آنکھوں کے دریچے واکرلیجئے،کانوں کے پردے کھول دیجئے کہ منصہ شہود کائنات حضرت محمد(ﷺ) پر نازل شدہ شریعت(دین اسلام )کی بات ہونے جارہی ہے۔

 جس کے سننے یاپڑھنے سے محرومی سے بڑھ کرافسوس ناک بات کوئی نہیں ہوسکتی ،متعصبین نے تواسلام اوراسلامی تعلیمات کوبدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اوراسلام کے متعلق بہت کچھ غلط فہمیاں اورمن گھڑت اختراعات وافتراء پردازیاں پھیلائیں مگراسلام کے رخ زیبا پران کے خاک اڑانے سے خاک نہیں پڑتی،اسلام کاچمکتادمکتا چہرہ ماند نہیں پڑتااورنہ ہی اسلام کاکچھ بگڑتاہے بلکہ وہ لوگ خود اپنے آپ کواوراپنے متبعین کو نقصان میں رکھتے ہیں۔یورپ تک ان متعصبین کی افتراء پردازیوں کاشکارہورہاہے،یورپ کے آلام و مصائب کی ذمہ داری کافی حدتک ان متعصب اورکم فہم مصنفین پر ہی عائد ہوتی ہے جو اسلام اور یورپ کے درمیان حجاب بنے ہوئے ہیں،یورپ ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لئے بھی اگر ایسے لوگوں کو ذمہ دار سمجھاجائے توکچھ بے جا نہ ہوگا۔

 انسان اگر اب اپنے مستقبل کودرست کرناچاہتاہے اورمتوقع پیش آمدہ خرابیوں سے محفوظ رہنے کا متمنی ہے تو مشعل بدست موجوداست کہ اپنے بنائے قوانین توانسان آزماچکا اب خدائی قواعد وقوانین اوراللہ کی عطاء کردہ شریعت کو بھی آزماہی لے لیکن اس سے قبل ضد،ہٹ دھرمی اورتعصب سے پیچھا چھڑالے کہ کہیںیہ مفسدات ازروئے ہدایت راہنمائی وہدایت بینی میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔انہی مقاصد کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے راقم نے یہ رسالہ عجالہ تالیف کیا ہے تاکہ اس کے قاری و سامع کواسلام اوراسلامی تعلیمات کے مطالعہ کاشوق اوررغبت پیداہو اوراسلام واسلامی تعلیمات کی بابت پھیلائی گئی متعدد غلط فہمیوں اورافتراء پردازیوں کاازالہ بھی ہو۔اللہ رب العالمین سے دعاہے کہ روز قیامت اپنی رحمت اور اس حقیر سی خدمت کے طفیل راقم اور تمام متعلقین کو(جنہوں نے کسی بھی طور اس کاوش میں تعاون فرمایا)اپنی رحمت اورحصارمیں جگہ عطاء فرمائے اوراس رسالہ کو تمام قارئین وسامعین کے لئے ہدایت و رہنمائی کاذریعہ بنائے۔آمین

 وماتوفیقی الاباللہ،علیہ توکلت والیہ انیب 

اسلام کی بنیاد

 

(١) عن ابن عمر قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''بنی الاسلام علی خمس،شھادۃ ان لاالہ الااللہ وان محمداعبدہ ورسولہ واقام الصلوۃ وایتاء الزکوٰۃ والحج وصوم رمضان''۔

(متفق علیہ)

 حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا ''اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرہے۔

١۔ اس بات کا دل سے اقرار کرنااورگواہی دیناکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد(ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

٢۔ پابندی کے ساتھ نماز پڑھنا

٣۔ زکوۃ دینا

٤۔ حج کرنا

٥۔ رمضان کے روزے رکھنا۔

(بخاری، مسلم)

 اسلام کو ایک عمارت سے تشبیہ دی جاسکتی ہے ،جس طرح کوئی بلند وبالا خوشنماعمارت اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس کے نیچے بنیادی ستون نہ ہوں،بالکل اسی طرح اسلام کی عمارت بھی اپنے بنیادی پانچ ستونوں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی ۔ان ہی پانچ ستونوں کواس حدیث میں ذکرفرمایاگیاہے۔اور وہ پانچ ستون ہیں۔عقیدہ توحید ورسالت،نماز ،زکوٰۃ،حج اور روزہ۔

 جو شخص خود کو مؤمن ومسلمان بنانا اورقائم رکھناچاہے اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اعتقادی وفکری اورعملی واخلاقی زندگی کی اساس ان پانچ ستونوں کوقراردے۔

 

مؤمن ومسلم

 

(٢) عن عبداللہ بن عمر قال :قال رسول اللہ ''المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ،والمھاجر من ھجر مانھی اللہ عنہ''

(ھذا لفظ البخاری)

ولمسلم قال ان رجلا ً سأل النبی(ﷺ) ای المسلمین خیر قال،''من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ''

 حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''کامل مسلمان وہ ہے ،جس کے ہاتھ اورزبان(کی ایذائ)سے مسلمان محفوظ رہیں۔اوراصل مہاجر وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو چھوڑدیا ہوجن سے اللہ نے منع فرمایا ہے،(یہ الفاظ بخاری کے ہیں)

 مسلم نے اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔

 ایک شخص نے نبی علیہ السلام سے دریافت کیا کہ مسلمانوں میں سب سے بہتر کون ہے؟آپ علیہ السلام نے فرمایا ''جس کی زبان اورہاتھ(کے ضرر)سے مسلمان محفوظ رہیں''۔

 حدیث مبارکہ کے پہلے جزء میں اس طرف اشارہ ہے کہ ''مؤمن اورمسلمان''محض اس کانام نہیں ہے کہ کوئی شخص محض کلمہ پڑھ لے اورکچھ متعین اعمال وارکان اداکرلے بلکہ اسلامی شریعت اپنے پیروؤں سے ایک ایسی بھرپور زندگی کاتقاضہ کرتی ہے کہ جس کا حامل ایک طرف عقائد واعمال کے لحاظ سے اللہ کا ''حقیقی بندہ''کہلانے کامستحق ہوتودوسری طرف وہ انسانیت کے تعلق سے پوری طرح امن وآشتی کانمونہ اورمحبت ومروت کا مظہر ہو،امن وامانت،اخلاق ورواداری،ہمدردی وخیرسگالی کااپنی عملی زندگی میں اس طرح اظہار کرے کہ دنیاکاہرانسان اس سے خوفزدہ رہنے کے بجائے اس کو اپناہمدرد،بہی خواہ اورمشفق سمجھے اورجان ،مال وآبرو ہرمعاملہ میں اس پرپورااعتمادواطمینان رکھے۔

 اس حدیث میں ہاتھ اورزبان کی تخصیص اس لئے ہے کہ عام طورپر ایذارسانی کے لیے یہی دوذریعے ہیں ۔ورنہ یہاں ہروہ چیز مراد ہے جس سے تکلیف پہنچ سکتی ہے۔خواہ وہ ہاتھ و زبان ہوں یاکوئی اوردوسری چیز۔

حدیث مبارکہ کے دوسرے جزء میں حقیقی مہاجر کی تعریف کی گئی ہے،یوں تومہاجراس شخص کوکہیںگے جس نے اللہ کی راہ میں اپناوطن،گھر اورملک چھوڑکر دارالسلام کو اپناوطن بنالیا ہو،یہ قربانی اسلام عزت ووقعت کی نگاہ سے دیکھتاہے اور اس کے لئے بے شمار جزاء وانعام کاحقدارمانتا ہے۔لیکن اس حدیث سے معلوم ہواکہ اس ہجرت کے علاوہ ایک ہجرت اورہے ،جس کا زندگی کے ساتھ دوامی تعلق رہتاہے اور یہ ہے کہ اللہ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے مؤمن ان سے پرہیز کرتارہے اوراللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے نفسانی خواہشات ترک کرکے پاکیزہ نفسی اختیار کرے ایساشخص حقیقی مہاجر کہلانے کا مستحق ہے۔

 

 عن انس بن مالک قال ،قال رسول اللہ(ﷺ) لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین''۔

(متفق علیہ)

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ،رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ،اس کی اولاد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔(بخاری مسلم)

 محبت ایک توطبعی ہوتی ہے،جیسے اولاد کوباپ یاباپ کو اولاد کی محبت،اس کی بنیاد طبعی وابستگی وپسند فطری تقاضاہوتاہے۔اس میں عقلی یاخارجی ضرورت اوردباؤ کادخل نہیں ہوتا ۔

 ایک محبت عقلی ہوتی ہے،جو کسی طبعی وفطری وابستگی اورتقاضے کے تحت نہیں ہوتی بلکہ کسی عقلی ضرورت ومناسبت اورخارجی وابستگی کے تحت کی جاتی ہے۔اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جیسے مریض اوردوا۔کوئی بیمار شخص دواکواس لئے پسند نہیں کرتاکہ دوالینااس کا فطری اورطبعی تقاضہ ہے بلکہ دوالیناعقل کا تقاضہ ہوتاہے کہ اگرشفایاب ہوناہے اورصحت مندی کی ضرورت ہے تودوااستعمال کرنی ہوگی۔خواہ اس دواکی تلخی اورکڑواہٹ طبیعت پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے۔

 کسی چیز کوعقلی طورپر چاہنے اورپسند کرنے کی وہ کیفیت جس کو'' عقلی محبت'' سے تعبیرکرتے ہیں بعض حالات میں اتنی شدید ،گہری اوراہم بن جاتی ہے کہ بڑی سے بڑی طبعی محبت اورفطری تقاضے پربھی غالب آجاتی ہے۔

 یہ حدیث ذات رسالت سے جس محبت اوروابستگی کامطالبہ کررہی وہ علماء ومحدثین کے نزدیک یہی ''عقلی محبت ''ہے ۔لیکن کمال ایمان ویقین کی بنا پر یہ ''عقلی محبت''اتنی پراثر،اتنی بھرپور اوراس قدر جذباتی وابستگی کے ساتھ ہو کہ ''طبعی محبت''پرغالب آجائے۔

 اس کو یوں سمجھاجاسکتاہے کہ اگرآپ علیہ السلام کی کسی ہدایت اورکسی شرعی حکم کی تعمیل میں کوئی خونی رشتہ جیسے باپ کی محبت اولاد کا پیار یا کوئی بھی اورطبعی تعلق رکاوٹ ڈالے تواس ہدایت رسول اورحکم شرعی کوپوراکرنے کے لئے اس خون کے رشتہ اورطبعی تقاضا و محبت کویکسرنظراندازکردیناچاہئے۔

 ایمانیات اور شریعت کے نقطہ ئ نظر سے یہ بہت بڑامقام ہے اوریہ مقام اسی صورت میں حاصل ہوسکتاہے جب ایمان و اسلام اورحب رسول کا دعویٰ کرنے والااپنے نفس کواحکام شریعت اورذات رسالت میں فناکردے۔اللہ اوراللہ کے رسول کی رضا وخوشنودی کے علاوہ اس کااورکوئی مقصدحیات نہ ہو۔

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ایمان کی تکمیل کامدارحب رسول پر ہے ۔جس شخص میں ذات رسالت سے اس درجہ کی محبت نہ ہو کہ اس کے مقابلہ پر دنیاکے بڑے سے بڑے رشتہ بڑے سے بڑے تعلق اوربڑی سے بڑی چیز کی محبت و چاہت بھی بے معنی ہو ،وہ کامل مسلمان نہیں ہوسکتا،اگرچہ زبان اورقول سے وہ اپنے ایمان واسلام کاکتنا ہی بڑاداعی کیوں نہ ہو۔

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے جب یہ حدیث سنی توعرض کیا''یارسول اللہ''(ﷺ) دنیامیں صرف اپنی جان کے علاوہ آپ علیہ السلام مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں''۔یعنی دنیاکے اور تمام رشتوں اورچیز(ﷺ)وں سے زیادہ میں آپ علیہ السلام کی محبت رکھتاہوں۔

 آنحضرت(ﷺ) نے فرمایا،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ئ قدرمیں میری جان ہے تم اب بھی کامل مؤمن نہیں ہوئے،اس لئے کہ یہ مرتبہ اس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیاراہوجاؤں''۔

 ان الفاظ نبوت نے آن واحد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل ودماغ کی دنیا ہی اتھل پتھل کردی،وہ بے اختیاربولے،یارسول اللہ(ﷺ) آپ پرمیری جان قربان آپ علیہ السلام مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔

 اس پر آپ علیہ السلام نے ان کو یہ بشارت سنائی ''اے عمر اب تمہاراایمان کامل ہوااورتم پکے مؤمن ہوگئے''

 رسول اللہ(ﷺ) کی ذات اقدس بلاشک صحابہ کے لئے ایک شمع کی مانند تھی جس پر وہ پروانہ وار نچھاور ہوناہی اپنی سعادت وخوش بختی تصورکیاکرتے تھے۔اسلام کے اس دورکی شاندارتاریخ اپنے دامن میں ایسے بے شمار واقعات چھپائے ہوئے ہے جو رسول اکرم(ﷺ) سے صحابہئ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جذباتی وابستگی اوروالہانہ محبت وتعلق کی شاندارغمازی کرتے ہیں۔

 ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ صحابہ ئ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نبی علیہ السلام سے محبت و تعلق کا وہی مقام حاصل تھا جو اس حدیث کا منشا ہے،اس لئے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اگروہ ایمان کی سلامتی اور اپنے اسلام میں مضبوطی پیداکرناچاہتا ہے تو نبی علیہ السلام کی محبت و عقیدت سے اپنے دل کومعمور کرلے اور آپ علیہ السلام کی تعلیمات پرعمل پیراہونے ہی کو مدار نجات جانے کہ رسول اللہ(ﷺ) سے محبت کا معیار اتباع شریعت اوراتباع رسول ہے،جوشخص شریعت پرعمل نہیں کرتااورآپ علیہ السلام کی تعلیمات پر نہیں چلتاوہ اس بات کوظاہر کرتاہے کہ نعوذ باللہ اسے حضور علیہ السلام سے محبت نہیں ہے۔

 

اسلام ذریعہ نجات

 

(٤) عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ(ﷺ) ''والذی نفس محمد بیدہ لایسمع بی احد من ھذہ الامۃ یھودی ولانصرانی ثم یموت ولم یؤمن بالذی ارسلت بہ الاکان من اصحاب النار''(رواہ مسلم)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا ''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے ! اس امت میں سے جو شخص بھی خواہ وہ یہودی ہو نصرانی ،میری نبوت کی خبر پائے اور میری لائی ہوئی شریعت پرایمان لائے بغیر مرجائے وہ دوزخی ہے''۔

(مسلم)

 اسلام ایک آفاقی مذہب ہے،جس کے دائرہ اطاعت میں آنا تمام کائنات کے لئے ضروری ہے اور اللہ کی جانب سے بھیجاہوا ایک ایسابین الاقوامی قانون ہے،جس کی پیروی دنیاکے ہر شخص پر لازم ہے۔اسی طرح پیغمبراسلام(ﷺ) کی رسالت اورآپ علیہ السلام کی نبوت بھی چونکہ عالمگیر اوربین الاقوامی ہے ،ہردور کے لئے ہر قوم کے لئے اورہر طبقہ کے لئے۔ اس میں کسی کااستثناء نہیں ہے۔اس لئے آپ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان لانااورآپ علیہ السلام کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنا سب پر یکساں فرض ہے۔خواہ کوئی کسی قوم ،ملک اورطبقہ سے بھی تعلق رکھتاہو۔

 اس حدیث مبارکہ میں یہودی اورنصرانی یعنی عیسائی کاذکر اس بناپرکیاگیاہے کہ یہ دونوں اقوام خود اپنادین و شریعت رکھتی ہیں۔ان کی اپنی اپنی آسمانی کتابیں تھیں،جن کو مدارعمل اورنجات ماننے کا الٰہی حکم تھا۔اس لئے ان کا ذکر کرکے اس طرف اشارہ کیاگیاہے کہ وہ قومیں جوخود اپنے پیغمبروں کی لائی ہوئی شریعت اوراللہ کی جانب سے بھیجی ہوئی کتابوں کی تابع ہیں اورجن کا دین بھی آسمانی دین ہے جو اللہ ہی کا اتاراہواہے۔تواللہ کے آخری دین(اسلام)کے نفاذ اورخاتم النبین(ﷺ) کی ہمہ گیر بعثت کے بعد جب ان قوموں کے لئے پیغمبر اسلام کی رسالت تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں اور شریعت اسلام کے دائرہ میں آئے بغیر ان کی نجات ممکن نہیں توپھروہ قومیں پیغمبر اسلام اورشریعت اسلام پر ایمان و عمل کے بغیر ابدی نجات کیسے پاسکتی ہیںجوکسی آسمانی دین کی پابند نہیں ہیں،جن کے پاس کسی پیغمبر کی لائی ہوئی کوئی کتاب بھی نہیں ہے اور جو اللہ کے بھیجے ہوئے کسی نبی و رسول کی پیروبھی نہیںہیں۔

 اس حدیث میں ایک بات اوربھی مقصود ہے کہ یہودی اورعیسائی کہا کرتے تھے کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے پیروکار اوراللہ کی نازل کردہ کتاب شریعت توریت وانجیل کے متبع ہونے کی وجہ سے ہم توخود نجات یافتہ ہیں۔جنت تو ہماراپیدائشی حق ہے ،ہمیں کیاضرورت ہے کہ محمد(ﷺ) کو اپنارسول مانیں اور اسلام کو اپنادین ،اس حدیث کے ذریعہ ان کے اس غلط عقیدہ وخیال کی بھی تردید کی گئی کہ ان پر واضح کردیاجائے کہ پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد تو نجات ان ہی لوگوں کی ہوگی جو دین اسلام کو مانیں گے اوراس پر عمل کریں گے۔کیوں کہ محمد(ﷺ) کی بعثت کاایک بنیادی مقصدیہ بھی ہے کہ سابقہ شریعتیں منسوخ ہوجائیں ،مذاہب کالعدم ہوجائیں اور تمام کائنات کو صرف ایک مذہب اوردین اسلام کے دائرہ میں لایاجائے ۔جواللہ کا سب سے آخری اور سب سے جامع ومکمل دین ہے۔

 

(٥) عن عبادۃ بن الصامت قال سمعت رسول اللہ(ﷺ) یقول''من شھد ان لاالہ الااللّٰہ وان محمدارسول اللہ حرم اللہ علیہ النار''

 حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ(ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''جس شخص نے(سچے دل سے)اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تواللہ رب العالمین(اپنے فضل و کرم سے)اس پر دوزخ کی آگ حرام کردے گا۔

 

(٦) عن عبادۃ بن الصامت قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''من شھد ان لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ وان محمداعبدہ ورسولہ وان عیسیٰ عبداللہ ورسولہ وابن امتہ وکلمتہ القاھا الی مریم وروح منہ والجنۃ والنار حق ادخلہ اللہ الجنۃ علی ماکان من العمل ''

(متفق علیہ)

 حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا ''جو شخص اس بات کی گواہی دے(یعنی زبان سے اقرار کرے اور دل سے سچ جانے)کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ محمد(ﷺ) بلاشبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔اور( اس بات کی بھی شہادت دے کہ) عیسی علیہ السلام(بھی)اللہ کے بندے اور رسول اور اللہ کی بندی(مریم علیہا السلام)کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جن کو اس نے مریم علیہا السلام کی جانب ڈالاتھا اور اللہ کی بھیجی ہوئی روح ہیں اور یہ کہ جنت و دوزخ حق(واقعی چیزیں)ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا۔خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں''۔

(بخاری، مسلم)

 اس حدیث کا حاصل بھی یہ ہے کہ نجات کا دارومدار ایمان وعقائد کی اصلاح پر ہے ،اس میں کسی قسم کی کوتاہی قابل معافی نہیں ہے۔ہاں البتہ اعمال کی کمزوریاں اللہ کی رحمت سے معاف ہوسکتی ہیں۔

 

 ایمان چونکہ توحید کو ماننا اوراس کی شہادت دیناہے اس لئے سب سے پہلے اسے ضروری قرار دیاگیاہے کہ اللہ کی وحدانیت اوراس کی الوہیت وربوبیت پر صدق دل سے اعتقاد رکھاجائے پھر اس کے بعد رسالت کا درجہ ہے کہ تمام رسولوں کی رسالت پر بھی ایمان رکھنانجات کے لئے ضروری ہے ۔صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر علامت کے طور پربھی ہے اور ایک خاص وجہ سے بھی ہے۔

 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میںعیسائیوں کاعقیدہ ہے کہ معاذ اللہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں،اس باطل عقیدہ کی تردید کے لئے ان کاذکرکیاگیا اوریہ بھی وضاحت کردی گئی کہ آپ علیہ السلام نہ تواللہ کے بیٹے ہیں اورنہ ہی اللہ ان کے اندرحلول کئے ہوئے ہیں۔بلکہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ،جنہیں اللہ نے اپنی ایک بندی مریم علیہا السلام کے پیٹ سے پیدافرمایا،اسی لئے ان کو کلمۃ اللہ(اللہ کا کلمہ)بھی کہاجاتاہے ۔ کیونکہ ان کی پیدائش عام قانون قدرت سے ہٹ کے بغیر باپ کے صرف اللہ کے حکم ''کلمہ کُنْ''سے عمل میں آئی تھی۔

 آپ علیہ السلام کاایک لقب ''روح اللہ''بھی تھا۔یہ لقب اس لئے نہ تھا کہ معاذ اللہ آپ کے اندر اللہ کاکوئی جزء یاروح شامل تھی،بلکہ یہ لقب آپ علیہ السلام کو اس لئے عطاکیاگیا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردوں کوزندہ کردیاکرتے۔اورمٹی کی چڑیاں بناکر ان میں جان ڈال کراڑادیاکرتے تھے۔

 عقیدہ توحید و رسالت کے بعد آخرت کاعقیدہ بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔یعنی اس بات پر ایمان ویقین رکھنا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے اور جنت ودوزخ برحق ہیں،یہ تمام وہ عقائد ہیں جن کو ماننا،صدق دل سے ان پہ ایمان رکھنا اورخلوص نیت سے ان کوتسلیم کرناابدی نجات کاضامن ہے۔

 ان عقائد کومانتے ہوئے اگراعمال کی کوتاہیاں بھی ہوں تو اس صورت میں بھی اس حدیث نے جنت کی بشارت دی ہے۔

 لیکن جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے یہ بات طے ہے کہ جو عملی کوتاہیاں اوربداعمالیاں اللہ کی رحمت سے معاف نہیں ہوں گی ان پر سزاضرور ملے گی۔مگرسزا پوری ہونے کے بعد جنت میں داخل کردیاجائے گا۔

 لہٰذا اس حدیث کو اس مفہوم میں لینا چاہئے کہ اگران عقائد کے ماننے کے بعدکسی نے اعمال بھی اچھے کئے ،شریعت کی پیروی کرتے ہوئے تمام احکام بجالایا اورخلاف شرع کوئی کام نہ کیا توبغیرکسی عذاب وسزا کے اسے جنت میں داخل کیاجائے گا اوراگرکسی نے ان عقائد کوماننے کے بعد اعمال اچھے نہ کئے،شریعت کی پابندی نہ کی ،اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی فرمانبرداری نہ کی تووہ اپنے گناہوں کی سزابھگتے گا،اورپھرآخرکار اسے بھی جنت میں داخل کیاجائے گا۔

 

اللہ کاصبر و تحمل

 

(٧)عن ابی موسیٰ الاشعری قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''مااحد اصبر علی اذی یسمعہ من اللہ یدعون لہ الولد ثم یعافیھم ویرزقھم''

(متفق علیہ)

 

 حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا ''تکلیف دہ کلمات سن کر اللہ سے زیادہ صبروتحمل کرنے والاکوئی نہیں،لوگ اس کے لئے بیٹاتجویز کرتے ہیں وہ اس پربھی ان سے انتقام نہیں لیتا بلکہ ان کو عافیت بخشتاہے اورروزی پہنچاتاہے''۔

(بخاری، مسلم)

 اللہ رب العالمین کی ذات اس سے پاک و بالاتر ہے کہ کوئی انسان اگر اپنے قول و فعل سے اس کوتکلیف پہنچاناچاہے تو وہ کامیاب ہوجائے،یاکوئی شخص اس کو نقصان پہنچانا چاہے تواسے نقصان پہنچ جائے اس لئے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ واقعی اس کو انسان کے قول و فعل سے تکلیف پہنچتی ہے اور وہ صبروتحمل کرتاہے۔اورنہ اس حدیث کامقصد اس بات کو ظاہر کرناہے کہ اس سے یہ مراد لیاجائے۔

 اصل منشاء انسانی دل و دماغ کو جھنجھوڑنا اورعقل و شعور کوبیدار کرناہے کہ جب اللہ کی اپنی بنائی ہوئی مخلوق ،اسی کے پیداکئے انسان اسی کے خزانہ ئ قدرت سے مستفید ہونے والے لوگ اپنے قول و فعل سے اللہ کو ایذاء پہنچانے کے سامان تیارکرتے ہیں،اس کو تکلیف دینے کاارادہ کرتے ہیں،مثلا اس کی نافرمانی کرنا،اس کے احکام وہدایات اوراس کے دین کا مذاق اورا س کی طرف ان چیزوں کی نسبت کرناجن سے اس کی ذات بالکل پاک و منزہ ہے۔مثلا کسی کو اس کابیٹا بنانا،کسی کواس کاجوڑاقراردینا تو یہ سب ایسی باتیں ہیں جن پر اگراس کا غضب بھڑک اٹھے تونہ صرف ان لوگوں کے تمام نظام زندگی تہ وبالا کرکے رکھ دے بلکہ پوری کائنات کو پل بھر میں نیست نابود کرڈالے۔مگراس کے برداشت و تحمل کو تودیکھو کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے کے باوجود کوئی انتقامی کاروائی نہیں کرتا،کسی کی روزی روٹی بند نہیں کرتا،کسی کو زندگی کے وسائل وذرائع سے محروم نہیں کرتا،جس طرح اس کے نیک اوراطاعت گزاربندے اس کے فضل و کرم کے سایہ میں ہیں اسی طرح بدکار اورسرکش بندے بھی اسی کے خزانہ رحمت سے پل رہے ہیں اور اسی کی نعمتوں سے مستفید ہورہے ہیں۔

 

زمانے کو برامت کہو

 

(٨) عن ابی ہریرہ قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''قال اللہ یؤذینی ابن اٰدم یسب الدھر واناالدھر بیدی الامر اقلب الیل والنھار''

(متفق علیہ)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا ''اللہ فرماتے ہیں ابن آدم(انسان)مجھے تکلیف دیتا ہے(اس طرح کہ )وہ زمانہ کوبراکہتا ہے،حالانکہ زمانہ(کچھ نہیں وہ)تومیں ہی ہوں،سب تصرفات میرے قبضہ ئ قدرت میں ہےں،اور شب و روز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔

(بخاری، مسلم)

 عام طورپر یہ بات روزمرہ مشاہدہ میں آتی ہے کہ انسان اپنی خود کی پیداکردہ پریشانیوں اورمصائب کوبرائی کی صورت میں زمانہ اور وقت کے سرپرتھوپ دیتاہے اوراس طرح کے الفاظ اداکرتاہے ۔زمانہ خراب ہے،وقت بہت براہے،وغیرہ وغیرہ۔حدیث مبارکہ میں اسی سے منع کیاجارہاہے ،کہ اس طرح وقت اور زمانہ کوبراکہنا نہایت غلط ہے ،کیونکہ دیکھاجائے توزمانہ اور وقت توکچھ نہیں ہیں،اصل متصرف حق تعالیٰ کی ذات ہے،جس کے قبضہ میں دن و رات کی گردش ہے اور اسی گردش ایام کانام زمانہ اور وقت ہے۔

 اگر زمانہ اوروقت کو متصرف سمجھ کر براکہاجاتاہے تو چونکہ اصل متصرف توحق تعالیٰ ہیں اس لئے وہ برائی جوزمانہ اور وقت کی طرف منسوب کی جاتی ہے درحقیقت حق تعالیٰ کی طرف جاتی ہے۔حدیث مبارکہ میں اسی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔

 

ہواکو برانہ کہو

 

(٩) عن ابی ہریرۃ قال سمعت رسول اللہ(ﷺ) یقول ''الریح من روح اللہ تأتی بالرحمۃ وابالعذاب فلاتسبوھا وسئلوا اللہ من خیرھا وعوذوابہ من شرھا''

(رواہ الشافعی وابوداؤد وابن ماجہ والبیھقی فی الدعوات الکبیر)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کویہ فرماتے ہوئے سناکہ ''ہوا اللہ کی رحمت ہے،وہ رحمت بھی لاتی ہے اورعذاب بھی،پس تم(اگرتمہیں اس سے کوئی نقصان پہنچے) تو اسے برانہ کہو،ہاں تم اللہ سے اس کی بھلائی طلب کرو،اوراللہ سے اس کے نقصان سے پناہ مانگو۔

(شافعی،ابوداؤد،ابن ماجہ،بیہقی)

