صلاۃ وسلام (علامہ سید محمد ہاشم فاضل شمسی )
بسم اللہ
الرحمن الرحیم
نحمدہ
ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
اللھم
صلی وسلم وبارک علی حبیبک وآلہ
ترجمہ:
تحقیق اللہ اور اللہ کے فرشتے صلوٰۃ بھیجتے رہتے ہیں، نبی پر اے ایمان والو تم
صلوٰۃ و سلام بھیجو ان پر باربارآیت زیر عنوان خالقِ قیوم و رحمن کا کھلا فرمان ہے
جو قرآن مجید یعنی وحی تلاوت کے کلمات ہیں صرف مومنین اس کے مخاطب ہیں اورصحیح
ایمان کے اثر سے وہ اس حکم اور اس فرمانِ الہی کی بجاآوری میں اپنے قلب و روح کو
ہمیشہ آمادہ اور مستعد پاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس حکم کے اعلان کو سن کر خوشی و
رنج اور اس کی تعمیل میں رغبت و کوتاہی سے مدعیان ایمان کے دعوؤں کا کھرا پن اور
کھوٹ معلوم ہوتا ہے۔ ان کے ایمان کی قوت و ضعف دریافت ہوتی ہے۔ جن قلوب میں ایمان
کی تجلیات دھیمی ہیں نبی مکرم روحی فداہ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے میں غفلت کرتے ہیں
جو ضعیف الاعتقاد ہیں جو ضعیف الاعتقاد ہیں فریضۂ صلوٰۃ وسلام کی ادائیگی میں
کوتاہ و قاصر ہیں جو ایمان سے محروم ہیں صلوٰۃ و سلام سے ناراض ہوتے ہیں اور اس کی
مخالفت کرتے ہیں اور جو منافق ہیں طرح طرح کے حیلے بہانے سے صلوٰۃ و سلام بھیجنے
اور صلوٰۃ و سلام کی محفل کی شرکت سے خود بھی رکتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے
ہیں۔ کیونکہ صلوٰۃ وسلام کے فرمان کی مخاطبت ایمان والوں سے ہے اور اس حکم کی
بنیاد ایمان ہے۔ کوئی صاحبِ ایمان کسی ایسے عمل کی راہ میں حائل نہیں ہوگا جو اس
حد تک محبوب و مطلوب الہی ہو کہ ذاتِ حق اپنے فرشتوں کے ساتھ اس عمل کی مداومت
رکھے اور اپنے پسندیدہ بندوں یعنی مومنین کو اس کار عظیم و بزرگ میں شرکت و
ہمزبانی کی دعوت دے۔ تمام مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضور سید عالم افضل
المخلوقات سیدالمرسلین ہیں۔ آپ ہی فخرِ کونین ہیں اور مظاہر کن فیکون کی جان ہیں۔
جب
تکریم آدم میں تمام مخلوقاتِ ارضی و سماوی بالخصوص ملائکہ رب ادائے سجدہ پر مامور
ہوئے عزازیل انکارِ سجدہ سے مردودِ دربار اور رجیم ٹھہرا حالانکہ اس تکریم آدم میں
عملاً نہ ذاتِ الہی شریک تھی اور نہ روحِ محمدی سجدے پر مامور تھی۔ بعض روایتوں
اور بیانوں سے تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس سجدہ سے مقصودِ حقیقت محمدیہ علیہ
الثناء والتحیۃ کا سجدہ تھا جو بطور امانت وجود آدم میں مخفی تھی۔
لیکن
صاحب لولک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعظیم و تکریم کے لئے بارگاہِ صمدیت سے جو
فرمان صلوٰۃ وسلام صادر ہوا اس کو بروئے کار لانے اور معمول بنانے میں فرشتوں کے
ساتھ خود فرماں روا بھی شریک ہے۔
لہذا
صلوٰۃ وسلام کی طرف سے غفلت ، کوتاہی اور انکار کی سزا سجدہ آدم کے انکار سے زیادہ
سخت ہونی چاہئے۔
نیز
سیدنا آدم و سیدنا محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کے مقامات کا امتیاز و فرق اور
دونوں کی تکریم کے فرامین کا انداز و طرز تو یہی چاہتاہے کہ صلوٰۃ وسلام میں کوئی
کمی و کوتاہی نہ ہو او رمنکر زیادہ سے زیادہ سخت سزا کا مستحق ٹھہرے کیونکہ تکریم
آدم میں صرف اللہ کا زبانی فرمان ہے اور تکریم محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام میں
بارگاہِ صمدیت قولاً و فعلاً متوجہ ہے۔
استمرار
و دوام
بعض
لوگوں کو ''یصلون
علی النبی''
کے مفہوم میں استمرار و دوام سے انکار ہے۔ مگر ان کا یہ خیال عربی زبان کے قواعد
فصاحت و بلاغت کے موافق نہیں بلکہ خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے کیونکہ یصلون فعل
مضارع ہے جو حال و استقبال دونوں کو شامل کرتاہے اور زمانہ استقبال کی کوئی حد
نہیں ہے جب زمانہ استقبال کا استمرار لا الی نہایۃ وغیرہ محدود ہے تو جس فعل کے
لئے زمانہ مستقبل ظرف بنا ہے لاالی نہایتہ جاری رہے گا۔ ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں
کہ مستقبل میں ایک دفعہ وقوع فعل سے یصلون کا حکم پورا ہوگیا تو یہ کہنا اس لئے
غلط ہوگا کہ مستقبل کے میزان میں ہر مومن اس آیہ کا مخاطب ہے اور خطاب یصلون کی
قید کے ساتھ جاری ہے اور ہرمومن اپنی صلوٰۃ وسلام کو اللہ جلّ مجدہ کے کلمہ یصلون
کے ساتھ جوڑتا ہے لہذا اللہ تبارک وتعالیٰ کا اعلان یصلون مستقبل میں ہر مؤمن کے
صلوٰۃ وسلام کی بنیاد ہے۔
اسم
فاعل بھی اگرچہ استقبال کا مفہوم رکھتا ہے مگر مضارع اور اسم فاعل میں فرق یہ ہے
کہ اتمام فعل کے بعد فاعل کی جو حاصل شدہ کامل ہیئت ہوتی ہے اگر وہ ہیئت زمانۂ مستقبل
میں پائی جائے تو اس کا اظہار اسم فاعل کے ذریعہ کیا جاتاہے اور اگر فعل کا انقطاع
نہیں ہوا اور زمانۂ مستقبل میں اجرائے عمل و استمرار فعل کا اظہار مقصود ہو تو اس
کے لئے فعل مضارع لاتے ہیں۔
چنانچہ
علمائے ادب و بلاغت فعلِ مضارع اور اسم فاعل کے درمیان مذکورہ فرق بیان کرنے کے
بعد آیت قرآنی وکلبھم
باسط ذراعیہ بالوصید کو دلیل و سند میں پیش کرتے ہیں یعنی ''باسط'' اسم
فاعل ہے معنی یہ ہوئے کہ اصحاب کہف کا کتا بیٹھنے کی درمیانی حالت میں نہیں ہے اور
نہ یہ بات ہے کہ بیٹھنے کا فعل ہنوز نا تمام و نامکمل ہے بلکہ بیٹھنے کا فعل کامل
ہو کر ختم ہوچکا اور ہئیت نشست سے تمام و مکمل ہوچکی ہے۔ اب یہ حاصل شدہ کامل ہیئت
مستقبل میں پائی جائے گی۔
اگر''باسط''
کی جگہ فعل مضارع ''یبسط''آتا تو اس کا مفہوم ہوتا کہ سگِ اصحاب کہف بیٹھنے کی
درمیانی حالت میں ہے پوری طرح بیٹھا نہیں ہے بلکہ بیٹھنے کے عمل میں مشغول ہے۔ حالانکہ
واقعہ یہ نہیں ہے کہ کتا نشست مکمل کرچکا اورتا قیامت زمانہ مستقبل میں اس کی حاصل
شدہ ہیئت نشست قائم رہے گی۔ (دلائل الاعجاز)
قرآن
مجید کا اعجاز تو یہی ہے کہ کلمات کے انتخاب میں بھی بال جیسے باریک فرق کا لحاظ
رکھتا ہے۔ اسمِ فاعل اور اسم مضارع کا فرق معلوم ہوجانے کے بعد یصلون
علی النبی
کا معنی واضح ہوجاتاہے کہ بارگاہِ احدیت سے مطاع کل فخر رسل علیہ الصلوۃ والسلام
پر صلوٰۃ وسلام کا ارسال کامل ہو کر منقطع نہیں ہوا اور درود و سلام کا جو تاج
محبوب بارگاہ کے زیب سرہوا، آپ کی آراستگی و پیراستگی مستقبل میں اسی ایک اور پہلے
تاجِ عظمت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ جس طرح محبِ حقیقی جلّ مجدہ ہر آن نئی شان میں
ہے کل یوم ہو فی شان اپنے محبوب کو صلوٰۃ وسلام کے نئے جلوؤں سے مزین و آراستہ
کرتار ہتاہے اور بارگاہِ صمدیت سے صلوٰۃ وسلام کی آمد استمراری و دوامی ہے۔
تمہاری
ذات ذاتِ حق کا جلوہ
تمہاری
معرفت معرفت ، عرفانِ کامل(ہاشمی)
صلوٰۃ
وسلام کی فرضیت
صلووسلموا
امر کے صیغے ہیں اور امر ہمیشہ وجوب و فرضیت کے لئے بولا جاتاہے الّا یہ کہ فرضیت
کے خلاف کوئی جداگانہ دلیل یا کوئی قابلِ یقین قرینہ یا دلیل موجود ہو اس آیت میں
فرضیت و وجوب کے خلاف کوئی قرینہ یا دلیل موجود نہیں ہے بلکہ جس اہتمام سے صلوا
وسلموا کا حکم دیا گیا اور تسلیما سے اس حکم کو موکد و مستحکم کیا گیا ہے اور حکم
سے پہلے بطور تمہید اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی صلوٰۃ کا ذکر ہے عقل
و دین اور صورت و معنی کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں امر کر وجوب و فرضیت ہی کے لئے
متعین کیا جائے۔
لہذا
درود و سلام کی مطلق فرضیت کی بحث فضول اور غیر ضروری ہے۔ صلوٰۃ وسلام کی نفسِ
فرضیت میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں نکلتی۔ درودو سلام کی فرضیت و استحباب کے
بارے میں اگر علماء کے درمیان کوئی اختلاف پایا جاتاہے تو وہ خاص خاص مواقع اور محل
میں درود کی فرضیت و استحباب کے متعلق ہے۔
صلوٰۃ
وسلام کا ثواب
درود و
سلام سے متعلق امرالہی کی تعمیل خاص موقع و محل میں اگر مستحب بھی تسلیم کریں، پھر
بھی صلوٰۃ وسلام کا ثواب ہمیشہ فرض عبادات اور فرض صلوٰۃ وسلام کا ملے گا۔ اور
اعمال میں فرائض کا ثواب سنت و نفل عبادات سے زیادہ ہوتاہے۔
درود
شریف کی فرضیت و استحباب میں اختلاف کا نتیجہ صرف اس قدر ہے کہ خاص خاص موقعوں میں
اگر کوئی شخص درود شریف نہ پڑھے تو کیا حکم ہے؟ کیا وہ فرض کا تارک کہلائے گا؟ اور
ترک فرض کے جرم میں ماخوذ ہو کر مستحق سزا ٹھہرے گا یا ان موقعوں پر صلوٰۃ وسلام
کے ترک پر کوئی مواخذہ اور گرفت نہیں ہے؟
جو لوگ
درود شریف نماز میں فرض قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک درود شریف کے بغیر نماز ہی نہیں
ہوگی لہذا بے درود جب نماز نہ ہوئی تو تارک درود تارکِ نماز ٹھہرا اور وہ سخت عذاب
کا سزاوار ہے۔
اور جو
لوگ نمازمیں درود شریف کو سنت ومستحب کہتے ہیں ان کے نزدیک بغیر درود نماز تو
ہوجائیگی مگر ناقص ہوگی اور وہ اجرو ثواب نہیں ملے گا جو نماز کامل کے لئے موعود و
مقرر ہے۔
یہ بھی
کہا جاسکتا ہے کہ قبولِ دعا کے لئے درود شرط ہے جو نماز درود سے خالی ہوگی وہ
بارگاہِ حق میں نامقبول ہوگی۔ فرض تو گردن سے اتر جائے گا مگر انجام میں ادائے فرض
کے ثواب سے محرومی رہے گی۔ اور یہ اس لئے کہ اصطلاح شریعت میں نماز بھی تو دعا ہے۔
ثوابِ
درود فرض کے برابر ہے
صلوٰۃ
وسلام کو خاص موقعوں میں سنت و مستحب ماننے کے بعد بھی ان کا ثواب ہمیشہ فرض عبادت
کا ثواب ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے لئے مندجہ ذیل قاعدے کو ذہن نشین ہونا
چاہیے۔
قاعدہ
کلیہ
جن
احکامِ قرآنی کی تعمیل فرض ہے ، وہ دو قسم کے ہیں:
اول
احکام معین یعنی وہ فرائض و احکام جن کی تعمیل میں زمان و مکان کی یاعدد کی قید
لگی ہوئی ہے مثلاً
نماز:
زمانہ اور تعداد کی رکعات کی قید لگی ہوئی ہے۔
روزہ:
قید زمانی کے ساتھ فرض ہے۔
حج:
زمان و مکان کی قید کے ساتھ فرض ہے۔
زکوٰۃ:
زمانہ( مرور سال) عدد (مقدار نصاب) کی قید کے ساتھ فرض ہے۔
فرضِ
معین کا ثواب
ایسے
تمام فرائض جن کی فرضیت میں زمان و مکان یا عدد کی شرطیں ملحوظ ہیں جب ان حدود و
قیود کے ساتھ ادا ہوں گے تو ان پر فرض عبادت بجالانے کا ثواب ملے گا۔ ان قیود کے
بغیر اگر ان فرائض کے مماثل و مشابہ اعمال اداکئے جائیں تو وہ یا سنتیں ہوں گی یا
مستحبات ہونگی۔
شریعت
میں سنتوں اور مستحبات کا ثواب و اجر فرض سے کم ہوتاہے مثلاً کوئی شخص رمضان
المبارک کے علاوہ دنوں میں اگر روزے رکھے تو اس کے یہ روزے یا تو سنت ہوں گے یا
مستحب ، یہی حال حج، صدقات اور نمازوں کا ہے۔
فرائض
اور نوافل کے درمیان معیار اجر میں فرق کی وجہ ظاہر ہے۔ فرض کے ترک پر چونکہ عذاب
سخت کی وعید ہے لہذا اس کے ادا پر ثواب کا معیار بھی اعلیٰ ہوگا۔ چنانچہ اس مسئلہ
میں تمام علماء کے درمیان کامل اتفاق ہے کوئی معمولی اختلاف بھی نہیں ہے۔
دوم:
غیر معین احکام و فرائض : قرآن مجید میں بعض ایسے احکام بھی ہیں جن کی بجاا ۤوری
میں زمان و مکان اور عدد کی کوئی قید نہیں ہے۔ مثلاً جہاد
کافروں
سے قتال ، یعنی جہاد بالسیف، جہاد بالقلم، جہاد بالموعظۃ الحسنۃ فرائض تو ہیں مگر
