مذاق کیلئے گالیاں دینا ضروری نہیں اچھے  وشائسہ انداز میں بھی مذاق کیا جا سکتا ہے۔

جو تمھارے استاد کو گھوڑا بنا سکتی ہے، تمھیں تو وہ گدھا۔۔

 کہاجاتاہے کہ سکندراعظم  کا استاد ارسطو،  اسے عورتوں کی صحبت سے بچنے کی تعلیم و نصیحت کیا کرتا تھا ۔ یہ بات حرم کی خواتین کو بہت ناگوار تھی اور  وہ بہت تنگ تھیں۔ انہوں نے مل کر ایک منصوبہ بنایا اور ایک خوبصورت، شریر کنیز کو ارسطو کی خدمت میں دے دیا۔ کنیز نے اسے اپنی عِشوہ طرازی(نازوادا) کے جال میں پھانس کر ایک دن فرمائش کر دی کہ ارسطو گھوڑا بنے اور وہ اس پر سواری کرے گی۔ جب یہ مذکورہ تاریخی واقعہ، وقوع پذیر ہو رہا تھا اسی لمحہ خواتین حرم، سکندر سمیت کمرے میں داخل ہوئیں۔

سکندر نے جب استاد کو ایک کنیز کے لیے "فرس (گھوڑا) فرشی" بنا دیکھا تو تعجب سے پوچھا، "اے استاد، یہ کیا ؟؟؟ ہمیں منع کرتے ہیں اور خود یہ ۔۔۔۔ "

ارسطو جو نہایت ذہین اورحاضرجواب تھا، کھڑا ہوا اور بولا، "عزیز شاگرد، اس عمل کا مقصود بھی تمھاری تربیت ہے، خود سوچو جو عورت تمھارے استاد کو گھوڑا بنا سکتی ہے، تمھیں تو وہ گدھا بنا کر رکھ دے گی"۔


صحیح ترتیب

مشتاق احمد یوسفی صاحب کہتے ہیں کہ ۔۔

زمانہ طالبعلمی میں ایک مرتبہ اردو کے پیپر میں لفظ ”شدہ“ سے چار لاحقے لکھنے کو کہا گیا۔

میں نے جواب میں لکھا

شادی شدہ، گم شدہ، ختم شدہ، تباہ شدہ

اگلے روز استادِ محترم نے پیپرز چیک کر کے واپس دئیے تو مجھے لاحقوں والے سوال میں چار میں سے آٹھ نمبر ملےتھے۔ 

میں نے استاد صاحب سے فالتو نمبروں کے متعلق پوچھا تو مسکرا کر کہنے لگے،،

" پتر!چار نمبر صحیح جواب کے ہیں اور چار صحیح ترتیب کے“۔

معصومیت اپنے عروج پر

پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب ایک چھوٹے بچہ  اپنی سائیکل کھڑی کرکے آگے جانے لگتا ہے ۔ایک پولیس کانسٹیبل اسے روکتا ہے اور پوچھتا ہے: تم نے اپنی سائیکل یہاں کیوں کھڑی کی؟ کیا آپ اس سڑک کے بارے میں نہیں جانتے؟ بڑے بڑے سیاستدان اوربہت سے ایم پی اے ، ایم این اے یہاں سے گزرتے ہیں اور کبھی کبھی تو ، وزراء ، وزیر اعلیٰ  یہاں تک کہ صدر اور وزیراعظم  بھی یہاں سے گزرتے ہیں۔

لڑکے نے معصومیت سے جواب دیا: فکر نہ کرو، میں نے اپنی سائیکل کو لاک کر دیا ہے۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔






 کسی بات پر اکبر الہ آبادی نے عدالت میں کہہ دیا.

"کون سالا ایسا کہتا ہے؟"

 مخالف وکیل نے کہا یہ توہینِ عدالت ہے، انہوں نے گالی دی ہے۔

جج صاحب انہیں سزا ملنی چاہئے.

