اسلامی نظام تعلیم/ نظامِ تعلیم اسلامیہ


قبل اس کے کہ ہم نظامِ تعلیم اسلامیہ کی بابت کچھ تحریر کریں یہاں اس امر کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ اس نظام کی معرفت کے لیے عہدِ نبوی کی مدنی معاشرت ،سماجی وسیاسی حالت سے آگاہی ضروری ہے ۔ جس کے بغیر اسلامی نظام تعلیم کے خدو خال (ڈھانچہ) کو مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ عہدنبوی کی اسلامی تہذیب و ثقافت کو دورحاضر کے معاشرے میں رائج کرنے کے لیے آج بھی تعلیمی اداروں میں دارِارقم اور صُفّہ کے سلسلہ کو آگے بڑھانا ہوگا۔ عہدنبوی کے طریقہ تعلیم،منہج تربیت،نصاب،اسلوب تدریس ہمارے لیے مشعلِ راہ قرار پائے گا۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا، گفتگو و خاموشی خواہ جَلوت میں ہو یاخلوت میں یعنی نشستاً،گفتند،برخاستاً کے تمام تر اسلوب آپ ﷺ کی سیرت سے ہی حاصل کرنا ہے۔نیزمنبر و محراب پر ہو یا میدان جہاد ، لین دین ہو یاکاروبارِ تجارت ، آپس کے تعلقات و معاملات ہوں یا سیاست و شئون مملکت،تبلیغ ہو یا دعوت اسلام ۔الغرض زندگی کے جملہ مشمولات و معمولات میں جس انداز میں بھی سیکھنا اور سکھانا، تعلیم وتعلّم(آموزش) کا عمل تھا جو اس وقت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ آج بھی سنت نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے یعنی اپنے نظام تعلیم کو موجودہ ضروریات ، حالات و تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا جو سنت نبوی ﷺ کی اتباع و پیروی ہوگی۔ اس ہی نہج پر مرتب کیا گیا نظام آج ہمارا نظام تعلیم کہلائے گا اور اسی کو ہم اسلام کا نظام تعلیم قرار دیں گے۔

اس بات کی صراحت مولانا وحید الدین خان ان الفاظ میں کرتے ہیں:

ضرورت ہے کہ دوبارہ دور اول کی طرز کے مدرسے قائم ہوں اوران کو بنیاد بناکر اصلاح امت کا کام کیاجائے ۔ ان مدارس کا نصاب بالکل سادہ اورغیر فنی ہونا چاہئے،موجودہ حالات کے لحاظ سے ہم اس کو چار مرحلوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

پہلا مرحلہ:عربی زبان اورقرآن

دوسرا مرحلہ: حدیث ،سیرت رسول ،حالات صحابہ ،اسلامی تاریخ وغیرہ(عربی زبان میں)

تیسرا مرحلہ:عالمی زبانیں،دیگر مذاہب اوران کی تاریخ، فلسفہ جدید،ضروری سائنسی معلومات

چوتھا مرحلہ: اختصاصی مطالعہ کسی ایک اسلامی موضوع پر، (عربی میں  ایک  مقالہ تیار کرنا)

اس قسم کا ایک مدرسہ اعلیٰ معیار پر قائم ہوجائے تو بلاشبہ وہ دورجدید کا بہت بڑا کام ہوگا۔البتہ اساتذہ کی فراہمی ایک مشکل کام ہوگا تاہم اگر گروہی حدبندیوں سے اوپراٹھ کر دیکھا جائے تو اساتذہ کی فراہمی کا مسئلہ بھی حل ہوسکتاہے۔صرف اس اہتمام کے ساتھ کہ ان کو حسب لیاقت معاوضہ دینے کا انتظام ہو اوران کے ساتھ وسعت ظرف کا معاملہ کیاجائے۔"

خان،مولانا وحید الدین ،تجدید دین، ص82۔83 مکتبہ الرسالہ نئی دہلی،2008

اسلام ایک الہامی دین ہے۔ اس دین کی ابتدئی وحی جو حضور ﷺ پر نازل ہوئی اس کی ابتداء میں لفظ إِقْرَأْ آیا ہے۔جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ دین اسلام میں تعلیم و تدریس کی اہمیت و ضرورت اورفضیلت کوکتنی اہمیت دی گئی ہے ۔ پہلی وحی کے حکم کے تحت حضور اکرم ﷺ نے مکہ ہی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی تعلیم و تربیت کا آغاز کردیا تھا باوجودمشرکین مکہ کے بدترین مظالم کے یہ سلسلہ تعلیم و تربیت مکہ ہی سے شروع ہوئی۔ درج ذیل سطور میں مکے کے تعلیمی و تربیتی نظام پر روشنی ڈالی جائے گی۔

عہد نبوی میں مکی درسگاہیں:

اولین درس گاہ (دار ابو بکررضی اللہ عنہ)

 مکہ میں دعوت و ارشاد کا اولین مرکز سیدنا حضرت ابوبکرصدیق کا گھر تھا۔جو بیک وقت تعلیم گاہ اورمسجد کے بطوراستعمال کیاجاتاتھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ادارے میں نہ کوئی مستقل معلم مقرر تھا اور نہ کوئی باقاعدہ طالب علم تھا۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے یہ تعلیم و تربیت اور دینی مسائل سیکھنے کے لیے مکی دور کی اولین درس گاہ تھی اوریہیں سے تبلیغی خدمات انجام دی جاتی تھیں۔ جہاں عموماً آپ بآوازبلند قرآن کریم کی تلاوت فرماتے جسے سننے کے لئے کفارِ مکہ کے بچے و عورتیں ان کے ارد گرد جمع ہوجاتی ۔ جب وہ قرآن کے آفاقی پیغام کو سنتے تھے اور مائل بہ اسلام ہوتے تھے ۔

درس گاہ بیتِ فاطمہ

اسی طرح فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کا گھر بھی تبلیغی،دعوتی،دینی، اور تربیتی مرکز تھا۔ یہ حضرت عمر بن خطاب کی ہمشیرہ ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اپنے زوج سعید بن زید سمیت اسلام قبول کرلیا تھا۔ حضرت خباب بن الارت ان دونوں میاں بیوی کو ان کے گھر میں ہی قرآن کریم کی تعلیم دیتے ۔اس طرح ان کا گھر بھی ایک دینی درسگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کی تائید ابن اسحاق کے اس قول سے ہوتی ہے۔ جب ایک دن حضرت عمر رسول اللہﷺ کے قتل کے ارادے سے نکلے(نعوذباللہ)، راستے میں انہیں اپنی بہن اور بہنوئی کے اسلام لانے کی خبر ملی تو انتہائی غضب میں شمشیر ہاتھ میں لیے اپنی بہن کے مکان پر پہنچے تو ان کو قرآن کی تلاوت اور تعلیم میں مشغول پایا ابن اسحاق نے لکھاہے :

 وَعِنْدَھُمَا خباب بنُ الارْتِ مَعَہ صحیفة فیھا طہ یقرھما ایاھا؂[1]

”ان دونوں کے پاس خباب بن الارت تھے جن کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں سورہٴ طہ لکھی ہوئی تھی جو وہ ان دونوں کو پڑھا رہے تھے۔“

حضرت عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بہنوئی کے یہاں دو مسلمان مہمانوں کے کھانے کا انتظام کیا تھا، ایک خباب بن الارت اور دوسرے فردکا نام مجھے یاد نہیں۔ خباب بن الارت میری ہمشیرہ اور بہنوئی کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔؂[2]

حضرت عمر کا قول ہے کہ

 وکان القوم جُلوساً یقروٴن صحیفةً معہم؂[3]

”اور ایک جماعت بیٹھ کر صحیفہ پڑھ رہی تھی جوان کے پاس موجود تھا“

 حضرت فاطمہ بنت خطاب کے گھر کو بھی مکی دور میں قرآن مجید کی تعلیم و اشاعت کا مرکز کہا جاسکتا ہے جہاں کم از کم دو طالب علم اور ایک معلم تھا۔ اور اگر حضرت عمر کے قول میں لفظ ”قوم“پر غورکیاجائے تو یقیناً یہاں قرآن پڑھنے والی ایک پوری جماعت کا پتہ چلتا ہے۔

درس گاہِ شعب ابی طالب

شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی گھاٹی میں مسلمانوں کی تربیت فرماتے۔ شعب ابی طالب میں خاندانِ بنی ہاشم کے علاوہ بعض دیگر قبائل کے افراد کی موجودگی کے بھی اشارات ملتے ہیں۔ جیسا کہ سعد بن ابی وقاص اور حضرت عتبہ بن غزوان وغیرہ ۔ حضرت عتبہ نے ایک دفعہ خطبہٴ جمعہ میں ارشاد فرمایا:

”میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتواں مسلمان تھا اور ہمارے پاس کھانے کے لیے درختوں کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا، حتی کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں“؂[4]

درس گاہِ دارارقم

 حضرت ارقم بن ابی ارقم ابتدائی دور میں اسلام لانے والوں میں سے ہیں، حافظ ابن حجر نے بھی الاصابہ میں ابن سعد کے قول کو ہی اختیار کیا ہے؛ تاہم ابن الاثیرکے مطابق حضرت ارقم کا قبول اسلام میں دسواں یا بارہواں نمبر ہے۔؂[5]

 وَکَانَتْ دَارُہ عَلَی الصَّفاء؂[6]

 ”مکہ میں ان کا مکان کوہِ صفا کے اوپر تھا“۔

 دارِارقم جسے ”دارُالاسلام“ بھی کہاجاتاہے  کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔؂[7]

 

مکہ کاکافروں نے جب اسلام کوپھیلنے  سے  کسی طرح بھی نہ روک سکے تو انھوں نے ضعفاء اسلام پر ظلم وستم شروع کردیئے ۔کفار مکہ  رسول اللہﷺاور مسلمانوں کو کعبۃ اللہ میں آزادانہ نماز ادا کرنے ، ذکرِ الٰہی اور تلاوتِ قرآن  بزور طاقت و شمشیرروکنے لگے۔یہاں تک کہ مسلمانوں کے لیے محفوظ اور آزادانہ طور پر عبادت اور نماز کا ادا کرنا ناممکن ہوگیا ۔

ان سنگین حالات میں رسول اللہ ﷺمسلمانوں کو لے کر ”دارارقم“ میں پناہ گزیں ہوگئے۔جہاں مسلمان یکسوئی سے رب  کی عبادت اور دین اسلام کی تعلیم حاصل کرسکیں۔پھرجلد ہی ”دار ارقم“ دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔یہاں پر نہ صرف لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا جاتا تھا؛ بلکہ ان کی مناسب تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام  کیا جاتا تھا۔ابن سعد اسدالغابہ میں اس کی امر کی صراحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:

 ”رسول اللہ ﷺ ابتدائے اسلام میں اس مکان میں رہتے تھے، لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور بہت سے لوگ یہاں مشرف بہ اسلام ہوئے“۔؂[8]

امام طبری بھی مکی دور میں دارارقم کو دعوتی،تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیتے ہیں۔امام طبری رقم طرازہیں:

 وَکَانَتْ دَارُہ عَلَی الصَّفَا، وَھِيَ الدَّارُ الَّتِي کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَکُوْنُ فِیْہَا فِیْ أوَّلِ الاِسْلاَمِ وَفِیْہَا دَعَا النَّاسَ الیَ السَّلامِ فَأسْلَمَ فِیْہَا قَوْمٌ کَثِیْرٌ؂[9]

 ”حضرت ارقم کا گھر کوہِ صفا پر واقع تھا، آغازِ اسلام میں رسول اکرمﷺاسی گھر میں رہا کرتے تھے، یہیں آپ ﷺلوگوں کودعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور یہاں پر بہت سے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے“

دارارقم کو اسلام  کی اولین منظم درسگاہ کا خطاب دیا جاسکتاہے۔

عہد نبوی میں ریاست مدینہ کی درسگاہیں

مسجد زریق:

مدینہ منورہ کی مذکورہ بالاتینوں درسگاہوں میں بالاتفاق سب سے پہلے مسجد بنی زریعق میں قرآن پاک کی تعلیم ہوتی تھی۔ چونکہ رسول اکرم ﷺ کی آمد سے دوسال قبل ہی مدینہ منورہ میں اسلام کو قبولیت عام حاصل ہوئی تھی۔ اس لئے مدینہ میں کئی مساجد تھیں۔لیکن ان میں مسجد زریق کو اولیت اس لئے حاصل تھی کہ یہ ایک باقاعدہ درس گاہ تھی۔ یہ شہر مدینہ کے قلب میں واقع تھی۔ جس میں حضرت رافع بن مالک تعلیم دیتے تھے۔

حضرت رافع بن مالک کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنی زریعق سے تھا۔ آپ بیعہ عقبہ اولیٰ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھےا ور دس سال کی مدت میں جس قدر قرآن نازل ہواتھا وہ رسول اکرم ﷺ نے آپ کو عنات فرمایاتھا۔ جس میں سورہ یوسف بھی شامل تھی۔ آپ اپنے قبیلے کے نقیب  اورسردار تھے۔ آپ کا شمار مدینہ کے کاملین میں ہوتاتھا۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ انصارمیں سب سے پہلے آپ نے اسلام قبول کیاتھا۔؂[10]

 کہاجاتاہے کہ سب سے پہلے آپ نے اپنے قبیلے کے مسلمانوں  کوقرآن کی تعلیم پر آمادہ کیاتھا اورمحلہ میں ایک بلند چبوترہ پرتعلیم دینی شروع کی۔ مدینہ میں سب سے پہلے سورہ یوسف کی تعلیم بھی آپ ہی نے دی تھی۔ اس لئے آپ کو مدینے کا پہلا معلم سمجھاجاتاہے۔ بعد میں اسی چبوترے کی جگہ پر مسجد بنی زریق تعمیر ہوئی جو قلب شہر میں مصلی (مسجد غمامہ) کے قریب جنوب میں واقع تھی۔ رسول اکرم ﷺ جب مدینے تشریف لائے تو حضرت رافع کی دینی و تعلیمی خدمات دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس درسگاہ کے اکثر طلباء کا تعلق بنی زریق سے تھا۔؂[11]

درس گاہ زریق کا نصاب اس وقت تک نازل شدہ قرآن مجید کی تلاوت ،احکام نماز،احکام مسائل اوراحکام اخلاق پر مشتمل تھا۔؂[12]  

 

قرآن پاک کی بہ آواز بلند تلاوت کا آغاز بھی پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر مدینہ منور میں اسی درس گاہ سے ہواتھا۔؂[13]

درس گاہ قباء

اگرچہ موجودہ مسجد قبا کی بنیاد رسول اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد رکھی ہے۔ ؂[14]

تاہم مسجدبننے سے قبل یہاں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہوچکاتھا۔ کیونکہ بیعت عقبہ کے بعد بہت سے صحابہ کرام جن میں ضعفائے اسلام کی اکثریت تھی ،مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے یہاں آگئے تھے جو اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ ان صحابہ کرام میں حضرت سالم مولی ابوحذیفہ کا اسم گرامی اس لحاظ سے قابل ذکر ہے، کہ وہ ان میں قرآن کے سب سے بڑے عالم  تھے اور یہاں مقیم صحابہ کو تعلیم دینے کے علاوہ امامت کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ ان کا یہ تعلیمی سلسلہ رسول اکرم ﷺ کی آمد تک جاری رہا۔ یہاں حضرت ابوخیثمہ سعد بن خیثمہ کا مکان مہاجرین صحابہ کے لئے بطور ہاسٹل مستمل تھا۔ کیونکہ وہ اس وقت مجرد تھے۔ اوریہ مکان خالی تھا اس لئے مہاجر صحابہ کرام اس میں ٹھہرائے گئے۔ جن  میں کئی اکابر صحابہ کرام شامل  تھے۔ کتب سیرت میں اس مکان کو بیت الغراب اوربیت الاغراب کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔

یہاں مدرسہ قبا کے استاد اورشاگرد دونوں مہاجرین اولین تھے۔ جن کے ساتھ مقامی مسلمان بھی شریک تھے۔؂[15]

درس گاہ نقیع الخضمات

علماء اور محققین اسلام مدینہ میں نقیع الخضمات کو مسلمانوں کی تیسری درس گاہ قراردیتے ہیں، جو مدینے کے شمال میں تقریبا ایک میل کے فاصلے پر حضرت اسعد بن زرارہ کے مکان میں تھی۔

جو حرہ بنی بیاضہ میں واقع تھا۔ یہ آبادی بنوسلمہ کی بستی کے بعد نقیع الخضمات نامی علاقہ میں تھی۔ جو نہایت سرسبز و شاداب اورپرفضا علاقہ تھا۔ یہاں خضیمہ نام کی نرم و نازک اورخوش رنگ گھاس اگتی تھی۔ اسی طرف سے وادی عقیق میں سیلاب آتاتھا۔ بعد میں حضرت عمرفاروق نے یہاں جہاد کے گھوڑوں کی چراگاہ بنائی تھی۔

یہ درسگاہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پرکشش ہونے کے ساتھ اپنی جامعیت اور بیعت عقبہ میں اوربیعت کے بعد روسا مدینہ نے رسول اکرم ﷺ سے اس خواہش کا اظہارکیا تھا کہ مدینہ منورہ میں قرآن اوردینی تعلیم وتربیت کے لئے کسی معلم کو بھیجاجائے تورسول اکرم ﷺ نے ان کی خواہش پر مصعب بن عمیر کو مدینہ بھیجا۔

حضرت مصعب بن عمیر  کے بعد حضرت سعد بن العاص کی روانگی کا ذکرآتاہے۔ جو نہایت خوشنویس بھی اور درس و تدریس کے علاوہ لوگوں کواملاء کتابت بھی سکھاتے تھے۔ بعض روایتوں میں مصعب بن عمیر کے ساتھ ابن مکتوم کا اسم گرامی بھی ملتاہے۔لیکن بنیادی طور پر اس درس گاہ کے اصل روح رواں حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت اسعد بن زرارہ  ہی تھے۔

یہ دونوں حضرات درس و تدریس کے علاوہ اشاعت دین کی سرگرمیوں میں برابر کے شریک تھے۔ تاہم حضرت مصعب بن عمیر کو یہ فوقیت حاصل تھی کہ وہ اوس وخزرج دونوں کی امامت بھی کرتے تھے۔ کیونکہ قبائلی عصبیت اورسابقہ عداوت کی بناپر وہ ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھنے سے گریزاں تھے۔ ؂[16]

اورایک سال بعد جب وہ اہل مدینہ کے وفد کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں مکہ مکرمہ میں حاضر ہوئےتو ان کا لقب "مقری" یعنی معلم مشہور ہوچکاتھا۔

اس درس گاہ نے ہجرت نبوی سے قبل کس قدر خدمات سرانجام دی تھیں۔ اس کے بارے میں سیدنا براء بن عازب کا یہ بیان لائق توجہ ہے۔

یہ  درسگاہ کتاب و سنت کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ میں نے اسی میں تعلیم پائی۔پہلے یہاں قرآن مجید پڑھا۔ جب رسول اکرم ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تو اس وقت "سبح اسم ربک الاعلیٰ" کی سورتیں زیر درس تھیں۔؂[17]

یہ درس گاہ اس لحاظ سے بھی مقدم تھی، کہ یہ صرف ایک مدرسہ ہی نہیں بلکہ  ایک مرکزاسلامی بھی تھا۔ جہاں اوس و خزرج اوردیگر ضمنی قبائل کے افراد بلاتامل شریک درس اورنماز ہواکرتے تھے۔ حالانکہ جنگ بعاث کے زخم ابھی ہرے تھے۔ ان دونوں قبائل مدینہ میں ایک طرح کھنچاؤ موجود تھا، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے ہاں آمدورفت میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے  تھے۔ مگر یہاں وہ سب مل کر ایک امام کی امامت میں نماز کا فریضہ اداکرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے دلوں کی کدورت آہستہ آہستہ دورہوتی گئی اورغالبا اسی مصلحت کے تحت جمعہ کی فرضیت سے پہلے  مدینہ میں جمعہ قائم کیاگیا۔

اس دینی درسگاہ اور مرکز اسلامی کی وجہ سے مدینہ کے یہودیوں کے دینی اورعلمی مرکز بیت المدارس کی حیثیت ماند پڑگئی۔اوس و خزرج اس سے بے نیاز ہوکر اس مرکز سے وابستہ ہوگئے اور مزید یہود کے دست نگر نہ رہے۔

اگرچہ علماء کرام نے درس گاہ نقی الخضمات کومدینہ کی تیسری درسگاہ قراردے دیا ہے۔ لیکن اگر وقعی نظر سے دیکھا جائے تو صحیح معنوں میں دارارقم کے بعد درس گاہ نقیع الخضمات ہی دوسری درس گاہ قرار دی جاسکتی ہے۔ جہاں رسول اکرم ﷺ کے فرستادہ نہ صرف معلم کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ بلکہ مدینہ میں اتفاق و اتحاد کے علامت بھی تھے۔ جب کہ بقیہ دونوں درس گاہیں ایک حد تک قبائل کی ذاتی ملکیت تھیںَ جس کی وجہ سے دوسرے قبائل کے افراد وہاں اس قدر اپنائیت سے جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ جس طرح وہ یہاں آتے تھے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کی طرف سے مدینہ میں قائم کیاجانے والا یہ پہلا مدرسہ ہے۔

ان تینوں مدارس کے علاوہ جب مدینہ میں اسلام کی روشنی پھیلی، تو مختلف محلوں میں اور مساجد بھی بنیں ان مساجد میں بھی درس و تدرس کا سلسلہ چل نکلا، جہاں امام مسجد تعلیم دیا کرتے تھے۔ لیکن ہجرت نبوی کے بعد جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی جس میں مرکزی درس گاہ کا قیام عمل میں آیاتو مدینہ کی چھوٹی بڑی سب درس گاہیں اس مرکز سے متعلق ہوگئیں۔؂[18]

مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد مسلمانوں کی مرکزی درسگاہ کا اجرا ہوا جو مجلس اور حلقہ کے نام سے یاد کی جاتی تھی۔ رسول اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد ستون ابو لبابہ  کے پاس تشریف لاتے۔ جہاں پہلے سے ضعفاو مساکین صحابہ کرام اورباہر سے آنے والے افراد حلقہ بناکر اصحاب کی ایک جماعت  بھی تھی۔ جنہوں نے دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کیں تھیں۔ ان کے اپنے کاروبار اوردنیاوی مشاغل نہ تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے ان اصحاب صفہ کے لئے مسجد نبوی کا ایک گوشہ مختص فرمایا تھا جو تاریخ میں صفہ کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔

صفہ کے معنی چبوترہ ،پلیٹ فارم ،ڈائس وغیرہ کے لئے جاسکتے ہیں۔یہ مقام رسول اکرم ﷺ نے اس غرض سے مخصوص کیا کہ دن کو یہ درس گاہ کا کام دے اوررات کو ان نادار لوگوں کے لئے جن کی رہائش کا اپنا انتظام نہیں ، سونے کا کام  دے، صفہ کب بنایاگیا۔اس کے بارے میں ممتاز سیرت نگار ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری لکھتے ہیں:

جب بیت المقدس کے بجائے کعبۃ مشرفہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنایاگیا جو کہ ہجرت  نبوی ﷺ کے سولہ مہینے بعد کا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے قبلہ کی دیوار مسجد نبوی کے آخر میں موجود تھی چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے ہدایت کی کہ اس پر سایہ کردیاجائے یا چھت بنادی جائے۔ لہذا اس پر صفہ یا ظلہ کے نام کا اطلاق کیاگیا۔ البتہ اس کی اطراف کو ڈھانپنے والی کوئی چیز نہ تھی۔ اسے تین اطراف سے کھلارکھاگیا۔

صفہ کا رقبہ معلوم نہیں لیکن ظاہرہوتا ہے کہ س میں ایک بڑی تعداد سماسکتی تھی۔ حتی کہ نبی اکرم ﷺ نے اسے ایک ایسے ولیمے کے لئے بھی استعمال فرمایا۔ جس میں تین سو افراد شامل تھے۔  اگرچہ ان میں سے کچھ افراد مسجد سے ملحقہ ازواج مطہرات کے حجروں میں سے کسی ایک حجرے میں بھی بیٹحے ہوئے تھے۔؂[19]

