عہد حاضر میں مختلف ممالک میں حجاب اورآزادی نسواں کی کیفیت:۔

 

 باب ہٰذا میں تحقیق نگار عہدحاضر کے حوالے سے مختلف ممالک میں حجاب اور آزادی نسواں کی کیفیت کے تناظر میں بحث پیش کرے گی۔

 

 یہ درست ہے کہ عورت ایک طویل عرصے سے مظلوم چلی آرہی تھی۔وہ اسلام سے قبل ہر قوم اور ہر خطے میں مظلوم تھی۔یونان ، مصر،روم،عراق،چین اور ہندوستان و عرب میں ہر جگہ مظلوم تھی۔ہر جگہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی۔بازاروں اور میلوں میں اس کی خرید وفروخت ہوتی تھی۔اس سے حیوانوں سے بدتر سلوک ہورہاتھا۔

 اہل عرب اس کے وجود کو باعث ننگ و عار سمجھتے تھے بلکہ بعض شقی القلب لوگ اس کو زندہ درگوربھی کرتے تھے۔یونان میں عرصے تک یہ بحث جاری رہی کہ اس کے اندر روح بھی ہے یا نہیں؟

 ہندوستان میں یہ اپنے شوہر کے ساتھ چتاپر جل کر راکھ ہوجاتی تھی۔کوئی اس کا پرسان حال نہیں تھا۔کسی کے دل میں اس کے لئے رحم کے جذبات نہیں تھے۔راہبانہ مذاہب اس کو معصیت اور گناہ کاسرچشمہ سمجھتے تھے۔اس کا وجود مجسم پاپ اور گناہ سمجھا جاتاتھا۔

 دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں وہ ذلیل و حقیر سمجھی جاتی تھی۔اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں تھی۔اس پر ظلم و ستم کی کوئی داد رسی نہیں ہوتی تھی۔وہ معاشرے میں مجبور و مقہور تھی اور اسے فریاد کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔وہ باپ کی ،پھر شوہر اور اس کے بعد اپنی اولاد کی محکوم اور تابع تھی۔

 اسلام نے عورت کو ظلم کے گرداب سے نکالا۔اس کو معاشرے میں عزت اور سربلندی عطاکی۔اس کا احترام سکھایا۔اس کے ساتھ انصاف کیا۔اس کی داد رسی کی لیکن مغرب کی جو قومیں اسلام کے سایہ رحمت میں نہ آسکیں وہ اسلام کی ان برکات اور ثمرات سے محروم رہیں ۔ان میں عورت کے حقوق برابر پامال ہوتے رہے۔اور وہ ہر قسم کا ظلم و ستم سہتی رہی۔

 موجودہ دور میں جب ان قوموں میں عورت کی آزادی اور مساوات کا تصور ابھرا تو انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ صنفی اور نوعی اختلاف کے باوجود عورت مرد سے کم تر اور فروترنہیں ہے۔وہ ہر وہ کام کرسکتی ہے جو مرد کرسکتاہے۔وہ مرد کی طرح ہر عہد ے اور منصب کی اہل ہے۔لہذا مرد کی بالادستی اس پر سے ختم ہونی چاہئے اورا س کو وہ سارے حقوق ملنے چاہئےں جو مرد کو حاصل ہیں اور وہ ہرلحاظ سے آزاد ہے۔اس پر کوئی قید نہیں۔

 عورت جوصدیوں سے مردوں کے ظلم و ستم سہہ رہی تھی۔اس کے لئے آزادی کا یہ تصور بڑادل خوش کن تھا۔اس نے فورا لپک کر اس کو قبول کیا۔جیسے فردوس گم گشتہ اسے مل گئی ہو۔یورپ کے صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) نے بھی ایک انگیخت کا کام کیا۔

 چنانچہ وہ آہستہ آہستہ معاشی،معاشرتی،سماجی ،تہذیبی اور تمدنی امورمیں مرد کے شانہ بشانہ شریک بنتی گئی۔وہ گھر کی چاردیواری سے نکل کر کارخانوں ،دفتروں ،اسکولوں اور کالجوں میں مرد کے دوش بدوش معاشی جدوجہد کررہی تھی توپارکوں ،تفریح گاہوں، کلبوں اور کھیل کے میدانوں میں مردوں کے ساتھ کھیل کود اور عیش وتفریح میں بھی برابر حصہ لے رہی تھی۔

 اب یہ ہوا کہ اس کا وجود ہر شعبہ زندگی میں ضروری قرارپایا اور اس کے بغیر ہر شعبہ حیات میں زندگی بے کیف اور بے لطیف تصور کی جانے لگی۔عورت اس کو ترقی کا نام دے کر اس کی طرف پیش رفت کرتی رہی اور اس تہذیب کے ظاہری حسن پر فریفتہ ہوگئی لیکن اس کے بطن میں جو خرابیاں پنہاں تھیں اپنی کم عقلی کی وجہ سے ان تک اس کی نظر نہ گئی۔وہ یہ جان نہ سکی کہ جس تہذیب کے زینے پر وہ چڑھ رہی ہے وہ:

چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر ہے

 عورت کی اس بے قید آزادی (Unrestricted Freedom) نے مغرب کی پوری زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دیا اور اس کے نہایت گھناؤنے اور خطرناک نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے جس سے اس کی معاشی ،معاشرتی اور سماجی زندگی میں عدم توازن پیداہوگیا۔

 محمد انور بن اختر نے اپنی کتاب ''پردہ اور جدید ریسرچ ''میں ایسے چار نتائج تحریر کئے ہےں۔

 

١۔ جنسی آوارگی

 

 سب سے پہلا خطرناک نتیجہ تو یہ برآمد ہوا کہ زندگی کے ہر گوشے میں مرد اور عورت کے بے باکانہ اور آزادنہ اختلاط نے پورے معاشرے میں جنسی آوارگی کا رجحان پیدا کردیا۔فحاشی اور بدکاری کا عام چلن ہوگیا اور عورت کی اس آزادی کے بطن سے ایسی ننگی اور بے حیا تہذیب نے جنم لیا کہ اس کی عفونت اور سڑاند سے شرم و حیا ء کا دم گھٹنے لگا اور اخلاق کا پھلتا پھولتا چمن اجڑگیا۔

 عورت جب گھر کی چار دیواری سے نکل کر مجلسوں اور محفلوں کی زینت بنی تو جنسی آوارگی اس طرح پھیلی کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔جو گندگی اور عفونت گھر کے بندکمروں میں بھی برداشت نہیں کی جاسکتی تھی وہ بازاروں اور سڑکوں پر سرعام پھیلنے لگی۔

 انتہائی قابل احترام رشتے بھی اس گندگی سے محفوظ نہ رہ سکے اور پھر جنسیات اور اخلاقی آوارگی کی ایسی ایسی داستانیں لوگوں میں پھیلنے لگیں جن کو سن کر آدمی شرم سے پانی پانی ہوجائے۔

 آرٹ او ر کلچر کے نام سے جنسی جذبات کی ترجمانی ہونے لگی۔عریاں تصاویر کھینچی جانے لگیں۔رقص و موسیقی کے نام پر عورت سے لذت حاصل کی گئی۔افسانوں،ڈراموں شاعری اور ادب کے ذریعے جنسی اعمال و کیفیات کی تشریح ہونے لگی۔اور عورت کا مقصد صرف اور صرف یہ رہ گیا کہ وہ مرد کے جنسی جذبات کی تکمیل اور تسکین کرے۔غرض یہ کہ عورت مرد کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ گئی اور اب وہ واپس گھر کی چار دیواری میں جانے کے قابل نہ رہی۔

 

٢۔ خاندانی نظام میں بگاڑ

 

 اس بے قید آزادی کا دوسرا گھناؤنا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام تلپٹ ہوکررہ گیا۔خاندانی نظام عورت کی وجہ سے قائم تھا اور وہی اس کے نظم و نسق کوسنبھال رہی تھیں لیکن جب وہ گھر سے باہر کارخانوں ،دفتروں اور دوسرے اداروں میں کام کرنے کے لئے گئی تو اس کی زندگی کی ساری تگ و دو گھر سے باہر ہونے لگی۔بیرونی مصروفیات سے اس کا گھر عدم توجہی کا شکار ہوکر برباد ہوگیا۔

 خاندان معاشرے کا بنیادی پتھرہوتاہے۔اس کی بربادی پورے سماج کی بربادی ہوتی ہے۔نتیجہ یہ ہواکہ پورامعاشرہ درہم برہم ہوکررہ گیا۔عورت اور مرد کے درمیان محبت کا رشتہ ختم ہوگیا۔والدین اور اولاد کی محبت کا رشتہ کمزور پڑگیا۔اولاد سے والدین کی محبت کا مرکز چھن گیا اور والدین نرسنگ ہاوسز (Nursing Houses) کے حوالے ہوگئے۔والدین سے بڑھاپے کا سہارا چھن گیا۔

 غرض یہ کہ وہ سارے رشتے اور تعلقات جو خاندان کی بقاء او ر مضبوطی کا باعث ہوتے ہیں ،ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے اور انسان اس سکون سے یک قلم محروم ہوگیا جو ایک خاندان ہی اسے فراہم کرسکتاہے ۔

 

٣۔ حقوق اور ذمہ داریوں میں عدم توازن

 

 تیسرانقصان اس آزادی کا یہ ہوا کہ عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں تناسب اور توازن قائم نہ رہا۔کیونکہ عورت کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے ماں بننا رکھا ہے تاکہ اس کی گود میں نسل انسانی پروان چڑھ سکے۔اس کے لئے جن جذبات واحساسات اور جن صلاحیتوں اور قوموں کی ضرورت ہے وہ بھی فطرت نے اس میں رکھی ہیں۔لیکن کارخانوں اور دفتروں کی کارکردگی نے اس کے ان جذبات اور ان صلاحیتوں کو ضائع کردیا۔

 نسل انسانی کو آگے بڑھانا کوئی ہنگامی اور وقتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک طویل اور دشوار گزار عمل ہے۔اس میں حمل ،ولادت،رضاعت اور بچے کی پرورش اور تربیت وغیرہ جیسا ایک طویل سلسلہ ہے ۔عورت کی بیرون خانہ مصروفیات کی وجہ سے اس کے پاس عمل کے لئے کوئی وقت نہ بچا،لہذا مغربی ملکوں میں اولاد کا سلسلہ کم ہوگیا اور ملکی آبادی خطرناک حد تک گرنے لگی یہاں تک کہ بعض حکومتوں کو بچے پیداکرنے کے لئے لوگوں کو ترغیب (Incentive) دیناپڑی۔

 

٤۔ محبت اور ہمدردی کا فقدان

 

 چوتھا خطرناک نتیجہ اس بے قید آزادی سے یہ برآمد ہوا کہ عورت اور مرد کے درمیان باہمی محبت اور ہمدردی کا جذبہ جو ایک فطری جذبہ تھا ،حقوق کی اس جنگ او ر مادر پدر آزدی نے اس فطری جذبے کو مجروح بلکہ نیم جان کردیا۔اس جذبے کے فقدان سے عورت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔اس لئے کہ صرف قانون اس کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔

 اسی کا نتیجہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان مساوات کا دعویٰ تو کیاجاتاہے لیکن عملا مساوات برتی نہیں جاتی۔یہی وجہ ہے کہ قانون نے اس کو جو معاشرتی اور سماجی حقوق دیئے ہیں ان سے وہ پوری طرح بہرہ یاب نہیں ہوپاتی۔ اور اب حالت یہ ہے کہ عورت برسربازار بکنے لگی ہے،اس کی عزت و آبرو بے دریغ لٹ رہی ہے۔ (١)

 اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قانونی طور پر یورپ اور امریکہ میں عورت کو بڑا تحفظ دیاگیا ہے۔چنانچہ جب بھی کبھی عورت اور مرد کا جھگڑا ہوکر مقدمہ عدالت میں جاتاہے تو عدالت مرد کی نصف جائیداد اور دوسرے کئی حقوق کی رقم کی ڈگری عورت کے نام کردیتی ہے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مرد اس فیصلے سے سخت پریشان ہوجاتاہے۔اب مردوں نے یہ صورت اختیار کی کہ بغیرنکاح کے انہوں نے عورت کے ساتھ تعلق رکھنے شروع کردیئے اور آج یورپ میں اسی فیصد مرد اور عورت بغیر قانونی نکاح کے شوہر اور بیوی بن کر اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔

 اب اگر عورت کا مرد کے ساتھ کوئی تنازعہ پیداہوجاتاہے تو قانون اس کوکوئی تحفظ نہیں دیتا کیونکہ وہ اس مرد کی داشتہ تھی قانونی بیوی نہ تھی۔

 اسلام نے عورت کو دنیا میں پہلی بار سوسائٹی میں ایک اہم درجہ دیا۔چنانچہ ایک مغربی دانشور مسز اینی بسنت (Mrs. Annie Besant) نے لکھا ہے۔

 

''ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ عورتوں کے متعلق اسلام کے قوانین ابھی حالیہ زمانے تک انگلستان میں اپنائے جارہے تھے۔یہ سب سے زیادہ منصفانہ قانون تھا جو دنیا میں پایا جاتاتھا۔جائیداد ،وراثت کے حقوق اور طلاق کے معاملات میں یہ مغرب سے کہیں آگے تھا اور عورتوں کے حقوق کا محافظ تھا۔یک زوجگی اور تعدد ازواج کے الفاظ نے لوگوں کو مسحور کردیا ہے اور وہ مغرب میں عورت کی اس ذلت پر نظر نہیں ڈالنا چاہتے جسے اس کے اولین محافظ سڑکوں پر صرف اس لئے پھینک دیتے ہیں کہ اس سے ان کا دل بھرجاتاہے ،اور پھر اس کی کوئی مددنہیں کرتا''۔(٢)

 

 یہ ایک تاریخی حقیقت تھی جو آپ کے سامنے پیش کی گئی ،مگر عرض یہ کرناہے کہ عورتوں کے متعلق حجاب کا جو خداوندی قانون ہے ،تجربات کی روشنی میں اہل یورپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی اس کے آگے سرتسلیم خم کردیاہے۔ چنانچہ فلسفہ حسی کا موسس اگسٹ کونٹ اپنی مشہور تصنیف '' فلسفہ حسی کے مطابق سیاسی نظام'' میں لکھتاہے۔

 

''جس طرح ہمارے زمانے میں عورتوں کی سوشل حالت کے متعلق خیالی گمراہیاں پیداہورہی ہیں اسی طرح نظام تمدن اور آداب معاشرت کے ہر ایک دور میں تغیر پیداہوتا رہا ہے مگر رول آف نیچر ،جو جنس محب(عورت)کومنزلی زندگی کے لئے مخصوص رکھتا ہے،اس میں کبھی کوئی اہم تغیر واقع نہیں ہوا۔یہ قانون الٰہی اس درجہ صحیح اور محقق ہے کہ اگر اس کی مخالفت میں سینکڑوں باطل خیالات قائم ہوتے رہے مگر یہ بغیر کسی نقصان یاتغیر کے سب پر غالب آتارہا۔مردوں کے مشاغل میں عورتوں کی شرکت سے جو خوفناک نتائج اور فساد پیدا ہورہے ہیں ان کا علاج یہی ہے کہ دنیا میں جنس عامل(مرد)پر جنس محب(عورت)کے جو مادی فرائض ہیں ان کی حد بندی اور تعیین کردی جائے۔

 

مرد پر واجب ہے کہ عورت کے تغذیہ کا انتظام کرے،یہی وہ قانون طبعی اور ناموس الٰہی ہے جو جنس محبت کی اصلی زندگی کو منزلی دائرے میں محدود کرتاہے،یہی وہ قاعدہ ہے جو ہیئت اجتماعی کی خوفناک اور پرہیبت اشکال کو احسن و اکمل کردیتا ہے،یہی وہ قانون ہے جو عورت کو اپنے طبعی جذبات سے ترقی نوع انسانی جیسے شریف فرض کی بجاآوری پر آمادہ کرتاہے''۔

 

علوم مادیہ کا ایک اور ماہر ژول سیمان اپنے ایک مضمون میں لکھتاہے۔

 

''عورت کو چاہئے کہ عورت رہے،ہاں بے شک عورت کو چاہئے کہ عورت رہے،اسی میں اس کے لئے فلاح ہے اور یہی وہ وصف ہے جو اس کی منزل تک پہنچا سکتاہے۔قدرت کا یہ قانون ہے اور قدرت کی یہ ہدایت ہے۔اس لئے جس قدر عورت اس سے قریب ہوگی اس کی حقیقی قدر و منزلت بڑھے گی،اور جس قدر دور ہوگی اس کے مصائب ترقی کریں گے''۔(٣)

 

 بعض فلاسفر انسانی زندگی کو پاکیزگی سے خالی سمجھتے ہیں۔مگر تحقیق نگار یہ سمجھتی ہے کہ انسان کی زندگی دلفریب ،پاک اور بے حد پاکیزہ ہے بشرط یہ کہ ہر مرد اور ہر عورت اپنے اندر مدارج سے واقف ہوجائے جو قدرت نے اس کے لئے قائم کردیئے ہیں۔اور اپنے فرائض کو اداکرے جو قدرت نے اس کے متعلق نافذ کردیئے ہیں۔

 مشہور انگریزی ناول نگار.......اگاتھا کرسٹی کہتی ہے کہ :

 

عورت بہت بے وقوف ہے کیونکہ معاشرے میں اس کا مقام دن بدن پست ہوتاجارہاہے ،ہم عورتیں نہایت احمق ہیں،کیونکہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہم نے مرد کی برابری کادرجہ حاصل کرنے اور گھر سے باہر ملازمت کرنے کا حق حاصل کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگادی،اورمرد چونکہ بے وقوف نہیں تھے،انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی اور اعلان کردیاکہ ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں کہ عورت ملازمت کرے اور گھر کے اخراجات میں مرد کا ہاتھ بٹائے۔

 

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم عورتوں نے پہلے تو یہ ثابت کیا کہ ہم کمزور اورجنس لطیف ہیں مگرپھر ہم مرد کی برابری کرنے کے لالچ میں اس محنت اور تھکن کی حصے دار بن گئی ہیں جو پہلے صرف مردوں کانصیب ہواکرتی تھی۔(٤)

 

 یہ ہیں علمائے یورپ کی وہ چند امثلہ جو اسلام کے حجابی قانون ِخداوندی کے حق میں دلائل دیتے نظرآتے ہیں وگرنہ ڈھونڈنے پر اور بھی بے شمار امثلہ دستیاب ہوسکتی ہیں جب کہ اس کے بالمقابل مغربی تہذیب کی بے وقعتی کی بابت خود ایک مغربی عالمہ ۔

 علم طبیعات کی ماہر مسز ہڈسن نے حال ہی میں اس رائے کااظہارکیاہے کہ:

 

''ہماری (مغربی)تہذیب کی عمارت کی دیواریں منہدم ہونے کوہیں ۔اس کی بنیادوں میں ضعف آگیا ہے اور اس کے شہتیر ہل رہے ہیں ۔نہ معلوم یہ ساری عمارت کب پیوند خاک ہوجائے۔

 

ہم گذشتہ کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اب لوگ نظم و ضبط کی پابندیوں کو اختیار کرنے کے لئے تیارنہیں ہیں۔اس کے بقا کی بس ایک ہی صورت باقی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول پر پابندی لگادی جائے کیونکہ اس تہذیب کے لوگوں کی تمام ترتوجہات آزاد جنسی تعلقات ،قحبہ گری ،اور عصمت فروشی ،مختصر یہ کہ جنسی خواہشوں پر مرتکز ہوکر رہ گئی ہےں۔اس سے ان کی ساری تعمیری صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں۔

 

اس معاملے میں اور بھی طرح طرح کی بے اعتدالیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔جیسے مردوں اور عورتوں کا خود اپنے ہی ہم جنسوں کی طرف مائل ہونا،انسانی صلاحیتوں کا یہ زیاں بڑا ہی تشویشناک ہے۔

 

جنسی تعلقات کی یہ نوعیت اور اس کے ان بدترین آثار اور نتائج کو دیکھ کر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتاہے کہ آیا یہ ہماری تہذیب کے ملیامیٹ ہونے کے آثار و شواہد ہیں یا اس کے اسباب؟ میری رائے یہ ہے کہ یہ آثار و شواہد بھی ہیں اور اسباب بھی''(٥)

 

 آپ نے ملاحظہ کیا مغربی تہذیب کی بے وقعتی اور زوال پذیری کی بابت خود مغربی علماء ببانگ دہل اعلانات کررہے ہیں اور اس کے بدترین آثار و نتائج اور نقصانات سے آگہی دے رہے ہیں۔

 ذیل میں تحقیق نگار عہد حاضر کے حوالے سے مختلف ممالک میں حجاب اور آزادی نسواں کی کیفیت پر تلخیصا گفتگو نظر قرطاس کررہی ہے جس سے یہ بحث بحسن و خوبی اوربدرجہ اتم مزیدواضح ہوجائے گی۔

 

امریکہ

 

 عوررت کو اپنے شوہر کی مارپیٹ اور ظلم سے آزادی دلانے والے مذہب،اسلام کی یہ خوبی اس وقت اور ابھر کر سامنے آجاتی ہے ،جب ہم غیر اسلامی معاشروں اور ان کے افراد پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان معاشروں کے مرد ،کتنی بے دردی سے اپنی بیویوں کوزدوکوب کرتے ہیں ،اور ان پر طرح طرح کی زیادتیاں کرتے ہیں،اور کبھی کبھی تو ان کے ظلم و ستم اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ بیچاری عورتیں اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔

 ١٩٨٧ئ؁ میں ،امریکا میں ہونے والے ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق ،٧٩ فیصد امریکی مرد ،عورتوں کو زدوکوب کرتے ہیں ،خاص کر اگروہ ان کی بیویاں ہوں۔

 یہ رپورٹ اس مباحثہ پر مشتمل تھی،جو ڈاکٹر جون بیر یر (ایک ماہر نفسیات )نے جنوبی کارولینا یونیورسٹی میں،اپنے چند طلبہ کے ساتھ منعقد کیاتھا۔

 اس رپورٹ کے مطابق ،وہاں کے مردوں میں اپنی بیویوں کومارنے پیٹنے کا بہت زیادہ رجحان پایاگیا خاص کر یونیورسٹی کے طلباء میں یقینا کم تعلیم یافتہ یاغیر تعلیم یافتہ طبقے میں تو یہ رجحان اور بھی زیادہ ہوگا۔(٦)

 امریکہ اور انگلستان میں اس اخلاقی انحطاط نے سب سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کی ہے۔پچھلے سال امریکہ میں ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام (U.S.A. Confidential) ہے۔اس کتا ب کے مصنفین نے امریکی زندگی کا ایسا گھناؤنا نقشہ پیش کیا ہے جس کے تصور سے بدن پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔اس کتاب کی اہمیت کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ صرف مارچ ١٩٥٢ء میں اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے ۔مغربی تہذیب کے اس گہوارے میں جو کچھ ہورہاہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

 

''اب جب کہ ہم اپنے گردو پیش پرنگاہ ڈالتے ہیں توحالات یکسربدلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔آج ہمارے ہاں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی افراط ہے اب عورتوں کو آزادای ہے اس لئے وہ ہمارا پیچھا کرنے میں بھی آزاد ہیں.......مردوں کی چشم التفات ان کے لئے ایک ایسی جنس نایاب ہے جس کے لئے انہیںسخت مقابلہ کرناپڑتاہے''۔

 

ہفت روزہ تکبیر کے مطابق:

 

 ہفت روزہ ''تکبیر''کے اعداد وشمار کے مطابق پورے امریکہ کی ٢٨ فیصد لڑکیاں ١٤ برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی درندگی کا شکار ہوجاتی ہیں۔جب کہ ١٨ برس کی عمر سے پہلے ٣٨ فیصد لڑکیاں ہوس کا نشانہ بنتی ہیں۔

 ان اعداد و شمار کا مکروہ ترین پہلو یہ ہے کہ یہ بدنصیب بچے زیادہ تر اپنے رشتے داروں کے ہاتھوں مجرمانہ حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔حملوں کے مرتکبین کی ٢٠ فیصد تعداد سوتیلے باپوں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ ١٥ فیصد چچا یا ماموں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی اولاد کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

 ساڑھے چار فیصد تعداد ایسے والدوں کی ہیں جو اپنی اولاد کی عصمت دری میںمصروف ہیں۔ڈھائی فیصد سے زیادہ افراد اپنے چھوٹے بھائی بہنوں سے بدسلوکی کے مرتکب ہورہے ہیں۔حال ہی میں ٹیکساس میں ایک شخص کو اپنی پانچ سالہ پوتی پر مجرمانہ حملہ کرتے ہوئے گرفتارکیاگیا گیاہے۔(٧)

 

ماہنامہ ''الرشید ''کے مطابق:

 

 ١٩٩٩ء میں امریکا میں تقریبا ٩لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔عصمت دری کے اکثر واقعات ریاست کیلی فورنیا میں پیش آئے۔

 ١٥ ستمبر کو سی این این نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ امریکہ میں ہر دوسری عورت پر مجرمانہ حملہ ہوتاہے۔حالت یہ ہے کہ امریکہ کے بڑے بڑے بارونق شہروں کے پارکوں میں آئے دن صبح کے وقت نوجوان لڑکیوں کی برہنہ لاشیں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔(٨)

 شکاگو کی امریکی سی آئی اے کی رپورٹ جو تیرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ اس تباہ کن آزادی اور حیوانوں کی سی ترقی وتہذیب نے امریکہ کے صرف خاندانوں ہی کے نظام کو خراب نہیں کیا بلکہ اس نے امریکہ میں ایسی تہذیب کی بنیاد ڈال دی ہے جس کا تدارک نہ پولیس سے ہوسکتاہے اور نہ عدالتوں سے۔

 امریکی اخبار''ہیرالڈ ٹریبیون ''اپنی اشاعت ٢٩/٦/١٩٧٩ء میں ان مباحث کا خلاصہ پیش کرتاہے جو امریکہ کے اسپیشلسٹوں نے اس گندی اورناپسندیدہ صورت حال کے بارے میں پیش کی ہیں جو مغربی معاشروں میں عمومی طور سے اور امریکی معاشرے میں خصوصی طورسے پھیل رہی ہے۔اور وہ بیماری محرمات یعنی بیٹی اور بہن کے ساتھ حرام کاری کا ارتکاب کرناہے۔

 محققین لکھتے ہیں کہ یہ بات کوئی انوکھی اور نادر نہیں رہی ہے بلکہ یہ صورت حال اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اس کی تصدیق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔چنانچہ وہاں ہردس خاندانوں میں سے ایک خاندان ایساضرور ہے جس میں اس بے حیائی کا ارتکاب کیاجاتاہے!!

 یہ صورت حال تو بہن بھائیوں اور دوسرے قریبی محرم رشتہ داروں میں ہے۔پھر بھلا آپ ہی بتائیے کہ اس وقت کیا صورت حال ہوگی جب نوجوان لڑکے اورنوجوان لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ تعلیمی یاکام کاج اور ملازمت کے میدان میں جمع ہوں گے اور ان میں نہ تو نسب کا رابطہ ہوگا اور نہ رشتہ داری کا تعلق ،توظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ان کا گناہ میں ملوث ہونا اور بے حیائی میں گرفتارہونازیادہ یقینی ہوگا!!(٩)

 مغربی قوموں کی حقیقی زندگی اوراختلاط مردوزن کاتجربہ کرنے کی وجہ سے وہ جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کے جو حقیقی اور سچے واقعات ہم نے پیش کئے ہیں یہ مشتے از خروارے اورسمندر سے چلوبھرنے کے مترادف ہیں ،اور یہ دراصل جنسی بے راہ روی اوراخلاقی کج روی اورانحراف کے اس سمندرکاایک قطرہ ہے جس میں تمام عالم کے معاشرے گرفتارہیں۔جو دراصل آزادی وبے پردگی اورگمراہی اورانحطاط کے دورمیں اختلاط کے عام ہونے کاایک دردناک وبھیانک نتیجہ ہے۔

 یادرہے کہ اہل مغرب اورمشرق والوں کے یہاں مرد وزن کاباہمی اختلاط بچوں کی ابتدائی تعلیم گاہوں اعدادی ،ثانوی اورکالج ویونیورسٹی تک برقرار رہتاہے۔بلکہ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ ان معاشروں کی تمام مشرقی زندگی کے ہر شعبے میں مکمل طور سے اختلاط موجو د اور عام ہے۔

 اب آپ ہی بتلائیے کہ اس وضاحت وتفصیل کے بعد کیاکوئی صاحب بصیرت عقل مند آج کل کے اختلاط کے دعویداروں کی اس بات کو صحیح تسلیم کرسکتاہے کہ مرد و زن کا باہمی اختلاط فطری جذبات کوٹھنڈا اور شہوت کی تیزی کو کم کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور ا س کی وجہ سے دونوں جنسوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا ،بیٹھنا اوراکٹھا ہوناایک مانوس و عام چیز بن جاتاہے۔

 علامہ زاہدی کوثری رحمۃ اللہ نے اپنے مقالات میں جو لطائف بیان کئے ہیں ان میں سے ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ:

 دولت عثمانیہ کاایک سفیر ایک مرتبہ انگریزوں کے ملک میں برطانوی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ایک محفل میں شریک ہوا۔تووہاں موجود لیڈروں میں سے ایک صاحب نے اس سے کہا:

 آپ لوگ اس پر کیوں مصر ہیں کہ مشرق کی مسلمان عورت ترقی کی دوڑ میں مرد سے پیچھے اور مردوں سے الگ تھلگ اورنور و روشنیوں سے محجوب رہے؟!!

 عثمانی حکومت کے مشیر نے ان صاحب سے فرمایا:

 اس لئے کہ مشرق کی ہماری عورتیں یہ پسند نہیں کرتیں کہ اپنے شوہروں کے علاوہ کسی اور سے بچے پیداکریں۔

 یہ بات سن کر وہ صاحب بہت شرمندہ ہوئے اور کوئی جواب نہ دے سکے ،بتلائیے اب اس کے بعد اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟

 شمالی امریکہ کے اسپتالوں میں خدمات انجام دینے والی نرسوں کی بڑی تعداد مریضوں اور ساتھی کارکنوں کی زیادتی کا شکار ہیں۔یونیورسٹی آف البرٹا کی جانب سے کئے گئے ایک بین الریاستی سروے میں انکشاف ہواکہ امریکہ اورکینیڈا کے اسپتالوں میں کام کرنے والی نرسیں دوطرفہ زیادتی کاسامناکررہی ہیں۔

 ایک طرف مرد مریضوں کی جانب سے انہیں غیراخلاقی حرکتوں کاسامنا ہے تو دوسری جانب ان کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی بھی انہیں اپنے حملوں کانشانہ بناتے ہیں ۔٩ ہزار سے زائد نرسوں پر کئے گئے سروے میں انکشاف ہواکہ مذکورہ تمام نرسیں اپنی گزشتہ ٥شفٹوں میں کم ازکم ایک مرتبہ ضرور زیادتی کا نشانہ بنائی گئیں۔ بالخصوص ایمرجنسی،میڈیکل،سرجیکل اور نفسیاتی امراض کے وارڈ میں کام کرنے والی نرسیں خطرے کی زد میں زیادہ رہتی ہیں۔یونیورسٹی آف البرٹا سے وابستہ کیتھرین ریکر کا کہنا ہے کہ اس سروے نے انہیں شدید حیرت وپریشانی میں مبتلاکردیاہے۔

 ''وہ مرد کہ وفا اور خلوص جن کے بس میں نہیں''نامی کتاب کی مصنفہ کیرول پوٹرین کہتی ہے کہ بیوی کے ساتھ دھوکہ اور بے وفائی کانتیجہ مکمل بربادی کی صورت میں نکلتاہے۔جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ،جوعورتیں اس صورتحال سے دوچار ہوتی ہیں ان کے چہروں سے بیچارگی،افسردگی،مایوسی اور بدبختی صاف جھلکتی محسوس کی جاسکتی ہے۔(١٠)

 

 شوہروں کی بیوفائی سے دلبرداشتہ خواتین نے ایک یونین ترتیب دی جس کا نام WATCH رکھاگیا ،جس کا مطلب تھا:

 

Women And Their Cheating Husbands

عورتیں اور ان کے بے ایمان ،دھوکہ باز شوہر

 

 یہ شکستہ دل خواتین مہینہ میں دوبار جمع ہوتیں اور ان کی میٹنگ ہوتی،جس میںیہ سب اپنے اپنے دھوکہ باز،بے ایمان شوہروں کے ساتھ اپنی پریشانیاں اور مشکلات سب کے سامنے رکھتیں ،ہر عورت اپنی کہانی دوسروں کو سناتی اور پھر سب باہم مشورے سے کوئی مناسب حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتیں۔

 اس طرح کی میٹنگز امریکہ کی متعدد اسٹیٹس میں ہونے لگیں،بعض عورتیں تو سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کرکے اجتماع کی جگہ پہنچنے کی کوشش کرتیں۔

 جب امریکی بیوی یہ پڑھتی ہے کہ دھوکہ باز شوہروں کی تعداد ٧٠ فیصد تک پہنچ گئی تو اسے یہ جان کر سخت صدمہ پہنچتاہے کہ اس کا اپناشوہر بھی ان میں سے ایک ہے۔

 ایسی صورتحال میں امریکی بیوی کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی کیونکہ اگروہ اپنے گھروالوں کواس صورتحال سے مطلع کرتی ہے توزیادہ تر یہی ہوتاہے کہ وہ لوگ اپنے داماد کوغصہ اورنفرت سے دیکھنے کے سوا اورکچھ نہیں کرسکتے،اوراگر وہ اپنے سسرال والوں کو کچھ بتاتی ہے تووہ زیادہ تراپنے بیٹے کا ساتھ دیتے ہیں،اوراگروہ اپنی دوستوں کوکچھ بتاتی ہے تووہ ازراہ ہمدردی اسے یہی مشورہ دیں گی کہ وہ جلد ازجلد طلاق لے لے۔۔مگر کیا طلاق لینے سے اس کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟

 

برطانیہ

 

 برطانیہ میں،''جوآن جونکلر''نامی ایک خاتون ،ظلم اور جسمانی تشدد کے خلاف ایک تحریک چلارہی ہیں،پچھلے بارہ سالوں کے دوران ،وہ گھروں یاسڑکوں پر تشدد کا نشانہ بننے والے ہزار ہاافراد کی مدد کرچکی ہیں،اور چندہ جمع کرکے تقریبا ٧٠ ہزار پونڈ کی خطیر رقم ان اداروں کو دے چکی ہےں،جو ایسے لوگوں کو پناہ دیتے ہیں،جوظلم وتشدد کاشکار بن کر ان کے پاس آتے ہیں اور دوبارہ گھرنہیں جانا چاہتے ،یہ ادارے ان کی مدد کرتے ہیں،اور ان کو ڈر اور خوف کے ماحول سے نکال کر ایک نئی زندگی شروع کرنے میں ان کا ساتھ دیتے ہیں۔

 ''ویک اینڈ'' نامی برطانوی جریدے کے مطابق ،جوآن خود تشدد کاایک شکار تھی۔(١١)

 یہ ادارے ابھی حال ہی میں قائم ہوئے ہیں ،ان میں سب سے پہلا ادارہ انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں ١٩٧١ء ؁ میں قائم ہوا،اس کے بعد اس قسم کے ادارے یکے بعد دیگرے پورے برطانیہ میں پھیل گئے یہاں تک کہ آج ان کی تعداد ڈیڑھ سوتک پہنچ گئی ہے۔

 اسی مسئلہ سے متعلق ایک انگریزی میگزین نے چند خواتین کا انٹرویو لیا،جس سے یہ بات سامنے آئی کہ انٹرویو میں شریک خواتین میں ١٠ فیصد خواتین ایسی ہیں جو اپنے شوہروں کے ہاتھوں بے تحاشہ مارکھاتی ہیں اور ٧٠ فیصد ان میں ایسی ہیں جو اپنی ازدواجی زندگی بھرپور ذلت اوراہانت آمیز رویہ کے ساتھ گذاررہی ہیں۔

 کانفرنس میں ایک نہایت دردناک کیس کامطالعہ کیاگیا جو ایک چالیس سالہ شخص سے متعلق تھا جواپنی بیوی کوایک بہت موٹے ڈنڈے سے مارتاتھا اور اس نے اس ڈنڈے پر یہ عبارت کندہ کررکھی تھی:

 

''جو اپنے شوہر کی اطاعت نہیںکرتی وہ سزا کی مستحق ہے''(١٢)

 

 برطانیہ میں کئے گئے ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہورہاہے۔

 ایک اور سروے میں شریک ہونے والی سات ہزار عورتوں میں سے ٤٨ فیصد کا کہنا یہ تھا کہ وہ آئے دن اپنے شوہروں اور بوائے فرینڈ کے تشدد کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔

 ایک برطانوی رپورٹ کے مطابق ٧٧فیصد مارپیٹ کے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں شوہر حضرات اپنی بیویوں کوبنا کسی معقول وجہ کے مارتے ہیں۔

 اسی رپورٹ کے مطابق ایک عورت نے بیان دیا کہ اس کی شادی کو ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں اور وہ تقریبا ہرروز اپنے شوہرکے ہاتھوں پٹتی ہے۔وہ کہتی ہے کہ اگرمیں کسی قسم کا احتجاج کرتی ہوں تووہ مجھے پھرمارتاہے،لہذا مجھے خاموشی میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔۔۔اور وہ مجھے مارنے کے لئے مختلف طریقے آزماتاہے ۔کبھی طمانچے ،توکبھی لاتیں اور گھونسے اور کبھی میراسردیوار میں دے مارتاہے۔

 اسی رپورٹ میں ایک اور عورت کا ذکر ہے جس کے شوہر نے اس کی کنپٹی پر اتنی زور سے دے مارا کہ اس کے کان کا پردہ پھٹ گیا۔

 اپنی بیوی کو مارتے وقت شوہر یہ کبھی نہیں سوچتاکہ اس کے گھونسے اور لاتیں ،بیوی کے جسم کے کن حصوں کو متاثر کررہی ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی بیوی حاملہ ہو،اور پیٹ پر پڑنے والی کوئی لات یا گھونسہ اس کی اور اس کے بچے کی زندگی خطرے میں ڈال دے ، اس قسم کے کئی واقعات حقیقتاً پیش آچکے ہیں۔

 اس طرح تشدد کے نتیجے میں کئی عورتو ںکی پسلیاں ٹوٹ چکی ہیں،بعض مرد تواتنے جنونی ہوتے ہیں کہ وہ مارپیٹ کے دوران اپنی بیوی کی گردن پکڑکر اس پر اتنادباؤ ڈالتے ہیں کہ اس کا دم گھٹ جاتا ہے،اوربعض اپنی بیوی کے جسم کو سگریٹ سے داغتے ہیں اور مزہ لیتے ہیں،کچھ لوگ اپنی بیویوں کو زنجیروں سے جکڑکرکمرے میں بند کردیتے ہیں۔(١٣)

 الحمدللہ یورپ اورامریکہ میں ایک آدھ استثنا کے علاوہ اسکارف وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی حجاب پر کوئی پابندی ہے طالبات کو اسکارف پہننے کی اجازت ہے۔خواتین بھی حجاب پہن کر بازاروں میں جاتی ہیں۔کوئی اعتراض نہیں کرتا۔

 

کینیڈا

 

 کینیڈا میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ کینیڈین ایسے ہیں،جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں ،اورملک کے اجتماعی اور ثقافتی مراکز ان واقعات کو اپنے ملک کے لئے بدنما داغ گردانتے ہیں۔

 مانٹریال میں،عورتوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کے لئے ایک خصوصی ادارہ قائم کیا گیا جس نے جلد بھڑکنے والے غصیلے مردوں کو ایک ٹیلیفون لائن مہیاکی،جس پر وہ چوبیس گھنٹوں میں جس وقت چاہےں بات کرکے اپنا غصہ اور دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں،کہ شاید اس طرح انہیں اپنی بیویوں کو مارنے سے باز رکھا جاسکے۔(١٤)

 ٹائم نامی ایک امریکی میگزین نے ایک رپورٹ شائع کی ،جس میں لکھا تھا کہ تشدد کا نشانہ بننے والی ساٹھ لاکھ خواتین میں سے تقریبا چارہزار ایسی ہوتی ہیں جو اس تشدد کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔

 ایک تحقیقاتی ادارے کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق،تقریبا چالیس فیصد قتل کے واقعات ایسے ہوتے ہیں ،جس میں بیویاں اپنے شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔

 اس تحقیقاتی ادارے نے ،ایک سروے کاذکر کیا ،جو امریکہ کے ایک مشہور ہسپتال میں پورے چارسال تک کیاجاتارہا،جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی،کہ ٢٥ فیصد خودکشی کی کوششیں ان عورتوں کی تھیں،جو اپنے شوہروں کے ہاتھوں مارکھاتی تھیں،یعنی کہ ان کو اپنے شوہروں کے ظلم و ستم سے بچنے کا بس ایک یہی راستہ نظرآتاتھا....خودکشی۔(١٥)

 

جرمنی

 

 ایک جرمنی رپورٹ کے مطابق: تقریبا ایک لاکھ عورتیں، اپنے شوہروںاور بوائے فرینڈز کی جسمانی اورنفسیاتی ،اذیت رسانی کا شکاربنتی ہیں،ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔

 اسی رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس تشدد کی بہت سی وجوہات ہیں،جس میں ،بے روزگاری،خطیر رقوم کے قرضے ،منشیات کی عادت، اور شک اور جیلسی کے جذبات شامل ہیں۔

 

فرانس

 

 فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں ،تقریبا بیس لاکھ عورتیں مارپیٹ اور تشدد کا نشانہ بنتی ہیں،جس کے بارے میں فرانسیسی پولیس کاکہنا ہے کہ یہ واقعات فرانس کے ،تقریبا ١٠ فیصد خاندانوں میں پیش آتے ہیں۔

 حقوق نسواں کے تحفظ کی علمبردار فرانسیسی خاتون میشل آندرے کا کہنا ہے کہ:یہاں پر جانوروں کے ساتھ ان عورتوں سے زیادہ اچھا برتاؤ ہوتا ہے ،کیونکہ مثال کے طور پر یہاں اگر کسی آدمی نے سڑک پر کسی کتے کی پٹائی کردی اور اسے مارا توکوئی نہ کوئی شخص ضرور اس معاملے سے متعلق ذمہ دار افسر کے پاس شکایت لے کر پہنچ جاتاہے ،جب کہ برخلاف اس کے ،اگر سڑک پر کوئی آدمی اپنی بیوی کومارتا نظرآجائے توکوئی نظراٹھاکر دیکھنے تک کی زحمت نہیں کرتا،کوئی کاروائی کرناتودور کی بات ہے۔

 فرانس پریس کو بیان دیتے ہوئے میشل کہتی ہے: یہ بات سب کو سمجھانی چاہئے کہ اس معاملے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ،بلکہ اسے عدالت تک پہنچانا چاہئے۔

 ایک فرانسیسی جریدے نے وہاں کی پولیس سے انٹرویو کرنے کے بعد ایک رپورٹ شائع کی ،جس کے مطابق ٧.٩٣ فیصد مارپیٹ اور تشدد کے واقعات جو میاں بیوی کے درمیان رونما ہوتے ہیں وہ شہروں میں ہوتے ہیں،اور پولیس کے پاس رات کے وقت آنے والے ٦٠ فیصد فون ان عورتوں کے ہوتے ہیں ،جو اپنے شوہروں کی زیادتی سے تنگ آکر ان سے مدد طلب کرتی ہیں۔(١٦)

 ادارہ حقوق نسواں کے ایک اور بیان کے مطابق ،عورتوں کو دو طرح سے اذیت کا نشانہ بنایا جاتاہے،ایک توذہنی اذیت ،جو دھمکیوں،گالیوں اورتذلیل وتحقیر کے ذریعے انہیں پہنچائی جاتی ہے،دوسری جسمانی اذیت ،جو مارپیٹ کے ذریعہ دی جاتی ہے۔

 تشدد کی شکار عورتوں کی مدد کے لئے تشکیل دی جانے والی ایک تنظیم کے بقول :

 ان کے پاس آنے والی خواتین کی عمریں پچیس اور پینتیس کے درمیان ہوتی ہیں،ان میں سے ہر ایک کے پاس کم سے کم دوبچے ہوتے ہیں تعلیم ان کی بس واجبی سی ہوتی ہے،اور وہ زیادہ تر اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں سے دوررہتی ہیں،اور ان پر ہونے والے تشدد کی جو وجوہات سامنے آئی ہیں ،وہ ہیں :

 بیماری،بے روزگاری یا منشیات کا عادی ہونا،جب کہ بہت سی عورتیں ایسی بھی ہیں،جو خوف اور بزدلی کی وجہ سے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتانا چاہتیں۔(١٧)

 ١٩ دسمبر ١٩٩٣ کے روزنامہ نوائے وقت میں دو ایک کالمی سرخی نظروں سے گزری اور پھر اس پر نظریں جم گئیں۔مین سرخی یہ تھی کہ :

 

''فرانسیسی اسکول سے چارمسلمان طالبات کو بالآخر نکال دیا گیا''

 

اور پھر دوسری سرخی یہ تھی کہ

 

''طالبات نے پڑھائی کے دوران سروں سے اسکارف اتارنے سے انکار کردیاتھا''۔

 

 خبر کی تفصیل پڑھی معلوم ہواکہ کولون کے فرانسیسی اسکول کی انتظامیہ نے چار مسلمان لڑکیوں کو ایک طویل متنازعہ بحث کے بعد اسکول سے نکال دیا۔ان بچیوں کاقصور یہ تھا کہ انہوں نے کلاس کے اندردوران تدریس سروں پر لئے ہوئے اسلامی طرز کے اسکارف اتارنے سے انکارکردیاتھا۔

 یہ مسئلہ اکتوبر کے مہینے اٹھایاگیا،اسکول کے اساتذہ نے مسلمان بچیوں کے اس رویے پر ہڑتال بھی کی،بعد میں مسلمان بچیوں کی کلاسوں میں شرکت پر پابندی لگادی گئی تاکہ انہیں اسی بات پر آمادہ کیا جاسکے کہ وہ دوران تدریس اپنے سروں سے متنازعہ اسکار ف اتاردیاکریں،تاہم مسلم طالبات اس پر آمادہ نہ ہوئیں پھر انتظامیہ نے حتمی فیصلے تک انہیں مہلت دی۔اس دوران کلاس میں ان کا داخلہ ممنوع کردیاگیا۔(١٨)

 جرمنی کی ایک نوجوان مسلم طالبہ نے اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھکے ہوئے سر اور چہرے کے ساتھ شناختی کارڈ کا مقدمہ جیت لیا ہے۔لندن میونسپلٹی کے محکمہ مردم شماری نے اس نوجوان طالبہ سے اصرار کیا تھا کہ وہ شناختی کارڈ کے لئے ایسی تصویر پیش کرے جس میں اس کا سر اور چہرہ واضح اورکھلا ہوانظرآئے۔

 جج''نے کارل ہینز کیر'' نے مقدمے کافیصلہ سناتے ہوئے اس بات کی توثیق کی کہ ایک مسلمان عورت کو اپنا سر اور چہرہ ڈھانپے رکھنے کااتناہی حق حاصل ہے جتنا عیسائی راہباؤں کو۔جج نے اس بات کوتسلیم کیا کہ مغربی جرمنی کا جمہوری آئین بھی ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کومذہبی آزادی کے حق کی ضمانت دیتاہے۔(١٩)

 

ملائیشیا

 

 ملائیشیا میں ٣٠ اپریل کو اس وقت زبردست مظاہرے شروع ہوگئے جب سٹیٹ یونیورسٹی میں اسکارف پہننے والی طالبات کو امتحان دینے کی اجازت نہ دی گئی۔سینکڑوں طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سینکڑوں کو امتحان دینے سے روک دیاگیا۔

 ٢٢ مئی ١٩٩٨ ء کو حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والے ٣٤ طلباء کو گرفتار کیاگیا تھا۔ان میں چار طالبات تھیں۔ان میں سے ایک فیلیز بیاض کو ٢٣ جولائی کورہاکردیا گیا۔مگر ترک سیکرٹ سروس نے ٢٩ جولائی کو آدھی رات کے بعد اسے اس کی ایک سہیلی سمیت گرفتار کرکے روڈ ایکسیڈنٹ میںماردیا۔

 گزشتہ سال ستمبر میں جب نیاتعلیمی سیمسٹر شروع ہوا توتمام اہم تعلیمی اداروں کی طرف سے ایک سرکلر کے ذریعے طالبات سے کہاگیا کہ تم اپناتعلیمی حق صرف اسی صورت میں استعمال کرسکتی ہوکہ تم اسکارف نہ پہنو۔

 اس مہم کے نتیجے میں تقریبا ایک لاکھ طالبات کو تعلیمی حق سے محروم کردیاگیا اس کے خلاف ١١ اکتوبر ١٩٩٨ئ؁ کو پورے ملک میں ہزاروں اسٹوڈنٹس نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مظاہرہ کیا کہ ''ہم اپنا تعلیمی حق واپس چاہتے ہیں عقیدے کا احترام کرو،سوچ کو آزاد کرو''۔(٢٠)

 

چین

 

 چین کے ایک روزنامے''لیبرز'' نے ایک سرکاری افسر کی پھانسی کی خبر شائع کی،جس پر الزام تھا کہ وہ کئی لڑکیوں کی آبروریزی کرچکاہے،اور اپنی بیوی کو سگریٹ ،کرنٹ ،سوٹیوں اور بیلٹ کے ذریعہ اذیت دیا کرتا تھا۔

 ''چان منگ''نامی ایک اخبار نے ایک خط شائع کیا ،جو ایک ڈاکٹر چای چانگیو نگ نے لکھاتھا،جس میں اس نے بتایا کہ اس کے شوہر نے کس طرح اس کے چہرہ ،معدے اور ہاتھ پیروں کو تشدد کا نشانہ بنایا،کیونکہ وہ اسے طلاق دینے پر تیار نہیں تھی،وہ اپنی خطرناک چوٹوں کے علاج کے لئے ہسپتال میں داخل ہوئی تو اس کی ساس نے اسے وہاں سے بھی نکلوانے کی کوشش کی،اتنا سب کچھ ہوا مگر اس کے شوہر کو کسی قسم کی سزا نہیں ملی۔

 ایک دوسرے واقعے میں،ایک آدمی نے لڑئی کے دوران اپنی بیوی کا ہاتھ توڑدیا توڈرکے مارے گھر میں نہیں رہی اور مسلسل کئی راتیں مرغی خانے میں چھپ کرگزاریں۔

 ''خواتین ''نامی ایک چینی میگزین کو ایک عورت نے خط لکھا،جس میں اس نے اپنے شوہر اور سسرال کی بدسلوکی کی شکایت لکھی تھی،اس کے سسرال والے اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے،اس نے لکھا کہ اس نے اپنے ساس سسر کو دس ڈالر دینے سے انکار کردیا تھا،جس پر اس کے شوہر نے اسے نہایت بے دردی سے ماراپیٹا۔

 چین میں ایسے ادارے نہیں ہیں،جو اپنے شوہروں کے ہاتھوں ستائی ہوئی عورتوں کو پناہ دیں،اسی لئے ایسی عورتیں ،کسی قریبی امدادی سینٹر یا اتحاد خواتین کی کسی بھی برانچ ،یاکبھی کبھی عدالتوں تک جاپہنچتی ہیں۔

 مگر عام طور پر، چینی عورتیں اپنے شوہروں سے بہت ڈرتی ہیں ۔۔اور انہیں کسی سے مدد طلب کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔(٢١)

 

ترکی وایران

 

 محترمہ مروہ صفاکو اکچی انتخابات میں استنبول شہر سے فضیلت پارٹی کے پلیٹ فارم سے خاتون رکن منتخب ہوئی ہیں۔ بظاہر شرمیلی مگراندر سے آہنی اعصاب کی مالک خاتون ہیں۔ جب وہ اسمبلی ہال میں حلف اٹھانے کے لئے آئیں تو حسب معمول ہیڈ اسکارف پہنے ہوئے تھیں۔سینکڑوں سیکولرسٹوں کے فلک شگاف نعروں کے شور میں وہ ایک مجاہدہ کی طرح چلتی ہوئی ہال میں داخل ہوئیں۔نعرے باز چیخ رہے تھے''باہر جاؤ'' مگر مروہ صفا کواکچی خاموشی اور وقار کے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھ گئیں۔

 مروہ صفاکواکچی حافظہ قرآن اور کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں وہ کالعدم رفاہ پارٹی کے وومن کمیشن کی سربراہ بھی تھیں۔انقرہ یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم کے مروہ پر دروازے اس لئے بند کردئیے گئے کہ وہ اسکارف پہنتی تھیں وہ اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلی گئیں اور وہاں کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

 ٣١ سالہ مروہ صفا شادی شدہ اور دو بچیوں کی ماں ہے ۔اس نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ اس کا پارلیمنٹ میں سر پر اسکارف پہننا ڈیموکریسی کاامتحان ہے۔اکیسویں صدی میں انہیں ہمیں یہ آزادی دیناہوگی۔میں نے اسکارف اپنے ایمان وعقیدے کی بنیاد پر پہناہے اور میں اپنے حق کے لئے آخری دم تک لڑوں گی۔

 چیف پراسیکیوٹر ''اورال سواس'' نے فضیلت پارٹی کو خونخوار چڑیل قراردیااورمروہ کواکچی کاکردوں کے خود کش بمبرز سے موازنہ کیا اس کا کہنا ہے کہ وہ پورے سسٹم کوختم کرناچاہتی ہےں۔

 حجاب پر پابندی کے باوجود ٧٥ فیصد خواتین حجاب پہنتی ہیں اسکارف کے مسئلے پر اندرون ملک اور بیرون ملک زبردست احتجاج ہواہے ۔ ایران میں سینکڑوں خواتین نے احتجاج کیا ایرانی خواتین مروہ صفا کی تصاویر اٹھائے ہوئے تھیں اور پوسٹروں پر ترکی کی فوج کے اسکارف مخالف رویئے کی مذمت کی گئی تھی۔

 ایران کے ہیومن رائٹس کمیشن نے ترک عوام کے مذہبی عقائد پر حملہ کرنے پر معافی مانگنے کامطالبہ کیا۔اردن اورمراکش میں بھی خواتین نے اسکارف پہننے والی ترک خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جلوس نکالے۔

 اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی خواتین نے بھی دس مئی کو Manhattan کے قونصلیٹ کے سامنے مظاہرہ کیا۔ خواتین نے مختلف سلوگنز والے پلے کارڈ اٹھارکھے تھے اور نعرے لگارہی تھیں''ترک حکومت شرم کرے ہم مروہ کواکچی کی حمایت کرتی ہیں، ترکی میں خواتین اور مردوں کوآزادی دیں، اے ترک مسلمانو! ظالم حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو''وغیرہ وغیرہ''۔

مظاہرین نے ترک قونصلیٹ جنرل کو یادداشت پیش کرنا چاہی تو اس نے وصول کرنے سے انکار کردیا۔ترک سیکولر قوتیں جنہیں یورپ کی ہر اداپسند ہے اسکارف کے مسئلے پر ان کا رویہ یورپ کے برعکس ہے۔

 یورپ وامریکہ میں ایک آدھ استثنیٰ کے علاوہ سکارف کا کوئی مسئلہ نہیں طالبات کو اسکارف پہننے کی اجازت ہے۔خواتین بھی حجاب پہن کر بازاروں میں جاتی ہیں کسی کو اعتراض نہیں۔فرانس اور جرمنی میں ایک آدھ تعلیمی ادارے اور دفترمیں حجاب کا مسئلہ پیداہواتووہاں کی عدالتوں نے اسے مسلمان خواتین کا بنیادی حق تسلیم کیا مگر ترک جرنیل اس حق کو تسلیم کرنے کو تیارنظرنہ آئے۔

 فضیلت پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین عبداللہ گل نے اسکارف کے خلاف مہم کو کردارکشی کی بے رحم مہم قرار دیا۔

 مروہ کواکچی نے بتایا ہے کہ اسے دن رات مسلسل فون آرہے ہیں اور عوام اسکارف کی حمایت کررہے ہیں۔

 یہ ہے عہد حاضر کے حوالے سے ترکی و ایران میں حجاب و آزادی نسواں کی کیفیت جو کہ آپ نے مندرجہ بالا سطور میں ملاحظہ کی۔آئندہ سطورمیں تحقیق نگار ہندوستان وپاکستان کے حوالے سے حجاب و آزادی نسواں کی کیفیت رقم کرے گی۔

 

ہندوستان

 

 ہندوستان کے حوالے سے تفصیلی بحث تحقیق نگار اپنے مقالہ ہٰذا کے باب اول میں رقم کرچکی ہے اس لئے اس مقام پر اختصاراً ذکر ہے کہ جب ہم ہندوستانی قدیم معاشرے پر گفتگوکریں تو ہمیں ملے گا کہ ''تشریعات مانو''میں ہے کہ '' عورت ہی 'عار کی جائے صدور ہے' جھاد میں تکلیف کی جائے صدور بھی عورت ہے''۔دنیاوی وجود کی وجہ بھی عورت ہے۔اس لئے عورت سے ہمیشہ ہوشیار رہو،اس لئے کہ عورت زندگی کے راستے سے محض کسی احمق ہی کو گمراہ نہیں کرتی بلکہ وہ دانا شخص کو بھی گمراہ کرنے پر قادر ہے۔(٢٢)

 ان کی مقدس کتابوں میں ہے کہ جب عورت کو پیداکیاگیا تو ان پر بستر،بیٹھک ،بناؤ سنگھار،خواہشات،برائی،غصہ،عزت سے بیگانگی اور برے سلوک کی محبت ان میں ڈال دی گئی اور فرض کردی گئی۔اس لئے عورتیں اپنے نفس کی طرح گندی ہیں اور یہ ثابت اصول ہے کہ عورت کی یہ طبیعت ہے کہ وہ دنیاوی زندگی میں مرد کو گمراہ کرتی ہے اس لئے حکماء عورتوں سے مل بیٹھنے کو درست نہیں سمجھتے سوائے یہ کہ وہ انتہائی شریف پاکدامن ہویا شدید حفاظت کے ساتھ بیٹھے اور عورت ہمیشہ نیک نہیں رہتی۔(٢٣)

 ''قصۃ الحضارۃ'' نامی کتاب میں لکھا ہے کہ قدیم ہندوتہذیب میں بیٹی اپنے باپ کی ملکیت ہوتی تھی اور وہ اس سے من چاہا تصرف کرنے میں آزاد تھا' جب عورت کی شادی ہوجاتی تو وہ اپنے شوہر کی زندگی میں اس کی غلام بنی رہتی ' جب شوہر بے اولاد مرجاتاتویہ اپنے شوہر کے رشتہ داروں کی ملکیت ہوجاتی تھی۔(٢٤)

 ''قصۃ الحضارۃ'' میں لکھا ہے کہ جب عورت کی شادی ہوجاتی تو اس پر لازم تھاکہ وہ شوہر کی خدمت کے لئے ہروقت تیار رہے'اس بارے میں مانولکھتاہے کہ:

 وفادار بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اس طرح خدمت کرے جیسے وہ کوئی خدا ہے اور تکلیف دہ بات یا کام نہ کرے اور شوہر جیسابھی ہو حتی کہ اچھی باتوں سے بالکل خالی ہو۔

 یعنی ہندوستانی عورت ایسی بیوی ہوتی ہے جسے اپنے اموال ،اپنی املاک وغیرہ میں کسی قسم کے تصرف کا حق حاصل نہیں،بلکہ وہ خود اور اس کی تمام اشیاء اس کے شوہر کے تصرف میں ہوتی ہیں۔

 اس سے بھی عجیب بات لکھتے ہوئے مصنف ''قصۃ الحضارۃ'' لکھتے ہیں کہ جب ہندوستانی عورت کا شوہرمرجاتاہے تو اس کی زندگی اور حال اور بھی برا ہوجاتاہے کیونکہ اسے اپنے شوہر کے ساتھ جل کرمرجانے (ستی ہونے)کاحکم دیاجاتاہے یہ مضمون ان کی دینی کتاب میں اس طرح سے ملتاہے کہ:

 

بیوہ ہونے والی عورت کے لئے اچھا یہ ہے کہ وہ اس ایندھن پرخود کوڈال دے جو اس کے شوہر کی چتا(میت)جلانے کے لئے رکھاگیا ہے جب لوگ اس کے شوہر کی میت کولکڑیوں کے ڈھیر پر رکھ دیں تو یہ کپڑوں (چادر برقع وغیرہ)میں لپٹی آئے گی اور پنڈت اس کا برقع اتارے گا،اس کے زیور سنگھار کی چیزیں اتار کر اس کے رشتہ داروں کے حوالے کردے گا پھر چٹیا کھولے گا۔پھربڑاپنڈت آکر اس کا دایاں ہاتھ پکڑکر اسے ایندھن کے گرد تین چکرلگوائے گا پھراسے ایندھن کے ڈھیرپرڈال دے گا پھر یہ عورت اپنے شوہر کے پاؤں اپن ٹھوڑی تک اٹھائے گی یہ اس کی شوہر کے لئے تابعداری کااشارہ ہے ۔پھر یہ گھوم کر شوہر کے سرہانے بیٹھ جائے گی اور اپنادایاں ہاتھ اس پر رکھ دے گی اور پھر لوگ آگ بھڑکادیں گے اور اسے شوہر کے ساتھ جلادیں گے۔(٢٥)

 

 ستی ہوجانے والی عورت کی بابت وہ یہ گمان کرتے تھے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نعمتوں کی جگہ پہنچ گئی،پھر وہ اس کے ساتھ آسمان میں پینتیس سال رہے گی یہ عدد جسم میں موجود بالوں کا ہے۔

 ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس عورت کے جلنے سے اس کی ماں کا خاندان ،باپ کا خاندان اور شوہر کا خاندان بخش دیاجاتاہے اسی طرح اس کا شوہر سارے گناہوں سے پاک ہوجاتاہے چاہے اس نے اپنے دوست،بھائی یاکسی برہمن اور پنڈت کو قتل کیاہو۔جلنے والی عورت سب عورتوں سے زیادہ پاک اور معزز نام والی سمجھی جاتی ہے اور اس کی اچھی شہرت ہوتی ہے۔ان لوگوں میں یہ عادت بڑی مشہور ہے اور موجودہ ادوار تک بھی یہ عادت چلی آرہی ہے۔١٨١٥ئ؁ سے لیکر ١٨٢٥ئ؁ تک دس سال میں انہوں نے چھ ہزار عورتوں کو اس طرح ستی کردیاتھا۔(٢٦)

 اس کے علاوہ بیسویں صدی کے اواخر میں بھی دوبارہ ''ستی کی تحریک ''چلائی گئی اور چند عورتوں کو زبردستی ستی ہونے پر مجبور کیاگیا جس کی عام لوگوں نے بڑی مذمت کی تھی مگر مذہبی جنونی ہندؤوں کی تنظیموں نے اسے اپنامذہبی حق قرار دیا۔(مترجم)

 

 عمررضاکحالہ لکھتے ہیں کہ شوہر کے انتقال کے بعد عورت کا یہ حال ہوتا ہے کہ:

 

بیوہ عورت وہاں ہمیشہ کے لئے نفرت آمیز اور دھتکاری ہوئی بن جاتی ہے لوگ اس کی طرف نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کی ذلت ورسوائی کا یہ عالم ہوتاہے کہ اسے دن بھر میں معمولی ساکھانا دیتے ہیں(روٹی کاایک ٹکڑا)وہ نئی قمیص نہیں پہن سکتی ،چٹائی پر سوتی ہے،سارے مشکل اور بڑے کام اس کے ذمے تھوپ دیئے جاتے ہیں اور کبھی مبالغہ کے طور پر اسے گنجاکردیاجاتا ہے تاکہ بیوہ ہونے کی نشانی رہے۔(٢٧)

 

 ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان بیواؤں میں پندرہ ہزار کے قریب معصوم بچیاں اور چار لاکھ کے قریب نوجوان لڑکیاں ہیںجن کی عمریں پندرہ سال سے زائد نہیں۔(٢٨)

 اس کے باوجود ہندوستان میں بھی الحمدللہ حجاب پر کچھ مسائل نہیں ہیں۔خواتین اپنی مرضی کے مطابق حجاب استعمال کرتی ہیں۔ان پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔نہ مذہبی طورپر اور نہ قانونی طورپر۔بلکہ خود ہندومذہب بھی حجاب کا داعی اور رائج کنندہ ہے ۔اس بابت تفصیلی بحث تحقیق نگار کے مقالہ ہٰذا ہی کے باب اول میں ملاحظہ کریں۔

 

پاکستان

 

 پاکستان میں کوئی ایساقانون موجودنہیں جوعورتوں کے باہر آنے جانے پر پابندی لگاتاہو۔شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے یا دوسرے ممالک میں نوکری کرنے پر عورتوں کے لئے کوئی پابندی نہیں۔پاکستان کے آئین کے بنیادی حقوق کے تحت پاکستانی عورتوں اور مردوں کو نقل وحرکت کی مکمل آزادی ہے۔عوامی جگہوں پر بلاروک ٹوک جانے کی آزادی ہے۔(٢٩)کاروبارتجارت اور ملازمت کرنے کے لئے آزادی ہے۔

 

رسم ورواج

 

 اگرچہ رسم ورواج کے تحت پاکستانی عورت کو نقل وحرکت کی آزادی ہے اور پنجاب، سندھ،سرحد اور بلوچستان کی عورتیں کسی نگران کے ساتھ سفر بھی کرسکتیں ہیں تاہم دیر،سوات اور کچھ پٹھان گھرانوں میں عورتوں کی آمدورفت پر پابندی ہے۔ کوہاٹ،بنوںمردان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آمدورفت پر عورتوں پر کوئی پابندی نہیں۔(٣٠) لیکن انہیں رسمی پردہ کی پابندی کرناپڑتی ہے۔عموما شٹل کاک والا برقعہ اڑھایا جاتاہے جس کی وجہ سے عورتیں بازاروں اور رش میں آسانی سے نہیں چل سکتیں۔

 سندھ (٣١)میں بہت سے خاندانوں میں قریب ترین رشتہ دارسے بھی عورت کو پردہ کرایاجاتاہے ۔سماجی تقریبوں میں مرد اور عورتیں الگ الگ بیٹھتے اور کھاناکھاتے ہیں ۔

 

قبائلی سربراہ اور عورت:

 

 قبائلی خان،بلوچی سردار اور سندھی وڈیروں کی عورتوں(٣٢)پر سخت ترین پابندیاں عائد ہوتی ہیں ۔ان کی آمدورفت آزادانہ ماحول میں نہیں ہوتی۔

 پاکستان میں مخلوط ذریعہ تعلیم کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں عورتوں کے کام کرنے پر کوئی کوئی پابندی نہیں رسم ورواج کے تحت بھی عورتوں کے کام کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن کوئی بھی عورت اپنے شوہر ،باپ یا بھائی کی اجازت اور ان کی مرضی کے بغیر کہیں ملازمت نہیں کرسکتی۔عورت کی ملازمت یامزدوری سے جو آمدنی ہوتی ہے اس پر مرد حضرات اپنا حق سمجھتے ہیںاور عورتوں کی کمائی ہوئی تمام دولت پرمرد قبضہ کرلیتے ہیں اس طرح دیہاتی عورت استحصال کا شکارہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف پنجاب میں ٢٤٥٥ اینٹوں کے بھٹوں پر٤٥ فیصد عورتیں کام کرتیں ہیں۔(٣٣)

 دیہاتوں میں جہاں ٨٠ فیصد لوگ آباد ہیں وہاں کھیتی باڑی پر ٨٣ فیصد عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔پتھرکی کانوں میں مردوں کے مقابلے میں ١٦ فیصد عورتیں مزدوری کرتیں ہیں۔

 

رسمی پردہ:

 

 پاکستان کے جن گھرانوں میں خوشحالی ہے وہاں عورت کو رسمی پردے کا پابند بناکررکھاجاتاہے اورجہاں غربت ہے وہاں رسمی پردے کی قید ختم کرکے اسے کمائی کا ذریعہ بنادیاجاتاہے۔ان دونوں حالتوں میں مرد حضرات عورت کا استحصال کرتے ہیں۔

 

تحریک پاکستان اور پردہ:

 

 تحریک پاکستان کے حوالے سے جن خواتین نے حصول آزادی کے لئے جدجہد کی ان کے اسمائے گرامی ہیں۔(٣٤)

 

''بی اماں،بیگم محمد علی جوہر،محترمہ فاطمہ جناح،بیگم جہاں آراء شاہنواز،لیڈی نصرت عبداللہ ہارون،بیگم رعنا لیاقت علی خان،بیگم اقبال حسین ملک،انجم آراء بیگم،راحیل خاتون شیروانی،بیگم قیصرہ انور علی،بیگم محمد وسیم،حسن آراء بیگم،بیگم نواب اسماعیل،بیگم خورشید عبدالحفیظ، بیگم عفت الہی علوی،بیگم زاہد قریشی،لیڈی ہدایت اللہ،بیگم رضاء اللہ ،ذکیہ بیگم نقوی، بیگم پاشا صوفی،اور نورالصباح بیگم وغیرہ مشہورہیں''۔

 

 یہ تمام خواتین ہم سب کے لئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے واجب الاحترام ہیں۔یہ سب عورتیں کھلے چہرے اور کھلے ہاتھوں کے ساتھ عام جلسوں میں جاتیں تھیں،تقریریں کرتی تھیں اور سیاسی معاملات میں مردوں سے ملاقاتیں بھی کرتیں تھیں،محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن میں حصہ لیا توتمام اسلامی جماعتوں نے ان کاساتھ دیا۔محترمہ عام لباس میں ہوتی تھیں اور کسی بھی عالم نے آپ پر بے پردہ ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا۔

 

پردہ کے بارے میں ایک تجزیہ:

 

 مندرجہ بالا سطور میں آپ نے عہد حاضر کے حوالے سے حجاب اور آزادی نسواںکی کیفیت پربحث ملاحظہ کی جس میں تحقیق نگار نے عہد حاضر کے مختلف ممالک کے معاشروں میں حجاب کے حوالے سے تحقیق پیش کی ہے۔امید ہے کہ بحسن وخوبی یہ بحث واضح اور مترشح ہوچکی ہوگی۔

 اسلام بحیثیت فطری اور اعتدال پسند دین ہونے کی وجہ سے غیر فطری اصولوں کی طرف داری یا پاسداری نہیں کرتا۔اسلام عورتوں کوفرنگی تہذیب کے شتر بے مہار کی طرح چھوڑدیتا ہے اور نہ ہی ان کو کسی چار دیواری میں اس طرح قید کرنا چاہتاہے کہ وہ معاشرے کا ایک بیکار عنصر بن جائیں۔

 امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک حدیث میں بیان ہے کہ

 

'' جن باتوں کا خدانے تمہیں حکم دیا ہے انہیں بجالاؤ اور خواہ مخواہ اپنی طرف سے تشدد و سختی پیدانہ کرو''۔ (٣٥)

 

 دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں ان میں مفسر ،محدث،مجتہد اور عالم دین بھی موجود ہیں لیکن ہر جگہ پردہ کی وہ تشریح نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس طرح کا عمل درآمد ہوتاہے جس طرح کاپاکستانی علمائے کرام پاکستانی خواتین کے لئے تجویز کرتے ہیں۔ایک ہی قرآن اور ایک ہی حدیث پر عمل کرنے والے اتنے مختلف کیوں ہیں۔مولاناسلیمان ندوی اپنے سفرنامہ افغانستان میں لکھتے ہیں کہ:

 

''درہ خیبر کے شروع سے لے کر یہاں تک دیہاتی پٹھان خواتین سرسے پاؤں تک سیاہ کپڑوں میں مستورکھلے منہ بڑی آزادی سے آجارہی تھیں۔بدن پر گھٹنوں تک سیاہ کرتے ،بڑے گھیر کی عموما سیاہ شلواریں،سر سے پاؤں تک سیاہ چادریں،ہر قسم کے زیور اور ظاہری آرائش سے تما م تر پاک،ان کو دیکھ کر خیال ہوتا تھا کہ شاید اصل سادہ اسلامی پردہ یہی ہوگا''۔(٣٦)

 

 

 

 

 

 

باب ششم

 

مصادر ومراجع

 

(١) محمد انور بن اختر، پردہ اور جدید ریسرچ، ادارہ اشاعت اسلام،٢٠٠٧،ص ٢٦٨ تا ٢٧٠

(٢) Annie Besant. The Life and Teaching of Mohammad, Madras, 1932, p3.

