراچھی تنخواہ تھی)۔لیکن آپ فطرۃً و مزاجاً  نوکرشاہی یا افسری سے بیزارتھےکیونکہ یہ مزاج صرف تعیش پسندزندگی گزارنے کی طرف مائل کرتاہے۔ جب کے اس کے برعکس ان صلاحیتوں کے ساتھ اللہ رب العزت نے آپ کو دردمند دل سے بھی نوازاتھا جومسلمانوں کے سیاسی، معاشی،تعلیمی، حالات پر بڑادکھ محسوس کرتا تھا۔مسلمانوں کی بدحالی اور بے بسی آپ کے لیے بڑی تکلیف کا باعث تھی ۔حضوراکرم ﷺ کی سنت مبارکہ  یعنی "فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰۤي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا"؂[1](توکہیں آپ(ﷺ) ان کے پیچھےغم سے اپنی جان پر کھیل جاؤ گے اگروہ اس بات پر ایمان نہ لائیں)کی پیروی کرتے ہوئے آپ بھی دنیا کے باسیوں کو آخرت کی آگ سے بچانے کے لیے فکرمندتھے۔دوسروں کونارِ جہنم سے بچانے کی فکرروزبروز  شدت اختیار کرتی جارہی تھی  یہاں تک کہ آپ کو اندرہی اندر سے کھارہی تھی۔گویا ایک آگ دل میں جل رہی تھی جو سرد ہونے کا نام تک نہ لیتی تھی۔جس کا آپ نے  حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ کی جانب ایک سے زیادہ  مکتوبات میں اس کا میں ذکر بھی کیاہے۔آپ علیہ الرحمہ حضرت صاحب کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

"اگر خدمت دینی کا ولولہ دل سے نکل جاتا اور وہ آگ سرد ہوجاتی ہے جو اندرہی اندر کھارہی ہے تو موجودہ ملازمت بہت ہی راحت کی چیزہوتی۔"؂[2]

اگرچہ ظاہری اعتبار سے یہ ملازمت بہت ہی راحت کے سامان لیے ہوئے تھی لیکن آپ چونکہ دنیاوی تعیشات کے دلدادہ نہ تھے بلکہ ایک خاص مقصد اورنصب العین کے حامل تھے اس لیے شاندار ملازمت کے باوجود دینی خدمت کے شوق اورتڑپ کی وجہ سے آپ ایک بے چینی واضطراب محسوس کررہے تھے ۔اس اضطرابی کیفیت نے اپنی ذات کے حوالے سے دنیاوی تعیشات کے دروازے خودپر ہمیشہ کے لیے بندکردینے پرآمادہ کردیا۔

نیز آپ  ایک دوسرے مکتوب میں فرماتے ہیں:

نیز امت مسلمہ کی جس دردناک حالت نے اس وقت مجھے مجبور کیا تھا کہ میں"آتشِ عشق" میں کودجاؤں وہ دردناک حالات اب بھی بجنسہ ٖ موجودہیں۔؂[3]

آپ علیہ الرحمہ کا مذہب عشق کس قدرقوی وشدید تھا اس کا اندازہ اس امرسے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ آپ علیہ الرحمہ حجاز مقدس کی حاضری کی دعوت ملنے پر اس میں تاخیر کے بھی روادار نہ تھے کجا اس سے انکار کرنا کیونکہ اس سے انکار تو آپ کی نگاہ بلند میں کفر کے مترادف تھا۔ آپ علیہ الرحمہ اپنے ایک مکتوب میں اس کی صراحت کچھ یوں فرماتے ہیں:

"حجاز مقدس کی حاضری کی دعوت صرف خوش نصیبوں کوملتی ہے اس سے انکار مذہبِ عشق میں کفرہے" ؂[4]

ان مکتوبات سے آپ کی قلبی وذہنی کیفیت بخوبی منعکس ہوتی ہے کہ آپ کس پائے کے عاشق رسول ﷺ تھے! اسی وجہ سے مذہبِ عشق کے پیروکار کو آتش عشق کی لپیٹوں نےمضطرب وبے چین کردیا۔اسی عشق کی بے چینی نے آپ کی توجہ حضورﷺ کی  امت  کی جانب مبذول کی جو دکھوں اورتکالیف میں گھری ہوئی تھی۔ آپ علیہ الرحمہ  حضورپرنورﷺ کے اس فرمان کی عین تصویرتھے:

عن النعمان بن بشير ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم، ‏‏‏‏‏‏مثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى ". ؂[5]

سیدنانعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومنوں کی مثال ان کی دوستی اور اتحاد اور شفقت میں ایسی ہے جیسے ایک بدن کی (یعنی سب مؤمن مل کر ایک قالب کی طرح ہیں) بدن میں جب کوئی عضو درد کرتا ہے تو سارا بدن اس میں شریک ہو جاتا ہے نیند نہیں آتی، بخار آ جاتا ہے .“ (اسی طرح ایک مؤمن پر آفت آئے خصوصاً وہ آفت جو کافروں کی طرف سے پہنچے تو سب مومنوں کو بےچین ہونا چاہیے اور اس کا علاج کرنا چاہیے)۔

بالآخراسی عشق مصطفوی(ﷺ) اورخوف خدا نے آپ کی ہستی کو ایک نیا رنگ دیا جہاں آپ نے اپنی ہستی کو عشق نبی میں فناکرکے وہ جرأت،بے خوفی وحوصلہ حاصل کیا جس نے آپ علیہ الرحمہ کو فقیری میں بھی تمام قسم کے معاشی ،معاشرتی تفکرات اورسیاسی دباؤسے آزاد کردیا۔

اس قدر عشق نبی ہو کہ مٹادوں خود کو

اس قدرخوف خدا ہو کہ نڈرہوجاؤں            (مظفروارثیؒ)

اسی  وجہ سے آپ نے اپنی ملازمت کوخیرآباد کہہ دیا  کیونکہ آپ اپنی تمام ترتوانائیوں ، قوتوں اورطاقتوں کو امت مسلمہ کے دکھوں کا مداوا اوردین اسلام کی ترویج کی خاطر صرف کرنا چاہتے تھے۔

آپ چاہتے تھے کہ مسلمان اسلام کے سچے پیروکار بن کردنیامیں حقیقی اسلامی زندگی کا نمونہ پیش کریں۔آپ اس پیغام کو عام کرناچاہتے تھے کہ اگر مسلمان اسلام کی پیروی کریں اورقرآن وسنت کی طرف لوٹ آئیں تو دنیا میں سب سے زیادہ طاقتورہوسکتے ہیں ۔یہی آپ کی زندگی کا سب سے اہم پیغام تھا اوریہی نعرہ (Slogan) آپ بلند فرماتے رہے :

Back to Quran and Back to Muhammad

اوروں کاہے پیام اور میراپیام اور ہے

عشق کے دردمند کا طرزِکلام  اور ہے              (علامہ اقبالؒ)

آپ نے عملی کردار کے ساتھ ساتھ زبان اور قلم کے ذریعے بھی تبلیغ اسلام اورجہاد کافیصلہ کیا۔اور حضور اکرم ﷺ کے اس ارشاد مبارک کی تعمیل میں ہمہ تن مصروف ہوگئے:

ان المؤمن یجاہد بسیفہ ولسانہ۔؂[6]

بیشک مجاہد اپنی تلوار اور زبان کے ذریعے جہاد کرتا ہے ۔

اورآپ علیہ الرحمہ ایک بار جب جہادبالقلم واللسان میں مصروف ہوگئے توپھر دنیاوی تعیشات کو ٹھوکرمارتے ہوئے ان سے بے نیاز ہوگئے۔اوریوں محسوس ہونے لگا کہ آپ کو دنیا وی اسباب کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا(اہل دنیا) کوآپ کی ضرورت ہے۔آپ نے ایسے بے غرض وبے لوث مجاہد کا روپ دھاراکہ  دنیاحیرت میں مبتلاہوگئی۔یوں آپ اس شعر کے مصداق ہوگئے۔

کیا چیز  مجاہد  ہے  حیران  زمانہ  ہے

درکارانہیں شاید پانی ہے نہ دانہ ہے

ملائیشیا  اورمشرق بعید  اعلاء کلمۃ الحق:

آپ علیہ الرحمہ ایسے مجاہد تھے جس نے زبان اور قلم (تقریر وتحریر) دونوں سے تبلیغ اسلام اوراعلاء کلمۃ الحق کاکام لیا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی آپ کا بطور صحافی کام کرناتھا۔آپ کے مجاہدانہ ،بہادرانہ اوردلیرانہ رویہ کے ساتھ شائستہ ،معقول ،پروقار،بارعب انداز کی جھلک ہمیں اپریل 1938ء میں  ملتی ہے ۔ جب برطانوی راج کے دوران موجودہ ملائیشیا کی ریاست سلانگور(Selangor)  کی قانون ساز اسمبلی میں ایک قانون کا مسودہ بنام "ملایا کی وفاقی ریاستوں کے لیے حدود شرعی کا قانون " پیش کیاگیا۔ جس  میں اسلامی قانون کی بالادستی کامطالبہ کیاگیا ۔ ملائیشیا  اورمشرق بعید کے تمام اخبارات ورسائل  میں اس مطالبہ کا سخت ردِعمل  آیا۔بالخصوص “The Straits Times of Singapore” دی اسٹریٹس ٹائم آف سنگاپور نامی انگریزی اخبارنے اس مطالبے پر لفظی خانہ جنگی شروع کردی۔اور اداریئے میں  یہ شہ سرخی لگائی ۔

Go to Mosque or go to prison.