اس سے معلوم ہوتاہے کہ صفہ نہ صرف بطور اقامت گاہ اور  مدرسے کے طور پر استعمال ہوتاتھا بلکہ بعض وقتی ضروریات کے لئے بھی کام میں لایاجاتاتھا۔؂[20]

صفہ کے مکین

صفہ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے مہاجرین تھے۔ اس لئے اسے "صفہ المہاجرین" بھی کہا جاتاتھا۔ مگرمہاجرین کے علاوہ انصار مقامی ،بیرونی قبائل کے وجود اوراجنبی  مسلمان مسافر بھی یہاں ٹھہرائے جاتے تھے۔جہاں ان کی رہائش کے علاوہ تعلیم و تربیت بھی مقصود ہوتی تھی۔ ان میں عالم،جاہل ،بدوی،عربی،عجمی،جوان،بچے سب ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ سب کے احوال اورافتاد طبع کے مطابق درس دیتے تھے یہاں دن رات تعلیم و تعلم ذکر و اذکار ،تلاوت قرآن اورباہمی مذاکرے کا عمل دن رات جاری رہتا تھا۔ کیونکہ صفہ میں قرآن پاک کے علاوہ سنت نبوی کو یاد کرنے اورسے پھیلانے کا خاص خیال  رکھاجاتا تھا۔

اصحاب صفہ کی تعداد عام حالات میں ساٹھ ستر کے درمیان ہواکرتی تھی، مگر ان کی تعداد گھٹتی اوربڑھتی تھی۔ جب کبھی مدینے کے باہر سے وجود آتے تو ان کی تعداد بڑھ جایاکرتی تھی۔ اس لئے بعض  علماء نے ان کی مجموعی تعداد چارسو تک بیان کی ہے۔

صفہ چبوترے کے طالب علموں کو اصحاب صفہ بھی کہتے تھے۔اس وقت کی اصطلاح میں ان طالبان علم کو قراہ کہتے تھے۔ "اصحاب الصفہ کو جو تعلیم دی جاتی تھی اس میں لکھنا بھی شامل تھا۔؂[21] اس ادارے  کو اسلام کی پہلی یونیورسٹی سے موسوم کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

 اصحاب صفہ تنگ دست، اور دنیاوی اعتبار سے مشکلات و مصائب کا شکار تھے۔ جیسا کے صحیح بخاری کی اس روایت سے علم ہوتا ہے:

كَانَ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ الفُقَرَاءَ۔؂[22]

اصحاب الصفہ فقراء تھے۔

ان افراد کی گزر بسر بھی بہت مشکل تھی۔ جب ایک بار اصحاب صفہ مشکلات ومصائب کی بناء بر کچھ آزردہ خاطر ہوئے تو حضور ﷺ نے ان کی دلجوئی کرتے ہوئے ان کے اخروی مراتب کا اظہار کچھ ان الفاظ مبارک میں فرمایا :

لَوْ تَعْلَمُونَ مَا لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ، لَأَحْبَبْتُمْ أَنْ تَزْدَادُوا فَاقَةً وَحَاجَةً؂[23]

اگر تمہیں علم ہوجائے کے اللہ رب العزت کے ہاں تمہاری کیا قدر ومنزلت ہے تم اس فقر و حاجت کو اوراچھا جانو گے۔

پھر تاریخ انسانی نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ اس بظاہر مادی اسباب سے عاری عظیم درس گاہ سے تعلیم و تربیت پانے والوں نے نہ صرف شرق وغرب میں علم کا نور پھیلایا بلکہ اس دنیا کی امامت ،قیادت اورسیادت بھی ان ہی بلند پایہ افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی۔

مسجدِ نبوی سے علمی درس گاہ کی ابتداء ہونے کے بعد اسلای دنیا میں تعلیم و تربیت کے ادارے تسلسل سے قائم ہوتے رہے۔اوران اداروں نے مسجدِ نبوی سے علمی درس گاہ صفہ یونیورسٹی اس شمس العلوم کی روایت کو جاری رکھا ۔اور اُمتِ مسلمہ تعلیم و تربیت سے ان اداروں کی مرہون منت فیض پاتی رہی اور علم سے بہرہ مند ہوتی رہی ۔ یہ وہ دور تھا جب تحصیل علم کے لئے دینی و دنیاوی تعلیم کی تقسیم و تفریق نہیں تھی۔اسی لئے ان مدارسِ علمیہ نے بیک وقت عظیم دینی اسکالرز،محدثین،مفسرین،فقہاء، عظیم سائنسدان،عظیم اطباء(ڈاکٹرز)،ماہر افلاک و طبیعات(Physics) اوردیگرعلوم وفنون میں ماہرویکتائے روزگار افراد پیدا کئے۔

 تاریخی پس منظر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کو علم کے نور ، اقتصادی نمو اور تکنیکی مہارتوں سے مالا مال کر دیا تھا۔ یہی اصحاب علم و فن تھے جن کے پاس ایک طرف یونانی علوم و فنون پر دسترس تھی تو دوسری طرف قرآن کریم میں غوطہ زن تھے جو تمام علوم کا منبع اور سرچشمہ ہدایت ہے۔ جدید و قدیم علوم کے حسین امتزاج کے باعث انہوں نے جدید سائنسز متعارف کروائیں۔ وہ ترقی، خوشحالی اور روشنی کے عظیم مینار تھے۔ ان مدارس سے جابر بن حیان جیسے عظیم سائنس دان، امام غزالی جیسے فلاسفرز، امام جلال الدین سیوطی اور ابن العربی جیسے متصوف اور بو علی سینا جیسے عظیم ڈاکٹرز پیدا ہوئے۔ آنکھوں کو چندیا دینے والی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی جس پر آج جدید انسانی تہذیب کو فخر ہے، یہ اہلِ یورپ نے مسلمانوں سے ورثہ میں لی اور اس میں مزید ترقیاں کیں۔ آکسفورڈ ، کیمبرج،ہارورڈ، یونیورسٹیاں جو عالمی تعلیمی نظام میں آج نمایاں مقام رکھتی ہیں اگر غورکیا جائے تو انہیں مسلمانوں کے شاندار علمی عروج کے دور میں الازہر اور الزیتونہ یونیورسٹی کی طرز پر بنایا گیا تھا۔

لیکن برصغیر پاک و ہند میں انگریزسامراج کے آجانے کے بعد تعلیمی نظام دوبڑے طبقات میں منقسم ہوگیا۔ جس کی بعد میں اورکئی شاخیں ہوگئیں۔ بالخصوص جب لارڈ میکالے (Lord Macaulay)نے ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جس میں مسلمانوں کی نئی نسل کو ذہنی لحاظ سے انگریز کا غلام بنانے اور نوآبادیاتی برطانوی سامراج کے لئے کلرکوں کی کھیپ تیار کرنا مقصد تھا ۔ایک نئی چیز "تعلیم عامہ" تھی جو برطانوی سامراج نے متعارف کرائی ۔ پہلے ہمارے معاشروں میں اس کا کوئی وجود نہیں تھااور جسے کہا جاتا ہے۔ برطانوی سامراج سے قبل ہندوستان میں ”تعلیم“ تو تھی، ”تعلیم عامہ“ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس کا سادہ مطلب ہے تعلیم کو جدید ریاست کی سیاسی اور معاشی ترجیحات کے تابع اور سپرد کر دینا۔ دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے فوراً بعد ایک مدرسے ہی کو دہلی عربی کالج یا قدیم دہلی کالج بنایا گیا تھا۔ یہی معاملہ ہندوؤں کے اداروں کے ساتھ بھی پیش آیا۔ استعماری قبضے کے بعد ان اداروں میں جو مسائل سامنے آنا شروع ہوئے، وہ بنیادی طور پر ”تعلیم“ اور ”تعلیم عامہ“ کی باہم آویزش سے پیدا ہوئے تھے۔لارڈ میکالے کا مطلب یہ تھا کہ اگر ریاست پیسہ دے گی، تو تعلیم مکمل طور پر ریاست کی ترجیحات پر طے ہو گی، یہاں تک کہ علم کا معنی، تعلیمی طریقۂ کار اور اس کے مشمولات، اور تعلیم کے مقاصد بھی ریاست ہی طے کرے گی۔ لارڈ میکالے کے مطابق جو علم کوڑی کا بھی نہیں اس کو ان ”اداروں“ میں کیوں جگہ دی جائے، اور ریاست اپنے معاشی وسائل ان پر کیوں خرچ کرے؟ اپنی تعلیمی پالیسی کو جواز دینے کے لیے استعماری ریاست کے اس نمائندے نے مقامی علوم کی تحقیر، تنقیص اور تذلیل سے اس تعلیم کے حصول میں ہرممکن رکاوٹیں پیدا کیں اور اپنے زعم باطل میں انہیں بیک جنبش قلم یکسر مسترد کردیا ، یعنی ان علوم کا تعین یا رد کسی علمی طریقۂ کار پر مبنی نہیں تھا بلکہ ایک استعماری فرمان تھا۔ میکالے کی بنیادی دلیل معاشی اور سائنسی تھی۔ اس کی یہ دلیل مقامی لوگوں نے بہ جبر و اکراہ تسلیم کر لی، اور آج تک اسی پر کاربند ہیں۔ لیکن وہ ابھی تک اس کی معنویت کو نہیں سمجھ سکے۔ میکالے کی معاشی اور سائنسی دلیل آج کل ”عصری تقاضوں“ کے نقاب میں ظاہر ہوتی ہے۔برطانوی سامراج کے بعد یہی پالیسی ہمارے حکمرانوں نے بھی اپنائی ۔میکالے کے بعد تعلیم عامہ کے اثرات ہمارے مذہبی مدارس پر بھی بہت گہرے مرتب ہوئے، اور ان کا طریقۂ کار بھی تعلیم عامہ کے ماڈل پر بتدریج ڈھلنے لگا اور جس میں سیاست بازی اور فرقہ پرستی جزو لاینفک کے طور پر شامل رہی۔ میکالے نے ہمارے علوم کو کئی اور دلائل سے بھی رد کیا۔ ہم نے اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے علوم کو عملاً ناکارہ اور ردی ثابت کرنے میں بھرپور تعاون کیا ہے۔

تعلیم وتربیت کا عمل بہت ہی ذی شان وافتخار ہے۔ اور یہ اخلاص ،للہیت ،محبت،شفقت اورلیاقت و صلاحیت کا متقاضی وطلب گارہے ۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جناب سے انبیاء ورسل علیہم السلام والتسلیم پر عائد کی گئی۔ارشاد باری تعالیٰ  ہے:

 هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّيِّيْنَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو علَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ ؂[24]

اللہ ہی کی ذات ہے جس نے امیوں میں ایک رسول انھیں میں سے مبعوث فرمایا،جو ان پر اس کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے،ان کا تزکےۂ نفس کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے ، اگرچہ وہ اس سے قبل کھلی ہوئی ضلالت وگمراہی میں تھے۔

مزید یہ کہ تعلیم و تربیت کا کام کرنے والے مخلص معلّمین و اساتذہ انبیاء علیہم السلام کے وارث اور نائب ہیں،جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد  ہے:

الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ ؂[25]

علماء انبیاء کے وارث ہیں۔

 لیکن صد افسوس! آج ہمارے اذہان میں اسلامی نظام تعلیم کا جو تصورپایا جاتا ہے وہ غیر واضح ،پیچیدہ اورغیرحقیقت پسندانہ ہے ۔ اس تصور کے دُھندلے پن کی کئی وجوہ ہیں۔ ان وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہماری عملی زندگی میں اس نظام تعلیم کی عملی تعبیر کا نظر نہ آنا ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک موجودہ مدارس ہی اسلامی نظام تعلیم کے عکاس ہیں۔ جہاں ایسا نظام تعلیم ہے جس سے گزرنے والے تعلیم و تربیت سے کورے ہوں، جہاں بلا کسی جرم طلباء پر تشدد کیا جاتاہو، ایسا نظام تعلیم جس کا محور استاد ہو،جہاں قول و فعل میں تضاد ہو۔جو افراداس نظام تعلیم کا حصہ ہیں یا یہاں سے سے تربیت پاکر نکل رہے ہیں ان کا کوئی مصرف اس کے سوا نہ ہو کہ وہ مساجد میں امامت یا مدارس میں حفظ ،ناظرہ یا کچھ کتابیں پڑھاسکیں، یا خطابت و نقابت کا پیشہ اختیار کریں اور معاشرے میں مذہبی ومسلکی جھگڑے پیداکریں تاکہ جہال کا ایک گروہ ان کے تابع فرمان ہوجائے اوریوں ان کی روزی روٹی کے اسباب مہیا ہوتے رہیں۔

دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری تمام تر توجہ صرف جزیات اور ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہوتی ہے۔وہ اپنے ذہن میں موجود تصور کو عین اسلامی نظام سمجھتے ہیں اور اس ہی کے حصول کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ کتنے ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو اپنے ادارے کے قیام کے موقع پر مقاصد طے کرتے ہوئے اسلام،اس کی نشرواشاعت،ثقافتی و تہذیبی اقدار جیسی اصطلاحات و علامات کا استعمال تو کرتے ہیں۔اوران اصطلاحات کو اپنے ادارے کی نمایا ں خصوصیات سمجھتے اور اس کا چرچا کرتے ہیں، لیکن ان اصطلاحات کے حقیقی معانی ،مطالب،مفاہیم، تقاضے ،حکمت عملی،اور مضمرات بلکہ اکثر اس کی روح سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں۔ان افراد کے قائم کئے گئے جو بظاہر اسلامی نظام تربیت کو بنیاد بنائے ہوئے ہوتے ہیں نہ صرف اس نظام سے یکسر عاری ہوتے ہیں بلکہ دوسری جانب یہ معاشرے کے ان عناصر کے عملی طور پر پشت پناہ بن جاتے جنہوں نے تعلیم کوکمرشلائز کردیاہے۔ اسی طرز فکر کی اہم اصطلاح کسٹمر (گاہک)ہے۔ ان کے یہاں طالبعلم ایک کسٹمر اوراستاد ایک ایمپلائے یا ملازم ہے۔ اورلامحالہ کسٹمر تاجر کی پہلی ترجیح ہے اور اس کا ملازم خواہ حق پر ہی کیوں نہ ہو وہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ یہ جملہ معروف ہے کہ ’’کسٹمر (گاہک)سب سے پہلے‘‘ (Customer Comes First) ۔

بہرحال اول الذکر و موخر الذکر یہ دونوں طبقات ان اصحابِ علم وفن کے لئے بھی غیر مرئی رکاوٹیں اور مسائل پیدا کردیتے ہیں جواسلامی نظام تعلیم کی اصطلاحات کی گہرائی وگیرائی کا علم رکھتے ہیں اوراخلاص کے ساتھ ان کی تنفیذ بھی چاہتے ہیں۔اور یوں یہ دینی و دنیاوی تعلیم کے علمبردار سرمایہ دارانہ نظام کے پیادے و غلام رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں ۔ جن وجوہات کی بناء پر یہ اہل و باکردار اصحاب علم و فن بھی اس معاشرے میں کامیاب حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہتے ہیں اوراسلامی معاشرہ اس نظام تعلیم کی خیروبرکات سے محروم رہتاہے۔

بہرکیف ذیل میں ہم اسلامی نظام تعلیم کی ابتداء ،ڈھانچہ اورخدوخال ذکرکرتے ہیں۔

عہد نبوی ﷺ نظام تعلیم اور تربیت کا تسلسل

عہد نبوی ﷺ میں ابتداء قرآن کریم  کا جو حصہ نازل وہ سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات پر مشتمل تھا۔ اس حصے میں اہل ایمان، اہل کفر اور منافقین کی صفات بیان کی گئی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے کردار و اطوار کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ بالخصوص یہود کی جبلت و حقیقت کو نہایت وضاحت سے زیر بحث لایا گیا ہے،  اس لئے کہ اسلامی دعوت مدینہ پہنچی تو سب سے پہلے یہی گروہ اُس کی دشمنی کے درپے ہوا تھا۔

یہ امرقابل لحاظ ہے کہ سورۂ بقرہ نے جو مدنی دور کے اوائل میں نازل ہوئی تھی، سب لوگوں کو دین الٰہی کی طرف آنے اور عبادت الٰہی کی طرف متوجہ ہونے کی دعوت دی تھی۔

چنانچہ ارشاد ہوا:

يٰٓـاَ يُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (21) اَلَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّـٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ ؂[26]

اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ۔جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل نکالے، سو کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ حالانکہ تم جانتے بھی ہو۔

عہد مدنی میں نازل ہونے والی آیات قرآنی نے مسلمانوں کو انتباہ کیا تھا کہ وہ منافقین کی صفات نہ اپنائیں۔ ان آیات نے نئے اسلامی معاشرے اور نو آموز اسلامی ریاست کے لئے نفاق کی سنگینی کو نہایت وضاحت سے بیان کیا تھا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے کے خلاف تحریکِ نفاق کا آغاز عہد مدنی ہی میں ہوا تھا۔ مکہ میں مسلمان ایسی پوزیشن میں نہیں تھے اور نہ وہاں اُنہیں اتنا اثر و رسوخ حاصل تھاکہ کسی گروہ کو اُن کے دباؤ میں آکر چاپلوسی یا خوشامد کرنے اور بظاہر اسلام قبول کر لینے کی ضرورت پیش آتی ۔

ان آیات میں منافقین کے اوصاف ، حالات و کردار اور اُن کے نقطہ ہائے نظر پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔عہد مدنی کی کوئی متوسط اور طویل سورت ان کے تذکرے سے خالی نہیں ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ منافقین کی سرگرمیاں تقریباً پورے مدنی دور میں جاری رہیں، اگر چہ عہد مدنی کے آخر نصف میں اُن کا جوش ماند پڑگیا تھا۔ 

عہد مدنی میں نازل شدہ آیات قرآنی کے موضوعات اور تعلیم کا تسلسل

عہد مدنی میں نازل شدہ آیات قرآنی نے جن معاملات کو موضوع بحث بنایا ان میں عظمت الٰہی، حقیقت کائنات اور ترغیب وترہیب کے مضامین شامل ہیں۔ تربیت امت اور ریاست کے لوازم کی تکمیل کے لئے قانون سازی بھی اسی مرحلے میں کی گئی تھی۔

جوں جوں ، دعوت و تبلیغ، تعمیر معاشرہ اور تاسیس ریاستِ اسلامی کے مراھل طے ہوتے رہے ، امت مسلمہ اپنے علمی سفر میں بھی نئی نئی منزلوں سے روشناس ہوتی رہی۔

قرآن کریم نے تحصیل علم پر زور دیا اور اس راہ میں تگ و دو کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بیشتر احادیث میں حصول علم کی ترغیب دلائی ہے ۔کتبِ حدیث میں بھی علم کے فضائل کے متعلق علیحدہ طور پر ابواب قائم کئے گئے ہیں۔

امت مسلمہ نے اس حقیقت کو باور کیا تھا کہ اقوام عالم میں نمایا مقام اور خطے میں بالادستی حاصل کرنے کے لئے علم کا حصول ناگزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کے زما م اقتدار جاہل اور علم و ہنر کے اعتبار سے پس ماندہ قوموں کے ہاتھ میں نہیں دیتا۔ 

عہد نبوی ﷺ میں حصول علم پر بعض آیات قرآنیہ

قرآن کریم کی بیشتر آیات میں حصول علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اُس نے کفر کے مقابلے میں علم کو پیش کیا ہے ۔ کفر جو جہالت اور گمراہی کا دوسرا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الَّـذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّـذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۗ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِ  ؂[27]

کہہ دو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں۔

علم ہی وہ واحد شے ہے جس کے متعلق رب تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اُس میں اضافے کی دعا کیا کریںَ 

ارشاد فرمایا:

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِىْ عِلْمًا  ؂[28]

اور کہہ اے میرے رب مجھے اور زیادہ علم دے۔

حضرت آدم علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے جن خصوصیات سے نوازا اور ممتاز کیا تھا اُن میں علم کی خصوصیت سر فہرست ہے ۔ ارشاد فرمایا:

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْـمَآءَ كُلَّهَا ثُـمَّ عَرَضَهُـمْ عَلَى الْمَلَآئِكَـةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِىْ بِاَسْـمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ ؂[29]

اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔

عہد نبوی کے نظام تعلیم میں طریقہ تدریس:

نبوی  تعلیم وتربیت نسخہ کیمیاء کی حیثیت رکھتی ہے جو کہ ہر دور میں عوم و خواص کے لئے مشعل راہ  ہے۔  نے اپنے مخصوص انداز میں صحابۂ کرام کی تعلیم و تربیت جاری رکھی۔ آپ انہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف دلاتے، مکارمِ اخلاق پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے، احکام شریعت کی تشریح بتاتے اور مبادیاتِ اسلامی کی وضاحت فرماتے تھے۔ صحابۂ کرام کی بہتر تعلیم و تربیت کے سلسلے میں آپﷺ ابلاغ کے مختلف و سائل وذرائع استعمال میں لاتے تھے۔

اساتذہ کرام کا طلباء کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا سنت نبوی ﷺ:

صحابہ کرام کی تربیت کے حوالے سے آپ ﷺ کا اندا ز تعلیم یہ تھا کہ  آپ جب بھی کوئی اہم بات یا مثال پیش کرنا چاہتے تو ان کی تمام ترتوجہ اپنی جانب مبذول کروالیتے۔ جس سے آپ ﷺکی  کہی بات ان کے اذہان میں جاگزیں اورنقش  ہوجاتی تھی۔جدید علم نفسیات اور تعلیمی نفسیات کی رو سے یہ ایک اہم قاعدہ ہے کہ جب طلباء یکسو ہو کر متوجہ ہوں گے تو وہ نکتہ نہ صرف ان کے اذہان میں جاگزیں ہوجائے گا بلکہ اس طور یاد کی ہوئی بات دیرپا بھی ہوتی ہے۔

نظام تعلیم میں مذکورہ  تعلیم وتربیت کی بہترین مثال وہ واقعہ ہے جسے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے وہ بتاتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ بالائی راستے سے ہوتے ہوئے بازار سے گزرے ۔آپﷺ کے ساتھ صحابہ کرام بھی تھے ۔ چلتے چلتےچھوٹے چھوٹے کانوں والے بکری کے ایک مردہ بچے پر نظر پڑی تو ٹھہرگئے ۔ آگے بڑھ کر اسے کان سے پکڑا اور پوچھا ’’اَیُّکم یحبّ ان ھذا لہ بدر ھم‘‘آپ میں سے کون پسند کرے گا کہ یہ مردار اسے ایک درہم میں مل جائے ؟

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: ’’ہم اسے کسی بھی شے کے عوض نہیں لینا چاہیں گے ۔ ہم اس کا کریں گے کیا؟

آپ ﷺ نے دریافت کیا :’’اَتُحِبُّون انّہ لکم‘‘کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ یہ مردار آپ کا ہو؟

اصحاب النبی کہنے لگے ’’یہ زندہ بھی ہو تو اس میں عیب ہے کہ کان چھوٹے چھوٹے ہیں۔ اب تو یہ مردہ ہے ۔ اس حالت میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘

رسول اللہ ﷺنے فرمایا’’ فواللہ !الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِا عَلَىکم

اللہ کی قسم ! یہ مردار آپ کے نزدیک جتنا بے وقعت ہے اُس سے کہیں زیادہ ہمارے نزدیک بے وقعت ہے ‘‘؂[30]

