ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن علیہ رحمۃ الرحمٰن

 کے عالم اسلام پر احسانات

 

بیسویں صدی کے آغازسے ہی امت مسلمہ شب ِ ظلمت  کا شکار تھی ۔ ہرسمت تاریکی چھائی ہوئی تھی۔امت مسلمہ مادی ومعاشی،فکری وذہنی  اورباطنی اورروحانی بہرطور روبہ زوال تھی۔غفلت کا دوردورہ تھا جبکہ عملیت اورفعالیت تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ اور اس زوال کے باوجود اصلاحِ احوال کی فکرکرنے کے بجائے یہ قوم غلاماں دوسروں پر الزام تراشیوں کے ساتھ ساتھ تقدیر کا بہانہ بناکر خودکوفریب خوردہ رکھے ہوئے تھی۔ بہرکیف اس ابترصورتحال کو علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے ان اشعار کی مددسے بیان کیاجاسکتاہے:

غلام  قوموں   کے   علم و عرفاں   کی   ہے   یہی  رمز  آشکارا

زمیں اگرتنگ ہے توکیاہے،فضائے گردوں ہے بے کرانہ

خبر  نہیں   کیا ہے  نام  اس  کا  خدا فریبی  کہ  خود فریبی

عمل   سے   غافل   ہوا   مسلماں  بناکے  تقدیر  کا   بہانہ

اس پر مستزادتصوف کا میدان بھی معدودہ افراد کے سواخود ابتری کا شکار ہوچکاتھا (حالانکہ یہ وہی میدان ہے  کہ  اس سے پہلے جب کبھی بھی مسلمانوں میں کسی قسم کا اخلاقی،معاشرتی اورسیاسی بگاڑآیا اس میدان  سے کوئی نہ کوئی عبقری شخصیت (مثلاًسیدناحضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی، خواجہ معین الدین چشتی،داتاگنج بخش علی ہجویری،حضرت مجدد الف ثانی ،خواجہ نظام الدین اولیاء علیہم الرحمہ) ابھرتی رہی اور وقتاًفوقتاً مسلمانوں میں درآنے والی خامیوں وخرابیوں  اورعیوب ونقائص کا سدباب اوران کی اصلاح  کرکے انہیں  قعرمذلت اور پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے  سے بچاتی رہیں) ۔

اگرچہ اس تمام تر ابتر صورتحال کے باوجودامت کا درد رکھنے والی شخصیات اس  ظلمت وتاریکی کوروشن سحر میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں اب بھی مصروف کار تھیں لیکن ان کی تعدادقلیل تھی اوردوسری جانب  تاریکی تھی کہ چَھٹنے  کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ کفروالحاد،مغربی تہذیب،عیسائیت، اشتراکیت،کمیونزم اورسرمایہ دارانہ نظام   نامی صیّاد اپناجال پھیلائے اس امت کو دبوچنے بلکہ اس کی آڑ میں بھنبوڑنے میں مصروف تھے۔اورظلمت وسیاہی (جہالت یا قلت علم) کے سبب ان کایہ کام بآسانی چل رہاتھا۔ایسے میں ایک "تھا ستارہ کہ آسماں سے گرا"جس سے روشنی کی کرنیں پھوٹنے لگیں اورعلوم وعرفان کے چشمے ابلنے لگے ۔ جس کی روشنی کی کرنوں نے ان صیّادوں کے دامِ نہاں  ،مکروفریب اورعیاریوں وچالبازیوں سے شب ظلمت کا پردہ اٹھادیا اور امت کواس سے بچنے کاراستہ بھی دکھادیا جوکہ مندرجہ ذیل نعرہ کی طرف رجوع کرنے میں تھا: Back to Quran and Back to Muhammad 

مندرجہ بالاتمہید کے تناظرمیں اس مضمون کودو حصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔

حصہ اول:باطنی رہنمائی(تصوف کے باب میں ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی خدمات)

حصہ دوم: فکری رہنمائی:(دیگر ادیان باطلہ اورسیکولر افکار کا رد)

باطنی رہنمائی:

تصوف اسلام کا جوہر  اور انبیاء کا طریقہ ہے جس پر چلنے والے اللہ کے دوست یعنی اولیاء اللہ کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ اس کے بنیادی اغراض ومقاصد پر اگر غور کیاجائے  تو ان کا حصول خواہ کسی بھی عنوان سے ہو ہرمومن پر لازم ہے ۔کیونکہ یہ اللہ رب العزت سے محبت کا نام ہے جو دنیاوی اغراض  اور  اخروی انعامات کی خواہش سے مطلقاً  مبرّا اور ماوراء  ہوتی ہے ۔ راہ سلوک پر رواں (سالک ) کے دل پر اللہ رب العزت کی صفت صمدیت منعکس نظر آتی ہے۔ وہ ہر قسم کے دنیاوی واخروی خطرات ،مفادات، تغیرات ،ترغیبات سے بے نیاز ہوکر محض رب ذوالجلال کی خوشنودی ورضاکی خاطر عبادت میں مصروف اورمشغول رہتاہے۔جیسا کہ امام یحییٰ بن شرف الدین نووی علیہ الرحمہ صادق اورمخلص عابدکے تین درجات بیان  فرماتے ہیں:

الاول:ان یفعل ذلک خوفا من اللہ تعالیٰ وھذہ عبادۃ العبید،الثانی:ان یفعل ذلک لطلب الجنۃ والثواب وھذہ عبادۃ التجار۔والثالث: ان یفعل ذلک حیاء من اللہ تعالیٰ وتادیۃ للشکر ویری نفسہ مع ذلک مقصرا ویکون مع ذلک قلبہ خائفا لانہ لایدری ھل قبل عملہ مع ذلک ام لا وھذہ عبادۃ الاحرار ۔ ؂[1]

اولاً یہ کہ انسان اللہ کے خوف سے عبادت کرے یہ غلاموں کی عبادت ہے۔ ثانیاً انسان طلبِ ثواب اورحصولِ جنت کی خاطر  عبادت کرے ، یہ تاجروں کی عبادت ہے(جو نفع نقصان پیش نظررکھتے ہیں) ۔ثالثاً انسان خود کو حقیر سمجھتے ہوئے حیاء  اور شکر کی بجاآوری کی خاطر عبادت کرے ۔ اور اس  خوف کا شکار ہو کہ اس کی عبادت قبول ہوگی یا نہیں اس لئے کہ وہ  قبولیت کے متعلق نہیں جانتا یہ  احرار(آزاد مردوں) کی عبادت ہے ۔

اور یہی عبادت کا  بلند ترین مقام ہے  اگرچہ باقی دونوں  صورتیں بھی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہیں۔بقول شاعر

خوفِ دوزخ سے کبھی،خواہشِ جنت سے کبھی

مجھ  کو  اس  طرزِ  عبادت  پہ  ہنسی   آتی   ہے

گروہ ثالث کے لئے دنیا و آخرت میں محض رب کا دیدار ہی مقصد وحید ہوتاہے۔وہ اسی شوق لقاء میں  اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ رب کے دیدار  میں مستغرق رہتے ہیں   یا علی الاقل "رب انہیں دیکھ رہاہے"  اسے مستحضررکھتے ہیں۔بالخصوص  جب وہ  بارگاہ الٰہی میں بحالت نماز سربسجود ہوں تو رب اوراس کے محبوبﷺ کے سوا کسی غیر کا خیال تک بھی ان کے قریب نہیں پھٹکتا ۔وہ   اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ مشاہدہ ،عرفان اور اطمینان  کے جوہر سے معمورہوتے ہیں  جس کااظہار حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے لئے پرندوں کا زندہ کیےجانے والے واقعہ سے ہوتاہے۔ جس میں حضرت ابراہیم نے اللہ رب العزت کو پکارا کہ مجھے دکھائیے آپ مردے کیسے زندہ کرتے ہیں۔ جب اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم سے پوچھا کیا تم ایمان نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں لیکن دل کے اطمینان کی خاطر یہ سوال کررہاہوں۔

اولیاء اللہ کی زندگیوں میں اس قسم کے واقعات کے مشاہدہ  کے بعد ان کا ایمان  اوراطمینانِ قلب ، انتہا درجہ پر فائز ہوجاتاہے۔ اس لمحہ وہ رب کی ذات میں فنائیت کے اس درجہ  پرفائز ہوتے ہیں کہ اس حالت میں اگر ان عشاق کا سربھی تن سے جداکردیاجائے تو انہیں سوئی کی چبھن جیسااحساس بھی نہ ہوگا۔ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حالت نماز میں نیزہ نکلوانے کا واقعہ۔ تاریخ سے اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ان عشاق کے جذبۂ عشق  کی کیا کیفیت ہوتی جناب سراج اورنگ آبادی کے بقول:

خبر     تحیر    عشق     سن    نہ    جنوں   رہا     نہ    پری    رہی
نہ   تو ،  تو    رہا ،   نہ  تو   میں  رہا،  جو   رہی   سو   بے  خبری  رہی
وہ   عجب  گھڑی  تھی ، میں  جس   گھڑی  لیا  درس  نسخہ عشق کا
کہ  کتاب عقل کی طاق میں جوں  دھری  تھی  سو  دھری  رہی

حقیقت تصوف:  ؂[2]

قرآن وحدیث میں تصوف وطریقت کے بیان میں بہت سی آیات واحادیث  وارد ہیں ۔جن کا لب لبا ب یہ ہے کہ تصوف تزکیہ نفس اور قلب وباطن کو ہرطرح کی آلودگی،آلائش اور میل سے پاک صاف کر نے کا نام ہے ۔ دین ایک  اکائی کانام ہے جس کا ایک ظاہر ہے اورایک باطن ۔اس کا ظاہر شریعت سے موسوم اور باطن  طریقت پرمحمول کیاجاسکتاہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:

يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ(؂[3]

"جو تمھیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے۔"

یہاں آیات اور تعلیمِ کتاب سے مراد ظاہری علم ہے اور  تزکیہ سے مراد طہارت قلب ہے اور یہی تصوف وطریقت ہے۔ اسی طرح حدیث جبریل میں ارشاد لفظ "احسان" کی روشنی میں اگر علم التصوف کوپرکھا جائے تو اس سے مراد علم التصوف والطریقت ہی قرارپائے گا۔طریقت درحقیقت شریعت ہی کا باطن ہے یعنی شریعت کی دل کی گہرائیوں میں اتارنے کا نام طریقت ہے۔بقول ڈاکٹرعلامہ محمداقبال  ؒ:

"حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اورشریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔"  ؂[4]

لہذا شریعت جن اعمال و احکام کی تکمیل کا نام ہے ان اعمال و احکام کو حسن نیت اور حسن اخلاص  اور صدق مقال،مقام اوراحوال سے آراستہ وپیراستہ کرتے ہوئے درجہ احسان تک پہنچانے کی سعئ سعید علم الطریقت اور تصوف کی غرض و غایت ہے۔حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ اپنے ایک مکتوب میں اس نکتہ کی وضاحت کچھ اس انداز سے فرماتے ہیں:

"شریعت و حقیقت ایک دوسرے کا بالکل عین ہیں اور حقیقت میں ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہیں ۔فرق صرف اجمال و تفصیل، کشف و استدلال، غیبت و شہادت اور عدم و تکلّف کا ہے۔"  ؂[5]

اس امر کی مزید وضاحت امام شوکانی کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے:

يقول الشوكاني : " المعيار الذي تعرف به صحة الولاية ، هو أن يكون عاملاً بكتاب الله سبحانه وبسنة رسوله- صلى الله عليه وسلم - مؤثراً لهما على كل شيء ، مقدماً لهما في إصداره وإيراده ، وفي كل شؤونه ،فإذا زاغ عنهما زاغت عنه ولايته " ، وبذلك نعلم أن طريق الولاية الشرعي ليس سوى محبة الله وطاعته واتباع رسوله - صلى الله عليه وسلم - ، وأن كل من ادعي ولاية الله ومحبته بغير هذا الطريق ، فهو كاذب في دعواه۔

امام شوکانی فرماتے ہیں :ولایت کی صحت کا معیار اس امر پر ہے کہ وہ کتاب اللہ اورسنت رسول ﷺ  پر عامل ہو۔ اوروہ ان دونوں کو جمیع اشیاء پر ترجیح دیتاہو۔ وہ اپنے افعال ، ارادوں اورتمام معاملات میں انہیں مقدم رکھتا ہو ۔ پس اگر وہ ان سے کج روی اختیار کرے گا تو اس کی ولایت ختم ہوجائے گی۔ اور اسی سے ہمیں علم  ہوتاہے کہ ولایت کا راستہ اللہ کی محبت،اطاعت اور رسول ﷺ کی اتباع کے سوا کچھ نہیں۔ اور کوئی بھی اس راستہ سے ہٹ کر ولایت کا دعویٰ کرے  گاوہ اپنے دعویٰ میں جھوٹاہوگا۔ ؂[6]