ان کی ادائیگی کے لئے نہ زمان کی تعین ہے نہ مکان کی قید ہے اور نہ قتال کی تعداد
معین ہے کہ ہر شخص کو فلاں زمانے میں یا فلاں خاص مقام پر جہاد کرنا فرض ہے یا زندگی
میں اتنی دفعہ جہاد اسلامی فریضہ ہے ۔
اسی
طرح نماز جنازہ ہے جس کی فرضیت مسلم ہے مگر یہ فرض قیود و شروط زمانی و مکانی و
عددی سے بری ہے۔
کچھ
لوگوں کے اداکرنے سے امت مواخذہ وعذاب سے محفوظ ہوجاتی ہے مگر ادائے نماز جنازہ پر
ہر بار ادائے فرض کا ثواب ملتاہے۔
غیر
معین فرائض کا ثواب
جو
فرائض واحکام غیر معین ہیں ان کی تعمیل میں وسعت و گنجائش رکھی گئی ہے اور مومن کے
جوش ایمانی، اخلاص عقیدت، قوتِ عمل اور جذبۂ محبت دینی پر اعتماد کرکے ان فرائض
کو شارع علیہ السلام نے ہر قید سے مستثنیٰ اور بری رکھا ہے۔
ان غیر
معین فرائض میں ایک طرف تو وسیع سہولت اور بے اندازہ گنجائش ہے کہ اس کی ادائیگی
میں انسان کو آزادی ملی ہے۔ زمان و مکان ، موقع و محل ، عدد و شمار کی کوئی پابندی
نہیں ۔
دوسری
طرف ان فرائض کو اجرو ثواب کے لحاظ سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ دین کا فدائی کتاب و
سنت کا شیدائی جب کبھی جہاد و قتال جیسے غیر معین فرائض کی بجا آوری کے لئے میدان
عمل میں نکلے گا تو ہمیشہ اس کو عبادت واجبہ کی ادا کا ثواب و اجر ملے گا۔
چنانچہ
ایک مجاہد اپنے ہر قتال میں قاتلوا فی سبیل اللہ کا فریضہ ادا کرتاہے اور جہاد فرض
کے ثواب سے سرفراز ہوتاہے۔
انہیں
غیر متعین فرائض میں درود سلام بھی ہیں اللہ رب العزت نے درود وسلام ہر مومن پر
فرض کردیا۔ مگر زمان و مکان اور عدد کی قید سے ان کو مستثنیٰ رکھا۔ بعض علماء کہتے
ہیں کہ کسی نے اپنی تمام زندگی میں ایک بار بھی حضور صاحب لولاک پر صلوٰۃ وسلام
بھیج دیا تو ادائے فرض سے سبکدوشی ہوجاتی ہے اور ترکِ فرض کے جرم میں ماخوذ نہیں
ہوگا۔
دوسری
طرف صلوٰۃ وسلام وہ نعمتِ عظمیٰ اور وسیلۂ کبریٰ ہے کہ بندۂ مومن جہاد کی طرح
اپنے ہر صلوٰۃ وسلام پر فرض صلوٰۃ وسلام کا ثواب حاصل کرتاہے۔
ایک
نکتہ
آیت
زیب عنوان کے طرز بیان اور اس کی تمہیدی شان سے ظاہر ہوتاہے کہ صلوٰۃ وسلام میں
اللہ بزرگ و برتر کی رضا و پسند کا اقتضا تو یہ تھا کہ اس فریضہ کو تمام فرائض پر
مقدم رکھا جائے اور اس کے تارک کو دوسرے تمام گناہگاروں سے زیادہ سزاوار عذاب قرار
دیاجائے۔
مگر
درمیان میں رحمۃللعالمین ﷺ کی سراپا رحمت ذات آگئی ہے لہذا ان کی بارگاہ میں صلوٰۃ
وسلام بھیجنے کا ثواب تو بیش از بیش ملے لیکن صلوٰۃ وسلام میں غفلت کیشوں کو
مواخذہ سے بچایا جائے تاکہ رحمۃ اللعالمین کے دامنِ رحمت پر کوئی حرف نہ آئے اور
ان کی وجہ سے کوئی مبتلائے عذاب نہ ہو، تارکینِ صلوۃ کی یہی محرومی کیا کم ہے کہ
وہ بارگاہ رحمت پناہ سے دور ہیں اور ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین۔
وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین کے حلقہ سے خارج ہیں۔
حضور
سید عالم رحمۃ اللعالمین ہیں ۔ تمام مؤمنین صلوٰۃ وسلام پر مامور ہیں اور جیسا کہ
آئندہ حدیثوں سے معلوم ہوگا ک رحمۃ اللعالمین کے تقرب کا ذریعہ صلوٰۃ وسلام ہے
لہذا جو صلوٰۃ وسلام سے غافل ہے وہ رحمۃ اللعالمین کی بارگاہ سے دور ہے اور جو
صلوٰۃ وسلام کی مداومت و کثرت رکھتا ہے وہ رحمۃ اللعالمین کے قریب ہے یہاں بھی اور
قیامت میں بھی۔ مومنین کی شان تو یہی ہوگی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان ''صلوا
وسلموا کی پوری نگرانی کریں اور ر ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین کی نعمت وفضیلت
سے سرفراز ہوں۔ حضور علیہ السلام رحمت ہیں اور اللہ کی رحمت ہمیشہ مومنوں کے نزدیک
ہے لہذا حضور علیہ السلام ہر مومن کے نزدیک ہیں نیکو کاروں سے غائب و دور نہیں ہیں۔
کافروں کے حق میں حاضر نہ ہوں بلکہ غائب ہوں تودوسری بات ہے۔ غائب تو کافروں سے
بھی نہیں ہیں ہاں رحمت بن کر ان کے نزدیک نہیں۔
صلوٰۃ
وسلام کے طریقے
قرآن
مجید میں صلوٰۃ وسلام کا حکم ہے مگر اس حکم کی تعمیل کے سلسلے میں چند امور ایسے
بھی ہیں جن کی تشریح نہایت ضروری ہے۔
اول:
صلوا (یعنی صلوٰۃ بھیجو) اس حکم کے آغاز میں اللہ رب العزت نے تاکید و تفہیم کے
لئے ان
اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی کی شاندار وشکوہ پرور تمہید بیان کی لیکن
ختم فرمان میں صلوا کے ساتھ کوئی تاکیدی صیغہ نہیں لایا۔
دوم:
سلموا (سلام بھیجو) سلام کے ساتھ خاتمہ، حکم میں تاکید کے لئے تسلیما مفعول مطلق
لایا۔ مگر آغاز فرمان میں سلام کے لئے کوئی تمہیدی تاکیدنہیں ہے۔ الغرض صلوا کی
تاکید کے لئے جلالت نشان تمہید سے کام لیا اور سلموا کی تاکید کے لئے مفعول مطلق
پر اکتفا کیا۔
مفعول
مطلق کی اصل غرض تاکید ہے۔ یہاں تاکید کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔
الف:
سلام کی فرضیت کو مزید قوت پہنچانا تاکہ مومنین نبی اکرم ﷺ پر سلام بھیجنے میں
غفلت نہ کریں اور اللہ رب العزت کی عملی شرکت سے صرف صلوٰۃ کی اہمیت کوکافی نہ
سمجھیں۔
ب:
تسلیما کی تاکید کا مفہوم سلام کی کثرت و تکرار سے متعلق ہے یعنی باربار اور بکثرت
سلام بھیجو آیہ کریمہ کے اس دوسرے مفہوم تاکید سے معنی یہ پیدا ہوں گے کہ ہر صلوٰۃ
کے ساتھ سلام کا ہونا ضروری ہے یا ایک صلوٰۃ کے ساتھ مکرر سلام مطلوب رب ے۔
مگر یہ
کوئی نہیں کہتا ہم دیکھتے ہیں کہ ایک صلوٰۃ کے ساتھ ایک ہی سلام بھیجتے ہیں اور
کبھی صرف صلوٰۃ پر ہی اکتفا کرتے ہیں سلام نہیں بھیجتے ۔ مثلاً سیدنا حضرت حسن رضی
اللہ عنہ کی دعائے قنوت میں خاتمے پر صلی اللہ علی النبی تو ہے مگر سلام و تسلیم
کا کوئی کلمہ نہیں ہے۔
اگر
صلوٰۃ کے ساتھ سلام بھی ضروری ہوتا تو قنوت حسن رضی اللہ عنہ میں بحالت قیام
نمازوں میں جو صلی اللہ علی النبی ہے اس کے ساتھ کم از کم صرف سلَّمَ ضرور ہوتا ۔ لہذا
روایات حدیث میں غور کرنے سے صلوٰۃ وسلام کی مندرجہ ذیل شکلیں نظر آتی ہیں۔
اول:
صلوۃ کے مفہوم میں سلام کا معنی بھی شامل ہے لہذا تسلیماً دونوں معانی کی تاکیدکے
لئے آیا ہے اور صلوٰۃ سے متعلق تمہید وتاکید ہے۔
دوم:
صلوا کے مفعولِ مطلق محذوف ہے اور سلموا کے بعد تسلیما کا کلمہ اس محذوف پر دلالت
کرتاہے کیونکہ مطلوبِ رب صلوٰۃ و سلام دونوں ہیں۔
سوم:
سلام کے لئے چونکہ بہتر و اعلیٰ صورت مخاطبت کی ہوتی ہے چنانچہ جس کسی کو بھی سلام
کیا جاتاہے حاضر و خطاب کے ساتھ سلام کرتے ہیں لہذا تسلیماً کہہ کر اللہ جلّ مجدہ
نے مؤمنین پر واضح کردیا کہ صیغہ خطاب سے بھی نبی اکرم ﷺ پر سلام بھیجنے میں حاضر
و غائب کی نزاع میں مبتلا نہ ہوں اور اس سلسلے میں ہر تذبذب و شک سے پرہیز کریں
لہذا سلموا کا حکم تاکید کے ساتھ بیان کیا۔
چہارم:
صلوا کے ساتھ تمہید کا فائدہ یہ ہوا کہ صلوٰۃ بھیجنے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی
طرف نسبت و توجہ بہتر ہے جیسے اللھم صلی علیٰ حبیبک اور سلام بھیجنے میں غفلت سے
تو اجتناب کریں لیکن بطور خود خطاب کرکے سلام بھیجیں مثلاً السلام علیک ایھا النبی
ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پنجم:
مؤمنین اگر بصیغۂ ماضی درود بھیجنا چاہیں تو کلمۂ صلوٰۃ کافی ہے جیسا کہ قنوت
حسن رضی اللہ عنہ میں صرف صلی اللہ علی النبی ہے۔
اور
بعض سلاسل طریقت میں صلی اللہ علیک یا محمد ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے
''یصلون علی النبی'' میں صرف صلوٰۃ کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔
ہفتم:
حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ تشہد کے ذریعے پہلے حضور پر بصیغۂ خطاب صرف
سلام بھیجنے کی تعلیم دی گئی تھی۔ بعد ازاں جب فرضیت صلوٰۃ کا حکم آیا تو صحابۂ کرام
رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے صاحب لولاک ﷺ سے صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ پوچھا
اور حضور اکرم ﷺ نے صلوٰۃ ابراہیمی تعلیم فرمائی۔
ان
روایتوں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ تشہد میں سلام پہلے سے موجود تھا اور تمام
مؤمنین حاضر و غائب کی نزاع و جدال سے پاک و بلند ہو کر ہمیشہ اپنی نمازوں میں
بصیغۂ حاضر و خطاب فخر کونین ﷺ پر سلام بھیجتے رہے۔
جب
فرضیت درود کا حکم آیا اور درود ابراہیمی تعلیم ہوئی جس میں سلام نہیں ہے تو اب دو
طرح کے شبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔
اول:
درود ابراہیمی اختیار کرکے صحابہ تشہد میں السلام علیک ایھا النبی کو ترک کردیں گے۔
دوم :
درود ابراہیمی میں مخاطب اللہ جلّ مجدہ ہے اور حضور اکرم ﷺ کی حیثیت غائب کی ہے
لہذا مؤمنین حضور و مخاطبت سے رک جائیں۔
اللہ
کریم و مفضال نے سلموا تسلیماً فرماکا دونوں ممکن پہلوؤں کو رد کردیا اور بصیغہ
خطاب و حضور السلام علیک ایھا النبی کو برقرار رکھا۔
بہ
الفاظ دیگر السلام علیک ایھا النبی یعنی حضور اکرم ﷺ پر سلام بھیجنا اب تک وحی غیر
متلو یعنی حدیثوں کی بنیاد پر ایک اہم فعل تھا۔ سلموا تسلیما فرماکر اس عمل خیر و
سعادت کو وحی متلو یعنی قرآن کے اندر داخل کردیا اور بارگاہ محبوب تک پہنچنے کی
ایک مزید رہنمائی فرمائی یعنی صلوا کا اضافہ کردیا۔
جو لوگ
بصیغۂ خطاب وحضور صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام
بھیجنے سے منع کرتے ہیں اور اس فعل کو شرک و بدعت کہتے ہیں ان کے دل میں تذبذب و
شک ہے اور تشہد میں کلمہ السلام علیک ایھا النبی کو اپنی طرف سے تسلیم و عرض سلام
قرار نہیں دیتے بلکہ اس کلمہ خیر و سعادت کو محض حکایت اور واقعہ معراج کی نقل
کہتے ہیں وہ بلاشبہ سخت غلطی میں مبتلا ہیں ایسے لوگ اگر علماء ہیں تو بلا خوف
تردید کہا جاسکتا ہے کہ ان کے علم نے الفاظ و حروف سے ترقی کر کے نور و تجلی اور
روشنی کا مقام حاصل نہیں کیا ہے۔
کیونکہ
ان حضرات کی بدعت آفرینی و شرک گوئی آیت قرآنی اور اس کے متعلق مروی صحیح حدیثوں
کے خلاف ہے۔
حدیثیں
صاف بتارہی ہیں کہ کلمہ السلام علیک ایھا النبی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین اپنی طرف سے حضور صاحب لولاک پر سلام بھیجتے تھے اور حکم قرآن سلموا تسلیما
کی تعمیل کرتے تھے۔ صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ ان کو معلوم نہ تھا جس کی تعلیم حاصل
کرنے کے لئے یہ تلامذہ رسول علیہ و علیہم السلام حضور کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے
درود ابراہیمی ان کو سکھایا۔ اس طرح صلوا علیہ وسلموا تسلیما کی تعمیل و بجاآوری
ہوئی ہے جو ازروئے قرآن ہر مومن پر فرض ہے اور عہد صحابہ سے اب تک جاری ہے۔
حق تو
یہ ہے کہ التحیات للہ والصلوٰت والطیبات محض حکایت و نقالی نہیں ہے بلکہ ہر نمازی
کمال اخلاص اور کامل نیت و ارادہ کے ساتھ ان کلمات میں اپنی عبدیت و بندگی کا
اقرار کرتے ہوئے اپنی تحیات و صلوٰۃ و طیبات کو بارگاہِ الہی میں پیش کرتا ہے اور
کلمۂ توحید کے جزو اول لاالہ الااللہ کی زبان و عمل سے تصدیق کرتاہے۔ اسی طرح
السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں سلموا تسلیما کے حکم کی تعمیل
کرتاہے۔ کمالِ اخلاص اور کامل ارادہ و نیت کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں سلام و رحمت
و برکات کے نذرانے گزارتا ہے گویا یہ کلمۂ توحید کے جزوِ ثانی محمد رسول اللہ کی
زبان و عمل سے تصدیق کرتا ہے۔ اپنے ان دونوں ہدایا کے ذریعے جب اللہ اور اس کے
رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رضا حاصل ہوگئی تو اس لمحہ سعید سے پورا پورا فائدہ
اٹھانے کے لئے اپنے اور دیگر صالح بندوں کے لئے سلامتی کی دعاء کرتاہے ۔ ''السلام
علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین''۔
اگر
تشہد میں نمازی کی یہ نیتیں نہیں ہیں تو اس سے دو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اول:
وہ ساری حدیثیں جو آیتیں صلوا علیہ وسلموا تسلیما سے متعلق ہیں بے ربط و بے معنی
ہوجائیں گی اور ان کا انکار لازم آئے گا۔
دوم:
نمازی کی نماز ادائے فرض کے بدلے نقالی ہو کر رہ جائے گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں آتا
کہ تشہد واقعہ معراج کی یادگار ہے۔ بندہ اس تشہد کو اپنانے کا پابند ہے اور اللہ
بزرگ و برتر کا بے اندازہ احسان و فضل ہے کہ اس نے جب بارگاہ رسالت میں صلوٰۃ و
سلام بھیجنا ہم پر فرض کیا تو ساتھ ہی ساتھ سلام وتحیت کی اعلیٰ وافضل قسم کو
ہمارے لئے پسند فرمایا یعنی تشہد اس طرح معراج المؤمنین یعنی نماز معراج محمدی
(علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی ت جلّیات سے جگمانے لگی۔ بعض لوگ جو سلام و صلوٰۃ کی
نعمت سے محروم ہیں اور دوسروں کو بھی محروم بنانا چاہتے ہیں وہ اس کار نیک کی
بجاآوری میں طرح طرح کے رخنے ڈالتے ہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کے شبہے پیدا کرتے ہیں ۔ چنانچہ
وہ کہتے ہیں کہ نماز میں صلوٰۃ و سلام بیٹھ کر بھیجتے ہیں لہذا بصورت قیام صلوٰۃ و
سلام غلط ہے۔ یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ارکان نماز اور اس سے متعلق دعائیں اور
تسبیحات نمازیوں کی اپنی مرضی پر موقوف نہیں ورنہ التحیات اور الطیبات کا اقتضاء
تو یہ تھا کہ بندہ کھڑا ہو کر اللہ کی جناب میں عرض کرے ۔ بڑوں کو نذرانہ مؤدب
کھڑے ہو کر پیش کرتے ہیں اور اللہ سے بڑا کون ہے نیز تسبیحات جو رکوع و سجدہ میں
پڑھی جاتی ہیں ان لوگوں کے نزدیک بیٹھ کر اور کھڑے ہوکر پڑھنا غلط ہوگا۔ ایسا خیال
ان لوگوں کی غلطی ہے نماز میں تسبیحات و تحیات اور صلوٰۃ والسلام کو اسی طرح ادا
کریں گے جیسی تعلیم دی گئی ہے نماز سے باہر حدودِ شرع کے اندر ہم آزاد ہیں حضور
علیہ السلام کے قیام تعظیمی یا کھڑے ہو کر صلوٰۃ و سلام کی ممانعت نہ تو قرآن میں
ہے اور نہ حدیث میں۔
اللہ
تبارک وتعالیٰ کے حکم تعزرورہ و توقروہ (تم رسول کی مدد کرو اور ان کی تعظیم کرو )
کے روسے حضور علیہ السلام کی تعظیم کھڑے ہوکر بجالانا ثابت ہے پھر اختلاف کس بات
کا رہا؟
سلامِ
حضوری
حیرت
ہے کہ علمیت کے ادعا کے بعد بھی کچھ لوگ یا نبی سلام علیک پر معترض ہوتے ہیں اور
شرک و بدعت کہتے ہیں اور اپنے اس اعتراض کو برحق ثابت کرنے کے لئے وہ دو طریقے
اختیار کرتے ہیں۔
اول:
یا نبی سلا م علیک حاضر و خطاب کا صیغہ ہے آستانۂ نبوت و روضہ انور سے دور رہ کر
بہ صیغۂ خطاب سلام بھیجنا جائز نہیں کیونکہ حاضر و ناظر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس
کے سوا کسی مخلوق کو دور و نزدیک سے باخبر سمجھنا اور حاضر و ناظر کہنا شرک ہے۔
دوم:
یا نبی سلام علیک کے کلمہ کے ساتھ قرآن و حدیث میں سلام بھیجنے کی روایت نہیں ہے
لہذا بدعت ہے۔ (صفحہ ٢٣)
یہ
دونوں دلیلیں اتنی مہمل اور لغو ہیں کہ اگر کسی صحیح الحواس عالم کی طرف منسوب کی
جاتیں تو یقیناً وہ اپنی سخت توہین سمجھتا، مگر آج کل بعض افراد جو لمبی چوڑی
سندیں دکھاتے ہیں ایسی ہی دلیلوں پر فخر کرتے ہیں اور اپنی علمیت کا قلعہ تعمیر
کرتے ۔ یا للعجب
پہلی دلیل:
یہ دلیل غلط ہے کیونکہ نماز جو خالصۃً اللہ رب العزت کی یاد و ذکر ہے''اقم الصلوۃ
لذکری'' نماز میر یاد کے لئے قائم کرو۔
(قرآن)
اس سلموا تسلیما کہہ کر حضور اکرم ﷺ پر سلام بھیجنا فرض کردیا گیا ہے اور بندوں کی
توجہ جو تنہا رب العزت پر مرکوز رہتی ہے ۔ ان نعبد اللہ کانک تراہ وان لم تکن تراہ
فانہ یراک۔ (اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اس
کونہیں دیکھتے تو وہ تم کو دیکھتا ہے)۔ حدیث۔ اندرون نماز رسول اللہ ﷺکی طرف توجہ
پھیری جارہی ہے تاکہ ان کی خدمت میں عرض سلام ہو اور سلام بھیجنے کا طریقہ بھی بڑا
روح نواز ہے یعنی حضور وخطاب کے صیغے سے السلام علیک ایھا النبی۔
یہی
سلام صحابہ اپنی نمازوں میں عرض کرتے رہے جب وہ حضور کے ساتھ ہوتے اور اس وقت بھی
ان ہی کلمات میں سلام عرض کرتے جب وہ تنہا نماز پڑھتے مسجد میں یا اپنے گھروں میں
اور یہی سلام اس وقت بھی عرض کرتے جب وہ حضور سے منزلوں دور سفارت، جہاد یا دوسری
اغراض سے کسی اور جگہ تشریف لے جاتے اور یہی سلام بہ صیغۂ خطاب شرق، غرب ،شمال
،جنوب کے تمام مسلمان اپنی نمازوں میں پیش کرتے ہیں۔ اس سلام سے حاضر و ناظر کا
عقیدہ پیدا ہوتا ہو تو ہو۔ دین تو وہی ہے جسے قرآن و حدیث دین کہیں۔ خواہ کسی صاحب
کو یہ ناپسند ہو اور وہ اسے شرک قراردیں۔ اگر اس سلام سے حضور سید عالم ﷺ کے حق
میں علم غیب ثابت ہوتا ہو تو ہونے دو دین تو یہی رہے گا جو خدا اور رسول کی تعلیم
ہے۔ اس کے خلاف صورت کسی کی نگاہ میں بہتر معلوم ہوتی ہے تو اس کی نگاہ کا قصور ہے
اور سراسر گمراہی ہے۔
حاضر
وناظر کا مسئلہ بھی عجیب ہے۔ قرآن نے تو ہمیں یہ سبق دیا ہے۔ وذروالذین یلحدون فی
اسمائہ۔ (ان لوگوں سے کنارہ کش رہو جو اللہ کے نام میں الحاد کرتے ہیں) لہذا کسی
کو اس کا حق نہیں کہ اپنی طرف سے اللہ رب العزت کے اسمائے حسنیٰ میں اضافہ یا کمی
کرے ایسا عمل الحاد کہلائے گا۔
اب ذرا
اللہ جلّ مجدہ کے ننانوے 99 ناموں کو جنہیں اسمائے حسنیٰ کہتے ہیں غور سے دیکھ
جائیے۔ آپ کو اس پاک مقدس فہرست میں حاضر، ناظر نہیں ملیں گے، کیا ظلم ہے کہ لوگ
اپنی طرف سے اللہ رب العزت کو دو مزید نام عطا کرنے کی جرأت کریں اور جو کوئی ان
کے نئے ناموں سے اللہ کو نہ پکارے اور اللہ کے حق میں ان ناموں کو خاص تسلیم نہ
کرے اس کو یہ لوگ الٹا مشرک اور بدعتی کہتے ہیں۔
اللہ
رب العزت کو ہم علیم و خبیر، سمیع و بصیر جانتے ہیں۔ بعض لوگ معنوی لحاظ سے حاظر و
ناظر دو مزید نام مذکورہ اسماء سے اخذ و اختراع کرکے اللہ تعالیٰ کو ان خود ساختہ
ناموں سے پکارتے ہیں۔ پھر بھی یہ نام اللہ رب العزت کے حق میں خاص نہیں کہلائیں گے
کیونکہ حاضر و ناظر ناموں کے اصول وبنیادی اسماء کی نسبت جب غیر اللہ کی طرف ہوتی
ہے اور قرآن مجید نے ان اسماء کی اضافت ماسوای اللہ کی طرف کی ہے تو پھر ان اسمائے
عامہ سے جو نئے دو نام نکالے جائیں گے ان پر خصوصیت و تعین کا حکم کیونکر
لگایاجاسکتا ہے نیز حاضر و ناظر جیسے نئے ناموں کو خاصۂ باری تعالیٰ کہنا حدیثوں
اور واقعات کے سراسر خلاف ہے۔
ملک
الموت ہر جاندار کے لئے حاضر و ناظر ہے اور اسی کتاب میں آگے چل کر آپ پڑھیں گے کہ
اللہ رب العزت نے ایک فرشتہ اس کام کے لئے پیدا کیا کہ وہ حضور اکرم ﷺ کے آستانۂ عظمت
میں متعین ہے اور اس فرشتے کی خاص صفت یہ ہے کہ تمام خلائق کے نام معہ ولدیت اس کو
معلوم ہیں۔ جب کوئی مومن کہیں سے بھی حضور پر صلوٰۃ و سلام بھیجتا ہے وہ پیشکار
بارگاہِ نبوت فرشتہ روضۂ انور ہی سے روئے زمین پر پھیلے ہوئے تمام مؤمنین کی
صلوٰۃ و سلام سن لیتا ہے اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں سلام بجالانے والے کے سلام
کو نام وولدیت کے ساتھ پیش کرتاہے۔
اسی
طرح جو فرشتہ لوگوں تک رزق پہنچانے پر متعین ہے۔ اس کی نگاہ کے سامنے ہر کِہہ و
مِہہ اور ہر جاندار ہر وقت موجود ہیں اور تمام لوگوں کو پورے علم و وثوق کے ساتھ
رزق پہنچاتاہے۔ لہذا حاضر و ناظر ہوجانے سے وہ فرشتۂ رزق خدا نہیں بن گیا۔
جو
فرشتہ ابر و باراں پر متعین ہے تمام کرّہ زمین اس کی نگاہ میں ہے ۔ حکم و مصلحتِ
الہی کے مطابق وہ پانی برساتا ہے حاضر و ناظر ہونے سے خدا نہیں بن جاتا۔
ہر میت
سے قبر و برزخ میں ربوبیت و رسالت کے متعلق نکیرین سوال کرتے ہیں اور بخاری شریف
کی روایت کے مطابق رسالت کے سوال کے وقت نکیرین حضور اکرم ﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہیں
اور اگر نکیرین بیک وقت ہر میت کے پاس موجود ہوں اور حضور اکرم ﷺ بھی مشارٌ الیہ
بن کر نظر آئیں تو اس حاضری و ناظری سے آنحضور اور نکیرین خدا نہیں بن گئے۔ آغاز
بعثت میں حضور جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ اپنی اکیلی ذات سے تمام زمین ،
تمام فضا اور تمام آسمان کو محیط ہیں جس طرف بھی حضور نظر اٹھاتے ہیں۔ جبرئیل ہی
جبرئیل دکھائی دیتے ہیں اور آپ کو خطاب کرکے کہتے ہیں یا محمد (ﷺ) انا جبریل و انت
رسول اللہ۔ تو کیا اس محیط اور حاضر و ناظر ہونے سے جبرئیل خدا بن گئے؟
حقیقت
یہ ہے کہ حاضر و ناظر نہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ ہیں اور نہ معنیٰ کے لحاظ سے
یہ اللہ جلّ مجدہ کے حق میں خاص ہیں جب کہ جبرئیل امین سے لے کر آپ کے آستانہ پر
متعین پیشکار فرشتے تک حاضر و ناظر ہیں۔
غور
فرمائیے کہ جب پیشکار دربار حاضر و ناظر ہوتو خود سرکار دربار کا کیا مقام ہوگا۔ سلموا
تسلیما اور دُور و نزدیک سے السلام علیک ایھا النبی کی تعلیمات و روایات کافی ہیں۔
جب تک
زندہ ہیں بہ صیغۂ خطاب حضور پر سلام بھیجتے ہیں اور مرنے کے بعد قبروں میں حضور
کو دیکھ کر تصدیقِ رسالت کریں گے۔ آمین۔ آمین۔ آمین۔
نہ اس
عالم میں حضور پر بہ صیغۂ خطاب سلام عرض کرنا خلافِ شریعت ہے اور نہ عالمِ آخرت
میں ہر میت کے لئے ایک ہی آن و لمحہ میں حضور کا دیدار مبارک محال و خلافِ شرع ہے۔
جب
نماز میں حضور کو مخاطب کرکے سلام عرض کرتے ہیں تو خارجِ نماز مخاطبت میں کیا
استحالہ یا فساد عقیدہ کی گنجائش باقی رہی ہے۔
زفرق
تابہ قدم ہر کجا کہ می نگرم کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجاست
اگر یہ
قوت و قدرت خاصۂ باری تعالیٰ ہوتی، تو غیر اللہ اس سے متصف نہیں ہوسکتے تھے۔ لہذا
دور و نزدیک کا دیکھنا اور سننا خاصّۂ باری تعالی نہیں رہا۔ اگر قرآن و حدیث کی
روشنی میں کوئی شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاضر و ناظر مانے اور ان پر حضور
و خطاب کے صیغے سے صلوٰۃ و سلام بھیجے تو ہر گز بدعتی و مشرک نہیں کہلائے گا بلکہ
منکرین افراد بدعت و ضلالت میں ماخوذ ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ سلموا تسلیما اور السلام
علیک ایھا النبی کی تعلیم و ہدایت کی مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں۔
دوسری