طلباء کو موضوع کی تفہیم کے لئے تمثیل پیش کرنا

نظام تعلیم میں کسی بھی مضمون کے اندر خواہ وہ سائنسی علوم ہوں اوران کا تعلق فزکس،کیمسٹری یا بائیولوجی سے یا ان کا تعلق سوشل سائنسز سے موضوعات اورعلمی نکات کو دل میں اتار نے کےلئے مثال بیان کرنے کی بڑی عجیب تاثیر کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مثال غیر محسوس کو محسوس شکل میں پیش کرتی اور موجودہ صورتحال سے اُس کا ربط قائم کر کے اسے ذہن کے قریب لے آتی ہے۔ مثال کی گوناگوں صورتوں میں ایسی زبردست بلاغت پائی جاتی ہے جو دلوں کے تار چھیڑتی اور عقلکو لبھاتی ہے ۔ بالخصوص عرب کی فصاحت و بلاغت جن کے گھر کی لونڈی تھی، تفہیم کا یہ طریق کار اُن کے دلوں میں براہ راست اثر انداز ہوتا تھا۔ یہی باعث ہے کہ قرآن کریم نے مثال بیانی کے اسلوب کو جا بجا استعمال کیا ہے اور کئی آیات میں اس طرز بیان کی حکمت پر بھی روشنی ڈالی ہے ، چنانچہ فرمایا:

وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُـهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُـهَآ اِلَّا الْعَالِمُوْنَ ؂[31]

اور یہ مثالیں ہیں جنہیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں، اور انہیں وہی سمجھتے ہیں جو علم والے ہیں۔

وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُـهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُـمْ يَتَفَكَّـرُوْنَ  ؂[32]

اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔

رسول اللہ ﷺ نے یہی دلکش پیراہ بیان اختیار کیا اور جا بجا ضرب الامثال سے کام لیا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’میں نے ایک ہزار ضرب الامثال رسول اللہ ﷺسے سُن کر یاد کیں‘‘۔(۲) مناھج و آداب 

احادیث نبویہ میں جو ضرب الامثال استعمال ہوئی ہیں ان پر کئی کتب لکھی گئی ہیں ۔ ان میں قدیم ترین کتاب ’’امثال الحدیث ‘‘ کے نام سے ہے جسے قاضی ابو محمد حسن ابن عبد الرحمن بن خلا ور امہر مزی (متوفی ۳۶۰ھ) نے تالیف کیا تھا۔

امام ترمذی نقل فرماتے ہیں:

عن ابی بکر بن عبیداللہ بن انس بن مالک قال؛قال رسول اللہ ﷺ من عال جاریتین ودخلت انا و ھو الجنۃ کھاتین واشار باصبعہ۔ ؂[33]

جس نے دوبیٹیوں کی پرورش کی میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے ۔آپ ﷺ نے اپنی دوانگلیوں سے اشارہ فرمایا۔

عن سھل بن سعد قال:قال رسول اللہ ﷺ انا وکافل الیتیم فی الجنۃ کھاتین،واشار باصبعہ۔یعنی السبابۃ والوسطیٰ۔

قال ابوعیسی ھذا حدیث حسن صحیح۔؂[34]

یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا۔آپ ﷺ نے اپنی دوانگلیوں (شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی) سے اشارہ فرمایا ۔

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال؛ ارایتم لوان نھرا بباب  احدکم یغتسل فیہ کل یوم خمسۃ مرات ھل یبقی من درنہ شیئ۔ قال فذلک مثل صلوٰت الخمس۔یمحواللہ  الخطایا۔وقال ابوعیسیٰ ھذا حدیث حسن صحیح؂[35]

عن ابی ھریرۃ قال ؛قال رسول اللہ ﷺ مثل المومن کمثل الزرع  لاتزال الریاح تفیئہ ولایزال المومن یصیبہ بلاء ،ومثل المنافق کمثل شجرۃ الارز لا تھتز حتی تستحصد ۔ھذا حدیث حسن صحیح۔؂[36]

حضور ﷺ کا سوالات کی  مختلف اقسام کو اپنانا

عہد جدید میں ماہرین تعلیم اساتذہ  کا طلباء کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لئے سوالات کی مختلف اقسام بیان کرتے ہیں ۔ جن میں بعض سوالات گزشتہ سبق کے اعادے کے لئے پوچھے جاتے ہیں ،بعض آزمائش کے لئے اور بعض طلباء کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کروانے کے لئے ہوتے ہیں۔

مختلف انداز سے مختلف سوالات کو بیان  آزمائشی سوال کرنا تعلیم و تربیت کے اہم ترین وسائل میں شامل ہے ۔ اس طریق کار کے ذریعے سے استاد اور طالب علم کے درمیان گہرا تعلق استوار ہونے میں مدد ملتی ہے ، طالب علم کا ذہن کھلتا ہے اسے یکسوئی میسر آتی ہے اور وہ ذہنی طور پر ہوشیار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ صحابۂ کرام کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں آزمائشی سوال و جواب کی متعدد صورتیں استعمال میں لاتے تھے۔ جب ہم حضور ﷺ کے انداز  تربیت کامطالعہ کرتے ہیں یہ جدید نفسیات کے اصول آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں آج سے چودہ سو برس قبل بھی ملتے ہیں جن پر جدید نفسیات آج ناز کرتی ہے۔

کسی موضوع کی اہمیت بیان کرنے کے لئے نبوی طریقہ سوال

بعض اوقات سوال کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ کسی کام کی ترغیب دلائی جائے اور عمان توجہ اُس جانب موڑ دی جائے۔ اس صورت میں سوال کا آغاز عام طور پر الّا کے کلمۂ تنبیہ سے ہوتا تھا۔امام مسلم نقل فرماتے ہیں :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نے صحابۂ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا۔

أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟ ؂[37]

میں آپ کو ایسے عمل نہ بتاؤں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ خطائیں مٹاتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے؟

صحابۂ کرامﷺ نے جواب دیا’’ضرور بتائیے۔ اے اللہ کے رسول! ‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ ؂[38]

’’تنگی اور مشقت میں کامل وضو کرنا، مساجد کی طرف زیادہ سے زیادہ چل کر آنا جانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا، یہی ( نفس کی ) پہریداری ہے ‘‘

موضوع پر توجہ مبذول کروانے کے لئے نبوی طریقہ سوال

بعض دفعہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام سے ایسا سوال کرتے تھے جس کے متعلق آپﷺ کو علم ہوتا تھا کہ صحابۂ کرام اس کا جواب نہیں جانتے اور وہ یہی کہیں گے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ لیکن ان کی ترغیب  کی خاطر  یا اس سے بھی آپ کی غرض یہی ہوتی تھی کہ صحابۂ کرام کا دھیان اس موضوع کی طرف ہو اور وہ اُس کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں۔ 

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟

صحابہ نے جواب دیا:"ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس مال و دولت اور ساز و سامان نہ ہو۔"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ ؂[39]

’’ میری امت میں سے مفلس ہو ہے جو روز قیامت نماز ، روزقیامت نماز، روزوں اور زکوۃ کا سرمایہ لئے آئے گا لیکن اُس نے کسی کو گالی دی ہوگی تو کسی پر الزام تراشی کی ہوگی، کسی کا مال ہتھیا یا ہوگا تو کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو زووکوب کیا ہوگا۔ اب (مظلوم افراد میں سے ) ہر ایک کو اُس (ظالم) کی نیکیوں میں سے حصہ دیا جائے گا۔ لوگوں کا حساب چکانے سے پیشتر اگر اُس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو لوگوں کی خطائیں اپس (ظالم) پر ڈال دی جائیں گی۔ بعد ازاں اسے آگ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ‘‘

طلباء کی ستائش وحوصلہ افزائی کے لئے نبوی طریقہ سوال

کبھی یوں بھی ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ سوال سامنے رکھتے اور صحابۂ کرام میں سے کوئی ایک درست جواب دیتا تو آپ ﷺ اس کی ستائش اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، أَتَدْرِي أَيُّ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَعَكَ أَعْظَمُ؟

’’ابو المنذر! کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے پاس کتاب اللہ کی سب سے عظیم آیت کون سی ہے ؟

میں نے جواب دیا: اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ

میں نے کہا ’’اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں‘‘

’’رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ دریافت فرمایا:

’’ابو المنذر! کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے پاس کتاب اللہ کی سب سے جلیل القدر آیت کون سی ہے ؟

میں نے جواب دیا ( اللہ لا الہ الا ھو الاحی القیوم)۔

اس پر آپ ﷺ نے خوشی سے میرے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا ’’ وَاللهِ لِيَهْنِكَ الْعِلْمُ أَبَا الْمُنْذِرِ ‘‘ ابو المنذر، ! آپ کا یہ علم مبارک ہو‘‘؂[40]

                ستائش اور حوصلہ افزائی کا یہ انداز طالب علم کے دل پر خوش کن اثرات چھوڑتا ہے ۔ اس میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ طلب علم کی راہ میں آگے تک جانے کا آرزو مند رہتا ہے ۔

بات دہرانا

روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بعض اوقات اپنی بات کو تین تین بار کہتے تھے۔ اگر غور کیا جائے تو آپ ﷺ ایسا اس  وقت کرتے جب کوئی اہم بات یا  نکتہ ارشاد فرماتے۔ درحقیقت یہ اس جدید تعلیمی نفسیات کے مطابق ہے کلام کی تکرار انسان کے ذہن پر دیر پا اثرات مرتب کرتی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر اوقات اہم  بات کو دہرادیا کرتے تھے۔

نیز بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی بنا پر پہلی بار اس بات کو نہ سمجھ سکے لیکن دوسری یا تیسری بار وہ نکتہ سمجھ جاتاہے۔ نیز اس میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ سامعین میں حفظ کے اعتبار سے بھی مختلف النوع افراد بیٹھے ہوتے ہیں۔ جن میں سے بعض ایک دفعہ ہی کسی کلام کو سن کر یاد کرلیتے ہیں ،بعض دودفعہ سن کر بعض تین دفعہ سننے کے بعد حفظ کرلیتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں پہلی صورت کے سامعین کاحفظ زیادہ مضبوط اور دیرپا ہوتاہے۔ آج بھی اگر متکلم اس اصول پر عمل کرے تو سامعین کے لئے بات سمجھنا، اُس کی تہ تک پہنچنا اور اُسے یاد رکھنا آسان ہو جاتا ہے ۔

امام بخاری نقل فرماتے ہیں:

عن انس عن النبی ﷺ قال انہ کان اذا تکلم بکلمۃ اعادھا ثلاثا حتی تفہم عنہ۔واذا اتا علی قوم فسلم علیہم ،سلم علیہم ثلاثا۔؂[41]

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ کوئی بات کرتے تو اُسے تین بار دہراتے تھے تاکہ خوب سمجھ میں آجائے ۔جب لوگوں کی محفل میں آتے اور انہیں سلام کرتے تو سلام کے الفاظ تین بار کہتے تھے ۔ ؂[42]

تعلیم و تربیت کے جدید اسالیب کا استعمال

رسول اللہ ﷺ تعلیمی و تربیتی جدید اسالیب بھی استعمال کرتے تھے ۔ ان اسالیب و ذرائع کو طلبہ کی توجہ ایک نقطے پر مرکوز کرنے اور بات کو اُن کے ذہن میں بٹھانے کی خاطر استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ ان تعلیمی اسالیب کی تفصیل حسب ذیل ہے:

نبوی طریقہ تدریس اشاروں کی زبان میں:

 رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے باہمی تعلق کی نوعیت بیان کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم دگر ملایا تھا۔

امام مسلم نقل فرماتے ہیں:

عن ابی موسیٰ قال:قال رسول اللہ ﷺ(المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضًا) ؂[43]

حضر ت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’مومن آپس میں عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے‘‘یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم دگر ملایا تھا‘‘

عن سھل بن سعد قال:قال رسول اللہ ﷺ انا وکافل الیتیم فی الجنۃ کھاتین،واشار باصبعہ۔یعنی السبابۃ والوسطیٰ۔قال ابوعیسی ھذا حدیث حسن صحیح۔؂[44]

یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا۔آپ ﷺ نے اپنی دوانگلیوں (شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی) سے اشارہ فرمایا ۔

حق بیان کرنے کے لئے سامعین سےمحبت بھرے جذبات کا اظہارکرنا:

 سخن نازک تر کا استعمال دلوں کو ملاتا، انہیں حق کی طرف مائل کرتا اور سامعین کو اکساتا ہے کہ وہ بات یاد رکھیں۔ رسول اللہ ﷺ گفتگو کے آغاز میں تمہید کے طور پر نازک اور پاکیزہ و شستہ الفاظ استعمال میں لاتے تھے۔ بالخصوص جب کوئی ایسا معاملہ ہو جس کے ذکر سے حیا مانع ہو تو آپ ﷺ صاف ، شگفتہ اور واضح الفاظ میں اُس کی تعلیم دیتے اور آغاز سے قبل تمہید کے طور پر کہتے کہ مومنین کے لئے والد کی طرح ہوں جو بچوں پر شفقت کرتے ہوئے انہیں تعلیم دینا اور اُن کی غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے۔ ؂[45]

امام ابو داؤدسجستانی نقل فرماتے ہیں:

عن ابی ھریرۃ قال ؛قال رسول اللہ ﷺ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ، أُعَلِّمُكُمْ فَإِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ فَلَا يَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، وَلَا يَسْتَدْبِرْهَا وَلَا يَسْتَطِبْ بِيَمِينِهِ؂[46]

چنانچہ ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمہارے لئے والد کے مقام پر ہوں۔ تمہیں تعلیم دیتا ہوں ۔ تم میں سے کوئی قضائے حاجت کو آئے تو قبلہ رو نہ بیٹھے، نہ قبلہ کی طرف پشت کرے اور نہ دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔‘‘

معلم اول ﷺ نے تعلیم و تربیت کے میدان میں تعلیمی اصول و قواعد کا پورا پورا خیال رکھا جو اخلاقی لحاظ سےبلند تر اور عقلی اعتبار سے جامع ترین مبادیات پر مشتمل تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی ہدایات صحابۂ کرام کے دلوں میں گھر گر گئیں اور اُنھوں نے اُن معروضات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو خوب خوب سنوارا۔ ؂[47]

خاکہ اتارنا:

 رسول اللہ ﷺ مطالب کی تشریح کے لئے زمین پر خاکہ اتارتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اُس کی جزئیات سے آگاہ فرماتے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا ’’رسول اللہ ﷺنے ہاتھ سے (زمین پر) ایک خط کھینچا اور فرمایا ’’ھذا سبیل اللہ مستقیماً‘‘ یہ اللہ کا راستہ ہے ، سیدھا سیدھا‘‘۔

پھر اُس خط کی دائیں اور بائیں جانب چند مزید خط کھینچے اور فرمایا:

’’وھذہ سبل۔ قال یزد متفرقۃ۔ علی کل سبل منھا شیطانٌ ید عُو إلیہ‘‘؂[48]

’’اور یہ راستے ( یزید نے کہا) علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ان میں سے ہر راستے پر ایک شیطان ہے جو اُس کی طرف بلا رہا ہے ‘‘

پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت کی:

وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِىْ مُسْتَقِيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَـتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِـهٖ ۚ ذٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ؂[49]

اور یقیناً یہ میرا راستہ ہے سیدھا، لہٰذا تم اس کی پیروی کرو اور تم دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو، وہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کر دیں گے ۔ اللہ نے تمہیں اس کی تاکید کی ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو‘‘؂[50]

عملی نمونہ پیش کرنا:

 حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: ’’میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ منبر پر کھڑے ہوئے ، منہ قبلے کی طرف کیا اورتکبیر کہی۔لوگوں نے صفیں باندھ لیں۔ آپ ﷺ نے قراءت کی اور رکوع کیا۔ لوگوں نے بھی رکوع کیا۔ آپﷺ نے رکوع سے سر اٹھایا اور الٹے پاؤں زمین پر آکر سجدہ کیا۔ سجدے کے بعد دوبارہ منبر پر تشریف لے گئے ۔ قراءت کی۔ رکوع کیا۔ رکوع سے سر اٹھایا اور الٹے پاؤں زمین پر آکر سجدہ کیا۔ آپ ﷺ جب نماز پڑھ چکے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

«أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا وَلِتَعَلَّمُوا صَلاَتِي ؂[51]

’’لوگو! میں نے یہ سب اس لئے کیا کہ تم میری اقتدا کرو اور میری نماز اچھی طرح سیکھ لو‘‘

متعلقہ اشیاء کو ناظرین کے سامنے پیش کرنا:

 سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بتایا ‘‘اللہ کے نبی ﷺ نے تھوڑا ریشم لیا اور اپنے دائیں ہاتھ میں رکھا ، تھوڑا سونا اٹھایا اور اسے اپنے بائیں ہاتھ میں رکھا، پھر فرمایا’’ان ھذین حرام علی ذکور امتی ‘‘یہ دونوں اشیا میری امت کے مردوں پر حرام ہیں‘‘۔اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ’’ حل لاناثھم ‘‘یہ چیزیں امت کی عورتوں کے لئے حلال ہیں‘‘۔؂[52]

رسول اللہ ﷺ نے سونے اور ریشم کے بارے میں اپنے فرمان کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی شکل و صورت کو بھی لوگوں کے سامنے واضح اور نمایا کیا تاکہ بات بالکل واضح ہو جائے اور یاد رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہو۔

گفتگو میں ٹھہراؤ

رسول ﷺ ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے بات کرتے تھے۔ ہر لفظ الگ الگ سمجھ میں آتا تھا۔ یوں بات کو یاد رکھنا آسان ہو جاتا اور اسے آگے پہنچانے میں کسی قسم کی تحریف یا تبدیلی کا شائبہ نہیں رہتا تھا ۔ نبی ﷺ تو اس امر کا تنا اہتمام کرتے تھے کہ سننے والا چاہتا تو آپ کے الفاظ بآسانی گن سکتا تھا۔ ؂[53]

میانہ رو گفتگو، اکتاہٹ سے اجتناب اور مناسب وقت کا انتخاب

رسول اللہ ﷺ گفتگو کی مقدار، اُس کی نوعیت اور وقت کے انتخاب میں میانہ روی اختیار کیا کرتے تھے تاکہ صحابۂ کرام اکتاہٹ کا شکار نہ ہوں اور بات سمجھ کر یاد رکھنے کے لئے تیار رہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا ’’نبی ﷺ اس اندیشے سے کہ ہم اکتاہٹ کا شکار ہو جائیں گے ،موقع و محل کی مناسبت سے وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ ؂[54]

خاص مطالب کی تعلیم کے لئے تازہ ترین صورتحال کو بنیاد بنانا

 کوئی خاص واقعہ پیش آنا یا آنکھیں کسی خاص عمل کو دیکھتیں تو نبی ﷺ صحابۂ کرام کو اُس واقعے یا عمل کی نسبت سے کوئی خاص مطلب سمجھانے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس طریق کار کا فائدہ یہ ہوتا کہ مطلب بہت اچھی طرح سمجھ میں آجاتا تھا۔ مثال کے طور پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :’’چند جنگی قیدی نبی ﷺ کی خدمت میں لائے گئے ۔ اُن میں سے ایک عورت اپنے گم شدہ بیٹے کو تلاش کر رہی تھی ۔ اس کی چھاتی دودھ سے بھری ہوئی تھی۔ وہ ادھر ادھر بے چین پھرتی تھی۔ قیدیوں میں جو بچہ نظر آتا تو اُسے سینے سے لگا کر دودھ پلانے لگتی۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام کو مخاطب کر کے دریافت کیا :

 أَتُرَوْنَ هَذِهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِي النَّارِ ؂[55]

’’کیا خیال ہے یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک سکتی ہے ؟‘‘

ہم نے جواب دیا’’نہی،اگر اس کے بس میں ہوتو وہ کبھی بچے کو آگ میں نہیں پھینکے گی ۔ ‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا :

لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا ؂[56]

" جس قدر یہ عورت اپنے بچے کے لئے رحمد ل ہے ، اللہ اس سے کہیں بڑ کر اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا ہے۔"

یو ں رسول اللہ ﷺنے پیش آمدہ صورتحال کو بنیاد بنا کر صحابۂ کرام کو رحمت الٰہی کی وسعت کا ایک گو نہ تصور دے دیا ۔؂[57]

تعلیمی و تربیتی مبادیات

ذیل میں اُن عظیم الشان مبادیات کو قدرے تفصیل سے پیش کیا گیا ہے جنہیں رسول اللہﷺ بروئے کار لائے:

اچھائی کرنے والے کی حوصلہ افزائی : رسول اللہ ﷺ میدان علم و عمل میں صحابۂ کرام کی خوب حوصلہ افزائیفرماتے تھے۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا:

لَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِكَ الْبَارِحَةَ، لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ» ؂[58]

’’کاش !آپ دیکھتے جب رات میں آپ کی قراءت سُن رہا تھا۔(سبحان اللہ)

آپ کو تو آل داود کے سروں میں سے ایک سُردیا گیاہے ۔

غلطی کرنے والے پر شفقت : رسول اللہﷺ لوگوں کے حال احوال کی خبر رکھتے اور ان سے معاملہ کرنے میں اس امر کا لحاظ کرتے تھے۔ آپﷺ کی عادت تھی(کم علمی یا ) جہالت کی وجہ سے کسی سے غلطی سر زد ہو جاتی تو اس کا عذر قبول کرتے اور غلطی کا ازالہ کرتے وقت نرمی اور شفقت سے کام لیتے تھے۔ آپ ﷺ کے اسی طرز عمل کی بدولت لوگوں کے دل آپ ﷺ کی محبت سے معمور رہتے اور وہ آپ کی ہدایات پر جہاں خود عمل کرتے وہاں دوسروں تک بھی پہنچاتے تھے ۔ حاضرین محفل بھی ایسے واقعات خصوصیت سے یاد رکھتے تھے۔؂[59]

حضرت معاویہ بن حکم علمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے ’’میں رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا تھا ، ایک آدمی کو چھینک آئی ۔میں نے یرحمک اللہ (اللہ تم پر رحم کرے) کہہ دیا۔ل لوگوں نے مجھے خشمگیں نگاہوں سے تاڑا۔ میں بولا ’’افسوس! میری ماں کا مجھے گم پانا تم لوگ میری طرف کیا دیکھتے ہو ؟ ‘‘ اب لوگ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے۔ میں نے دیکھاکہ وہ مجھے خاموش ہونے کو کہہ رہے ہیں تو میں چپ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺنماز پڑھ کر فارغ ہوئے ۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! میں نے آپ سے قبل یا آپ کے بعد ایسا معلم نہیں دیکھا جو اتنے اچھے طریقے سے تعلیم دیتا ہو۔ واللہ ! آپ ﷺ نے مجھے ڈانٹا نہ مارا اور نہ برا بھلا کہا۔ بس اتنا فرمایا۔

«إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ» ؂[60]

’’نماز میں باتیں کرنامناسب نہیں۔ یہ تو تسبیح و تکبیر اور تلاوت قرآن کا محل ہے ۔

سبحان اللہ !رسول اللہﷺ کے حُسن تعلیم کے کیا ہی کہنے ! معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے اس عمدہ برتاؤ کا جو مسرت انگیز تاثر لیا وہ آخر کیوں نہ لیا جاتا؟

مذمت کے لئے نام لئے بغیر اشارے پر اکتفا: مذمت کا یہ انداز اپٹانے سے بیچارے غلطی کرنے والے کے چہرے کی کچھ نہ کچھ آب باقی رہتی ہے اور انتباہ کا تقاضا بھی ہورا ہو جاتا ہے ۔ اس ضمن میں بہترین مثال حضرت عبد اللہ بن لتبیہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں صدقات و زکاۃ کا عامل بنایا تو انہوں نے اہل زکاۃ کی طرف سے تحفے تحائف قبول کر لئے تھے ، چنانچہ سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :’’رسول اللہ ﷺنے بنو سلیم کی زکاۃ پر ایک آدمی کو عامل بنایا جسے ابن لتبیہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ وہ زکاۃ کی وصولی کر کے واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اُس سے خفا ہو کر فرمایا:

«فَهَلَّا جَلَسْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ، حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ؂[61]

’’تم واقعی ان تحفوں کے حق دار تھے تو اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ رہے کہ یہ تحفے تمہیں وہاں پہنچ جاتے ؟

پھر رسول اللہ ﷺ نے ہم سے خطاب کیا اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ عَلَى العَمَلِ مِمَّا وَلَّانِي اللَّهُ، فَيَأْتِي فَيَقُولُ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، أَفَلاَ جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ، وَاللَّهِ لاَ يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ إِلَّا لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَلَأَعْرِفَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ "؂[62]