 سخت ہوا اور آندھی جواللہ کے سرکش اورنافرمانوں کے لئے عذاب کا ذریعہ بن کر آتی ہے وہ بھی حقیقت میں رحمت ہی ہے کیونکہ اللہ کے نیک اورفرمانبردار بندے اس کی تباہی سے محفوظ رہتے ہیں۔

امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :لعنت کا باعث تین ہی چیزیں ہواکرتی ہیں۔

١۔ کفر

٢۔ فسق

٣۔ بدعت

 اورظاہر ہے کہ ہوا میں ان تینوں چیزوں میں سے کوئی بھی چیز نہیں پائی جاتی ،اس لئے آنحضرت علیہ السلام نے ہواکو لعنت دینے سے منع فرمایا۔

 

مسلمان کون ہے؟

 

(١٠) عن انس انہ قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''من صلی صلوٰتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم اللذی لہ ذمۃ اللہ وذمۃ رسولہ فلاتخفراللہ فی ذمتہ ''

(بخاری)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اورہمارے ذبیحوں کوکھائے وہ مسلمان ہے اوراللہ اوراللہ کے رسول کے عہدوامان میں ہے۔پس جوشخص اللہ کے عہد وامان میں ہے تم اس کے ساتھ عہد شکنی مت کرو''۔(بخاری)

 اصل ایمان اگرچہ ''تصدیق قلبی''کا نام ہے لیکن یہ ایک اندرونی کیفیت اورقلبی صفت ہے،جس کا تعلق باطن سے ہے،اسی طرح ''اقرار''اگرچہ زبان سے متعلق ہے مگروہ بھی ایک وقتی چیزہے لہذا دودینوں میں کھلاہواامتیاز ان کے علیحدہ علیحدہ شعار ہی کے ذریعہ ہوسکتاہے ،اسلامی شعار میں نماز پڑھنا اوربیت اللہ کی طرف منہ کرکے عبادت کرنا اہل کتاب کے مقابلہ پر سب سے امتیازی عمل ہے ،اسی طرح معاشرتی لحاظ سے جس عمل اورطریقہ میں اہل کتاب مسلمانوں سے کھلاہوا احتراز کرتے تھے،وہ ان کاذبیحہ تھا ۔مسلمانوں کاذبح کیا ہواگوشت اہل کتاب نہیں کھاتے تھے۔لہذا اس حدیث میں بتایاگیا کہ اگراہل کتاب بھی عبادات میں ہماری طرح قبلہ کی طرف رخ کرنے لگیں اورمعاشرتی لحاظ سے وہ ہم سے اتنا قریب آجائیں کہ ہمارے ہاتھ کاذبیحہ کھانے لگیں تویہ اس بات کی کھلی ہوئی شہادت ہوگی کہ وہ ہمارادین پورے یقین کے ساتھ قبول کرچکے ہیں اورایمان انکے قلب کی گہرائیوں تک پہنچ گیا ہے،جس کااظہار نہ صرف یہ کہ زبان سے بلکہ ان کے عمل سے بھی ہورہاہے تواب مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ہیں ۔جس کامطلب یہ ہے کہ اللہ اوراللہ کے رسول کے ساتھ ان کاعہد واقرارہوگیا ہے،ان کی جان و مال اورعزت وآبرو کی حفاظت کاذمہ اللہ اور اللہ کے رسول نے لے لیاہے ،اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی بدمعاملگی یابراسلوک نہ کریں،نہ ان کو ستائیں نہ تکلیف دیں اور نہ ان کے ساتھ ایسا طورطریقہ رکھیں جس سے ان میں کسی قسم کاخوف و ہراس یادل شکستگی پیداہو،ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی بدمعاملگی اوربدسلوکی درحقیقت اللہ کے عہد کو توڑنے اوراس عہد شکنی کاالزام اللہ پر عائد کرنے کے مترادف ہوگی۔

 

(١١) عن ابی ذر قال :قال رسول اللہ ''افضل الاعمال الحب فی اللہ والبغض فی اللہ ''

(ابوداؤد)

 حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا(باطنی )اعمال میں سب سے افضل مرتبہ اس عمل کا ہے کہ اللہ ہی کے لئے(کسی سے)محبت ہو اور اللہ ہی کے لئے(کسی سے) بغض وعداوت رکھی جائے۔(ابوداؤد)

 اگربندہ کااحساس اتنالطیف اور اس کاجذبہ اتناپاکیزہ ہوجائے توظاہر ہے کہ قدم قدم پر یہی روشنی اس کی رہنمائی کرتی رہے گی۔جس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ وہ بری باتوں اورگناہوں سے بچتارہے گا اوراچھی باتیں اورنیک کام کرتارہے گا اسی لئے اس جذبہ کو بہترین عمل قراردیاگیاہے۔

 

سچامومن کون ہے؟

 

(١٢) عن ابی ہریرہ قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمؤمن من اٰمنہ الناس علیٰ دمائھم واموالھم''۔

(رواہ الترمذی والنسائی)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''کامل اور سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان(کی ایذاسے)مسلمان محفوظ رہیں اور(پکاوصادق)مؤمن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان اوراپنے مال کو مامون سمجھیں''۔

(ترمذی،نسائی)

 صحیح معنی میں مؤمن وہ ہی ہے جس کاوجود مخلوق خداکے لئے باعث اطمینان وراحت ہو،لوگوں کو اس پرپوراپورااعتماد وبھروسہ ہو،اس کی امانت ودیانت،عدالت و صداقت اوراخلاق وپاکیزگی اس طرح نمایاں ہوکہ نہ توکسی کواپنے مال کے ہڑپ کئے جانے کا خوف ہو اورنہ کسی کواس کی طرف سے اپنی جان و آبرو کے نقصان کاخدشہ ،اورنہ کسی کے دل میں اس کی جانب سے کسی اورطرح کاخوف و ہراس ہو۔

(١٣) عن ابی امامۃ ان رجلا سأل رسول اللہ(ﷺ) ماالایمان قال''اذا سرتک حسنتک وسائتک سیئتک فانت مؤمن''قال یارسول اللہ فماالاثم قال''اذاحاک فی نفسک شیء فدعہ''

(احمد)

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ(ﷺ) سے پوچھا(یارسول اللہ )(ﷺ) ایمان کیاہے؟آپ علیہ السلام نے فرمایا ''جب تمہاری نیکی تمہیں بھلی لگے اور تمہاری برائی تمہیں بری لگے تو(سمجھوکہ)تم(پکے)مؤمن ہو،پھراس شخص نے پوچھا یارسول اللہ(ﷺ) گناہ کیا ہے؟آپ علیہ السلام نے فرمایا ،جب کوئی بات تمہارے دل میں کھٹک اور تردد پیداکرے(توسمجھوکہ وہ گناہ ہے)لہذااس کو چھوڑدو۔

(احمد)

 صحابی کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ کوئی ایسی واضح علامت بتادی جائے جس کے ذریعہ ایمان کی سلامتی واستقامت کااندازہ کیاجاسکے،چنانچہ آپ علیہ السلام نے فرمایا،اگرتم اپنے اندر یہ کیفیت پاؤ کہ جب کوئی اچھا کام کرتے ہو تمہاراقلب ودماغ اس کام کی بھلائی کوخود محسوس کرتاہے اورایک خاص قسم کی طمانیت اورآسودگی پاتاہے،احساس وشعور کی دنیا اللہ کی طرف سے نیکی کی توفیق اور مدد پانے پر فرحاں وشاداں اوررب کریم کی خوشنودی و قربت کی طلبگاری وامیدواری سے معمور ہوجاتی ہے۔یایہ کہ جب بتقاضائے بشریت تم سے کوئی ایسافعل سرزد ہوجاتاہے جو واضح طورپر گناہ ومعصیت کاکام سمجھاجاتا ہے توفورا تمہاراد ل اللہ کے خوف سے بھرجاتا ہے اورپروردگار عالم کی ناراضگی کااحساس کرکے شرمسار اورنادم ہوجاتاہے تو سمجھ لو کہ تمہارے دل و دماغ میں ایمان رچ بس گیا ہے اورتم پکے مؤمن ہوگئے ہو کیونکہ نیکی اوربدی کے درمیان امتیاز کرنااورثواب وگناہ کااحساس و شعور پیداکرنا صرف ایمان کا خاصہ ہے۔

 دوسرے سوال کا مطلب دراصل یہ تھا کہ مؤمن کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں بعض ایسی چیزوں سے واسطہ پڑتاہے ،جن کے بارے میں واضح طورپر علم نہیں ہوتا کہ آیایہ چیز شرعی نقطہ ئ نظر سے برائی کے حکم میں ہے اور اس سے کوئی گناہ لازم آتاہے یااس کو اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے توایسے مشتبہ عمل کی برائی یابھلائی کو پہچاننے کی علامت کیاہے؟اس کے جواب میں سرکار دو عالم(ﷺ) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ سچے اور پاکباز مؤمن کاقلب دراصل فطرت کی ایسی پاکیزہ لوح ہے جس پر اسلامی اطاعت وفرمانبرداری اورنیکی وبھلائی ہی کے نقوش ابھرسکتے ہیں،اگرگناہ ومعصیت کاہلکا سادھبہ بھی وہاں پہنچتاہے تواس کو کوئی جگہ نہیں ملتی اور وہ کھٹک وتردد کی صورت میں منڈلاتاپھرتاہے۔پس کسی بھی عمل اورچیز کے بارے میں اگریہ کیفیت ظاہر ہوکہ فطرت سلیمہ اس کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتی،قلب اس کا بوجھ محسوس کرتاہے اوردماغ میں خلش وتردد پیداہوگیا ہے توجان لو کہ وہ عمل برائی کا حامل ہے۔اورگناہ ومعصیت کولازم کرنے والاہے،اورنجات و فلاح اسی میں ہے کہ اس چیز کوفورا چھوڑدیاجائے۔

 یہی وجہ ہے کہ ارباب باطن اوراولیاء اللہ قلب و دماغ کی صفائی اورپاکیزگی کی بناپر کسی عمل کی پوشیدہ ترین برائی کو بھی پہچان لیتے ہیں،اورکسی بھی ایسی چیز کواپنے قریب نہیں آنے دیتے جوگناہ ومعصیت کاہلکاسا شائبہ بھی رکھتی ہو۔ان کے ہاں ''مشتبہ عمل''سے بھی اس درجہ کااجتناب برتاجاتاہے جتنا اجتناب وہ کھلے ہوئے برے اعمال سے کرتے ہیں۔کیونکہ ان کادل ودماغ برائی کے شائبہ کوبھی بھانپ لیتاہے،اوران کو اطمینان قلب اور عمل کاسرور صرف اسی صورت میں حاصل ہوتاہے جب ان کاکوئی قدم راہ مستقیم سے ہٹاہوانہیں ہوتا۔اوران کا کوئی کام دین و شریعت کی روح کے منافی نہیں ہوتا۔

 

امت محمدیہ کے بلند مرتبہ لوگ

 

(١٤) عن ابن عباس قال :قال رسول اللہ ''اشراف امتی حملۃ القرآن و اصحاب اللیل''

(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ سرور کونین(ﷺ) نے فرمایا''میری امت کے اشراف یعنی بلند مرتبہ لوگ قرآن اٹھانے والے اور رات میں اٹھنے والے ہیں''۔

(بیہقی)

 ''قرآن اٹھانے والے''سے مراد وہ لوگ ہیں جوقرآن کریم یاد کرتے ہیں اورا س کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔بایں طورکہ قرآن نے جن امورکوکرنے کاحکم دیاہے ان کو کرتے ہیں اور جن امورسے منع کیا ہے ان سے بچتے ہیں ۔آپ علیہ السلام کے ارشاد کامطلب یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ میری امت کے بلند مرتبہ اور با سعادت لوگ ہیں۔

 چنانچہ قرآن حفظ کرنے والے اور اس کے احکام کے پابند لوگوں کی فضیلت ایک دوسری روایت میں اس طرح بیان کی گئی کہ ''جس شخص نے قرآن حفظ کیاتوبے شک اس پر فیضان نبوت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں مگر اس کے پاس وحی(یعنی وحی جلی )نہیں آتی۔البتہ وحی خفی اس کے پاس آتی ہے(یعنی وحی جلی کے مطالب و معارف کافیضان اس کے قلب و دماغ پرہوتاہے۔)

 مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم حفظ کرنے والا شخص اس وجہ سے بہت زیادہ فضیلت وسعادت کاپیکرمانا جاتاہے کہ اس کے قلب کے اندرقرآن کے الفاظ کی شکل میں نورنبوت ودیعت فرمادیا جاتاہے،جس کا اثر یہ ہوتاہے کہ وحی خفی یعنی قرآن کے ظاہری الفاظ کے مطالب ومعارف کافیضان اس کے قلب ودماغ کومنورکردیتاہے اور قرآن کے الفاظ کے نور کی برکت سے وحی جلی پر جو کہ انبیاء کا مخصوص حصہ ہے اس کاایمان وایقان قوی تر ہوجاتاہے۔

 علامہ یحیٰ رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ''قرآن حفظ کرنے''کامطلب یہ ہے کہ قرآن یاد کرے اور اپنی عملی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھالے ،بایں طور کہ قرآن نے جو احکام دیئے ہیں ان پر پورے قلبی خلوص اورمداومت کے ساتھ عمل کرے ورنہ تو محض قرآن یاد کرنے والا اوراس پر عمل نہ کرنے والاان لوگوں میں شمار کیاجاتاہے ،جن کے بارے میں حق تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ''کمثل الحمار یحمل اسفارا'' یعنی جولوگ حافظ قرآن تو ہوں مگر عامل قرآن نہ ہوں تو)وہ ایسے ہیں جیسے کہ گدھے پرکتابیں لاددی جائیں۔

 یعنی جس طرح کہ گدھے پر کتابیں لاد دینے سے گدھے کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچتا،بالکل اسی طرح قرآن پر عمل نہ کرنے والے حافظ کو بھی قرآن حفظ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا،اور وہ سعادت ومرتبہ کے اعتبار سے کسی بھی حیثیت میں نہیں ہوتا۔

 اصحاب اللیل(رات والے اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز و قرآن پڑھنے کے لئے شب بیداری پر مداومت کرتے ہیں یعنی پابندی کے ساتھ روزانہ رات میں اٹھتے ہیں اور عبادت و ذکرالہٰی میں مشغول ہوتے ہیں۔ایسے لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کی نظر وں میں بڑی فضیلت کے حامل ہوتے ہیں ۔اورآپ علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق امت مرحومہ کے بلند مرتبہ افراد میں سے شمار کئے جاتے ہیں۔

 

وہ تین شخص جو دوہرے اجر کے مستحق ہیں

 

(١٥) عن ابی موسیٰ الاشعری قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''ثلاثۃ لھم اجران رجل من اھل الکتاب اٰمن بنبیہ واٰمن بمحمد والعبد المملوک اذاادی حق اللہ وحق موالیہ ورجل کانت عندہ امۃ یطأھا فادبھا فاحسن تأدیبھا وعلمھا فاحسن تعلیمھا ثم اعتقھا فتزوجھا فلہ اجران''

(متفق علیہ)

 حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم(ﷺ) نے فرمایا''تین شخص ایسے ہیں جن کو دودواجرملیں گے۔

١۔ وہ اہل کتاب(یہودی وعیسائی)جو(پہلے)اپنے نبی علیہ السلام پر ایمان رکھتا تھا،پھرمحمد(ﷺ) پر ایمان لایا۔

٢۔ وہ غلام جو اللہ کے حقوق بھی ادا کرے اوراپنے آقاؤں کے حق کوبھی اداکرتارہے،

٣۔ وہ شخص جس کی کوئی باندی تھی اور وہ اس سے صحبت کرتاتھا،پہلے اس کو اچھا ہنرمند بنایا،پھراس کو خوب اچھی طرح تعلیم دی اورپھراس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرلیاتو یہ بھی دوہرے اجر کا حقدار ہوگا۔

(بخاری، مسلم)

 اس ارشاد گرامی کا مطلب ان تین طرح کے لوگوں کو بشارت دیناہے جن کو اوروں کے مقابلہ پر نیک عمل کادوہرااجرملتا ہے۔

١۔ پہلی قسم کے لوگ وہ اہل کتاب(یہودی و عیسائی)ہیں جو پہلے تواپنے دین میں تھے اورپھر جب ،اسلام کی دعوت ان تک پہنچی تو دعوت اسلام پاکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔ان کودوہرے اجر کی بشارت اس لئے دی گئی ہے کہ ان کا پہلے اپنے نبی(علیہ السلام)کوپختہ دل سے ماننا ،اس نبی کی لائی ہوئی کتاب و شریعت پرعمل کرنا اوراس نبی سے اعتقادی وابستگی وتعلق رکھنا اورپھر خاتم الانبیاء حضرت محمد(ﷺ) کی رسالت ونبوت پر اوراللہ رب العالمین کے آخری دین(اسلام)کی دعوت پاکر صدق دل سے اس کا حلقہ بگوش ہوجانا ،نہ صرف یہ کہ ان کے کمال انقیاد واطاعت اوران کی فکری وذھنی سلامت روی کی علامت ہے بلکہ اس معنی میںان کے قلبی و عملی ایثار کاغماز بھی ہے کہ اپنے سابقہ نبی اور سابقہ دین سے عقیدت وتعلق اورزبردست جذباتی لگاؤ کے باوجود انہوں نے دعوت اسلام پاکر اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنی زندگی کادھاراایک دم موڑدیااوراب اپنے اعتقاد کی باگ ڈور دین اسلام کے سپرد کردی ،جب تک ان کے سامنے اسلام کی دعوت نہیں آئی تھی وہ اپنے پہلے دین ہی کو اللہ کادین سمجھ کر اس کے حلقہ بگوش رہے اور جب اسلام کی دعوت ان کے سامنے آئی توانہوں نے اس کو اللہ کا آخری دین جان کر اپنے پچھلے دین کو چھوڑنے میں کسی قسم کی ضد ہٹ ،دھرمی اورتعصب سے کام نہیں لیا بلکہ فطرت سلیمہ کی آواز پر لبیک کہہ کر محمد عربی(ﷺ) کے غلاموں میں شامل ہوگئے۔لہذا اللہ نے خصوصی انعام کے طورپر ان کوہر نیک عمل پر دوہرے اجرکا مستحق قراردیا۔ایک اجر تو اپنے پہلے نبی پرایمان رکھنے کے سبب اور دوسرااجر پیغمبر آخری الزماں حضرت محمد(ﷺ) پر ایمان لانے کا۔

 دنیاکے تمام مذاہب میں یہ خصوصیت اورامتیاز صر ف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ اپنے تصورات واعتقادات اوراپنی تعلیمات کی بنیاد''انکار'' پر نہیں ''اقرار''پررکھتاہے۔یعنی وہ آسمانی دینوں میں کسی رقابت یارسولوں میں کسی تفریق کی خلیج نہیں حائل کرتا،وہ تمام آسمانی کتب کی تصدیق پرزوردیتاہے اوراللہ کی جانب سے بھیجے گئے تمام رسولوں کی رسالت پر ایمان لانے کی تاکید کرتاہے۔

 اسلام کے برخلاف دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے اعتقاد ونظریات کودیکھاجائے تویہ بات جاننے میں دیر نہیں لگتی کہ ان کے ہاں کوئی شخص اس وقت تک مذہب کا سچاپیرو اورحقیقی تابعدار نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس کے ماسوا دوسرے مذاہب کے اعتقاد وتصورات کی بنیادوں کوبالکل ہی مسمار نہ کردے۔اوردوسرے رسولوں اورپیغمبروں کی رسالت کا سرے سے انکار نہ کردے۔اسلام تو ایمان و اعتقاد کے پہلے مرحلہ میں ہی اپنے پیروؤں سے اس بات کا اقرار کرواتاہے کہ دنیامیں جتنے بھی رسول اللہ کی جانب سے مخلوق کی ہدایت کے لئے آئے ان میں کسی قسم کی تفریق نہ کی جائے گی ،ان کی لائی ہوئی شریعتوں کواپنے اپنے زمانہ کے لئے حق اورواجب التسلیم ماناجائے گا،اسلام اپنے متبعین کواحساس صداقت کایہ شعور بخشتاہے کہ آسمانی مذاہب میں کوئی پارٹی بندی نہیں ہے ،سب ایک ہی صداقت کی کڑیاں ہیں۔نیز وہ اپنے ماننے والوں کوواضح طورپرآگاہ کردیتاہے کہ ایمان کی تکمیل جب ہی ہوگی کہ دوسرے آسمانی مذاہب کی تصدیق بھی کی جائے اور سابقہ تمام انبیاء کی صداقت کوماناجائے ۔اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگرکوئی یہودی یاعیسائی ایمان لے آئے اورنبی علیہ السلام کی نبوت ورسالت کااقرار کرے تواپنے نبی پر لایاہواایمان اس کاپہلاایمان رائیگاں نہ جائے گا بلکہ وہ اس پر اجر و ثواب کامستحق قراردیاجائے گا۔لیکن اگروہ پیغمبر اسلام(ﷺ) کی رسالت کی تصدیق نہیں کرتااورآپ علیہ السلام کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہیں لاتا تونہ صرف یہ کہ وہ اس کفر وانکار کی بناپر دائمی عذاب کا مستوجب گردانا جائے گا بلکہ اس کا پنے نبی پر لایا ہواپہلاایمان بھی رائیگاں اوربے کارسمجھا جائے گا اور ان پر کسی قسم کے اجر وثواب کااستحقاق پیدانہیں ہوگا۔کیونکہ جس طرح تمام انبیاء پر ایمان لانااور ان کی رسالت کی تصدیق کرنا لازم ہے اس طرح عمل اورپیروی پیغمبر اسلام(ﷺ) کی شریعت پر ضروری ہے اورمدار نجات صرف اسلام کی اطاعت وفرمانبرداری ہے۔

 دوسرے شخص کے لئے بھی دوہرے اجر کی بشارت کا سبب واضح ہے یعنی ایک غلام کے لئے نہ صرف سماجی ،روایتی اوردنیوی حیثیت سے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مالک وآقا کی اطاعت وفرمانبرداری کرے اور اس کے احکام کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی یاسستی نہ کرے،لہذا ایک غلام جب اپنے آقا کے حقوق کی پوری نگہداشت کرتا ہے اور حقوق کی ادائیگی کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے حقیقی مالک اورپالنہار اللہ رب العالمین کے احکام کی بجاآوری بھی پورے حقوق کے ساتھ کرتاہے اور اس کے عائد کردہ تمام فرائض کی تکمیل میںٰ کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتاتووہ دوہرے اجر کا استحقاق پیداکرلیتاہے۔

 تیسرے شخص کو دوہرے اجر کا مستحق اس بناپر قراردیاگیا ہے کہ اول تو اس نے ایک باندی کوآزاد کیا جونہ صرف یہ کہ انسانیت اورفطرت کے تقاضہ کوپوراکرتا ہے بلکہ اسلامی اخلاق کے اعلیٰ اصول و اقدار پر عمل کرنابھی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسی باندی کو آزادکرکے اورپھر اس سے شادی کرکے اس نے انسانی ہمدردی ،اسلامی مساوات اوربلند اخلاق کااس طرح اعلیٰ ثبوت دیاکہ ایک ایسی عورت کوجوسماجی حیثیت سے کمتر ،بے وقعت اورذلیل بن کررہ گئی تھی،اچھی تربیت ،اعلیٰ تعلیم اور پھر آزادی وشادی کی گرانقدر دولت سے نواز کر دنیا کی باعزت اورسوسائٹی ومعاشرہ کی شریف ومعزز عورتوں کے برابر لاکھڑاکیا،اس طرح اس نے اگرایک طرف انسانیت اوراخلاق کے تقاضہ کوپوراکیاتو دوسری طرف اسلامی تعلیم کی روح کوبھی اجاگر کیا۔پس اس کے اسی ایثار کی بناپر شریعت نے اس کو بھی دوہرے اجر کا استحقاق عطاکیاہے۔

 حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے دوہرے اجر کے بارے میں لکھاہے کہ ان لوگوں کے نامہ ئ اعمال میں جزاء اورثواب کی یہ دوگنی اضافت اس طرح ہوگی کہ ان کو ہر عمل پر دوسروں کے مقابلہ میں دوہراثواب ملے گا۔مثلااگرکوئی دوسراشخص نماز پڑھتاہے ،روزہ رکھتاہے یاکوئی اورنیک کام کرتاہے تو اس کو عمومی بشارت کے تحت دس ثواب ملیں گے لیکن یہی عمل یہ تینوں کریں گے تو ان کوہرایک عمل پر بیس بیس ثواب ملیں گے۔

 

حضور ﷺ کی دس وصیتیں

 

(١٦) عن معاذ قال اوصانی رسول اللہ(ﷺ) بعشر کلمات قال''لاتشرک باللہ شیأا وان قتلت وحرقت،ولاتعقن والدیک وان امراک ان تخرج من اھلک ومالک ،ولاتترکن صلوۃ مکتوبۃ متعمدا فقد برأت منہ ذمۃ اللہ،ولاتشربن خمرا فانہ رأس کل فاحشۃ،وایاک والمعصیۃ فان بالمعصیۃ حل سخط اللہ وایاک والفرار من الزحف وان ھلک الناس موت وانت فیھم واثبت وانفق علی عیالک من طولک ولاترفع عنھم عماک ادبارا واخفھم فی اللہ''

(احمد)

 حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے مجھے دس(١٠)باتوں کی وصیت فرمائی(چنانچہ فرمایا)

١۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ،اگرچہ تمہیں جان سے مارڈالاجائے اورجلادیاجائے،

٢۔ اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرنااگرچہ وہ تمہیں اپنے اہل اورمال کو چھوڑدینے کا حکم دیں،

٣۔ جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑنا،کیونکہ جوشخص عمداًنماز چھوڑدیتاہے اللہ اس سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں،

٤۔ شراب مت پینا کیونکہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے،

٥۔ اللہ کی نافرمانی اورگناہ سے بچنا ،کیونکہ نافرمانی کرنے سے اللہ کا غصہ اترآتاہے،

٦۔ جہادمیں دشمنوں کوہرگز پیٹھ نہ دکھلانا ،اگرچہ تمہارے تمام ساتھی بھی ہلاک ہوجائیں،

٧۔ جب لوگوں میں موت(وباکی صورت میں )پھیل جائے اورتم ان میں موجود ہوتوثابت قدم رہنا یعنی ان کے درمیان سے مت بھاگنا،

٨۔ اپنے اہل و عیال پراپنی وسعت کے مطابق خرچ کرتے رہنا،

٩۔ تادیباً اپناڈنڈاان سے نہ ہٹانا،

١٠۔ اللہ کے معاملہ میں انہیں ڈراتے رہنا ،یعنی اہل و عیال میں سے کسی کوسزا کے طورپر یا تادیباً کچھ مارپیٹ کرنا ضروری ہو تواس سے پہلوتہی نہ کرنا۔اوران کو اچھی اچھی باتوں کی نصیحت و تلقین کرتے رہنا،اوردین کے احکام ومسائل کی تعلیم دیتے رہنا اوربری باتوں سے بچانے کی کوشش کرتے رہنا ۔

(احمد)

 شرک اپنی برائی کے اعتبار سے کس قدر خطرناک ہے اوراخروی حیثیت سے کتنی ہلاکت خیزی رکھتاہے ، اسکااندازہ اس بات سے کیاجاسکتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کووصیت فرمائی کہ اگرتمہیں جان سے مارڈالے جانے کابھی خطرہ ہویاتمہیں آگ میں ڈالا جارہا ہوتوبھی تم توحیدکے معاملے میں اپنے عقیدہ سے ایک انچ بھی نیچے مت اترنا،بلکہ موت کی پرواہ کئے بغیر اپے اعتقاد پرپختگی کے ساتھ قائم رہنا تاہم جہاں تک نفس مسئلہ کاتعلق ہے توکہاجاتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ چونکہ اپنی فطرت کے اعتبار سے شریعت کی پیروی میں انتہائی سخت تھے اورکسی بھی مسئلہ کے اسی پہلو کواختیار کرتے تھے جو اولیٰ ہوتاتھا۔اس لئے آپ علیہ السلام نے ان کے مزاج اورذوق کے مطابق اس قدراہمیت کے ساتھ ان کو حکم دیا،ورنہ ایسے موقعہ پر جب کہ اپنے ایمان و اسلام کااظہاراپنی موت کودعوت دینے والا اورکفر وشرک کاکلمہ زبان سے اداکئے بغیرجان نہ بچتی ہوتو اس کی اجازت ہے کہ کفر و شرک کاکوئی کلمہ زبان سے اداکرلے ،بشرطیکہ دل میں ایمان پوری طرح موجود رہے،والدین کی اطاعت وفرمانبرداری کی بھی اہمیت وتاکید کو ہی ظاہر کرنے کے لئے بطور مبالغہ فرمایاگیاکہ اگرماں باپ تمہیں تمہارے اہل وعیال سے الگ ہوجانے یاتمہیں تمہارے مال واسباب اوراملاک وجائداد سے دستبردار ہوجانے کابھی حکم دےں تو اس حکم کی اطاعت کرو۔اس بارہ میں بھی اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماں باپ کا یہ حکم مانناواجب نہیں ہے تاکہ حرج و نقصان میں مبتلاہونالازم نہ آئے۔

