حکایت:

یحییٰ بن اکثم قاضی سے منقول ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے مامون الرشید کے پاس ایک رات گزاری ، نصف شب کو میں پیاس کی شدت سے بیدار ہوگیا۔ میں پانی پینے کے لیے اٹھااورادھرادھرپانی کی طلب میں دیکھنے  لگا۔ تو  مامون رشید نے مجھے دیکھ لیا اور پوچھا کہ  یحییٰ  کیا بات ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین میں پیاسا ہوں۔ مامون نے فرما یاتم اپنی جگہ لوٹ جاؤ۔ مامون  الرشید وہاں سے چلا گیا اور تھوڑی دیربعد  ایک پیالہ میں پانی لایا اور میرے سرہا نے آکر کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے ابن  اکثم پانی پی لو۔ میں چونک کرکھڑا ہوا اور عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین کسی  خادم یا خادمہ سے کہہ دیا ہوتا۔کیا وہ  موجود نہیں ہیں۔ تومامون نے جواب دیا کہ وہ سب سو رہے ہیں۔ میں نے کسی کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔

میں نے کہا میں خود پانی پی لیتا۔تو مامون نے جواب دیا کہ انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے مہمان سے خدمت چاہے۔ میں ابھی تک حیرت میں مبتلا تھا۔ اس پر مامون نے کہا میں تم کو ایک حدیث کیوں نہ  سناؤں۔ میں نے عرض کیا ضرور ۔ مامون نے کہا حضرت عبد اللہ ابن عباس سے  مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

سيد القوم خادمهم( حديث ضعيف۔۔أخرجه الخطيب في تاريخ بغداد)

" لوگوں کا سردار ان کا خدمت گزار ہوتا ہے "۔


حکایت:

 بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شامی شخص نے مامون الرشید سے ملنے کا ارادہ کیا وہ اپنے بعض ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ شامی شخص نے کہا کہ امیرالمومنین سے کلام  کرنے کے لیئے کون سا طریقہ زیادہ مناسب ہے تو اس کے ساتھی نے کہا فصاحت اور بلاغت سے بات کیجئے سنا ہے کہ وہ فصیح و بلیغ گفتگو کو پسندکرتاہے اور خود بھی فصاحت و بلاغت کا شاہکارہے۔ شامی نے کہا کہ فصاحت اور بلاغت  میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں تو اپنے کلام میں بہت زیادہ غلطی کرتا ہوں۔ تو ساتھی نے کہا کہ تم اپنے کلام میں رفع( بلندی) کو اختیارکرو(اس کا مقصدتھا ہر ہر معاملہ و چیز کو مبالغہ آرائی سے بیان کرو) چونکہ رفع عرب کے کلام میں زیادہ مستعمل ہے۔ لیکن وہ شامی سمجھا کہ رفع (پیش) یعنی آخری حرف کو مرفوع پڑھا کر ۔ وہ شامی شخص مامون کے پاس پہنچا۔ اور اس نے کہا۔ السّلامُ عَلَيْكُ وَرَحْمَةُ اللهُ وبرکاتُہ ۔ خلیفہ نے کہا اے غلام اس کے ایک طمانچہ مار غلام نے اس کے طمانچہ مار ا۔ تو اس شامی نے کہا۔ بسمُ اللهُ تو خلیفہ نے کہا خدا تیرا ناس کرے کس نے تجھے رفع دینے پر رہنمائی کی ہے۔ یعنی ہر حرف پر پیش لگانے پر۔ شامی نے کہا کیوں نہ میں اے امیر المومنین رفع دوں اس کو جس کو اللہ نے بلند کیا ہے۔ تو مامون سمجھ گیا کہ نادان ہے اوروہ  زور سے ہنسا اور اس کی ضرورت کو پورا کر دیا۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post