(٣) محمد انور بن اختر، پردہ اور جدید ریسرچ، ادارہ اشاعت اسلام،٢٠٠٧،ص ٢٦٨ تا ٢٧٠

(٤) (النور ،کویتی میگزین ،شمارہ نمبر ٥٦)

(٥) انسانیت کی تعمیر نو اور اسلام ،ص٥٢،٥٣)

(٦) ''القبس '' جریدہ،١٥/٢/١٩٨٨ئ

(٧) ہفت روزہ تکبیر،٧ ستمبر ١٩٨٤ئ

(٨) ماہنامہ الرشید،لاہور،دسمبر١٩٩١ئ

(٩) ''ہیرالڈ ٹریبیون '' ٢٩/٦/١٩٧٩ئ

(١٠) الرای العام، جریدہ،شمارہ نمبر٨٩٢٥

(١١) الوطن ،جریدہ،شمارہ نمبر ٤٧١٨

(١٢) الرای العام، جریدہ،شمارہ نمبر٧٤،١٩٧٨ئ

(١٣) انڈین میگزین ،٢٩ صفر ،١٤١٠ھ

(١٤) عبدالرشید العوید،مترجم،اہلیہ دانش کمال،آزادی نسواں دھوکہ یا حقیقت، دارالاشاعت،٢٠٠٠ء ،ص ٥٥

(١٥) عبدالرشید العوید،مترجم،اہلیہ دانش کمال،آزادی نسواں دھوکہ یا حقیقت، دارالاشاعت،٢٠٠٠ء ،ص ٥٦

(١٦) عبدالرشید العوید،مترجم،اہلیہ دانش کمال،آزادی نسواں دھوکہ یا حقیقت، دارالاشاعت،٢٠٠٠ء ،ص ٤٥

(١٧) فرانسیسی نیوز ایجنسی، بحوالہ،آزادی نسواں دھوکہ یا حقیقت، دارالاشاعت،٢٠٠٠ء ،ص ٤٦

(١٨) روزنامہ نوائے وقت،١٩ دسمبر ١٩٩٣ئ؁

(١٩) محمد انور بن اختر، پردہ اور جدید ریسرچ، ادارہ اشاعت اسلام،٢٠٠٧،ص ٣٢١

(٢٠) محمد انور بن اختر، پردہ اور جدید ریسرچ، ادارہ اشاعت اسلام،٢٠٠٧،ص ٣١٩

(٢١) الوطن ، جریدہ،شمارہ نمبر ٣٨٢٣

(٢٢) دورانت ول۔م۔س۔(ص١٧٨)

(٢٣) رای ستاتشی،م۔س۔ (ص٣٩٤)

(٢٤) دیورانت ول۔قصۃ الحضارۃ،ج٣، م١،ص ١٧٧

(٢٥) عبداللہ مرعی،مترجم،مفتی ثناء اللہ محمود،اسلام اور دیگر مذاہب و معاشروں میں عورت کے حقوق ومسائل، دار الاشاعت، ٢٠٠١، ص ٣٥

(٢٦) قصۃ الحضارۃ ول دیورانت،(حصہ٣/٧٠١)

(٢٧) المرأۃ فی القدیم والحدیث(ص١٣٨)

(٢٨) المرأۃ فی القدیم والحدیث،عمررضاکحالہ(ص١٣٨)

(٢٩) آئین پاکستان ،آرٹیکل نمبر ١٥م٢٦،١٨

 

(٣٠) شرکت گاہ،عورت،قانون اور معاشرہ،بحوالہ محبت حسین اعوان،اسلام ،قانون اور پاکستانی مظلوم عورت، مکتبہ بخاری،سنہ ٢٠٠٢ئ،ص٩٦

(٣١) ایضا

(٣٢) ایضا

(٣٣) مجھ پر سنگ نہ اٹھاؤ،ترجمہ ،طاہرہ حبیب،س۔م۔ن۔

(٣٤) نورالصباح بیگم،تحریک پاکستان اور خواتین

(٣٥) بخاری شریف،بحوالہ اسلام اور مظلوم پاکستانی عورت،ص ٩٨

(٣٦) سفرنامہ افغانستان،مولانا،سید سلیمان ندوی،س۔م۔ن۔

 

 

 بیسویں صدی عیسوی کے مسلمان دانشور،حجاب اور آزادی نسواں :۔

 

 باب ہذا میں تحقیق نگار بیسویں صدی عیسوی کے حوالے سے ان مسلمان دانشوروں کے اقوال اور افکار و آراء ضبط تحریر میں لائے گی جنہوں نے پردے کے حوالے سے باقاعدہ طورپر کتب تحریر کی ہیں یا اپنی آراء کا اظہار کیا ہے تاکہ ہمیں مسلمان دانشوروں کے حوالے سے بھی پردہ کی بابت مکمل اور تشفی آمیز تفصیلات دستیاب ہوجائیں اور یہ بھی معلوم ہوسکے کہ بیسوی صدی کے مسلمان دانشور پردہ کی بابت کیا تفصیلات بیان کرتے ہیں اور انکے نظریہ کے مطابق حجاب آزادی نسواں کو مجروح کرتاہے۔یا نہیں؟اس کے ساتھ ہی تحقیق نگار باب ہذا میں یورپ کے حوالے سے پردے پر کئے جانے والے اعتراضات کا ایک تحقیقی جائزہ بھی پیش کرے گی جس میں مسلمان دانشوروں کے حوالے سے ان اعتراضات کے دیئے جانے والے جواب اور تفصیلات بھی شامل ہوں گی۔

باب ہذا میں تحریر کردہ ابحاث کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی کہ!

اولاً مسلمان دانشوروں کے اقوال ،ان کے افکار اور آراء ضبط تحریر میں لائی جائیں گی تاکہ پردہ کی بابت بیان کردہ تفصیلات کی روشنی میں مسلمان دانشوروں کے نظریہ کے مطابق حجاب کی تمام تر تفصیلات سے آگہی ہوسکے۔بعدہ یورپ کی جانب سے پردہ پر کئے جانے والے اعتراضات کا ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جائے گا جس میں انہی مسلمان دانشوروں کے حوالے سے دیئے جانے والے جوابات اور تحقیقی تفصیلات شامل ہوں گی۔

 

 

 

مسلمان دانشور ان کے اقوال اور افکار و آرائ:۔

 

 عباس محمود العقاد اپنی کتاب''المرأۃ فی القرآن ''میں حجاب اور آزادی نسواں کے حوالے سے چھٹی فصل ''الحجاب'' میں جو تفصیلات تحریر کرتے ہیں اس کی رو سے معلوم ہوتاہے کہ مذکورہ دانشور حجاب کے حوالے سے ایک واضح نظریہ رکھتے ہیں:

 عباس محمود العقاد حجاب کو اسلامی پیش کردہ نظام ماننے سے انکار کرتے ہوئے اس فکر کو مغربی وہم سے تعبیر کرتے ہیں جسے دور کرنے کے لئے زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں۔فقط چند ابتدائی ادوار کی کتب دینیہ مثلا عہد قدیم کی کتب اور اناجیل وغیرہ کا سرسری مطالعہ ہی کافی ثابت ہوسکتاہے ۔جس سے بخوبی واضح ہوجائے گا کہ عورت کا پردہ اسلام کی ایجاد نہیں ہے بلکہ یہ توابراہیم ؑ کے زمانہ سے عبرانیوں میں معروف چلاآرہاہے جو کہ ایک تسلسل کے ساتھ مابعد مسیح کے زمانہ تک چلاآتارہاہے مثلاً سفر تکوین کے باب چوبیس(٢٤) اور اڑتیس(٣٨)میں ''رفقہ'' اور ''تامار'' کا واقعہ ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔اشعار سلیمان اور سفر اشعیاکا باب تین ملاحظہ کیاجاسکتاہے ،اسی طرح کورنشوس اول کو پولس رسول کا لکھا ہواخط بھی اسی بابت گواہی دیتانظرآتاہے۔کہ حجاب اور اس کے قوانین اسلام کی اختراع نہیں ہیں بلکہ قبل از اسلام سے چلے آرہے ہیں جن کی تصحیح و تنقیح البتہ ضرور اسلام نے کی ہے جس میں کچھ احکامات مرد پر لگائے گئے ہیں اور کچھ احکامات کی پابندی عورت کے لئے لازمی قراردی گئی ہے جن کی پابندی سے مرد وعورت دونوں کو ایک خوشگوار ماحول نصیب ہوتاہے ،اسلامی حجاب کا مفہوم نہایت درجہ واضح ہے کہ اس سے عورت کو چھپانا یا گھر میں قید کرنا ہی مقصود نہیں ہے کیونکہ اس سے ''غض بصر''کا مقصود فوت ہوتاہے جب کہ اسلام سب سے قبل اس کا مقتضی ہوتاہے البتہ اسلام تبرج سے مانع ہوتاہے جو کہ زمانہ جاہلیت کی یاد گار ہے،اسلام اپنی بیان کردہ تفصیلات اور حدود کے اندر رہتے ہوئے مرد اور عورت کو مکمل آزادی دیتاہے ۔(١)

 

 

 

 

 

'' من الاوھام الشائعۃ بین الغربیین أن حجاب النساء نظام وضعہ الاسلام ،فلم یکن لہ وجود فی الجزیرۃ العربیۃ ولافی غیرھا قبل الدعوۃ المحمدیۃ ،وکادت کلمۃ المرأۃ الحجبۃ عندھم ان تکون مرادفۃ للمرأۃ المسلمۃ ،أو المرأۃ الترکیۃ التی حسبوھا زمنا مثالا لنساء الاسلام،لأنہم رأوھا فی دار الخلافۃ۔

 

وھذا وھم من الاوھام الکثیرۃ التی تشاع عن الاسلام خاصۃ بین الاجانب عنہ، تدل علی السہولۃ التی یتقبلون بہا الاشاعات عنہ،مع ان العم ببطلانہا لایکلفہم طول البحث والمراجعۃ ،ولایتطلب منہم شیأا اکثر من قراء ۃ الکتب الدینیۃ التی یتداولونہا وأولھا کتب العہد القدیم وکتب الأناجیل۔

 

فمن یقرأ ھذہ الکتب یعلم بغیر عناء کبیر فی البحث ۔ان حجاب المرأۃ کان معروفا بین العبرانین من عہد ابراہیم ؑ وظل معروفا بینہم فی ایام أنبیائھم جمیعا الی مابعد ظہرر المسیحیۃ ،وتکررت الاشارۃ الی البرقعۃ فی غیر کتاب من کتب العہد القدیم وکتب العہد جدید۔

 

ففی الاصحاح الرابع والعشرین من سفر تکوین عن ''رفقۃ''انہا رفعت عینیہا فرأت اسحاق''فنزلت عن الجمل وقالت للعبد :من ھذا الرجل الماشی فی الحقل للقائی؟فقال العبد:ھو سیدی! فاخذت البرقع وتغطت''۔

 

فی الاصحاح الثامن والثلاثین من سفر تکوین أیضا ان تامار: ''مضت وقعدت فی بیت أبیہا ۔ولما طال الزمان ۔۔خلعت عنہا ثیاب ترملہا وتغطت ببرق وتلففت۔۔''

 

وفی النشید الخامس من أناشید سلیمان تقول المرأۃ :''اخبرنی یامن تحبہ نفسی أین ترعی عند الظہیرۃ ؟۔۔ولماذا أکون کمقنعۃ عند قطعان أصحابک؟''

 

وفی الاصحاح الثالث من سفر اشعیا ان اللہ سیعاقب بنات صہیون علی تبرجہن والمباھاۃ برنین خلاخیلہن بان :''ینزع عنھن زینۃ الخلاخیل والضفائر والاھلۃ والاساور والبراقع والعصایب''۔

 

ویقول بول الرسول فی رسالۃ کورنثوس الاولیٰ ان النقاب شرف للمرأۃ ''فان کانت ترخی شعرھا فہو مجد لھا ۔لان الشعر بدیل من البرقع۔۔''

وکانت المرأۃ عندھم تضع البرقع علی وجہہا حین تلقی الغرباء وتخلعہ حین تنزوی فی الدار بلباس الحداد۔

 

فلاحاجۃ الی التوسع فی قراء ۃ التاریخ للعلم بان نظام الحجاب سابق لظہور الاسلام ۔لأن الکتب الدینیۃ التی یقرأھا غیر المسلمین ،قد ذکرت عن البراقع والعصائب مالم یذکرہ القرآن الکریم ،ولم یکن البرقع مماذکرہ القرآن الکریم فیما أمر بہ من الحجاب۔

 

فاذا بحث القوم عن تاریخ الحجاب فی غیر الکتب الدینیۃ فالکتب الخصصۃ لھذا البحث مملوء ۃ باخبار الحجاب الذی کان یتخذ لستر المرأۃ أو یتخذ للوقایۃ من الحسد ،ویشترک فیہ الرجال والنساء بعض الاحیان ،واخبار البرقع جزء من الأخبار المستفیضۃ عن حجاب العزلۃ فی المنازل ،وخارج المنازل ،فی الطرقات والاسواق۔وقد کان الیونان ممن فرض ھذہ العزلۃ علی نسائھم ،وکان الرومان،علی ترخیصھم فی ھذا الامر،یسنون القوانین التی تحرم علی المرأۃ الظہور بالزینۃ فی الطرقات قبل المیلاد بمائیتی سنۃ ،ومنھا قانون عرف باسم '' قانون أوبیا Lex Oppia '' یحرم علیہا المغالاۃ بالزینۃ حتی فی البیوت۔

 

ولقد غلا المترفون من الأقدمین فی حالی الحجاب والتسریح فحجبوا المرأۃ ضنّاً بہا،وسرحوھا ھوانا علیہم لأمرھا،واوشک اعزازھا أن یکون شرا علیہا من ھوانہا ۔فاذا عزت عندھم فہی طیر حبیس فی قفص مصنوع من معدن نفیس أو خسیس ،واذاھانت علیہم سرحوھا لیبتذلوھا فی خدمۃ کخدمۃ الدابۃ المسخرۃ،حریتہا الموھومۃ ضرورۃ من ضرورات التسخیر والاستبعاد!

 

جاء الاسلام والحجاب فی کل مکان وجدفیہ تقلید سخیف وبقیۃ من بقایا العادات الموروثۃ ،لایدری أھو أثرۃ فردیۃ أم وقایۃ اجتماعیۃ ،بل لا یدری أھو مانع للتبرج وحاجب للفتنۃ،أم ھو ضرب من ضروب الفتنۃ والغوایۃ۔فصنع الاسلام بالحجاب ماصنعہ بکل تقلید زال معناہ ،وتخلفت بقایاہ بغیر معنی ۔فاصلح منہ مایفید و یعقل،ولم یجعلہ کما کان عنوانا لاتہام المرأۃ ،أو عنوانا لأستحواذ الرجل علی ودائعہ الخفیۃ ۔بل جعلہ أدبا خلقیاً یستحب من الرجل ومن المرأۃ ،ولایفرق فیہ بین الواجب علی کل منہما ،الالما بین الجنسین من فارق فی الزینۃ واللباس والتصرف بتکالیف المعیشۃ وشواغلھا۔

 

 

فالمؤمنون مطالبون بان:

 

''یغضوا من أبصار ھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم''(٢)

 

والمؤمنات مطالبات بذالک:

 

''۔۔۔۔۔۔۔۔وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْْرِ أُوْلِیْ الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ ......'' (٣)

 

وقد نہی الرجال عن الزینۃ المخلۃ بالرجولۃ ،ونہی النساء عن مثلھا :

 

'' وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی ۔۔''(٤)

 

والمفھوم من ھذ ا النہی لم یختلف علیہ أحد من المخاطبین بہ ولا من المفسرین لایات الکتاب ۔یقول الکشاف وھومن التفاسیر المتقدمۃ:

 

''فان قلت :لم سومح مطلقا فی الزینۃ الظاھرۃ؟ قلت:لأن سترھا فیہ حرج فان المرأہ لاتجد بدامن مزاولۃ الاشیاء بیدیھا ومن الحاجۃ الی کشف وجہہا۔خصوصا فی الشہادۃ والمحاکمۃ والنکاح وتضطر الی المشی فی الطرقات وظہور قدمیہا،وخاصۃ الفقیرات منہن۔وھذا معنی قولہ ''الا ما ظہر منہا'' یعنی الاماجرت العادۃ والجبلۃ علی ظہورہ،والاصل مختصین بہ من الحاجۃ المضطرۃ الی مداخلتھم ومخالطتھم ولقلۃ توقع الفتنۃ من جہاتہم ،ولما فی الطباع من النفرۃ عن مماسۃ القرائب ،وتحتاج المرأۃ الی صحبتہم فی الأسفار للنزول والرکوب وغیر ذلک''

 

والمتاخرون من المفسرین علی مثل ذلک الفہم للزینۃ التی یجوز اظہارھا، ومن أحدثہم الاستاذ طنطاوی جوھری صاحب ''تفسیر الجواھر'' حیث یقول :

 

'' الأظھر منہا عند مزاولۃ الاشیاء کالثیاب والخاتم والکحل والخضاب فی الکف وکالوجہ والقدمین ،ففی ستر ھذہ الاشیاء حرج عظیم ،فان المرأۃ لاتجد بدا من مزاولۃ الاشیاء بیدیہا ومن الحاجۃ الی کشف وجہہا ،لاسیما فی مثل تحمل الشہادۃ والمعالجۃ والمتاجرۃ ،وما أشبہ ذلک،وھذا کلہ اذا لم یخٖف الرجل فتنۃ۔فان خافہا غض بصرہ۔۔''

 

والمفھوم من الحجاب علی ھذا واضح بغیر تفسیر ،فلیس المراد بہ اخفاء المرأۃ وحبسھا فی البیوت،لان الامر بغض الابصار لایکون مع اخفاء النساء وحبسہن وراء جدران البیوت وتحریم الخروج علیہن لمزاولۃ الشؤن التی تباح لھن۔ولم یکن الحجاب کما ورد فی جمیع الآیات مانعا فی حیاۃ النبی علیہ السلام أن تخرج المراۃ مع الرجال الی میادین القتال،ولا ان تشھد الصلوۃ العامۃ فی المسجد،ولاأن تزاول التجارۃ ومرافق العیش المحللۃ للرجال والنساء علی السوائ،ومھما یکن من عمل تزاولۃ المرأۃ فی مصالحھا اللازمۃ ،فلا عائق لہ من الحجاب الذی أوجبہ القرآن الکریم ،ولاغضا ضۃ علیہا فیہ،لانہ یطلب من الرجل فیما یناسبہ کما یطلب منہا فیما یناسبھا۔

 

ومن الحسن أن نذکر ان الامر بالقرار فی البیوت انما خوطب بہ نساء النبی علیہ السلام ،لمناسبۃ خاصۃ بہن لا تعرض لغیرھن من نساء المسلمین ، ولھذا بدئت الایۃ۔''یَا نِسَاء النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء '' ثم اقترن ھذا الامر بامر آخر یعم الرجال الذین یفدون علی النبی ،فیدخلون مسکنہ بغیر استئذان وفیہ زوجاتہ رضوان اللہ علیہن ،غیر قارات فی بیوتہن من المسکن الشریف ،فیدخل الزائرون ویخاطبون آلہ علی غیر اذن منہن، لذلک نہی الزائرون أن یدخلوہ حتی یوذن لھم:

 

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَن یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَیْْرَ نَاظِرِیْنَ إِنَاہُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِیْ النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِیْ مِنکُمْ وَاللَّہُ لَا یَسْتَحْیِیْ مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ وماکان لکم أن تؤذوا رسول اللہ ۔۔ ''(٥)

 

وھذا ادب من آداب الزیارۃ ینبغی أن یتادب بہ الزوار کیفما کانت تقالید الحجاب فی غیر البیوت۔

 

فلاحجاب اذن فی الاسلام بمعنی الحبس والحجر والمہانۃ ،ولاعائق فیہ لحریۃ المرأۃ حیث تجب الحریۃ وتقضی المصلحۃ ۔وانما ھو الحجاب مانع الغوایۃ والتبرج والفضول ،وحافظ الحرمات وآداب العفۃ والحیائ۔

 

وما من دیانۃ ولاشریعۃ یحمد منھا ان تاذن بالتبرج ولاتنھی عنہ أو یحمد منہا ان تغضی عنہ ولا تفرض لہ أدبا یہذبہ ویکف أذاہ۔

 

فمثل ھذا التبرج فی الجاہلیۃ الاولیٰ ھو الذی منعہ الرومان بقانون وتغاضوا عنہ یوم تغاضوا عن الفتن والملذات التی اطاحت بالدولۃ واعقبت العالم سامۃ من نزوات الجسد۔جاوزت حدودھا ،واوشکت أن تنقلب من نقیض الاباحۃ لکل شیء الی نقیض الحرمان من کل شیئ۔

 

ومثل ھذا التبرج ھو الذی توعدہ النبی اشعیا بالدمار الذی یصف بالزینۃ فلایبقی لھا باقیۃ،فقال '' ۔۔ من اجل ان بنات صھیون یتشانحن ویمشین ممدودات الاعناق غامزات بعیونہن ،خاطرات فی مشیہن ،یخشخشن ارجلہن۔یصلع السید ھامۃ بنات صہین ویعری الرب عورتہن ،وینزع السید فی الیوم زینۃ الخلاخیل والضفائر والاھلۃ والحلق ولاساور والبراقع والعصائب والسلاسل والمناطق وخناجر الشمامات والاحراز وخزائم الانوف۔۔ ''(٦)

 

 

 

 

 

 

 

 ڈاکٹر فتحیہ فتاحی زادہ ''حجاب ''نامی کتابکے مصنف ہیں جس میں ڈاکٹر صاحب نے حجاب پر نہایت تفصیلی بحث پیش کی ہے خصوصا قرآن وسنت کی روشنی میں حجاب کے مسائل کو اجاگر کیا ہے اور مختلف عنوانات کے تحت تفصیلی ابحاث رقم کی ہیں ۔خصوصا چوتھی فصل ''فلسفہ پوشش'' اور چھٹی فصل ''کیفیت پوشش'' میں نہایت درجہ احسن طریق پر بالاختصار والاجمال پردہ کے فلسفہ اور کیفیت کو ایسے اجاگر کیا ہے کہ نفس کوایک گونہ اطمینان اور تشفی حاصل ہوتی ہے اور پردہ کی بابت پائے جانے والے بہت سے اختراعی اعتراضات اور غیر اختراعی وساوس کا بھی تشفی آمیز جواب دستیاب ہوجاتاہے۔ملاحظہ کریں

 

فلسفہ پوشش

 

عالمان ومتفکران اسلامی در فلسفہ پوشش،باستناد بہ نصوص دینی مطالبی آوردہ اند کہ از تکرار آن خودداری می کنیم (٧)وبہ مطالبی می پردازیم کہ در ارتباط مستقیم بازن وچرایی پوشش اوست:

 

١) حرمت بخشیدن بہ زن

 

زن مسلمانن ،تجسم حرمت و عفت در جامعہ است ،حفظ پوشش بہ نوعیت احترام گذاردن بہ زن و محفوظ نگہ داشتن وی از نگاھھای شھوانی و حیوانی است۔چنانچہ زن ، حدود را رعایت ننماید ہر بیماردلی دبہ او طمع نمودہ وبانگ آلودہ اش حریم زن رامی شکند۔آن شخصیتی کہ باید سالم بماند ونسل سالم تربیت کند،تحت تاثیر دیدھای آلودہ بہ گناہ بہ طرف شھوات سوق دادہ شھوۃ ودرنتیجہ ھویت واقعی اش را فراموش کردہ درچنگال بیمار دلان ہوسبازان،گرفتار می آید واز منش انسانیش سقوط کردہ وبہ غرقاب حیوانیت می رود۔

 

٢) مبارزہ بانفس

 

میل بہ خودنمائی وجلوہ گری بہ مصالحی در سرشت زن،نھفتہ است کہ باید در مسیر درست وھدفی والابکار گرفتہ شود،بی گمان این گرایش در وجود زن اگر ھمچون سایر میل ھا بہ درستی بہ کار گرفتہ شود،ثمرات مطلوبی خواھد داشت ودرجھت کمال او کارآمد خواہد بود و درمسیر فراھم آوردن محیطی مناسب ھمراہ بازدندگیش ،سودمند خواہد شد ۔چراکہ ھیچ گرایش درونی بدون جھت در جان انسان بہ ودیعت نھادہ نشدہ ا ست۔امااگر این گرایش،مرزی نداشتہ باشد و خودنمائی و جلوہ گری ھموارہ و درھمہ جانمود داشتہ باشد،قطعافساد آفرین خواھد بود ودرایجاد زمینہ ھای ناھنجاری در جامعہ تاثیر خواھد کرد،پوشش رامی توان مھمترین عامل تعدیل این میل دانست اشارہ لطیفی بہ این مطلب درکلام علی(ع)است:

''زکاۃ الجمال ،العفاف''

ذکات زیبای عفاف است۔(٨)

زیبائی برای زن، سرمایہ است اما باید بجا مصرف شود وزکات جمال زن ،حفظ عفاف وپوشش است۔مانند سازی جمال زن بہ سرمایہ ،نشانگر آن است کہ ازیک سوی سودمند و کارآمد است واز سوی دیگر کنترل شدنی وتعدیل یافتنی می باشد واشارہ است بہ اینکہ در صورت مرزشکنی ،فتنہ انگیز فساد آفرین خواھد بود۔

جواز کشف حجاب در مقابل محارم از جملہ شوھر،این غریزہ راجھت می دھد کہ خود آرائی زن مختص بہ شوھر باشد ومنع آن در برابر نامحرم،این غریزہ راکنترل می سازد و از مرزشکتنی جلومی گیرد تعدیل این غریزہ می تواند گامی در جھت مبارزۃ باسایر خواھشھای نفسانی باشد۔وقتی زن در جھت کنترل این خواھش ،اقدام نمود آمادگی غلبہ برسایر خواھشھا راتحصیل کردہ و درجھت رشد وتعالی خود حرکت می کند ومالاانسانی مھذب می شود کہ می تواند جامعہ خود رانیز بسازد۔

 

٣) جواز حضور در اجتماع

 

بدون ھیچ تردیدی ،اندام زن بہ ویژہ اگر بہ آرایہ ھا وپیرایہ ھایی،آراستہ گردد ھیجانبار وھوس آفرین است۔از سوی دیگر زن ،بخش عظیمی از نیروی انسانی یک جامعہ راتشکیل می دھد و درابعاد مختلف فرھنگی واجتماعی و اقتصادی و سیاسی می تواند نقش آفرینی عظیمی داشتہ باشد۔۔

اسلام باطرح پوشش زن در حقیقت جواز حضور در اجتماع او رارقم زدہ است و بادستورات حکیمانہ وراھگشایی کہ در چگونگی منش و روش او اراتہ دادہ از یک سوی این نیروی عظیم راا ز تباہ شدن و درگوشہ ای بی ھدف و اثر ماندن نجات دادہ واز سوی دیگر جلو فساد گستری وناھنجار یھای ناشی از اختلاط مرد و زن راگرفتہ است۔ھمہ آحاد جامعہ در مقابل سلامت نفسانی جامعہ مسؤلند ومسؤلیت مھمتر در این بارہ بردوش خانمھاست۔دقت در آنچہ گفتیم بی پایگی تفکر ھوس آلودانی راکہ حجاب راحصار تلقی کردہ وبرای آزمندیھای خود،زن رابرای شکستن بہ اصطلاح حصار دعوت می کنند ،روشن می شود و بخوبی دانستہ می شود کہ حجاب عملا عامل مھمی است در جھت آزادی زن نہ اسارت او مھم این است کہ تقلی مااز آزادی دقیقا روشن باشد۔

 

٤) ایجاد امنیت

 

جامعہ موظف است امنیت رادر ابعاد مختلف ،برای افراد فراھم سازد بخش عمدہ ای از این مھم بہ عددہ زن است کہ باحفظ پوشش بہ این امر جامہ عمل بپوشاند ۔اگر این حریم دریدہ شود ضمانتی برای سلامتی شخص وجودندارد،زن چون از این حصار منیع درآمد ،درمعرض،ضربات دید ھای آلودہ و قلوب منحرف قرارمی گیرد وآرائش خود رااز دست دادہ ونھایتا نجات از تلاطم امواج بلارانامعلوم می سازد۔

در سایہ رعایت عفاف،زن با شھامت ھرچہ تمامتر بہ وظیفہ خود مشغول شدہ وخطری از ناحیہ اجتماع متوجہ وی نمی شود ۔بدین سان باقطعیت تمام معتقد ھستیم کہ پوشش ،امیت زن رادر جامعہ فراھم می سازد و در حریم پوشش است کہ می توان با خیالی آسودہ بہ جامعہ آمد و بہ فعالیت پرداخت ودر سنگر حجاب ،حضور عینی خود رادرابعاد مختلف اجتماع،تحقق بخشید۔

 

کیفیت پوشش

 

گردھی از مفسران بہ این نکتہ توجہ کردہ وسبب نزول راتوجہ بہ شیدہ پوشش حاکم برجامعہ جاہلی دانست اند۔

محمد علی صابون نوشتہ است:

زن دردورہ جاہلی ھمچون جاھلیت امروز باسینہ برھنہ ،گردن دستہا، مکشوف میان مردان آمد وشدمی گرد و چہ بسااندام ھیجانباز وگیسوانش را آشکار می ساخت تامردھا را بفریبد۔

روسری ھا رااز پشت سر می آو بختند و سینہ ھاشان نمایان می شد۔(٩)

چون حالت پوشش زنان بہ گونہ ای بود کہ گردن و سینہ مکشوف بود این آیہ نازل شد۔(١٠)

قرطبی بر این مطلب تصریح کردہ است:

زنان وقتی مقنعہ سرمی کردند آن رااز پشت سر آویز میکردند وگردن و سینہ ھا یشان آشکار می شد۔(١١)

اکنون ،پس اس روشن شدن فضای فرھنگی نزول آیہ و بیامی کہ باید از آیہ بر گرفت بہ بررسی و تبین مفھوم آن بپردازیم:

دربخش واژہ شناسی''خمر'' و ''جیوب''رابررسی کردیم،نتیجہ آن بررسیھا این بودکہ :خمر بمعنای سرپوش زن وجیوب بمعنای گردن وگریبان می باشد۔ درآیہ واشہ''ضرب''با''علی''متعدی شدہ است مفسران باتوجہ بہ چگونگی ترکیب جملہ،نکاتی را آواردہ اند کہ توجہ بہ آن در روشن ساختن مفھوم آیہ سودمند خواھد بود۔

شیخ محمد علی صابونی می نویسد:

 

لفظ ''ضرب'' مبالغہ در تحفظ و پوشش رامی رساند واین لفظ با''علی'' متعدی شدہ زیرا معانی افکندن رادر بردارد مقصود آیہ این است کہ :روسری رابر سینہ بیافکند تاگردن و سینہ ظاھر نشود۔(١٢)

 

علامہ طباطبائی نیز آیہ رابدینصورت تفسیر کردہ است:

 

...ولیلقین بأطراف مقانعھن علی صدورھن لیسترنھا بھا۔

باید اطراف مقنعہ ھا رابر سینہ ھایشان افکند تا سینہ ھا مستور بماند۔(١٣)

''بائ''در واژہ ''بخمرھن''نیز مورد گفتگو است:

برخی آنرا''تبعیض''دانستہ اند ومالا معنی کردہ اند:بخشی از مقنعہ رابر سینہ و گردن بیندازند۔

 

در الفرقان آمدہ است:

 

باء در بخمرھن برای تبعیض است ومقصود ش این است کہ بخشی از روسری رابرگریبان افکند۔(١٤)

برخی دیگرآن را''الصاق'' دانستہ ونوشتہ اند:

مقنعہ ھا رابرگردن و سینہ قرار دھند تا زینت و .........آشکار نشود۔(١٥)

 

تفسیر آیہ

 

پس از تبین واژہ و کیفیت ترکیب جملہ می توان بہ توضیح وتفسیر آیہ پرداخت۔برخی از این آیہ لزوم پوشش وجہ رابھرہ گرفتہ و نوشتہ اند:

خمار بہ معنی مقنعہ ونقاب است۔زنان ،نقاب ومقنعہ رابرگریبانھا یشان فرو اندازند تاکاملا صورت وگلو و سینہ پوشیدہ باشد۔(١٦)

آنچہ این نویسندہ بزرگوار از آیہ بھرہ گرفتہ اند بہ ھیچ روی استوار نیست ، مطالب مذکورہ دربارہ واژہ ھا ،ترکیب آیہ وفضای نزول کہ آیہ بدان توجہ دارد بہ روشنی تااستواری این بیانرامبرھن می سازدودید گاہ غالبمفسران راکہ آیہ را فقط درجھت لزوم پوشش گردن و سینہ دانستہ اند،تایید میکند۔

اکنون اندکی مشروحتربہ موضوع آیہ بپردازیم۔

افزون برآنچہ بہ عنوان جو نزول وفرھنگ جاھلی آوردیم شان نزولی کہ شیعہ و سنی بطور مشخص درذیل آیہ آوردہ اندمی تواند برای فھم آیہ کمک موثری باشد:

روزی در ھوای گرم مدینہ زنی جوان و زیبا در حالیکہ طبق معمول روسری خود رابہ پشت گردن انداختہ ودورگردن وبناگوشش پیدابود،از کوچہ عبور می کرد،مردی از اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم از طرف مقابل می آمد ۔آن منظرہ زیبا سخت نظر او را جلب کرد و چنان غرق تماشای آن زن زیباشد کہ از خودش واطرافش غافل گشت و جلویش رانگاہ نمیکرد۔آن زن وارد کوچہ ای شد و جوان باچشم خود او را دنبال می کرد۔ھمانطور کہ می رفت ناگھان استخوان یا شیشہ ای کہ از دیوار بیرون آمدہ بود بہ صورتش اصابت کرد و او را مجروح ساخت۔وقتی بہ خود آمد کہ خون از سر و رویش جاری شدہ بود با ھمین حال خدمت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رفت و ماجرا را بہ عرض رساند اینجا بود کہ آیہ مبارکہ قل للمومنین...نازل شد۔(١٧)

(ذکر این نکتہ ضروری است کہ ما این شان نزول را در بحث نگاہ و ما نحن فیہ کہ بحث از کیفیت پوشش است ،آوردیم ۔بدین سبب کہ این حدیث از نگاھای آلودہ مرد و ھمجنین از کیفیت پوشش زن حکایت می کند،لذاجا دارد کہ در ھر دو قسمت ذکر شود۔)

آنچہ را مفسران بزرگ از دیرباز از آیہ فھمیدہ اند دقیقاً ھمسو با آھنگ کلی آیہ و مفھوم واژگانی آن است ۔ابن عباس می نویسد:

تغطی شعرھا وصدرھا وترائبھا وسوالفھا۔

''زن مو وسینہ و دور گردن و زیر گلویش رابپوشاند۔''(١٨)

 

در مجمع البیان ذیل آیہ می نویسد:

 

امرن بالقاء المقانع علی صدورھن تغطیۃ لنحورھن۔

زنان مامور شدہ اند کہ روسریھای خود رابر روی سینہ خود بیفکنند تادور گردن آنھا پوشیدہ شود۔(١٩)

 

طبری می گوید:

 

دوسری ھایشان رابر سینہ ھا بیندازند تا موھا،گردنھا و گوشوارہ ھایشان مستور بماند۔ (٢٠)

فیض کاشانی نیز براین عقیدہ است کہ آیہ پوشش گردن زنھا را فرمان میدھد۔(٢١)جادارد نقطہ نظر مفسر دیگری رابہ اختصار بیاوریم:

این آیہ پوشانیدن صورت و دستھا رانمی رساند۔دلیلی از آیات و روایات لزوم پوشش نداریم مگر بہ قیاس اولویت کہ از نظر کتاب و سنت مطرود است و اگر در روایات ،مطلبی دال بر پوشش صورت باشد۔این روایات مؤول ھستند ودلالت روشن بر لزوم پوشش ندارند و در فرض معارضہ بہ قرآن رجوع کردہ کہ پوشش چھرہ و دستھا را لازم ندانستہ است۔(٢٢)

نکتہ این را کہ آقای مصطفوی آوردہ نیز قابل توجہ است ۔

جملہ ولیضربن بخمرھن...درمقام بیان پوشیدن گردن و سینہ است و در صدد بیان پوشیدن سر نمی باشد چراکہ پوشش سر،امری طبیعی ومفروغ عنہ میباشد۔(٢٣)

بھر حال از تتبع در اقوال مفسران بزرگ شیعہ و سنی بدون ھیچ تر دیدی تو ان فھمید کہ آیہ در کمال صراحت چگونگی پوشش رابیان می کند و پیامش لزوم پوشش سر ،گردن و سینہ ھاست در جھت پنھان سازی و زینتھای کہ بصورت طبیعی و قھری در ظھور و بروز نیستند۔(٢٤)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سید ابو الاعلیٰ مودودی

 

 سید ابو الاعلیٰ مودودی بیسویں صدی کے ایک عظیم مفکر گزریں ہیں آپ نے بے شمار اصلاحی اور تصنیفی خدمات سرانجام دی ہیں۔آپ کی ایک اہم ترین تصنیف ''پردہ'' نامی کتاب بھی ہے۔جس کی وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں۔

''...ہمارے سامنے بحث کے دو پہلو ہیں ،اور اس کتاب میں انہی دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھا جائے گا۔

 اولاً: ہم کو تمام انسانوں کے سامنے،خواہ وہ مسلمان ہون یا غیر مسلم ،اسلام کے نظام معاشرت کی تشریح کرنی ہے اور یہ بتانا ہے کہ اس نظام میں پردہ کے احکام کس لئے دیئے گئے ہیں۔

 ثانیاً: ہمیں ان دور جدید کے ''مسلمانوں'' کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام اور مغربی تمدن و معاشرت کے نظریات و نتائج ،دونوں ایک دوسرے کے بالمقابل رکھ دینے ہیں تاکہ یہ منافقانہ روش ،جوانہوں نے اختیار کررکھی ہے ،ختم ہو اور یہ شریف انسانوں کی طرح دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلیں۔یا تو اسلامی احکام کی پیروی کریں۔اگر مسلمان رہنا چاہتے ہیں یا اسلام سے قطع تعلق کرلیں اگر ان شرمناک نتائج کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں جن کی طرف مغربی نظام معاشرت لا محالہ ان کو لے جانے والا ہے''۔

 کتاب مذکور میں مصنف نے اپنے دونوں مقاصد کو بخوبی حاصل کیا ہے تحقیق نگار کا مقصد چونکہ پردہ کی بابت مفکرین کے اقوال ،آراء اور نظریات و افکار پیش کرنا ہے اس لئے تحقیق نگار طوالت سے احتراز کرتے ہوئے صرف اپنے موضوع سے متعلق مواد تک محدود رہے گی۔

 مصنف نے مسئلہ حجاب کا منبع یورپ کو قرار دیا ہے جس کے لٹریچر نے مسلمان عورت کے لئے حجاب کو ایک عیب کے طورپر پیش کیا اور پردہ کو معیوب قرار دیاجانے لگا۔مصنف نے قرآن و حدیث کی روشنی میں پردہ اور اس کے احکامات کی تفصیلی تحریح پیش کی ہے۔جسے پڑھ کر ایک طرف تو مسئلہ حجاب کی بابت تمام تفصیلات علم میں آتی ہےں اور دوسری طرف مصنف کا قرآن و حدیث پر عبور اور تبحر بھی آشکارا ہوتاہے ۔مصنف نے مختلف عنوانات کے زیر منعون پردہ اور اس کی تمام جزئیات پر تفصیلی بحث پیش کی ہے۔سورہ نور اور سورہ احزاب کی آیات سے بحث کی ابتداء کرتے ہوئے مصنف نے سب سے اول''غض بصر''کا عنوان قائم کیا ہے۔مصنف نے پردہ کے باب میں مردوں اور عورتوں کو دیا جانے والا پہلا حکم ''غض بصر''کو قرار دیتے ہوئے اس لفظ کی نہایت عمدہ تشریح بھی پیش کی ہے ۔ مصنف کی زبانی ہی ملاحظہ کریں۔

 

'' سب سے پہلا حکم جو مردوں اور عورتوں کو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ'' غض بصر'' کرو۔

عموما اس لفظ کا ترجمہ ''نظریں نیچی رکھو'' یا ''نگاہیں پست رکھو'' کیا جاتاہے ۔مگر اسی سے پورا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔حکم الٰہی کا اصل مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہیں اور کبھی اوپر نظر ہی نہ اٹھائیں۔مدعا دراصل یہ ہے کہ اس چیز سے پرہیز کرو جس کو حدیث میں آنکھوں کا زنا کہاگیا ہے۔اجنبی عورتوں کے حسن اور ان کی زینت کی دید سے لذت اندوز ہونا مردوں کے لئے اور اجنبی مردوں کو مطمح نظر بنانا عورتوں کے لئے فتنے کا موجب ہے۔فساد کی ابتداء طبعا و عادتا یہیں سے ہوتی ہے ۔اس لئے سب سے پہلے اسی دروازے کو بندکیاگیا ہے اور یہی ''غض بصر'' کی مراد ہے۔اردو زبان میں ہم اس لفظ کا مفہوم ''نظر بچانے ''سے بخوبی اداکرسکتے ہیں''۔(٢٥)

 

 غض بصر کی اس عمدہ تشریح کے بعد مصنف نے اس کے ثبوت و دلائل کے طورپر کتب احادیث میں سے سات احادیث بھی استدلالاً پیش کی ہیں جن میں کبار صحابہ کرام حضرت جریر، حضرت بریدہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت سہل بن سعد، حضرت ابی ھریرہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے اصحاب شامل ہیں۔

 

 اس کے بعد مصنف نے ''اظہار زینت کی ممانعت اور اس کے حدود''کے عنوان کے تحت عورت کے لئے اظہار زینت کا حدود اربعہ بیان کیا ہے پھر ''چہرے کا حکم''کے عنوان کے ذیل میں چہرہ کے پردہ کی بابت تفصیلی بحث پیش کی ہے ،بعدہ عورتوں کے لئے'' باہر نکلنے کے قوانین'' کے عنوان کے تحت ان قوانین ومقامات کو ذکرکیا ہے جہاں عورت ان قوانین کی رعایت کے ساتھ جاسکتی ہے اور شرکت کرسکتی ہے۔اس کے بعد ''خاتمہ''کے عنوان کے ذیل میں مصنف نے اپنی تمام ابحاث کا نچوڑ پیش کیا ہے جس میں مصنف اسلامی معاشرت کے قانون کا مقصد ضابطہ ازدواج کی حفاظت ،صنفی انتشار کی روک تھام اور غیر معتدل شہوانی تحریکات کا انسداد کو قرار دیتے ہیں۔جس غرض کے لئے شارع نے تین تدابیر اختیار کی ہیں۔

 ١) اصلاح اخلاق

 ٢) تعزیری قوانین

 ٣) ستر و حجاب

 

 مصنف کے بقول یہ تین وہ ستون ہیں جن پر یہ عمارت قائم ہے ۔اب ان ستونوں کا استحکام ہی عمارت کا استحکام اور انہدام عمارت کا انہدام ہے۔جب کہ ان تین میں اول الذکر دوستون منہدم ہوچکے ہیں اور اب اس (اسلامی نظم معاشرت)کی پوری عمارت صرف ایک ستون پر قائم ہے(پردہ)کیا آپ اسے بھی مسمار کردینا چاہتے ہیں؟

 

مسئلہ حجاب کی ابتدائ

 

 مسلمانوں کی تاریخ کا یہ دور سب سے زیادہ شرمناک ہے اور یہی دور ہے جس میں پردے کے سوال پر بحث چھڑی۔اگر سوال محض اس قدر ہوتاکہ اسلام میں عورت کے لئے آزادی کی کیا حد مقرر کی گئی ہے تو جواب کچھ بھی مشکل نہ ہوتا ۔زیادہ سے زیادہ جو اختلاف اس باب میں پایا جاتاہے وہ محض اس حد تک ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کھولنا جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ کوئی اہم اختلاف نہیں ہے لیکن دراصل یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔مسلمانوں میں یہ مسئلہ اس لئے پیدا ہواکہ یورپ نے ''حرم'' اور پردہ و نقاب کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا،اپنے لٹریچر میں اس کی نہایت گھناؤنی اور مضحکہ انگیز تصویریں کھینچیں ،اسلام کے عیوب کی فہرست میں عورتوں کی ''قید''کو نمایاں جگہ دی۔اب کیونکر ممکن تھا کہ مسلمانوں کو حسب دستور اس چیز پر بھی شرم نہ آنے لگتی۔انہوں نے جو کچھ جہاد اور غلامی اور تعدد ازدواج اور ایسے ہی دوسرے مسائل میں کیا تھا وہی اس مسئلہ میں بھی کیا۔

 قرآن اور حدیث اور اجتہادات ائمہ کی ورق گردانی محض اس غرض سے کی گئی کہ وہاں اس ''بدنما داغ''کو دھونے کے لئے کچھ سامان ملتاہے یانہیں۔معلوم ہواکہ بعض ائمہ نے ہاتھ اور منہ کھولنے کی اجازت دی ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت اپنی ضروریات کے لئے گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہے۔یہ بھی پتہ چلا کہ عورت میدان جنگ میں سپاہیوں کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کے لئے بھی جاسکتی ہے۔مسجدوں میں نماز کے لئے جانے اور علم سیکھنے اور درس دینے کی بھی گنجائش پائی گئی۔بس اتنا مواد کافی تھا۔دعویٰ کردیا گیا کہ اسلام نے عورت کو پوری آزادی عطاکی ہے۔پردہ محض ایک جاہلانہ رسم ہے جس کو تنگ نظر اور تاریک خیال مسلمانوں نے قرون اولیٰ کے بہت بعدا ختیار کیاہے۔قرآن و حدیث پردہ کے احکام سے خالی ہیں،ان میں تو صرف شرم وحیا کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے،کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا گیا جو عورت کی نقل و حرکت پر کوئی قید عائد کرتاہو۔

 

اصلی محرکات

 

 انسان کی یہ فطری کمزوری ہے کہ اپنی زندگی کے معاملات میں جب وہ کوئی مسلک اختیار کرتاہے تو عموما اس کے انتخاب کی ابتداایک جذباتی غیر عقلی رجحان سے ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے اس رجحان کو معقول ثابت کرنے لئے عقل و استدلال سے مددلیتاہے۔پردے کی بحث میں بھی ایسی ہی صورت پیش آئی۔اس کی ابتداء کسی عقلی یا شرعی ضرورت کے احساس سے نہیں ہوئی بلکہ دراصل اس رحجان سے ہوئی جو ایک غالب قوم کے خوشنما تمدن سے متاثر ہونے اور اسلامی تمدن کے خلاف اس قوم کے پروپیگنڈا سے مرعوب ہوجانے کا نتیجہ تھا۔

 ہمارے اصلاح طلب حضرات نے جب دہشت سے پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ فرنگی عورتوں کی زینت و آرائش اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت ،اور فرنگی معاشرت میں ان کی سرگرمیوں کو دیکھا تو اضطراری طور پر ان کے دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش ! ہماری عورتیں بھی اس روش پر چلیں تاکہ ہمارا تمدن بھی فرنگی تمدن کا ہمسر ہوجائے۔پھر وہ آزادی نسواں ،اور تعلیم اناث، اور مساوات مرد و زن کے ان جدید نظریات سے بھی متاثر ہوئے جو طاقتور استدلالی زبان اور شاندار طباعت کے ساتھ بارش کی طرح مسلسل ان پر برس رہے تھے۔

 اس لٹریچر کی زبردست طاقت نے ان کی قوت تنقید کو ماؤف کردیا اور ان کے وجدان میں یہ بات اترگئی کہ ان نظریات پر ایمان بالغیب لانا اور تحریر و تقریر میں ان کی وکالت کرنا اور( بقدر جرات و ہمت)عملی زندگی میں بھی ان کو رائج کردینا ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے جو ''روشن خیال''کہلانا پسند کرتا ہو،''دقیانوسیت''کے بدترین الزام سے بچنا چاہتاہو۔نقاب کے ساتھ سادہ لباس میں چھپی ہوئی عورتوں پر جب ''متحرک خیمے اور کفن پوش جنازہ'' کی پھبتیاں کسی جاتی تھیں تو یہ بیچارے شرم کے مارے زمین میں گڑ گڑ جاتے تھے۔آخر کب تک ضبط کرتے ؟مجبور ہوکر یا مسحور ہوکر،بہرحال اس شرم کے دھبے کودھونے پر آمادہ ہوہی گئے۔

 انیسویں صدی کے آخری زمانے میں آزادی نسواں کی جو تحریک مسلمانوں میں پیداہوئی اس کے اصلی محرک یہی جذبات و رجحانات تھے۔بعض لوگوں کے شعور خفی میں یہ جذبات چھپے ہوئے تھے اور ان کو خود بھی معلوم نہ تھا کہ دراصل کیا چیز انھیں اس تحریک کی طرف لے جارہی ہے ۔یہ لوگ خود اپنے نفس کے دھوکے میں مبتلا تھے۔اور بعض کو خود ان اپنے جذبات کا بخوبی احساس تھا ،مگر انہیں اپنے اصلی جذبات کو ظاہر کرکے شرم آتی تھی۔یہ خود تو دھوکے میں نہ تھے لیکن انہون نے دنیا کو دھوکے میں ڈالنے کی کوشش کی۔بہرحال دونوں گروہوں نے کام ایک ہی کیا اور وہ یہ تھا کہ اپنی تحریک کے اصل محرکات کو چھپاکر ایک جذباتی تحریک کے بجائے ایک عقلی تحریک بنانے کی کوشش کی۔عورتوں کی صحت ،ان کے عقلی و عملی ارتقائ،ان کے فطری اور پیدائشی حقوق،ان کے معاشی استقلال ،مردوں کے ظلم و استبداد سے ان کی رہائی،اور قوم کا نصف حصہ ہونے کی حیثیت سے ان کی ترقی پر پورے تمدن کی ترقی کا انحصار ،اور ایسے ہی دوسرے حیلے جو براہ راست یورپ سے برآمد ہوئے تھے،اس تحریک کی تائید میں پیش کئے گئے،تاکہ مسلمان دھوکے میں مبتلاء ہوجائیں اور ان پر یہ حقیقت نہ کھل سکے کہ اس تحریک کا اصل مقصد مسلمان عورت کو اس روش پر چلانا ہے جس پر یورپ کی عورت چل رہی ہے اور نظام معاشرت میں ان طریقوں کی پیروی کرنا ہے جو اس وقت فرنگی قوموں میں رائج ہیں۔

 

سب سے بڑا فریب

 

 سب سے زیادہ شدید اور قبیح فریب جو اس سلسلہ میںدیاگیا وہ یہ ہے کہ قرآن ا ور حدیث سے استدلال کرکے اس تحریک کو اسلام کے موافق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے،حالانکہ اسلام اور مغربی تہذیب کے مقاصد اور تنظیم معاشرت کے اصولوں میں زمین و آسمان کا بعد ہے۔اسلام کا اصل مقصد جیساکہ ہم آگے چل کر بتائیں گے،انسان کی شہوانی قوت (Sex Energy) کو اخلاقی ڈسپلن میں لاکر اس طرح منضبط کرنا ہے کہ وہ آوارگی عمل اورہیجان جذبات میں ضائع ہونے کے بجائے ایک پاکیزہ اور صالح تمدن کی تعمیر میں صرف ہوں برعکس اس کے مغربی تمدن کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے معاملات اور ذمہ داریوں میں عورت اور مرد کو یکساں شریک کرکے مادی ترقی کی رفتار تیز کردی جائے،اور اس کے ساتھ شہوانی جذبات کو ایسے فنون اور مشاغل میں استعمال کیا جائے جو کشمکش حیات کی تلخیوں کولطف اور لذت میں تبدیل کردیں۔مقاصد کے اس اختلاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تنظیم معاشرت کے طریقوں میں بھی اسلام اور مغربی تمدن کے درمیان اصولی اختلاف ہو۔اسلام اپنے مقصد کے لحاظ سے معاشرت کا ایسا نظام وضع کرتاہے جس میں عورت اور مرد کے دوائر عمل بڑی حد تک الگ کردیئے گئے ہیں،دونوں صنفوں کے آزادانہ اختلاط کو روکاگیا ہے اور ان تمام اسباب کا قلع قمع کیاگیا ہے جو اس نظم وضبط میں برہمی پیدا کرتے ہیں۔اس کے مقابلے میں مغربی تمدن کے پیش نظر جو مقصد ہے اس کا طبعی اقتضا یہ ہے کہ دونوں صنفوں کو زندگی کے ایک ہی میدان میں کھینچ لایا جائے اور ان کے درمیان وہ تمام حجابات اٹھادیئے جائیں جو ان کے آزادانہ اختلاط اور معاملات میں مانع ہوں،اور ان کو ایک دوسرے کے حسن اور صنفی کمالات سے لطف اندوز ہونے کے غیر محدود مواقع بہم پہنچائے جائیں۔

 اب ہر صاحب عقل انسان اندازہ کرسکتاہے کہ جو لوگ ایک طرف مغربی تمدن کی پیروی کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اسلامی نظم معاشرت کے قوانین کو اپنے لئے حجت بناتے ہیں وہ کس قدر سخت فریب میں خودمبتلا ہیں یا دوسروں کو مبتلاکررہے ہیں۔اسلامی نظم معاشرت میں تو عورت کے لئے آزادی کی آخری حد یہ ہے کہ حسب ضرورت ہاتھ اور منہ کھول سکے اور اپنی حاجات کے لئے گھر سے باہر نکل سکے۔ مگر یہ لوگ آخری حد کو اپنے سفر کا نقطہ آغاز بناتے ہیں ۔جہاں پہنچ کر اسلام رک جاتا ہے وہاں سے یہ چلنا شروع کرتے ہیں اور یہاں تک بڑھ جاتے ہیں کہ حیا اور شرم بالائے طاق رکھ دی جاتی ہے۔ ہاتھ اور منہ ہی نہیں بلکہ خوبصورت مانگ نکلے ہوئے سر اور شانوں تک کھلی ہوئی بانہیں اور نیم عریاں سینے بھی نگاہوں کے سامنے پیش کردیئے جاتے ہیں،اور جسم کے باقی ماندہ محاسن کو بھی ایسے بارک کپڑوں میں ملفوف کیاجاتاہے کہ وہ چیز ان میں سے نظر آسکے جو مردوں کی شہوانی پیاس کو تسکین دے سکتی ہو۔پھر ان لباسوں اور آرائشوں کے ساتھ محرموں کے سامنے نہیں بلکہ دوستوں کی محفلوں میں بیویوں ،بہنوں اور بیٹیوں کولایا جاتاہے اور ان کو غیروں کے ساتھ ہنسنے ،بولنے اور کھیلنے میں وہ آزادی بخشی جاتی ہے جو مسلمان عورت اپنے سگے بھائی کے ساتھ بھی نہیں برت سکتی۔گھر سے نکلنے کی جو اجازت محض ضرورت کی قید اور کامل ستر پوشی و حیاداری کی شرط کے ساتھ دی گئی تھی، اس کو جاذب نظر ساڑیوں اور نیم عریاں بلاؤزروں اور بے باک نگاہوں کے ساتھ سڑکوں پر پھرنے،پارکوں میں ٹہلنے ،ہوٹلوں کے چکر لگانے اور سینماؤں کی سیر کرنے میں استعمال کیا جاتاہے۔عورتوں کو خانہ داری کے ماسوا دوسرے امور میں حصہ لینے کی جومقید اور مشروط آزادی اسلام میں دی گئی تھی اس کوحجت بنایا جاتاہے اس غرض کے لئے کہ مسلمان عورتیں بھی فرنگی عورتوں کی طرح گھر کی زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کو طلاق دے کر سیاسی و معاشی اور عمرانی سرگرمیوں میں ماری ماری پھریں اور عمل کے ہر میدان میں مردوں کے ساتھ دوڑ دھوپ کریں۔

