الجامعۃ العلیمیۃ
الاسلامیۃ کے امتیازی اوصاف
تعارف:
جس طرح
حضرت علامہ ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ کا مقابل ،ہم پلہ
اپنے ہم عصروں میں کوئی نظر نہیں آتا اسی طرح آپ کا قائم کردہ ادارہ Wisdom House، دانش کدہ، دار الحکمۃ، بیت عرفان،دارالعلوم
جو الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ کے نام سے موسوم ہے اس ادارے کا بھی کوئی ثانی وہم
پلہ نہیں ہے۔جامعہ علیمیہ عظیم الشان دینی درسگاہ و تربیت گاہ ہے۔جہاں نہ صرف عام
مدارس کے انداز واسلوبِ تدریس سے قدرے جدا گانہ اور مختلف انداز میں تعلیم دی جاتی
ہےبلکہ اس ادارے کی تاریخ شاہد ہے کہ یہاں کا نظام تربیت اور ہاسٹل میں قیام وطعام
یکسر دوسرے مدارس سے مختلف ہے۔یہاں گذشتہ سات دہائیوں سے ایسے بہترین علماء
واسکالرز تیار ہورہے ہیں جو نہ صرف علوم وفنون ،ہنروکمال میں یکتا ویگانہ
روزگارہیں بلکہ اخلاقی، ذہنی اور روحانی طورپر بھی بہت ارفع ،اعلیٰ و بلند ہیں جن
کا موازنہ کسی بھی دوسری بہترین درسگاہ کے بہترین طلبہ سے کیا جاسکتا ہے اوراس
موازنہ کی صورت میں یہ ان سے صرف علم وفن
ہی میں بہت بہتر نہیں بلکہ اخلاقی، ذہنی اور روحانی طورپر بھی بہت ممتاز اور آگے
نظر آئیں گے۔بلکہ اپنے سے کئی قدیم جامعات و درسگاہوں سے بھی اس کے طلبہ کہیں اعلیٰ
و بہترین نظرآتے ہیں ۔
الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ کی عظمت کی بنیادی وجہ اسلاف کی
شاندارعلمی روایات، روایتی و قدیم طریقہ
کار کی خوبیوں کو برقرا رکھتے ہوئے اس میں مغربی تعلیم(جدید اندازتعلیم ،نصاب
تعلیم اورتدریسی طریقوں) کی خوبیوں و اچھائیوں کو
اپنانا ہے۔ نیزجدید علم التعلیم کے عطاکئے
ہوئے نفسیاتی طریقوں اور اصولوں (Psychological Principles & Methods) کا استعمال ہے۔ یعنی بہترین
مستقبل کی تیاری کے لئے ماضی اور حال کی شاندار روایتوں کا حسین امتزاج بنا کر ایک
ایسا نیا اور جامع طریقہ تعلیم اپنایاگیا ہے۔نیز یہاں طلبہ کی دینی و دنیاوی تعلیم
کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے کیونکہ اخلاقی وروحانی تربیت سے
عاری عالم کی مثال ایسے اندھے شخص کی مانند ہے جوانتہائی توانا مشعل تھامے ہوئے ہولیکن
یہ مشعل تھامنااس کے اندھے پن کی وجہ سے سوائے تکلیف اور مشقت کے اسے کچھ فائدہ نہ
دے سکے گا۔(عافانا اللہ منہا)
اسی لیے جامعہ علیمیہ میں طلبہ کی ذہنی،جسمانی،سماجی،
جذباتی،جمالیاتی نشوونما کے ساتھ ساتھ روحانی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے بھی کوئی
دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا ۔ تربیت کے حوالے سے ادارے کے پرنسپل ، تمام اساتذہ
کرام اوربالخصوص صدر الوفاق العالمی جناب صاحبزادہ مصطفی فاضل انصاری صاحب اطال
اللہ عمرہ بہت فکرمند رہتے ہیں۔اسی روحانی تربیت پر خصوصی توجہ فرماتے ہوئے
آپ دورہ حدیث اور تخصص کی کلاسز میں باقاعدہ سے تصوف کے مضمون کوپڑھارہے ہیں جس
میں تصوف کے اسرارو رموز اور اس کی باریکیاں طلبہ کو سمجھارہے ہیں اور طلبہ کی
ذہنی نشوونما اور اخلاقی تربیت کی عملی تعلیم دے رہے ہیں ۔اس کے علاوہ آپ کی خصوصی
ہدایات کے تحت ادارہ میں حلقۂ ذکر اورمحفلِ درود شریف کا باقاعدگی سے اہتمام
کیاجاتا ہے۔ جو طلبہ کی ذہنی و روحانی نشوونما (Mental & Spiritual
Development) میں اہم کردار اداکررہی ہے۔
اساتذہ
کرام:
مزید برآں اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے ادارہ
ہذاذہین،قابل،بہترین اورپرخلوص اساتذہ کے معاملے میں بھی بہت ہی زرخیز رہا
ہے۔ الحمدللہ علی احسانہٖ ادارے کی تاریخ ایسے اساتذہ کی طویل فہرست سے جگمگاتی ہوئی نظرآتی ہے جن
میں ہر استاد اپنی جگہ گوہرنایاب اورعالم بے بدل ہوں۔قحط الرجال کے دور میں اچھے
اساتذہ کا مستقل ملتے رہنا اوران اساتذہ کا طویل دورانئے تک ادارے کی خدمت کرنا ادارے کے دیگربہترین اوصاف میں سے ایک وصف
ہے۔لیکن اچھے اساتذہ کی ٹیم بنالینا اس قدرآسان بھی نہیں۔کیونکہ اچھے اساتذہ
اتفاقا یا خود بخود پیدا نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کے لئے کسی ترغیب وتحریک وتحسین کی
ضرورت پڑتی ہے۔جیسا کہ 34ویں امریکی صدر ڈوائٹ ڈی ایسن ہور (Dwight D.Eisenhower 1953-1961)
نے کہا تھا :
“Good teachers don’t just happen; they are
the product of the highest personal motivation.”
"اچھے
اساتذہ ا تفاقا منصہ شہود پر رونما نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ اعلی شخصی ترغیب و تحریک
کا نتیجہ ہوتے ہیں"
یہ اعلیٰ شخصی ترغیب وتحریک کا اس ادارے میں پایاجانا ڈاکٹرانصاری
علیہ الرحمہ کا فیضان ہے۔آپ علیہ الرحمہ نے ادارے کی ابتداء ہی سے اساتذہ کے لئے
ایساسازگار،تحریکی ماحول پیداکیا کہ اساتذہ بغیرکسی دنیاوی لالچ کے یہاں تدریس
کرنا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔
اس ادارہ کی ایک
اورخوبی یہاں اساتذہ کو مکمل آزادی سے اپناتدریسی کام سرانجام دینے کی اجازت ملناہے ۔ان پرغیرضروری ذمہ داریاں اور خانہ پری
کا اتنا بوجھ نہیں ڈالاگیا کہ اپنے تدریسی
امور کو صحیح معانی میں انجام ہی نہ دے سکیں۔ نیز یہاں وقتاً فوقتاً ورکشاپس
،سیمینارز اور خصوصی علمی،ادبی تقاریب
ومحفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں جن میں مختلف فنون کے ماہرین اپنے تجربات، مشاہدات
اور خیالات سے ادارے کے اساتذہ و طلباء کو نوازتے رہتے ہیں۔
نیز اسی ترغیب وتحریک کی خاطرادارہ ہذا میں اساتذہ اور طلباء کے لئے ایک عظیم الشان لائبری
بھی قائم کی گئی ہے۔ جوڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ نے اس بنیادی نظریہ کے
تحت قائم کی تھی:سیکھو ،سکھانے کے لئے اور سکھاؤ
سیکھنے کے لئے(Learn to
Teach, Teach to Learn)
جب کوئی فرد اس مقولہ پر عمل پیرا
ہوگا تو وہ ہروقت کچھ نیا سیکھتا رہے گا کچھ نیا سکھانے کے لئے اورہردفعہ کچھ نیا سکھاتے
ہوئے پھر کوئی نئی بات سیکھتا رہے گا۔ اس طرح تعلیم و تعلم کا ایک نہ ختم ہونے
والا سلسلہ جاری رہے گا جس سے ادارے کے طلباء فیض یاب ہوتے رہیں گے۔نیز ان اساتذہ
کی ایک اور خوبی طلباء کے سوالات کے عقلی جواب
دینا ہیں۔ یہاں طلباء کو سوال کرنے سے یہ کہہ کر روک نہیں دیا جاتا کہ تم
بنی اسرائیل کی طرح سوال کرو گے تو ہلاکت میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ بلکہ اس مقولہ پر
عمل کیا جاتاہے کہ سوال علم کی کنجی ہے اورآدھا علم ہے۔جب ایک طالبعلم موضوع سے متعلقہ
سوالات کرنے کے قابل ہوجاتاہے تو وہ بہت جلد ان مسائل سے آگاہی حاصل کرلیتا ہے۔کیونکہ
طوطے کی طرح رٹنا علم نہیں بلکہ بہتر
تفہیم ہی بہتر تعلیم کی آئینہ دارہوتی ہے۔
جامعہ علیمیہ میں تدریس کے فرائض اداکرنے والے اساتذہ کرام
کے اسمائے گرامی یہاں درج کئے جاتے ہیں۔ان اساتذہ میں ڈاکٹرانصاری علیہ
الرحمہ بھی شامل ہیں جورئیس الجامعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے میں اعزازی
طورپر تدریس کافریضہ سرانجام دیاکرتے تھے۔اسی روایت اورسنت کو برقرار رکھتے ہوئے
ان کے صاحبزادہ ذی وقار جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب (صدرالوفاق العالمی للدعوۃ
الاسلامیہ ) بھی اعزازی طورپر تصوف کا مضمون پڑھاتے ہیں۔دیگراساتذہ کے اسماء تحریر
کرنے کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ پہلے ان شخصیات کے اسمائے گرامی تحریر کئے جارہے ہیں
جنہوں نے پرنسپل کی ذمہ داریاں بھی سرانجام دیں ہیں۔ان کے بعد حتی الامکان ادارے
میں تقرری کی ترتیب رکھنے کی کوشش کی ہے۔جس پر عدم علم کی بناء پرشاید کاربند نہ
رسکا ہوں:
پرنسپل الجامعہ العلیمیہ الاسلامیہ
1.
