علامہ سعیدی بحیثیت مجتہد

حبیب الرحمن 


عالم اسلام کے ممتاز اورجلیل القدر عالم حضرت علامہ ابوالوفاء غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔برصغیر پاک وہند میں گذشتہ صدی میں تفسیر قرآن و قرآن فہمی کے حوالے سے جو بھی نام لئے جاسکتے ہیں ان میں علامہ سعیدی کا اسم مبارک سرفہرست نظرآئے گا۔

علامہ غلام رسول سعیدی وہ نابغہ روزگار اوراس دور کی وہ عظیم ہستی تھے جن کا علمی فیض ان شاء اللہ تاقیامت رہے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ علمی استدلال وفقہی بصیرت عطافرمائی تھی۔

جس طرح آپ علامہ غلام رسول سعیدی فن تدریس میں ماہر تھے اسی طرح تصنیف وتحریر میں بھی آپ کو بلند مقام حاصل ہے۔ آپکی تصانیف  درج ذیل ہیں:

1۔ تذکرۃ المحدثین، 2۔ توضیح البیان، 3۔ مقاماۃ الولایۃ والنبوۃ 4۔ تاریخ نجد و حجاز، 5۔مقالات السعیدی، 6۔ حیاۃ استاذ العلماء، 7۔ ذکر بالجھر، 8۔ ضیاء کنز الایمان، 9۔ معاشرہ کے ناسور، 10۔شرح لصحیح المسلم(8 جلدیں)، 11۔ تبیان القرآن (تفسیر12 جلدیں)،12۔ نعمۃ الباری ( شرح صحیح البخاری 16 جلدیں)، 13۔ تبیان الفرقان

علامہ سعیدی رحمۃ اللہ تعالیٰ کی تمام تصانیف علمی تحقیق کے زیور سے آراستہ ہیں۔ آپ کی تفسیر واحادیث نبوی کی شروحات دنیائے علم میں گراں قدر اضافہ ہے۔ قرآن وحدیث کی یہ خدمت مسلمانوں کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے۔ جہاں علامہ نے قرآن و حدیث کی شرح میں ہر قدیم و جدید موضوع پر سیر وجامع بحث کی ہے۔ اسی طرح آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے اپنی اجتہادی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اس عقیدہ جمود توڑا جو اہل اسلام کے دلوں میں اجتہادکے بند ہونے کی صورت میں پیدا ہوگیاتھا۔

آپ نے ہر مشکل و عصری مسئلہ میں براہین و دلائل کی بنیاد پر اپنا موقف بیان کرنے میں جو اجتہادانہ جوہر پیش فرماتے ہیں تاکہ امت "اختلاف علماء امتی رحمۃ" کی برکات سے فیض یاب ہوتی رہے۔ اوردین اسلام کی یہ فقاہت دنیا اسلام پر نمایاں ہوجائے کہ اسلام ہر زمانے کے مسائل کا بھرپور حل پیش کرتاہے۔

علامہ سعیدی جس موضع پر قلم اٹھاتے ہیں براہین ودلائل کے انبار لگادیتے ہیں۔ وہ کسی بھی مسئلے پر طائرانہ نظر ڈالنے کے بجائے بحث وتحقیق کی انتہاء کو پہنچتے ہیں۔ مسئلہ کی تنقیح اورتفصیل پر آتے ہیں تو دریا کی روانی اورسمندروں کی گہرائی وسعت کا اندازہ ونقشہ  نظرآتاہے۔ اوراس کے ساتھ ساتھ متقدمین فقہاء کے ساتھ اس طرح تطبیق دیتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتاہے کہ اختلاف تھا ہی نہیں۔

زیر مطالعہ مضمون علامہ سعیدی کی ان ہی منفرد صلاحیتوں اورعلمی قوت کا اختصار ہے۔ جس کو میں نے جمع کیا ہے۔ یہ آپ رحمۃ اللہ  تعالیٰ کی وہ چند تحقیقات ہیں جو آپ کی صرف ایک تصنیف "شرح صحیح مسلم" میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔

1۔ انعامی بانڈز پر علامہ سعیدی علیہ الرحمہ کی تحقیقات:

علامہ سعیدی نے انعامی بانڈز کے حوالے سے سیربحث کی ہے۔ کیوں کہ دورحاضر میں انعامی بانڈز کا اجراء بڑی تیزی سے چل پڑا ہے۔ اس لیے اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ شرعی احکام انعامی بانڈز کے حوالے سے واضح کردیئے جائیں تاکہ مسلمان قلبی وذہنی اطمینان کے ساتھ اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔ اور اگرعدم جواز کی صورت ہو تو اس کے اجراء کے عمل کو بند کیاجائے۔

مولانا غلام رسول سعیدی  فرماتے ہیں:

جب مجھ سے چند احباب نے اس پر تحقیق کے لئے کہا تو میں نے اس کے لئے مولانا مودودی کے عدم جواز کے فتوی اورجامعہ اسلامیہ بنوری ٹاون سے ایک مفصل دستی فتویٰ منگوایا۔

ان فتاویٰ جات کا مکمل متن شرح صحیح مسلم جلد (4) صفحہ 112 پر ملاحظہ کیاجاسکتاہے۔ یہاں صرف ان فتاویٰ جاتا کے ان نکات کو لکھ رہاہوں جن پر علامہ سعیدی علیہ الرحمہ نے بحث کی ہے:

مولانا مودودی کے فتویٰ کے نکات

(1) حکومت عوام کو بانڈز دے کر اس کے عوض ان سے قرض لیتی ہے۔(2) عوام کی رقم سے سود جمع کرکے قرعہ اندازی کے ذریعے چند لوگوں میں تقسیم کردیاجاتاہے۔ (3) اس میں سود بھی اور روح قمار بھی۔(4) چونکہ قرض دینے والا لالچ دے کر لوگوں کو قرض دینے پر آمادہ کرتاہے اس لئے اس میں سودی لین دین کی نیت ہوتی ہے۔

علامہ دیوبندکا موقف:

(1) بینک عوام سے رقم لے کر بانڈز دیتاہے اس رقم کو بینک کسی شخص یا ادارے کو سودی قرض دیتا ہے اوراس پر سود کی جوہ رقم موصول ہوتی ہے بینک اس میں سے کچھ رقم رکھ کر باقی انعام کے نام پر لوگوں میں تقسیم کردیتا ہے۔( 2) کل قرض جر نفعا فھو حرام۔ہر وہ قرض جس کے ذریعے نفع کمایا جائے وہ حرام ہے۔

3۔ حامل بانڈز چونکہ نفع کی شرط نہیں لگاتا لہذا فقہ کے اس قاعدے کی رو سے کہ "اگر مقروض بطور انعام کے قرض خواہ کو اصل قرض پر کچھ اضافہ کرکے  دے تو جائز ہے"۔ جائز نہیں ہوسکتا۔اس لئے کہ فقہ کا ایک اصول ہے کہ "المعروف کالمشروط" کہ جو چیز معروف ہو وہ مشروط کی طرح ہے اگرچہ بانڈز ہولڈر نفع کی شرط تونہیں لگاتا لیکن وہ نفع کا متقاضی ہوتاہے اگر ایک نہ ہو تو کوئی انعامی بانڈز ہی نہ خریدے۔

4۔بالفرض بینک بانڈز کی رقم سودی کام پر نہ لگائے اوراس سے جائز کاروبار کرے تو اس کا نفع بھی لوگوں کے لئے جائز نہیں ہوسکتا اس لئے کہ مشارکت نفع و نقصان کی بنیاد پر جائز ہوتاہے یہاں تو نقصان کا اندیشہ ہی نہیں ہے لہذا انعامی بانڈز کا انعام ہراعتبار سے ناجائز وحرام ہے۔ اگرچہ ب ینک اسے انعام ہی کہتارہے۔

علامہ سعیدی کی مجتہدانہ تحقیق:علامہ سعیدی نے ان فتویٰ کو مکمل طور پر نقل کرنے کے بعد ایک ایک شق پر محققانہ بحث کی ہے۔ اور اپنا دلائل سے بھرپور موقف پیش کیا کہ ہمارے نزدیک انعامی بانڈز کی بیع جائز ہے۔ حکومت کی طرف سے اسے خریدنے کے لئے جو انعام جاری کیاجاتاہے وہ بھی بالکل  جائز ہے کیونکہ اس انعام پر ربوٰ یا قمار کی تعریف صادق نہیں آتی۔