مسجد جاؤ یا پابند سلاسل ہوجاؤ

اس کے علاوہ   بھی دیگرکئی اخباروں  نےاس مطالبہ کی مخالفت میں کئی مضامین لکھے۔ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ یہ لفظی گولہ باری  اورطوفان بدتمیزی روز بروز بڑھتارہا۔شدت جذبۂ نفرت میں  ان جہلاء کی زبان اورقلم ان کے قابو میں نہ رہا اور وہ اس عربی محاورہ "لسان الجاہل مالک لہ ولسان العاقل مملوک لہ" ۔جاہل اپنی  زبان کا غلام ہوتاہے اور عقلمندکی زبان اس کی غلام ہوتی ہے۔وہ (جہلا)اپنے آقا (بدزبانی )کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس درجہ پستی میں اترگئے کہ یہ  طوفانِ بدتمیزی واستہزاء دشنام طرازی  اور گالیوں میں تبدیل ہوگیا ۔ بقول آتش

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں  بگڑی   تو  بگڑی تھی  خبر لیجئے   دہن   بگڑا

 چونکہ اس کی قیادت ناموراورمشّاق  انگریز اورچینی صحافی  کررہے تھے۔ جوپیشہ ورانہ عیاریوں، چالبازیوں، مکاریوں کا استعمال بخوبی جانتے تھے۔ دوسری جانب اس قانون کی حمایت انتہائی کمزورتھی۔ مسلمان دفاعی پوزیشن پر آگئے۔ اس دباؤ کی وجہ سے کوئی بھی مسلمان صحافی اس مطالبہ کا دفاع کرنے کوتیارنہ تھا۔ جس وجہ سے نیم دل اورکمزور ایمان والے مسلمان اسلام چھوڑ کر عیسائیت میں داخل ہونے لگے۔جو ان ابلیسی قوتوں کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔

 ان حالات میں ملائیشیا اورمشرق بعید کے ان مسلمانوں کے دفاع کے لیے  تنِ تنہا ایک پاکستانی نوجوان قلم کار صحافی  سربکف سینہ تانے کھڑا ہوا ۔جسے آج ہم ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری کے نام سے جانتے ہیں۔اورصحیح معانی میں آپ ہی اس مقام پر مسلمانوں کی قیادت کے اہل تھے۔ کیونکہ اگربہترین قیادت وسیادت  کے اوصاف دیکھے جائیں تو آپ علیہ الرحمہ ان اوصاف سے متصف نظرآتے ہیں:مثلاً اخلاص وللہیت،اعلیٰ علمی قابلیت،بہترین ذہانت واستدلال،زبان دانی میں مہارت، دیگراعلیٰ مہارتیں،انتظامی صلاحیتیں، جوش وولولہ لیکن ہوش وخرد کےساتھ،جرات وحوصلہ،ہرقسم کے خطرات کاجوانمردی سے سامناکرنا،قیادت کرتے ہوئے سب سے آگے رہنا،قوم وملت سےہمدردی،اسپورٹس مین اسپرٹ وغیرہ وغیرہ۔

آپ ؒ نے اس طوفان بدتمیزی  اورلفظی جنگ کے خلاف شائستہ ،بارعب ، پروقار،مدلل لیکن دل موہ لینے والے انداز میں دلائل کے انبار لگادیئے کہ وہی اخبار جو اس بدتمیزی کا سرخیل تھا اسی اخبار نے ان (ڈاکٹرانصاریؒ) کے دلائل  جو کہ بصورت ﴿ہفت مضامین ﴾ تھے نہ صرف شائع کیے بلکہ تسلیم کیا  کہ ان کے دلائل معقول ،پیشہ ورانہ  اخلاقیات اوربہترین اسلوب استدلال  سے معمورہیں  اور ان کے مخالفین کے برعکس ہرلحاظ سے بہتر وشائستہ ہیں۔آپ علیہ الرحمہ کے یوں مقابلہ کرنے سے وہاں مسلمانوں کے تن بیمارمیں جان عودکرآئی۔ آپ علیہ الرحمہ نے اس شوروغل کے پردہ میں چھپی ہوئی اسلام دشمنی کے راز کو بہت ہی حکمت ودانائی سے اپنے ہفت مضامین میں عیاں کیا اورمخالف صحافیوں کی اسلام دشمنی بلکہ اسلام کُشی کے کردار سے نقاب  اتارکرمسلمانوں کا بہترین دفاع کیا۔شاید ایسے ہی کسی موقعہ کے لیے کسی شاعر نے خوب کہاہے:

سربستہ  راز  سرِ بازار کھل گیا

اس نے کیا کلام توکردارکھل گیا

Islam and Christianity in the Modern World کی  وجہ تصنیف:

اس بحث کی مکمل تفہیم اورتفصیل کے لیے ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کا لکھاگیا دیباچہ  مع ترجمہ پیش خدمت ہے۔جونہ صرف کتاب Islam and Christianity in the Modern World کی تحریرکاسبب،ضرورت اوراہمیت پر کماحقہ روشنی ڈالتاہے بلکہ عیسائیت کے رجحانات، حقیقت،تعصب اوران کے منفی کردارکو ظاہر کرتاہے۔

“Islam contends that: The founders of traditional Christianity have painted Jesus and his Creed in colours drawn from the pagan paint¬box.

The present book is an attempt to evaluate this contention in the light of modern researches and recent tendencies and to judge the Christian claims accordingly.

It was the vituperative eloquence of Dr. Samuel M. Zwemer which first attracted me towards the subject. The interest thus created was kept alive by minor Christian controversialists until at last the Rev. Cash (Moslem World in Revolution), Dr. Wherry (Islam and Christianity in India and the Far East), and finally Archbishop Wand (Mohammedanism and Christianity—Twentieth Century Trends) pushed me into the open field.

Archbishop Wand’s attempt was particularly fruitful. His essay on Islam inspired me to write a series of seven essays in the Genuine Islam in 1938, one of which entitled ‘Trends in Christianity' was published in book-form by the All-Malaya Muslim Missionary Society of Singapore and circulated in the Far East.

The soundness of the argument developed in that book perturbed my Christian friends. They could not possibly challenge my contentions except on the seemingly plausible basis that my interpretation of the conclusions of modern researches was biased and defective. Such an accusation has been made on many an occasion and is regarded by the advocates of Christianity a patent remedy for protecting the faith of the general masses of lay Christians, though its transparent falsity must be obvious to all those who have studied the subject of Christian origins.

The accusation necessitated that I should state the argument in detail and prove the soundness of my conclusions by quoting my authorities at length. This I have accomplished in the present book and in doing so I have taken the greatest care that I should select only those authorities who may be acceptable to the Christians themselves. Indeed, a perusal of the book will reveal that an overwhelming majority of the authorities are professed Christians, including a large number of reputed Christian divines.

A fairer treatment of Christianity could not have been possible; and if still it is found that the latest researches disprove the claims of traditional Christianity—Bernard Shaw calls it Crosstianity—and prove the standpoint of Islam, would it be too much to appeal to the Christian world in general and the reformed Churches in particular to study and compare the merits of Islam and Christianity with an open mind?

"اسلام  کا دعویٰ ہے کہ :"روایتی عیسائیت کے بانیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے عقائد کو مشرکانہ کلرباکس سے رنگا ہواہے۔"

موجودہ کتاب جدید تحقیقات  اورحالیہ رجحانات کی روشنی میں اس ہی دعویٰ کی حقیقت جاننے کی ایک کوشش ہے۔

یہ ڈاکٹر سموئیل ایم زیویمر (Dr. Samuel M. Zwemer) کی بلیغانہ دشنام طرازی تھی جس نے مجھے اس موضوع کی جانب متوجہ کیا۔اوراس دلچسپی کو چھوٹے موٹے عیسائی تنازعوں نے برقراررکھا۔ یہاں تک کہ  Rev. Cash کی کتاب Moslem World in Revolution "انقلاب میں مسلم دنیا" اور Dr. Wherry کی (Islam and Christianity in India and the Far East) اسلام اور عیسائیت، انڈیا اورمشرق بعید میں، اورسب سے آخرمیں کتاب  (Mohammedanism and Christianity—Twentieth Century Trends)

جو Archbishop Wand نے تحریر کی

"دین محمدی اورعیسائیت ،بیسویں صدی کے رجحانات" نے مجھے باضابطہ اس اکھاڑہ (میدان) میں اترنے پر مجبورکیا۔

اس سلسلے میں آرک بشپ کی کتاب زیادہ مؤثر وکارگرثابت ہوئی ہے۔ مجھے اس کے  اسلام پر لکھے گئے  مضمون سے  تحریک ملی کہ Genuine Islam (جینوئن اسلام) میں تواتر سے سات مضامین لکھوں۔جس میں سے ایک نام  Trends in Christianity' "عیسائیت میں رجحانات"تھا۔جو آل ملایا مسلم مشنری سوسائٹی  آف سنگاپورنے کتابی شکل میں شائع کرکے مشرق بعید میں تقسیم کی ۔