جواب میں اکبر الہ آبادی نے کہا۔

 "میں نے تو یہ کہا ہے کہ

 کون سا......لاء ایسا کہتا ہے؟

ویسے بندے کو تھوڑی بہت انگریزی زبان بھی ضرور آنی چاہئے 

نقطہ

عبداللہ نامی ایک شخص شیخ سعدی سے ملنے گیا۔ اس کی آنکھ پر ایک تل تھا۔ اتفاق سے شیخ سعدی گھر میں نہیں تھے۔ وہ شخص چلاگیا۔ بعد میں شیخ صاحب گھر میں آئے تو آپ کو خادمہ نے بتایا۔ حضور ایک آدمی آپ سے ملنے آیا تھا۔ شیخ صاحب نے پوچھا :اس کا نام کیا تھا؟

خادمہ نے کہا:غبداللہ

شیخ بولے۔ غبداللہ بھلا کیا نام ہوا؟ نام تو عبداللہ ہوتاہے۔

خادمہ نے جواب دیا ۔ مالک اس نے تو یہی تھا لیکن اس کی عین(آنکھ) پر نقطہ تھا۔

شیخ سعدی خادمہ کی بات سن کر مسکرائے ۔

عربی میں عین آنکھ کو کہتے ہیں۔

قافیہ

اکبر الہ آبادی کو قافیہ تلاش کرنے میں کمال حاصل تھا۔ مشکل سے مشکل لفظ کا قافیہ تلاش کرلیتے تھے۔ مثلا مولانا کا قافیہ دیکھئے:

پکالیں پیس کر دوروٹیاں تھوڑے سے جو لانا

ہمارا کیا ہے اے بھائی نہ مسٹر ہیں نہ مولانا                                                                                                                         


میں تم سے محبت کرتا ہوں

شوہر نے اپنی بیوی (عربی معلمہ) سے کہا:

أنا احبّك (میں تم سے محبت کرتا ہوں۔(

بیوی نے جواب نہیں دیا۔

 وہ غصے سے کچن میں چلی گئی۔

شوہر غصے سے اس کے پیچھے گیا اور کہا: کیا میں نے کچھ غلط کہا؟

بیوی نے کہا: تم مجھ اکیلی سے محبت نہیں کرتے۔

میں آپ کو تفصیل اور تجزیہ بیان کروں گی۔

أنا احبك: أحب فعل ہے اس کا فاعل، انا ضمیر ہے، ک ضمیر مفعول ہے جو کہ مؤخر ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مجھ سے بھی محبت کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اگر آپ کی محبت مجھ سے خاص ہوتی تو آپ یوں کہتے ایاک احب (میں تجھ سے ہی محبت کرتا ہوں جیساکہ ایاک نعبد میں ہے۔(

 

نوٹ! عربی زبان کی معلمہ سے اس وقت تک شادی نہ کریں جب تک آپ علم الصرف اور علم النحو پر عبور حاصل نہ کرلیں

بصورتِ دیگر زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپکی رفع، نصب، اور جر کی غلطی بھی کام خراب کردے گی۔۔۔

 عقل لے لو

ایک خوانچہ فروش آواز دے رہا تھا۔ عقل لے لو۔

 ایک را بگیر نے  حیرت سے پوچھا بھائی کیا بیچ رہے ہو۔

خوانچہ فروش:عقل بیچ رہا ہوں۔

 را بگیر  : حیرت سے !کتنے روپے کی دے رہے ہو۔

خوانچہ فروش:   بیس روپے میں ۔ اگر لینی ہے تو نکالو بیس  روپے۔

راہگیر : نے بیس  روپے نکال کر ریڑھی والے کو دے دیئے۔

خوانچہ فروش: نے راہ  گیر کو ایک پڑیا تھما دی۔

 راہ گیر :نے جب پڑیا  کھولی تو چیخ کر بولا بیس  روپے میں اتنی کم چینی۔

خوانچہ فروش بولا:  لو آگئی نہ عقل۔


لائبریری:

ایک آدمی کو لا ئبریری سے کتابیں  چرانے کی عادت ہو گئی اور یہ عادت اتنی بڑھی کہ ر فتہ رفتہ لا ئبریری  خالی  ہو گئی۔ ایک دن تنگ آ کر لائبریرین اس صاحب کے گھر گئے اور کہا اجازت ہو تو لائبریری کا بورڈ اتار کر آپ کے گھر کے دروازے پر لگا دوں۔