 ہندوستان میں تو معاملہ یہیں تک ہے ۔مصر، ترکی اور ایران میں سیاسی آزادی رکھنے والے ذہنی غلام اس سے بھی دس قدم آگے نکل گئے ہیں۔وہاں ''مسلمان''عورتیں ٹھیک وہی لباس پہننے لگی ہیں جو یوریپین عورت پہنتی ہے تاکہ اصل اور نقل میں کوئی فرق ہی نہ رہے اور اس سے بھی بڑھ کر کمال یہ ہے کہ ترکی خواتین کے فوٹو بارہا اس ہئیت میں دیکھے گئے ہیں کہ غسل کا لبا س پہنے ساحل سمندر پر نہارہی ہیں۔وہی لباس جس میں تین چوتھائی جسم برہنہ رہتاہے اور ایک چوتھائی حصہ اس طرح پوشیدہ ہوتاہے کہ جس کے سارے نشیب و فراز سطح لباس پر نمایاں ہوجاتے ہیں۔

 کیا قرآن اور کسی حدیث سے اس شرمناک طرز زندگی کے لئے بھی کوئی جواز کا پہلو نکالاجاسکتاہے؟ جب تم کو اس راہ پر جانا ہے توصاف اعلان کرکے جاؤ کہ ہم اسلام سے اور اس کے قانون سے بغاوت کرناچاہتے ہیں۔یہ کیسی ذلیل منافقت اور بددیانتی ہے کہ جس نظام معاشرت اور طرز زندگی کے اصول مقاصد اور عملی اجزاء میں سے ایک ایک چیز کو قرآن حرام کہتاہے اسے علی الاعلان اختیار کرتے ہو ،مگر اس راستہ پر پہلا قدم قرآن ہی کا نام لے کر رکھتے ہو تاکہ دنیا اس فریب میں مبتلا رہے کہ باقی قدم بھی قرآن ہی کے مطابق ہوں گے۔

 

ہمارا پیش نظر کام

 

 یہ دور جدید کے ''مسلمان'' کا حال ہے۔اب ہمارے سامنے بحث کے دو پہلوہیں،اور اس کتاب میں انہیں دونوں پہلؤوں کو ملحوظ رکھاجائےگا۔

اولاً: ہم کو تمام انسانوں کے سامنے ،خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ،اسلام کے نظام معاشرت کی تشریح کرنی ہے اور یہ بتانا ہے کہ اس نظام میں پردے کے احکام کس لئے دیئے گئے ہیں۔

ثانیاً: ہمیں ان دور جدید کے ''مسلمانوں'' کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام اور مغربی تمدن و معاشرت کے نظریات ونتائج ،دونوں ایک دوسرے کے بالمقابل رکھ دینے ہیں تاکہ یہ منافقانہ روش،جو انہوں نے اختیار کررکھی ہے،ختم ہو اور یہ شریف انسانوں کی طرح دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلیں۔یا تو اسلامی احکام کی پیروی کریں ۔اگر مسلمان رہنا چاہتے ہیں یا اسلام سے قطع تعلق کرلیں۔ اگر ان شرمناک نتائج کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں جن کی طرف مغربی نظام معاشرت لامحالہ ان کو لے جانے والا ہے۔(٢٦)

 

 

پردہ کے احکام

 

قرآن مجید کی جن آیات میں پردہ کے احکام بیان ہوئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

 

قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ (30) وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْْرِ أُوْلِیْ الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ ۔

 

 

''اے نبی !مومن مردوں سے کہئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں۔یہ ان کے لئے پاکیزگی کا طریقہ ہے۔یقینا اللہ جانتاہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور مومن عورتوں سے کہئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت رکھیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہوجائے۔اور اوہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنی اوڑھنیون نے بکل مارلیا کریں اور اپنی زینت کوظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے :شوہر،باپ،خسر،بیٹے،سوتیلے بیٹے،بھائی،بھتیجے،بھانجے،اپنی عورتیں،اپنے غلام ،وہ مرد خدمتگار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے۔وہ لڑکے جو ابھی عورتوں کی پردہ کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں۔اور وہ چلتے وقت اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہے اس کا اظہار ہو''۔(٢٧)

 

یَا نِسَاء النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَیْْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً (32) وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی ۔

 

''اے نبی کی بیبیو! تم کوئی عام عورتوں کی طرح تو ہو نہیں۔اگر تمہیں پرہیز گاری منظور ہے تو دبی زبان سے بات مت کرو کہ جس شخص کے دل میں کوئی خرابی ہے وہ تم سے کچھ توقعات وابستہ کرلے۔بات سیدھی سادی طرح کرو اور اپنے گھروں میں جمی بیٹھی رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو''۔(٢٨)

 

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ ۔

 

''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں۔اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچانی جائیں گے اوران کو ستایا نہ جائے گا۔''۔(٢٩)

 

ان آیات پر غور کیجئے۔مردوں کو تو صرف اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ اپنی نگاہیں پست رکھیں اور فواحش سے اپنے اخلاق کی حفاظت کریں۔مگر عورتوں کو مردوں کی طرح ان دونوں چیزوں کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔اور پھر معاشرت اور برتاؤ کے بارے میں چند مزید ہدایتیں بھی دی گئی ہیں ۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے اخلاق کی حفاظت کے لئے صرف غض بصر اور حفظ فروج کی کوشش ہی کافی نہیں ہے بلکہ کچھ اور ضوابط کی بھی ضرورت ہے ۔اب ہم کو دیکھنا چاہئے کہ ان مجمل ہدایات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اسلامی معاشرت میں کس طرح نافذ کیا ہے اور ان کے اقوال اور اعمال سے ان ہدایات کی معنوی اور عملی تفصیلات پر کیا روشنی پڑتی ہے۔

 

 

غض بصر

 

'' سب سے پہلا حکم جو مردوں اور عورتوں کو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ'' غض بصر'' کرو۔

 عموما اس لفظ کا ترجمہ ''نظریں نیچی رکھو'' یا ''نگاہیں پست رکھو'' کیا جاتاہے ۔مگر اسی سے پورا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔حکم الٰہی کا اصل مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہیں اور کبھی اوپر نظر ہی نہ اٹھائیں۔مدعا دراصل یہ ہے کہ اس چیز سے پرہیز کرو جس کو حدیث میں آنکھوں کا زنا کہاگیا ہے۔اجنبی عورتوں کے حسن اور ان کی زینت کی دید سے لذت اندوز ہونا مردوں کے لئے اور اجنبی مردوں کو مطمح نظر بنانا عورتوں کے لئے فتنے کا موجب ہے۔فساد کی ابتداء طبعا و عادتا یہیں سے ہوتی ہے ۔اس لئے سب سے پہلے اسی دروازے کو بندکیاگیا ہے اور یہی ''غض بصر'' کی مراد ہے۔اردو زبان میں ہم اس لفظ کا مفہوم ''نظر بچانے ''سے بخوبی اداکرسکتے ہیں''۔(٣٠)

 یہ ظاہر ہے کہ جب انسان آنکھیں کھول کر دنیا میں رہے گا تو سب ہی چیزوں پر نظر پڑے گی۔یہ تو ممکن نہیں ہے کہ کوئی مرد کسی عورت اور کوئی عورت کسی مرد کو کبھی دیکھے ہی نہیں۔اس لئے شارع نے فرمایا کہ اچانک نظر پڑجائے تو معاف ہے،البتہ جو چیز ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ ایک نگاہ میں جہاں تم کو حسن محسوس ہو وہاں دوبارہ نظر دوڑاؤ اور اس کو گھورنے کی کوشش کرو۔

 

''وعن جریر قال سألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن نظر الفجائۃ فقال اصرف بصری''۔(٣١)

 

حضرت جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہےں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ اچانک نظر پڑجائے تو کیاکروں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نظر پھیرلو''۔

 

''وعن بریدہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعلی یا علی لاتتبع النظرۃ فان لک الاولیٰ ولیس لک الاخرۃ۔''۔(٣٢)

 

''حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے علی رضی اللہ عنہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو ۔پہلی نظر تمہیں معاف ہے مگر دوسری نظر کی اجازت نہیں''۔

 

''عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من نظر الی محاسن امراۃ اجنبیۃ عن شھوۃ صب فی عینیہ الانک یوم القیمۃ۔(٣٣)

 

''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی اجنبی عورت کے محاسن پر شہوت کی نظر ڈالے گا تو قیامت کے روز اس کی آنکھوں میں پگھلاہوا سیسہ ڈالا جائے گا''۔

 

 مگر بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جن میں اجنبیہ کو دیکھنا ضروری ہوجاتاہے ۔مثلا کوئی مریضۃ کسی طبیب کے زیر علاج ہو،یاکوئی عورت کسی مقدمہ میں قاضی کے سامنے بحیثیت گواہ یا بحیثیت فریق پیش ہو،یاکسی آتش زدہ مقام میں کوئی عورت گھر گئی ہو یا پانی میں ڈوب رہی ہو،یا اس کی جان یا آبرو کسی خطرے میں مبتلاہو۔ایسی صورتوں میں چہرہ تو درکنار حسب ضرورت ستر کو بھی دیکھا جاسکتاہے ،جسم کو ہاتھ بھی لگایاجاسکتاہے ،بلکہ ڈوبتی ہوئی یا جلتی ہوئی عورت کو گود میں اٹھا کر لانا بھی صرف جائز ہی نہیں ،فرض ہے۔شارع کا حکم یہ ہے کہ ایسی صورتوں میں جہاں تک ممکن ہو اپنی نیت کو پاک رکھو۔لیکن اقتضائے بشریت سے اگر جذبات میں کوئی خفیف سی تحریک پیداہوجائے تب بھی کوئی گناہ نہیں ،کیونکہ ایسی نظر اور ایسے لمس کے لئے ضرورت داعی ہوئی ہے کہ فطرت کے مقتضیات کو بالکل روک دینے پر انسان قادر نہیں ہے۔(٣٤)

 

 اسی طرح اجنبی عورت کو نکاح کے لئے دیکھنا اور تفصیلی نظر کے ساتھ دیکھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ احادیث میں اس کا حکم وارد ہوا ہے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کے لئے عورت کودیکھا ہے۔

 

عن المغیرۃ ابن شعبۃ انہ خطب امراۃ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انظر الیھا فانہ امری ان یودم بینکما۔(٣٥)

 

''مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس کو دیکھ لو ،کیونکہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت و اتفاق پیداکرنے کے لئے مناسب تر ہوگا۔''(٣٦)

 

عن سھل ابن سعد ان امراۃ جائت الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت یا رسول اللہ جئت لاھب لک نفسی فنظر الیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصعد النظر الیھا۔

 

''سہل ابن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور بولی کہ میں اپنے آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دینے کے لئے آئی ہوں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھائی اور اس کو دیکھا''۔

 

عن ابی ھریرہ قال کنت عند النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاتاہ رجل فاخبرہ تزوج امراۃ من الانصار فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انظرت الیھما ؟قال لا،قال فاذھب فانظر الیھا فان فی اعین الانصار شیأا۔(٣٧)

 

''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا ۔ ایک شخص نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں نے انصار میں سے ایک عورت کے ساتھ نکاح کا ارادہ کیاہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکیا تونے اسے دیکھا ہے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا جا اور اس کو دیکھ لے،کیونکہ انصار کی آنکھوں میں عموما عیب ہوتاہے''۔

 

عن جابر ابن عبداللہ قا ل قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خطب احدکم امراۃ قال استطاع ان ینظر الی مایدعوہ الی نکاحھا فلیفعل۔(٣٨)

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو حتی الامکان اسے دیکھ لینا چاہئے کہ آیا اس میں کوئی چیز ہے جو اس کو اس عورت کے ساتھ نکاح کی رغبت دلانے والی ہو''۔

 

 ان مستثنیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ شارع کا مقصد دیکھنے کو کلیۃً روک دینا نہیں ہے بلکہ دراصل فتنے کا سد باب مقصود ہے اور اس غرض کے لئے صرف ایسے دیکھنے کو ممنوع قرار دیاگیا ہے جس کی کوئی حاجت بھی نہ ہو۔جس کا کوئی تمدنی فائدہ بھی نہ ہو اور جس میں جذبات شہوانی کو تحریک دینے کے اسباب بھی موجود ہوں۔

 

 یہ حکم جس طرح مردوں کے لئے ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے۔چنانچہ حدیث میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں۔اتنے میں حضرت ابن مکتوم آئے جو نابینا تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے پردہ کرو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟نہ وہ ہم کو دیکھیں گے نہ ہمیں پہچانیں گے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا،کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟کیا تم انہیں نہیں دیکھتی ہو؟(٣٩)

 مگر عورت کے مردوں کو دیکھنے اور مرد کے عورتوں کو دیکھنے میں نفسیات کے اعتبار سے ایک نازک فرق ہے۔مرد کی فطرت میں اقدام ہے،کسی چیز کو پسند کرنے کے بعد وہ اس کے حصول کی سعی میں پیش قدمی کرتاہے ۔مگر عورت کی فطرت میں تمانع اور فرار ہے،جب تک کہ اس کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہوجائے۔وہ کبھی اس قدر دراز دست اور جری اور بے باک نہیں ہوسکتی کہ کسی کو پسند کرنے کے بعد اس کی طرف پیش قدمی کرے۔شارع نے اس فرق کو ملحوظ رکھ کر عورتوں کے لئے غیر مردوں کو دیکھنے کے معاملہ میں وہ سختی نہیں کی ہے جو مردوں کے لئے غیر عورتوں کو دیکھنے کے معاملہ میں کی ہے۔چنانچہ احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت مشہور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے موقع پر ان کو حبشیوں کاتماشا دکھایاتھا۔ ١ ؎

 اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا مردوں کو دیکھنا مطلقا ممنوع نہیں ہے،بلکہ ایک مجلس میں مل کر بیٹھنا اور نظر جما کر دیکھنا مکروہ ہے اور ایسی نظر بھی جائز نہیں جس میں فتنے کا احتمال ہو۔وہی نابیناصحابی ،ابن مکتوم جن سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو پردہ کرنے کا حکم دیاتھا،ایک دوسرے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے گھر میں فاطمہ بنت قیس کو عدت بسر کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔قاضی ابوبکر ابن العربی نے اپنی احکام القرآن میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس ام شریک کے گھر میں عدت گزارناچاہتی تھیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس گھر میں لوگ آتے جاتے ہیں ،تم ابن مکتوم کے ہاں رہو کیونکہ وہ ایک اندھاآدمی ہے اور اس کے ہاں تم بے پردہ رہ سکتی ہو۔اس سے معلوم ہوا کہ اصل مقصد فتنے کے احتمالات کو کم کرنا ہے۔جہاں فتنے کااحتمال زیادہ تھا وہاں رہنے سے منع فرمادیا۔جہاں احتمال کم تھا وہاں رہنے کی اجازت دے دی،کیونکہ بہرحال اس عورت کو کہیں رہناضرور تھا۔لیکن جہاں کوئی حقیقی ضرورت نہ تھی وہاں خواتین کو ایک غیر مرد کے ساتھ ایک مجلس میں جمع ہونے اور روبرو اس کو دیکھنے سے روک دیا۔

 یہ سب مراتب حکمت پر مبنی ہیں اور جو شخص مغز شریعت تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتاہو وہ بآسانی سمجھ سکتاہے کہ غض بصر کے احکام کن مصالح پر مبنی ہیں اور ان مصالح کے لحاظ سے ان احکام میں شدت اور تخفیف کا مدار کن امور پر ہے۔شارع کا اصل مقصد تم کو


نوٹ:(١) یہ روایت بخاری اور مسلم اور نسائی اور مسند احمد وغیرہ میں کئی طریقوں سے آئی ہے۔بعض لوگوں نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ یہ واقعہ شائد اس وقت کا ہے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کمسن تھیں اور حجاب کے احکام نازل نہ ہوئے تھے۔مگر ابن حیان میں تصریح ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حبش کا ایک وفد مدینے آیا تھا اور تاریخ سے ثابت ہے کہ اس وفد کی آمد سنہ ٧ھ میں ہوئی ہے۔اس لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت پندرہ سولہ برس کی تھی۔نیز بخاری کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو چادر سے ڈھانکتے جاتے تھے۔اس سے ظاہر ہے کہ احکام حجاب بھی اس وقت نازل ہوچکے تھے۔

نظربازی سے روکنا ہے ،ورنہ اسے تمہاری آنکھوں سے کوئی دشمنی نہیںہے۔یہ آنکھیں ابتداء میں بڑی معصوم نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔نفس کا یہ شیطان ان کی تائید میں بڑے بڑے پرفریب دلائل پیش کرتاہے ۔ کہتاہے کہ یہ ذوق جمال ہے جو فطرت نے تم میں ودیعت کیاہے۔جمال فطرت کے دوسرے مظاہر و تجلیات کو جب تم دیکھتے ہو اور ان سے بہت ہی پاک لطف اٹھاتے ہو توجمال انسانی کو بھی دیکھو اور روحانی لطف اٹھاؤ مگر اندر ہی اندر یہ شیطان لطف اندوزی کی لے کو بڑھاتا چلاجاتاہے، یہاں تک کہ ذوق جمال ترقی کرکے شوق وصال بن جاتاہے۔کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کی جرات رکھتا ہو کہ دنیامیں جس قدر بدکاری اب تک ہوئی ہے اور اب ہورہی ہے اس کا پہلا اور سب سے بڑامحرک یہی آنکھوںکا فتنہ ہے؟کون یہ دعویٰ کر سکتاہے کہ اپنی صنف کے مقابل کے کسی حسین اور جوان فرد کو دیکھ کر اس میں وہی کیفیات پیداہوتی ہیں جو ایک خوب صورت پھول کو دیکھ کر ہوتی ہیں؟اگر دونوں قسم کی کیفیات میں فرق ہے اور ایک کے برخلاف دوسری کیفیت کم و بیش شہوانی کیفیت ہے تو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہوکہ ایک ذوق جمال کے لئے بھی وہی آزادی ہونی چاہئے جو دوسرے ذوق جمال کے لئے ہے؟شارع تمہارے ذوق جمال کو مٹانا تونہیں چاہتا وہ کہتاہے کہ تم اپنی پسند کے مطابق اپناایک جوڑا انتخاب کرلو۔اور جمال کا جتنا ذوق تم میں ہے اس کا مرکز صرف اسی ایک کو بنالو۔پھرجتنا چاہو اس سے لطف اٹھاؤ۔اس مرکز سے ہٹ کر دیدہ بازی کروگے تو فواحش میں مبتلاہوجاؤگے۔اگر ضبط نفس یا دوسرے موانع کی بناء پر آوارگی عمل میں مبتلانہ بھی ہوئے تو وہ آوارگی خیال سے کبھی نہ بچ سکو گے۔ تمہاری بہت سی قوت آنکھوں کے راستے ضائع ہوگی۔بہت سے ناکردہ گناہوں کی حسرت تمہارے دل کو ناپاک کرے گی۔باربار فریب محبت میں گرفتار ہوگے اور بہت سی راتیں بیداری کے خواب دیکھنے میں جاگ جاگ کر ضائع کروگے۔بہت سے حسین ناگوں اور ناگنوں سے ڈسے جاؤ گے۔تمہاری بہت سی قوت حیات دل کی دھڑکن اور خون کا ہیجان میں ضائع ہوجائے گی۔یہ نقصان کیا کچھ کم ہے ؟اور یہ سب اپنے مرکز دید سے ہٹ کر دیکھنے کا ہی نتیجہ ہے۔لہذا اپنی آنکھوں کو قابو میں رکھو۔بغیر حاجت کے دیکھنا اور ایسادیکھنا جو فتنے کا سبب بن سکتاہو،قابل عذر ہے۔اگر دیکھنے کی حقیقی ضرورت ہو یا اس کا کوئی تمدنی فائدہ ہو تو احتمال فتنہ کے باوجود دیکھنا جائز ہے اور اگر حاجت نہ ہو لیکن فتنے کابھی احتمال نہ ہو تو عورت کے لئے مرد کو دیکھنا جائز ہے مگر مرد کے لئے عورت کو دیکھنا جائز نہیں الا یہ کہ اچانک نظر پڑجائے۔

اظہار زینت کی ممانعت اور اس کے حدود

 

 غض بصر کا حکم عورت اور مرد دونوں کے لئے تھا۔اس کے چند احکام خاص عورتوں کے لئے ہیں۔ان میں سے پہلا حکم یہ ہے کہ ایک محدود دائرے کے باہر اپنی ''زینت ''کے اظہار سے پرہیزکرو۔

 اس حکم کے مقاصد اور اس کی تفصیلات پر غور کرنے سے پہلے ان احکام کو پھر ایک مرتبہ ذہن میں تازہ کرلیجئے جو اس سے پہلے لباس اور ستر کے باب میں بیان ہوچکے ہیں ۔چہرے اور ہاتھوں کے سوا عورت کا پوراجسم سترہے۔جس کو باپ،چچا،بھائی اور بیٹے تک کے سامنے کھولناجائز نہیں۔حتیٰ کہ عورت پر بھی عورت کا ستر کا کھلنا مکروہ ہے۔ ١؎

اس حقیقت کوپیش نظر رکھنے کے بعد اظہار زینت کے حدود ملاحظہ کیجئے۔

١۔ عورت کو اجازت دی گئی ہے کہ اپنی زینت کو ان رشتہ داروں کے سامنے ظاہر کرے :شوہر،باپ،خسر،بیٹے،سوتیلے بیٹے،بھائی ،بھتیجے اور بھانجے۔

٢۔ اس کو یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ اپنے غلاموں کے سامنے اظہار زینت کرے (نہ کہ دوسرے کے غلاموں کے سامنے)۔

٣۔ وہ ایسے مردوں کے سامنے بھی زینت کے ساتھ آسکتی ہے جو تابع یعنی زیردست اور ماتحت ہوں اور عورتوں کی طرف میلان و رغبت رکھنے والے مردوں میں سے نہ ہوں۔ ٢ ؎


نوٹ:(١)عورت کے لئے عورت کے جسم کا ناف سے گھٹنے تک حصہ کا دیکھنا اسی طرح حرام ہے جس طرح مرد کے لئے دوسرے مرد کا یہی حصہ جسم دیکھنا حرام ہے۔اس کے سوا باقی حصہ جسم کو دیکھنا اس کے لئے مکروہ ہے۔قطعی حرام نہیں ہے۔

نوٹ (٢)اس حکم کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں۔او التابعین غیر اولی الاربعۃ من الرجال،ای الاجراء والاتباع الذین لیسوا باکفاء وھومع ذلک فی عقولھم ولہ فلاھم لھم الی النساء ولایشتھونھن۔


 

 

٤۔ عورت ایسے بچوں کے سامنے بھی اظہار زینت کرسکتی ہے جن میں ابھی صنفی احساسات پیدانہ ہوئے ہوں۔قرآن میں او الطفل الذین لم یظھروا علی عورٰت النسآئ۔فرمایا گیاہے۔جس کالفظی ترجمہ یہ ہے کہ ''ایسے بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے آگاہ نہ ہوئے ہوں''۔

یعنی اس سے مراد مزدور،ملازم اور تابعدار مرد ہیں جو عورتوں کے ہمسر نہ ہوں۔نیز چالاک اور تیز قسم کے لوگ نہ ہوں بلک سیدھے سادھے لوگ ہیں جو عورتوں کی طرف شہوانی میلان نہ رکھتے ہوں۔(٤٠)

 شہوانی میلان نہ رکھنے کی دوصورتیں ممکن ہیں۔ایک یہ کہ ان میں سرے سے شہوت ہی مفقود ہو،جیسے بوڑھے لوگ،ناقص العقل،ابلہ یا پیدائشی مخنث۔دوسرے یہ کہ ان میں مردانہ قوت اور عورتوں کی طرف طبعی میلان موجود ہو تو مگر اپنی ماتحتی وزیردستی کی وجہ سے وہ اس شخص کے گھر کی عورتوں کے ساتھ کسی قسم کے شہوانی جذبات وابستہ نہ کرسکتے ہوں۔جس کے ہاں مزدور یا ملازم کی حیثیت سے وہ کام کرتے ہوں ،یا جس کے ہاں فقیر مسکین کی حیثیت سے وہ خیرات طلب کرنے کے لئے جایاکرتے ہوں۔

 اوالتابعین غیر اولی الاربۃ من الرجال کا اطلاق ان دونوں قسم کے آدمیوں پر ہوگا لیکن یہ اجازت دی جائے ،ان میں لازما یہ دوصفتیں موجودہونی چاہئیں۔ایک یہ کہ وہ اس گھر کے تابع ہوں جس کی عورتیں ان کے سامنے آرہی ہیں۔دوسرے یہ کہ وہ اس گھرکی عورتوں کے ساتھ شہوانی غرض وابستہ کرنے کا تصور بھی نہ کرسکتے ہوں اور یہ دیکھنا ہر خاندان کے قوام کا کام ہے کہ ایسے جن تابعین کو وہ گھر میں آنے کی اجازت دے رہاہے۔ان میں غیر الاولی الاربۃ ہونے کا جو گمان اس نے ابتداء کیا تھا وہ صحیح ثابت ہورہا ہے یا نہیں۔اگر ابتدائی اجازت کے بعد آگے چل کر کسی وقت یہ شبہ کرنے کی گنجائش نکل آئے کہ وہ اولی الاربۃ میں سے نہیںہیں تو اجازت منسوخ کردینی چاہئے۔اس معاملہ میں بہترین نظیر اس مخنث کی ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں آنے کی اجازت دے رکھی تھی،اور پھر ایک واقعہ کے بعد اس کو نہ صرف گھروں میں آنے سے روک دیا بلکہ مدینہ ہی سے نکال دیا۔

اس کا قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں ایک مخنث جو ازواج مطہرات کے پاس آجایاکرتاتھا۔ایک مرتبہ وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹھا ہوا ان کے بھائی حضرت عبداللہ سے باتیں کررہاتھا۔اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مکان میں داخل ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ وہ عبداللہ سے کہہ رہا تھا''اگر کل طائف فتح ہوگیا تو میں بادیہ بنت غیلان ثقفی کو تمہیں دکھاؤں گا جس کا حال یہ ہے کہ جب سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ میں چار بل نظر آتے ہیں اور جب پیچھے ہٹتی ہے تو آٹھ بل''اس کے بعد ایک شرمناک فقرے میں اس نے اس عورت کے ستر کی تعریف کی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ باتیں سن کر فرمایا:لقد غلغلت النظر الیھا یاعدواللہ(اے دشمن خدا تو نے اسے خوب نظریں گاڑکردیکھا ہے)پھر ازواج مطہرات سے فرمایا:میں دیکھتاہوں کہ یہ عورتوں کے احوال سے واقف ہے ،لہذا اب تمہارے پاس نہ آنے پائے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی بس نہ کیا بلکہ اسے مدینہ سے نکال کر بیداء میں رہنے کا حکم دیا کیونکہ اس نے بنت غیلان کے ستر کا جو نقشہ کھینچا تھا اس سے آپ نے اندازہ فرمایا کہ اس شخص کے زنانہ پن کی وجہ سے عورتیں اس کے ساتھ اتنی بے تکلف ہوجاتی ہیں جتنی ہم جنس عورتوں سے ہوسکتی ہیں اور اس طرح یہ ان کے اندرونی احوال سے واقف ہوکر ان کی تعریفیں مردوں کے سامنے بیان کرتاہے جس سے برے فتنے برپا ہوسکتے ہیں۔(٤١)

 

 

٥۔ اپنے میل جول کی عورتوں کے سامنے بھی عورت کا زینت کے ساتھ آنا جائز ہے۔قرآن میں النساء (عورتوں)کے الفاظ نہیں کہے گئے بلکہ نسائھن (اپنی عورتوں)کے الفاظ کہے گئے ہیں۔اس سے ظاہر ہواکہ شریف عورتیں ،یا اپنے کنبے یا رشتے ،یااپنے طبقے کی عورتیں مراد ہیں۔ان کے ماسوا غیر عورتیں،جن میں ہر قسم کی مجہول الحال ،اور مشتبہ چال چلن والیاں ،اور آوارہ و بدنام سب ہی شامل ہوتی ہیں،اس اجازت سے خارج ہیں۔کیونکہ وہ بھی فتنہ کا سبب بن سکتی ہیں۔اسی بناء پر جب شام کے علاقہ میں مسلمان گئے اور ان کی خواتین وہاں کی نصرانی اور یہودی عورتوں کے ساتھ بے تکلف ملنے لگیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امیر شام حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کو لکھا کہ مسلمان عورتوں کو اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے سے منع کردو۔(٤٢)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تصریح کی ہے کہ ''مسلمان عورت کفار اور اہل الذمہ کی عورتوں کے سامنے اس سے زیادہ ظاہر نہیں ہوسکتی جو اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر ہوسکتی ہے۔(٤٣)

 اس سے کوئی مذہبی امتیاز مقصود نہ تھا بلکہ مسلمان عورتوں کو ایسی عورتوں کے اثرات سے بچانا مقصود تھا جن کے اخلاق اور تہذیب کا صحیح حال معلوم نہ ہو،یا جس حد تک معلوم ہو وہ اسلامی نقطہ نظر سے قابل اعتراض ہو۔رہیں وہ غیرمسلم عورتیں جو شریف اور باحیا اور نیک خصلت ہوں تو وہ نسآئھن ہی میں شمار ہوں گی۔

ان حدود پر غور کرنے سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں:

 ایک یہ کہ جس زینت کے اظہار کی اجازت اس محدود حلقہ میں دی گئی ہے وہ ستر عورت کے ماسواہے۔اس سے مراد زیور پہننا،اچھے ملبوسات سے آراستہ ہونا،سرما اور حنا اور بالوں کی آرائش اور دوسری وہ آرائشیں ہیں جو عورتیں اپنی انوثت کے اقتضاء سے اپنے گھر میں کرنے کی عادی ہوتی ہیں۔

 دوسرے یہ کہ اس قسم کی آرائشوں کے اظہار کی اجازت یا تو ان مردوں کے سامنے دی گئی ہے جن کو ابدی حرمت نے عورتوں کے لئے حرام کردیاہے یا ان لوگوں کے سامنے جن کے اندر صنفی میلانات نہیں ہیں،یا ان کے سامنے جو فتنے کا سبب نہ بن سکتے ہوں۔چنانچہ عورتوں کے لئے نسائھن کی قید ہے۔تابعین کے لئے غیر اولی الاربۃ کی اور بچوںکے لئے لم یظھروا علی عورات النساء کی۔اس سے معلوم ہوا کہ شارع کا منشا ء عورتوںکے اظہار زینت کو ایسے حلقہ میں محدود کرناہے جس میں ان کے حسن اور ان کی آرائش سے کسی قسم کے ناجائز جذبات پیداہونے اور صنفی انتشار کے اسباب فراہم ہوجانے کا اندیشہ نہیں ہے۔

 اس حلقے کے باہر جتنے مرد ہیں ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ ان کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کرو،بلکہ چلنے میں پاؤں بھی اس طرح نہ مارو کہ چھپی ہوئی زینت کا حال آواز سے ظاہر ہو اور اس ذریعہ سے توجہات تمہاری طرف منعطف ہوں۔اس فرمان میں جس زینت کو اجانب سے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے ۔یہ وہی زینت ہے جس کوظاہر کرنے کی اجازت اوپر کے محدود حلقہ میںدی گئی ہے۔مقصود بالکل واضح ہے۔عورتیں اگر بن ٹھن کر ایسے لوگوں کے سامنے آئیں گی جو صنفی خواہشات رکھتے ہیں اور جن کے داعیات نفس کو ابدی حرمت نے پاکیزہ اور معصوم جذبات سے مبدل بھی نہیں کیا ہے تولامحالہ اس کے اثرات وہی ہوں گے جو مقتضائے بشریت ہیں۔یہ کوئی نہیں کہتا کہ ایسے اظہار زینت سے ہر عورت فاحشہ ہی ہوکررہے گی اور ہر مردبالفعل بدکار ہی بن کررہے گا۔مگر اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ زینت و آرائش کے ساتھ عورتوں کے علانیہ پھرنے اور محفلوں میں شریک ہونے سے بے شمار جلی اور خفی ،نفسانی اور مادی نقصانات رونماہوتے ہیں۔آج یورپ اور امریکہ کی عورتیں اپنی اور اپنے شوہروں کی آمدنی کا بیشتر حصہ اپنی آرائش پر خرچ کررہی ہیں ۔اور روز بروز انکا یہ خرچ اتنا بڑھتاچلا جارہا ہے کہ ان کے معاشی وسائل اس کے تحمل کی قوت نہیں رکھتے۔ ١؎

(١) حال ہی میں کیمیائی سامان بنانے والوں کی نمائش ہوئی تھی جس میں ماہرین کے بیانات سے معلوم ہوا کہ انگلستان کی عورتیں اپنے سنگھار پر دو کروڑ پونڈ اور امریکہ کی عورتیں ساڑھے بارہ کروڑ پونڈ سالانہ خرچ کرتی ہیں اور قریب قریب ٩٠ فیصدی عورتیں کسی نہ کسی طریقہ کے Make up کی خوگر ہیں۔

 

 کیا یہ جنون انہیں پر شوق نگاہوں نے پیدانہیں کیا جو بازاروں اور دفتروں اور سوسائٹی کے اجتماعات میں آراستہ خواتین کا استقبال کرتی ہیں؟ پھر غور کیجئے کہ آخر عورتوں کی آرائش کا اس قدر شوق پیداہونے اور طوفان کی طرح بڑھنے کاسبب کیا ہے؟یہی نا کہ وہ مردوں سے خراج تحسین وصول کرنا اور ان کی نظروں میں کھب جانا چاہتی ہیں۔ ٢؎

 (٢) خوبصورت بننے کا جنون عورتوں میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اس کی خاطر وہ اپنی جانیں تک دے رہی ہیں۔ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہلکی پھلکی گڑیا سی بن کررہیں اور ان کے جسم پر ایک اونس بھی ضرورت سے زیادہ گوشت نہ ہو۔خوبصورتی کے لئے پنڈلی ،ران اور سینہ کے جو ناپ ماہرین نے مقرر کردیئے ہیں ،ہر لڑکی اپنے آپ کو اس پیمانہ کے اندر رکھنا چاہتی ہے۔گویا اس کم بخت کی زندگی کا کوئی مقصد دوسروں کی نگاہوں کے سامنے مرغوب بننے کے سوا نہ رہا۔اس مقصد کےلئے یہ بیماریاں فاقے کرتی ہےں،جسم کو نشوونما دینے والی غذا ؤں سے قصدا اپنے آپ کو محروم رکھتی ہیں،لیموں کے رس،تلخ قہوہ اور ایسی ہی ہلکی غذاؤں پر جیتی ہیں اور طبی مشورے کے بغیر ،بلکہ اس کے خلاف ایسی دوائیں استعمال کرتی ہیں جو انہیں دبلا کریں۔(بقیہ اگلے صفحہ پر)

 یہ کس لئے ؟کیا یہ بالکل ہی معصوم جذبہ ہے؟کیا اس کی تہ میں وہ صنفی خواہشات چھپی ہوئی نہیں جو اپنے فطری دائرے سے نکل کر پھیل جانا چاہتی ہیں اور جن کے مطالبات کاجواب دینے کے لئے دوسری جانب بھی ویسی خواہشات موجود ہیں؟اگر آپ اس


اس جنون کی خاطر بہت سی عورتوں نے اپنی جانیں دی ہیں،اور دے رہی ہیں۔١٩٣٧ء میں بوڈاپسٹ کی مشہور ایکٹرس جوسی لاباس یکایک حرکت قلب بندہونے کی وجہ سے مرگئی ۔بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ کئی سال سے قصدا نیم فاقہ کشی کی زندگی بسر کررہی تھی اور جسم گھٹانے کی پیٹنٹ دوائیں استعمال کئے جاتی تھی۔آخر اس کی قوت نے یکایک جواب دے دیا۔

 اس کے بعد پے در پے بواپسٹ ہی میں تین اور ایسے ہی حادثے پیش آئے۔ماگدار برمیلی جو اپنے حسن اور کمالات کے لئے تمام ہنگری میں مشہور تھی،اسی ''ہلکے پن''کے شوق کی نذر ہوئی۔پھر ایک مغنیہ لوئیسا زابوجس کے گانوں کی ہرطرف دھوم تھی، ایک رات عین اسٹیج پر اپناکام کرتی ہوئی ہزارہاناظرین کے سامنے غش کھاکر گرپڑی۔اس کو یہ غم کھائے جاتاتھا کہ اس کا جسم موجودہ زمانے کے معیار حسن پر پورانہیں اترتا۔اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے بیچاری نے مصنوعی تدبیریں اختیار کرنا شروع کیں اور دو مہینے میں ٦٠ پونڈ وزن کم کرڈالا۔نتیجہ یہ ہوا کہ دل حدسے زیادہ کمزور ہوگیا اور ایک دن وہ بھی خریداران حسن کی بھینٹ چڑھ کررہی۔ اس کے بعد ایمولانامی ایک اور ایکٹرس کی باری آئی اور اس نے مصنوعی تدبیروں سے اپنے آپ کو اتنا ہلکا کیاکہ ایک مستقل دماغی مرض میں مبتلاہوگئی۔اور اسٹیج کے بجائے اسے پاگل خانے کی راہ لینی پڑی۔اس قسم کی مشہور شخصیتوں کے واقعات توا خباروں میں آجاتے ہیں مگر کون جانتا ہے کہ یہ حسن اور معشوقیت کاجنون جو گھر گھر پھیلاہوا ہے روزانہ کتنی صحتوں اور کتنی زندگیوں کوتباہ کرتاہوگا؟ کوئی بتائے کہ یہ عورتوں کی آزادی ہے یا ان کی غلامی؟اس نام نہاد آزادی نے تو ان پر مردوں کی خواہشات کا استبداد اور زیادہ مسلط کردیاہے۔اس نے تو ان کو ایساغلام بنایاہے کہ وہ کھانے پینے اور تندرست رہنے کی وجہ سے بھی محروم ہوگئیں ۔ان غریبوں کاتوجینا اورمرنااب بس مردوں ہی کے لئے رہ گیا ہے۔

 

سے انکار کریں گے تو شاید کل آپ یہ دعویٰ کرنے میں بھی تامل نہ کریں کہ جوالامکھی پہاڑ پر جو دھواں نظر آتاہے اس کی تہ میں کوئی لاواباہر نکلنے کے لئے بے تاب نہیں ہے۔آپ اپنے عمل کے مختار ہیں جو چاہے کیجئے ۔مگر حقائق سے انکار نہ کیجئے۔یہ حقیقتیں اب کچھ مستور بھی نہیں رہیں سامنے آچکی ہیں اور اپنے آفتاب سے زیادہ روشن نتائج کے ساتھ آچکی ہےں۔آپ ان نتائج کو دانستہ یا نادانستہ قبول کرتے ہیں،مگر اسلام ان کو ٹھیک اسی مقام پر روک دینا چاہتاہے جہاں سے ان کے ظہور کی ابتداہوتی ہے کیونکہ اس کی نظراظہارزینت کے بظاہر معصوم آغاز پر نہیں بلکہ اس نہایت غیرمعصوم انجام پر ہے جو تمام سوسائٹی پر قیامت کی سی تاریکی لے کر پھیل جاتاہے۔

 

''مثل الوافلۃ الذینہ فی غیر اھلھا کمثل ظلمۃ یوم القیامۃ لا نورلھا۔''

 

''اجنبیوں میں زینت کے ساتھ ناز و انداز سے چلنے والی عورت ایسی ہے جیسے روز قیامت کی تاریکی کہ اس میں کوئی نور نہیں''۔(٤٤)

 

 قرآن میں جہاں اجنبیوں کے سامنے زینت کا اظہار کرنے کی ممانعت ہے۔وہاں ایک استثناء بھی ہے ۔الا ماظھر منھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی زینت کے ظاہر ہونے میں کوئی مضائقہ نہین ہے جو خود ظاہر ہوجائے۔لوگوں نے اس استثناء سے بہت کچھ فائدے اٹھانے کی کوشش کی ہے۔مگر مشکل یہ ہے کہ ان الفاظ میں کچھ زیادہ فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔شارع صرف یہ کہتاہے کہ تم اپنے ارادہ سے غیروں کے سامنے اپنی زینت ظاہر نہ کرو،لیکن جو زینت خود ظاہر ہوجائے یا اضطرار اً ظاہر ہی رہنے والی ہو اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔مطلب صاف ہے تمہاری نیت اظہار زینت کی نہ ہونی چاہئے ۔تم میں یہ جذبہ ،یہ ارادہ ،ہرگز نہ ہونا چاہئے۔کہ اپنی آرائش غیروں کودکھاؤ اور کچھ نہیں تو چھپے ہوئے زیوروں کی جھنکار ہی سناکر ان کی توجہ اپنی طرف مائل کرو۔تم کو اپنی طرف سے تو اخفائے زینت کی اختیاری کوشش کرنی چاہئے۔پھر اگر کوئی چیز اضطراراً کھل جائے تو اس پر خدا تم سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا۔تم جن کپڑوں میں زینت کو چھپاؤ گی وہ تو بہرحال ظاہر ہی ہوں گے۔تمہارا قد و قامت ،تناسب جسمانی،ڈیل ڈول تو ان میں محسوس ہوگا۔کسی ضرورت یا کام کاج لئے کبھی ہاتھ یا چہرے کا کوئی حصہ تو کھولنا ہی پڑے گا۔کوئی حرج نہیں اگرایساہو۔تمہاری نیت اس کے اظہار کی نہیں ۔تم اس کے اظہار پر مجبور ہو۔اگر ان چیزوں سے بھی کوئی کمینہ لذت لیتاہے تولیاکرے۔اپنی بدنیتی کی سزا خود بھگتے گا۔جتنی ذمہ داری تمدن اور اخلاق کی خاطر تم پر ڈالی گئی تھی۔اس کو تم نے اپنی حد تک پوراکردیا۔

 یہ ہے صحیح مفہوم اس آیت کا۔مفسرین کے درمیان اس کے مفہوم میں جتنے اختلافات ہیں،ان سب پر جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ تمام اختلافات کے باوجود ان کے اقوال کا مدعا وہی ہے جو ہم نے بیان کیاہے۔

 ابن مسعود،ابراہیم نخعی،اور حسن بصری کے نزدیک زینت ظاہرہ سے مراد وہ کپڑے ہیں جن میں زینت باطنہ کو چھپایا جاتاہے،مثلا برقع یا چادر۔

 ابن عباس،مجاہد،عطا ابن عمر،انس،ضحاک،سعید ابن جبیر،اوزاعی اور عامہ حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں اور وہ اسباب زینت بھی اس استثناء میں داخل ہیں جو چہرے اور ہاتھ میں عادتاً ہوتے ہیں مثلا ہاتھ کی حنا اور انگوٹھی اور آنکھوں کا سرمہ وغیرہ۔

 سعید بن المسیب کے نزدیک صرف چہرہ مستثنیٰ ہے اور ایک قول حسن بصری سے بھی ان کی تائید میں منقول ہے۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چہرہ چھپانے کی طرف مائل ہیں ۔ان کے نزدیک زینت ظاہرہ سے مراد ہاتھ اور چوڑیاں ،کنگن اور انگوٹھیاں ہیں۔

 مسور بن مخزمہ اور قتادہ ہاتھوں کو ان کی زینت سمیت کھولنے کی اجازت دیتے ہیں مگر چہرے کے باب میں ان کے اقوال سے ایسا متبادر ہوتاہے کہ پورے چہرے کے بجائے وہ صرف آنکھیں کھولنے کو جائز رکھتے ہیں۔(٤٥)

 

 ان اختلافات کے منشاء پر غور کیجئے ۔ان سب مفسرین نے الا ما ظھر منھا سے یہی سمجھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی زینت کو ظاہر کرنے کی اجازت دیتاہے جو اضطراراً ظاہر ہوجائے یا جس کو ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آجائے۔چہرے اور ہاتھوں کی نمائش کرنا یا ان کو مطمح انظار بنانا ان میں سے کسی کا بھی مقصود نہیں۔ہر ایک نے اپنے فہم اور عورتوں کو ضروریات کے لحاظ سے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ضرورت کس حد تک کس چیز کو بے حجاب کرنے کے لئے داعی ہوتی ہے ،یاکیا چیز اضطراراً کھل سکتی ہے،یا عادتاً کھلتی ہے۔ہم کہتے ہیں کہ آپ الا ما ظھر منھا کو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی مقید نہ کیجئے۔ایک مومن عورت جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی سچے دل سے پابند رہنا چاہتی ہے ،اور جس کو فتنے میں مبتلا ہونا منظور نہیں ہے،وہ خود اپنے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے فیصلہ کرسکتی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کھولے یا نہیں،کب کھولے اور کب نہ کھولے،کس حد تک کھولے اور کس حد تک نہ چھپائے۔اس باب میں قطعی احکام نہ شارع نے دیئے ہیں ،نہ اختلاف احوال و ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ مقتضائے حکمت ہے کہ قطعی احکام وضع کئے جائیں۔جو عورت اپنی حاجات کے لئے باہر جانے اور کام کاج کرنے پر مجبور ہے۔اس کو کسی وقت ہاتھ بھی کھولنے کی ضرورت پیش آئے گی اور چہرہ بھی۔ایسی عورت کے لئے بلحاظ ضرورت اجازت ہے اور جس عورت کا حال یہ نہیں ہے اس کے لئے بلاضرورت قصداً کھولنا درست نہیں۔پس شارع کا مقصد یہ ہے کہ اپناحسن دکھانے کے لئے اگر کوئی چیز بے حجاب کی جائے تو یہ گناہ ہے۔خود بخود ارادہ کچھ ظاہر ہوجائے تو کوئی گناہ نہیں۔حقیقی ضرورت اگر کچھ کھولنے پر مجبور کرے تو اس کا کھولنا جائے ہے۔اب رہا یہ سوال کہ اختلاف احوال سے قطع نظر کرکے نفس چہرہ کا کیا حکم ہے؟شارع اس کے کھولنے کو پسند کرتاہے یا ناپسند؟اس کے اظہار کی اجازت محض ناگزیر ضرورت کے طور پر دی گئی ہے یا اس کے نزدیک چہرہ غیروں سے چھپانے کی چیز ہی نہیں ہے؟ان سوالات پر سورہ ئاحزاب والی آیت میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔

 

 

 

 

چہرے کا حکم

 

سورہ ئاحزاب کی جس آیت کا ذکر اوپر کیاگیا ہے،اس کے الفاظ یہ ہیں:۔

 

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً ۔

 

''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں۔یہ بات زیادہ متوقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گے اورانہیں ستایا نہ جائے گا۔''۔(٤٦)

 

 یہ آیت خاص چہرے کو چھپانے کے لئے ہے۔جلابیب جمع ہے جلباب کی جس کے معنی چادر کے ہیں۔''ادنائ'' کے معنی ''ارخائ'' یعنی لٹکانے کے ہیں۔

 

 یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ''اپنے اوپر اپنی چادروں میں سے ایک حصہ لٹکالیاکریں''۔ یہی مفہوم گھونگھٹ ڈالنے کا ہے۔مگر اصل مقصد وہ خاص وضع نہیں ہے جس کو عرف عام میں گھونگھٹ سے تعبیر کیاجاتاہے بلکہ چہرے کو چھپانا مقصود ہے،خواہ گھونگھٹ سے چھپایا جائے یا نقاب سے یا کسی اور طریقے سے۔اس کا فائدہ یہ بتایاگیاہے کہ جب مسلمان عورتیں اس طرح مستور ہوکرباہر نکلیں گی تو لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ شریف عورتیں ہیں،بے حیانہیں ہیں،اس لئے کوئی ان سے تعرض نہ کرے گا۔

 

 قرآن مجید کے تمام مفسرین نے اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:''اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادروں کے دامن لٹکاکر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیاکریں۔(٤٧)

 

 امام محمد سیرین نے حضرت عبیدہ بن سفیان بن الحارث الحضرمی سے دریافت کیا کہ اس حکم پر عمل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟انہوں نے چادر اوڑھ کر بتایا اور اپنی پیشانی اور ناک اور ایک آنکھ کو چھپاکر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔(٤٨)

علامہ ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:

 

''اے نبی !اپنی بیویوں،بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ جب اپنے گھروں سے کسی حاجت کے لئے نکلیں تو لونڈیوں کے سے لباس نہ پہنیں کہ سر اور چہرے کھلے ہوئے ہوں بلکہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان سے تعرض نہ کرسکے اور سب جان لیں کہ وہ شریف عورتیں ہیں''۔(٤٩)

 

علامہ ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:

 

''یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جوان عورت کو اجنبیوں سے چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت پردہ داری اور عفت مابی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ بدنیت لوگ اس کے حق میں طمع نہ کرسکیں''۔(٥٠)

 

علامہ نیشاپوری اپنی تفسیر غرائب القرآن میں لکھتے ہیں:

 

''ابتدائے عہداسلام میں عورتیں زمانہ جاہلیت کی طرح قمیص اور دوپٹے کے ساتھ نکلتی تھیں اور شریف عورتوں کا لباس ادنی درجہ کی عورتوں سے مختلف نہ تھا۔پھر حکم دیاگیا کہ وہ چادریں اوڑھیں اور اپنے سر اور چہرے کوچھپائیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ شریف عورتیں ہیں فاحشہ نہیں ہیں''۔(٥١)

 

امام رازی لکھتے ہیں:

 

''جاہلیت میں اشراف کی عورتیں اور لونڈیاں سب کھلی پھرتی تھیں اور بدکار لوگ ان کا پیچھا کیاکرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے شریف عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اوپر چادر ڈالیں اور یہ فرمایاذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ تو اس کے دومفہوم ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ اس لباس سے پہچان لیا جائے گا کہ وہ شریف عورتیں ہیں اور ان کا پیچھا نہ کیا جائے گا۔دوسرے یہ کہ اس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ بدکار نہیں ہیں۔کیونکہ جو عورت چہرہ چھپائے گی،درآنحالیکہ چہرہ عورت ١؎ نہیں ہے جس کا چھپانا فرض ہو،توکوئی شخص اس سے یہ توقع نہ کرے گا کہ ایسی شریف عورت کشف ''عورت''پر آمادہ ہوجائے گی ۔پس اس لباس سے ظاہر ہوجائے گا کہ وہ ایک پردہ دار عورت ہے اور اس سے بدکاری کی توقع نہ کی جاسکے گی۔(٥٢)

 

قاضی بیضاوی لکھتے ہیں:

 

'' یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ یعنی جب وہ اپنی حاجات کے لئے باہر نکلیں تو اپنی چادروں سے اپنے چہروں اور اپنے جسموں کوچھپالیں۔یہاں لفظ من تبعیض کے لئے ہے۔یعنی چادروں کے ایک حصہ کو منہ پر ڈالاجائے اورا یک حصہ کو جسم پر لپیٹ لیاجائے ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ یعنی اس سے ان کے اور لونڈیوں اور مغنیات کے درمیان تمیز ہوجائے گی فَلَا یُؤْذَیْْنَ ۔اور مشتبہ چال چلن کے لوگ اس سے تعرض کی جرات نہ کرسکیں گے''۔(٥٣)

 

 ان اقوال سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے مبارک دور سے لے کر آٹھویں صدی تک ہر زمانے میں اس آیت کا ایک ہی مفہوم سمجھا گیا اور وہ مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ سے ہم نے سمجھا ہے۔اس کے بعد احادیث کی طرف رجوع کیجئے تووہاں بھی معلوم ہوتاہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد سے عہد نبوی میں عام طور پر مسلمان عورتیں اپنے چہروں پر نقاب ڈالنے لگی تھیں اور کھلے چہروں


(نوٹ١)عورت اصطلاح میں جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جس کو بیوی یا شوہر کے سوا ہر ایک سے چھپانے کاحکم ہے،مرد کے جسم کا بھی وہ حصہ جو ناف اور گھٹنے کے درمیان ہے،اس معنی میں عورت ہی ہے۔

کے ساتھ پھرنے کا رواج بند ہوگیا تھا۔ابوداؤد،ترمذی،موطا اور دوسری کتب حدیث میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کوحالت احرام میں چہروں پر نقاب ڈالنے اور دستانے پہننے سے منع فرمادیاتھا۔

 

'' المحرمۃ لاتنتقب ولاتلبس القفازین،ونھی النساء فی احرامھن عن القفازین والنقاب''(٥٤)

 

 اس سے صاف طور پر ثابت ہوتاہے کہ اس عہد مبارک میں چہروں کو چھپانے کے لئے نقاب اور ہاتھوں کو چھپانے کے لئے دستانوں کا عام رواج ہوچکاتھا۔صرف احرام کی حالت میں اس سے منع کیاگیا۔مگر اس سے بھی یہ مقصد نہ تھاکہ حج میں چہرے منظر عام پرپیش کئے جائیں،بلکہ دراصل مقصد یہ تھا کہ احرام کی فقیرانہ وضع میں نقاب عورت کے لباس کا جزو نہ ہو،جس طرح عام طور پر ہوتاہے۔چنانچہ دوسری احادیث میں تصریح کی گئی ہے کہ حالت احرام میں بھی ازواج مطہرات اور عام خواتین اسلام نقاب کے بغیر اپنے چہروں کو اجانب سے چھپاتی تھیں۔

 

ابو داؤد میں ہے:

 

''عن عائشۃ قالت کان الرکبان یمرون بناونحن مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محرمات فاذاحازوا بناسلت احدانا جلبابھا من راسھاعلی وجھھا فاذاجاوزنا کشفنا''۔(٥٥)

 

''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تھے اور ہم عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت احرام میں ہوتی تھیں۔پس جب وہ لوگ ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنی چادریں اپنے سروں کی طرف سے اپنے چہرو ں پر ڈال لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو منہ کھول لیتی تھیں''۔

 

موطا امام مالک میںہے:

 

''عن فاطمۃ بنت المنذ ر قالت کنا نغمر وجوھنا ونحن محرمات ونحن مع اسماء بنت ابی بکر الصدیق فلاتنکرہ علینا''۔

 

''فاطمۃ بنت منذر کا بیان ہے کہ ہم حالت احرام میں اپنے چہروں پر کپڑاڈال لیا کرتی تھیں۔ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی حضرت اسمارضی اللہ عنہا تھیں۔انہوں نے ہم کو اس سے منع نہیں کیا(یعنی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ احرام کی حالت میں نقاب استعمال کرنے کی جو ممانعت ہے اس کا اطلاق ہمارے اس فعل پر ہوتاہے''۔

 

فتح الباری ،کتاب الحج میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت ہے:

 

''تستدل المراۃ جلبابھا من فوق راسھا علی وجھھا۔''

 

''عورت حالت احرام میں اپنی چادر اپنے سر پر سے چہرے پر لٹکالیاکرے''۔

 

نقاب

 

 جو شخص آیت قرآنی کے الفاظ اور ان کی مقبول عام اور متفق علیہ تفسیر اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعامل کو دیکھے گا اس کے لئے اس حقیقت سے انکار کی مجال باقی نہ رہے گی کہ شریعت اسلامیہ میں عورت کے لئے چہرے کو اجانب سے مستور رکھنے کا حکم ہے اور اس پر خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے عمل کیا جارہاہے۔نقاب اگر لفظاً نہیں تو معنی و حقیقۃ خود قرآن عظیم کی تجویز کردہ چیز ہے۔جس ذات مقدس پر قرآن نازل ہواتھا اس کی آنکھوں کے سامنے خواتین اسلام نے اس چیز کو اپنے خارج البیت لباس کا جزو بنایاتھا اور اس زمانہ میں بھی اس چیز کا نام ''نقاب ''ہی تھا۔

 جی ہاں! یہ وہی ''نقاب''(Veil) ہے جس کو یورپ انتہا درجہ کی مکروہ اور گھناؤنی چیز سمجھتا ہے ،جس کا محض تصور ہی فرنگی ضمیر پر ایک بار گراں ہے،جس کو ظلم اور تنگ خیالی اور وحشت کی علامت قرار دیاجاتاہے۔ہاں یہ وہی چیز ہے جس کا نام کسی مشرقی قوم کی جہالت اور تمدنی پسماندگی کے ذکر میں سب سے پہلے لیا جاتاہے اور جب یہ بیان کرناہوتاہے کہ کوئی مشرقی قوم تمدن و تہذیب میں ترقی کررہی ہے تو سب سے پہلے جس بات کا ذکر بڑے انشراح و انبساط کے ساتھ کیا جاتاہے وہ یہی ہے کہ اس قوم سے ''نقاب''رخصت ہوگئی ہے۔اب شرم سے سرجھکالیجئے کہ یہ چیز بعد کی ایجاد نہیں ،خود قرآن نے اس کو ایجاد کیا ہے او رمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کو رائج کرگئے ہیں۔مگر محض سرجھکانے سے کام نہ چلے گا۔شتر مرغ اگر شکاری کو دیکھ کر ریت میں سر چھپالے تو شکاری کا وجود باطل نہیں ہوجاتا۔آپ بھی اپنا سر جھکائیں گے تو سر ضرور جھک جائے گا مگر قرآن کی آیت نہ مٹے گی،نہ تاریخ سے ثابت شدہ واقعات محو ہوجائیں گے ۔تاویلات سے اس پر پردہ ڈالئے گا تو یہ ''شرم کا داغ''اور زیادہ چمک اٹھے گا۔جب وحی مغربی پر ایمان لاکر آپ اس کو ''شرم کا داغ'' مان ہی چکے ہیں ،تو اس کو دور کرنے کی اب ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اس اسلام ہی سے اپنی برات کاا علان فرمادیں جو نقاب،گھونگھٹ ، ستر وجوہ جیسی''گھناؤنی'' چیز کا حکم دیتاہے۔آپ ہیں ''ترقی''کے خواہشمند۔آپ کو درکار ہے ''تہذیب''آپ کے لئے وہ مذہب کیسے قابل اتباع ہوسکتاہے جو خواتین کو شمع انجمن بننے سے روکتاہو،حیا اور پردہ داری اور عفت مابی کی تعلیم دیتاہو،گھر کی ملکہ کو اہل خانہ کے سوا ہر ایک کے لئے قرۃ العین بننے سے منع کرتاہو،بھلا ایسے مذہب میں ''ترقی''کہاں!ایسے مذہب کو تہذیب سے کیا واسطہ!''ترقی'' اور ''تہذیب'' کے لئے ضروری ہے کہ عورت ۔۔۔۔۔۔۔نہیں لیڈی صاحبہ ۔۔۔۔۔۔۔باہر نکلنے سے پہلے دوگھنٹے تک تمام مشاغل سے دست کش ہوکر صرف اپنی تزئین و آرائش میں مشغول ہوجائیں،تمام جسم کو معطر کریں،رنگ اور وضع کی مناسبت سے انتہادرجہ کاجاذب نظر لباس زیب تن فرمائیں،مختلف قسم کے غازوں سے چہرے اور بانہوں کی تنویربڑھائیں،ہونٹوں کو لپ اسٹک سے مزین کریں ،کمان ابرو کو درست اور آنکھوں کو تیراندازی کے لئے چست کر لیں اور ان سب کرشموں سے مسلح ہوکرگھرسے باہر نکلیں تو شان یہ ہو کہ ہر کرشمہ دامن دل کوکھینچ کھینچ کر ''جاایں جااست''کی صدالگارہاہو!پھر اس سے بھی ذوق خود آرائی کی تسکین نہ ہو ،آئینہ اور سنگھار کا سامان ہر وقت ساتھ رہے تاکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسباب زینت کے خفیف ترین نقصانات کی بھی تلافی کی جاتی رہے۔

 جیسا کہ ہم باربار کہہ چکے ہیں ،اسلام اور مغربی تہذیب کے مقاصد میں بعد المشرقین ہے اور وہ شخص سخت غلطی کرتاہے جو مغربی نقطہ نظر سے اسلامی احکام کی تعبیر کرتاہے۔مغرب میں اشیاء کی قدروقیمت کاجو معیار ہے ،اسلام کا معیار اس سے بالکل مختلف ہے۔مغرب جن چیزوں کونہایت اہم اور مقصود حیات سمجھتا ہے،اسلام کی نگاہ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں۔اور اسلام جن چیزوں کو اہمیت دیتاہے ،مغرب کی نگاہ میں وہ بالکل بے قیمت ہیں۔اب جو مغربی معیارکاقائل ہے ،اس کو تو اسلام کی ہرچیز قابل ترمیم ہی نظر آئے گی۔وہ اسلامی احکام کی تعبیر کرنے بیٹھے گا تو ان کی تحریف کرڈالے گا اور تحریف کے بعد بھی ان کو اپنی زندگی میں کسی طرح نصب نہ کرسکے گا۔کیونکہ قدم قدم پر قرآن اور سنت کی تصریحات اس کی مزاحمت کریں گی۔ایسے شخص کو عملی طریقوں کے جزئیات پر نظر ڈالنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ جن مقاصد کے لئے ان طریقوں کو اختیار کیاگیا ہے وہ خود کہاں تک قابل قبول ہیں۔اگر وہ مقاصد ہی سے اتفاق نہیں رکھتا تو حصول مقاصد کے طریقوں پر بحث کرنے اور ان کو مسخ ومحرف کرنے کی فضول زحمت کیوں اٹھائے؟کیوں نہ اس مذہب ہی کو چھوڑ دے جس کے مقاصد کو وہ غلط سمجھتا ہے؟ اور اگر اسے مقاصد سے اتفاق ہے تو بحث صرف اس میں رہ جاتی ہے کہ ان مقاصد کے لئے جو عملی طریقے تجویز کئے گئے ہیں وہ مناسب ہیں یا نامناسب اورا س بحث کو بآسانی طے کیاجاسکتاہے۔

 لیکن طریقہ صرف شریف لوگ ہی اختیار کرسکتے ہیں۔رہے منافقین ،تو وہ خدا کی پیداکی ہوئی مخلوقات میں سب سے ارذل مخلوق ہیں۔ان کو یہی زیب دیتاہے کہ دعویٰ ایک چیز پر اعتقاد رکھنے کاکریں اور درحقیقت اعتقاد دوسری چیز پر رکھیں۔

 نقاب اور برقع کے مسئلہ میں جس قدر بحثیں کی جارہی ہیں وہ دراصل اسی نفاق پر مبنی ہیں۔ایڑی سے چوٹی تک کا زور یہ ثابت کرنے میں صرف کیا گیا ہے کہ پردے کی یہ صورت اسلام سے پہلے کی قوموں میں رائج تھی اور جاہلیت کی یہ میراث عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مدت بعد مسلمانوں میں تقسیم ہوئی۔قرآن کی ایک صریح آیت اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت شدہ تعامل اور صحابہ و تابعین کی تشریحات کے مقابلہ میں تاریخی تحقیقات کی یہ زحمت آخر کیوں اٹھائی گئی؟ صرف اس لئے کہ زندگی کے وہ مقاصد پیش نظر تھے اور ہیں جو مغرب میں مقبول عام ہیں۔''ترقی''اور تہذیب'' کے وہ تصورات ذہن نشین ہوگئے جو اہل مغرب سے نقل کئے گئے ہیں۔چونکہ برقع اوڑھنا اور نقاب ڈالنا ان مقاصد کے خلاف ہے اور ان تصورات سے کسی طرح میل نہیں کھاتا،لہذا تاریخی تحقیق کے زور سے اس چیز کو مٹانے کی کوشش کی گئی جو اسلام کی کتاب آئین میں ثبت ہے،یہ کھلی ہوئی منافقت ،جو بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی برتی گئی ہے ،اس کی اصلی وجہ وہی بے اصولی اور عقل کی خفت اور اخلاقی جرات کی کمی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیاہے۔اگر ایسانہ ہوتا تو اتباع اسلام کا دعوی کرنے کے باوجود قرآن کے مقابلہ میں تاریخ کولاکرکھڑا کرنے کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہ آتا۔تو یہ اپنے مقاصد سے بدل ڈالتے (اگر مسلمان رہناچاہتے)یااعلانیہ اس مذہب سے الگ ہوجاتے جو ان کے معیار ترقی کے لحاظ سے مانع ترقی ہے۔