اسلام میں تصوف کی ابتداء

رہا یہ سوال کہ ابتدائے اسلام میں تصوف کا ذکر اپنی اصطلاحات ولوازمات کے ساتھ نہیں ملتا اس وجہ سے یہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔یہ مفروضہ قطعا درست نہیں!کیونکہ  اس کی وجہ تصوف کا دائرۂ اسلام سے خارج ہونا نہیں  تصوف تو عین اسلام کا جوہر ہے ۔لیکن درحقیقت اس وقت ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان اخلاص وتقویٰ اوراحسان کا پیکر تھا۔لہذا ان کے لئے الگ خصوصی طور پر منظم انداز سے مشق وتربیت کی کوئی ضروت نہ تھی۔ جیسا کہ اوائل اسلام میں قرآن مجید پر اعراب نہیں تھے ، حتی کہ نقاط بھی نہیں لگے ہوئے تھے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نقاط اور اعراب خارج سے  قرآن  مجید میں داخل کئے گئے ہیں۔  چونکہ اہل عرب کو ان (نقاط اوراعراب)کی ضرورت نہ تھی۔ قوی حافظہ ،یاد کرنے کی اعلیٰ  صلاحیت،عربی زبان پر عبور،ایام جاہلیت کے شعراء کے کلام  ذہن میں محفوظ ہونے کے باعث ان کے لئے قرآن پڑھنا ،سمجھنا اوراسے یادرکھنا آسان تھا۔ لیکن جب اسلام پھیلا اور دیگر زبان بولنے والوں کے خطوں میں پہنچا  ان کے لئےبلا اعراب وبلا نقط قرآن پڑھناناممکن تھا یوں قرآن مجید میں نقاط  واعراب معرض وجود میں آئے۔ اسی طرح علم النحو،علم الصرف وغیرہ ایسے علوم ہیں کہ آج تمام علوم العربیہ حتی کہ عربی زبان بھی ان ہی کے مرہون منت ہے۔ نیزانہیں قرآن پڑھنے کے لئے پہلے عربی سیکھنا تھی جس کے لئے صرف ونحو بہت اہم تھے۔یوں علم الصرف وعلم النحو معرض وجود میں آئے۔

برسبیل تذکرہ:

گرامر خواہ کسی بھی زبان کی ہو درحقیت ان ہی قواعد وقوانین کے اجراء کا  نام ہے جو اہل زبان شعراء اورادباء  کا اسلوب اورقاعدہ ہو کیونکہ زبان کی تراکیب، ہیئت، معانی و مفاہیم میں سند یاد لیل اس زبان کے ادباء وشعراء ہی ہوتے ہیں۔لہذابولی جانے والی زبان بنیادی (پرائمری) ہے جب کہ تحریری ہیئت ،اس کے قوانین کا اجرا،اس کے اصول وضوابط ثانوی (سیکنڈری) حیثیت رکھتے ہیں۔

بالکل اسی طرح اوائل اسلام میں تصوف کا اپنی اصطلاحا ت اورلوازمات کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ معاشرہ کے ہر فرد کا تمام امور میں اخلاص ،صدق اوربے غرضی  سے کلی طور پر متصف ہونا تھا ۔  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب یہ صفات کم ہوتی گئیں اورسلطنت اسلامیہ پھیل گئی توایک جانب  دیگراقوام سے راہ ربط بڑھا اوردوسری جانب مسلمانوں کے پاس مال ودولت کی فراوانی آگئی جس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ خلافت ملوکیت میں،اخلاص ریاکاری میں،زہد حب مال میں،گمنامی شہرت کی خواہش  میں تبدیل ہوگئی اوریوں بتدریج اخلاق حسنہ میں کمی آتی چلی گئی ۔جس سے متاثر ہوکر علماء کے بھی طور طریقے اورانداز بدل گئے ۔وہ مادہ پرستی کی طرف راغب  ہوگئے  اورجب لوگ مادی مفادات کے عوض ان سے آسانیاں چاہتے تو وہ مختلف حیلے بہانے سے لوگوں  کے مفادات کے پیش نظر ان کے مقاصد کی تکمیل کرتے ۔یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام الناس تو ایک طرف  علماء نے بھی دنیا کو اپنامحور و قبلہ بنا لیا اور وہ "مفتی دنیا"بن گئے ، شریعت مطہرہ پر عمل کرنے کی بجائے حیلے بہانےاورمن گھڑت طریقوں پر عمل کرنے لگے ، حکمرانوں کے خوشامدی بن گئے ، ظالموں کے ہمنوا بن کران کی  خوشامد کرنا ان کا وطیرہ بن گیا ، بغض وحسد،تکبر و عناد اور دنیا پرستی  ان کا شیوہ بن گئی ۔ وہ بندگان خدا سے بندگان  ہوا و ہوس بن گئے۔ وہ تصنع اور بناوٹ میں مبتلا ہوگئے ،جہل مرکب کا شکار ہوگئے کہ جانتے کچھ نہیں اور دعویٰ علمیت(سب کچھ جاننے ) کاکرتے ہیں، یہ افراد  علماء کرام سے علماء سوء بن گئے۔ اور انہوں نے اپنی مادہ پرستی ،عیش کوشی  اور بری خصلتوں کی بنا پر مذہب و شریعت کو بدنام کیا ہے۔ چونکہ اب دین کی ٹھیکیداری اور تاجوری ان کے ہاتھوں میں آچکی تھی تو وہ اپنے سوءکردار اوربداخلاقی  سے لوگوں کو دین سے دور کرنے والے بن گئے۔

وائے  ناکامی   متاعِ   کارواں   جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا

لیکن ایسے میں اللہ کے برگزیدہ ،چنیدہ افراد (اولیاء اللہ) روحانی،معاشی،معاشرتی اوراخلاقی بگاڑ کے سیلاب میں بہنے کے بجائے  اس سیلاب کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند ثابت قدم کھڑے رہے۔ انہوں نے ہمیشہ  جرم کو ختم کرنے اورمجرمین کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ۔وہ ہمہ وقت اِحقاق حق اورابطال باطل میں مصروف رہے۔اس اصلاح کے لئے انہوں نے قرآن واحادیث سے  تربیت کا ایک مکمل نظام اور طریقہ کاراخذ کیا جو اسلام کا وہ جوہرہےجسے تصوف کہاجاتاہے۔ ان مشایخ طریقت ذی علم افرادسے تعلق و محبت اوران کی  صحبت اور ان کا اخذکردہ طریقہ تربیت نہایت ضروری اورلازم ہے تاکہ آج کے دور میں بھی  اپنے ایمان کو محفوظ  وسلامت رکھاجاسکے ۔ ویسے بھی صالحین کی صحبت ومجالس انسان کو نیک بناتی ہیں اوربروں کی صحبت برائی کی طرف لے جاتی ہیں۔

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالح تر ا طالح کند

اس لئے صحبت بد سے بچنا اوران صالحین کی صحبت میں بیٹھنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔جس کی بدولت نیکیوں پر مداومت  پر مدد ملتی ہے اورگناہوں سے بچنے کی کوشش  فی نفسہٖ پیداہوتی ہے۔پھراس شخص کونیکیوں پرآمادہ اوربرائیوں سے بچانے کے لئے سزاؤں سے ڈرانےکی ضرورت نہیں رہتی۔ اس تمام بحث کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو آج تصوف  کی اہمیت  پہلے سے بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔

اغیار کی سازشیں:

لیکن جہاں یہ موضوع اتنا اہم ہے وہیں دوسری طرف اس کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں اورغلط نظریات ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔اس کی بنیادی وجوہات اغیار کی سازش اور احباب کی تن آسانی ،عیش پرستی اورہوائے نفس ہے۔

جہاں تک اغیار کی سازش کا تعلق ہے تو یہ الم نشرح ہے  جہاں مستشرقین نے حضور ﷺ سے ہماری وفاداری کو ختم کرنے کی کوشش کی۔اس  کےلئے انہوں نے تمام لچربیہودہ لغو مواد حضور ﷺ کی ذات مبارکہ کے خلاف جمع کرنے کی کوشش کی۔اس کے ساتھ ساتھ ان کا دوسرا بڑا ہدف تصوف ہی رہا ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ اسلام کو ایک  رسمی  ضابطہ حیات میں تبدیل کردیاجائے اورمسلمانوں سے اسلام کے جوہر کو نکال دیاجائے تو رسمی عبادات مسلمانوں کو کچھ فائدہ نہ دیں گی۔جس کے لئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا:

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی ؂[7]

 جب تک مسلمان اندرونی مشاہدے   یا ایسا تجربے سے نہیں گزرتا جواس کے اندرونی تاروں میں کرنٹ نہ بھردے۔ اس وقت تک قلب و روح کے بغیر مسلمانوں کی یہ عبادت  مسلمانوں کو نشاط ، روحانی کیفیت اور احیاءثانی سے یکسر عاری رکھے گی۔یوں وہ بجھی ہوئی چنگاری والےراکھ کے ڈھیرسے محفوظ ومامون رہیں گے ،اور ان نام کے مسلمانوں پر ہمیشہ  غالب رہیں گے۔

منکرین تصوف:

"ان ہی اغیار کی ابلیسی چالوں اور کوششوں کے نتیجے میں سے آج تصوف کے حوالے سے مسلمان دوگروہوں میں بٹ گئے ہیں ۔ایک وہ جو تصوف کےمطلقا انکاری ہیں۔ تصوف میں درآئی چند خرابیوں کی بناء پر وہ تصوف ہی کے منکر ہوگئے ۔ اوروہ اس موقف کے حامی ہیں  کہ  اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یا تو وہ تصوف کو خلاف سنت سمجھ کر اس کے درپے ہیں یا پھر دنیاوی مقاصد کے حصول کی خاطر تصوف کی مخالفت پر کمر بستہ ۔بہرحال  خواہ وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا کررہے ہوں یا کسی بغض و عناد کی وجہ سے یہ خود گمراہ لوگ ہیں۔ تصوف کی غلط فہمیاں مندرجہ ذیل سے نمایاں کی گئی ہیں۔

 علامہ ابن تیمیہ نے صوفی ازم  کی مخالفت کی  اوران کے تلمیذ ابن قیم نے بھی دنیائے اسلام کو چیلنج(للکارا)کیا کہ وہ اسلام (قرآن وحدیث)سے اسے ثابت کریں۔ ابن قیم نے مصرمیں چیلنج کیا۔ان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ تصوف غیر اسلامی ہے۔اس  عظیم دانشور سے کہا گیا کہ وہ شیخ الاسلام جناب عبداللہ الانصاری علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوں جو ہرات افغانستان میں ہیں۔

شیخ نے جواب دیا کہ صوفی ازم عین اسلام ہے۔علامہ ابن قیم نے  کہا شیخ آپ اسے قرآن وسنہ سے کیسے ثابت کریں گے۔ شیخ الاسلام نے ابن قیم سے اگلی صبح آنے کا کہا ۔اور رات میں انہوں نے ایک کتابچہ منازل السالکین کے نام سے  تحریر کیا۔انہوں نے یہ کتاب خالصۃ قرآنی بنیادوں پر تحریر کی اوراگلی صبح اسے ابن قیم کے حوالے کیا اوراسے پڑھنے کا کہا۔ایک ماہ بعد ابن قیم واپس لوٹے اور توبہ تائب ہوتے ہوئے شیخ الاسلام کو اپنا روحانی مرشد تسلیم کیا ۔علامہ  ابن قیم نے اس کتاب کی تشریح کی جسے مدارج السالکین کے نام سے موسوم کیا۔اس طرح اگر ہم اسلام کاگہرائی سے مطالعہ کریں اورسمجھے کہ کیوں اورکیسے یہ تحریک ابھری ہمارے تمام شکوک وشبہات ختم ہوجائیں گے۔" ؂[8]

آپ علیہ الرحمہ کے اس موقف کی تائید وتصریح اس بات سے  ہوتی ہے کہ ابن قیم کتاب مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين میں کشف   کو تسلیم کرتے ہوئے کشف رحمانی کی بہت سی مثالیں دیتے ہیں:

هُوَ مِثْلُ كَشْفِ أَبِي بَكْرٍ لَمَّا قَالَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّ امْرَأَتَهُ حَامِلٌ بِأُنْثَى، وَكَشْفِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا قَالَ: يَا سَارِيَةَ الْجَبَلِ( أي إلزم الجبل)، وَأَضْعَافُ هَذَا مِنْ كَشْفِ أَوْلِيَاءِ الرَّحْمَنِ.

 کشف رحمانی جیسا کہ  حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ ان کی بیوی کو بچی حمل ہے ، اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہوں نے یا ساریۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اولیاء اللہ (رحمن رحیم) کے کشف میں سے ہے۔ ؂[9]

اوردوسرا گروہ وہ ہے جو تصوف کا ماننے والا ہے لیکن بدقسمتی سے ان میں بھی اکثریت ایسے افراد کی ہے جن میں بہت سی خرابیاں اورخرافات جنم لے چکی ہیں۔ تصوف محض چند رسومات کی حد تک ہی رہ گیا ہے۔تصوف کی بنیاد "اخلاص " و "تقویٰ" ان میں عنقاء ہوچکاہے  اورریاکاری اور دکھاوا ،نمود ونمائش ،جاہ ومنصب کی خواہش  ان میں پروان چڑھ چکی ہے۔

اسلامی دنیا میں تصوف پر عمل مجموعہ خرافات  ہوگیا ہے اب اسے اپنی اصل حالت میں پانا بہت مشکل ہے۔ میں جانتا ہوں کتنامقدس کام کاروباربن چکاہے۔ رسمی ہوگیا ہے ۔ بہت سے افرادجو مرشد اور شیخ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہوں نے اسے خراب کرنے میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھی ۔یہ تمام مسلمانوں کی جہالت   اورغلط نمائندگی کی وجہ سے یہ الٰہی فریضہ اس مقام پر پہنچا ہے ۔

حقیقت خرافات میں کھوگئی

یہ امت روایات میں کھوگئی

ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی تصوف کے باب میں خدمات:

ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی شہرت ایک عالم،فلسفی ،دانشور،صحافی،ایجوکیشنسٹ اورمعلم کے طور پر ہے  بطور شیخ تصوف یا پیر طریقت آپ کی  خدمات کا زیادہ چرچہ نہیں ہے ۔حالانکہ اس باب میں بھی آپ نے شاندار تاریخ رقم کی ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے تصوف کے ضمن میں کوئی گوشہ تشنہ نہ چھوڑا۔ مرید کے شیخ سے تعلق،مرید کی تربیت، ذکر کی نوعیت ،کیفیت، اوقات،احوال، نظم وضبط، کے بارے میں سیر حاصل بحث کی جس پر ایک ضخیم کتاب مدون کی جاسکتی ہے۔ لیکن یہاں طوالت اختیار کرنے کے بجائے مختصرا منکرین تصوف اور مفسدین تصوف (دونوں ) طبقوں کی اصلاح کے لئے جو کچھ آپ نے فرمایا مفہوما پیش خدمت ہے۔