محترم ڈاکٹر اے ایم اے آر فاطمی (سابق مدیر جامعہ علیمیہ،سابق استاذ ڈھاکہ یونیورسٹی)
2.
محترم ڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامیؒ(سابق مدیر جامعہ علیمیہ،سابق رئیس جامعۃاسلامیہ
بہاولپور)
3.
خواجہ منظوراحمد صاحب (ریٹائرڈ پرنسپل
ایجوکیشن کالج)
4.
محترم ڈاکٹر بر ہان الدین فاروقی صاحب (فلسفہ)
5.
محترم پروفیسر محمود حسین صدیقی صاحب(سابق مدیر جامعہ
علیمیہ،چیئر مین سیرت چیئر،پاکستان)
6.
محترم جناب عمران نذر حسین صاحب (سابق مدیر جامعہ علیمیہ)
7.
محترم جناب مفتی ظفر اللہ خان صاحبؒ(سابق مفتی وشیخ الحدیث جامعہ علیمیہ)
8.
محترم شیخ التفسیر و الحدیث ابو محمدفہیم انوار اللہ مد ظلہ العالی(سابق
مدیر الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ)
9.
محترم جناب علامہ محمد سر فراز صابری صاحب (پرنسپل علیمیہ)
اساتذہ کرام
10.
شیخ الحدیث مفتی سید شجاعت علی قادریؒ صاحب(سابق جسٹس وفاقی شرعی عدالت پاکستان)
11.
شیخ الحدیث جناب محمد نصر اللہ خان الافغانی صاحبؒ(سابق چیف جسٹس
امارات اسلامیہ افغانستان)
12.
محترم استاذالعلماء حضرت علامہ محمدحسن حقانیؒ صاحب (سابق
رکن سندھ اسمبلی،جمعیت علمائے پاکستان)
13.
محترم استا ذ العلماء سید محمدہاشم فاضل شمسی ؒ(سابق صدرشعبہ
تصوف واخلاق جامعہ اسلامیہ بہاولپور)
14.
محترم پروفیسریوسف سلیم چشتی(فلسفہ،تقابل ادیان،سابق پرنسپل اشاعت اسلام کالج لاہور)
15.
جناب محترم جناب علامہ عبدالقادر صاحب
16.
جناب محترم جناب محفوظ صاحب(انگریزی)
17.
جناب محترم پروفیسر شمس الحق (فلسفہ و منطق ،پاکستان)
18.
جناب محترم جناب نقوی صاحب
19.
جناب عباس حسین عاصم صاحب (فلسفہ)
20.
جناب حافظ حفیظ الحسن صاحب
21.
جناب عباس قاسم خان صاحب ساؤتھ افریقہ (علوم العربیہ)
22.
جناب ایم ایچ درانی صاحب (تقابل ادیان)
23.
جناب صدیق احمد ناصرصاحب (علوم جدیدہ)
24.
محترم جناب علامہ مولانا محمد رمضان صاحب (علوم العربیہ)
25.
محترم جناب علامہ ناصر صاحب(علوم العربیہ)
26.
محترم جناب علامہ محمد بخشی صاحب(علوم العربیہ)
27.
جناب مشتاق احمد صاحب (فلسفہ)
28.
ونگ کمانڈرمحمد سید(انگریزی)
29.
جناب بشیر الدین عثمان صاحب نائجیریا
30.
جناب انوار المصطفیٰ صاحب
31.
جناب حافظ قاری عبدالمجید صاحب
32.
محترم جناب حافظ شیرمحمد سعیدی صاحب(افریقہ)
33.
جناب محترم ڈاکٹرمحمد احمد قادری صاحب(ڈین سوشل سائنسز،کراچی یونیورسٹی)
34.
محترم پروفیسر شمیم ہاشمیؒ (نفسیات،سابق صدر شعبہ نفسیات ،کراچی یونیورسٹی، پاکستان)
35.
محترم پروفیسر ظہور الحسن بابر(جدید منطق
و فلسفہ ،چیئرمین شعبہ فلسفہ کراچی یونیورسٹی)
36.
محترم علامہ پروفیسر حافظ مشیر بیگ صاحبؒ(سابق استاذ وفاقی اردو یونیورسٹی)
37.
محترم جناب پروفیسر یوسف صاحب (انگریزی،فاضل علیگڑھ یونیورسٹی انڈیا،پاکستان)
38.
محترم پروفیسر اظہار الحق صاحب (انگریزی،فاضل علیگڑھ یونیورسٹی انڈیا،پاکستان)
39.
محترم پروفیسر اعظم خان صاحب( علیگ،ایم۔اے فارسی و انگریزی)
40.
محترم جناب ڈاکٹرپروفیسر فاروق حسن صاحب (پروفیسر این ای ڈی ،یونیورسٹی ،کراچی)
41.
محترم جناب حسن اخترصاحب(انگریزی)
42.
محترم جناب پروفیسر نثار احمد حسین
سلیمانی صاحب(علوم العربیہ،تقابل ادیان،تاریخ)
43.
محترم پروفیسر عبد الحئی بخاری (درس نظامی)
44.
محترم جناب محمد شاہ بخاری صاحب(ڈائریکٹر پاکستان میوزیم ،کراچی)
45.
محترم پروفیسر علامہ محمد صادق بلوچ صاحب (علوم العربیہ،تاریخ ،تقابل ادیان)
46.
محترم پروفیسر علامہ شیخ محمد اقبال لاسی صاحب (علوم العربیہ وجدیدہ)
47.
محترم پروفیسر علامہ محمد عامر بیگ صاحب (اسلامی معاشیات،تقابل ادیان ،تاریخ)
48.
استاذ محترم عطاء الرحمٰن انصاری صاحب مدظلہ
العالی
49.
محترم جناب علامہ عبدالستار سیفی صاحب (علوم العربیہ)
50.
محترم جناب عارف صاحب(عربی)
51.
محترم جناب عارف صاحب (انگریزی)
52.
محترم جناب ندیم صاحب
53.
محترم جناب ضیاء الرحمن صاحب (کمپیوٹر ٹیچر)
54.
محترم جناب انوارالحسن صاحب(انگریزی)
55.
محترم جناب کامل عبدالنبی صاحب(مصری)
56.
محترم جناب شیخ رفعت صاحب(مصری)
57.
محترم مولاناعبدالقادر عمری صاحب
58.
محترم علامہ عبدالرؤف صاحب
59.
محترم جناب کلیم امام صاحب
60.
محترم مولانا شیخ محمد مونس (حدیث وعربی ادب،جامعۃ الازھر)
61.
محترم مولانا استاذ جمعہ (فقہ،جامعۃ الازھر)
62.
شیخ مقری صاحب (مصر)
63.
محترم مولاناشیخ علی مصطفی (تاریخ،تقابل ادیان ،سری نام،جنوبی امریکہ)
64.
محترم جناب پروفیسر کمال صاحب (فلسفہ،عراق)
65.
محترم الاستاذ حسن (عربی ادب،اردن)
66.
محترم جناب مولانا محمد علی لطفی صاحب (عربی ادب ،پاکستان)
67.
محترم جناب ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب (جدید معاشیات و فلسفہ)
68.
محترم جناب ریحان عزیز صاحب(فلسفہ) ( وائس پرنسپل
گورنمنٹ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج ،کراچی)
69.
محترم جناب علامہ علم الدین شاہ الازہری صاحب(علوم عربیہ)
70.
محترم جناب علامہ ڈاکٹربشیرگل صاحب(علوم عربیہ وعلم التعلیم)
71.
محترم جناب ڈاکٹرحبیب الرحمن صاحب(ڈائریکٹر DBF)
72.
ابوعبدالقدوس محمدیحییٰ (علم
التعلیم،حدیث،تاریخ)
73.
محترم جناب علامہ محمد زاہد الحق صاحب (علوم العربیہ)
74.
محترم جناب علامہ مفتی محمد عبد اللہ نورانی
الرفاعی صاحب (علوم العربیہ)
75.
محترم جناب رشید گل صاحب (علوم عربیہ وجدیدہ)
76.
محترم ڈاکٹر مفتی عزیز الرحمن صاحب (پروفیسرکراچی یونیورسٹی )
77.
محترم پروفیسر عتیق الرحمن صاحب (فلسفہ،کراچی یونیورسٹی )
78.
محترم علامہ مفتی سید محمدمنور شاہ سواتی صاحب (رئیس دارالافتاء و شیخ الحدیث
)
79.
محترم ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب(کراچی یونیورسٹی)
80.
محترم ڈاکٹرحامد علی علیمی صاحب (لیکچرر گورنمنٹ کالج فارمین)
81.
محترم جناب محمود الحق صدیقی صاحب(علم التعلیم)
82.
محترم جناب پروفیسر عبد اللطیف صاحب[1] (جغرافیہ ،سابق پرنسپل فار مین کالج،کراچی )
83.
محترم جناب مفتی منیر صاحب (مرحوم)
84.
