حقوق العباد بالخصوص بیوی اور جوان بچوں کے کے حقوق

 کتاب و سنت کی روشنی میں

حسب مراتب وضرورت ماں باپ، بیوی بچوں بھائی بہن سب کا حق انسان پر ہوتا ہے لیکن جس کا حق جس قدر ہو اس میں کمی کرنا اور دوسرے کسی کی طرف زیادہ توجہ کرنا گناہ کی بات ہے، اور کسی کا حق دبانا یا ظلم کرنا تو آخرت میں سخت خسارہ کا باعث ہوگا۔

لہٰذا جو شخص بیوی بچوں کے واجبی حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کررہا ہو اسے سمجھادیا جائے کسی معاملہ فہم سمجھدار شخص کے ذریعہ یہ کام کیا جائے۔بیوی بچوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور مانگنے کا پورا اختیار ہے اور اس کے لیے کوئی مناسب تدبیر اور طریقہ اختیار کرسکتے ہیں۔چند بنیادی حقوق درج ذیل ہیں:

 مہر :

مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے جوعقد یا پھر دخول کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے ، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورعورتوں کوان کے مہر راضی خوشی دے دو  النساء ( 4 )

نان نفقہ:

بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ، رہائش وغیرہ ، یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے ۔

اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے  البقرۃ ( 233 )

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

اورکشادگی والا اپنی کشادگی میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے  الطلاق ( 7 )

 سکنی یعنی رہائش :

یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہا ں انہيں بھی رہائش پذیر کرو  الطلاق ( 6 ) ۔

حسن معاشرت :

خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے ، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا با‏عث ہوں ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اوران کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے انداز میں بود باش اختیار کرو  النساء ( 19 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمايا :

اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق ہیں  البقرۃ ( 228 ) ۔

اسلام نے عورتوں کو بے قدری کی نگاہوں سے دیکھنے سے منع فرمایا، اس بے قدری کی ایک شکل یہ تھی کہ لوگ عبادت میں اتنے محو رہتے تھے کہ بیوی کی کوئی خبر نہیں۔ حضرت عمرو بن العاس اور حضرت ابودرداء کا واقعہ کابڑی تفصیل سے حدیث میں مذکور ہے کہ کثرتِ عبادت کی وجہ سے ان کی بیوی کو ان سے شکایت ہوئی، نبی ﷺ نے ان کو بلا کر سمجھایا اور فرمایا کہ تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے، لہٰذا تم عبادت کے ساتھ ساتھ اپنی بیویوں کا بھی خیال رکھو۔

بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺ حجة الوداع کے موقع پر فرمایا:

لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔

 آپ نے ایک جگہ اور فرمایا:

 خیرُکم خیرُکم لاھلہ وأنا خیرُکم لاھلي

 تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔

 انَّ أکْمَلَ الموٴمنینَ ایماناً أحسنُھم خُلقاً وألطفُھم لأھلہ

 کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔

نبی ﷺکے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت کے دوران صبروتحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ،رحمان کے بندے وہ ہیں جو یہ دعا کرتے رہتے ہیں ،کہ اے ہمارے پروردگار تو ہمیں بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ،اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا ۔یہی وہ لوگ ہیں ،جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند بالا خانے دئیے جائیں گے ،جہاں انہیں سلام پہنچایا جائے گا۔ اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے ۔جوبہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے ۔‘‘(سورۃ الفرقان)

بیوی کے ساتھ حسن معاشرت:شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ، یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں حسن اخلاق کے ساتھ معاملہ رکھو، گو تم انہیں پسند کرو، لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے ۔(سورة النساء:19(

بیوی کے ساتھ رسول اللہ کے لطف و مدارات کا اندازہ آپ کی گھریلو زندگی کے واقعات سے ہوتا ہے۔ آپ کا معمول تھا کہ ہر روز تمام ازواج مطہرات کے گھروں میں جو قریب قریب تھے تشریف لے جاتے۔ ہر ایک کے پاس کچھ دیر قیام فرماتے، جب اس بیوی کا گھر آجاتا، جن کے ہاں قیام کی باری ہوتی تو رات کو وہیں قیام فرماتے۔ آپﷺ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہٍ آپ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں۔ آپ کو ان سے بہت زیادہ محبت تھی۔ ان کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔

احادیث کی رو سے حقوق

اس ضمن میں محسن انسانیت حضور اکرم کے ارشادات قابل غور ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم میں کامل ایمان والا وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ شخص ہے، جس کا سلوک اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب سے اچھا ہو۔‘‘ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’مفہوم اور تم اپنی بیویوں کے ساتھ عمدگی سے زندگی بسر کرو، پس اگر وہ تمہیں (کسی سبب) ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو، مگر خدا نے تمہارے لیے بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘ اس ضمن میں حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: مفہوم ’’کوئی مسلمان شوہر اپنی بیوی سے نفرت نہ کرے۔ اگر کوئی ایک عادت ناپسند ہو تو دوسری عادتیں پسندیدہ ہوں گی۔ مثلاً اگر عورت خوب صورت نہیں یا اس میں کوئی اور خامی ہے تو اس وجہ سے قطع تعلق نہ کرے یا ہوسکتا ہے بیوی جھگڑا لو یا بدصورت ہے تو ممکن ہے وہ اولاد ایسی دے جو اس شخص کی عزت میں اضافے کا سبب بنے۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ناپسندیدہ ترین جائز کام اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔‘‘


 

دوسروں کے ساتھ نرمی کے رویّہ کو اپنانا

ہر انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ اس کےساتھ معاملات میں نرمی برتے اور ایسے اشخاص کو ہرمعاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے جونرمی کی خوبی سے آراستہ ہوتے ہیں اصل میں جو شخص نرمی کے رویّہ کو اپناتاہے تو اس کی وجہ سے عام لوگوں کے ساتھ اس کی میل جول بڑھ جاتی ہے اور عموما نرم خو انسان اور لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتاہےچنانچہ اس صفت کی وجہ سے وہ ہر دل عزیز ہوجاتاہےاس وجہ سے آپنے نرمی اختیار کرنے کی تعلیم دی ہےچنانچہ آپکاارشاد ہے:

إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَيْهِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ(ابن ماجہ، ابو عبدالله محمدبن يزيد ، (ف273ھ)، السنن، ج4، ص646، داراحياءالكتب العربیۃ بیروت، 2009ء)

ترجمہ:بیشک اللہ تعالیٰ مہربان ہے ، اور مہربانی اور نرمی کرنے کو پسند فرماتا ہے ، اور نرمی پر وہ ثواب دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔

اسی طرح آپنے معاملات میں نرمی برتنے کے حوالے سے ارشاد فرمایا:

رَحِمَ اللَّهُ عَبْدًا سَمْحًا إِذَابَاعَ، سَمْحًا إِذَا اشْتَرَى، سَمْحًا إِذَا اقْتَضَى([18]) ۔ ابن ماجہ، ابو عبدالله محمدبن يزيد ، (ف273ھ)، السنن، ج4، ص646، داراحياءالكتب العربیۃ بیروت، 2009ء۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے ، جوبیچتے وقت نرمی کرے جب خریدے تب بھی نرمی کرے، اور جب تقاضا کرے تو نرمی کےساتھ کرے۔

نرمی کی اہمیت کا پتہ اس حدیث سے بخوبی واضح ہوجاتاہے جس میں آپنے ارشادفرمایا:

مَنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ، يُحْرَمِ الْخَيْرَ(مسلم ، ج4، ص2003)

ترجمہ:جوفرد نرمی سے محروم کر دیا جاتا ہے تووہ تمام خیر سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

یعنی اس فرد میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نرمی نہ ہو ۔

غلطی کرنے والے کےساتھ کیسا رویّہ رکھاجائے؟

سماجی میل جول میں اس بات کا قوی امکان ہوتاہےکہ کوئی ایک فرد غلطی کربیٹھے اس صورتحال میں اس فرد کے ساتھ کیسا رویّہ رکھنا چاہیئے؟تو اس حوالے سے آپ نے اولاََ اس بات کی تعلیم دی ہے کہ کسی انسان سے غلطی کا سرزدہونا ایک فطری امر ہے چنانچہ آپکاارشاد ہے:

كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ(ابن ماجہ، السنن، ج2، ص1420)

ترجمہ: کہ سارے انسانوں سے غلطی ہوتی ہیں اور بہترین خطاکار توبہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔

اگریہ حقیقت ہمارے ذہن میں رہے تو پھر کسی بھی غلطی کاازالہ کرنا نفسیاتی طور پر آسان ہوتاہےکیونکہ اس صورتحال میں مد مقابل جذبات کے رَو میں بہہ کر توازن نہیں کھو بیٹھتااور غلطی کرنے والے کے ساتھ سختی کرنے کے بجائے نرمی کا رویہ اختیارکرتاہے کیونکہ مقصد اسے ذہنی اذیت نہیں بلکہ اس کی اصلاح کرناہے۔

غلطی کرنے والے کے درجہ کالحاظ کرنا

بسااوقات ایک شخص کی ایسی غلطی برداشت کی جاتی ہے کہ اگر دوسرے اس کا ارتکاب کرتے تو انہیں معاف نہیں کیاجاتا ، اس فرق کو مدنظر رکھتے ہوئےدوسرے کے ساتھ اس کے مناسب رویہ اختیار کرناچاہیئےچنانچہ اگر کسی سے لاعلمی یا غیر ارادتی طور پر کوئی غلطی ہوجائے تو اس کے ساتھ نرمی اور معاف کردینے کا رویہ رکھنا آپ کی سنت ہے چنانچہ روایت ہے:

بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهْ مَا شَأْنُكُمْ؟ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ فَوَاللهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ(مسلم ،ج14، ص381)

ترجمہ:میں رسول اللہ کے ساتھ ایک نماز میں کھڑا تھا کہ اسی دوران ایک شخص کو چھینک آئی تومیں نےاسے يَرْحَمُكَ اللهُ کہا تو لوگوں نے مجھے ترچھی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو میں اس پر غصہ میں آ گیا ، میں نے کہا : تم لوگ میری طرف کنکھیوں سے کیوں دیکھتے ہو ؟ تو وہ لوگ اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگےجب میں نے دیکھا کہ یہ مجھے چپ کراناچاہتےہیں تومیں خاموش ہوگیاپھر جب رسول اللہ نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوجائےمیں نے آپ سے بڑھ کر شفیق اور مہربان معلم نہ کسی کو پہلے دیکھا نہ ہی بعد میں ، اللہ کی قسم نہ توآپنے مجھے ڈانٹا نہ ہی مارااور نہ ہی مجھے برابھلاکہابلکہ فرمایاکہ دوران نماز عام باتیں کرنا درست نہیں ہے بلکہ نماز تو بس قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر اورتسبیح کرنے کے لیے ہے۔

مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص لاعلمی کی بناپرغلطی کاارتکاب کرےتو اسے تعلیم دینے کی ضرورت ہےکیونکہ اگر اسے سمجھائے بغیر ڈانٹنا شروع کردیاجائے تو اس کے غلط اثرات ظاہرہونگے کیونکہ ناواقف تو اپنے آپ کو صحیح تصور کرتاہےلہٰذا اگر اسے تعلیم دئے بغیر اس پر تنقید کی جائےتواس سے اس کے دل ودماغ میں نفرت کے جذبات پیداہونگے نتیجتاََ وہ انکارکرےگاجو صورتحال کو سلجھانے کے بجائے بگاڑ کی طرف لے جائےگااور اگر غلطی بھولے سے ہوجائے تو پھر یاد دہانی کی ضرورت ہے اور اگر اسے معمول بنالیاجائےتو پھر تنبیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔


 

اولاد کے حقوق

اَولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور اَمانت ہے، اُس کی خیرخواہی والدین پر لازم ہے، اور دنیوی خیر خواہی سے زیادہ دینی خیرخواہی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے حقوق کے حوالے سے  اہم دینی تعلیم وتربیت کا خاص اہتمام رکھا جائے۔

واضح رہے کہ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت بچپن ہی سے کریں، اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں، بے جا لاڈ پیار سے بچوں کے اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے، بچپن میں کی گئی تربیت بڑے ہو کر بھی نہیں بھولتی۔

چنانچہ بچوں کی تربیت میں حسب موقع نرمی وسختی دونوں پہلوؤں کو اختیار کیا جا سکتا ہے، لیکن ان دونوں باتوں میں اعتدال ہونا چاہیے، نہ غصہ میں بے قابو ہو کر بے حد مارنا ٹھیک ہے اور نہ ہی بالکل مار پیٹ کی نفی کرنا درست ہے، جس طرح نرمی ضروری ہے، اسی طرح مجبوری کی حالت میں تنبیہ کی غرض سے کبھی کبھار بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت بچوں کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے مار پیٹ کی سزا دینا بھی جائز ہے۔