 ایک جانب آپ نے تصوف سے بغض  وعناد رکھنے والے  عناصر کو مدلل جوابات عنایت فرمائے اور تصوف سے متعلق گمراہ کن پروپیگنڈہ کا عقلی ثبوت دیا ہے۔آپ علیہ الرحمہ نے ہائر سائنس ، ہائر ورلڈاورموٹر کے گیئرزکی اصطلاحات استعمال کیں  پھرانہیں بلیغ پیرائے اورلاجواب مثالوں سے واضح کرتے ہوئے تصوف کے منکرین کے دلائل  یکسرمسترد کیے۔

"جس طرح انسان کو ظاہری حواس خمسہ عطاہوئے ہیں اسی طرح انہیں اندرونی حواس بھی عطا ہوتے ہیں جو پراسرار اوربلندترین سطح پر کام کرتے ہیں۔ یہ بھی پانچ حواس ہیں۔ان حواس خمسہ کی پانچ جہات ہیں۔ اس طرح باطنی حواس سے وہ شعور کی اس بلندترین سطح پر فائز ہوتے ہیں۔ توشعور کی بلند ترین سطح پر فائز فرد نہ صرف تقویٰ کی بھی بلند ترین سطح پر فائز ہوجاتاہے بلکہ اب وہ معرفت  الٰہی،ذات اورکائنات کی بھی بلندیوں کوچھورہاہوتاہے۔ اب اس کے سامنے کارخانۂ قدرت کے عجائب،پوشیدہ راز ،مخفی اسراراورمستتراحوال مکمل طور پر عیاں وبیاں ہوجاتے ہیں ۔ایسے میں کرامات کا ہوجانا کچھ بھی مستبعدنہیں۔بلکہ عین حق ہے۔جس طرح سائنس دان قدرت کے چند رازوں کو سمجھ کر ایسے کام کرتاہے جو عوام الناس کی سطح پر مافوق الفطرت کام ہی شمار کئے جاتے ہیں اس طرح یہ افراد بھی ان رازوں سے بہرہ مند ہوجاتے ہیں جن کے لئے ظاہری سائنس بھی اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے ساتھ بے بس اورلاچار ہے ۔پھر ان سے جو اعمال صادر ہوتے ہیں وہ کرامات کہلاتی ہیں ۔  ان عظیم مینارہ نور ہسیتوں میں  شاہ عبدالقادر جیلانی،خواجہ معین الدین چشتی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ وہ افراد تھے جواندرونی حواس کی  بلندترین سطح پر فائز تھے" ۔  ؂[10]

نیزمنکرین تصوف اولیاء اللہ کی کرامات اور دیگر مافوق الفطرت افعال پر سخت تنقید کرتےہیں  اور ان کے ماننے سے یکسر انکار کرتے ہیں  لیکن آپ نے Islam to the Modern Mind میں کرامات کے موضوع پر بہت شاندار بحث کی ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے واقعات کرامت کو سائنسی توجیہات اور عقلی و نقلی دلیلوں سے برحق  ثابت کیا ہے کہ بزرگوں کی کرامتیں کسی بھی طور پر مستبعد اور بعید از قیاس نہیں بلکہ ہر لحاظ سے قابل یقین ہیں۔کرامت  کااظہار اولیاء اللہ کے ہاتھوں  ہوتا ہے۔یہ عقل وخردسے ماورایٰ  اور خلاف عادت غیر معمولی واقعات ہیں جو عام انسانوں کے ذریعے ممکن الوقوع نہیں ہیں۔یہ صرف ہائر ورلڈ سے وابستہ افراد ہی کے ہاتھوں رونما ہوتی ہیں۔جیسا سائنس کی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کی تشریح ،تعبیر اورتعلق  صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے  جو سائنس کا گہراعلم رکھتا ہے ۔ یعنی یہ صرف ان ہی کے لئے ممکن ہے جو قوانین فطرت کو اس کائناتی دنیا کی بلند ترین سطح  پر دیکھ اورسمجھ سکتے ہیں۔جو ایٹم بناسکتے ہیں،یا چاند پر جانے والے راکٹ بناسکتے ہیں۔

"اسی طرح وہ لوگ جو روحانی سائنسدان ہیں وہ بھی ہائر ورلڈ کے قوانین جانتے ہیں۔موٹر کاروں کے مختلف گیئر ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسانی شخصیات  بھی مختلف گیئر کی حامل ہوتی ہیں۔اور اس دنیا کے آئین کے بھی مختلف گیئر ہیں۔عموما یہ اس سطح پر چلائے جاتے ہیں جہاں ہم رہتے اورکام کرتے ہیں۔(جیسا کہ ہم ابھی کررہےہیں)۔ لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہوگی کہ اگر یہ خیال کیاجائے صرف یہی ایک گیئر ہے۔ جس میں یہ انسانی مشین یا دنیا کے امور پر انجام دیئے جاسکتے ہیں۔میرے نزدیک یہ ایسے بیان کیاجاسکتاہے.لیکن ایک عام تعلیم یافتہ شخص جو فزکس نہیں جانتا (ایٹم  اور جوطاقت اس میں موجود ہے ) وہ ایٹم بم کی طاقت پر یقین نہیں کرسکتاہے۔ایسے ایک شخص کے لئے یہ افسانہ ہوگا کہ ایٹمی فیول جو کہ راکٹ میں رکھاجاتا ہے مقدار میں بہت کم  لیکن بہت زیادہ طاقت اورقوت مہیا کرنے والا ہوتا جو ایک راکٹ کو لے جاسکتاہے۔ یہ افسانہ لگے گاکہ عام آدمی کو جو فزکس اور ایٹم اوراس کی طاقت نہیں جانتا۔اسی لئے جو واقعات تاریخ میں رونما ہوئے اوروہ جو موجودہ واقعات کی گواہی دے رہے ہیں ان کا انکار نہیں کرسکتیں۔جو ان واقعات کو نہیں دیکھتے انہیں خود اپنی ذات سے سوال پوچھنا چاہئے۔؂[11]

اوردوسرا گروہ وہ ہے جو تصوف کا ماننے والا ہے لیکن بدقسمتی سے ان میں بھی اکثریت ایسے افراد کی ہے جن میں بہت سی خرابیاں اورخرافات جنم لے چکی ہیں۔ تصوف جس کی بنیاد "اخلاص " و "تقویٰ" پررکھی گئی وہ عنقاء ہوچکے ہیں  اوران کی جگہ ریاکاری ، دکھاوا ،نمود ونمائش ،جاہ ومنصب کی خواہش، مال ودولت بٹورنا  بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے انتہائی پستی ،ضلالت ،گمراہی  کا شکار ہوچکاہے۔ تصوف محض چند رسومات،تقریبات اورمحافل سماع  اور عرس منانے تک ہے۔ بیعتِ شیخ اصل منتہیٰ وغرض وغایت بن چکی ہے ۔کیا فاسق  کیافاجر  بس مریدوں کا جم غفیر جمع کرنا اوران  کی تعداد بڑھانا  ہی ان مشایخ کا مقصد نظرآتاتھا۔ بیعت بھی محض رسمی کاروائی کی حیثیت رکھتا ۔ہر سال ایک آدھ بار عرس یا کسی اور نام پر پیر کی خدمت میں جمع ہوجانا اور پیر کو نذر نیاز ،دے دلا کر رخصت ہوجانا،جس نے یہ افعال اداکرلئے گویااس نے  پیر سے جنت خرید لی اس کے بعد مرید کو اسلام پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔بخشوانے کے لئے پیر کافی ہے ۔ بس ان ہی امورمیں ساری طریقت وتصوف کو محدود کر دیا گیاہے۔لیکن نہیں!!! یہ توایک انڈسٹری کا روپ دھارچکا ہے ۔ایسی انڈسٹری جس میں خسارہ کا سوال ہی نہیں۔منفعت ہی منفعت۔نام نہاد مشایخ نے تعویذ گنڈوں ،آن لائن استخاروں سے سادہ لوح لوگوں کی سادگی سے بھرپور فائدہ اٹھاناشروع کردیاہے۔ رہی سہی کسر جانشینی اور وراثت کے تصورنے نکال دی۔زہد وتقویٰ کے بجائے اب صاحبزادگی ہی جانشینی کا معیار ہے اورگدی نشینی کا نسل در نسل منتقل ہونے والا سلسلہ اس نظام کی مدافعتی صلاحیتوں کو کمزور کرتے ہوئے اسے انتہائی پستیوں میں لےآیا۔اب عملاً  حالت یہ ہوگئی کہ وہ مسندیں جہاں کبھی غیور مجاہد،اعلم،اتقیٰ افراد بیٹھتے تھے وہ !!! اگر یہ کہا جائے  کہ کوے شاہین کے نشیمن پر قابض ہوگئے ہیں !

میراث  میں  آئی  ہے  انہیں مسند ارشاد

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ  Islam to the Modern Mind میں اس طبقہ کی کچھ یوں وضاحت فرماتے ہیں:

Another point is that Sufism today is mostly perverted and rotten because 99% of those who are pretending to be shaykhs of Sufism do not know the ABC of Sufism. It is a sort of business or trade carried from father to son. Shrines are built and business and money is made. That is not Sufism. Sufism is Islam. The law of  Islam has a body and a spirit. Sufism must remain within the bounds of the shariah.

آج صوفی ازم زیادہ تر گمراہ  اور متعفن ہے اس لئے کہ 99 فیصدخودساختہ  شیوخ تصوف کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔ یہ ایک قسم کا کاروبار بن گیا ہے جو وراثت میں باپ سے بیٹے کو منتقل ہورہاہے۔ مزارات تعمیر کئے جارہے ہیں اور اس کاروبار سے دولت سمیٹی جارہی ہے۔ یہ تصوف نہیں ہے۔  تصوف تو اسلام ہے۔ اسلام کے قانون کا ایک جسم اور روح ہے۔ صوفی ازم لازمی طور پر شریعت کے دائرہ وحدود کے اندر رہنا چاہئے۔؂[12]

اصول بیچ  کے مسند خریدنے  والو ؂[13]

نگاہِ اہلِ وفا میں بہت حقیر ہو تم

آپ علیہ الرحمہ نے تصوف کی آڑ اورلباس میں ملبوس صوفی نما بہروپیوں کی چیرہ دستیوں اورغلط فہمیوں کو آشکارکیا کہ ہر گدڑی پوش صوفی نہیں۔تصوف اورتقویٰ کاکسی خاص لباس ،شکل وصورت  اورمکان کے ساتھ تعلق نہیں  اس ضمن میں آپ علیہ الرحمہ لباس تقویٰ کی شاندار مثال پیش کرتے ہیں:

"مجھے نومسلموں سے خطاب کا موقع ملا ۔ جوں ہی میں ہال میں داخل ہوا میں نے سوچا کہ شاید تمام شرکاء پاکستانی دیہات سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں کبھی گمان بھی نہ سکتاتھا کہ امریکی اس قسم کا لباس بھی پہن سکتے ہیں۔ میں نے (حیرت سے) چیئرمین سے استفسار کیا (کیا یہ امریکی ہیں؟)تو اس نے تصدیق کی یہ تمام امریکی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پاکستان سےنہیں  لایاگیا۔ تقریر کے بعد میں نے ان لوگوں کو بلایا اوران سے استفسار کیا کہ وہ یہ لباس کیوں پہنے ہوئے تھے۔  انہوں نے جواب دیا یہ لباس تقویٰ کی  علامت ہے۔ مبلغین اسلام نے انہیں بتایاتھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اچھے مسلمان بنناچاہتے ہیں  توانہیں کرتا اور پاجامہ پہننا پڑے گا۔  مجھے انہیں قائل کرنے میں بہت وقت صرف کرنا پڑا کہ  حضور ﷺ نے (تقویٰ کا)کوئی لباس مخصوص نہیں کیا۔(امریکی معاشرت کے اعتبار سے)جیسا اجنبی لباس تم پہنے ہوئے ہو تم تو اسلام کے خلاف چلتا پھرتا پروپیگنڈہ ہو۔(بقول تمہارے)اگر مسلمان بننے کے لئے یہ ہی شرط لازم ہو تو دوسرے امریکی اسلام قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔ (آج کی اسلامی دنیا میں) اگر دیکھا جائے بہت سی چیزیں جو ہم فرض واجب گردانتے ہیں درحقیقت وہ اس کے برعکس ہیں۔ اسلام عالمگیر مذہب ہے جوتمام زمانوں اور تمام خطوں کے لئے (نازل ہوا)۔ایک عام سوشیالوجی کا طالبعلم بھی جانتا ہے کہ عمرانی تقاضے  اورثقافت بدلتی رہتی ہے۔ ثقافتی طریقوں کی تبدیلی لوگوں کی سائیک(نفسیات) بھی تبدیل کردیتی ہیں۔ اسی لئے حضور ﷺنے کوئی  لباس کی کوئی خاص شکل،ہیئت ،رنگ خاکہ پیش نہیں فرمایا۔(یہاں پھر آپ نے ایک شاندارمثال پیش کی کہ)اگر ٹھوس اورمضبوط لکڑی رنگ کے بغیر بھی کارآمد ہے لیکن اس کے برعکس دیمک زدہ لکڑی اگرخوشنما رنگوں سے بھی سجادی جائے وہ کسی کام کی نہیں۔" ؂[14]

خلاصہ کلام:

تصوف قرآن وحدیث سے ماخذایک ہمہ گیر تصور حیات پر مشتمل ایک طریقہ ہے ۔ اگر کوئی انسان طریق نبوت کے مطابق تصوف  کی صحيح روح پر عمل کرے  تو یہی تصوف اس شخص میں یقین و محبت  کی جڑوں کے ساتھ ساتھ قوت عمل، جذبہ جہاد، عالی ہمتی، جفاکشی اور شوق شہادت پیدا کرتا ہے۔ تعلیمات  تصوف سالک کو حقیقی معنوں میں ایک متحرک، با عمل اور سچے مسلمان کے سانچہ میں منقلب کرکے اللہ رب العزت کے مقربین میں داخل کردیتی ہیں۔راہ سلوک پر رواں سالک  جب کماحقہ اخلاص وصدق کے ساتھ تصوف کے  عملی نمونہ میں  ڈھل جائے تو یہ اسے عروج و کمال سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ اغراض مقاصد کے اعتبار سے یہ  انسانی زندگی کی معراج ہے ۔اس تمام بحث کے نتیجے میں دیکھا جائے تو ہر صوفی کا مقام عالم اورفقیہ سے بلند ہوتاہے  کیونکہ ہرصوفی فقیہ ہوتاہے لیکن ہر فقیہ صوفی نہیں ہوتا۔ آپ تمام مجددین کی فہرست اٹھاکر دیکھ لیں تمام کے تمام مجددین صوفی و فقیہ تھے۔ صرف علماء اورفقہاءیعنی تصوف سے عاری نہ  تھے۔ہاں یہی وہ افراد ہیں جن کی صحبت ومجلس کی ہر مومن کوتمنا رہنی چاہئے کیونکہ ایسے افراد ، اولیاء اللہ اورصوفیاء کی صحبت اورمجلس اگر ایک گھڑی بھی نصیب ہو جائے توسو سالہ بے ریازہد و طاعت سے بہتر ہے۔ بقول مولانا روم علیہ الرحمہ

یک ساعت در صحبتے بااولیاء

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریاء

"اللہ والوں کی ایک گھڑی  صحبت سو سالہ  بے ریاء زہد و طاعت سے بہتر ہے ۔"

2:فکری رہنمائی

براعظم افریقہ کا رقبہ 30300,000مربع کلومیٹر ہے۔ یہ دنیا کادوسرا بڑا براعظم ہے۔ نہرسویز شمال مشرقی علاقے میں اسے براعظم ایشیا کے سینا صحرا سے الگ کرتی ہے۔ خط استوا مشرق تا مغرب اس کے درمیان سے گزرتاہے۔ یہ دنیا کا پسماندہ ترین اور گرم ترین براعظم ہے۔ اس کا کوئی علاقہ معتدل نہیں ہے ۔یہاں آبادی کی گنجانی کم ہے۔ اسے دنیا کا تاریک براعظم  بھی کہاجاتاتھا کیونکہ اس کے اندرونی وسیع علاقے 19ویں صدی کے آخر تک ایشیا اوریورپ کی تہذیب یا فتنہ کی رسائی سے دور تھے۔

اگر افریقہ کی تاریخ دیکھی جائے تو1847؁ء میں امیر عبد القادر کے بعد الجزائرپرفرانس کی براہ راست حکمرانی قائم ہوگئی ۔ آہستہ آہستہ مراکش اور تیونس بھی فرانس کے زیر اثر آگئے ۔فرانسیسی اقتدارنے اپنی سفاکی اور درندگی میں اسپین کے عہد ظلمت کو بھی مات دے دی تھی۔

یورپی اقوام میں ایک بات مشترک ہے انہوں نے تاتاریوں کی طرح صرف ملک فتح نہیں کیے بلکہ اسلامی ممالک پر قبضہ جمانے سے پہلے اپنی فکری ونظری اساس کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔کیونکہ یورپی اقوام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھیں کہ اگر لوگوں کو ذہنی غلام نہ بنایاگیا تو جلد یہ اقوام ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی۔ اورانہیں بھی تاتاریوں کی طرح اپنا اقتدار قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔اس لیے جہاں تک ہوسکا انہوں نے اپنی فکر، تعلیم و تہذیب کو خوشنما بھیس میں پیش کیا۔کبھی نوکریوں اورسول سروسز کا جھانسہ دے کرکبھی ڈرا دھمکاکر سادہ لوح مسلمانوں کو بیوقوف اور اپنا ذہنی غلام بناکر۔ یہی انداز برطانیہ نے برصغیر پاک وہند اور اپنی دیگر کالونیوں میں اپنا یا۔اسی نظام کو فرانس نے الجزائر ،مراکو،تیونس میں اپنایا۔ اوراگرکہیں مزاحمت ہوئی تو اس کو سختی سے کچلا اورسخت انتقام کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ایک طرف مغرب کی مادی اورسائنسی ترقی دوسری طرف ان کاحکمران ہونا یہ ایسے دو عناصر تھے جنھوں نے مسلمانوں کی رہی سہی کسر بھی نکال دی اوران میں مغرب کی ذہنی غلامی؂[15] اور مرعوبیت پیداکردی ۔ جس کی وجہ سے افریقی نوجوان فرانسیسی کلچر وثقافت کے دلدادہ ہوگئے۔وہاں پر ان میں اسلامی اقدار کا خاتمہ ہوگیا۔بالخصوص تیو نس میں تو مغرب پرستی مراکش اور الجزائر سے بھی زیادہ ہے۔

دوسرا انہوں نے Divide & Ruleکا فارمولہ اپنایا۔ افریقی ممالک اسلام اورمسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان  فرانس نے پہنچایا۔اس نے انتہائی ظلم وتشدد،اورچنگیزیت کامظاہرہ کیا۔مسلمانوں کو عرب اوربربر دوقوموں میں تقسیم کرنے کی ناپاک کوشش کی۔ وہ بربر جو کبھی  طارق بن زیاد اور اس کے انصار کی شکل میں مسلمانوں کے دست راست اور بازو تھے فرانس نے ان میں قوم پرستی پیدا کرکے اسلام سے متنفر کرنے اور مخالف لاکھڑا کرنے کی کوشش کی ۔ان میں تعصب کوفروغ دیا۔آپس میں ان کولڑاکر تقسیم کرکے ان کے ممالک پر قبضہ کیا۔ان ممالک مثلاً تیونس، الجزائر،مراکو،وغیرہ کو اپنی کالونیوں میں تبدیل کردیا۔وہاں کی دولت کو بے دریغ مالِ مفت دل بے رحم کی طرح لوٹا اوراپنے ملک میں منتقل کیا۔بقول صبا

اور  طبقات  میں انسان  بکھر  جائیں  گے

مشورے روز ہواکرتے ہیں زرداروں میں

تیسرا وہ جہاں گئے وہاں نہ صرف اپنا سیاسی معاشی ،ثقافتی، تہذیبی ڈھانچہ استوار کیااوراپنے افکار کو مسلط کرنے کی کوشش کی   بلکہ مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو تبدیل کر کے لادینی تعلیمی نظام  کے تحت  اپنے ملک کے لیے سول سرونٹ تیار کرائے۔نیزوہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کو کبھی بھی مکمل شکست نہیں دی جاسکتی تاوقتیکہ ان کے اندر سے عشق نبی ﷺ ختم کردیاجائے۔اس کے لیے انہوں نے ایسا نصاب تیار کیاجہاں سے پڑھ کر نکلنے والے مسلمان طلبہ اپنی اقدار ، تہذیب کوچھوڑ کر ان کی تہذیب کو اپنالیں ۔اوران میں نشہ ،وطنیت، مسلک، تعصب، فحاشی،بے راہ روی عام ہوتاکہ ان کے اندر ہمت طاقت ہی نہ ہو۔ایساکرناان یورپی اقوام کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ مغرب کے اس رویے اور مسلم امت کے ان پر اعتبار کرنے کو اکبرالہ آبادی نے بہت ہی نفیس پیرائے میں بیان کیاہے:

جفائیں بھی ہیں ،فریب بھی ہیں ،نمود بھی ہے،سنگاربھی ہے

پھر اس  پہ  دعویٰ  حق پرستی  اور اس  پہ یاں اعتبار بھی  ہے

لیکن اللہ رب العزت نے مسلمانوں میں وقتاًفوقتاًایسے افراداور قابل جوہر پیدا کیے جو نہ صرف ان جفاؤں ، فریب اورنمود سے آگاہ تھے بلکہ اس کے خلاف آوازبھی اٹھاتے رہے۔ جن میں سے علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے چیلنج کیا۔ـ پھر دیگر اکابرین علما اہلسنت جن میں شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ اورڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ نے ان امور کو سمجھا اورمسلم دنیا بالخصوص افریقی ممالک میں عیسائیت اورلادینیت کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کے سامنے بند باندھا۔ آپ نے ان تمام مشکلات ومصائب کے سد باب کی کوشش کی جو امت مسلمہ کو درپیش تھیں ۔

ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ نے افریقہ پر خصوصی توجہ فرمائی۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس ادارے کے پہلے تین طلبہ کا تعلق براعظم افریقہ ہی سے تھا۔ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ اس امر کی نشاندہی کچھ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

"دوسری طرف Aleemiyah Islamic Missionary Training College کراچی میں جب 1959ء میں قائم ہوا تو اس سے استفادہ کرنے والے پہلے تین طلبہ افریقی ہی تھے۔جس میں بلند پایہ دینی رہنماؤں کی تیاری کے لیے الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ Aleemiyah Institute of Islamic Studies قائم کیاگیاہے۔ اس ادارہ کی بھی مخصوص توجہ براعظم افریقہ پر ہے۔"؂[16]

ڈاکٹرانصاری کاشماران بلند پایہ اورچوٹی کے مفکرین میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے عہد پر نہایت وسیع اور گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ان کی تصانیف نے احیائے اسلام کے لیے عالم اسلام بالخصوص افریقی ممالک پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں ۔ آپ کی تقریریں اور کتابیں افریقہ میں مسلمانوں کے لیے ثقافتی ، تعلیمی اور فکری  مدد کا ذریعہ بنیں ۔ آپ اپنے افکار و نظریات کی بنیاد پر لوگوں کے اندر سیاسی شعور اجاگر کیا اوراستعمار وجبرکی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے اس کے خلاف آواز بلند کی۔آپ نے انہیں یہ باورکرایا کہ ماضی میں بھی اسلام ہی افریقی مسلمانوں کا واحدنجات دہندہ تھا (جب یورپی اقوام بھی ان کے سامنے سرنگوں تھے اس وقت ان کی شان و شوکت وعظمت اسی اسلام کے سبب تھی)اورحال اوراستقبال میں بھی نجات اسی کے ذریعے ممکن ہے۔ اوراسی پر ملت اسلامیہ کی کامیابی کا دارومدارہے۔ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمہ اپنے مضمون " افریقہ میں تبلیغ اسلام" میں کچھ یوں رقمطرازہیں:

"افریقہ کی نجات بھی اسی میں مضمر ہے اور ملت اسلامیہ کی فلاح بھی اسی پر منحصر معلوم ہوتی ہے۔اس لیے کہ اگربراعظم افریقہ اسلام کی سَپربن جائے تو دنیا کی تمام کافرانہ طاقتیں مل کر بھی ملت اسلامیہ پر غالب نہیں آسکتیں۔مسیحی اقوام اس حقیقت سے واقف ہیں چنانچہ مسیحی تبلیغ اورمسیحی حکومتوں کی سیاسی سازشوں کا وسیع اورعریض جال پورے براعظم پربچھاہواہے۔"؂[17]

عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی عالم یورپ و امریکہ آمدورفت رکھتا ہو تو وہ ان قوموں کا دباؤ نہ برداشت کرتے ہوئے کئی امور میں پسپائی اختیار کرلیتاہے۔مثلاًتبلیغ اسلام ،رد عیسائیت،مغربی تہذیب کی ابلیسیت کو آشکار کرناوغیرہ۔لیکن آپؒ یورپ ،امریکہ کے دورے کرنے کے  باوجود حق وصداقت کا علم بلند کرتے رہے۔کبھی آپ نے باطل سے سمجھوتہ نہیں کیا بالخصوص آپ نے افریقہ میں فرانسیسی جبر وتسلط کے خلاف آواز اٹھائی۔آپ نے اس حقیقت کو بھی سمجھ لیا کہ شمالی افریقہ میں دینی ماحول اور دینی جذبہ زیادہ ہے۔عالم اسلام کی دو قدیم ترین اور بڑی درسگاہیں افریقہ میں ہیں تیونس کی جامعہ الزیتونہ(Zaituna ) جو 864ء؁ میں عباسی خلفاء کے دورمیں قائم ہوئی اوردوسری مصر کی جامعہ ازہرجو 970ء؁ میں قائم ہوئی۔

موجودہ دور میں مسلمانوں کے اخلاقی ،سیاسی ،علمی اورروحانی انحطاط اورزوال کے عِلل واسباب کو سمجھتے ہوئے ان کے سد باب کے لیے اور امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے آپ نے ایک ایسے ادارے کے قیام کامنصوبہ بنایا جہاں قدیم و جدید،عقلی ونقلی اور فکری و نظری علوم کی تدریس کا اہتمام کیا جائے۔اوراسلامی ماحول میں طلبہ کی تربیت کی جاسکے تاکہ وہ مغرب سے مرعوب ہونے کے بجائے اس کا مقابلہ کرسکیں ۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے آپ نے الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ کی بنیاد رکھی۔آپ نے افریقہ اوردیگرممالک کے طلبہ کو گُلِستان علم (الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ) میں لاکر ان کی آبیاری کی، یعنی اسلامی ماحول میں ان کی تعلیم و تربیت کی اورانہیں اعلیٰ تعلیم سے نوازا۔انہیں حضورﷺ سے محبت کا درس دیا۔ اسلام اور مسلمانوں سے محبت اورالفت پیدا کی۔اسلام اور مسلمانوں بالخصوص اپنی افریقی اقوام کے لیے درد پیداکیا۔اوروہ وہاں اسلام کی خدمت کرنے کے قابل بنایا۔اورانہیں اتحاد واتفاق کے درس سے آشناکیا کہ اگر وسعت چاہتے ہو،قدرومنزلت چاہتے ہو تووطنیت اور لسانیت کے تعصب کوچھوڑکر اورانفرادیت کو بھول کر امت مسلمہ کے بحر میں ضم ہوجاؤ کیونکہ جب تک قطرہ قلزم(دریا) میں نہیں مل جاتا اسے وسعت اور قدرو منزلت حاصل نہیں ہوتی۔ بقول جگر