اما بعد ۔ اللہ نے مجھے جن امور کا ذمہ دار بنایا ہے اُن میں سے کوئی کام میں ایک آدمی کے سپرد کرتا ہوں ۔ وہ کام نمٹا کر آتا اور کہتا ہے ’’یہ رہا آپ کا مال اور یہ تحائف ہیں جو مجھے پیش کئے گئے ہیں۔ ’’وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ رہا کہ یہ تحفے اُسے وہاں پہنچتے ؟ واللہ تم میں سے جو کوئی ایک چیز ناحق قبولکرے گا وہ روز قیامت اس شے کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے اللہ کے رو برو آئے گا۔

میں اُس شخص کو ضرور پہچان لوں گا جو ایک بلبلاتا اونٹ یا ذکر کرتی گائے یا منمٹاتی بکری کندھوں پر اٹھائے اللہ کے دربار میں آئے گا۔ ’’یہ کہہ کر آپﷺ نے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کئے کہ بغلوں کی سفیدی دکھائی دی۔ آپ ﷺ نے پکارا ’’اللھم ھل بلغت‘‘ اے اللہ ! کیا میں نے (تیرا پیغام) پہنچادیا)‘‘ (راوی کہتا ہے ) میری آنکھ نے دیکھا اور میرے کان نے سنا ‘‘

ضرورت پڑنے پر اظہار ناراضی مثال کے طور پر صاحب حیثیت افراد ایسی غلطی کا ارتکاب کریں جس سے شریعت کے احکامات پر زد پڑتی ہو یا غلطی کا دائرہ اثر وسیع ہوجائے اور وہ فتنے کی صورت اختیار کرنے لگے ۔ ایسی صورتحال میں رسول اللہ ﷺ خفگی کا اظہار کیا کرتے تھے لیکن اس طرح کہ کسی فرد یا جماعت کے حق میں اسراف یا زیادتی کا عنصر شامل تو بیخ نہ ہونے پائے ۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول الہ ﷺ کے ہاں آئے ۔ اُن کے ہاتھ میں تورات کی ایک تحریر تھی۔ آتے ہی کہنے لگے : ’’اے اللہ کے رسول! یہ ایک تحریر ہے جو تورات سے ماخوذ ہے ۔ ‘‘رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہ تحریر پڑھنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ انور کے تاثرات بدلنے لگے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ٹوکا’’تجھے تیری ماں گم پائے ! رسول اللہ ﷺکا چہرہ نہیں دیکھتا؟‘‘عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کیا: ’’میں اللہ اور اُس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔‘‘ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي، لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي، لَاتَّبَعَنِي» ؂[63]

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے چل پڑو تو تم یقیناً سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔ اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو میری ہی پیروی کرتے۔

رسول اللہ ﷺ سے بعض ائمہ مساجد کے متعلق شکایت کی گئی کہ وہ لمبی لمبی نمازیں پڑھاتے ہیں اور نمازی نماز چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔آپ ﷺ کو اس بات کا سخت صدمہ ہوا۔

ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہِ رسالت میں آکر شکایت کی: ’’اے اللہ کے رسول !فلاں صاحب بہت لمبی نمازیں پڑھاتے ہیں۔ میرے لئے نماز با جماعت پڑھنا بہت مشکل ہوگیا ۔‘‘

ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غصے میں نہیں دیکھا۔آپ ﷺ نے فرمایا:

أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ، فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ المَرِيضَ، وَالضَّعِيفَ، وَذَا الحَاجَةِ؂[64]

’’اے لوگو ! تم متنفر کرتے ہو۔ جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ نمازیوں میں بیمار ،کمزور اور حاجت مند افراد بھی ہوتے ہیں۔‘‘

تقدیر کے متعلق صحابۂ کرام کی بحث و تکرار پر بھی رسولا للہ ﷺ ناراض ہوئے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہﷺ صحابۂ کرام کی محفل میں تشریف لئے ۔وہاں تقدیر کے موضوع پر گرما گم بحث ہو رہی تھی۔ آپﷺ کا چہرہ غصے سے یوں سرخ ہوگیا گویا اُس پر انار نچوڑا گیا ہو۔ دریافت فرمایا:

بِهَذَا أُمِرْتُمْ، أَوْ لِهَذَا خُلِقْتُمْ، تَضْرِبُونَ الْقُرْآنَ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، بِهَذَا هَلَكَتِ الْأُمَمُ قَبْلَكُمْ ؂[65]

’’کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے ، کیا تمہیں اسی لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تم قرآن کے بعض حصے کو بعض سے ٹکراتے ہو؟ تم سے پہلے والی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئی تھیں‘‘

رسول اللہ ﷺ نے اُس وقت بھی غصے کا اظہار فرمایا تھا جب بعض صحابۂ کرام نے نبی ﷺ کی حکم عدولی کرتے ہوئے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی ٹھانی تھی اور گمان کیا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں افضل ہے اور اللہ کے نزدیک زیادہ قریب ہے ۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے ’’رسول اللہ ﷺلوگوں کو صرف اُن اعمال کا حکم دیتے تھے جنہیں وہ آسانی سے انجام دے سکیں۔ لوگوں نے کہا:’’اے اللہ کے رسول ! ہمارے احوال تو آپ کے سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں۔‘‘لوگوں کی یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کو غصہ آیا۔ ناراضگی کے آثار آپ کے چہرہ مبارک پر ظاہر ہوئے اور فرمایا:

إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللَّهِ أَنَا ؂[66]

’’تم سب سے زیادہ اللہ کو جاننے اور اُس سے ڈرنے والا میں ہی ہوں‘‘۔

ان مواقع پر رسول اللہﷺ کی ناراضگی تربیتی عمل کا حصہ تھی۔ناراضگی کے اس عمل میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے ویا یہ پیغام تھا کہ وہ آنکھیں کھلی رکھیں اور آئندہ ایسی غلطیوں کا ارتکاب نہ کریں۔ واعظ کے لئے ضروری ہے کہ غصہ اس کے چہرے سے عیاں ہو۔ وہ جس جگہ کھڑا ہے اُس کا تقاضا ہے کہ وہ بے چینی و بے قراری کا اظہار کرے ۔ اُس کی حیثیت قافلے کے پیش رو کی ہے جو اہل قافلہ کو راستے کی ممکنہ دشواریوں سے پیشگی آگاہ کرتا رہتا ہے ۔ معلم کے لئے بھی یہی ہدایت ہے کہ طلبہ کے منفی اقدامات پر اسے اظہار ناراضگی کرنا چاہیئے۔ غصے کی حالت میں کی گئی نصیحت کبھی کبھار بڑی مؤثر ثابت ہوتی ہے ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ معلم اپنے ہر طالب علم سے یہی سلوک روا رکھے۔ اُسے طلبہ کے مختلف مزاج کے موافق مختلف برتاؤ کا انتخاب کرنا چاہئیے۔

سماعت حدیث کے سلسلے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل 

باصرار سوال کرنے سے پہلو تہی:

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کوسوال کرنے سے منع کر دیا گیا تو انہوں نے اس امر کا اہتمام خاص طور پر کیا کہ باصرار سوال کرنے سے پہلو تہی کی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سوال کرنے کے لئے اعرابیوں(بادیہ نشینوں)کو آگے کرتے اور ان کے عقلمند اور باشعور افراد کی آمد کا انتظار کرتے رہتے تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کریں اور صحابۂ کرام آپﷺ کے جوابات سے استفادہ کریں۔

                حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ، وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: «صَدَقَ» ؂[67]

’’ہمیں منع کر دیا گیا تھاکہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی سوال نہ کریں۔ ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ اہل بادیہ (صحرا نشینوں)کا کوئی عقل مند آدمی آئے اور ہماری موجودگی میں آپ سے سوال کرے، چنانچہ ایک روز ایک بادیہ نشیں آیا اور اُس نے سوال کیا:’’اے محمد(ﷺ) تمہارا قاصد ہمارے ہاں آیا اور اُس نے بتایا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ اللہ نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’صدق‘‘ اس نے سچ کہا ‘‘

یوں نئے مسلم معاشرے میں مؤثر عملی اقدامات کے ذریعے سے تربیتی تعمیر و ترقی کا عمل جاری رہا جس نے اس جدید معاشرے کے افراد میں فریضۂ تعلیم و تعلم کی انجام دہی اور اس کے گہرے احساس کی روح پھونک دی تھی ۔ ان ہدایات پر عمل در آمد نے مسلم فرد ، لغت اور اسلامی ریاست کی تیاری و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم امہ میں علم وو تربیتی تعمیر و ترقی کا تسلسل نہایت ضروری ہے ۔

 

 

 

مکمل خاموشی اور حُسنِ سماعت:

 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی نظر میں رسول اللہ ﷺ کی قدر و منزلت اتنی تھی کہ وہ آپﷺ کی گفتگو کے دوران میں شور شرابا یا فضول گوئی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھ اکہ آپ بات کر رہے ہوں اور وہ دھیان نہ دیں۔ صحابۂ کرام آپ کی محفل میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ گوش بر آواز ہو کر بیٹھا کرتے تھے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیرت طیبہ کے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ آپﷺ جب بات کرتے تو ہم نشیں یوں سر جھکائے خاموش رہتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ خاموش ہوتے تب وہ بولتے‘‘۔؂[68]

عبد الفتاح ابو غدو نے اس روایت کے ذیل میں لکھا:’’اس محاورے کی حقیقت یہ ہے کہ کوا اونٹ کے سر پہ آکے بیٹھتا اور اس کی جوئیں اور چیچڑیاں چن لیتا ہے ۔ اس دوران میں اونٹ حرکت نہیں رکتا کہ مبادا کو ا مارے ڈر کے اُڑ جائے اور چیچڑیاں وہیں کی وہیں رہ جائیں اور اذیت کا باعث بنیں۔ اسی سے یہ محاورہ نکلاکہ فلاں تو یوں سر جھکائے خاموش ہے گویا سر پر پرندے بیٹھے ہیں‘‘۔؂[69]

احادیث کی دہرائی:

 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ سے کوئی بات (حدیث ) سنتے یا علم حاصل کرتے تو بیٹھ کر اُسے آپس میں دہراتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح ذہن میں اتر جائے ۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں ہوتے اور آپ سے حدیث سنتے ، پھر جب خدمت نبوی سے واپس آتے تو حدیث کو آپس میں دہراتے تھے تاکہ خوب یاد ہو جائے ‘‘(الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع للخطیب البغدادی364،363/1(اس کی سند میں یزید رقاشی نامی ایک راوی ضعیف ہے)

                صحابۂ کرام کے حلقوں میں علم کی دہرائی اور مذاکرے کا اصول وفات نبوی کے بعد بھی جاری رہا۔ ابو نضرہ منذر بن مالک بن قطعہؒ بتاتے ہیں کہ اصحابِ رسول کسی جگہ اکٹھے ہوتے تو علم کی باتیں ایک دوسرے کو سناتے اور قرآن کی سورتیں پڑھتے تھے ۔ ؂[70]

حصولِ علم اور اشتیاق عمل کی غرض سے سوال کرنا: صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال حصول علم اور شوق عمل کی غرض سے ہوتے تھے ۔ اُن میں فضولیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ نبی ﷺ بے مقصد اور فضول سوالات کو ناپسند کرتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے کثرت سوال سے بھی منع کیا تھا، چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں’’رسول اللہ ﷺ نے سوال کرنے کو ناپسند کیا اور اُس امر پر نکتہ چینی بھی کی۔‘‘ ؂[71]

                امام نووی ؒ نے لکھا:’’سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت سے مراد ی ہے کہ ایسے سوال کرنا مکروہ ( ناپسندیدہ) ہیں جو غیر ضروری ہوں۔ خاص کر وہ سوالات جن کا مقصد ایک مسلمان کی پردہ وری اور بے عزتی یا فحاشی کا فروغ ہوتا ہے ۔ علمائے کرام کا کہنا ہے : ’’البتہ اگر سوال ایسے شرعی مسئلے کے متعلق ہے جو واقعی پیش آیا ہے اور اُس کا حل معلوم کرنا بھی ضروری ہے تو اہل علم سے دریافت کر لینے میں کوئی حرج نہیں ‘‘؂[72]

بال کی کھال اتارنے اور متشابہ آیات کے متعلق سوال سے اجتناب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ اصول یوں اپنایا کہ نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کی شدید مذمت کی تھی جو بال کی کھال اتارتے اور غیر ضروری مسائل کو تختۂ عشق بنائے رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے بھی منع فرمایا تھا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔

هُوَ الَّـذِىٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ اٰيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتَابِ وَاُخَرُ مُتَشَابِـهَاتٌ ۖ فَاَمَّا الَّـذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيلَهٝٓ اِلَّا اللّـٰهُ ۗ وَالرَّاسِخُوْنَ فِى الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُو الْاَلْبَابِ ؂[73]

وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنیٰ واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معنیٰ معلوم یا معین نہیں)، سو جن لوگو ں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں، اور حالانکہ ان کا مطلب سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہیں، اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیں۔

پھر آپﷺ نے فرمایا:

فَإِذَا رَأَيْتِ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكِ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ ؂[74]

’’چنانچہ جب تو ایسے لوگوں کو دیکھے جو متشابہ آیات کا پیچھا کرتے ہیں تو (سمجھ لے کہ ) یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے مراد لیا ہے ۔ سو اُن سے دامن بچالے‘‘

قطع کلامی سے گریز:

آدابِ محفل کا تقاضا ہے کہ قطع کلامی سے گریز کیا جائے۔ اس سے ایک تو حاضرین محفل پر سکون رہتے ہیںاور دوسرا بات کا مطلب سمجھنے میں سہولت رہتی ہے۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے’’صحابہ کرام محفل رسول ﷺ میں قطع کلامی سے گریز کرتے سب لوگ متکلم کی بات آخر تک نہایت توجہ اور خاموشی سے سنتے۔ بات اُسی کی ہوتی جو پہلے شروع کرتا‘‘؂[75]

رفع اشکال کے لئے رسول اللہﷺ سے رجوع: صحابۂ کرام کو رسول اللہﷺ کی عظمت کا شدت سے احساس تھا۔ اُن کے قلوب پر آپ کی بارعب شخصیت کا پروقار اور گہرا اثر تھا۔ اس کے باوجود انہیں دین کے معاملے میں کوئی اشکال پیش آتا تو فوراً آپﷺ سے رجوع کرتے اور تشفی پاتے تھے۔ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک دفع نبی ﷺ نے فرمایا:

إِنِّي لَأَرْجُو أَلَّا يَدْخُلَ النَّارَ أَحَدٌ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، وَالْحُدَيْبِيَةَ ؂[76]

’’مجھے قوی امید ہے کہ بدر اور حدیبیہ کے شرکاء میں سے کوئی بھی آگ میں نہیں جائے گا۔‘‘

میں نے اشکال ظاہر کیا: ’’اے اللہ کے رسول ! کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:

وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ؂[77]

اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا اس پر گزر نہ ہو، یہ تیرے رب پر لازم مقرر کیا ہوا ہے۔

پھر رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا:

 الم تسمعیہ یقول:ثُـمَّ نُنَجِّى الَّـذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظَّالِمِيْنَ فِيْـهَا جِثِيًّا ؂[78]

پھر ہم انہیں بچا لیں گے جو ڈرتے ہیں اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں پر گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔

’’اور تم میں سے جو بھی ہے وہ اس (جہنم ) پروارد ہونے والا ہے ،یہ آپ کے رب کے ذمے حتمی اور طے شدہ بات ہے ‘‘()

’’ تم نے یہ آیت نہیں سنی ، فرمایا: ’’پھر اہم متقی لوگوں کو نجات دیں گے اور ہم ظالموں کو اس میں گھٹنو ں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے ۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس ضمن میں بطور مثال پیش کی جاسکتی ہے جسے حاصل کرنے کے لئے سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے لمبا سفر اختیار کیا تھا۔

ابن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا

" يَحْشُرُ العِبَادَ۔ - أَوْ قَالَ: الناسُ - عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا ؂[79]

اللہ تعالیٰ لوگوں کو میدان حشر میں اکٹھا کرے گا ۔ وہ عریاں ،بے ختنہ اورخالی ہاتھ ہوں گے ۔

ہم نے کہا " بُهْمًا " سے کیا مراد ہے؟فرمایا:

لَيْسَ مَعَهُمْ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مِنْ بُعْدٍ كَمَا يَسْمَعُهُ مِنْ قُرْبٍ: أَنَا الْمَلِكُ، أَنَا الدَّيَّانُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَنْ يَدْخُلَ النَّارَ، وَلَهُ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَقٌّ، حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَلِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عِنْدَهُ حَقٌّ، حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ، حَتَّى اللَّطْمَةُ " ؂[80]

’’ ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ ان سے ایسی آواز سے مخاطب ہوگا جسے دور کھڑے لوگ بھی اُسی وضاحت سے سنیں گے جس طرح قریب کھڑے لوگوں کو وہ آواز صاف طور پر سنائی دے گی، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ میں ہوں بادشاہ۔ بدلے چکانے والا زبردست حاکم۔ اہل جنت واہل دوزخ کا کوئی فرد جس نے ظلم کیا ہو ، خواہ ایک طمانچہ ہی مارا ہو، جنت و دوزخ میں نہیں جاسکتا، قبل اس سے کہ میں اُس سے قصاص دلوادوں‘‘۔ 

ہم نے پوچھا ’’ایسا کیسے ہوگا( قصاص میں کیا دیں گے ) جبکہ ہم عریاں، ب ختنہ اور کالی ہاتھ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے؟‘‘

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ’’نیکیوں اور گناہوں کے ذریعے سے (بدلے چکائے جائیں گے )‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی:

اَلْيَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۚ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِا ؂[81]

آج کے دن ہر شخص اپنے کیے کا بدلہ پائے گا، آج کچھ ظلم نہ ہوگا، بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

فرصت کے لمحات سے استفادہ اور مناسب وقت کا لحاظ:

 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سوالات کے لئے مناسب وقت کا لحاظ رکھتے تھے۔ وہ رسولل اللہﷺ کے فرصت کے لمحات سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ یہ اہتمام اس لئے کرتے تھے کہ بے وقت کے سوالات رسول اللہ ﷺ کی پریشانی اور وقت کا باعث نہ بنیں۔ 

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا’’نبی ﷺ فجر کی نماز پڑھا کر فارغ ہوتے توہم جاکر آپﷺ کے پاس بیٹھ جاتے ۔ کوئی قرآن کے متعلق سوال پوچھتا تو کوئی فرائض (علم میراث) کے بارے میں استفسار کرتا اور کوئی خواب کی تعبیر دریافت کرتا تھا۔‘‘؂[82]

جہاں شارع نے خاموشی اختیار کی وہاں سوال سے احتراز:

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ادب کے اس قرین کو بھی بخوبی اپنایا تھا۔ شارع نے جہاں خاموشی اختیار کی وہاں سے یہ پاکباز و مطیع افراد بھی سر جھکائے خاموشی سے گزر گئے اور چون و جرا سے پرہیز کیا کہ مبادا ان کے سوال سے جو چیز حرام نہیں اُسے حرام قرار دے دیا جائے اور جو کام واجب نہیں وہ واجب ٹھہرے ۔ یوں ان کا سوال مسلمانوں کے لئے پریشانی اور مشقت کا باعث بنے۔ صحابۂ کرام اللہ تعالیٰ کے درج ذیل ارشاد پر پوری طرح کار بند تھے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَسْاَلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُـبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ وَاِنْ تَسْاَلُوْا عَنْـهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُـبْدَ لَكُمْۖ عَفَا اللّـٰهُ عَنْـهَا ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْـمٌ (101) قَدْ سَاَلَـهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُـمَّ اَصْبَحُوْا بِـهَا كَافِـرِيْنَ ؂[83]

اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں، اور اگر یہ باتیں ایسے وقت میں پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی، گزشتہ سوالات اللہ نے معاف کر دیے ہیں، اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔ ایسی باتیں تم سے پہلے ایک جماعت پوچھ چکی ہے پھر ان باتوں کے وہ مخالف ہوگئے۔

رسول اللہ نے بھی ایسے سوال و جواب سے منع کیا تھا۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ أَعْظَمَ المُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ ؂[84]

’’مسلمانوںمیں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے ایسی شے کے متعلق سوال کیاجو حرام نہیں تھی اور اُس کے سوال کی وجہ سے حرام قرار دے دی گئی‘‘

باصرار سوال کرنے سے پہلو تہی:

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کوسوال کرنے سے منع کر دیا گیا تو انہوں نے اس امر کا اہتمام خاص طور پر کیا کہ باصرار سوال کرنے سے پہلو تہی کی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سوال کرنے کے لئے اعرابیوں(بادیہ نشینوں)کو آگے کرتے اور ان کے عقلمند اور باشعور افراد کی آمد کا انتظار کرتے رہتے تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کریں اور صحابۂ کرام آپﷺ کے جوابات سے استفادہ کریں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ، وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: «صَدَقَ» ؂[85]

’’ہمیں منع کر دیا گیا تھاکہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی سوال نہ کریں۔ ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ اہل بادیہ (صحرا نشینوں)کا کوئی عقل مند آدمی آئے اور ہماری موجودگی میں آپ سے سوال کرے، چنانچہ ایک روز ایک بادیہ نشیں آیا اور اُس نے سوال کیا:’’اے محمد(ﷺ) تمہارا قاصد ہمارے ہاں آیا اور اُس نے بتایا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ اللہ نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’صدق‘‘ اس نے سچ کہا ‘‘

یوں نئے مسلم معاشرے میں مؤثر عملی اقدامات کے ذریعے سے تربیتی تعمیر و ترقی کا عمل جاری رہا جس نے اس جدید معاشرے کے افراد میں فریضۂ تعلیم و تعلم کی انجام دہی اور اس کے گہرے احساس کی روح پھونک دی تھی ۔ ان ہدایات پر عمل در آمد نے مسلم فرد ، لغت اور اسلامی ریاست کی تیاری و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم امہ میں علم وو تربیتی تعمیر و ترقی کا تسلسل نہایت ضروری ہے ۔

 

نظام تعلیم میں اصلاح کی رٹ

عہد جدید میں مختلف طبقات کی طرف سے تعلیمی نظام کے تغیر وتبدل کی مہمات کبھی تو تحریری صورتوں میں کبھی تو سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آتی ہیں۔ الا ماشاء اللہ کچھ نظریات حقائق سے قریب تر ہیں ۔لیکن ایک بڑی تعداد اسلامی نظام کے نظام تعلیم سے لاعلمی کی وجہ سے حقائق سے یکسر خالی ہیں۔بعض حضرات نظام تعلیم میں تغیر کو اس طور بیان کرتے ہیں کہ اسلامی قانون جس تصور حیات اورجن عقائد و نظریات پر مبنی ہے ہمارا موجودہ نظام تعلیم اس سے بالکل مختلف تصورحیات اورنظریات پر مبنی ہے۔ اوربعض افراد کی رائے ہوتی ہے جن عقائد ونظریات کی تعلیم ہمارے کالجوں اوریونیورسٹی میں دی جارہی ہے اگر انہیں کے اوپر ہم اسلامی قانون کا پیوند لگانے کی کوشش کریں گے تو اسلامی قانون کبھی پروان نہ چڑھ سکے گا۔ بلکہ بہت جلد وہ اس زمین اوراس آب و ہوا کو ناسازگار پاکر خشک ہوجائے گا۔

نظام تعلیم میں اصلاح کی رٹ پر راقم کی گزارش:

عہدنبوی کی اسلامی تہذیب و ثقافت کو دورحاضر کے معاشرے میں رائج کرنے کے لیے آج بھی تعلیمی اداروں میں دارِارقم اور صُفّہ کے سلسلہ کو آگے بڑھانا ہوگا۔ عہدنبوی کے طریقہ تعلیم،منہج تربیت،نصاب،اسلوب تدریس ہمارے لیے مشعلِ راہ قرار پائے گا۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا، گفتگو و خاموشی خواہ جَلوت میں ہو یاخلوت میں یعنی نشستاً،گفتند،برخاستاً کے تمام تر اسلوب آپ ﷺ کی سیرت سے ہی حاصل کرنا ہے۔نیزمنبر و محراب پر ہو یا میدان جہاد ، لین دین ہو یاکاروبارِ تجارت ، آپس کے تعلقات و معاملات ہوں یا سیاست و شئون مملکت،تبلیغ ہو یا دعوت اسلام ۔الغرض زندگی کے جملہ مشمولات و معمولات میں جس انداز میں بھی سیکھنا اور سکھانا، تعلیم وتعلّم(آموزش) کا عمل تھا جو اس وقت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ آج بھی سنت نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے یعنی اپنے نظام تعلیم کو موجودہ ضروریات ، حالات و تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا جو سنت نبوی ﷺ کی اتباع و پیروی ہوگی۔ اس ہی نہج پر مرتب کیا گیا نظام آج ہمارا نظام تعلیم کہلائے گا اور اسی کو ہم اسلام کا نظام تعلیم قرار دیں گے۔

اولیول اسکولز،کالجز اوریونیورسٹیز میں مذہبی تعلیم کیوں نہیں:

عصرحاضر میں ایک چھوٹا سا طبقہ جن کو سیکولر کہا جاتا ہے ۔ یہ طبقہ وقتاً فوقتا مدارس دینیہ جو کہ ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں سے بار بار تحریر و تقریر کے ذریعے مطالبہ کرتاہے کہ مدارس دینیہ میں علوم جدیدہ کو عملی طورپر متعارف کرواکے نصاب کا حصہ بنایاجائے۔ہم اس فکر کی بہت مضبوطی سے حمایت کرتے ہیں نہ کہ اس لئے کہ سیکولر طبقے کا نعرہ ہے بلکہ صرف اس لئے کہ اس فکر کو پروان چڑھنا چاہئے کہ علوم جدیدہ کا علم ہر زمانے میں حضور ﷺ کی تعلیمات سے ثابت ہے۔ اب کوئی بھی طبقہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یا کسی بھی فکر سے ہو یا وہ کسی بھی فرقے کی فکر کی ترویج  کررہے ہوں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ دینی مدارس میں علوم جدیدہ کے حامل ہیں۔ اصل میں یہ حسن اسلام ہے کہ جس نے قرآن و حدیث کے ذریعے ہمیں اس قدر مضبوط قواعد و ضوابط عنایت کئے ہیں جو کہ رہتی دنیا تک بالخصوص اہل ایمان کے لئے مشعل راہ اورپورے عالم کے لئے ترقی کا مینارہ ہیں۔

ضمنا یہاں پر ایک مثال پیش کی جارہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ

عہدجدید میں علمی مراکز کی تجدید نو

سرآرتھر کیتھ نے مصر کی قدیم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو قلمبند کیاہے

“The Egyptian was conquered not by the sword, Koran.