اس سب بحث میں علامہ سعیدی نے بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی اور فقہاء کی تعریفات ربوٰ کو بیان کیاہے۔

مولانا مودوی صاحب کا یہ کہنا کہ اس میں روح قمار موجود ہے اس کا رد کرتے ہوئے علامہ سعیدی نے فرمایا کہ سید مودودی لکھتے ہیں کہ بانڈز کے انعامات  کی تقسیم لاٹری کی طرز پر ہوتی ہے یہ بعینہ قمار تو نہیں لیکن اس میں روح ضرور موجود ہے آئیے یہ دیکھیں کہ قمار کیا چیز ہے ۔پھر اس کا فیصلہ ہوگا کہ اس میں قمار کی روح موجود ہے یا قمار کا جسم۔اس کے بعد علامہ نے بڑی تفصیل کے ساتھ دس کتابوں سے قمار کی کی لغوی واصطلاحی تعریفات وتصریحات بیان کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جس میں جانبین سے شرط ہو یعنی جس عقد یا کھیل یا عقد میں ہر فریق کو فائدہ و نقصان لازم وہ وہ قمار ہو۔پھر آگے چل کر فرمایا۔قمارکی تعریف معلوم ہوجانے کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ انعامی بانڈز کے انعامات پر قمار بالکل نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں شرط بالکل نہیں ہے۔

کیا انعام کا رواج خریدار کے شرط لگانے کے مترادف ہے اس حوالے سے بیان کیا جانے والا قاعدہ "المعروف کالمشروط" کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ دلیل انتہائی سطحی ہے۔ حکومت  کسی خاص خریدار کو اصل رقم سے کچھ زاید اداکرتی ہے توپھر بانڈز خریدتے وقت خریدار نہ تو شرط لگاتا ہے نہ عرف کی وجہ سے اس کی شرط تسلیم کی جاتی اور زیادتی سود ہوتی۔جیسا کہ سیونگ یا ڈیفنس سرٹیکفیٹ وغیرہ ۔

مولانا مودودی نے اپنے فتویٰ میں لکھا کہ جو شخص انعامی بانڈز خریدتا ہے اس میں نیت سودی لین دین ہی کی ہوتی ہے۔ علامہ سعیدی نے لکھا کہ حکومت یہ انعام سود کے عنوان سے نہیں دیتی نہ اس پر سود کی تعریف صادق آتی ہے۔ پھر تمام مسلمانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ سود جیسی حرام چیز کے لین دین کی نیت کرتے ہیں، مسلمانوں کے بارے میں سوء ظن کے سوا کچھ نہیں۔ نیت مخفی اور غیب ہے ۔ان تمام مسلمانوں کی نیت کے بارے میں ایسا حکم لگانا ج کا تعلق غیب سے ہو نہایت حیرت انگیز ہے۔

یہ مولانا سعیدی کی بانڈز کے بارے میں تحقیق کا خلاصہ اختصاراً کیاگیاہے۔ اس کی مکمل تفصیل شرح صحیح مسلم (4) میں دیکھی جاسکتی ہے۔آپ علیہ الرحمہ کی اس تحقیق کی بدولت سینکڑوں علماء وفقہاء کرام نے آپ کی اقتداء میں انعامی بانڈز کے جواز میں فتاویٰ صادر کئے ہیں۔

ریل گاڑی میں نماز پر علامہ سعیدی کا مجتہدانہ مؤقف:

علامہ سعیدی صاحب نے اپنی تصنیف شرح صحیح مسلم کی جلد 2، کتاب صلوٰۃ المسافر میں جس سواری اورکشتی پر نماز کے جواب میں تفصیلی گفتگوکی ہے ۔ چونکہ یہ سواریاں خود نبی کریم ﷺ کے دور اقدس میں موجود تھیں ۔ لہذا اس پر فقہی مسائل اوراس کے نظائر موجود تھے۔ جب کہ ریل گاڑی جہاز اور نان اسٹاپ بسز بعد کے دور کی ایجاد ہیں۔ لہذا اس پر نماز پڑھنے کے حوالے سے بھی اطمینان بخش تحقیق کی اب تک ضرورت تھی۔ اس مسئلہ میں بھی علامہ سعیدی نے ایک منفرد طرز استدلال اپناتے ہوئے مدلل تحقیق فرمائی ہے۔