دلیل: یہ کہنا یا نبی سلام علیک کے کلمہ کے ساتھ عرض ِ سلام کی روایت نہ حدیث سے
ثابت ہے اور نہ قرآن مجید ہی میں ہے۔
یہ
دلیل تو پہلے سے بھی زیادہ لغو ہے کیونکہ نماز میں صلوٰۃ و سلام کی دو صورتیں ہیں۔
یکم تشہد اور درودِ ابراہیمی ۔ دوم ۔ قنوتِ حسن۔ لیکن نماز سے باہر صلوٰۃ و سلام
کے متعدد طریقے ہیں ان میں سے کسی کو متعین نہیں کیا جاسکتا بلکہ صلوٰۃ و سلام کی
اہمیت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اور طرزِ ادا میں ہر شخص آزاد ہے۔
اسی
لئے ہم دیکھتے ہیں اور سلف سے خلف تک مروج پاتے ہیں کہ جب کبھی حضور کا نامِ پاک
لینا ہو تو کتابوں میں لکھتے ہیں اور زبان سے دہراتے ہیں ''صلی اللہ علیہ وسلم''
اور آج تک کسی طرف سے اس کو بدعت نہیں کہا گیا۔
حالانکہ
جتنی روایتیں اس سلسلے میں ہیں، ان میں کسی جگہ اس طرح صلوٰۃ و سلام مروی نہیں ہے۔
الحاصل۔
ہم سب صلوٰۃ و سلام کے پابند ہیں اور خارج نماز کسی خاص طریقے کا تعین نہیں ہے۔
سلامِ
مخاطب
سلام
کی اصل پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اصل میں عرضِ سلام خطاب کے صیغے میں
بہتر ہے۔ چنانچہ جب آپ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بہ صیغۂ خطاب سلام کرتے ہیں۔
آپ جب کسی
دور دراز علاقہ میں مقیم دوست یا عزیز کو خط تحریر فرماتے ہیں تو السلام علیکم بہ
صیغۂ خطاب لکھتے ہیں۔
آپ
ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہیں تو بہ صیغۂ خطاب سلام کے بعد گفتگو شروع کرتے ہیں۔
آپ جب
کسی امریکی یا انگلستانی دوست کو ٹیلی وژن یا وائرلیس کے ذریعے مخاطب کرتے ہیں تو
بہ صیغۂ خطاب السلام علیکم کہےت ہیں حالانکہ ان تمام صورتوں میں آپ کا مخاطب
ہزاروں میل کے فاصلے پر ہوتا ہے مگر خط کے سلسلے میں آپ ڈاکخانے کے نظام پر اعتماد
کرتے ہیں حالانکہ کبھی خطوط ضائع بھی ہوجاتے ہیں۔ ٹیلی فون میں برقی طاروں پر اور
وائر لیس میں برقی لہروں پر آپ کا یقین ہے لہذا آپ غائب کو حاضر ماننے سے مشرک
نہیں بنتے ۔
اسی
طرح کوئی شخص اپنے گھر میں اندرونِ خانہ بیٹھا ہو، آپ دیوار کے پیچھے اور دروازے
کے باہر سے بہ صیغۂ خطاب السلام علیکم کہتے ہیں کیونکہ قرآن و حدیث نے یہی سکھایا
ہے اور یہ جرم نہیں ہے۔
پھر
کیا بات ہے کہ آپ نبی سلام علیک کو شرک و بدعت کہیں اور حاضر و ناظر کا جھگڑا کھڑا
کریں۔ جب کہ آپ ان مادّی ذرائع سے زیادہ قابل یقین ذریعہ فرشتوں کا ہے۔ ایک فرشتہ
تو حاضر و ناظر بن کر روضۂ انور پر متعین ہے۔ دوسری جماعت سیّاحین فرشتوں کی ہے
جو ہر جگہ سے درود و سلام کے پیغام جمع کرتے اور حضور کی خدمتِ اقدس میں پہنچاتے
ہیں اور حضور سید عالم ﷺ کی قوت و قدرت ۔ لطافت و نورانیت تمام فرشتوں کے مقابلے
میں بے اندازہ زیادہ ہے۔ آپ مقامِ دنیٰ کے سیاح ، قابِ قوسین کے تاجدار اور بالائے
عرش صاحبِ عرش کے مہمان رہ چکے ہیں جہاں حضرت جبریل علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی بھی رسائی نہیں۔ ؎
اگر یک
سِر موئے برتر پَرم فروغِ تجلی بہ سوز
دپَرم
جن
لوگوں کو حضور سے محبت ہے، ان کے دل عرضِ سلام کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ صلوٰۃ و
سلام کے حلقے قائم کرتے ہیں۔ محفلیں منعقد کرتے ہیں تنہا صلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں،
مگر محبوب کی یاد سے غافل نہیں رہتے اور دوسروں کو بھی محبوب کی یاد سے غافل نہیں
ہونے دیتے۔
رب سلم
! علی رسول اللہ
مرحبا!
مرحبا! رسول اللہ
احادیث
نبویہ
آیت
قرآنی صلو و سلموا کے متعلق اصول و قواعد سے بحث کرنے کے بعد ضروری ہے کہ کچھ
حدیثیں حوالے کے ساتھ پیش کردی جائیں تاکہ حکمِ الہی کو حدیثوں کی مدد سے سمجھنے
میں آسانی ہو۔ صلوٰۃ و سلام کی محفل و حلقہ کے بارے میں کوئی تذبذب اور شک ہے تو
ہمیشہ کے لئے دور ہوجائے اور ہم لوگ دنیا و آخرت میں حضور سید عالم ﷺ کے قرب و
نزدیکی کی سعادت حاصل کرکے ناجی و کامیاب ہوں۔
اور یہ
بھی معلوم ہوجائے کہ تشہد میں السلام علیک ایھا النبی واقعہ معراج کی محض نقل و
حکایت ہے یا فرمانِ الہی وسلموا تسلیما کی اپنی طرف سے شعور و ارادہ کے ساتھ تعمیل
اطاعت ہے۔
حدیث۔ عن
کعب بن عجرۃ قال قلنا یا رسول اللہ قد علمنا او عرفنا کیف السلام علیک! فکیف
الصلوۃ ؟ قال قولوا اللھم صل علی محمد و علی آل محمد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمید مجید۔
ترجمہ:
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بولے ہم لوگوں نے کہا یارسول اللہ
بے شک ہم سب جان چکے ہیں یا معلوم ہے کہ کس طرح آپ پر سلام عرض کریں۔ صلوٰۃ کس طرح
ہے؟ فرمایا تم سب کہو۔ اللھم صل علی محمد و علی آل محمد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمید مجید۔
(درود
ابراہیمی)
حدیث
مذکورہ میں علمنا کیف السلام علیک۔
ہم جان
چکے ہیں کہ'' کس طرح آپ سلام بھیجا جائے''اس حقیقت کی وضاحت کرتاہے کہ تشہد میں
السلام علیک ایھا النبی کہہ کر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ جو آپ پر بہ صیغۂ خطاب
سلام بھیجتے تھے۔ وہ نقل و حکایت نہ تھی بلکہ اپنی طرف سے ارادہ و نیت کے ساتھ
سلام بھیجتے تھے اور اس طرز عمل کو سلموا تسلیما کے اعلان میں برقرار رکھا گیا۔ صحابہ
ٔ کرام صلوٰۃ یعنی درود بھیجنے کے طریقے سے ناواقف تھے لہذا فرمان الٰہی صلوا کی
تعمیل و اطاعت کی راہ معلوم کرنے کے لئے یہ حضرات حضور سرور عالم ﷺ کی طرف متوجہ
ہوئے ۔ اور آپ نے درود ابراہیمی تعلیم فرمائی۔
چنانچہ
تمام محدثین اور سارے فقہا اور شارحین حدیث علمنا کیف السلام علیک۔ سے تشہد میں
مذکور السلام علیک ایھا النبی ہی مراد لیتے ہیں اور بہ صیغۂ خطاب بارگاہِ رسالت
میں عرضِ سلام کو نمازیوں کا عمل قرار دیتے ہیں۔
دوسری
روایتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ درودِ ابراہیمی کا اصل مقام نماز میں تشہد کے
بعد ہے۔ بہ الفاظ دیگر درودِ ابراہیمی تشہد کا تتمہ و تکملہ ہے۔ نماز سے باہر
صلوٰۃ و سلام کی کوئی معین صورت نہیں ہے بلکہ مومنین کو آزادی ہے کہ اپنی سہولت کے
پیشِ نظر جن کلمات میں چاہیں بارگاہِ رسالت میں صلوٰۃ و سلام بھیجیں صرف یہ لحاظ
رہے کہ اس بارگاہِ رفعت پناہ کی تعظیم و احترام میں کوئی فرق نہ آئے۔ مذکورہ بالا
روایت حدیث کی تمام کتابوں میں ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہما۔
حدیث ٢:
عن ابن
مسعود عن النبی ﷺ اذا تشہد احدکم فی الصلوۃ فلیقل الحدیث۔
(حاکم
۔ مستدرک۔ سنن۔ بیہقی)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام
نے فرمایا کہ جب تم میں کوئی شخص تشہد پڑھ چکے تو یہ کہنا چاہئے۔
اللھم
صل علی محمد و علی آل محمد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمید مجید۔
اس حدیث سے معلوم ہوگیا کہ درودِ ابراہیمی کا اصل موقع نماز
ہے اور وہ بھی تشہد کے جزو ثانی کی حیثیت
سے کیونکہ تشہد سلام کو شامل ہے اور درود ابراہیمی صلوٰۃ ہے اور دونوں مل کر صلوا
علیہ سلموا تسلیما کی راہ متعین کرتے ہیں۔
صلوٰۃ کے لئے کوئی صیغہ بھی اختیار کریں مگر سلام کے لئے
حضور و خطاب بہتر ہے۔ اس روایت کی سند میں ایک شخص "حارثی" ہے جس کے
حالات معلوم نہیں ہیں مگر پہلی روایت کے ساتھ اس روایت کی معنوی وابستگی استناد و
قبول کے لئے کافی ہے۔
حدیث ۳:
عن ابن مسعود ۔۔۔کیف نصلی علیک اذا نحن صلینا علیک فی
صلوٰتنا وفی روایۃ کیف نصلی علیک فی صلوٰتنا۔
(ابن حبان، حاکم، بیہقی، ابن خزیمہ، دارقطنی)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت
ہے کہ صحابہ نے حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دریافت کیا کہ ہم لوگ کس
طرح آپ پر درود بھیجیں، جب درود بھیجیں آپ پر اپنی نمازوں میں؟ اور ایک دوسری
روایت میں ہے کہ کس طرح ہم لوگ درود بھیجیں آپ پر نمازوں میں ؟ تو آپ نے درود
ابراہیمی تعلیم فرمایا اور تشہد کے ساتھ اس کو تکملہ قرار دیا۔ اس روایت میں تصریح
آگئی ہے کہ درود ابراہیمی کا اصل موقعہ نماز ہے اور وہ بھی تشہد کے تتمے اور
ضمیمے کی حیثیت سے تاکہ صلوا علیہ وسلموا تسلیما کی نماز میں تعمیل ہوسکے۔
حدیث ۴: قال علیہ السلام البخیل من ذکرت عندہ فلم یصل علی۔
(ترمذی، نسائی، ابن حبان، حاکم)
ترجمہ: حضور ﷺ نے فرمایا بخیل وہ ہے جس کے نزدیک میرا ذکر
ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔
حضور ﷺ کا نام سن کر آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا عام حکم ہے
چنانچہ جو لوگ نمازوں میں درود واجب کہتے ہیں وہ اس منشور عام کی بناء پر تشہد کے
ساتھ درود پڑھنا فرض قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ تشہد کے اندر شہادتین میں حضور اکرم
علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پاک زبان پر آچکا ہے اور بخیلی کی سزا سے بچنا ضروری
ہے۔ فقہاء و محدثین کے اس استدلال کی بناء پر اذان کے بعد بھی دعائے وسیلہ سے پہلے
صلوٰۃ و سلام ضروری ہے جیسا کہ آئندہ صفحات میں معلوم ہوگا۔
اذان کے بعد متصلاً درود بھیجنے کی صریح روایت بھی موجود
ہے۔
صلعم کا گناہ
خدارا اس روایت کو دینی شعور اور ایمانی احساس کو بیدار
کرکے پڑھیئے اور بار بار پڑھیئے جو لوگوں میں رواج پاگیا ہے کہ حضور ﷺ کے نام پاک
کے بعد صلوٰۃ و سلام نہیں لکھتے ہیں اور اپنی سہولت کے لئے صلعم لکھ دیتے ہیں کیا
بارگاہِ رسالت میں اپنی بخیلی کا اظہار نہیں ہے؟
اللہ رب العزت نے اس بارگاہِ رفعت کے جو آداب سکھائے ہیں۔
تعظیم و توقیر کا حکم دیا ہے اور صلوٰۃ و سلام کا فرمان نافذ کیا ۔ کیا یہ لفظ
صلعم اس کے خلاف نہیں ہے؟ صلعم کسی زبان کا معتبر لفظ نہیں ہے۔ یہ سہل انگاروں اور
بخیلوں کی اپنی اختراع ہے لہذا نامِ پاک
کے بعد صلعم لکھ کر یہ سمجھنا ہ فرمان
صلّوا علیہ و سلموا تسلیما کی تعمیل ہوگئی اور سزائے بخل سے محفوظ ہوگئے سخت
ناعاقبت اندیشی ہے۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جو لوگ کامل صلوٰۃ و
سلام نہیں لکھتے اور مخفف الفاظ پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ وقت، محنت ، کاغذ اور روشنائی بچائیں۔ ان
کو سمجھنا چاہئے کہ اس بخل کی اگر کوئی اور سزا بھی نہ ملے صرف اتنا ہو کہ بروز
قیامت آپ شفاعت میں کمی کریں تو ان تخفیف کرنے والوں کا کیا حال ہوگا؟
افسوس کا مقام ہے کہ صلعم کا استعمال ایک گناہِ عام بن
گیاہے۔ عالم و عامی بکثرت اس میں مبتلا ہیں جس نے اس رسمِ بد کی بنیاد ڈالی اس کا
کیا حال ہوگا؟ برصغیر ہندو پاک میں یہ بدعت سیئہ ندوہ کی لائی ہوئی ہے۔
ایک طرف فرمانِ صلوٰۃ کے لئے قرآن نے اللہ و ملائکہ کی
صلوٰۃ کو بطور تمہید پیش کیا اور حکمِ سلام کو مفعول مطلق کے ذریعے مؤکد کیا دوسری
طرف مدعیانِ ایمان کا یہ حال ہے کہ منشاء قرآنی کو نظرانداز کرکے صلعم بے معنی لفظ
انہوں نے اپنی طرف سے ڈھال لیا اور یہ جعلی سکہ بازاروں میں چلادیا خود بھی ڈوبے
اور دوسرے مسلمانوں کو بھی لے ڈوبے۔
اگربہ نگاہِ غائر دیکھا جائے حضور ﷺ کے نامِ پاک کے ساتھ