اس کتاب میں پیش کیے گئے دلائل کی جامعیت واکملیت نے عیسائی دوستوں کو مضطرب وبے چین کردیا ۔ان کے پاس میرے قوی دلائل کو متعصب اورغیرمؤثرقراردینے کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا۔ اس طرح کے الزامات کئی مواقع پر لگائے گئے ہیں۔ اور عیسائیت کے وکلاء کے پاس عام عیسائیوں کے ایمان(عیسائیت) کو بچانے کے لیے یہی ایک مؤثرعلاج تھا۔ اگرچہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ  یہ جھوٹا الزام ہے بالخصوص جو عیسائیوں کی اصلیت سے واقف ہیں۔ لیکن ان کے پاس یہی ایک مؤثراورکارگرحربہ تھا۔

ان الزامات نے مفصل انداز سے اپنےدلائل کی صحت اورحوالہ جات کے ذرائع کومعتبر ثابت کرنا اوربھی  ضروری کردیا ۔ موجودہ کتاب میں یہ تمام امورمیں نے باحسن انجام دیئے  ہیں ۔ ایسا کرنے میں میں نے انتہائی احتیاط سے کام لیاہے۔اورمیں نے صرف ان معتبرذرائع کاانتخاب کیاہے جوعیسائیوں کے لیے قابل قبول ہوں۔

بلاشک وشبہ اس  کتاب کا مطالعہ  یہ حقیقت منکشف کردے گا کہ اس کتاب میں پیش کیے گئے دلائل عیسائی ذرائع بشمول بڑی تعداد میں ان کے مشہور علماء سے لیے گئے  ہیں۔عیسائیت کے ساتھ اس سے زیادہ راست گوئی اورصحیح رویہ  ممکن ہی نہ تھا۔اوراس پر مستزاد،اب جدید تحقیق  بھی روایتی عیسائیت کے دعویٰ کو مسترد کرتی ہے۔برنارڈ شاہ اسے Crosstianity (صلیبیت) کہتاہے اوریہ کہہ کراس نے اسلامی نکتہ نگاہ کو ثابت کردیاہے۔کیا اب بھی یہ ناکافی ہے؟ ہم بالعموم عیسائیوں  اوربالخصوص چرچ  (ریفارمڈ کلیساؤں)سے درخواست کریں گے  کہ وہ اسلام اور عیسائیت کا تقابل اوراس کا مطالعہ کھلے ذہن سے (بلاتعصب) کریں۔"؂[7]

 

یہ تھی آپ کی صحافتی زندگی کی ایک جھلک ۔جس میں آپ نے دینی حمیت ،جرات، بہادری  وحوصلہ مندی کے ساتھ ساتھ تدبر وتحمل سے  بھی کام لیا۔آپ نے اسی رنگ اور جذبۂ دینی سے اسلام کی نشرواشاعت ودفاع کی خاطر مختلف ممالک کے مختلف اسلامی رسالوں میں بطورایڈیٹر (مدیر)فرائض انجام دیئے ۔مثلاً

Genuine Islam (Singapore) , Five Pillars (South Africa), The Minaret (Karachi), The Muslim Digest (S.A.), Ramadan Annual (S.A.) Voice of Islam (Karachi), Sindh Information (Karachi),

آپ رحمۃ اللہ علیہ  کی دیگر تمام تصانیف میں قلم کی جولانی اور روانی کا ایک سبب اسی صحافتی زندگی سے وابستگی بھی ہے کیونکہ اس میں انسان کوبہت تیزی ومستعدی لیکن احتیاط سے قلم چلانا ہوتاہے ۔ کیونکہ وہ شخص ہمیشہ نوکِ خنجر پرہوتاہے۔ یہ صرف وہی شخص انجام دے سکتا  جسے اس صلاحیت کے ساتھ ساتھ بے پایاں اور بے محاباں دولتِ علم وافکار بھی میسرہوجس کی فکر رسا اورتخیل پرداز ہو اوراسے  مومن کی فراست،مسلم کی اطاعت(الہی)،عاشق(نبیﷺ) کے جذبات، پروانہ (شمع رسالتﷺ) کی جانثاری، محب (رسولﷺ) کی وارفتگی،جہاندیدہ کی بصیرت،بزرگ کا تجربہ ، فقیہ کی فقاہت، فلسفی کاتصور،عالم کی علمی گہرائی،منطقی کا استدلال،درویش کا تحمل،ولی کی نظر، ادیب کاذخیرہ (الفاظ)، شاعر کا تخیل ،فصیح (اللسان) کی فصاحت ،بلیغ کی بلاغت،حکیم کی دانائی،معلم کا ٹھہراؤ،دردمند کی دردمندی،جراح کا نشتر، سائنسدان کا مشاہدہ،طالبِ صادق کی بیتابی،والد کی محبت، مشفق کی شفقت ، نقاد کی تنقید،مصلح کی اصلاح،مجاہد کا جذبہ، منتظم کی حکمت عملی ، مدبر کا تدبر،مفکر کے افکار،سیاح کی جہاں نوردی اور سب سے بڑھ کر ایک صادق ومخلص وبے لوث انسان کی سچائی اور اپنی قوم کا درد بھی اس میں شامل ہوجائے تو یقینا اس کا قلم اسی انداز سے چلے گا۔آپ نے اپنی تحاریر و تقاریر میں اسلام کے روحانی، اخلاقی، معاشرتی،سیاسی ، اقتصادی،عمرانی، نفسیاتی اورتعلیمی نظام کی نمایاں خصوصیات اورتاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیں ۔ آپ نے جب بھی اردو اورانگریزی میں قلم اٹھایا تو وہ سلاست اور روانی سے چلتا رہا۔دُرّ منثور اور گوہرنایاب نچھاور کرتارہا ۔آپ کے قلم سے نکلنے والا ہر لفظ اگرچہ  لکھا تو کالی روشنائی یاسیاہی سے ہی تھا لیکن چمکنے، دمکنے اور جگمگانے لگا ۔