 جو شخص اسلامی قانون کے مقاصد کو سمجھتاہے اور اس کے ساتھ کچھ عقل عام ( Common Sense ) بھی رکھتا ہے اس کے لئے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ عورتوں کوکھلے چہروں کے ساتھ باہر پھرنے کی عام اجازت دینا ان مقاصد کے بالکل خلاف ہے جن کو اسلام اس قدر اہمیت دے رہاہے۔ایک انسان کو دوسرے انسان کی جو چیز سب سے زیادہ متاثرکرتی ہے وہ اس کا چہرہ ہی توہے۔انسان کی خلقی و پیدائشی زینت،یادوسرے الفاظ میں انسانی حسن کا سب سے بڑا مظہر چہرہ ہے۔نگاہوں کو سب سے زیادہ وہی کھینچتاہے۔جذبات کو سب سے زیادہ وہی اپیل کرتاہے۔صنفی جذب وانجذاب کا سب سے زیادہ قوی ایجنٹ وہی ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لئے نفسیات کے کسی گہرے علم کی بھی ضرورت نہیں۔ خود اپنے دل کو ٹٹولئے۔اپنی آنکھوں سے فتویٰ طلب کیجئے۔اپنے نفسی تجربات کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے۔منافقت کی بات تودوسری ہے۔منافق اگر آفتاب کے وجود کو بھی اپنے مقصد کے خلاف دیکھے گا تو دن دیہاڑے کہہ دے گا کہ آفتاب موجود نہیں۔البتہ صداقت سے کام لیجئے گا۔توآپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ صنفی تحریک(Sex Appeal)میں جسم کی ساری زینتوں سے زیادہ حصہ اس فطری زینت کا ہے جو اللہ نے چہرے کی ساخت میں رکھی ہے۔اگر آپ کو کسی لڑکی سے شادی کرنی ہو اور آپ اسے دیکھ کر آخری فیصلہ کرناچاہتے ہوں تو سچ بتائیے کہ کیا دیکھ کر آپ فیصلہ کریں گے؟ ایک شکل اس کے دیکھنے کی یہ ہوسکتی ہے کہ چہرے کے سوا وہ پوری کی پوری آپ کے سامنے ہو۔دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ ایک جھروکے میں وہ صرف اپنا چہرہ دکھادے۔بتائیے کہ دونوں شکلوں میں سے کون سی شکل کو آپ ترجیح دیںگے؟ سچ بتائیے کیا سارے جسم کی بہ نسبت چہرے کا حسن آپ کی نگاہ میں اہم ترین نہیں ہے؟

 اس حقیقت کے مسلم ہوجانے کے بعد آگے بڑھئے۔اگر سوسائٹی میں صنفی انتشار اور لامرکزی ہیجانات و تحریکات کو روکنا مقصود ہی نہ ہو،تب تو چہرہ کیا معنی،سینہ اور بازو اور پنڈلیاں اور رانیں سب کچھ ہی کھول دینے کی آزادی ہونی چاہئے،جیسی کہ اس وقت مغربی تہذیب میں ہے ۔اس صورت میں ان حدود و قیود کی کوئی ضرورت ہی نہیں جو اسلامی قانون حجاب کے سلسلہ میں آپ اوپر سے دیکھتے چلے آرہے ہیں ۔لیکن اگر اصل بات اسی طوفان کوروکنا ہوتواس سے زیادہ خلاف حکمت اور کیابات ہوسکتی ہے کہ اس کو روکنے کے لئے چھوٹے چھوٹے دروازوں پر توکنڈیاں چڑھائی جائیں اور سب سے بڑے دروازے کو چوپٹ کھلا چھوڑدیاجائے۔

 اب آپ سوال کرسکتے ہیںکہ جب ایساہے تو اسلام نے ناگزیر حاجات و ضروریات کے لئے چہرہ کھولنے کی اجازت کیوں دی جیسا کہ تم خود پہلے بیان کرچکے ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کوئی غیر معتدل اوریک رخاقانون نہیں ہے۔وہ ایک طرف مصالح اخلاقی کا لحاظ کرتاہے تو دوسری طرف انسان کی حقیقی ضرورتوں کا بھی لحاظ کرتاہے۔اور ان دونوں کے درمیان اس نے غایت درجہ کا تناسب اور توازن قائم کیا ہے۔وہ اخلاقی فتنوں کا سدباب بھی کرنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ کسی انسان پر ایسی پابندیاں بھی عائد نہیں کرنا چاہتاجن کے باعث وہ اپنی حقیقی ضروریات کو پورانہ کرسکے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے عورت کے لئے چہرے اور نقاب کے باب میں ویسے قطعی احکام نہیں دیئے جیسے ستر پوشی اور اخفائے زینت کے باب میں دیئے ہیں۔کیونکہ سترپوشی اور اخفائے زینت سے ضروریات زندگی کو پورا کرنا میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔مگر چہرے اور ہاتھوں کودائما چھپائے رہنے سے عورتوں کواپنی حاجات میں سخٹ مشکل پیش آسکتی ہے پس عورتوں کے لئے عام قاعدہ یہ مقررکیاگیا کہ چہرے پر نقاب یا گھونگھٹ ڈالے رہیں اور اس قاعدہ میں الا ماظھر منھا کے استثناء سے یہ آسانی پیداکردی گئی کہ اگر حقیقت میں چہرہ کھولنے کی ضرورت پیش آجائے تو وہ اس کو کھول سکتی ہے،بشرطیکہ نمائش حسن مقصود نہ ہو بلکہ رفع ضروریات مدنظر ہو پھر دوسری جانب سے فتنہ انگیزی کے جو خطرات تھے ان کا سد باب اس طرح کیاگیا کہ مردوں کو غض بصر کاحکم دیاگیا تاکہ اگر کوئی عفت ماب عورت اپنی حاجات کے لئے چہرہ کھولے تو وہ اپنی نظریں نیچی کرلیں اور بے ہودگی کے ساتھ اس کو گھورنے سے بازرہیں۔

 پردہ داری کے ان احکام پر آپ غور کریں گے تو آپ کومعلوم ہوجائے گا کہ اسلامی پردہ کوئی جاہلی رسم نہیں بلکہ ایک عقلی قانون ہے ۔جاہلی رسم ایک جامد چیز ہوتی ہے۔جو طریقہ جس صورت سے رائج ہوگیا،کسی حال میں اس کے اندر تغیر نہیں کیاجاسکتا۔جو چیز چھپادی گئی وہ بس ہمیشہ کے لئے چھپادی گئی۔آپ مرتے مرجائیں مگر اس کا کھلنا غیرممکن ۔بخلاف اس کے عقلی قانون میں لچک ہوتی ہے۔اس میں احوال کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی گنجائش ہوتی ہے۔موقع و محل کے اعتبار سے اس کے عام قواعد میں استثنائی صورتیں رکھی جاتی ہیں۔ایسے قوانین کی پیروی اندھوں کی طرح نہیں کی جاسکتی۔اس کے لئے عقل اور تمیز کی ضرورت ہے۔سمجھ بوجھ رکھنے والا پیروخود فیصلہ کرسکتاہے کہ کہاں اس کو عام قاعدے کی پیروی کرنی چاہئے اور کہاں قانون کے نقطہ نظر سے ''حقیقی ضرورت'' در پیش ہے جس میں استثنائی رخصتوں سے فائدہ اٹھاناجائز ہے۔پھر وہ خود ہی یہ رائے قائم کرسکتاہے کہ کس محل پر رخصت سے کس حد تک استفادہ کیاجائے اور استفادہ کی صورت میں مقصد قانون کو کس طرح ملحوظ رکھاجائے۔ان تمام امور میں درحقیقت ایک نیک نیت مومن کا قلب ہی سچا مفتی بن سکتا ہے ،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا استفت قلبک اور دع ماحاک فی صدرک (اپنے دل سے فتویٰ طلب کرو اور جو چیز دل میں کھٹکے اس کو چھوڑدو)یہی وجہ ہے کہ اسلام کی صحیح پیروی جہالت اور ناسمجھی کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔یہ عقلی قانون ہے اور اس کی پیروی کے لئے قدم قدم پر شعوراورفہم کی ضرورت ہے۔

 

باہر نکلنے کے قوانین

 

لباس اور ستر کے حدود مقرر کرنے کے بعد آخری حکم جو عورتوں کودیاگیاہے وہ یہ ہے؛

 

وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی

 

اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو۔

 

وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ

 

''اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہے وہ معلوم ہوجائے''

 

فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً

 

''پس دبی زبان سے بات نہ کروکہ جس شخص کے دل میں مرض ہو وہ طمع میں مبتلا ہوجائے''۔

 

 وقرن کی قرات میں اختلاف ہے۔عام قراء مدینہ اور بعض کوفیوں نے اس کو وقرن بفتح قاف پڑھا ہے جس کا مصدر قرار ہے۔اس لحاظ سے یہ ترجمہ یہ ہوگا کہ''اپنے گھروں میں ٹھہری رہو یا جمی رہو''عام قراء بصرہ و کوفہ نے وقرن بکسر قاف پڑھا جس کا مقصد وقارہے۔اس لحاظ سے معنی یہ ہو ں گے کہ ''اپنے گھروں میں وقار اور سکینت کے ساتھ رہو''۔

تبرج کے دومعنی ہیں۔

 ایک زینت اور محاسن کا اظہار۔

 دوسرے چلنے میں ناز و انداز دکھانا،تبخترکرتے ہوئے چلنا،اٹھلانا،لچکے کھانا،جسم کو توڑنا،ایسی چال اختیار کرنا جس میں ایک ادا پائی جاتی ہو۔آیت میں یہ دونوں معنی مرادہیں۔جاہلیت اولی میں عورتیں خوب بن سنور کر نکلتی تھیں۔جس طرح دور جدید کی جاہلیت میں نکل رہی ہیں۔پھر چال بھی قصداً ایسی اختیار کی جاتی تھی کہ ہر قدم زمین پر نہیں بلکہ دیکھنے والوں کے دلوں پر پڑے۔

مشہور تابعی ومفسر قرآن قتادہ بن دعامہ کہتے ہیں:

 

کانت لھن مشیۃ وتکسرو تغنج فنھا ھن اللہ عن ذالک۔

 

 اس کیفیت کو سمجھنے کے لئے کسی تاریخی بیان کی حاجت نہیں۔کسی ایسی سوسائٹی میں تشریف لے جائیے جہاں مغربی وضع کی خواتین تشریف لاتی ہوں۔جاہلیت اولیٰ کی تبر ج والی چال آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیںگے۔اسلام اسی سے منع کرتاہے۔وہ کہتاہے کہ اول تو تمہاری صحیح جائے قیام تمہارا گھر ہے۔بیرون خانہ کی ذمہ داریوں سے تم کو اسی لئے سبکدوش کیا گیا کہ تم سکون و وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں رہو اور خانگی زندگی کے فرائض اداکرو۔تاہم اگر ضرورت پیش آئے تو گھر سے باہر نکلنا بھی تمہارے لئے جائز ہے۔لیکن نکلتے وقت پوری عصمت مابی ملحوظ رکھو۔نہ تمہارے لباس میں کوئی شان اور بھڑک ہونی چاہئے کہ نظروں کوتمہاری طرف مائل کرے۔نہ اظہار حسن کے لئے تم ہاتھوں کی نمائش کرو۔نہ چال میں کوئی خاص اداپیداکرنی چاہئے کہ نگاہوں کو خود بخود تمہاری طرف متوجہ کردے ایسے زیور بھی پہن کر نہ نکلوجن کی جھنکار غیروں کے لئے سامعہ نواز ہو۔قصدا لوگوں کو سنانے کے لئے آواز نہ نکالو۔ہاں اگر بولنے کی ضرورت پیش آئے توبولو،مگر رس بھری آواز نکالنے کی کوشش نہ کرو۔ان قواعد اور حدود کوملحوظ رکھ کر اپنی حاجات کے لئے تم گھر سے باہر نکل سکتی ہو۔

 یہ ہے قرآن کی تعلیم آئیے اب حدیث پر نظر ڈال کردیکھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کے مطابق سوسائٹی میں عورتوں کے لئے کیاطریقے مقررفرمائے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کی خواتین نے ان پر کس طرح عمل کیا۔

 

حاجات کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت

 

 حدیث میں ہے کہ احکام حجاب نازل ہونے سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تقاضا تھا کہ یارسول اللہ اپنی خواتین کو پردہ کرائیے۔ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ رات کے وقت باہر نکلیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ لیا اور پکار کر کہا کہ سودہ! ہم نے تم کو پہچان لیا۔اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح خواتین کاگھروں سے نکلنا ممنوع ہوجائے۔اس کے بعد جب احکام حجاب نازل ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بن آئی۔انہوں نے عورتوں کے باہر نکلنے پرزیادہ روک ٹوک شروع کردی۔ایک مرتبہ پھر حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہی صورت پیش آئی۔وہ گھر سے نکلیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ٹوکا۔انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

 

قد اذن اللہ لکن ان تخرجن لحوائجکن۔۔۔۔

 

''اللہ نے تم کو اپنی ضروریات کے لئے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے''(٥٦)

 

 اس سے معلوم ہواکہ وقرن فی بیوتکن کے حکم قرآنی کا منشاء یہ نہیں ہے کہ عورتیں گھر کے حدود سے قدم کبھی باہر نکالیں ہی نہیں۔حاجات و ضروریات کے لئے ان کو نکلنے کی پوری اجازت ہے۔مگریہ اجازت نہ غیر مشروط ہے نہ غیر محدود۔عورتیں اس کی مجاز نہیں ہیں کہ آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں پھریں اور مردانہ اجتماعات میں گھل مل جائیں۔حاجات و ضروریات سے شریعت کی مراد ایسی واقعی حاجات و ضروریات ہیں جن میں درحقیقت نکلنااورباہر کام کرناعورتوں کے لئے ناگزیر ہو۔اب یہ ظاہر ہے کہ تمام عورتوں کے لئے تمام زمانوں میں نکلنے اور نہ نکلنے کی ایک ایک صورت بیان کرنا اور ہر ہر موقع کے لئے رخصت کے علیحدہ علیحدہ حدود مقرر کردیناممکن نہیں۔البتہ شارع نے زندگی کے عام حالات میں عورتوں کے لئے نکلنے کے جو قاعدے مقررکئے تھے اور حجاب کی حدود میں جس طرح کمی و بیشی کی تھی اس سے قانون اسلامی کی سپرٹ اور اس کے رجحان کاندازہ کیاجاسکتاہے اور اس کی سمجھ کو انفرادی حالات اور جزئی معاملات میں حجاب کے حدود اور موقع ومحل کے لحاظ سے ان کی کمی بیشی کے اصول ہر شخص خود معلوم کرسکتاہے۔اس کی توضیح کے لئے ہم مثال کے طورپرچند مسائل بیان کرتے ہیں۔

 

مسجد میںآنے کی اجازت اور اس کے حدود

 

 یہ معلوم ہے کہ اسلام میں سب سے اہم فرض نماز ہے اور نماز میں حضور مسجد اور شرکت جماعت کوبڑی اہمیت دی گئی ہے۔مگر نماز باجماعت کے باب میں جو احکام مردوں کے لئے ہیں ان کے بالکل برعکس احکام عورتوں کے لئے ہیں۔مردوں کے لئے وہ نماز افضل ہے جومسجد میںجماعت کے ساتھ ہواور عورتوں کے لئے وہ نماز افضل ہے جو گھر میں انتہائی خلوت کی حالت میں ہو۔امام احمد اور طبرانی نے ام حمید ساعدیہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ:

 

قالت یارسول اللہ انی احب الصلوۃ معک۔قال قد علمت صلوتک فی بیتک خیرلک من صلوتک فی حجرتک و صلوتک فی حجرتک خیرمن صلوتک فی دارک ،وصلوتک فی دارک خیر من صلوتک فی مسجد قومک وصلوتک فی مسجد قومک خیرمن صلوتک فی مسجد الجمعۃ ۔

 

''انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ نماز پڑھوں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے معلوم ہے۔مگر تیراایک گوشے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تواپنے حجرے میں نماز پڑھے اور حجرے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے گھرکے دالان میں نماز پڑھے اور تیرادالان میں نماز پڑھنا اس سے بہترہے کہ تو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھے ،اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنااس سے بہتر ہے کہ جامع مسجد میں نمازپڑھے۔(١)


(١)عورت کو اس قدر خلوت میں نماز پڑھنے کی ہدایت جس مصلحت سے دی گئی ہے اس کو خود عورتیں بہتر سمجھ سکتی ہیں۔مہینہ میں چندروز ایسے آتے ہیں جن میں عورت کو مجبوراً نماز ترک کرنی پڑتی ہے اور اس طرح وہ بات ظاہر ہوجاتی ہے۔(بقیہ اگلے صفحہ پر)

اسی مضمون کی حدیث ابوداؤد میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

 

صلوۃ المرأۃ فی بیتھا افضل من صلوتھا فی حجرتھا وصلوتھا فی مخدعھاافضل من صلوتھا فی بیتھا۔(٥٧)

 

''عورت کا اپنی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اسے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نماز پڑھے اور اس کا اپنے چورخانہ میں نماز پڑھنا اس سے بہترہے کہ وہ اپنی کوٹھڑی میں نمازپڑھے''۔


جسے کوئی حیادار عورت اپنے بھائی بہنوں پر بھی ظاہرکرناپسند نہیں کرتی۔بہت سی عورتیں اسی شرم کی وجہ سے تارک صلوٰۃ ہوجاتی ہیں۔شارع نے اس بات کو محسوس کرکے ہدایت فرمائی کہ چھپ کر خلوت کے ایک گوشہ میں نماز پڑھاکرو تاکہ کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ تم کب نماز پڑھتی ہو اور کب چھوڑدیتی ہو۔مگر یہ صرف ہدایت ہے ۔تاکید اور حکم نہیں۔عورتیں گھرمیں اپنی الگ جماعت کرسکتی ہیں اور عورت ان کی امامت کرسکتی ہے۔

 ام ورقہ بن نوفل کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی کہ عورتوں کی امامت کریں۔(ابوداؤد)

 دار قطنی اور بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کی امامت کی اور صف کے بیچ میں کھڑی ہوکرنماز پڑھائی۔

 اسی سے یہ مسئلہ معلوم ہوتاہے کہ عورت جب عورتوں کی جماعت کونمازپڑھائے تواسے امام کی طرح صف کے آگے نہیں بلکہ صف کے درمیان کھڑاہوناچاہئے۔

 

 دیکھئے یہاں ترتیب بالکل الٹ گئی ہے۔مرد کے لئے سب سے ادنیٰ درجہ کی نماز یہ ہے کہ وہ ایک گوشہ تنہائی میں پڑھے اور سب سے افضل یہ کہ وہ بڑی سے بڑی جماعت میں شریک ہو۔مگر عورت کے لئے اس کے برعکس انتہائی خلوت کی نماز فضیلت ہے،اور اس خفیہ نماز کونہ صرف نماز باجماعت پر ترجیح دی گئی ہے ،بلکہ اس نماز سے بھی افضل کہاگیا ہے جس سے بڑھ کرکوئی نعمت مسلمان کے لئے ہوہی نہیں سکتی تھی۔آخر اس فرق و امتیاز کی وجہ کیا ہے؟یہی ناکہ شارع نے عورت کے باہر نکلنے کوپسند نہیں کیا اور جماعت میں ذکور و اناث کے خلط ملط ہونے کو روکنا چاہا۔

 مگر نماز ایک مقدس عبادت ہے اور مسجد ایک پاک مقام ہے۔شارع حکیم نے اختلاط صنفین کوروکنے کے لئے اپنے منشاء کااظہار توفضیلت اور عدم فضیلت کی تفریق سے کردیا،مگرایسے پاکیزہ کام کے لئے ایسی پاک جگہ پر آنے سے عورتوں کو منع نہیںکیا۔حدیث میں یہ اجازت جن الفاظ کے ساتھ آئی ہے وہ شارع کی بے نظیر حکیمانہ شان پر دلالت کرتے ہیں۔فرمایا:

 

لاتمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ اذااستاذنت امراۃ احدکم الی المسجد فلایمنعھا(٥٨)

 

''خداکی لونڈیوں کوخداکی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو۔جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ اس کو منع نہ کرے''

 

لاتمنعوا نساء کم المساجد وبیوتھن خیرلھن۔(٥٩)

 

''اپنی عورتوں کومسجدوں سے نہ روکو مگران کے گھر ان کے لئے زیادہ بہترہیں''۔

 

 یہ الفاظ خود ظاہرکررہے ہیں کہ شارع عورتوں کومسجد میں جانے سے روکتاتونہیں ہے ،کیونکہ مسجد میں نماز کے لئے جانا کوئی برافعل نہیں جس کو ناجائز قراردیاجاسکے۔مگر مصالح اس کے بھی مقتضی نہیں کہ مساجد میں ذکور و اناث کی جماعت مخلوط ہوجائے۔لہذا ان کو آنے کی اجازت تودے دی ،مگریہ نہیں فرمایا کہ عورتوں کومسجدوں میں بھیجو ،یااپنے ساتھ لایاکرو،بلکہ صرف یہ کہا کہ اگر وہ افضل نماز کوچھوڑکرادنیٰ درجہ کی نمازپڑھنے کے لئے مسجد میں آنا ہی چاہیں اور اجازت مانگیں تو منع نہ کرو۔

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو روح اسلام کے بڑے رازدان تھے،شارع کی اس حکمت کو خوب سمجھتے تھے۔چنانچہ موطامیں مذکور ہے کہ ان کی بیوی عاتکہ بنت زید سے ہمیشہ اس معاملہ میں ان کی کشمکش رہاکرتی تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہ چاہتے تھے کہ وہ مسجد میں نہ جائیں۔مگر انہیں جانے پر اصرار تھا۔وہ اجازت مانگتیں تو آپ ٹھیک ٹھیک حکم نبوی پر عمل کرکے بس خاموش ہوجاتے۔مطلب یہ تھا کہ ہم تمہیں روکتے نہیں ہیں ،مگر صاف صاف اجازت بھی نہ دیں گے۔وہ اپنی بات کی پکی تھیں کہتی تھیںکہ خداکی قسم میں جاتی رہوں گی جب تک کہ صاف الفاظ میں منع نہ کریں گے۔ ١ ؎

 

عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ائذنو النساء باللیل الی المساجد(٦٠)

 

قال نافع مولی ابن عمرو کان اختصاص اللیل بذالک لکونہ استروا خفی۔


(١)یہ حال صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کی بیوی کا نہ تھا بلکہ عہد نبوی میں بکثرت عورتیں نماز باجماعت کے لئے مسجد جایاکرتی تھیں۔

ابوداؤد میں ہے کہ مسجد نبوی میں بسااوقات عورتوں کی دودوصفیں ہوجاتی تھیں۔(٦١)

''حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کے شاگرد خاص حضرت نافع کہتے ہیں کہ رات کا تخصیص اس لئے کہ رات کی تاریکی میں اچھی طرح پردہ داری ہوسکتی ہے''۔

 

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیصلی الصبح فینصرف النساء متلففات بمروطھن مایعرفن من الغلس۔(٦٢)

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ جب عورتیں نماز کے بعد اپنی اوڑھنیوں میں لپٹی ہوئی مسجد سے پلٹتیں تو تاریکی کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں''۔ ١؎

 

دوسری شرط یہ ہے کہ مسجد میں زینت کے ساتھ نہ آئیں اور نہ خوشبو لگاکرآئیں۔

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف


نوٹ١:اسی مضمون کی احادیث بخاری (باب وقت الفجر)مسلم (باب استحباب التکبیر بالصبح فی اول وقتہا)ابوداؤد (باب وقت الصبح) اور دوسری کتب حدیث میں بھی مروی ہیں۔اس کے ساتھ یہ بھی کتب حدیث میں موجود ہے کہ نماز پڑھانے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مرد نماز میں بیٹھے رہتے تھے تاکہ عورتیں اٹھ کر چلی جائیں۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب لوگ کھڑے ہوتے۔

فرماتھے کہ قبیلہ مزنہ کی ایک بہت بنی سنوری عورت بڑے نازو تبختر کے ساتھ چلتی ہوئی آئی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،لوگو!اپنی عورتوں کو زینت اور تبختر کے ساتھ مسجد میں آنے سے روکو۔(٦٣)

 

 

خوشبو کے متعلق فرمایا کہ جس رات تم کو نماز میں شریک ہونا ہو اس رات کو کسی قسم کاعطر لگاکرنہ آؤ،نہ بخوراستعمال کرو،بالکل سادہ لباس میں آؤ۔جو عورت خوشبو لگاکر آئے گی اس کی نماز نہ ہوگی۔(٦٤)

 

 تیسری شرط یہ ہے کہ عورتیں جماعت میں مردوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہوں اور نہ آگے کی صفوں میں آئیں۔انہیں مردوں کی صفوں کے پیچھے کھڑاہونا چاہئے۔فرمایا کہ

 

'' خیر صفوف الرجال اولھا وشرھا اخرھا۔وخیر صفوف النساء اخرھا وشرھا اولھا''۔

 

''مردوں کے لئے بہترین مقام آگے کی صفوں میں ہے اور بدترین مقام پیچھے کی صفوں میں اور عورتوں کے لئے بہترین مقام پیچھے کی صفوں میں ہے اور بدترین مقام آگے کی صفوں میں ''۔

 

 جماعت کے باب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قاعدہ ہی مقرر کردیا تھا کہ عورت اور مرد پاس پاس کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھیں خواہ وہ شوہر اور بیوی یا ماں اور بیٹا ہی کیوں نہ ہوں۔

 حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میری نانی ملیکہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی۔کھانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے اٹھے۔میں اور یتیم(یہ غالبا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی کا نام تھا) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ملیکہ رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔(٦٥)

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں نماز پڑھی ۔میں اور یتیم آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔(٦٦)

 

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے اٹھے۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہوا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔(٦٧)

 

 چوتھی شرط یہ ہے کہ عورتیں نماز میں آواز بلند نہ کریں ۔قاعدہ یہ مقرر کیاگیا کہ اگر نماز میں امام کو کسی چیز پر متنبہ کرنا ہوتو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں دستک دیں۔(٦٨)

 

ان تمام حدود و قیود کے باوجود جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جماعت میں ذکور و اناث کے خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہواتوآپ نے مسجد میں عورتوں کے لئے ایک دروازہ مختص فرمادیا اور مردوں کو اس دروازہ سے آنے جانے کی ممانعت کردی ۔(٦٩)

 

 

حج میں عورتوں کا طریقہ

 

 اسلام کا دوسرااجتماع فریضہ حج ہے۔یہ مردوں کی طرح عورتوں پربھی فرض ہے۔مگر حتی الامکان عورتوں کو طواف کے موقع پر مردون کے ساتھ خلط ملط ہونے سے روکاگیا ہے۔

 بخاری میں عطار سے روایت ہے کہ عہد نبوی میں عورتیں مردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں مگر خلط ملط نہ ہوتی تھیں۔(٧٠)

 فتح الباری میں ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے طواف میں عورتوں اور مردوں کو گڈ مڈ ہونے سے روک دیاتھا۔ایک مرتبہ ایک مرد کو آپ نے عورتوں کے مجمع میں دیکھا توپکڑکر کوڑے لگوائے۔(٧١)

 موطامیں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بال بچوں کو مزدلفہ سے منیٰ آگے روانہ کردیاکرتے تھے،تاکہ لوگوں کے آنے سے پہلے صبح کی نماز اور رمی سے فارغ ہوجائیں۔

 نیز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا صبح اندھیرے منہ منیٰ تشریف لے جاتیں تھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عورتوں کے لئے یہی دستور تھا۔(٧٢)

 

جمعہ وعیدین میں عورتوں کی شرکت

 

 جمعہ و عیدین کے اجتماعات اسلام میں جیسی اہمیت رکھتے ہیں محتاج بیان نہیں۔ان کی اہمیت کومد نظر رکھ کر شارع نے خاص طورپر ان اجتماعات کے لئے وہ شرط اڑادی جوعام نمازوںکے لئے تھی،یعنی یہ کہ دن میں شریک جماعت نہ ہوں۔اگرچہ جمعہ کے متعلق یہ تصریح ہے کہ عورتیں فرضیت جمعہ سے مستثنیٰ ہیں(ابو داؤد،باب الجمعۃ للملوک)اور عیدین میں بھی عورتوں کی شرکت ضروری نہیں۔لیکن اگر وہ چاہیں تونماز باجماعت کی دوسری شرائط کی پابندی کرتے ہوئے ان جماعتوں میں شریک ہوسکتی ہیں۔حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی خواتین کو عیدین میں لے جاتے تھے۔

 

عن ام عطیۃ قالت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یخرج الابکار والعواتق وزوات الخدور والحیض فی العیدین فاما الحیض فیعتزلن المصلی ویشھدن دعوۃ المسلمین(٧٣)

 

''ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری اور جوان لڑکیوں اور گھر گرہستنوں اور ایام والی عورتوں کو عیدین میں لے جاتے تھے۔جو عورتیں نماز کے قابل نہ ہوتیں وہ جماعت سے الگ رہتیں اور دعامیں شریک ہوجاتی تھیں''۔

 

عن ابن عباس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یخرج بناتہ ونسائہ فی العیدین ۔(٧٤)

 

''ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو عیدین میں لے جاتے تھے''۔

 

زیارت قبور و شرکت جنازات

 

 مسلمان کے جنازے میں شریک ہونا شریعت میں فرض کفایہ قرار دیاگیاہے اور اس کے متعلق جو تاکیدی احکام ہیں،واقف کاروں سے پوشیدہ نہیں۔مگریہ سب مردوں کے لئے ہیں۔عورتوں کو شرکت جنازات سے منع کیاگیا ہے۔اگرچہ اس ممانعت میں سختی نہیں ہے اور کبھی کبھی اجازت بھی دی گئی ہے ۔لیکن شارع کے ارشادات سے صاف معلوم ہوتاہے کہ عورتوں کا جنازوں میں جانا کراہت سے خالی نہیں۔بخاری میں ام عطیہ کی حدیث ہے کہ :

 

نھینا عن اتباع الجنائز ولم یعزم علینا۔(٧٥)

 

''ہم کو جنازوں کی مشایعت سے منع کیاگیا تھا مگر سختی کے ساتھ نہیں''۔

 

 ابن ماجہ اور نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ میں شریک تھے۔ایک عورت نظر آئی ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو ڈانٹا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 یا عمر دعھا( اے عمر رضی اللہ عنہ اسے چھوڑدے)

 معلوم ہوتاہے کہ وہ عورت میت کی کوئی عزیز قریب ہوگی۔شدت غم سے مجبور ہوکر ساتھ چلی آئی ہوگی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جذبات کی رعایت کرکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ڈانٹ ڈپٹ سے منع فرمادیا۔

 ایسی ہی صورت زیارت قبورکی بھی ہے۔عورتیں رقیق القلب ہوتی ہیں۔اپنے مردہ عزیزوں کی یاد ان کے دلوں میں زیادہ گہری ہوتی ہے۔ان کے جذبات بالکل پامال کردینا شارع نے پسند نہ فرمایا۔مگر یہ صاف کہہ دیا کہ عورتوں کا کثرت سے قبروں پر جانا ممنوع ہے۔

 ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ :

 

لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوارات القبور۔

 

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت قبروں پر جانے والیوں کوملعون ٹھہرایا تھا''۔(٧٦)

 

ابن ماجہ میں یہی مضمون حضرت ابن عباس اور حسان بن ثابت سے بھی منقول ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر کی قبر پر تشریف لے گئیں تو فرمایا:

 

'' واللہ لو شھدتک مازرتک ''

 

''بخدا اگر میں تمہاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو اب تمہاری قبرکی زیارت کونہ آتی''(٧٧)

 

 انس رضی اللہ عنہ بن مالک کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو قبر کے پاس بیٹھے روتے دیکھا تو اسے منع نہ فرمایا بلکہ صرف'' اتقی اللہ واصبری '' فرمادیا۔(٧٨)

 ان احکام پر غور کیجئے ۔نماز ایک مقدس عبادت ہے۔مسجد ایک پاک مقام ہے۔حج میں انسان انتہائی پاکیزہ خیالات کے ساتھ خدا کے دربار میں حاضر ہوتاہے۔جنازوں اور قبروں کی حاضری میںہر شخص کے سامنے موت کا تصور ہوتا ہے اور غم و الم کے بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں ۔یہ سب مواقع ایسے ہیں جن میں صنفی جذبات یاتوبالکل مفقود ہوتے ہیں یارہتے ہیں تودوسرے پاکیزہ تر جذبات سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔مگراس کے باوجود شارع نے ایسے اجتماعات میں بھی مردوں اور عورتوں کی سوسائٹی کامخلوط ہوناپسند نہ کیا۔مواقع کی پاکیزگی،مقاصد کی طہارت اور عورتوں کے جذبات کی رعایت ملحوظ رکھ کر انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت تودے دی ۔ بعض مواقع پر خود بھی ساتھ لے گئے۔لیکن حجاب کی اتنی قیود لگادیں کہ فتنے کے ادنیٰ احتمالات بھی باقی نہ رہیں۔پھر حج کے سوا تمام دوسرے امور کے متعلق فرمادیا کہ ان میں عورتوں کا شریک نہ ہونازیادہ بہترہے۔

 جس قانون کایہ رجحان ہوکیااس سے آپ توقع رکھتے ہیں کہ وہ مدرسوں اور کالجوں میں ،دفتروں اور کارگاہوں میں ،پارکوں اور تفریح گاہوں میں تھیٹروں اور سینماؤں میں ،قہوہ خانوں اور رقص گاہوں میں اختلاط صنفین کوجائز رکھے گا؟

 

جنگ میں عورتوں کی شرکت

 

 حدو حجاب کی سختی اپ نے دیکھ لی ۔اب دیکھئے کہ ان میں نرمی کہاں ہے اور کس ضرورت سے کی گئی ہے۔

 مسلمان جنگ میں مبتلا ہوتے ہیں ۔عام مصیبت کا وقت ہے۔حالات مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کی پوری اجتماعی قوت دفاع میں صرف کردی جائے۔ایسی حالت میں اسلام قوم کی خواتین کو عام اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگی خدمات میں حصہ لیں۔مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اس کے پیش نظر ہے کہ جو ماں بننے کے لئے بنائی گئی ہے وہ سرکاٹنے اور خون بہانے کے لئے نہیں بنائی گئی۔اس کے ہاتھ میں تیر و خنجر دینا اس کی فطرت کو مسخ کرناہے۔اس لئے وہ عورتوں کو اپنی جان اور آبرو کی حفاظت کے لئے تو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتاہے مگربالعموم عورتوں سے اضافی خدمات لینا اور انہیں فوجوں میں بھرتی کرنا اس کی پالیسی سے خارج ہے۔وہ جنگ میں ان سے صرف یہ خدمت لیتاہے کہ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں،پیاسوں کو پانی پلائیں،سپاہیوں کے لئے کھاناپکائیں اور مجاہدین کے پیچھے کیمپ کی حفاظت کریں۔ان کاموں کے لئے پردے کی حدود انتہائی کم کردی گئی ہیں،بلکہ ان خدمات کے لئے تھوڑی ترمیم کے ساتھ وی لباس پہننا شرعا جائز ہے جو آج کل عیسائی ننیں پہنتی ہیں۔

 تمام احادیث سے ثابت ہے کہ جنگ میں ازوا ج مطہرات اور خواتین اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتیں اور مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کی خدمات انجام دیتی تھیں۔یہ طریقہ احکام حجاب نازل ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔(٧٩)

 ترمذی میں ہے ام سلیم اور انصارکی چند دوسری خواتین اکثر لڑائیوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی ہیں۔(٨٠)

بخاری میں ہے کہ ایک عورت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

 میرے لئے دعا فرمائیے کہ میں بھی بحری جنگ میں جانے والوں کے ساتھ رہوں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللھم اجعلھا منھم۔(٨١)

 جنگ احد کے موقع پر جب مجاہدین اسلام کے پاؤں اکھڑگئے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلیم رضی اللہ عنہا اپنی پیٹھ پر پانی کے مشکیزے لادلاد کرلاتی تھیں اور لڑنے والوں کوپانی پلاتی تھیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس حال میں میں نے ان پائنچے اٹھا ئے دوڑ دوڑ کرآتے جاتے دیکھا ان کی پنڈلیوں کا نچلا حصہ کھلاہواتھا۔(٨٢)

 ایک دوسری خاتون ام سلیط کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:

جنگ احد میں دائیں اور بائیں جدھر میں دیکھتا ام سلیط میری حفاظت کے لئے جان لڑاتی ہوئی نظرآتی تھی۔

 اسی جنگ میں ربیع بنت معوذ اور ان کے ساتھ خواتین کی ایک جماعت زخمیوں کی مرہم پٹی میں مشغول تھی اور یہی عورتیں مجروحین کو اٹھااٹھاکر مدینے لے جارہی تھیں۔(٨٣)

 جنگ حنین میں ام سلیم ایک خنجر ہاتھ میں لئے پھررہی تھیں۔

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس لئے ہے؟کہنے لگیں کہ اگرکوئی مشرک قریب آیاتو اس کاپیٹ پھاڑدوں گی۔(٨٤)

 ام عطیہ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔کیمپ کی حفاظت ،سپاہیوں کے لئے کھانا پکانا ،زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنا ان کے سپر د تھا۔(٨٥)

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جو خواتین اس قسم کی جنگی خدمات انجام دیتی تھیں ان کو اموال غنیمت سے انعام دیاجاتاتھا۔(٨٦)

 اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اسلامی پردہ کی نوعیت کسی جاہلی رسم کی سی نہیں ہے جس میں مصالح اور ضرورت کے لحاظ سے کمی بیشی نہ ہوسکتی ہو۔جہاں حقیقی ضروریات پیش آجائیں وہاں اس کے حدود کم بھی ہوسکتے ہیں،نہ صرف چہرہ اور ہاتھ کھولے جاسکتے ہیں ،بلکہ جن اعضاء کو ستر عورت میں داخل کیا گیا ہے ان کے بھی بعض حصے اگر حسب ضرورت کھل جائیں تومضائقہ نہیں لیکن جب ضرورت رفع ہوجائے توحجاب کوپھرانہی حدود پر قائم ہوجاناچاہئے جو عام حالات کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔جس طرح یہ پردہ جاہلی پردہ نہیں ہے،اسی طرح اس کی تخفیف بھی جاہلی آزادی کے مانند نہیں۔مسلمان عورت کا حال یورپین عورت کی طرح نہیں ہے کہ جب وہ ضروریات جنگ کے لئے اپنی حدود سے باہر نکلی ،تو اس نے جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی حدود میں واپس جانے سے انکار کردیا۔

 

 

 

 

 

خاتمہ

 

 یہ ہے وہ نقطہ عدل اور مقام توسط جس کی دنیااپنی ترقی اور خوش حالی اور اخلاقی امن کے لئے محتاج اور سخت محتاج ہے۔جیسا کہ ابتداء میں بیان کرچکاہون ،دنیا ہزاروں سال سے تمدن میں عورت کا۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی عالم انسانی کے پورے نصف حصے کا۔۔۔۔۔۔۔مقام متعین کرنے میں ٹھوکریں کھارہی ہے۔کبھی افراط کی طرف جاتی ہے اورکبھی تفریط کی طرف،اور یہ دونوں انتہائیں اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔تجربات اور مشاہدات اس نقصان پر شاہد ہیں۔ان انتہاؤں کے درمیان عدل و توسط کا مقام،جو عقل وفطرت کے عین مطابق اور انسانی ضروریات کے لئے عین مناسب ہے ،وہی ہے جو اسلام نے تجویز کیاہے۔مگر افسوس یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں متعدد ایسے موانع پیداہوگئے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کے لئے اس صراط مستقیم کوسمجھنا اور اس کی قدر کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

 ان موانع میں سب سے اہم مانع یہ ہے کہ زمانہ جدید کا انسان عموما ''یرقان'' میں مبتلا ہوگیاہے اور مشرق کے فرنگیت زدہ لوگوںپر اس یرقان کی ایک اور زیادہ خطرناک قسم کا حملہ ہوا جسے میں ''یرقان ابیض'' کہتاہوں۔

 میں اپنی اس صاف گوئی پر اپنے دوستوں اور بھائیوں سے معافی کا خواستگار ہوں ۔مگر جو حقیقت ہے اس کے اظہار میں کوئی مروت مانع نہ ہونی چاہئے۔یہ ایک امر واقعہ ہے کہ اسلام کا کوئی حکم اور کوئی مسئلہ ایسانہیں جو ثابت شدہ علمی حقائق کے خلاف ہو۔بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ جو کچھ علمی حقیقت ہے وہی عین اسلام ہے ۔مگر اس کو دیکھنے کے لئے بے رنگ نگاہ کی ضرورت ہے تاکہ ہر چیز کو اس کے اصلی رنگ میں دیکھ سکے۔وسیع نظر کی ضرورت ہے تاکہ ہر چیز کے تمام پہلوؤں کو دیکھ سکے،کھلے دل اور سلیم فطرت کی ضرورت ہے تاکہ حقائق جیسے کچھ بھی ہوں ان کو ویسا ہی تسلیم کرے اور اپنے رجحانات کے تابع بنانے کے بجائے رجحانات نفس کو ان کے تابع کردے۔جہاں یہ چیز نہ ہو وہاں اگر علم ہوبھی تو بیکار ہے۔رنگین نگاہ جو کچھ دیکھے گی اسی رنگ میں دیکھے گی جو اس پر چڑھا ہواہے۔محدود نظر مسائل اور معاملات کے صرف انہی گوشوں تک جاسکے گی جو اس زاویہ کے سامنے واقع ہوں جس سے وہ انہیں دیکھ رہی ہے۔پھر سب کے باوجود جو علمی حقائق اپنی اصلی حالت میں اندر تک پہنچ جائیں گے ان پر بھی دل کی تنگی اور فطرت کی کجی اپناعمل کرے گی۔وہ حقائق سے مطالبہ کرے گی کہ اس کے داعیات نفس اس کے جذبات و رجحانات کے موافق ڈھل جائیں اور اگر وہ نہ ڈھلیں گے تو وہ ان کو حقائق جاننے کے باوجود نظر انداز کردے گی اور اپنی خواہشات کا اتباع کرے گی۔ظاہر ہے کہ اس مرض میں جب انسان گرفتار ہوتوعلم ،تجربہ ،مشاہدہ کوئی چیز بھی اس کی رہنمائی نہیں کرسکتی اور ایسے مریض کے لئے قطعی ناممکن ہے کہ وہ اسلام کے کسی حکم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکے۔کیونکہ اسلام دین فطرت بلکہ عین فطرت ہے۔دنیائے مغرب کے لئے اسلام کو سمجھنا اسی لئے مشکل ہوگیا ہے کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہوگئی ہے۔اس کے پاس جتنابھی ''علم ''ہے(١)وہ سب کا سب اسلام ہے ۔مگر خود اس کی نگاہ رنگین ہے۔پھریہی رنگ ''یرقان ابیض''(علم یعنی حقیقت کا علم ،نہ کہ نظریات اور حقائق سے اخذکردہ نتائج)بن کر مشرق کے نئے تعلیم یافتہ طبقہ کی نگاہ پر چھاگیا ہے اور یہ بیماری ان کو بھی حقائق علمیہ سے صحیح نتائج نکالنے اور مسائل حیات کو فطری نگاہ سے دیکھنے میں مانع ہوتی ہے۔ان میں سے جو مسلمان ہیں وہ ہوسکتاہے کہ دین اسلام پر ایمان رکھتے ہوں۔اس کی صداقت کے معترف بھی ہوں۔اتباع دین کے جذبے سے بھی خالی نہ ہوں ۔مگر وہ غریب اپنی آنکھوں کے یرقان کوکیاکریں جو کچھ ان آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس کا رنگ ہی انہیں صبغۃ اللہ کے خلاف نظر آتاہے۔

 دوسری وجہ جو فہم صحیح میں مانع ہوتی ہے ،یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جب اسلام کے کسی مسئلہ پر غور کرتے ہیں تو اس نظام اور سسٹم پر بہ حیثیت مجموعی نگاہ نہیں ڈالتے جس سے وہ مسئلہ متعلق ہوتاہے،بلکہ نظام سے الگ کر کے مجرد اس خاص مسئلے کو زیربحث لے آتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ مسئلہ تمام حکمتوں سے خالی نظر آنے لگتا ہے اور اس میں طرح طرح کے شکوک ہونے لگتے ہیں۔سود کے مسئلہ میں یہی ہوا کہ اس کو اسلام(یعنی فطرت)کے اصول معیشت اور نظام معاشی سے الگ کرکے دکھایاگیا۔ہزاروں سقم اس میں نظر آنے لگے،یہاں تک کہ بڑے بڑے صاحب علم لوگوں کو بھی مقاصد شریعت کے خلاف اس میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔غلامی اور تعداد ازدواج اور حقوق الزوجین اور ایسے بہت سے مسائل میں اسی بنیادی غلطی کا اعادہ کیاگیا ہے اور پردہ کا مسئلہ بھی اسی کا شکار ہواہے۔اگر آپ پوری عمارت دیکھنے کے بجائے صرف ایک ستون کو دیکھیں گے تو لامحالہ آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ آخر کیوں لگایا گیاہے۔آپ کو اس کا قیام تمام حکمتوں سے خالی نظر آئے گا۔آپ کبھی نہ سمجھیں گے کہ انجینئر نے عمارت کو سنبھالنے کے لئے کس تناسب اور موزونیت کے ساتھ اس کو لگایا ہے اور اس کو گرادینے سے پوری عمارت کو کیا نقصان پہنچے گا۔بالکل ایسی ہی مثال پردے کی ہے۔جب وہ اس نظام معاشرت سے الگ کرلیا جائے گا جس میں وہ عمارت کے ستون کی طرح ایک ضرورت اور مناسبت کوملحوظ رکھ کر نصب کیاگیا ہے تو وہ تمام حکمتیں نگاہوں سے اوجھل ہوجائیں گی جو اس سے وابستہ ہیں اور یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہ آسکے گی کہ نوع انسانی کی دونوں صنفوں کے درمیان یہ امتیازی حدود آخرکیوں قائم کئے گئے ہیں۔پس ستون کی حکمتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس پوری عمارت کو دیکھ لیاجائے جس میں وہ نصب کیاگیا ہے۔

 اب اسلام کا حقیقی پردہ آپ کے سامنے ہے۔وہ نظام معاشرت بھی آپ کے سامنے ہے جس کی حفاظت کے لئے پردے کے ضوابط مقررکئے گئے ہیں۔اس نظام کے وہ تمام ارکان بھی آپ کے سامنے ہیں جن کے ساتھ ایک خاص توازن کو ملحوظ رکھ کر پردہ کارکن مربوط کیاگیا ہے۔وہ تمام ثابت شدہ علمی حقائق بھی آپ کے سامنے ہیں جن پر اس پورے نظام معاشرت کی بنا رکھی گئی ہے۔ان سب کو دیکھ لینے کے بعد فرمائیے کہ اس میں کہاں آپ کمزوری پاتے ہیں؟کس جگہ بے اعتدالی کاکوئی ادنیٰ ساشائبہ بھی نظر آتاہے؟کو ن سامقام ایسا ہے جہاں ۔۔۔۔۔۔۔کسی خاص گروہ کے رجحان سے قطع نظر محض علمی و عقلی بنیادوں پر ۔۔۔۔۔۔کوئی اصلاح تجویز کی جاسکتی ہو؟ میں علی وجہ البصیرت کہتاہوں کہ زمین اور آسمان جس عدل پر قائم ہیں ،کائنات کے نظام میں جو کمال درجہ کاتسویہ پایاجاتاہے ،ایک ذرہ کی ترکیب اورنظام شمسی کی بندش میں جیسا مکمل توازن وتناسب آپ دیکھتے ہیں ،ویسا ہی عدل و تسویہ اور توازن و تناسب اس نظام معاشرت میں بھی موجود ہے ۔افراط و تفریط اور یک رخی جو انسانی کاموں میں ناگزیر کمزوری ہے اس سے یہ نظام یکسر خالی ہے۔اس میں اصلاح تجویز کرنا انسان کی قدرت سے باہر ہے۔انسان اپنی عقل خام کی مداخلت سے اگر اس میں کوئی ادنیٰ ردوبدل بھی کرے گا تو اس کی اصلاح نہ کرے گا بلکہ اس کے توازن کوبگاڑ دے گا ۔

 افسوس!میرے پاس ایسے ذرائع نہیں ہےں کہ اپنے ان انسانی بھائیوں تک اپنی آواز پہنچاسکوں جو یورپ ،امریکہ ،روس اور جاپان میں رہتے ہیں۔وہ ایک صحیح معتدل نظام تمدن نہ پانے ہی کی وجہ سے اپنی زندگی کوتباہ کررہے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں کی تباہی کے بھی موجب بن رہے ہیں۔کاش میں ان تک وہ آب حیات پہنچاسکتا جس کے وہ درحقیقت پیاسے ہیں،چاہے وہ اس پیاس کو محسوس نہ کرتے ہوں!تاہم میرے اپنے ہمسایہ ملک کے ہندو ،سکھ ،عیسائی ،پارسی میری دسترس سے قریب ہیں۔ان میںاکثر میری زبان بھی سمجھتے ہیں ۔میں انہیں دعوت دیتاہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ تاریخی اور سیاسی جھگڑوں کی بدولت جو تعصب ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف پیدا ہوگیاہے اس سے اپنے دلوں کو صاف کرکے محض طالب حق ہونے کی حیثیت سے اسلام کے اس نظام معاشرت کودیکھیں جسے ہم نے بے کم و کاست اس کتاب میں بیان کردیاہے۔پھر اس مغربی نطام معاشرت سے اس کا موازنہ کریں جس کی طرف وہ بے تحاشا دوڑے چلے جارہے ہیں۔اور آخرمیں میری یا کسی اور خاطر نہیں بلکہ خود اپنی بھلائی کی خاطر فیصلہ کریں کہ ان کی حقیقی فلاح کس طریقہ میں ہے۔

 اس کے بعد میں عام ناظرین کی طرف سے رخ پھیر کر چند الفاظ اپنے ان گمراہ بھائیوں سے عرض کروں گاجو مسلمان کہلاتے ہیں۔

 ہمارے بعض نئے تعلیم یافتہ مسلمان بھائی ان تمام باتوں کو تسلیم کرتے ہیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔مگر وہ کہتے ہیںکہ اسلام کے قوانین میں حالات زمانہ کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی توکافی گنجائش ہے جس سے تم خود بھی شاید انکار نہیں کرسکتے۔پس ہماری خواہش صرف اس قدر ہے کہ اسی گنجائش سے فائدہ اٹھایا جائے۔موجودہ زمانے کے حالات پردہ میں تخفیف کامطالبہ کررہے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ مسلمان عورتیں مدرسوں اور کالجوں میں جائیں۔اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ایسی تربیت حاصل کریں جس سے ملک کے تمدنی ،معاشرتی ،معاشی اور سیاسی مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کے قابل ہوسکیں۔اس کے بغیر مسلمان زندگی کی دوڑ میں ہمسایہ قوموں سے پیچھے رہے جاتے ہیں اور آگے چل کراندیشہ ہے کہ اور زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ملک کی سیاسی زندگی میں عورتوں کوجو حقوق دیئے جارہے ہیں اگر ان سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت مسلمان عورتوں میں پیدانہ ہوئی،اور پردے کی قیود کے سبب سے وہ فائدہ نہ اٹھاسکیں گی ،توملک کے سیاسی ترازو میں مسلمانوں کا وزن بہت کم رہ جائے گا۔دیکھو،دنیائے اسلام کی ترقی یافتہ اقوام مثلا ترکی اور ایران نے بھی زمانہ کے حالات دیکھ کر اسلامی حجاب میں بہت کچھ تخفیف (یہ لفظ محض بحث کی خاطر استعمال کیاجاتاہے۔ورنہ دراصل وہاں تخفیف نہیں تنسیخ کی گئی ہے۔)کردی ہے اور اس سے چند ہی سال کے اندر نمایاں فوائد حاصل ہوئے ہیں۔اگر ہم بھی ان انہیں کے نقش قدم پرچلیں تو آخر اس میں کیاقباحت ہے؟

 یہ جتنے خطرات بیان کئے جاسکتے ہیں ۔ہم ان سب کو جوں کاتوں تسلیم کرتے ہیں۔بلکہ اگر خطرات کی فہرست میں اس سے دس گنا اوراضافہ ہوجائے تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔بہرحال اس نوعیت کے کسی خطرے کی بناء پر بھی اسلام کے قانون میں ترمیم یاتخفیف جائز نہیں ہوسکتی۔دراصل ایسے تمام خطرات کی نوعیت یہ ہے کہ مثلا آپ قصدا ًاپنی حماقت سے یامجبوراً اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک کثیف اور مضر صحت ماحول میں رہتے ہوں اور وہاں حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا آپ کے لئے نہ صرف مشکل ہورہاہو،بلکہ گندے لوگوں کی بستی میں آپ کے لئے گندگی اختیار کئے بغیر جینا تک دشوار ہو۔ایسی حالت میں ظاہرہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کی ترمیم یاتخفیف کاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوسکتا۔اگر آپ ان اصولوں کو صحیح سمجھتے ہیں توآپ کا فرض ہے کہ اپنے ماحول سے لڑکر اسے پاک بنائیں۔اگر لڑنے کی جرات و ہمت نہیں اور اپنی کمزوری کی وجہ سے آپ اپنے ماحول سے مغلوب ہیں تو جائیے اور جو جو کثافتیں بھی آپ پر مسلط ہوں ان میں آلودہ ہوجائیے۔آخر آپ کے لئے قوانین صحت میں ترمیم یاتخفیف کیوں کی جائے؟اوراگرآپ واقعی ان قوانین کوغلط سمجھتے ہیں اورا س گندگی سے آپ کی طبیعت بھی مانوس ہوچکی ہے تو آپ اپنے لئے جو چاہے قانون بنالیجئے۔پاکی اور طہارت کے قانون میں تو ان لوگوں کی خواہشات کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی جوگندگی کی طرف میلان رکھتے ہوں۔

 اس میں شک نہیں کہ ہر قانون کی طر ح اسلامی قانون میں بھی حالات کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی گنجائش ہے ،مگر ہرقانون کی طرح اسلامی قانون بھی اس بات پر اصرار کرتاہے کہ شدت یا تخفیف کا فیصلہ کرنے کے لئے حالات کو اسی نظر سے اوراسی اسپرٹ میں دیکھا جائے جو اسلام کی نظر اور اسلام کی اسپرٹ ہے۔کسی مختلف نقطہ نگاہ سے حالات کودیکھنا اور پھر تخفیف کی قینچی لے کردفعات قانون پر حملہ آور ہوجانا تخفیف کی تعریف میں نہیں آتا بلکہ یہ سادہ اور صریح تحریف ہے۔جن حالات کو غیراسلامی نقطہ نظر سے دیکھ کر قانون اسلامی میں ''تخفیف''کرنے کا مطالبہ کیا جارہاہے،ان کو اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ فیصلہ کرناپڑے گا کہ ایسے حالات میں تخفیف کی نہیں بلکہ مزید شدت کی ضرورت ہے۔تخفیف صرف اس وقت کی جاسکتی ہے جب کہ قانون کے مقاصد دوسرے ذرائع سے پورے نہ ہورہے ہوں،بلکہ دوسری تمام قوتیں ان کو ضائع کرنے میں لگی ہوئی ہوں ،اور ان کے مقاصد کے حصول کا تمام ترمدار صرف تحفظات پرہی آٹھہرا ہو ،توایسی حالت میں صرف وہی شخص تخفیف کا خیال کرسکتاہے جوقانون کی اسپرٹ سے قطعی نابلد ہو۔

پچھلے اوراق میں ہم تفصیل کے ساتھ بیان کرچکے ہیں کہ اسلامی قانون معاشرت کا مقصد ضابطہ ازدواج کی حفاظت ،صنفی انتشار کی روک تھام اورغیرمعتدل شہوانی تحریکات کا انسداد ہے۔اس غرض کے لئے شارع نے تین تدبیریں اختیارکی ہیں۔

 ١۔ اصلاح اخلاق ،

 ٢۔ تعزیری قوانین۔

 ٣۔ انسدادی تدابیر یعنی ستر و حجاب ۔

 

 یہ گویا تین ستون ہیں جن پر یہ عمارت کھڑی کی گئی ہے ،جن کے استحکام پر اس عمارت کا استحکام منحصر ہے اور جن کا انہدام دراصل اس پوری عمارت کانہدام ہے۔آئیے اب اپنے ملک کے موجودہ حالات پر نظر ڈال کر دیکھئے کہ ان تینوں ستونوں کا آپ کے ہاں کیا حال ہے؟

 پہلے اپنے اخلاقی ماحول کو لیجئے۔آپ اس ملک میں رہتے ہیں جس کی پچھتر فیصدی آبادی آپ ہی کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کی وجہ سے اب تک غیر مسلم ہے،جس پر ایک غیر مسلم قوم حکمران ہے،جس پر ایک غیرمسلم تہذیب آندھی اور طوفان کی طرح چھائی چلی جارہی ہے،(قیام پاکستان سے پہلے کے حالات کی طرف اشارہ ہے۔)

 پلیگ اور ہیضہ کے جراثیم کی طرح غیر اسلامی اخلاق کے اصول اور غیر اسلامی تہذیب کے تخیلات تمام فضا میں پھیل گئے ہیں۔آب و ہوا ان سے مسموم ہوچکی ہے۔ان کی سمیت نے ہر طرف سے آپ کا احاطہ کرلیاہے۔فحش اور بے حیائی کی جن باتوں کے خیال سے بھی چند سال پہلے تک آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے وہ اب اس قدر عام ہوچکی ہیں کہ آپ انہیں روزمرہ کے معمولات سمجھ رہے ہیں۔آپ کے بچے تک اخباروں اور رسالوں اور اشتہاروں میں فحش تصویریں روز دیکھتے ہیں اور بے حیائی کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔آپ کے بوڑھے اور جوان اور بچے سب کے سب سینما دیکھ رہے ہیں جہاں عریانی اوربے حیائی اور شہوانی محبت سے زیادہ دلسچسپ چیز اور کوئی نہیں۔باپ اور بیٹے ،بھائی اور بہنیں مائیں اور بیٹیاں سب ایک دوسرے کے پہلو میں بیٹھ کر علانیہ بوس و کنار اور اختلاط و ملاعبت کے مناظر دیکھتے ہیں اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔انتہا درجہ کے گندے اور ہیجان انگیز گیت گھرگھر اور دکان دکان بج رہے ہیں اور کسی کے کان ان آوازوں سے محفوظ نہیں ۔ہندی اور فرنگی اعلیٰ سوسائٹی کی خواتین نیم عریاں لباسوں کے ساتھ پھر رہی ہیں اور نگاہیں ان لباسوں کی اس قدر خوگر ہوچکی ہیں کہ کوئی شخص ان میں کسی قسم کی بے حیائی محسوس نہیں کرتا۔اخلاق کے جو تصورات مغربی تعلیم و تربیت کے ساتھ پھیل رہے ہیں ان کی بدولت نکاح کو ایک فرسودہ رسم،زنا کو ایک تفریح ،مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو ایک ناقابل اعتراض بلکہ مستحسن چیز،طلاق کو ایک کھیل ،ازدواجی فرائض کو ایک ناقابل برداشت بندھن ،توالد و تناسل کو ایک حماقت،شوہر کی اطاعت کو ایک نوع کی غلامی ،بیوی بننے کو ایک مصیبت اور معشوق بننے کو ایک خیالی جنت سمجھا جارہاہے۔

 پھر دیکھئے کہ اس ماحول کے اثرات آپ کی قوم پر کیا پڑرہے ہیں۔کیاآپ کی سوسائٹی میں اب غض بصر کا کہیں وجودہے؟کیالاکھوں میں ایک آدمی بھی کہیں ایسا پایاجاتاہے جو اجنبی عورتوں کے حسن سے آنکھیں سینکنے میں باک کرتاہو؟کیااعلانیہ آنکھ اور زبان کا زنا نہیں کی جارہی ہے؟کیا آپ کی عورتیں بھی تبرج جاہلیہ اورا ظہارزینت اور نمائش حسن سے پرہیز کررہی ہیں؟

 

 کیا آج آپ کے گھروں میں ٹھیک وہی لباس نہیں پہنے جارہے جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ''نساء کاسیات عاریات حمیلات مائلات''؟کیا آپ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے سواکسی کے سامنے نہیں پہن سکتی؟کیا آپ کی سوسائٹی میں فحش قصے اور عشق و محبت کے گندے واقعات بے تکلفی کے ساتھ کہے اور سنے نہیں جاتے؟کیا آپ کی محفلوں میں لوگ خود اپنی بدکاری کے حالات بیان کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس کرتے ہیں؟جب حال یہ ہے تو فرمائیے کہ طہارت اخلاق کا وہ پہلا اور سب سے زیادہ مستحکم ستون کہاں باقی رہا جس پر اسلامی معاشرت کا ایوان تعمیر کیاگیاتھا؟اسلامی غیرت تو اب اس حد تک مٹ چکی ہے کہ مسلمان عورتیں صرف مسلمانوں ہی کے نہیں ،کفار کے ناجائز تصرف میں آرہی ہیں۔انگریزی حکومت میں نہیں ،مسلمان ریاستوں تک میں اس قسم کے واقعات علی رؤس الاستشہاد پیش آرہے ہیں۔مسلمان ان واقعات کو دیکھتے ہیں اور ان کے خون متحرک نہیں ہوتے۔ایسے بے غیرت مسلمان بھی دیکھے گئے ہیں جن کی اپنی بہنیں کسی غیر مسلم کے تصرف میں آئیں اور انہوں نے فخریہ اس کا اظہار کیا کہ ہم فلاں کافر کے برادر نسبتی ہیں۔(١)کیا اس کے بعد بھی بے حیائی اور اخلاقی انحطاط کا کوئی درجہ باقی رہ جاتاہے۔

 اب ذرا دوسرے ستون کا حال بھی دیکھ لیجئے۔تمام ہندوستان سے اسلامی تعزیرات کاپوراقانون مٹ چکاہے۔زنا اور قذف کی حد نہ مسلمان ریاستوں میں جاری ہوتی ہے نہ برٹش انڈیامیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ جو قانون اس وقت ملک میں نافذ ہے وہ سرے سے زناکو جرم ہی نہیں سمجھتا۔اگر کسی شریف بہوبیٹی کو کوئی شخص بہکاکربدکاربناناچاہے توآپ کے پاس کوئی قانونی ذریعہ ایسا نہیں ہے


(١)یہ واقعہ جنوبی ہندکا ہے۔میرے ایک دوست نے مجھے ایک اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک واقعہ سنایا۔مشرقی ہند میں ایک نام کی مسلمان عورت ایک بڑے دولت مند غیرمسلم کے ساتھ اعلانیہ تعلق رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس نے بہت بڑی جائیداد حاصل کی ۔میرے دوست کا بیان ہے کہ انہوں نے بارہامقامی مسلمانوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نام نہادمسلمانوں ۔۔۔۔۔۔۔۔کو اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے دیکھا ہے کہ غیرمسلم کے پاس سے ''مسلمانوں''میں اتنی بڑی دولت آگئی۔

جس سے اسکی عصمت محفوظ رکھ سکیں۔اگرکوئی شخص کسی بالغ عورت پر اس کی رضامندی سے ناجائز تصرف کرے تو آپ کسی قانون کے ذریعہ سے اس کو سزا نہیں دلواسکتے اگرکوئی عورت اعلانیہ فحش کاری پر اترآئے توآپ کے پاس کوئی قوت ایسی نہیں جس سے آپ اس کو روک سکیں۔قانون صرف زنابالجبر کوجرم ٹھہراتاہے مگرجو لوگ قانون پیشہ ہیں ان سے پوچھئے کہ زنابالجبرکاثبوت کس قدرمشکل ہے ۔منکوحہ عورت کو بھگاکے لے جانا بھی جرم ہے۔مگر انگریزی قانون جاننے والوں سے دریافت کیجئے کہ اگرمنکوحہ عورت خود اپنی رضامندیسے کسی کے گھر جاپڑے تو اس کے لئے آپ کے فرمانرواؤں کی عدالت میں کیا چارہ کارہے۔

 غورکیجئے! یہ دونوں ستون منہدم ہوچکے ہیں۔اب آپ کے نظم معاشرت کی پوری عمارت صرف ایک ستون پر قائم ہے۔کیاآپ اسے بھی مسمار کردیناچاہتے ہیں؟ایک طرف پردے کے وہ نقصانات ہیں جن کو آپ نے اوپر گنایاہے۔دوسری طرف پردہ اٹھادینے میں اخلاق اور نظام معاشرت کی کامل تباہی ہے۔دونوں کے درمیان موازنہ کیجئے۔مصیبتیں دونوں ہیں اور ایک کو بہرحال قبول کرنا ہے۔اب آپ خود ہی اپنے دل سے فتویٰ طلب کیجئے کہ ان میں سے کون سی مصیبت کم تر ہے؟