ایک بے معنی اور مہمل لفظ لکھنا صرف قرآن و حدیث کی مخالفت ہی نہیں ہے۔ بلکہ نام
پاک کی توہین ہے ۔ کون بندۂ مومن نامِ پاک کی توہین کرے گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے نامِ پاک کے ساتھ سلام و صلوٰۃ میں کوتاہی کا نتیجہ صرف فتوایٔ بخل نہیں
ہے بلکہ آئندہ حدیثوں میں دیکھیں گے کہ ایسے غافل کے حق میں جبریل امین نے جنت سے
محرومی کی دعا کی اور حسبِ فرمان الہی
حضور سید عالم ﷺ نے آمینی کہی۔
حدیث ۵:
قال علیہ السلام لا صلوٰۃ الا بطھور والصلوٰۃ علیّ۔(دار
قطنی، بیہقی)
ترجمہ:
حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ نماز وضو اور مجھ پر درود
کے بغیر نہیں ہوتی۔
اس روایت میں عمرو
اور جابر جعفی دو ایسے راوی ہیں جن پر محدثین کو اعتبار نہیں ہے لیکن یہ روایت بھی
صحیح روایتوں کے ہم معنی ہے لہذا شواہد کی حیثیت سے قابلِ قبول ہے۔
رہی یہ بات کہ نماز
میں درود بھیجنے کا کیا طریقہ ہے تو یہ بات اگلی روایتوں سے واضح ہوچکی ہے کہ
درودِ ابراہیمی تشہد کے تکملہ کی حیثیت سے پڑھنا چاہئے۔
حدیث ۶: عن محإد بن علی ۔۔۔۔۔۔قال علیہ السلام من صلی صلاۃ لم یصل فیھا علی وعلی اھل بیتی لم
تقبل منہ۔ (دار قطنی)
ترجمہ: امام زین العابدین
کے صاحبزادے امام محمد باقر راوی ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس کسی نے
نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہلِ بیت پر اس نماز میں درود نہیں بھیجا تو اس کی
وہ نماز قبل نہیں کی جائے گی۔
حدیث ۷: عن جابر بن سمرۃ صعد النبی ﷺ المنبر فقال
امین،امین،امین، فلما نزل سئل عن ذالک فقال اتانی جبریل الحدیث۔ (بزار)
ترجمہ: حضرت جابر بن سمرہ راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ ممبر پر
تشریف لے گئے اور آمین، آمین، آمین کہا تو جب آپ اترے تو اس کے متعلق پوچھا گیا تو
آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے (پوری حدیث آئندہ آرہی ہے) ۔
اس حدیث کی سند میں ایک راوی اسمعیل بن ابان ہے جو متعبر
نہیں ہے مگر دوسری معتبر حدیثوں اور معتبر سندوں سے اس روایت کے مضمون کی تائید
ہوتی ہے لہذا محدثین کے اصول پر قابلِ قبول ہے۔
حدیث ۸: عن کعب بن عجرۃ قال علیہ السلام احضروا المنبر
فاحضرنا فلما ارتقیٰ درجۃ قال آمین فلما ارتقی الدرجۃ الثانیۃ قال آمین فلما ارتقی
الدرجۃ الثالثۃ قال آمین ۔ فلما نزل قلنا یا رسول اللہ لقد سمعنا منک الیوم شیئا
ما کنا نسمعہ قال ان جبریل عرض لی فقال
بعد من ادرک رمضان۔ (حاکم)
حاکم نے اپنی مستدرک میں یہ حدیث حضرت کعب بن حجرہ سے روایت
کی ہے کہ حضور ممبر پر تشریف لے جاکر تین بار آمین کہہ کر اتر آئے۔
(پوری حدیث دوسری سند سے آئندہ آرہی ہے)۔
حدیث ۹: صعد رسول اللہ ﷺ المنبر فلما رقیٰ عتبۃ قال آمین ،
ثم رقیٰ اخریٰ فقال آمین، ثم رقیٰ عتبۃ ثالثۃ فقال آمین ثم قال اتانی جبریل
فقال یا محمد (ﷺ) من ادرک رمضان فلم یغفرلہ فابعدہ اللہ فقلت آمین ۔ ومن ادرک
والدیہ او احدھما فدخل النار فابعدہ۔ قال ومن ذکرت عندہ فلم یصل علیک فابعدہ اللہ قل آمین فقلت آمین۔
(صحیح ابن حبان)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ ممبر پر تشریف لے گئے تو جب پہلے زینے
پر قدم رکھا، فرمایا آمین۔ پھر دوسرے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا۔ آمین پھر تیسرے
زینے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین ۔ بعدہ ارشاد ہوا کہ میرے پاس جبریل آئے اور کہا
کہ اے محمد (ﷺ) جو کوئی رمضان کامہینہ پائے
اور اس کی مغفرت نہ ہوئی تو اللہ اس کو رحمت سے دور رکھے۔ میں نے کہا آمین۔
اور جو کوئی والدین یا ان میں سے کسی ایک کا زمانہ پائے پھر بھی جہنم میں گیا تو
اللہ اس کو رحمت سے دور رکھے میں نے آمین کہی۔ جبریل نے کہا جس کے سامنے آپ کا ذکر
آئے اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے تو اللہ اس کو رحمت سے دور رکھے کہیے آمین۔ تو میں
نے آمین کہی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان کا روزہ اور اس ماہ کے حقوق
کی نگرانی فرض ہے اور نتیجے میں مغفرت ضرور ہوتی ہے۔ جس کا دفتر گناہ رحمت کی اس
موسلا دھار بارش میں بھی نہ دھلا اس سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں۔
اسی طرح ازروئے قرآن والدین کی اطاعت ، ان کے ساتھ حسنِ
سلوک اور ان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا فرض ہے اور نتیجے میں جنت ملتی ہے ۔
جس کسی کو والدین کی خدمت کا موقع ملا پھر بھی اپنی بدنصیبی
سے جہنم ہی کا مستحق رہا تو اس سے زیادہ بدبخت اوربد نصیب کون ہے۔
تیسری بددعا کا رخ اس شقی کی طرف ہے جس کے سامنے حضور صاحبِ
لولاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکرہوا اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے اس بد دعا پر جناب رحمۃ اللعالمین علیہ الصلوٰۃ
والسلام متامل ہوئے لیکن جبرئیل نے قل"کہئے" کہہ کر آپ کی
زبان سے آمین کہلائی۔
اگلے دونوں مسائل کے ساتھ اس تیسرے مسئلے کو رکھ کر دیکھئے
تو معلوم ہوگا کہ درود و سلام بھی انہی
جیسا فریضہ ہے۔ درود و سلام سے جنت یقینی ملتی ہے اور غافل و قصور وار پر شقاوت کی
مہر لگتی ہے کیونکہ غافلوں کے حق میں جبریل کی بددعا اور رحمۃ اللعاملین کی آمین ہے۔
غور فرمائیے کہ جو لوگ صلوٰۃ و سلام سے غفلت کرتے ہیں ، یا
ایک مہمل، بے معنی لفظ صلعم پر معاملے کو ٹال دیتے ہیں کتنے اندوہناک خسارے میں
ہیں۔
چنانچہ محدثین و فقہاء کے نزدیک حضور علیہ الصلوٰۃ ووالسلام
کا نام لینے ، سننے اور لکھنے کے بعد صلوٰۃ
و سلام فرض ہوجاتاہے۔
حدیث ۱۰: عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان النبی ﷺ ارتقی علی المنبر الحدیچ ۔ (طبرانی)
مذکورہ بالا روایت محدث طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عباس کی سند سے روایت کی ہے۔
حدیث ۱۱: محدث ابن خزیمہ نے بھی مذکورہ حدیث اپنی کتاب میں
روایت کی ہے۔
حدیث ۱۲: ترمذی بھی
اسی مضمون کی حدیث اپنی کتاب میں روایت کرتے ہیں مگر ممبر پر آمین کہنے کے بدلے
الفاظ دوسرے ہیں۔
قال رسول اللہ ﷺ رغم انف رجل ذکرت عندہ فلم یصل علیہ و رغم
انف رجل ادرک رمضان ولم یغفرلہ و رغم انف رجل عندہ ابویہ الکبر فلم یدخلاہ الجنۃ۔ (ترمذی)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے فرمایا کہ اس شخص کی ناک خاک آلود ہوجس کے سامنے میرا ذکر ہوا اور وہ
مجھ پر درود نہ بھیجے اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے رمضان آکر گزرگیا
اس سے پہلے کہ اس کے گناہ معاف ہوں۔ اور اس کی ناک خاک آلود ہو جو والدین کے بڑھاپے کو پائے اور وہ
دونوں اسے جنت میں داخل نہ کرائیں۔
حدیث ۱۳:
قال علیہ السلام
الا اخبرکم بابخل الناس؟ قالوا بلی
یارسول اللہ ﷺ! قال من ذکرت عندہ فلم یصل علی فذالک ابخل الناس۔ (ابن ابی
عاصم)
ترجمہ: حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ لوگو! کیا میں تم کو
نہ بتادوں کہ سب سے زیادہ بخیل کون ہے؟
صحابہ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! تو آپ نے فرمایا کہ وہی شخص سب سے زیادہ بخیل
ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہوا اور وہ مجھ پر صلوٰۃ نہ بھیجے۔
غور فرمائیے کہ جو لوگ بخل کی وجہ سے دنیاوی مال و متاع میں مساکین کے حقوق ادا نہیں کرتے ان کے بارے میں قرآن مجید
سخت سزاؤں کا اعلان کرتاہے لیکن صلوٰۃ و
سلام میں بخل کرنے والے اور اللہ کے حبیب کا حق ادا نہ کرنے والے جب صادق امین
علیہ الصلوٰۃ و السلام کی زبان میں سب سے
زیادہ بخیل ہیں تو بدترین بخیلوں کا کہاں مقام ہوگا۔
حدیث ۴: میں غافلوں کو بخیل کہا گیا اور اس روایت میں
ابخل کا لفظ ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ
تارکین درود و سلام کو محض ناراضگی کی وجہ سے
بخیل و ابخل نہیں کہاجارہا بکہ بخل
کے پست ترین مقام میں واقعی ان کو رکھنا مقصود ہے۔
حدیث ۱۴:
قال علیہ السلام
شقی من ذکرت عندہ فلم یصل علیّ (طبرانی)
ترجمہ: ارشاد ہے کہ وہ شقی و بدبخت ہے جس کے سامنے میرا ذکر
ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔
حدیث ۱۵: قال علیہ السلام من ذکرت عندہ فخطی الصلوٰۃ علی فاخطی طریق
الجنۃ۔ (طبرانی، ابن ماجہ، ابن ابی عاصم)
ترجمہ: حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ جس کے سامنے میرا ذکر
ہوا اور اس نے مجھ پر صلوٰۃ بھیجنے میں غلطی کی تو وہ راہِ جنت سے بھٹکا۔
حدیث ۱۶: عن علی قال کل دعا محجوب حتی یصلیٰ علی محمد ﷺ۔ (طبرانی)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ ہر دعا حجاب میں رہتی ہے تاآنکہ سیدنا حضرت محمد ﷺ پر درود
بھیجاجائے۔
حدیث ۱۷: عن عمر ابن خطاب ان الدعاء موقوف بین السماء
والارض لایصعد منہ شیٔ حتی یصلیٰ علی نبیک
(ﷺ)۔
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے
دعائیں آسمان اور زمین میں معلق رہتی ہیں ان میں سے کچھ بھی اوپر نہیں جاتیں
تاآنکہ تمہارے نبی ﷺ پر درود بھیجا جائے۔
ایک نکتہ
قرآن مجید میں جو
ارشاد ہے: الیہ یصعد الکلم الطیب۔ اللہ کی طرف کلمات طیبہ صعود کرتے ہیں سیدنا
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی روایت کی روشنی میں
ایسا معلوم ہوتاہے کہ کہ صلوٰۃ و سلام
ہی کلمات طیبہ کی اصل ہے کیونکہ
دعائیں جنہیں حدیثوں میں عبادت کا جوہر و
مغز کہا گیا ہے اور قرآن میں اصل عبادت
قرار دی گئی ہیں ، بارگاہِ صمدیت میں رسائی کے لئے صلوٰۃ وسلام کی محتاج ہیں۔ اس
کے بغیر سند قبول تو کیا حاصل کریں گی اس رفیع الشان آستانے کی طرف صعود بھی نہیں
کرتی ہیں۔
بہ الفاظ دیگر دعائیں عبادت ہیں اور عبادت کی جان و روح ہیں
صلوٰۃ وسلام ہے۔ حق ہے کہ لا الہ الااللہ تک محمد رسول اللہ (ﷺ) کے بغیر رسائی کا
خیال کفر و بے دینی ہے۔
خلاصہ۔
مذکورہ بالاحدیثوں
اور آیاتِ قرآنی سے صلوٰۃ وسلام کے متعلق حسب ذیل ہدایات ملتی ہیں۔
۱۔ قبول دعا کے لئے صلوٰۃ و سلام ضروری ہے۔
۲۔ نماز صلوٰۃ و سلام کے بغیر نہیں ہوتی یا مقبول نہیں
ہوتی۔
۳۔ حضو سید عالم ﷺ کا نام پاک جب لیا جائے تو ذاکر و سامع
سے جو کوئی بھی صلوٰۃ و سلام ترک کرے گا عذا ب کا مستحق ہوگا۔
۴۔ خارج نماز صلوٰۃ و سلام کا معین طریقہ نہیں ہے۔
الف۔ صلوٰۃ و سلام بالجہر یعنی کھلی آواز سے بھی درست ہے۔
ب۔ بالسر یعنی آہستہ بھی صلوٰۃ و سلام درست ہے۔
ج۔ بصیغۂ ماضی اور بصیغہ امر یعنی دعا جملہ فعلیہ،
انشائیہ، اور اسمہ کی صورت میں بھی صلوٰۃ و سلام جائز ہے۔ مثلاً
صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ علیہ۔ اللھم صلِّ علیہ۔
اللھم سلِّم علیہ۔ علیہ الصلوٰۃ و السلام
۔ علیک الصلوٰۃ والسلام ۔ یا ۔ الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔
د۔ بہ صیغۂ خطاب بھی صلوٰۃ و سلام درست ہے اور بصیغۂ غائب
بھی جائز ہے۔
ہ۔ درود ابراہیمی دراصل تشہد کے سلام السلام علیک ایھا