سچائی  سمودی   تو   چمکنے  لگی  تحریر

ورنہ تو ہرایک لفظ سیاہی سے لکھاتھا

تبلیغی خدمات:

دنیا میں کروڑوں افرادروز سفرکرتے ہیں ۔ بعض  کا سفرحصولِ معاش کے لیے، بعض دنیاوی اغراض کے لیے اوربعض صرف تفریح طبع کے لیے سفر کرتے ہیں۔جہاں تک  آپ علیہ الرحمہ کا تعلق ہے آپ نے بھی  دنیا کے کئی براعظموں ایشیا، افریقہ، شمالی امریکا ،جنوبی امریکا اور یورپ کے کئی اسفارکیے، لیکن آپ کے تمام اسفار دنیاوی اغراض و اسباب کے حصول سے مطلقاً پاک تھے صرف تبلیغ اسلام اور دین کی نشرو اشاعت کے لیے تھے تاکہ راستے سے بھٹک جانے والے ،گمراہ و ضال افراد بھی راہ ِحق پر دوبارہ گامزن ہوجائیں۔ جس طرح سورج ساری دنیا کے گردچکرلگاتا ہے اور اس کا یہ چکر دنیا سے کچھ لینے کی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ بلاامتیاز رنگ و نسل اپنی روشنی کی کرنیں بکھیرنے اور ظلمتوں کو ختم کرنے کے لیے ہوتاہے تاکہ بھٹکے ہوئے مسافر اپنی منزل تک پہنچ جائیں۔

لمحہ لمحہ میرایوں ذوق سفر میں رہنا

اک بہانا ہے زمانے کی خبر میں رہنا

آپ علیہ الرحمہ  کی یہ صحرانوردی اوردنیا کے چپے چپے کی خاک چھاننا عبث وبے کارنہ تھا  بلکہ اسلام کی تبلیغ ونشراشاعت کی غرض سے تھا ۔اوراس مقصد ونصب العین   کا حصول بغیر قدیم (علوم شریعہ) وجدید(علوم جدیدہ)کے ناممکن تھا۔جس طرح یہاں سورج کی مثال دی گئی ہےآپ علیہ الرحمہ بھی حقیقتاً شمس العلوم تھے۔ آپ علیہ الرحمہ دونوں طرح کے علوم  کے ساتھ ساتھ تصوف کے رموز اوربیسویں صدی کے تقاضوں سے بھی کماحقہ  باخبر تھے۔

میں پھروں ہزار ادھر ادھر نہیں گردو پیش سے بے خبر

میرا  دل  ہے   عہد  جدید  مری  آنکھ  عہد   قدیم  پر

اندازِ تبلیغ:

قدیم و جدید علوم سے آراستہ ،پیراستہ، ہونے کے ساتھ اللہ رب العزت نے ان کے ہاں زبان کی چاشنی ،علم کی گہرائی، انداز بیاں کی سادگی و دلکشی اورانداز نگار ش میں دلآویزی وپُرکیفی، اخلاص، حاضرجوابی، بے خوفی اورجرات مندی جیسی عظیم صفات پیدا کردیں تھی ۔ جن کی وجہ سے آپ مرجع خلائق بن گئے۔

 یہی آپ کا اندازتبلیغ تھا۔الغرض آپ علیہ الرحمہ نے علماء حق کے مدلل انداز کے ساتھ صوفیاء کرام کا مشفق انداز تبلیغ بھی اپنایا جو آپ کی کامیابی کا حقیقی راز  اور آپ کے دعوتی مشن کا ایک لازوال حصہ ہے۔