بیکراں  ہوتا  نہیں  ، بے  انتہاء  ہوتا نہیں

قطرہ جب تک بڑھ کر قلزم آشنا ہوتانہیں

اس طرح افریقہ کے طلبہ کی صحیح فکری وسیاسی رہنمائی کی اور یہیں سے مسلمانوں کو قابل گوہر میسر آئے جنہوں نے استعمار وجبر کے آگے سرجھکانے کے بجائے اور آمروں اورڈکٹیٹروں کے آگے گردنیں خم کرنے کے بجائے اس کے خلاف سینہ سپر اورڈھال بن گئے ۔اس کے صلہ میں افریقی اقوام نے بھی آپ کو خراج تحسین پیش کیا اور آج بھی افریقہ کے بیشترخطوں میں آپ نے کے نام سے موسوم مدارس اورادارے کام کررہے ہیں اورآپ کے طلبہ آپ کا پیغام عام کررہے ہیں ۔

میری فطرت کے ہر پہلو میں روشن ہے چراغ ان کا

دل  ان کا ، روح  ان کی،  جسم  ان کا،  دماغ  ان کا

حقیقتِ عیسائیت کی وضاحت

یورپ جس نے سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اوربظاہر کسی مذہب کی کھل کرحمایت نہیں کرتا لیکن یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ یہی یورپی استعمار(امپریلزم ) افریقہ میں عیسائیت کوبطور ہتھیار استعمال کررہاہے ۔ یورپ عیسائیت کو صرف دوسروں کو برآمد (Export) کرنے کے لیے کام میں لاتاہے۔ خودیورپی اقوام اس پر عمل پیرا نہیں ہے۔ یوں عیسائیت یورپی استعمار کی ایک کنیز کا نام ہے۔عیسائیت اور مغربی ممالک  دونوں کی مشترکہ دلچسپیاں اسلام اورمسلمانوں کاراستہ روکنے کے لیے ہیں ۔ویسے تو عیسائیت روز اول ہی سے اسلام کے خلاف صف آراء ہے اور صلیبی جنگوں اوراپنی دعوتی کاموں کی وجہ سے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچاتی رہی ہے۔ اگرچہ عیسائی مبلغین امن پسند ہونے کاڈھونگ رچاکر اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں۔جب کہ خود انہی کے چرچ کے بعض  اعلیٰ عہدیداروں نے اس کھلی حقیقت کو تسلیم کیاہے۔

ڈاکٹر انصاری اسلام کا درد رکھنے والے راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ انہوں نے اپنے زمانے میں دیکھا کہ مسلمان اپنے بچوں کو عیسائی مشنری اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں جہاں انہیں انگریزی زبان اور کچھ دنیاوی علوم سکھائے جاتے ہیں،نیز انہوں نے عیسائیت کے پرامن مذہب ہونے کے دعوے کے باوجود اسلام سے دشمنی ، تبلیغ عیسائیت کی آڑمیں ان کی چالبازیوں اور مکاریوں کاادراک کرتے ہوئے رد عیسائیت کے محاذ پر قدم رکھا۔ 

آپ نے Historicity of Biblical Jesus میں خود یورپی محققین کی آراء اور عقلی دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ بائبل اللہ رب العزت کی نازل کردہ کتاب نہیں رہی اورنہ ہی اس کو بطورالہامی کتاب لیاجاسکتا ہے اورنہ اس سے سند یادلیل لی جاسکتی ہے۔

 مزید Islam and Christianity in the Modern World (اس کتاب کی وجہ تحریر آپؒ کی صحافتی خدمات میں گزرچکی ہے)میں ڈاکٹر صاحب عیسائیت کے تصورخدا کی وضاحت کرتے آپ اس مذہب کوتوحید کا علمبردار نہیں سمجھتے جیسا کہ اس کی تعریف کی جاتی ہے:

"ہم عیسائیت کی تعریف یو ں کرسکتے ہیں کہ وہ ایک اخلاقی، تاریخی،عالمگیر توحید پرست اورنجات دہندہ مذہب ہے۔ جس میں خدا اوربندے کے تعلقات کا درمیانی واسطہ خداوند یسوع مسیح کی ذات اورکارنامہ ہے۔"؂[18]

 بلکہ توحید  کے برخلاف   اس کا تصور خدا  تثلیث پرقائم ہے جن میں تین خدا ہیں۔

  باپ                       بیٹا                          روح القدس (معاذ اللہ)

اس تعریف کو انسائکلوپیڈیاآف ریلیجن اینڈ ایتھکس نے بھی تسلیم کیا ہے۔ملاحظہ ہو:

"عیسائیت میں خدا کا تصور نہ صرف توحید پرستی ہے بلکہ تثلیث پرستی بھی۔"؂[19]

جب یہ واضح ہوگیا کہ عیسائیت کی اساس توحید نہیں تثلیث پر ہے ۔اس نکتہ سے یہ امر بھی اظہرمن الشمس ہے کہ موجودہ عیسائیت  کسی بھی طورپر الہامی مذہب نہیں ہے اورنہ ہی اس کی (نام نہاد)الہامی کتاب بائبل ایک الہامی کتاب ہے۔اس امر کو خود ڈاکٹر انصاری ؒ نے اپنی کتاب میں واضح فرمایاہے:

''ہم ان دواہم حقائق سے انکار نہیں کرسکتے کہ بائبل کسی بھی طور پر نازل کردہ کتاب نہیں ہے۔اور یہ بطور،حیات و تعلیمات حضرت عیسیٰ قطعی طور پر ناقابل بھروسہ ہے۔اس لیے بائبل کو عیسائیت کا الہامی ذریعہ تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔''

اس طرح آپ علیہ الرحمہ نے عیسائیت کا علمی ،عقلی،نقلی محاسبہ کیا اور اس کے بطلان کو ثابت کیا۔اور آپ علیہ الرحمہ نے عیسائیت کا یہ محاکمہ نہ صرف قرآن مجید  بلکہ توریت ،انجیل  کی تعلیمات اور قدیم و جدید عیسائی مصنفین  ومغربی مفکرین کی آراء کی روشنی میں کیاہے۔ آپ نے بلاکم وکاست اور بغیر کسی تعصب کے حق وصداقت کاپیغام اس مؤثراندازمیں پیش کیا ہے  کہ غیر مسلم بالخصوص عیسائی یہ سوچنے پر مجبورہوجاتے ہیں کہ آیا  یہ تعلیمات وہی ہیں جن کی تبلیغ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کی تھی؟ کیا یہی(عیسائیت) دینِ حق  ہے؟اورکیا یہ زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی رہنمائی کرسکتی ہے؟

 حق وصداقت کے متلاشی  جب اسلام اورعیسائیت کاموازنہ کرتے ہیں توبے ساختہ ان کے قلوب گواہی دیتے ہیں کہ نہیں یہ وہ مذہب نہیں جس کا میں متلاشی ہوں بلکہ اسلام ہی واحد دین ہے جس کی انسانیت کو آج ضرورت ہے! یوں  فوری طور پر ان کے لبوں پرکلمہ طیبہ جاری ہوجاتا ہے۔اوروہ یہ کلمہ" اشھد ان لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمداعبدہ و رسولہ "اداکرکے اسلام کے قلعہ میں داخل ہوجاتاہے۔اس حقیقت پر  تاریخ شاہد ہے کہ عیسائیت کی ایک کثیر تعداد جو واقعی دین حق کے متلاشی تھے وہ دین اسلام کی حقانیت وصداقت کا اعتراف  کرتے ہوئے دائرہ  اسلام میں داخل ہوگئے ۔ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ نے Islam And Christianity In The Modern World میں صفحات  184-190 پرباقاعدہ ایک باب “Converts to Islam” کے نام سے تحریر کیا ہے جس میں عیسائیوں کے قبولِ اسلام اور یورپ میں اسلام کی تاریخ پر  مختصرنظرڈالی گئی ہے۔مثلاً آپ اس باب میں ان ہی کے جریدے  (The Free Thinker of London)کے حوالے سے یہ رپورٹ شامل کتاب کرتے ہیں جس میں ہزاروں برطانوی افراد کے قبول اسلام کا اعتراف کیاگیاہے۔

"گزشتہ 20 سالوں میں تقریباً دوہزار افراد محمڈنز(حلقۂ بگوش اسلام ) ہوچکے ہیں۔اس جملہ کی صحت کے بارے میں کوئی شبہ نہ ہوناچاہئے کیونکہ یہ عیسائی جریدہ ہی کااعتراف ہے "؂[20]

سوشلزم کا  علمی وفکری محاکمہ

حامیانِ سوشلزم کے بقول یہ ایسا نظام  ہےجس میں مالک اور مزدور کو یکساں سیاسی اور اقتصادی حقوق میسر ہیں، معاشرہ ہی تمام ذرائع، جائداد اور منافع کا مالک ہوتا ہے۔ یہ شخصی ملکیت نہیں، تمام وسائل دولت، ذرائع پیداوار اور اشیاء (جبری طورپر) ریاست کی تحویل میں لے لی جاتی ہے۔ 1917ء میں سوویت یونین کے استحکام سے اشتراکیت نے ایک (نام نہاد) جامع نظام کی حیثیت اختیارکرلی تھی۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو پورے نظام مملکت میں اپنے اصولوں کی بالادستی دیکھناچاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے سوشلزم تمام انسانی وسماجی امور میں اپنی تعلیمات اور اپنے تصورات کونافذ کرنا چاہتاہے۔ اس نے ایک نیا سیاسی،تعلیمی معاشی اورمعاشرتی ڈھانچہ پیش کیا ہے جو دیگر ادیان اورنظاموں سے متصادم ہے۔

 کال مارکس کا یہ عمرانی ومعاشی  تصور غیر متوازن ہے۔ یہ نظام انسانوں میں ناقابل عمل ہے۔اس کے نفاذ کے لیے ایسے فرشتے درکار ہیں جو ہر قسم کی خواہشات اور ضروریات سے پاک ہوں۔ کیونکہ جس شخص کے ہاتھ میں زمام ِاقتدار ہوگی اگر اس شخص میں خوف خدانہ ہوا تو وہ ان اختیارات اورتمام ملکی دولت وسائل کوغلط مصارف میں استعمال کرے گا اوراس نظام کی بنیاد ہی خداکی نفی پر ہے اس لیے یہ نظام اورخدا خوفی جمع نقیضین ہیں  یعنی کہ  جس طرح ایمان اور کفر دونوں کا بیک وقت پایاجانا محال ہے اسی طرح ایک ساتھ یہ دونوں باتیں بھی  ممکن ہی نہیں ۔

مزید یہ کہ کارل مارکس انسانی فطرت کے روحانی تقاضے سمجھ نہیں پایا جو بیرونی حیوان کی طبیعت سے بہت مختلف ہیں ۔ مارکس کا خیال ہے کہ انسان نفس حیوانی کاغلام ہے،اس کے قوائے ذہنی، قوت مشاہدہ ،قوت تخلیق اور وجدانی سب کے سب اسی بیرونی حیوان کی خدمت کے لیے وقف ہیں ۔ مارکس انسان کی ساخت اس کی فطرت اورترکیب (روح اورجسم)کوجاننے اور سمجھنے کی بجائے صرف باہر کے حیوان کو دیکھتا ہے اور اس کے لیے معاشی ضروریات کے بارے میں بات کرتا ہے لیکن اس کے اندر کے انسان کو نہیں دیکھتا اوراس کی روحانی ضروریات کو پس پشت ڈال دیتا ہےاوروہ یہ حقیقت بھول جاتا ہے کہ انسان روح اورجسم دونوں کا مرکب ہے ۔ اس نے اس ظاہری حیوان کوتقویت دینے کے لیے اپنی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ یعنی مذہب کو تو ویسے ہی نشہ اورافیم قرار دے کے رد کردیا تھا۔ چونکہ اس کے نعرے بڑے دلکش،خوشنما،خوش کن اورجاذب تھے اورعوام الناس غریب اورمحروم طبقہ ان خوشنما نعروں اورخوابوں کا شکار ہوگیا جس میں مزید رنگ اس زمانے کے شعراء اورادباء نے ڈال دیا۔

بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ اشرافیہ(Elite Class) ایساتھا جومغرب زدہ تو تھا لیکن خود کومغرب دشمن ظاہر کرتاتھا۔وہ اشتراکیت کاعلمبردار اور روسی استعمار کااسیر تھا۔ جواسے خوشنما بناکر پیش کرنے کی کوشش کررہاتھا اوران کا نعرہ یہ تھاہمارا دین اسلام،سیاست جمہوریت اورنظام سوشلزم ہے۔مزید یہ کہ پاکستان کے اکثر نامور ادباء ،شعراء ، دانشور اورتعلیم یافتہ طبقہ  نہ صرف اس طوفان میں خس وخاشاک کی طرح بہہ گیاتھا بلکہ خود اس کا داعی بن گیا تھا۔صراحتاً اسلام اوراس کے خلاف لکھا جانے لگا ؛ مثلاًدرج ذیل شعر میں مجھے تو اس دنیا اور اس کے لوگوں کی مادی ترقی ہی عزیز ہے خواہ میری یہ ادا آسمان کی مخلوق اور رب کائنات کو پسند آئے یا نہ آئے۔بقول حبیب جالب

