بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم

ہمارے ملک نیوزی لینڈ  کے شہر ویلنگٹن میں   ویلنگٹن اسلامک ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ٹاوا اسلامک سیٹر میں عرصہ دراز سے نماز جمعہ و پنج وقتی نماز کا اہتمام ہے۔  مگر سمت قبلہ عین کعبہ معظمہ سے ذرا ہٹ کر ہے۔ ( مگر واضح رہے کہ ۴۵ ڈگری کے اندر اندر ہے) اب اسی موجودہ سینٹر کو شامل کر کے سنی مسجد تعیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اگر نئی مسجد کی سمت عین کعبہ کی طرف کی جائے تو ایک عظیم فتنہ پیدا ہو نے کا سخت اندیشہ ہے کہ لوگ کہیں گے کے  آج تک ہماری نمازیں نہ ہوئیں ۔

مفتی صاحب سے عرض ہے کہ ( فقہ حنفی کی روشنی میں ) فتویٰ جاری فرمائیں کہ نئی مسجد موجودہ سمت میں بنا سکتے ہیں یا نہیں ؟بینوا توجروا۔

السائل : مولانا حاجی احمد مہروی

ساکن اوکلینڈ نیوزی لینڈ

۱۷ ستمبر ۲۰۲۲

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔الجواب بعون الملک الوھاب

نماز کی ادائیگی کے لیے شرائط میں سے ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔ صاحب بدائع الضائع نے اس کی اہمیت میں اسطرح دلیل ہے۔ (و منھا) استقبال القبلۃ لقولہٖ تعالیٰ فول و جھک  شطر المسجد الحرام وحیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ و قول النبی ﷺ لا یقبل اللہ صلاۃ امرئ حتی یضع الطھور مواضعہ و یستقبل القبلۃ ویقول اللہ اکبر۔۔۔۔الخ                                      (فصل فی الشرائط  ص ۱۱۷ ج ۱)

اور نماز کی شرائط میں سے استقبال قبلہ بھی ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق تو اپنے چہرے کو مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور تم جہاں بھی ہو اپنے چہروں کو اس (مسجد حرام ) کی طرف پھیر لو اور نبی کریم ﷺ کے اس قول کے مطابق( اللہ تعالیٰ کسی شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا یہاں تک کہ وہ اعضائے وضو کو دھو نہ لے اور قبلہ کی طرف منہ نہ کر لےاور اللہ اکبر نہ کہہ لے۔۔۔۔الخ) (کتاب الصلاۃ ۔۔باب شروط الصلاۃ ج۱)

اور استقبال قبلہ یعنی نماز کی شرئط میں سے قدرت  ہوتے ہوئےقبلہ کی طرف منہ کرنا بھی ہے۔ استقبال قبلہ کی دو صورتیں ہیں ۔ایک عین کعبہ کی طرف منہ کرنا اور دوسرا جہت کعبہ کی طرف منہ کرنا ہے۔ صاحب بحر الرائق لکھتے ہیں  (فللمکی فرضہ اصابۃ عینھا) ای عین القبلۃ بمعنی الکعبۃ للقدرۃ علی الیقین۔مکہ میں رہنےوالےکے لیے عین کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض ہےجبکہ یقینی قدرت حاصل ہو یعنی کعبہ کا مشاھدہ حاصل ہو۔

فی التنجیس : من کان بمعاینۃ الکعبۃ فاالشرط اصابۃ عینھا و من لم یکن بمعاینتھا فا لشرط اصابۃ جھتھا وھو المختار۔اور تنجیس میں ہے: جو کعبہ کو دیکھتا ہو تو اس کے لیے عین کعبہ کی طرف منہ کرنا شرط ہے اور جو کعبہ کو دیکھ نہ سکتا ہو (دوری کی وجہ سے) تو اس کے لیے جہت کعبہ کی طرف منہ کرنا شرط ہے اور یہی قول مختار ہے۔

