کتاب:خیام

مصنف: سید سلیمان ندوی

تبصرہ و خلاصہ :علامہ اسامہ حسین

یہ کتاب سید سلیمان ندوی کی تصنیف ہے جو نہایت محقق طبع انسان ہیں۔ مذکورہ بالا کتاب حکیم عمر خیام کی سوانح عمری ہے جس میں دنیا کے سامنے خیام کا اصلی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ خیام کا تعارف یورپ میں رباعیات کے سبب ہوا۔ ان رباعیات میں سے اکثر کا خیام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یوں خیام دنیا کو ایک طرف تو بادہ پرست، ایبقوری، عیاش، دہریہ انسان کی شکل میں نظر آیا جبکہ اس کے برعکس دوسری طرف لوگوں نے اسکو مذہبی صوفی حکیم کا درجہ دے دیا۔ کیونکہ شاعری اپنے آپ میں اتنی لچکدار ہوتی ہے کہ دو بالکل مخالف گروہ ایک ہی شعر سے اپنے اپنے مطالب اخذ کر سکتے ہیں۔

سلیمان ندوی اپنے محققانہ صلاحیتوں کو خوب بروئے کار لاتے ہوئے حکیم خیام کی اصلی حیثیت واضح کرتے ہیں اور اسے ایک فلسفی، سائنس دان، ریاضی دان، شاعر اور ایک حکیم صوفی کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ تاریخی واقعات کی چھان بین، نسخوں میں جرح و قدح اور تحقیق و تنسیخ، عقلی استدلال، دیگر قدیم مستند ثبوتوں کی بنیاد پر اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ اور آخر میں اس کی رباعیات میں سے اصل اور نقل کی تلاش کے مرحلے میں اپنی ادیبانہ صلاحیتوں ، ذوق شاعری اور اعلیٰ ذہانت کی بنا پر تعیین اصل و نقل کی کوشش کرتے ہیں۔

خصوصا یہ کہانی کہ حسن بن صباح، نظام الملک طوسی اور خیام ہم عمر اور ہم مکتب تھے علامہ ندوی تاریخی حوالہ جات اور عقلی مسلمات کی بنیاد پر اس کا مکمل رد کرتے ہیں۔ اس کہانی کی بنیاد وصائے نظام الملک کے دیباچے میں موجود چند الفاظ بنے۔ ندوی اس دیباچے کو بہت بعد کا الحاقی و موضوعی ثابت کرتے ہیں کیونکہ اس میں مستعمل ادبی انداز نظام الملک سے مختلف تھا، خصوصا اس میں کثرت سے عربی الفاظ کا استعمال تھا جو نظام الملک کا انداز نہ تھا نیز درس کا لفظ جو ان تینوں کے لئے استعمال ہوا وہ بھی تب کی فارسی میں اس طرح استعمال نہ ہوتا تھا بلکہ حدیث کے لئے سماع کی اصطلاح موجود تھی۔ مزید یہ کہ الحاقی دیباچے کے مرتب کا تعلق دس پشتوں کے بعد نظام الملک سے ملتا ہے۔ خیام کا تعلق نیشاپور سے، نظام الملک اصفہان سے اور حسن صباح کا تعلق رے سے تھا اور تینوں کا ایک جگہ بچپن میں درس کے واسطے جمع ہونا مشکل بات ہے۔ نیز تاریخی حوالوں سے انکی پیدائش اور وفات کا تقابل بھی اس قصے کی نفی کرتا ہے۔

اس کتاب کے حوالے سے علامہ اقبال نے ندوی صاحب کو فرمایا کہ اب مشرق و مغرب کا کوئی عالم اس باب میں آپ کی تحقیقات پر کوئی اضافہ نہ کر سکے گا۔

ندوی صاحب کی نظر تاریخی تفتیش میں نہ صرف ہر قدیم مورخ  پر رہی بلکہ آپ نے مستشرقین کے کام سے بھی استفادہ کیا۔

جن بنیادی ماخذوں کو استعمال میں لایا گیا وہ تین ہیں۔ بیہقی کی تاریخ الحکماء، نظامی عروضی کی چہار مقالہ اور عماد کاتب کی خریدۃ القصر۔

اور دیگر ماخذ درج ذیل ہیں۔

قفطی کی اخبار العلماء، ابن اثیر کی الکامل، قزوینی کی آثار البلاد، شہرزوری کی نزہۃ الارواح وغیرہ ہیں۔