آپ کے تبلیغی کام میں اتناتنوع اورجامعیت ہے اگر کوئی شخص اسلام اورقرآن کی حقانیت کی سائنسی مشاہدات سے دلیل چاہے تو اس کے لیے بھی آپ کے پاس دلائل موجودہیں ،اسی طرح فلسفہ سے شغف رکھنے والے شخص کی بھی آپ عقلی اورمنطقی رہنمائی کرتے ہوئے اسے ہدایت کے راستے پر لانے میں اس کی مدد کرتے ہیں ،ادب و تاریخ میں دلچسپی لینے والا شخص بھی آپ کے یہاں سے محروم نہیں رہے گا۔ علم الاقتصاد کے ماہرین کے لیے بھی آپ کے پاس تنگئ داماں نہیں ہے اور نفسیات اور تعلیم  کے ماہرین بھی آپ کی ماہرانہ رائے سے مستفید ہوتے نظرآتے ہیں۔الغرض طبائع انسانی اورمزاج انسانی بہت مختلف النوع مختلف الجہات ہیں لیکن ہرقسم کا مزاج اورطبیعت رکھنے والا شخص آپ سے رہنمائی لیتا ہوانظرآتا ہے۔کیونکہ اللہ رب العزت نے آپ ؒ کو وہ نورِ بصارت عطافرمایاتھا کہ آپ ہر انسان کی پیشانی پڑھ کر اس کے بارے میں اندازہ کرلیتے (تقدیراً) کہ اس شخص کا مزاج کیا ہے اورکس انداز وپیرائے میں اس سے کلام کرناہے۔

تو ہو یہ نورِ بصارت کہ پڑھ لے حرف بحرف

جو     ہوئے     لوحِ    جبین     پر     نوشتۂ    تقدیر                 (ذوق)

تبلیغ کا دائرہ مکان (براعظم):

آپ علیہ الرحمہ کادائرۂ تبلیغ بہت وسیع  وعریض ہے۔جس کا بخوبی اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ آپ علیہ الرحمہ نے دنیا کے پانچ براعظموں میں تبلیغی خدمات سرانجام دیں۔آپ نے جن براعظموں اور ممالک میں تبلیغی خدمات سرانجام دی ان براعظموں اورممالک  کے نام حسب ذیل ہیں:

(براعظم ایشیا):ملائیشیا ، فلپائن ، ہانگ کانگ، تائیوان، جاپان ، اردن ،سعودی عربیہ، سنگاپور، تھائی لینڈ،سری لنکا، انڈونیشیا، عراق،ترکی ،(براعظم یورپ): برطانیہ، جرمنی، سوئزرلینڈ، اٹلی، ہالینڈ (براعظم افریقہ)مصر، شام،ملایا، یوگنڈا، جنوبی افریقہ اور بحرہند کے جزائر سیچلز (براعظم جنوبی امریکہ): وینزویلا، جمیکا، سیلون، ٹرینیڈاڈو ٹباگو، برطانوی گیانا، سری نام ،(براعظم شمالی امریکہ؂[8]) کینیڈا، امریکہ، وغیرہ شامل ہیں ۔

جملہ معترضہ:

 اگرکسی شخص  کا خمیر ہی خراب ہو،روح ہی بدروح ہو ضمیر ہی بے ضمیر ہو، نفس ہی مغرور و شیطان ہو تو اس پر حق کا پیغام ،صاحبِ کرامت ولی  کا کردار،بہترین افعال الغرض کچھ بھی اثر نہیں کرتاکیونکہ وہ اپنی سرشت میں ہی بدباطن،خبث آلود ہوتا ہے ۔جیسا کہ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشادباری تعالیٰ ہے:يُّؤْفَکُ عَنْهُ مَنْ اُفِک؂[9](اس قرآن سے وہی اوندھا کیاجاتاہے جس کی قسمت ہی میں اوندھایاجانا ہو)، یعنی جو محروم ازلی ہے ۔تقدیراً جس کے لئے لکھاجاچکا ہے یہی شقی القلب  اس سعادت سے محروم رہتا ہے اوربہکانے والوں کے بہکائے میں آتاہے۔

اب ایسے بوجہلوں اوربولہبوں کے لئے بہترین سے بہترین طریقہ بھی ان کی ازلی محرومی کے سبب کام نہ آئے گا یعنی بنجر زمین پر جس قدر بھی محنت ،مشقت اورسرمایہ لگایا جائے گا اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔بقول عثمان مینائی

بوجہل جیسے لوگوں سے تبلیغ مت کرو

کھیتی   میاں   فضول   ہے   بنجر   زمین   پر

خلاصہ کلام:

صحافتی میدان ہوں یاتبلیغی اسفار،علم ہنرکا شعبہ ہو یاتصوف کا میدان۔آپ علیہ الرحمہ نے دنیاوی آرام و راحت ، آسائش وتعیش کو ٹھوکرمارتے ہوئے حق وصداقت اورفقیرانہ ومجاہدانہ انداز سے اسلام کی نشرواشاعت اوراعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر جو صعوبتیں  اورتکلیفیں برداشت کیں  وہ ایک طرف نہ صرف آپ ہی کا خاصہ ہیں بلکہ دوسری طرف یہ اس بات کا بیّن ثبوت  بھی ہیں کہ آپؒ ایک عظیم تجارت (Business Deal)کرچکے تھے۔اوریہ تجارت دنیاوی تجارت کی مانند نہ تھی بلکہ اخروی تجارت تھی  جس میں آپ  علیہ الرحمہ نے اپنی جانِ آفریں جنت کے عوض اللہ رب العزت کے سپرد کردی تھی ۔اس شاندار اخروی تجارت (خرید وفروخت)  کاتذکرہ قرآن مجیدکچھ ان الفاظ میں کرتاہے:

''اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ''؂[10]

"بےشک اللہ رب العزت نے مومنوں سے ان کے نفوس اور اموال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔"

واہ کیاعظیم ،پاکیزہ اورنفع بخش تجارت ہے جس میں خسارے ونقصان کاکوئی احتمال و اندیشہ ہی نہیں۔کیونکہ اس تجارت میں مشتری( خریدار) اللہ رب العزت ہے، بائع (بیچنے والا) مومن ہے اور مبیع(بیچی جانے والی چیز) بندہ مومن کی جان ہے۔اور ثمن(قیمت) جنت جیسی پاکیزہ و مطہر جگہ ہے۔ جسے اللہ نے پاکیزہ نفوس کی مستقل اور ہمیشہ کے لیے جائے قرار،مسکن وٹھکانہ بنایاہے۔یعنی اس دنیا کے ایک نہایت ہی قیمتی اورپاکیزہ فرد کی انتہائی اعلیٰ ،بے مثال، متاع یعنی متاع زندگی(پاکیزہ زندگی) کا سودا اللہ رب العزت سے طے پارہا ہے جس کے عوض اللہ رب العزت اس شخص کو جنت کی بیش بہا اورابدی نعمتوں سے سرفراز فرمارہاہے۔ کیا اس تجارت میں بھی کوئی خسارہ ہوسکتاہے۔نہیں بلاشک وشبہ اس تجارت میں خسارہ توکیا احتمالِ خسارہ کا بھی اندیشہ نہیں۔(سبحان اللہ!کیاہی بہترین تجارت ہے)۔



؂[1] ۔  سورۃ الکہف:6

؂[2] ۔  مکتوبات انصاری،ص19

؂[3] ۔  مکتوبات انصاری،ص23

؂[4] ۔  مکتوبات انصاری،ص24

؂[5] ۔  صحیح مسلم

؂[6] ۔  مشکوٰۃ المصابیح:٤١٠

؂[7] ۔  Islam and Christianity in the Modern World, pg iv,v

؂[8] ۔  ایشیا،افریقہ اور یورپ میں آپ کی تبلیغی مساعی کے بارے میں بہت سے حوالے موجود ہیں لیکن شمالی امریکہ میں آپ کی خدمات کے حوالے سے بہت کم ذکر ملتاہے۔ لیکن اس کی تصدیقات میں سے ایک تصدیق  کتاب "شمالی امریکہ کے مسلمان،مدیرات:ای وون یازبک حداد اورجین آئڈل مین اسمتھ، اوکسفرڈ" سے ہوتی ہے۔ جس میں صراحت ہے کہ وہاں کے شیخ یحییٰ کی تمام تعلیم و تربیت آپ علیہ الرحمہ کی مرہون منت ہے۔جنہوں نے بعد میں شمالی امریکہ میں اسلام کی خدمت کی۔

"امام یحییٰ نے اسلامی مشن کے حافظ مقبول الٰہی کے زیرنگرانی تعلیم حاصل کی اور 1963ء سے 1969ء تک ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری سے اکتساب علم کیا جو پاکستان کے ایک صوفی شیخ تھے اورسلسلہ قادریہ سے منسلک تھے۔"جب 1960ء کی دہائی کے آخر تک تحریک دارالاسلام ترقی کی راہ پر چل پڑی تو امام یحییٰ نے بھی درس دینا شروع کیا اوراپنے درس کا نام رکھا درس شیخ، اوریہ نام واقعی مناسب تھا۔ اس میں امام یحییٰ وہ پڑھاتے تھے جو انہوں نے ڈاکٹرفضل الرحمن سے خود پڑھا تھا"  (شمالی امریکہ کے مسلمان،مدیرات:ای وون یازبک حداد اورجین آئڈل مین اسمتھ، اوکسفرڈ،ص 81)

؂[9] ۔ الذاریت:9

؂[10] ۔  سورہ توبہ:١١١

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post