 فرض نماز کی اہمیت جتانے کے لئے فرمایاگیا اگرتم جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑوگے توپھر اپنے آپ کو دنیا اورآخرت میں اللہ کی ذمہ داری سے باہر سمجھو،دنیامیں تواسی اعتبار سے کہ اسلامی نظام اوراسلامی حکومت کے قانون کے تحت جس تعزیر کے مستوجب قرارپاؤ گے اس میں اللہ کی طرف سے کوئی امن وعافیت تمہیں نہیں ملے گی ۔اورآخرت میں اس اعتبار سے کہ وہاں ترک نماز کے سبب خود اللہ تمہیں عذاب میں گرفتار کرے گا۔

 دشمن کو پیٹھ دکھانے کے بارہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگردشمن دوتہائی تک بھی زائد ہوں یعنی ایک مسلمان کے مقابلہ پردودشمن دین ہوں تواس صورت میں مقابلہ سے ہٹ جانااورراہ فراراختیار کرناکسی مسلمان کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے،ہاں اگرایک کے مقابلہ میں دو سے زائد ہوں توپھر تباہی کا خطرہ دیکھ کر مقابلے سے ہٹ جانااورجان بچانے کے لئے راہ فراراختیار کرلیناجائز ہوگا۔

 پس آپ علیہ السلام نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کویہ حکم بطورمبالغہ دیاکہ تم کسی بھی صورت میں اپنے دشمن کوپیٹھ مت دکھانا خواہ تمہارے تمام ساتھی شہید ہوجائیں،اوردشمن کے مقابلہ پرتم تنہا ہی کیوں نہ رہ جاؤ۔

 اسی حدیث میں ایک اعتقادی کمزوری کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اکثرایساہوتاہے کہ جب کسی آبادی میں کوئی وباپھیل جاتی ہے اورکثرت سے اموات واقع ہونے لگتی ہیں اور عوام دہشت زدہ ہوکر اپناگھر بارچھوڑدیتے ہیں اوراس آبادی سے نکل بھاگتے ہیں۔ اس بارہ میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ اس آبادی میں پہلے سے مقیم نہ ہوں بلکہ دوسری جگہوں پرہوں توان کے لئے جائز ہے کہ وہ اس آبادی سے دوررہیں اوروہاں نہ آئیں لیکن جو لوگ پہلے ہی سے آبادی میں مقیم ہوں ان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ موت کے خوف سے اس آبادی کوچھوڑدیں اوروہاں سے نکل بھاگیں ،کیونکہ وبازدہ آبادی سے نکل بھاگنا ایساہی گناہ ہے جیسادشمن کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہونے کا ،بلکہ جوشخص اس اعتقاد سے بھاگے گا کہ اگریہاں رہاتومرجاؤں گااوریہاں سے نکل بھاگنے پرموت سے بچ جاؤں گاتووہ کافرہوجائے گا۔

 

وہ تین باتیں جوایمان کی جڑ ہیں

 

(١٧)عن انس قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''ثلاث من اصل الایمان ،الکف عمن قال لاالہ الا اللہ لاتکفرہ بذنب ولاتخرجہ من الاسلام بعمل والجھاد ماض ٍ مذبعثنی اللہ الی ان یقاتل اخر ھذہ الامۃ الدجال لایبطلہ جورجائر ولاعدل عادل والایمان بالاقدار''

(ابوداؤد)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''تین باتیں ایمان کی جڑ ہیں۔

١۔ جو شخص لاالہ الااللہ کا اقرار کرلے اس سے جنگ ومخاصمت ختم کردینا۔اس کے بعد کسی گناہ کی وجہ سے اسے کافر مت کہو اورنہ کسی عمل کی وجہ سے اس پر اسلام سے خارج ہونے کافتویٰ لگاؤ۔

٢۔ جب سے کہ اللہ نے مجھے رسول بناکر بھیجاہے جہاد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا یہاں تک کہ اس امت کے آخر میں ایک شخص آکردجال سے جنگ کرے گا،کسی عادل بادشاہ کے عدل یاکسی ظالم کے ظلم کابہانہ لے کر اسے ختم نہیں کیاجاسکتا۔

٣۔ تقدیر پرایمان لانا۔

 کسی مسلمان کو کافر کہنے کی ممانعت اس حدیث نے واضح طورپرثابت کردی ہے،مطلب یہ ہے کہ جس طرح اچھے کام کرنے والے کافرکومسلمان کہنامنع ہے تاوقتیکہ وہ توحید ورسالت کااقرار نہ کرلے اسی طرح کسی مسلمان کو صرف اس کی بداعمالیوں کی بناپرکافر کہنابھی سخت جرم ہے جب تک کہ عقیدہ ئ کفر یہ کااعلان نہ کرے، ''لاتکفرہ بذنب''کسی گناہ کی وجہ سے کسی کو کافرمت کہو۔یہ الفاظ خارجیوں کی تردید میں ہیں،جن کا مانناہے کہ مؤمن اگرگناہ کا مرتکب ہوجائے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہوتووہ کافر ہوجاتاہے اور''ولاتخرجہ من الاسلام بعمل''اورنہ کسی عمل کی وجہ سے کسی کوخارج از اسلام قراردو۔یہ الفاظ ہیں معتزلہ کی تردید،جوکہتے ہیں کہ بندہ اگرگناہ کبیرہ کاارتکاب کرلے تواسلام سے خارج ہوجاتاہے اگرچہ کافرنہیں ہوتا۔معتزلہ مرتکب گناہ کے لئے ایک درمیانی درجہ مانتے ہیں۔یعنی نہ تواس کو مسلمان کہتے ہیں اورنہ کافر۔

 بہرحال خارجیوں اورمعتزلہ کے قطع نظر موجودہ دور کے ان مسلمانوں کوبھی اس حدیث کے آئینہ میں اپناچہرہ دیکھنا چاہئے جوکفر سازی کے کارخانے چلاتے ہیں،اوراپنے اپنے مکاتب فکر کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں کو بے دریغ کافرقراردیتے ہیں۔

 یہ شقی القلب لوگ محض ذاتی اغراض اورنفسانی خواہشات کے تحت نہ صرف عام مسلمانوں کوبلکہ علماء حق اوراولیاء اللہ تک کو کافر کہنے سے ذرا بھی نہیں جھجھکتے ،ان لوگوں کوٹھنڈے دل و دماغ سے سوچناچاہئے کہ جب لسان نبوت نے عاصی مسلمان کوبھی کافر کہنے سے سخت منع فرمایاہے توپھران بزرگان دین اورپیشوایان اسلام کو کافرکہناکہ جن کی زندگیوں کاتمام حصہ مذہب کی اشاعت وخدمت میں گزرتاہے اوراس پراکتفانہیں کرتے بلکہ جو ان کوکافرنہ کہے اسے بھی کافر گرداننے لگ پڑتے ہیں۔یہ احکام شریعت اورفرمان رسالت سے کتنامضحکہ خیزمعاملہ ہے جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ کے عذاب اورآخرت کے خسارہ کے علاوہ کچھ نہیں نکل سکتا۔

 

وہ دوباتیں جو جنت و دوزخ کو واجب کرتی ہیں

 

(١٨) عن جابر قال:قال رسول اللہ(ﷺ) ''ثنتان موجبتان قال رجل یارسول اللہ ماالموجبتان قال:''من مات یشرک باللہ شیأا دخل النار ومن مات لایشرک باللہ شیأا دخل الجنۃ ''

(رواہ مسلم)

 

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا ''دوباتیں(جنت اوردوزخ کو ) واجب کرنے والی ہیں۔''ایک صحابی نے عرض کیا،یارسو ل اللہ(ﷺ) وہ دوباتیں کونسی ہیں ؟آپ علیہ السلام نے فرمایا،پہلی بات تو یہ کہ جو شخص اس حال میں مراکہ اس نے کسی کو اللہ کاشریک ٹھہرارکھاتھا تو وہ دوزخ میں ڈال دیاجائے گا(اوردوسری بات یہ کہ)جس شخص کی وفات اس حال میں ہوئی کہ اس نے کسی کو اللہ کا شریک نہ کیاتھا وہ جنت میں جائے گا۔

(مسلم)

 مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی شخص ایمان لایا اوراللہ کی وحدانیت اوررسول اللہ کی رسالت کا اقرار کیا اورپھراس عہد واقرار کے تمام تقاضوں کوپوراکیا یعنی شریعت ودین کی پوری پوری پیروی کی اور پھر اسی اعتقاد واطاعت پر اس کی موت آئی تو وہ یقینا جنتی ہے۔

 اس کی نجات میں بظاہر کوئی شبہ نہیں ہوگالیکن اگرایمان واسلام کے بعد اس سے عمل کی کوتاہی سرزد ہوئی یاشریعت پر عمل نہیں کیا مگرخاتمہ اس کابھی ایمان پر ہواتو اس کی بھی ابدی نجات تویقینا ہوگی لیکن اس سے دنیامیں جو کچھ بداعمالیاں ہوئیں یاگناہ سرزد وہوئے ان پر اس کوآخرت کی سزابھگتنا ہوگی،سزاکے بعد پھروہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کردیاجائے گا،اس سے معلوم ہوا کہ ابدی نجات کادارومدارایمان پر ہے ،اگرایمان صحیح ہے اوراسی حالت میں موت واقع ہوئی ہے توابدی نجات میںکوئی شک نہیں اور اگرکسی نے شریعت پر عمل نہیں کیا،احکام الٰہی واحکام رسول کی پیروی نہیں کی تو اس پر سزا کاہونابھی یقینی ہے ۔مگراس سزاکاتعلق بھی ایک محدود مدت سے ہوگا ،سزاپوری کرنے کے بعد وہ بھی ابدی نجات کی سعادت سے نوازاجائے گا۔

 

نماز کے بعد چارچیزوں سے پناہ مانگو

 

(١٩) عن ابی ھریرہ قال:قال رسول اللہ(ﷺ) ''اذافرغ احدکم من التشھد الاخر فلیتعوذ باللہ من اربع،من عذاب جھنم ومن عذاب القبر ومن فتنۃ المحیاوالممات ومن شرالمسیح الدجال''(رواہ مسلم)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم(ﷺ) نے فرمایاجب تم میں سے کوئی شخص(نماز میں ) آخری تشہد یعنی التحیات سے فارغ ہوجائے تو اسے چاہئے کہ وہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ کاطلبگارہو۔

١۔ دوزخ کے عذاب سے۔

٢۔ قبرکے عذاب سے۔

٣۔ زندگی وموت کے فنتہ سے۔

٤۔ مسیح دجال کی برائی سے۔

 مطلب یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد سے فراغت کے بعد یہ دعاپڑھنی چاہئے ۔

''اللھم انی اعوذبک من عذاب جھنم ومن عذاب القبر ومن فتنۃ المحیاوالممات ومن شرالمسیح الدجال''

 اے اللہ!میں دوزخ کے عذاب،قبر کے عذاب،زندگی اورموت کے فتنوں اورمسیح دجال کی برائی سے تیری پناہ مانگتاہوں۔

 

(٢٠) عن سعد انہ کان یعلم بنیہ ھؤلآء الکلمات ویقول ان رسول اللہ(ﷺ) کان یتعوذ بھن دبرالصلوۃ''اللھم انی اعوذبک من الجبن واعوذبک من البخل واعوذبک من ارذل العمر واعوذبک من فتنۃ الدنیا وعذاب القبر''

(بخاری)

 حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ وہ اپنی اولاد کوکلمات دعاکے بعد یہ الفاظ سکھاتے تھے اور فرمایاکرتے تھے کہ رحمت عالم(ﷺ) اپنی نماز کے بعد انہیں الفاظ کے ذریعہ پناہ مانگاکرتے تھے،

 ''اللھم انی اعوذبک من الجبن واعوذبک من البخل واعوذبک من ارذل العمر واعوذبک من فتنۃ الدنیا وعذاب القبر''

 اے اللہ!میں نامرادی سے تیری پناہ چاہتاہوں،بخل سے تیری پناہ کاطلبگارہوں،ناکارہ عمرسے تیری پناہ کاخواستگارہوں اوردنیا کے فتنہ اورقبر کے عذاب سے بھی ۔

 ''جبن''سے مراد ہے طاعت کی جراء ت نہ کرنا۔

 ''بخل''سے مراد ہے کسی غیرکو مال، علم اورخیرخواہی سے فائدہ نہ پہنچایاجانا۔

 ''ارذل العمر''اس کا مطلب ہے کہ انسان زندگی کے اس موڑپر پہنچ جائے جہاں عقل میں خلل آجاتاہے،اعضاء ضعیف ہوجاتے ہیں ،طاقت و قوت یکسرجواب دے دیتی ہے ،اورایساشخص بالکل اپاہج ومعذور ہوکر دین ودنیا دونوں کے کاموں کے لئے ناکارہ بن جاتاہے،ایسی عمر سے پناہ مانگنی چاہئے،کیونکہ انسانی زندگی کا حاصل اورمقصود توصرف یہ ہے کہ اللہ کی عبادت میں مشغول رہاجائے،اس کی نعمتوں کااچھی طرح شکر اداکیاجاتارہے،اورظاہر ہے کہ ایسی ناکارہ عمر میں کوئی شخص نہ پوری طرح عبادت کرسکتاہے اورنہ ادائے شکر میں مشغول رہ سکتاہے ،اس طرح زندگی اورعمر کاجواصل مقصد ہے وہ فوت ہوجاتاہے ۔اللہ رب العالمین ہم سب کوایسی ناکارہ زندگی سے محفوظ رکھے ۔(آمین)

 

دعا کی قبولیت کا وقت

 

(٢١) عن ابی امامہ قال قیل یارسول اللہ ای الدعاء اسمع قال''جوف اللیل الاخر ودبرالصلوۃ المکتوبات''(رواہ الترمذی)

 حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عرض کیاگیا ''یارسول اللہ(ﷺ) کس وقت دعابہت زیادہ مقبول ہوتی ہے؟آپ علیہ السلام نے فرمایا ''رات کے آخری حصہ میں(یعنی سحرکے وقت)اورفرض نمازوں کے بعد۔

(ترمذی)

 

آیت الکرسی کی فضیلت

 

(٢٢) عن علی رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ علی اعواد ھذاالمنبر یقول ''من قرأ اٰیۃ الکرسی فی دبرکل صلوۃ لم یمنعہ من دخول الجنۃ الاالموت ومن قرأھا حین یأخذ مضجعہ اٰمنہ اللہ علیٰ دارہ ودارجارہٖ واھل دویرات حولہ''

(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

 امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عالم(ﷺ) کولکڑی کے منبر پریہ فرماتے ہوئے سناہے کہ ''جو شخص ہرنماز کے بعدآیۃ الکرسی پڑھتاہے اسے بہشت میں جانے سے سوائے موت کے اورکوئی چیز نہیں روک سکتی۔

 اورجوشخص آیۃ الکرسی کواپنی خوابگاہ میں جانے کے وقت(یعنی سونے کے وقت) پڑھتاہے تواللہ تعالیٰ اس کے مکان میں اور اس کے ہمسایہ میں(یعنی جومکانات اس کے مکان سے ملے ہوئے ہوں)اوراس کے ارد گرد مکانات میں امن دیتاہے۔

(بیہقی)

 

نماز کے بعد تسبیح کی فضیلت

 

(٢٣) عن ابی ہریرہ قال :ان فقراء المھاجرین اتورسول اللہ(ﷺ) فقالوا قدذھب اھل الدثور بالدرجات العلیٰ والنعیم المقیم فقال وماذاک قالوایصلون کما نصلی یصومون کمانصوم ویتصدقون ولانتصدق ویعتقون ولانعتق فقال رسول اللہ(ﷺ) افلااعلمکم شیأا تدرکون بہ من سبقکم وتسبقون بہ من بعدکم ولایکون احدافضل منکم الامن صنع مثل ماصنعتم قالوا'' بلیٰ''یارسول اللہ قال:''تسبحون وتکبرون وتحمدون دبر کل صلوۃ ثلاثا وثلاثین مرۃ قال ابوصالح فرجع فقراء المہاجرین الی رسول اللہ فقالوا سمع اخواننا اھل الاموال بمافعلنا ففعلوا مثلہ فقال رسول اللہ ''ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشائ''

(متفق علیہ)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ(ایک دن)فقراء مہاجرین رحمت عالم(ﷺ) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ یارسول اللہ(ﷺ) دولتمند لوگ بلند درجات(یعنی ثواب، قرب الہی اوررضاء حق)اوردائمی نعمت(یعنی بہشت کی نعمت)کوحاصل کرنے میں ہم سے سبقت لے گئے(یعنی وہ اپنے مال ودولت کی وجہ سے بڑاثواب حاصل کرتے ہیں اورجنت کی نعمتوں کے مستحق ہوتے ہیں اورہم اپنی غربت وافلاس کی وجہ سے بلندیئ درجات میں ان سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔آپ علیہ السلام نے فرمایا وہ کیسے؟انہوں نے عرض کیا۔وہ اسی طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح ہم پڑھتے ہیںاوروہ اسی طرح روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم رکھتے ہیں(ان اعمال میں تووہ اورہم برابرہیں)لیکن مال و دولت ہونے کی وجہ سے وہ صدقہ خیرات کرتے ہیں اورغربت وافلاس کی وجہ سے ہم صدقہ وخیرات نہیں کرسکتے،وہ غلام آزاد کرتے ہیں ہم غلام آزاد نہیں کرسکتے ،اس طرح وہ ان اعمال کے باعث مزید ثواب کے حقدار ہوجاتے ہیں اورہم اس ثواب سے محروم رہتے ہیں(یہ سن کر)آپ علیہ السلام نے فرمایا ۔کیامیں تم لوگوںکوایسی بات نہ بتادوں کہ اس پر عمل کرکے تم ان لوگوں کے درجات کوپہنچ جاؤ جو تم سے پہلے اسلام لاچکے ہیں،اوران لوگوں کے مرتبہ سے بڑھ جاؤ جوتمہارے بعد کے ہیں(یعنی جوتمہارے بعداسلام لائے ہیں یاتمہارے بعدپیداہوں گے )اور(مالدار لوگوں میں سے )کوئی شخص تم سے بہترنہ ہوگا سوائے اس شخص کے جو تم جیسا ہی عمل کرے(یعنی اگرمالدار لوگوں نے میری بتائی بات پر تمہاری طرح عمل کیاتوپھرمرتبہ کے اعتبار سے وہی تم سے بہترہوں گے)فقراء نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ بہترہے ،فرمائےے(وہ کیابات ہے؟) آپ علیہ السلام نے فرمایا''تم لوگ ہر نماز کے بعد سبحان اللہ،الحمدللہ،اوراللہ اکبر تینتیس(٣٣)مرتبہ پڑھ لیاکرو''

(حدیث کے ایک راوی )ابوصالح فرماتے ہیں کہ(کچھ دنوں کے بعد)فقراء مہاجرین(پھر)آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیاکہ یارسول اللہ(ﷺ) ہمارے دولتمند بھائیوں نے ہمارے عمل کاحال سنااوروہ بھی وہی کرنے لگے جوہم کرتے ہیں(اس طرح پھروہی لوگ ہم سے افضل ہوگئے)آپ علیہ السلام نے فرمایا !یہ تواللہ کاعطاکردہ فضل ہے ،وہ جس کو چاہتاہے عطاکرتاہے۔

(بخار ی ومسلم)

 روایت میں جو یہ فرمایاگیا ہے کہ ہر نماز کے بعد سبحان اللہ ،اللہ اکبر اورالحمد للہ تینتیس(٣٣)مرتبہ پڑھو اس میں تین احتمال ہیں۔

١۔ اول تویہ ہے کہ ان تینوں کلمات کومجموعی طورسے تینتیس(٣٣) مرتبہ پڑھاجائے ،اس طرح کہ سبحان اللہ گیارہ مرتبہ اورا للہ اکبر گیارہ مرتبہ اورالحمدللہ بھی گیارہ مرتبہ۔

٢۔ دوم یہ کہ ان تینوں کلمات کو الگ الگ ٣٣،٣٣ مرتبہ پڑھاجائے ،چنانچہ مشائخ کاعمل اسی پر ہے ،اور یہی افضل بھی ہے۔

٣۔ سوم یہ کہ ان تینوں کلمات کو ملاکر٣٣ مرتبہ پڑھاجائے ،اس طرح ان میں سے ہر ایک کو بھی ٣٣ مرتبہ پڑھنا ہوجائے گا۔

 

 

 

شکر کرنے والا امیرصبرکرنے والے غریب سے افضل ہے

 

 حدیث مبارکہ کے آخری الفاظ ''ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشائ''کامطلب یہ ہے کہ اگر اللہ نے دولتمند لوگوں کوتم پرفضیلت دی ہے تو یہ محض اس کافضل وکرم ہے کہ وہ جسے چاہتاہے اپنے فضل وکرم سے نواز کراس کے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر ڈال دیتاہے ،لہذا تمہیں چاہئے کہ اس معاملہ میں صبر کا دامن پکڑے رہو،اورتقدیر الٰہی پر راضی رہوکہ اس نے بعض بندوں کوبعض بندوں پر فضیلت وبزرگی عطافرمادی ہے۔اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شکر کرنے والا دولتمند صبرکرنے والے غریب سے افضل ہوتاہے لیکن ساتھ ہی اتنی بات بھی ہے کہ دولت مند اپنے مال ودولت کے معاملہ میں مختلف قسم کے گناہوں کے خوف سے خالی نہیں ہوتا جب کہ فقیر وغریب ان گناہوں کے خوف سے جو مال و دولت کی بناء پر صادر ہوتے ہیں امن میں رہتاہے ۔

 امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ(احیاء العلوم''میں فرماتے ہیں کہ ''علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیاہے چنانچہ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ اوردیگر اہل اللہ رحمہم اللہ علیہم اجمعین فضیلت فقرکے قائل ہیں اور ابن عطاء کا قول ہے کہ شکرکرنے والادولت مند جودولت کاحق اداکرتاہوصبرکرنے والے غریب سے افضل ہے۔

 

طلوع وغروب آفتاب تک ذکرمیں مشغول رہنے کی فضیلت

 

(٢٤) عن انس قال:قال رسول اللہ ''لان اقعدمع قوم یذکرون اللہ من صلوۃ الغدٰوۃ حتی تطلع الشمس احب الی من ان اعتق اربعۃ من ولد اسماعیل ولان اقعد مع قوم یذکرون اللہ من صلوۃ العصر الی ان تغرب الشمس احب الی من ان اعتق اربعۃ''

(ابوداؤد)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رحمت دو عالم(ﷺ) نے فرمایا ''ایک ایسی جماعت کے ساتھ میرابیٹھنا جونماز فجر سے طلوع آفتاب تک ذکر الٰہی میں مشغول رہیں میرے نزدیک حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کرنے سے بہترہے اورعصر کی نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک ایسے لوگوں میں میرابیٹھنا جوذکر الٰہی میں مشغول ہوں میرے نزدیک اس سے بہترہے کہ میں چارغلام آزاد کروں۔

(ابوداؤد)

(٢٥) عن انس قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''من صلی الفجر فی جماعۃ ثم قعد یذکراللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کاجر حجۃ وعمرۃ قال :قال رسول اللہ تامۃ ،تامۃ،تامۃ''

(رواہ الترمذی)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رحمت دوعالم(ﷺ) نے فرمایا ''جوشخص نماز فجر جماعت سے پڑھے اورپھر طلوع آفتاب تک ذکراللہ میں مشغول رہے اورپھردورکعت نماز پڑھے تواسے حج و عمرہ کاثواب ملے گا۔

 راوی کابیان ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا،پورے حج وعمرہ کا،پورے حج وعمرہ کا،پورے حج وعمرہ کا۔

(ترمذی)

 مطلب یہ ہے کہ جو شخص فجر کی نماز جماعت سے پڑھ کر اسی مسجدمیں اوراسی مصلے پرطلوع آفتاب تک ذکر الٰہی میں مسلسل مشغول رہے اورپھراس کے بعد دورکعت نماز نفل پڑھے تواسے اتناہی ثواب ملے گاجتناایک پورے حج وعمرے کاثواب ملتاہے۔اوراگرکوئی شخص حالت ذکر میں طواف کے لئے یاطلب علم کے لئے اوریامجلس میں جانے کے لئے مصلی سے اٹھے یااسی طرح کوئی شخص وہاں سے اٹھ کراپنے گھر چلاجائے مگراس دوران برابرذکرالٰہی میں مشغول رہے تواسے بھی مذکورہ ثواب ملے گا۔

 ذکر سے فارغ ہوکرطلوع آفتاب کے بعد دورکعت نماز سورج کے ایک نیزہ کے بقدر بلند ہوجانے کے بعد پڑھنی چاہئے تاکہ وقت کراہت ختم ہوجائے،اس نماز کو'' نماز اشراق'' کہتے ہیں۔اوراکثراحادیث میں اس کا نام صلوٰۃ الضحیٰ بھی منقول ہے''اوربظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں جن کے یہ دوالگ الگ نام ہیں۔اس کا ابتدائی وقت آفتاب کے بلند ہوجانے کے بعد شروع ہوتاہے اور انتہائی وقت سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے ہے،ابتدائی وقت میں پڑھی جانے والی نماز کو نماز اشراق کہتے ہیں اورانتہائی وقت میں پڑھی جانے والی نماز کو'' نماز چاشت ''کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔

 فرمایاگیاہے کہ اس شخص کو حج و عمرہ دونوں کا ثواب ملتاہے توحج کا ثواب توفرض نماز کوجماعت کے ساتھ اداکرنے کی بناء پرملتاہے اورعمرہ کاثواب نفل نماز یعنی نماز اشراق پڑھنے کی وجہ سے ملتاہے۔

 

نماز فجر اورمغرب کے بعدذکر کی فضیلت

 

(٢٦) عن عبدالرحمن ابن غنم عن النبی(ﷺ) قال''من قال قبل ان ینصرف ویشتی رجلیہ من صلوۃ المغرب والصبح''لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر یحیی ویمیت وھوعلی کل شیء قدیر'' عشر مرات کتب لہ بکل واحد عشر حسنات ومحیت عنہ عشر سیّاٰت ورفع لہ عشر درجات وکانت لہ نورامن کل مکروہ وحرزاً من الشیطان الرجیم ولم یحل لذنب ان یدرکہ الاالشرک وکان من افضل الناس عملا الارجلا یفضلہ یقول افضل مماقال''

(احمد)

 حضرت عبدالرحمن بن غنم رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم(ﷺ) فرماتے تھے''جو شخص فجر اورمغرب کے بعد(نماز کی جگہ)سے اٹھنے سے پہلے اورپاؤں موڑنے سے پہلے ان کلمات کوپڑھے۔

 ''لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر یحیی ویمیت وھوعلی کل شیء قدیر''

 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ اکیلا ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے ،اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے واسطے تمام تعریفیں ہیں،اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے وہی(جسے چاہتاہے)زندہ رکھتاہے اور(جسے چاہتاہے)موت دے دیتاہے اوروہی ہر چیزپر قادرہے۔

 تو اس شخص کے لئے ہرایک مرتبہ کے بدلہ میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں،دس گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں،دس درجات بلند کردیئے جاتے ہیں اوریہ کلمات اس کے لئے ہربری چیز اورشیطان مردود سے امان(کاباعث)بن جاتے ہیں یعنی نہ تواس پر کسی دنیوی آفت وبلاکااثر ہوتاہے نہ ہی شیطان مردود اس پر حاوی ہوتاہے)اور شرک کے علاوہ کوئی گناہ(توفیق استغفار اوررحمت پروردگار کی وجہ سے)اسے ہلاکت میں نہیں ڈالتا(یعنی اگرخدانخواستہ شرک میں مبتلاہوجائے گا توپھر اس عظیم عمل کی وجہ سے بھی بخشش نہیں ہوگی)اوروہ شخص عمل کے اعتبار سے لوگوںمیں سب سے بہترہوجائے گا سوائے اس شخص کے جو اس سے زیادہ افضل عمل کرے گایعنی(یہ اس شخص سے افضل نہیں ہوسکتاجس نے یہ کلمات اس سے زیادہ کہے ہوں)

(احمد)

(٢٧) عن عمر بن الخطاب ان النبی(ﷺ) بعث قبل نجد فغنموا غنائم کثیرۃ واسرعوا الرجعۃ فقال رجل منالم یخرج مارأیت بعث اسرع رجعۃ ولاافضل غنیمۃ من ھذاالبعث فقال النبی(ﷺ) ''الاادلکم علی قوم افضل غنیمۃ وافضل رجعۃ قوما شھدواصلوۃ الصبح ثم جلسوا یذکرون اللہ حتی طلعت الشمس فاؤلئک اسرع رجعۃ وافضل غنیمۃ''

(رواہ الترمذی)

 امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں(ایک موقعہ پر)رحمت عالم(ﷺ) نے ایک لشکر نجد کی جانب بھیجا ،چنانچہ وہ لشکر(فتح وکامیابی کے بعد)بہت زیادہ مال غنیمت لے کربہت جلد(مدینہ )واپس لوٹ آیا،ہم میں سے ایک شخص نے جولشکر کے ساتھ نہیں گیا تھاکہاکہ ''ہم نے توایسا کوئی لشکر نہیں دیکھا جواس لشکر کی طرح اتنی جلدی واپس آیا ہواوراپنے ساتھ اتنامال غنیمت بھی لایاہو(یہ سن کر) سرکار دوعالم(ﷺ) نے فرمایا''کیا میں تمہیں ایک ایسی جماعت کے بارے میں نہ بتاؤں جو مال غنیمت میں اورجلد واپسی میں اس لشکر سے بھی بڑھی ہوئی ہو۔(توسنو)وہ جماعت وہ ہے جوفجرکی نماز کی جماعت میں حاضرہوئی ہو اورپھر سورج نکلنے تک بیٹھی ہوئی اللہ کا ذکر کرتی رہی ہو،یہی وہ جماعت ہے جو جلد واپس آنے اورمال غنیمت لانے میں ان سے بھی بڑھی ہوئی ہے۔

(ترمذی)

 

نبی علیہ السلام کا جن کے ساتھ عجیب واقعہ

 

(٢٨) عن ابی ھریرۃ قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''ان عفریتا من الجن تفلت البارحۃ لیقطع علی صلوتی فامکننی اللہ منہ فاخذت فاردت ان اربطہ علیٰ ساریۃ من سواری المسجد حتی تنظروالیہ کلکم فذکرت دعوت اخی سلیمان ''رب ھب لی ملکا لاینبغی لاحدمن بعدی''فرددتہ خاسأا''

(متفق علیہ)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دن سرور کونین(ﷺ) نے فرمایا''آج رات جنات میں سے ایک دیو(یعنی ایک سرکش شیطان)چھوٹ کر میرے پاس آیاتھا تاکہ میری نماز میں خلل ڈالے مگراللہ نے مجھے اس پرحاوی کردیا ،چنانچہ میں نے اسے پکڑلیااورچاہاکہ مسجد نبوی(ﷺ)کے ستونوں میں سے کسی ستون سے اسے باندھ دوں تاکہ تم سب لوگ اسے دیکھ لو۔پھرمجھے اپنے بھائی سلیمان(علیہ السلام) کی یہ دعایادآگئی ''رب ھب لی ملکا لاینبغی لاحدمن بعدی''چنانچہ میں نے اسے ذلیل بناکرچھوڑدیا۔

(بخاری، مسلم)

 مطلب یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جن جنات کوجزیروں میں قیدکردیاتھا ان میں سے ایک سرکش جن چھوٹ کر اورشیطان بن کر آپ علیہ السلام کے پاس آگیا تاکہ آپ علیہ السلام کی نماز میں خلل ڈالے یعنی وسوسے پیداکرکے نماز کاکمال ختم کردے مگراللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اس پر حاوی کردیا اور آپ علیہ السلام نے اسے پکڑلیا۔

 حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعامیں بادشاہت سے مراد جنات وشیاطین کومسخر کرنااوران پر تصرف حاصل کرناہے ،چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ دعا اپنے لئے کی تھی اور یہ مرتبہ صرف اپنے لئے ہی چاہاتھا اس لئے آ پ علیہ السلام نے یہ نہیں چاہا کہ اس شیطان کومسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر ایسا طریقہ اختیارکریں کہ جس سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس خصوصیت پر کچھ اثرپڑے اوراپنے تصرف کااظہارہوورنہ توآپ علیہ السلام کوخودبھی یہ خصوصیت اورمرتبہ اور شیاطین اورجنات پر تصرف کی قدرت حضرت سلیمان علیہ السلام سے زیادہ حاصل تھی۔

 

نماز میں نبی علیہ السلام کے ساتھ شیطان کا ایک عجیب معاملہ

 

(٢٩) عن ابی الدرداء قال:قام رسول اللہ(ﷺ) یصلی فسمعناہ یقول اعوذباللہ منک ثم قال العنک بلعنۃ اللہ ثلاثا وسبط یدہ کانہ یتناول شیأا فلما فرغ من الصلوۃ قلنایارسول اللہ قدسمعناک تقول فی الصلوۃ شیأا لم نسمعک تقولہ قبل ذلک وراینا ک سبطت یدک قال ''ان عدواللہ ابلیس جاء شھاب من نار لیجعلہ فی وجھی فقلت اعوذباللہ منک ثلاث مرات ثم قلت العنک بلعنۃ اللہ التامۃفلم یستاخر ثلاث مرات ثم ادرت ان اخذہ واللہ لولادعوۃ اخینا سلیمان لاصبح مدثقایلعب بہ ولدان اھل المدینۃ

(رواہ مسلم)

 حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ( ایک روز )سرورکونین(ﷺ) کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے(نماز کے درمیان)میں نے سناکہ آپ علیہ السلام فرمارہے ہیں ''میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں''پھر آپ علیہ السلام نے تین مرتبہ فرمایا''میں تجھ پر لعنت کرتاہوں اللہ کی لعنت''اور(یہ فرماتے ہوئے)آپ علیہ السلام نے اپنے دست مبارک اس طرح پھیلائے کہ گویاآپ(ﷺ) کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں،جب آپ علیہ السلام نماز سے فارغ ہوگئے توہم نے کہاکہ یارسول اللہ !(ﷺ)ہم نے آج آپ کو نماز میں ایسی بات کہتے ہوئے سناہے کہ اس سے پہلے کبھی آپ علیہ السلام کو یہ کہتے نہیں سنااورآج ہم نے آپ علیہ السلام کوہاتھ پھیلاتے ہوئے بھی دیکھا ہے؟آپ علیہ السلام نے فرمایا ،اللہ کا دشمن ابلیس ملعون آگ کا شعلہ لے کرآیاتھا تاکہ اسے میرے منہ میں ڈال دے ،چنانچہ میں نے تین مرتبہ یہ کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں ،پھرمیں نے کہا کہ میں تجھ پر لعنت کرتاہوں اللہ کی پوری لعنت وہ نہیں ہٹاتومیں نے(یہ الفاظ)تین مرتبہ کہے ،جب وہ پھر بھی نہ ہٹا ،تومیں نے اپنے ہاتھ پھیلاکر،اسے پکڑنا چاہا لیکن اللہ کی قسم اگر ہمارے بھائی سلیمان(علیہ السلام)کی دعانہ ہوتی تووہ(مسجد کے ستون سے)صبح تک بندھا رہتا اورمدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔

(مسلم)

 

وہ تین اوقات جن میں نماز پڑھنا ممنوع ہے

 

(٣٠) عن عقبۃ بن عامر قال ثلاث ساعات کان رسول اللہ(ﷺ) ینْھٰنا ان نصلی فیھن او نقبرفیھن موتانا،حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل الشمس وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب''۔

(رواہ مسلم)

 حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سروکونین(ﷺ) تین اوقات میں نمازپڑھنے اور اپنے مردے دفنانے سے منع فرماتے تھے۔

١۔ اول آفتاب نکلنے کے وقت یہاں تک کہ بلند ہوجائے۔

٢۔ دوسرے دوپہر کے سایہ قائم ہونے(یعنی نصف النہار)کے وقت،یہاں تک کہ آفتاب ڈھل جائے۔

٣۔ اورتیسرے اس وقت جب کہ آفتاب ڈوبنے لگے یہاں تک کہ غروب ہوجائے۔

(مسلم)

 مردے دفنانے کایہ مطلب نہیں ہے کہ ان اوقات میں مردے نہ دفن کئے جائیں بلکہ اس کا مطلب جنازہ کی نماز پرھنے سے منع کرناہے،مردے ہر وقت دفنائے جاسکتے ہیں۔

 

وہ تین اشخاص جن کی نماز قبول نہیں ہوتی

 

(٣١) عن ابن عمر قال :قال رسول اللہ ''ثلاثہ لاتقبل منھم صلٰوتھم من تقدم قوماً وھم لہ کارھون وبعد اتی الصلوۃ دبارا،والدبار ان یأتیھا بعد ان تقوتہ ورجل اعتبد محررۃ۔

(رواہ ابوداؤد وابن ماجہ)

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ نبی(ﷺ) نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی ،(یعنی انہیں نماز کا ثواب نہیں ملتا)۔

١۔ ایک تو وہ شخص جوکسی قوم کاامام ہو اورقوم اس سے خوش نہ ہو۔

٢۔ دوسرا وہ شخص جونماز میں پیچھے آئے اور پیچھے کا مطلب یہ ہے کہ نماز وں کا مستحب وقت نکل جانے کے بعدآئے۔

٣۔ اورتیسراوہ شخص جوآزاد کوغلام سمجھے۔

(ابوداؤد،ابن ماجہ)

 '' اعتبد محررۃ''آزاد کو غلام سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ غلام کو آزاد کردے اورپھر بعد میں زبردستی اس سے خدمت لینے لگے،یاغلام کو آزاد کردیامگر اس کی آزادی کوخود اس غلام سے چھپائے ،یاکسی آزاد شخص کے بارہ میں دعویٰ کرے کہ یہ میراغلام ہے اور اس کے ساتھ غلاموں جیساسلوک بھی کرے ،یا بردہ مول لے کر اس پر مالکانہ تصرف کرے مگرحقیقت میں اس کی خریداری شرعی طورپر نہ ہوئی ہو جیساکہ لوگ غیر شرعی طورپر غلام اورلونڈی مول لیتے ہیں۔

 اس کی تفصیل فقہاء اس طرح لکھتے ہیں کہ''اگرمسلمانوں کی جماعت دارالاسلام سے دارالحرب جاکرغلبہ حاصل کرے اورزبردستی حربی کفار کوخواہ مردہوں یاعورت یاخواہ بڑے ہوں یا چھوٹے غلام اور لونڈی بناکر دارالاسلام میں لائے یااسی طرح کسی ملک کے حربی کفار دوسرے ملک کے حربی کفار پرزبردستی غلبہ حاصل کرکے انہیں لے آئیں توان دونوں صورتوں میں غلام اورلونڈی بنانے والے خواہ وہ مسلمان ہوں یاکفاران غلام اورلونڈیوں کے مالک ہوتے ہیں،ان غلام اورلونڈیوں کوخریدوفروخت کرنا،رہن رکھنا،ہبہ کرنا،لونڈیوں کے ساتھ بغیر نکاح کے ہمبستری کرنا اوراسی طرح ان پرتمام مالکانہ تصرفات کرناجائز ہیں،نیز اس صورت میں لونڈی کی اولاد بھی انہی کاحکم رکھتی ہے بشرطیکہ وہ مالک یاذی رحم مالک سے پیدانہ ہو۔اگراولاد ان میں سے کسی سے پیداہوگی تووہ آزاد ہوگی۔

 بہرحال فقہاء نے بردے کی یہ دونوں اقسام لکھ کرمزید بھی قسمیں لکھی ہیں اور ان میں سے بعض کے بارے میں کہاہے کہ ان صورتوں میں شرعی بردے نہیں ہوتے اوربعض کے بارے میں اختلاف کیا ہے،لیکن صحیح یہی ہے کہ مذکورہ بالا دونوں اقسام کے علاوہ اورکسی صورت میں شرعی بردے نہیں ہوتے اورنہ ان کی خرید وفروخت شرعی طورپرجائز ہے۔

 لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ غلام اورلونڈی کے بارہ میں احتیاط سے کام لیں،اگرشرعی لونڈی ہو تواسے خدمت میں لائیں ورنہ ایسانہ کریں کہ جس پربھی لونڈی ہوجانے کاداغ لگ جائے اگروہ شرعی لونڈی نہ ہو توجانوروں کی طرح بے نکیل اس سے صحبت میں مصروف ہوں کہ درحقیقت ایساکرنا حرام کاری ہے اورزنامیں مبتلا ہوناہے۔اسی طرح ا سکے ساتھ دیگرتصرفات بھی نہ کئے جائیں۔

 

 عن ابن عباس قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''ثلاثۃ لاترفع لھم صلوتھم فوق رؤوسھم شبراً،رجل امّ قوما وھم لہ کٰرھون وامرأۃ باتت وزوجھا علیھا ساخط واخوان متصارمان''۔

(رواہ ابن ماجہ)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم(ﷺ) نے فرمایا تین لوگ ایسے ہیں جن کی نماز ان کے سر سے بالشت بھر(بھی)بلند نہیں ہوتی۔(یعنی درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی)

١۔ ایک تو وہ شخص جوقوم کاامام ہواورقوم اس سے(دینی امورمیں )ناخوش ہو۔

٢۔ دوسرے وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا خاوند اس کی نافرمانی یا اس کی جانب سے اپنے حق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے خفاہو۔

٣۔ تیسرے ایسے دوبھائی جوآپس میں ناخوش ہوں۔

(ابن ماجہ)

 

امام کی متابعت نہ کرنے کاایک عبرتناک واقعہ

 

(٣٢) عن انس قال صلیٰ بنارسول اللہ ذات یوم فلما قضی صلوٰتہ اقبل علینا بوجھہ فقال ''ایھا الناس انی امامکم فلاتسبقونی بالرکوع ولابالسجود ولابالقیام ولاباالانصراف فانی اراکم من امامی ومن خلفی''

(رواہ مسلم)

 

 حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی علیہ السلام نے ہمیں نماز پڑھائی ،جب آپ علیہ السلام نماز پڑھاچکے تواپناچہرہ مبارک ہماری طرف متوجہ کیا اورفرمایا کہ ''لوگو! میں تمہارا امام ہوں ،لہذا تم رکوع کرنے،سجدہ کرنے،کھڑے ہونے اورپھرنے(یعنی نماز سے فارغ ہونے)میں مجھ سے جلدی نہ کیاکرو میں تمہیں اپنے آگے اورپیچھے ہر دوجانب دیکھ لیتا ہوں۔(بطورمکاشفہ یامعجزہ)

(مسلم)

(٣٣) عن ابی ہریرہ قال :قال رسول اللہ ''اما یخشی الذی یرفع رأسہ قبل الامام ان یحول اللہ رأسہ حمار''

(متفق علیہ)

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ''وہ شخص جوامام سے پہلے رکوع(رکوع و سجودسے) سراٹھاتاہے ،اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ جل شانہ اس کے سرکو بدل کرگدھے جیساسرفرمادیں گے۔

(بخاری، مسلم)

 جو شخص ارکان نماز امام کے ساتھ ادانہیں کرتا بلکہ امام سے پہلے ہی اداکرلیتاہے ۔مثلا رکوع وسجود سے امام کے سراٹھانے سے پہلے اپناسراٹھالیتاہے تو وہ ایسے شخص کے بارے میں مذکورہ بالاحدیث سخت ترین وعید ہے۔گوعلماء لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے یعنی اس کامطلب یہ ہے کہ جو شخص ایساکرے گا اللہ تعالیٰ اسے گدھے کے مانند کم فہم وکم عقل کردیں گے کیونکہ تمام جانوروں میں گدھا سب سے زیادہ کم فہم ہوتاہے ۔لہذا یہ مسخ حقیقی نہیں ہوگا بلکہ مسخ معنوی ہوگا۔

 تاہم علماء نے لکھا ہے اس حدیث کو اپنے حقیقی معنی پربھی محمول کیاجاسکتاہے اس امت میں بھی مسخ ممکن ہے۔

 علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ مسخ خاص ہے اورامت کے لئے جومسخ ممتنع ہے وہ مسخ عام ہے ،چنانچہ احادیث صحیحہ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔

 

ایک عبرتناک واقعہ

 

 علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا قول کی تائید ایک عبرتناک مثالی واقعہ سے بھی ہوتی ہے جوایک جلیل القدرمحدث سے منقول ہے۔

 فرماتے ہیں کہ جب وہ طلب علم اورحصول حدیث کی خاطر دمشق کے ایک عالم کے پاس پہنچے جو اپنے علم وفضل کی بناء پر بہت مشہور تھے،انہوں نے اس عالم سے درس لینا شروع کیا مگرحصول علم کے دوران یہ واقعہ طالب علم کے لئے بڑاعبرتناک بنارہاکہ استاد اس پوری مدت میں کبھی بھی ان کے سامنے نہیں آیا ،درس کے وقت استاد اورشاگرد کے درمیان ایک پردہ(چادر)حائل رہتا تھا۔ان کو اس کی بڑی خواہش تھی کہ کم سے کم ایک مرتبہ اپنے استاد کے چہرے کی زیارت توکرلیں،چنانچہ جب انہیں اس عالم کی خدمت میںرہتے ہوئے بہت کافی عرصہ گزرگیا اور اس نے یہ محسوس کرلیا کہ طالب علم حصول کے شوق اور تعلق شیخ کے بھرپورجذبات کا حامل ہے تواستاد نے ایک دن درمیان میں حائل پردہ کواٹھایاان کی حیرت اورتعجب کی انتہاء نہ رہی جب انہوں نے دیکھاکہ وہ جلیل القدر عالم اور ان کا استاد جن کے علم و فضل کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اپنے انسانی چہرہ سے محروم ہیں اور ان کا چہر ہ گدھے جیساہے۔استاد نے شاگرد کی حیرت اورتعجب کودیکھتے ہوئے جوبات کہی اس سے عبرت حاصل کیجئے ۔اس نے کہا:

 اے میرے بیٹے ،نماز کے ارکان کے اداکرنے کے سلسلہ میں امام پر پہل کرنے سے بچنامیں نے جب یہ حدیث سنی کہ ''کیاوہ شخص جو امام سے پہلے سراٹھاتاہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ جل شانہ اس کے سرکوبدل کرگدھے جیساسرکردے گا''تومجھے بہت تعجب ہوااورمیں نے اسے بعید ازامکان تصورکیا،چنانچہ( میری بدقسمتی کہ میں نے تجربہ کے طور پر )نماز کے ارکان اداکرنے کے سلسلہ میں امام پر پہل کی ،جس کا نتیجہ اس وقت تمہارے سامنے ہے کہ میراچہرہ واقعی گدھے کے چہرے جیساہوگیا۔

 بہرحال ملاعلی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کایہ ارشاد دراصل شدید تہدید اورانتہائی وعید کے طورپرہے ،یایہ کہ ایسے شخص کوبرزخ یا دوزخ میں اسی عذاب کے اندرمبتلاکیاجائے گا۔

 

وہ دوشخص جواللہ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں

 

(٣٤) عن عبداللہ بن مسعود قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''عجب ربنا من رجلین رجل ثار عن وطائہ ولحافہٖ من بین حِبہٖ واھلہ الی صلوتہ فیقول اللہ لملئکتہٖ انظروا الی عبدی ثار عن فراشہ ووطائہ من بین حبہ واھلہٖ الی صلوتہ رغبۃ فیماعندی وشفقامماعندی ورجل غزافی سبیل اللہ فانھزم مع اصحابہٖ فعلم ماعلیہ فی الانھزام ومالہ فی الرجوع فرجع حتی ھریق دمہ فیقول اللہ لملئکتہٖ انظروا الی عبدی رجع رغبۃ فیما وشفقامماعندی حتی ہریق دمہ''

(رواہ فی شرح السنۃ)

 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین(ﷺ) نے فرمایا'' ہمارارب دوآدمیوں سے بہت خوش ہوتاہے''

 

١۔ ایک تو وہ آدمی جو رات میں اپنے نرم بستر ولحاف سے اوراپنی محبوبہ اور بیوی کے پاس سے(تہجدکی) نماز کے لئے اٹھتا ہے،چنانچہ(اسے دیکھ کر)اللہ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ ''میرے بندہ کی طرف دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں(یعنی جنت اور ثواب)کے شوق سے اورمیرے پاس کی چیزوں(یعنی دوزخ اور عذاب)کے ڈر کی وجہ سے اپنے فرش ونرم بستر اوراپنی محبوبہ اوربیوی کو چھوڑ کر اپنی نماز پڑھنے کے لئے اٹھاہے۔

 

٢۔ دوسراوہ آدمی جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیااور(بغیر کسی شرعی عذرکے)اپنے ساتھیوں سمیت(میدان چھوڑ کر )بھاگ نکلا مگرجب اسے(بلاعذرمیدان جہادسے )بھاگ نکلنے کی سزا اورپھر(جنگ میں ) واپس آجانے کا ثواب یاد آیا تو(میدان کارزارمیں)واپس آگیا اوراللہ کے دشمنوں سے اس قدرلڑاکہ جام شہادت نوش کیا،چنانچہ اللہ تعالی ٰ اپنے فرشتوں سے فرماتاہے کہ ''میرے بندہ(بنظرتعجب) کی طرف دیکھو جو میرے پاس کی چیزوں(یعنی جنت اور ثواب)کے شوق سے اورمیرے پاس کی چیزوں(یعنی دوزخ اور عذاب)کے خوف سے(میدان جنگ میں )لوٹ آیا اورراہ خدا میں یہاں تک لڑا کہ اپنی جان بھی دے دی۔

(شرح السنہ)

 مطلب یہ ہے کہ رات کے پرسکون ماحول میں اورآرام کے وقت کسی شخص کے لئے نرم بستر ،آرام دہ لحاف اورمحبوب بیوی کے قرب سے بڑھ کر کوئی بھی پسندیدہ اورپیاری چیز نہیں ہوسکتی مگرا س کے باوجود وہ شخص اپنے رب کی عبادت اوراس کی جزا وانعام کے لالچ میں ان سب چیزوں کوچھوڑ دیتاہے،اورپروردگار کے حضور میں اپنی بندگی وعبودیت کانذرانہ پیش کرنے لگتاہے ،کیونکہ وہ جانتاہے کہ دنیاکی تمام پسندیدہ چیزیںدنیامیں توقلب و دماغ کے سکون اوانسانی عیش ومسرت کاسامان بن سکتی ہیں مگرنہ تو یہ قبرمیں نفع پہنچائیں گی اورنہ حشر میں کامیابی وسرخروئی کی ضامن ہیں،قبراورحشر میں توصرف اللہ رب العالمین کی اطاعت اورعبادت ہی کام آئے گی اوروہی سعادت وکامیابی کی منزل سے ہم کنار کریں گی۔

 اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے واسطے عبادت کرنا اور اس پر ثواب کی امید رکھنا اخلاص اورکمال کے منافی نہیں اگرچہ یہ اکمل درجہ کے منافی ہے،کیونکہ عبادت کے سلسلہ میں اکمل درجہ یہی ہے کہ عبادت محض اللہ کی خوشنودی اوراسی کی رضا کے لئے کی جائے اور اس سے کوئی غرض مثلا ثواب کاحصول یا عذاب کاخوف وابستہ نہ ہو۔کیونکہ ایسی عبادت جس کا مقصود اللہ جل شانہ کی ذات اوراس کی رضا نہیں ہے بلکہ غیراللہ ہو صحیح نہیں ہوتی اورنہ ایسی عبادت پرکوئی اجر مرتب ہوتاہے بلکہ بعض ارباب بصیرت ایسی عبادت کوکفرخفی میں بھی شمار کرتے ہیں۔

 

نبی علیہ السلام کی حضرت ابوہریرہ کوتین وصیتیں

 

(٣٥) عن ابی ہریرۃ قال اوصٰنی خلیل بثلاث صیام ثلاثۃ ایام من کل شھر ورکعتی الضحٰی وان اوتر قبل ان انام''

(متفق علیہ)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے دوست(یعنی سرورکونین ﷺ)نے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی۔

١۔ ایک تو یہ کہ ہرمہینے میں تین روزے رکھاکروں۔

٢۔ دوسرے دورکعت نماز ضحی پڑھنے کی۔

٣۔ تیسرے وتر کی نماز سونے سے پہلے پڑھ لینے کی۔

(بخاری، مسلم)

ہر ماہ کے تین روزوں کی تعیین میں مختلف اقوال ہیں۔

 چنانچہ بعض علماء نے کہا ہے کہ مہینہ کے تین روزوں سے ایام بیض یعنی ہر مہینہ کی تیرھویں ،١٤ویں اور ١٥ ویں تاریخ کے روزے مراد ہیں۔

 بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ایک روزہ ابتدائی مہینہ میں اورایک درمیان میں اورایک مہینہ کے آخر میں رکھاجائے۔

 کچھ محققین کی رائے یہ ہے کہ تین روزے اس طرح رکھے جائیں کہ ہرمہینہ کے ہر عشرہ میں اول میں ایک ایک روزہ رکھ لیاجائے۔

 نماز ضحی سے(نماز چاشت یا اشراق)مراد ہے۔جوآفتاب بلند ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے ،ان نمازوں کا ادنیٰ درجہ دودورکعت ہے،اوراکثر درجہ اشراق کی نماز کا چھ رکعت اور چاشت کی نماز کا بارہ رکعت ہے۔

 

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وتراول رات میں پڑھنے اور ضحی کی دورکعت پڑھنے کااس لئے فرمایا کہ وہ رات کے ابتدائی حصہ میں احادیث کو یادکرنے اورتکرار میں مشغول رہتے تھے۔اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ علم دین کے حصول اورترویج واشاعت میں مشغول رہنانفل عبادت کی مشغولیت سے بہترہے۔

 

سات مہلکات سے بچو

 

(٣٦) عن ابی ھریرۃ قال:قال رسول اللہ(ﷺ) ''اجتنبواالسبع الموبقات ''قالوا یارسول اللہ(ﷺ)وماھن ؟قال:

''الشرک باللہ،

والسحر،

وقتل النفس اللتی حرم اللہ الابالحق،

واکل الربوٰ،

واکل مال الیتیم،

والتولی یوم الزحف،

وقذف المحصنت المؤمنت الغافلات''

(متفق علیہ)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا(لوگو)سات ہلاک کردینے والی باتوں سے بچو،(پوچھاگیا)یارسول اللہ(ﷺ)!وہ سات ہلاک کرنے والی باتیں کونسی ہیں؟

آپ علیہ السلام نے فرمایا:

١۔ کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا۔

٢۔ جادوکرنا۔

٣۔ جس جان کومارڈالنا اللہ نے حرام قراردیاہے اس کو ناحق قتل کرنا۔

٤۔ یتیم کامال کھانا۔

٥۔ جہاد کے دن دشمن کوپیٹھ دکھانا۔

٦۔ سود کھانا۔

٧۔ پاکدامن ایمان والی اوربے خبر عورتوں پرزناکی تہمت لگانا۔

(بخاری، مسلم)

 اسلامی اعتقادات ونظریات اوربدیہی مسلمات کو دل سے ماننا ،زبان سے اقرار کرنااورعائد شدہ فرائض پر عمل کرنا ایما ن ہے،

 ان مسلمات میں سے کسی ایک بات کا بھی انکار کرناکفرہے،اس کے تجزئیے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ایمان کی صرف ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ دین اسلام کے بدیہی مسلمات زبان و دل سے مان لئے جائیں اوران پر عمل کیاجائے۔

 اس کے برخلاف کفرکی کئی صورتیں ہیں،اوردین اسلام کی ان بدیہیات میں سے اگر کسی ایک بات کابھی انکار کردیاجائے خواہ بقیہ سب کااقرار موجود رہے توبھی کفرعائد ہوجاتاہے ،اس میں علماء کی تصریح ہے کہ کفرصرف قول ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ بعض افعال بھی موجب کفر ہوسکتے ہیں،چنانچہ فقہاء ایسے افعال پربھی کفر کاحکم لگاتے ہیں جوقلبی واعتقادی کفرکے صحیح ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔

 یوں توکفرکی ہرقسم ہی انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہے لیکن اس کی جو سب سے بدتر قسم ہے وہ ہے شرک،یعنی اللہ کی ذات ،صفات،عبادات اور اس کی حدود عظمت میں کسی کوشریک بنالینا،یہ نہ صرف اعتقادی حیثیت سے ایمان واسلام سے صریح بیزاری ہے بلکہ فطرت پر ایک بہت بڑاظلم اورعقل ودانش کے اعتبار سے سب سے بڑی بغاوت بھی ہے۔

 اس لئے کہ اللہ نے توانسان کی تخلیق کرکے اس کی فطرت کوکفروشرک کی ہرقسم کی آلودگی سے پاک و صاف رکھا ہے ،اب اگرانسان خود ہی اپنی فطرت کوشرک کی نجاست سے ملوث کرتاہے توظاہر ہے کہ وہ اپنی فطرت اوراپنے ضمیر کی صداقت آمیز آواز کاگلاگھونٹ کرمذہب وانسانیت دونوں حیثیت سے تباہی وبربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتاجاتاہے۔

 اس لئے پروردگار عالم کااٹل فیصلہ ہے کہ اس بارگاہ میں ہرکوتاہی ولغزش کی معافی ہوسکتی ہے ،مگر شرک کاجرم ایساہے کہ جس کی ہر گز معافی نہیں ہوسکتی اور جس کی سخت سے سخت سزاہراس شخص کوبھگتنا ہوگی جو اس کا ارتکاب کرے گا۔جیسے کہ اللہ کافرمان بھی ہے،

''ان اللّٰہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشائ''

 بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس جرم کونہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے ،ہاں اس کے سوا اورجس گناہ کوبھی چاہے گا بخش دے گا۔

 شرک چونکہ انسانی فطرت سے سعادت ونیک بختی کاتخم جڑسے اکھاڑ پھینکتاہے ،اورانسان کی روحانی ترقی کی تمام استعداد کوموت کے گھاٹ اتاردیتاہے،نیز خود قرآن کی نظرمیں بھی شرک اللہ تعالیٰ پر سب سے بڑاافتراء اورسب سے بڑھ کر بے دلیل اور خلاف ضمیر بات اورنفس انسان کے لئے ابدی موت ہے اس لئے حدیث میں جن ہلاکت خیز باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں شرک کاجرم سرفہرست ہے۔

اس موقعہ پر مناسب معلوم ہوتاہے کہ شرک کی تعریف اور اقسام کی کچھ تفصیل بیان کردی جائے تاکہ قاری کا ذہن اس بارے میں مکمل مطمئن ہوجائے۔

 شرح عقائد میں ہے کہ اصطلاح شریعت میں شرک اسے کہتے ہیں کہ اللہ کے اختیارات میں غیراللہ کوشریک ٹھہرایا جائے،جیسے مثلاً مجوسی اھرمن اوریزدان کو مانتے ہیں۔

 یایہ کہ اللہ کے علاوہ کسی اورکوبھی عبادت وپرستش کے لائق جانے،جیسے مثلاً بت پرست عقیدہ رکھتے ہیں۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ شرک کفر ہی کی ایک قسم ہے،اوراسی لئے شریعت میں بھی شرک کفرکے معنیٰ میں آتاہے ۔

 چنانچہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ترجمہ مشکوٰۃ میں شرح عقائد کی بیان کردہ شرک کی ان دونوں اقسام کوذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ یہاں شرک سے مراد کفرہے۔

 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ شریعت کی اصطلاح میں ''شرک''اسے کہتے ہیں کہ جو صفات خاص اللہ رب العالمین کے ساتھ مخصوص ہیں ان صفات کو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے میں بھی ثابت کرنا۔جیسے مثلاً اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو بھی عالم الغیب جاننا یا جس طرح دنیا کی ہر شیء پر اللہ قدرت رکھتے ہیں اس طرح کسی دوسرے کو بھی قدرت کامالک جاننا۔یاجیسے اللہ کواپنے ارادہ ومشیت کے ساتھ دنیا کی تمام چیزوں پر متصرف ماناجاتاہے ایسے ہی کسی دوسرے کو بھی متصرف جاننا۔مثلاً کسی کے بارہ میں یہ عقیدہ رکھنا کہ فلاںنے نظرکرم کے ساتھ مجھ سے برتاؤ کیااس لئے مجھ کو مال و زر کی وسعت اورخوشی حاصل ہوگئی یااس کے برعکس کہ فلاں کے مجھے دھتکارنے اورپھٹکارنے کے سبب میں بیمار ہوگیا یا میری تقدیر پھوٹ گئی وغیرہ وغیرہ۔

 اللہ کی ذات ،صفات اوراختیارات میں شرک کے علاوہ تفسیر عزیزی میں جو شرک کی اقسام ذکرکی گئی ہیں ان میں ایک تویہی ہے کہ عبادت میں کسی کواللہ کاشریک ٹھہرایا جائے،یاکسی کا نام تقرب وفضیلت کے طریقہ پر اللہ کے نام کی طرح لیاجائے،اوراس کو اللہ کاہمسر قراردیاجائے،مثلاًکسی کواٹھتے بیٹھتے یا مصائب ومشکلات میں ا س کا نام لے کر اسے یاد کرنا،ایسے ہی کسی کانام عبداللہ یاعبدالرحمن کے بندہ فلاں یا فلاں رکھنا(اس کو شرک فی التسمیہ کہتے ہیں)یااسی طرح غیر اللہ کے نام پر ذبح کیاجانا۔نذرماننا،دفعیہ شر اورحصول منفعت کے لئے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو پکاراجانا اوران کی طرف رجوع کیا جانایاعلم وقدرت میں اللہ کے نام کے ساتھ کسی دوسرے کوشریک کیاجانا جیسے اگرکوئی کہے ''ماشاء اللہ و شئت''(جیسے اللہ اورتم چاہو)

 منقول ہے کہ ایک مرتبہ کسی ناواقف نے آپ علیہ السلام کے سامنے اس طرح کے الفاظ کہے توآپ علیہ السلام بہت افروختہ ہوئے اورفرمایا کہ ''تم نے تومجھے اللہ کا شریک ٹھہرادیا،اورفرمایا کہ اس طرح کہو''ماشاء اللہ وحدہ''(جو صرف اللہ چاہیں گے وہی ہوگا)

 بعض کبیرہ گناہوں کوبھی شرک کہاگیاہے،جیسے حدیث میں وارد ہے کہ جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم اٹھائی یقینا اس نے شرک کیا،یاکہاجاتاہے کہ بدشگونی لیناشرک ہے،ریاکاری شرک ہے،جو عورت اپنے خاوند کی محبت کے لئے ٹوٹکہ کرے شرک ہے،گویایہ گناہ اپنے مہلک اثرات کی بناپر شرک کی طرح ہیں اس لئے ان سے اجتناب بھی اتناہی ضروری ہے جتناکہ شرک سے۔

 اسی طرح وہ افعال جو اگرچہ حقیقی شرک یعنی کفر کے دائرہ میں تونہ آتے ہوں لیکن مشرکین اوربت پرستوں کے افعال و اعمال کے مشابہ اوران کے ہم مثل سمجھے جاتے ہوں ان سے بھی شرک ہی کی طرح پرہیز کرنا ضروری ہے،جیسے علماء اوربادشاہان کے آگے جبین سائی کرنا یا ان کے سامنے زمین چومنا اورسجدہ تعظیمی کرنا۔

چونکہ یہ افعال حرام اورگناہ کبیرہ ہیں اس لئے ان کا مرتکب بھی گناہ گار اورمستوجب عذاب ہوگا اور جو لوگ اس طرح کے افعال سے خوش ہوں گے اور قدرت کے باوجود ان افعال کے ارتکاب کوروکنے کی کوشش نہیں کریں گے وہ بھی گناہ گار ہوں گے۔اوراگرعلماء یابادشاہان اورپیروں کے سامنے جبین سائی کرنا اور زمین کو بوسہ دینااگرعبادت وتعظیم کی نیت سے ہوگا تو اس کوصریحا کفرکہاجائے گا،اگرعبادت وتعظیم کی نیت سے نہ ہو بلکہ محض اظہار ادب کے لئے ہوگاتواس پر کفر کااطلاق نہیں ہوگالیکن یہ بھی گناہ کبیرہ ضرورکہلائے گا۔

 اس حدیث میں دوسراہلاکت خیز فعل سحربتایاگیاہے۔

 سحرکے بارہ میں علماء کہتے ہیں کہ جس طرح سحر اورجادوکرناحرام چیز ہے اسی طرح اس کا سیکھنا بھی حرام ہے۔شرح عقائد کے حاشیہ ''خیالی''میں لکھا ہے کہ سحر کرناکفرہے۔اورصحابہ کی ایک جماعت کاتو اس پراتفاق ہے کہ ساحرکوفوراً مارڈالنا چاہئے۔اوربعض کی رائے یہ ہے کہ اگرسحراس طرح کا ہو جس سے کفر لازم آتاہو،اور ساحر اس سے توبہ نہ کرے تو اس کو موت کے گھاٹ اتاردینا چاہئے۔

 اسی طرح نجوم ،کہانت ،رمل اورشعبدہ بازی کی تعلیم حاصل کرنا اوران چیزوں کواختیارکرنا اوران سے روزی اورپیسہ کمانا اورنجومی وکاہن وغیرہ سے سوال کرنا اوران کی بتائی ہوئی باتوں پراعتقادرکھنا بھی حرام ہے۔

 حدیث میں دشمن کے مقابلہ میں راہ فراراختیار کرنے کے مذموم فعل کوبھی موجب ہلاکت بتایاگیا ہے ۔ اس لئے کہ جس شخص نے اتنی بزدلی اورپست ہمتی دکھائی کہ عین اس موقعہ پر جب کہ اس کو ایمان، شجاعت اوردلیری کامظاہرہ کرناچاہئے تھا،دشمن کوپیٹھ دکھاکربھاگ کھڑاہواوہ دراصل اپنی اس مذموم حرکت کے ذریعے اہل اسلام کی رسوائی کا سبب بنا لہذا اس کوآخرت کے عذاب اورہلاکت کا مستوجب گرداناجائے گا،اس سلسلہ میں جہاں تک تفصیلی مسئلہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اگرایک مسلمان کے مقابلہ میں دوکافر ہوں تو اس کوان کے مقابلہ سے راہ فراراختیار کرنا گناہ کبیر ہے،ہاں اگرمقابلہ پردشمن دوسے زیادہ ہوں توپھربھاگنا حرام نہیں ہے بلکہ جائز ہے مگراس میں بھی اولیٰ وبہتریہی ہے کہ وہ اس صورت میں بھی پیٹھ نہ دکھائے بلکہ مقابلہ کرے خواہ جان سے ہاتھ دھوناپڑے۔

عبداللہ جاویدغازی پوری،مظاہرحق،ج١،ص١٣٩،دارالاشاعت،اردوبازار کراچی ۔

 

وہ چار باتیں جو انسان کو منافق بنادیتی ہیں

 

(٣٧) عن عبداللہ بن عمرو قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''اربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منھن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا''اذاأتمن خان،واذاحدث کذب واذاعاھد غدرواذاخاصم فجر''۔

(متفق علیہ)

 حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں:رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''جس شخص میں چار باتیں ہوں گی وہ پورامنافق ہے،اورجس میں ان میں سے کوئی ایک بات پائی جائے گی(توسمجھ لوکہ)اس میں نفاق کی ایک خصلت پیداہوگئی،تاوقت یہ کہ اس کوچھوڑنہ دے،(اوروہ چارباتیں یہ ہیں)

١۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے توخیانت کرے،

٢۔ جب بات کرے توجھوٹ بولے،

٣۔ جب قول واقرار کرے تو اس کے خلاف کرے،

٣۔ اورجب جھگڑے توگالیاں دے۔(بخاری، مسلم)

 یہاں نفاق سے مراد عملی نفاق ہے،یعنی اگرکوئی مؤمن ومسلمان ان چاربری باتوں کا شکار ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ پورے طورپر عملی نفاق میں مبتلاہے،اورعملا منافق بن گیاہے،

 اوراگران چاروں میں سے کوئی ایک خصلت وعادت اس کے اندر پیداہوجائے توجان لو کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت پیداہوگئی ہے،

 لہذامتنبہ کیاجاتاہے کہ جس کے اندر خواہ یہ تمام خصلتیں جمع ہوگئی ہوں یاایک خصلت ہو ،وہ جان لے کہ اب اس کا نقشہ زندگی منافق کے مطابق ہوتاجارہاہے،

 اگروہ ایمان کادعویٰ کرتاہے تو اس کے اندر ان خصلتوں کاہونامناسب نہیں ہے،اوراگروہ اپنی دنیاوآخرت کی بھلائی چاہتاہے تواس کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کو فوراً چھوڑدے۔

 

تین چیزوں کی ممانعت

 

(٣٨)عن ثوبان قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ثلاث لایحل لاحد ان یفعلھن ،لایؤمن رجل قوماً فیخص نفسہ بالدعاء دونھم فان فعل ذلک فقدخانھم ولاینظرفی قعربیت قبل ان یستأذن فان فعل ذلک فقد خانھم ولایصل وھوحقن حتی یتخفف''

(رواہ ابوداؤدو الترمذی)

 حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین حضرت محمد(ﷺ)نے فرمایا''تین چیزیں ایسی ہیں جن کاکرناکسی کے لئے حلال نہیں ہے۔

١۔ کوئی شخص کسی جماعت کاامام بنے اوردعاء میں جماعت کوشریک کئے بغیر اپنی ذات کومخصوص کرے،اگر کسی نے ایساکیا تواس نے جماعت کے ساتھ خیانت کی۔

٢۔ کوئی شخص کسی کے گھر میں اجازت حاصل کئے بغیرنظر نہ ڈالے،اگرکسی نے ایساکیا تواس نے گھروالوں کے ساتھ خیانت کی۔

٣۔ کوئی شخص ایسی حالت میں نماز نہ پڑھے کہ وہ پیشاب یاپائخانہ روکے ہوئے ہو،یہاں تک وہ(استنجاء سے فارغ ہوکر)ہلکانہ ہوجائے۔

(ابوداؤد،ترمذی)

 

وہ پانچ دعائیں جو قبول ہی ہوتی ہیں

 

(٣٩)عن ابن عباس عن النبی(ﷺ) قال''خمس دعوات یستجاب لھن دعوۃ المظلوم حتی ینتصر ودعوۃ الحاج حتی یصدر ودعوۃ المجاہد حتی یقعد ودعوۃ المریض حتی یبرأ ودعوۃ الاخ لاخیہ بظھر الغیب ،ثم قال واسرع ھذہ الدعوات اجابۃ دعوۃ الاخ بظھرالغیب''

(رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم(ﷺ) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا پانچ دعائیں ایسی ہیں جنہیں شرف قبولیت سے نوازاجاتاہے۔

١۔ مظلوم کی دعا،یہاں تک کہ وہ ظالم سے اپنے ہاتھ سے یا اپنی زبان کے ذریعہ بدلہ لے لے۔

٢۔ حاجی کی دعا،یہاں تک کہ اپنے شہر اوراپنے اہل وعیال کے پاس واپس آجائے،یاحج سے فارغ ہوجائے۔

٣۔ مجاہد کی دعا یاطلب علم وعمل میں سعی کرنے والے کی دعا،یہاں تک کہ وہ جہاد سے اورسعی وکوشش سے فارغ ہوکربیٹھ جائے۔

٤۔ مریض کی دعا،یہاں تک کہ وہ اچھاہوجائے یامرجائے۔

٥۔ ایک بھائی کی اپنے بھائی کے لئے غائبانہ دعا۔

پھر اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا،ان دعاؤں میں سب سے زیادہ جلدی سے قبول ہوجانے والی دعا ایک بھائی کی اپنے بھائی کے لئے غائبانہ دعاہے۔

(بیہقی)

 

اللہ کی تین عام نعمتیں

 

 عن ابن عباس قال:قال رسول اللہ(ﷺ) ''المسلمون شرکاء فی ثلاث،فی المائ،والکلام والنار''۔

(رواہ ابوداؤد وابن ماجہ)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا:''تین چیزیں ایسی ہیں جن میں تمام مسلمان شریک ہیں،

١۔ پانی۔

٢۔ گھاس۔

٣۔ آگ۔

 اس حدیث مبارکہ میں اللہ رب العالمین کی ان تین عام نعمتوں کاذکر ہے،جوکائنات کے ہرفرد کے لئے ہیں،ان میں کسی ذاتی ملکیت وخصوصیت کاکوئی دخل نہیں ہے۔

١۔ پانی:اس سے مراد دریا،تالاب اورکنویں وغیرہ کا پانی ہے۔وہ پانی مراد نہیں ہے جو کسی شخص کے برتن میں بھراہواہو۔

٢۔ گھاس:اس سے مراد وہ گھاس ہے جو جنگل میں اگی ہوئی ہو۔

٣۔ آگ: اس سے مراد یہ ہے کہ اگرکسی پاس آگ ہوتواسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی اورکواس آگ کے لینے سے منع کرے۔یاچولہاجلانے سے روکے یااس کی روشنی میں بیٹھنے سے منع کرے۔

ہاں اگرکوئی شخص اس آگ میں سے وہ لکڑی لیناچاہے ،جواس میں جل رہی ہوتواس صورت میں اس کوروکناجائز ہے،کیونکہ اس صورت میں آگ میں کمی آجائے گی اور وہ بجھ جائے گی۔

 بعض علماء کا کہناہے کہ اس سے چقماق کاپتھرمراد ہے ،(وہ پتھر جس کی رگڑ سے آگ نکلتی ہے) مطلب یہ ہے کہ اگرایساپتھر کسی موات(غیرمملوکہ)زمین پایاجائے اورکوئی اسے لیناچاہے تواسے اس سے روکنا جائز نہیں ہے۔(ابوداؤد،وابن ماجہ)

 

ایک فتنہ

 

(٤١) عن ابی سعید الخدری قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''الدنیاحلوۃ خضرۃ وان اللہ مستخلفکم فیھافینظر کیف تعملون ،فاتقوالدنیا واتقوالنسائ،فان اول فتنۃ بنی اسرائیل کانت فی النسائ''

(رواہ مسلم)

 حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،نبی اکرم حضرت محمد(ﷺ) نے فرمایا''دنیاشیریں(میٹھی)اورسبز(جاذب نظر)ہے،اورچونکہ اللہ رب العالمین نے تمہیں اس دنیاکاخلیفہ بنایاہے ،اس لئے وہ(ہر وقت)دیکھتاہے کہ تم اس دنیامیں کس طرح کے عمل کرتے ہو،

 لہذادنیاسے بچو ،اورعورتوں(کے فتنہ)سے بچو،کیونکہ بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث سب سے پہلے فتنہ عورتوں ہی کی صورت میں تھا۔

(مسلم)

 ''دنیاشیریں اورسرسبزہے''اس فقرہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح طبیعت کے لئے شیرینی ایک مرغوب چیز ہوتی ہے اورجس طرح سبز چیز آنکھوں کوبہت بھاتی ہے،اسی طرح دنیا بھی دل کوبہت پیاری لگتی ہے،اورآنکھوں کوبھی بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔

 ''اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیاکاخلیفہ بنایاہے''اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ دنیادرحقیقت اللہ رب العالمین کی ملکیت ہے ،وہی اس کے حقیقی مالک و حاکم ہیں،تمہیں اللہ رب العالمین نے اس دنیا میں اپناخلیفہ بناکر گویا اس دنیاکے تصرفات میں اپناوکیل بنایاہے،

 لہذااللہ رب العالمین تمہیں ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں کہ تم اس زمین پرا س کے بار خلافت کو کس طرح اٹھارہے ہو،اوراپنی عملی زندگی کے ذریعہ تصرفات دنیامیں حق وکالت کس طرح اداکررہے ہو ۔

 ''دنیا سے بچو''اس فقرہ کا مطلب ہے کہ دنیا مکروفریب کابچھاہوایک جال ہے اس جال سے حتی الامکان بچتے رہو،کہیں ایسانہ ہوکہ اس فریب ومکاری کے جال میں پھنس کراس(دنیا)کے ظاہری مال و جاہ پر اپنی دینداری گنوابیٹھو۔

 کیونکہ دنیاکوثبات نہیں ،(حادث ہے)یہ ایک فناہوجانے والی چیز ہے،پھراس(فنا)کے بعد کل کو(روزقیامت)جب تم ہمیشہ کی زندگی کے لئے اٹھائے جاؤگے ،تواس کی تمام حلال چیزوں کا حساب دیناہوگا،اوراس کی تما حرام چیزوں پرعذاب میں مبتلاکئے جاؤگے۔

 اسی طرح عورتوں کے مکروفریب سے بھی بچتے رہو،کیونکہ ایک مشت خاک کایہ دلفریب مجسمہ جہاں نیک عورت کی صورت میں ایک نعمت الٰہی ہے ،وہیں دوسری جانب بری عورت کے روپ میں فتنہ عالم بھی ہے۔ ایسانہ ہوکہ بری عورتوں کی مکاریاں یااپنی بیویوں کی بے جاناز برداریاں تمہیں ممنوع اورحرام چیزوں کی طرف مائل کردیں(حرام ذریعہ کمائی،رشوت خوری ودیگر وغیرہ)اوران کی وجہ سے تم تباہی وہلاکت کی کھائیوں میں دھکیل دئیے جاؤ۔

 

وہ تین چیزیں کہ اگرنحوست ہوتی توان میںہوتی

 

(٤٢)عن ابن عمر قال:قال رسول اللہ(ﷺ) ''الشؤم فی المرأۃ والدار والفرس''

(متفق علیہ)

وفی روایۃ الشؤم فی ثلاثۃ فی المرأۃ والمسکن والدابۃ''

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد(ﷺ) نے فرمایا ''عورت، گھر اورگھوڑے میں نحوست ہوتی ہے''۔(بخاری، مسلم)

 اورایک روایت میں یوں ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا''نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے۔

١۔ عورتوں میں

٢۔ مکان میں

٣۔ جانور میں

 ''شؤم''''یمن''کی ضدہے،جس کے معنی ہیں بے برکتی،اوراسی کونحوست بھی کہتے ہیں

١۔ بعض حضرات کا کہنا ہے ''گھر کی نحوست''سے گھر کی تنگی اوربری ہمسائیگی مراد ہے۔یعنی جو گھر تنگ و تاریک ہو اور اس کا پڑوس براہوتووہ گھر تکلیف وپریشانی کاباعث ہوجاتاہے۔

٢۔ ''عورت کی نحوست ''اس سے مراد زیادتی مہر،بدمزاجی،زبان درازی اوربانجھ پن ہے۔

جس عورت کا مہر زیادہ مقرر کیاگیاہو،یاکوئی عورت بدمزاج اورتندخو ہو،یاکوئی عورت زبان دراز اوربانجھ ہو توایسی عورت راحت وسکون کے بجائے اذیت وکوفت کاذریعہ بن جاتی ہے۔

٣۔ اسی طرح''گھوڑے کی نحوست''اس سے مراد ہے ،گھوڑے کا شوخ ہونا،مٹھاقدم ہونا،اس پر سوا ر ہوکرجہاد نہ کیا جاناوغیرہ۔

 یعنی جو گھوڑا ایساہوکہ اپنی شوخی کی وجہ سے پریشان کرتاہو،سست رفتارہو اور اس پر سوار ہوکرکبھی جہاد کی نوبت نہ آئی ہو تووہ گھوڑا اپنے مالک کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

 جب کہ بعض علماء کا کہناہے کہ ان تین چیزوں میں نحوست کے اظہار کامقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ اگر بالفرض کسی چیز میں نحوست ہوتی تو ان تین چیزوں میںہوتی۔

 گویااس سے مقصود یہ واضح کرناہے کہ کسی چیز میں نحوست کاہوناکوئی معنی نہیں رکھتا،چنانچہ یہ کہنافلاں چیز منحوس ہے ،یافلاں چیز میں نحوست ہے،صرف ایک واہمہ کی چیزہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیںہے۔

 

وہ تین اشخاص جن کی مدد اللہ ضرور کرتے ہیں

 

(٤٣) عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ(ﷺ) قال''ثلاثۃ حق علی اللہ عونھم المکاتب اللذی یرید الاداء والناکح اللذی یرید العفاف والمجاھد فی سبیل اللہ ''

(رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجہ)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''تین شخص ایسے ہیں ،جن کی مدد کرنا اللہ پر(اس کے وعدہ کے مطابق)واجب ہے۔

١۔ وہ مکاتب جواپنابدل کتابت اداکرنے کاارادہ رکھتاہو۔

٢۔ وہ نکاح کاخواہشمند جوحرام کاری سے بچنے کی نیت رکھتاہو۔

٣۔ وہ مجاہد جوفی سبیل اللہ جہادمیںہو۔

(ترمذی،نسائی وابن ماجہ)

 

وہ تین شخص جومرفوع القلم ہیں

 

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ(ﷺ) قال''رفع القلم عن ثلاثۃ۔عن النائم حتی یستیقظ،وعن الصبی حتی یبلغ وعن المعتوہ حتی یعقل''

(رواہ الترمذی،وابن ماجہ وغیرھم)

 ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد(ﷺ )نے فرمایا''تین شخص مرفوع القلم ہیں(یعنی ان تین اشخاص کے اعمال نامہ ئ اعمال میں نہیں لکھے جاتے،کیونکہ ان کے کسی قول وفعل کاکوئی اعتبار نہیں ہوتا،اوروہ مواخذہ سے بری الذمہ ہیں)۔

١۔ وہ شخص جو سویاہواہو،جب تک وہ بیدارنہ ہوجائے۔

٢۔ وہ لڑکا ولڑکی جو نابالغ ہو۔

٣۔ وہ شخص جو بے عقل ہو،جب تک کہ اس کو عقل نہ آجائے۔

(یہ روایت امام ترمذی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(ام المؤمنین )سے اورابن ماجہ وغیرہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ(خلیفہ چہارم)سے روایت کی ہے۔)

 

وہ چارعورتیں جن سے لعان نہیں ہوتا

 

(٤٥) عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ عن النبی(ﷺ) قال''اربع من النساء لاملاعنۃ بینھن ،النصرانیۃ تحت المسلم والیھودیۃ تحت المسلم والحرۃ تحت المملوک والمملوکۃ تحت الحرّ''

(رواہ ابن ماجہ)

 حضرت عمروبن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے داداسے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد(ﷺ) نے فرمایا''چارعورتیں ایسی ہیں کہ ان کے اور ان کے شوہروں کے درمیان(لعان)نہیں ہوتا۔

١۔ وہ نصرانیہ(عیسائی عورت)جوکسی مسلمان کے نکاح میں ہو،

٢۔ وہ یہودیہ(یہودی عورت)جوکسی مسلمان کے نکاح میں ہو،

٣۔ وہ آزاد عورت جوکسی غلام کے نکاح میں ہو،

٤۔ وہ غلام عورت(لونڈی)جوکسی آزاد شخص کے نکاح میں ہو۔

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عیسائی یایہودی عورت کسی مسلمان کے نکاح میں ہو اوراس کا شوہر اس پر زناکی تہمت لگائے ،اوروہ عورت(بیوی)اس کی تردید کرے،تواس صورت میں ان دونوں کے درمیان لعان نہیں کروایاجائے گا۔

 اسی طرح اگرکوئی آزاد عورت کسی غلام کے نکاح میں ہو یاکوئی لونڈی کسی آزاد کے نکاح میں ہوتو اس کے درمیان بھی لعان نہیںہوگا۔

 لعان دراصل ایک شہادت وگواہی ہے جس میں مرد وعورت دونوں کااہل شہادت ہوناضروریہے،(یعنی جن کی شہادت(گواہی)شریعت میں معتبرہو)

 چونکہ مملوک اورکافر شریعت محمدیہ علہ السلام میں اہل شہادت نہیں ہوتے ،اس لئے ان کے درمیان لعان کی کوئی صورت بھی نہ ہوگی۔(جب شریعت میں ان کی شہادت معتبرہی نہیں تولعان کی صورت کیسی؟)

 

وہ تین صورتیں جن میں کسی مسلمان کوقتل کیاجاسکتاہے

 

(٤٦) عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت :قال رسول اللہ(ﷺ) ''لایحل دم امریء مسلم یشھد ان لاالہ الااللہ وان محمدا رسول اللہ الاباحدیٰ ثلاث زنی بعد احصان فانہ یرجم ورجل خرج محاربا باللہ ورسولہ فانہ یقتل اویصلب او ینفی من الارض او یقتل نفسا فیقتل بھا''

(ابوداؤد)

 ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ،رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا ''نفس مسلمان کہ جو اس امر کی شہادت دیتاہوکہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں ہے،اورمحمد(ﷺ)اللہ کے رسول ہیں ،اس کا خون حلال نہیں ۔

ہاں(البتہ)ان تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت واقع ہوجانے کی صورت میں اس کا خون حلال ہوجاتاہے۔

١۔ وہ شخص جومحصن(شادی ہونے کے بعد)ہونے کے بعد زنا کاارتکاب کرے،تواس کوسنگسار کردیاجائے۔

٢۔ وہ شخص جواللہ اوراس کے رسول(ﷺ)سے لڑنے کے لئے نکلے(یعنی جو مسلمان قزاقی کرے یابغاوت کی راہ پر لگ جائے وغیرہ)تو اس کو قتل کردیاجائے ،یاسولی دے دی جائے یاقید میں ڈال دیاجائے۔

٣۔ وہ شخص جوکسی مسلمان کوعمداً(جان بوجھ کر)قتل کردے۔تو اس کے بدلے میں اس کو قتل کردیاجائے۔

(ابوداؤد)

''محصن ''ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمان جوآزاد ہو،مکلف ہواورنکاح صحیح کے ساتھ صحبت کرچکاہویعنی شادی شدہ ہو،اورپھراس کے بعد زناکاارتکاب کرے،اس کی سزایہ ہے کہ اس کو سنگسار کرکے ختم کردیاجائے۔

''قزاق''کے بارے میں تین سزائیں بیان کی گئی ہیں۔

١۔ قتل کردیاجائے،

٢۔ سولی دے دی جائے،

٣۔ قید میں ڈال دیاجائے۔

١۔ تفصیل یہ ہے کہ اگرقزاق مال تونہ لوٹ سکاہومگر اس نے کسی کو جان سے مارڈالاہو،تو اس صورت میں اس کو قتل کردیاجائے۔

٢۔ اوراگراس نے مال بھی لوٹاہواورکسی کوقتل بھی کیاہوتواس صورت میں اس کو سولی دے دی جائے۔