Sir Arthur Keith, A New Theory Of Human Evolution, Pg 303 London 1950,

منقولہ تاریخی عبارت امت مسلمہ کی صحیح عکاسی کررہی ہے۔ آرتھر مبصر نے مصر کی تاریخ بیان کرتے ہوئے دین اسلام کی حقیقی نظریاتی طاقت کا اعتراف کیاہے۔ اوراس کا یہی اعتراف براعظم ایشیا اورافریقہ میں موجود تمام اسلامی ممالک پر صادق آتاہے۔ اورایسا اس لئے بھی ہوا کہ قرن اول کے مسلمان جن کو تاریخ اسلام نے "صحابہ کرام" کے عظیم نام سے موسوم کیاجاتاہے ندائے رسول اللہ پر "بلغوا عنی ولوآیۃ" پورے عالم میں پھیل گئے۔ اور انہوں نے نظام اسلامی کے مراکز جگہ جگہ قائم کئے۔ جس میں بعض تو یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے اوربعض عہد جدید کے نظام تعلیم کے مطابق کالج یا اسکول کا درجہ رکھتے تھے۔ جن کو آج کی زبان میں ہم مدرسہ یا جامعہ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان ہی جامعات کے اندر عربی زبان سکھائی جاتی تھی۔ جو کہ وحی الٰہی کی زبان ہے۔ اوررسول عربی ﷺ کی زبان ہے۔ اوراسی زبان میں قرآن وحدیث کے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ان جامعات سے پڑھ کر جو طلباء نکلتے تھے وہ اپنے اپنے علاقوں میں جاکر اسی نوعیت کے علمی مراکز قائم کرتے تھے۔ اوراس انقلابی تحریک  نے عوام عالم  کے ایک بڑے حصے کو تہذیب و تمدن ،زبان و بیان و مذہب کے قالب میں ڈھالا۔

قرن اول کے تعلیمی مراکز اورماہرین اساتذہ کرام کی ترقی وکامیابی  کارازقرآن پاک اورسنت نبوی ﷺ سے تمسک تھا۔ اس کے بعد آدمی ایمان اورحرارت کے ان خزانوں سے براہ راست اپنا دین اخذ کرنے لگتاتھا۔ رسول اللہ ﷺ اورآپ کے اصحاب کی انقلابی زندگیاں قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیمات کا عکس تھیں۔ آج ہمارے ہاں پہلے سے زیادہ تعلیمی مراکز جامعات،مدارس،اسکول،کالجز،یونیورسٹیز دور دورہ ہے۔ مگر آج ان تعلیمی مراکز کا وہ اثر رسوخ اورفائدے نظر نہیں آرہے جو قرن اول میں ظاہر تھے۔

مولانا وحید الدین خان اپنی  ایک تحریر جو کہ 1987 میں منصہ شہود پر "تعلیمی نظام کی تجدید" کے نام پر آئی تھی میں رقم طراز ہیں۔

قرآن اس لئے  اترا کہ اس کو پڑھ کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوں اوران کے دل خدا کی یاد سے دہل اٹھیں۔مگر ان مدرسوں کے نصاب میں قرآن کو صرف ضمنی مقام حاصل ہے ۔ رسول ﷺ کی زندگی اورصحابہ کے حالات جو تاریخ انسانی میں آتش فشاں کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو سرے سے پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ احادیث و آثار کا مقما ہمارے مدارس میں صرف یہ  ہے کہ ان کوعنوان بناکرجزئیات فقہ کے کچھ خود ساختہ مسائل پر لامتناہی بحثیں جاری رکھی جاسکیں۔ اسی کے ساتھ "علوم آلیہ" کے نام پر جو فنون پڑھائے جاتے ہیں وہ اتنے فرسودہ ہیں کہ ذہن کو جمود اور لایعنی موشگافیوں کا عادی بنانے کے سواکوئی دوسری خدمت انجام نہیں دے سکتے۔اسلامی مدرسہ کی فضا کو اللہ کی بڑائی کے چرچے سے معمور رہنا چاہئے۔ مگرہمارے موجودہ تعلیمی ادارے زوال کی جس سطح پر ہیں وہ یہ کہ ہر ایک نے اپنے کچھ زندہ یا مردہ اکابر بنالیے ہیں اورمدرسہ کی تمام سرگرمیاں بس انہیں بزرگوں کی کبریائی  کا سبق دینے کے لئے وقف رہتی ہیں۔ ایسی حالت میں کیسے ممکن ہے کہ یہاں لوگوں کو ایمانی حرارت کا سبق ملے،یہاں اعلیٰ انسانی کردار ڈھلیں، یہاں خدا و آخرت کی تڑپ رکھنے والے لوگ پیدا ہوں، یہاں سے اسلام کا سیلاب اٹھے جو دور اول کے مدرسوں سے اتھا تھا اورایک عالم پرچھاگیا تھا۔

خان،مولانا وحید الدین ،تجدید دین، ص80 مکتبہ الرسالہ نئی دہلی،2008

عہد نبوی کے نظام تعلیم میں طریقہ تدریس:

نبوی  تعلیم وتربیت نسخہ کیمیاء کی حیثیت رکھتی ہے جو کہ ہر دور میں عام و خاص کے لئے مشعل راہ  ہے۔  حضورﷺنے اپنے مخصوص انداز میں صحابۂ کرام کی تعلیم و تربیت جاری رکھی۔ آپ انہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف دلاتے، مکارمِ اخلاق پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے، احکام شریعت کی تشریح بتاتے اور مبادیاتِ اسلامی کی وضاحت فرماتے تھے۔ صحابۂ کرام کی بہتر تعلیم و تربیت کے سلسلے میں آپﷺ ابلاغ کے مختلف و سائل وذرائع استعمال میں لاتے تھے۔

تدریس کی تیاری او رمطالعہ کرنا :

 معلمین  اور معلّمات کوکلاس میں تدریس كے لئے جانے سے قبل جو سبق پڑھانا ہے اس كے لئے اچھی طرح تیاری اورمطالعہ کرنا چاہئے، اس کی عبارت کو اچھی طرح حل کرنا اور سمجھنا چاہئے ۔ اس کے مسائل اور مضامین کو ذہن نشین کرنا چاہئے ۔مشکل الفاظ کے معانی ، واحد، جمع، جملوں میں استعمال وغیرہ کو جاننا چاہئے ، اورکسی لفظ اور عبارت کو حتی الامکان غیر مفہوم نہیں رہنے دینا چاہئے ، کسی درس کو بغیر سمجھے اور بغیر معرفت و بصیرت کے پڑھانا غلط ہے ۔

جیسا کہ آیت کریمہ اس کی واضح د لیل ہے۔

قُلْ َهذِهِ سَبِيْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّهِ عَلَی بَصِيْرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ   ؂[86]

اور رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا :

’’ مَنْ أُفْتِىَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ ‘‘  ؂[87]

جس نے بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا۔

معاون چیزوں کا اہتمام کرنا:

دنیا کے تمام پیشے کے لوگ اپنے اوزار اورضروری سامان کا اہتمام کرتے ہیں۔ بڑھئی کے پاس اس کے اوزار، لوہار کے پاس اس کے اوزار،مستری کے پاس اس کے اوزار۔ اسی طرح دیگر تمام کام کرنے والوں کے پاس عموماً ان کے اوزار رہتے ہیں ۔ پیشۂ تدریس سے وابستہ افراد کو بھی ضروری سامان اور کتابیں وغیرہ اپنے پاس رکھنا چاہئے۔

لہذا معلمین ومعلّمات کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے مضمون کی تدریس  سے متعلق مصادر و مراجع اور معاون چیزوں کو ضرور رکھنا چاہئےمثلاً لغت کی کتابیں، نقشے ،معاون کتب  وغیرہ  کی دستیابی یقینی ہو  تاکہ جہاں بھی رہے ان سے استفادہ کرے ۔ اس سے انھیں کافی سہولت ہو گی اور پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑ ے گا ۔

جماعت میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا:

 معلمین  جب کلاس میں جائیں تو داخل ہو تے وقت طلبہ سے سلام کریں ۔ بعض اسکولوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ استاذ جب کلاس میں داخل ہو تا ہے تو وہ سلام نہیں کرتا، بلکہ طلبہ کو کھڑے ہو کر سلام کرنے کے لئے کہتا ہے اور اگر کوئی طالب علم کھڑا نہ ہو تو اسے سزادیتا ہے ۔یہ طریقہ اسلامی اصول کے خلاف ہے ۔اسلامی طریقہ یہ ہے کہ آنے والا بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرے ،ارشاد باری ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتاً غَيْرَ بُيُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَهْلِهَا   ؂[88]

اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہو ا کروجب تک کہ گھر والوں سے اجازت اور ان کی رضا نہ لے لو اور ان سے سلام نہ کر لو۔

اورحضرت انس ﷜ایک مرتبہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور فرمایا: نبی  ﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔  ؂[89]

آسان زبان و بہترین طریقہ  اختیار کرنا:

درس کی تفہیم اور مسائل کی توضیح میں  معلمین  کو ہمیشہ ایسی زبان استعمال کرنی چاہئے جو عام فہم اور طلبہ وطالبات کے معیار کے مطابق ہو ،تا کہ وہ ان کی باتوں کو آسانی سے سمجھ سکیں ۔مشکل الفا ظ ، دوسری زبانوں کے غیر مانوس کلمات اورمقفیٰ ومسجع عبارتوں کا درس میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول اسی قوم میں سے مبعوث فرمایا، جو ان کی زبان سے اچھی طرح واقف ہوتا تھا ، اور انھیں کی زبان میں انھیں وعظ و نصیحت کرتا ،تعلیم دیتااور دعوت و تبلیغ کرتا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ   ؂[90]

اور ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کردے۔

جب اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کوبھیجتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا کہ وہ اپنی قوم کی زبان سے اچھی طرح واقف ہوں، اور انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کوانہیں کی زبان میں تعلیم دیتے تھے تو  معلمین  اور معلّمات کو بھی اس کا لحاظ رکھنا چاہئے، اور تدریس وتفہیم میں طلبہ کی زبان اور ان کے معیار کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ماہرین تعلیم کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ہونی چاہئے، تاکہ ان کو سمجھنے میں سہولت ہو اور زبان اور مسائل کے سمجھنے کا ڈبل بوجھ ان پر نہ پڑ ے ۔

آواز کاواضح اور بلند ہونا:

آج کل جیسا کہ مائک سسٹم کا اہتمام اگر ہو تو بہت عمدہ ہے  لیکن اگر نہ ہو تو کم از کم  معلمین  کی آواز درس دیتے وقت اتنی بلند ہونی چاہئے اور زبان اتنی واضح ہو نی چاہئے کہ کلاس کے تمام طلبہ وطالبات اسے بآسانی سن سکیں اور سمجھ سکیں ۔ جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ  ﷺ جب خطبہ دیتے تھے توآپ کی آواز بلند ہوتی تھی۔

حضرت جابر﷜ فرماتے ہیں:رسول اللہ  ﷺ جب خطبہ دیتے اور قیامت کا ذکر فرماتے تو آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوجاتا اور آپ کی آواز بلند ہوجاتی۔  ؂[91]

اور حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ  ﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے ۔ آپ جب ہمارے پاس پہنچے تو نماز کا وقت تنگ ہوگیا تھا، اور ہم وضو کررہے اور اپنے پاؤں پر مسح کر رہے تھے۔ آپ نے یہ دیکھ کر بلند آواز سے پکار کر دویا تین بار فرمایا:

وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ  ؂[92]

آگ کے عذاب کی خرابی ہے ان ایڑیوں كے لئے جو خشک رہ جا ئیں ۔

بہر حال  معلمین  کی آواز بقدر ضرورت بلندہو نی چاہئے ،اور انھیں تمام طلبہ سے مخاطب ہونا اورچاروں طرف دیکھنا چاہئے ، بولنے کی رفتار درمیانی اور معتدل ہو نی چاہئے، نہ بہت تیز ہو کہ طلبہ تمام باتیں اپنی گرفت میں نہ لے سکیں اور نہ اتنی سست ہو کہ وہ اکتا جائیں ۔ رسول اللہ  ﷺ کے بارے میں وارد ہے کہ جب آپ گفتگو فرماتے تو آپ کا ایک ایک لفظ اس طرح واضح ہو تا تھا کہ گننا چاہیں تو گن سکتے تھے۔

درس اور وعظ ونصیحت میں اس کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ آواز اس قدر بلند ، اور کرخت نہ ہو کہ سننے والوں پر گراں اور ان کے ذوق سماعت پر بار گزرے۔ بے تحاشہ چیخنے کی وجہ سے ہی گدھے کے بارے میں کہاگیا ہے :

إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ   ؂[93]

بیشک گدھے کی آواز سب سے خراب آواز ہے۔اس واسطے درس میں بے تحاشہ چیخنے سے بھی احتراز کرنا چاہئے اور مناسب ودلکش آواز میں درس دینا چاہئے ۔

طلبہ کے ذہنی معیار کے مطابق باتیں بتانا:

علمی اور فقہی باتوں کو پیش کرتے وقت طلبہ ، طالبات اور حاضرین کے ذہنی وعلمی معیار اور عمر وغیرہ کا لحاظ رکھنا چاہئے اور ان کے سامنے ایسی باتیں ہرگز نہیں پیش کرنی چاہئے جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو ں۔حضرت علی   فرماتے ہیں :

’’ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ‘‘  ؂[94]

لوگوں سے ایسی باتیں بیان کرو جو وہ سمجھ سکیں ،کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے ۔

اور بعض روایتوں میں ہے :’’دَعُوْا مَا يُنْکِرُوْن‘‘(رواہ آدم بن ا یاس وابو نعیم) یعنی جو باتیں اور مسائل ان کے معیار سے بلند ہوں اور جو وہ نہ سمجھ سکتے ہوں اور ان کوبیان کرنے کی صورت میں انکار کرنے اور فتنہ میں پڑ جانے کا خطرہ ہو ان مسائل اور باتوں کو چھوڑ دو۔

اور عبد اللہ بن مسعود﷜ فرماتے ہیں:’’ مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا لاَ تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ إِلاَّ كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً ‘‘  ؂[95]

جب آپ کسی قوم سے ایسی باتیں کریں گے جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہوں گی تو یہ ان میں سے بعض لوگوں کے لئے فتنہ کا باعث ہوں گی۔

اس لئے علمی باتیں اور مسائل پیش کرتے وقت مخاطبین کے علم ،عمر اور سمجھ بوجھ وذہنی معیار کا لحاظ کرنا ضروری ہے ۔ بعض  معلمین  نابالغ بچوں اور بچیوں کے سامنے نکاح ، جماع، غسل جنابت،حیض ونفاس اور ولادت وغیرہ کے مسائل چھیڑ دیتے ہیں ،بعض لوگ چھوٹے بچوں کے سامنے انکار حدیث کی تاریخ اورمنکرین حدیث کے شبہات وغیرہ بیان کرتے ہیں، جو ان کی عمر اور عقل کے اعتبار سے قطعاً مناسب نہیں۔

طلبہ کو بٹھانے کا اصول:

بعض  معلمین  کمزور ، معذور اور شریر بچوں کو آگے بٹھاتے ہیں، تاکہ کمزور اور اونچا سننے والے بچے استاد کی باتوں کو اچھی طرح سن اور سمجھ سکیں اور تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائیں ،اسی طرح وہ طلبہ جو شرارت کرتے ہیں یا درس کے وقت سوتے رہتے ہیں انھیں بھی آگے بٹھاتے ہیں تاکہ ان پر برابر نظر رہے اور انھیں سونے یا شرارت کرنے کا موقع نہ ملے، یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اگر سارے ذہین بچے پیچھے چلیں جائیں تو یہ ہوسکتا ہے کہ استاذ کی کچھ علمی باتیں وہ بھی نہ سن پائیں اور کمزور بچے بھی نہ سمجھ پائیں جس سے وہ باتیں غیر مفہوم رہ جائیں ۔

حضرت جابر بن سمرۃ ﷜ کی روایت ہے :

’’ كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم جَلَسَ أَحَدُنَا حَيْثُ يَنْتَهِى ‘‘  ؂[96]

ہم جب رسول اللہ  ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتے تو مجلس جہاں ختم ہوتی وہیں بیٹھ جاتے تھے ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس اور کلاس میں پہلے آنے والوں کو آگے اور مدرس کے قریب بیٹھنے کا زیادہ حق ہے اور ہر شخص جیسے جیسے آئے پیچھے ترتیب سے بیٹھتا جائے۔

’’ باب من قعد حيث ينتهي به المجلس ومن رأى فرجة في الحلقة فجلس فيها ‘‘  ؂[97]

ابوو ا قد اللیثی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ  ﷺ مسجد میں تشریف فرماتھے اور آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تھے کہ تین آدمی آئے جن میں سے دو آدمی رسول اللہ  ﷺ کی مجلس کے قریب آئے اور کھڑے ہوگئے ، پھر ایک آدمی نے حلقہ میں ایک خالی جگہ دیکھی اور وہاں جاکر بیٹھ گیا اور دوسرا ان کے پیچھے جاکر بیٹھ گیا اور تیسرا پیٹھ پھیر کر چلاگیا ، رسول اللہْ  ﷺ جب اپنی باتوں سے فارغ ہوئے تو فرمایا :’’ کیا میں تم لوگوں کو تینوں افراد کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ اس میں سے ایک نے اللہ کے پاس پناہ لی ، اور دوسراشرمایا (اور اس کی وجہ سے مجلس سے واپس نہیں گیا ) تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی (اور اس پر رحم فرمایا ) اور تیسرا رخ پھیر کر چلا گیا تو اللہ نے بھی اس سے رخ پھیر لیا ‘‘۔  ؂[98]

ایک سے زیادہ بارسمجھا نا:

اگر کوئی مسئلہ ایسا ہو جس کو طلبہ و طالبات ایک مرتبہ بتانے اور سمجھانے سے بآسانی نہ سمجھ سکتے ہوں تو انھیں وہ مسئلہ مکرر سہ کرر سمجھا نا چاہئے، تاکہ طلبہ اسے اچھی طرح سمجھ سکیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ  ﷺ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

’’ أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلاَثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ‘‘  ؂[99]

رسول اللہ  ﷺ جب لوگوں سے گفتگو فرماتے اور کوئی بات کہتے تواس کو تین مرتبہ دہراتے یہاں تک کہ وہ بات اچھی طرح لوگوں کے سمجھ میں آجاتی ۔اور جب کسی قوم کے پاس آتے تو سلام کرتے اور تین مرتبہ ان سے سلام کرتے ۔

امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں :یہ حدیث اس صورت پر محمول ہے جب مجمع بڑاہو۔   ؂[100]

میں کہتا ہوں کہ بات کے اعادہ کے سلسلہ میں یہ اس صورت پر بھی محمول ہوگی جب کوئی بات مشکل ہونے یا کسی اور بنا پر ایک مرتبہ کہنے اور سمجھانے سے مخاطبین کی سمجھ میں نہ آئے ،الحمد للہ آج ماہرین تعلیم نے بھی اعادہ وتکرار کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور تدریس کے اسالیب میں سے ایک اہم چیز درس کے اعادہ کو بھی مانا ہے ۔

عملی طور پر (پریکٹیکل) کر کے دکھانا :

کچھ مسائل اور چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک ان کو عملی طور سے کر کے نہ دکھایا جائے طلبہ کی سمجھ میں نہیں آتیں ،ایسی چیزوں کو عملی طور سے(پریکٹیکل) کر کے دکھا نا چاہئے ،کتاب و سنت میں اس کی کئی نظیر موجود ہیں ،مثال کے طور پر جب نماز کی فرضیت نازل ہوئی توحضرت جبریل علىہ السلام نے رسول اللہ  ﷺ کو دو روز باقاعدہ نماز پڑھ کر دکھایا، پہلے روز اول وقت میں، اور دوسرے روز آخروقت میں ، اور پھر فرمایا:

’’ وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ ‘‘  ؂[101] اور وقت ان دونوں وقتوں کے در میا ن ہے۔

خود رسول اللہ  ﷺ نے بھی صحابہ کرام کو نماز پڑھ کر دکھایا اور فرمایا: ’’صَلُّوْا کَمَا رَأيْتُمُو نِیْ اُصَلِّیْ‘‘  ؂[102]

ایک مرتبہ آپ نے منبر پر نماز پڑھی اور جب سجدہ کرنا ہوا تو الٹے قدم نیچے اتر کر سجدہ کیا اور پھر منبر پر لوٹ آئے۔ اورنماز سے فراغت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا وَلِتَعَلَّمُوا صَلاَتِي ‘‘؂[103] اے لوگو! میں نے ایسا صرف اس لئے کیا تاکہ تم لوگ میری اقتداء کرو اور میری نماز سیکھ لو۔اسی طرح آپ نے حج بھی عملًا کر کے دکھا یا اور فرمایا: ’’ خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ ‘‘  ؂[104]  تم لوگ مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔

بہر حال جن چیزوں کی تعلیم و تفہیم کے لئے عملی طور سے کر کے دکھانا ضروری یا زیادہ مفید ہو انھیں عملی طور سے کر کے دکھانا چاہئے، عصری علوم کی تعلیم میں پریکٹیکل کی بڑی اہمیت ہے ، خاص طور سے سائنس اور طب میں۔

مثالوں  کے ساتھ سمجھانا:

بہت سی باتیں اوراصول وقواعد مثالوں کے بغیر سمجھ نہیں آتے،لیکن مثالوں سے بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہیں۔اس سے وقت بچتا ہے اور  پر یشا نی نہیں ہوتی ہے، ایسی باتوں کومثالوں کے ذریعہ سمجھانا چاہئے ، کتاب وسنت میں اس کی بہت سی مثا لیں مو جود ہیں ۔

مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاء تْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ    ؂[105]

ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ،پھر جب اس کے آس پاس کی چیزیں روشنی میں آگئیں تو اللہ نے ان کے نور کوچھین لیا اور انھیں اندھیرے میں چھوڑ دیا ،جو دیکھتے نہیں۔

اس میں اللہ نے ان لوگوں کے بارے میں جو پہلے تو مسلمان ہوئے ،لیکن پھر جلدہی منافق ہو گئے، بتایا کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا، پھر اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہو گیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہو گئیں ، پھردفعتًا وہ روشنی بجھ گئی، اور وہ حسب سابق تاریکیوں میں گھر گیا، یہ منافقین بھی پہلے شرک کی تاریکی میں تھے ،پھر مسلمان ہوئے تو ایمان کی روشنی میں آگئے، اور حلال و حرام اور خیر و شر کو پہچان گئے ،پھر دوبارہ نفاق کی جانب لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی ۔

ایک دوسری جگہ فرمایا :

مَّثَلُ الَّذِيْنَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِيْلِ اللّهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَالله وَاسِعٌ عَلِيْمٌ   ؂[106]

جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کئے ہوئے مال کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں ،اور ہر بالی میں سو دانے ہوں،اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بڑھا چڑھا کر دیتاہے،اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔

اسی طرح باتوں کی وضاحت اور مسائل کی توضیح و تشریح کے لئے اور بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔

رسول اللہ  ﷺ نے بھی اپنی باتوں کو سمجھانے كے لئے مثالوں کا استعمال کیا ہے، مثلاً آپ نے فرمایا:

’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ‘‘  ؂[107]

مومنوں کی مثال آپس میں لطف و محبت اور رحم دلی میں ایک جسم کے مانند ہے کہ اس کے کسی بھی عضومیں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بخار،درد اور جاگنے میں برابر شریک ہوتا ہے ۔

اس میں رسول اللہ  ﷺ نے مسلمانوں کے باہمی ربط اور محبت و تعلق کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے کہ مسلم معاشرہ ایک جسم کی طرح ہے، جیسے جسم کے کسی ایک عضو میں بیماری اور تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے، ایسے ہی اگر کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو اس تکلیف میں سارے مسلمانوں کو شریک ہونا چاہئے ۔

ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:

’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الأُتْرُجَّةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِى لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلاَ رِيحَ لَهَا وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِى لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ وَلاَ رِيحَ لَهَا وَمَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْهُ شَىْءٌ أَصَابَكَ مِنْ رِيحِهِ وَمَثَلُ جَلِيسِ السُّوءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْ سَوَادِهِ أَصَابَكَ مِنْ دُخَانِهِ ‘‘  ؂[108] 

اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترجہ (سنترے کے مانند ایک خوش ذائقہ اور خوشبو دار پھل)کی مانند ہے ،جس کی بو بھی اچھی ہو تی ہے اور ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے ۔اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی طرح ہے، جس کا ذائقہ اچھا ہو تا ہے ، مگر اس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور اس فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، ریحانہ(ایک خوشبو دار پھل) کی مانند ہے، جس کی بو اچھی ہو تی ہے، مگرذائقہ کڑوا ہو تا ہے ،اور اس فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، اندرائن کی مانند ہے، جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی ۔اچھے ساتھی کی مثال مسک والے کی مانند ہے اگر تمہیں اس میں سے کچھ نہیں لگے گا توخوشبو ضرور ملے گی، برے ساتھی کی مثال بھٹی والے(لوہار وغیرہ) کی مانند ہے ،اگر تمہیں اس کی سیاہی نہ لگے، تو اس کا دھواں تو ضرور لگے گا۔

اس حدیث میں رسول اللہ  ﷺ نے مومن اور فاجر اور ان کے قرآن پڑھنے اور نہ پڑھنے کے عمل کے اثرات کو محسوس چیزوں سے تشبیہ دے کر بہت زیادہ آسان قابل فہم اور اثر انگیز بنادیا ہے،اسی طرح برے ساتھی کو لوہار سے تشبیہ دے کر یہ واضح فرمایا ہے کہ جس طرح لوہار کے پاس بیٹھنے والا اگر اس کے کوئلے کی سیاہی اورآگ کی چنگاریوں سے بچ بھی جائے تو کم از کم اسے دھواں تو لگے گا ہی ۔ ا سی طرح برے شخص کی صحبت میں رہنے والے کو بھی اس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تکلیف اور نقصان ضرورپہونچے گا ۔اس واسطے بروں کی صحبت سے حتی الامکان دور رہنا چاہئے۔

بہر حال کتاب و سنت میں بہت سی باتوں کی توضیح مثالیں دیکر اور تشبیہ اور تمثیل کے ذریعہ کی گئی ہے، اس واسطے  معلمین  و معلّمات کو بھی اپنی باتوں کو سمجھانے كے لئے مثالوں سے مدد لینی چا ہئے ۔

اشاروں کی مددسے سمجھانا:

تعلیم و تربیت کا کام کرنے والوں کو چاہئے کہ بعض نکات یا باتوں کو خوب اچھی طرح سمجھانے اور واضح کرنے کے لئے حسب ضرورت اشاروں سے بھی مدد لیں۔ در اصل بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں لوگ اشارے سے بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ جاتے ہیں اور صرف زبان سے کہنے سے یا تو اسے دیر میں سمجھتے ہیں یا سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں ، ایسے مواقع پر تفہیم کے لئے اشاروں کا استعمال کرنا زیادہ مناسب اوربہتر یا ضروری ہو تا ہے۔ اس لئے اشاروں کا استعمال کیاجانا چاہئے ۔ جیسا کہ  رسول اللہ  ﷺ نے یہ سمجھانے کے لئے کہ قمری مہینہ کبھی انتیس دن کا ہو تا ہے اور کبھی تیس دن کا اشارے سے کام لیا، اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پھیلا کر اشارہ کرتے ہوئے فر مایا :

’’الشَّهْرُ هٰکَذا وَ هٰکَذاوَ هٰکَذا‘‘

کبھی مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے اور تیسری مرتبہ انگوٹھے کو موڑلیا ، پھر فرمایا:

’’ ’’الشَّهْرُ هٰکَذا وَ هٰکَذاوَ هٰکَذا ‘‘

اور اس مرتبہ انگوٹھے کو نہیں موڑا، اس طرح آپ نے اشارہ فرمایا کہ مہینہ کبھی انتیس کا اور کبھی تیس کا ہو تا ہے ۔  ؂[109]

اسی طرح مسلمانو ں کے باہمی ربط و تعلق کو بتانے كے لئے ایک مرتبہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا : ’’ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ‘‘  ؂[110] مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے میں پیوست ہو کر اس کومضبوط کرتا ہے ،راوی حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعری ﷜ فرماتے ہیں: ’’ وَشَبَّكَ أَصَابِعَهُ ‘‘ اور رسول اللہ  ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر جال بنا کر دکھایا۔  ؂[111]

اورحضرت سہل بن سعد الساعدی ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: ’’ أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى ‘‘ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہوں گے ۔اور یہ کہتے ہوئے آپ نے درمیانی اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا۔

ظاہر ہے کہ اس اشارے سے صحابہ کرام کی سمجھ میں یہ بات بڑی آسانی سے آگئی ہوگی کہ رسول اللہ  ﷺ اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایک دوسرے سے بالکل قریب ہوں گے اور دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہو گی۔

ایک بار سفیان بن عبد اللہ ﷜ نے رسول اللہ  ﷺ سے دریافت کیا کہ: اللہ کے رسول یہ ارشاد فرمائیے کہ آپ کی نظر میں میرے لئے کون سی چیز سب سے زیادہ خطرناک ہے ؟آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا:یہ۔  ؂[112]

رسول اللہ  ﷺ نے اس موقع پر جواب میں ’’یہ‘‘ کہہ کرجہاں اس بات کی جانب اشارہ فرمایا کہ زبان کے استعمال میں بے احتیاطی سب سے خطر ناک امر ہے وہیں آپ نے زبان کو پکڑ کر اس بات کی جانب بھی اشارہ کردیا کہ زبان پر گرفت ہونا اور اس کو اپنے قابو میں رکھنا ضروری ہے ۔

نقشہ یا خط کھینچ کر سمجھانا:

بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو نقشہ بنا کر یا لکیروں سے اس کی شکل بنا کر دکھانے اور سمجھا نے سے مخاطبین کوفورا سمجھ میں آجاتی ہیں،اور اگر ویسے سمجھایا جائے تو سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ایسی چیزو ں کونقشہ کے ذریعہ یا خطوط کھینچ کر سمجھانا چاہئے۔ رسول اللہ  ﷺ بھی حسب ضرورت ا یسا کیا کرتے تھے ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ ﷜ سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی  ﷺ کے پاس تھے ، آپ نے ایک سیدھی لکیر کھینچی ،پھر اسکے دائیں جانب دو لکیریں اوربائیں جانب دو لکیریں کھینچیں ،پھر درمیان والی لکیر پر اپنا ہاتھ رکھا اور فر مایا: یہ اللہ کا راستہ ہے ،پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِيْلِهِ   ؂[113] یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی کو اختیار کرو اور دوسرے راستوں کواختیار نہ کرو اس لئے کہ وہ تم کو اس کے راستے سے ہٹاکر متفرق کردیں گے۔

اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے ہمارے لئے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر چند خطوط اس کے دائیں اور بائیں جانب کھینچے، پھر فرمایا کہ یہ ایسے راستے ہیں جن میں سے ہر ایک پر شیطان ہے اور جو اپنی جانب بلاتا ہے ۔پھر آیت کریمہ: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِيْلِهِ  کی تلاوت فرمائی ۔  ؂[114]

غور فرمائیے کہ رسول اللہ  ﷺ نے خطوط کھنچ کر آیت کریمہ اور اللہ کی راہ’’ صراط مستقیم ‘‘کی تشریح کس قدر عام فہم انداز میں فرمائی، جس سے صحابہ کرام رضى الله عنہم کے ذہنوں میں یہ بات بڑی آسانی سے جا گزیں ہو گئی کہ اللہ کا سیدھا راستہ صرف ایک ہے اور باقی تمام راستے شیطانوں اور گمراہی وضلالت کے ہیں۔

ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷜ فرماتے ہیں کہ ہمیں سمجھانے کے لئے رسول اللہ  ﷺ نے ایک مربع نما شکل بنائی ۔ اور اس کے بیچ سے باہر نکلتا ہوا ایک خط کھینچا اور اس درمیانی خط سے ملا کر چھوٹے چھوٹے خطوط کھینچے ۔پھر مربع کے درمیان میں انگلی رکھ کر فرمایا:یہ انسان ہے اور مربع بنانے والے خطوط اس کی موت ہیں اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط حوادث و مصائب ہیں جو انسان پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔اگر ان کا نشانہ چوک جاتا ہے تواجل آلیتا ہے ،اور مربع سے باہر نکلتا ہوا جو خط ہے وہ انسان کی آرزو اور تمنا ہے ۔جہاں تک آدمی کبھی نہیں پہنچ پاتا۔

حافظ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری(۱۱؍۲۳۷)میں مختلف محدثین کرام کی بنائی ہوئی شکلیں نقل کی ہیں اور اس شکل کو سب سے زیادہ معتمد قرار دیا ہے۔

اس خاکہ کی مدد سے رسول اللہ  ﷺ نے یہ بات واضح فرمائی کہ انسان اور اس کی آرزؤوں کے درمیان حادثات اور مصائب حائل ہیں، پھر موت چاروں طرف سے انسان کو گھیرے ہوئے ہے، جس سے کوئی راہ فرار نہیں ۔اورانسان کو کتنی بھی طویل زندگی کیوں نہ ملے اس کی آزوئیں ادھوری رہ جاتی ہیں، اور کوئی بھی انسان زندگی میں اپنی تمام تمناؤں کی تکمیل نہیں کر پاتا۔  ؂[115]

وائٹ بورڈ کا استعمال کرنا :

 معلمین  و معلّمات کو ضرورت کے مطابق طلبہ کو سمجھانے كے لئے کبھی کبھی وائٹ بو ر ڈ  کا بھی استعمال کرنا چاہئے ،کچھ باتوں کا املا کرانا چاہئے، اور کچھ چیزیں لکھ کر بتانا چاہئے، اور جو با تیں اہم اور ضروری ہوں انھیں ضرور لکھانا چاہئے ،تا کہ وہ طلبہ کے پاس محفوظ رہیں،کیونکہ کہا جا تا ہے ’’الذھن خوّان‘‘ یعنی ذہن بہت خیانت کرنے والا ہے، بہت ساری باتوں کے بارے میں آ دمی سوچتا ہے کہ یہ ہمیشہ یاد رہیں گی مگر حافظہ خیا نت کرجاتا ہے اور وہ باتیں ذہن سے نکل جاتی ہیں ۔

خاص طور سے چھوٹے بچوں كے لئے ضروری باتیں  بورڈ پر ضرورلکھ دینا چاہئے، تا کہ وہ دیکھ کر صحیح صحیح اپنی کا پیوں پر نقل کر لیں اور ان کے پاس محفوظ رہیں،اور ساتھ ہی بچوں کولکھنے کی اہمیت بھی بتانا چا ہئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب انبیاء علیہم السلام پر اپنے کلام کو نازل فرمایا، تو صرف انبیا ء علیہم السلام کی زبانی ان کی تبلیغ پر اکتفاء نہیں کیا ، بلکہ انھیں کتابی شکل میں بھی عنایت فر ما یاتاکہ وہ محفوظ رہیں اور لوگ مقررہ مدت تک ان سے استفادہ کرتے رہیں۔

رسول اللہ  ﷺ نے بھی قرآن کریم کی حفاظت كے لئے کاتبین وحی کو مقرر فرمایا ۔جو آپ پرنازل ہونے والی سورتوں اورآیتوں کو آپ کی ہدایت کے مطابق مصحف میں لکھتے تھے، فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے بنی لیث کے ایک شخص کو قتل کردیا، جب اس واقعہ کی اطلاع رسول اللہ  ﷺ کو دی گئی تو آپ نے اپنی سواری پر سوار ہوکر ایک عظیم الشان خطبہ دیا جس میں حرم کی عظمت وحرمت اور اس کے آداب کی تفصیل اور قتل میں قصاص ودیت کے احکام کو بیان فرمایا، جب آپ خطبہ سے فارغ ہوئے تو یمن کے ایک صحابی ابو شاہ ﷜ نے عرض کیا: اللہ کے رسول مجھے یہ خطبہ لکھوا دیجئے ۔آپ نے صحابہ کرام رضى الله عنہم کو ابو شاہ كے لئے یہ خطبہ لکھ کر دینے کا حکم دیا ۔ اور فر مایا : ’’ اُکْتُبُوْا لِأبِيْ شَاهْ‘‘ابو شاہ کے لئے لکھ دو۔  ؂[116]

ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر کا تعلیم و تبلیغ میں بڑا دخل اور اس کی بڑی اہمیت ہے ، اس واسطے طلبہ ا ور معلمین  کواہم اہم مسائل کے لکھنے لکھانے کا اہتمام کرنا چاہئے اور فرائض اور ریاضی وغیرہ کے مسائل کی تفہیم کے لئے بلیک بورڈ کا استعمال ضرور کرنا چاہئے۔

اسی طرح اسلامی احکام و فرائض کا نزول بھی بتدریج ہوا، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انھیں ایک ہی مرتبہ نازل کر دیتا، مگر متعدد مصلحتوں کے پیش نظر ایسا نہیں کیا ۔ بہر حال تدریج اور اعتدال قرآن کریم کا منہج ہے، اور اس میں بڑی حکمتیں اور فوائد ہیں، اس واسطے  معلمین  و معلّمات کو بھی تعلیم و تربیت میں اس کا لحا ظ رکھنا چا ہئے۔

حضرت معاذ بن جبل ﷜ کو جب رسول اللہ  ﷺ نے یمن بھیجا تو انھیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم انھیں پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا، وہ جب یہ بات مان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد(  ﷺ) اللہ کے رسو ل ہیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر شب و روز میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ یہ بھی تسلیم کرلیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر زکاۃ فرض کیاہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور غریبوں اور فقیروں پر خرچ کی جائے گی۔  ؂[117]

مشکل مسائل کو آسان بنا کر پیش کرنا:

بہر حال  معلمین  و معلّمات ا ور والدین وغیرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے سامنے مدرسہ اور تعلیم کا ذکر اچھے انداز میں کریں، اورمدرسے کا ماحول ایسا عمدہ ، خوش گوار اوردلچسپ بنا ئیں کہ بچے وہاں خود اپنے شوق اور رغبت سے جائیں، اور  معلمین  جو کتابیں یا مضامین پڑھائیں انھیں آسان اور قابل فہم بنا کر پیش کریں، طلبہ کی ہمت افزائی ،اور مدد کریں، اور کوئی ایسا قول و فعل ان سے صادر نہ ہو جس سے طلبہ کو تعلیم سے نفرت ہو اور وہ مدرسہ نہ جائیں یا چھوڑ دیں ۔

رسول اللہ  ﷺ نے حضرت معاذ﷜ اورحضرت ابو موسی ﷜ کو جب یمن کی جانب روانہ کیا تو انھیں یہ نصیحت فرمائی:

’’ يَسِّرَا ، وَلاَ تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا ، وَلاَ تُنَفِّرَا ‘‘  ؂[118]

لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ، سختی نہ کرنا ،ان کو بشارت دینا اور نفرت نہ دلانا۔

نیز آپ نے فر مایا:

’’اِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ، وَلَن يُّشَادَّ أحَدٌ اِلاغُلِبَ ،فَسَدِّدُوْا، وَقَارِبُوْا، وَاَبْشِرُوْا.‘‘  ؂[119] بیشک دین آسان ہے ۔

جو شدت کا رویہ اپنائے گا وہ مغلوب ہو جائے گا ،اس لئے سیدھی اور میانہ روی اپناؤ، اور بشارت حاصل کرو۔

حوصلہ افزائی کر نا:

جوطلبہ وطالبات ذہین و فطین ،صالح وپرہینر گار اور اچھے اخلاق و عادات کے حامل ہوں  معلمین  کو ان کی ہمت افزائی کرتے رہنا چاہئے۔ اسی طرح جو طلبہ ا چھے نمبرات سے کامیابی حاصل کریں یا اچھی تقریر کریں ،یا کسی سوال کا برجستہ صحیح جواب دیں ،یا نماز کی برابر پابندی کریں یا کوئی اور نمایاں اور اچھا کارنامہ انجام دیں ان کی بھی ہمت افزائی کرنی چاہئے ۔

غزوۂ تبوک کے موقع پرمسلمانوں کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ رسول اللہ  ﷺ نے مسلمانوں سے تعاون کی اپیل کی تو حضرت عثمان غنی ﷜ نے ایک ہزاردینار پیش کئے۔رسول اللہ  ﷺ ان دیناروں کو اچھالتے جاتے اور فرما تے جاتے :آج کے بعد عثمان غنی کو کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچائے گا۔  ؂[120]

یہ ان کے ایثار و قربانی اور انفاق فی سبیل اللہ کی عزت افزائی اور تحسین تھی۔

اسی طرح جوطلبہ اپنی غربت اور پریشانیوں کے باوجود حصول تعلیم میں لگے ہوں ان کی دل جوئی اور ہمت افزائی کرنی چاہئے ۔ رسول اللہ  ﷺ حضرت عمار بن یا سررضى اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو توحید کی خاطر کفار کی اذیتیں برداشت کرتے دیکھتے تو ان کی دلجوئی اور ہمت افزائی کرتے ہوئے فرماتے:’’ اَبْشِرُوْا آلَ يَاسِرْ فَاِنَّ مَوْعِدَ کُمُ الْجَنَّةُ‘‘  ؂[121] اے یاسر کے گھر والو ! تمہیں خوشخبری ہو ، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے ۔

اسی طرح  معلمین  ان غریب اور کمزور حال طلبہ کو تسلی دیں اور ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے ان سے کہیں : صبر کرو اور محنت سے پڑھوان شاء اللہ تمہارا مستقبل روشن ہوگا، کامیابی تمہاری قدم بوسی کرے گی ، اور تمہاری محنت، صبر اور قربانی کا پھل تمہیں ضرور ملے گا۔

حضرت عمر بن خطاب ﷜ حضرت ابن عباس ﷜ کی ان کے علم و فضل کی وجہ سے تعریف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے’’نِعْمَ تَرْجُمَانُ الْقُرآنِ ابنُ عَبَّاس‘‘ ابن عباس کیا ہی بہترین قرآن کی تفسیر کرنے والے ہیں، اور کبھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تشریف لاتے تو فرماتے: ’’جَاءَ فَتَی الْکُهُولِ ، وَذُو اللِّسَانِ السَّؤلِ، وَالقَلْبِ الْعَقُولِ‘‘ ادھیڑ عمر والے کی متانت وسنجیدگی اور سوال کرنے والی زبان اورعقل رکھنے والے دل کامالک نوجوان آگیا۔

طلبہ سے سوالات کرنا:

 معلمین  کو چا ہئے کہ طلبہ سے کبھی کبھی سوالات کرتے رہیں،ان سے سوالات کرنے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے ان کے ذہن کا صیقل ہوتا ہے، جس طرح لوہے پر زنگ لگ جاتا ہے تو اسے صیقل کیا جاتا ہے جس سے اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور چمکنے لگتا ہے اور چھری وغیرہ ہو تو تیز بھی ہوجاتی ہے، اسی طرح ذہنوں کوبھی سوالات کے ذریعہ صیقل کیا جاتا ہے، کیونکہ اگر طلبہ اپنے ذہنوں کو استعمال نہ کریں اور یوں ہی چھوڑ دیں تو ان میں بھی زنگ لگ جاتا ہے اور کند ہو جاتے ہیں، اور اگر  معلمین  وغیرہ ان سے برابر سوالات کر تے رہیں اور وہ اپنے ذہنوں کو برابر استعمال کرتے رہیں تو ان کا ذہن تیز ر ہتاہے اور سوچنے سمجھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔

دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے طلبہ سبق برابر یادکرتے اور اپنی معلومات تازہ رکھتے ہیں، اور اگر  معلمین  صرف پڑھاتے رہیں اور کبھی ان سے سوالات نہ کریں اور زبانی نہ سنیں تو وہ خالی کلاس میں درس کے سماع پر اکتفاء کرتے ہیں، نہ مطالعہ کرتے ہیں، نہ سبق یاد کرتے ہیں نہ اسے دہراتے ہیں، اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کند پڑ جا تی ہے ۔

رسول اللہ  ﷺ بھی صحابۂ کرام رضى الله عنہم سے ان کی معلومات کا جائزہ لینے اور ان کے ذہنوں کو صیقل کرنے كے لئے کبھی کبھی سوالات پوچھا کرتے تھے ، ایک مرتبہ آپ نے صحابۂ کرام ث سے پوچھا : بتاؤ وہ کون سا درخت ہے جس کی مثال مومن کی سی ہے اور اس کے پتے جھڑتے نہیں؟حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ سب لوگوں کا ذہن جنگل کے درختوں کی طرف گیا، مگر میرا ذہن فوراً کھجور کی طرف گیا، کیونکہ تھوڑی دیر قبل ہی آپ کے سامنے کھجور کے گاپھا کا میٹھا گودا پیش کیا گیا تھا اور آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ اسے تناول فر مایا تھا۔ میں نے بتا نا چاہا مگر دیکھا کہ میں سب سے چھوٹا ہوں اس لئے خاموش رہا ۔ پھر لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ آپ ہی بتائیے وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:کھجور کا درخت۔ ( بخاری: ۱؍۱۴۷ مع الفتح)