النبی کا تتمہ و تکملہ ہے۔
و۔ درود ابراہیمی کا اصل محل نماز ہے۔
ز۔ تشہد میں السلام علیک ایھا النبی محض حکایت و نقل نہیں
بلکہ ہر نمازی بالارادہ اپنی طرف سے حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سلام
بھیجتا ہے اور سلام بھیجنے کا یہ طریقہ صحابہ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
سکھایا تھا۔
کیونکہ صحابہ کا کہنا قد علمنا کیف نسلم علیک (بیشک جان چکے کہ ہم کس طرح آپ پر سلام بھیجیں)
سے واضح ہوگیا کہ تشہد میں السلام علیک ایھا النبی صحابہ کی طرف سے حضور علیہ
الصلوٰۃ و السلام پر بھیجاجارہاہے لہذا بصیغہ خطاب یانبی سلام علیک ۔ یاحبیب سلام
علیک یارسول سلام علیک صلوات اللہ علیک۔ کو آنحضرت ﷺ پر سلام بھیجنے کا ناپسندیدہ
طریقہ ،غیر شرعی اورغیر مستحسن طریقہ کہنا بالکل غلط ہے۔ اور اس خصوص میں حاضر و
غائب کا جھگڑا کرنا صحابہ کی متفق
روش سے علیحدگی ہے کیونکہ صحابہ
کرام حضور علیہ السلام کے سامنے اور آپ کی غیبت
میں فرمان الہی
سلموا تسلیما
کی تکمیل اپنی تمام نمازوں میں تشہد کے اندر السلام علیک
ایھا النبی کے کلمات ہی سے کرتے رہے اور کبھی حضور کی عدم موجودگی و غیبت کا ان کے دل میں خیال تک نہ آیا۔ وفاتِ
نبوی کے بعد اگر کوئی کسی شاذ روایت میں جس کی سند بھی معتبر نہ ہو کسی ایسی بات
کا پتہ دے کہ دو ایک افراد نے بطور خود تشہد میں سے خطاب کا کلمہ "علیک" نکال دیاتھا تو ایسی روایتیں ان صحابی اور تابعی
پر اتہام کی حیثیت رکھتی ہیں۔
امام بخاری نے تشہد اور مصافحہ کے آداب میں یہ روایت بیان
کی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کو حضور نے مصافحہ کی حالت میں جو دونوں ہاتھوں
سے تھا تشہد کی تعلیم دی جس میں السلام علیک ایہا النبی ہے۔ اس سے آگے حضرت ابن
مسعود کا بیان ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ہم لوگ السلام علیک
ایہا النبی کے بدلے السلام علی النبی کہنے لگے۔ محدثین کے اصول سے السلام علی
النبی کا اضافہ معتبر نہیں ہے کیونکہ حضور علیہ السلام کا تعلیم کردہ تشہد و سلام
تو متعدد راویوں اور ۴۲ صحابہ سے مروی ہے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد
ترمیم سے متعلق متن حدیث میں اضافے کی تائید کسی اور روایت سے نہیں ہوتی۔ لہذا
روایت مشہورہ سے علیحدگی اور تفرد کی
تائید جب تک شواہد و متابعات سے حاصل نہ ہو ، وہ اضافہ مقبول نہیں۔
بعض غیر مقلدین آج کل السلام علی النبی اختیار کرتے ہیں خدا معولم ان کا یہ فعل
کن جذبات کی طرف اشارہ کررہا ہے مگر روایت مشہورہ سے علیحدگی اور کسی ایک بیان کا
اصل روایت میں اندراج و اضافہ جس کی کسی دوسری صحیح روایت سے تائید نہیں ہورہی ہو
اور یہ اضافہ صاف صریح تعلیم نبوی کے خلاف
ہو اور منشأ قرآنی سے الگ ہو کر اختیار
کرنا غیر مقلد کی شان تو ہوسکتی ہے کسی اہلحدیث کا مذہب نہیں ہوسکتا۔ مزید تعجب ہے
کہ اس روایت میں جس قدر حصہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متعلق ہے غیر مقلدین اس
کو خلافِ سنت کہتے ہیں مثلاً حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ
فرمایا اور اس مصافحہ کی حالت میں سیدنا عبداللہ بن مسعود کو تشہد کی تعلیم دی۔ غیر مقلدین
نہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کو سنت کہتے ہیں اور نہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلیم کردہ
تشہد کو اختیار کرتے ہیں اور بعد کے کسی راوی کے الحاق پر دھیان دیتے ہیں اور اس
کو اپنا مذہب بناتے ہیں۔ خود امام بخاری
نے اس حدیث سے دونوں ہاتھوں کا مصافحہ ثابت کیا ہے اور حدیث سے پلے کتاب کا
عنوان ‘‘دونوں ہاتھوں سے مصافحہ’’ قرار دیا ہے۔ ان کا اپنا طریقہ بھی دونوں ہاتھوں
سے مصافحہ ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود
سابقین اسلام میں ہیں جب یہ ایمان لائے تو اس وقت روئے زمین پر کل ۶ مسلمان
تھے ۔ قرآن و حدیث کے علم میں بہت ممتاز تھے۔ حضور علیہ السلام نے حکم دیا کہ لوگ عبداللہ بن مسعود سے دین کی
تعلیم اور قرآن کا علم حاصل کریں۔ حضرت عمر نے اپنی خلافت میں عبداللہ بن
مسعود کو کوفہ میں قرآن و حدیث کی تعلیم
کے لئے مقرر کیا۔ حضرت علی و عثمان کے زمانے میں بھی یہ قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے رہے چنانچہ امام ابو حنیفہ کی فقہ و مذہب
انہی عبداللہ بن مسعود کی تعلیمات اور روایتوں پر قائم ہے جس کتاب کو یعنی بخاری
شریف کو غیر مقلدین مانتے ہیں وہ بھی دوحنفی محدثین کی تائید و تصدیق سے مستند ہے اگر ان دونوں حنفیوں کا اعتبار ختم ہوجائے تو
خود بخاری شریف کا اعتبار ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ صحیح بخاری کو امام بخاری سے علامہ فربری روایت کرتے ہیں اور اس کتاب کی
تصدیق ان کے دو حنفی ساتھی ہمروایت کے بیان و روایت سے ہوتی ہے اگر ان دونوں
حنفیوں کو نظرانداز کردیا جائے تو بخاری کی روایت صرف محدث فربری سے ہوگی اور ان
کی تنہا روایت سے بخاری کا اعتبار ختم ہوجائے گا اور دونوں حنفیوں کی وجہ سے بخاری
کے تین راوی ہوجاتے ہیں جس سے کتاب کا اعتبار قائم رہتاہے۔
اگر اس قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نکالی جاسکتی تھی تو
بلاشبہ حضور سید عالم ﷺکے دوران تبلیغ میں بھی اس کی تفصیل و وضاحت کا موقع تھا ایسی بات تو نہیں ہے کہ تمام
مسلمان بلکہ تمام صحابہ ہمیشہ حضور ہی کے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے اور جب حضور سے
علیحدہ کہیں دور دراز مقامات پر دینی یا معاشی اغراض کے لئے جاتے تو نمازیں ترک
کردیتے تھے۔ حق تو یہ ہے کہ جن صحابہ کی شان میں قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے کہ
تراھم رکعا سجدا (تم ان کو بکثرت رکوع و سجدہ کرنے والا دیکھو گے) یعنی صحابہ کرام
کے جو اوقات بیداری ،طلب معاش سے بچے رہتے تھے، ان کو دو ہی کاموں میں صرف کرتے
ہیں نماز یا آستانہ رسالت پر حاضری اور بس۔
یہ صحابہ عہدِ نبوی
میں ہمیشہ بہ صیغہ خطاب تشہد میں سلام بھیجتے تھے اور عہد نبوی کے بعد سب
نے جس نماز کی تعلیم اوروں کو دی اس میں بھی تشہد بہ صیغہ خطاب سلام پر مشتمل ہے
۔ پھر کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ حضور سید عالم ﷺ کی صاف و صڑیح تعلیم کے مقابلے میں کوئی صحابی اپنی طرف سے اس تعلیم میں ترمیم
کردے اور جس بنیاد پر یہ ترمیم کسی صحابی کی طرف منسوب کی جارہی ہے وہ بنیاد پورے
دورِ تبلیغ میں ہمیشہ موجود رہی مگر حضور علیہ السلام سے ایسی کسی ترمیم کی روایت منقول نہیں ہے۔
حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ متفق علیہ روایتوں اور تعامل امت کے خلاف کوئی صاحب اپنے آپ کو
اہلحدیث و متبع حدیث کہنے کے بعد ان روایتوں میں ترمیم گوارا کریں ایک طرف تو
بخاری و مسلم کے مقابل دوسری کتب حدیث کی
صحیح و مرفوع روایتوں کو قبول کرنے میں جھجکتے ہیں اور دوسری طرف غیر یقینی روایت
کو بطور سند پیش کرتے ہیں۔ آخر یہ طریق
کار دل کے کن جذبات کی غمازی کرتاہے؟ خود عبداللہ ابن مسعود نے اپنے شاگردوں کو ہمیشہ السلام علیک ایہا
النبی والے تشہد کی تعلیم دی اور یہی
تعلیم ان کے سلسلے کے تابعین ، تبع تابعین
، آئمہ و مجتہدین میں آج تک رائج ہے۔
بالخصوص فقہائے حنفیہ اور تمام اہلِ کوفہ جن میں رہ کر ابنِ مسعود نے دین کی تعلیم
دی اسی پر وہ متعین تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلامؤمن تھے۔
فقہا و محدثین کی رائیں
تمام فقہا و محدثین اس مسئلہ میں متفق ہیں کہ صلوٰۃ وسلام
بزرگ ترین عبادت اور تقریب الہی کا اعلی ترین ذریعہ ہے لیکن ان کے درمیان جن مسائل
میں اختلاف ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
نماز میں تشہد کے بعد درود واجب ہے۔ درود کے بغیر نماز نہیں
ہوگی۔ مذکورہ ذیل حضرات کا یہی فتویٰ ہے:
سیدنا عمر فاروق۔ سیدنا عبداللہ بن عمر۔ سیدنا عبداللہ بن
مسعود۔ سیدنا جابر بن زید شعبی۔ محمد بن کعب قرظی۔ امام شافعی۔ امام احمد بن حنبل۔
اسحق بن راہویہ۔ قاضی ابو بن عربی اور اہلبیت میں امام باقر ہادی۔ قاسم رضی اللہ
تعالیٰ عنہم اجمعین۔
مندرجہ بالا حضرات کے علاوہ جمہور امت کے نزدیک نماز میں
درود واجب نہیں ہے ۔ ان میں امام ابو حنیفہ ، امام مالک۔ امام ثوری۔ امام اوزاعی
اور اہل بیت میں ناصر و دیگر آئمہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین۔ دونون راویوں کا
خلاصہ یہ ہے کہ مطلق درود سلام تو واجب ہے مگر محل و مقام کے تعیین میں اختلاف ہے۔
راقم الحروف جیسا کہ آغاز کتاب میں اصولی بحث کی حیثیت سے
واضح کرچکا ہے کہ فرائض غیر معینہ میں یہ ایک بڑی نعمت ہے کہ فرمان الہی کی
تعمیل جب بھی کی جائے ہمیشہ ادائے فرض کا
ثواب ملتاہے اور صلوٰۃ وسلام فراءض غیر معینہ میں سے ہیں لہذا ان کا ثواب ہمیشہ
فرض صلوٰۃ وسلام کا ہوگا۔
جن ائمہ نے نماز میں تشہد کے بعد درود ابراہیمی کو فرض قرار
نہیں دیا ان کے نزدیک تشہد میں السلام علیک ایہا النبی میں سلام کا کلمہ صحت نماز
کے کافی ہے۔ کیونکہ صلوٰۃ و سلام جداگانہ
طور پر جب بھیجے جائیں تو زیادہ فضیلت ہوگی ورنہ ہر دو کلمہ معناً ایک دوسرے کی
نیابت بھی کرتے ہیں ۔ لہذا السلام علیک ایہا النبی میں صلوٰۃ و سلام دونوں شامل ہوگئے اور تشہد کو نماز میں
واجب کہتے ہیں صلوٰۃ کی تعلیم بعد میں دی
گئی پہلی تمام نمازیں درود کے بغیر تھیں
اور درست و کامل تھیں تشہد میں السلام علیک ایہا النبی کافی ہے درود کے اضافہ سے
نماز کے ثواب و نورانیت میں اضافہ ہوگا لہذا تشہد واجب اور درود سنت ہے۔
وسیلہ و استعانت
عہد نبوی میں تمام مسلمان
(صحابہ ) اپنی امیدوں کا مرکز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سمجھتے تھے ۔
بارش نہیں ہوتی تو حضور علیہ السلام سے عرض کرتے
ہیں اور بارش طوفانی صورت اختیار کلے تو حضور علیہ السلام سے درخواست کرتے
ہیں۔ اثنائے سفر میں جب بیابان و صحرا میں پانی کی حاجت ہو تو حضور علیہ السلام سے
ملتجی ہوتے ہیں۔ یہی طریقہ صحابہ کا رہا اور ان کے بعد امت کا یہاں تک کہ مسلمانوں
میں ایک نئی ٹولی پیدا ہوگئی اور اس نے اللہ سے اللہ کے رسول علیہ السلام کو جدا
کیا۔ اولیائ کو رسول علیہ السلام سے جدا کیا اور اعلان کیا کہ اپنی حاجتیں اگر
اللہ کے بندوں کے پاس لے گئے تو مشرک ہوگئے اور حکم دیا کہ ساری کائنات کو اللہ کا
غیر سمجھو اور غیر بھی ایسا جس کو خداکی بارگاہ میں کوئی عزت اور شنوائی نہیں
حالانکہ یہی لوگ اپنی حاجتوں کو دنیا والوں کے پاس لے جاتے ہیں۔ کھانے ، کپڑے ،
وغیرہ کے لئے غیروں سے طالب امداد ہوتے ہیں۔ مدرسہ چلانے کے لئے در در چندہ مانگتے
پھرتے ہیں تاکہ اپنی تنخواہ سیدھی کریں۔
توسل و استعانت کے بغیر دنیاوی زندگی میں ایک دن بھی بسر
ہونا محال ہے۔ ملازمتوں کے حصول، بیماری کے علاج، اسباب خوردو نوش ، لباس ، مسافت،