بچوں کی پرورش کے لئے مال و زر خرچ کرنا اور ان کی ہر طرح کی ضروریات پوری کرنا بھی والدین کے ذمے ہیں یعنی بچوں کی کفالت کا تمام تر ذمہ باپ کے ذمے ہے ۔جیسے حضور ختم المرسلین ﷺ فرماتے ہیں ۔’’اہل و عیال پر اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرو، اور مؤدت کرنے کے لئے (حسب ضرورت) سختی بھی کرو اور انہیں اﷲ سے ڈرایا بھی کرو۔‘‘(مسند احمد)

اگر اولاد بالغ ہو اور شریعت کے احکام کی پابندی نہ کرے، تو ان کی تربیت بھی نرمی اور سختی دونوں طریقوں سے کی جا سکتی ہے، اگر ان کے باغی ہو جانے کا اندیشہ نہ ہو، تو بوقت ضرورت ڈانٹ ڈپٹ سے بھی کام لیا جا سکتا ہے، لیکن چونکہ وہ شریعت کے احکام کے خود بھی مکلف ہوتے ہیں، اگر پابندی کریں گے، تو اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے اور نہ کرنے پر گناہ کے مرتکب قرار پائیں گے، لہذا انہیں خود ہی نمازوں کا اہتمام کرنا چاہیے، اگر والدین اپنے سمجھانے اور تربیت کی ذمہ داری کو کما حقہ پورا کرلیں، اس کے باوجود اگر بچے دین پر چلنے کا اہتمام نہیں کرتے، تو آخرت میں والدین سے ان کے بارے میں باز پرس نہیں ہوگی۔

بالغ اولاد کو تنبیہ کرتے ہوئے حکمت سے کام لینا چاہیے، خاص طور پر موجودہ زمانے میں مشاھدہ یہ ہے کہ زیادہ مار پیٹ یا سب کے سامنے بڑے بچوں کو تنبیہ کرنے سے، وہ بچے باغی ہو جاتے ہیں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان کے ساتھ محبت و اکرام کا معاملہ کیا جائے، اور وقتا فوقتا ان کو ہدایا وغیرہ بھی دیے جائیں، اور ان کی جائز ضروریات کا حد درجہ خیال رکھا جائے، تاکہ ان کے دل میں آپ کے لیے نرمی، قدر دانی اور احسان مندی کے جذبات برقرار رہ سکیں، اس کے ساتھ ساتھ ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کو تنہائی میں نرمی اور پیار کے ساتھ نیک کاموں کی ترغیب دیتے رہنا چاہیے، انہیں نیک ماحول فراہم کرنا چاہیے، وقتا فوقتاً بزرگوں کی مجلس میں لے کر جانا چاہیے اور ان کی نیک ہدایت کے لیے دعائیں بھی کرتے رہنا چاہیے۔

نیزسختی کرنا بالخصوص موجودہ زمانہ میں جب کہ انقیاد واتباع کا عنصر بہت کم ہوتا جارہا ہے مناسب نہیں۔ اولاد کے بالغ ہونے کے بعد اپنے اعمال کی ذمہ دار وہ خود ہوگی، والدین سے اس کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی، البتہ بچپن میں تربیت وتعلیم میں کمی کی ہو اور اب اس کا تدارک کرنا چاہتے ہوں تو نرمی اور ہمدردی سے متوجہ کردیا جائے، بلکہ علماء نے یہاں تک ہدایت دی ہے کہ بڑے بچے کو والدین کوئی کام حکم کے انداز پر نہ کہیں کیونکہ اگر بچوں نے ٹال دیا یا لاپروائی کی تو ہوسکتا ہے کہ نافرمانی کا گناہ اور وبال ان پر ہوجائے بلکہ اس طرح کہیں ”میں ایسا چاہتا ہوں ایسا ہوجائے تو بہت اچھا ہے“ وغیرہ سعادت مند بچہ والدین کی پسندیدگی جان کر اسے انجام دیدے گا اور اگر ٹال دیا تو نافرمانی کا گناہ نہ ہوگا۔


 

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post