وجھۃ الکعبۃ  تعرف بالدلیل والدلیل فی الامصار والقریٰ المحاریب التی نصبھا الصحابۃ والتابعون فعلینا اتباعھم فان لم تکن فالسوال من اھل ذلک الموضع واما فی البحار والمفاوز فدلیل القبلۃ النجوم ھکذا فی فتاویٰ قاضی خان ۔ اور جہت کعبہ کی معرفت دلیل سے ہوتی ہے اور اسکی دلیل شہروں اور دیہاتوں میں وہ محرابیں ہیں جو صحابہ اور تعابعین نے نصب کی ہیں اور ہمیں ان ہی کی اتباع لازم ہے پھر اگر کہیں وہ علامات  نصب نہ ہوں  تو وہاں کے رہنے والوں سے پوچھا جائے گا اور سمندروں صحراوں ( جنگلوں وغیرہ) میں جہت قبلہ کی دلیل ستارے ہونگے۔

اسی طرح مزید وضاحت بحرالرائق میں ہے :قولہ ( ولغیرہ اصابۃ جھتھا) ای لغیر المکی فرضہ اصابۃ جھتھا وھوالجانب الذی توجہ الیہ الشخص یکون مسامتا للکعبۃ أو لھوائھا اما تحقیقا بمعنی انہ لو فرض خط من تلقا   وجھہ علی زاویۃ قائمۃ الی الأفق یکون ماراً علی الکعبۃ أو ھوائھا واما تقریباً بمعنی ان یکون ذالک منحرفا عن الکعبۃ أو ھوائھا انحرافا ً لا تزول بہ للمقابلۃ بالکلیۃ بأن بقی شیئ من سطح الوجہ مسامتاً لھا۔۔۔۔الخ

یعنی غیر مکی کے لیے جہت  کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض ہے اور اس  کا اعتبار یوں ہوگا کہ ایک شخص اس طرف منہ کرے کہ کعبہ کے سامنے (بالمقابل) یا اس کی فضا کے مقابل ہو جائے خواہ تحقیقاً ہو جیسے کہ اگر ایک خط (لائن ) کھینچے اس کے چہرے کی سیدھ پر أفق کی طرف قائمہ زاویہ بناتے ہوئے تو   وہ کعبہ کی طرف جانے والا ہوگا۔یا اس کی فضا کی طرف جانے والا ہوگا۔یا تقریباً (قریب ) ہواس طرح کہ وہ کعبہ یا اس کی فضا سے اتنا منحرف نہ (الگ یا علیحدہ ) ہو کہ کعبہ بالکل مقابل نہ رہے (یعنی کچھ نا کچھ کعبہ کے مقابل ہو)

مذکورہ بالا وضاحت سے پتہ چلا کہ غیرمکی کے لیے جہت کعبہ کی طرف منہ کرنا لازم ہے  نیزجہت کعبہ سے انحراف قلیل کی بھی گنجائش ہے یعنی جہت کعبہ سے( کسی وجہ ضروری سے) انحراف قلیل ہو تو بھی نماز بلا کراہت جائز ہوگی (حاشیہ ابن عابدین علی الدر المختار کتاب الصلوۃ باب شروط الصلاۃ بحث استقبال القبلۃ (128/ج 1 - طبع سعید کراتشی) میں ہے: قال النحریر التفتازانی  فی شرح الکشاف'  فیعلم منہ أنہ لو  انحرافا لاتزول منہ المقابلۃ الکلیۃ جاز ، ویؤیدہ ما قال فی الظھیریۃ : اذا تیامن أو تیاسر تجوز لأن وجہ الانسان مقوس لأن عندالتیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ الی القبلۃ۔ اھ۔