زادرا الغرض دنیامیں کوئی انسان اپنی ضروریات زندگی و مسائلِ حیات میں دوسرے انسانوں سے مستغنی نہیں بلکہ سارا
نظام کائنات باہمی اعانت و استعانت پر قائم ہے۔ لہذا استعانت بالغیر مطلقہ حرام و
شرک نہں چنانچہ حالاتِ زندگی کے مطالعہ سے مجبور ہوکر بعض نادانوں نے استعانت بالغیر کی تقسیم کردی
اور فرمایا کہ دنیاوی معاملات میں تحت
الاسباب استعانت جائز اور فوق الاسباب استعانت شرک ہے۔ اس طرح روز مرہ کی زندگی
میں جو ایک انسان دوسرے انسان سے طالب امداد ہوتا ہے شرک کی زد سے بچ جائے مگر
صحاح اور خود بخاری شریف کی ان روایتوں کی گرفت سے ان کو آج تک نجات نہیں ملی جن
میں واقعات اور شواہد کی صورت یہ درج ہے
کہ صحابہ کرام تحت الاسباب امور میں اپنے لئے خود سعی فرماتے اور فوق الاسباب امور میں وہ حضور علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے
اور آنحضرت ﷺ اپنے اقتدار رسالت سے ان کی اعانت فرماتے مثلا گروہ صحابہ پیاس سے مضطرب ہے جانوروں کی زبانیں باہر
نکل آئی ہیں دور دور تک پانی کا نام ونشان تک نہیں ملتا ۔ بالآخر مجبور ہوکر حضور علیہ السلام سے طالب
اعانت ہوئے اور آپ نے طشت منگوا کر اس میں دست مبارک رکھا۔ انگشتہائے مبارک سے پانی کے فوارے ابلنے لگے یہ اعانت اور
استعانت فوق الاسباب تھی اور واقعہ نبی و صحابہ
علیہ و علیہم الصلوٰۃ والسلام کا
ہے جو توحید کے معلم اور اس کی حقیقت سے آشنا
ہیں۔ قرآن مجید نے صحابہ کرام کو معیاری مومن اور ایمانداری کی کسوٹی کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
استعانت بالغیر مطلقاً حرام و شرک نہیں ہے بلکہ تحت الاسباب استعانت مومن و کافر
ہر ایک سے جائز ہے ہاں فوق الاسباب استعانت صرف اللہ اور اللہ والوں سے درست ہے
کوئی شخص کافر ڈاکٹر سے علاج کے لئے رجوع
کرے تو درست ہے لیکن اگر کسی جوگی ، راہب ، پادری وغیرہ کو وسیلہ دعا بنائے یا ان سے فوق الاسباب امداد چاہے تو یہ حرام و شرک ہے کیونکہ اس سے
کفر کی تعظیم اور کافر کو اللہ کا مقرب ماننا پڑے گا جو قران و سنت کے سراسر خلاف
ہے بلکہ کفار اللہ کے دشمن اور مردود ِ بارگاہ ہوتے ہیں۔
(مزید تفصیل کے لئے مصنف کے مجموعہ مضامین کا مطالعہ مفید
ہوگا)
فضائل درود سلام
ہر عبادت دوگونہ خوبیوں کو شامل ہے:۔
اول: تعبد یعنی عبدیت
و بندگی کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے معبود کے حکم کی تعمیل و اطاعت کریں اللہ
تعالیٰ جو ہمارا معبود و یکتا ہونے کے علاوہ ہمارے وجود و لوازم وجود کا خالق و
مالک ہے اس کے کسی حکم کی اطاعت میں پس و
پیش انتہائی بے عقلی، جہل اور سرکشی ہے۔
دوم: ہر عبادت کی بجا آوری
نئے الطاف و اکرام ، انعام نوازش کا سبب ہے لہذا فرمان الہی ‘‘صلوا علیہ
وسلموا تسلیما’’ کی پابندی صرف اس لئے کی جائے
کہ یہ اللہ رب العزت کا حکم ہے اور ایسا پسندیدہ عمل ہے کہ ذاتِ حق قول و
فعل سے اس کار عظیم میں شریک و متوجہ ہے تو ہمارا یہ فعل اپنی جگہ بندگی کا لازمہ
ہوجاتا ہے مگر جو بے اندازہ انعامات اور بے حد وحساب برکات درود و سلام سے حاصل
ہوتے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے صلوٰۃ و سلام
کے محض تصور سے ایمان میں قوت ، روح میں نورانیت ، قلب میں فرحت پیدا ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت کی تمام اعلیٰ نعمتوں میں
افضل ترین نعمت حضور ِ اکرم ﷺ کی ذات رحمت سمات ہے۔ صلوٰۃ و سلام سے حضور کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ہر آن مقام
قرب کی طرف بتدریج ترقی ہوتی رہتی ہے۔
علاوہ ازیں ہماری ہر عبادت تمام دعائیں، استغفار
، توبہ، بارگاہِ صمدیت تک وصول و رسائی کے لئے صلوٰۃ وسلام ہی سے قوتِ صعود
اور پرِ پرواز حاصل کرتی ہےں۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے کہ عارفوں کی
تحقیق اور ان کا مشاہدہ یہ ہے کہ درود چونکہ بندوں کا اپنا فعل نہیں بلکہ
یہ سرتاسر فعل الہی ہے جساکہ ان اللہ و ملئکتہ یصلون علی النبی سے ظاہر ہے اور
ہماری درود خوانی اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ہم رب العزت کی صلوٰۃ رسانی کا یا تو اپنی زبان میں ذکرکرتے
ہیں جیسے صلی اللہ علیہ، الصلوٰۃ علیہ،
صلی اللہ علیک، الصلوٰۃ علیک، یاحاضرین دربار کی طرح اپنے مالک و آقا کے فعل کی
تائید کرتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے
ہیں۔ مثلاً اللھم صل علیہ جب درود
انسان کا اپنا فعل نہیں ہے بلکہ خالصتا یہ
اللہ تعالیٰ کا فعل ہے تو بندہ اگر فعل
الہی کا ذکر کرے یا اللہ جل شانہ کی ہاں میں
ہاں ملائے تو ایسے اعمال میں قبول و نامنظوری کی بحث سرے سے پیدا ہی نہیں ہوگی بلکہ درود
ہمیشہ مقبول ہوگا۔ کیونکہ یہ اللہ جل
مجدہ کا اپنا فعل ہے وہ خود فاعل بھی ہے اور وہ خود فاعل بھی ہے اور خود ہی قبول کرنے کا
اختیار رکھتا ہے اور ہمیں درود خوانی کا ثواب تو محض اللہ کریم و مفضال کی ہاں میں
ہاں ملانے سے بالکل ہی مفت حاصل ہوتا ہے۔
امام رازی اس مقام پر ایک دوسری بات اور بھی تحریر فرماتے
ہیں جو بہت دلچسپ اور نہایت دلکش
نکتہ ہے کہ استغفار و درود میں کامیابی و
نجات کے لئے درود
وزیادہ محفوظ طریقہ ہے کیونکہ درود
کے نامنظور و نامقبول ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ تو سراسر فعل الہی ہے اور
ہم تو محض ‘‘صلی اللہ’’ جیسے تائیدی کلمات
کہنے والے اور اللہ جل شانہ کی ہاں
میں ہاں ملانے والے ہیں مگر استغفار تو بندہ کی طرف سے دعا اور درخواست ہے جس میں
اپنے گناہوں کی معافی چاہی جاتی ہے لہذا
اگر دعاؤں میں اللہ کی طرف کامل توجہ ، کامل اخلاصِ روح و قلب اور جسم و جان کے
ساتھ کامل تسلیم و سپردگی ہوئی تو دعائیں
مقبول ہونگی ورنہ اخلاص و توجہ میں کوئی کمی رہی تو اللہ رب العزت ان دعاؤں کو اگر رد فرمائے تو جائے تعجب نہیں
اور مقام شکایت نہیں ہے لہذا استغفار کی
قبولیت کا یقین نہیں کیا جاسکتا اور درود کی قبولیت میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
ان حالات میں پر امن و طمانیت بخش راہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے
زیادہ صلوٰۃ و سلام کا ورد رکھیں اور عفو و استغفار کا کام حضور ﷺ کے حوالے کریں کیونکہ قرآن کے اپنے اعلان کے مطابق حضور سید عالم ﷺ
بھی اپنی امت کے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں طلبگار عفو رحمت رہتے اور حضور کی دعا کی قبولیت تو ہر حال میں
یقینی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ صلوٰۃ و سلام کی کثرت سے مومن کو حضور
سید عالم ﷺ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور جن خوش نصیبوں کے لئے
آپ طلبگار مغفرت و داعی عفو ہوں ان میں
درود خوانوں کا اندراج ہوجاتاہے۔
یہی وجہ ہے تزکہ باطن، تزکیہ روح اور حصولِ تقرب کے لئے
تمام سلاسل اولیائ صلوٰۃ و سلام سے سفر سلوک شروع کرتے ہیں اور اپنے طالب و مرید
کو کثرت صلوٰۃ و سلام کی ہدایت کرتے ہیں۔
کیونکہ یزکیھم (حضور اکرم ﷺ لوگوں کا تصفیہ کرتے ہیں) حضور کی
خصوصی صفت ہے جس میں کوئی نبی شریک نہیں
اور روح و باطن کا تزکیہ اسی وقت
ممکن ہے جب طالب حضرت مزکی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جناب میں رسائی حاصل کرلے۔
درود وسلام سے حضور کا تقرب حاصل
ہوتا ہے اور جوں جوں اس مرکز نور تک رسائی ہوتی جائے گی۔ قلب و روح کا تزکیہ ہوتا
جائےگا روشنی ملتی جائے گی۔
علمائے حق و عارفین
حقیقت کے چند اقوال یہاں ضمناً آگئے ورنہ ہماری اصل غرض صلوٰۃ و سلام کے بارے میں
صرف حدیثوں کو مشعلِ راہ بنانا ہے تاکہ وہ حضرات جو علمائے دین کی وضع قطع میں
رہنے کی وجہ سے عالم کہلاتے ہیں اور اپنی ناواقفیت و بے خبری سے لوگوں کو کثرتِ
صلوٰۃ و سلام کی ترغیب نہیں دیتے اور خود بھی مبتلائے غفلت ہیں، بلکہ بعض افراد تو
ایسے بھی ہیں جو صلوٰۃ و سلام کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ نتیجہ میں اس
سعادت سے خود بھی محروم رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی محروم کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی
نادانی سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ صلوٰۃ و
سلام کی کثرت اور اس مقصدِ عظیم کے لئے محفل و حلقہ کا قیام بدعت ہے اللہ جلّ
مجدہ کو بھول کر لوگ رسول اللہ ﷺ کے ذکر
میں مشغول ہوجائیں گے۔
نادانوں کا ایسا خیال ، دین کے معاملے میں انتہائی گستاخی
اور سخت بے ادبی ہے اگر دینی احکام میں اضافہ و تخفیف الحاق و ترمیم میں لوگوں کو
اپنی رائے اور مصلحت بینی کی اجازت ہے تو بلاشبہ صلوٰۃ و سلام سے باز رہنے اور باز
رکھنے پر وہ مطلون و ملام نہیں ہوسکتے اور اگر دین اس کا نام ہے کہ مااتاکم الرسول
فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا۔ (جو کچھ رسول تم کو دے دیں وہ لے لو ! اور جس سے منع
کردیں رک جاؤ۔) قرآن مجید ۔اطیعواللہ واطیعوالرسول۔ اللہ کی فرمانبرداری کرو اور
رسول کی اطاعت کرو۔(قرآن مجید)
تو پھر قرآنی منصوصات اور حدیثی تصریحات کے خلاف اپنی طرف
سے کوئی اصلاح و ترمیم پیش کرنا اور اپنی مصلحت اندیشوں کو قرآن و حدیث پر حاکم
بنانا ایمان کا نتیجہ نہیں کہلائے گا۔
توحید یہ نہیں ہے ہر شخص اپنی مصلحتوں کوشیوں کو قرآن و
حدیث کی صداقت کی کسوٹی بنائے یہ انداز
فکر از سرتاپا بالکل کھلا شرک ہے۔
اتخذ الہہ ھواہ۔ اپنی خواہش کو اِلٰہ (خدا) بنالیا۔ بندگی
یہ نہیں ہے کہ شیطان کی طرح کوئی منکر سجدہ ہو اور فرمانِ الٰہی کی صحت و صداقت کو
اپنی عقل و فہم سے جانچے بلکہ بندگی اس کا نام ہے کہ اللہ و رسول کے احکام کے
سامنے اپنا سرجھکادے۔
آدم خاکی کے سامنے سربہ سجدہ ہونے کا حکم ملے تو پورے
انشراحِ قلب اور رغبت و محبت سے سجدہ میں گرجائیں۔ مٹی پتھر کی ایک عمارت کو جسے
کعبہ کہتے ہیں قبلۂ عبادت و مرکز سجود قراردیاجائے تو ہم بے جھجک اس کے سامنے
ماتھا ٹیک دیں۔
گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے سے
اگرلاکھوں برس سجدے میں سرمارا تو کیا مارا؟
توحید نام ہی ہے اس کا کہ ماسوی اللہ کی حاکمیت سے انکار
کرکے صرف ایک اللہ کی حاکمیت کا اقرار کریں۔ حضور سید عالم ﷺ سے جوکچھ ہدایات ملی
ہیں ان کو فرمانِ الٰہی جانیں۔ اپنی ہوائے نفس کو کبھی درمیان نہ آنے دیں۔
اگر اللہ کے کسی حکم میں شرک کا رجحان پایا جاتاہے تو یہ
قصور ہماری اس عقل کا ہے جو توحید و شرک کی حقیقت سے ہنوز ناآشنا ہے۔
فرض کیجئے کعبۃ اللہ کے بدلے اگر اللہ رب العزت روضۂ انور
کو قبلۂ عبادت قراردیتا اورا پنی حمد و ثناء کی جگہ شروع سے آخر تک نمازوںمیں صرف
درود و سلام کا حکم دیتا تو کوئی مومن یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اللہ کے اس فرمان کو
رد کرکے ابلیسِ لعین کی طرح بغاوت و سرکشی کی راہ اختیار کرتا۔ ہرگز نہیں تعبد و
مصلحت اندیشی کے درمیان وہی فرق ہے جو ملکوتیت اور ابلیسیت میں ہے۔ لہذا قرآن
وحدیث کی تصریحات کے بعد بھی اگر کوئی شخص