ایک مقرر اپنی تقریر میں انسانوں اور جانوروں کے درمیان فرق کی وضاحت کررہاتھا۔ کہنے لگا

دیکھئے:  انسانوں نے ان برسوں کے اندر کتنی ترقی کرلی اور جانوروں نے کوئی ترقی نہیں کی۔

کسی  نےسوال  کیا وہ کیسے؟

مقرر بولا: گدھے کو دیکھئے جیسا پہلے تھا ویسا ہی آج تمہارے سامنے کھڑا ہے۔


تہذیب لکھنؤ کا ایک واقعہ


داماد کے سامنے دستر خوان پر انڈوں کا سالن پیش کیا گیا تو حضرت داماد نے عرض کیا کہ :

جناب ان انڈوں کے والدین سے ملنے کا اشتیاق تھا۔

ارشاد ہوا کہ برخوردار،

یہ بیچارے یتیم ہیں انہی کے سر پر دست شفقت رکھدیجئے۔


قسم سے کھڑکی نہیں کھولوں گا!

انٹرویو دینے کے لیے میتھس میں کمزور دو دوست طالب علم تیار بیٹھے تھے

پہلے کا نمبر آیا تو وہ اندر داخل ہوا....

آفیسر : مان لو آپ ٹرین سے سفر کر رہے ہو اور اچانک آپ کو گرمی لگے تو آپ کیا کرو گے؟

طالب علم: میں کھڑکی کھول دوں گا!

آفیسر : بہت خوب! اب یہ بتاؤ کہ اگر وہ کھڑی 1.5 اسکوئر میٹر ہے اور ڈبے کا رقبہ 12m3 ہے اور ٹرین 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جنوب کی طرف جا رہی ہو اور ہوا جنوب سے 5 میل فی سیکنڈ سے ڈبے میں داخل ہو رہی ہو تو پورا ڈبیہ ٹھنڈا ہونے میں کتنا وقت درکار ہوگا؟

طالب علم نے سر کھجایا. لیکن کوئی جواب بن نہیں پڑا اور وہ فیل ہوگیا..

باہر نکل کر اپنے دوست کو وہ سوال بتایا..

اب دوسرے طالب علم کی باری آئی.

آفیسر : مان لو آپ ٹرین سے سفر کر رہے ہو اور اچانک آپ کو گرمی لگے تو آپ کیا کرو گے؟

دوسرا طالب علم :سر! میں اپنا کوٹ اتار دوں گا.

آفیسر: پھر بھی گرم ہورہا ہے تو پھر؟

طالب علم: میں شرٹ اتار دوں گا!

آفیسر : (چِڑ کر) اور پھر بھی گرم ہو رہا ہو تب کیا کرو گے!!!

طالب علم: میں بنیان بھی اتار دوں گا!

آفیسر : (غصے میں) اور اس کے بعد بھی گرم لگ رہا ہوگا تو؟

طالب علم: گرمی سے مر جاؤں گا سر! لیکن قسم سے کھڑکی نہیں کھولوں گا!

صدقات نکالیں ورنہ خود بھی نکل سکتے ہیں!

ایک صاحب کہتے ہیں جمعہ کی نماز کےبعد جب چندے والا ڈبہ میرے  سامنے سے گزرا تو میں نے اپنے والٹ سے چن کر نہایت بوسیدہ سا دس کا نوٹ ڈبے میں ڈالا۔ اتنے میں پچھلی لائن سے ایک صاحب نے میرے کندھے کو تھپتھپاتے ہوے ایک کڑک سا ہزار روپے کا نوٹ مجھے پکڑایا جسے میں نے فوراً ڈبے میں ڈال دیا پھر مڑ کر احترامًا اس کی جانب بہت ہی قابل تحسین نظروں سے دیکھا  تواس نے مسکراتے ہوئے کہا، بٹوا نکالتے ہوئے آپ  ہی کی جیب سے گر گیا تھا احتیاط کیا کریں۔یہ جملہ سن کر میرےتو حواس ہی  اڑگئے ۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post