 اسی بات کی وضاحت التنجیس کی یہ عبارت بھی کرتی ہے۔

 واذا حول وجھہ لا تفسد صلاتہ و تفسد بصدرہ۔  یعنی جب کسی نمازی کا منہ قبلہ رخ سے پھر جائے تو نماز فاسد نہیں ہو گی مگر سینہ قبلہ رخ سے پھر جائے تو فاسد ہوگی۔  کیونکہ منہ کا پھر نا انحراف قلیل ہے اور یہ معاف ہے اس لئے کہ شریعت مطہرہ نے قلیل شئ کو معاف فرمایا ہے (تاکہ حرج کو دور کیا جاسکے) اور سینہ کا پھرنا انحراف کثیر ہے جو کہ مفسد صلاۃ ہے۔ اور جہت کعبہ کے مسئلے میں انحراف قلیل کا اعتبار  یمین  ویسار یعنی دائیں اور بائیں 45 ڈگری تک کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ قلیل ہے اور دائیں اور بائیں دونوں صورتوں میں جانب کا ایک حصہ جہت قبلہ رہتا ہے جیسا کہ ظہیریہ کی یہ عبارت گزری۔

 بہار شریعت میں حضرت فقیہ العصر مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں استقبال قبلہ عام ہے کہ بعینہ کعبہ معظمہ کی طرف منہ ہو جیسے مکہ مکرمہ والوں کے لیے یا اس جہت کو منہ ہو جیسے اوروں کے لیے (درمختار) یعنی تحقیق یہ ہے کہ جو عین کعبہ کی سمت خاص کی تحقیق کر سکتا ہے اگرچہ کعبہ آڑ میں ہو جیسے مکہ معظمہ کے مکانوں میں جب کہ مثلا چھت پر چڑھ کر  کعبہ کو دیکھ سکتے ہیں تو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض ہے جہت کافی نہیں اور جسے یہ تحقیق ناممکن ہو اگرچہ خاص مکہ مکرمہ میں ہو، اس کے لئے جہت کعبہ کو منہ کرنا کافی ہے۔( افادات رضویہ)۔( بہار شریعت جلد اول حصہ 3 صفحہ نمبر 487 مکتبۃ المدینہ کراتشی)

امام اہلسنت احمد رضا خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہر جہت کا حکم اس کے دونوں پہلوؤں میں (دائیں بائیں) میں 45، 45 درجے تک رہتا ہے جس طرح نماز میں استقبال قبلہ۔"(فتاوی رضویہ جلد 4 صفحہ نمبر 608 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اعلی حضرت فقیہ الامت امام اہلسنت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہاں امر اہم اس کی معرفت ہےکہ  دیوار محراب مسجد کو قبلہ سے کتنا انحراف ہے؟  اگر وہ انحراف ثمن دور یعنی 45 درجے کےاندر اندر ہے تو نماز محراب کی جانب بلا تکلف صحیح و درست ہے اس انحراف قلیل کا ترک صرف مستحب ہے۔۔۔

 مزید فرماتے ہیں:  جب تک 45  درجے (یا اس سے زائد) انحراف نہ ہو تو نماز بلاشبہ جائز ہے اور یہ کہ قبلہ تحقیقی کو منہ کرنا نہ فرض ہے نہ واجب صرف سنت مستحبہ ہے۔  لہذا اس طرح کی مسجد میں نماز پڑھنا بلاشبہ جائز ہے اور اس میں کوئی اصلا نقصان نہیں نہ دیوار سیدھی کرنا فرض  البتہ بہتر و افضل ہے۔

مزید لکھتے ہیں : حلیہ میں ملتقط  سے: ھذا استجاب و الاول للجواز ۔اھ یرید ان عدم الانحراف مھما قدر مستحب ، الانحراف مع عدم الخروج عن الجھۃ بالکلیۃجائز۔یہ استجاب کے لیے ہے اور پہلا جواز کے لیے ہے ۔اھ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی قدر بھی انحراف نہ ہو یہ مستحب ہے اور اتنا انحراف کہ جہت کعبہ سے نہ نکلے یہ بھی جائز ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ ج۶ ص۵۶ ۔۵۸ رضا فاونڈیشن لاہور)