صرف اس لئے صلوٰۃ و سلام کی کثرت سے باز رہتا ہے کہ پرستار رسول نہ بن جائے تو
ایسا طرز فکر کتنا غیر مؤمنانہ ہے ہم بندے ہیں معبود کے حکموں کی اطاعت ہمارا شعار
ہونا چاہیے۔ حیرت ہے جب اللہ جلّ مجدہ نے ورفعنا لک ذکرک اور ہم نے آپ کے لئے آپ
کے ذکر کو رفعت و بلندی عطا کی۔(قرآن مجید) کہہ کر حضور صاحب لولاک ﷺ کی ذات و
صفات سے متعلق ہر طرح کے اذکار کو عظم و بزرگی بخشی اور یہاں تک کہہ دیا کہ انما
جعلت ذکرک ذکری میں نے آپ کے ذکر کو اپنا ذکر قراردیا۔(حدیث شریف) اور اذکار جمیلہ
میں ذکر ولادت ، ذکر معراج اور صلوٰۃ و سلام سبھی داخل ہیں اور ان میں صلوٰۃ و
سلام پر قرآن و حدیث نے بہت زور دیا ہے کیا اسکے بعد صلوٰۃ و سلام کی محفلوں،
حلقوں اور مجلسوں سے انکار کی کوئی وجہ جواز ہے۔
عجب تماشہ ہے کہ صحابۂ کرام علمائے سلف حضور سید عالم ﷺ کو
جن نگاہوں سے دیکھتے تھے آج نگاہوں کو شرک و کفر سے آلودہ بتایاجارہا ہے۔ صحابہ
کرام کے سامنے جب کوئی مسئلہ سامنے آتا تو
بیک زبان ہو کر کہہ اٹھتے اللہ و رسولہ اعلم (یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول زیادہ
جانتے ہیں ایک کلمہ( اعلم) جو اسم تفضیل کا صیغہ ہے صحابۂ کرام اللہ اور اللہ کے
رسول کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان کے ایمانوں نے اس نسبت و اضافت کوکبھی خلافِ توحید
نہیں سمجھا اور نہ اللہ کے رسول ہی نے صحابہ کو اس سے روکا ۔
مگر آج یہ حال ہے کہ حضور سید عالم ﷺ کے مقام علمی کو موضوع
بحث و جدال بنایاجاتاہے ۔ہیہات ہیہات۔
بخاری و مسلم میں حضرت حذیفہ بن یمان کی روایت ہے:
قلت یارسول اللہ انا کنا فی جاھلیۃ و شر فجاءنا اللہ بھذا
الخیر فھل بعد ھذا الخیر من شر۔
(میں نے عرض کیا اے رسول اللہ بے شک ہم لوگ جاہلیت وفساد
میں مبتلا تھے کہ اللہ خیر کے ساتھ ہمارے پاس آگیا تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی
شر ہے۔ (بخاری و مسلم)
غور فرمائیے کہ اللہ تو نہ کہیں آیا نہ گیا مگر صحابۂ کرام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تشریف آوری کو اللہ کی آمد سے تعبیر کررہے ہیں۔
محدثین عظام اللہ کی آمد کو رسول و نبی کی آمد کہتے ہیں اور دونوں حق پر ہیں۔
صحابہ نے حضور علیہ السلام کی آمد کو
مجازاً اللہ کی آمد کہا اور انداز بیان میں ان کو کوئی شرک نظرنہیں آیا اور محدثین
نے حقیقت کو سامنے رکھ کر حدیث مذکور میں اللہ کی آمد سے رسول و نبی کی آمد مراد
لی ۔ صحابہ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے جلوے نظر آئے اورمحدثین نے اس پیکرِ خوبی میں رسالت و نبوت کی تابانیاں
دیکھیں مگر آج کے گستاخوں کو حضور علیہ السلام کے اندربشریت کے سوا کچھ نظر نہیں
آتا اپنی اپنی آنکھیں ہیں اپنا اپنا فہم اور اپنا اپنا ایمان۔
آنکھ والا ترے جلووں کا تماشہ دیکھے
دیدۂ کور کو کیا
آئے نظر کیادیکھے
مگرافسوس آج توحید کا مفہوم یکسر بدل گیا ہے اللہ کی آمد سے
اپنے جیسے ایک بشر کی آمد کے معنی لوگوں کے ذہن میں اتارنے کی کوشش کی جاتاہے سمجھ
میں نہیں آتا کہ آخر لوگوں کا ایمان و عقیدہ اس حد تک نیچے کس طرح اترآیا؟
ذرا سوچئے تو حضور اکرم ﷺ کی آماد ایک بشر کی آمد تھی یا ایک رسول کی آمد تھی آپ اپنی بشریت منوانے
کے لئے آئے تھے یا اپنی رسالت منوانے کے لئے؟ اور ہماری نجات و فلاح کا راز آپ کی
بشریت کے اقرار میں ہے یا آپ کی رسالت و نبوت کے اقرار میں؟
حضور سید عالم ﷺ کی جہت بشری کی غایت اس سے زیادہ کچھ نہیں
ہے کہ بنی نوع انسان آپ سے مانوس ہوں اور "الجنس یمیل الی الجنس" کا فطر
اصول قبولِ احکام میں ہمارا رفیق اور ممد و معاون ہو۔ ورنہ تاجدار دو عالم ﷺ کی
اصل جہت رسالت ہے اور جس طرح خلاق عالم نے
ہمارے انس و میلان کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر حضور سید عالم ﷺ کو بشری جہت عطا
فرمائی تاکہ اخذ احکام و قبول ہدایت میں
ہم کوئی دشواری محسوس نہ کریں اسی طرح نورانی مخلوق یعنی فرشتوں سے احکام لینے
بلکہ خود ذاتِ حق تک وصول و رسائی کو نورانی ہونا چاہئے یا نہیں؟ اور جہت نبوت و
رسالت پر ایمان لانے کی پابندی کی وجہ سے ہماری تمام توجہات حضور کی جہتِ بشری سے
ہٹ کر جہتِ نوری و نورانی پر مرکوز رہنی چاہئے یا نہیں۔
(اس
بحث کو راقم الحروف کے رسالہ نبی کی بشریت میں ملاحظہ فرمائیے)
قرآن و
حدیث کی روشنی میں صلوٰۃ و سلام کی اہمیت و عظمت پر
کافی بحث کی جاچکی ہے اور امید ہے کہ مذکورہ تفصیلات کے بعد جس کے دل میں ایک ذرہ
ایمان ہے صلوٰۃ و سلام کی عظمت میں کوئی شک
و شبہ نہیں کرے گا ۔ ذیل میں چند احادیث
درود شریف کے فضائل میں درج کی
جاتی ہیں تاکہ درود شریف کی اہمیت کا دوسرا رخ بھی سامنے آجائے۔
حدیث ۱۸: قال علیہ الصلوٰۃ والسلام من صلی علی واحدۃ صلی اللہ علیہ عشراً۔
ترجمہ: جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجا اللہ تبارک و
تعالیٰ اس پر دس بار درود بھیجتاہے۔(مسلم،داؤد،نسائی،ترمذی،ابن حبان)
غورفرمائیے کہ ہماری ایک صلوٰۃ ہزار ثمین و گراں سہی مگر
پھر بھی ایک بندۂ نامقدور و عاجز کی
صلوٰۃ ہے اس کے مقابلے میں قدیر و قیوم اللہ کی صلوٰۃ کا مرتبہ اور مقام کیا ہوگا؟
اورپھر بھی ہماری ہر صلوٰۃ کے بدلے میں اللہ کی طرف سے دس صلوٰۃ کے معیار و مفہوم
کی اہمیت کیاہونی
چاہئے بصیرت ایمانی ہی اس کا کچھ اندازہ کرسکتی ہے۔
حدیث ۱۹: قال علیہ الصلوٰۃ والسلام من صلی علی واحدۃ کتب اللہ لہ بھا عشر حسنات۔
ترجمہ: جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجا اللہ سبحانہ اس ایک درود کے بدلے درود خواں کے نامۂ اعمال میں
دس نیکیاں لکھ دیتا ہے۔( ترمذی)
غور فرمائیے جب انعام دینے والے ہمیشہ اپنے مرتبہ و معار کے
موافق انعام دیاکرتے ہوں تو اللہ رب العزت کا انعام کیسا گراں بہا اور بیش قیمت
ہوگا اور وہ بھی ایک ایسے عمل خیر و سعادت پر جو عمل خود اللہ کو اس حد تک محبوب و
پسندیدہ ہے کہ ذاتِ صمدیت اپنے تمام ملائکہ کے ساتھ صلوٰۃ بھیجنے میں مشغول ہے اور
تمام مؤمنین بھی اس عمل کے پابند بنائے گئے ہیں۔
حدیث ۲۰: قال علیہ الصلوٰۃ والسلام من صلی علی صلوٰۃ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشر صلوات وحط عنہ بھا عشر
سیئات ورفعہ بھا عشر درجات۔(احمد، نسائی،ابن حبان، حاکم)
ترجمہ: جو کوئی مجھ پر ایک بار درود بھیجے ، اللہ تبارک
وتعالیٰ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے ،
اور اس ایک درود کے وسیلے سے سے اس کی دس خطائیں معاف کرتاہے اور اسی ایک درود کے
وسیلے سے اس کے دس درجے بلند کرتاہے۔
حدیث ۲۱: قال علیہ الصلوٰۃ والسلام من صلی علی واحدۃ صلی اللہ علیہ عشر ومن صلی
علی عشرا صلی اللہ علیہ مائۃ ومن صلی علی مائۃ کتب اللہ بین عینیہ براءۃ من النفاق
و براء ۃ من النار واسنکہ اللہ یوم القیمۃ مع الشھداء (رواہ الطبرانی فی الاوسط
والصغیر)
ترجمہ: جو کوئی مجھ پر ایک صلوٰۃ بھیجے اللہ ا س پر دس
صلوٰۃ بھیجتا ہے اور جو کوئی مجھ پر دس صلوٰۃ بھیجے اللہ رب العزت اس پر سو صلوٰۃ
بھیجتا ہے اور جو کوئی مجھ پر سو صلوٰۃ بھیجے اللہ رب العزت اس کی دونوں آنکھوں کے
درمیان (پیشانی پر) لکھ دیتا ہے (براءۃ من النفاق و براء ۃ من النار) (منافقت سے
پاک ہے، اور جہنم سے محفوظ ) اورا للہ تبارک وتعالیٰ بروز قیامت شہداء کے ساتھ
سکونت و قیام عطا کرے گا۔
طبرانی نے اوسط وصغیر میں روایت کی ہے اس روایت کی سند میں
ابراہیم ایک ایسے راوی ہیں جن کے مخالف یا موافق محدثین کوئی رائے نہیں ملتی۔
حدیث ۲۲: عنہ علیہ الصلوٰۃ والسلام قال ان جبریل قال لی الا
یسرک ان اللہ عزوجل یقول من صلی علیک صلیت
علیہ ومن سلم علیک سلمت علیہ فسجدت للہ شکرا۔(احمد ، حاکم، ابویعلی، ابن ابی
الدنیا)
ترجمہ: فرمایا کہ بے شک جبریل نے مجھ سے کہا کیا آپ کو مسرت
نہ ہوگی کہ بے شک اللہ عزوجل فرماتاہے کہ جوکوئی
آپ پر صلوٰۃ بھیجے میں اس پر صلوٰۃ بھیجتا ہوں اور جو کوئی آپ پر سلام
بھیجے میں اس پر سلام بھیجتا ہوں تو میں نے اللہ کا سجدۂ شکر اداکیا۔
اس سجدۂ شکر کا سبب اپنی پر اللہ کی نوازش و انعام ہے۔
حدیث ۲۳: عن عبدالرحمن بن عوف عن النبی ﷺ فصلی فسجد فاطال
السجود فبلیت و قلت قبض اللہ روحہ قال فرفع رأسہ فدعانی فقال مالک فقلت یا رسول اللہ اطلت السجود قلت قبض اللہ روح رسولہ لا اراہ
ابدا قال سجدت شکرا لربی فیما ابلانی فی امتی من صلی علیہ صلوٰۃً من امتی کتب اللہ
لہ عشر حسنات و محی عنہ عشر سیئات۔
ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن عوف راوی ہیں کہ حضور انور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے نماز پڑھی ، پھر سجدہ کیا اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ میں رونے
لگا اور دل میں کہا اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی روح کو واپس لے لیا۔ عبدالرحمن
بن عوف کہتے ہیں کہ پھر آپ نے سر اٹھا کر مجھے بلایا اور فرمایا کہ تمہارا یہ کیا
حال ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ! آپ نے سجدہ
اتنا درازکیا کہ میں سمجھا کہ اللہ
نے اپنے رسول کی روح واپس لے لی ۔ اب میں کبھی آپ کو نہیں دیکھوں گا۔ ارشاد فرمایا
کہ میں نے اپنے رب کا سجدۂ شکر ادا کیا جو اس نے میری امت پر انعام و نوازش
فرمائی یعنی جو کوئی میری امت میں سے مجھ پر ایک صلوٰۃ بھیجتا ہے ۔ اس کے نامۂ
اعمال میں اللہ دس نیکیاں لکھتا ہے اور اس کی دس برائیاں مٹاتاہے۔
اللہ اللہ درود شریف پر اللہ کے لطف و عنایات کی خبر سن کر
حضور سجدۂ شکر اداکریں اور ایسا طویل سجدہ ہو کہ ایک عشری صحابی حضرت عبدالرحمن
بن عوف کو آپ کی وفات کا گمان ہو اور وہ بے
قابو ہو کر رونے لگیں مگر اس امت میں آج ایسے حضرات بھی پائے جاتے ہیں جو اللہ کے
وعدوں پر اعتماد نہیں کرتے اور حضور کے
ذکر کو بے قیمت سمجھتے ہیں خود بھی صلوٰۃ
و سلام سے باز رہتے ہیں اور دوسرے مؤمنین کو صلوٰۃ و سلام کی محفل میں شرکت سے
روکتے ہیں اور اس کے بعد بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حضور کے متبع اور پیرو ہیں۔
حدیث ۲۴: من صلی علی مرۃ کُتب لہ عشر حسنات ومحی عنہ بھا
عشر سیئات و رفعہ بھا عشر درجات وکتب لہ عدل عشر رقاب۔(ابن ابی عاصم، نسائی،
طبرانی، بزاز، باستثنائے عشررقاب)
ترجمہ: حضور کا اعلان ہے کہ جو کوئی مجھ پر ایک بار درود بھیجے اس کے اعمال نامے میں دس
نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اسی ایک درود کے
عوض دس برائیاں مٹائی جاتی ہیں اور درود خواں کے دس درجے بلند کئے جاتے ہیں اور دس
غلام کے آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
حدیث ۲۵: من صلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم واحدۃ صلی اللہ علیہ وملئکتہ سبعین صلوٰۃ (احمد)
ترجمہ: جو کوئی نبی ﷺ پر ایک بار درود بھیجے اس پر اللہ اور
اس کے فرشتے ستر بار صلوٰۃ بھیجتے ہیں۔
(احمد)
Post a Comment