سورۃ الصفت کی وجہ تسمیہ

اس سورت کا نام الصفت ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سورت کے آغاز میں یہی لفظ ہے۔ اسی طرح اس سورت میں بندگان خدا کو عالم بالا کے فرشتوں کے مسلسل، دائمی حسنات وطاعات سے نصیحت حاصل کرنے پر آمادہ کیاگیاہے ان فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ (الانبیاء :٢٠)وہ فرشتے دن رات اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور سستی نہیں کرتے یہ سورت بالاتفاق مکی ہے ۔ جمہور کے نزدیک اس کی ایک سو بیاسی آیات ہیں۔

سورۃ الصفت کے متعلق احادیث:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں تخفیف کے ساتھ امامت کرنے کا حکم دیتے تھے اور جب ہم کو نماز پڑھاتے تو سورت الصفت کی قرات کرتے۔(سنن نسائی:٨٢٥،دارالمعرفہ بیروت)(تفسیر منیر ج١٢،ص ٢٩،مطبوعہ امیر حمزہ کتب خانہ کوئٹہ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ

نے فرمایا جس شخص نے جمعہ کے دن یٰسین اور الصفت کو پڑھا پھر اللہ تعالیٰ سے کوئی سوال کیا تو اللہ تعالیٰ اس کا وہ سوال پوراکردے گا (الدرالمنثور ج٨، ص ٦٩، داراحیاء التراث العربی بیروت ،١٤٢١،تبیان القرآن ٨٥٤ ،مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)

سورت یٰس اور سورت الصفت میں ارتباط :

سورت یٰس میں اللہ تعالیٰ نے احوال آخرت بالخصوص حشر ونشر کے وقوع اورمردوں کو زندہ کرنے پر دلائل دینے کے بعد فرمایا کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا فرمانا چاہتا ہے تو محض لفظ''کن'' سے ہی اس چیز کو پیدا فرمادیتاہے۔ اور اس سورت کے آغاز میں بتایاگیا ہے کہ اس قدرت واختیار کی حامل ذات ایک ہی ہے اور وہی مستحق عبادت ہے۔

سورت یٰس میں ایجاز و اختصار کے ساتھ مومنوں اورکافروں کے دنیوی اوراخروی احوال کاذکر کیاگیاتھا اس سورت میں ان کے احوال کو قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔

سورت الصفت کے مشمولات:

١۔ اس سورت میں بھی دیگر مکی سورتوں کی طرح اسلام کے بنیادی عقائد توحید،نبوت و رسالت، حیات بعد الموت اورحساب وکتاب کو محور کلام بنایاگیا ہے۔

٢۔جنات کا ذکرکرتے ہوئے یہ واضح کیاگیاہے کہ اہل جاہلیت کے یہ تصورات اورکہانیاں من گھڑت اورباطل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اورجنات کے درمیان کوئی قربت ہے۔یاجنات آسمانی خبروں پرمطلع ہوجاتے ہیں بلکہ اس کے برعکس آسمانی خبروں پر آگاہی کی کوشش کرنے والے سرکش جنات کو دہکتے ہوئے انگارہ سے ہلاک کردیاجاتاہے۔

٣۔ عقیدہ آخرت پر ایمان کے سلسلہ میں ایک مومن اورکافر کے درمیان مکالمہ کا ذکرکرتے ہوئے ہر ایک کے ٹھکانہ کے متعلق بھی بتادیاگیا کہ ان میں سے مومن ہمیشہ کے لئے جنت میں اورکافر ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہے گا۔

٤۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری پر آمادہ کرنے کے لئے اس سورت میں حضرت نوح،حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت موسیٰ،حضرت ہارون اورحضرت الیاس اورحضرت لوط علیہم السلام کے واقعات کو بیان کیاگیا پھر بالخصوص ایمان کامل اورابتلاء تام کے مظہر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو محض خواب میں حکم پانے پر ذبح کرنے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت سیدنایونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی تفصیل کا بھی ذکر ہے۔