اولاً ندوی تاریخ پیدائش اور وفات پر تحقیق پیش کرتے ہیں جو اس وقت تک غیر صحیح تھی۔ ندوی تصحیح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ولادت 440 ھ جبکہ وفات 526 ھ میں ہوئی ہے۔

خیام کی بدقسمتی کہ مغرب میں اس کو ایک بادہ پرست شاعر اور مشرق میں فقط ایک ماہر علم نجوم سمجھا گیا جبکہ وہ فلسفے، طب، ریاضیات، قرآت، ادب و انشاء، فلکیات، طبیعیات وغیرہ میں کمال رکھتا تھا خصوصا اسکا ذہن ریاضی کے لئے موزوں تھا اور ریاضی میں بھی مساحت، جبر و مقابلہ اور اقلیدس کی طرف اس کا رجحان زیادہ تھا۔

خیام کا تعلق کئی درباروں سے رہا مگر آخر میں وہ ملکشاہ سلجوقی کے دربار سے وابستہ رہا اور اس کے لئے ایک زیچ بھی تیار کی۔ ملک شاہ کے بیٹے سنجر کو بچپن میں چیچک نکلا تو اسکا علاج بھی حکیم خیام نے کیا تھا۔ اسی دربار میں حکیم خیام اور امام غزالی کی کسی نکتے پر بحث ہوئی تھی جبکہ امام صاحب عمر میں خیام سے چھوٹے تھے۔

علامہ ندوی کتاب ھذا کے اس باب میں جہاں رصد خانے کی تعمیر میں خیام کا کردار بیان کرتے ہیں۔ وہیں اپنی عالمانہ صلاحیتوں سے تخلیق تقویم یعنی کلینڈر کی تخلیق کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح سورج اور چاند کو ماہ و سال کی گنتی کا معیار بنایا جاتا ہے اور اس کی تاریخ کیا تھی۔

خیام پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ علم سکھانے میں بخیل تھا اس لئے اسکے تلامذہ اور تصانیف کی تعداد قلیل ہے۔ مگر علامہ ندوی اس اعتراض کو رفع کرتے ہوئے بھرپور جواب دیتے ہیں کہ ایسا شخص جو اتنی مشکل فلسفیانہ تصنیفات کے لئے ہمت باندھ سکتا ہے وہ علم میں بخیل نہیں ہو سکتا ہاں آخری دور میں وہ لا ادریت کے درجے پر ترقی کر چکا تھا جس میں عالم تعلیم و تعلم، استادی شاگردی،درس و تدریس کو ہیچ جانتا اور سوالوں سے درگزر کرتا ہے۔

خیام کی چند کتب درج ذیل ہیں۔ رسالہ کلیات الوجود، جبر و مقالہ، رسالہ مختصر در طبیعیات، میزان الحکم، رسالہ نوروز نامہ، رسالہ کون و تکلیف اور فارسی و عربی رباعیات شامل ہیں۔

رسالہ کون و تکلیف تین سوالات کے جوابوں پر مشتمل ہے۔

کیا خدا شر کا مبدا ہے۔۔۔۔۔ جبر و قدر میں حق کیا ہے۔۔۔ اور۔۔۔۔ باقی کی صفت زائد بر ذات ہے؟ ۔۔۔۔۔سی میں خیام خدا کو خیر محض ثابت کرتا ہے اور شر کا وجود تبعا بتایا ہے۔ جبر و قدر میں خیام جبر کا طرفدار نظر آتا ہے۔

علامہ ندوی لکھتے ہیں کہ خیام کے مطابق وجود کا تصور بدیہی ہے۔ وجود عین موجود ہے۔ نیز کلی کا وجود فی الخارج نہیں، فی الخارج صرف جزئیات موجود ہیں۔ یہ بات ہیوم کے فلسفے میں بھی ملتی ہے۔ یعنی خالص عقلی علم نہ ہم کو ہوا اور نہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے تمام معقولات تخیل آمیز ہوتے ہیں۔ اور تخیل صرف جزئی کا ادراک ہے۔ ایک باب میں علامہ ندوی رباعی کی تحقیق پیش کرتے ہیں کہ اس لفظ کی تاریخ کیا ہے اور رباعی کو ہی کیوں خشک طبع فلاسفہ اور صوفیاء کے اپنی تعلیمات پھیلانے کے لئے پسند کیا۔اس وقت تک شاعری کے جو اصناف رواج پذیر تھے وہ مثنوی، قصائد اور قطعہ تھے۔ قصیدہ میں اشعار کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور اسکا مقصود مدح و ذم ہی ہوتا ہے۔۔ مثنوی رزم و بزم کے مسلسل واقعات کو بیان کرنے کے لئے مخصوص تھی۔ قطعے میں مختصر واقعات رقم ہوتے تھے۔ لہذا رباعی کی ایجاد فطری تھی تاکہ حکماء اس میں اپنی مختلف الجہات تعلیم کو پیش کریں۔ رباعی کے اوزان موسیقی میں بھی بآسانی استعمال ہو سکتے تھے یہ بھی ایک وجہ تھی کہ انہوں نے رباعی کو پسند کیا۔