میں زمیں کا آدمی ہوں مجھے پیار ہے زمیں سے

فلک پہ رہنے  والے   مجھے  چاہیں یا  نا چاہیں

اسی طرح مشہورشاعر قتیل شفائی کہتا ہے کہ آخرت اور اس کی بہاریں تجھے ہی عزیز اور مبارک ہوں میرا مطمح نظر،مقصد تو صرف دنیا پرستی اور مادہ پرستی ہے اور یہی میری پیشانی پر لکھا ہوا ہے۔ بقول قتیل شفائی:

ہوں مبارک تجھے عقبیٰ کی بہاریں زاہد

میرے ماتھے پہ تو مرقوم رہی ہے دنیا

ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمۃ نے نہ صرف مغرب کی سیکولرفکر کو چیلنج کیا بلکہ انھوں نے الحاد اورسوشلزم پربھی کاری ضرب لگائی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سوشلزم کے نظام پر  سخت تنقید کی۔اس نظام کی خرابیوں سے آگاہ کیا ۔اس سلسلے میں آپ نے محض سولہ دن کے مختصرعرصے میں ایک شاہکار کتاب کا خام مواد تیار کیا ۔آپ فرماتے ہیں:

16 روز چھٹی پر رہ کر 750 صفحے سے زائد پڑھ کر notes لے لیے تھے ۔ اب صرف ترتیب کے ساتھ لکھنا باقی ہے، کتاب تیارہوجائے گی۔ اس کا نام ہوگا:

“Communist Challenge to Islam” ؂[21]

دیگرمصروفیات کا عرصہ منہاکردینے کے بعد اس کتاب کی مکمل تیاری میں تقریباً ایک ماہ کا عرصہ صرف ہوا۔ جس سے حضرت صاحب کی قلبی،ذہنی وروحانی کیفیات وصلاحیتوں کابخوبی اندازہ  لگایاجاسکتاہے۔

آپ نے جب سوشلزم کے خلاف قلم اٹھایاتو اس وقت سب سے بڑی مشکل مآخذکتب  کی فراہمی تھی۔لیکن جب انسان پختہ اورمصمم ارادہ کرلے تو پھرراستے کی تمام رکاوٹیں  رب تعالیٰ کی تائید ونصرت سے دورہونے لگتی ہیں ۔ تائید ربانی سے ہرمشکل آسانی میں بدل جاتی ہے جیسا کہ یہاں آپ کو مطلوبہ مواد خود کمیونسٹوں ہی کی مدد سے ملتارہابقول مومن خاں مومن"لو!آپ اپنے دام میں صیاد آگیا"؂[22]۔اس کی وضاحت آپ اپنے ایک مکتوب میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں:

"لٹریچر بھی اس زمانہ میں تائید ربانی سے نیا نیاہاتھ آتارہا اورخودکمیونسٹوں سے ملتارہا۔بمشکل 25 ستمبر کوکام ختم کرسکا۔"؂[23]

آپ نے جو کتب تحریر کی آپ علیہ الرحمہ ان کتب کی تفصیل  اپنے شیخ کی خدمت کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

میں حضرت کو یہ خوشخبری سنادوں کہ میں بحمداللہ 25 ستمبرکوکمیونزم پر پہلی کتاب مکمل کرچکا ، اس کتاب کا عنوان ہے:

Muslims Under Communism

تقریباً ڈیڑھ سوصفحات کی کتاب ہے اوراپنے عنوان پر پہلی چیز ہے۔؂[24]

دوسری جلدکی تیاری  کے حوالے سے آپ علیہ الرحمہ اپنے اسی مکتوب میں آگے چل کر فرماتے ہیں:

"دوسری جلد پر کام شروع کردیاہے اس کا عنوان ہوگا:

Communism: The Ideology of the Under-Man؂[25]

تیسری جلدکے لئے درکار مواد اوراس موادکی صحیح ترتیب وتبویب کے لئے حضرت صاحب کی رہنمائی کی ضرورت کی بابت آپ فرماتے ہیں:

"پھر تیسری کتاب باقی رہ جائیگی یعنی The Islamic Social Order۔ اس کا مواد اپنے ہمراہ لاؤنگا۔اس میں چونکہ دین متین کی تفسیر کرنی ہوگی اوراکثرپیچیدہ عصری مسائل کا حل کرناہوگا اس لئے حضرت کی ہدایت کی ضرورت ہوگی۔"؂[26]

ان مکتوبات سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ نے کس جانفشانی ،عرق ریزی اورمحنت سے کمیونزم کے خلاف کتب تحریرکیں۔آپ اپنی ان کتب میں سوشلزم کے اسباب  کے بیان میں سرمایہ دارانہ نظام کو ان خرابیوں کی وجہ  قراردیا جن سے سوشلزم اور کمیونزم نے جنم لیااور  اس امر کی بھی وضاحت کی کہ سرمایہ دارانہ نظام آزاد یا بے قیدمعیشت پر مبنی تھا۔اس نظام سے بے رحمانہ لوٹ کھسوٹ ،استحصال، طبقاتی ظلم اور اجتماعی زندگی میں عدم تعاون کی برائیوں نے جنم لیا ۔اوراس سے ایک ایسامعاشرہ وجود میں آگیا جس میں اعلیٰ کاروباری صلاحیتیں رکھنے والا ایک چھوٹاسا طبقہ حکومتی قوانین کے زیر سایہ لاکھوں انسانوں کاآقابن بیٹھا ۔

آپ نے اپنی کتاب اسلام اورمارکس ازم میں اگرچہ مارکس ازم کو سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلام سے قریب قراردیاہے اورسرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کی ہے کہ اسلام کے اندرقانون میراث اور زکوٰۃ کا نظام سرمایہ دارانہ نظام کی نقیض اور ضد ہیں۔اور وہ وقت (انشاء اللہ العزیز) دورنہیں جب یہ نظام بھی غربت،بے روزگاری،افراطِ زر اور قرضوں کے ناقابلِ برداشت بوجھ  تلے دب کر زمیں بوس ہوجائے گا۔اوراس پرحضرت علامہ محمد اقبال کی یہ پیشین گوئی پایہ تکمیل کوپہنچے گی۔

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

دنیا  ہے  تیری  منتظر  روز مکافات

لیکن آپ نے اس چیز کی وضاحت بھی کی کہ کمیونزم صرف ایک معاشی نظام ہی نہیں بلکہ یہ ایک مکمل فلاسفی ہے۔ جنہیں فلسفہ بطن (Philosophy of Stomach) کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔یہ نظریہ غیر سائنسی اورسطحی ہے۔ اس میں  زندگی گزارنے کے اپنے اصول وقواعد وضابطے ہیں جو اسلامی نظام حیات  سے متصادم ہیں۔اس کی وقتی کامیابی صرف ان زخم خوردہ لوگوں کو اپنے جھانسے میں لینے کی وجہ سے ہے۔یہ نظریہ بھی مغربی استعماری نظریہ سے کم ہلاکت خیزنہ تھا۔اس نظام نے لاکھوں آدمیوں کوچھوٹی بڑی املاک سے محروم کردیا۔اور 19(انیس)لاکھ آدمیوں کوموت کے گھاٹ اتاردیا۔اور چایس پچاس لاکھ آدمیوں کوملک چھوڑنے پرمجبورکردیا۔

مغرب کی طرح سویت یونین روس نے بھی جبراً وبہلاپھسلاکرلوگوں کواپنا ہمنوا بنایا۔اس نے ایک خطیر رقم خرچ کی تاکہ اپنے دانشوروں ،کے ذریعے مسلمانوں کی ذہن سازی (Brain Washing) کریں اور ان میں آہستہ آہستہ روس کا رعب طاری کردیں تاکہ یہ کبھی اپنے آقاؤں کے بالمقابل آنے کا سوچ بھی نہ سکیں ۔آپ علیہ الرحمہ کی کتاب اسلام اورمارکس ازم یا آپ کے مضمون سویت یونین میں اسلام اورمسلم Islam and Muslims in Soviet Unionنے سوشلزم کے خون آلوددانتوں اورخون آشام پنجے(Red Teeth and Claws)جو اس نے چھپائے ہوئے تھے کو ظاہر کردیا۔جوخول(Mask) اس کے چہرہ پر تھا اسے اتاردیا اور پردہ اٹھا کر اس کے بدنماچہرے کونوجوانوں اورعام مسلمانوں کے سامنے واضح کیا ۔ نیز روسی حکومت کے ظلم و ستم ،اورہتھکنڈوں کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیااوراپنی تحریروں وتقریروں سے روس یعنی سویت یونین کے سرخ انقلاب کے خلاف آواز بلند کی اوریوں آپ نے اس وقت مارکس ازم یعنی سرخ انقلاب کے آگے بندباندھا اوران کی چال کو ناکام بنادیا جو زخم اس نے لگایا اس کے لیے مرہم اور تریاق مہیا کیا ۔عقلی اور نقلی بنیادوں پر اس کا ایسا قلع قمع کیا کہ مارکس ازم کو اس کے اپنے ملک میں چھپنے کے لیے کوئی جگہ میسر نہ آئی۔

آپ علیہ الرحمہ کی تحریرات سے مستفاد چندنکات یہاں تحریرکئے جارہے ہیں جن کا لب لباب یہ ہے  کہ کارل مارکس نے اسلام کوسمجھا ہی نہیں تھا اورجس مذہب کی آڑ میں وہ تمام مذاہب  کے خلاف برسرپیکارتھا وہ اسلام نہیں بلکہ  عیسائیت ہی تھا۔ اس کی مذہب بیزاری کی بنیادی وجہ اسلام نہیں بلکہ عیسائیت ہے۔ کیونکہ عیسائیت کاجوہڑ صدیوں سے بلاکسی ہلچل پڑے پڑے سڑچکاتھا:

·        عیسائیت کاعقیدہ  موروثی گناہ (Original Sin) بھی بعید از فہم ہے جب کہ اس کے برعکس اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر شخص فطرت (فطرت سلیم) پرپیداہوتاہے۔

·        عیسائیت کا عقیدہ نجات(Salvation)  جو کہ غیر عقلی وغیرمنطقی ہے کہ تمام دنیا کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  نجات دہندہ(Savior)  بن کرآئے۔ اس کے برعکس اسلام میں ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اوراس سے صرف اس کے اعمال کی باز پرس ہوگی۔

·        عیسائیت رہبانیت(Monasticism)  کی تعلیم دیتی ہے اس کے  برعکس  اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کی یہ دنیاوی زندگی بہت اہمیت کی حامل ہے ۔بقول شاعر:" الجھنیں وقت کی سلجھاکرسلجھنا ہےتمہیں"۔ یعنی مسلمانوں نے نہ صرف خود رب کی اطاعت کرنی ہے بلکہ اس عالم میں ایک باقاعدہ نظام عدل قائم کرنا ہے۔قرآن مجید مسلمانوں پرعدل کا نظام قائم کرنا فرض قراردیتاہے،جہاں رب کا نظام نافذ ہو۔جب کہ غورکیاجائے توکارل مارکس کا نعرہ ہی یہ تھامذہب اور مذہبی قیادت خود ناانصافی کا علم بن چکے ہیں۔

·        نیزاگر مذہب اورسائنس کی تلخ تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو یہ بات الم نشرح ہوجائے گی کہ یہ عیسائیت  ہےجس نے سائنسی علوم کو دبانے بلکہ کچلنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس اسلام نے قطعاً کسی بھی قسم کے علوم کی تحصیل وترویج پرکبھی کوئی قدغن نہیں لگائی۔

فتنۂ قادیانیت کی ہولناکی کا ادراک:

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ اپنے ایک مضمون میں غلام احمد قادیانی کے مختلف مدارج بالاختصار بیان فرماتے ہیں:

"غلام احمد قادیانی ١٨٤٠ء میں پیداہوا ١٨٦٤ء میں مروجہ علوم سے فارغ ہوا۔١٨٨٢ء میں مبلغ کی حیثیت سے ظاہر ہوا۔١٨٨٦ء میں الہام کا دعویٰ کیا۔١٨٩١ء میں مسیح موعود کا دعویٰ کیا۔١٩٠١ء میں پچھلے تمام دعووں کو غلط قرار دے کر ظلی نبوت کا دعویٰ کردیا۔اوراس کے بعد بتدریج مستقل اور صاحب تشریعی نبی کی منازل طے کرتارہا۔بالآخر ١٩٠٨ء کواپنے انجام کو پہنچ گیا۔"؂[27]

فتنۂ قادیانیت  کی سرکوبی کے حوالے سے ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔آپ کی نظر دنیا کے تمام خطوں پر تھی۔ جہاں کہیں بھی اسلام اورمسلمانوں کے خلاف سازشیں بُنی جارہی ہوتیں وہاں آپ اس کے سدِ باب میں مصروف کارہوجاتے۔آپ نے تقسیم ہند سے قبل ہی فتنہ قادیانیت  کی خوفناکی وہولناکی کاادراک کرلیاتھا اورجہاں جہاں ان کے جڑپکڑنے یامضبوط ہونے کا امکان تھا وہاں خود بھی ان کی بیخ کنی میں مصروف ہوگئے اوراپنے شیخ کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائی۔ آپ نے اپنے مختلف مکتوبات میں اپنے شیخ ومرشد کی توجہ ان خطوں کی جانب دلائی جہاں قادیانی زورپکڑرہے تھے۔جیسا کہ ایک مکتوب میں آپ تحریرفرماتے ہیں:

"میری نگاہ میں اس وقت بیرونی اسلامی آبادیوں میں سب سے خوفناک فتنہ قادیانیت ہے۔ جو علاقے قادیانیت کی زدمیں ہیں یا آئندہ آنے والے وہ حسبِ ذیل ہیں:

جزائر فلپائن کا جنوبی علاقہ جس میں خالص اسلامی آبادی ہے مگربہت زبوں حالت میں ہے۔ اس علاقہ کا نام Mindanao  ہے۔