محترم جناب توحید اللہ صاحب
85.
محترم جناب محمد محسن صاحب (لیکچرر(انگریزی)گورنمنٹ کالج)
86.
محترم جناب فیصل جمعہ صاحب (رجسٹرارلسبیلہ یونیورسٹی)
87.
محترم جناب علامہ عابد حسین خان صاحب(علوم عربیہ)
88.
محترم جناب مفتی سید صابرحسین صاحب(اسلامی بینک کاری و فقہ
المعاملات )
89.
محترم جناب علامہ عابد علی مسکین سیفی صاحب(علوم العربیہ)
90.
محترم محمدطلحہ افتخار صاحب(فلسفہ)
91.
محترم جناب سید محمد ذوالقرنین صاحب(فلسفہ)
92.
محترم جناب علامہ محمدشاہد خان صاحب(تقابل ادیان)
93.
محترم جناب علامہ ہدایت اللہ صاحب(علوم عربیہ)
94.
محترم جناب علامہ محمد ذہیب سمول صاحب(علوم العربیہ،حکمت)
95.
محترم جناب ظفرالحسن صاحب(انگریزی،سابق ڈائریکٹر منسٹری آف انفارمیشن)
96.
محترم جناب طارق محمد خان صاحب(انگریزی)
97.
محترم جناب توصیف صاحب (I.R.)
98.
محترم جناب علامہ محمد صدیق صاحب(علوم
عربیہ وکمپیوٹر)
99.
محترم جناب زبیراحمد صاحب(علم التعلیم)
100. محترم جناب ابویاسرنبی حسین صاحب(علوم عربیہ)
101. جناب عبدالعزیز صاحب(انگریزی)
102. محترم علامہ عبیدالرحمن شاہجہان پوری صاحب(علم الکلام)
103. محترم جناب مفتی محمد عمران صاحب(اسلامی بینکنگ)
104. محترم جناب قاری نذیر صاحب(حفظ وتجوید)
105. محترم جناب آصف خان درانی(معاشیات)
106. جناب یحییٰ بشیر صاحب(تقابل ادیان)
107. محترم جناب عبدالصمد صاحب بلوچ
108. محترم جناب علامہ عبیداللہ صاحب (تاریخ)
تقریب تکمیل تفسیر جلالین :
جیسا ڈاکٹرانصاریعلیہ الرحمہ کا موقف ہے کہ ہمارے
مدارس نے نصاب تعلیم میں علوم اسلامیہ (قرآن
وحدیث وفقہ) کی ترتیب الٹ دی ہے۔سب سے اولی،مقدم اوراہمیت کی حامل کتاب قرآن کریم کو
ہونا چاہئے تھاکہ جسے پڑھنے،سمجھنے کی کوشش سب سے زیادہ کی جاتی لیکن ہمارے مدارس میں
اس کے برعکس عمل ہورہا ہے اور تمام تر توجہ فقہ کی کتابوں کودی جارہی ہے۔ فقہ کی کئی
کتب کی مکمل تعلیم دی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس سوائے چند معدودہ مدارس کے تفسیر القرآن
کی تکمیل کہیں نہیں کی جاتی ۔اس میں کوئی شک نہیں ، قرآن کریم کو مقدس کتاب کا درجہ
حاصل ہے۔ اس کا پڑھنا اور سننا بھی باعث اجرو ثواب سمجھاجاتاہے۔ مگر قرآنِ کریم اللہ
تعالیٰ نے سمجھ کر پڑھنے، غور کرنے اور عمل کرنے کے لیے نازل فرمایاہے۔ یہ کتاب دستور
اور مسلمانوں کا منشور ہے۔جس سے آگہی اور عمل پیہم کے بغیر مسلمان دنیا میں اپنا کھویاہوامقام
حاصل نہیں کرسکتے۔
الحمدللہ! اس حوالے سے جامعہ علیمیہ کا یہ اعزاز ہے کہ یہاں
ہر سال تقریبِ تکمیلِ تفسیر القرآن منعقد ہوتی ہے۔ادارے میں تکمیل تفسیر کی یہ عظیم
سعادت بہت طویل عرصہ تک استاذالعلماء شیخ التفسیر
و الحدیث ابومحمد فہیم انوار اللہ صاحب مد
ظلہ العالی انجام دیتے رہے ہیں،آپ تقریب تکمیل تفسیرجلالین میں منفرد انداز سے درس
دیتے تھے۔ آپ ایک ہی نشست ہی میں بیٹھ کر پورے قرآن کی ایک سو چودہ سورتوں کاترتیب
وار اجمالاً تعارف کراتے تھے۔آپ اتنا جامع ،دلچسپ ،بلیغ اور شاندار درس دیتے ہیں کہ
تقریباً ڈھائی تین گھنٹوں پر محیط دورانیہ کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا ۔اس طرح
آپ کے منفرد نوعیت کے درس قرآن کی عموم میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
آپ کے بعد اب تکمیل تفسیر کی سعادت جناب علامہ مفتی محمد
عبداللہ نورانی الرفاعی کو حاصل ہے۔
تقریب تکمیل صحیح بخاری :
دیگر مدارس کی طرح علیمیہ میں بھی دورہ حدیث کا باقاعدہ اہتمام
کیا جاتا ہے۔الحمد للہ اس ادارے میں بھی تقریب تکمیل صحیح بخاری کا باقاعدہ اہتمام
کیاجاتاہے۔گزشتہ ایک دہائی سے یہ عظیم سعادت جناب علامہ مفتی سیدمحمدمنور شاہ سواتی
صاحب کو حاصل ہے ۔
امتیازی مضامین:
جامعہ علیمیہ کے امتیازی اوصاف میں سے یہاں علوم
شریعہ(تفسیرواصول تفسیر،حدیث واصول حدیث، فقہ واصول فقہ،بلاغہ،عربی ادب ،عربی
گرامر(صرف و نحو)تجوید القرآن،سیرت،علم الکلام،افتاء نویسی) کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز کی بھی تعلیم دی جاتی ہے جن
میں تصوف،اسلامک فلاسفی، نفسیات، منطق قدیم و جدید، عمرانیات، معاشیات،سیاسیات،جغرافیہ،شہریت،علم
التعلیم،منطق اورانگریزی ادب اورگرامر شامل ہیں۔ اس ادارے میں فلسفہ ، تاریخ،
تقابل ادیان کے مضامین پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔یوں تو تمام مضامین کی اہمیت اپنی
جگہ مسلمہ ہے لیکن بالخصوص یہ تین مضامین اس ادارہ کا طرّہ امتیاز بلکہ روح و دل
اور قلب و جان ہیں۔
فلسفہ:
انگریزی زبان کا لفظPhilosophy (فلسفہ) دراصل دو لاطینی ا لفاظ کے مرکب Philein(محبت کرنا) Sophia(حکمت) سے
ماخوذ ہے۔اس طرح اس کا لغوی معنی حُبِّ حکمت یا علم وحکمت سے محبت کرنا ہے۔ فلسفہ کا موضوع وجود ہے۔ پس کائنات
کی ہر شیء اس علم کے دائرہ بحث میں شامل ہے۔ یہ علم کسی بھی شے کے متعلق بنیادی سوال اٹھانے اور ان سوالات کے
جوابات کی تحصیل میں مرکزی کرداراداکرتاہے
۔ اب اگر وہ سوالات دین کے متعلق ہوں تو اسے فلسفۂ دین سے موسوم کیاجائے گا، اگر تاریخ سے
متعلق ہوں تو فلسفۂتاریخ، اگر اخلاق سے متعلق ہوں تو فلسفۂ اخلاق اور اگر وجود سے
متلق ہوں تو فلسفہ وجودسے تعبیر کیاجائے گا ۔
فلسفہ علم و آگہی کا دوسرانام ہے، یہ ایک ہمہ پہلو علم ہے
جو وجود کے اعراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اسی لیے فلسفہ
تمامNormative اورNatural Sciences کا منبع [2] ہے۔ فلسفہ بایں معنیٰ
’’ام العلوم‘‘کادرجہ رکھتاہے اور تقریباًً تمام علوم جدیدہ کا منبع و ماخذ ہے۔ مثلاًعلم
طبیعیات، علم کیمیا،علم منطق، علم نفسیات، سماجی اورعمرانی علوم وغیرہ۔یہ تمام
علوم اسی فلسفہ ہی کے مرہون منت ہیں۔ اس (فلسفہ)سے
انسانی ذہن کی گرہیں کھلتی اور لاینحل عقدے حل ہوتے ہیں ۔فلسفی ایک بات کو مختلف
پہلوؤں اور جہات سے دیکھتا ہے جس سے اس کی سوچ کا دائرہ کار وسیع ، بصیرت میں اضافہ
اور اس میں تدبر و تعقل کی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے۔
ہمارے
اذہان میں فلسفہ سے متعلق یہ راسخ کرایا جاتا
ہے کہ یہ گمراہی کا باب ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے والا آخر کارگمراہ ہوجاتاہے۔وہ ذہنی
طورپر تشکیک کا شکار ہوجاتاہے ۔جس کی وجہ سے عقائداسلامیہ جن پر ایمان کی پختگی ضروری ہے وہ
بھی تشکیک وتذبذب کے دائرہ کارمیں آجاتے ہیں اوربالآخرانسان گمراہی کی عمیق
گہرائیوں میں گرتاچلاجاتاہے۔لیکن ایسا عام طور پر کم علمی کی بنا پر ہوتاہے کیونکہ
کسی بھی علم کی سطحی اور ناقص تحصیل انسان کے نقصان ،بگاڑ اور گمراہی کاسبب بن
سکتی ہے لیکن گہرائی ،کلیت اورجامعیت کے ساتھ اس علم کی تحصیل انسان کو گمراہی
اورتشکیک سے باہرنکلنے میں مدد کرتی ہے۔ یہی کلیہ اورقاعدہ فلسفہ کے لئے بھی ہے۔جس
کی تائید عظیم فلاسفر اورسائنسدان بھی کرتے ہیں۔ جیسا کہ مشہور انگریز فلسفی
اورسائنسدان فرانسس بیکن (Francis Bacon)[3] کا ایک قول
ہے:
“A little
philosophy inclineth man's mind to atheism, but depth in philosophy bringeth
men's minds about to religion.”