علاوہ ازیں سوال و جواب کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے مخاطبین و حاضرین کو باتیں بہت جلد سمجھ میں آجا تی ہیں۔ کیونکہ سوال کی وجہ سے مخاطبین اس کی جانب پورے طور سے متوجہ ہوجاتے ہیں اور گفتگو میں دلچسپی لیتے ہیں، اسی واسطے رسول اللہ  ﷺ تعلیم و تفہیم کے لئے کبھی کبھی اس انداز کو بھی اختیار فرمایاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کرام ثسے پوچھا : ’’اَتَدْرُوْنَ مَنِ الْمُسْلِمُ ؟‘‘ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انھوں نے کہا : ’’اللّهُ وَرَسُولُهُ اَعْلَمُ ‘‘اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے ، آپ نے فرمایا:’’ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَ يَدِهِ ‘‘ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔پھر آپ نے فرمایا:’’ اَتَدْرُوْنَ مَنِ الْمُؤمِنُ؟‘‘ کیا تم جانتے ہو مومن کون ہے ؟ صحابہ نے کہا : ’’ اللّهُ وَرَسُولُهُ اَعْلَمُ ‘‘اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے۔آپ نے فرمایا: ’’اَلْمُؤمِنُ مَنْ أمِنَهُ الْمُؤمِنُوْنَ عَلیٰ أنْفُسِهِمْ وَ أمْوَالِهِمْ ‘‘ مومن وہ ہے جس سے اہل ایمان اپنی جانوں اور مالوں کے سلسلہ میں مامون و محفوظ رہیں۔   ؂[122]

اس واسطے  معلمین  کرام کو بھی طلبہ سے سوالات کرتے رہنا چاہئے اور خاص طور سے جماعت ثالثہ تک کے طلبہ سے خوب پوچھنا اوردرس سنتے رہنا چاہئے ،تاکہ ان کو نحو، صرف وغیرہ کے قواعد اور بنیادی باتیں اچھی طرح یاد ہو جائیں۔

طلبہ کوسخت محنت کی ترغیب دلانا:

یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ کوئی چیز بھی بغیر محنت اورجد وجہد کے حاصل نہیں ہو تی ۔ مگر حصول علم کے لئے خصوصی طور پر محنت کی ضرورت ہے ،قاعدہ ہے:’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ‘‘جو محنت اور کوشش کرے گا وہ پائے گا۔’’وَلَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعیٰ‘‘انسان كے لئے وہی ہے جو اس نے محنت کر کے حا صل کیا ۔ ’’ بَقَدْرِ الْکَدِّ تُکْتَسَبُ الْمَعَالِیْ ‘‘ کدو کاوش کے مطابق ہی اعلی مراتب حاصل ہوتے ہیں۔

اس واسطے  معلمین  و معلمات کو خود حصول علم کے لئے خوب محنت کرنی چاہئے اور طلبہ و طالبات کو بھی برابرحصول علم کے لئے محنت کرنے کی تاکید کرتے رہنا چاہئے اور ان کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنا اور انھیں علم کے دینی و دنیوی فوائد بتاتے رہنا چاہئے۔

نشاط کے وقت پڑھنے پرابھارنا:

مدارس کے ذمہ داروں کو بھی اس کا لحاظ کرنا چاہئے کہ سخت گرمی یا سردی میں  معلمین  و طلبہ کو پڑھنے پڑھانے کا مکلف نہ کریں ، بلکہ ایسے وقت میں تعطیل کردیں ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ فرماتے ہیں:’’إنَّ لِلْقُلُوبِ نَشَاطًا وَإِقْبَالاً ، وَإِنَّ لَهَا لَتَوْلِيَةً وَإِدْبَارًا ، فَحَدِّثُوا النَّاسَ مَا أَقْبَلُوا عَلَيْكُمْ ‘‘ دلوں میں نشاط اور رغبت بھی ہو تی ہے،ا ور اعراض و بے رغبتی بھی ،اس واسطے جب لوگوں میں نشاط، رغبت اور توجہ ہو تو ان سے حدیثیں بیان کرو۔

اور حضرت علی ﷜فرماتے ہیں :’’ دلجمعی حاصل کرو ،ذہن کو انتشار سے بچاؤ اور اس کے لئے حکمت کی پر لطف باتوں سے مدد لو ۔جیسے بدن تھک جاتاہے اسی طرح دلوں میں بھی اکتاہٹ پیداہو جاتی ہے‘‘۔

حضرت ابو وائل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود﷜ نکل کر ہمارے پاس آئے پھر فرمایا:

’’ إِنِّي أَخْبَرُ بِمَكَانِكُمْ وَلَكِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الأَيَّامِ كَرَاهِيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا ‘‘  ؂[123]

مجھے آ پ لوگوں کے بیٹھنے کا علم ہے مگر مجھے نکل کرآپ لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ مانع ہے کہ رسول اللہ  ﷺ بھی ہمارے وعظ و نصیحت میں ہمارے اکتاجانے کے ڈرسے ناغہ کرتے تھے ۔

بہر حال  معلمین  کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کو نشاط کے وقت پڑھنے اور مطالعہ کرنے پر ابھاریں اور بتائیں کہ نشاط کے وقت پڑھنے اور تھک جانے کی صورت میں آرام کرنے سے مطالعہ کا خاطر خواہ فائدہ ہو گا اور صحت و تندرستی بھی قائم رہے گی ۔

خود  معلمین  کو بھی اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ جب طلبہ اکتاجائیں اور ان کے اندر نشاط اور رغبت نہ ہو توان کی چھٹی کردیں۔ اوراگر حصہ(پیریڈ)  ختم نہ ہو ئی ہو تو دلچسپ علمی چٹکلوں اور اہل علم کے پر لطف اور عبرت انگیز واقعات کے ذکر اور اچھے اشعار پڑھنے سننے اور بیت بازی وغیرہ میں وقت صرف کریں۔

فلسفہ تفریح:

سیر و تفریح بچوں کا حق ہے اور ان کی جسمانی اورذہنی نشوونما کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ بچوں کے لئے صحت مندانہ اورموزوں تفریح کے اسباب و ذرائع کا اہتمام والدین کی ذمہ داری ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچوں کو صحت مند تفریح اور کھیلوں کی طرف راغب کریں تفریح درحقیقت فرحتِ دل کی کیفیت ہے یہ ذہنی کیفیت ہے اگربچوں کا مزاج ایسابنادیاجائے کہ وہ بامقصد تفریح یعنی ورزش، جسمانی کھیل کود اور کتب بینی سے فرحت حاصل کریں تو"ہم خرما وہم ثواب" والی مثل اس پر صادق آئے گی۔اس لئے والدین پر لازم ہےکہ بامقصد،جسمانی مشقت والے کھیل کودکی بچوں کو ترغیب دلائیں ۔ جس طرح حدیث مبارکہ میں آیاہے:''اپنے بچوں کو تیراکی، تیراندازی اورگھڑسواری سکھاؤ اور انھیں قرآن مجید کی صحیح تلاوت کرنا سکھاؤ''۔تیراکی،تیراندازی اورگھڑسواری اس وقت کے کھیل تھے۔ان تمام کھیلوں میں ورزش یا جسمانی مشقت پائی جاتی ہے جو صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ ورزشی کھیلوں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ کچھ دیر کھیل کربچے تھک جائیں گے۔اوریہ جسمانی طاقتوں میں اضافہ کا سبب بنیں گے اور ان کے بعد وہ تازہ دم ہوکر پڑھ سکیں گے۔نیز کھیل سے پڑھائی کے دوران وقفہ آنے کی وجہ سے ذہن مستقل دباؤ اوربوجھ سے آزاد ہوگا ۔ کیونکہ انسانی ذہن مشین کی طرح یکسانیت سے کام نہیں کرسکتا بلکہ اسے تنوع کی ضرور ت ہے ۔یہ تنوع ہی ذہنی آرام کا دوسرا نام ہے جوبہت اہم ہے ،یہ قوت حافظہ و یادداشت کو بہتر بناتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ بیٹھے بیٹھے کارٹون اوروڈیوگیم میں مصروف رہیں گے توپورادن گزرنے کے باوجود ان کا نہ دل بھرے گا نہ ہی ان کو حقیقی فرحت وخوشی نصیب ہوگی۔ اگر دل میں خوشی وفرحت کا احساس نہ ہو توپھر باغ وبہار گھومنے سے بھی تفریح حاصل نہیں ہوتی۔

اسلام کا فلسفہ سزا (Philosophy of Punishment):

سزا کے سلسلے میں اگر حضورﷺ کا اسوہ حسنہ دیکھا جائے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ ﷺکی خدمت اقدس میں دس برس رہے لیکن آپ ﷺ نے انہیں نہ صرف یہ کہ کبھی سزانہیں دی بلکہ جھڑکا تک نہیں لیکن پھر بھی اگر کبھی سختی کی ضرورت پیش آئے تو حدیث کی رو سے دس سال کے بعد سختی کی جاسکتی ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ جس طرح بیماری میں علاج کے لئے کڑوی گولی نگلنی پڑتی ہے اسی طرح بعض اوقات سختی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔اگر غلطیوں کو بالکل نظرانداز کردیاجائے اورکچھ نہ کہا جائے تو کل بڑی غلطی کا ارتکاب ہوگا جو بعض اوقات ایسی بھی ہوسکتی ہے کہ شاید توبہ کرنے پچھتانے سے بھی کچھ فائد ہ نہ ہو۔ انسان کی فطرت ہے وہ بتدریج چھوٹی برائی سے بڑی برائی کی طرف جاتاہے ۔Nip the evil in the bud ا( برائی کو ابتداء ہی میں ختم کردو)گر اس محاورے پر عمل نہ ہو توبچہ بڑے بڑے جرائم کرنے لگتا ہے۔اورپیشہ ور مجرم بھی بن سکتاہے۔ اور پھر یہ جرائم سزاؤں سے نہیں رکتے بلکہ بڑھتے ہی رہیں گے۔

سزا وجزا کابرمحل نفاذ تعلیم وتربیت میں مفید و معاون ہوتا ہے۔ والدین بچوں پر اپنارعب اور وقارضرور قائم رکھیں لیکن انہیں مستقل ڈراکر نہ رکھیں نہ سزا دینے میں جلدی کریں اور نہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سزا دیں ۔ لیکن اعتدال کے ساتھ۔سزا ایسی نہ ہو کہ بچہ کو شدید چوٹ آئے ۔ اورسزاکاعمل مستقل اور بار بار نہ ہو۔کسی نقصان یا ذاتی اور وقتی غصہ کی وجہ سے ہرگز نہ سزادیں ۔ اسی طرح اگربچے عادی مجرم نہ ہوں لیکن ان سے نادانستہ کوئی غلط کام ہوجائے تو اسے نظرانداز کریں اور پیار سے سمجھائیں ۔دوسروں کے سامنے اس کے عیوب کا تذکرہ نہ کریں ۔بچے کے سامنے اس تاثر کو قائم کرنے کی کوشش کریں کہ یہ غلط کام ہے اوراگر لوگوں کو علم میں یہ بات آئی تو اس سے وہ لوگوں کی نظروں سے گرجائے گا۔ بے جامارپیٹ اور غلطیوں کی تشہیراور اعلانیہ بازپرس کے رد عمل کے نتیجے میں بچہ میں بے باکی آجاتی ہے ، بچہ ڈھیٹ وبے شرم ہوجاتاہے،من یهن یسهل الهوان علیه "عزت آنے جانے والی چیز ہے انسان کو ڈھیٹ ہوناچاہئے" پر عمل پیرا ہوجاتاہے اور پھر ڈانٹ اور مار کا اس کی شخصیت پر مثبت کے بجائے منفی اثرہو گا۔ وہ سختی کے باوجود بھی ان سے باز نہیں آتا اور ویسے بھی زیادتی کسی بھی چیز کی نقصان دہ ہوتی ہے ۔

بچے کوواضح طور پر معلوم ہو کہ کس غلط کام کی اسے سزا ملی ہے ۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ سزا کے بعد یا اس سے قبل بچے کو سمجھایابھی جائے کہ سزا کسی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ رویوں میں بہتری کے لئے ہے۔کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جس معاملہ کے اسباب و پس منظر اس کے ذہن میں نہ ہو وہ اس پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ایسا کرنا بغاوت یا سرکشی نہیں بلکہ یہ فطری امر ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے درمیان مکالمہ سے ثابت ہوتاہے۔قَالَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا۔" اس بندے نے کہا(ا ے موسیٰ) آپ میرےساتھ صبرکرنے کی طاقت نہیں رکھتے اورآپ صبرکربھی کیسے سکتے ہیں اس بات پر جس کی آپ کو پوری طرح خبرنہیں "۔

یہاں اسی اہم فطری اورنفسیاتی تقاضہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔

خصوصیات

اسلامی نظام تعلیم سے مستفاد کچھ خصوصیات:

اخلاق حسنہ کی پا بندی کرانا :

 معلمین  ومعلّمات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ طلبہ وطالبات کو اسلامی اخلاق وعادا ت ، اوراحکام شرعیہ کی پابندی،اوردینی ا مور کے لحاظ کرنے کی تعلیم وترغیب دیں، ایسا نہ ہو کہ مدرسہ میں رہ کر وہ صرف کتاب خوانی کریں، اور اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی جانب توجہ نہ دیں،مدرسہ صرف تعلیم گاہ ہی نہیں بلکہ تربیت گاہ بھی ہے ،اس واسطے طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھنا چا ہئے اور انہیں اخلاق فاضلہ،عادات اسلامیہ اور احکام شرعیہ کی پابندی کی تاکید کرتے رہنا چاہئے ۔

امام مدائنی فرماتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان نے اپنے بچوں کے اتالیق سے کہا :

قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ لِمُؤَدِّبِ وَلَدِهِ: عَلِّمْهُمُ الصِّدْقَ كَمَا تُعَلِّمُهُمُ الْقُرْآنَ، وَجَنِّبْهُمُ السفلة؛ فإنهم أسوأ النَّاسِ دِعَةً وَأَقَلُّهُمْ أَدَبًا، وَجَنِّبْهُمُ الْحَشَمَ؛ فَإِنَّهُمْ لَهُمْ مَفْسَدَةٌ، وَأَخْفِ شُعُورَهُمْ تَغْلُظْ رِقَابُهُمْ، وَأَطْعِمْهُمُ اللَّحْمَ يَقْوَوْا، وَعَلِّمْهُمُ الشِّعْرَ يُمَجَّدُوا وَيَنْجِدُوا، وَمُرْهُمْ أَنْ يَسْتَاكُوا عَرْضًا، وَيَمُصُّوا الْمَاءَ مَصًّا، وَلا يَعُبُّوا عَبًّا، وَإِذَا احْتَجْتَ أَنْ تَتَنَاوَلَهُمْ بِأَدَبٍ، فَلْيَكُنْ ذَلِكَ فِي سِرٍّ لا يَعْلَمُ بِهِ أَحَدٌ مِنَ الْغَاشِيَةِ فَيَهُونُوا عَلَيْهِمْ.

 

 ان کو سچائی کی ایسی ہی تعلیم دو جیسے تم انہیں قرآن کی تعلیم دیتے ہو ۔کیونکہ اگر سچائی نہ ہو ، حسن اخلاق نہ ہو ، بات چیت کا سلیقہ نہ ہو ، چھوٹے بڑے کی تمیز نہ ہو، احکام شرعیہ کی پابندی نہ ہو تو ایسی صورت میں تعلیم ، مدرسہ اور قرآن و حدیث اور دیگر علوم شرعیہ کے پڑھنے پڑھانے کا کیافائدہ؟ اس واسطے جیسے طلبہ کوکتاب و سنت اور دیگر علوم کی تعلیم دیتے ہیں ویسے ہی انھیں اخلاق حسنہ اور احکام شرعیہ کی پابندی کی بھی تعلیم دینی چاہئے۔ عبد الملک بن مروان نے یہ بھی کہا:

 ’’وَجَنِّبْهُمُ السَّفَلَةَ‘‘ہمارے بچوں کو نچلے درجے کے لوگوں سے دور رکھئے۔

’’فَاِنَّهُمْ أسْوَأ النَّاسِ رَغْبَةً فِيْ الْخَيْرِ وَ أقَلُّهُمْ أدَباً‘‘  ؂[124] اس واسطے کہ نچلے درجے کے لوگ نیکیوں کی سب سے کم رغبت رکھنے والے اور قلیل الادب ہو تے ہیں ۔

علم نہ ہونے کی صورت میں“ لا أدری” کہنا:

اگر کوئی مسئلہ ذاتی مطالعہ اور دوسروں سے پوچھنے کے باوجود بر وقت حل نہ ہو سکے تو درس کے وقت طلبہ سے صراحت کے ساتھ کہدیں ’’لا ادری‘‘ یعنی مجھے بروقت یہ مسئلہ معلوم نہیں، اوربعد میں تحقیق اور مطالعہ کرکے بتائیں گے۔

اگر کسی مسئلہ میں صحیح علم نہ ہو تو صرف اپنی  انا کی خاطر ،ناک بچانے کے لئے الٹا سیدھا  یا اٹکل سے کوئی بات نہیں کرنی  چاہئے، بلکہ  کھلے دل سے عدم واقفیت کا اعتراف کرنا چاہئے اور پھر معلومات حاصل کر کے بعد میں بتا دینا چاہئے ۔اس سے استاد کا علمی وقار قائم اور طلبہ کااس پر اعتماد برقرار رہتاہے اور وہ بلا علم بات کرنے اور غلط بیانی کے اس گناہ اوروبال سے بھی محفوظ ر ہتا ہے ۔جس کی جانب حدیث ’’ مَنْ أُفْتِىَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ ‘‘ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

رسول اللہ  ﷺ نے خود متعد دسوالات کے جوابات میں لا علمی کا اظہار فرمایا اور جب ان کے بارے میں وحی نازل ہوئی تب بتايا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ فرماتے ہیں :

’’ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، مَنْ سُئِلَ مِنْكُمْ عَنْ عِلْمٍ هُوَ عِنْدَهُ ، فَلْيَقُلْ بِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ ، فَلْيَقُلْ : اللَّهُ أَعْلَمُ ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لاَ تَعْلَمُ : اللَّهُ أَعْلَمُ ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ‘‘  ؂[125]

لوگو !جس سے کسی علمی مسئلہ کے بارے میں پوچھا جائے تو اگر اسے معلوم ہو تو چاہئے کہ بتائے ،اور جس کے پاس اس کے بارے میں علم نہ ہو وہ ’’اللّٰہُ اَعْلَمُ ‘‘کہہ دے، اس لئے کہ یہ بھی علم ہے کہ جس کے بارے میں آدمی نہ جا نتا ہو’’اللّٰہُ اَعْلَمُ‘‘ کہہ دے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی  ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا : ’’آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر اجرت نہیں طلب کرتا ہوں،اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔

غرضیکہ  معلمین  کومطالعہ اور تیاری کر کے کلاس میں آنا چاہئے اور مطالعہ وتحقیق کے بعد ’’علی وجہ البصیرۃ‘‘پڑھانا چاہئے اورجو چیزیں معلوم نہ ہوں بلا جھجک ان کے بارے میں اپنی لا علمی کا اظہار کر دینا اور بعد میں تحقیق و مطالعہ کر کے بتانا چا ہئے ۔

تجربہ کار  معلمین  سے استفادہ کرنا:

ذاتی مطالعہ اور غور و فکر سے اگرکوئی مسئلہ یا عبارت حل نہ ہو سکے توتجربہ کار با صلاحیت  معلمین  اوراہل علم سے پوچھ لینا چاہئے ۔اس سلسلہ میں جس سے بھی تعاون مل سکے اور مسئلہ حل ہو سکے اس سے پوچھ لینا ہرگز معیوب نہیں فرمان الٰہی :

 فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ   ؂[126] 

 اگر تمہیں علم نہ ہو تواہل علم سے پوچھ لو ۔ میں عموم ہے اور محدثین کرام کے یہاں ’’رواية الاکابر عن الاصاغر‘‘ معلوم و معروف ہے۔

ابو بکر عبد اللہ بن زبیر الحمیدی جوامام شافعی رحمہ الله کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں کہ میں مکہ سے مصر تک امام شافعی رحمہ الله کے ساتھ رہا ،میں ان سے مسائل کے سلسلہ میں استفادہ کرتا تھا اورو ہ مجھ سے حدیث کے سلسلہ میں استفادہ کرتے تھے۔ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام شافعی رحمہ الله نے کہا :

" تم لوگ حدیث کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہو ،اس واسطے جب تمہارے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہو جائے تو ہمیں بتادو تاکہ ہم اس کو لے سکیں ۔اور صحابہ کرام ﷡کی ایک جماعت کا تابعین سے روایت کرنا ثابت ہے اور ان سب سے بڑھ کر رسول اللہ  ﷺ کا حضرت اُبی ﷜ کے سامنے قرآن پڑھنا اور یہ فرمانا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم پر پڑھوں ۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فاضل کو مفضول سے علمی استفادہ میں ہتک نہیں محسوس کرنی چاہئے۔"  ؂[127]

عقل کا استعمال:

عقل ودانائی اللہ رب العزت کی ایک نعمت ہے۔ نعمت کا شکر اس کا صحیح استعمال ہے نہ کہ سرے سے اسے استعمال ہی نہ کیا جائے۔ بخیل بن کر اگر کوئی شخص عقل استعمال نہیں کرے گا تو یہ عقل اسے فائدہ نہیں دے سکتی۔ عقل وحکمت استعمال سے بڑھتی ہے۔یعنی جتنا زیادہ استعمال کی جائے اتنا ہی انسان کی استعداد بڑھتی ہے۔

حقیقت آشنائی:

تصور ہمارے ادراکی تجربات کا نتیجہ ہے۔ جو ہم کسی شے یا فرد سے وابستہ کرلیتے ہیں ۔تصور حقیقت سے زیادہ خوش کن یاخوفناک ہوتاہے۔۔ بچوں میں یہ اور زیادہ اہمیت رکھتاہے۔ ابتدائی دور میں بچے کے تصورات کوسمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ انتہائی سوچ رکھتا ہے اور دوانتہاؤں پر سوچتاہے۔ بچے کا تصور شدید ہوتاہے ۔وہ اچھائی و برائی کے تصور اورتخیل میں بھی انتہا ئی درجہ تک سوچتا ہے۔لیکن بچوں کو بتدریج حقیقت آشناکیا جائے اورہر چیز کا صحیح و حقیقی رخ دکھایا جائے اوریہ باور کرانے کی کوشش کی جائے ۔

محبت وشفقت :

بچے کلی اور پھول کی مانند نرم و نازک ہوتے ہیں ۔ ان سے نرمی ،محبت اورشفقت کا رویہ اپنائیں کیونکہ محبت فاتح عالم ہے۔ پیار و محبت ان کا حق ہے اور اس کے ذریعے ان کے قلوب فتح کئے جائیں۔

یہاں اسی اہم فطری اورنفسیاتی تقاضہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔

امربالمعروف ونہی عن المنکر :

بچوں کی اصلاح احوال کو نظراندازنہ کرنا چاہئے۔ غلط کاموں پربے جا حمایت نہ کی جائے ورنہ یہ محبت مزید بگاڑ کا باعث بنے گی۔ ماضی میں ماں باپ اولاد کی تربیت کرنے والوں کاشکریہ ادا کرتے تھے کہ والدین کی ذمہ داری یعنی اچھی تربیت کرناہے اور وہ اس میں ان کے ساتھ تعاون کررہاہے۔ لیکن آج اس کے برعکس ہے کہ غلط کاموں پرنہ خودروکتے ہیں اور نہ دوسروں کومنع کرنے کی اجازت دىتے ہیں ۔ اس شخص سے لڑتے اور اسے برابھلا کہتے ہیں ۔خواہ وہ استاد ہو یا گھرکاکوئی بڑا فرد۔بہرکیف اس کا نقصان اورخمیازہ پھر بچوں کی تربیت میں کمی کی صورت میں سامنے آتاہے۔

بچوں کوحکمت سے اچھائی کاحکم دیں اور برائی سے منع کریں ۔ اچھے کام کاکا کہنا ہو یا کسی برے کام سے منع کرنا ہو تو اس کو ترغیب و تحریص دلائیں فورا حکم صادر نہ کریں ۔بعض اوقات غلط کام کا عمداً کہنے سے بچہ اس کام سے باز آجاتاہے۔مثلاً بچہ نے کوئی شرارت کی تواسے کہے اب پھر کرلو!اس سے بچہ کے حافظہ میں اس کام سے نفور پیدا ہوجاتاہے۔