2۔ فیجی،وہاں لاہوری قادیانیوں کا طاقت ور مرکز ہے۔ مگرمقابلہ کے لئے مسلمان اکابر بھی مستعد ہیں۔ سالہاسال سے وہ آپ کی زیارت کے لئے بے چین ہیں۔

United States of America وہاں لاکھوں کی مسلم آبادی ہے۔ مگر مسلمانوں کی دینی حالت خراب ہے۔ قادیانی مبلغین 1912ء سے سرگرم کار ہیں۔

4۔ٹرینڈاڈ،وہاں کا حال آپ کو معلوم ہے۔

5۔ ٹرینڈاڈ کے پاس ہی جنوبی امریکہ کے حسب ذیل علاقوں میں قادیانی سرگرم کارہیں اورہرجگہ ضرب مسلمانوں پرہے:

Dutch Guiana, French Guiana, British Guiana, Brazil, Argentina

6۔ انگلستان ،وہاں قادیانی اورلاہوری دونوں کے پرانے مراکز ہیں۔ سنیوں کے ادارہ بھی ہیں مگر ان کوقادیانیت کے مقابلہ پر لانا ہے۔ اس کے لئے آپ کا جاناضروری ہے۔ انگلستان کی حیثیت بہت سی وجوہ سے مرکزی ہے اس لئے نہایت اہم ہے۔

7۔مغربی افریقہ کے ان علاقوں میں قادیانیت بہت خوفناک صورت اختیار کررہی ہے۔ہر حال وہاں جانااشد ضروری ہے۔ تین کروڑ کی آبادی میں ہیں۔۔۔۔ جب آپ 1947ء میں مصرمیں تھے اس وقت آپ کے سفر کی بابت ان سب علاقوں میں خطوط لکھے تھے۔ اب جیسا آپ فرمائیں کروں۔"؂؂[28]

یورپ میں فتنۂ قادیانیت کی بیخ کنی:

بیسویں صدی کی ابتداء ہی سے یورپ میں مسلمانوں کو کئی محاذ پر چیلنج درپیش تھے۔یہود نصاریٰ (بالادست قوم)کے اپنے میدانوں(Home Ground, Home Crowd)  میں  زیردست قوم (مسلمانوں)کو ان کا مقابلہ کرناتھا۔ یورپی ہر قسم کی جدیدٹیکنالوجی سے لیس تھے۔ان کا میڈیا بہت مضبوط تھا اور گمراہ کن پراپیگنڈہ میں مصروف تھا۔بظاہر وہ علمی وفکری میدانوں میں بھی مسلمانو ں سے بہت آگے تھے۔ عام مسلمانوں کے توکیا کہنے سوائے چند معدودہ علماء و مشائخ اکثر علماء،کو بھی ان کا میڈیا اپنے طوفان میں بہائے لیے  جارہاتھا۔ ان سب سے بڑھ کر آستین کے سانپوں سے خود کو بچاناتھا۔ان آستین کے سانپوں میں سب سے بڑا فتنہ قادیانیت کاتھا۔ جو اسلام کا نام لے کر، مسلمانوں کے نام رکھ کر یہود ونصاریٰ کی پشت پناہی کی وجہ سے تمام قسم کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس  ہوکر درپردہ اوراعلانیہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ مسلمانوں کو اسلام سے متنفر کرکے قادیانیت میں داخل کررہے تھے۔

 مسلمانوں میں اول تو اس قسم کے شعور رکھنے والے افراد نہ ہونے کے برابر تھے ۔چند گنے چنے افراد تھے جن میں شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ  وغیرہ۔جن کی  اپنی بے پناہ مصروفیات ہونے کے باعث ہرجگہ ان کے لئے مسلمانوں کے دفاع کرنابہت دشوار تھا۔ علمی فکری پختگی اور شعور وبیداری  رکھنے والے افراد کی کمی کے باعث قادیانیت یہود ونصاریٰ کی قوت سے کھل کرکھیل رہی تھی۔ مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔ ایسے میں عام مسلم کے ایمان کی حفاظت کرنی بہت ضروری تھی۔مسلمان تعداد میں کم، علمی محاذ پر کمزور، سائنس وٹیکنالوجی سے بے بہرہ،لیکن یہ بھی نہ تھا کہ یہ مسلمانوں کی تاریخ کا پہلا موقع ہو جب مسلمانوں کو قلت تعداد ،قلت سامان اورقلت وسائل کا سامنا کرنا پڑاہو۔

دین اسلام ابتداء ہی سے ان امور کا سامنا کرتاآرہا ہے۔لیکن جب کبھی اسلام(امت مسلمہ)  کو ضرورت پڑی اسے نوجوانوں کے طبقہ  میں سے اولوالعزم،عالی ہمت اور جذبہ شہادت سے لبریز نوجوان میسر آئے۔غزوہ بدر میں ابو جہل کافروں کے سردار کا سرتن سے جدا کرنے والے کون تھے۔14 سالہ معوذ اورمعاذرضی اللہ تعالیٰ عنہما،مسلمانوں کی سیریا(شام) پر لشکر کشی کے کمانڈران چیف کون تھے، 17 سالہ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ ، ہند میں مسلمانوں کی فوج کے قائد کون تھے 17 سالہ کمانڈر محمد بن قاسم۔یہ تمام افراد کم عمر ضرورتھے لیکن کسی انتہائی ماہر اورمشاق جرنیل سے کم نہ تھے۔ مسلمانوں کو اپنی قیادت ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں دینے پر کبھی پچھتاوا نہ ہوا بلکہ وہ ہر مقام اورہر محاذ پر کامرانی وکامیابی ہی  سرفراز ہوتے رہے۔اس طرح مسلمانوں کی تاریخ  نوجوانوں کے شاندار کارناموں سے معمورہے۔

صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں میں جنگی محاذوں پر ہی نوجوانوں سے کامیابی ملی ہو۔بلکہ فکری  اور علمی محاذوں پر بھی ہمیں کئی دفعہ نوجوانوں نے سربلند کیا۔حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ  ،امام شرف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اورتاریخ اسلام میں  ان کی طرح لاتعداد افراد ایسے ہیں جو نوجوانی ہی میں مسند درس وتدریس ،افتاء بلکہ امامت پر فائز ہوگئے۔الغرض تاریخ کے اوراق ان جیسے نوجوانوں کے کارناموں سے بھرے  ہوئے ہیں ۔ جنہوں نے  نوجوانی یا بچپن ہی سے اپنے اثرات حسنہ سے معاشرہ پر گہرااثرمرتب کیا ہو اورمعاشرہ  کے فساد وبگاڑ کوختم کیا ہو ۔

لہذا اس وقت بھی کسی ایسے ہی نوجوان کی مسلم امہ کو تلاش تھی۔جو شخص اپنی علمی قابلیت، خاندانی وجاہت، صوفیانہ شباہت،مومنانہ فراست کی وجہ سے مرعوب ہونے کے بجائے  مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرے۔ ان احوال میں ایک نوجوان مجاہد سامنے آتاہے۔ اللہ رب العزت نے  ایک بار پھر  مسلمانوں کی مدد ونصرت کے لئے ایک 20 سالہ نوجوان کو ہمت وطاقت دی  جو اس سے پہلے بھی کئی محاذوں کو فتح کرتا ہوا چلاآرہاتھا ۔کہنے کو 18 یا بیس سال کی عمر ہے ہی کیا ۔ جس عمر میں عام نوجوان سجنے سنورنے،کھانے پینے، کھیل کود ،سیروسیاحت ،لہوولعب میں غرق ہوتے ہیں۔وہ  سیاسی چالوں،معاشی منصوبوں،سائنسی ایجادوں،دشمن کی عیاریوں، قادیانیوں کی مکاریوں، ابلیسی جالوں، طاغوتی للکاروں کو کیا سمجھیں ۔وہ تواپنی صلاحیتوں  سے بھی واقف نہیں ہوتے کجا ان اموربالا سے آشنا ہوں۔لیکن یہاں معاملہ ہی یکسردیگرتھا۔ یہ کوئی عام نوجوان نہ تھے بلکہ  اللہ رب العزت نے ان کوشاید چنا ہی ایسے محاذوں کے لئے تھا۔آپ  علیہ الرحمہ کی 18 ،20 سال کی عمرمیں بھی فکری ،ذہنی ، علمی، اخلاقی،روحانی کیفیت کا عالم یہ تھا کہ آپ  ان تمام امور کو مکمل جزئیات کے ساتھ نہ صرف دیکھ رہے تھے بلکہ آپ کے پاس سدباب  اورعلاج  بھی تھا  اور تنگی داماں کا سامان بھی ۔انہوں نے  قادیانیوں کو ایسے زور دار، مدلل جوابات دیئے  اورحقائق  جمع کرکے پیش کئے  جس نے قادیانیت کے دعووں کی خس وخاشاک کی طرح اڑاکررکھ دیا۔ یہ نوجوان ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمہ ہی ہیں۔وہی جنہوں نے 18 برس کی عمر میں Beacon Light لکھی تھی،اس نوجوان کے ہتھیار صرف حب الہی،عشق مصطفویﷺ، قوت ایمانی،مومنانہ فراست  اوردعا تھے۔اور یہ ہتھیارایسے ہیں کہ ان  سے مالا مال  شخص  کے سامنے آنے والا کتنا ہی بااثر،طاقتور اورعیار شعبدہ باز ہو وہ آخر کار خود ان سے متاثر ہوجاتاہے۔ شاید ایسے ہی نوجوانوں کے لئے ڈاکٹر علامہ اقبال  علیہ الرحمہ نہ فرمایا تھا:

خرد کو  غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ نے یورپ اور امریکہ میں قادیانیوں اوراحمدیوں کے خلاف جہاد میں حصہ لیا۔ آپ نے ان  کے تمام باطل دعووں اورگمراہ کن پروپیگنڈہ  کو نہ صرف رد کیا بلکہ انتہائی مدلل اور حقائق کے ساتھ شاندار جوابات عنایت فرمائے ۔اوران کے مکروہ چہرے سے نقاب اتار کر ان کے ناپاک عزائم کو خاک آلود کردیا۔

آپ  کی  کتاب A New Muslim World In Making لکھنے کا بنیادی مقصد قادیانی پراپیگنڈہ کا مؤثر جواب دینا ہے۔آپ نے وہاں مقیم مسلمانوں کے تاثرات اور ان کے دیگرجرائد میں چھپنے والے بیانات کو قلمبندکرکے قادیانی پراپیگنڈہ کی قلعی کھول دی  اور ان کے تمام دعووں کی مکمل نفی فرمادی  ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے یورپ  اورامریکہ میں مسلمانوں  کی مفصل تاریخ بیان فرمائی ہے۔ پہلے یورپی کے اسلام قبول کرنے سے اس کتاب کی تدوین تک آپ نے یورپ میں موجود مسلمانوں کی تعداد،مسلم مبلغین کا انداز تبلیغ،ان کے مراکز تبلیغ وغیرہ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔جس کے بعد قادیانی اپنے دعووں کی تائید میں کچھ  کہنے کے قابل نہ رہیں گے۔ جیسا کہ اس کتاب کےبارے میں جناب فیصل احمد نقش صاحب فرماتے ہیں:

"قادیانیت کے بارے میں بہت زیادہ اورتفصیل سے لکھا جاچکاہے لیکن وہ تمام کا تمام اردو میں ہے۔اگرچہ الیاس برنی صاحب کی کتاب قادیانی مذہب کا انگریزی ترجمہ بھی کیاجاچکاتھا اور کئی دوسرے علماء کے مضامین بھی ترجمہ ہوچکے ہیں جن کے ڈاکٹرانصاری صاحب نے اپنے دیباچہ میں اسماء بھی تحریر کئے ہیں لیکن براہ راست انگریزی میں لکھی جانے والی کوئی کتاب نہ تھی۔ جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ قادیانی مذہب کے خلاف باقاعدہ انگریزی زبان میں لکھی جانے والی یہ پہلی کتاب ہے۔"[29]

آپ علیہ الرحمہ آج کے دورمیں  میڈیا کے کردار اور اس کی قوت سے بخوبی آگاہ تھےکہ یہ میڈیا کیا کیاگل کھلاسکتا ہے۔ یہ میڈیا  ہی ہے جو باغات کو مٹی کا ڈھیر  اور بے آب وگیاویرانہ  کو انتہائی شاندار گلستان کی صورت میں دکھادے۔  یہ اگر چاہیں تو اُلّو(جو نحوست کی علامت سمجھاجاتاہے) کو "ہُما"(ایک تخیلاتی پرندہ  جو خوش بختی کی علامت ہے کہ جس کے سرپربیٹھ جائے وہ تاج وتخت کا مالک بن جائے) دکھادیں اور ایک ذرہ کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیں پیالے میں سونامی طوفان برپادکریں ۔ درحقیقت یہ  شہشناہ جھوٹ  ہےان کا اصول یہ ہے کہ جھوٹ اتنی بار بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے اور آخر کاراسے سچ مان لیا جائے۔ یہی میڈیا ہے جس سے شیطان بھی شرمندہ ہے۔ ایسے میں حق وصداقت کے دائرہ کار میں رہ اپنا دفاع کرنا اوربھی مشکل ہوجاتاہے۔اس میڈیا وار میں  احمدی پراپیگنڈہ کے حوالے سے کچھ یوں رقمطرازہیں:

After I had given this book to the press I received several letters in which my attention was drawn to the propaganda of the Ahmadees, (1) that they were the first to take the message of Islam to Europe, (2) that they were the sole flag-bearers of Islam in the West today and (3) that it was only they who had produced Islamic literature in Western languages.