٥۔ سورت کے آخر میں یہ واضح کردیاکہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ دنیا اورآخرت میں انبیاء واولیاء کے لئے ہی نصرت و غلبہ ہے اورمتقین کے لئے بہترین انجام ہے، اورتمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ فالحمدللہ الذی بنعمتہ وبفضلہ تتم الصالحات

سورۃ الصفت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَالۤصّٰفّٰتِ صَفًّا (١) فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا(٢) فَالتّٰلِیٰتِ ذِکْرًا(٣) اِنَّ اِلٰھَکُمْ لَوَاحِد'' (٤) رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ(٥)

صف باندھنے والے ان فرشتوں کی جماعت کی قسم جو مضبوطی سے صف باندھتی ہیں۔(١)پھر ان ڈانٹنے والے فرشتوں کی قسم جو بادلوں کو چلانے کے لئے ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہیں۔(٢)پھر قرآن کی تلاوت کرنے والی ان جماعتوں کی قسم جو مشغول ذکر ہیں۔(٣)بے شک تمہاری عبادت کامستحق صرف ایک ہی ہے۔(٤)جو آسمانوں اورزمینوںاوران کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے اور تمام مشرقوں(اورمغربوں) کامالک ہے۔(٥)

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِنِ الْکَوَاکِبِ(٦) وَ حِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ(٧) لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ(٨) دُحُوْرًا وَّلَھُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ(٩)اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَتْبَعَہ، شِھَابٌ ثَاقِبٌ (١٠)

اورآسمان کو ہر سرکش شیطان سے بھی محفوظ کردیاہے۔(٧)شیاطین عالم بالا کے فرشتوں کی کوئی بات نہیں سن سکتے اور ان شیاطین پر ہر جانب سے آگ پھینکی جاتی ہے۔(٨)تاکہ اس آگ سے شیاطین بھاگ جائیں اورشیاطین کے لئے ہمیشہ کا دردناک عذاب ہے۔(٩)اورجوشیطان جھپٹ کرآسمان کی کوئی بات اچک کرلے جائے تو فوراً ہی دہکتا ہوا شعلہ اس شیطان کاپیچھاکرتا ہے۔(١٠)

فَاسْتَفْتِھِمْ اَھُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا اِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ(١١) بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْن(١٢) وَاِذَا ذُکِّرُوْا لَا یَذْکُرُوْن(١٣)وَاِذَا رَاَوْا اٰیَۃً یَّسْتَسْخِرُوْن(١٤) وَقَالُوْۤا اِنْ ھٰذَآاِلَّا سِحْر'' مُّبِیْن''(١٥)

سو آپ ان کافروں سے پوچھئے آیا ان کا پیداکرنادشوار ہے یا(آسمانوں زمینوں اورپہاڑوں کوپیداکرنا دشوار ہے) جن کو ہم نے پیدا کیا ہے ۔ بے شک ہم نے انسان کو لیس دار مٹی سے پیداکیاہے۔(١١)بلکہ آپ کو کافروں کے انکار آخرت پر تعجب ہے اور مذاق اڑارہے ہیں۔(١٢) اورجب کافروں کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ نصیحت کو قبول نہیں کرتے ۔(١٣) اورجب کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو تمسخر کرتے ہیں۔(١٤) اورکہتے ہیں کہ یہ قرآن تو صرف کھلاہواجادو ہے۔(١٥)

ءَ اِذَامِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ(١٦)اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ(١٧)قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ(١٨) فَاِنَّمَا ھِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَاھُمْ یَنْظُرُوْن(١٩) وَقَالُوْا ٰیوَیْلَنَا ھٰذَا یَوْمُ الدِّیْنِ(٢٠) ھٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ (٢١)

کیاجب ہم مرجائیں گے اورمٹی اورہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم کو ضرور اٹھایاجائے گا؟(١٦) اورہمارے آباء و اجداد کو بھی؟ (١٧) آپ کہیے ہاں اور تم ذلیل و خوار بھی ہوگے۔(١٨) اورقیامت تو ایک زوردار جھڑک ہوگی پھر منکرین قیامت یکایک دیکھنے لگیں گے۔(١٩) اورکہیں گے ہائے ہماری کم بختی یہی سزا کا دن ہے۔(٢٠) یہی اس فیصلہ کا دن ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔(٢١)