فلسفہ کا سطحی علم
انسانی ذہن لادینیت اورانکارِخدا کی طرف مائل
کرتاہے لیکن اس کی گہرائی اوروسعت انسانی
ذہن کو دین کی طرف رجوع کرنے والا بنادیتی
ہے۔
اسی
لئے جب ہم ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کی تعلیمات کی جانب دیکھتے ہیں توڈاکٹرصاحب علیہ الرحمہ
نے علم فلسفہ کی حقیقت ،حیثیت اوراس کی حدود ضروربیان فرمائی ہیں لیکن اس کے حصول کوگمراہی نہیں کہا بلکہ اس کی نہ صرف
خود تحصیل کی بلکہ اپنے طلبہ کی بھی اس کے حصول کی طرف رہنمائی فرمائی۔
درحقیقت
علم فلسفہ بذات خود برائی نہیں بلکہ مثلِ ہتھیار ہے کہ کسی ملحد کے ہاتھ میں ہوگا
تو وہ اسے اسلام کے خلاف استعمال کرے گا لیکن اگر یہی ہتھیار مسلمان،موحد، عاشق
رسول ﷺ کے ہاتھ میں ہوگا تو اس میں وہ
صلاحیتیں پیدا ہوجائیں گی جو اسے کائنات،ارض و سماء، خود اپنی ذات کی معرفت سے
آگاہ کرتے ہوئے اسے رب تک پہنچادیں گی۔
''من عرف نفسہ فقد عرف
ربہ''جس
نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
یہ
حقیقت ہے کہ جو اپنے نفس کا عرفان رکھتا ہے وہ عرفانِ خدا بھی حاصل کرلیتا ہے
کیونکہ عرفان خودی ہی عرفان ذات ہے اور جس کے بغیر معرفت
خدا ممکن نہیں۔ بقول شاعر
بکشائے پردہ چشمِ
حقیقت نمائے را خود را شناس تا بشناسی خدائے را
حضرت
علامہ ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ نے بھی نہ صرف فلسفہ وسائنسی علوم کی تحصیل کی بلکہ ان علوم
ہی سے گمراہ ودین دشمنوں کی عیاریوں اورچالبازیوں کا سدباب کیا۔ان ہی وجوہات کی
بناء پر آپ نے جامعہ علیمیہ کے نصاب میں
فلسفہ کو داخل کیا۔
علم التاریخ:
علمِ
تاریخ اُم العلوم ہے اور تمام مضامین کی معرفت اس علم کی تحصیل سے حاصل کی جاسکتی
ہے مثلاً : سیاسیات،معاشیات،اقتصادیات،نفسیات، عمرانیات،علم الاخلاق،مدنیت،منطق،ادب
و فنون، آرٹ و تہذیب و ثقافت (Culture
& Civilization) وغیرہ ۔اصطلاحی طورپر تاریخ سے مراد وہ علم
ہے جو انبیا ورسل ، شہنشاہ و فاتحین اورکسی بھی علم وفن وہنر کی مشہور،یکتا ونابغۂ روزگارشخصیات کے احوال وواقعات کی خبر دیں اور گزرے ہوئے مختلف زمانوں
کے اہم حادثات وسانحات،عظیم واقعات ومراسم سے
آگاہ کریں نیز ایام ماضی (گزرے ہوئے زمانے) کے اخلاقی ، تمدنی، سماجی، جمالیاتی ذوق اورتہذیبی
ڈھانچہ کی تفصیلات فراہم کریں۔
اگرا قوام عالم کی تاریخ کا بغور جائزہ لیاجائے کہ منتشر
اور بکھرے ہوئے لوگوں کاگروہ کیوں کر ایک عظیم قوم میں تبدیل ہوا اور ان کو کیسے عروج،بلندی
اور دنیا پرحکومت نصیب ہوئی یااسی طرح اس کے برعکس کوئی ترقی یافتہ ،غالب اورحاکم
قوم کیسے زوال کاشکار ہوتے ہوئے قوم سے مختلف گروہوں میں بٹ گئی اور اس دنیا سے اس
کا وجود ختم ہوگیا تو اس تناظر میں ہمیں ان اقوام کے نظامہائے زندگی تعلیمی معیار
و اخلاقی اقدار کا مطالعہ کرنے سے ہی یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ انہیں عروج کیونکر
حاصل ہواتھا یا پھر ان کے زوال کے اسباب کیاتھے ۔ جیسا کہ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے
مسلمانوں کے عروج وزوال کی داستان شعر کی صورت میں کچھ یوں بیان فرمائی ہے۔
وہ معزز تھے زمانے
میں مسلماں ہوکر
تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
اس ادارہ میں تاریخ پڑھانے کا انداز قدرے مختلف ہے۔یہاں
تاریخ محض فتح و شکست، لڑائی جھگڑے، تاریخِ ولادت اور وفات کے دائرے تک محدود
نہیں،نہ ہی صرف واقعات بینی اورقصہ خوانی
کی حد تک ہے کہ طلبہ کو حکایات، افسانے، اور کہانیاں رٹائی یا سنائی جاتی ہوں بلکہ
صحیح معنوں میں تاریخ، روحِ تاریخ اور فلسفہ تاریخ سے آشکار کیا جاتاہے۔جس سے ہمیں
صحیح اسلامی معاشرتی زندگی کی جھلک، تعلیم و تربیت کا طریقہ ، تہذیب و ثقافت کی
ارتقاء اور انسانی معاشرے کی تشکیل،سے آگاہی ہوتی ہے۔نیز طلبہ کو ان حقائق سے
روشناس کرایا جاتا ہے کہ تاریخ میں جن
قوموں ،معاشروں اورافراد نے غلطیاں کیں ان سے بچا جائے اور خود غلطی کیے بغیر ان
کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنی اصلاح کی جائے۔ کیونکہ عقل مند نہ صرف اپنے عیوب
خود دیکھ کر اپنی اصلاح کرلیتاہے بلکہ بیوقوفوں کے عیوب دیکھ کر بھی اپنی اصلاح کرلیتاہے
اوربیوقوف وہ ہے جو ایک ہی غلطی کوباربار دہراتااور اسی پر مصررہتاہے۔ بعض اوقات
دانستہ یانادانستہ ( لاعلمی) میں ایسی سنگین غلطی کرلیتا ہے کہ اسے اپنے دفاع کی
بھی مہلت نہیں ملتی اور اس غلطی کے تدارک و ازالہ کا موقع بھی نہیں ملتا۔ اب عقل
مندی اسی میں ہے کہ انسان خود غلطی کیے بغیردوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھ لے۔ جس
طرح حکیم لقمان سے جب پوچھاگیا کہ انہوں نے حکمت ودانائی کہاں سے سیکھی توانہوں نے
جواباً کہا بیوقوفوں سے ۔سائل نے حیرت سے دریافت کیا احمقوں سے۔آپ نے فرمایا ہاں!