خیام کی طرف ڈھائی سو سے ایک ہزار تک رباعیات منسوب ہیں۔ اور محققین نے سو سے زائد رباعیوں کی تحقیق کی ہیکہ یہ دوسروں کے کلام میں مخلوط ہیں۔ یہ رباعیاں فارابی، ابو الحسن خرقانی، غزالی، عبداللہ انصاری، ابن سینا، رومی، رازی، سنائی، نصیر طوسی، انوری اور مغربی کے کلام میں بھی پائی جاتی ہیں۔

اس کے بعد علامہ ندوی خیام کی رباعیات میں تخلیط کے سات اسباب بیان کرتے ہیں اور ان کے تعین کی راہ دکھاتے ہیں جو ان کی کمال محققانہ طبع پر دلالت ہے۔

علامہ ندوی نے پورا ایک باب خیام کا مذہب و مسلک معلوم کرنے کے لئے قائم کیا ہے۔ خیام کا تعلق حکماء کے گروہ اس گروہ سے تھا جو تفسلف اور تصوف دونوں کے قائل تھے۔ ابو النصر الفارابی جس سے اس سلسلے کا آغاز ہوتا ہے وہ خود ایک صوفی حکیم تھا جو صوفیوں والا لباس پہنتا تھا۔ خیام پر ابن سیناء کا بہت اثر تھا۔ جب خیام کی وفات ہوئی تو وہ اسکی کتاب اشارات کا مطالعہ کر رہا تھا۔ خیام نماز پڑھتا تھا۔ اسکی تحریروں میں توحید، خدائے خیر محض وغیرہ کا تصور پایا جاتا ہے۔ نبوت کی ضرورت پر بھی اس نے لکھا۔ جنت و جہنم کو وہ احوال مانتا ہے اور کثرت میں وحدت ڈھونڈنے کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کی منزل خدا کی معرفت تھی اور وہ یونانی فلسفے کے اخلاق پر عمل کرنے پر زور دیتا تھا جس سے مقصود تزکیہ نفس ہے۔

وہ اپنے آپ کو حکماء کے اس گروہ میں شامل کرتا تھا جو فلاسفہ یونان اور انبیاء کی تعلیمات کو ایک تنے کی دو شاخیں مانتے ہیں۔

وہ انسانی کمال معرفت خداوندی کو قرار دیتا تھا جس کا ذریعہ ریاضت ہے۔ نیز وہ خدا کی کلی معرفت کا قائل نہ تھا اور اسے انسان کی دسترس سے باہر جانتا تھا۔ اس میں مرجیئت کے آثار بھی پائے جاتے ہیں کہ خدا اپنی معرفت و توحید کے بعد کسی کو عذاب نہیں دے گا اور سب کر معافی کرے گا۔ خیام جس ریاضت و زہد کی طرف بلاتا ہے وہ بھی مذہبی نہیں بلکہ یونانی ہے۔

ایک پورے باب میں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ خمر نوشی کا الزام نہ صرف غلط ہے بلکہ اس کے معنی کو بالکل بدل کر رکھ دیا گیا۔ شراب والی اکثر رباعیات اس کی طرف غلط منسوب کردہ ہیں۔ رہی اسکی اپنی تو اس میں شراب حقیقت، شراب معرفت، شراب اخلاص اور شراب عشق کا ذکر ہے۔ اس کا حوالہ یہ ہیکہ خیام کے کسی قدیم سوانح نگار نے اسکی مے خوری و بادہ نوشی کا ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ اس کو دہریہ اور کافر کہنے والے مورخوں نے بھی ایسا کچھ بیان نہیں کیا۔

المختصر یہ کہ کسی نے خیام کو مذہبی صوفی سمجھا، کسی نے لاابالی رند جانا اور کسی نے ملحد و کافر مانا۔ لیکن خیام پر یہ سب الزام تھے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post