مشکل الفاظ کے معانی

والصفت صفا۔۔۔۔۔۔ورب المشارق

'' الصفت '' صافۃ کی جمع ہے اس کا معنی ہے صف باندھنے والی جماعت، ''زجرات''، زاجرۃ کی جمع ہے اس کا معنی ہے بارعب اورزور دارآواز کے ذریعہ کسی چیز سے دورہٹانا ، پھر یہ لفظ صرف چلانے ، کسی چیز پر ابھارنے ، روکنے اورمنع کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

''تالیات'' تالیۃٌ کی جمع ہے اس کا معنی ہے تلاوت کرنا۔''پیچھے آنا''، چونکہ پڑھنے میں ایک لفظ دوسرے لفظ کے بعد آتا ہے اس لئے پڑھنے کو ''تلاوت '' کہتے ہیں۔

''مشارق'' مشرق کی جمع ہے اس سے مراد سال کے تین سوساٹھ دن کے آفتاب طلوع ہونے کی جگہ ہے ۔جس طرح ہر روز ایک نئے مقام سے سورج طلوع ہوتاہے اسی طرح ہر روز ایک نئے مقام میں غروب ہوتاہے تو جس طرح مشارق متعدد ہیں اسی طرح مغارب بھی متعدد ہیں۔

 الصفت کی تفسیر

 الصفت کی پہلی تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں۔ جو صفیں باندھے ہوئے عبادت الہی میں مشغول ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانا لنحن الصافون (ص:١٦٥) اوربے شک ہم صف بستہ ہیں۔

اس سے مراد اللہ کی راہ میں مشرکین کے خلاف جہاد کرنے والے صف بستہ مجاہدین ہیں ۔ اس تفسیر کی موید یہ آیت مبارکہ ہے:

 اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ (الصف:٤)

بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

اس سے مراد مومنوں کی جماعت ہے، اجتماعی طور پر کسی کام کو انجام دینے کے لئے صفیں بنانے کے سلسلہ میں قرآن مجید کی یہ آیت ہے۔

 فَاَجْمِعُوْا کَیْدَکُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا (طہ: ٦٤) پھر صف باندھ کر آؤ چونکہ صفوں کے ذریعہ نظم و ضبط اوراتحاد و اتفاق کا اظہار ہوتا ہے اس لئے شریعت میں اس کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کے ذبح کرنے میں بھی قطار بنانے اورترتیب کو برقرار وقائم رکھنے کی تعلیم فرمائی ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَاذْ کُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ (الحج: ٣٦) جانوروں کو قطار میں کھڑاکرکے (ذبح کے وقت ) ان پر اللہ کا نام لو۔

اجتماعات میں قطاربندی کا طریقہ آج دنیابھرمیں رائج ہے چنانچہ آج ہر دفتر کے باہر قطار بناؤ کے بورڈ آویزاں نظرآتے ہیں ۔ اس سے اسلام کی تعلیمات کی افادیت، اہمیت اورعالمگیریت کا پتہ چلتاہے۔

اس سے مراد پرکھول کر صف درصف فضا میں اڑنے والے وہ پرندے ہیں جن کے لئے اللہ تعالی ٰ نے ہواؤں کومسخر فرمادیا ہے: اس سلسلہ میں یہ آیات مبارکہ ہیں:

اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صٰۤفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَ (الملک: ١٩) کیاانہوں نے اپنے اوپر کبھی پر پھیلائے اورکبھی پر سمیٹے ہوئے (صف درصف اڑنے والے) پرندوں کو نہیں دیکھا۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہ، مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰۤفّٰتٍ کُلّ'' قَدْ عَلِمَ صَلَا تَہ، وَتَسْبِیْحَہ، (النور : ٤١) اے مخاطب کیاتو نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی ہے جس کی پاکی بیان کرتے ہیں تمام آسمانوں اورزمینوں والے اورپرندے بھی صف بستہ اور ہر ایک نے اپنی نماز اورتسبیح کو جان لیاہے۔