جو بیوقوفی (کم عقلی یا غلطی) وہ کرتےتھے اس کے نتائج سے سبق حاصل کیا اوراس غلطی سے مکمل
اجتناب برتتے ہوئے اس عمل کوکبھی نہ دہرایا۔
یہ سبق
ہمیں تاریخ پڑھنے ،اس کا ماحصل، اسباب، اورواقعات جاننے کے بعد ہوگا۔ مثلاً قوموں کے
زوال پراگر غور کیا جائے توافراد اور علاقے کے ناموں کے اختلاف کے ساتھ اگر کسی
معاشرے میں ظلم حد سے تجاوز کرجائے، قرابت داری صلاحیت پر غالب آجائے، اخلاقی بے
راہ روی عام ہوجائے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر مفقود ہوجائے، معیار عزت بلند
کردار ی کے بجائے دولت و منصب بن جائیں، نااہل ،ظالم،جابر،غاصب،عیار اورمغرور لوگوں کے ہاتھ
میں اقتدار اور منصب آجائے اور قوم و ملت انتشار و افتراق کا شکار ہوجائے تو وہ
قوم وافراد زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا لازمی شکار ہونگے ۔
متحد تھے ہم تو تھے
اقوامِ عالم کے امام
منتشرہوکرہوئے بے
آبرو اوربے ہنر
اگر یہ افراد پہلے حاکم تھے تو اب محکوم ہوجائیں
گے،غالب تھے تومغلوب ہوجائیں گے، قاہر تھے تو مقہور ہوجائیں گے، ظالم تھے تو مظلوم
ہو جائیں گے، جابر تھے تومجبور ہوجائیں گے، الغرض اگر اپنی اصلاح نہ کی تو اس
کائنات سے مفقود ہوجائیں گے۔بقول شاعر
آپ ہردور کی تاریخ اٹھاکردیکھیں
ظلم جب حد سے
گزرتاہے فناہوتاہے (منظربھوپالی)
تقابل
ادیان:
’’تقابل ادیان مطالعہ
مذہب کی ایک شاخ ہے، اس میں مختلف مذاہب کا مطالعہ کر کے مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا
جاتا ہے۔ عام طور پر مختلف مذاہب کی تبلیغ کرنے والے دوسرے مذاہب سے اپنے دین کو ممتاز
کرنے کے لیے اس کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مختلف مذاہب کے بنیادی عقائد، عبادات اور رسومات
وغیرہ کا ناقدانہ اور عادلانہ جائزہ کرنا کہ حق و باطل میں تمیز کی جا سکے، جس سے مذاہب
کی خوبیاں اور خامیاں ظاہر ہوں تا کہ جویائے حق کے لیے ان میں سے حق والے گروہ کو قبول
کرنے میں روشن راہ نظر آ جائے۔ تقابل مذاہب یا ادیان کی تاریخ خود مذہب جتنی پرانی
ہے۔ قرآن میں کئی مقامات پر یہود و نصاری اور دیگر مذاہب کے عقائد و اعمال کا موازنہ
کیا گیا ہے۔تقابل ادیان سے مراد دنیا کے مختلف مشہور مذاہب و ادیان کا غیر جانبدارانہ
مقابلہ، ان کے اصول و عقائد اور عبادات و رسوم کا غیر متعصبانہ مطالعہ، تاکہ ہر ایک
کی قدر و قیمت اور اس کے مسائل کا حسن و قُبح معلوم کیا جا سکے۔ اگر کسی دین و مذہب
میں کوئی خوبی ہے تو اس کا کھلا اعتراف کیا جائے۔اگرکوئی نقص ہے تو اس کا مدلل رد کیا
جائے۔‘‘[4]
اس ادارے کے اغراض ومقاصد کے تناظر میں تقابل ادیان(Comparative Religions) کا مضمون بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ادارے کامقصد ایسے علماء
پیدا کرنا نہیں ہے جومحض اس لیے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیداہوئے(Muslim by birth)بلکہ ایسے علماء تیار کرنا ہے جو اپنی رضا و انتخاب سے مسلمان ( Choice&Muslim by Will) ہوں ۔یعنی جب
شعوری ایمان دل میں گھرکرجائے توظاہری انقلاب خودبخود رونماہوگا۔ اس لئے ادارے میں
تقابل ادیان کا مضمون شامل کیاگیا ہے جس میں صرف دوسرے مذاہب کی مذہبی کتب اوراس
کے اہم افراد کی سوانح ہی نہیں پڑھائی
جاتی بلکہ فلسفۂ ادیان (Religion Philosophy of) سے بھی آشکار کیاجاتاہے تاکہ یہ حقیقت سامنے آسکے کہ اسلام
عیسائیت اور دیگر ادیان باطلہ کی طرح پراسرار،عقل اور شعور سے ماورادین یامذہب
نہیں کہ جب ان کے ماننے والوں سے ان کے عقائد ورسومات کی عقلی توضیح مانگی جائے تو
وہ کہتے ہیں پہلے بغیر سوچے سمجھے انہیں قبول کرلیاجائے پھر یہ سمجھ میں آجائیں
گی۔(کیونکہ پھر تو انسان ان کا عادی ہوجائے گا اوروہ ان کی حقانیت پر غوروفکر تک
نہ کرے گا)ان ادیان باطلہ کے برعکس دین اسلام انسانی زندگی کے لئے ایک ایسا مکمل
ضابطہ حیات Complete Code of Life ہے جس میں ہرقول ، عمل وفعل کی دلیل و توجیہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ مثال
کے طور پر آپ علیہ الرحمہ اپنے ایک مضمون میں اسلام پر امت مسلمہ کے
جزوی اوررسمی عمل کی وضاحت کرنے کے بعداسلام کی جامعیت وکلیت کی وضاحت فرماتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اورہم آج
کس طرح اس پر عمل کررہے ہیں۔آپ بیان فرماتے
ہیں:
"جیسا کہ میں نے تاکید کی اسلام کا ایک اقداری نظام ہے، جو اپنی بنیادیں
رکھتاہے، تب پھر اس کے کچھ معمولات ہیں،پھر کچھ اصول ہیں اوراصولوں سے قوانین وضع ہوتے ہیں۔ان قوانین
میں سے ہم نے(صرف) چند ایک منتخب کرلئے ہیں
اورا ن کے مطابق ہم بہترین انداز سے رہنے کی کوشش
کررہے ہیں۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہمارانقطہ نظرجزوی (ادھورا اورناقص) ہے۔ اوربد
قسمتی سے ایسا تمام اسلامی دنیا میں ہورہاہے۔ہماراسلام سے تعلق (کسی خاص پس منظر
کے تحت ) ہے ،یاتاریخی طورپر کہ میرے آباء
مسلمان تھےاوراس لئے میں مسلمان ہوں،یہ تاریخی پس منظرہے جس میں اسلام محض(آباء کی) ایک وصیت ہے۔ جس جانب میں اشارہ کررہاہوں یہ حادثاتی ہے، حادثاتی
مسلمان[5]۔پھر ہمیں وراثت میں اپنے آباء سے
سماجی یا ثقافتی نقطہ نظر ملا ہے ،ہم اپنی تہذیب وثقافت سے چمٹے رہتے ہیں اور جوکوئی
تعلیم یافتہ (کچھ)آگے بڑھتا ہے اس کا نقطہ نظرعالمانہ یا فلسفیانہ ہوجاتا ہے۔جس کا
نتیجہ بھی ذہنی مشقت وریاضت کے ماسوا کچھ نہیں۔
اگر تم میں کسی قسم
کا کوئی تقویٰ[6] آجائے توتمہاراسوچنے کا زاویہ رسمی ہوجاتا ہے۔(یہ سچ ہے کہ)
اسلام میں کچھ عبادات ہیں لیکن وہ رسوم ورواج نہیں ہیں۔بلکہ وہ انتہائی بلند
روحانی ورزشیں ہیں۔تاہم ان ورزشوں کی حقیقی
روح کے بغیر مشق رسمی
ہی رہ جاتی ہے۔ہاں اگرعبادات تعمیری طریقہ اور اقدار کی تفہیم کے ساتھ کی جائیں کہ انسان
عبادت کیوں کرتاہے، توعبادت خداسے تعلق کا ایک نام ہے، جو ایک حقیقی ہے،یہ تعلق
نتائج برآمد کرتا ہے، جس سے ثمرات حاصل ہوتے ہیں،اور یہی شخصیت کی تعمیر کرتاہے۔رہی
یہ چیز کہ بحیثیت مسلمان مجھے پانچ بار
نماز پڑھنے کا حکم ہے،اس کے بہت گہرے مفاہیم ہیں ، مجھے خداترسی(تقویٰ)کی صفت سے
متصف ہوناچاہئےاور ہر وقت(ہرلمحہ) خدا کو یاد رکھنا چاہئے، اسی لئے وقفے وقفے سے
مجھے عبادت کرنی پڑتی ہے تاکہ میری توجہ صرف
اورصرف اللہ رب العزت کی طرف مرتکز رہے ۔[7]
لیکن اگر ہم اس طرح
سے عبادت نہیں کرتے تو پھر اس(خشک عبادت) کا نتیجہ زاہدانہ احساس برتری (عبادت
کاگھمنڈ) کی صورت میں نکلتاہے، ایک شخص جو پانچ وقت نمازپڑھتا ہے ،اورظاہری لباس
ظاہری چیزوں کا خیال رکھتا ہے،تقویٰ کے
گھمنڈ میں مبتلا ہوجاتاہے ۔ اور ایسا شخص عبادت نہ کرنے والوں کوحقارت سے دیکھتا
ہے۔ میری ناقص رائے میں یہ سب کچھ اس لئے ہورہا کہ اسلام کی جامعیت اور کلیت سے تعلیم نہیں دی
جاتی ۔جیسا کہ ہمیں قرآن میں کہاگیاہے۔
ياَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ کَآفَّةً "اے ایمان والو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔[8] "
ہمیں جاننا چاہئے کہ
آئیڈیل اسلامی زندگی کیا ہے، کس طرح ہم اسے محسوس کرسکتے ہیں۔اسلام مثبت، تعمیری
اور ترقی پسند ہے یہ معذرت خواہانہ ،
دفاعی اور مجہول نہیں ہے۔یہ تحرک پسندی پر یقین رکھتاہے،شریعت کی بنیاد ترقی
