رجل يتحاور مع أحد الصالحين فقال له : ليس هناك شيء إسمه بركة !!

فرد عليه الرجل الصالح : أرأيت الكلاب والأغنام؟

قال الرجل : نعم

قال : أيهم تنجب أكثر ؟

قال الرجل : الكلاب تنجب إلىٰ سبعة، وأما الأغنام فتنجب إلىٰ ثلاثة

قال الرجل الصالح : لو نظرت حولك أيهما أكثر ؟

قال الرجل : أرى الأغنام أكثر

قال له : أليست هي التي تُذبح وتنقص ويقلُّ عددها ؟

قال الرجل : بلى

فقال : هٰذه هي البركة

قال الرجل : ولماذا إستحقت الأغنام البركة دون الكلاب ؟

قال الرجل الصالح : لأن الأغنام ترقد أول الليل وتقوم قبل الفجر، فتدرك وقت الرحمة فتنزل عليها البركة ..

وأما الكلاب تنبح طوال الليل، فإذا دنا وقت الفجر هجست ونامت، وفات عليها وقت الرحمة، فتُنتزع منها البركة .

العبرة :

فلنفكر ولنراجع أنفسنا في سهراتنا وسمراتنا وحفلاتنا

فهي التي أذهبت البركة في أنفسنا وأموالنا وأهلينا وغيرها .

وإحذروا السهر، حتى لا تفوتكم بركات الرحمن في #قيامالليل، وتفوتكم #صلاةالفجر، ونزول الرحمات والبركات من السماء .

 

ایک آدمی کسی سمجھدار بزرگ سے  بات کرتا ہے۔اور  ان سے کہتا ہے کہ مجھے اپنے اردگرد برکت نامی کوئی چیز کبھی نظر یا محسوس نہیں ہوئی۔

بزرگ: اس شخص اس سے دریافت کرتاہے کیا تم نے کبھی کتے اور مویشیوں کا ریوڑ دیکھاہے؟

اس نے کہا ہاں دیکھے ہیں لیکن اس کا میرے سوال سے کیا تعلق؟

بزرگ: بچے زیادہ کس کے ہوتے ہیں؟

آدمی: کتے کے ہر دفعہ چھ سات بچے  ہوتے ہیں جب کہ مویشی عام طور پر تین بچے دیتے ہیں۔

بزرگ:کیا تم نے اپنے اردگرد دیکھا ۔تعداد کس کی زیادہ ہے۔

آدمی : میں مویشیوں کو زیادہ دیکھتا ہوں

بزرگ: حالانکہ انہیں ذبح بھی کیا جاتا اور اس ذبح کرنے سے ان کے عدد میں کمی ہوتی ہے؟

آدمی: بالکل

بزرگ: یہی برکت ہے

آدمی نے سوال کیا  کہ کتوں کے بجائے مویشی برکت کے مستحق کیوں قرار پائے ؟

بزرگ: اس لئے کہ مویشی رات کی ابتدا میں سوجاتے ہیں و فجر سے پہلے اٹھ جاتے ہیں۔پس وہ رحمت کا وقت پالیتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس کتے پوری رات بھونکتے رہتے ہیں اور جب فجر کا وقت قریب ہوتاہے وہ سوجاتے ہیں اس طرح برکت و رحمت والا وقت ضائع کردیتے ہیں۔ اس لئے ان سے برکت چھین لی گئی۔

پس ہمیں اپنی رات گئے تک کی  بیداری و راتوں میں محافل میں حاضری  کے بارے میں غوروفکر کرنا چاہئے۔پس یہ وہ چیز ہے جو ہماری جان و مال  و اہل عیال سے  برکت لے جاتی ۔ لہذا رات گئے تک جاگنے سے بچنا چاہئے اور صبح سویرے اٹھنا چاہئے تاک ہماری فجر کی نماز اور برکات و رحمت کے اوقات ضائع نہ ہوجائیں۔ اس بات کو ایک شاعر جناب ابو علی محمد رمضان نے صاحب نے اس خوبصورت پیرایہ میں بیان فرمایا ہے:

وقت سحر دعاؤں کا وقت قبول ہے

کھونا سحر کا مانع رزق و حصول ہے

اٹھئے نماز پڑھئے اسی میں بھلائی ہے

اس رحمتوں کے وقت کا کھونا فضول ہے

نمازِ فجر کے بعد بغیر کسی ضرورت کے طلوع آفتاب(سورج نکلنے) سے پہلے سونا مکروہ ہے، اللہ تبارک وتعالی صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک مخلوق کے لیے رزق تقسیم کرتے ہیں، یعنی جو لوگ اس پورے وقت میں غافل رہتے ہیں، وہ رزق کی برکت سے محروم رہتے ہیں۔ لہذا طلوع آفتاب سے پہلے بلا ضرورت سونے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

 عن أنس قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: "لا تَنَامُوا عن طَلَب أرزاقكم فيما بينَ صلاةِ الفجر إلى طُلوع الشمس" قال: فسُئل أنسٌ عن معنى هذا الحديثِ ؟ قال: يسبِّح ويكبّر ويستغفر سبعينَ مرةً فعند ذلك ينزلُ الرزق.( مسند الفردوس للدیلمی رقم 3868)۔

ترجمہ : تلاشِ رزق کی خاطر نماز فجر سے طلوع آفتاب تک مت سویا کرو۔ حضرت انس سے اس کی وضاحت طلب کی گئی تو فرمایا کہ : اس وقت ستر مرتبہ تسبیح تکبیر واستغفار کرنے سے روزی میں برکت ہوتی ہے ۔ 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post