٣۔ ''ینفی فی الارض''

 امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے شخص کومسلسل شہربدرکیاجاتارہے ،یعنی اسے کسی ایک شہرمیں ٹھہرنے اوررہنے نہ دیاجائے ،بلکہ ایک شہرسے دوسرے شہر کی طرف نکالاجاتارہے تاکہ اسے آرام وقرار نہ مل سکے۔

 امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ ''اس کو قید میں ڈال دیاجائے اوریہ قیدکی سزا اس صورت میں ہے کہ اس نے نہ تومال لوٹاہواورنہ کسی کوقتل کیاہوبلکہ محض راہ گیروں کوڈرایادھمکایا ہواور اس طرح اس نے راستے کے امن و عافیت کی طرف سے لوگوں کوخوف وتشویش میں مبتلاکیاہو۔

حدیث مبارکہ کا یہ جزء قرآن پاک کی اس آیہ کریمہ سے مستنبط ہے

''َإِنَّمَا جَزَاء الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الأَرْضِ فَسَاداً أَن یُقَتَّلُواْ أَوْ یُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ''

 جولوگ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول(حضرت محمد ﷺ )سے لڑتے ہیں اورملک میں فساد یعنی بدامنی پھیلاتے پھرتے ہیں(ان کی سزایہ ہے کہ)وہ قتل کئے جائیں یاسولی دیئے جائیں یاان میں سے ہرایک کاایک طرف کا ہاتھ اوردوسری طرف کا پاؤں کاٹ دیاجائے،یازمین سے نکال کر جیل خانہ میں بھیج دیاجائے۔

(سورہ مائدہ:٣٣)

 اس اعتبار سے بظاہر حدیث مبارکہ میں ''او ینفی فی الارض''سے پہلے یہ عبارت''او یقطع یدہ ورجلہ من خلاف''بھی ہونی چاہئے تھی،تاکہ یہ حدیث مذکورہ آیہ کے پورے مطابق ہوجاتی۔

 لیکن قوی احتمال ہے کہ اصل حدیث میں تویہ عبارت رہی ہو،البتہ یہاں حدیث کے راوی کی بھول سے منقول نہ ہوسکی ہو،یاراوی حدیث نے بقصد اختصار اس کوقصداً حذف کردیاہو۔

أو: یہ حرف حدیث مبارکہ میں اور آیہ مبارکہ میں تفصیل کے لئے ہے۔

 لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ تخییر کے لئے ہے،یعنی یہ ظاہر کرنے کے لئے ہے کہ امام وقت اورحاکم کویہ اختیار ہے کہ وہ مذکورہ تفصیل کالحاظ کئے بغیران سزاؤں میں سے جومناسب سمجھے وہی قزاق کودے دے۔

 سزاکی دوسری صورت کے متعلق امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کاکہنایہ ہے کہ ایسے شخص کوزندہ سولی پرلٹکایا جائے تاکہ وہ مرجائے۔

 جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کوقتل کرکے اس کی لاش کو سولی پرلٹکایاجائے تاکہ دوسرے لوگوں کواس کے انجام سے عبرت حاصل ہو۔

 

اہل بیت علیہم السلام کے خصوصی تین احکام

 

(٤٧) عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ(ﷺ) عبداً ماموراً مااختصنا دون الناس بشیء الابثلاث،امرنا ان نسبغ الوضوء وان لاناکل الصدقۃ وان لاننزی حمارا علی فرس۔

(رواہ الترمذی والنسائی)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) ایک ماموربندے تھے،آپ علیہ السلام نے ہم کو(یعنی اپنے اہل بیت کو)دوسرے لوگوں سے الگ کرکے تین باتوں کے علاوہ اورکسی بات کامخصوص طورپرحکم نہیں دیا،وہ تین باتیں جن کاخاص طورپراہل بیت کو حکم دیاتھا،یہ ہیں۔

١۔ ہم وضو کوپوراکریں۔

٢۔ ہم صدقہ کامال نہ کھائیں۔

٣۔ ہم گھوڑیوں پرگدھے نہ چھوڑیں۔

(ترمذی ونسائی)

''حضرت محمد(ﷺ) ایک ماموربندے تھے''

 اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کواللہ رب العالمین کی طرف سے جس بات کا حکم ہوتا تھاوہی کرتے تھے۔اپنی طرف سے نہ کوئی قانون بناتے تھے اور نہ اپنی خواہش نفس کے تحت کوئی حکم دیتے تھے،

 یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام کسی بھی طبقہ وجماعت یاکسی بھی شخص وخاندان کے لئے خواہ وہ آپ علیہ السلام کے نزدیک کتناہی محبوب کیوں نہ ہو ،الگ سے کسی چیز کاحکم دے کر اس کو دوسرے لوگوں پر ترجیح نہ دیتے تھے،

 یہاں تک کہ اہل بیت علیہم السلام جوخواص واقرب تھے اور ہیں ان کے لئے بھی احکام میں کسی امتیاز وخصوصیت کو روانہیں رکھتے تھے،جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وضاحت فرمائی ہے۔کہ آپ علیہ السلام نے ہم اہل بیت کو بھی کسی چیزکاخصوصی طورپرحکم نہیں دیا،ہاں البتہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اہل بیت علیہم السلام کوبھی خصوصی حکم دیاگیا۔

 گھوڑیوں پرگدھے چھوڑنے سے اس لئے منع فرمایاکہ اول تواس سے نسل کوقطع کرنالازم آتاہے،

 دوسرے یہ کہ یہ ایک عمدہ چیز(گھوڑے)کے بدلے ایک گھٹیاچیز(خچر)چاہناہے۔لہذاایساکرنامکروہ وممنوع ہے۔

(٤٨) عن علی رضی اللہ عنہ قال اھدیت لرسول اللہ بغلۃ فرکبھا فقال علی لوحملنا الحمیر علی الخیل فکانت لنامثل ھذہ فقال رسول اللہ(ﷺ) انمایفعل ذلک اللذین لایعلمون''

(رواہ ابوداؤد والنسائی)

 خلیفۃ المسلمین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(ایک موقعہ پر)رسول اللہ(ﷺ) کی خدمت میں ایک خچر ہدیۃً پیش کیاگیا توآپ علیہ السلام اس پر سوارہوئے،

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،اگرہم گھوڑیوں پرگدھے چھوڑیں توہمیں(بھی)ایسے خچرمل جائیں ؟

رسول اللہ(ﷺ) نے یہ سن کرفرمایا کہ''یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جوناواقف ہیں''(ابوداؤد،نسائی)

 حضرت محمد(ﷺ) کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ یہ غیردانشمندانہ کام تووہی لوگ کرتے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ اس(گھوڑیوں پرگدھے چھوڑنے)سے بہترگھوڑی پرگھوڑاچھوڑناہی ہے۔

 کیونکہ جوفوائد گھوڑی سے اس کی نسل پیدہونے کی صورت میں حاصل ہوتے ہیں وہ اس کے پیٹ سے خچرپیداہونے کی صورت میں حاصل نہیں ہوسکتے ،

 یایہ بھی مراد ہوسکتاہے کہ ایساکام وہی نادان کرسکتے ہیں جو احکام شریعت سے واقف نہیں ہیں،اوران کو اس چیز کاراستہ نظرنہیں آتاجوان کے حق میں اولیٰ وبہترہے۔

 

وہ چارجانور جن کومارناممنوع ہے

 

(٩٤) عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال ''نھی رسول اللہ(ﷺ) عن قتل اربع من الدواب النملۃ والنخلۃ والھدھد والصرد''

(رواہ ابوداؤد والدارمی)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ(ﷺ) نے ان چار جانوروں کے مارنے سے منع فرمایاہے،

١۔ چیونٹی

٢۔ شہد کی مکھی۔

٣۔ ھدھد

٤۔ کلچڑی۔

 چیونٹی کے مارنے سے منع کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کو اس وقت تک نہ ماراجائے جب تک وہ کاٹے نہیں،اگروہ کاٹے توپھراس کومارناجائز ہوگا۔

 بعض حضرات کاکہنایہ ہے کہ اس سے وہ بڑی چیونٹی مراد ہے جس کے پیرلمبے لمبے ہوتے ہیں،اس کو مارنااس لئے ممنوع ہے کہ اس کے کاٹنے سے ضررنہیں پہنچتا۔

٢۔ شہد کی مکھی کومارنا اس لئے ممنوع ہے کہ اس سے انسان کوبہت زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں،جیسے کہ شہد اورموم بھی اسی سے حاصل ہوتاہے۔

٣۔ ھدھدایک پرندہ ،جس کوکھٹ بڑھئی کہتے ہیں۔

٤۔ صرد بھی ایک پرندہ ہے ،جس کاسر ،چونچ اورپربڑے بڑے ہوتے ہیں۔آدھاسیاہ ہوتاہے اورآدھا سپید ہوتاہے،چڑیوں کا شکاری ہوتاہے۔

 ان دونوں پرندوں کومارنے سے اس لئے منع فرمایاہے کہ ان کا گوشت کھاناحرام ہے ۔اورجوجانور یاپرندہ کھایانہ جاتاہو اس کومارناممنوع ہے۔

 اہل عرب ہد ہد اورصرد کی آوازوں کومنحوس سمجھتے تھے ،اوربدفالی مرادلیتے تھے۔نبی علیہ السلام نے اس لئے بھی ان کو مارنے سے منع فرمایا کہ لوگوں کے دلوں سے ان کااعتماد نکل جائے۔

 

وہ دس چیزیں جنہیں نبی علیہ السلام براسمجھتے تھے

 

(٥٠) عن ابن مسعود قال ''کان النبی(ﷺ) یکرہ عشر خلال الصفرۃ یعنی الخلوق وتغییر الشیب وجرالازار والتختم بالذھب والتبرج بالزینۃ لغیر محلھا والضرب بالکعاب والرقیٰ الابالمعوذات وعقد التمائم وعزل الماء لغیرمحلہ وفساد الصبی غیرمحرمۃ''

(رواہ ابوداؤد والنسائی)

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم(ﷺ) دس چیزوں کوبراسمجھتے تھے۔

١۔ زردی ،یعنی خلوق کے استعمال کو۔

٢۔ بڑھاپاتبدیل کرنے کو۔

٣۔ ٹخنوں سے نیچے تہہ بند یاپائجامہ لٹکاکرچلنے کو۔

٤۔ مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننے کو۔

٥۔ عورت کابے محل وموقعہ زینت کااظہارکو۔

٦۔ نرد(چونسر)کھیلنے کو۔

٧۔ معوذتین کے علاوہ جھاڑپھونک کرنے کو۔

٨۔ کوڑیوں اورمنکوں کے باندھنے کو۔

٩۔ بے موقعہ عزل یعنی عورت کی شرمگاہ سے باہرمنی گرانے کو۔

١٠۔ بچہ کے خراب کرنے کو۔

(ابوداؤد،نسائی)

اگرچہ آپ علیہ السلام اس کوحرام قرارنہیں دیتے تھے۔

 ''خلوق''ایک قسم کی خوشبوکوکہتے ہیں جو زعفران سے بنائی جاتی ہے ،اس کا استعمال مرودوں کے لئے ممنوع ہے،عورتیں استعمال کرسکتی ہیں،کیونکہ یہ عورتوں ہی کے لئے ہوتی ہے۔

 ''بڑھاپے کوتبدیل کرنا''خواہ سفید بالوں کوچننے کی صورت میں ہو یاسیاہ خضاب لگانے کے ذریعہ ہو۔یہ ہر صورت میں ممنوع ہے۔البتہ مہندی کاخضاب لگایاجاسکتاہے۔کیونکہ اس کے جواز میں کئی احادیث منقول ہیں،بہت سے صحابہ سے اس کا استعمال بھی ثابت ہے،مثلاحضرت انس رضی اللہ عنہ وغیرہ ۔

 ''والتبرج بالزینۃ لغیرمحلھا''اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اس جگہ اپنابناؤ سنگھار ظاہرکرسکتی ہے جہاں حلال ہے،مثلا اس کا شوہراور اس کے محارم ،جیسے باپ وبھائی وغیرہ ہیں۔

 مطلب یہ ہے کہ عورت کو اپنے محارم اوراپنے خاوند کے علاوہ دوسرے مردوں کے سامنے اپنابناؤ سنگھار ظاہرکرنادرست نہیں۔جیسے کہ قرآن پاک میں بھی فرمایاگیا،''ولایبدین زینتھن الالبعولتھن اواٰبائھن''

(سورہ نور،آیت ٣١)

 کِعاب ''کعب کی جمع ہے ،چوسر کے گوٹوںاورمہروں کے معنی میں ہے،جن کو قرعہ کی مانند پھینک پھینک کر کھیلاجاتاہے۔

 مطلب یہ ہے کہ یہ کھیل ممنوع ہے۔چنانچہ اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک بھی یہ حرام رہاہے،اس کونظیربناکر احناف شطرنج کے کھیل کوبھی حرام قراردیتے ہیں۔(مکروہ تحریمی)

''رقی''رقیہ کی جمع ہے ،جس کے معنی ہیں منترپڑھ کرپھونکنا،ایساکرناشریعت اسلام میں ممنوع ہے ،البتہ معوذتین سے اوراسی طرح دیگر ادعیہ ماثورہ وغیرہ سے جو احادیث میں منقول ہیں اور اللہ کے صفاتی ناموںوغیرہ سے تعویذ کرنے کی اجازت ہے۔

 حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن کی آیات،احادیث میں منقول دعاؤں اوراسماء الہی کے ذریعہ جھاڑپھونک جائز ہے ،ان کے علاوہ حرام ہے۔

تمائم''تمیمہ کی جمع ہے ،(منکوں(دانوں)اورہڈیوں کوجوڑنا)

 اہل عرب نظرسے بچانے کے لئے ایساکرتے تھے،دانوں یاہڈیوں کوجوڑجوڑ کربچوںکے گلے میں لٹکایاکرتے تھے زمانہ جاہلیت میں یہ بدنظری سے بچانے کے لئے خاص طریقہ تھا،اسلام نے اس کی ممانعت کردی اوراس سے بہترین طریقہ عنایت کیاگیا۔

''بے موقعہ عزل''

 اس کا مطلب یہ ہے کہ حمل ٹھہرنے کے خوف سے مرد کا عورت کی شرمگاہ سے باہر پانی نکال دینا۔یہ اس صورت میں جائز ہے کہ جب کہ عورت(بیوی)کی رضامندی سے ہو۔عورت کی رضامندی کے بغیر عزل کرنابے موقع عزل کے زمرہ میںشمار ہوگااورممنوع ہوگا۔

اگرکسی کی لونڈی(زرخرید مملوکہ)ہوتواس کے ساتھ اس کی اجازت کے بغیر بھی عزل کیاجاسکتاہے۔

 بچہ خراب کرنا''اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عورت کے ساتھ صحبت کی جائے ،جس کی گود میں دودھ پیتابچہ ہو۔

 اس سے ممانعت اس لئے ہے کہ اس صحبت کے نتیجہ میں عورت حاملہ ہونے سے دودھ خراب ہوجائے گا اوروہ دودھ شیرخوار بچہ کی صحت پر اثرانداز ہوگا،جس سے اس کو بیماری وضعف لاحق ہوگا۔اس لئے دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ صحبت کرناگویابچہ کوخراب کرناہے(نقصان پہنچانا)

''اگرچہ آپ علیہ السلام اس کو حرام نہیں فرماتے تھے''۔

 اس کامطلب یہ ہے کہ اگرچہ آپ علیہ السلام دودھ پلانے کے زمانہ میں عورت کے ساتھ صحبت کرنے اور بچہ کو نقصان پہنچانے کوناپسند فرماتے تھے،لیکن اس کوحرام قرارنہیں دیتے تھے۔

کیونکہ منکوحہ عورت کے ساتھ جماع کرناحلال ہے ،اورمحض حمل کے احتمال سے کہ جس سے بچہ کو مذکورہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے وہ عورت حرام نہیں ہوجاتی ۔(البتہ طبی اعتبارسے اس فائدہ کوملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے)۔

 

وہ تین چیزیں جن میں شفاہے

 

 عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''الشفاء فی ثلث فی شرطتہ محجم او شربۃ عسل اوکیۃ بنار واناانھی امتی عن الکی''

(بخاری)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی علیہ السلام نے فرمایا : ''شفاتین چیزوں میں ہے،

١۔ پچھنے والی سینگی لگانے میں۔

٢۔ شہدپینے میں۔

٣۔ آگ سے داغنے میں۔لیکن میں اپنی امت کوآگ سے داغنے سے منع کرتاہوں۔

(بخاری)

 محجم سینگی کوکہتے ہیں۔یہاں اس سے مراد نشتر،یااسترا ہے جس سے پچھنے دیئے جاتے ہیں۔

شرطہ''کو نچنے کو کہتے ہیں۔جس کے ذریعہ رگ سے خون نکالاجاتاہے۔

 اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ نشتریا استرے کے ذریعہ پچھنے لگانے میں شفاہے''۔

 اس حدیث مبارکہ میں مادی امراض کے علاج و معالجہ کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔

 رہی یہ بات کہ جب داغناایک علاج ہے تو آپ علیہ السلام نے اس کی ممانعت کیوں فرمائی ،تواس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب داغنے کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے کہ ان کایہ عقیدہ ہوگیاتھا کہ مرض کے دفعیہ کے لئے داغنا یقینی درجہ کا علاج ہے ،اگرداغنے کے ذریعہ اس مادہ کوختم نہیں کیاگیاتوہلاکت بھی یقینی ہے،چنانچہ ان کے یہاں یہ مشہور تھا کہ''آخر الدواء الکیّ''

 ظاہر ہے کہ یہ بات اسلامی عقیدہ کے سراسر خلاف ہے ،کیونکہ کوئی بھی علاج خواہ وہ کتنا ہی مجرب کیوں نہ ہو یقین کادرجہ نہیں رکھ سکتا،صرف ظاہری سبب اورذریعہ ہی سمجھا جاسکتاہے،یقینی شفاتوصرف اللہ کے حکم پر ہی موقوف ہے۔لہذا آپ علیہ السلام نے اس فاسد عقیدے کی تردید اورلوگوں کوشرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے اس کی ممانعت فرمائی۔اوریہ ممانعت نہی تنزیہی کے طورپرہے ،ورنہ اگرکوئی شخص داغنے کو مرض کے دفعیہ کاایک ظاہری سبب وذریعہ سمجھتے ہوئے اس کو بطورعلاج اختیار کرے اوراللہ سے شفاء کی امید رکھے تو یہ جائز ہے ۔

 

وہ تین مواقع جن پر جھوٹ بولناجائز ہے

 

(٥٣) عن اسماء بنت یزید قالت قال رسول اللہ ''لایحل الکذب الافی ثلاث کذب الرجل امرئتہ لیرضیھا والکذب فی الحرب والکذب لیصلح بین الناس''

(رواہ احمد والترمذی)

 حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم(ﷺ) نے فرمایا ''جھوٹ بولناجائز نہیں ہے مگر تین مواقع پر۔

١۔ شوہر کااپنی بیوی سے جھوٹ بولنا ،جس سے وہ خوش ہوجائے۔

٢۔ کفار سے جنگ کی حالت میں ۔

٣۔ لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے کی غرض سے جھوٹ بولنا۔

(احمد و ترمذی)

 

وہ تین باتیں جوکسی کا راز بھی ہوں تو ظاہر کردو

 

(٥٣) عن جابر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''المجالس بالامانۃ الا ثلثۃ مجالس سفک دم حرام اور فرج حرام او اقتطاع مال بغیر حق''

(ابوداؤد)

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،نبی علیہ السلام نے فرمایا ''مجلسیں امانت کے ساتھ وابستہ ہیں(یعنی اگر کسی مجلس میں کوئی ایس بات سنی جائے جس کاافشاء کیاجانا مناسب نہ ہوتوامانت کی طرح اس بات کی حفاظت کرو،یعنی نہ اس کو کہیں نقل کرو اورنہ کسی سے اس کی چغل خوری کرو)۔

 البتہ تین مجلسیں یعنی تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں کہیں کوئی بات کی جائے تودوسروں تک ان کو پہنچادینا ضروری ہے۔(خواہ کہنے والا ان باتوں کوکتناہی اہم راز کیوں نہ سمجھے)اور وہ تینوں یہ ہیں۔

١۔ جس خون کو ناحق بہانا حرام ہے،اس کو بہانے یعنی کسی کو ناحق قتل کرنے کے مشورہ وارادہ کی بات۔

٢۔ حرام کاری ،یعنی زنا کرنے کے مشورہ وارادہ کی بات۔

٣۔ کسی کا مال ناحق چھیننے کے مشورہ وارادہ کی بات۔

(ابوداؤد)

 مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی شخص کسی سے یہ بات سنے کہ میں فلاں آدمی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتاہوں یافلان عورت کے ساتھ بدکاری کروں گا،یافلاں شخص کامال بزوروزبردستی ہتھیاؤںگا تواس طرح کی بات سننے والے کو چاہئے کہ وہ اس کو ایساراز نہ سمجھے ،جس کی پوشیدگی کاحکم دیاگیاہے۔

 بلکہ اس کو فوراً ظاہرکردے ،یعنی اس بات سے متعلقہ لوگوں کوآگاہ کردے تاکہ وہ ہشیار ہوجائیں اوراپنے بچاؤ کی تدابیر اختیارکرلیں۔

 اسی طرح اس مجلس کی باتوں کا افشاء کرنابھی جائز ہے ،جن میں دین وملت اورقوم کو نقصان پہنچانے پر گفتگو وتجویز ہوئی ہو(یہ تشریح شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ سے منقول کردہ ہے )

 اورملا علی قاری سے ا س کی تشریح یوں منقول ہے کہ ایک مؤمن کے لئے مناسب یہ ہے کہ اگر وہ کسی مجلس میں لوگوں کو برائی کاکام کرتے دیکھے تووہ ان کی اس بدعملی کا چرچانہ کرتاپھرے،

البتہ تین مجلسیں ایسی ہیں کہ ان میں کی جانے والی برائیوں کاچرچاکیاجاسکتاہے۔

١۔ ایک مجلس وہ جس میں کسی کوناحق قتل کیاجارہاہو۔

٢۔ دوسری مجلس وہ جس میں کسی عورت کی عصمت لوٹی جارہی ہو۔

٣۔ تیسری مجلس وہ جس میں کسی شخص کا مال ناحق ہتھیایاجارہاہو۔

 

تین خاص باتیں

 

(٥٤) عن ابی ھریرۃ ان رجلا شتم ابابکر والنبی(ﷺ) جالس یتعجب ویتبسم فلمااکثر رد علیہ بعض قولہ فغضب النبی علیہ السلام وقام فلحقہ ابابکر وقال یارسول اللہ کان یشتمنی وانت جالس فلما رددت علیہ بعض قولہ فغضبت وقمت قال کان معک ملک یرد علیہ فلما رددت علیہ وقع الشیطان ثم قال یاابابکر ثلث کلھن حق ما من عبدظلم بمظلمۃ فیغضی عنھاللہ عزوجل الااعز اللہ بھا نصرہ ومافتح رجل باب عطیّۃ یرید بھاصلۃ الازاد اللہ بھاکثرۃ ومافتح رجل باب مسئلۃ یرید بھا کثرۃً الازاد اللہ بھاقلۃ ۔

(احمد)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیںایک دن نبی اکرم حضرت محمد(ﷺ) صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تشریف فرماتھے۔کہ ایک شخص نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوبرابھلاکہناشروع کردیا، آپ علیہ السلام سن کرحیرت کرنے اورمسکرانے لگے۔یہاں تک کہ جب وہ شخص حد سے باہر ہواتوحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کو جواب دینا شروع کردیا،اس پر نبی علیہ السلام ناراض ہوگئے اور وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

 حضور علیہ السلام کے پیچھے پیچھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آگئے اورخدمت اقدس میں حاضر ہوکرعرض کیا،یارسول اللہ(ﷺ) جب وہ شخص مجھ کو برابھلا کہہ رہاتھا توآپ علیہ السلام وہاں بیٹھے رہے،لیکن جب میں نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیناشروع کیاتوآپ علیہ السلام ناراض ہوگئے ،اور وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

 حضور علیہ السلام نے فرمایا،اصل میں بات یہ ہے کہ جب تک تم خاموش تھے ،تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھاجوتمہاری طرف سے اس کو جواب دے رہاتھا،مگرجب تم نے خود جواب دیناشروع کردیاتوشیطان درمیان میں کود پڑا۔

پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا''ابوبکر!تین باتیں ہےں ،جوتمام ہی بالکل حق ہیں۔

١۔ جوبندہ کسی کے ظلم کے شکار ہوتاہے اورمحض اللہ کی رضا اوراس کے ثواب کی طلب کے لئے(نہ کہ اپنے عجز سے یا دکھاواکرنے کے لئے)اس ظالم سے چشم پوشی کرتاہے تواللہ تعالیٰ اس بناء پر(دنیاوآخرت میں )اپنی مدد کے ذریعہ اس بندہ کو مضبوط وقوی بنادیاہے۔

٢۔ جوبندہ اپنی عطاء وبخشش کادروازہ کھولتاہے ،تاکہ اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اورمسکینوں کے ساتھ احسان اورنیک سلوک کرے(یعنی ان کی مالی مدد واعانت کرے)تواللہ تعالیٰ اس کے عطاء وبخشش کے سبب اس کے مال و دولت میں(ظاہری وباطنی خیروبرکت کی صورت میں )اضافہ کرتاہے۔

٣۔ جوشخص سوال وگدائی کادروازہ کھولتاہے تاکہ اس کے ذریعہ اپنی دولت کوبڑھائے تواللہ اس کی گدائی کے سبب اس کے مال ودولت کواورکم کردیتاہے۔

''حیرت کرتے اورمسکراتے تھے''

 حیرت کا تعلق یاتواس شخص کی بدزبانی اوراس میں شرم وحجاب کی کمی سے تھایاحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صبروتحمل اوران کے باوقار وبردباررویہ سے تھا،اورمسکرانے کاتعلق اس فرق سے تھا جوآپ علیہ السلام ان دونوں میں دیکھ رہے تھے۔

 علاوہ ازیں آپ علیہ السلام کی نظران دونوں کے حق میں مرتب ہونے والے نتیجہ پر بھی تھی کہ وہ شخص تو اپنی بدکلامی کے سبب عذاب کامستوجب ہورہاتھا اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے صبروتحمل اوربردباری وچشم پوشی کے سبب رحمت الہی کانزول ہورہاتھا۔

''حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی بعض باتوں کاجواب دیا''

 گویاانہوں نے اس موقعہ پر جواب دے کررخصت واجازت پر عمل کیاجوایک عام آدمی کے لئے موزوں ہے۔اوراس عزیمت کو ترک کیا جو خواص کے مرتبہ و شان کے عین مطابق ہے،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا،فمن عفی واصلح فاجرہ علی اللہ''برائی کا بدلہ اس برائی کے مطابق لیاجاسکتاہے ،لیکن جو شخص درگزر کرے اوراصلاح کرے تواس کا اجر اللہ پر ہے۔

(سوریٰ شوریٰ :آیت ٤٠)

 چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اگرچہ اس شخص کی بعض باتوں کابدلہ لے کر اوربعض باتوں پر صبر کرکے گویادونوںپہلوؤں کی رعایت کی،مگرنگاہ نبوت میں چونکہ ان کے لئے وہ مرتبہ کمال مطلوب تھا جوان کی شان صدیقیت کے مطابق ہے،اس لئے ان کا اس شخص کی بعض باتوں کاجواب دے کرجزوی بدلہ لینابھی حضور علیہ السلام کوپسند نہ آیا۔اورآپ علیہ السلام پر وہ کیفیت طاری ہوگئی جوناراض ہونے والے شخص پر ہوتی ہے، چنانچہ آپ اس مجلس سے اٹھ کرچل دیئے تاکہ ایک طرف تو حضرت ابوبکر( رضی اللہ عنہ ) کے رویہ پر ناپسندیدگی کااظہار بھی ہوجائے اوردوسری طرف اللہ رب العالمین کے اس ارشاد پر عمل بھی ہوجائے ۔ ''واذاسمعوا اللغو اعرضواعنہ''جب وہ کوئی لغوبات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں''۔

''شیطان درمیان میں کود پڑا''

 یعنی حضور علیہ السلام نے گویا یہ واضح فرمادیا کہ جب تم خود جواب دینے لگے تو پھر شیطان کودخل دینے کا موقعہ مل گیا ۔اوروہ فرشتہ جوتمہاری طرف سے جواب دے رہاتھا آسمان پر چلاگیا۔

 اورتم یہ جانتے ہی ہو کہ جب کسی معاملہ میں شیطان کودپڑے توکیاکچھ نہیںہوجاتا،وہ(شیطان)بے حیائی اوربرائی پراکسانے کے علاوہ اور کیا کرسکتاہے۔