اس سے پہلے بھی فقہاء کرام نے ضرورتاً اس پر نماز پڑھنے کی اجازت دی لیکن ساتھ ساتھ واجب الاعادہ قراردیا۔

علامہ سعیدی علیہ الرحمہ نے 10 صفحات پر مشتمل 33 حوالہ جات کے ساتھ محققانہ بحث کرنے ،مجتہدانہ صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے بعد فرمایا "جب ٹرین میں نماز کا وقت آجائے تو نماز پڑھنی چاہئے ۔ اسے لوٹانے کی ضرورت نہیں اگر نماز کے پورے وقت میں ٹرین نہیں رکی تو اس صورت میں ٹرین میں نماز پڑھنا فرض ہے۔اور اس کا ترک فرض کا ترک گناہ کبیرہ ہے۔

اس رائے کو قائم کرنے کے بعد علامہ سعیدی نے فقہ کے بنیادی چاراصولوں سے استدلال فرمایا: پہلا قرآن کی آیت "فان خفتم ۔۔(سورۃ بقرۃ) دوسرا ترمذی کی حدیث جس میں حضور ﷺ نے کیچڑ جس میں اترنے کی دشواری کی  کی وجہ سے نماز پڑھائی۔تیسرا استدلال اجماع کہ خوف کی وجہ سے سواری پر نماز پڑھنے اور بعد میں نہ لوٹانے پر امت کا اجماع ہے۔ چوتھا استدلال قیاس ہے۔ جو آپ نے تفصیلات کے ساتھ کیا ہے۔ اولاً کشتی پر قیاس ،چوپایہ پر۔

جب آپ علیہ الرحمۃ نے دلائل وبراہین سے یہ بات ثابت کردی کہ ریل گاڑی میں نماز پڑھا اوربعد میں نہ لوٹانا جائز ہے تو پھر اس مسئلہ پر قیاس فرماتے ہوئے آپ نے ہوائی جہاز پر نماز پڑھنے کاحکم بھی وہی فرمایا جو ریل گاڑی کا ہے۔

مذکورہ بالا یہ دو مسائل علامہ سعیدی صاحب کی مفصل و مدلل تحقیق واجتہاد کا اختصار ہیں او ران مسائل کی تفصیل ودلائل وتحقیات شرح صحیح مسلم میں ملحوظ خاطر کی جاسکتی ہیں جوکہ علامہ علیہ الرحمۃ کی علمی کاوشوں اوروسعتوں کا آئینہ دار ہے۔

علامہ سعیدی علیہ الرحمہ کی تحقیقات واجتہادات آپ کی تصنیفات میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ راقم المضمون نے نقط اجمالی طور پر پیش کرنے کی سعادت حاصل ۔آپ نے جن جدید ومشکل مسائل کو حل فرمایا اور دلائل سے ثابت فرمایا ان میں مندرجہ ذیل ہیں:

1۔مغفرت ذنب کا مسئلہ، 2۔آلات قصاص، 3۔تصویر وفوٹوگرافی، 4۔اعضاء کی پیوند کاری، 5۔مسائل رجم 6۔مسئلہ کفایت،7۔قبضہ داڑھی کے مسائل،8۔ برتھ کنٹرول ،9۔انسان پر جنات کا حلول،10۔ الکحل کے مسائل ، وغیرہ

المختصر ان تحقیقات کے علاوہ بھی دوسری تحقیقات ہیں س موضوع پر علامہ سعیدی نے قلم اٹھایا اس موضوع کی تمام تر ذہنی وفکری الجھنوں کو سلجھادیا۔آپ نے اپنا موقف پیش کرنے کے بعد کم از کم 10 سے 15 دلائل کو پیش کرتے ہیں۔یہ آپ کی علمی جلوہ نمائی کی اعلیٰ مثال ہے۔

علامہ سعیدی علیہ الرحمہ کی تحقیقات مدلل نے امت مسلمہ کے کئی مسائل والجھنوں کو حل فرمایاہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ رب تعالیٰ علامہ سعیدی علیہ الرحمہ کو اجر عظیم عطافرمائے اورن علمی برکات سے ہم سب کو مستفیض فرمائے ۔اللہ تعالیٰ علامہ سعیدی علیہ الرحمہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post