 پس اگر احوال زمانہ ہی پر فیصلہ کاانحصار ہے تومیں کہتاہوں کہ یہاں کے احوال پردے کی تخفیف کے نہیں اور زیادہ اہتمام کے مقتضی ہےں۔کیونکہ آپ کے نظام معاشرت کی حفاظت کرنے والے دو ستون گرچکے ہیں۔اور اب تمام دارمدار صرف ایک ہی ستون پرہے۔تمدن اورمعیشت اور سیاست کے مسائل کے حل کی دوسری صورتیں بھی نکل سکتی ہیں مگر اس بچے کھچے ستون کو ،جو پہلے ہی کافی کمزور ہوچکاہے اور زیادہ کمزورنہ بنائیے۔اس میں تخٖفیف کرنے سے پہلے کم از کم اتنی قوت پیداکرنی چاہئے کہ اگر کوئی مسلمان عورت بے نقاب ہوتوجہاں اس کو گھورنے کے لئے دوآنکھیں موجود ہوں،وہیں ان آنکھوں کو نکال لینے کے لئے پچاس ہاتھ بھی موجود ہوں۔(٨٧)

 

 

 

شہید مرتضی مطہری

 

 بیسویں صدی کے ایک اور مفکر ''شہید مرتضی مطہری''ہیں ۔صاحب مذکورنے پردہ پر باقاعدہ ایک کتاب بھی تحریرکی ہے ''فلسفہ حجاب''جس میں جناب نے پردہ کے تقریبا تمام ہی پہلوؤں پر سیر حاصل بحث پیش کی ہے جس سے بالکلیہ مستفید ہونے کے لئے تو مکمل کتاب کا مطالعہ ضروری ہے ۔تحقیق نگار اپنے باب ہذا کے موضوع کے متعلق فقط مصنف کے افکار کے حوالے سے گفتگو نظر قرطاس کرے گی۔مصنف مذکورنے کتاب ہٰذا ''فلسفہ حجاب'' میں دو اہم ترین عنوانات ''اسلام میں پردہ کا فلسفہ'' اور ''اسلامی پردہ'' کے تحت جو بحث پیش کی ہے وہ مصنف کے افکار کو سمجھنے کے لئے اہم ترین ہیں۔ان ابحاث میں مصنف نے پردہ کی بابت تقریبا تمام ہی تفصیلات کو نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کردیاہے۔اگر مصنف کی کتاب کے ان دوعنوانات کے تحت پیش کی جانے والی ابحاث کا ہی مطالعہ کرلیاجائے تو پردہ کی بابت تمام ترتفصیلات کوسمجھنے کے لئے (مصنف کے حوالے سے)کافی و وافی ثابت ہوگا۔

مصنف پہلے عنوان کے تحت اپنے نظریہ کے مطابق اسلام میں عورت کے پردہ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

 

''اسلام میں عورت کا پردہ یہ ہے کہ وہ مردوں کے ساتھ رہن سہن میں اپنے بدن کوڈھانکے اور اس کی نمائش نہ کرے ۔قرآن مجید کی آیتیں بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہیں اور ہمارے فقہاء کے فتوی بھی اس امر کی تائید کرتے ہیں۔۔۔۔۔پردے کے متعلق آیات میں حجاب کالفظ استعمال نہیں ہوا ہے وہ سورہ نور ہو یا سورہ احزاب اس بارے میں جہاں کہی جو آیت بھی آئی ہے اس میں لفظ حجاب کو استعمال کئے بغیر مرد و زن کے روابط ار پردہ کے حدود کا تذکرہ ہے۔وہ آیت جس میں لفظ حجاب آیاہے اس کا تعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم کہ کیا صورت پیش آئی کہ زمانہ ئحال میں فقہاء کی اصطلاح سترکے بجائے حجاب اور پردے کے الفاظ رواج پاگئے۔شاید اس کی وجہ یہ غلط فہمی ہوکہ اسلامی حجاب بھی اسی طرح کی کوئی چیز ہے جیسا کہ وہ حجاب جس کا رواج دنیا کی دوسری اقوام و ملل میں ہے''(٨٨)

 

 کچھ آگے چل کر مصنف مذکور اسلامی پردہ کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ :

 ہماری نظر میں اسلامی پردے کا فلسفہ چند نکات پر منحصر ہے ۔جن میں سے کچھ نفسیاتی پہلو کے حامل ہیں کچھ گھر سے متعلق ہیں ،کچھ اجتماعی امور سے اور کچھ عورت کی سربلندی اور احترام میں اضافہ سے متعلق ہیں۔

ان چند نکات کو مصنف نے چار نکات پر منحصر کیا ہے۔

١۔ سکون نفس

٢۔ خاندانی روابط

٣۔ مستحکم معاشرہ

٤۔ عورت کامقام و احترام

 اسلام میں پردہ کا مسئلہ مکمل اور محکم اصولوں پر استوار ہے۔اسلام چاہتاہے کہ تمام جنسی لذتیں خواہ ان کا تعلق دیکھنے سے ہو یا چھونے سے گھر کی چار دیواری کے اندر منحصر رہیں اور باہر کا ماحول صرف کام کاج کے لئے ہو۔جب کہ آج کل مغرب میں کام کاج کو شہوت سے مربوط کردیاگیا ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ ان دونوں کا ماحول ایک دوسرے سے جداہو۔(٨٩)

 دوسرے عنوان ''اسلامی پردہ'' کے تحت مصنف مذکور قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں اپنی فکر کے مطابق اسلامی پردہ کی توضیح و تشریح کرتے ہیںجس میں اسلامی پردہ پربالتفصیل سیر حاصل بحث شامل ہے اور پردہ کی بابت مرد و عورت دونوں کی ذمہ داریوں کو بھی خوب وضاحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔مثلا

١۔ ہرمسلمان مرد وعورت کو چاہئے کہ آنکھ ڈالنے آنکھ لڑانے سے اجتناب کرے۔

٢۔ ہرمسلمان مردوعورت کو چاہئے کہ پاکدامنی اختیار کرے اور اپنی شرمگاہوں کو دوسروں سے چھپائے۔

٣۔ عورتوں کو چاہئے کہ اپنے بناؤ سنگھار کودوسروں پر ظاہر نہ ہونے دیں اور مردوں کی دلچسپی کا سبب نہ بنیں۔

٤۔ عورت کے پردے کے متعلق دو استثناؤں کا تذکرہ ہواہے ایک''ولایبدین زینتھن الاماظھر منھا''جو عام مردوں سے متعلق ہے اور دوسرا''ولایبدین زینتھن الالبعولتھن''خاص مردوں کے لئے عورتوں کے پردے کو مستثنیٰ قرار دیتاہے وغیر ہ وغیرہ۔

بعدہ مصنف بالترتیب تمام آیات کے مفاہیم کو زیربحث لاتے ہیں۔

 بدن ڈھانکنے کے لئے حجاب کا لفظ نسبتاً ایک جدید اصطلاح ہے۔پرانے زمانے میں اور خصوصا فقہاکی اصطلاح میں اس معنی میں ستر کا لفظ استعمال کیا جاتاتھا۔کتاب الصلوۃ،کتاب النکاح اور جہاں کہیں بھی یہ مضمون آیاہے ،فقہانے سترکالفظ استعمال کیاہے،حجاب کا کہیں بھی نہیں۔

 بہتر تو یہ تھا کہ سترکو حجاب سے بدلانہ جاتا او رہم اسے ستر ہی کہتے۔اس لئے کہ حجاب عام طورپرپردے کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے۔اور اگر اسے ستر کے مفہوم میں بولاجائے تو وہ عورت کے پس پردہ ہونے کا پتہ دیتاہے۔یہیں سے لوگوں میں غلط فہمی ہوئی اور انہوں نے سمجھاکہ اسلام چاہتاہے کہ عورتیں پس پردہ رہیں اور گھروں سے باہر نہ نکلیں۔اسلام نے عورتوں کے لئے جس پردہ کو واجب قراردیاہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ گھروں سے نہ نکلیں۔اسلام عورتوں کوگھروں میں پابندکرنے کاحامی نہیں ہے۔عورتوں کوسختی کے ساتھ گھروں میں بند کرنے کی جو رسم قدیم ہندوستان اور ایران میں پائی جاتی تھی۔اسلام میں اس کا کوئی وجود نہیںہے۔

 اسلام میں عورت کا پردہ یہ ہے کہ وہ مردوں کے ساتھ رہن سہن میں اپنے بدن کو ڈھانکے اور اس کی نمائش نہ کرے۔قرآن مجید کی آیتیں بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہیں اور ہمارے فقہاکے فتوے بھی اسی امر کی تائید کرتے ہیں۔ہم آگے چل کر قرآن و سنت کی روشنی میں اس پردے کے حدود بیان کریں گے۔پردے کے متعلق آیات میں حجاب کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔وہ سورہ نور ہو یا سورہ احزاب اس بارے میں جہان کہیں جو آیت بھی آئی ہے ،اس میں لفظ حجاب کو استعمال کئے بغیر مرد وزن کے روابط اور پردے کے حدود کا تذکرہ ہے۔وہ آیت جس میں لفظ حجاب آیاہے اس کا تعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہے۔

 ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خاص احکام وارد ہوئے ہیں ۔پہلی آیت جو اس سلسلے میں نازل ہوئی یوں شروع ہوتی ہے۔:

یَا نِسَاء النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء

 

''اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو''۔(٩٠)

 

 (یعنی تم باقی سب عورتوں سے مختلف ہو)اسلام نے خاص تاکید کی ہے کہ ازواج رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اور آپ کی وفات کے بعد بھی گھروں میں رہیں۔اس حکم کے بہت سے معاشرتی اور سیاسی اسباب تھے۔قرآن کریم صاف الفاظ میں ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتاہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں۔

 اسلام چاہتاہے کہ ام المؤمنین جن کا مسلمانوں میں بے حد احترام کیا جاتاتھا،اس احترام کوغلط طورپر استعمال نہ کریں اور بھولے سے بھی سیاسی اور اجتماعی مسائل میں مفاد پرست عناصر کی آلہ کار نہ بنیں۔ازرؤے تاریخ یہ بات ہم پر واضح ہے کہ ایک ام المؤمنین نے اس کی خلاف ورزی کرکے سیاسی فتنوں کو عالم اسلام میں راہ دی اگرچہ بعد میں خودانہیں بھی اس بات کا افسوس رہا۔وہ کہا کرتی تھیں:''کا ش میرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے بچے ہوتے اور سب مرجاتے مگرمیں اس قضیے میں ہاتھ نہ ڈالتی''۔(٩١)

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدآپ کی ازواج کی کسی اور سے تزویج کی ممانعت کا سبب میرے پیش نظر یہی ہے کہ کوئی دوسرا شوہر اپنی زوجہ کی شہرت اور اس کے احترام سے یقینا بے جافائدہ اٹھاتا جس سے نئے حادثات رونماہوتے۔اس بناپر اگر کہیں ازواج رسول کے بارے میں سخت تاکیدی حکم دیاگیا تھا تو اس کا سبب یہی تھا۔

 بہرحال وہ آیت جس میں لفظ حجاب آیا ہے سورہ احزاب کی ٥٣ ویں آیت ہے۔جہاں ارشاد ہوتا:

جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنا ہوتوپردہ کے پیچھے سے مانگاکرو۔

 تاریخ اور حدیث کی اصطلاح میں جہاں کہیں بھی آیہ حجاب کا تذکرہ ہواہے۔مثلا یہ کہاگیا ہے کہ آیہ حجاب کے نزول سے قبل ایساتھا یا آیہ حجاب کے نزول کے بعد ایساہوا تو اس سے یہی آیت مراد ہے جس کا تعلق ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے(٩٢)نہ کہ سورہ نور کی تیسویں آیت یا یہ آیت جہاں ارشاد ہوتاہے کہ

 

'' اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیاکریں۔یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اورنہ ستائی جائیں''(٩٣)

 

 مجھے نہیں معلوم کہ کیا صورت پیش آئی کہ زمانہ حال میں فقہا کی اصطلاح سترکے بجائے حجاب اور پردے کے الفاظ رواج پاگئے۔شاید اس کی وجہ یہ غلط فہمی ہوکہ اسلامی حجاب بھی اسی طرح کی کوئی چیز ہے جیساکہ وہ حجاب جس کارواج دنیا کی دوسری اقوام و ملل میں ہے۔

 

پردے کی اصل صورت

 

 ستریا پردے کے مسئلے میں یہ بات نہیں ہے کہ عورت سترکے ساتھ بھرے مجمع میں آئے یا عریاں؟بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کیا مرد کی عورت سے لذت اندوزی بلاعوض اور عام ہونی چاہیئے ؟کیا مرد کو یہ حق ہے کہ وہ عورت سے ہر محفل میں باستثنائے زنازیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرے؟

 اسلام کہ جس کی نظر مسائل کی اصلیت پر ہے ،جواب دیتاہے :

 نہیں! ایسا نہیں ہے۔مرد صف گھریلو ماحول اور مضبوط عہد وپیمان کے ساتھ ازدواجی قانون کے دائرے میں عورت کو بیوی کی حیثیت سے اپنے تصرف میں لاسکتاہے لیکن عام اجتماعات میں کسی نامحرم عورت سے قطعا استفادہ نہیں کرسکتا۔نیز عورت کے لئے بھی یہی پابندی ہے۔یہ درست ہے کہ مسئلہ کی ظاہری صورت یہ ہے کہ عورت کیاکرے؟وہ ستر کے ساتھ باہر آئے یاعریاں؟یعنی جو چیز عنوان مسئلہ قرار پاتی ہے وہ عورت ہے اور کبھی کبھی اس مسئلہ کو بڑے ہمدرانہ اندازسے پیش کیاجاتاہے کہ کیا محکومیت ،اسیری اور پردہ نشینی سے بہترنہیں ہے کہ عورت آزاد فضامیں سانس لے ؟لیکن باطن میں کچھ اور بات ہے اور وہ یہ ہے کہ مرد کو عورت سے زنا کے علاوہ جنسی استفادے میں مطلق آزادی ہونی چاہیئے۔یعنی اس مسئلہ میں جو فائدہ مرد کو پہنچ رہاہے وہ عورت کو نہیں۔

بقول ولڈ یورنٹ:''منی اسکرٹ کپڑا فروشوں کے سوا ساری دنیا کے لئے ایک نعمت ہے''

 پس اصل مسئلہ جنسی خواہش کو شرعی حدود میں رکھنے یا جنسی لذت کے حصول کو پورے معاشرے میں عام کرنے کا ہے ۔دین اسلام پہلی روش کا حامی ہے۔

 اسلام کے نقطہ نظر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے عمل میں جنسی لذت کے حصول کی محدودیت نفسیاتی اعتبار سے ایک صاف ستھرے ماحول کو پیش کرتی ہے،باعتبار خاندان،خاندان کے ا فرادکے تعلقات میں استحکام اور میاں بیوی میں مکمل ہم آہنگی پیداکرتی ہے۔باعتبار اجتماع لوگوں کی کارکردگی کی اہلیت اور توانائی کا تحفظ کرتی ہے اور مرد کے مقابل عورت کی منزلت کوبڑھاتی ہے۔

 ہماری نظر میں اسلامی پردے کا فلسفہ چند نکات پر منحصر ہے ۔جن میں سے کچھ نفسیاتی پہلو کے حامل ہیں کچھ گھر سے متعلق ہیں ،کچھ اجتماعی امور سے اور کچھ عورت کی سربلندی اور احترام میں اضافہ سے متعلق ہیں۔

 اسلام میں پردہ کا مسئلہ مکمل اور محکم اصولوں پر استوار ہے۔اسلام چاہتاہے کہ تمام جنسی لذتیں خواہ ان کا تعلق دیکھنے سے ہو یا چھونے سے گھر کی چار دیواری کے اندر منحصر رہیں اور باہر کا ماحول صرف کام کاج کے لئے ہو۔جب کہ آج کل مغرب میں کام کاج کو شہوت سے مربوط کردیاگیا ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ ان دونوں کا ماحول ایک دوسرے سے جداہو۔

 اب ہم اوپر بیان کئے ہوئے چاروں امور کی وضاحت کرتے ہیں:

 

١۔سکون نفس

 

 مرد و زن کے درمیان پردے کا نہ ہونا اور مادر پدآزادی نفسانی خواہشات میں اضافے کا باعث ہوتی ہے اور سیکس کے تقاضے کوکبھی نہ بجھنے والی پیاس بخشتی ہے ۔نفسانی خواہشات سمندر کی طرح گہری اور بیکراں ہوتی ہیں کہ جتنی فرمانبرداری کی جائے اتنی ہی سرکش ہوجاتی ہےں اور آگ کی طرح کہ اسے جتنا ایندھن دیاجائے اتناہی شعلہ زن ہوتی ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کرنا ہوگی:

 

١۔ تاریخ جس طرح دولت کے پجاریوں کا تذکرہ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وہ مال و دولت سمیٹنے کے کتنے حریص تھے ۔اسی طرح جنسی امور میں حریص افراد بھی اس کے موضوع گفتگوسے خارج نہیں ہیں۔اس قسم کے افراد بھی کسی منزل پر نہیں رکے ،حرم سرا کے مالک تو کجا مالداروں کا بھی یہی وطیرہ رہا ہے۔

 ایران ساسانیوں کے دور میں کا مصنف کریسٹنسن(Arthur Christensen "L' Iran sous les Sassanides) اپنی کتاب میں لکھتاہے:

 خسرو پرویز کے حرم میں تین ہزار پری وشوں کی موجودگی کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اس شہریار کو سیری نہیں ہوتی تھی۔خوبصورت دوشیزائیں ،بیوائیں اور صاحب اولاد عورتیں جہاں کہیں بھی اسے دکھائی دے جاتی وہ انھیں اپنے حرم میں شامل کرلیتا اور جب اس کا دل ان سے بھرجاتا تو وہ اپنے گورنروں سے اپنی پسند کی عورت کے حصول کی فرمائش کرتا۔چنانچہ جب گورنروں کو ویسی عورت مل جاتی تو وہ اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیاکرتے تھے''۔(باب ٩)

 قدیم تاریخ میں ہمیں اس طرح کے واقعات بکثرت ملتے ہیں۔دور حاضر میں ان حرم سراؤں کی صورت بدل گئی ہے۔اب یہ ضروری نہیں کہ کوئی خسروپرویز اور ہارون رشید جیسے اختیارات رکھتاہو۔آج کل فرنگی تجدد کی ''برکت''سے خسرو پرویز اور ہارون رشید کے اختیارات کا لاکھواں حصہ رکھنے والے شخص بھی عورتوں سے انہی کے برابر خوشنودی حاصل کرسکتاہے۔

 

٢۔ عالمی ادبیات کا ایک بڑاحصہ غزلیات پر مشتمل ہے ۔غزل میں مرد اپنے محبوب کی مدح کرتاہے،اس کے آگے سرنیاز خم کرتاہے۔اسے بڑا اور خود کو چھوٹا ظاہر کرتاہے ۔وہ اس کے التفات کا مشتاق رہتاہے۔وہ اپنے آپ کو اس کی معمولی سی عنایت کا نیاز مند قراردیتاہے اور دعویٰ کرتاہے کہ اس کا محبوب ایک نگاہ ناز سے صد ملک جان کو تسخیر کرسکتاہے تو پھر اس معاملے میں تقصیر کیوں ہو۔عاشق معشوق کی جدائی میں درد فراق سے چیختاچلاتاہے۔

 یہ سب کچھ کیاہے،آخرکیوں انسان اپنی تمام ضرورتوں کے بارے میں ایسانہیں کرتا۔کیا کبھی آپ نے دولت کے پرستار کو دولت کے لئے اور منصب کے خواستگار کومنصب کے لئے ''غزل سرائی''کرتے دیکھا ہے؟کیا اب تک کسی نے روٹی کے لئے غزل کہی،کیوں ہر انسان دوسرے کی غزل کو پسند کرتا ہے؟ایساکیوں ہے کہ سب لوگ دیوان حافظ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کیا اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور بھی ہے کہ ہر شخص اسے ایک ایسے عمیق فطری میلان پر منطبق دیکھتاہے جو اس کے پورے وجود پر چھایاہواہے۔کس قدر غلطی پر ہےں کمیونسٹ جو یہ کہتے ہیں کہ صرف پیٹ (اقتصاد)ہی لوگوں کی دوڑدھوپ کا بنیادی سبب ہے۔

 جس طرح انسان نے اپنی روح کے لئے مخصوص موسیقی مرتب کی ہے،اسی طرح اس نے اپنے جنسی عشقیات کے لئے بھی ایک خاص دھن ترتیب دی ہے ۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ روٹی اور پانی جیسی مادی ضروریات کے لئے اس کے پاس کوئی راگ نہیں ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ تمام عشقیات کا تعلق جنس سے ہے اور میرایہ بھی مقصد نہیں ہے کہ حافظ سعدی اور دیگر غزل گو شعراء نے محض جنسی زبان میں گفتگوکی ہے۔ان کی بیان کردہ محبت کچھ اور ہے ،جس پر الگ سے گفتگو کی ضرورت ہے۔

 لیکن یہ بات طے ہے کہ بیشتر غزلیں وہ ہیں جنہیں مرد نے عورت ہی کے لئے مخصوص کیاہے۔ہمارے لئے یہ جاننا ہی کافی ہے کہ عورت کی طرف مرد کا میلان روٹی اور پانی کی طرح کا میلان نہیں کیونکہ پیٹ بھرنے سے تو انسان قانع اور مطمئن ہوجاتاہے۔مگر عورت کے باب میں یہ توجہ ہوس اور تنوع کی صورت اختیار کرجاتی ہے یا عاشقی اور غزل سرائی میں بدل جاتی ہے ۔ہم اس پر بعد میں گفتگو کریں گے کہ کن شرائط میں جنسی ہوس تقویت پاتی ہے اور کن شرائط میں عشق و غزل کی صورت اختیار کرتی ہے اور کب اس پر حقیقی رنگ چڑھتاہے۔

 بہرحال اسلام نے اس پرجوش جبلت کی حیرت انگیز توانائی پر پوری توجہ دی ہے ۔چنانچہ نگاہ کے فتنے ،خلوت کے خطرے اور ملاپ کے جذبے کے بارے میں شیعہ اور سنی کتابوں میں کئی روایات موجود ہیں۔

 اسلام نے اس فطری جذبے کو قابومیں لانے اور اس میں توازن پیداکرنے کی طرف خاص توجہ دیتے ہوئے ''دید''کی بابت مرد و زن پر ایک مشترکہ فرض عائد کیاہے۔اس سلسلے میں سورہ نور کے حوالے سے جو دستور پیش کیاگیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عورت اور مرد لذت اندوز نگاہوں سے ایک دوسروں کو نہ دیکھیں۔عورتوںپر فرض ہے کہ وہ بیگانہ مردوں سے اپنابدن چھپائیں اور اجتماعات میں خودنمائی سے پرہیز کریں۔کسی بھی طرح ایسااندازنہ اپنائیں کہ غیرمرد ان کی طرف متوجہ ہوں۔

 انسان کا نفس بڑی حد تک اثر پذیر ہے۔یہ خیال غلط ہے کہ اس کی تحریک پذیری ایک خاص حد تک محدود ہے اور اس کے بعد آگے نہیں بڑھتی۔

 بلاامتیاز مرد و زن ،انسان جس طرح دولت ،منصب اور عزت سے سیر نہیں ہوتا اسی طرح جنسی معاملات میں بھی اسے سیری نہیں ہوتی۔ کوئی مرد حسین چہروں کے دیدار سے کوئی عورت مردوں کے دل جیتنے کی خواہش سے اور بالا ۤ خر کوئی دل ہوس سے سیر نہیں ہوتا۔

 پھر یہ بے کنار خواہش کبھی پوری ہونے والی نہیں ۔وہ ایک طرح کے احساس محرومیت سے دوچار رہتی ہے اور آرزوؤں میں ناکامی بجائے خود باطنی نقائص اور بیماریوں کو راہ دیتی ہے۔

 آخر مغرب میں نفسیاتی بیماریوں کی اتنی بہتات کیوں ہے؟ اس کا سبب یہی جنسی بے راہ روی اور سیکس کی یہی ترغیبات ہیں جو انھیں اخباروں ،رسالوں ،سینماگھروں،تھیٹروں اور سرکاری وغیر سرکاری تقریبوں ،یہاں تک کہ سڑکوں اور گلیوں میں بھی ملتی ہیں۔

 لیکن اسلام میں عورت کے لئے ستر پردے کا حکم اس لئے آیا ہے کہ اس میں خود نمائی اور خودآرائی کی خواہش شدت سے پائی جاتی ہے۔دل و دماغ پر تصرف کے اعتبار سے مرد شکار ہے اور عورت شکاری۔آرائش وزیبائش پر عورت کی توجہ اس کے شکاری احساس کا پتادیتی ہے ۔دنیا کے کسی حصے میں یہ بات دیکھنے میں نہیں آتی کہ مرد بدن کی جھلک دکھانے والا لباس زیب تن کرے اور ہیجان انگیز سنگھار کرے ۔یہ عورت کا فعل ہے کہ وہ دلربائی کے انداز اختیار کرے اور مردکو اپنی زلف کا اسیر بنائے۔چونکہ حد سے بڑھا ہوا سنگھار اور نیم برہنہ لباس عورت کو کجروی میں مبتلاکردیتاہے ،اس لئے پردے کا حکم بھی اسی کے لئے صادر ہوا۔

 ہم جنسی جبلت کی طوفان خیزیوں اور برٹرینڈرسل جیسے افراد کے دعوؤں کے برعکس اس بات پر کہ جنسی جذبہ کو آزادچھوڑدینے اور جذبات ابھارنے کے وسائل کی فراہمی سے یہ جذبہ ہر گز سیر نہیں ہوتا۔نیز مردوں میں تانک جھانک اور عورتوں میں محاسن دکھانے کے میلان پر بعد میں گفتگو کرینگے۔

 

٢۔ خاندانی روابط میں استحکام

 

 اس میں شک نہیں کہ ہر وہ چیز جو ازدواجی روابط کو مستحکم کرے اسے روبعمل لانا چاہئے اور ہر وہ چیز جو ازدواجی روابط میں کمزوری کا باعث ہو اسے ختم کردینا چاہئے۔

 ازدواجی زندگی کے دائرے میں جنسی لذت اندوزی میاں بیوی کے رشتہ کو مستحکم کرتی ہے۔اور انھیں ایک دوسرے سے قریب لاتی ہے۔

 سترپوشی کا فلسفہ اور غیر عورت سے جنسی تعلقات کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ باعتبار نفسیات گھریلوماحول میں انسان کی قانونی بیوی اسے خوشنود کرے،جبکہ جنسی آزادی کے ماحول میں باعتبار نفسیات قانونی بیوی مرد کی رقیب اور داروغہ سمجھی جاتی ہے جس کے نتیجے میں گھر میں دشمنی اور نفرت کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔

 آج کل کے نوجوانوں کا شادی سے انکار کرنے کا سبب بھی یہی ہے ۔حالانکہ پچھلے وقتوں میں شادی نوجوان کی دلی تمنا ہواکرتی تھی اورجب تک تہذیب مغرب نے عورتوں کوبازاری جنس نہیں بنایا تھا نوجوان شب وصال کوتخت شاہی سے کم نہیں سمجھتے تھے۔

پرانے وقتوں میں شادی بڑی تمناؤں اور بڑے انتظار کے بعد ہوتی تھی اور اسی لئے میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنے لئے نیک بختی کی علامت سمجھتے تھے لیکن آج جنسی تسکین کا حصول اتنا عام ہوگیاہے کہ اب شادی میں کوئی کشش باقی نہیں رہی ہے۔

 جنسی روابط کو قانونی ازدواج کے دائرے میں محدود کرنے والے معاشرے اور جنسی طور پر آزاد معاشرے میں فرق یہ ہے کہ شادی کرنے سے پہلے معاشرے میں انتظار اور محرومیت کااختتام ہوتاہے۔جب کہ دوسرے معاشرے میں محرومیت اور پابندی کا آغاز ہوتاہے ۔جنسی آزادی کے ماحول میں شادی کا بندھن لڑکے اور لڑکی کی آزادی کوختم کردیتاہے اور انہیں مجبور کرتاہے کہ وہ ایک دوسرے کے وفادار بن کر رہیں۔درآنحالیکہ اسلامی معاشرے میں شادی ان کی محرومیت اور انتظار کوختم کرتی ہے اور ان کے لئے خوشی کا پیغام لاتی ہے۔

 آزاد جنسی تعلقات نوجوان لڑکوں کو شادی سے روکتے ہیں۔اس ماحول میں نوجوان لڑکے صرف اسی وقت یہ اقدام کرتے ہیں جب ان کی نوجوانی کا جوش ٹھنڈاہونے لگتاہے۔ایسے موقع پر وہ اولاد یا خدمت کے لئے عورت کے خواہشمند ہوتے ہیں۔مرد کا یہ طرز عمل ازدواجی بندھن کوکمزورکردیتاہے اور بجائے اس کے کہ ایک گھر سچی چاہت کی بنیاد پر وجود میں آئے جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنی خوش نصیبی کا لٹیراسمجھنے لگتے ہیں۔آج کل کے خاص الفاظ میں وہ ایک دوسرے کو جیلر کہنے لگتے ہیں۔

 ایسے ماحول میں جب کوئی لڑکا یا لڑکی یہ کہے کہ اس نے اپنے لئے جیلر ڈھونڈ لیا ہے تو اس کا مطلب ہوتاہے کہ اس نے شادی کرلی ہے۔یہ تعبیر کیوں ہوئی اس لئے کہ وہ شادی سے پہلے آزاد تھی۔جہاں چاہے جاسکتی تھی اور جس کے ساتھ چاہے رقص کرسکتی تھی لیکن شادی کے بعد اس کی آزادی چھن گئی ہے۔اگر وہ رات دیر سے گھر پہنچے تو شوہر بازپرس کرتاہے کہ کہاں گئی تھی۔سی طرح مرد اگر کسی محفل میں دوسری عورتوں کے قریب ہونے کی کوشش کرتاہے تو اس کی بیوی اس پر اعتراض کرتی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں گھریلو زندگی کس طرح پر سکون رہ سکتی ہے۔

 برٹرینڈ رسل جیسے بعض افراد کا خیال ہے کہ مرد عورت پر اس لئے پابندی لگاتاہے کہ وہ اپنی نسل کی پاکیزگی کاخواہاں ہے۔اس کی اس مشکل کو مانع حمل ادویات نے آسان کردیاہے جن کی بدولت عورت اب نسل پر اختیاررکھتی ہے لیکن یہاں مسئلہ صرف نسل کی پاکیزگی کا ہی نہیں ہے بلکہ ایک اور مسئلہ زوجین کے درمیان سچے اور پاک جذبات کا اور آپس میں الفت اور یگانگت کا بھی ہے۔یہ بات اسی وقت پیداہوسکتی ہے جب زوجین نامحرموں سے پرہیزکریں۔مرد کسی دوسری عورت پر نظر نہ رکھے اور عورت بھی اپنے شوہر کے سواکسی کو محظوظ نہ کرے ۔نیز ہر قسم کے جنسی تعلقات سے صرف نظر کیاجائے حتیٰ کہ شادی سے قبل کے مرحلے میں بھی اس کا خیال رکھاجائے۔

 علاوہ ازیں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ رسل جیسے افراد کی پیروی میں ''جدیدجنسی اخلاق''کی حامل ''ترقی یافتہ''عورت جو اپنے محبوب کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہے اپنے شوہر سے قرار پانے والے حمل کو ضائع نہیں کرے گی اور آشنا سے پیداہونے والے بچے کو اپنے شوہر سے نسبت نہیں دے گی۔ایسی عورت یقینا یہی چاہے گی کہ اس کا بچہ اس کے محبوب کی نشانی ہو۔اسی طرح مرد بھی فطرتا ایسی عورت سے صاحب اولاد ہونا چاہتاہے جسے وہ دل سے چاہتاہو نہ کہ اس عورت سے جو قانون کی رو سے اس کے پلے باندھ دی گئی ہو۔اہل یورپ نے عملا یہ دکھادیا ہے کہ احتیاط اور اسقاط کے وسائل کی کثرت کے باوجود ناجائز بچوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

 

٣۔ مستحکم معاشرہ

 

 جنسی لذائذ کے حصول کو گھر سے نکال کر معاشرے تک وسیع کردینا کارکردگی کو متاثر کرتاہے اور اس سے معاشرے کی چولیں ہل جاتی ہیں۔یہ بات اس اعتراض کے بالکل برعکس ہے جسے پردے کے مخالفین پیش کرتے ہیں۔وہ یہ کہتے ہیں :

 ''پردہ معاشرے کی نصف آبادی کی توانائی کو مفلوج کردیتاہے''۔

 

 عورتوں کی توانائی کو مفلوج کرنا ان کی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے مترادف ہے ۔اسلام میں پردہ عورت کو قید کردینے کے مفہوم میں نہیں ہے کہ جس سے وہ ثقافتی ،معاشرتی اور اقتصادی فوائد کے حصول سے محروم ہوجائے۔اسلام یہ نہیں کہتا کہ عورت گھر سے باہر نہ نکلے۔وہ اس کو علم حاصل کرنے سے نہیں روکتا۔جب کہ اس نے توحصول علم کو مرد اورعورت کے لئے یکساں قرار دیاہے۔اسلام نے عورت کو معاشی جدوجہد سے بھی نہیں روکا۔وہ نہیں چاہتاکہ عورت بیکار بیٹھی رہے اور اس کا وجود عبث ہوکررہ جائے ۔چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ ستربدن کیساتھ اس کے لئے ثقافتی ،معاشرتی یا اقتصادی میدان کی راہیں کھلی ہوئی ہیں ۔البتہ عیاشی اور شہوت پرستی سے کام کے ماحول کو آلودہ کرنے سے معاشرے کی قوتیں ضرور مفلوج ہوجاتی ہےں۔اگر لڑکے اور لڑکیاں علیحدہ علیحدہ ماحول میں تعلیم حاصل کریں یا بالفرض سترپوشی کوملحوظ رکھتے ہوئے ایک ساتھ تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیں اور بناؤ سنگھار سے پرہیز کریں تو وہ بہتر طورپر تعلیم پاسکتے ہیں۔یایہ کہ سترپوشی کوملحوظ نہ رکھتے ہوئے رانوں سے بالشت بھر اونچے منی سکرٹ پہنی لڑکیاں اور لڑکے پہلوبہ پہلو بیٹھ کر بہتر انداز میں پڑھ سکتے ہیں؟کیا کوئی سڑک ،بازار ،دفتر یا کارخانے میں اس ماحول میں اچھی کارکردگی دکھا سکتاہے جب کہ اس کی نظروں کے سامنے ہر وقت لڑکیوں کے شہوت انگیز چہرے ناچ رہے ہوں؟اگر آپ اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ان لوگوں سے پوچھیں جو ایسے ماحول میں کام کرتے ہیں ۔وہ کمپنیاں اور ادارے جو اچھی کارکردگی کے خواہاں ہوتے ہیں اس طرح کے ماحول سے پرہیز کرتے ہیں۔

 

 حقیقت یہ ہے کہ عریانی سرمایہ دار مغرب کا دیاہوا وہ ''زہر''ہے جو انسانی معاشرے کو ادھ موا کردیتاہے۔اس طرح وہ ایک ادھ موئے معاشرے کو اپنادست نگر بنالیتاہے اور اسے اپنی مصنوعات کے استعمال پر مجبور کردیتاہے۔

 روزنامہ اطلاعات میں سامان آرائش کے استعمال کے بارے میں مرکزی دفتر شماریات کی شائع کردہ رپورٹ میں کہاگیاہے:۔

 

صر ف ایک سال میں عورتوں کے لئے دو لاکھ دس ہزار کیلولپ اسٹک ،کریم ،پوڈر اور آئی شیڈ درآمد کیاگیا۔١٦٥ بلاؤز ،٢٥٠٠ درجن پوڈر کے ڈبے، ٤٦٠٤ غازہ ٹیوب،سلمنگ سوپ کی ٢٢٨٠ ٹکیاں اور میک اپ کی ٢٢٨٠ شیشیاں ،٣١٠٠ پیکٹ آئی شیڈ واور٢٤٠٠ پیکٹ آئی لائن درآمد کئے جائیں گے۔(٩٤)

 

 جی ہاں ! ترقی اور فیشن کے نام پر ایرانی عورت سرمایہ دار ممالک کے تیار کردہ سامان آرائش کے ساتھ خوب سجاکر ہر روز لوگوں کے سامنے آتی ہے تاکہ وہ یورپی کارخانوں کے لئے ایک قابل قدر صارف کی حیثیت سے داد تحسین حاصل کرے۔اگر وہ فقط اپنے شوہر کے لئے یا زنانہ تقریبات کے لئے بناؤ سنگھار کرے تو وہ نہ مغربی سرمایہ داروں کے لئے ایک لائق صارف بن سکتی ہے اور نہ نوجوان نسل کے اخلاقی دیوالیہ پن میں مددگار بن سکتی ہے جس سے مغربی استعمار کا مفاد وابستہ ہے۔

 غیر سرمایہ دار معاشرے میں لادینی رجحانات کے باوجود آزادی کے نام پر عورت کی اس طرح رسوائی کم ہی نظرآتی ہے۔

 

٤۔ عورت کا مقام اور احترام

 

 ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مرد جسمانی لحاظ سے عورت پر برتری رکھتاہے۔ذہنی طورپربھی اس کی عورت پر فوقیت ناقابل انکار ہے لیکن عورت نے ہمیشہ مہرو محبت اور شفقت میں مرد پر اپنی برتری ثابت کی ہے۔عورت ہی نے زن و مرد کے بیچ پردے کو اپنے تحفظ کے لئے اختیار کیا ہے۔

 اسلام نے عورت کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ اس سلسلے میں پردے سے استفادہ کرے۔وہ کہتاہے کہ عورت جتنی سنجیدہ،پروقار اور پاک دامن ہوگی اس کا احترام اتنازیادہ ہوگا۔آگے چل کر سورہ احزاب کی تفسیر میں ہم بتائیں گے کہ قرآن مجید اس تاکید کے بعد کہ عورتیں پردہ کریں ،فرماتاہے۔

 یہ عمل اس لئے ہے کہ عورت کو پاکدامن سمجھا جائے اور یہ معلوم ہوجائے کہ وہ اپنے آپ کومحفلوں میں پیش نہیں کرتی ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لُچے لفنگے ان پر آوازیں کسنے اور انہیں چھیڑنے سے باز رہیں گے۔(٩٥)

 

 

اسلامی پردہ

 

 قرآن مجید میں سورہ نور اور سور احزاب میں پردے سے متعلق آیات وارد ہوئی ہیں۔اس باب میں ہم پہلے ان آیات کی تفسیر بیان کریں گے۔بعدہ پردے کے بارے میں فقہی مسئلوں ،روایتوں اور فتووں پر گفتگوکریں گے۔سور ہ نو ر میں اس کے موضوع سے متعلق جو آیت ہے اس کا نشان ٣١ ہے اس سے قبل کی آیتیں گھروں میں اذن دخول سے متعلق ہیں جو زیربحث آیت کے باب میں تمہید کا حکم رکھتی ہےں۔لہذا ہم اسی مقام سے آیات کی تفسیر شروع کرتے ہیں:

 

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَہْلِہَا ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (27) فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِیْہَا أَحَداً فَلَا تَدْخُلُوہَا حَتَّی یُؤْذَنَ لَکُمْ وَإِن قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ہُوَ أَزْکَی لَکُمْ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیْمٌ (28) لَّیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ مَسْکُونَۃٍ فِیْہَا مَتَاعٌ لَّکُمْ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُونَ (29) قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ (30) وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْْرِ أُوْلِیْ الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیْعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ(31)

 

مومنو!اپنے گھر وں کے سوا دوسرے لوگوں کے گھروں میں گھر والوں سے اجازت لئے اور ان کو سلام کئے بغیر داخل نہ ہواکرو۔یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور ہم یہ نصیحت اس لئے کرتے ہیں کہ شاید تم یادرکھو ۔اگر تم گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو جب تک تم کو اجازت نہ دی جائے اس میں مت داخل ہو اور اگر یہ کہاجائے کہ اس وقت لوٹ جاؤتولوٹ جایاکرو۔یہ تمہارے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام تم کرتے ہو خدا سب جانتاہے۔ہاں اگر تم کسی ایسے مکان میں جاؤ جس میں کوئی رہتا نہ ہو اور اس میں تمہار ا کچھ فائدہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ رکھتے ہو خداکو سب معلوم ہے ۔مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھاکریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیاکریں۔یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے۔اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیاکریں اور اپنی زینتوں کوظاہر نہ ہونے دیاکریں مگر جوآپ ہی ظاہر ہوجاتی ہوں اور اپنے سینوں پراوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے شوہر ،باپ،خسر،بیٹوں شوہرکے بیٹوں ،بھائیوں ،بھتیجوں ،بھانجوں اور اپنی عورتوں ،لونڈی غلاموں کے سوا،نیز ان مردوں کے جو عورتوں کی خواہش نہیں رکھتے یاایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے جنسی امور سے واقفیت نہیں رکھتے۔کسی پربھی اپنی زینت اور آرائش کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں اس طور سے زمین پر نہ ماریں کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور ان کاپوشیدہ زیورمعلوم ہوجائے اور مومنو! سب خداکے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔(٩٦)

 

 پہلی اور دوسری آیت کی رو سے مومنین کو بغیر اجازت دوسروں کے گھروں میں داخل نہیں ہونا چاہئے ۔جب کہ تیسری آیت میں غیر رہائشی مکانات اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیئے گئے ہیں۔اس کے بعد کی دو آیتیں مرد اور عورت کی ان ذمہ داریوں کا ذکر کرتی ہےں جو ان کی بود باش سے متعلق ہیں۔مثلا

١۔ ہرمسلمان مرد وعورت کو چاہئے کہ آنکھ ڈالنے آنکھ لڑانے سے اجتناب کرے۔

٢۔ ہرمسلمان مردوعورت کو چاہئے کہ پاکدامنی اختیار کرے اور اپنی شرمگاہوں کو دوسروں سے چھپائے۔

٣۔ عورتوں کو چاہئے کہ اپنے بناؤ سنگھار کودوسروں پر ظاہر نہ ہونے دیں اور مردوں کی دلچسپی کا سبب نہ بنیں۔

٤۔ عورت کے پردے کے متعلق دو استثناؤں کا تذکرہ ہواہے ایک''وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا''جو عام مردوں سے متعلق ہے اور دوسرا'' وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ '' خاص مردوں کے لئے عورتوں کے پردے کو مستثنیٰ قرار دیتاہے وغیر ہ وغیرہ۔

بعدہ مصنف بالترتیب تمام آیات کے مفاہیم کو زیربحث لاتے ہیں۔

 

اجازت

 

 احکام اسلام کی رو سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پیشگی اطلاع یا اجازت کے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہو۔

 دورجاہلیت کے عربستان میں جہاں قرآن مجید نازل ہوا یہ رواج نہیں تھا کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کی جائے۔تمام گھروں کے دروازے کھلے رہتے تھے۔جیساکہ آج بھی کئی دیہاتوں میں ہوتاہے ۔لوگ دن رات گھروں کے دروازے کھلے رکھتے تھے۔کیونکہ دروازے وہاں بند رکھے جانے چاہئیں جہاں چوروں کاخوف ہو اور وہاں ایساکوئی خوف نہیں تھا۔سب سے پہلے جس نے دوپٹ والے دروازوں کاحکم دیا وہ معاویہ تھا اور اسی نے حکم دیاتھا کہ دروازے بند رکھے جائیں۔

 بہرحال چونکہ گھروں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے اور عربوں میں اجازت طلب کرنے کارواج بھی نہیں تھا بلکہ طلب اجازت کو وہ اپنی توہین سمجھتے تھے اس لئے بغیر پیشگی اطلاع یا اجازت کے ایک دوسرے کے گھروں میں داخل ہوتے تھے۔

 اسلام نے اس غلط رواج کو ختم کیا اور حکم دیاکہ بغیر اطلاع کے کوئی کسی کے گھر میں داخل نہ ہو۔

اس حکم میں دوہرافلسفہ ہے:

 پہلا یہ کہ ناموس یعنی عورت کا پردہ اور اسی لئے یہ حکم پردے کی آیتوں کے ساتھ ایک ہی مقام پر لایاگیا ہے اور دوسرا یہ کہ ہر شخص اپنی جائے سکونت میں کچھ نجی اموررکھتاہے اور چاہتاہے کہ دوسروں کواس کا علم نہ ہو۔چنانچہ دوجگری دوستوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہے کیونکہ ممکن ہے دوگہرے دوست پوری یگانگت کے باوجو اپنی نجی زندگی سے متعلق بعض رازوں کو ایک دوسرے سے پوشیدہ رکھنا چاہیں۔

 اس بناپر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ طلب اذن کا حکم صرف ان گھروں پر لاگوہوتاہے جن میں عورتیں ہوتی ہیں۔یہ حکم مطلق اور عام ہے۔وہ مرد اور عورتیں جن کا ایک دوسرے سے پردہ ضروری نہیں ،ممکن ہے اپنے گھرمیں ایسی حالت میں ہوں کہ کسی دوسرے کا انہیں دیکھنا ان کے لئے گراں ہو۔بہرصورت یہ حکم کلّی ہے اور اس کافلسفہ بھی پردے کے فلسفے سے زیادہ کُلّیت رکھتاہے۔

 ''حتی تستانسوا'' کا جملہ جو اس مفہوم میں ہے کہ جب تک اعلان نہ کرو داخل نہ ہو ،اچانک داخل ہونے کے عیب کو ظاہر کرتاہے ۔ یہ لفظ''انس''کے مادہ سے ماخوذ ہے جو خوف کی ضد ہے ۔یہ لفظ سمجھاتاہے کہ ایک رہائشی گھر میں آپ کا داخلہ اطلاع اور جلب انس کے ساتھ ہونا چاہئے۔اچانک اور بغیر اطلاع کے داخل ہوناخوف اور ناراضگی کا باعث ہوتاہے۔

 ایسی روایتیں وارد ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ''سبحان اللہ''یا ''اللہ اکبر''وغیرہ جیسے کلمات دہرا کراپنے آنے کی اطلاع دی جائے۔ہمارے یہاں ایران میں یااللہ کہنے کی رسم ہے اور یہ اسی حکم کی پیروی میں ہے جسے قرآن نے عائد کیا ہے۔

 رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ طلب اذن کا حکم خود اپنے کنبے اور قریبی رشتہ داروں پربھی لاگوہوتاہے؟ کیاہمیں اپنی ماں یا بیٹی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے بھی اجازت درکار ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری ماں اپنے کمرے میں برہنہ ہو اور تم بے خبر داخل ہوجاؤ تو کیا یہ امر پسندیدہ ہوگا؟

 عرض کیا گیا نہیں ،آپ نے فرمایا:پس اجازت طلب کرو۔

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس دستور پر عمل کرتے تھے اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی تاکید فرماتے تھے۔شیعہ سنی علماء نے اس بات کو نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ گھر کے دروازے پر کھڑے ہوتے اور فرماتے :

السلام علیکم یا اھل البیت،

 اگر اجازت مل جاتی تو آپ داخل ہوجاتے اور اگر جواب نہیں آتا تو آپ سلام کی تکرار فرماتے کیونکہ ایساہوسکتاہے کہ کوئی شخص پہلی اور دوسری آواز نہ سن سکے لیکن اگر تیسری دفعہ بھی جواب نہ ملتا توآپ لوٹ جایا کرتے اور فرماتے تھے یا گھر میں کوئی نہیں ہے یا وہ نہیں چاہتے کہ ہم اس وقت ان کے گھر میں داخل ہوں۔اسی دستور پر آپ اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کے گھر کے بارے میں بھی عمل فرماتے تھے۔

 یہاں اس آیت کے ضمن میں ایک اہم نکتے کا تذکرہ بھی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ لفظ ''بیوت ''جو ''بیت''کی جمع ہے کمرے کے مفہوم میں آتاہے ۔عربی میں گھر کے مفہوم میں جو لفظ استعمال ہوتاہے وہ ''دار''ہے۔البتہ خراسان کی طرح ایران کے بعض حصوں میں گھر کے لئے کمرہ کالفظ استعمال ہوتاہے ،بہرحال بیوت کمروں کو کہتے ہیں اور یہاں سے یہ نتیجہ نکالاجاتاہے کہ طلب اذن کمروں میں داخل ہونے کے لئے ہے نہ گھروں کے آنگن میں داخلے کے لئے!۔

 لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ عربوں کے گھروں کے دروازے چونکہ ہمیشہ کھلے رہتے تھے اور ان کے ہاں گھروں کے صحنوں کوخصوصی اہمیت حاصل نہیں تھی اور اگر کوئی بے لباس رہنا چاہتاتھا تو اس کی جگہ کمرہ ہی تھی۔لیکن جہاں صحن بھی کمرے کی صورت اختیار کرلے جیساکہ ہمارے یہاں (ایران میں )رسم ہے کہ دروازے بند ہیں اور دیواریں اونچی اٹھائی گئی ہیں ،گوکہ ہم اسے کمرہ جیسی مکمل خلوت کی جگہ تو نہیں کہہ سکتے ،تاہم کسی حد تک صحن بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے لہذا ایسے مقامات کے لئے بھی طلب اذن حکم و جوب کی صورت رکھتاہے۔

 آیت کے اختتام پر ارشاد ہوتاہے:

 

''ذالکم خیرلکم لعلکم تذکرون''

 

یعنی یہی طریقہ تمہارے لئے بہترہے۔

 

 گویا ہم نے جو حکم جاری کیاہے وہ بے دلیل نہیں ہے۔اس کا ایک فلسفہ ہے۔اس میں تمہارے لئے مصلحت پوشیدہ ہے۔شاید کہ تم اس بارے میں سوچو اور اس کی مصلحت دریافت کرو۔

 اس کے بعد دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے :آپنے آنے کی اطلاع دو اور اجازت طلب کرو اور اجازت کے بعد جب یہ معلوم ہوجائے کہ گھر میں کوئی موجود نہیں ہے تو اس گھر میں داخل نہ ہو مگر یہ کہ تمہیں اس بات کی اجازت دیدی گئی ہو۔مثلاً گھر کا مالک گھر کی چابی تمہیں دے جائے یا خود موجود ہو اور تمہیں اجازت دے۔

 اور پھر ارشاد ہوتاہے:

 

وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا۔

 

اگر گھر والا تمہیں واپس لوٹ جانے کے لئے کہے اور اندرآنے کی اجازت نہ دے توواپس لوٹ جاؤ اور برامحسوس نہ کرو۔

 

 ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اہل عرب اجازت طلب کرنے کو اپنے لئے باعث توہین سمجھتے تھے۔یہ ان کی ایک نادانی تھی۔آج ہمارے معاشرے کی بھی یہی کیفیت ہے کہ آنے والے کو اجازت نہ دیناخواہ وہ کسی معقول عذر ہی کی بناپر کیوں نہ ہو اس کی توہین سمجھی جاتی ہے اور یہ نادانی ہے۔اگرکوئی کسی کے گھر جائے اور گھر والا یہ کہے کہ ابھی میرے پاس ملاقات کے لئے وقت نہیں ہے تو یہ بات اس پر گراں گزرتی ہے اور اسے غصہ آجاتاہے۔اب وہ جہاں جائے گا یہ کہے گا کہ میں فلاں کے گھر گیا تھا مگر اس نے بداخلاقی کا مظاہرہ کیا اور مجھے گھر میں آنے نہ دیا۔یہ بھی ایک نادانی اور جہالت ہے۔

 ہمیں قرآنی حکم پر عمل پیراہونا چاہئے۔احکامات قرآن کی پیروی ہمیں بہت سی تکلیفوں اور رنجشوں سے نجات دلاتی ہے۔جھوٹ اورغلط بیانیوں کاایک سلسلہ اس کج رفتاری اور بیجا توقعات کی پیداوارہے جو ہم میں رواج پاگیاہے۔

 کوئی شخص پیشگی اطلاع کے بغیر کسی کے گھر جاتا ہے ۔گھر والا اس سے اس وقت نہیں ملنا چاہتا۔کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ وہ کسی ضروری کام میں مصروف ہوتاہے اور اس وقت کی ملاقات اس کے لئے تکلیف دہ ہوتی ہے،اس لئے وہ کہلوادیتا ہے کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔تاہم آنے والے کو اس پر جھوٹ کاعلم ہوجاتاہے مگر وہ غلطی پر ہوتاہے کیونکہ وہ پہلے سے وقت کا تعین کئے بغیر اس سے ملنے آتاہے۔ادھر گھر والے کو بھی یہ جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اس سے معذرت چاہے اور کہے کہ اس وقت ملاقات کے لئے اس کے پاس وقت نہیں ہے۔اگر وہ ایساکربھی لے توآنے والے میں اتنی سمجھ نہیں کہ وہ اس کی معذرت کو سمجھے ۔اس کی بجائے وہ ساری عمرگلہ کرتارہے گا کہ فلاں شخص کے گھر گیا لیکن اس نے ملنے سے انکار کردیا۔

 یہی وجہ ہے کہ ایسے مواقع پر جھوٹ بولاجاتاہے تاکہ ملاقاتی سے کوئی رنجش پیدانہ ہولیکن اگر قرآنی دستور کی رعایت کی جائے تو نہ جھوٹ بولاجائے گا اور نہ ہی رنجش ہوگی۔لہذا ارشاد ہوتاہے: ھو ازکی لکم یعنی یہی طریقہ تمہارے لئے پاکیزہ ترہے۔

 واللہ بماتعملون یعنی جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

 یہاں مجھے مرحوم آیت اللہ بروجردی سے متعلق ایک واقعہ یاد آیاہے جسے میں نقل کرتاہوں۔

 جن دنوں میں قُم میں تھا ،ایران کے ایک مشہور خطیب قم تشریف لائے ۔اتفاقا وہ میرے کمرے میں ٹھہرے اور لوگوں سے میرے ہی کمرے میں ملاقات کرتے تھے۔ایک روز ایک صاحب آئے اور ان خطیب صاحب کو آیت اللہ بروجردی کے مکان پر لے گئے۔آیت اللہ کے درس میں ایک گھنٹہ باقی تھا اور آپ مطالعہ میں مصروف تھے کیونکہ وہ وقت آپ کے مطالعہ کا تھا اور اس موقع پر آپ کسی سے ملاقات نہیں کیا کرتے تھے۔آپ نے نوکرسے کہلوابھیجا کہ یہ وقت میرے مطالعہ کاہے۔کسی اور وقت تشریف لائےں۔وہ خطیب واپس آگئے اور اتفاقا اسی روز اپنے شہر کو لوٹ گئے۔اس روز جب جناب آیت اللہ بروجردی درس کے لئے تشریف لائے اور مجھے صحن میں بیٹھادیکھا توفرمایا:میں درس کے بعد فلاں صاحب سے ملنے تمہارے کمرے میں آؤں گا۔

 میں نے عرض کیا وہ تو چلے گئے۔فرمایا جب کبھی ان سے ملو توکہہ دینا کہ جس وقت آپ میری ملاقات کو آئے تھے ،میری کیفیت وہی تھی جو آپ کی تقریر سے پہلے تیاری کے وقت ہواکرتی ہے۔میں یہ چاہتا تھا کہ جب ہم ایک دوسرے سے ملیں تو یکسوئی سے گفتگو کرسکیں۔اس وقت میں مطالعہ میں مصروف تھا کیونکہ مجھے درس کے لئے تیار ہوکرآناتھا''۔

 ایک مدت کے بعد میں اس خطیب سے ملا اور آیت اللہ بروجردی کی معذرت پہنچائی،میں نے سناتھا کہ کچھ لوگوں نے یہ کہہ کر ان کے دل میں شکوک پیداکردیئے تھے کہ جان بوجھ کر آپ کی توہین کی گئی ہے اور آپ سے ملاقات سے انکار کردیاگیا ہے۔میں نے اس محترم خطیب سے کہا:جناب آیت اللہ بروجردی آپ سے ملنے آناچاہتے تھے مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ جاچکے ہیں توبہت معذرت خواہ ہوئے۔

 انہوں نے ایک جملہ کہا جومیرے لئے بہت دلچسپ تھا۔انھوں نے کہا''نہ صرف یہ کہ میں نے ذرابرابر اس بات کو محسوس نہیں کیا بلکہ اس سے بہت خوش ہوا کیونکہ ہم اہل یورپ کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ بہت کھرے اور بے لاگ ہوتے ہیں اور بیجالگی لپٹی نہیں رکھتے۔میں نے تو ان سے وقت نہیں لیا تھا بلکہ غفلت کے سبب نامناسب وقت پر ان کے ہاں گیا تھا۔مجھے تو اس مرد خداکی صراحت اچھی لگی کہ اس نے صاف طور سے کہہ دیا کہ اس وقت میں مطالعے میں مصروف ہوں۔کیا یہ بات اچھی ہوتی کہ وہ بے چینی کے عالم میں مجھ سے ملتے؟ان کا دل اندر ہی اندرسے کڑھتا اور وہ جی ہی جی میں کہتے ،نہ معلوم یہ کونسی بلامجھ پر نازل ہوگئی ہے جس نے میرا وقت بھی خراب کیا اور درس بھی!مجھے تو اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ انہوں نے بڑی صاف گوئی کے ساتھ مجھے لوٹایا ۔مسلمانوں کے مرجع کے لئے ایسی صاف گوئی بڑی اچھی بات ہے۔''

 

 اب ہم پھر آیتوں کی تفسیر کی طرف آتے ہیں۔بعد کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

 

لَّیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ مَسْکُونَۃٍ فِیْہَا مَتَاعٌ لَّکُمْ

 

 اس آیت میں استثنا کیاگیاہے۔آیت کا مفہوم یہ ہے کہ طلب اذن کا جو حکم تمہیں دیاگیاہے وہ صرف ان مکانات کے لئے ہے جن میں کوئی رہتا ہے اور وہ خلوت گاہ شمار ہوتے ہیں۔ورنہ جہاں عام طورپرآمد ورفت رہتی ہو وہاں یہ حکم لاگو نہیں ہوتا ،خواہ وہ مکان کسی اور کا ہی کیوں نہ ہو۔

 فیھا متاع لکم کی قید ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ اس طرح کے مکانوں میں انسان کاداخلہ صرف اس صورت میں روا ہے کہ جب اسے وہاں کوئی کام ہو۔خواہ مخواہ مالکان کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہئے۔

 

وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُونَ

 

یعنی خدا تمہارے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے اور تمہاری نیتوں سے خوب واقف ہے کہ تم کس ارادے سے کس کے گھر میں داخل ہوئے۔

 

اور پھر ارشاد ہوتاہے:

 

قُُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ

 

یعنی (اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم )ان مومنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔(٩٧)

 

 

ابوالبشیر محمد صالح ؒ

؎

 بیسویں صدی کے ایک مفکر مولانا ابوالبشیر محمد صالح رحمہ اللہ تعالیٰ بھی گزرے ہیں۔آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی پردہ جیسے اہم موضوع پر ایک مکمل کتاب تحریر فرمائی ہے۔کتاب کیا ہے گویا تحقیق کا ٹھاٹھیں مارتاسمندر ہے۔اس کتاب میں آپ نے عقلی اور شرعی دلائل کی روشنی میں قرآن و حدیث اور فقہ سے پردہ کی شرعی حیثیت کو واضح کرنے کا التزام کیاہے۔آپ نے پردہ کو تین اقسام میں منقسم کیا ہے۔

١۔ ادنیٰ درجہ کا پردہ

٢۔ اوسط درجہ کا پردہ

٣۔ اعلیٰ درجہ کا پردہ

 آپ کی تحقیق کے مطابق ایک مسلمان آزاد بالغ عورت جوان ہو یا بوڑھی اس کے لئے اجنبی مردوں سے پردہ کرنے کے تین درجے ہیں۔

 

١۔ ادنیٰ درجہ

 ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ عورت اپنے چہرہ،ہتھیلیوں اور بعض کے نزدیک پیروں کے سوا بقیہ تمام بدن کو کپڑوں سے چھپائے۔

 

٢۔ اوسط درجہ

 اوسط درجہ کا پردہ یہ ہے کہ عورت اپنے چہرہ ،ہتھیلیوں اور پیروں کو بھی کپڑے سے چھپائے۔

 

٣۔ اعلیٰ درجہ

 اعلیٰ درجہ کا پردہ یہ ہے کہ عورت دیوار یاپردہ کے پیچھے آڑ میں رہے کہ اس کے کپڑوں پر بھی اجنبی مردوں کی نظر نہ پڑے۔(٩٨)

 ان تینوں اقسام پردہ کو مصنف موصوف نے قرآن و حدیث کی روشنی میں نہایت جامعیت اور اختصار کے ساتھ مترشح فرمایاہے۔پھر بعدہ ان کے وجوب کے مواقع بیان فرمائے ہیں اور پھر ان مواقع کی تفصیل اور مستثنیات ذکرکئے ہیں۔

 

پردہ اور اس کی اقسام

 

 مسلمان عورت جو آزاد ہو،زرخرید یا باندی نہ ہو ،بالغ ہوچکی ہو یا بالغ ہونے کے قریب ہو ،جوان ہو یا بوڑھی ۔اس کے لئے اجنبی مردوں سے پردہ کرنے کے تین درجہ ہیں:

 ایک یہ کہ بجز چہرے اور ہتھیلیوں کے اور بعض کے نزدیک سوائے پیروں کے بھی باقی تمام بدن کو کپڑے سے چھپایاجائے یہ ادنیٰ درجہ کا پردہ ہے۔

 دوسرے یہ کہ چہرہ،ہتھیلیوں اور پیروں کو بھی برقع وغیرہ سے چھپایاجائے اور یہ درمیانے درجے کا پردہ ہے۔تیسرے یہ کہ عورت دیوار یا پردہ کے پیچھے آڑ میں رہے کہ اس کے کپڑوں پر بھی اجنبی مردوں کی نظرنہ پڑے۔یہ اعلیٰ درجہ کا پردہ ہے۔

 

ادنیٰ درجہ کے پردہ کا ثبوت

 

اللہ تعالیٰ سورہ نور رکوع ٤ میں ارشاد فرماتاہے

 

''ولایبدین زینتھن الاماظھر ''

 

یعنی عورتیں اپنے زینت کے مواقع کو ظاہرنہ کریں مگر جو ان میں سے غالبا کھلاہی رہتاہے

 

 جس کی تفسیر حدیث میں چہرہ اور ہتھیلیوں کے ساتھ کی گئی ہے کہ ان کا کھولنا ضرورت کی وجہ سے مستثنیٰ ہے اورپیروں کو قیاسا اس میں داخل کیاگیاہے۔

 ابوداؤد میں مروی ہے کہ فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے

 

''یا اسماء ان المرأۃ اذابلغت لن یصلح ان یری منھا الاھذا وھذاواشار الی وجھہ و کفہ''

 

یعنی اے اسماء جب عورت بالغ ہوجائے تو سوائے اس کے اور اس کے اس سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرہ اور ہتھیلی کی طرف اشارہ فرمایااور کسی عضوکااجنبی مردوں کے سامنے کھولناجائز نہیں۔

 

اوسط درجہ کا پردہ کا ثبوت

 

اللہ تعالیٰ سورہ احزاب رکوع ٨ میں ارشاد فرماتاہے

 

''یدنین علیھن من جلابیبھن''

 

یعنی عورتیں اپنے اوپر چادریں ڈال لیاکریں۔

 

صحیحین میں مروی ہے:

 

''قالت امراۃ یا رسول اللہ احدانا لیس لھا جلباب قال لتلبسھا صاحبتھامن جلبابھا''

 

یعنی ایک عورت نے کہا یارسول اللہ اگر ہم میں سے کس کے پاس چادر نہ ہو تو عید کی نماز کو کیونکر جائے۔آپ نے فرمایاکہ اس کے ساتھ والی اس کو اپنی چادر اوڑھادے۔

 

ابوداؤد میں مروی ہے:

 

''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ترخی( المرأۃ الازار)شبرافقالت ام سلمۃ اذاتنکشف اقدامھن قال فیرخین ذراعا۔''