نماز میں صفیں بنانے کی فضیلت:

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اورآپ نے فرمایا تم اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف باندھتے ہیں۔ ہم نے پوچھا یارسول اللہ فرشتے اپنے رب کے سامنے کس طرح صف باندھتے ہیں آپ نے فرمایا وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں پھر اس سے متصل صفوں کو پوراکرتے ہیں۔(صحیح مسلم، ٤٣٠،سنن ابو داؤد:٩١٢، نسائی :١١٨٤)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری صفیں درست کرتے تھے گویاتیروں کوسیدھا کرکے رکھاجاناہے،حتی کہ آپ کے خیال میں ہم نے سمجھ لیا، پھر ایک دن آپ باہر نکلے اورتکبیر پڑھنے والے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے باہر نکلاہواتھا، آپ نے فرمایا اے اللہ کے بندوں تم اپنی صفوں کو ہموار رکھاکرو،ورنہ اللہ تمہارے چہروں کو الٹاکردے گا(یامسخ کردے گا)(صحیح مسلم، ٤٣٦،سنن ابو داؤد:٦٦٣، ترمذی ٢٢٧،نسائی :٨١٠، ابن ماجہ :٩٩٤) تبیان القرآن ،ج٩، ص ٨٥٨)

والزاجرات زجراً کی تفسیر:

زجرات سے مراد یا تو وہ فرشتے ہیں جوبادلوں کوچلانے کے لئے انہیں ڈانٹے ہیں:

یا اس سے مراد قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ممنوع چیزوں کے ارتکاب پر زجر وتوبیخ فرمائی ہے۔

(تفسیر طبری، ج٨،ص ٨٦٦،مطبوعہ دارالسلام قاھرہ مصر)

یا اس سے مراد فرشتوں کا انسان کو نیکی اورتقویٰ کا الہام کرنا ہے اور فرشتوں کی بنی آدم کے دلوں پر تاثیر ہوتی ہے۔ یا اس سے مراد فرشتوں کا شیاطین کو بنی نوع انسان کو بہکانے ،گم راہ کرنے اوران کو تکلیف وایذاء پہنچانے پر جھڑکناہے۔

یا اس سے مراد فرشتوں کا آسمانی خبروں پر آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے شیاطین کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا ہے۔ یا اس سے مراد وہ علماء ہیں جو وعظ ونصیحت کے ذریعہ لوگوں کو تنبیہ وخبردار کرتے ہیں۔

والتالیات ذکرا کی تفسیر:

تالیات سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے لوگوں کے پاس کتاب اورقرآن مجید لے کر آتے ہیں یا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی آیات اورکتابیں وغیرہ ہیں ۔یا اس سے مراد وہ علماء ،قراء ہیں جو لوگوں کے سامنے آیات قرانیہ کو پڑھتے ہیں یا اس سے مراد میدان جہاد میں کثرت ثواب کے حصول کے لئے مجاہدین کا اللہ تعالیٰ کی آیات اورتسبیحات واذکار کا ورد کرنا ہے۔ یا اس سے مراد دوسروں کو علوم دینیہ سکھانے والی ذوات علم شخصیات ہیں ۔

(روح المعانی موضحاً، ج٢٤، ص ٦٥، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی)

فرشتے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے جو وحی لے کر آتے ہیں اس سے مقصود جہاں انجام سے باخبر کرناہوتا ہے وہیں پیغام نہ پہنچنے کا عذر بھی ختم کرناہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فالملقیات ذکرا عذرا او نذرا (الذرایات:)

پھر فرشتوں کی ان جماعتوں کی قسم جو (دلوں میں) ذکر ڈالنے والی ہیں حجت قائم کرنے یا انجام سے باخبرکرنے کے لئے۔انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت سے مقصود بھی مخلوق پر حجت کو تمام کرناہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ م بَعْدَ الرُّسُلِ (النساء :١٦٥)