اورارتقاء پر ہے۔ ترقی ممکن ہی نہیں یہاں تک سامنے درپیش رکاوٹوں کو فتح
کیاجائے۔اگر تم کسی ملک میں سفر کررہے تو تمہیں اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے
وادیوں،پہاڑوں،تالابوں ،جنگلوں وغیرہ کو عبور کرناپڑے گا ۔"[9]
جیسا
کہ مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے؛
یہاں طلبہ کو اسلام کی جامعیت اورکلیت سے
آشکارکرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی
فلسفۂ عبادات سے بھی آگاہ کیاجاتاہے۔ یہ
عبادات وطاعات درحقیقت تزکیہ نفس ہی کی قسم ہےجو قرب الٰہی کاذریعہ ہے تو اس کی نظرمیں یہ
عبادات محض رسمی اعمال نہیں رہتے بلکہ وہ ان میں ایک خاص قسم کی لذت محسوس کرتا ہے جو اسے صفت احسان سے قریب کردیتی ہے۔ جس
کا شریعت ہم سے تقاضا کرتی ہے۔
ادارے
کا بنیادی مقصد اسلام کی تبلیغ و نشرواشاعت ہے اور اس عظیم کام کے لیے مبلغ تیار
کرناہیں کیونکہ ؎ ختم ہوچکا ہے باب انبیاء کے آنے کا
اس لیے
ان مبلغین کے لیے دیگر مذاہب کا گہراوتفصیلی مطالعہ اشد ضروری ہے۔کیونکہ جب ایک
مبلغ کو شرح صدر ہوگا تو اس کے بیان کرنے کا انداز بھی موثر و جامع ہوگا۔ جس کی
وجہ سے لوگ توجہ اور انہماک سے اسے سنیں گے اوراس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے حلقہ
بگوش اسلام ہوجائیں گے۔
تحریر
و تقریر کا فن:
جامعہ
علیمیہ کی خصوصیات میں سے ایک اور اہم وصف یہاں طلبہ کو تحریر و تقریر کے فن سے
آشنا کرناہے۔ تحریر کے لیے طلبہ کو مختلف موضوعات پر مقالہ نویسی کے عمل سے گذارا
جاتا ہے۔ الصف الثالث سے الصف الخامس تک عربی اور انگریزی زبان میں سالانہ 3 مقالے
تحریر کرنا لازمی ہیں جو کم از کم 25 صفحات پر مشتمل ہوں اورالصف السادس میں ایک جامع
تحقیقی مقالہ کم از کم 100 صفحات پر مشتمل تحریر کیا جانا چاہئے۔ اس عمل سے طلبہ میں صفحۂ قرطاس پر الفاظ کے موتی
بکھیرنے کا فن حاصل ہوتاہے اور ساتھ ہی علیمیہ ہفتہ وارفورم میں باقاعدہ عربی اور
انگریزی میں مختلف موضوعات پر تقاریر کروائی جاتی ہیں جس سے ان میں مافی الضمیر بیان کرنے کی
صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہ دونوں (تحریر وتقریر) لازمی مضامین ہیں جن کے لیے
باقاعدہ سے 100،100نمبر مختص کیے گئے ہیں ۔
کمپیوٹر
لیب:
جامعہ
میں طلباء کو باقاعدہ سے کمپوٹرکی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔اس تعلیم کا بنیادی
مقصد طلباء کی تحقیق وتصنیف میں معاونت
کرنا ہے۔ اسی لئے ادارے میں M S
Windows, M S Office, Inpage اور Internet کے ساتھ ساتھ مکتبہ شاملہ میں سرچنگ وغیرہ بھی سکھائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ادارے میں ایک بہترین
لیب کااہتمام کیا گیا ہے۔ جس میں 16 جدید کمپیوٹر ہیں۔ نیزادارے میں کمپیوٹر کی
تعلیم دینے کے لئے ایک ماہر لیب اٹینڈنٹ کی بھی تعیناتی کی گئ ہے۔
سالانہ
تقریبات(فنکشن):
الجامعہ
العلیمیہ کے زیرانتظام سال میں دو اہم " ہفت روزہ "پروگرام منعقد
ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک تو عرس انصاری کے
نام سے موسوم ہے جس کی تفصیل گزشتہ اوراق
میں صفحہ نمبر 104پر درج کی جاچکی ہیں۔جب کہ دوسراعظیم الشان پروگرام تقریبات جشن عید
میلاد النبی ﷺکے سلسلہ میں منعقد کیاجاتاہے جو جامعہ کی پہچان ہے ۔یہ پروگرام بھی عرسِ
انصاریؒ کی طرح پورا ہفتہ جاری رہتا ہے۔
تقریباتِ
جشن عید میلاد النبی ﷺ کی تفصیل:
حضور اکرم ﷺ کے میلاد مبارک(عید میلاد
النبی ﷺ) کی خوشیاں منانا اورآپ ﷺ کی تشریف آوری پر اللہ رب العزت کے حضور سجدہ
شکر بجالانا وقرآن مجید وسنت نبوی ﷺ سے ثابت بھی، اسلاف کی روایت بھی ہے اورعاشق
رسول ﷺ کی پہچان بھی:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ
فَلْيَفْرَحُوْا[10] "اے نبی! آگاہ کردیجئے اللہ کے فضل و
رحمت پر ہی خوشیاں منایا کرو۔"اللہ رب العزت کے فضل اوررحمت پر خوشیاں منانی
چاہئیں اللہ رب العزت کا اس امت مسلمہ پر سب بڑا انعام اورفضل توحضورپرنورﷺ کی ذات
مبارکہ کی بعثت ہے۔اورجیسا کہ احادیث مبارکہ میں آتاہے کہ حضور اکرم ﷺ ہر پیر کو
روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ ﷺ سے اس امر کی بابت دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :ذاک یوم فیہ ولدت وفیہ انزل[11]۔
"یہ دن میری ولادت کا دن ہے اور
اسی دن مجھ پر اللہ کا کلام نازل ہوا۔" نیزصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین ،اولیاء عظام علیہم الرحمہ اوراہل ایمان
کی حضور ﷺ کاجشن ولادت منانے پرمداومت رہی ہے۔
اسی نسبت سے ادارہ
ہر سال جشنِ ولادت آقائے دوجہاں حضورﷺ کے پرنور موقع پر بین المدارس ، کلیات
اورجامعات مقابلہ حسن ِ قرأت، حسنِ نعت،سیرت کوئز،حسن تقاریر اور مضمون نویسی
بزبان اردو،عربی اور انگریزی کا انعقاد کرتا چلا آرہا ہے۔ یہ پروگرام ربیع الاول
کے پُرنور مہینہ میں منعقد ہوتے ہیں۔ یہ پروگرام دلوں کی ویران وادیوں میں
نورایمان کے چراغ اورعشق رسول ﷺ کی حرارت پیدا کرتا ہے۔ ان تقریبات کی تقریباً ایک ماہ پیشتر ہی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔ان
پروگرامز میں شرکت کے لئے کراچی کے تمام بڑے مدارس ،جامعات وکلیات کو باقاعدہ دعوت
نامے بھیجے جاتے ہیں۔جہاں سے ایک کثیر تعداد میں طلبہ شرکت کرکے اس مقابلہ کو حسن
بخشتے ہیں۔ دلوں کو گرمانے اورایمان کی حرارت بڑھانے کے لئے ان تقریبات کا کچھ
احوال یہاں بیان کیاجاتاہے:
مقابلہ
حسن قرات:
یہ اس
سلسلے کاسب سے پہلا پروگرام ہے جس میں10 سے 20 سال تک کے قرّا حضرات مقابلوں
میں شرکت کرتے ہیں اوراپنی خوش الحان آواز میں قرآن کریم کی تلاوت سے معطر،پاکیزہ فضا قائم
کرکے کیف وسرور کا سما باندھ دیتے ہیں۔
مقابلہ
حسن نعت:
اس مقابلے میں 15 سال سے زائد عمر کے نعت خواں حضرات شرکت
کے اہل ہیں ۔ یہ ایک بہت ہی روحانی اورروح پرور مقابلہ نعت ہوتاہے۔جہاں ابھرتے
ہوئے نعت خواں محبت واخلاص کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی مدح وثنا کرتے ہیں اور
عشق رسول ﷺ میں ڈوبی ہوئی نعتیں پیش کرکے حاضرین کے قلوب کوگرماتے ہیں۔
سیر ت
کوئز:
اس
سلسلے کا تیسرا اور سب سے اہم پروگرام سیرت کوئز کے نام سے منعقد کیاجاتاہے۔ یہ
پروگرام بھی گزشتہ دس سالوں سے تواتر سے چلاآرہا ہے۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد طلبہ
کو حضوراکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ سے متعارف کرانا ہے۔
سیرت
کوئز کے لئے ادارے نے سیرت النبی ﷺ کی جامع کتاب ضیاء النبی ﷺ کو متعین کیا ہے جس سے
سیرت کوئز (سوالاًجواباً کتابچہ مرتب کرکے) طلبہ میں تقسیم کیا جاتاہے اس طرح سیرت
النبیﷺ کی تمام سات جلدوں پر سوال جواب مرتب کرنے کا کام مکمل ہوچکا ہے ۔
مقابلہ
تقریر :
ان پروگرام کی ہی ایک کڑی تقریری مقابلہ ہے ۔جہاں حضور اکرم
ﷺ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے دیئے گئے عنوان پر شرکاء عربی،اردو یاانگریزی زبان میں مقابلہ میں حصہ
لیتے ہیں۔یہ مقابلہ طلبہ کی تعلیم وتربیت کا ایک اہم اورجزولاینفک حصہ ہے کیونکہ مستقبل میں ان ہی
طلبہ نے مسجد کے منبر ومحراب کو رونق بخشنی ہے ۔
مقابلہ مضمون
نویسی:
اسی