 چنانچہ مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں شیطان کاداؤ تم پر نہ چل جائے،اورتم اپنے مخالف سے بدلہ لینے میں حد سے زیادہ بڑھ جاؤ،اور اس کا نتیجہ یہ ہوکہ تم جومظلوم تھے ظالم کی جگہ پر آجاؤ جب کہ چاہئے تویہ کہ تم اللہ کے مظلوم بندے بنوظالم بندے نہ بنو۔

 

 

 

وہ تین لوگ جوقیامت کے دن اللہ کی توجہ سے محروم رہیں گے

 

(٥٥) عن ابی ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''ثلاثۃ لایکلمھم اللہ یوم القیامۃ ولایزکیھم''۔

وفی روایۃ ولاینظرالیھم ولھم عذاب الیم،شیخ زان وملک کذاب وعائل مستکبر''

(رواہ مسلم)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''تین شخص ایسے ہیں ،جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائیں گے۔اورنہ ان کی تعریف وستائش کریں گے۔

 اورایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہےں کہ اورنہ ان کی طرف(رحمت وعنایت کی نظرسے)دیکھیں گے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔

١۔ بڈھا زناکار۔

٢۔ جھوٹا بادشاہ۔

٣۔ متکبرمفلس۔

 حدیث مبارکہ میں جن تین برائیوں کے مرتکبین کے بارے میں وعید بیان فرمائی گئی ہے وہ ہر حال میں مذموم اورمستوجب عذاب ہیں،خواہ ان کامرتکب کسی بھی درجہ ،حیثیت اورعمرکاآدمی ہو۔

 لیکن یہاں ان برائیوں کے تعلق سے جن تین لوگوں کاذکر کیاگیاہے ان کے اعتبار سے ان برائیوں کی سنگینی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

١۔ مثلاً زنا :ایک بہت برافعل ہے اورجب یہ فعل جوان کے حق میں بھی بڑاگناہ ہے ،جوطبعی طورپرمعذور بھی ہوتاہے،توایک بڈھے کے حق میں تویہ فعل کہیں زیادہ براہوگا،کیونکہ نہ تووہ طبعی طورپر اس کی احتیاج رکھتاہے اورنہ اس کی طبیعت پر جنسی خواہش اورقوت مردمی کا وہ غلبہ ہوتاہے جوبسااوقات عقل و شعور سے بیگانہ اورخوف الہی سے غافل کردیتاہے،

لہذا جو بڈھا زناکامرتکب ہوتاہے وہ گویااپنی نہایت بے حیائی اورطبیعت کی خباثت پردلالت کرتاہے۔

٢۔ اسی طرح جھوٹ بولنا،ہرشخص کے حق میں براہے ،لیکن بادشاہ وقت کے حق میں بہت ہی براہے ،کیونکہ اس پر ملک کے انتظام ،رعایاکے مصالح ومفاد کی رعایت اورمخلوق الہی کے معاملات کی نگہداشت کی ذمہ داری ہوتی ہے،اس کا ایک ادنیٰ ساحکم پورے ملک کے نظم ونسق پراثرانداز ہوتاہے،اگروہ جھوٹ کا مرتکب ہوتواس کی اس برائی کی وجہ سے پوراملک اورملک کے تمام لوگ مختلف قسم کی برائیوں اورپریشانیوں میںمبتلاہوسکتے ہیں۔

 علاوہ ازیںجولوگ جھوٹ بولتے ہیں وہ عام طور پر اس برائی کاارتکاب اپنے کسی فائدہ کے حصول یاکسی نقصان کے دفعیہ کے لئے کرتے ہیں،جب کہ ایک بادشاہ حاکم یہ مقصد بغیرجھوٹ بولے بھی حاصل کرنے پر قدرت رکھتاہے،

لہذااس کا جھوٹ بولنانہ صرف بالکل بے فائدہ بلکہ نہایت مذموم ہوگا۔

٣۔ اسی طرح ''تکبر کرنا''جو چیزیں عام طورپر انسان کوغرور وتکبر میں مبتلا کردیتی ہیں وہ مال،دولت جاہ واقتدار وغیرہ ہےں،

 اگر کسی شخص میں یہ اوصاف و اشیاء موجود ہیں اوروہ ان چیزوں کی وجہ سے تکبر کرتاہے تواگرچہ اس شخص کوبھی براکہیں گے مگراس کاتکبر کرناایک طرح سے سمجھ میں آنے والی بات ہوگی،اس کے برخلاف اگرکوئی فقیر ومفلس تکبر کرے کہ جونہ تومال ودولت رکھتاہے اورنہ جاہ واقتدار وغیرہ کامالک ہے تو اس کا یہ فعل نہایت ہی برا ہوگا۔

 

وہ تین چیزیں جو نجات کاذریعہ ہیں،

اوروہ تین چیزیں جو اخروی ہلاکت کاباعث ہیں

 

(٥٦) عن ابی ہریرہ ان رسول اللہ(ﷺ) قال''ثلاث منجیات وثلاث مھلکات،فانما المنجیات فتقوی اللہ فی السرّ والقول بالحق فی الرضی والسخط والقصد فی الغنیٰ والفقر''

واما المھلکات فھویً متبع وشح مطاع واعجاب المرأ بنفسہ وھی اشھدھن''

(رواہ البیہقی)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم(ﷺ) نے فرمایا''تین چیزیں نجات دینے والی ہیں اورتین چیزیں آخرت میں ہلاک کرنے والی ہیں،

١۔ جو چیزیں نجات دینے والی ہیں ان میں سے ایک توظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرنا ہے۔

٢۔ خوشی و ناخوشی میں حق بات کہنا۔

٣۔ دولتمندی وفقر دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیارکرنا۔

اورجو تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں ان میں سے ایک

١۔ خواہش نفس ہے،جس کی پیروی کی جائے۔

٢۔ حرص وبخل ،انسان جس کاغلام بن جائے۔

٣۔ مرد کا اپنے نفس پر گھمنڈ کرنا(اپنے آپ کو نیک وپارساسمجھنا)اوریہ ان سب میں بدترین خصلت ہے۔(بیہقی)

 خوشی وناخوشی میں حق بات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت بیانی اور حق گوئی کواپنی کسی مصلحت ،کسی مفاد اورکسی جذبہئ خوشی وناخوشی کاپابند نہیں بناناچاہئے،بلکہ اگرکسی سے راضی وخوش ہوتواس کے سامنے بھی وہی بات کہے جو برحق ہے اوراگرکسی سے ناراض و ناخوش ہوتواس صورت میں بھی حق بات ہی کہے۔

 مثلااگرخود کوکسی ایسے شخص سے کوئی نفع وفائدہ پہنچتاہے،لیکن اس شخص کادوسروں کے ساتھ ظلم اورفسق ظاہر و ثابت ہے توایسے شخص کی ناحق تعریف و ستائش وتعریف اورخلاف واقعہ بات محض اس لئے بیان نہ کرے کہ ذاتی فائدہ حاصل ہونے کی وجہ سے اس سے خوش ہے۔

 اسی طرح اگرکسی صالح وبزرگ شخصیت سے کسی معاملہ میں کوئی اختلاف اورناراضگی کی صورت پیدا ہوجائے تومحض اپنی ذاتی ناراضگی کی وجہ سے اس کی برائی اورمذمت نہ کرے۔

 حاصل کلام یہ ہواکہ خواہ کسی سے خوش ہویاناراض ہودونوں صورتوں میں راہ استقامت پرگامزن رہے اورحق گوئی کے فریضہ کوکسی بھی حالت میں پس پشت نہ ڈالے۔

''میانہ روی اختیارکرے''

 اس کا مطلب یہ ہے کہ خرچ واخراجات میں نہ تو اس قدر وسعت وفراخ دستی کامظاہرہ ہوکہ اسراف بن جائے،اورنہ اس قدر تنگی وسختی اختیار کرے کہ فقروفاقہ کااظہارہونے لگے۔

''خواہش نفس ،جس کی پیروی کی جائے''

 اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کواس طرح نفس کاتابع نہ کردے کہ نفس کی ہرخواہش پوری کرنے لگے ،یہ ایک ایسی خصلت ہے جوہلاکت وتباہی میں ڈال دیتی ہے،

''آدمی کا اپنے نفس پرگھمنڈ کرنا''اوریہ ان سب میں بدترین خصلت ہے''

 اس کا مطلب یہ ہے کہ ہلاکت میں ڈالنے والی جن چیزوں کاذکرکیاگیا ہے ،ان میں ازروئے گناہ ونقصان سب سے بدتر خصلت عُجُب(خودستائی وخودبینی)ہے۔جس کی وجہ سے انسان غروروتکبر میں مبتلا ہوجاتاہے،کیونکہ اس سے پہلے دوبرائیوں(خواہش نفس اورحرص وبخل)کے پھندے سے توانسان خود کو نکال لیتاہے لیکن یہ عُجُب ایسامرض ہے ،جواگرلاحق ہوجائے توکم ہی پیچھا چھوڑتاہے۔

 اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ برائی انسان کے اندرکبرونخوت پیداکردیتی ہے اوروہ اپنے کسی برے فعل کی اچھائی و برائی کے احساس تک سے خالی ہوجاتاہے،اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے کسی برے فعل پر نادم نہیں ہوتا،کیونکہ ندامت تواحساس کے بعدپیداہوتاہے،جب کہ عجب انسان کو اس احساس سے ہی نکال باہر کرتاہے، جوندامت کاباعث بنے،اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایساشخص توبہ وانابت الی اللہ کی راہ سے دور ہوتاچلاجاتاہے ۔(اللہ رب العالمین سب کو محفوظ ومامون رکھیں۔آمین)

 

دوقابل قدرنعمتیں

 

(٥٧) عن ابن عباس قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس الصحۃ والفراغ''

(بخاری)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ،رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا: ''دونعمتیں ایسی ہیں کہ جن کے معاملہ میں بہت سے لوگ فریب اورٹوٹاکھائے ہوئے ہیں،

١۔ تندرستی۔

٢۔ فراغت۔

(بخاری)

 مذکورہ نعمتوں میں سے ایک نعمت توتن درستی ہے،یعنی جسم وبدن کاامراض سے محفوظ رہنا،اوردوسری نعمت ہے ،اوقات کاغم روزگار کے مشاغل اورمصروفیات ،تفکرات اورتشویشات سے فارغ وخالی ہونا۔

 چنانچہ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے،جو اپنی غفلت شعاری کی بناپر ان دونوں نعمتوں کی قدر نہیں کرتے ،اوران کے معاملہ میں اپنے نفس سے فریب کھاکران کومفت میں ہاتھ سے جانے دیتے ہیں،

اس ارشاد گرامی میں ایسے لوگوں کے متعلق حسرت و افسوس کااظہارہے،

 ایسے لوگ نہ تواپنی صحت و تندرستی کے زمانہ میں دین ودنیا کی بھلائی وفائدہ کے کام کرتے ہیں اورنہ فرصت کے اوقات کوغنیمت جان کر ان میں آخرت کے امور کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،

 ہاں جب ان کی صحت و تندرستی خراب ہوجاتی ہے،دنیابھرکے تفکرات لاحق ہوجاتے ہیں اور غم روزگار کی گردش ان کے اوقات کومختلف قسم کی مشغولیات میں جکڑ لیتی ہے ،اس وقت ان کو نعمتوں کی قدرہوتی ہے،اوروہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے کیسے بیش قیمت مواقع گنوادیئے اوراس قول ''النعمۃ اذا فقدت عرفت''(نعمت کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب وہ جاتی رہتی ہے)کامصداق بنتے ہیں۔

 

پانچ بہترین باتوں کی نصیحت

 

(٥٨) عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال:قال رسول اللہ(ﷺ) ''من یأخذ عنی ھؤلاء الکلمات فیعمل بھن اویعلم من یعمل بھن قلت انایارسول اللہ(ﷺ) فاخذ بیدی فعدَّ خمسا فقال،اتق المحارم تکن اعبدالناس وارض بماقسم اللہ لک تکن اغنی الناس واحسن الیٰ جارک تکن مؤمنا واحب الناس ماتحب لنفسک وتکن مسلماً ولاتکثر الضحک فان کثرۃ الضحک تمیت القلب ۔

(رواہ احمدوالترمذی)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''کون شخص ہے جو مجھ سے پانچ باتوں کوسیکھے اورپھران پرعمل کرے یااس شخص کوسکھائے جوان پر عمل کرنے والاہو،(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا)یارسول اللہ(ﷺ) وہ شخص میں ہوں ،حضور(ﷺ) نے یہ سن کر میراہاتھ پکڑا اوروہ پانچ باتیں گنوائیں۔

١۔ تم ان چیزوں سے بچو ،جنہیں شریعت نے حرام قرار دیاہے،اگرتم ان سے بچ گئے توتم لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار بندہ بن جاؤ گے۔

٢۔ تم اس چیز پراضی وشاکررہو،جس کو اللہ رب العالمین نے تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے،اگرتم تقدیر الٰہی پر راضی وشاکررہوگے توتمہاراشمار تونگر ترین لوگوں میں ہوگا۔

٣۔ تم اپنے ہمسایہ سے اچھاسلوک کرو(اگرچہ اس کا سلوک تمہارے ساتھ اچھانہ ہو)اگر تم ایساکروگے توتم کامل مؤمن سمجھے جاؤ گے۔

٤۔ تم(دنیا وآخرت کی بھلائیوں سے متعلق )جس چیزکواپنے لئے پسند کرتے ہو،اسی کو دوسرے سب لوگوں کے لئے بھی پسند کرو۔اگرتم ایساکروگے تم کامل مسلمان سمجھے جاؤگے۔

٥۔ اورتم زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو،کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کومردہ بنادیتاہے۔

(احمد و ترمذی)

 حدیث مبارکہ کے ابتدائی جملوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم ،ویسے توبذات خود افضل واشرف ترین ہے ہی کہ کسی شخص کامحض عالم ہونا ہی اس کی فضیلت کے لئے کافی دلیل ہے،اوراگر اس علم پر عمل پیرا ہونابھی نصیب ہوجائے تواس سے بڑھ کر توکوئی سعادت ہوہی نہیں سکتی ۔لیکن اگرکوئی عالم اپنے علم پر خود توعمل نہیں کرتاالبتہ تعلیم وتلقین کے ذریعہ اس علم کی روشنی دوسروں تک پہنچاتاہے،اورراہ مستقیم کی طرف ہدایت کافریضہ انجام دیتاہے تواس کواس صورت میں بھی ثواب ملتاہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ بے عمل عالم کابھی لوگوں کونیکی وبھلائی کی تلقین کرنااوربرائی سے روکنادرست ہے۔

١۔ ''ان چیزوں سے بچوجنہیں شریعت نے حرام قراردیاہے''

 اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ممنوع چیزوں سے اجتناب کروبلکہ شریعت نے جن چیزوں کواختیاکرنے کا حکم دیاہے ان کے ترک سے بھی ساتھ ساتھ اجتناب کرو۔

٢۔ ''تقدیر الہی پر راضی و مطمئن رہو''

 تقدیر الٰہی پر راضی ومطمئن ہونا اوراپنے مقسوم پرصابر وشاکررہنا، بڑااونچامرتبہ ہے۔جس شخص کو یہ مقام نصیب ہوجاتاہے وہ حرص و طمع سے پاک رہتاہے،زیادہ طلبی سے اپنادامن بچاتاہے،اورقلبی استغناو تونگری کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ پھیلاناگوارانہیںکرتا۔

 منقول ہے کہ ایک شخص نے مشہور بزرگ حضرت سیدابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ تعالیٰ سے کیمیا کے بارے میں پوچھا توانہوں نے جواب دیاکہ کیمیادو(٢)باتوں میں پوشیدہ ہے،

١۔ مخلوق کونظرسے گرادو،یعنی غیراللہ کوحاجت روا اورمشکل کشابنانے کے قابل نہ سمجھو اوراللہ کے سوا کسی اور سے اپنی حاجت وابستہ نہ کرو۔

٢۔ اللہ رب العالمین سے بھی یہ امید وابستہ نہ کرو کہ وہ تمہیں اس چیز کے علاوہ کچھ اور بھی دے جواس نے تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے۔

٣۔ ''تم جس چیز کواپنے لئے پسند کرتے ہو''

 اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ دین و دنیا کی بہتری وبھلائی کی جس چیز کوتم خاص طورپراپنے لئے پسند کرتے ہواس چیز کودوسروں کے لئے بھی پسند کرو،یہاں تک کے کافر کے لئے ایمان کواورفاجر کے لئے توبہ وانابت کوپسند کرو۔

 حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''اے انسان! اس بات کو جان لے کہ جوچیز تیری قسمت میں لکھی جاچکی ہے وہ ہرحال میں تجھے ملے گی ،خواہ توطلب و سوال کی راہ اختیاکریااس راہ کو ترک کردے۔

 اورجوچیز تیری قسمت میں نہیں لکھی ہے وہ تجھ کوکسی حالت میں نہیں ملے گی،خواہ تواس کے طلب کی کتنی ہی حرص رکھے اور اس کوحاصل کرنے کے لئے کتنی ہی سعی و کوشش اورمحنت ومشقت برداشت کرے۔

 لہذا تجھے جو کچھ مل جائے اس پر شاکر وصابر رہ،ہرحالت میں جائز وحلال چیز کوحاصل کرنا ضروری سمجھ اوراپنے مقسوم پر راضی ومطمئن رہ تاکہ رب ذوالجلال والاکرام تجھ سے راضی و خوش رہے۔

 

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو

 

(٥٩) عن عمروبن میمون الاودیّ قال :قال رسول اللہ(ﷺ) لرجل وھویعظہ''اغتنم خمسا قبل خمس شبابک قبل ھرمک وصحتک قبل سقمک وغناک قبل فقرک وفراغک قبل شغلک وحیوتک قبل موتک''۔(رواہ الترمذی)

 حضرت عمروبن میمون اودی(تابعی رحمہ اللہ تعالیٰ ) کہتے ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد(ﷺ) نے ایک شخص کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا''پانچ چیزوں کوپانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو،

١۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔

٢۔ بیماری سے پہلے صحت کو۔

٣۔ فقروافلاس سے پہلے تونگری وخوشحالی کو۔

٤۔ مشاغل وتفکرات میں مبتلاء ہونے سے پہلے وقت کی فراغت اوراطمینان کو۔

٥۔ موت سے پہلے زندگی کو۔

 انسان کو اپنی جوانی سے بھرپورفائدہ اٹھاناچاہئے،یعنی اس سے قبل کہ جسمانی زوال کازمانہ آئے اورانسان عبادت وطاعت وغیرہ کی انجام دہی میں ضعف وکمزوری محسوس کرنے لگے جوانی میں خوب عبادات وطاعات کی انجام دہی کرلے۔

 ایمان کے بعد جوچیزسب سے بڑی نعمت ہے وہ ہے صحت و تندرستی۔لہذا انسان کوچاہئے کہ اپنی صحت وتندرستی کے زمانہ میں اپنی دینی ودنیوی بھلائی کے لئے جو کچھ کرسکتا ہے کرگزرے۔

''فقر وافلاس سے پہلے تونگری وخوشحالی کو''

 اس فقرہ کامطلب یہ ہے کہ انسان کوجومال ودولت نصیب ہو،اس کومالی عبادات اورصدقات وخیرات میں خوب خرچ کرے،اس سے قبل کہ وہ انسان کے ہاتھ سے نکل جائے یاموت کاپنجہ انسان کواس سے جداکردے۔اوراس دولت مندی وخوشحالی کوانسان ایک ایساغنیمت موقعہ سمجھے ،جس میں اپنی اخروی فلاح و سعادت کے لئے سب کچھ کرجائے۔

 حدیث مبارکہ کاماحصل یہ ہے کہ جوانی،صحت،دولت،فراغت اورزندگی ایسی چیزیں ہیں جوہمیشہ ساتھ نہیں دیتیں،

 جوانی کے بعد بڑھاپا،صحت کے بعدبیماری،دولت کے بعدمحتاجی، فراغت کے بعدمشاغل اورزندگی کے بعد موت کاپیش آنالازمی امورہیں،

 لہذا جب تک یہ چیزیں پیش نہ آئیں انسان کو موقع غنیمت جانناچاہئے اوراس میں اپنی دنیوی واخروی بھلائی کے لئے جو کچھ کرسکتاہو اس سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔

 

وہ پانچ نعمتیں جن کے بارے میں

روز قیامت جواب دہی کرناپڑے گی

 

(٦٠) عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ عن النبی(ﷺ) قال''لاتزو قدم ابن اٰدم یوم القیمۃ حتی یسأل عن خمس،عن عمرہ فیما افنٰہ وعن شابہ فیما ابلیٰہ و عن مالہ من این اکتسبہ وفیما انفقہ وماذاعمل فیما علم''

(رواہ الترمذی)

 حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نبی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا''قیامت کے دن انسان کے پاؤں سرکنے نہ پائیں گے اور اس کوبارگاہ رب ذوالجلال والاکرام میں اس وقت تک کھڑا رکھیں گے جب تک کہ اس سے پانچ باتوں کاجواب نہیںلے لیاجائے گا۔

١۔ اپنی عمر کس کام میں صرف کی؟

٢۔ جوانی کو کس کام میں بوسیدہ کیا؟

٣۔ مال کیسے کمایا؟

٤۔ مال کہاں خرچ کیا؟

٥۔ جو علم حاصل کیا تھا اس کے موافق عمل بھی کیایانہیں؟

 

انسان لاچارہے

 

 حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے ،انہوں نے ایک مرتبہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ اے عویمرًقیامت کے دن جب اللہ رب العالمین تم سے پوچھیں گے کہ تم عالم تھے یاجاہل؟

اورتم جواب دوگے میں عالم تھا،

پھرتم سے پوچھا جائے گا،تم نے جو علم حاصل کیا تھا اس کے موافق کتناعمل کیا؟

 اوراگرتم کہوگے میں توجاہل تھا،توتم سے پوچھاجائے گاتمہارے لئے جاہل رہنے کی کیاوجہ تھی اور تم نے علم کیوں حاصل نہیں کیا؟

 

دوخوفناک چیزوںکا ذکر

 

(٦١) عن جابر قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''ان اخوف مااتخوف علی امتی الھویٰ وطول الامل ۔

فاما الھوی فیصد عن الحق

واماطول الامل فینسی الاخرۃ

وھذہ الدنیامرتحلۃ ذاھبۃ

وھذہ الآخرۃ مرتحلۃ قادمۃ

ولکل واحدۃ منھما بنون فان استطعتم ان لاتکونوا من بنی الدنیا فافعلوا فانکم الیوم فی دار العمل ولاحساب وانتم غداً فی دارالآخرۃ ولاعمل''

(رواہ البیہقی)

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''اپنی امت کے بارے میں جن دوچیزوں سے میں بہت زیادہ ڈرتاہوں،ان میں ایک خواہش نفس ہے،دوسرادرازیئ عمر کی آرزو ہے۔

 پس نفس کی خواہش حق کوقبول کرنے اور اس پرعمل کرنے سے روکتی ہے،اورجہاں تک درازیئ عمر کی آرزو کاتعلق ہے تووہ آخرت کوبھلادیتی ہے،

(اوریاد رکھو)

 یہ دنیا کوچ کرکے چلی جانے والی ہے،اورآخرت کوچ کرکے آنے والی ہے،(یعنی یہ دنیا لمحہ بلمحہ گزرتی ہی چلی جارہی ہے اورآخرت ہے کہ لمحہ بلمحہ تمہاری طرف چلی ہی آرہی ہے۔)

 نیز ان دونوں میںسے ہرایک کے بیٹے ہیں(یعنی کچھ لوگ تووہ ہیں جودنیا کے تابع و محکوم اورا س کی دوستی وچاہت رکھنے والے ہیں،گویاکہ وہ دنیاکے بیٹے ہیں،اورکچھ لوگ وہ ہیں جوآخرت کے تابع ومحکوم اوراس کے دوست و طلبگار ہیں گویاوہ آخرت کے بیٹے ہیں۔)

 لہذااگرتم سے یہ ہوسکے کہ تم دنیاکے بیٹے نہ بنوتوایساضرور بالضرورکرو(یعنی ایسے کام کرواورایسے راستے پر چلوکہ کہ دنیاکاداؤ تم پرنہ چل سکے اورتم اس کی اتباع وفرمانبرداری اوراس کی محبت وچاہت کے دائرہ سے نکل کرآخرت کے تابع ومحکوم اوراس کے طلبگار بن جاؤ۔)

 کیونکہ آج تم دنیامیں ہوجودارالعمل(کام کرنے کی جگہ)ہے،جہاں عمل کاحساب نہیں لیاجاتا۔(پس اس موقعہ کوغنیمت جانو اوراجل آنے سے پہلے عمل کرلو۔)

کل جب تم آخرت کے گھر جاؤ گے وہاں عمل کا موقعہ نہ ملے گا بلکہ وہاںصرف محاسبہ ہوگا''(بیہقی)

 

وہ چار(٤)باتیں

جودنیاکے نفع ونقصان سے بے پرواہ بنادیتی ہیں

 

(٦٢) عن عبداللہ بن عمرو ان رسول اللہ(ﷺ) قال''اربع اذاکن فیک فلاعلیک مافاتک الدنیا،

حفظ امانۃ

وصدق حدیث

وحسن خلیقۃ

وعفۃ فی طعمۃٍ''

(رواہ احمد والبیہقی)

 حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''(لوگو!)چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگروہ تم میں پائی جائیں تودنیاکے فوت ہونے نہ ہونے کاتمہیں کوئی غم نہیں ہوناچاہئے۔

١۔ امانت کی حفاظت کرنا۔

٢۔ سچی بات کہنا۔

٣۔ اخلاق کا اچھاہونا۔

٤۔ کھانے میں احتیاط پرہیز گاری اختیارکرنا۔

(احمد وبیہقی)

 حدیث مبارک کامطلب یہ ہے کہ جس شخص کی زندگی ان چارچیزوں سے معمور ہوگئی توگویا اس نے اخروی نعتموں کوجڑ سے پکڑلیا ،اس کے نفس نے روحانی عروج وکمال کادرجہ پالیا،اس کا قلب وباطن منور ہوگیااورثواب آخرت و بہشت کی لازوال نعمتوں کاذریعہ اس کو حاصل ہوگیا۔

 لہذا اس صورت میں اگروہ دنیابھرکی نعمتوں اورتمام مادی خواہشات ولذت سے محروم بھی ہوجائے تب بھی اسے کوئی غم و افسو س نہ ہوناچاہئے بلکہ ایک طرح سے اس کومطمئن ہوناچاہئے کہ اگر دنیوی نعمتیں اورلذتیں حاصل ہوتیں توان کی وجہ سے دینی معمولات اورعبادات وطاعات میں جمعیت خاطری اورحضورقلب خلل و وحشت کاشکار ہوتے اور روحانی طاقت ونورانیت کاجمال مادی کثافت وظلمت سے غبارآلود ہوجاتا۔

 

وہ چار آدمی جن کے حق میں دنیابھلی یابری ہے

اورتین حقائق

 

(٦٣) عن ابی کبشۃ الانماری انہ سمع رسول اللہ یقول''ثلث اقسم علیھن واحدثکم حدیثا فاحفظوہ،

 فاماالذی اقسم علیھن فانہ مانقص مال عبد من صدقۃ ولاظلم عبدمظلمۃ صبرعلیھا الازادہ اللہ عزوجل بھاعزاولافتح عبدباب مسئلۃ الافتح اللہ علیہ باب فقر''

واما الذی احدثکم فاحفظوہ فقال انما الدنیا لاربعۃ نفرٍ،

 عبدرزقہ اللہ مالاوعلما فھویتقی فیہ ربہ ویصل رحمہ ویعمل للہ فیہ بحقہ فھذابافضل المنازل،

 وعبدرزقہ اللہ علما ولم یرزقہ مالاً فھوصادق النیۃ ،یقول لوان لی مالاً لعملت بعمل فلان فاجرھما سوائٌ،

 وعبدرزقہ اللہ مالاً ولم یرزقہ علماً فھویتخبط فی مالہ بغیرعلم لایتقی فیہ ربہ ولایصل فیہ رحمہ ولایعمل فیہ بحق فھذاباخبث المنازل،

 وعبد لم یرزقہ اللہ مالاولاعلما فھویقول لوان لی مالا لعملت فیہ بعمل فلان فھونیتہ ووزرھما سوائٌ''

(رواہ الترمذی)

 حضرت ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوںنے رسول اللہ(ﷺ) کویہ فرماتے ہوئے سناکہ ''تین باتیں ہیںجن کی حقانیت وصداقت پرمیں قسم کھاتاہوں اورمیںتم سے ایک بات کہتاہوں ،تم اسے یاد رکھنا،

 

تین حقیقی اورسچی باتیں

 

پس وہ تین باتیں جن کی حقانیت وصداقت پرمیں قسم کھاسکتاہوں ،یہ ہیں

١۔ بندہ کا مال اللہ کی راہ میں خرچنے سے کم نہیں ہوتا(یعنی کسی بندہ کااپنے مال کو اللہ کی راہ میںاللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے خرچ کرنابظاہر تواپنے مال کوکم کرنااورگھٹانا نظرآتاہے مگردرحقیقت اس کواس اعتبار سے کوئی نقصان اورگھاٹانہیں ہوتاکیونکہ اس کاصدقہ وخیرات کرنادنیوی طورپربھی اس کے مال واسباب میں خیروبرکت کاموجب ہے اورآخرت میں بھی حصول ثواب کاذریعہ ہے اورظاہرہے کہ یہ چیز کثرت و زیادتی کے حکم میں ہوگی نہ کہ قلت ونقصان کے حکم میں۔