 

یعنی فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ عورت اپنی ازار کو پنڈلی سے ایک بالشت نیچے لٹکائے توام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کہ اس صورت میں ان کے پیر کھلے رہیں گے۔آپ نے فرمایاتو ایک ہاتھ بھرلٹکالیاکرے۔

 

اعلیٰ درجہ کا پردہ کا ثبوت

 

 اللہ تعالیٰ سورہ احزاب رکوع چار میں ارشاد فرماتاہے ''وقرن فی بیوتکن ''یعنی اے بیبیو!تم اپنے گھروں میںرہاکرو۔

پھر اسی سورت کے رکوع ٧ میں حکم ہے۔

 

''واذاسالتموھن متاعا فسئلوھن من ورآء حجاب''

 

اورجب تم عورتوں سے کوئی چیز استعمال کے لئے مانگو توپردہ کی آڑ میں ہوکرمانگو۔

 

اور سورہ طلاق میں یوں فرمان نازل ہوا:

 

''لاتخرجوھن من بیوتھن ولایخرجن''

 

یعنی عورتوں کو ان کے گھروں سے باہر نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔

 

''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لام سلمۃ ومیمونۃاحتجبا منہ ای من ابن مکتوم فقلت یا رسول اللہ الیس ھو اعمی لایبصر نا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افعمیا وان انتما لستما تبصرانہ''(٩٩)

 

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ اور میمونہ سے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو یعنی عبداللہ بن ام مکتوم سے جو کہ نابینا ہے۔ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! کیا وہ اندھانہیں ہے جو ہم کو دیکھ نہیں سکتا۔توپھرحضرت نے فرمایاکہ کیا پھر تم بھی اندھی ہو۔کیاتم اس کو نہیں دیکھتیں۔

 

صحیح بخاری میں ہے:

''ثم قال لسودۃ بنت زمعۃ احتجبی منہ لمارای من شبھہ لعتبۃ''

 

یعنی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ سے فرمایاکہ تم اس سے یعنی زمعہ کے باندی زادہ سے پردہ کرو۔

 

 حالانکہ آپ نے فیصلہ کیا تھاکہ یہ لڑکا زمعہ ہی کاہے کیونکہ اس کی باندی کے بطن سے ہے۔مگر سودہ کو اس سے پردے کا اس لئے حکم دیا کہ حضرت نے اس لڑکے میں عتبہ کی مشابہت زیادہ پائی اور عتبہ کا یہ دعویٰ تھاکہ یہ لڑکا میراہے جو قانون شریعت سے ردکردیاگیا۔راوی کہتے ہیں کہ حضرت کے اس حکم کے بعد اس لڑکے نے عمربھرسودہ رضی اللہ عنہا کو نہیں دیکھا۔

 

ترمذی میں ہے کہ

''المرأۃ عورۃ فاذاخرجت استشرفھا الشیطان''

 

یعنی عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے۔جب وہ باہر نکلتی ہے توشیطان اس کو تاکتاہے۔اور اس کے درپے ہوتاہے۔

 

ہرسہ اقسام پردہ کے وجوب کے مواقع

 

 مذکورہ بالاآیات اور احادیث سے پردہ کے تینوں درجوں کا واجب و لازم ہوناثابت ہوگیااور نیزیہ کہ شریعت نے ان سب درجوں کے مطابق پردے کا حکم دیاہے۔البتہ ان میں اتناتفاوت ضرورہے کہ پہلادرجہ اپنی ذات سے واجب ہے اور دوسرا،تیسرادرجہ کسی عارض کی وجہ سے واجب ہے مگر اس تفاوت سے یہ لازم نہیں آتاکہ ان تینوں میں درجات کے تفاوت سے نفس وجوب پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔جیسا فرض اعتقادی اور فرض عملی میں درجہ کا تفاوت ہوتاہے۔مگر فرض دونوں ہیں اور نفس فرضیت دونوں میں موجود ہے۔

 چونکہ پہلادرجہ اپنی ذات سے واجب ہے ۔اسلئے اس کا حکم بھی جوان اور بوڑھی عورتوں سب کو عام ہے۔یعنی بجز چہرہ اور ہاتھوں کے باقی بدن یا سرکے کسی حصہ کا اجنبی کے سامنے کھولنابوڑھی عورتوں کوبھی جائز نہیں اور دوسرے اور تیسرے درجہ کا پردہ چونکہ عارض کی وجہ سے واجب ہے ۔اس لئے ان کے واجب ہونے کا مدار اس عارض ہی پر ہے جہاں وہ عارض موجود ہوگا وہاں یہ درجے واجب ہوں گے۔اور وہ عارض فتنہ کااندیشہ ہے۔جس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے

 

''المرأۃ عورۃ فاذاخرجت استشرفھا الشیطان''

 

یعنی جب عورت باہر نکلتی ہے توشیطان اس کو تاکتاہے

 

اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی اس کی دلیل ہے۔

''فیطمع الذی فی قلبہ مرض''

 

یعنی جس کے دل میں خرابی ہے وہ ہوس کرنے لگے گا۔

 

 اب رہی یہ بات کہ فتنہ کااندیشہ کہاں ہے اور کہاں نہیںہے۔اس کی تعیین ہماری رائے پر نہیں رکھی گئی۔بلکہ قرآن مجید میں اس کا فیصلہ بھی خود ہی فرمادیاگیاہے چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

 

وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاء اللَّاتِیْ لَا یَرْجُونَ نِکَاحاً فَلَیْْسَ عَلَیْْہِنَّ جُنَاحٌ أَن یَضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَۃٍ وَأَن یَسْتَعْفِفْنَ خَیْْرٌ لَّہُنَّ (١٠٠)

 

یعنی اوربڑی بوڑھی عورتیں جن کو نکاح کی کچھ امید نہ رہی ہو۔ان کو اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے زائد کپڑے اتاررکھیں۔جن سے چہرہ وغیرہ چھپایا جاتاہے بشرطیکہ زینت کے مواقع کا اظہار نہ کریں اور اس سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے اور زیادہ بہتر ہے۔

 

 حاصل اس کا یہ ہے کہ جو بوڑھی عورتیں نکاح کے قابل نہ رہیں ۔ان کو زینت ظاہر کرنے کی تو اجازت نہیں۔جس سے مراد تمام بدن ہے۔ہاں چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت ہے جیساکہ دوسری آیت میں ہے۔

 

''ولایبدین زینتھن الاماظھر ''

 

 پس بوڑھی عورتیں اگر ان زائد کپڑوں کو اجنبی کے سامنے اتار دیں ۔جن سے منہ ہاتھ چھپایا جاتاہے جیسے برقع اور چادر تو اس میں گناہ نہیں اگریہ بڑی بوڑھی عورتیں اس سے بھی پرہیز کریں ۔اور دوسرے اور تیسرے درجہ کا پردہ اختیارکریں ۔تومستحب ان کے لئے بھی یہی ہے وَأَن یَسْتَعْفِفْنَ خَیْْرٌ لَّہُنَّ کا مطلب یہی ہے۔

 اس آیت نے بتلادیا کہ فتنہ کا اندیشہ صرف ان بوڑھی عورتوں میں موجود نہیں ہے۔جو نکاح کے قابل نہیں رہیں۔اور ان کے سوا جوان اور ادھیڑعمر عورتوں سے اندیشہ فتنہ کی نفی نہیں کی گئی۔بلکہ ان میں یہ اندیشہ موجود ہے اور یہی وہ عارض ہے جس پر دوسرے اور تیسرے درجے کے پردے واجب ہونے کا مدار تھا۔

 جب شارع نے جوان اور ادھیڑ عمر عورتوں کے بارے میں یہ حکم دیا کہ ان میں فتنہ کا اندیشہ موجود ہے ۔تو اب کسی کو اپنی رائے سے یہ کہنے کا اختیار نہیں کہ ان میں فتنہ کا اندیشہ موجود نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

 

وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْراً أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَن یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْناً

 

یعنی کسی ایمان دار مرد اور کسی ایمان دار عورت کو گنجائش نہیں جب کہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دےں تو ان کو اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے۔یعنی اختیار باقی نہ رہے گا بلکہ اس پر عمل کرناہی واجب ہوتاہے۔(١٠١)

 

 یہ تفاوت تو ان درجوں میں احتمال فتنہ کے شرط ہونے اور شرط نہ ہونے کے اعتبار سے تھا۔کہ پہلے درجہ کے واجب ہونے میں احتمال فتنہ شرط ہے۔

 ایک تفاوت ان درجوں میں اور ہے جس کے سمجھنے کے لئے اول اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ پردہ کے ان تینوں درجوں میں یہ بات مشترک ہے کہ ضرورت کے مواقع ان سے مستثنیٰ ہیں جس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے:

 

عن عائشۃ قالت خرجت سودۃ بعد ماضرب الحجاب لحاجتہا الی قولھا فقالت یارسول اللہ انی خرجت لبعض حاجتی فقال لی عمر کذاوکذا یعنی اما واللہ ماتخفین علینا۔

 

یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد سودہ رضی اللہ عنہا قضاء حاجت کے لئے نکلیں (پھر کچھ قصہ اس کا بیان کرکے فرمایاکہ)سودہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرض کیا ۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی حاجت کے لئے باہر نکلی تھی تو مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے ایساایساکہا یعنی یوں کہاکہ اے سودہ خدا کی قسم تم ہم سے چھپ نہیں سکتیں۔

 

 مطلب یہ تھا کہ تم کو باہر نہ نکلناچاہئے کیونکہ تم چادر برقع پہن کر بھی کسی سے چھپ نہیں سکتیں۔عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد وحی نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے واسطے نکلنے کی اجازت تم کو دے دی ہے۔

 مگر ان تینوں درجوں میں اس اعتبار سے تفاوت ہے کہ کون سی ضرورت کس درجہ میں موثر ہے اور کس درجہ میں موثر نہیں ہے۔چنانچہ پہلا درجہ جو کہ جواں ،ادھیڑ عمر اور بوڑھی سب عورتوں پر واجب ہے اس سے بہت سخت مجبوری کی مستثنیٰ ہے۔جیسے علاج معالجہ کی ضرورت یعنی بغیر ایسی سخت ضرورت کے اجنبی کے سامنے بدن کاکھولنا نہ جوان اور ادھیڑ عمر کو جائز ہے نہ بوڑھی عورتوں کو اور دوسرے درجے سے جو کہ صرف جوان اور ادھیڑ عمر عورتوں پر واجب ہے۔بوڑھیوں پر واجب نہیں ہے۔سخت مجبوری کی صورت میں مستثنیٰ ہے۔گو بہت سخت مجبوری نہ ہو۔یعنی اجنبی مرد کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھولنا بوڑھی عورتوں کوتوجائز ہوگا گوچھپانا ان کو بھی مستحب ہے اور جوان اور ادھیڑ عمر عورتوں کو بدوں سخت مجبوری کے اجنبی کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھولنا حرام ہوگا۔

 چنانچہ در مختارمیں ہے:

 

وتمنع الشابۃ وجوبا عن کشف الوجہ بین الرجال لالانہ عورتۃ بل لخوف الفتنۃ

 

یعنی اور جوان عورت کو مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے وجوب کے درجہ میں منع کیاجائے ۔نہ اس وجہ سے کہ چہرہ بالذات ستر میں داخل ہے۔بلکہ اس وجہ سے کہ جوان عورت کے چہرہ کھولنے میں فتنہ کا اندیشہ ہے تو ستر للعارض ہوا۔

 

 سخت مجبوری کی حالت میں چہرہ اور ہاتھ کھولنا جائز ہوگا۔بشرطیکہ کوئی دووسرامانع نہ پایاجائے۔جیسے اجنبی مرد کا اس کو چھونا یا اجنبی مرد کو گھورنا یا اجنبی مرد کے ساتھ بیٹھنا ملنا کہ ان سب کی حرمت شریعت سے ثابت ہے اور اس سخت مجبوری کی صورت میں اگر کوئی مرد اس کو گھورنے لگے تو اس سے عورت کو گناہ نہ ہوگا۔

حدیث میں جو آیا ہے

 

''لعن اللہ الناظر والمنظور الیہ''(١٠٢)

 

یعنی اللہ تعالی نے دیکھنے والے پر بھی لعنت کی ہے اور اس پر بھی جو دیکھاجائے''۔

 

 تو یہ لعنت عورت پر اسی صورت میں ہے جب کہ اسنے بدوں سخت مجبوری کے اپناچہرہ وغیرہ کھو لاہو۔ورنہ اگر سخت مجبوری سے اس نے کھولا اور پھر کسی مرد نے اس کو گھورا تو اس عورت کوگھورنے سے گناہ نہ ہوگا۔اور تیسرے درجہ میں مجبوری کی حالت مستثنیٰ ہے گو سخت مجبوری کی صورت نہ ہو۔مگر مجبوری کا درجہ موجود ہو۔

 اس مجبوری کے معنی یہ ہیں کہ اگر گھر سے یا پردہ سے نہ نکلیں تو کوئی غیر معمولی نقصان یا حرج لاحق ہوجائے ۔ایسی ضرورت میں تمام بدن چھپاکر برقع کے ساتھ گھر سے نکلنا جوان اور ادھیڑ عمر عورتوں کے لئے جائز ہوگا اور بدوں ایسی مجبوری کے برقع کے ساتھ تمام بدن چھپاکر بھی ان کو نکلناجائزنہ ہوگا۔

 اس دوسرے اور تیسرے درجہ کے پردہ میں مجبوری اور سخت مجبوری کے وقت جو آسانی کی گئی ہے ۔اس میں چونکہ فتنہ کا بھی احتمال ہے۔گو ضرورت پر نظرکرکے آسانی کردی گئی اور تنگی نہیں کی گئی مگر اس احتمال کو بھی نظرانداز نہیں کیاگیا۔بلکہ خاص خاص احکام سے اس کا انسداد بھی کردیاگیا۔مثلا عورتوں کو عطر و خوشبو لگاکر باہر نکلنے سے منع کیا گیاہے۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 

ان المرأۃ اذا استعطرت فمرت بالمجلس فھی کذا کذا

 

یعنی عورت جب عطر لگاکرکسی مجلس سے گزرے تو وہ ایسی ایسی ہے یعنی زانیہ ہے ۔ (١٠٣)

 

ابوداؤد میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے

 

'' ولکن لیخرجن رھن لفلات ''

 

یعنی لیکن عورتوں کو میلے کچیلے کپڑوں میں ضرورت کے وقت باہر نکلنا چاہئے۔

 

 خلاصہ ان سب احکام کا یہ ہواکہ بوڑھی عورتوں پر پہلا درجہ تو واجب ہے اور دوسرا اور تیسرا درجہ مستحب ہے۔اور بہت سخت مجبوری کی حالت میں پہلے درجہ میں بھی جو کہ واجب ہے کچھ سہولت و وسعت کردی گئی اور ادھیڑ عمر اور جوان عورتوں کے لئے پہلا در جہ بھی واجب ہے اور بہت سخت مجبوری میں اس میں کچھ سہولت اور وسعت بھی ہے اور دوسرا اور تیسرا درجہ بھی ان پر واجب ہے اور بہت سخت مجبوری سے کم درجہ کی مجبوری اور ضرورت کے مواقع میں کچھ سہولت اور وسعت بھی ثابت ہے۔یعنی مجبوری کی حالت میں گو بہت سخت مجبوری نہ ہو۔چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنا اجنبی کے سامنے ان کو جائز ہے بشرطیکہ فتنہ و فساد کے احتمال کا انسداد بھی کرلیا جائے۔یعنی سر ،کلائی اور پنڈلی وغیرہ کھولنے سے پرہیزرہے۔اسی زیب و زینت کے ساتھ اجنبی کے سامنے آنا حرام ہوگا۔اور اگر سخت مجبوری کے درجہ سے کم ضرورت ہو مگر مجبوری محقق ہومحض خیالی مصلحت نہ ہوتوا س صورت میں برقع کے ساتھ باہر نکلنا جوان عورت اور ادھیڑ عمر کو جائز ہے مگر چہرہ اور ہاتھوں کاکھولنا حرام ہوگا۔اسی طرح زیب و زینت کے کپڑے پہن کر نکلنا حرام ہوگا۔

 

پردہ کے مواقع وجوب کی تعیین اور مستثنیات

 

 جن احکام کا مدار اندیشہ فساد و فتنہ کے ہونے یا نہ ہونے پر ہے یا ضرورت کے ہونے یانہ ہونے پر ان میں حالات کے بدلنے سے یا ایک ہی حالت میں رائے کے اختلاف سے حکم شرعی بدل سکتاہے اور اس قسم کے احکام دوسرے اور تیسرے درجہ کے پردہ میں ہیں۔کیونکہ پہلے درجہ میں شریعت ہی نے خود اس کی تعیین کردی ہے کہ فتنہ کا اندیشہ کہاں ہے اور ضرورت کا درجہ کون سا ہے۔اس میں کسی کی رائے اور فہم کو کوئی دخل نہیں ۔مگر جن احکام میں رائے اور فہم کو دخل ہے ان میں اس کا فیصلہ کرنے کا حق کہ فتنہ کا اندیشہ ہے یا نہیں اور ضرورت کا تحقق ہے یانہیں۔ان ہی کو ہے جن میں فتویٰ دینے کی لیاقت و قابلیت موجود ہو اور اس کے ساتھ ان کی رائے اور فہم بھی صحیح ہو۔نااہلوں کی بات اس بارے میں ہر گز نہ سنی جائے گی۔

 

 غرض حالات کے بدلنے یا رائے سے جو احکام بدل جاتے ہیں اس کے یہ معنی نہیں کہ احکام شرعیہ زمانہ اور وقت کے تابع ہیں جیساکہ بعض نادانوں کا خیال ہے بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ شارع نے خاص قید کے ساتھ حکم کو بیان کیا تھا اگر یہ قید پائی جائے تو یہ حکم ہے ،نہ پائی جائے تودوسرا حکم ہے۔اب حالات یا رائے کے اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ اس قید کے وجود یا عدم میں اختلاف ہے۔جس نے قید کو موجود پایا ،ایک حکم کردیاجب اس قید کو موجود نہ پایا دوسرا حکم کردیا اور یہ دونوںحکم دراصل شارع ہی کے ہیں۔

 چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتوں کے لئے مساجد اور عیدگاہ میں جانے کی اجازت کا اورصحابہ کے زمانہ میں اس سے ممانعت ہوجانے کا مدار اسی قاعدہ پر ہے۔

جس کو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان الفاظ میں بیان فرمایاہے:

 

لو ادرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مااحدثت النساء لمنعھن کمامنعت نساء بنی اسرائیل(١٠٤)

 

یعنی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت کا مشاہدہ فرمالیتے جو عورتوں نے آپ کے بعد اختیار کی ہے تو یقینا آپ ان کو مساجد و عید گاہ میں جانے سے روک دیتے جیسا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیاگیاتھا۔

 

 خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے اخیر وقت میں عورتوں کے لئے اسی کو پسند فرمایا اور اسی کی ترغیب دی ہے کہ وہ نماز کے لئے مسجدوں میں نہ جایا کریں چنانچہ ارشادہے:

 

صلوۃ المرأۃ فی بیتھا افضل من صلوتھا فی حجرتھا وصلوتھا فی مخدعھاافضل من صلوتھا فی بیتھا۔(١٠٥)

 

''یعنی عورت کا اپنے گھر کے اندر نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھے سے افضل ہے اور کوٹھڑی میں نماز پڑھناگھر کے اندر پڑھنے سے افضل ہے۔''۔

 

 مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ترغیب پر اکتفافرمایا۔سختی کے ساتھ عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے نہیں روکا۔ کیونکہ اس وقت عورتوں کو باہر نکلنے کی ضرورتیں زیادہ تھیں اور عام طبائع میں نیکی کا غلبہ اور سزا کاخوف ایساتھا جس کی وجہ سے فتنہ و فساد کا احتمال کمزورتھا اور بعد میں عام طورپر حالت بدل گئی ۔جس میں عورتوں کی حالت بدلنے کو بھی خاص دخل تھا۔اور اسی قاعدے پر فقہائے متاخرین کا یہ فتویٰ مبنی ہے۔ جس میں انہوں نے بعض محرموں کونامحرموں کی مثل ٹھہرایاہے۔

ویکرہ الخلوت بالصہرۃ الشابۃ لفساد الزمان

 

یعنی اور جوان ساس کے پاس تنہائی میں بیٹھنا مکروہ ہے۔

 

کیونکہ زمانہ فساد کا ہے اور اس احتیاط کی اجازت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہوتی ہے ۔

 

''احتجبی منہ یا سودۃ ''

 

یعنی حضور نے سودہ رضی اللہ عنہا کو ان کے باپ کے باندی زادہ سے پردہ کا حکم دیا۔

 

جس میں بطور احتیاط کے شرعی محرم سے پردہ کا حکم ہے کیونکہ وہ باندی زادہ شرعا سودہ رضی اللہ عنہا کا بھائی تھا۔

 غرض فقہاء کافتویٰ نص کا مقابلہ اور حکم شرعی کی مخالفت نہیں بلکہ حکم کی علت پر نظرکرکے اس فتویٰ میں نص ہی کا اتباع کیاگیاہے اور اسی کی نظیر فقہا کا یہ قاعدہ ہے کہ علت کے ختم ہوجانے سے حکم بھی ختم ہوجاتاہے۔جس کا اعتبار مولفۃ القلوب کے بارے میں کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض مالدار نومسلموں کو باوجود مالدار ہونے کے محض دلجوئی کی غرض سے زکوٰۃ وغیرہ میں سے حصہ دیاجاتاتھا۔حضور کے بعد یہ حکم باقی نہیں رہاکیونکہ اب ان مال داروں کی دلداری اور دلجوئی کی ضرورت باقی نہیں رہی جب کہ ان کے دل میں اسلام مضبوط ہوگیا۔

 

 غرض اسی قاعدے پر امام صاحب اور صاحبین کا یہ اختلاف مبنی ہے کہ امام صاحب نے بوڑھی عورتوں کے لئے صرف صبح اور مغرب و عشاء کے وقت مسجد آنے کی اجازت دی ہے اور صاحبین نے پانچوں وقت آنے کی اجازت دی ہے اور ہر ایک قول کی جداعلت بیان کی گئی ہے اور جوان یا ادھیڑ عمرعورتوں کے لئے بالاتفاق سب اوقات میں ممانعت ہے۔(١٠٦)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

شمیمہ محسن

 

 بیسویں صدی میں پردہ کے موضوع پر لکھی جانے والی ایک کتاب بنام ''عورت قرآن کی نظرمیں '' بھی دستیاب ہوتی ہے جسے ''شمیمہ محسن'' نامی مصنفہ نے تالیف کیا ہے۔تحقیق نگار کو یہ لکھتے ہوئے خوشی و فرحت کا احساس ہوگا کہ مصنفہ نے اپنی اس پہلی کوشش میں خوب محنت اور اچھاخاصا مطالعہ کرکے ایک مفید کتاب خواتین کے لئے مہیا کی ہے جس نے کافی حد تک اپنے وقت میں بھی اور آج بھی ایسی ضرورت کی تکمیل کی جسے خواتین شدت سے محسوس کرتی ہوں گی۔یہ کتاب چونکہ ایک عورت نے ہی عورت کے متعلق لکھی ہے جو کہ کچھ سہل کام نہیں اس لئے مصفنہ کی اس کوشش و کاوش کو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھنا ناسپاسی ہوگی۔مصنفہ نے ص ٤٨ تا ٧١ جو ابحاث رقم کی ہیں گویاکوزے میں سمندر مقید کردیاہے کہ پردہ کی بابت تمام تر تفصیلی ابحاث پیش کردی ہیں اور وہ بھی نہایت عمدہ پیرائے میں ۔ مصنفہ نے کتاب ہذا میں قرآن کی رو سے عورت کے مقام ومرتبہ ،حقوق فرائض اور حیثیت کو واضح کیاہے اور ساتھ اسلام کی رو سے عورت کو عطاکردہ معاشی،معاشرتی اور حفاظتی حقوق کی نشاندہی بھی کی ہے اور خواتین کو ان اصول و قوانین سے بھی آگاہ کیا ہے جو اسلام نے ان کے لئے مقرر کئے ہیں۔اور جن کی پابندی بحیثیت مسلمان ہونے کے ان پر عائد ہوتی ہے۔

 

عورت کی حیثیت اور مرتبہ کے مطابق پردے کے احکام

 

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

 

یَا نِسَاء النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَیْْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً (32) وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآتِیْنَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنَّمَا یُرِیْدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْراً (١٠٧)

 

اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہوتودبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا شخص لالچ میں پڑجائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو اپنے گھر میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔نماز قائم کرو،زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی سے گندگی کو دور کردے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔

 

 ان آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں ان اصلاحات کو نافذ کرناہے ازواج مطہرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے اس طرز زندگی کی ابتداء ہوگی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی۔کیونکہ یہی گھر ان کے لئے نمونہ کی حیثیت رکھتاتھا۔بعض لوگ صرف اس بنیادپر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی طرف ہے یہ دعوی کربیٹھتے ہیں کہ یہ احکام انھیں کے لئے خاص ہیں لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھکر دیکھ لیجئے کونسی ایسی بات ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لئے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لئے مطلوب نہ ہو،کیا اللہ تعالیٰ کا منشایہی ہوسکتاتھا کہ صرف ازواج مطہرات ہی گندگی سے پاک ہوں اور وہی اللہ اور رسول کی اطاعت کریں اور وہی نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں۔اگر یہ منشا نہیں ہوسکتاتو پھر گھروں میں چین سے بیٹھنے اور تبرج الجاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لئے کیسے خاص ہوسکتاہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے کیسے مستثنیٰ ہوسکتی ہیں۔رہایہ فقرہ ''تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو''تو اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ عام عورتوں کوتوبن ٹھن کر نکلناچاہئے اور غیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہئیں التبہ تم ایساطرز عمل اختیارنہ کروبلکہ اس کے برعکس یہ طرز عمل اس طرح کا ہے جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتاہے :

 ''تم بازاری بچوں کی طرح نہیں ہو تمہیں گالی نہیں بکنی چاہئے''

 اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا مدعااخذ نہیں کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لئے گالی بکنے کو براسمجھتا ہے دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اسی طرح عورت کو حکم دیاگیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر کسی مرد سے بات توکرسکتی ہے لیکن ایسے مواقع پر اس کا لہجہ اور انداز گفتگو ایساہونا چاہئے جس سے بات کرنے والے مرد کے دل میں خیال نہ گزرے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی کی جاسکتی ہے۔اس کے لہجہ میں کوئی لوچ نہ ہو اس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو اس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انگیخت پیداکردے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمت دلائے۔اس طرز گفتگو کے متعلق اللہ تعالیٰ صاف فرماتاہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیبانہیں دیتاجس کے دل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو دوسرے الفاظ میں یہ فاسقات و فاجرات کا کلا م ہے نہ کہ مومنات و متقیات کا۔

سورہ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔

 

وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ من زینتھن

 

''اور وہ زمین پر اس طرح پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انھوں نے چھپارکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہو''

 

 اس سے صاف ظاہر ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اگر بضرورت اجنبیوں سے بولنا پڑجائے تو پوری احتیاط کے ساتھ بات کرے اسی بناء پر عورت کے لئے اذان دینا ممنوع ہے نیز اگر نماز باجماعت میں کوئی عورت موجود ہو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان اللہ کہنے کی اسے اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مارکر آواز پیداکرنی چاہئے تاکہ امام متنبہ ہوجائے۔

 اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کے غیر مرد سے بات کرتے ہوئے لوچ دار انداز گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلاضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتاہے کیا وہ کبھی اس کو پسند کرسکتاہے کہ عورت اسٹیج کے اوپر آکر گائے ،ناچے،تھرکے،بھاؤ بتائے اور ناز نخرے دکھائے؟کیاوہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سناسناکر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے کیا وہ اسے جائز رکھ سکتاہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ اداکریں یا ایئرہوسٹس بنائی جائیں اور انھیں خاص طورپرمسافروں کادل لبھانے کی تربیت دی جائے یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں۔قرآن کے احکامات کی رو سے اس کی کہیں گنجائش نہیں ہے۔

 عورت کو گھر میں بیٹھنے کا حکم دیاگیا ہے ۔عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا اپنا گھر ہے اس کو اسی دائرہ میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہئے۔یہ منشاخود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کردیتی ہیں۔حافظ ابوبکربزاز حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:

 عورتوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تومرد لوٹ کر لے گئے،وہ جہاد کرتے ہیں خداکی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مل سکے؟

جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاہدین

 

جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی۔

 

(لیکن پاکیزہ مقاصد کے حصول اور امور خیر کی تکمیل کے لئے عورت گھر سے باہر نکل سکتی ہے)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

انہ اذن لکم ان تخرجن لحاجتکن(بخاری کتاب التفسیر)

 

بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی ضروریات کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔

 

 مجاہد دلجمعی سے صرف اسی وقت خداکی راہ میں لڑسکتاہے جب کہ اسے اپنے گھر کی طرف سے اطمینا ن ہو۔اس کی بیوی اس کے گھر اور اس کے بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ وہ اس کے پیچھے کوئی غلط حرکت کر بیٹھے گی ۔یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی اس کی وجہ سے وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میںبرابر کی حصہ دار ہوگی ۔

 ایک اور روایت جو بزّازاور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں۔

 

''المرأۃ عورۃ فاذاخرجت استشرفھا الشیطان واقرب ماتلون بروحۃ ربھا وھی فی قعر بیتھا ''

 

عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اسے تاکتاہے اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اس وقت ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے گھر میں ہو''

 

 قرآن مجید کے اس صاف صریح حکم کی موجودگی میں ا س بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں ،بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں ،سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں ،کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں۔ہوائی جہازوں اور ریل گاڑیوں میں مسافر نوازی کے لئے استعمال کی جائیں اور تعلیم و تربیت کے لئے امریکہ اور انگلستان بھیجی جائیں۔

 عورت کے بیرون خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنگ جمل میں حصہ لیا تھا ۔لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انھیں شاید معلوم نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خود اپنا خیال اس بارے میں کیا تھا؟

 عبداللہ بن احمد بن حنبل نے زوائد الزھد میں اور ابن المنذر ،ابن ابی قتیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تلاوت کرتے ہوئے اس آیت ''وقرن فی بیوتکن''پر پہنچتی تھیں توبے اختیار روپڑتیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا کیونکہ اس پر انھیں اپنی وہ غلطی یاد آجاتی تھی جو جنگ جمل میں ان سے ہوئی تھی۔

 پھر خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ جاہلیت کے دور کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھریں اس آیت میں تبرج اور جاہلیت اولیٰ کا لفظ استعمال ہواہے تبرج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے،ابھرنے اور کھل کر سامنے آنے کے ہیں ۔عورت کے لئے جب تبرج کا لفظ استعمال کیاجائے توا س کے تین معنی ہوں گے۔

١۔ ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حسن لوگوں کو دکھائے ۔

٢۔ دوسرے یہ کہ وہ لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے۔

٣۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چٹک مٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے۔

مجاہد ،قتادہ اور ابن ابی نجیح کہتے ہیں۔

 

التبرج:المشی بتنحتر وتکسر وتفنج۔

 

تبرج کے معنی ہیں ناز و انداز کے ساتھ لچکے کھاتے اور اٹھلاتے ہوئے چلنا۔

 

مقاتل کہتے ہیں:

 

''ابداء قلائدھا و قرطھا وعنقھا''

 

عورت کا اپنے ہار اور بندے اور اپناگلانمایاں کرنا۔

 

المبرد کا قول ہے

 

''ان تبدی من محاسنھا مایجب علیھا سرہ''

 

یہ کہ عورت اپنے وہ محاسن ظاہر کردے جن کو اسے چھپانا چاہئے۔

 

ابوعبیدہ کی تفسیر ہے:

 

'' ان تخرج من محاسنھا ماتستدعی بہ شھوۃ الرجال ''

 

''یہ کہ عورت اپنے جسم و لباس کے حسن کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اس کی طرف رغبت ہو۔''

 

 جاہلیت کا لفظ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ تین جگہ اور استعمال ہواہے۔ایک آل عمران کی آیت ١٥٤ میں جہاں اللہ کی راہ میں جی چرانے والوں کے متعلق فرمایاگیا ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں حق کے خلاف جاہلیت کے سے گمان رکھتے ہیں'۔

 دوسرے سورۃ المائدہ میں آیت ٥٠ میں جہاں خداکے قانون کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے والوں کے متعلق فرمایاگیا:

 ''کیاوہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں''

 تیسرے سورہ فتح آیت ٢٦ میں جہاں کفار مکہ کے اس فعل کو ''حمیت جاہلیۃ''کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے کہ انھوں نے محض تعصب کی بناء پر مسلمانوں کو عمرہ نہ کرنے دیا۔

 حدیث میں آتاہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ نے کسی شخص سے جھگڑاکرتے وقت اس کو ماں کی گالی دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سناتو فرمایا:

 تم میں ابھی تک جاہلیت موجود ہے؟

ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین کام جاہلیت کے ہیں۔

١۔ دوسروں کے نسب پر طعن کرنا

٢۔ ستاروں کی گردش سے فال لینا

٣۔ مردوں پر نوحہ کرنا

 ان تمام استعمالات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جاہلیت سے مراد اسلام کی اصطلاح میں ہر وہ طرز عمل ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو اور جاہلیت اولیٰ سے مراد وہ برائیاں ہیں جن میں اسلام سے پہلے کے لوگ اور دنیابھرکے لوگ مبتلا تھے۔

 

مردوں کو غض بصر

 

 قرآن کریم میں جہاں عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیاہے وہاں مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ''غض بصر''نگاہیں نیچی رکھنا ضروری قرار دیاگیاہے۔

سورۃ نورمیں ارشاد ہوتاہے۔

 

قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ

 

''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچاکررکھیں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ان کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے اللہ اس سے باخبررہتاہے''۔

 

 ایک آدمی کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھرکردیکھے۔ایک دفعہ اچانک نگاہ پڑجائے تومعاف ہے لیکن یہ معاف نہیں کہ اس نے پہلی نظر میں جہاں کشش محسوس کی ہووہاں پر نظردوڑائے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیرفرمایا۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زناکرتاہے ۔دیکھنا آنکھوں کازناہے۔لگاوٹ کی بات چیت زبان کا زناہے آواز سے لذت لیناکانوں کا زناہے۔ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لئے چلنا ہاتھ پاؤں کا زناہے۔بدکاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہوچکتی ہیں تب شرمگاہیں یا تو اس کی تکمیل کردیتی ہیں یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں۔(١٠٨)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

 

''یا علی لاتتبع النظرۃ فان لک الاولیٰ ولیست الاخرۃ''

 

اے علی ایک نظر کے بعد دوسری نظرنہ ڈالنا پہلی نظرتومعاف ہے مگردوسری معاف نہیں۔(١٠٩)

 

عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

 

''ان النظر سھم من سھام ابلیس سموم من ترکھا مخافتی ابدلتہ ایمانا یجد حلاوتہ فی قلبہ''

 

یقینا نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص مجھ سے ڈر کر اسے چھوڑدے گامیں اسے اس کے بدلے ایساایمان دوں گاجس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔(١١٠)

 

ابوامامہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

''مامن مسلم ینظرالی محاسن امراۃ ثم یغض من بصرہ الااخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا''

 

جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹالے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف ولذت پیداکردیتاہے۔

 

 امام جعفر صادق اپنے والد امام باقرسے اور حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی فضل بن عباس (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے)مشعرحرام سے واپسی کے وقت حضور کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے راستے میں جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ پرہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیردیا۔(١١١)

 اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے قبیلہ خثعم کی ایک عورت راستہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نظر یں گاڑدیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کردیا۔(١١٢)

 

 غض بصر کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کودیاگیاہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتوں کوکھلاپھرنے کی اجازت تھی سورۃ الاحزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیاگیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کا رائج ہونابکثرت روایات سے ثابت ہے۔

 واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ :

 ''جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلاگیاہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا ایسا غلبہ ہواکہ وہیں پڑکر سوگئی ۔صبح صفوان بن معطل وہاں سے گذرا تو دورسے پڑے دیکھ کر ادھر آگیا ۔مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔مجھے پہچان کر جب اس نے کہا ''اناللہ وانا الیہ راجعون''پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانپ لیا۔(١١٣)

 کتا ب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون ام خلاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہوگیا تھا وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی ۔بعض صحابہ نے حیرت سے کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی ہے؟یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کاہوش نہیں رہتا اور تم اس اطمینان کے ساتھ باپردہ آئی ہو۔

جواب میں کہنے لگیں:

 ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی

 میں نے بیٹا توضرور کھویا ہے مگر اپنی حیاء تو نہیں کھودی

غض بصر کے حکم سے مستثنیٰ وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔مثلا کوئی شخص کسی سے نکاح کرنا چاہتا ہو اس غرض کے لئے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ایساکرنا کم از کم مستحب ضرورہے۔

 

 مغیرہ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:تم نے لڑکی کو بھی دیکھ لیا ہے؟میں نے عرض کیا نہیں؟آپ نے فرمایا:

 

انظر الیھافان فی اعین الانصار شیأا

 

لڑکی کو دیکھ لو کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے۔(١١٤)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 

اذاخطب احدکم امرأۃ فقدر ان یری منھا بعض مایدعوہ الی نکاحھا فلیفعل

 

تم میں سے کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواست گار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کرلینا چاہئے کہ آیا عورت میں کوئی ایسی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ہو۔(١١٥)

 

 مسند احمد میں ابوحمیدہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کے لئے دیکھنے کی اجازت کو '' فلاجناح علیہ'' کے الفاظ میںبیان کیا ہے۔یعنی ایساکرلینے میں مضائقہ نہیں ہے نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اسے دیکھاجاسکتاہے ۔

اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں ۔مثلا

١۔ تفتیش جرائم کے سلسلہ میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا

٢۔ عدالت میں گواہ کا عورت کودیکھنا

٣۔ علاج کے لئے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا،وغیرہ

 عورتوں کے لئے بھی غض بصر کے وہی احکامات ہیں جو مردوں کے لئے ہیں یعنی انھیں قصدا غیر مردوں کو نہیں دیکھنا چاہئے۔لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی نسبت عورت کے مرد کو دیکھنے کے معاملے میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں۔

 ایک طرف حدیث میں ہمیں یہ واقعہ ملتاہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں ۔اتنے میں حضرت ام مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں بیویوں سے فرمایا:

 احتجبامنہ۔

 ان سے پردہ کرو

بیویوں نے عرض کیا:

 یارسول اللہ الیس اعمی لایبصرناولایعرفنا۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ اندھے نہیں ہیں نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے۔

 فرمایا:افعمیاو انتما ،ألستما تبصرانہ؟

 کیاتم دونوں بھی اندھی ہو کیا تم انہیں نہیں دیکھتیں؟

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تصریح کرتی ہیں کہ :

 ذالک بعد ان امر بالحجاب ۔

 یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب حجاب کا حکم آچکاتھا۔(١١٦)

 بعض روایات سے اندازہ ہوتاہے کہ عورتوں کے مردوں کودیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں جتنی مردوں کو عورتوں کے دیکھنے کے معاملے میں ہے۔ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر دیکھناممنوع ہے۔راستہ چلتے ہوئے یادورسے کسی جائز قسم کی محفل میں مردوں پر نگاہ پڑنا ممنوع نہیں ہے کوئی حقیقی ضرورت پیش آجائے تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔جواز کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ عورتوں کو پردے کا حکم دیاگیا ہے مسجدوں،بازاروں اور سفروں میں عورتیں نقاب اوڑھیں تاکہ عورت انھیں نہ دیکھے اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں کے معاملے میں حکم مختلف ہے تاہم یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ عورتیں اطمیان سے مردوں کو گھوریں اور ان کے حسن سے آنکھیں سینکیں۔

 

عورتوں کے لئے غض بصر اور پردے کے احکام

 

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْْرِ أُوْلِیْ الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔

 

''اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مومن عورتوں سے کہہ دو اپنی نظریں بچاکررکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں۔بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ،وہ اپنابناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے :شوہر،باپ،شوہروں کے باپ ،اپنے بیٹے،اور شوہروں کے بیٹے،بھائی اور بھائیوں کے بیٹے ،بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے مملوک وہ زیردست جو کسی اور کسی قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے ہوں وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلاکریں جو اپنی زینت انھوں نے چھپارکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہوجائے ۔اے مومنوں !تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو۔توقع ہے کہ فلاح پاؤگے۔

 

 یہاں اللہ تعالیٰ مومنات کو غض بصر کا حکم دیتاہے عورتوں کے لئے نامحرم مردوں کی طرف دیکھنا حرام ہے اس کی دلیل ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے ملتی ہے۔پھر ناجائز شہوت رانی سے بھی بچنے کا حکم دیا گیا ہے اس سلسلے میں عورتوں کے لئے بھی وہی احکام ہیں جو مردوں کے لئے ہیں لیکن عورت کی ستر کی حدود مردوں سے مختلف ہےں نیز عورت کا ستر مردوں کے لئے الگ ہے اور عورتوں کے لئے الگ ہے۔

 مردوں کے لئے عورت کا ستر ہاتھ اور منہ کے سوا پور ا جسم ہے جسے شوہر کے سواکسی دوسرے مرد حتی کہ باپ اور بھائی کے سامنے بھی نہیں کھلنا چاہئے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئی تھیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا منہ پھیر لیا اور فرمایا:

 اسماء جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا اور ہاتھ کی حد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی کلائی پر ہاتھ رکھ کر اس طرح بتائی کہ آپ کی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ اور باقی تھی۔

 اس سلسلے میں صرف اتنی رعایت ہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں (مثلا باپ اور بھائی وغیرہ)کے سامنے عورت اپنے جسم کا اتناحصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔جیسے آٹاگوندھتے ہوئے آستین اوپر چڑھالینا یا گھر کا فرش دھوتے ہوئے پائنچے اوپر کرلینااور عورت کے لئے عورت کے ستر کی حدود وہی ہیں جو مرد کے ستر کے ہیں۔

 یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتوں کے سامنے عورت برہنہ رہے بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ڈھانکنا فرض ہے اور دوسرے حصہ کا ڈھانکنافرض نہیں ہے ۔

 یہ بات نگاہ میں رہے کہ شریعت الہی عورتوں سے صرف اتنا ہی مطالبہ نہیں کرتی جو مردوں سے اس نے کیا ہے یعنی نظربچانا ا ور شرمگاہوں کی حفاظت کرنا۔بلکہ وہ اس سے کچھ اور مطالبہ بھی کرتی ہے جو اس نے مردوں سے نہیں کئے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ اس معاملے میں عورت اور مرد یکساں نہیں ہیے۔

 عورت کافرض ہے کہ وہ اپنی زینت نامحرموں کے سامنے ظاہر نہ کرے اپنی عصمت کو بچائے اس لئے حکم دیاگیا ہے ''لایبدین زینتھن''وہ اپنی آرائش اور زیبائش کو ظاہر نہ کریں اور دوسرے فقرے میں ''الا''بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیاگیاہے وہ ہے ''ماظھر منھا''جو کچھ اس آرائش اور زیبائش میں سے خود بخود ظاہرہوجیسے چادر کا ہوا سے اڑجانا اور کسی زینت کا کھل جانا یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اوپر اوڑھی جاتی ہے کیونکہ بہرحال اس کا چھپاناتو ممکن نہیں ہے اور عورت کے جسم پر ہونے کی حیثیت سے بہرحال وہ اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے۔اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں )

 حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ ''وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں''کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالیاں ،ہار اورپاؤں کا زیور وغیرہ ظاہر نہ کریں فرماتے ہیں۔

زینت دو طرح کی ہوتی ہے :

 ایک وہ جسے خاوند ہی دیکھے جیسے انگوٹھی ،کنگن وغیرہ

 دوسری وہ زینت جسے غیر بھی دیکھیں جیسے اوپر کا کپڑا ۔

 بعض لوگ اس آیت کے ان الفاظ سے منہ اور ہاتھ مراد لیتے ہیں لیکن اس میں عربی زبان کا لفظ ظھر استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جوظاہر ہوجائے جبکہ مَاظُھِر کا مطلب ہے جو ظاہر کیا جائے ۔ان دونوں میں بڑافرق ہے ۔ظاہر کیاجائے کہ معنی سے چہرہ اور ہاتھ کھلارکھنے کی اجازت ہوگی لیکن روایات اس کی تصدیق نہیں کرتیں۔روایات سے ثابت ہوتاہے کہ حکم حجاب آنے کے بعد عورتےں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں اور حکم حجاب میں کھلے منہ کا پردہ شامل تھا اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جزو بنادیاگیا تھا ۔پھر اس سے زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے سترمیں شامل نہیں ہیں حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے پیچھے کھولنا بھی ناجائز ہے۔رہاحجاب تووہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیرمردوں کے درمیان حائل کیاگیاہے۔زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کسادے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح چوٹی پر لگائی جاتی تھی سامنے گریبان کا حصہ کھلارہتاتھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف اور نمایاں ہوتاتھا۔چھاتیوں پر قمیض کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی اور پیچھے دو دو تین چوٹیاں لہراتی رہتیں۔(١١٧)

 اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دوپٹہ رائج کیاگیا جس کا مقصدیہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنالیا جائے بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر کمر،سینہ سب اچھی طرح ڈھانک لئے جائیں۔

 اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہی فورا جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سورۃ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جاکر انھوں نے بیویوں ، بیٹیوں اور بہنوں کو اس کی آیات سنائیں انصارکی عوررتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت ''ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن''کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپناکمرپٹہ کھولکر اور کسی نے چادر اٹھاکر فورا اس کا دوپٹہ بنالیا۔

 دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں حاضرہوئیں سب دوپٹے اوڑھے ہوئی تھیں اسی سلسلے کی ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مزید تفصیل یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑوں کوچھوڑکراپنے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے۔(١١٨)

 دحیہ کلبی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مصر کی بنی ہوئی باریک ململ آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک ٹکڑا مجھے دیا اور فرمایا:

 ایک حصہ پھاڑکر اپناکرتہ بنالو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لئے دے دو مگر ان سے کہہ دینا

 

''تجعل تحتہ ثوبالایصنعھا''

 

اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگالیں تاکہ جسم کی ساخت نہ جھلکے۔(١١٩)

 

 جن لوگوں کے سامنے عورت اپنی زینت ظاہر کرسکتی ہے ان کی تفصیل بھی اس آیت میں دی گئی ہے جس حلقے میں عورت اپنی زینت کے ساتھ آزادی سے رہ سکتی ہے وہ ان لوگوں پر مشتمل ہے۔اس حلقے سے باہر جو لوگ بھی خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی بہرحال ایک عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ آئے۔

 شوہر کے علاوہ اپنے باپ یا شوہر کے باپ یعنی سسر کے سامنے آنا جائز ہے۔اصل میں لفظ آباء استعمال ہواہے جس کے مفہوم میں صرف باپ ہی نہیں بلکہ دادا،پردادا،نانا اور پرنانابھی شامل ہیں ۔لہذا ایک عورت اپنے دودھیال اور ننھیال کے بزرگوں کے سامنے اسی طرح آسکتی ہے جس طرح اپنے والد اور خسر کے سامنے آسکتی ہے۔پھربیٹوں میں پوتے اور نواسے سب شامل ہیں اس معاملے میں سگے اور سوتیلے کا کوئی فرق نہیں اپنے سوتیلے بچوں کی اولاد کے سامنے عورت اسی طرح آزدی سے اظہارزینت کرسکتی ہے جس طرح خود اپنی اولاد اور اپنی اولاد کی اولاد کے سامنے کرتی ہے۔بھائیوں میں سگے اور سوتیلے اور ماں جائے بھائی سب شامل ہیں بھائی بہنوں کے بیٹوں سے مراد تینوں قسم کے بھائی بہنوں کی اولاد ہے یعنی ان کے پوتے پرپوتے اور نواسے اور پر نواسے سب شامل ہیں۔

 بعض لوگ اظہار زینت کی آزادی کو صرف ان رشتہ داروں تک محدود سمجھتے ہیں جن کا نام یہاں لیاگیا ہے باقی سب لوگوں کو حتی کہ سگے چچا اور ماموں تک کو ان رشتہ داروں میں شمار کرتے ہیں جن سے پردہ کیاجاناچاہئے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ان کا نام قرآن میں نہیں لایاگیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے سگے چچا اور ماموں تک تو درکنار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو رضاعی چچااور ماموں سے بھی پردہ کرنے کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اجازت نہ دی ۔

 صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اپنی روایت ہے کہ ابوالقیس کے بھائی افلح ان کے ہاں آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی چونکہ پردے کا حکم آچکاتھا اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت نہ دی۔انھوں نے کہلابھیجا کہ تم میری بھتیجی ہو کیونکہ میرے بھائی ابو القیس کی بیوی کا تم نے دودھ پیا ہے لیکن حضرت عائشہ کو اس میں تأمل تھا کہ یہ رشتہ بھی ایساہے جس میں پردہ اٹھادینا جائز ہو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آسکتے ہیں۔

 اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس آیت کو اس معنی میں نہیں لیا ہے کہ اس میں جن رشتہ داروں کاذکرآیاہے ان سے پردہ نہ ہو اور باقی سب سے ہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ اصول اخذکیا ہے جن جن رشتہ داروں سے ایک عورت کا نکاح حرام ہے وہ سب اسی آیت کے حکم میں داخل ہیں،مثلا چچا،ماموں داماد اور رضاعی رشتہ دار۔

 تابعین میں سے حضرت حسن رحمہ اللہ تعالیٰ بصری نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے اور اسی کی تائید علامہ ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمائی ہے۔

 پھر جن رشتہ داروں سے ابدی حرمت کا رشتہ نہ ہو(یعنی جن سے ایک کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح جائز ہو وہ نہ تو محرم رشتہ داروں کے حکم میں ہےں کہ عورتیں بے تکلف ان کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ آئیںاور نہ بالکل اجنبیوں کے حکم ہیںکہ عورتیں ان سے بالکل ویسا ہی پردہ کریں جیساکہ غیروں سے کیا جاتاہے ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک رویہ کیاہوناچاہئے یہ شریعت میں متعین نہیں کیاگیا کیونکہ اس کا تعین نہیں ہوسکتا اس کے حدود مختلف رشتہ داروں کے معاملے میں ان کے رشتے،ان کی عمر،خاندانی تعلقات و روابط اور فریقین کے حالات (مثلا مکان کا مشترک ہونا یا الگ الگ مکانوں میں رہنا)کے لحاظ سے لامحالہ مختلف ہوں گے اور ہونے چاہئیں۔اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کااپناطرز عمل جوکچھ تھا اس سے ہمیں ہی رہنمائی ملتی ہے۔

 بکثرت احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی تھیں اور آپ کے سامنے ہوتی تھیں اور آخروقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ان کے درمیان کم از کم چہرے اور ہاتھوں کی حد تک کوئی پردہ نہیں تھا۔حجۃ الوداع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چند مہینے پہلے کا واقعہ ہے اور اس وقت بھی یہی حالت قائم تھی۔(١٢٠)

 اسی طرح حضرت ام ہانی جو ابو طالب کی صاحبزادی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چچازاد بہن تھیں آخر وقت تک حضور کے سامنے رہیں اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہیں کیا۔فتح مکہ کے موقع پر ایک واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں جس سے اس کا ثبوت ملتاہے ۔

 دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے فضل کو اور ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی)اپنے بیٹے عبدالمطلب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں یہ کہہ کر بھیجتے تھے کہ اب تم جوان ہوگئے ہوتمہیں جب تک روز گار نہ ملے تمہاری شادیاں نہیں ہوسکتی لہذاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر نوکری کی درخواست کرو۔یہ دونوں حضرات زینب رضی اللہ عنہاکے مکان پر حضور کی خدمت میں حاضرہوتے ہیں ۔حضرت زینب فضل کی حقیقی پھوپھی زادبہن ہیں اور عبداللہ بن ربیعہ کے والد سے بھی ان کا وہی رشتہ ہے جو فضل سے لیکن وہ ان دونوں کے سامنے نہیں ہوتیں اور حضور کی موجودگی میں ان دونوں کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرتی ہیں۔

 ان دونوں واقعات کو ملا کر دیکھاجائے تو مسئلہ کی صورت وہی کچھ سمجھ میں آتی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔

 تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں رشتہ شبہ میں پڑجائے وہاں محرم رشتہ دار سے بھی احتیاطاً پر دہ کرناچاہئے۔

 میل جول کی عورتوں کے سامنے زینت ظاہر کی جاسکتی ہے ۔ان عورتوں سے مراد ان کی جانی بوجھی عورتیں۔ان سے تعلق رکھنے والی اور ان کے کام کاج میں حصہ لینے والی عورتیں مراد ہیں ۔خواہ وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم اور مقصود ان عورتوں کو اس دائرے سے خارج کرنا ہے جو یا تو اجنبی ہوں کہ ان کے اخلاق و تہذیب کا حال معلوم نہ یا جن کے ظاہری حالات مشتبہ ہوں اور ان پر اعتماد نہ کیاجاسکے اس رائے کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس ذمی عورتوں کی حاضری کا ذکرآتاہے۔اس معاملے میں اصل چیز جس کا لحاظ کیاجائے گا وہ مذہبی اختلاف نہیں بلکہ اخلاقی حالت ہے ۔شریف باحیاء اور نیک اطوار عورتیں جومعروف اور قابل اعتماد خاندانوں سے تعلق رکھتی ہوں ان سے مسلمان عورتیں پوری طرح بے تکلف ہوسکتی ہیں خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں لیکن بے حیاء ،آبروباختہ اور بداطوار عورتیں خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ہر شریف عورت کو ان سے پردہ کرناچاہئے کیونکہ اخلاق کے لئے ان کی صحبت غیر مردوں کی صحبت سے کچھ کم تباہ کن نہیں ہے تو ان سے ملاقات کی حد ہمارے نزدیک وہی ہے جو غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے آزادی کی زیادہ سے زیادہ حد ہوسکتی ہے۔لیکن یہ کہ عورت صرف منہ اور ہاتھ ان کے سامنے کھلے رکھے اور باقی اپناساراجسم اور آرائش چھپاکررکھے۔

 اسلام میں جن لوگوں سے زینت نہ چھپانے کی اجازت دی گئی ہے ان میں وہ لونڈیاں بھی شامل ہیں جو کسی عورت کی ملک میں ہوں ان حضرات کے نزدیک ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لونڈی خواہ مشرکہ ہو یا اہل کتاب میں سے مسلمان مالکہ اس کے سامنے توزینت کرسکتی ہے لیکن غلام چاہے وہ عورت کا اپنامملوک ہی کیوں نہ ہو پردے کے معاملے میں اس کی حیثیت وہی ہے جو کسی آزاد اجنبی مرد کی ہے۔یہ عبداللہ بن مسعود،مجاہد،حسن بصری،ابن سیرین ،سعیدبن مسیب،طاؤس اور امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے اور ایک قول امام شافعی کا بھی اس کی تائید میں ہے۔ان بزرگوں کا استدلال یہ ہے کہ غلام کے لئے اس کی مالکہ محرم نہیں ہے اگر وہ آزاد ہوجائے تو اپنی اس سابقہ مالکہ سے نکاح کرسکتاہے۔لیکن محض غلامی اس امر کا سبب نہیں بن سکتی کہ عورت اس کے سامنے وہ آزادی برتے جس کی اجازت محرم مردوں کے سامنے برتنے کے لئے دی گئی ہے۔

 ایک گروہ کا خیال ہے کہ غلام اور لونڈی دونوں کے سامنے زینت کے ساتھ آیاجاسکتاہے ۔یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور بعض ائمہ اہل بیت کامذہب ہے اور امام شافعی کا مشہور قول بھی یہی ہے ۔اس کی تائید اس واقعہ سے ہوتی ہے۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلام عبداللہ بن سعدہ الفرازی کولئے ہوئے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے وہ اس وقت ایک ایسی چادر اوڑھے ہوئے تھیں جس سے سرڈھانکتی تھیں تو پاؤں کھل جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتی تھیں تو سر کھل جاتاتھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گھبراہٹ دیکھ کر فرمایا:

 ''لیس علیک باس انما ھو ابوک وغلامک۔۔۔۔''(٢١!)

 ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ یہ غلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دے دیاتھا انھوںنے اسے پرورش کیا اور پھر آزاد کردیامگرا س احسان کا جو بدلہ اس نے دیاوہ یہ تھا کہ جنگ صفین کے زمانے میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بدترین دشمن اور امیر معاویہ کاپرجوش حامی تھا اسی طرح وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں :

 

''اذا کان لاحداکن مکاتب وکان لہ مایؤدی فلتحتجب منہ''

 

جب تم میں سے کوئی اپنے غلام سے مکاتب کرلے اور وہ مال کتابت اداکرنے کی قدرت رکھتاہو تو اسے چاہئے ایسے غلام سے پردہ کرلے۔(١٢٢)

 

 محرم مردوں کے سوا کسی دوسرے مرد کے سامنے ایک عورت صرف اس صورت میں اظہارزینت کرسکتی ہے جب کہ اس میں دوصفات پائی جاتی ہوں۔

١۔ ایک یہ کہ وہ زیردست اور ماتحت ہو۔

٢۔ دوسرے یہ کہ وہ خواہش نہ رکھنے والاہو۔

 پھر اپنی عمر یا جسمانی اہلیت یا عقلی کمزوری یا فقر و مسکنت یازیردستی ومحکومی کی بناء پر جس میں یہ طاقت یا جرأت نہ ہو کہ صاحب خانہ کی بیوی ،بیٹی یا بہن یا ماں کے متعلق کوئی بری بات دل میں لاسکے۔

 اس حکم کو جو شخص بھی فرماں برداری کی نیت سے نہ کہ نافرمانی کی گنجائش ڈھونڈنے کی نیت سے پڑھے گا وہ اول نظر ہی میں یہ محسوس کرلے گا کہ آج کل کے بیرے ،خانسامے،شوفراور دوسرے جوان جوان نوکر اس تعریف میں نہیں آتے۔

 اس حکم کی وضاحت اس واقعہ سے ہوتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا اورجسے بخاری،مسلم،ابوداؤد،نسائی اورا حمد وغیرہ محدثین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔

 مدینہ طیبہ میں ایک مخنث تھا جسے ازواج مطہرات اور دوسری خواتین غیراولی الاربتہ میں شمار کرکے اپنے ہاں آنے دیتیں تھیں۔ایک روز جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن امیہ سے باتیں کرتے سن لیا وہ کہہ رہاتھا کہ کل اگر طائف فتح ہوجائے تو غیلان ثقفی کی بیٹی بادیہ کو حاصل کئے بغیر نہ رہنا پھر اس نے بادیہ کے حسن کی تعریف شروع کی اور اس کے پوشیدہ اعضاء تک کی صفت بیان کرڈالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا:

 ''خداکے دشمن تونے اس میں نظریں گاڑدیں''

 پھر آپ نے حکم دیا اس سے پردہ کروآئندہ یہ گھروں میں نہ آنے پائے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گھر سے نکال دیا اور دوسرے مخنثوں کو بھی گھر میں گھسنے سے منع فرمادیا کیونکہ ان کو مخنث سمجھ کر عورتیں ان سے احتیاط نہیں کرتی تھیں اور وہ ایک گھر کی عورتوں کا حال دوسرے مردوں سے بیان کرتے تھے اس سے معلوم ہواکہ غیر اولی الاربتہ ہونے کے لئے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ ایک شخص صرف جسمانی طورپر بدکاری کے لائق نہیں ہے۔اگر اس میں دبی ہوئی صنفی خواہشات موجود ہیں اور وہ عورتوں سے دلچسپی رکھتاہے توبہرحال وہ بہت سے فتنوں کاموجب بن سکتاہے۔

 البتہ وہ لڑکے جن میں ابھی صنفی احساسات بیدار نہ ہوئے ہوں ان کے سامنے آیا جاسکتاہے یہ تعریف زیادہ سے زیادہ دس بارہ سال کی عمر تک کے لڑکوں پر صادق آسکتی ہے اس سے زیادہ عمر کے لڑکے اگرچہ نابالغ ہون مگر ان میں صنفی احساسات بیدارہوناشروع ہوجاتے ہیں ۔

 اس کے علاوہ خواتین کو اپنی زینت کی چیزیں ظاہرکرنے یا ان کی آواز سنانے کی بھی ممانعت ہے۔مثلا آپ نے عورتوں کو حکم دیاکہ خوشبو لگاکر باہر نہ نکلیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

''لاتمنعوااماء اللہ مساجد اللہ ولکن لیخرجن وھن تفلات''

 

اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو مگر وہ خوشبولگاکرنہ آئیں۔

 

 اس مضمون کی دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد سے نکل رہی تھی کہ حضرت ابوہریرہ اس کے پاس سے گذرے اور انہوں نے محسوس کیا کہ وہ خوشبو لگائے ہوئے ہے۔انھوں نے اسے روک کر پوچھا۔

 ''اے خدائے جبار کی بندی!کیا تومسجد سے آرہی ہے ؟' '

 اس نے کہا۔ہاں ۔بولے میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے سناہے کہ جو عورت مسجد میں خوشبولگاکرآئے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ گھر جاکرغسل جنابت نہ کرلے۔(١٢٣)

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ تھی کہ عورتوں کووہ خوشبو استعمال کرنی چاہیئے جس کارنگ تیز ہو اور بو ہلکی ہو۔(١٢٤)

 اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا ہے کہ عورتیں بلاضرورت اپنی آواز مردوں کو سنائیں۔ ضرورت پڑنے پر تو بات کرنے کی اجازت خود قرآن میں دی گئی ہے اور لوگوں کو دینی مسائل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بتایاکرتی تھیں لیکن جہاں اس کی ضرورت نہ ہو اور نہ کوئی دینی یا اخلاقی فائدہ ۔وہاں اس بات کو پسند نہیں کیاگیا ہے کہ عورتیں اپنی آواز غیر مردوں کو سنائیں چنانچہ اگر نماز میں امام بھول جائے تو مردوں کو حکم ہے کہ سبحان اللہ کہیں۔مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسراہاتھ مارکر امام کو متنبہ کریں۔

 

''التسبیح للرجال والتصفیق للنسائ''(١٢٥)

 

 پردے کے یہ تمام احکامات اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے ہیں اللہ کے مومن بندے ان لغزشوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرتے ہیں جو اس معاملے میں اب تک کرتے رہے ہیں اور آئندہ کے لئے اپنے طرز عمل کی اصلاح ان ہدایات کے مطابق کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہیں۔

 مسلمان خواتین کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ قرآن و حدیث کے مطالعہ کا مقصد یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کیا جائے ۔ان کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں۔اپنی زندگی کا جائزہ لیں اور بے لوث محاسبہ کرکے دیکھیں کہ اس میں جاہلیت کا تو کوئی اثر نہیں پایاجاتا۔ایسے جو اثرات بھی ہیں ان سے اپنی زندگی کو پاک کریں اور اپنے خیالات کو، اپنی معاشرت کو،اپنے اخلاق کو اور اپنے پورے طرز عمل کو دین کے تابع کردیں۔

 ان خواتین کا دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے گھر کی فضاکو درست کریں اس فضا میںپرانی جاہلیت کی جو رسمیں چلی آرہی ہیں ان کو بھی نکال باہر کریں۔اور نئے زمانہ کی جاہلیت کے جو اثرات انگریزی دورمیں ہمارے گھروں میں داخل ہوگئے ہیں انھیں خانہ بدر کردیں۔

تیسراکام یہ ہے کہ اپنے بچوں کواسلامی طرز پر تربیت دیں اور اس فکر میں لگ جائیں کہ گھروں کی معاشرت میں ،روز مرہ کے رہن سہن میں ،زندگی کے مختلف معمولات میں اسلام نمودار ہو۔اور وہ ہمارے بچوں کوآنکھوں کے سامنے چلتا پھرتانظرآئے۔بچے عبادت کامدعاسمجھیں،اسلام کا نقش ان کے دلوں پر قائم ہو ان کی عادات درست ہوں،ان کے اندراسلامی ذوق پیداہو۔نئی نسل کے لئے یہ سب کچھ ہمیں درکار ہے پس وہ تمام عورتیں جو اسلام کو قبول کریں انھیں چاہئے کہ اس ضرورت کو پوراکرنے کے لئے اپنی گودوں اور اپنے گھروں کو مسلمان بنائیں تاکہ ان میں ایک مسلمان نسل پروان چڑھ سکے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

پردہ پر اعتراضات

 

 تحقیق نگار نے ابتداء میں ذکر کیا تھا کہ اس باب میں تحقیق نگار اپنے مباحث کو دوحصو میں منقسمن کرکے پیش کرے گی۔جس کا پہلا حصہ ان افکار ،آراء اور نظریات پر مشتمل ہوگاجو بیسویں صدی کے مفکریں پردہ کی بابت رکھتے ہیں۔جبکہ دوسرا حصہ ان اعتراضات کی وضاحت اور تشریح پر مشتمل ہوگا جو مختلف الانواع افراد،اقوام یا مذاہب کی طرف سے پردہ کی بابت پیش کئے جاتے رہے ہیں ۔مثلا پردہ آزادی چھین لیتاہے ۔سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا کرتاہے اور پردہ سے انسانی معاشروں کی نصف آبادی عضومعطل بن کر رہ جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔(ان اعتراضات کے معترضین میں جہاں غیرمسلمین پیش پیش رہتے ہیں وہیں ہمارے کچھ مغربی تہذیبی مرعوبیت کا شکار مسلمان افراد (مثلا سعودالحسن خان اور فاطمہ مرتیسی)جیسی شخصیات بھی اس مرض میں مبتلانظرآتی ہیں۔)

 اسی طرح کے متعدد اعتراضات اور سوالات ہیں جو مختلف مکاتب فکر (جو کہ دراصل بے فکری کا شکار ہیں)کی جانب سے پردہ کی بابت پیش کئے جاتے ہیں۔جس کی وجہ معترضین کی پردہ سے منافرت ،بغض،حسد،عدم واقفیت اور مغربی افکار سے مرعوبیت کے سوا کچھ نہیں۔جن میںمستغربین،نام نہاد مسلمان اورعام مسلمان بھی شامل ہیں۔

 جن کے نزدیک پردہ اک حقیر اور بدیہی البطلان قسم کی چیز ہے جس کی تضحیک وتذلیل کردینا ہی اس کی تردید کے لئے کافی ہے۔جب کہ یہ لوگ بذات خود حجاب و بے حجابی کی ایک معجون مرکب کے طورپرنظر آتے ہیں جو ایک طرف تو مغربی افکارکی مرعوبیت میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف اسلامی جذبات بھی رکھتے ہیں۔

 یعنی یہ دومختلف الاصول اور مختلف المقاصد تہذیبوں کے بے جوڑامتزاج میں مبتلا ہیں جو کہ بذات خود کوئی مستقل اور پائیدار چیز نہیں ہے بلکہ اس کا فطری رجحان اعلی درجہ کی مغربیت کی طرف گامزن ہے جو کہ اپنے مسافروں کو آخری منزل میں ایک انتہاء درجہ کی مغربیت تک پہنچانے کا باعث ہوگا۔

 

 

 پردے پر عموما مندرجہ ذیل اعتراضات کئے جاتے ہیں۔

١۔ پردہ عورت کی آزادی سلب کرتاہے۔

٢۔ پردہ ہوس میں اضافے کا باعث ہے۔

٣۔ پردہ عورت کی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیداکرتاہے۔

٤۔ پردہ سے عورت کی تحقیر ہوتی ہے۔

٥۔ پردہ مضر صحت ہے۔

 

پردہ عورت کی آزادی سلب کرتاہے۔

 

اعتراض

 پردہ پر سب سے اول اور اہم ترین اعتراض یہ کیاجاتاہے کہ پردے نے عورت کی آزادی چھین لی ہے جو ہر انسان کا بنیادی اور مقدس حق ہے۔

جواب

 اسلام میں عورت کو پردہ کرنے کا حکم اسے قید کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ فقط اس لئے ہے کہ عورت جب گھر سے باہر نکلے یا بیگانہ افراد کے سامنے جائے تو اپنی بہتری اور مصلحت کے پیش نظر مخصوص لباس (برقعہ یا چادر وغیرہ) پہن لے جو کہ اس کے فطری حق کے عین مطابق ہے۔

 چنانچہ پردہ کا یہ حکم عورت کی آزادی سلب نہیں کرتا بلکہ اس کی شخصیت اور عزت میں اضافہ کا باعث ہوتاہے کیونکہ پردہ عورت کو بدباطن افرادکی پُرہوس نگاہوں سے محفوظ رکھتاہے۔

 کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے کہ مردوں کے ساتھ بے محابہ میل ملاپ کو قید سمجھ کر عورت کو اس سے آزاد کرانے کی باتیں کی جائیں،جب کہ اس کی توبنیاد ہی آزادی پر کھڑی ہے؟

 مردوں کے ساتھ اختلاط اور گھلناملناکیونکر قید ہوسکتاہے۔جب کہ وہ تو عورت کو پوری آزادی دیتاہے کہ وہ مردوں کے ساتھ جہاں چاہے ملے جلے ،چاہے وہ بازار ہوں یا اسکول ،کمپنیاں ہوں یا راستے؟

 کون اس بات کا قائل ہوجائے گا کہ عورت کو مردوں کے ساتھ میل ملاپ کرنے سے روکنا دراصل اسے آزادی مہیا کرنا ہے،اور اختلاط کی آزادی دینا در حقیقت اس کے لئے قید ہے؟

 یہ سارے سوالات پہلی نظر میں بڑے منطقی لگتے ہیں،کیونکہ عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے سے آزادانہ میل جول رکھنے سے باز رکھنا ،بظاہر ان کی آزادی پر کمند ڈالناہے۔مگر اللہ کے فضل وکرم سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ مردوں کے ساتھ آزادنہ میل جو ل اور اختلاط بڑی دردناک قید ہے جو عورت کو اسیر بناکر اسے اس کی آزادی سے محروم کردیتی ہے ۔مگر ایساکیسے ہوسکتاہے؟

 توجواب حاضر ہے۔۔۔! جب ہم کسی چڑیا گھر میں گھومتے پھرتے ہیں ،اور دیکھتے ہیں کہ سارے خطرناک قسم کے جانورکٹہروں میں بند ہیں تو ہم نہایت آزادی اور اطمینان کے ساتھ گھومتے ہیں،کبھی شیر کو دیکھتے ہیں ،تو کبھی ہاتھی کی مستیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں،کبھی چیتے کا بغورمعائنہ کرےت ہیں،تو کبھی گوریلے کی حرکتیں دیکھتے ہیں لیکن اگر پنجروں کو کھول دیا جائے تو ہم سب سے پہلے اپنی جان بچانے کے لئے باہر کا رخ کریں گے،کیونکہ اب ہم وہاں محفوظ نہیں رہے اور ہماری وہ گھومنے پھرنے کی آزادی ختم ہوگئی جو ہم اس وقت محسوس کررہے تھے،جب سارے جانور پنجروں اور کٹہروں کے اندر تھے۔

 مگر اب تو ہر خونخوارجانور میرے لئے خطرے کی علامت بن گیا تھا جس نے میرے احساس امن آزادی اور اطمینان کوختم کردیاتھا۔۔۔اور اب اس حالت میں ،کہ میں کھلے ہوئے کٹہروں کے درمیان خونخوار جانوروں کے رحم و کرم پر تھا،کوئی مجھے آزاد ہر گز نہیں کہہ سکتا تھا۔

 یہی ہوتی ہے ،اس عورت کی حالت ،جو گھر کی چار دیواری کے باہر غیرمردوں کے درمیان رہتی ہے ،وہ اس وقت آزاد نہیں ہوتی ،بلکہ بہت غیر محفوظ ہوتی ہے،کیونکہ اس کے ارد گرد موجود تمام مردوں کے دلوں میں اس عورت کے لئے ہوس کے جذبات پوشیدہ ہوتے ہیں جو موقع ملتے ہی باہر آجاتے ہیں بالکل چڑیا گھر کے خونخوار جانوروں کی طرح۔

 اگر کھلے کٹہروں کے درمیان گھومتے ہوئے کسی آدمی کو خونخوار جانوروں کے حملے کا خطرہ رہتاہے ،تو دوسری طرف بالکل اسی طرح مردوں کے درمیان آزادنہ گھومنے پھرنے والی عورت کو ہر دم اپنی آبروخطرے میں نظرآتی ہے۔

 لاس اینجلس میں جو کہ ''آبروریزی کے حوالوں میں دنیا کے دارالسلطنت''کے نام سے مشہور ہوچکاہے ،چودہ سال کی ہر تین لڑکیوں میں سے ایک لڑکی آبروریزی کے خطرے سے ہردم دوچار ہے۔

 یہ صورت حال اس حد تک بگڑی کہ ،کیلی فورنیا کے گورنر،جیری براؤن کو ٹیلی وژن کے ذریعے اعلان کرنا پڑا کہ اس جرم کے خاتمے کے لئے پانچ ارب ڈالت کی لاگت سے دس سالہ جنگ چھیڑنی پڑے گی۔

 پھر جیری براؤن نے شہر کی صورت حال پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہاہردم بڑھنے والی خوفناک شدت پسندی اور دلوں میں پلنے والے ڈر او رخوف نے ایساماحول پیداکردیا ہے ہم سے اپنے ہی معاشرے میں آزادی سے زندگی گزارنے کا حق چھن چکاہے۔(١٢٦)

 ہاں !اگرخدانخواستہ آزادی سے مراد یہ لیا جائے کہ عورت ہر قسم کا لباس پہن کر باہر نکلے،آزادی سے گھومے پھرے اور ہر ایک سے ہر طرح کا ہنسی مذاق کرے تو ایسی آزادی اسلام نہیں دیتا۔

 عورت کی شرافت بھی اسی بات کی متقاضی ہے کہ جب عورت گھر سے باہر نکلے تو بول چال،چلنے پھرنے اور پہننے اوڑھنے میں ایسا وطیرہ رکھے جس سے اس کے محاسن ابھر ابھر کر آشکارا نہ ہوں جو مردوں کے جنسی جذبات کی برانگیختگی کا باعث بنیں اور خود عورت عملا دعوت گناہ دینے کی مرتکب ہو۔بلکہ انتہائی سادگی اور معاشرے کے مصالح کے بھی عین قرین قیاس ہے چہ جائیکہ اس سے کسی فرد کی آزادی سلب ہوتی ہے؟تحقیق نگار اپنے اس جواب کو ''شہید مرتضیٰ مطہری ''کے اقتباس پر ختم کرے گی جس میں آپ نے بھی اس اعتراض کو انہی الفاظ میں دفع کیا ہے۔

آپ اپنی کتاب ''فلسفہ حجاب''میں اس اعتراض کے جواب میں تلخیصا فرماتے ہیں۔

 

''مسائل صرف دوہیں۔ایک ہے سترپوشی کے ساتھ باہر نکلنے کا اور دوسراہیجان انگیز لباس کے ساتھ باہر جانے کا۔مصلحت تو اس میں ہے کہ عورت کاگھرسے نکلنا مرد کی مرضی اور اس کی مصلحت اندیشی کے ساتھ ہو البتہ مرد کو بھی گھریلو مصالح کی حد تک اپنی رائے پیش کرنی چاہئے اس سے بڑھ کر نہیں۔بعض اوقات تو عورت کا اپنے ہی گھروالوں سے ملنا خلاف مصلحت ہوتاہے۔۔۔۔تو ایسے مواقع پر شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی عورت کو وہاں جانے سے روک دے تاکہ اس کا گھر تلخیوں اور رنجشوں سے محفوظ رہے اور اس کے بچے بھی کسی کمپلیکس کا شکار نہ ہوں لیکن جو باتیں گھر کی فضاء کو مکدر نہ کرتی ہوں ان میں مرد کی مداخلت بے معنی ہے''۔(١٢٧)

 

پردہ ہوس میں اضافہ کا باعث ہے۔

 

اعتراض:

 انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ جس چیز سے اسے روکا جائے اس کی اور زیادہ مشتاق ہوتی ہے۔پردے پر دوسرا اعتراض یہ کیاجاتاہے کہ مرد و عورت کے درمیان پردے کا وجود میلان و رغبت اور ہوس میں اضافے کا باعث ہے ۔بمطابق عربی مقولہ''الانسان حریص علی ما منع منہ''

''انسان کو جس چیز سے روکا جائے اس کی طرف اور زیادہ حریص ہوجاتاہے''

 بایں اعتبار پردہ مرد و زن کے درمیان ہواو ہوس کو بڑھانے کاسبب بنتاہے جس سے شہوت میں شدید اضافہ ہوتاہے اور جنسی تشنگی مزید بڑھتی ہے۔

جواب:

 اس اعتراض کے جواب میں عرض یہ ہے کہ یہ بات درست ہے کہ فطری تقاضے کی حد تک خواہشات کی تکمیل پر پابندی لگانا غلط ہے لیکن معاشرتی پابندیاں اٹھالینا بھی اس مشکل کو ختم نہیں کرتا بلکہ اس میں اضافے کا باعث بنتاہے۔کیونکہ اس طرح حقیقی عشق کا مفہوم ختم ہوکررہ جاتاہے اور طبیعت آوارگی پسند ہوتی جاتی ہے۔کیونکہ جنسی مسائل میں آزادی شہوتوں اور خواہشات نفسانیہ کو مزید اجاگر کرتی ہے جب کہ پابندی تخیل، شعور اوراحساس کو ایک لطیف اور بلند بشری احساس کی صورت میں ابھارتی ہے۔

 اسلام میں پردہ کا حکم یہی پابندی ہے جو انسانوں کے جنسی جذبات کی تسکین کے لئے شادی کرنے کی تعلیم دیتی ہے نہ کہ اس لئے کہ مرد و زن جنسی لذت سے محروم کردیئے جائیں اور اس طرح ان کی جنسی خواہشات کی پیاس بڑھ کر کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ بن جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ عورت کے پردہ کرنے سے جنسی جذبات اور ہوس میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ بے پردگی اس فتنہ و فساد کی جڑہے جس کا اندازہ ہم ان دو ممالک کے درمیان تقابل کی صورت میں بخوبی لگاسکتے ہیں جہاں پردہ کی پابندی ہوتی ہے اور جہاں نہیں ہوتی ہے۔

 ہم بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ جن ممالک میںپردے کا رواج نہین ہے وہاں فتنہ و فساد اور دیگر برائیوں کا اصل سبب بے پردگی ہے جس کی وجہ سے گھر اور خاندان جیسے اہم ادارے بھی تباہ ہورہے ہیں جب کہ اس کے بالمقابل وہ ممالک جہاں پردہ کا رواج ہے اس قسم کی تباہ کاریوں سے قدرے محفوظ ہیں۔

 سگمنڈ فرائیڈ جو بڑے شدت پسندانہ انداز سے جنسی آزادی کا حامی تھا انتہائی طورپر بالاخر اسی طرف متوجہ ہوا کہ جنسی آزادی کو رواج دینے میں اس سے بڑی غلطی سرزد ہوئی۔چنانچہ بعدہ اس نے جنسی آزادی کے باعث بگڑتے احوال کی درستگی کے لئے بہتر راستہ یہ متعین کیا کہ لوگ جنسیت سے اپنی توجہ ہٹانے کے لئے نقاشی وغیرہ جیسے علمی اور فنی مشاغل میں مصروف ہوجائیں تاکہ جنسی آزادی کی اخلاقی پستی سے نکل پائیں۔(١٢٨)

 

پردہ عورت کی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیداکرتاہے۔

 

 پردہ پر تیسرا اعتراض یہ کیاجاتاہے کہ پردہ عورت کے لئے زندگی کی مختلف سرگرمیوں میں رکاوٹ پیداکرتاہے اور عورت کی صلاحیتوں کے استعمال سے روکتاہے۔جس کے باعث نوع انسانی کا نصف حصہ بے کار و معطل ہوجاتاہے۔اس کے جواب میں تحقیق نگار یہ عرض کرے گی کہ اس قسم کے اعتراض کرنے والے معترضین نے دراصل اسلامی پردہ کی حقیقی روح کو سمجھا ہی نہیں ہے جو کہ عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید یا اس کے ہاتھ پاؤں نہیں باندھ دیتا ہے کہ اس کی صلاحیت اور توانائیاں بروئے کار نہ آسکیں بلکہ اسلامی پردے کا مقصد عورت کے لئے جنسی لذت کو اپنے شوہر تک محدود رکھناہے تاکہ دیگر معاشرہ صرف کام کاج کے لئے مخصوص رہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام عورت سے تقاضائے حجاب کرتاہے۔جب عورت گھر سے باہر نکلے تو اسلام اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ وہ ایسے ملبوسات میں ہو جو مردوں کے جنسی جذبات اور احساسات کو برانگیختہ کریں اور ان کی کارکردگی کی قوت متاثر ہو ۔اب آپ ہی یہ فیصلہ کیجئے کہ کیا یہ پردہ عورت کے کام کاج کی توانائی کومفلوج کرتاہے؟اس کی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیداکرتاہے؟ یا پورے معاشرے کی عملی قوت کو تقویت پہنچاتاہے۔

جواب:

 تحقیقی نگار اپنے اس جواب کو مولانا سید علی نقی نقوی کے ایک اقتباس پر پایہ تکمیل کو پہنچاتی ہے جس میں آپ اس اعتراض کا نہایت درجہ شاندار جواب دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔

 

''اسلام جو نبض شناس فطرت بشری ہے،اس نے عورت اور مرد کی فطرت کے تفرقہ کے ساتھ تقسیم عمل سے کام لیا ہے۔اس تقسیم عمل کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی گود کے پلے ہوئے مرد اور عورت حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ زھرا رضی اللہ عنہا نے عملی طور پر دکھلادیا۔باغوں میں جانا ،کنویں سے پانی کھینچنا ،آب کشی کرنا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا کام اور گھر میں سوت کاتنا،چرخہ چلانا،چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا حضرت فاطمہ زھرارضی اللہ عنہا کا کام۔ظاھر ہے کہ دونوں فردیں کشمکش حیات میں مصروف عمل ہیں مگر گھر کے باہر کے کام مرد سے متعلق ہیں اور گھر کے اندر کے کام عورت سے متعلق ہیں۔انتظام خانہ داری عورت سے متعلق اور تحصیل معاش کا بار مرد کے سر،دونوں صنفوں کے خصوصیات طبیعت جو قدرت کی طرف سے ودیعت ہیں وہ بھی اسی کے متقاضی ہیں۔انتظام و تدبیر کاتعلق قوت خیال کے ساتھ ہے جو نفسیاتی طورپر عورت میں غالب ہیں اور تحصیل معاش کا تعلق قوت جسمانی اور جو ش عمل کے ساتھ ہے جو مرد میں فراواں ہے۔اسی طرح طاقت کا غلبہ اور تحفظ اقتدار کی صلاحیت مرد میں زیادہ ہے اس لئے اسلام نے مرد کو عورت کا محافظ قرار دیا اور اعلان کیا کہ ''الرجال قوامون علی النسائ''(١٢٩)

 

پردہ سے عورت کی تحقیر ہوتی ہے۔

 

 چوتھا اعتراض پردہ پر یہ کیاجاتاہے کہ انتہائی ناانصافی کی بات ہے کہ مردوں کو توپردہ کا حکم نہیں دیا جاتا اور عورتوں کو پردہ میں قید رکھاجاتاہے۔لہذا بایں اعتبار پردہ عورت کے لئے تحقیر ،توہین اور تذلیل کا باعث ہوا۔

 

جواب:

 اس سوال کے جواب میں تحقیق نگار کو سب سے بہتربات جو دستیاب ہوئی وہ مولاناسید علی نقی نقوی کا یہ اقتباس ہے جس میں آپ اس کا جواب دیتے ہوئے تحریرکرتے ہیں۔

 

''اسلام نے پردہ کا جو حکم دیاہے وہ اگر کسی توہین پر مبنی ہوتا تو جن عورتوں کی عزت مذہبی طورپرزیادہ کرنااسلام کا نصب العین تھا ان کے لئے پردہ میں کمی ہوتی لیکن جب کہ ہم اس کا عکس دیکھتے ہیں یعنی دختر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم پردہ کی دوسری عورتوں سے بڑھ چڑھ کر پابند بنائی گئی ہیں تو اس سے زاویہ نظر صاف معلوم ہوجاتاہے اور پتہ چل جاتاہے کہ پردہ بنظر توہین نہیں بلکہ بنظر عزت ہے اس لئے جس کا جتنا زیادہ وقار ہے اتنا ہی اس کا پردہ زیادہ ہے خدا ہماری خواتین کو اپنے نادان دوستوں اور دانادشمن دونوں سے محفوظ رکھے!(١٣٠)(آمین)

 

 جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حکم پردہ میں صرف عورت کو پابند کیوں کیاگیا ۔مرد پر یہ پابندی کیوں نہیں کہ وہ اپناحسن پوشیدہ رکھے تو اس کے جوا ب میں تحقیق نگار یہ عرض کرے گی کہ یہ دین اسلام کا عورت کے لئے اکرام ہے نہ کہ توہین یا تحقیر۔

 عورت کو پردہ کا پابند بناکر اسلام نے درحقیقت عورت پر اپنے اعتبار اور اعتماد کا اظہارکیاہے۔اسلام کو عورت پر اعتماد اور اعتبار تھا کہ طبعا تحریک خیانت عورت کی جانب سے نہیں ہواکرتی اس لئے مرد کے پردہ نہ کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں لیکن مرد پر چونکہ عورت کے بقدر اعتماد و اطمینان نہ تھا اس لئے عورت کو پردے میں رہنے کو کہا گیا تاکہ اس کی عصمت کسی قسم کی دستبرد سے محفوظ رہے۔

 

پردہ مضر صحت ہے۔

 

 پردے پر پانچواں اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ پردہ عورت کے لئے مضر صحت ہے،پردہ کی وجہ سے عورت روشنی اور تازہ ہوا وغیرہ سے محروم رہتی ہے جس کے باعث ان گنت بیماریوںمیں مبتلا رہنے کا خدشہ پیداہوتاہے۔

 

پردہ عورت کے لئے ایک ڈھال کا کام کرتاہے ۔جب عورت اپناسر ڈھانپ کر باہر نکلتی ہے تو اگر ایک طرف وہ اپنا دینی فریضہ اداکرتی ہے تو دوسری جانب وہ بہت سے دنیوی اور طبی فوائد حاصل کرتی ہے نہ کہ نقصانات ۔مثلا پردہ کی وجہ سے عورت گردوغبار سے محفوظ رہتی ہے ،سورج کی تپش اور لو سے محفوظ رہتی ہے ۔جس کی وجہ سے کئی بیماریوں سے بچت رہتی ہے۔برطانوی ماہر امراض چشم ڈاکٹرجان مارشل کا کہناہے کہ سرکوڈھانپ کررکھنے والے افراد بینائی کے مسائل کا کم شکار ہوتے ہیں۔(١٣١)

 

 پردہ کرنے سے سردیوں کی سرد ہوا چھن چھن کر پھیپڑوں میں داخل ہوتی ہے جو طبی نکتہ نگاہ سے عورتوں کے لئے مفید بات ہے۔اسی طرح سر کے بالوں کے لئے سورج کی اضافی روشنی ،آلودگی اور پانی جس میں کلورین کی مقدار زاید ہونہایت مضر ہے۔یہ عناصر بالوں کو ملائم ہونے سے روکتے ہیں۔وہ خواتین جن کا زیادہ وقت گھر سے باہر گزرتاہے انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بالوں کو بہت قلیل مقدار میں دھوپ درکار ہوتی ہے۔زیادہ وقت دھوپ میں گزارنے سے بال کھردرے اور روکھے ہوجاتے ہیں۔اسی طرح حفظان صحت کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو کھلے بندوں سڑکوں پر ،راستوں میں اور بازاروں میں جہاں کثیر مقدارمیں افراد موجود ہوتے ہیں اور قریب قریب سے گزرہوتاہے تو ہر طرح کے لوگ آپ کے پاس سے گزرتے ہیں جن میں نہ جانے کتنی قسم کے مختلف امراض میں مبتلا افراد بھی آپ کے پاس سے گزرتے ہیں۔کتنے افراد سے آپ کو بات چیت کرنی پڑتی ہے ،کیسے کیسے اشخاص کے پاس اٹھنابیٹھنا ہوتاہے جس کے باعث مختلف الانواع جراثیم ہوامیں بذریعہ تنفس و تکلم دوسرے جسم تک پہنچنے کے امکانات رکھتے ہیں۔ان تمام مضرتوں سے محفوظ رہنے کے لئے پردہ خواتین کے لئے ایک مضبوط ڈھال اور قلعہ کی حیثیت رکھتاہے۔اب آپ ہی بتایئے پردہ خواتین کے لئے مضرصحت ہے یا مصلح صحت؟

 اگر کسی ملک کی وزارت صحت پر یہ انکشاف ہو کہ بازاروں میں موجود مٹھائی کی ایک قسم ایسی ہے ۔۔۔جس کوکھانے سے کوئی بیماری لاحق ہوسکتی ہے ۔مثال کے طور پر کینسروغیرہ،اور وہ لوگوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لئے اس مٹھائی پر پابندی لگادے اور اسے مارکیٹ سے ضبط کرالے توکیاکوئی یہ کہہ سکتاہے کہ ان کو اس مٹھائی پر پابندی لگانے کاکوئی حق نہیں ہے۔ہم وہ مٹھائی کھائیں گے ، ہم آزاد ہیں اور اپنی مرضی کے مالک ہیں؟

 کیا آپ کسی کو ایسا کہنے کاحق دیں گے ؟طبی نقطہ نظر سے بے پردگی کے متعدد نقصانات میں سے ایک نقصان ہے۔بے پردہ گھومنے والی عورت کاجلدی کینسر جیسی بیماری میں مبتلاء ہونا۔کیونکہ سائنسی طورپر بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ براہ راست جلد پر پڑنے والی سورج کی شعاعیں اسی بیماری کو جنم دیتی ہیں۔

 تازہ ترین ریسرچ کے مطابق ،جوخواتین بکنی پہن کر سن باتھ لیتی ہیں ان کے جلدی کینسر میں مبتلاہونے کی شرح ،ان خواتین سے تیرہ گنازیادہ ہے جو سن باتھ لیتے وقت ون پیس کاسٹیوم میں ہوتی ہیں ،جس میں پیٹھ ڈھکی رہتی ہے۔۔۔تو کیا اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ پردہ دار عورت ۔۔جو سورج کی شعاعوں سے اپنے جسم کوچھپاکررکھتی ہے ،اس کے اس بیماری میں مبتلاہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔

 ایک ڈاکٹر کاکہنا ہے کہ ہر یورپی انسان کے جسم میں تقریبا تیس زخم پائے جاتے ہیں،جن کا بنیادی سبب سورج کی شعاعیں ہوتی ہیں ،ان میں سے زیادہ ترزخم کینسر کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔

 

پھر یہی ڈاکٹر کہتاہے کہ:

 سورج کی تپش اور حرارت سے انسان کے جسم میں موجود دفاعی نظام بری طرح متاثر ہوتاہے اور کئی کئی گھنٹے سورج کی شعاعوں تلے گزارنا بالکل ایساہے،جیسے کسی بند کمرے میں بے تحاشہ سگریٹ پھونکنا،جوانسان کے لئے سخت مضرت رساں ہے''۔

 مردوں سے زیادہ عورتیں ،جلدی کینسر میں مبتلاہوتی ہیں جس کی ایک قسم کثیر الانتشار ہے اور عام طور پر گردن اور چہرے کو اپنانشانہ بناتی ہے اور اگر اس کا صحیح اور بروقت علاج نہ ہو تو مریض کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔

 جلدی کینسر کی ایک وجہ ایک اور قسم ہے جس کو کبھی کبھی ''ہلاکت خیز السر''کے نام سے موسوم کیاجاتاہے ۔جوانسانی جسم کے کسی بھی حصے پر حملہ کرسکتاہے مگریہ زیادہ تر عورتوں کے پیروں پر پایاجاتاہے ۔۔۔اور مختلف علامات کے ذریعے اپنی موجودگی کا پتہ دیتاہے۔۔جیسے کہ جلد کی رنگت میں تبدیلی ،یاخارش کااحساس۔۔اور جب بڑھ جاتاہے توخون تک رسنے لگتاہے۔

 ایک تیسری قسم ہے جو گندم کی برابر دانوں کی شکل میں ابھرتاہے جو عام طورپر ہتھیلی کی جڑوں ،سر،کانوں اور ہونٹوں پرنظرآتے ہیں۔

 دیر تک سورج کی شعاعوں کاسامناکرنا،جلدی کینسر کوکھلی دعوت دینے کے مترادف ہے ۔بلکہ اس طرح کرنے سے وقت سے پہلے ہی جلد پر بڑھاپاطاری ہونے لگتاہے۔

 صرف برطانیہ میں ہر سال جلدی کینسر کے کے ٢٦٠٠ کیس سامنے آتے ہیں۔یہ شرح گزشتہ دس سالوں کی بہ نسبت پچاس فیصد زیادہ ہے۔

 جلدی کینسر کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ صحیح وقت پر اس کی تشخیص نہ ہونے سے یہ خبیث مرض جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچ جاتاہے ۔جیسے کہ لمغادی غدود اور پھر پھیپھڑوں اور نظام تنفس کو اپناشکار بناتاہے۔۔اور یہ جسم کے وہ حصے ہیں۔جن کا علاج کرنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔۔اور بالفرض اگران کا علاج ہوبھی جائے تو نتیجے کے طورپرمریض کے جسم اور چہرے پر اس کے آثار باقی رہ جاتے ہیں۔

 

''ہلاکت خیزالسر''نامی کینسر یورپی افراد میں زیادہ پایاجاتاہے اور جو دیر دیر تک سورج کی شعاعوں کے نیچے پڑے رہنے کا نتیجہ ہے۔یہ کینسر پیپ بھرے سفید دانوں یا انسانی گوشت کی رنگت والے دانوں کی شکل میں ابھرتاہے۔۔اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتاچلاجاتاہے اور ظاہر ہے کہ یہ دانے وقت اور زخم انسانی جسم کے ان حصوں کو متاثر کرتے ہیں جو سورج کی شعاعوں کے سامنے کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔جیسے کہ چہرہ''(١١٣٢)

 

 امریکہ اور فرانس کے کچھ ماہرین کے ابھی حال ہی میں عورتوں کے مختصر لباس پہننے کے نتائج کااندازہ لگانے کے لئے مختلف تحقیقات اور ریسرچ کیس سامنے آئے ہیں،اس کے لئے انہوں نے کچھ لڑکیوں کے ''منی اسکرٹ''پہننے سے پہلے ان کی پنڈلیوں کی پیمائش کی،پھر ''منی اسکرٹ''پہننے کے کچھ عرصہ بعد انہی پنڈلیوں کی دوبارہ پیمائش کی تواندازہ لگایاکہ پنڈلیوں کے حجم میں پانچ فیصد اضافہ ہوا اور جلد کی رنگت سات فیصد بدل چکی ہے۔

 برطانیہ کے ایک میڈیکل میگزین نے شائع کیا کہ جلد کو شکار بنانے والاموذی کینسر،جوجلد کے کھلے ہوئے حصوں کو متاثرکرتاہے ،عورتوں کے جدید فیشن کے مختصراورنیم برہنہ لباس اپنانے کے بعد سے دن بدن بڑھتاجارہاہے۔کیونکہ اس طرح کے سادہ لباس کی وجہ سے جسم کے زیادہ تر حصے،سورج کی شعاعوں کی زد میں رہتے ہیں۔

 اس کینسر کی ابتداپیرکی ننگی پنڈلی پر ابھرنے والے ایک ننھے سے سیاہ دھبے کی شکل میں ہوتی ہے،جوبتدریج پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔(١٣٣)

 فرض کریں اگرکسی ملک کے سربراہ نے ایک فیصلہ صادر کیا،جس کی رو سے عورتوں کوکینسر جیسے موذی مرض سے بچانے کے لئے ان پر چہرہ کھولنے اور جسم کو سورج کی شعاعوں کے سامنے کھولنے پر پابندی لگائی گئی ہو ۔توکیا اس پر عورت کی آزادی سلب کرنے کاالزام لگایاجاسکتاہے؟

 بس توپھر سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت پر جو پردہ کی پابندی لگائی ہے تو اسے جہنم کی آگ ،فتنہ ،فساد اور بہت سی برائیوں اور خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے لگائی ہے۔

 تو کیا آپ کے خیال میں یہ حفاظتی تدابیر ،آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہیں؟جان لیجئے کہ حقیقی آزادی وہی ہے جو امن،صحت،اطمینان اور انفرادی اور اجتماعی سلامتی کے سائے تلے ہوتی ہے۔

 اللہ تعالیٰ پردہ اور حجاب میں پوشیدہ مصلحت اور عورت اور اس کے معاشرے کی حفاظت کاپہلوواضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

 

''یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً ''

 

''اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہرنکلاکریں) تواپنے(منہ)پر چادر لٹکاکر(گھونگھٹ نکال)لیاکریں۔یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (امتیاز)ہوگاتو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا اور خدا بخشنے والامہربان ہے۔''(١٣٤)

 

 حق تعالیٰ کا یہ فرمان''فلایوذین''یعنی توکوئی ان کو ایذانہ دے گا''ثبوت ہے اس بات کا کہ عورت کی خوبصورتی ظاہر ہونے میں اس کے لئے فتنہ و شر کے باعث،اذیت پوشیدہ ہے،لہذا اللہ تعالیٰ نے عورت پر بے پردہ پھرنا اور اپنی خوبصورتی کی نمائش کرناحرام قراردیا۔(١٣٥)

 مندرجہ بالا تمام تفصیلات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ پردہ کے خلاف جس قدر سطحی اعتراضات کئے جاتے ہیں وہ سب ہوس پرست مردوں کی چالبازیاں ،شیطانی وساوس،نفسی ڈھکوسلے اور بالکل بے بنیادفحش اغلاط ہیں جن کی عقلی اور شرعی دنیامیں کوئی حیثیت نہیں جب کہ ان کے بالمقابل پردہ عقلی حیثیت سے ایک مستحسن اقدام اور شرعی حیثیت سے لازم امر ہے جس کی پابندی عورت کے لئے بہرحال ضروری ہے۔تحقیق نگار اپنے اس جواب کو مولاناسید علی نقی نقوی کے پر مغز اقتباس پر تکمیل کوپہنچاتی ہے جس میں آپ نے ہوس پرست مردوں اور ان کے اعتراضات و احتجاجات کا بہت ہی خوبصور نقشہ کھینچتے ہوئے تحریرکیاہے۔

 

''کا ش عورت نے بطور خود پردہ پر احتجاج کیاہوتاتو اس میں خلوص اور ذاتی تاثر کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتامگر حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے پردہ پراحتجاج مردوں نے شروع کیا۔برانہ مانا جائے توکہوں کہ یہ احتجاج ایساہے جیسے تمام دنیا کے چوراور ڈاکو مجتمع طورپرکانفرنس منعقدکریں اور اس پر احتجاج کریں کہ راتوں کوگھروں کے دروازے بندکیوں ہوتے ہیں،صندوقوں اور تجوریوں میں قفل کیوں لگائے جاتے ہیں اور بینکوں کی حفاظت میں اتنااہتمام کیوں ہوتاہے؟ایسے احتجاج کی وقعت معلوم ہے''(١٣٦)

 

 

 

 

 

باب پنجم

 

مصادر ومراجع

 

(١) عباس محمود العقاد ،المرأۃ فی القرآن،دارالکتاب العربی،بیروت،١٩٦٧ئ،ص ٨ تا٩٤

(٢) القرآن ،٢٤:٣٠

(٣) القرآن ،٢٤:٣١

(٤) القرآن:٣٣:٣٣

(٥) القرآن:٣٣:٥٣

(٦) عباس محمود العقاد ،المرأۃ فی القرآن،دارالکتاب العربی،بیروت،١٩٦٧ئ،ص ٨ تا٩٤

(٧) عبدالحلیم ابوشقہ،تحریر المراأۃ فی عصرا لرسالۃ ،دارالعلم،کویت،١٤١١ھ،ج٤،ص٢٧

(٨) عبدالواحد بن محمد تمیمی واحدی،غررالحکم،درر الکلم،تہران ،انتشارات دانشگاہ،تہران،ج/٤،ص١٠٥

(٩) محمد علی صابونی،روائع البیان،طبع پنجم ،مناہل العرفان،بیروت ،١٤٠٧ھ،ج/٢،ص١٤٧

(١٠) محمود زمخشری،کشاف،طبع سوم،دارالکتاب العربی،١٤٠٧ھ،ج/،ص٢٣١

(١١) ابوعبداللہ القرطبی ،الجامع،داراحیاء التراث العربی،١٩٦٧ئج/١٢،ص٢٣٠

(١٢) محمد علی صابونی،روائع البیان،طبع پنجم ،مناہل العرفان،بیروت ،١٤٠٧ھ،ج/٢،ص١٤٤،

(١٣) محمدی ری شہری،المیزان،مکتب الاعلام الاسلامی،١٣٦٢ھ،ج/١٥،ص١١٢

(١٤) محمد صادقی،الفرقان ،دار التراث الاسلامی،بیروت ،١٣٩٥ھ،ج/١٨،ص١١٢

(١٥) فخر رازی،التفسیر الکبیر ،طبع سوم،نشر دانش اسلامی قم،سن ندارد،ج/٢٣،صء ٢٠

(١٦) سید محمود علوی،الحجاب والاسلام ،قم،ص٧٢

(١٧) کافی ،ج/٥۔وسائل الشیعہ ،ج/٣،ص ٢٤، تفسیر صافی ،ج/٣،ص ٤٣٠۔الدر المنثور،ج٥،ص ٤٠

(١٨) فخرالدین طریحی،مجمع البحرین،مکتبہ المرتضویۃ،تہران،١٣٩٥ھ،ج/٧،ص ١٣٨

(١٩) ھمان منبع ،ج/٧،ص ١٣٨

(٢٠) محمد بن جریری طبری،جامع ،دار الفکر بیروت،١٤٠٨ھ،ج/١٠،ص ١٢٠

(٢١) محسن فیض کاشانی،تفسیر الصافی،دارالمعرفہ بیروت،ج/٣،ص ٤٣١۔

(٢٢) محمد صادقی،الفرقان فی تفسیر القرآن ،دارالتراث الاسلامی ،بیروت،١٣٩٥ھ،ج/١٨،ص ١١١

(٢٣) حسن مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن ،بنگاہ ترجمہ و نشر ،تہران،١٣٦٠ھ،ج/٣،ص١٣٠

(٢٤) ڈاکٹر فتحیہ فتاحی زادہ ،حجاب،١٣٨٨،بوستان کتاب،ص ٧٧ تا ٨٢،١٢٤ تا ١٢٦

(٢٥) سید ابوالاعلیٰ مودودی ،پردہ،اسلامک پبلی کیشنز،١٩٩٨، س ٢٥١

(٢٦) سید ابو الاعلیٰ مودودی ،پردہ،اسلامک پبلیکیشنز ،١٩٩٨،ص ٣٤ تا ٣٩

(٢٧) القرآن:٣٠،٣١

(٢٨) القران:٣٣:٣٢،٣٣

(٢٩) القرآن:٣٣:٣٩

(٣٠) وسائل الشیعہ،ج/١١،ج/٦،ص٨٦

(٣١) ابو داؤد،باب ما یأمر بہ من غض البصر،دار الاشاعت ،کراچی،١٩٩٥ئ

(٣٢) تکملہ فتح القدیر

(٣٣) اس مضمون کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر امام رازی،آیہ قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم۔(احکام القرآن للجصاص،تفسیر آیہ مذکورہ،فصل الوط والنظر واللمس۔المبسوط،کتاب الاستحسان)

(٣٤) ترمذی، باب ماجاء فی النظر الی المخطوبۃ

(٣٥) بخاری باب النظر الی المراۃ قبل التزویج

(٣٦) مسلم ،باب من ارادنکاح امراۃ الی ان ینظر الی وجہھا

(٣٧) ابوداؤد،باب فی الرجل ،ینظر الی المراۃ وھو یرید تزویجھا

(٣٨) ترمذی ،باب ماجاء فی احتجاب النساء من الرجال۔

(٤٠) تفسیر ابن کثیر،طبع اول ،دار المعرفۃ،بیروت،١٤٠٦ھ،جلد ٣،ص ٢٨٥

(٤١) بذل الجہود،کتاب اللباس،باب ماجاء فی قولہ تعالیٰ غیر اولی الاربۃ من الرجال

(٤٢) محمد بن جریر طبری،تفسیرابن جریر۔دار الفکر،بیروت،١٤٠٨ھ، تفسیر آیہ مذکورہ۔

(٤٣) تفسیر کبیر،طبع سوم،نشردانش اسلامی،قم،آیہ مذکورہ

(٤٤) ترمذی،باب ماجاء فی کراہیۃ خروج النساء فی الزینۃ

(٤٥) یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر اور علامہ جصاص کی احکام القرآن میں بھی مذکورہیں۔

(٤٦) القرآن:٣٣:٥٩

(٤٧) محمد بن جریر طبری،تفسیرابن جریر۔دار الفکر،بیروت،١٤٠٨ھ، جلد ٢٢،ص٢٩

(٤٨) تفسیر ابن جریر،حوالہ مذکورہ،احکام القرآن جلد سوم،ص ٤٥٧

(٤٩) محمد بن جریر طبری،تفسیرابن جریر۔دار الفکر،بیروت،١٤٠٨ھ، تفسیر آیہ مذکورہ۔

(٥٠) احمد بن علی رازی جصاص،احکام القرآن،دار احیاء التراث العربی،بیروت،١٤٠٥ھ،ج٣،ص٤٥٨

(٥١) زید بن علی،تفسیر غرائب القرآن برحاشیہ،ابن جریر،دارالعالمیہ ،بیروت،١٤١٢ھ،ج٢٢،ص ٣٢

(٥٢) فخررازی،تفسیر کبیر،طبع سوم،قم،ج ٦،ص ٥٩١

ّ(٥٣) تفسیر البیضاوی،ج٤،ص١٦٨

(٥٤) موطا،ترمذی وابوداؤد وغیرہ

(٥٥) ترمذی،باب فی المحرمۃ،دار الاشاعت کراچی،سن ندارد

(٥٦) یہ متعد احادیث کا لب لباب ہے۔ملاحظہ ہو:مسلم،باب اباحتہ الخروج النساء القضاء حاجتہ الانسان۔بخاری،باب الخروج النساء لحوائجہن وباب آیتہ الحجاب۔

(٥٧) سنن ابی داؤد،باب ماجاء فی خروج۔النساء الی المساجد،دار الاشاعت کراچی،١٩٩٥ئ

(٥٨) بخاری ،مسلم،دارالاشاعت کراچی،١٩٨٥ئ، مشتاق بک کارنر،لاہور،١٩٩٥ئ

(٥٩) ابوداؤد،دار الاشاعت کراچی،١٩٩٥ئ

(٦٠) ترمذی،باب خروج النساء الی المسجد وفی ہذا المعنی حدیث اخرجہ ،البخاری فی باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس

(٦١) سنن ابی داؤد،باب ایکرہ الرجل مایکون من اصابتہ اہلہ

(٦٢) ترمذی،باب التغلیس فی الفجر۔دار الاشاعت کراچی،س ن

(٦٣) ابن ماجہ ،باب فتنہ النسائ،قدیمی کتب خانہ،آرام باغ کراچی

(٦٤) ملاحظہ موطا باب خروج النساء الی المساجد۔مسلم ،باب خروج النساء الی المساجد۔ابن ماجہ ،فتنۃ النسائ

(٦٥) ترمذی باب ماجاء فی الرج یصلی ومعہ رجال و نسائ،دار الاشاعت کراچی،س ن

(٦٦) بخاری،باب المراۃ وحد ہا تکون صفا،دار الاشاعت کراچی،١٩٨٥ئ

(٦٧) نسائی،باب موقف الامام اذاکان معہ صبی وامراۃ،دار الاشاعت کراچی،س ن

(٦٨) بخاری،باب التصفیق،للنسائ،ابوداؤد باب التصفیق فی الصلوۃ۔دار الاشاعت کراچی،١٩٨٥ئ،١٩٩٥ئ

(٦٩) ابو داؤد،باب اعتزال النساء فی المساجد عن الرجال،دار الاشاعت کراچی،١٩٩٥ئ

(٧٠) ترمذی،باب طواف النساء مع الرجالدار الاشاعت کراچی،سن ندارد

(٧١) فتح الباری،ج ٣،ص ٣١٢

(٧٢) موطا،ابواب الحج،باب تقدیم النساء والصبیان،مزید بک اسٹال ،لاہور،١٩٨٣ئ

(٧٣) ترمذی،باب خروج النساء فی العیدین،دار الاشاعت کراچی،س ن

(٧٤) ابن ماجہ،باب ماجاء فی خروج النساء فی العیدین،قدیمی کتب خانہ آرام باغ،کراچی

(٧٥) ابوداؤد،باب اتباع النساء الجنازۃ،دار الاشاعت کراچی،١٩٩٥ئ

(٧٦) ابوداؤد،باب ماجاء فی کراہیۃ زیارۃ القبور للنسائ،دار الاشاعت کراچی،١٩٩٥ئ

(٧٧) ترمذی باب ماجاء فی زیارۃ القبور النسائ،دار الاشاعت کراچی،س ن

(٧٨) بخاری ،باب زیارۃ القبور،دار الاشاعت کراچی،١٩٨٥ئ

(٧٩) بخاری،باب حمل الرجل المراۃ فی الغزو،دار الاشاعت کراچی،١٩٨٥ئ

(٨٠) ترمذی باب ماجاء فی خروج النساء فی الغزو۔دار الاشاعت کراچی،س ن

(٨١) بخاری باب غزوۃ المراۃ فی البحر،دار الاشاعت کراچی،١٩٨٥ئ

(٨٢) بخاری ،باب غزوۃ النساء وقتالہن مع الرجال،مسلم ،باب غزوۃ النساء مع الرجال ج٢،ص٧٦

(٨٣) بخاری ،باب مدادات النساء الجرحی فی الغزو،دار الاشاعت کراچی،١٩٨٥ئ

(٨٤) مسلم،باب غزوۃ النساء مع الرجال،مشتاق بک کارنر،لاہور،١٩٩٥ئ

(٨٥) ابن ماجہ،باب العبید والنساء یشہدون مع المسلمین،قدیمی کتب خانہ ،آرام باغ کراچی،

(٨٦) مسلم باب النساء الغازیات یرضح لہن۔

(٨٧) سید ابوالاعلیٰ مودوی،پردہ،اسلامک پبلی کیشنز،١٩٩٨ئ،ص ٢٤٩ تا ٣٠٤

(٨٨) شہید مرتضی مطہری،فلسفہ حجاب،جامعہ تعلیمات اسلامی،پاکستان،١٩٩١ئ،ص ٤٧،٤٨

(٨٩) شہید مرتضی مطہری،فلسفہ حجاب،جامعہ تعلیمات اسلامی،پاکستان،١٩٩١ئ،ص٥٠

(٩٠) القرآن:٣٣:٣٢

(٩١) اسد الغابۃ ،ج٣،ص ٣٨٤

(٩٢) صحیح مسلم،ج٤،ص١٤٨تا ١٥١،مشتا ق بک کارنر،لاہور،١٩٩٥ئ

(٩٣) القرآن:٣٣:٥٩

(٩٤) شمارہ ٦/٩/ ١٣٤٧ھ شمسی

(٩٥) شہید،مرتضی مطہری،فلسفہ حجاب،جامعہ تعلیمات اسلامی پاکستان،١٩٩١ئ،ص ٤٦ تا ٥٧۔

(٩٦) القرآن:٢٤:٢٧ تا ٣١

(٩٧) شہید،مرتضی مطہری،فلسفہ حجاب،جامعہ تعلیمات اسلامی پاکستان،١٩٩١ئ،ص ٧٤ تا ٨١

(٩٨) مولانا ابوالبشیر محمد صالح،پردہ،مکتبہ مہریہ رضویہ ،ڈسکہ ،سن ندارد،ص٩٦

(٩٩) رواہ احمد و ترمذی و ابوداؤد

(١٠٠) القرآن :٢٤:٦٠

(١٠١) القرآن:٣٣:٣٦

(١٠٢) مشکوۃ شریف،قدیمی کتب خانہ آرام باغ،کراچی،١٣٥٠ھ

(١٠٣) ترمذی،ابوداؤد

(١٠٤) رواہ مسلم

(١٠٥) رواہ الطبرانی فی الاوسط

(١٠٦) ہدایہ بحوالہ پردہ ،مولانا ابو البشیر محمدصالح،مکتبہ مہریہ رضویہ ڈسکہ،ص٩٦ تا ١٠٥

١٠٧) القرآن:٣٣:٣٢ و ٣٣

(١٠٨) بخاری ،مسلم،ابوداؤد

(١٠٩) داری،احمد،ترمذی،ابوداؤد

(١١٠) طبرانی

(١١١) ابوداؤد

(١١٢) ترمذی،ابوداؤد،بخاری

(١١٣) بخاری،مسلم

(١١٤) مسلم،نسائی،احمد

(١١٥) احمد،ابوداؤد

(١١٦) احمد ،ابوداؤد،ترمذی

(١١٧) تفسیر کشاف،ج٢،ص ٩٠،دارالکتاب العربی،١٤٠٧ھ

(١١٨) ابن کثیر،ج٣،ص ٢٨٤،کتاب اللباس،دارالمعرفۃ،بیروت،

(١١٩) ابو داؤد،کتاب اللباس،دار الاشاعت کراچی،١٩٩٥ئ

(١٢٠) ابو داؤد،کتاب الحج،دار الاشاعت کراچی،١٩٩٥ئ

(١٢١) ابوداؤد،دار الاشاعت کراچی،١٩٩٥ئ

(١٢٢) ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ

(١٢٣) ابو داؤد،احمد ،نسائی

(١٢٤) ابوداؤد

(١٢٥) بخاری ،مسلم،احمد،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ

(١٢٦) النھضۃ،شمارہ نمبر ٧٣٦،بحوالہ آزادی نسواں دھوکہ یا حقیقت،دارالاشاعت،ص٣٠٤

(١٢٧) شہید مرتضی مطہری،فلسفہ حجاب،جامعہ تعلیمات اسلامی،پاکستان،١٩٩١ئ،ص٦١

(١٢٨) شہید مرتضی مطہری،فلسفہ حجاب،جامعہ تعلیمات اسلامی،پاکستان،١٩٩١ئ،ص٧٢

(١٢٩) مولاناسید علی نقی النقوی،اثبات پردہ،امامیہ مشن ،لکھنو،١٩٩٦ئ،ص ١٠٩،١١٠

(١٣٠) مولاناسید علی نقی النقوی،اثبات پردہ،امامیہ مشن ،لکھنو،١٩٩٦ئ،ص ١١٧

(١٣١) محمد انور بن اختر،پردہ اور جدید ریسرچ،ادارہ اشاعت اسلام،٢٠٠٧ئ،ص ١٧٠

(١٣٢) مجلۃ اسرتی،ص ٦٢،٦٤

(١٣٣) جریدۃ ''الانبائ''الکویتیہ۔١٥/٥/١٩٩٠ئ

(١٣٤) القرآن:٣٣: ٥٩

(١٣٥) نظرات فی کتاب حجاب المراۃ ،عبدالعزیز بن خلف اللہ العبد،ص ٣٩

(١٣٦) مولانا سید علی نقی النقوی،اثبات پردہ،امامیہ مشن ،لکھنو،١٩٩٦ئ،ص ١١٧

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

صلی اللہ علیہ وسلم

رضی اللہ عنہ

رحمہ اللہ تعالیٰ

علیہ السلام

 

 

 باب ششم

 

 عہد حاضر میں مختلف ممالک میں حجاب اورآزادی نسواں کی کیفیت:۔

 

 باب ہٰذا میں تحقیق نگار عہدحاضر کے حوالے سے مختلف ممالک میں حجاب اور آزادی نسواں کی کیفیت کے تناظر میں بحث پیش کرے گی۔

 

 یہ درست ہے کہ عورت ایک طویل عرصے سے مظلوم چلی آرہی تھی۔وہ اسلام سے قبل ہر قوم اور ہر خطے میں مظلوم تھی۔یونان ، مصر،روم،عراق،چین اور ہندوستان و عرب میں ہر جگہ مظلوم تھی۔ہر جگہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی۔بازاروں اور میلوں میں اس کی خرید وفروخت ہوتی تھی۔اس سے حیوانوں سے بدتر سلوک ہورہاتھا۔

 اہل عرب اس کے وجود کو باعث ننگ و عار سمجھتے تھے بلکہ بعض شقی القلب لوگ اس کو زندہ درگوربھی کرتے تھے۔یونان میں عرصے تک یہ بحث جاری رہی کہ اس کے اندر روح بھی ہے یا نہیں؟

 ہندوستان میں یہ اپنے شوہر کے ساتھ چتاپر جل کر راکھ ہوجاتی تھی۔کوئی اس کا پرسان حال نہیں تھا۔کسی کے دل میں اس کے لئے رحم کے جذبات نہیں تھے۔راہبانہ مذاہب اس کو معصیت اور گناہ کاسرچشمہ سمجھتے تھے۔اس کا وجود مجسم پاپ اور گناہ سمجھا جاتاتھا۔

 دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں وہ ذلیل و حقیر سمجھی جاتی تھی۔اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں تھی۔اس پر ظلم و ستم کی کوئی داد رسی نہیں ہوتی تھی۔وہ معاشرے میں مجبور و مقہور تھی اور اسے فریاد کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔وہ باپ کی ،پھر شوہر اور اس کے بعد اپنی اولاد کی محکوم اور تابع تھی۔

 اسلام نے عورت کو ظلم کے گرداب سے نکالا۔اس کو معاشرے میں عزت اور سربلندی عطاکی۔اس کا احترام سکھایا۔اس کے ساتھ انصاف کیا۔اس کی داد رسی کی لیکن مغرب کی جو قومیں اسلام کے سایہ رحمت میں نہ آسکیں وہ اسلام کی ان برکات اور ثمرات سے محروم رہیں ۔ان میں عورت کے حقوق برابر پامال ہوتے رہے۔اور وہ ہر قسم کا ظلم و ستم سہتی رہی۔

 موجودہ دور میں جب ان قوموں میں عورت کی آزادی اور مساوات کا تصور ابھرا تو انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ صنفی اور نوعی اختلاف کے باوجود عورت مرد سے کم تر اور فروترنہیں ہے۔وہ ہر وہ کام کرسکتی ہے جو مرد کرسکتاہے۔وہ مرد کی طرح ہر عہد ے اور منصب کی اہل ہے۔لہذا مرد کی بالادستی اس پر سے ختم ہونی چاہئے اورا س کو وہ سارے حقوق ملنے چاہئےں جو مرد کو حاصل ہیں اور وہ ہرلحاظ سے آزاد ہے۔اس پر کوئی قید نہیں۔

 عورت جوصدیوں سے مردوں کے ظلم و ستم سہہ رہی تھی۔اس کے لئے آزادی کا یہ تصور بڑادل خوش کن تھا۔اس نے فورا لپک کر اس کو قبول کیا۔جیسے فردوس گم گشتہ اسے مل گئی ہو۔یورپ کے صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) نے بھی ایک انگیخت کا کام کیا۔

 چنانچہ وہ آہستہ آہستہ معاشی،معاشرتی،سماجی ،تہذیبی اور تمدنی امورمیں مرد کے شانہ بشانہ شریک بنتی گئی۔وہ گھر کی چاردیواری سے نکل کر کارخانوں ،دفتروں ،اسکولوں اور کالجوں میں مرد کے دوش بدوش معاشی جدوجہد کررہی تھی توپارکوں ،تفریح گاہوں، کلبوں اور کھیل کے میدانوں میں مردوں کے ساتھ کھیل کود اور عیش وتفریح میں بھی برابر حصہ لے رہی تھی۔

 اب یہ ہوا کہ اس کا وجود ہر شعبہ زندگی میں ضروری قرارپایا اور اس کے بغیر ہر شعبہ حیات میں زندگی بے کیف اور بے لطیف تصور کی جانے لگی۔عورت اس کو ترقی کا نام دے کر اس کی طرف پیش رفت کرتی رہی اور اس تہذیب کے ظاہری حسن پر فریفتہ ہوگئی لیکن اس کے بطن میں جو خرابیاں پنہاں تھیں اپنی کم عقلی کی وجہ سے ان تک اس کی نظر نہ گئی۔وہ یہ جان نہ سکی کہ جس تہذیب کے زینے پر وہ چڑھ رہی ہے وہ:

چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر ہے

 عورت کی اس بے قید آزادی (Unrestricted Freedom) نے مغرب کی پوری زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دیا اور اس کے نہایت گھناؤنے اور خطرناک نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے جس سے اس کی معاشی ،معاشرتی اور سماجی زندگی میں عدم توازن پیداہوگیا۔

 محمد انور بن اختر نے اپنی کتاب ''پردہ اور جدید ریسرچ ''میں ایسے چار نتائج تحریر کئے ہےں۔

 

١۔ جنسی آوارگی

 

 سب سے پہلا خطرناک نتیجہ تو یہ برآمد ہوا کہ زندگی کے ہر گوشے میں مرد اور عورت کے بے باکانہ اور آزادنہ اختلاط نے پورے معاشرے میں جنسی آوارگی کا رجحان پیدا کردیا۔فحاشی اور بدکاری کا عام چلن ہوگیا اور عورت کی اس آزادی کے بطن سے ایسی ننگی اور بے حیا تہذیب نے جنم لیا کہ اس کی عفونت اور سڑاند سے شرم و حیا ء کا دم گھٹنے لگا اور اخلاق کا پھلتا پھولتا چمن اجڑگیا۔

 عورت جب گھر کی چار دیواری سے نکل کر مجلسوں اور محفلوں کی زینت بنی تو جنسی آوارگی اس طرح پھیلی کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔جو گندگی اور عفونت گھر کے بندکمروں میں بھی برداشت نہیں کی جاسکتی تھی وہ بازاروں اور سڑکوں پر سرعام پھیلنے لگی۔

 انتہائی قابل احترام رشتے بھی اس گندگی سے محفوظ نہ رہ سکے اور پھر جنسیات اور اخلاقی آوارگی کی ایسی ایسی داستانیں لوگوں میں پھیلنے لگیں جن کو سن کر آدمی شرم سے پانی پانی ہوجائے۔

 آرٹ او ر کلچر کے نام سے جنسی جذبات کی ترجمانی ہونے لگی۔عریاں تصاویر کھینچی جانے لگیں۔رقص و موسیقی کے نام پر عورت سے لذت حاصل کی گئی۔افسانوں،ڈراموں شاعری اور ادب کے ذریعے جنسی اعمال و کیفیات کی تشریح ہونے لگی۔اور عورت کا مقصد صرف اور صرف یہ رہ گیا کہ وہ مرد کے جنسی جذبات کی تکمیل اور تسکین کرے۔غرض یہ کہ عورت مرد کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ گئی اور اب وہ واپس گھر کی چار دیواری میں جانے کے قابل نہ رہی۔

 

٢۔ خاندانی نظام میں بگاڑ

 

 اس بے قید آزادی کا دوسرا گھناؤنا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام تلپٹ ہوکررہ گیا۔خاندانی نظام عورت کی وجہ سے قائم تھا اور وہی اس کے نظم و نسق کوسنبھال رہی تھیں لیکن جب وہ گھر سے باہر کارخانوں ،دفتروں اور دوسرے اداروں میں کام کرنے کے لئے گئی تو اس کی زندگی کی ساری تگ و دو گھر سے باہر ہونے لگی۔بیرونی مصروفیات سے اس کا گھر عدم توجہی کا شکار ہوکر برباد ہوگیا۔

 خاندان معاشرے کا بنیادی پتھرہوتاہے۔اس کی بربادی پورے سماج کی بربادی ہوتی ہے۔نتیجہ یہ ہواکہ پورامعاشرہ درہم برہم ہوکررہ گیا۔عورت اور مرد کے درمیان محبت کا رشتہ ختم ہوگیا۔والدین اور اولاد کی محبت کا رشتہ کمزور پڑگیا۔اولاد سے والدین کی محبت کا مرکز چھن گیا اور والدین نرسنگ ہاوسز (Nursing Houses) کے حوالے ہوگئے۔والدین سے بڑھاپے کا سہارا چھن گیا۔

 غرض یہ کہ وہ سارے رشتے اور تعلقات جو خاندان کی بقاء او ر مضبوطی کا باعث ہوتے ہیں ،ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے اور انسان اس سکون سے یک قلم محروم ہوگیا جو ایک خاندان ہی اسے فراہم کرسکتاہے ۔

 

٣۔ حقوق اور ذمہ داریوں میں عدم توازن

 

 تیسرانقصان اس آزادی کا یہ ہوا کہ عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں تناسب اور توازن قائم نہ رہا۔کیونکہ عورت کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے ماں بننا رکھا ہے تاکہ اس کی گود میں نسل انسانی پروان چڑھ سکے۔اس کے لئے جن جذبات واحساسات اور جن صلاحیتوں اور قوموں کی ضرورت ہے وہ بھی فطرت نے اس میں رکھی ہیں۔لیکن کارخانوں اور دفتروں کی کارکردگی نے اس کے ان جذبات اور ان صلاحیتوں کو ضائع کردیا۔

 نسل انسانی کو آگے بڑھانا کوئی ہنگامی اور وقتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک طویل اور دشوار گزار عمل ہے۔اس میں حمل ،ولادت،رضاعت اور بچے کی پرورش اور تربیت وغیرہ جیسا ایک طویل سلسلہ ہے ۔عورت کی بیرون خانہ مصروفیات کی وجہ سے اس کے پاس عمل کے لئے کوئی وقت نہ بچا،لہذا مغربی ملکوں میں اولاد کا سلسلہ کم ہوگیا اور ملکی آبادی خطرناک حد تک گرنے لگی یہاں تک کہ بعض حکومتوں کو بچے پیداکرنے کے لئے لوگوں کو ترغیب (Incentive) دیناپڑی۔

 

٤۔ محبت اور ہمدردی کا فقدان

 

 چوتھا خطرناک نتیجہ اس بے قید آزادی سے یہ برآمد ہوا کہ عورت اور مرد کے درمیان باہمی محبت اور ہمدردی کا جذبہ جو ایک فطری جذبہ تھا ،حقوق کی اس جنگ او ر مادر پدر آزدی نے اس فطری جذبے کو مجروح بلکہ نیم جان کردیا۔اس جذبے کے فقدان سے عورت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔اس لئے کہ صرف قانون اس کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔

 اسی کا نتیجہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان مساوات کا دعویٰ تو کیاجاتاہے لیکن عملا مساوات برتی نہیں جاتی۔یہی وجہ ہے کہ قانون نے اس کو جو معاشرتی اور سماجی حقوق دیئے ہیں ان سے وہ پوری طرح بہرہ یاب نہیں ہوپاتی۔ اور اب حالت یہ ہے کہ عورت برسربازار بکنے لگی ہے،اس کی عزت و آبرو بے دریغ لٹ رہی ہے۔ (١)

 اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قانونی طور پر یورپ اور امریکہ میں عورت کو بڑا تحفظ دیاگیا ہے۔چنانچہ جب بھی کبھی عورت اور مرد کا جھگڑا ہوکر مقدمہ عدالت میں جاتاہے تو عدالت مرد کی نصف جائیداد اور دوسرے کئی حقوق کی رقم کی ڈگری عورت کے نام کردیتی ہے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مرد اس فیصلے سے سخت پریشان ہوجاتاہے۔اب مردوں نے یہ صورت اختیار کی کہ بغیرنکاح کے انہوں نے عورت کے ساتھ تعلق رکھنے شروع کردیئے اور آج یورپ میں اسی فیصد مرد اور عورت بغیر قانونی نکاح کے شوہر اور بیوی بن کر اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔

 اب اگر عورت کا مرد کے ساتھ کوئی تنازعہ پیداہوجاتاہے تو قانون اس کوکوئی تحفظ نہیں دیتا کیونکہ وہ اس مرد کی داشتہ تھی قانونی بیوی نہ تھی۔

