علاج بالشعر

شہیدحکیم محمدسعيد

 

 کسی بات کو خوب صورت الفاظ میں تاثرات و جذبات کے ساتھ بیان کرنا اور اس انداز بیان میں ماحول کی فطری لطافتوں کوسمیٹنا شاعری کی تعریف میں آتا ہے، اس لیے اس کا اثر دل و دماغ پر پڑنا لازمی ہے۔ ہر خوب صورتی در اصل شاعری ہے اور فطرت سب   سے اعلیٰ شاعر ہے۔ ہر اچھی بات کی طرح شعر و کلام بھی ہمارے اعصاب اور نظام جسمانی پر مفید اثر ڈالتے ہیں، اسی لیے ایک مشہور شاعر نے کہ جو پہلے ایک نام ور معالج(طبیب) کی حیثیت سے معروف تھا ، شعروادب کو دواؤں سے بہتر علاج قرار دیا۔ ڈاکٹر رابرٹ سیمور برجز (۱۸۸۲ء) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے دواؤں اور دوائی طریق علاج،یعنی میڈیسن کو ترک کر کے شاعری شروع کردی تھی اور اسی سے وہ اپنے مریضوں کا علاج کرنے لگا تھا۔ ڈاکٹر سیموربرجز نے اپنے لیے ایک بہت انوکھا ، نرالا اورتخلیقی راستہ اختیار کیا تھا۔ اس میں وہ کام یاب ہوا۔ اسے ۱۹۱۳ء میں انگلستان کا ملک الشعرا قرار دیا گیا۔ لوگ اس معالج کے اسٹیتھوسکوپ سے زیادہ اس کی شاعری سے قریب ہو چکے تھے۔ گویا اب اس کی شاعری زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن کو چھوتی تھی۔ آج بھی اس کی نظمیں حسن اور مسرت کا ایک بڑا عمدہ خزانہ ہیں، جن سے اثر پذیر ہو کر لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

حالیہ تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ شاعری معالج کے ذرائع علاج میں سے ایک اہم اور مؤثر ذریعہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ڈاکٹر بر جز اپنے وقت سے آگے تھا۔ آج کل شاعری کو موسیقی کی طرح ایک بڑا موثر طریقہ علاج قرار دیا جا تا ہے اور اسے بہت سے متنوع امراض کے علاج میں اپنایا جاتا ہے، مثلاً اعصاب اور دماغ کے امراض سے لے کر دندان سازی تک۔

شعروسخن ایسی دوا ہے جو بڑی خاموشی ، آہستگی اور سکون کے ساتھ مریض پر اثر کرتی ہے۔ یہ اثر بڑاہی دیر پا اور مفید ہوتا ہے۔ یہ معالجین کا ایک بہت بڑا نفسیاتی حربہ بھی ہوسکتی ہے۔ بہرحال شعروادب سے "تھکے ہوئے دماغوں کو آرام ، مضمحل اورمنتشر اعصاب کو نئی زندگی اور طاقت،بیمار جسم کو شفا اور نفسیاتی مریضوں کو امید اور مسرت" حاصل کرنے میں مددیتی ہے۔

مغربی ملکوں میں نفسیاتی معالجین کی ایک نئی کھیپ آ گئی ہے جو شعر کہتی ہے شعر پڑھتی ہے اور اس سے علاج کرتی ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ان کے شعرمسکن اور منوم دواؤں سے کہیں زیادہ مؤثر اور بے ضرر ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ ان کے علاج بالشعر نے ان مریضوں کو مضرصحت مسکن اور منوم دواؤں سے بھی نجات دلا دی ہے۔ بہت سے نفسیاتی ماہرین شیکسپیر ، کیٹس اور شیلے کی خوب صورت اور دل نواز نظموں کے ذریعے روز مرہ کی پریشانیوں اور الجھنوں سے مضمحل جسموں اور دماغوں کو تازگی ، امید نو اور توانائی عطا کر رہے ہیں ۔ وہ ان کو مسکن کیمیائی دواؤں کے بجائے نہایت بے ضرر اور مؤثر دوا دے رہے ہیں، جس کا اثر مسکن دواؤں کی طرح کم اثر اور ناپائیدار نہیں، بلکہ یہ علاج الشعر ان کی روح کو بالیدگی ، فرحت، امید نو اور قوت دے رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ طویل الاثر ہے، پہلوئی اور دیگر مضراثرات سے پاک ہے۔ اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خوب صورت شعر ہر مسکن دوا سے زیادہ بہتر اور مؤثر ہے اور لوگوں کو یہ امید خوشی عطا کرتا ہے، خواہ مریض کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو، مثلا سرطان جیسی خوف ناک اور بڑی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو اس سے شفا پانے میں مددملتی ہے، کیوں کہ وہ مرض کی دہشت ، خوف اور مایوسیوں سے نکل آتے ہیں۔ روز مرہ کی عام تھکن ، پریشانی ، پستی اور خوف، بلکہ ذہنی اضمحلال تک کا علاج شاعری کے ذریعے کیا جا تا ہے ۔ یہ دل نواز،نرم، گہری موسیقی کی طرح اثر انگیز ثابت ہوتی ہے اور تازہ دم کر دیتی ہے۔ جن لوگوں پر کام کا بار رہتا ہے اور وہ شام کو تھکے ہارے گھروں کو لوٹتے ہیں، ان پر شاعری بڑا لطیف اور خوش گوار اثر کر سکتی ہے۔ بہت سے لوگ دفتروں اور کارو بار سے جب گھر لوٹتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ پریشانیوں اور افکار کے انبار لاتے ہیں۔ ان کے لیے ہلکی لطیف اور خوب صورت  شاعری کس قدر روح افزاء اور فرحت بخش ہوسکتی ہے، اس سے انکار کرنا مشکل ہے۔ یہ ان کی روح اورذہن پر نرم اور پھوار کی طرح ہوتی ہے۔