طرح طلبہ تحریری مقابلے میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ جہاں سیرت ہی کے
موضوع پر تمام مدارس وجامعات کے نمائندہ شرکاء عربی،اردو یاانگریزی زبان
میں ایک جامع مقالہ تحریر کرتے ہیں جو کم از کم 25 صفحات پر مشتمل ہوتاہے۔
جشن
عید میلاد النبی ﷺ کی اختتامی
پُروقارتقریب:
اس
پروگرام کی اختتامی تقریب عموماً ہفتہ کے
روز ہی منعقد کی جاتی ہے ۔ادارے کی بلڈنگ، مزارمبارک اورمسجد برقی قمقموں سےسجائی
اورجگمگائی جاتی ہے۔ اس جشن ولادت کی تقریب میں فضاء بہت
ہی پاکیزہ اورمعطر محسوس ہوتی جس سے روحانی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔
اس
پروگرام میں ملک کے نامور وجلیل القدر علماء کرام،پروفیسرحضرات اور دیگر شعبوں سے
تعلق رکھنے والے افراد حضوراکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ اور حیات طیبہ کے حوالے سے گفتگو فرماتے ہیں ۔ یہ پروگرام تقریباً رات 10 بجے تک اختتام پذیر ہوتاہے۔
اس
پروگرام کے آخر میں دعا اورصلوٰۃ وسلام سے قبل
جامعہ علیمیہ کے گریجویٹ طلبہ کو علیمی تاج پہنایاجاتاہے یعنی عرفِ عام میں
ان کی دستاربندی کی جاتی ہے اور انہیں اسناد اورڈگریوں
سے نوازا جاتاہے۔ نیز اس ہی تقریب میں جشن
ولادت رسولﷺکے سلسلے میں منعقدکئے مقابلوں میں اول ،دوم اور سوم آنے والے قرّاء، نعت خواں،مقررین ،مقالہ نویس اور کوئز
کے شرکاء کو بھی شیلڈز، اسناد اورنقد
انعامات سے نوازا جاتا ہے۔آخر میں علیمی لنگر کا اہتمام بھی کیاجاتاہے۔
جامعہ
کراچی سے الحاق
جامعہ
علیمیہ کا ایک اور امتیازی وصف اس کا انٹرمیڈیٹ بورڈ اور جامعہ کراچی سے الحاق ہے۔
جس کے تحت جامعہ کے طلبہ انٹرمیڈیٹ اور ڈگری کے امتحانات میں بطور ریگولرامیدوار
شریک ہوتے ہیں ۔ الحمدللہ جامعہ کی کارکردگی نتائج کے اعتبار سے بھی بہت شاندار
اور اعلیٰ ہے۔ جامعہ کا رزلٹ الحمدللہ 90%سے 100% کے درمیان ہوتاہے۔ زیادہ تر طلبہ
Aاور B
گریڈ میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ۔ جامعہ کے بعض طالب علموں نے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ
اور جامعہ کراچی میں پوزیشنز بھی حاصل کی ہیں ۔
اس کے علاوہ
انتظامیہ جامعہ علیمیہ نے کراچی یونیورسٹی
سے ماسٹر پروگرام کے لئے بھی الحاق کی کوششیں شروع کردی ہیں۔جو عنقریب پایہ تکمیل
تک پہنچ جائیگی (انشاء اللہ)۔ جس کے بعد ادارے کے طلبہ ایم اے کا امتحان بھی بطور
ریگولرامیدوار الجامعہ العلیمیہ ہی سے کریں گے۔
طلباء
جامعہ علیمیہ
ان
تمام کوششوں ،جدوجہد اور سعی کی وجہ سے ادارے سے انتہائی قابل اوراعلیٰ تعلیم
یافتہ افراد تیارہورہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فاضلین طلبہ نے علم و فن کے
مختلف شعبوں میں نہایت ہی گرانقدر کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ۔ ان شعبوں میں جدید
معاشیات، ریاضی، انگلش لٹریچرولنگوسٹک، جغرافیہ، منطق،فلسفہ قدیم و جدید، نفسیات،
علم التعلیم،جدید و اسلامک بینکنگ، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ،وکالت وغیرہ۔ ان مضامین میں یہاں
کے طلبہ نے امتیازی نمبروں سے ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں
۔جامعہ علیمیہ کے طلبہ کی ان کامیابیوں کا احاطہ چند صفحات میں کرناجامعہ کے ساتھ
ناانصافی اور ظلم ہوگا۔ اوراس کی خدمات وکوششوں کااعتراف نہ کرنا سورج کونہ دیکھنے
کے مترادف ہوگا۔بقول والدمحترم
تجھ کو سورج نظر نہیں
آتا
تیرے ہاتھوں میں لاکردوں
کیسے
ادارے کےنامور گریجویٹ:
یوں توعلیمیہ کے تمام گریجویٹ ہی (جن
کی تعداد سینکڑوں میں ہے) دیگراداروں کے فاضلین سے نمایاں مقام رکھتے ہیں اورادارے
کے جگمگاتے ستارے ہیں لیکن جگہ کی قلت کی
بناء یہاں صرف پر چند ایک تذکرہ کیاجارہاہے:
1. محترم جناب عمران نذر حسین صاحب (سابق پرنسپل علیمیہ)
2. محترم مولاناشیخ علی مصطفی صاحب(سری نام،جنوبی امریکہ)
3. محترم جناب شہادت حسین صاحب (فجی آئی لینڈ)
4. محترم جناب وافی محمد صاحب (ٹرینیڈاڈ)
5. محترم جناب عبدالرشید صاحب(موزمبیق)
6. محترم جناب صدیق ناصر صاحب(گیانا ،ساؤتھ امریکہ)
7. محترم جناب پروفیسر حافظ مشیر بیگ صاحب مرحوم(سابق
پروفیسر،وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی)
8. محترم جناب محسن ابراہیم صاحب (Seychelles)
9. محترم جناب محمدعلی نوری صاحب(ساؤتھ افریقہ)
10. محترم جناب محمد ضمیر اخترنقوی(سابق ونگ کمانڈر،مذہبی امور)
11. محترم جناب محمد شاہ بخاری صاحب(ڈائریکٹر پاکستان میوزیم ،کراچی)
12. محترم جناب غلام غوث صابری صاحب(معروف عالم دین)
13. محترم جناب شیر محمد سعید ی صاحب(ساؤتھ افریقہ)
14. محترم پروفیسر علامہ محمد عامر بیگ صاحب (ڈائریکٹر:صفہ
مدینۃ العلم اکادمی)
15. محترم جناب پروفیسر نثار احمد حسین سلیمانی صاحب(UAE)
16. محترم جناب اللہ یار قادری صاحب(ساؤتھ افریقہ)
17. محترم پروفیسر علامہ شیخ محمد اقبال لاسی صاحب (لیکچرر:یواے
ای)
18. محترم پروفیسر علامہ محمد صادق بلوچ صاحب (پروفیسروفاقی
اردونیورسٹی)
19. محترم جناب مفتی ابوبکرشاذلی صاحب (معروف عالم دین)
20. محترم جناب علامہ محمد سر فراز صابری صاحب (پرنسپل علیمیہ)
21. محترم جناب طارق مجید سلیمانی صاحب (ڈائریکٹر اوسس کیمبرج
اسکول)
22. محترم جناب ڈاکٹرحبیب الرحمن صاحب(ڈائریکٹر DBF)
23. محترم جناب برکت اللہ صاحب (چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ)
24. محترم جناب ڈاکٹروقاص ہاشمی صاحب(معروف عالم دین)
25. محترم جناب غلام محمد صاحب (DHA)
26. محترم جناب رشید گل صاحب (سول جج،کشمیر)
27. محترم جناب حافظ قاری علامہ سید محمد ریحان قادری صاحب
28. محترم جناب علامہ حافظ رفیع اللہ صاحب(افریقہ)
29. محترم علامہ عابد علی مسکین صاحب (لیکچرر:علیمیہ)
30. محترم ڈاکٹر محبوب الحسن بخاری صاحب(ایسوسی ایٹ
پروفیسر،کراچی یونیورسٹی)
31. محترم ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب(ایسوسی ایٹ پروفیسرکراچی
یونیورسٹی)
32. محترم ڈاکٹرحامد علی علیمی صاحب (لیکچرر گورنمنٹ کالج
فارمین)
33. محترم جناب فیصل جمعہ صاحب (رجسٹرار،لسبیلہ یونیورسٹی)
34. محترم جناب علامہ ڈاکٹرحامد علی علیمی صاحب(لیکچرارگورنمنٹ
کالج فارمین)
35. محترم جناب فیصل احمد سرفراز صاحب(انہوں نے ڈاکٹرانصاری علیہ
الرحمہ پر Ph.D. کی ہے)
36. محترم جناب علی بدر
صاحب (لیکچررگورنمنٹ کالج)
37. علامہ مفتی عمران خان صاحب(لیکچرر گورنمنٹ سٹی کالج)
38. جناب علامہ مفتی محمد نعمان خان (ڈی ایچ اے)
39. جناب علامہ محمود الحسن اشرفی صاحب(معروف نعت خواں)
40. جناب علامہ شرجیل احمد خان صاحب (منیجر اسپیکٹرم)
41. جناب علامہ محمدشاہد خان صاحب(ماہرتقابل ادیان)
42. جناب علامہ شاہد
انصاری صاحب (City School)
43. جناب مفتی خرم
غزالی صاحب(لیکچرر:KENاکیڈمی)
44. جناب علامہ عاطف مجید سلیمانی (ویسٹ انڈیز)
45. جناب علامہ مدثرحسین صاحب(ساؤتھ افریقہ)
46. جناب علامہ محمد صدیق صاحب (لیکچررعلیمیہ )
47. جناب علامہ شہروز رئیس صاحب(UAE)
دارالاقامہ
(ہاسٹل)
ادارے
میں مسافرطلبہ کے قیام وطعام کے لیے بہترین رہائش گاہ کا بھی اہتمام کیاگیاہے۔جہاں
کشادہ وہوادارکمرے ،پرفضا اورپرسکون
ماحول طلبہ کی صلاحیتوں کو مزید