 اسلام نے عورت کو دنیا میں پہلی بار سوسائٹی میں ایک اہم درجہ دیا۔چنانچہ ایک مغربی دانشور مسز اینی بسنت (Mrs. Annie Besant) نے لکھا ہے۔

 

''ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ عورتوں کے متعلق اسلام کے قوانین ابھی حالیہ زمانے تک انگلستان میں اپنائے جارہے تھے۔یہ سب سے زیادہ منصفانہ قانون تھا جو دنیا میں پایا جاتاتھا۔جائیداد ،وراثت کے حقوق اور طلاق کے معاملات میں یہ مغرب سے کہیں آگے تھا اور عورتوں کے حقوق کا محافظ تھا۔یک زوجگی اور تعدد ازواج کے الفاظ نے لوگوں کو مسحور کردیا ہے اور وہ مغرب میں عورت کی اس ذلت پر نظر نہیں ڈالنا چاہتے جسے اس کے اولین محافظ سڑکوں پر صرف اس لئے پھینک دیتے ہیں کہ اس سے ان کا دل بھرجاتاہے ،اور پھر اس کی کوئی مددنہیں کرتا''۔(٢)

 

 یہ ایک تاریخی حقیقت تھی جو آپ کے سامنے پیش کی گئی ،مگر عرض یہ کرناہے کہ عورتوں کے متعلق حجاب کا جو خداوندی قانون ہے ،تجربات کی روشنی میں اہل یورپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی اس کے آگے سرتسلیم خم کردیاہے۔ چنانچہ فلسفہ حسی کا موسس اگسٹ کونٹ اپنی مشہور تصنیف '' فلسفہ حسی کے مطابق سیاسی نظام'' میں لکھتاہے۔

 

''جس طرح ہمارے زمانے میں عورتوں کی سوشل حالت کے متعلق خیالی گمراہیاں پیداہورہی ہیں اسی طرح نظام تمدن اور آداب معاشرت کے ہر ایک دور میں تغیر پیداہوتا رہا ہے مگر رول آف نیچر ،جو جنس محب(عورت)کومنزلی زندگی کے لئے مخصوص رکھتا ہے،اس میں کبھی کوئی اہم تغیر واقع نہیں ہوا۔یہ قانون الٰہی اس درجہ صحیح اور محقق ہے کہ اگر اس کی مخالفت میں سینکڑوں باطل خیالات قائم ہوتے رہے مگر یہ بغیر کسی نقصان یاتغیر کے سب پر غالب آتارہا۔مردوں کے مشاغل میں عورتوں کی شرکت سے جو خوفناک نتائج اور فساد پیدا ہورہے ہیں ان کا علاج یہی ہے کہ دنیا میں جنس عامل(مرد)پر جنس محب(عورت)کے جو مادی فرائض ہیں ان کی حد بندی اور تعیین کردی جائے۔

 

مرد پر واجب ہے کہ عورت کے تغذیہ کا انتظام کرے،یہی وہ قانون طبعی اور ناموس الٰہی ہے جو جنس محبت کی اصلی زندگی کو منزلی دائرے میں محدود کرتاہے،یہی وہ قاعدہ ہے جو ہیئت اجتماعی کی خوفناک اور پرہیبت اشکال کو احسن و اکمل کردیتا ہے،یہی وہ قانون ہے جو عورت کو اپنے طبعی جذبات سے ترقی نوع انسانی جیسے شریف فرض کی بجاآوری پر آمادہ کرتاہے''۔

 

علوم مادیہ کا ایک اور ماہر ژول سیمان اپنے ایک مضمون میں لکھتاہے۔

 

''عورت کو چاہئے کہ عورت رہے،ہاں بے شک عورت کو چاہئے کہ عورت رہے،اسی میں اس کے لئے فلاح ہے اور یہی وہ وصف ہے جو اس کی منزل تک پہنچا سکتاہے۔قدرت کا یہ قانون ہے اور قدرت کی یہ ہدایت ہے۔اس لئے جس قدر عورت اس سے قریب ہوگی اس کی حقیقی قدر و منزلت بڑھے گی،اور جس قدر دور ہوگی اس کے مصائب ترقی کریں گے''۔(٣)

 

 بعض فلاسفر انسانی زندگی کو پاکیزگی سے خالی سمجھتے ہیں۔مگر تحقیق نگار یہ سمجھتی ہے کہ انسان کی زندگی دلفریب ،پاک اور بے حد پاکیزہ ہے بشرط یہ کہ ہر مرد اور ہر عورت اپنے اندر مدارج سے واقف ہوجائے جو قدرت نے اس کے لئے قائم کردیئے ہیں۔اور اپنے فرائض کو اداکرے جو قدرت نے اس کے متعلق نافذ کردیئے ہیں۔

 مشہور انگریزی ناول نگار.......اگاتھا کرسٹی کہتی ہے کہ :

 

عورت بہت بے وقوف ہے کیونکہ معاشرے میں اس کا مقام دن بدن پست ہوتاجارہاہے ،ہم عورتیں نہایت احمق ہیں،کیونکہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہم نے مرد کی برابری کادرجہ حاصل کرنے اور گھر سے باہر ملازمت کرنے کا حق حاصل کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگادی،اورمرد چونکہ بے وقوف نہیں تھے،انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی اور اعلان کردیاکہ ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں کہ عورت ملازمت کرے اور گھر کے اخراجات میں مرد کا ہاتھ بٹائے۔

 

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم عورتوں نے پہلے تو یہ ثابت کیا کہ ہم کمزور اورجنس لطیف ہیں مگرپھر ہم مرد کی برابری کرنے کے لالچ میں اس محنت اور تھکن کی حصے دار بن گئی ہیں جو پہلے صرف مردوں کانصیب ہواکرتی تھی۔(٤)

 

 یہ ہیں علمائے یورپ کی وہ چند امثلہ جو اسلام کے حجابی قانون ِخداوندی کے حق میں دلائل دیتے نظرآتے ہیں وگرنہ ڈھونڈنے پر اور بھی بے شمار امثلہ دستیاب ہوسکتی ہیں جب کہ اس کے بالمقابل مغربی تہذیب کی بے وقعتی کی بابت خود ایک مغربی عالمہ ۔

 علم طبیعات کی ماہر مسز ہڈسن نے حال ہی میں اس رائے کااظہارکیاہے کہ:

 

''ہماری (مغربی)تہذیب کی عمارت کی دیواریں منہدم ہونے کوہیں ۔اس کی بنیادوں میں ضعف آگیا ہے اور اس کے شہتیر ہل رہے ہیں ۔نہ معلوم یہ ساری عمارت کب پیوند خاک ہوجائے۔

 

ہم گذشتہ کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اب لوگ نظم و ضبط کی پابندیوں کو اختیار کرنے کے لئے تیارنہیں ہیں۔اس کے بقا کی بس ایک ہی صورت باقی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول پر پابندی لگادی جائے کیونکہ اس تہذیب کے لوگوں کی تمام ترتوجہات آزاد جنسی تعلقات ،قحبہ گری ،اور عصمت فروشی ،مختصر یہ کہ جنسی خواہشوں پر مرتکز ہوکر رہ گئی ہےں۔اس سے ان کی ساری تعمیری صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں۔

 

اس معاملے میں اور بھی طرح طرح کی بے اعتدالیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔جیسے مردوں اور عورتوں کا خود اپنے ہی ہم جنسوں کی طرف مائل ہونا،انسانی صلاحیتوں کا یہ زیاں بڑا ہی تشویشناک ہے۔

 

جنسی تعلقات کی یہ نوعیت اور اس کے ان بدترین آثار اور نتائج کو دیکھ کر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتاہے کہ آیا یہ ہماری تہذیب کے ملیامیٹ ہونے کے آثار و شواہد ہیں یا اس کے اسباب؟ میری رائے یہ ہے کہ یہ آثار و شواہد بھی ہیں اور اسباب بھی''(٥)

 

 آپ نے ملاحظہ کیا مغربی تہذیب کی بے وقعتی اور زوال پذیری کی بابت خود مغربی علماء ببانگ دہل اعلانات کررہے ہیں اور اس کے بدترین آثار و نتائج اور نقصانات سے آگہی دے رہے ہیں۔

 ذیل میں تحقیق نگار عہد حاضر کے حوالے سے مختلف ممالک میں حجاب اور آزادی نسواں کی کیفیت پر تلخیصا گفتگو نظر قرطاس کررہی ہے جس سے یہ بحث بحسن و خوبی اوربدرجہ اتم مزیدواضح ہوجائے گی۔

 

امریکہ

 

 عوررت کو اپنے شوہر کی مارپیٹ اور ظلم سے آزادی دلانے والے مذہب،اسلام کی یہ خوبی اس وقت اور ابھر کر سامنے آجاتی ہے ،جب ہم غیر اسلامی معاشروں اور ان کے افراد پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان معاشروں کے مرد ،کتنی بے دردی سے اپنی بیویوں کوزدوکوب کرتے ہیں ،اور ان پر طرح طرح کی زیادتیاں کرتے ہیں،اور کبھی کبھی تو ان کے ظلم و ستم اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ بیچاری عورتیں اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔

 ١٩٨٧ئ؁ میں ،امریکا میں ہونے والے ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق ،٧٩ فیصد امریکی مرد ،عورتوں کو زدوکوب کرتے ہیں ،خاص کر اگروہ ان کی بیویاں ہوں۔

 یہ رپورٹ اس مباحثہ پر مشتمل تھی،جو ڈاکٹر جون بیر یر (ایک ماہر نفسیات )نے جنوبی کارولینا یونیورسٹی میں،اپنے چند طلبہ کے ساتھ منعقد کیاتھا۔

 اس رپورٹ کے مطابق ،وہاں کے مردوں میں اپنی بیویوں کومارنے پیٹنے کا بہت زیادہ رجحان پایاگیا خاص کر یونیورسٹی کے طلباء میں یقینا کم تعلیم یافتہ یاغیر تعلیم یافتہ طبقے میں تو یہ رجحان اور بھی زیادہ ہوگا۔(٦)

 امریکہ اور انگلستان میں اس اخلاقی انحطاط نے سب سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کی ہے۔پچھلے سال امریکہ میں ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام (U.S.A. Confidential) ہے۔اس کتا ب کے مصنفین نے امریکی زندگی کا ایسا گھناؤنا نقشہ پیش کیا ہے جس کے تصور سے بدن پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔اس کتاب کی اہمیت کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ صرف مارچ ١٩٥٢ء میں اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے ۔مغربی تہذیب کے اس گہوارے میں جو کچھ ہورہاہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

 

''اب جب کہ ہم اپنے گردو پیش پرنگاہ ڈالتے ہیں توحالات یکسربدلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔آج ہمارے ہاں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی افراط ہے اب عورتوں کو آزادای ہے اس لئے وہ ہمارا پیچھا کرنے میں بھی آزاد ہیں.......مردوں کی چشم التفات ان کے لئے ایک ایسی جنس نایاب ہے جس کے لئے انہیںسخت مقابلہ کرناپڑتاہے''۔

 

ہفت روزہ تکبیر کے مطابق:

 

 ہفت روزہ ''تکبیر''کے اعداد وشمار کے مطابق پورے امریکہ کی ٢٨ فیصد لڑکیاں ١٤ برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی درندگی کا شکار ہوجاتی ہیں۔جب کہ ١٨ برس کی عمر سے پہلے ٣٨ فیصد لڑکیاں ہوس کا نشانہ بنتی ہیں۔

 ان اعداد و شمار کا مکروہ ترین پہلو یہ ہے کہ یہ بدنصیب بچے زیادہ تر اپنے رشتے داروں کے ہاتھوں مجرمانہ حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔حملوں کے مرتکبین کی ٢٠ فیصد تعداد سوتیلے باپوں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ ١٥ فیصد چچا یا ماموں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی اولاد کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

 ساڑھے چار فیصد تعداد ایسے والدوں کی ہیں جو اپنی اولاد کی عصمت دری میںمصروف ہیں۔ڈھائی فیصد سے زیادہ افراد اپنے چھوٹے بھائی بہنوں سے بدسلوکی کے مرتکب ہورہے ہیں۔حال ہی میں ٹیکساس میں ایک شخص کو اپنی پانچ سالہ پوتی پر مجرمانہ حملہ کرتے ہوئے گرفتارکیاگیا گیاہے۔(٧)

 

ماہنامہ ''الرشید ''کے مطابق:

 

 ١٩٩٩ء میں امریکا میں تقریبا ٩لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔عصمت دری کے اکثر واقعات ریاست کیلی فورنیا میں پیش آئے۔

 ١٥ ستمبر کو سی این این نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ امریکہ میں ہر دوسری عورت پر مجرمانہ حملہ ہوتاہے۔حالت یہ ہے کہ امریکہ کے بڑے بڑے بارونق شہروں کے پارکوں میں آئے دن صبح کے وقت نوجوان لڑکیوں کی برہنہ لاشیں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔(٨)

 شکاگو کی امریکی سی آئی اے کی رپورٹ جو تیرہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ اس تباہ کن آزادی اور حیوانوں کی سی ترقی وتہذیب نے امریکہ کے صرف خاندانوں ہی کے نظام کو خراب نہیں کیا بلکہ اس نے امریکہ میں ایسی تہذیب کی بنیاد ڈال دی ہے جس کا تدارک نہ پولیس سے ہوسکتاہے اور نہ عدالتوں سے۔

 امریکی اخبار''ہیرالڈ ٹریبیون ''اپنی اشاعت ٢٩/٦/١٩٧٩ء میں ان مباحث کا خلاصہ پیش کرتاہے جو امریکہ کے اسپیشلسٹوں نے اس گندی اورناپسندیدہ صورت حال کے بارے میں پیش کی ہیں جو مغربی معاشروں میں عمومی طور سے اور امریکی معاشرے میں خصوصی طورسے پھیل رہی ہے۔اور وہ بیماری محرمات یعنی بیٹی اور بہن کے ساتھ حرام کاری کا ارتکاب کرناہے۔

 محققین لکھتے ہیں کہ یہ بات کوئی انوکھی اور نادر نہیں رہی ہے بلکہ یہ صورت حال اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اس کی تصدیق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔چنانچہ وہاں ہردس خاندانوں میں سے ایک خاندان ایساضرور ہے جس میں اس بے حیائی کا ارتکاب کیاجاتاہے!!

 یہ صورت حال تو بہن بھائیوں اور دوسرے قریبی محرم رشتہ داروں میں ہے۔پھر بھلا آپ ہی بتائیے کہ اس وقت کیا صورت حال ہوگی جب نوجوان لڑکے اورنوجوان لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ تعلیمی یاکام کاج اور ملازمت کے میدان میں جمع ہوں گے اور ان میں نہ تو نسب کا رابطہ ہوگا اور نہ رشتہ داری کا تعلق ،توظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ان کا گناہ میں ملوث ہونا اور بے حیائی میں گرفتارہونازیادہ یقینی ہوگا!!(٩)

 مغربی قوموں کی حقیقی زندگی اوراختلاط مردوزن کاتجربہ کرنے کی وجہ سے وہ جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کے جو حقیقی اور سچے واقعات ہم نے پیش کئے ہیں یہ مشتے از خروارے اورسمندر سے چلوبھرنے کے مترادف ہیں ،اور یہ دراصل جنسی بے راہ روی اوراخلاقی کج روی اورانحراف کے اس سمندرکاایک قطرہ ہے جس میں تمام عالم کے معاشرے گرفتارہیں۔جو دراصل آزادی وبے پردگی اورگمراہی اورانحطاط کے دورمیں اختلاط کے عام ہونے کاایک دردناک وبھیانک نتیجہ ہے۔

 یادرہے کہ اہل مغرب اورمشرق والوں کے یہاں مرد وزن کاباہمی اختلاط بچوں کی ابتدائی تعلیم گاہوں اعدادی ،ثانوی اورکالج ویونیورسٹی تک برقرار رہتاہے۔بلکہ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ ان معاشروں کی تمام مشرقی زندگی کے ہر شعبے میں مکمل طور سے اختلاط موجو د اور عام ہے۔

 اب آپ ہی بتلائیے کہ اس وضاحت وتفصیل کے بعد کیاکوئی صاحب بصیرت عقل مند آج کل کے اختلاط کے دعویداروں کی اس بات کو صحیح تسلیم کرسکتاہے کہ مرد و زن کا باہمی اختلاط فطری جذبات کوٹھنڈا اور شہوت کی تیزی کو کم کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور ا س کی وجہ سے دونوں جنسوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا ،بیٹھنا اوراکٹھا ہوناایک مانوس و عام چیز بن جاتاہے۔

 علامہ زاہدی کوثری رحمۃ اللہ نے اپنے مقالات میں جو لطائف بیان کئے ہیں ان میں سے ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ:

 دولت عثمانیہ کاایک سفیر ایک مرتبہ انگریزوں کے ملک میں برطانوی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ایک محفل میں شریک ہوا۔تووہاں موجود لیڈروں میں سے ایک صاحب نے اس سے کہا:

 آپ لوگ اس پر کیوں مصر ہیں کہ مشرق کی مسلمان عورت ترقی کی دوڑ میں مرد سے پیچھے اور مردوں سے الگ تھلگ اورنور و روشنیوں سے محجوب رہے؟!!

 عثمانی حکومت کے مشیر نے ان صاحب سے فرمایا:

 اس لئے کہ مشرق کی ہماری عورتیں یہ پسند نہیں کرتیں کہ اپنے شوہروں کے علاوہ کسی اور سے بچے پیداکریں۔

 یہ بات سن کر وہ صاحب بہت شرمندہ ہوئے اور کوئی جواب نہ دے سکے ،بتلائیے اب اس کے بعد اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟

 شمالی امریکہ کے اسپتالوں میں خدمات انجام دینے والی نرسوں کی بڑی تعداد مریضوں اور ساتھی کارکنوں کی زیادتی کا شکار ہیں۔یونیورسٹی آف البرٹا کی جانب سے کئے گئے ایک بین الریاستی سروے میں انکشاف ہواکہ امریکہ اورکینیڈا کے اسپتالوں میں کام کرنے والی نرسیں دوطرفہ زیادتی کاسامناکررہی ہیں۔

 ایک طرف مرد مریضوں کی جانب سے انہیں غیراخلاقی حرکتوں کاسامنا ہے تو دوسری جانب ان کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی بھی انہیں اپنے حملوں کانشانہ بناتے ہیں ۔٩ ہزار سے زائد نرسوں پر کئے گئے سروے میں انکشاف ہواکہ مذکورہ تمام نرسیں اپنی گزشتہ ٥شفٹوں میں کم ازکم ایک مرتبہ ضرور زیادتی کا نشانہ بنائی گئیں۔ بالخصوص ایمرجنسی،میڈیکل،سرجیکل اور نفسیاتی امراض کے وارڈ میں کام کرنے والی نرسیں خطرے کی زد میں زیادہ رہتی ہیں۔یونیورسٹی آف البرٹا سے وابستہ کیتھرین ریکر کا کہنا ہے کہ اس سروے نے انہیں شدید حیرت وپریشانی میں مبتلاکردیاہے۔

 ''وہ مرد کہ وفا اور خلوص جن کے بس میں نہیں''نامی کتاب کی مصنفہ کیرول پوٹرین کہتی ہے کہ بیوی کے ساتھ دھوکہ اور بے وفائی کانتیجہ مکمل بربادی کی صورت میں نکلتاہے۔جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ،جوعورتیں اس صورتحال سے دوچار ہوتی ہیں ان کے چہروں سے بیچارگی،افسردگی،مایوسی اور بدبختی صاف جھلکتی محسوس کی جاسکتی ہے۔(١٠)

 

 شوہروں کی بیوفائی سے دلبرداشتہ خواتین نے ایک یونین ترتیب دی جس کا نام WATCH رکھاگیا ،جس کا مطلب تھا:

 

Women And Their Cheating Husbands

عورتیں اور ان کے بے ایمان ،دھوکہ باز شوہر

 

 یہ شکستہ دل خواتین مہینہ میں دوبار جمع ہوتیں اور ان کی میٹنگ ہوتی،جس میںیہ سب اپنے اپنے دھوکہ باز،بے ایمان شوہروں کے ساتھ اپنی پریشانیاں اور مشکلات سب کے سامنے رکھتیں ،ہر عورت اپنی کہانی دوسروں کو سناتی اور پھر سب باہم مشورے سے کوئی مناسب حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتیں۔

 اس طرح کی میٹنگز امریکہ کی متعدد اسٹیٹس میں ہونے لگیں،بعض عورتیں تو سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کرکے اجتماع کی جگہ پہنچنے کی کوشش کرتیں۔

 جب امریکی بیوی یہ پڑھتی ہے کہ دھوکہ باز شوہروں کی تعداد ٧٠ فیصد تک پہنچ گئی تو اسے یہ جان کر سخت صدمہ پہنچتاہے کہ اس کا اپناشوہر بھی ان میں سے ایک ہے۔

 ایسی صورتحال میں امریکی بیوی کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی کیونکہ اگروہ اپنے گھروالوں کواس صورتحال سے مطلع کرتی ہے توزیادہ تر یہی ہوتاہے کہ وہ لوگ اپنے داماد کوغصہ اورنفرت سے دیکھنے کے سوا اورکچھ نہیں کرسکتے،اوراگر وہ اپنے سسرال والوں کو کچھ بتاتی ہے تووہ زیادہ تراپنے بیٹے کا ساتھ دیتے ہیں،اوراگروہ اپنی دوستوں کوکچھ بتاتی ہے تووہ ازراہ ہمدردی اسے یہی مشورہ دیں گی کہ وہ جلد ازجلد طلاق لے لے۔۔مگر کیا طلاق لینے سے اس کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟

 

برطانیہ

 

 برطانیہ میں،''جوآن جونکلر''نامی ایک خاتون ،ظلم اور جسمانی تشدد کے خلاف ایک تحریک چلارہی ہیں،پچھلے بارہ سالوں کے دوران ،وہ گھروں یاسڑکوں پر تشدد کا نشانہ بننے والے ہزار ہاافراد کی مدد کرچکی ہیں،اور چندہ جمع کرکے تقریبا ٧٠ ہزار پونڈ کی خطیر رقم ان اداروں کو دے چکی ہےں،جو ایسے لوگوں کو پناہ دیتے ہیں،جوظلم وتشدد کاشکار بن کر ان کے پاس آتے ہیں اور دوبارہ گھرنہیں جانا چاہتے ،یہ ادارے ان کی مدد کرتے ہیں،اور ان کو ڈر اور خوف کے ماحول سے نکال کر ایک نئی زندگی شروع کرنے میں ان کا ساتھ دیتے ہیں۔

 ''ویک اینڈ'' نامی برطانوی جریدے کے مطابق ،جوآن خود تشدد کاایک شکار تھی۔(١١)

 یہ ادارے ابھی حال ہی میں قائم ہوئے ہیں ،ان میں سب سے پہلا ادارہ انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں ١٩٧١ء ؁ میں قائم ہوا،اس کے بعد اس قسم کے ادارے یکے بعد دیگرے پورے برطانیہ میں پھیل گئے یہاں تک کہ آج ان کی تعداد ڈیڑھ سوتک پہنچ گئی ہے۔

 اسی مسئلہ سے متعلق ایک انگریزی میگزین نے چند خواتین کا انٹرویو لیا،جس سے یہ بات سامنے آئی کہ انٹرویو میں شریک خواتین میں ١٠ فیصد خواتین ایسی ہیں جو اپنے شوہروں کے ہاتھوں بے تحاشہ مارکھاتی ہیں اور ٧٠ فیصد ان میں ایسی ہیں جو اپنی ازدواجی زندگی بھرپور ذلت اوراہانت آمیز رویہ کے ساتھ گذاررہی ہیں۔

 کانفرنس میں ایک نہایت دردناک کیس کامطالعہ کیاگیا جو ایک چالیس سالہ شخص سے متعلق تھا جواپنی بیوی کوایک بہت موٹے ڈنڈے سے مارتاتھا اور اس نے اس ڈنڈے پر یہ عبارت کندہ کررکھی تھی:

 

''جو اپنے شوہر کی اطاعت نہیںکرتی وہ سزا کی مستحق ہے''(١٢)

 

 برطانیہ میں کئے گئے ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہورہاہے۔

 ایک اور سروے میں شریک ہونے والی سات ہزار عورتوں میں سے ٤٨ فیصد کا کہنا یہ تھا کہ وہ آئے دن اپنے شوہروں اور بوائے فرینڈ کے تشدد کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔

 ایک برطانوی رپورٹ کے مطابق ٧٧فیصد مارپیٹ کے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں شوہر حضرات اپنی بیویوں کوبنا کسی معقول وجہ کے مارتے ہیں۔

 اسی رپورٹ کے مطابق ایک عورت نے بیان دیا کہ اس کی شادی کو ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں اور وہ تقریبا ہرروز اپنے شوہرکے ہاتھوں پٹتی ہے۔وہ کہتی ہے کہ اگرمیں کسی قسم کا احتجاج کرتی ہوں تووہ مجھے پھرمارتاہے،لہذا مجھے خاموشی میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔۔۔اور وہ مجھے مارنے کے لئے مختلف طریقے آزماتاہے ۔کبھی طمانچے ،توکبھی لاتیں اور گھونسے اور کبھی میراسردیوار میں دے مارتاہے۔

 اسی رپورٹ میں ایک اور عورت کا ذکر ہے جس کے شوہر نے اس کی کنپٹی پر اتنی زور سے دے مارا کہ اس کے کان کا پردہ پھٹ گیا۔

 اپنی بیوی کو مارتے وقت شوہر یہ کبھی نہیں سوچتاکہ اس کے گھونسے اور لاتیں ،بیوی کے جسم کے کن حصوں کو متاثر کررہی ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی بیوی حاملہ ہو،اور پیٹ پر پڑنے والی کوئی لات یا گھونسہ اس کی اور اس کے بچے کی زندگی خطرے میں ڈال دے ، اس قسم کے کئی واقعات حقیقتاً پیش آچکے ہیں۔

 اس طرح تشدد کے نتیجے میں کئی عورتو ںکی پسلیاں ٹوٹ چکی ہیں،بعض مرد تواتنے جنونی ہوتے ہیں کہ وہ مارپیٹ کے دوران اپنی بیوی کی گردن پکڑکر اس پر اتنادباؤ ڈالتے ہیں کہ اس کا دم گھٹ جاتا ہے،اوربعض اپنی بیوی کے جسم کو سگریٹ سے داغتے ہیں اور مزہ لیتے ہیں،کچھ لوگ اپنی بیویوں کو زنجیروں سے جکڑکرکمرے میں بند کردیتے ہیں۔(١٣)

 الحمدللہ یورپ اورامریکہ میں ایک آدھ استثنا کے علاوہ اسکارف وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی حجاب پر کوئی پابندی ہے طالبات کو اسکارف پہننے کی اجازت ہے۔خواتین بھی حجاب پہن کر بازاروں میں جاتی ہیں۔کوئی اعتراض نہیں کرتا۔

 

کینیڈا

 

 کینیڈا میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ کینیڈین ایسے ہیں،جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں ،اورملک کے اجتماعی اور ثقافتی مراکز ان واقعات کو اپنے ملک کے لئے بدنما داغ گردانتے ہیں۔

 مانٹریال میں،عورتوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کے لئے ایک خصوصی ادارہ قائم کیا گیا جس نے جلد بھڑکنے والے غصیلے مردوں کو ایک ٹیلیفون لائن مہیاکی،جس پر وہ چوبیس گھنٹوں میں جس وقت چاہےں بات کرکے اپنا غصہ اور دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں،کہ شاید اس طرح انہیں اپنی بیویوں کو مارنے سے باز رکھا جاسکے۔(١٤)

 ٹائم نامی ایک امریکی میگزین نے ایک رپورٹ شائع کی ،جس میں لکھا تھا کہ تشدد کا نشانہ بننے والی ساٹھ لاکھ خواتین میں سے تقریبا چارہزار ایسی ہوتی ہیں جو اس تشدد کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔

 ایک تحقیقاتی ادارے کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق،تقریبا چالیس فیصد قتل کے واقعات ایسے ہوتے ہیں ،جس میں بیویاں اپنے شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔

 اس تحقیقاتی ادارے نے ،ایک سروے کاذکر کیا ،جو امریکہ کے ایک مشہور ہسپتال میں پورے چارسال تک کیاجاتارہا،جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی،کہ ٢٥ فیصد خودکشی کی کوششیں ان عورتوں کی تھیں،جو اپنے شوہروں کے ہاتھوں مارکھاتی تھیں،یعنی کہ ان کو اپنے شوہروں کے ظلم و ستم سے بچنے کا بس ایک یہی راستہ نظرآتاتھا....خودکشی۔(١٥)

 

جرمنی

 

 ایک جرمنی رپورٹ کے مطابق: تقریبا ایک لاکھ عورتیں، اپنے شوہروںاور بوائے فرینڈز کی جسمانی اورنفسیاتی ،اذیت رسانی کا شکاربنتی ہیں،ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔

 اسی رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس تشدد کی بہت سی وجوہات ہیں،جس میں ،بے روزگاری،خطیر رقوم کے قرضے ،منشیات کی عادت، اور شک اور جیلسی کے جذبات شامل ہیں۔

 

فرانس

 

 فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں ،تقریبا بیس لاکھ عورتیں مارپیٹ اور تشدد کا نشانہ بنتی ہیں،جس کے بارے میں فرانسیسی پولیس کاکہنا ہے کہ یہ واقعات فرانس کے ،تقریبا ١٠ فیصد خاندانوں میں پیش آتے ہیں۔

 حقوق نسواں کے تحفظ کی علمبردار فرانسیسی خاتون میشل آندرے کا کہنا ہے کہ:یہاں پر جانوروں کے ساتھ ان عورتوں سے زیادہ اچھا برتاؤ ہوتا ہے ،کیونکہ مثال کے طور پر یہاں اگر کسی آدمی نے سڑک پر کسی کتے کی پٹائی کردی اور اسے مارا توکوئی نہ کوئی شخص ضرور اس معاملے سے متعلق ذمہ دار افسر کے پاس شکایت لے کر پہنچ جاتاہے ،جب کہ برخلاف اس کے ،اگر سڑک پر کوئی آدمی اپنی بیوی کومارتا نظرآجائے توکوئی نظراٹھاکر دیکھنے تک کی زحمت نہیں کرتا،کوئی کاروائی کرناتودور کی بات ہے۔

 فرانس پریس کو بیان دیتے ہوئے میشل کہتی ہے: یہ بات سب کو سمجھانی چاہئے کہ اس معاملے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ،بلکہ اسے عدالت تک پہنچانا چاہئے۔

 ایک فرانسیسی جریدے نے وہاں کی پولیس سے انٹرویو کرنے کے بعد ایک رپورٹ شائع کی ،جس کے مطابق ٧.٩٣ فیصد مارپیٹ اور تشدد کے واقعات جو میاں بیوی کے درمیان رونما ہوتے ہیں وہ شہروں میں ہوتے ہیں،اور پولیس کے پاس رات کے وقت آنے والے ٦٠ فیصد فون ان عورتوں کے ہوتے ہیں ،جو اپنے شوہروں کی زیادتی سے تنگ آکر ان سے مدد طلب کرتی ہیں۔(١٦)

 ادارہ حقوق نسواں کے ایک اور بیان کے مطابق ،عورتوں کو دو طرح سے اذیت کا نشانہ بنایا جاتاہے،ایک توذہنی اذیت ،جو دھمکیوں،گالیوں اورتذلیل وتحقیر کے ذریعے انہیں پہنچائی جاتی ہے،دوسری جسمانی اذیت ،جو مارپیٹ کے ذریعہ دی جاتی ہے۔

 تشدد کی شکار عورتوں کی مدد کے لئے تشکیل دی جانے والی ایک تنظیم کے بقول :

 ان کے پاس آنے والی خواتین کی عمریں پچیس اور پینتیس کے درمیان ہوتی ہیں،ان میں سے ہر ایک کے پاس کم سے کم دوبچے ہوتے ہیں تعلیم ان کی بس واجبی سی ہوتی ہے،اور وہ زیادہ تر اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں سے دوررہتی ہیں،اور ان پر ہونے والے تشدد کی جو وجوہات سامنے آئی ہیں ،وہ ہیں :

 بیماری،بے روزگاری یا منشیات کا عادی ہونا،جب کہ بہت سی عورتیں ایسی بھی ہیں،جو خوف اور بزدلی کی وجہ سے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتانا چاہتیں۔(١٧)

 ١٩ دسمبر ١٩٩٣ کے روزنامہ نوائے وقت میں دو ایک کالمی سرخی نظروں سے گزری اور پھر اس پر نظریں جم گئیں۔مین سرخی یہ تھی کہ :

 

''فرانسیسی اسکول سے چارمسلمان طالبات کو بالآخر نکال دیا گیا''

 

اور پھر دوسری سرخی یہ تھی کہ

 

''طالبات نے پڑھائی کے دوران سروں سے اسکارف اتارنے سے انکار کردیاتھا''۔

 

 خبر کی تفصیل پڑھی معلوم ہواکہ کولون کے فرانسیسی اسکول کی انتظامیہ نے چار مسلمان لڑکیوں کو ایک طویل متنازعہ بحث کے بعد اسکول سے نکال دیا۔ان بچیوں کاقصور یہ تھا کہ انہوں نے کلاس کے اندردوران تدریس سروں پر لئے ہوئے اسلامی طرز کے اسکارف اتارنے سے انکارکردیاتھا۔

 یہ مسئلہ اکتوبر کے مہینے اٹھایاگیا،اسکول کے اساتذہ نے مسلمان بچیوں کے اس رویے پر ہڑتال بھی کی،بعد میں مسلمان بچیوں کی کلاسوں میں شرکت پر پابندی لگادی گئی تاکہ انہیں اسی بات پر آمادہ کیا جاسکے کہ وہ دوران تدریس اپنے سروں سے متنازعہ اسکار ف اتاردیاکریں،تاہم مسلم طالبات اس پر آمادہ نہ ہوئیں پھر انتظامیہ نے حتمی فیصلے تک انہیں مہلت دی۔اس دوران کلاس میں ان کا داخلہ ممنوع کردیاگیا۔(١٨)

 جرمنی کی ایک نوجوان مسلم طالبہ نے اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھکے ہوئے سر اور چہرے کے ساتھ شناختی کارڈ کا مقدمہ جیت لیا ہے۔لندن میونسپلٹی کے محکمہ مردم شماری نے اس نوجوان طالبہ سے اصرار کیا تھا کہ وہ شناختی کارڈ کے لئے ایسی تصویر پیش کرے جس میں اس کا سر اور چہرہ واضح اورکھلا ہوانظرآئے۔

 جج''نے کارل ہینز کیر'' نے مقدمے کافیصلہ سناتے ہوئے اس بات کی توثیق کی کہ ایک مسلمان عورت کو اپنا سر اور چہرہ ڈھانپے رکھنے کااتناہی حق حاصل ہے جتنا عیسائی راہباؤں کو۔جج نے اس بات کوتسلیم کیا کہ مغربی جرمنی کا جمہوری آئین بھی ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کومذہبی آزادی کے حق کی ضمانت دیتاہے۔(١٩)

 

ملائیشیا

 

 ملائیشیا میں ٣٠ اپریل کو اس وقت زبردست مظاہرے شروع ہوگئے جب سٹیٹ یونیورسٹی میں اسکارف پہننے والی طالبات کو امتحان دینے کی اجازت نہ دی گئی۔سینکڑوں طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سینکڑوں کو امتحان دینے سے روک دیاگیا۔

 ٢٢ مئی ١٩٩٨ ء کو حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والے ٣٤ طلباء کو گرفتار کیاگیا تھا۔ان میں چار طالبات تھیں۔ان میں سے ایک فیلیز بیاض کو ٢٣ جولائی کورہاکردیا گیا۔مگر ترک سیکرٹ سروس نے ٢٩ جولائی کو آدھی رات کے بعد اسے اس کی ایک سہیلی سمیت گرفتار کرکے روڈ ایکسیڈنٹ میںماردیا۔

 گزشتہ سال ستمبر میں جب نیاتعلیمی سیمسٹر شروع ہوا توتمام اہم تعلیمی اداروں کی طرف سے ایک سرکلر کے ذریعے طالبات سے کہاگیا کہ تم اپناتعلیمی حق صرف اسی صورت میں استعمال کرسکتی ہوکہ تم اسکارف نہ پہنو۔

 اس مہم کے نتیجے میں تقریبا ایک لاکھ طالبات کو تعلیمی حق سے محروم کردیاگیا اس کے خلاف ١١ اکتوبر ١٩٩٨ئ؁ کو پورے ملک میں ہزاروں اسٹوڈنٹس نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مظاہرہ کیا کہ ''ہم اپنا تعلیمی حق واپس چاہتے ہیں عقیدے کا احترام کرو،سوچ کو آزاد کرو''۔(٢٠)

 

چین

 

 چین کے ایک روزنامے''لیبرز'' نے ایک سرکاری افسر کی پھانسی کی خبر شائع کی،جس پر الزام تھا کہ وہ کئی لڑکیوں کی آبروریزی کرچکاہے،اور اپنی بیوی کو سگریٹ ،کرنٹ ،سوٹیوں اور بیلٹ کے ذریعہ اذیت دیا کرتا تھا۔

 ''چان منگ''نامی ایک اخبار نے ایک خط شائع کیا ،جو ایک ڈاکٹر چای چانگیو نگ نے لکھاتھا،جس میں اس نے بتایا کہ اس کے شوہر نے کس طرح اس کے چہرہ ،معدے اور ہاتھ پیروں کو تشدد کا نشانہ بنایا،کیونکہ وہ اسے طلاق دینے پر تیار نہیں تھی،وہ اپنی خطرناک چوٹوں کے علاج کے لئے ہسپتال میں داخل ہوئی تو اس کی ساس نے اسے وہاں سے بھی نکلوانے کی کوشش کی،اتنا سب کچھ ہوا مگر اس کے شوہر کو کسی قسم کی سزا نہیں ملی۔

 ایک دوسرے واقعے میں،ایک آدمی نے لڑئی کے دوران اپنی بیوی کا ہاتھ توڑدیا توڈرکے مارے گھر میں نہیں رہی اور مسلسل کئی راتیں مرغی خانے میں چھپ کرگزاریں۔

 ''خواتین ''نامی ایک چینی میگزین کو ایک عورت نے خط لکھا،جس میں اس نے اپنے شوہر اور سسرال کی بدسلوکی کی شکایت لکھی تھی،اس کے سسرال والے اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے،اس نے لکھا کہ اس نے اپنے ساس سسر کو دس ڈالر دینے سے انکار کردیا تھا،جس پر اس کے شوہر نے اسے نہایت بے دردی سے ماراپیٹا۔

 چین میں ایسے ادارے نہیں ہیں،جو اپنے شوہروں کے ہاتھوں ستائی ہوئی عورتوں کو پناہ دیں،اسی لئے ایسی عورتیں ،کسی قریبی امدادی سینٹر یا اتحاد خواتین کی کسی بھی برانچ ،یاکبھی کبھی عدالتوں تک جاپہنچتی ہیں۔

 مگر عام طور پر، چینی عورتیں اپنے شوہروں سے بہت ڈرتی ہیں ۔۔اور انہیں کسی سے مدد طلب کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔(٢١)

 

ترکی وایران

 

 محترمہ مروہ صفاکو اکچی انتخابات میں استنبول شہر سے فضیلت پارٹی کے پلیٹ فارم سے خاتون رکن منتخب ہوئی ہیں۔ بظاہر شرمیلی مگراندر سے آہنی اعصاب کی مالک خاتون ہیں۔ جب وہ اسمبلی ہال میں حلف اٹھانے کے لئے آئیں تو حسب معمول ہیڈ اسکارف پہنے ہوئے تھیں۔سینکڑوں سیکولرسٹوں کے فلک شگاف نعروں کے شور میں وہ ایک مجاہدہ کی طرح چلتی ہوئی ہال میں داخل ہوئیں۔نعرے باز چیخ رہے تھے''باہر جاؤ'' مگر مروہ صفا کواکچی خاموشی اور وقار کے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھ گئیں۔

 مروہ صفاکواکچی حافظہ قرآن اور کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں وہ کالعدم رفاہ پارٹی کے وومن کمیشن کی سربراہ بھی تھیں۔انقرہ یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم کے مروہ پر دروازے اس لئے بند کردئیے گئے کہ وہ اسکارف پہنتی تھیں وہ اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلی گئیں اور وہاں کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

 ٣١ سالہ مروہ صفا شادی شدہ اور دو بچیوں کی ماں ہے ۔اس نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ اس کا پارلیمنٹ میں سر پر اسکارف پہننا ڈیموکریسی کاامتحان ہے۔اکیسویں صدی میں انہیں ہمیں یہ آزادی دیناہوگی۔میں نے اسکارف اپنے ایمان وعقیدے کی بنیاد پر پہناہے اور میں اپنے حق کے لئے آخری دم تک لڑوں گی۔

 چیف پراسیکیوٹر ''اورال سواس'' نے فضیلت پارٹی کو خونخوار چڑیل قراردیااورمروہ کواکچی کاکردوں کے خود کش بمبرز سے موازنہ کیا اس کا کہنا ہے کہ وہ پورے سسٹم کوختم کرناچاہتی ہےں۔

 حجاب پر پابندی کے باوجود ٧٥ فیصد خواتین حجاب پہنتی ہیں اسکارف کے مسئلے پر اندرون ملک اور بیرون ملک زبردست احتجاج ہواہے ۔ ایران میں سینکڑوں خواتین نے احتجاج کیا ایرانی خواتین مروہ صفا کی تصاویر اٹھائے ہوئے تھیں اور پوسٹروں پر ترکی کی فوج کے اسکارف مخالف رویئے کی مذمت کی گئی تھی۔

 ایران کے ہیومن رائٹس کمیشن نے ترک عوام کے مذہبی عقائد پر حملہ کرنے پر معافی مانگنے کامطالبہ کیا۔اردن اورمراکش میں بھی خواتین نے اسکارف پہننے والی ترک خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جلوس نکالے۔

 اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی خواتین نے بھی دس مئی کو Manhattan کے قونصلیٹ کے سامنے مظاہرہ کیا۔ خواتین نے مختلف سلوگنز والے پلے کارڈ اٹھارکھے تھے اور نعرے لگارہی تھیں''ترک حکومت شرم کرے ہم مروہ کواکچی کی حمایت کرتی ہیں، ترکی میں خواتین اور مردوں کوآزادی دیں، اے ترک مسلمانو! ظالم حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو''وغیرہ وغیرہ''۔

مظاہرین نے ترک قونصلیٹ جنرل کو یادداشت پیش کرنا چاہی تو اس نے وصول کرنے سے انکار کردیا۔ترک سیکولر قوتیں جنہیں یورپ کی ہر اداپسند ہے اسکارف کے مسئلے پر ان کا رویہ یورپ کے برعکس ہے۔

 یورپ وامریکہ میں ایک آدھ استثنیٰ کے علاوہ سکارف کا کوئی مسئلہ نہیں طالبات کو اسکارف پہننے کی اجازت ہے۔خواتین بھی حجاب پہن کر بازاروں میں جاتی ہیں کسی کو اعتراض نہیں۔فرانس اور جرمنی میں ایک آدھ تعلیمی ادارے اور دفترمیں حجاب کا مسئلہ پیداہواتووہاں کی عدالتوں نے اسے مسلمان خواتین کا بنیادی حق تسلیم کیا مگر ترک جرنیل اس حق کو تسلیم کرنے کو تیارنظرنہ آئے۔

 فضیلت پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین عبداللہ گل نے اسکارف کے خلاف مہم کو کردارکشی کی بے رحم مہم قرار دیا۔

 مروہ کواکچی نے بتایا ہے کہ اسے دن رات مسلسل فون آرہے ہیں اور عوام اسکارف کی حمایت کررہے ہیں۔

 یہ ہے عہد حاضر کے حوالے سے ترکی و ایران میں حجاب و آزادی نسواں کی کیفیت جو کہ آپ نے مندرجہ بالا سطور میں ملاحظہ کی۔آئندہ سطورمیں تحقیق نگار ہندوستان وپاکستان کے حوالے سے حجاب و آزادی نسواں کی کیفیت رقم کرے گی۔

 

ہندوستان

 

 ہندوستان کے حوالے سے تفصیلی بحث تحقیق نگار اپنے مقالہ ہٰذا کے باب اول میں رقم کرچکی ہے اس لئے اس مقام پر اختصاراً ذکر ہے کہ جب ہم ہندوستانی قدیم معاشرے پر گفتگوکریں تو ہمیں ملے گا کہ ''تشریعات مانو''میں ہے کہ '' عورت ہی 'عار کی جائے صدور ہے' جھاد میں تکلیف کی جائے صدور بھی عورت ہے''۔دنیاوی وجود کی وجہ بھی عورت ہے۔اس لئے عورت سے ہمیشہ ہوشیار رہو،اس لئے کہ عورت زندگی کے راستے سے محض کسی احمق ہی کو گمراہ نہیں کرتی بلکہ وہ دانا شخص کو بھی گمراہ کرنے پر قادر ہے۔(٢٢)

 ان کی مقدس کتابوں میں ہے کہ جب عورت کو پیداکیاگیا تو ان پر بستر،بیٹھک ،بناؤ سنگھار،خواہشات،برائی،غصہ،عزت سے بیگانگی اور برے سلوک کی محبت ان میں ڈال دی گئی اور فرض کردی گئی۔اس لئے عورتیں اپنے نفس کی طرح گندی ہیں اور یہ ثابت اصول ہے کہ عورت کی یہ طبیعت ہے کہ وہ دنیاوی زندگی میں مرد کو گمراہ کرتی ہے اس لئے حکماء عورتوں سے مل بیٹھنے کو درست نہیں سمجھتے سوائے یہ کہ وہ انتہائی شریف پاکدامن ہویا شدید حفاظت کے ساتھ بیٹھے اور عورت ہمیشہ نیک نہیں رہتی۔(٢٣)

 ''قصۃ الحضارۃ'' نامی کتاب میں لکھا ہے کہ قدیم ہندوتہذیب میں بیٹی اپنے باپ کی ملکیت ہوتی تھی اور وہ اس سے من چاہا تصرف کرنے میں آزاد تھا' جب عورت کی شادی ہوجاتی تو وہ اپنے شوہر کی زندگی میں اس کی غلام بنی رہتی ' جب شوہر بے اولاد مرجاتاتویہ اپنے شوہر کے رشتہ داروں کی ملکیت ہوجاتی تھی۔(٢٤)

 ''قصۃ الحضارۃ'' میں لکھا ہے کہ جب عورت کی شادی ہوجاتی تو اس پر لازم تھاکہ وہ شوہر کی خدمت کے لئے ہروقت تیار رہے'اس بارے میں مانولکھتاہے کہ:

 وفادار بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اس طرح خدمت کرے جیسے وہ کوئی خدا ہے اور تکلیف دہ بات یا کام نہ کرے اور شوہر جیسابھی ہو حتی کہ اچھی باتوں سے بالکل خالی ہو۔

 یعنی ہندوستانی عورت ایسی بیوی ہوتی ہے جسے اپنے اموال ،اپنی املاک وغیرہ میں کسی قسم کے تصرف کا حق حاصل نہیں،بلکہ وہ خود اور اس کی تمام اشیاء اس کے شوہر کے تصرف میں ہوتی ہیں۔

 اس سے بھی عجیب بات لکھتے ہوئے مصنف ''قصۃ الحضارۃ'' لکھتے ہیں کہ جب ہندوستانی عورت کا شوہرمرجاتاہے تو اس کی زندگی اور حال اور بھی برا ہوجاتاہے کیونکہ اسے اپنے شوہر کے ساتھ جل کرمرجانے (ستی ہونے)کاحکم دیاجاتاہے یہ مضمون ان کی دینی کتاب میں اس طرح سے ملتاہے کہ:

 

بیوہ ہونے والی عورت کے لئے اچھا یہ ہے کہ وہ اس ایندھن پرخود کوڈال دے جو اس کے شوہر کی چتا(میت)جلانے کے لئے رکھاگیا ہے جب لوگ اس کے شوہر کی میت کولکڑیوں کے ڈھیر پر رکھ دیں تو یہ کپڑوں (چادر برقع وغیرہ)میں لپٹی آئے گی اور پنڈت اس کا برقع اتارے گا،اس کے زیور سنگھار کی چیزیں اتار کر اس کے رشتہ داروں کے حوالے کردے گا پھر چٹیا کھولے گا۔پھربڑاپنڈت آکر اس کا دایاں ہاتھ پکڑکر اسے ایندھن کے گرد تین چکرلگوائے گا پھراسے ایندھن کے ڈھیرپرڈال دے گا پھر یہ عورت اپنے شوہر کے پاؤں اپن ٹھوڑی تک اٹھائے گی یہ اس کی شوہر کے لئے تابعداری کااشارہ ہے ۔پھر یہ گھوم کر شوہر کے سرہانے بیٹھ جائے گی اور اپنادایاں ہاتھ اس پر رکھ دے گی اور پھر لوگ آگ بھڑکادیں گے اور اسے شوہر کے ساتھ جلادیں گے۔(٢٥)

 

 ستی ہوجانے والی عورت کی بابت وہ یہ گمان کرتے تھے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نعمتوں کی جگہ پہنچ گئی،پھر وہ اس کے ساتھ آسمان میں پینتیس سال رہے گی یہ عدد جسم میں موجود بالوں کا ہے۔

 ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس عورت کے جلنے سے اس کی ماں کا خاندان ،باپ کا خاندان اور شوہر کا خاندان بخش دیاجاتاہے اسی طرح اس کا شوہر سارے گناہوں سے پاک ہوجاتاہے چاہے اس نے اپنے دوست،بھائی یاکسی برہمن اور پنڈت کو قتل کیاہو۔جلنے والی عورت سب عورتوں سے زیادہ پاک اور معزز نام والی سمجھی جاتی ہے اور اس کی اچھی شہرت ہوتی ہے۔ان لوگوں میں یہ عادت بڑی مشہور ہے اور موجودہ ادوار تک بھی یہ عادت چلی آرہی ہے۔١٨١٥ئ؁ سے لیکر ١٨٢٥ئ؁ تک دس سال میں انہوں نے چھ ہزار عورتوں کو اس طرح ستی کردیاتھا۔(٢٦)

 اس کے علاوہ بیسویں صدی کے اواخر میں بھی دوبارہ ''ستی کی تحریک ''چلائی گئی اور چند عورتوں کو زبردستی ستی ہونے پر مجبور کیاگیا جس کی عام لوگوں نے بڑی مذمت کی تھی مگر مذہبی جنونی ہندؤوں کی تنظیموں نے اسے اپنامذہبی حق قرار دیا۔(مترجم)

 

 عمررضاکحالہ لکھتے ہیں کہ شوہر کے انتقال کے بعد عورت کا یہ حال ہوتا ہے کہ:

 

بیوہ عورت وہاں ہمیشہ کے لئے نفرت آمیز اور دھتکاری ہوئی بن جاتی ہے لوگ اس کی طرف نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کی ذلت ورسوائی کا یہ عالم ہوتاہے کہ اسے دن بھر میں معمولی ساکھانا دیتے ہیں(روٹی کاایک ٹکڑا)وہ نئی قمیص نہیں پہن سکتی ،چٹائی پر سوتی ہے،سارے مشکل اور بڑے کام اس کے ذمے تھوپ دیئے جاتے ہیں اور کبھی مبالغہ کے طور پر اسے گنجاکردیاجاتا ہے تاکہ بیوہ ہونے کی نشانی رہے۔(٢٧)

 

 ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان بیواؤں میں پندرہ ہزار کے قریب معصوم بچیاں اور چار لاکھ کے قریب نوجوان لڑکیاں ہیںجن کی عمریں پندرہ سال سے زائد نہیں۔(٢٨)

 اس کے باوجود ہندوستان میں بھی الحمدللہ حجاب پر کچھ مسائل نہیں ہیں۔خواتین اپنی مرضی کے مطابق حجاب استعمال کرتی ہیں۔ان پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔نہ مذہبی طورپر اور نہ قانونی طورپر۔بلکہ خود ہندومذہب بھی حجاب کا داعی اور رائج کنندہ ہے ۔اس بابت تفصیلی بحث تحقیق نگار کے مقالہ ہٰذا ہی کے باب اول میں ملاحظہ کریں۔

 

پاکستان

 

 پاکستان میں کوئی ایساقانون موجودنہیں جوعورتوں کے باہر آنے جانے پر پابندی لگاتاہو۔شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے یا دوسرے ممالک میں نوکری کرنے پر عورتوں کے لئے کوئی پابندی نہیں۔پاکستان کے آئین کے بنیادی حقوق کے تحت پاکستانی عورتوں اور مردوں کو نقل وحرکت کی مکمل آزادی ہے۔عوامی جگہوں پر بلاروک ٹوک جانے کی آزادی ہے۔(٢٩)کاروبارتجارت اور ملازمت کرنے کے لئے آزادی ہے۔

 

رسم ورواج

 

 اگرچہ رسم ورواج کے تحت پاکستانی عورت کو نقل وحرکت کی آزادی ہے اور پنجاب، سندھ،سرحد اور بلوچستان کی عورتیں کسی نگران کے ساتھ سفر بھی کرسکتیں ہیں تاہم دیر،سوات اور کچھ پٹھان گھرانوں میں عورتوں کی آمدورفت پر پابندی ہے۔ کوہاٹ،بنوںمردان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آمدورفت پر عورتوں پر کوئی پابندی نہیں۔(٣٠) لیکن انہیں رسمی پردہ کی پابندی کرناپڑتی ہے۔عموما شٹل کاک والا برقعہ اڑھایا جاتاہے جس کی وجہ سے عورتیں بازاروں اور رش میں آسانی سے نہیں چل سکتیں۔

 سندھ (٣١)میں بہت سے خاندانوں میں قریب ترین رشتہ دارسے بھی عورت کو پردہ کرایاجاتاہے ۔سماجی تقریبوں میں مرد اور عورتیں الگ الگ بیٹھتے اور کھاناکھاتے ہیں ۔

 

قبائلی سربراہ اور عورت:

 

 قبائلی خان،بلوچی سردار اور سندھی وڈیروں کی عورتوں(٣٢)پر سخت ترین پابندیاں عائد ہوتی ہیں ۔ان کی آمدورفت آزادانہ ماحول میں نہیں ہوتی۔

 پاکستان میں مخلوط ذریعہ تعلیم کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں عورتوں کے کام کرنے پر کوئی کوئی پابندی نہیں رسم ورواج کے تحت بھی عورتوں کے کام کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن کوئی بھی عورت اپنے شوہر ،باپ یا بھائی کی اجازت اور ان کی مرضی کے بغیر کہیں ملازمت نہیں کرسکتی۔عورت کی ملازمت یامزدوری سے جو آمدنی ہوتی ہے اس پر مرد حضرات اپنا حق سمجھتے ہیںاور عورتوں کی کمائی ہوئی تمام دولت پرمرد قبضہ کرلیتے ہیں اس طرح دیہاتی عورت استحصال کا شکارہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف پنجاب میں ٢٤٥٥ اینٹوں کے بھٹوں پر٤٥ فیصد عورتیں کام کرتیں ہیں۔(٣٣)

 دیہاتوں میں جہاں ٨٠ فیصد لوگ آباد ہیں وہاں کھیتی باڑی پر ٨٣ فیصد عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔پتھرکی کانوں میں مردوں کے مقابلے میں ١٦ فیصد عورتیں مزدوری کرتیں ہیں۔

 

رسمی پردہ:

 

 پاکستان کے جن گھرانوں میں خوشحالی ہے وہاں عورت کو رسمی پردے کا پابند بناکررکھاجاتاہے اورجہاں غربت ہے وہاں رسمی پردے کی قید ختم کرکے اسے کمائی کا ذریعہ بنادیاجاتاہے۔ان دونوں حالتوں میں مرد حضرات عورت کا استحصال کرتے ہیں۔

 

تحریک پاکستان اور پردہ:

 

 تحریک پاکستان کے حوالے سے جن خواتین نے حصول آزادی کے لئے جدجہد کی ان کے اسمائے گرامی ہیں۔(٣٤)

 

''بی اماں،بیگم محمد علی جوہر،محترمہ فاطمہ جناح،بیگم جہاں آراء شاہنواز،لیڈی نصرت عبداللہ ہارون،بیگم رعنا لیاقت علی خان،بیگم اقبال حسین ملک،انجم آراء بیگم،راحیل خاتون شیروانی،بیگم قیصرہ انور علی،بیگم محمد وسیم،حسن آراء بیگم،بیگم نواب اسماعیل،بیگم خورشید عبدالحفیظ، بیگم عفت الہی علوی،بیگم زاہد قریشی،لیڈی ہدایت اللہ،بیگم رضاء اللہ ،ذکیہ بیگم نقوی، بیگم پاشا صوفی،اور نورالصباح بیگم وغیرہ مشہورہیں''۔

 

 یہ تمام خواتین ہم سب کے لئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے واجب الاحترام ہیں۔یہ سب عورتیں کھلے چہرے اور کھلے ہاتھوں کے ساتھ عام جلسوں میں جاتیں تھیں،تقریریں کرتی تھیں اور سیاسی معاملات میں مردوں سے ملاقاتیں بھی کرتیں تھیں،محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن میں حصہ لیا توتمام اسلامی جماعتوں نے ان کاساتھ دیا۔محترمہ عام لباس میں ہوتی تھیں اور کسی بھی عالم نے آپ پر بے پردہ ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا۔

 

پردہ کے بارے میں ایک تجزیہ:

 

 مندرجہ بالا سطور میں آپ نے عہد حاضر کے حوالے سے حجاب اور آزادی نسواںکی کیفیت پربحث ملاحظہ کی جس میں تحقیق نگار نے عہد حاضر کے مختلف ممالک کے معاشروں میں حجاب کے حوالے سے تحقیق پیش کی ہے۔امید ہے کہ بحسن وخوبی یہ بحث واضح اور مترشح ہوچکی ہوگی۔

 اسلام بحیثیت فطری اور اعتدال پسند دین ہونے کی وجہ سے غیر فطری اصولوں کی طرف داری یا پاسداری نہیں کرتا۔اسلام عورتوں کوفرنگی تہذیب کے شتر بے مہار کی طرح چھوڑدیتا ہے اور نہ ہی ان کو کسی چار دیواری میں اس طرح قید کرنا چاہتاہے کہ وہ معاشرے کا ایک بیکار عنصر بن جائیں۔

 امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک حدیث میں بیان ہے کہ

 

'' جن باتوں کا خدانے تمہیں حکم دیا ہے انہیں بجالاؤ اور خواہ مخواہ اپنی طرف سے تشدد و سختی پیدانہ کرو''۔ (٣٥)

 

 دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں ان میں مفسر ،محدث،مجتہد اور عالم دین بھی موجود ہیں لیکن ہر جگہ پردہ کی وہ تشریح نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس طرح کا عمل درآمد ہوتاہے جس طرح کاپاکستانی علمائے کرام پاکستانی خواتین کے لئے تجویز کرتے ہیں۔ایک ہی قرآن اور ایک ہی حدیث پر عمل کرنے والے اتنے مختلف کیوں ہیں۔مولاناسلیمان ندوی اپنے سفرنامہ افغانستان میں لکھتے ہیں کہ:

 

''درہ خیبر کے شروع سے لے کر یہاں تک دیہاتی پٹھان خواتین سرسے پاؤں تک سیاہ کپڑوں میں مستورکھلے منہ بڑی آزادی سے آجارہی تھیں۔بدن پر گھٹنوں تک سیاہ کرتے ،بڑے گھیر کی عموما سیاہ شلواریں،سر سے پاؤں تک سیاہ چادریں،ہر قسم کے زیور اور ظاہری آرائش سے تما م تر پاک،ان کو دیکھ کر خیال ہوتا تھا کہ شاید اصل سادہ اسلامی پردہ یہی ہوگا''۔(٣٦)

 

 

 

 

 

 

باب ششم

 

مصادر ومراجع

 

(١) محمد انور بن اختر، پردہ اور جدید ریسرچ، ادارہ اشاعت اسلام،٢٠٠٧،ص ٢٦٨ تا ٢٧٠

(٢) Annie Besant. The Life and Teaching of Mohammad, Madras, 1932, p3.

(٣) محمد انور بن اختر، پردہ اور جدید ریسرچ، ادارہ اشاعت اسلام،٢٠٠٧،ص ٢٦٨ تا ٢٧٠

(٤) (النور ،کویتی میگزین ،شمارہ نمبر ٥٦)

(٥) انسانیت کی تعمیر نو اور اسلام ،ص٥٢،٥٣)

(٦) ''القبس '' جریدہ،١٥/٢/١٩٨٨ئ

(٧) ہفت روزہ تکبیر،٧ ستمبر ١٩٨٤ئ

(٨) ماہنامہ الرشید،لاہور،دسمبر١٩٩١ئ

(٩) ''ہیرالڈ ٹریبیون '' ٢٩/٦/١٩٧٩ئ

(١٠) الرای العام، جریدہ،شمارہ نمبر٨٩٢٥

(١١) الوطن ،جریدہ،شمارہ نمبر ٤٧١٨

(١٢) الرای العام، جریدہ،شمارہ نمبر٧٤،١٩٧٨ئ

(١٣) انڈین میگزین ،٢٩ صفر ،١٤١٠ھ

(١٤) عبدالرشید العوید،مترجم،اہلیہ دانش کمال،آزادی نسواں دھوکہ یا حقیقت، دارالاشاعت،٢٠٠٠ء ،ص ٥٥

(١٥) عبدالرشید العوید،مترجم،اہلیہ دانش کمال،آزادی نسواں دھوکہ یا حقیقت، دارالاشاعت،٢٠٠٠ء ،ص ٥٦

(١٦) عبدالرشید العوید،مترجم،اہلیہ دانش کمال،آزادی نسواں دھوکہ یا حقیقت، دارالاشاعت،٢٠٠٠ء ،ص ٤٥

(١٧) فرانسیسی نیوز ایجنسی، بحوالہ،آزادی نسواں دھوکہ یا حقیقت، دارالاشاعت،٢٠٠٠ء ،ص ٤٦

(١٨) روزنامہ نوائے وقت،١٩ دسمبر ١٩٩٣ئ؁

(١٩) محمد انور بن اختر، پردہ اور جدید ریسرچ، ادارہ اشاعت اسلام،٢٠٠٧،ص ٣٢١

(٢٠) محمد انور بن اختر، پردہ اور جدید ریسرچ، ادارہ اشاعت اسلام،٢٠٠٧،ص ٣١٩

(٢١) الوطن ، جریدہ،شمارہ نمبر ٣٨٢٣

(٢٢) دورانت ول۔م۔س۔(ص١٧٨)

(٢٣) رای ستاتشی،م۔س۔ (ص٣٩٤)

(٢٤) دیورانت ول۔قصۃ الحضارۃ،ج٣، م١،ص ١٧٧

(٢٥) عبداللہ مرعی،مترجم،مفتی ثناء اللہ محمود،اسلام اور دیگر مذاہب و معاشروں میں عورت کے حقوق ومسائل، دار الاشاعت، ٢٠٠١، ص ٣٥

(٢٦) قصۃ الحضارۃ ول دیورانت،(حصہ٣/٧٠١)

(٢٧) المرأۃ فی القدیم والحدیث(ص١٣٨)

(٢٨) المرأۃ فی القدیم والحدیث،عمررضاکحالہ(ص١٣٨)

(٢٩) آئین پاکستان ،آرٹیکل نمبر ١٥م٢٦،١٨

 

(٣٠) شرکت گاہ،عورت،قانون اور معاشرہ،بحوالہ محبت حسین اعوان،اسلام ،قانون اور پاکستانی مظلوم عورت، مکتبہ بخاری،سنہ ٢٠٠٢ئ،ص٩٦

(٣١) ایضا

(٣٢) ایضا

(٣٣) مجھ پر سنگ نہ اٹھاؤ،ترجمہ ،طاہرہ حبیب،س۔م۔ن۔

(٣٤) نورالصباح بیگم،تحریک پاکستان اور خواتین

(٣٥) بخاری شریف،بحوالہ اسلام اور مظلوم پاکستانی عورت،ص ٩٨

(٣٦) سفرنامہ افغانستان،مولانا،سید سلیمان ندوی،س۔م۔ن۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 


 

 

 

 

 

 

 


 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post