The Ahmadees have indeed mastered the art of advertisement. They can make an ounce appear a ton and they can make the worse appear the better reason. As regards claims (1) and (2) I need hardly say much. A perusal of this very brief account of the work of Muslims in the West is sufficient to give the lie direct to it. But I may say here that, firstly even that little work which they have done has been done for the exclusive purpose of popularizing their movement and converting people to Ahmadiism for they have made Islam a prop for preaching the claims of Mirza Ghulam Ahmad Saheb Qadiani. Consequently no credit can be given to them without proving that their motive was purely Islamic and that Ahmadiism can ever be regarded as a sect of Islam if the Christians cannot be regarded a Jews even when they preach the Old Testament; secondly, it may be pointed out that if we Muslims want to do the same as the Ahmadees do, we can publish books on our mission work far more voluminous than their pamphlets and we can publish a far greater number of the photos of converts than the Ahmadees can do.

"یہ کتاب پریس میں بھیجنے کے بعد مجھے کئی خطوط موصول ہوئے جس میں میری توجہ احمدی پروپیگنڈہ کی طرف مبذول کرائی گئی کہ(قادیانیوں کا دعویٰ ہے کہ)  اسلام کا پیغام یورپ تک پہنچانے والا سب سے پہلا گروہ احمدی ہے۔ مغرب میں سب سے پہلے اسلام کا علم بلندکرنے کا سہرا بھی ان کے سرجاتاہے اور سب سے پہلے اسلامی لٹریچر کومغرب میں پھیلانے میں بھی ان ہی کا ہاتھ ہے۔

اس دعویٰ کی حقیقت صرف یہ ہے:احمدی دراصل اشتہار بازی(میڈیا وار)؂؂[30] کے ماہرہیں ۔ وہ ایک اونس کو ایک ٹن بنانے  اور اپنی برائیوں کو خوشنما بناکر پیش کرناجانتے ہیں۔ جہاں تک  پہلی  اور دوسری بات (اسلام کا پیغام یورپ میں پہنچانے اور اسلام کا علم بلندکرنے والا پہلا گروہ ہونے)کا تعلق ہے اس سلسلے میں  مجھے زیادہ کلام کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اس کتاب کامطالعہ مغرب میں مسلمانوں  کے کام کے بارے میں قادیانیوں کے بولے گئے جھوٹ کا پول کھول دے گا۔میں یہاں یہ ضرورکہوں گا جو تھوڑا کام انہوں نے(تبلیغ کے نام پر) کیا  وہ صرف اپنی تحریک کو مشتہر کرنے اور لوگوں کو احمدی ازم میں لانے کے لیے کیا۔جس کے لئے انہوں نے اسلام کو محض ایک آلہ کار بنایا۔ نتیجۃً : جب تک کہ وہ اس بات کا ثبوت نہ فراہم کریں  کہ ان کا مقصد محض اسلامی (اسلام کی تبلیغ اور اسلام کا پیغام پہنچانا)ہے انہیں(اسلام کی تبلیغ کے حوالے سے ) کسی قسم کا کریڈٹ نہیں دیاجاسکتا ۔ یہاں یہ بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ احمدی ازم کو کبھی بھی اسلام کا فرقہ نہیں قراردیاجاسکتاہے جیسا کہ عیسائیوں کو عہدنامہ قدیم اپنی کتاب میں شامل کرنے کی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ نہیں ماناجاسکتاہے بلکہ وہ ایک الگ مذہب اورایک الگ شناخت رکھتاہے(یہ کیا ہی شاندار الزامی جواب ہے،اس جواب کے بعد کوئی عیسائی اوریہودی احمدی ازم کو اسلام کا فرقہ قرار نہیں دےسکتا) اسی طرح احمدی ازم بھی ایک الگ مذہب ہے۔(اگر اس کا اسلام سے تعلق قائم کرنا ہی  مقصودہو تو پھر یہ ایک مرتد گروہ ہے ۔اس پر پھر مرتدکے احکام نافذ کیے جائیں گے جو قادیانی کبھی نہ چاہیں گے)۔دوسرا اس امر کی جانب بھی اشارہ کرناچاہتاہوں کہ اگرمسلمان بھی احمدیوں کی طرح کریں (اشتہاری مہم چلائیں) تو وہ ان کے پمفلٹ (جن کو کتابچہ بھی نہیں کہاجاسکتا)کے مقابلے میں کئی جلدوں پر محیط کتابیں لکھ سکتے ہیں اوراحمدی ازم قبول کرنے والوں کے  مقابلے میں اسلام قبول کرنے والوں کی تصاویر کہیں زیادہ تعداد میں شائع کرسکتے ہیں۔"؂؂[31]

خلاصہ کلام:

ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاری القادری رحمۃ اللہ علیہ نے تمام ادیان ونظریات باطلہ، نظام و اوہام فاسدہ  اور مغربی تہذیب وافکار سے وجود میں آنے والے معاشرتی اور تمدنی نظام کا عقلی اورنقلی محاکمہ  ایسے مؤثرودلکش پیرائے میں فرمایا ہے کہ ان نظریات کے حاملین  اور پیروکاروں کواپنے ضمیر و دل کی آواز پر اس فکراورنظام سے راہیں جداکرنی پڑیں۔اگرکوئی معاشرتی اورمعاشی دباؤ کے پیش نظریہ جرأت وہمت نہ کرسکا تو متزلزل ضرورہوگیا کہ جسے وہ حق وسچ مان رہا ہے درحقیقت باطل  ہے۔ حق وصداقت کی تلاش کا کام ابھی باقی ہے۔

الغرض ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاری القادری رحمۃ اللہ علیہ  چودھویں صدی کے ایک عظیم مصلح کی حیثیت سے تاریخ میں ایک منفرد مقام ومرتبہ کے حامل ہیں۔یہ کسی ایک شخص کی ذاتی رائے یاصرف روایتی الفاظ  یا جذباتی دعویٰ ہی نہیں بلکہ عالمگیر سطح پر آپ کی  یہ حیثیت مسلمہ ہے۔اس کی ایک مثال سنہ 2004ء میں خلیفہ انسٹیٹیوٹ کے بانی جناب محمد المہدی صاحب کی جا نب سے عصرحاضر کے تین مصلح کے افکار پر مشتمل کتاب بنام Three Contemporary Reformers in Islam  کی کوالمپور،ملائیشیا  سےاشاعت ہے ۔ اس کتاب میں تین مصلح کے حیثیت سے جگہ پانے والوں میں سرڈاکٹرعلامہ محمد اقبال (مرحوم)، جناب ڈاکٹرعلی شریعتی صاحب اور حافظ ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمہ شامل ہیں۔ جناب مہدی صاحب اپنی کتاب کے تعارف میں ان تینوں شخصیات کے متعلق فرماتے ہیں:

‘”I think it would be true to say that they are representative of the diversity of modern Islamic Scholarship.”

"یہ کہنے میں ہم حق بجانب ہیں کہ  یہ(تین اسکالرزیعنی ڈاکٹرعلامہ  محمداقبال، ڈاکٹرعلی شریعتی اور ڈاکٹرمحمدفضل الرحمن الانصاریؒ) جدید اسلامک اسکالرز کے نمائندہ ہیں جوبہرپہلوعلم (علمی تنوع)رکھتے ہیں۔"؂[32]

“All in all: he is a multi-dimensional scholar, orator, missionary, teacher, author, spiritual leader and a very widely-travelled servant of humanity. As such, his place among the leading Islamic personalities of the world is unique.”

مختصراًوہ ایک ہمہ جہت عالم،خطیب،مبلغ،استاد،مصنف،روحانی رہنماء اور انسانیت کی خدمت کے لیے بہت زیادہ سفرکرنے والے شخص ہیں۔اس طرح یہ اسلامی  دنیا کے رہنما شخصیات میں ایک منفردمقام  کے حامل ہیں۔؂[33]

اس کتاب میں جناب مہدی صاحب نے سب سے زیادہ صفحات ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمہ ہی کی شخصیت ہی کے لیے وقف کیے ہیں ۔یہ تبصرہ اوراس کتاب میں سب سے زیادہ صفحات آپ کی تعلیمات کے لیے مختص کرنا اس بات کابیّن ثبوت ہیں کہ مسلم معاشرہ کی ہمہ گیراصلاحی خدمات کے اعتراف میں آپ کومحض برصغیر پاک وہند میں نہیں بلکہ  عالمگیر سطح پر" مصلح قوم " کے خطاب سے یاد کیاجاتاہے۔ جس خطاب کے آپ علیہ الرحمہ بجاطورپرمستحق ہیں۔بقول سیدنظرزیدی صاحب جنہوں نے یہ شعرعلامہ اقبال  علیہ الرحمہ کی توصیف اورمدح میں کہاتھا لیکن یہ شعر آپ پر بھی مِن وعن صادق آتاہے:

یہ حقیقت ہے کہ تو بھی مجتہد تھا وقت کا

تونے   یہ   پیغام   پہنچایا   بہ   اندازِ   دگر



؂[1] ۔  ۔اربعین النوویہ، ص 9

؂[2] ۔  ۔ تصوف کی تعریف حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ کے مضمون میں صفحہ 59 پر پیش کی جاچکی ہے ۔

؂[3] ۔  ۔ الْبَقَرَة،  151

؂[4] ۔  ۔ تذکرہ اقبال،پروفیسرسعید راشد،ص336

؂[5] ۔  ۔ شيخ احمد سرهندی، مکتوبات امام ربانی، 2 : 255

؂[6] ۔   ولایت اللہ والطریق الیھا، محمد بن علی بن محمد بن عبداللہ الشوکانی الیمنی

؂[7] ۔   یہ شعرمکمل کچھ یوں  ہے :               فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی             رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

؂[8] ۔  ۔مفہوماً: Islam to the Modern Mind, pg 257

؂[9] ۔  ۔ مدارج السالکین ( 3 / 227 - 228 )

؂[10] ۔  ۔(مفہوماً: A Discourse on the Grades of Knowledge, pg 255, Islam to the Modern Mind)

؂[11] ۔  ۔pg 257,: Islam to the Modern Mind

؂[12] ۔  ۔: Islam to the Modern Mind, pg 255

؂[13] ۔  ۔: ناہلیت کے باوجود مسند خرید کریا وراثت کے مدعی ہونے کے ناطے اس پر قبضہ کرکے  یہ افراد بھول جاتے ہیں یہ دنیا سرائے خانہ ہے۔جس مسند پر آج وہ گدی نشین ہے کل ان سے پہلے کوئی اورتھا۔عنقریب یہ مسند کسی اورکے قبضہ میں چلی جائے گی۔بہرحال اسی مسند پر جناب راحت اندوری صاحب کا ایک شعر حسب حال ہوگا۔

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہونگے

کرایہ   دار  ہیں   ذاتی  مکان   تھوڑی ہے

؂[14] ۔  ۔: Islam to the Modern Mind, pg 167

؂[15] ۔ غلامی اوراس کی اقسام پر جناب علامہ سرفراز صاحب نے اپنے  مضمون میں سیرحاسل گفتگوفرمائی ہے لہذا اس پر زیادہ کلام کی گنجائش نہیں لیکن یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ ان چاروں اقسام میں  سب سے بدترین غلامی کی قسم ذہنی غلامی ہی ہے۔اس قسم کی غلامی کے شکار افراد حلاوت ایمان ،ایمانی حمیت ،بے لوثی وامت مسلمہ کا درد محسوس ہی نہیں کرسکتے۔اورنوکری اس ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ نوکری پیشہ افراد اپنے افسران کی ہرصحیح وغلط بات کو ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہی مجبوری ایمان کی حلاوت سے دورکردیتی ہے۔ آج ہمارا ایک بہت بڑا المیہ ہماری معاشی آزادی کا نہ ہونا ہے۔ (عافانااللہ منہا)

؂[16] ۔  صقالۃ القلوب،ص58

؂[17] ۔  صقالۃ القلوب،ص49

؂[18] ۔  Encyclopedia of Religions and Ethics, 581

؂[19] ۔  Encyclopedia of Religions and Ethics, 596

؂[20] ۔  Islam And Christianity In The Modern World, pg 185

؂[21] ۔  مکتوبات انصاری،ص39

؂[22] ۔  مومن خاں مومن کے شعر کا پہلامصرعہ کچھ یوں ہے:           الجھا ہے پاؤں یارکازلف درازمیں

؂[23] ۔  مکتوبات انصاری،ص28

؂[24] ۔  مکتوبات انصاری،ص39

؂[25] ۔  مکتوبات انصاری،ص39

؂[26] ۔  مکتوبات انصاری،ص40

؂[27] ۔  التبیان،ص141(تجدید واحیائے دین کے ایک روشن مہتاب،علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ)

؂[28] ۔  مکتوبات انصاری،ص15

[29]“A New Muslim World In Making: March Of Islam In West” pg xxiv

؂[30] احمدیوں(دیگرباطل اقوام) کی اسی میڈیا پروپیگنڈہ کوجسے حضرت صاحب نے پیش فرمایا ہے  والد صاحب نے بہت ہی شاندار اسلوب میں اشعار میں  بیان کیا ہے یہ اشعار آپ کی طویل نظم "میڈیا باستثناء"سے لئے  گئے ہیں:

حق بات ہے دشوار دروغ آج ہے آسان
بِکتے ہوئے انسان کا خاموش ہے اعلان
ہم دیکھیں تو لالہ وگل خاک بسر ہوں
ہم کہہ دیں تو ویرانہ نظر آئے گلستان
ہم چاہیں تو الو کو ہُما شکل دکھادیں
ہم چاہیں تو کردیتے ہیں ذرہ کو فلک شان
لاریب شہنشاہ دروغ آج ہمیں ہیں
کرتا   ہے    سلام    آج    کہ    شرمندہ      ہے     شیطان

؂[31] ۔  “A New Muslim World In Making: March Of Islam In West” pg100

؂[32] ۔  Three Contemporary Reformers in Islam, pgiii

؂[33] ۔  Three Contemporary Reformers in Islam, pg56

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post