 

٢۔ جس بندہ پرظلم کیاجائے اوراس کا مال ناحق لے لیاجائے اوروہ بندہ اس ظلم و زیادتی پرصبرکرے تواللہ تعالیٰ اس کی عزت کوبڑھاتے ہیں(یعنی اس کے ساتھ ظلم وزیادتی کاہونااگرچہ ظاہری طورپراس کی ذلت کے مترادف ہے،مگرحقیقت یہ ہے کہ اس ظلم وزیادتی پرصبرکرنے کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس بندہ کی عزت ومرتبہ بڑھ جاتاہے،اورجوشخص ظلم کرتاہے اس کے ظلم کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کی ذلت بڑھ جاتی ہے یایہ کہ ظلم و زیادتی کاشکارہونے والابندہ اگرچہ وقتی طورپرذلت وکمتری میں مبتلاہوجاتاہے مگرانجام کاراللہ تعالیٰ دنیامیںبھی اس کی عزت ومرتبہ کوبڑھادیتے ہیں جیساکہ ظالم اگرچہ وقتی طورپرسربلند ہوجاتاہے مگرآخرکار اپنے ظلم کی وجہ سے نہایت ذلت ورسوائی سے دوچار ہوتاہے اوردنیاوالوں کی نظرمیں بری طرح گرجاتاہے،اگرچہ وہ کتنی ہی طویل مدت کے بعد اس انجام بدکوکیوں نہ پہنچے،چنانچہ اکثر یہی ہوتاہے کہ قدرت کی کرشمہ سازی صورتحال کواس طرح بدل دیتی ہے کہ ظالم ایک نہ ایک دن اپنی سربلندی کھودیتا ہے اورکبھی زورآورہونے کی وجہ سے جس شخص پرظلم و زیادتی کیاکرتاتھا اپنے انجام کو پہنچ کراسی مظلوم کازیردست اوراس کے سامنے ذلیل وسرنگوں ہوجاتاہے۔

٣۔ جس بندہ نے اپنے نفس پرسوال کا دروازہ کھولا،اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقروافلاس کادروازہ کھول دیتاہے۔یعنی جوشخص بلاضرورت شرعی اوربلاحاجت مال ودولت جمع کرنے اورخواہشات نفس کی تکمیل کے لئے لوگوں سے مانگناشروع کردے،اللہ رب العالمین اس کو طرح طرح کے احتیاج وافلاس میں مبتلاکردیتاہے، اوراس کے پاس جوکچھ ہوتاہے اس کو بھی ختم کردیتاہے،جس کی وجہ سے وہ نہایت خرابی میںپڑجاتاہے۔

 

نوباتوں کاحکم

 

(٦٤) عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ(ﷺ) ''امرنی ربی بتسع خشیۃ اللہ فی السر والعلانیۃ وکلمۃ العدل فی الغضب والرضیٰ والقصد فی الفقر والغنیٰ وان اصل من قطعنی واعطی من حرمنی واعفو عمن ظلمنی وان یکون صمتی فکراً ونطقی ذکراً ونظری عبرۃً واٰمر بالمعروف''

(رواہ رزین)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا: ''میرے رب نے مجھے نو باتوں کاحکم دیاہے۔

١۔ ظاہر وپوشیدہ ہرحالت میں اللہ سے ڈراجائے۔

٢۔ سچ بولاجائے خواہ غصہ کی حالت ہو یا رضامندی کی۔

٣۔ فقر وغربت اورثروت ومالداری دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیارکی جائے۔

٤۔ میں اس شخص سے قرابت داری کوقائم رکھوں جومجھ سے قطع تعلق کرے۔

٥۔ میں اس شخص کوبھی اپنی عطاء وبخشش اورجودسخاوت سے نواز دوں جومجھے محروم رکھے۔

٦۔ میں انتقام لینے کی قوت وطاقت رکھنے کے باوجود اس شخص کومعاف کروں جومجھ پر ظلم وزیادتی کرے۔

٧۔ میراچپ رہنا عبادت کاذریعہ ہو۔

٨۔ میرابولنااللہ کے ذکر کوظاہر کرے۔

٩۔ میری نظر عبرت کی نظرہو۔

(رزین)

 

 

وہ چھ چیزیں جن کا قیامت سے پہلے

وقوع پذیرہوناضروری ہے

 

(٦٥) عن عوف ابن مالک رضی اللہ عنہ قال :اتیت النبی(ﷺ) فی غزوۃ تبوک وھوفی قبۃ من ادم،فقال''اعد ستابین یدی الساعۃ موتیٰ ثم فتح بیت المقدس ثم موتان یاخذ فیکم کقعاص الغنم ثم استفاضۃ المال حتی یعطی الرجل مائۃ دینارفیظل ساخطاثم فتنۃ لایبقی بیت من العرب الادخلتہ ثم ھدتۃ تکون بین وبین بنی الاصفر فیغدرون فأتونکم تحت ثمانین غایۃ تحت کل غایۃ اثناعشرالفاً''

(بخاری)

 حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں غزوہ تبوک کے دوران(ایک دن)میں نبی کریم(ﷺ)کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔اس وقت آپ علیہ السلام چمڑے کے خیمے میں تشریف فرماتھے،

 آپ علیہ السلام نے فرمایا''تم قیامت سے پہلے واقع ہونے والی چھ(٦) چیزیں(نشانیاں)شمارکرلو۔

١۔ میری موت(کہ جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں قیامت نہیں آئے گی۔)

٢۔ بیت المقدس کافتح ہونا۔(یعنی جب تک بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نہیں ہوجائے گا،قیامت قائم نہ ہوگی۔)

٣۔ عام وبا،جو تم میں بکریوں کی بیماری کی طرح پھیلے گی۔

٤۔ لوگوں کے پاس مال و دولت کااس قدر زیادہ ہونا کہ اگرایک آدمی کو سو(١٠٠)دیناربھی دیئے جائیں گے توانہیں حقیر جانے گا۔اوراس پر ناراض ہوگا۔

یعنی مال و دولت کی اس قدر ریل پیل ہوگی کہ کسی کی نظرمیں بڑی سے بڑی رقم کی بھی کوئی اہمیت نہ ہوگی۔

 چنانچہ حضور علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں پوری ہوئی،جب کہ مسلمانوں میں مال ودولت کی زبردست ریل پیل تھی۔

٥۔ آپس کی مخالفت ومخاصمت کااس طرح پھوٹ پڑناکہ عرب کاکوئی گھر نہ بچے گا،جس میں اس فتنہ کے برے اثرات نہ پہنچیں ۔(علماء نے لکھاہے کہ اس کا مصداق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کاسانحہ ئ شہادت ہے،یاہروہ فتنہ اوربرائی مراد ہے ،جس کاظہور حضور علیہ السلام کے بعد ہوا۔)

٦۔ وہ صلح جوتمہارے(مسلمانوں کے)اوررومیوں(عیسائیوںکے)کے درمیان ہوگی،پھررومی عہد شکنی کریں گے،اورتمہارے مقابلہ کے لئے اسی(٨٠)نشانوں کے تحت آئیں گے،جن میں سے ہرنشان کے ماتحت بارہ ہزارآدمی ہوں گے۔

(بخاری)

 ''قعاص''مویشیوں کی ایک بیماری کو کہتے ہیں ،جوعام طورسے مویشی کے سینے میں ہوتی ہے اوراس کوفوراً ہلاک کردیتی ہے۔آپ علیہ السلام نے یہاں جس عام وباء کی پیشین گوئی فرمائی ہے،اس سے طاعون کی وبامراد ہے جوحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں پیداہوئی اوراس کی وجہ سے صرف تین دن کے اندر سترہزار آدمی ہلاک ہوگئے تھے،یہ پہلاطاعون تھاجواسلام کے زمانہ میں پھوٹا،اوراس کے سبب اتناجانی نقصان ہوا۔

 ''بنی الاصفر''رومیوں کوکہاجاتاتھا،کیونکہ یہ لوگ جس نسل سے تعلق رکھتے تھے اس کے مورث اعلیٰ روم بن عیص بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کا رنگ زرد مائل سفیدی تھا،اوریہی جسمانی رنگت عام طورسے پوری قوم میں پائی جاتی تھی۔

 

وہ تین علامات قیامت

جن کے ظہورکے بعد خیروبھلائی کاکوئی عمل سود مندنہ ہوگا

 

(٦٦) عن ابی ہریرہ قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''ثلاث اذااخرجن لاینفع نفساایمان لم تکن اٰمنت قبل اوکسبت فی ایمانھا خیراً،طلوع الشمس من مغربھا والدجال ودابۃ الارض''(رواہ مسلم)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا: ''تین باتیں جب ظاہر ہوجائیں گی توپھرکسی ایسے شخص کاایمان لانااورکفرسے توبہ کرناکہ جس نے اس سے پہلے ایمان قبول نہیں کیا ہوگا۔کوئی فائدہ نہ دے گا اورنہ اس شخص کااپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل کرنافائدہ مندہ ہوگا،اگراس نے اس سے پہلے وہ نیک عمل نہ کیاہوگا۔اوروہ تین باتیں یہ ہیں:

١۔ آفتاب کامغرب کی طرف سے طلوع ہونا۔

٢۔ دجال کاآنا۔

٣۔ دابۃ الارض(زمینی جانور)کانکلنا۔

(مسلم)

 

وہ چار دریاجن کاسرچشمہ جنت ہے

 

(٦٧) عن ابی ہریرہ قال :قال رسول اللہ(ﷺ) ''سیحان وجیحان والفرات والنیل کل من انھار الجنۃ''

(رواہ مسلم)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا''سیحان،جیحان،فرات اورنیل ان سب دریاؤں کا تعلق جنت کی نہروں اورچشموں سے ہے''۔

(مسلم)

فرات اورنیل تومشہور دریا ہیں ،فرات عراق میں اورنیل مصرمیں ہے۔

لیکن سیحان اورجیحان کی تعیین میں اختلاف ہے،

ایک قول یہ ہے کہ سیحان شام میں ہے اورجیحان بلخ میں ہے،

 بعض حضرات کاکہنا ہے کہ سیحان مدینہ میں ہے ،تاہم علماء نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ دونوں دریاجیحون وسیحون سے الگ ہیں جو ترک اوربلخ میںہیں۔

 نیز علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دریائے جیحون خراسان کے علاقہ میں بہتاہے اورسیحون دریائے سندھ ہے۔بہرحال تحقیقی بات یہ ہے کہ ''جیحان اورسیحان شام کے دریاہیں جواس ملک کے قدیم شہرطرطوس اورمصیعہ کے قریب سے گزرتے ہیں اوربحرروم میں گرتے ہیں۔

 ''ان سب دریاؤں کاتعلق جنت کی نہروں اورچشموں سے ہے''اس کوظاہری معنی پربھی محمول کیاجاسکتاہے ،جیساکہ بخاری ومسلم کی روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مسلم میں ہے ،دریائے نیل وفرات جنت سے نکلے ہیں ،اوربخاری میں ہے کہ ان کی جڑسدرۃ المنتہیٰ ہے،

 اوراس سے تشبیہ بھی مراد لی جاسکتی ہے۔کہ آپ علیہ السلام کے اس قول سے مرادیہ تھی کہ ان دریاؤں کا پانی دیگردریاؤں کی بنسبت زیادہ لطیف وشیریں اور زیادہ ٹھنڈا وخوشگوارہے،نیز ان دریاؤں کے پانی میں اتنے زیادہ فوائد ہیں کہ جیسے گویایہ دریاجنت کی نہروں اورچشموں سے نکلے ہوں۔

 

وہ چارباتیں جن میں حضرت عمر ؓ کوفضیلت حاصل ہوئی

 

(٦٨) عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال فضل الناس عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ باربع،بذکر الاساریٰ یوم بدرٍ امر بقتلھم فانزل اللہ تعالیٰ''لولاکتب من اللہ سبق لمسکم فیمااخذتم عذاب عظیم''

 وبذکرہ الحجاب امرنساء النبی(ﷺ) ان یحتجبن فقالت لہ زینب وانک علینایاابن الخطاب والوحی ینزل فی بیوتنا فانزل اللہ تعالیٰ ''واذاسألتموھن متاعاً فاسئلوھن من ورٰیئِ حجاب''

وبدعوۃ النبی(ﷺ) ''اللھم اید الاسلام بعمر''

وبرأیہ فی ابی بکررضی اللہ عنہ کان اول ناس بایعہ''

(احمد)

 حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کودوسرے لوگوں پر چارباتوں کے سبب خصوصی فضیلت حاصل ہے۔

١۔ جنگ بدر کے قیدیوں کی بابت ان کی رائے ،ان کا کہنا یہ تھا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیاجائے،اوراللہ نے یہ آیت نازل فرمائی''لولاکتب من اللہ سبق لمسکم فیمااخذتم عذاب عظیم''

(یعنی اگراللہ کاایک نوشتہ مقدرنہ ہوچکتا(کہ خطاء اجتہادی)کامرتکب مستوجب عذاب نہ ہوگا ،یایہ کہ اہل بدرمغفور ہیں،)توجوپھر تم نے اختیار کیاہے ،اس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوتی۔

٢۔ ''پردہ کی بابت ان کا مشورہ دینا''

 انہوں نے نبی علیہ السلام کی ازواج مطہرات کوپردہ(میں رہنے)کی طرف متوجہ کیا تھا،(ان کے توجہ دلانے پر)ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ان سے کہاتھا کہ اے عمر بن خطاب پردہ میں رہنے کی بات ہم سے تم کہہ رہے ہوحالانکہ وحی ہمارے گھروں میں اترتی ہے،اتنے میں اللہ نے یہ وحی نازل فرمادی ''واذاسألتموھن متاعاً فاسئلوھن من ورٰیئِ حجاب''یعنی اورجب تم ان(ازواج النبی ﷺ)سے کوئی چیز مانگوتوپردہ کے باہر سے مانگاکرو،

٣۔ وہ دعاجوحضور علیہ السلام نے ان کے حق میں مانگی تھی،''اے اللہ !عمر کے ذریعہ اسلام کوتقویت دے۔

٤۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق میں ان کی رائے تھی۔(حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوخلیفہئ اول بنانے کی تجویز پیش کرکے بڑے نازک وقت میں تمام مسلمانوں کی بروقت رہنمائی کی اوراپنی زبردست قوت اجتہاد کے ذریعہ انہی کوخلافت اولیٰ کا اہل ومستحق جان کر)سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کی(اورپھر ان کی پیروی میں اورسب لوگوں نے بھی خلافت صدیق( رضی اللہ عنہ )پر بیعت فرمائی۔

(احمد)

 

وہ چار صحابہ جن سے قرآن سیکھنے کاحکم حضور علیہ السلام نے دیا

 

(٦٩) عن عبداللہ بن عمرو( رضی اللہ عنہ ) ان رسول اللہ(ﷺ) قال''اسقرؤ القرآن من اربعۃ من عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وسالم رضی اللہ عنہ مولیٰ ابی حذیفۃ وابیّ بن کعب ومعاذ بن جبل''

(متفق علیہ)

 حضرت عبداللہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا ''قرآن چار(٤)آدمیوں سے حاصل کرو اوران سے پڑھو۔

١۔ حضرت عبداللہ بن مسعود( رضی اللہ عنہ ) سے۔

٢۔ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سالم( رضی اللہ عنہ ) سے۔

٣۔ حضرت ابی بن کعب( رضی اللہ عنہ )سے۔

٤۔ حضرت معاذ بن جبل( رضی اللہ عنہ )سے۔

 ان چاروں حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآن پاک براہ راست سرکار دوعالم حضرت محمد(ﷺ)سے حاصل کیا تھا،جب کہ دیگر صحابہ نے دیگر حضرات سے۔

 یہ چاروں حافظ قرآن بھی تھے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بڑے قاری بھی تھے۔

 چنانچہ آنحضرت(ﷺ) نے ان چاروں کی اسی خصوصی فضیلت سے لوگوں کوآگاہ فرمایا۔

(بخاری، مسلم)

 

وہ تین صحابہ جنت جن کی مشتاق ہے

 

(٧٠) عن انس قال قال رسول اللہ(ﷺ)''ان الجنۃ تشتاق الیٰ ثلاثۃ علیّ عمار وسلمان''(رواہ الترمذی)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا ''حقیقت یہ ہے کہ جنت تین آدمیوں کی(بہت)مشتاق ہے۔

١۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔

٢۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ ۔

٣۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ۔

(ترمذی)

 اس ارشاد گرامی کااصل مطلب ان تینوں حضرات کے جنتی ہونے کوزیادہ سے زیادہ بلیغ اورزوردارانداز میں بیان کرناہے۔

 گویاآپ علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ یہ تینوں شخص ایسے جنتی ہیں کہ خود جنت بھی ان کی بہت مشتاق ہے،کہ کب یہ لوگ آتے ہیں۔

 بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل جنت یعنی ملائکہ اورحوروغلمان وغیرہ مشتاق ہیں۔

 

دنیا بس چار آدمیوں کے لئے ہے

 

 اوررہی اس حدیث کی بات جس کومیں نے تمہیں سنانے کے لئے کہاتھا تواب میں اس کو بیان کرتاہوں(دھیان سے سنو)اوراس کو یادرکھو۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا:

''اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دنیابس چارآدمیوں کے لئے ہے''

١۔ ایک تو وہ بندہ جس کو اللہ رب العالمین نے مال و زر بھی عطاکیااورعلم کی دولت سے بھی نوازا،پس وہ بندہ اپنے مال و دولت کے بارے میں اللہ سے ڈرتاہے،اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اورعزیزوں کے ساتھ حسن سلوک اوراحسان کرتاہے،اوراس مال وزر میں سے اس کے حق کے مطابق اللہ کے لئے خرچ کرتاہے،(مثلاً زکوٰۃ،صدقات،خیرات اورمالی کفارات اداکرتاہے اورضیافت وغیرہ میں خرچ کرتاہے،چنانچہ اس بندہ کا بہت بڑا اور کامل ترین مرتبہ ہے(یعنی وہ بندہ دنیا میں اچھے خصائل واحوال سے متصف قرار پاتاہے اورآخرت میں اعلیٰ مراتب کا مستحق ہے۔

٢۔ دوسراوہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم توعطاکیا(کہ جس کے ذریعہ وہ اچھی طرح جانتاہے کہ مال کو کس کام میں صرف کرنااللہ رب العالمین کی رضا و خوشنودی اورہر طرح کے اجر و ثواب کاباعث ہے،اور کس کام میں خرچ کرنااللہ رب العالمین کی ناراضگی اورہر طرح کے خسران وعذاب کاسبب ہے،)لیکن اس کو مال عنایت نہیں فرمایا،پس وہ بندہ سچی نیت رکھتاہے کہ اگرمیرے پاس مال اورروپیہ پیسہ ہوتاتومیں اس کے تئیں اچھے عمل کرتاجیساکہ وہ فلاں شخص اپنے مال و زر کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے،(یعنی جس طرح فلاں شخص کو اللہ رب العالمین نے علم صادق کے ساتھ مال ودولت سے بھی سرفراز فرمایا ہے اور وہ اس مال کورضائے الٰہی کی خاطر اچھے کاموں میں خرچ کرکے(یعنی ادائیگی زکوٰۃ،اقرباء کے ساتھ حسن سلوک اورصدقہ وخیرات کے ذریعہ دنیاوآخرت کی سرخروئی حاصل کررہا ہے،اسی طرح اگراللہ رب العالمین مجھے بھی اس علم کے ساتھ مال و دولت بھی عطاء فرماتاتو میں بھی اس شخص کی طرح اپنے مال وزر کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی سعادت حاصل کرتا)چنانچہ دونوں اشخاص کا ثواب برابر ہے(یعنی اگرپہلا شخص مالدارہونے کی وجہ سے اللہ کی راہ میں واقعتاً اپنامال خرچ کرتاہے اور یہ دوسراشخص مالدار نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتالیکن سچی نیت رکھنے کے سبب وہی اجر وثواب پاتاہے،جو پہلے شخص کوملتاہے)۔

٣۔ تیسرا بندہ وہ ہے ،جس کو اللہ رب العالمین نے مال عطاء کیا ہے،لیکن علم نہیں دیا(ایساعلم کہ جس کے ذریعہ وہ اللہ سے ڈرے اوراپنے مال کوادائیگی حقوق میں خرچ کرے)پس وہ بندہ بے علم ہونے کی وجہ سے اپنے مال کے بارے میں بہک جاتاہے(بایں طورکہ اول تولالچ و حرص اوردنیاکی محبت کی وجہ سے بخل کرتاہے،کہ کسی بھی اچھے کام اورحقوق کی ادائیگی میں خرچنے کا روادار نہیں ہوتا،اوراگر کسی فلاحی یارفاہی کام یا کسی مددواعانت میں کچھ خرچ بھی کرتاہے تومحض اپنی نام و نمود اور ثروت وبڑائی کے اظہارکے لئے )وہ(اپنی بے علمی کے سبب)اس مال و دولت کے بارے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتاہے،(یعنی آمدنی کے ایسے وسائل اور ذرائع سے اجتناب واحتیاط نہیں کرتا جوحرام وناجائز اورمشتبہ ہوتے ہیںاورنہ ایسے امور میں اپنامال خرچ کرنے میں گریز کرتاہے جوغیر شرعی اورناپسندیدہ حق ہیں،اور(علم و تربیت کی کمی)نیز جذبہ ترحم وہمدردی کے فقدان اورحریص و بخیل ہونے کی وجہ سے اپنے قرابت داروں اوراعزاء کے ساتھ مالی احسان وسلوک نہیں کرتا ہے اورنہ ان حقوق کی تعمیل کرتاہے جو اس کے مال و دولت سے متعلق ہیں۔چنانچہ یہ بندہ بدترین مرتبہ کا ہے۔

٤۔ چوتھا بندہ وہ ہے ،جس کو اللہ نے نہ تومال عطاء کیا ہے اورنہ ہی علم سے نوازاہے(ایساعلم کہ جس کے ذریعہ وہ خیروشر کے درمیان تمیز کرسکے،اوریہ پہچان کرسکے کہ میرے حق میں کون سی چیز بہتر ہے اورکو ن سی چیز بری)۔

 پس وہ بندہ کہتاہے کہ اگرمیرے پاس مال اورروپیہ پیسہ ہوتا تومیں بھی اس کو فلاں شخص کی طرح(برے کاموں میں)خرچتا،چنانچہ یہ بندہ اپنی نیت کے سبب مغضوب ہے،اور بری نیت رکھنے والا ہے۔اوراس کا گناہ اس(تیسرے )شخص کے گناہ کے برابر ہے،یعنی وہ تیسراشخص اگرچہ اپنامال برے کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوتاہے اوریہ(چوتھا)شخص مالدار نہ ہونے کی وجہ سے برے کاموں میں خرچ کرنے کا مرتکب نہیں ہوتا،لیکن چونکہ برے کاموں میں خرچ کرنے کی نیت رکھتاہے ،اس سبب سے اس کو بھی وہی گناہ ملتاہے جوبرے کاموں میں واقعتا خرچ کرنے والے کوملتاہے''۔

 

ایک نصیحت ایک آرزو

 

(٧١) عن ابی ذر رضی اللہ عنہ قال قال النبی(ﷺ) انی اریٰ ما لاترون واسمع مالاتسمعون اطت السماء وحق لھا ان تأطَّ واللذی نفسی بیدہ مافیھا موضع اصابع الاوملک واصنع جبھۃ ساجداًللہ۔واللہ لوتعلمون مااعلم اضحتکم قلیلا وبکیتم کثیرا وماتلذذتھم بالنساء علی الفرشات ولخرجتم الی الصعدات تجارون الی اللہ قال ابوذررضی اللہ عنہ یلیتنی کنت شجرۃ تعضد''

(رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ)

 حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم حضرت محمد(ﷺ)نے فرمایا ''جو کچھ میں دیکھتاہوں تم نہیں دیکھتے اورجوکچھ میں سنتاہوں تم نہیں سنتے،یعنی قیامت کی علامتیں ،قدرت کی کرشمہ سازیوں کی نشانیاں اوراللہ رب العالمین کی صفات قہریہ وجلالیہ جس طرح میرے سامنے ہیں اورمیں ان کو دیکھتاہوں ،اس طرح نہ تمہارے سامنے ہیں اورنہ تم انہیں دیکھتے ہو،نیز احوال آخرت کے اسرارواخبار ،قیامت کی ہولناکیوں اوردوزخ کے عذاب کی شدت وسختی کی باتوں کو جس طرح میں سنتاہوں ،تم نہیں سنتے ،آسمان میں سے آواز نکلتی ہے،اوراس میں سے آواز کا نکلنا بجاہے،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے ،جہاں فرشتے اللہ کے حضور اپناسرسجدہ ریزنہ کئے ہوں،اللہ کی قسم اگرتم اس چیز کوجان لوجس کو میں جانتاہوں تو یقینا تم بہت کم ہنسو اورزیادہ رونے لگو،اوربستروں پراپنی عورتوں سے لذت حاصل کرناچھوڑ دو،اوریقینا تم اللہ سے نالہ و فریاد کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل جاؤ،(جیساکہ رنج اٹھانے والوں اورغموں سے تنگ آجانے والوں کا شیوہ ہوتاہے،وہ گھروں سے نکل کرصحراصحرا جنگل جنگل گھومتے پھرتے ہیں،تاکہ زمین کابوجھ کم ہواوردل کچھ ٹھکانے لگے۔

( احمد،ترمذی،ابن ماجہ)

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے(یہ حدیث بیان کرکے ازراہ حسرت) کہا کہ کاش!میں درخت ہوتا جس کوکاٹاجاتا!

 یعنی انسان ہونے کی حیثیت سے گناہوں اوربرائیوں سے بچنا بڑامشکل ہے،شیطان ہردم پیچھے لگا رہتا ہے،نہ جانے کب اس کا داؤ چلے اورگناہ ومعصیت کاارتکاب ہوجائے،جس کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی اوراس کا عذاب مول لینا پڑے۔

 اس باعث حضرت ابوذررضی اللہ عنہ نے یہ آرزو ظاہر کی کہ کاش میں انسان نہ ہوتاتاکہ کل قیامت کے دن گناہوں کی آلودگی کے ساتھ نہ اٹھتا،

 اورجس طرح ایک درخت کوکاٹ دیاجاتاہے تووہ سرے سے مٹ جاتاہے ،اسی طرح میں بھی ہوتا کہ مجھے بھی کاٹ کرپھینک دیاجاتااورمیں آخرت میں ندامت وشرمندگی اورعذاب سے بچ جاتا۔

اسی طرح ایک اورصحابی عرض کرتے ہیں کہ کاش میں بکری ہوتا،جس کولوگ کاٹ کر کھاجاتے،۔

 ایک صحابی فرماتے ہیں کاش میں پرندہ ہوتا کہ وہ جہاں چاہتا ہے بیٹھ جاتا ہے اورجہاں چاہتا ہے چلاجاتاہے، اس پر کوئی فکراورکسی چیز کادباؤنہیں ہوتا۔

 یہ تمام وہ مقدس ترین ہستیاں ہیں جنہیں نبی علیہ السلام نے ان کی زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی،اس اعتبارسے ان کی عافیت کے بخیرہونے میں کوئی شبہ نہ تھا،جب ان مقدس ترین بزرگ ہستیوں کے احساس اورفکر آخرت کایہ حال تھاتوہم آپ کی توحیثیت ہی کیا۔

 اگرچہ مخبر صادق حضرت محمد(ﷺ) کاوعدہ ہے کہ ہرمؤمن انشاء اللہ مغفرت وبخشش سے نوازاجائے گااوراس کی عافیت بخیرہوگی،لیکن بارگاہ بے نیازی کاخوف ہی کمرتوڑے ڈالتاہے ،کسی نے کیاخوب کہا ہے۔

 

کیاکیانہ اپنے زہد واطاعت پہ ناز تھا

بس دم نکل گیاجوسنابے نیاز ہے

 

نوٹ: آخرمیں تمام پڑھنے سننے والوں کے حق میں دعاہے کہ اللہ تمام پڑھنے ، سننے والوں کو اپنی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطافرما۔(آمین)

 اورتمام پڑھنے ،سننے والوں سے التماس ہے کہ اپنی نیک دعاؤں اور تمناؤں میں ناچیز کواورناچیز کے تمام متعلقین کویادرکھیں،اورجب بھی بارگاہ الٰہی میں دست بدعاہوں توناچیز کے لئے ضرور دعاء خیر فرمائیں۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

واٰخردعونا ان الحمد للہ رب العالمین

و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ وسید نا ومولانامحمد وعلیٰ اٰلہ واصحابہ اجمعین

برحمتک یاارحم الراحمین۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post