 برطانیہ میں حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو مریض میں  اسپتالوں میں اشعار پڑھتے رہے اور ان سے لطف اندوز ہوتے رہے، وہ دوسرے مریضوں کے مقابلے میں بہت جلد صحت یاب ہوگئے ۔

امریکا میں شاعری کے شفائی پہلو پر ایک نفسیاتی معالج جیک لیڈی نے خاص توجہ دی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ تیز رفتارصنعتی معاشروں میں ذہنی تھکن ، نفسیاتی مسائل اور الجھنیں بہت ہوتی ہیں۔ چناں چہ ان کا حل دواؤں سے ممکن نہیں، بلکہ یہ دماغ کی خاص کیفیات سے مندمل کی جاسکتی ہیں ۔ یہ کیفیات موسیقی اور شاعری سے پیدا کی جا سکتی ہیں۔

مغربی ملکوں میں کئی جگہ جیل خانوں، دماغی امراض کے کی اسپتالوں ، منشیات کے عادی لوگوں کی اصلاح اور بحالی کے مرکزوں کا اور نفسیاتی علاج گاہوں میں شعروسخن کے ذریعے مریضوں کے حقائق نے کو تسلیم کرنے میں اور صحت مند ہونے میں مدد لی گئی ہے۔

شعروسخن بے چین ، مضطرب، داخلی ذہنی کرب کے نکاس اور اظہار کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ اسی طرح یہ مجرم ضمیر کے اعتراف جرم کا بھی ایک اعلیٰ ذریعہ ہے۔ وہ اگر اصلاح ذات نہ بھی کر سکے تو کم از کم ذہنی کرب اور عذاب سے نکل جاتا ہے۔ شاعری انسانوں کے درمیان حائل دیواروں کو توڑ دیتی ہے اور ہر شخص کا اندرونی احساس ظاہر ہو جا تا ہے۔

شاعری غم زدہ لوگوں کا سب سے موثر علاج ہے۔شاعری انسان کو خود پر نظر ثانی کا موقع فراہم کرتی ہے امریکی ریاست کینٹکی کی سماجی کارکن میسی سمسن کو پتہ چلا  کہ اسے چھاتی کا سرطان ہے۔ اسپتال میں اس کے آپریشن اور اسے دل بہلانے کو کتابیں پڑھنے کو دی گئیں۔ اس نے نظمیں غزلیں پڑھیں اور اس قدر متاثر ہوئی کہ کچھ دن بعدخو د نظمیں لکھنے لگی۔ اس سے اس کی توجہ اس کے درد اور آپریشن کے بعد کی تکالیف سے کافی حد تک ہٹ گئی ۔ مریضہ کا کہنا ہے کہ چند ماہ بعد اس نے اندازه لگایا کہ اس کا اصل مسئلہ جسمانی نہیں، بلکہ ذہنی تھا۔ وہ موت کے خوف میں مبتلا تھی۔ اس عرصے میں جب اس نے نظمیں وغزلیں پڑھیں تو اسے زندگی اور موت کا فلسفہ سمجھ میں آیا۔ رفتہ رفتہ اس کے دل سے خوف اور تشویش جاتی رہی اور وہ کافی حد تک نڈر اور پراعتماد ہوگئی۔ چناں چہ دوسرے آپریشن کے وقت اس کے ذہن میں کوئی خوف نہیں تھا، بلکہ وہ اپنے پسندیدہ اشعار دل ہی دل میں پڑھ رہی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ ان اشعار نے اس میں ایک طرح سے درد سے بچانے اور سن کرنے کا احساس پیدا کر دیا۔

ہم اپنے ماضی کے کسی بھی دور میں جھانکیں ہمیں شعروسخن کی جان بخش اور خوشبودار فضاؤں سے سابقہ پڑتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ فکر ملت میں انقلابات برپا کرنے کے علی الرغم مشرق میں شعروسخن نے لذتوں اور راحتوں کا بھی سامان کیا ہے اور عظمت مشرق سے اس کا گہرا تعلق رہا ہے۔

ہم آج جن مخصوص حالات سے گزررہے ہیں، ان سے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے شعروادب سے مدد لینا ایک صحیح پیش رفت قرار دیا جائے گا۔ حتی کہ ہم پاکستان میں سیاسی استحکام سے لے کر ۔ معاشرے میں اضمحلال، اخلاق اور حیا سوز حالات کی اصلاح کا سامان بھی شعر وسخن سے کر سکتے ہیں۔ قوم کے عصری تشنجات کا علاج بھی اس سے ممکن ہے ۔ ہمیں اس کے لیے زمین پر اترنا ہوگا اور اہل علم وفن اور علم و ادب سے محبت و احترام کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ (بشکریہ ہمدرد صحت،   مئی ۲۰۲۲ء)

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post