صورت مسئولہ میں مذکورہ بالا دلیل کی روشنی میں واضح ہوا کہ غیر مکی لوگوں کے لیے استقبال قبلہ کی صورت یہ ہوگی کہ وہ جہت قبلہ کو منہ کر کے نماز پڑھیں یہ افضل اور سنت مستحبہ ہے اور یہی بہتر ہے کہ مسجد کی تعمیر کرتے وقت جہت قبلہ تحقیقی ملحوظ خاطر رہے  مگر جب کہ ضرورت شرعی یا عدم معرفت  صحیح یا خوف فتنہ (جو یقینی یا کم از کم ظن غالب پر مبنی ہو) کی وجہ سے قبلہ تحقیقی سے انحراف قلیل (جو کہ 45 ڈگری کے اندر اندر ہو) کے  ساتھ نماز ادا کرنا یا مسجد کی تعمیر کرنا بلا کراہت درست و صحیح ہے۔

امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں علماء کرام کا حکم تو یہ ہے کہ جہت سے بالکل خروج ہو تو نماز فاسد اور حدود جہت (یعنی 45 ڈگری کے اندر) میں جائز  کہ آفاقی یعنی (غیر مکی) کا قبلہ ہی جہت ہے  نہ کہ اصابت عین یعنی کعبہ ۔

 ملک العلماء ابوبکر بن مسعود کاسانی کی بدائع امام ابن امیر الحاج حلبی کی حلیہ میں ہے: قبلۃ حالۃ البعد جہۃ الکعبۃ وھی المحاریب لاعین الکعبۃ،،کعبہ سے دوری کی صورت میں جہت کعبہ ہی قبلہ ہے اور وہ محراب مسجد ہے نہ کہ عین قبلہ  ہاں حتیٰ الوسع اصابت عین سے قرب مستحب۔۔۔۔۔۔ اور ترک مستحب ، مستلزم کراہت  تنزیہ بھی نہیں کراہت تحریم تو بڑی چیز۔۔ بحر الرائق باب العیدین میں ہے ،، لا یلزم ترک المستحب بثوت  الکراھۃ اذلابدلھا من دلیل خاص۔ ترک مستحب  سے کراہت لازم نہیں آتی کیوں کہ اس کے ثبوت کے لیے خاص دلیل کا ہونا ضروری ہے( فتاویٰ رضویہ ج 6 ص 64)

اگر لوگوں کو مذکورہ بالا دلائل بتا کر سمجھایا جائے کہ جہت قبلہ تحقیقی ہو تو افضل  و مستحب ہے جیسا کہ یہی طریقہ عمومی مساجد  کا ہوتا ہے اور جہت قبلہ سے ۴۵ ڈگری (کے اندر) انحراف کے ساتھ ہو تو بھی بلا کراہت نماز درست ہے۔ جن لوگوں نے پہلے نمازیں ادا کیں وہ بھی درست تھیں اور جو اب پڑھیں گے وہ بھی درست ہونگی تو یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے کہ مسجد کا رخ جہت قبلہ تحقیقی کی طرف ہو بصورت دیگر اگر لوگ نہ سمجھیں اور فتنہ پھیلنے کا یقین ہو یا ظن غالب ہو( کیونکہ فتنہ قتل سے زیادہ سنگین جرم ہے اور اس سے بچنا واجب ہے) تو پھر مسجد کا رخ ۴۵ ڈگری کے اندر انحراف کے ساتھ بھی درست ہوگااس میں ادا کی جانے والی نمازیں درست و صحیح ہونگی۔

ھذا ما عندی واللہ و رس ولہ اعلم بالصواب

وصلی اللہ علی خیر خلقہ و نور عرشہ محمد و آلہ و اصحابہ و اتباعہ الی یوم الدین

آمین بحرمۃ النبی الامین و خاتم النبیین ﷺ

حررہ: المفتی عابد علی السیفی العلیمی غفرلہ

الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ (اسلامک سینٹر)

نارتھ ناظم آباد کراچی پاکستان

۲۴ صفر المظفر ۱۴۴۴ھ                   ۲۱ ستمبر ۲۰۲۲م

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post