بشارت دینے والے اور ڈرانے والے رسولوں کو ہم نے محض اس لئے بھیجا تاکہ لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہے۔ کتب اورصحائف کے نزول سے مقصود بھی اتمام حجت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

الۤمّۤصۤ۔کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ(اعراف:١۔٢) المص۔ہم نے آپ پر کتاب محض اس لئے اتاری ہے تاکہ آپ کے سینہ میں کوئی تنگی نہ رہے اور تاکہ اس کے ذریعہ آپ لوگوں کوانجام سے باخبر کریں اور (یہ) مومنوں کے لئے نصیحت ہوجائے۔

ان الھکم لواحد کی تفسیر:

یہ جواب قسم ہے۔عرف میں قسم اپنے کلام میں پختگی پیدا کرنے اورمخاطب کے شکوک و شبہات کو زائل کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قسمیں مشرکین کے توحید الہیہ کے متعلق پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کے ازالہ کے لئے کھائی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ(ص٥)) کیا محمدﷺ نے بہت سے معبودوں کو ایک ہی معبود کردیاہے؟ یہ توبڑی عجیب بات ہے۔

غیراللہ کی قسم کھانے کی ممانعت مخلوق کے لئے ہے جو احکام شریعت کی مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ مالک مطلق ہے وہ جس طرح چاہے کلام فرمائے وہ کسی کے حکم کا پابند نہیں ہے۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ۔اس آیت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی دلیل کے طور پر پیش کیاہے۔

جو ہستی ساری کائنات کی خالق ، مالک ،منتظم اورمدبر ہے وہی مستحق عبادت ہے۔دوسرا کوئی کس طرح عبادت کا مستحق ہوسکتا ہے؟ لہذ ااس کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے۔

قرآن مجید میں یہ لفظ مفرد تثنیہ اور جمع تینوں طرح آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔وللہ المشرق والمغرب) اوراللہ ہی کے لئے مشرق اورمغرب ہے۔اس آیت میں مشرق اورمغرب کے لئے مفرد کا صیغہ آیاہے۔

رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ (رحمن:١٧)

وہی دونوں مشرقوں اوردونوں مغربوں کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْایُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا(الاعراف:١٣٧)

ہم نے قوم بنی اسرائیل کو زمین کے مشرقی اورمغربی حصوں کا حاکم بنادیا حالانکہ انہیں کم زور زمجھا جاتاتھا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَلََآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ (المعارج :٤٠)

تومیں مشرقوں اورمغربوں کے رب کی قسم کھاتاہوں۔

ان میں پہلی آیت سے مراد جنس مشرق ہے جس کا اطلاق روزانہ کے مشرق اورمغرب پر صادق آتاہے۔ مشرقین اورمغربین اس لئے فرمایا گیا کہ موسم سرما اورموسم گرما میں طلوع وغروب کے درمیان نمایاں فرق ہوتاہے۔ اس نمایاں فرق کے پیش نظر دو مشرق اوردومغرب کا ذکرکیاگیا۔سال کے ٣٦٥ دن ہوتے ہیں اورسورج کے طلوع اور غروب کے اتنے ہی مقام ہیں۔ اس لئے جمع کے صیغہ کے ساتھ مشارق اورمغارب فرمایاگیا۔یا اس سے مراد سورج، چاند اورستاروں کے طلوع اورغروب ہونے کی جگہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ہم نے تم سے قریب والے آسمان کو ستاروں کی روشن کرنے والی تابانیوں سے مزین کردیا ہے۔ ستاروں کی چمک آسمان سے اس طرح ظاہر ہورہی ہے کہ گویا وہ چمکتے ہیرے اورموتی ہیں۔(صفوۃ التفاسیر، ج٣، ص٢، مطبوعۃ دارالقرآن الکریم بیروت)

امام ابوحیان اندلسی فرماتے ہیں خاص طور پر آسمان دنیا کا ذکر اس لئے کیاگیا ہے کہ اس کا نگاہوں سے مشاہدہ کیاجاتاہے۔ اورصرف یہی آسمان شیاطین سے محفوظ ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post