نکھارتاہے۔ اس ہاسٹل میں تقریباً 100طلبہ کے رہنے کاانتظام ہے۔اس دارالاقامہ کی
تعریف ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ
نے کچھ اس انداز سے فرمائی:
"بیرونی ممالک کے طلبہ کے لیے ایک
نہایت عمدہ دارالاقامہ 1965ء میں تعمیر ہوکرجاری ہے۔وہاں مقیم طلبہ کے لیے ہرطرح
کی سہولت کے علاوہ طبی امداد بھی مفت دی جاتی ہے۔"۔[12]
چندسال
قبل تک یہاں دنیابھر سے طلبہ تحصیل علم کے لئے آتے اوررہائش پذیرہوتے تھے۔جس کی
طرف ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ نے اشارہ فرمایاہے۔لیکن اب بعض وجوہات کی
بناء پر دنیاکے دیگرخطے کے طلبہ کاداخلہ دشوار ہوگیا ہے اس لیے صرف پاکستانی طلبہ
ہی مقیم ہیں۔ اور یہ تقریباً پورے پاکستان سے آئے ہوئے طلبہ ہیں اس لیے یہ ایک طرح
قومی وحدت واخوت کا نمائندہ ادارہ بھی ہے۔
حال ہی میں مزیدایک نئے ہاسٹل کی تعمیرجاری ہے ۔جس کی تعمیر کے بعدادارے
کے ہاسٹل میں تقریباً 150طلبہ کی رہائش کابہترین انتظام ہوجائے گا۔ان طلبہ کی
نگرانی کے لیے بہت ہی قابل اوراعلیٰ تعلیم یافتہ وارڈن کی تعیناتی کی جاتی ہے جو طلبہ
کی تمام ضرورتوں کا خیال اور ان پر انتہائی
شفیقانہ نگاہ رکھتاہے۔
خلاصہ
کلام:
ڈاکٹر
حافظ محمد فضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ نے آج سے تقریباً ساٹھ برس
قبل جامعہ علیمیہ اسلامیہ کی صورت میں جو پودالگایاتھا اب وہ ایک ایسے تناور عظیم
الشان درخت میں تبدیل ہوچکا ہے جس کی جڑیں توزمین میں ہیں لیکن اس کی شاخیں آسمان
کی بلندیوں کوچھورہی ہیں۔اس کا سایہ اور پھل اکناف عالم تک پہنچ رہا ہے۔ اس کے
پھولوں کی خوشبو دنیاکے گوشے گوشے میں مہک
رہی ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے جوچراغ روشن کیا تھا آج وہ مثلِ شمس (شمس
العلوم) علم کا نور پھیلارہا ہے۔ اوراس نور سے بلاامتیاز رنگ ونسل، اس تاریک جہاں
کومنور وروشن کررہاہے۔ ویسے بھی یہ امرمسلمہ ہے کہ چراغ متعصب نہیں ہوتا اورنہ ہی اس کا اپنا کوئی مکان
ہوتا ہےوہ جہاں بھی ہوگا بلاامتیاز سب کونفع (روشنی)پہنچائے گا۔
جہاں رہے گا وہاں روشنی
لوٹائے گا
کسی چراغ کا
اپنا مکان نہیں ہوتا
مختصراً
ادارہ ہذا میں برس ہابرس(یعنی سات سال) کی محنت شاقہ وریاضت تامہ کے بعدایسے طلبہ
جو عربی اور انگریزی کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے(یہ مبالغہ آرائی نہیں کیونکہ
گذشتہ 16 (سولہ) برس سے راقم بوقتِ داخلہ Aptitude Test اور طلبہ سے انٹرویو لینے والی کمیٹی میں شامل
ہے۔ جہاں سوائے چند طلبہ کے اکثرطلبہ کا حال یہی ہوتاہے اور عربی محاورہ ہے للاکثر حکم الکل۔ یعنی اکثریت پر
کل کا اطلاق ہوتاہے۔)
الجامعہ
العلیمیہ الاسلامیہ سے فراغت کے وقت عربی وانگریزی (دونوں زبانوں )میں تحاریر و
تقاریرکے جوہر کے ساتھ ساتھ دیگر علوم وفنون پر بھی دسترس حاصل کرلیتے ہیں ۔ اس لیے
بجاطور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ عام پتھرو سنگ کوبھی تراش خراش کے بعد لعل و گوہر کی
شکل دے دی جاتی ہے۔ بقول شاعر ؎ سنگ ہوتا ہے لعل برسوں میں
[1]
۔ جناب
عبداللطیف صاحب ماہر جغرافیہ ہونے کے ساتھ علم التوقیت کے بھی ماہر تھے۔آپ نے
جغرافیہ کے موضوع پر کئی کتب تصنیف کرنے کے علاوہ پوری دنیا کے لئے نقشہ اوقات الصلوٰہ اورسحروافطار بھی ترتیب دیا ہے۔آپ کو 17 یا 18
حج کرنے کی بھی سعادت حاصل ہے۔
[2]
۔ Normative Sciences کا بنیادی نکتہ بحث یہ ہے کہ کیا
ہونا چاہئے؟اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تمام علوم میں ترقی کی بنیادی وجہ یہی
فکر ہے۔کیا ہونا چاہئے؟اس سے بہترکیسے ہونا چاہئے؟ جب کہ اس کے برعکس Natural
Sciences
اس سے بحث کرتی ہیں کیاہے؟یعنی اشیاء کی اصل حقیقت ،ہئیت،ماہیت اورکیفیت کیاہے؟اس
سے کوئی سروکار نہیں کہ کیسے ہونا چاہئے؟
[5] ۔ حادثاتی
مسلمانوں کے ذہنی تضاد کا آپ علیہ الرحمہ ذرامزید وضاحت سے Islam to the Modern Mind کے صفحہ 164 پر نقشہ
کھینچتے ہیں کہ (حادثاتی) مسلمان درحقیقت ایک گومگوکی کیفیت میں ہیں وہ زبان سے اقراری ہیں کہ ہم
قرآن وسنت ہی کو حق وہدایت کاسرچشمہ
سمجھتے ہیں لیکن افسوس وہ اس کے باوجود اس پر ایمان نہیں رکھتے بایں معنی کہ وہ
عملاً اس پر عمل نہیں کرتے۔اب اس صورت میں مسلمان روزمحشررب کی بارگاہ میں کیاجواب
دیں گےکہ کیاہم تک ہدایت کا پیغام نہ پہنچا ۔لیکن ان کے پاس یہ دلیل بھی نہیں ہوگی
کیونکہ وہ تومؤمن ہونے کا اقرارکرتے ہیں آپ علیہ الرحمہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
"یہ ناامیدی غیرفعالیت ہمارے(کمزور) ایمان کا حصہ ہے۔ ہم
ایمان ہی نہیں رکھتے۔اورپھر بھی ہم یقین رکھتے ہیں کہ قرآن وسنت صحیح نظام رہنمائی ہے۔یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔ہم
(قرآن وسنت پرحقیقی معانی میں)ایمان نہیں رکھتے لیکن ہم(ان کے حق ہونے پر) یقین رکھتے
ہیں۔اس لئے ہم روز قیامت نہیں کہہ سکتے کہ ہم جانتے نہیں ہیں۔(اس وقت)ہمیں بتایاجائے
گا۔"تم جانتے تھے ، لیکن تم نے میری ہدایت کی پیروی نہیں کی۔تم نے اپنی ہوائے
نفس کی پیروی کی۔اپنے سفلی نفسانی(خواہشات) کی پیروی کی۔تم نے شیطان کی پیروی کی۔"
اگرغورکیا جائے
مسلمانوں میں جو یہ ناامیدی یا مایوسی درآئی ہے دراصل ان میں ہمت، جرأت، حوصلہ
کافقدان ہے اور یہ کمزورایمان کے سبب ایسا ہوا ہے۔ ایسے کم ہمت افراد کو شاعر کیا
ہی خوبصورت انداز سے ایک پیغام دیتاہے:
سمجھا ہے
جسے تو مایوسی وہ صرف کمی ہے ہمت
کی
یا ڈوب
نہ بحرِ الفت میں یا ترک غم ساحل کردے
[6] ۔ یہاں تقویٰ ظاہری شکل و صورت میں مراد ہے جب
انسان تقوی القلوب کے بجائے ظاہری طور پر عبادات
اوررسم ورواج کی پابندی میں مشغول ہوجائے تو اس کے اندر ایک خاص قسم کی
سختی یعنی تقویٰ کا ہیضہ (Complex
Piety) پیدا ہوجاتاہے اوریوں وہ ظاہری رسمیات کی پیروی کرتے کرتے
دوسروں کوحقیرسمجھتے ہوئے مطعون کرناشروع کردیتاہے۔ ایسے افراد پر شیخ سعدی
علیہ الرحمہ کی یہ حکایت صادر آتی ہے کہ "ایک بار جب ان کے والد نے انہیں
صلاۃِ تہجد کے لئے بیدار کیا تو انہوں نے اپنے خوابیدہ احباب کی طرف دیکھ کر اظہار
تاسف کیا۔ان کے والد نے انہیں اس پر تنبیہ کی اورکہا نماز تہجدکی ادائیگی کے ساتھ دوسروں پراظہار تاسف سے بہترتھا کہ تم
بھی سوتے رہتے۔کیونکہ اس اظہار تاسف سے اپنی بڑائی کی بُوآتی ہے ۔جو اللہ رب العزت
کی بارگاہ میں مردود ہے۔(ویسے بھی لازم نہیں کہ نماز تہجد میں مشغول شخص خوابیدہ
فرد سے زیادہ اولیٰ ومتقی وافضل ہوعین
ممکن ہے کہ وہ سویاہوا شخص اس وقت حضور اکرم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہورہا ہو۔)بہرحال
جس عبادت سے غروروتکبراوربڑائی پیدا ہوتی ہے اس کی اصلاح کی فکرکرنی چاہئے۔
[7] ۔صدافسوس
ہمارا حال اس کے برعکس ہے ۔24 گھنٹے خدا کو یاد کرنے کے بجائے ہمیں تو (العیاذ باللہ) اللہ رب العزت کی بارگاہ یعنی نماز میں
کھڑے ہوکر بھی رب کا خیال تک نہیں آتا۔ تمام سوچوں اورمنصوبوں کا محور
ہماری دنیاوی زندگی ہی ہوتی ہے۔(عافانا اللہ منہا)۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری عبادات سے
ہمارے اندر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہورہی ہے۔
Post a Comment