اگر بچہ کبھی بغاوت پرآمادہ ہوتو وقتی طور پر نظرانداز کردیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ماحول اور حالات دیکھتے ہوئے مصلحت اور حکمت سے اسے سمجھائیں ۔ لیکن مستقل ضد،انا اور رونے کی وجہ سے اس کی کوئی خواہش پوری نہ کی جائے۔ اگروالدین نے کوئی حتمی فیصلہ کرلیایابچے کوکوئی حکم دیا تو اس کی تعمیل کروائیں تاکہ بچہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اگر وہ اپنامؤقف دلیل سے نہ سمجھا سکا تو ضد ،ہٹ دھرمی اور رونا فائدہ مندنہ ہوگا۔ مزید برآں وہ جان جائے کہ والدین جو فیصلہ کرلیں اس پر عمل ضرور کرواتے ہیں اس سے ان کی بات میں وزن پیدا ہوگا اور رعب اور وقار قائم رہے گا۔

عمدہ کام کی تحسین:

بچوں میں کوئی اچھی عادت دیکھیں یا بچہ کوئی اچھا کام کرے تو اس کی اچھائی کا اظہار ضرور کریں ۔ دوسروں کے سامنے اظہار کرنے سے اس کی وہ عادت مزید پختہ ہوجائیگی اور اس کی فطرت ثانیہ بن جائے گی۔ دیگر بچوں کو تحریص و ترغیب ہوگی۔ تعریف کرنے کے نتیجے میں بچہ دوسرے افراد میں بھی اچھائیوں کااعتراف اوران کی تعریف کرنے والا بن جائے گا۔

عملی تبلیغ:

والدین بچوں کے سامنے اپنا اچھا کردار پیش کریں ۔ ۔بچے بڑوں کی نقل کرتے ہیں ۔ اس لئے اگر والدین چاہتے ہیں کہ بچوں میں اچھی عادات پیدا ہوجائیں تو پہلے خود اچھی عادات اورعملی کردار کا مظاہرہ کریں ۔حضرت ثعبان ثوری کا قول ہے:''مبارک ہیں وہ لوگ جن کے پاس نصیحت کرنے کے لئے الفاظ نہیں اعمال ہوتے ہیں ''۔

گھر میں اچھی عادات کا ماحول بنائیں ۔مثلاً آدابِ سلام، طعام و کلام وغیرہ ۔سنت نماز گھرمیں پڑھنے کی بنیادی وجہ بچوں کو نماز کی ترغیب و تحریص ہے۔گھرمیں والدین مہذب اور پیار و محبت کا رویہ اپنائیں اوربری عادات سے پرہیز کریں ۔ خود بری عادات اپنا کر بچوں سے اچھی عادات کی توقع رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔خود کبھی جھوٹ نہ بولیں ، اسی طرح اگر والدین چاہتے ہیں بچہ تعلیم میں دلچسپی لے توان کوجبراً پڑھنے لکھنے کے لئے نہ بٹھایاجائے۔ جبر کی صورت میں بچوں میں ایک بری عادت پڑجاتی ہے کہ وہ کتابیں لے کر بیٹھے رہتے ہیں اسے اور توجہ سے نہیں پڑھتے ہیں ۔ اس سے بچوں میں غیرحاضر دماغی اور ذہنی فرار کی بدعادت پڑتی ہیں ۔ جو بہت نقصان دہ ہے۔بچے جو بھی کام کریں توجہ اوردلچسپی سے کریں ۔ اس کے لئے خود ان کے سامنے کتابیں کھولیں اورخود بھی مطالعہ کریں ۔پھر مطالعہ کی تلقین کریں اوربچے کو بتائیں جوشخص اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رکھتا وہ معراج انسانی سے گرا ہواہے اورکتابیں انسان کی بہترین دوست ، مونس اور بہترین سرمایہ ہے۔یہی بہترین نفسیاتی (Psychological) و عملی(Practical) تبلیغ ہے۔اورکردار کی زبان اور اس صدا کی بازگشت زیادہ موثر اورہرطرف سنائی دیتی ہے۔

منصفانہ رویہ:

بچوں میں باہم انصاف کیاجائے۔اپنا ہو یا غیر سب کے ساتھ انصاف کارویہ اپنایاجائے یعنی حق بحق دار رسید۔انصاف نہ کرنے سے بہت سے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ ایک سے زیادہ بچوں کی صورت میں طرزعمل ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں ضدبغض و عناد پیدا ہو بلکہ آپس میں محبت ،الفت،ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا ہو۔

اچھائی کرنے والے کی حوصلہ افزائی :

رسول اللہ ﷺ میدان علم و عمل میں صحابۂ کرام کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا:

لَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِكَ الْبَارِحَةَ، لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ ؂[128]

’’کاش !آپ دیکھتے جب رات میں آپ کی قراءت سُن رہا تھا۔(سبحان اللہ)

آپ کو تو آل داود کے سروں میں سے ایک سُردیا گیاہے ۔

سماعت حدیث کے سلسلے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل 

باصرار سوال کرنے سے پہلو تہی:

صحابۂ کرام ﷡ کوسوال کرنے سے منع کر دیا گیا تو انہوں نے اس امر کا اہتمام خاص طور پر کیا کہ باصرار سوال کرنے سے پہلو تہی کی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سوال کرنے کے لئے اعرابیوں(بادیہ نشینوں)کو آگے کرتے اور ان کے عقلمند اور باشعور افراد کی آمد کا انتظار کرتے رہتے تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کریں اور صحابۂ کرام آپﷺ کے جوابات سے استفادہ کریں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ، وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: صَدَقَ ؂[129]

’’ہمیں منع کر دیا گیا تھاکہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی سوال نہ کریں۔ ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ اہل بادیہ (صحرا نشینوں)کا کوئی عقل مند آدمی آئے اور ہماری موجودگی میں آپ سے سوال کرے، چنانچہ ایک روز ایک بادیہ نشیں آیا اور اُس نے سوال کیا:’’اے محمد(ﷺ) تمہارا قاصد ہمارے ہاں آیا اور اُس نے بتایا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ اللہ نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’صدق‘‘ اس نے سچ کہا ‘‘

یوں نئے مسلم معاشرے میں مؤثر عملی اقدامات کے ذریعے سے تربیتی تعمیر و ترقی کا عمل جاری رہا جس نے اس جدید معاشرے کے افراد میں فریضۂ تعلیم و تعلم کی انجام دہی اور اس کے گہرے احساس کی روح پھونک دی تھی ۔ ان ہدایات پر عمل در آمد نے مسلم فرد ، لغت اور اسلامی ریاست کی تیاری و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم امہ میں علم و تربیتی تعمیر و ترقی کا تسلسل نہایت ضروری ہے ۔

مکمل خاموشی اور حُسنِ سماعت:

صحابۂ کرام ﷡ کی نظر میں رسول اللہ ﷺ کی قدر و منزلت اتنی تھی کہ وہ آپﷺ کی گفتگو کے دوران میں شور شرابا یا فضول گوئی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھ اکہ آپ بات کر رہے ہوں اور وہ دھیان نہ دیں۔ صحابۂ کرام آپ کی محفل میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ گوش بر آواز ہو کر بیٹھا کرتے تھے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیرت طیبہ کے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ آپﷺ جب بات کرتے تو ہم نشیں یوں سر جھکائے خاموش رہتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ خاموش ہوتے تب وہ بولتے‘‘۔؂[130]

عبد الفتاح ابو غدو نے اس روایت کے ذیل میں لکھا:’’اس محاورے کی حقیقت یہ ہے کہ کوا اونٹ کے سر پہ آکے بیٹھتا اور اس کی جوئیں اور چیچڑیاں چن لیتا ہے ۔ اس دوران میں اونٹ حرکت نہیں کرتا کہ مبادا کو ا مارے ڈر کے اُڑ جائے اور چیچڑیاں وہیں کی وہیں رہ جائیں اور اذیت کا باعث بنیں۔ اسی سے یہ محاورہ نکلاکہ فلاں تو یوں سر جھکائے خاموش ہے گویا سر پر پرندے بیٹھے ہیں‘‘۔؂[131]

احادیث کی دہرائی:

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ سے کوئی بات (حدیث ) سنتے یا علم حاصل کرتے تو بیٹھ کر اُسے آپس میں دہراتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح ذہن میں اتر جائے ۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں ہوتے اور آپ سے حدیث سنتے ، پھر جب خدمت نبوی سے واپس آتے تو حدیث کو آپس میں دہراتے تھے تاکہ خوب یاد ہو جائے ‘‘؂[132]

صحابۂ کرام کے حلقوں میں علم کی دہرائی اور مذاکرے کا اصول وفات نبوی کے بعد بھی جاری رہا۔ ابو نضرہ منذر بن مالک بن قطعہؒ بتاتے ہیں کہ اصحابِ رسول کسی جگہ اکٹھے ہوتے تو علم کی باتیں ایک دوسرے کو سناتے اور قرآن کی سورتیں پڑھتے تھے ۔ ؂[133]

حصولِ علم اور اشتیاق عمل کی غرض سے سوال کرنا: صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال حصول علم اور شوق عمل کی غرض سے ہوتے تھے ۔ اُن میں فضولیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ نبی ﷺ بے مقصد اور فضول سوالات کو ناپسند کرتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے کثرت سوال سے بھی منع کیا تھا، چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں’’رسول اللہ ﷺ نے سوال کرنے کو ناپسند کیا اور اُس امر پر نکتہ چینی بھی کی۔‘‘ ؂[134]

امام نووی ؒ نے لکھا:’’سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت سے مراد ی ہے کہ ایسے سوال کرنا مکروہ ( ناپسندیدہ) ہیں جو غیر ضروری ہوں۔ خاص کر وہ سوالات جن کا مقصد ایک مسلمان کی پردہ وری اور بے عزتی یا فحاشی کا فروغ ہوتا ہے ۔ علمائے کرام کا کہنا ہے : ’’البتہ اگر سوال ایسے شرعی مسئلے کے متعلق ہے جو واقعی پیش آیا ہے اور اُس کا حل معلوم کرنا بھی ضروری ہے تو اہل علم سے دریافت کر لینے میں کوئی حرج نہیں ‘‘؂[135]

بال کی کھال اتارنے اور متشابہ آیات کے متعلق سوال سے اجتناب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ اصول یوں اپنایا کہ نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کی شدید مذمت کی تھی جو بال کی کھال اتارتے اور غیر ضروری مسائل کو تختۂ عشق بنائے رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے بھی منع فرمایا تھا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔

هُوَ الَّـذِىٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ اٰيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتَابِ وَاُخَرُ مُتَشَابِـهَاتٌ ۖ فَاَمَّا الَّـذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيلَهٝٓ اِلَّا اللّـٰهُ ۗ وَالرَّاسِخُوْنَ فِى الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُو الْاَلْبَابِ ؂[136]

وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنیٰ واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معنیٰ معلوم یا معین نہیں)، سو جن لوگو ں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں، اور حالانکہ ان کا مطلب سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہیں، اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیں۔

پھر آپﷺ نے فرمایا:

فَإِذَا رَأَيْتِ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكِ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ ؂[137]

’’چنانچہ جب تو ایسے لوگوں کو دیکھے جو متشابہ آیات کا پیچھا کرتے ہیں تو (سمجھ لے کہ ) یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے مراد لیا ہے ۔ سو اُن سے دامن بچالے‘‘

قطع کلامی سے گریز:

آدابِ محفل کا تقاضا ہے کہ قطع کلامی سے گریز کیا جائے۔ اس سے ایک تو حاضرین محفل پر سکون رہتے ہیں اور دوسرا بات کا مطلب سمجھنے میں سہولت رہتی ہے۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے’’صحابہ کرام محفل رسول ﷺ میں قطع کلامی سے گریز کرتے سب لوگ متکلم کی بات آخر تک نہایت توجہ اور خاموشی سے سنتے۔ بات اُسی کی ہوتی جو پہلے شروع کرتا‘‘؂[138]

رفع اشکال کے لئے رسول اللہﷺ سے رجوع: صحابۂ کرام کو رسول اللہﷺ کی عظمت کا شدت سے احساس تھا۔ اُن کے قلوب پر آپ کی بارعب شخصیت کا پروقار اور گہرا اثر تھا۔ اس کے باوجود انہیں دین کے معاملے میں کوئی اشکال پیش آتا تو فوراً آپﷺ سے رجوع کرتے اور تشفی پاتے تھے۔ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک دفع نبی ﷺ نے فرمایا:

إِنِّي لَأَرْجُو أَلَّا يَدْخُلَ النَّارَ أَحَدٌ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، وَالْحُدَيْبِيَةَ ؂[139]

’’مجھے قوی امید ہے کہ بدر اور حدیبیہ کے شرکاء میں سے کوئی بھی آگ میں نہیں جائے گا۔‘‘

میں نے اشکال ظاہر کیا: ’’اے اللہ کے رسول ! کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:

وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ؂[140]

اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا اس پر گزر نہ ہو، یہ تیرے رب پر لازم مقرر کیا ہوا ہے۔

پھر رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا:

الم تسمعیہ یقول:ثُـمَّ نُنَجِّى الَّـذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظَّالِمِيْنَ فِيْـهَا جِثِيًّا ؂[141]

پھر ہم انہیں بچا لیں گے جو ڈرتے ہیں اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں پر گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔

’’اور تم میں سے جو بھی ہے وہ اس (جہنم ) پروارد ہونے والا ہے ،یہ آپ کے رب کے ذمے حتمی اور طے شدہ بات ہے ‘‘()

’’ تم نے یہ آیت نہیں سنی ، فرمایا: ’’پھر اہم متقی لوگوں کو نجات دیں گے اور ہم ظالموں کو اس میں گھٹنو ں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے ۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس ضمن میں بطور مثال پیش کی جاسکتی ہے جسے حاصل کرنے کے لئے سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے لمبا سفر اختیار کیا تھا۔

ابن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا

" يَحْشُرُ العِبَادَ۔ - أَوْ قَالَ: الناسُ - عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا ؂[142]

اللہ تعالیٰ لوگوں کو میدان حشر میں اکٹھا کرے گا ۔ وہ عریاں ،بے ختنہ اورخالی ہاتھ ہوں گے ۔

ہم نے کہا " بُهْمًا " سے کیا مراد ہے؟فرمایا:

لَيْسَ مَعَهُمْ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مِنْ بُعْدٍ كَمَا يَسْمَعُهُ مِنْ قُرْبٍ: أَنَا الْمَلِكُ، أَنَا الدَّيَّانُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَنْ يَدْخُلَ النَّارَ، وَلَهُ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَقٌّ، حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَلِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عِنْدَهُ حَقٌّ، حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ، حَتَّى اللَّطْمَةُ " ؂[143]

’’ ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ ان سے ایسی آواز سے مخاطب ہوگا جسے دور کھڑے لوگ بھی اُسی وضاحت سے سنیں گے جس طرح قریب کھڑے لوگوں کو وہ آواز صاف طور پر سنائی دے گی، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ میں ہوں بادشاہ۔ بدلے چکانے والا زبردست حاکم۔ اہل جنت واہل دوزخ کا کوئی فرد جس نے ظلم کیا ہو ، خواہ ایک طمانچہ ہی مارا ہو، جنت و دوزخ میں نہیں جاسکتا، قبل اس سے کہ میں اُس سے قصاص دلوادوں‘‘۔ 

ہم نے پوچھا ’’ایسا کیسے ہوگا( قصاص میں کیا دیں گے ) جبکہ ہم عریاں، بے ختنہ اور خالی ہاتھ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے؟‘‘

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ’’نیکیوں اور گناہوں کے ذریعے سے (بدلے چکائے جائیں گے )‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی:

اَلْيَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۚ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِا ؂[144]

آج کے دن ہر شخص اپنے کیے کا بدلہ پائے گا، آج کچھ ظلم نہ ہوگا، بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

فرصت کے لمحات سے استفادہ اور مناسب وقت کا لحاظ:

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سوالات کے لئے مناسب وقت کا لحاظ رکھتے تھے۔ وہ رسول اللہﷺ کے فرصت کے لمحات سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ یہ اہتمام اس لئے کرتے تھے کہ بے وقت کے سوالات رسول اللہ ﷺ کی پریشانی اوردقت کا باعث نہ بنیں۔ 

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا’’نبی ﷺ فجر کی نماز پڑھا کر فارغ ہوتے توہم جاکر آپﷺ کے پاس بیٹھ جاتے ۔ کوئی قرآن کے متعلق سوال پوچھتا تو کوئی فرائض (علم میراث) کے بارے میں استفسار کرتا اور کوئی خواب کی تعبیر دریافت کرتا تھا۔‘‘؂[145]

جہاں شارع نے خاموشی اختیار کی وہاں سوال سے احتراز:

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ادب کے اس قرین کو بھی بخوبی اپنایا تھا۔ شارع نے جہاں خاموشی اختیار کی وہاں سے یہ پاکباز و مطیع افراد بھی سر جھکائے خاموشی سے گزر گئے اور چوں وچراں سے پرہیز کیا کہ مبادا ان کے سوال سے جو چیز حرام نہیں اُسے حرام قرار دے دیا جائے اور جو کام واجب نہیں وہ واجب ٹھہرے ۔ یوں ان کا سوال مسلمانوں کے لئے پریشانی اور مشقت کا باعث بنے۔ صحابۂ کرام اللہ تعالیٰ کے درج ذیل ارشاد پر پوری طرح کار بند تھے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَسْاَلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُـبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ وَاِنْ تَسْاَلُوْا عَنْـهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُـبْدَ لَكُمْۖ عَفَا اللّـٰهُ عَنْـهَا ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْـمٌ (101) قَدْ سَاَلَـهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُـمَّ اَصْبَحُوْا بِـهَا كَافِـرِيْنَ ؂[146]

اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں، اور اگر یہ باتیں ایسے وقت میں پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی، گزشتہ سوالات اللہ نے معاف کر دیے ہیں، اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔ ایسی باتیں تم سے پہلے ایک جماعت پوچھ چکی ہے پھر ان باتوں کے وہ مخالف ہوگئے۔

رسول اللہ نے بھی ایسے سوال و جواب سے منع کیا تھا۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ أَعْظَمَ المُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ ؂[147]

’’مسلمانوںمیں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے ایسی شے کے متعلق سوال کیاجو حرام نہیں تھی اور اُس کے سوال کی وجہ سے حرام قرار دے دی گئی‘‘

 

باصرار سوال کرنے سے پہلو تہی:

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کوسوال کرنے سے منع کر دیا گیا تو انہوں نے اس امر کا اہتمام خاص طور پر کیا کہ باصرار سوال کرنے سے پہلو تہی کی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سوال کرنے کے لئے اعرابیوں(بادیہ نشینوں)کو آگے کرتے اور ان کے عقلمند اور باشعور افراد کی آمد کا انتظار کرتے رہتے تاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کریں اور صحابۂ کرام آپﷺ کے جوابات سے استفادہ کریں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ، وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: «صَدَقَ» ؂[148]

’’ہمیں منع کر دیا گیا تھاکہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی سوال نہ کریں۔ ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ اہل بادیہ (صحرا نشینوں)کا کوئی عقل مند آدمی آئے اور ہماری موجودگی میں آپ سے سوال کرے، چنانچہ ایک روز ایک بادیہ نشیں آیا اور اُس نے سوال کیا:’’اے محمد(ﷺ) تمہارا قاصد ہمارے ہاں آیا اور اُس نے بتایا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ اللہ نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’صدق‘‘ اس نے سچ کہا ‘‘

یوں نئے مسلم معاشرے میں مؤثر عملی اقدامات کے ذریعے سے تربیتی تعمیر و ترقی کا عمل جاری رہا جس نے اس جدید معاشرے کے افراد میں فریضۂ تعلیم و تعلم کی انجام دہی اور اس کے گہرے احساس کی روح پھونک دی تھی ۔ ان ہدایات پر عمل در آمد نے مسلم فرد ، لغت اور اسلامی ریاست کی تیاری و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم امہ میں علم وو تربیتی تعمیر و ترقی کا تسلسل نہایت ضروری ہے ۔

 



؂[1] ۔  ابن ہشام، اسلام عمر بن الخطاب  ۱/۳۸۲

؂[2] ۔  السیرة الحلبیة، ۲/۱۳

؂[3] ۔ السمہودی، نور الدین علی بن احمد السیرة الجیلہ“ ۲/ ۱۳ دارالعفائس۔ الریاض

؂[4] ۔ المسند، حدیث عتبہ بن غزوان، ح:۲۰۰۸۶، ۲۲/۵۲۔ الاستیعاب ، تذکرہ عتبہ بن غزوان ۳/۱۰۲۶۔حلیہ الاولیا، تذکرہ سعد بن ابی وقاص ،۱/۱۳۴

؂[5] ۔ اسد الغابہ، تذکر ارقم بن ابی ارقم،۱/۶۰

؂[6] ۔ المستدرک ۔ تذکرہ ارقم بن ابی الارقم ۳/۵۰۲

؂[7] ۔  ابن سعد تذکرہ ارقم بن ابی ارقم ۔ ۳/۲۴۳

؂[8] ۔  المستدرک تذکرہ ارقم بن ابی ارقم ، ۳/۵۰۲

؂[9] ۔ الطبری، محمد بن جریر۔ تاریخ الامم والملوک“ ۳/۲۳۰ا

؂[10] ۔ طبقات ابن سعد ،جلد چہارم،ص158

؂[11] ۔ خیر القرون کی درس گاہیں،ص30

؂[12] ۔ عہد نبوی میں نظام تعلیم، ص 41،خیرالقرون کی درس گاہیں ،ص29

؂[13] ۔ خطبات بہاولپور ،پیراگرافنمبر 257 ص 307

؂[14] ۔ ابن ہشام،ج1،ص 542،طبقات ابن سعد،ج1،ص 301

؂[15] ۔ خیرالقرون کی درسگاہیں،ص32

؂[16] ۔ طبقات ابن سعد،ج3،ص278

؂[17] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب العلم ،باب من اعاد الحدیث ثلاثا لیفہم عنہ،ص36، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[18] ۔ خیر القرون کی درس گاہیں،ص 32-39،مشکوٰۃ شریف ،ج3،ص224-228

؂[19] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب النکاح ، رقم94،ص 1133، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ صحیح مسلم کتاب نکاح،حدیث نمبر 94

؂[20] ۔ سیرت رحمت عالم،ص 283، مدنی معاشرہ عہد رسالت میں،ص 112

؂[21] ۔ سنن ابی داود،السجستانی، ابی داؤد سلیمان بن الاشعث،کتاب ۔۔۔۔۔۔۔،حدیث 8،ص18، سن طباعت 2007،الطبعۃ الثالثہ "سنن ابی داؤد 2:129، مطبوعہ دہلی

؂[22] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي،باب نوم الرجل فی المسجد،جز1،صفحہ 96، دار طوق النجاة ،الطبعة: الأولى، 1422هـ

؂[23] ۔ باب:ذِكْرُ الْإِخْبَارِ عَنْ وَصْفِ أَصْحَابِ الصُّفَّةِ، جز2،صفحہ 457، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، محمد بن حبان بن أحمد بن حبان (المتوفى: 354هـ)، الطبعة: الثانية، 1414 – 1993، مؤسسة الرسالة - بيروت

؂[24] ۔ سورۃالجمعة: ٢

؂[25] ۔ سنن ابی داود،السجستانی، ابی داؤد سلیمان بن الاشعث،کتاب اللعلم ، باب الحث علی طلب العلم ،حدیث 3641،ص578، سن طباعت 2007،الطبعۃ الثالثہ والترمذي وابن حبان والحاکم مصححا من حديث ابي الدرداء ، و حسنه حمزة الکناني، واورده البخاري في الترجمة ، وهذا يشعربان له اصلا وله شواهد يتقوی بها. انظر فتح الباری :1/160)

؂[26] ۔ سورۃ البقرۃ 21،22

؂[27] ۔ سورۃ الزمر (9:39)

؂[28] ۔ سورۃ طہ:114

؂[29] ۔ سورۃ البقرۃ: 31

؂[30] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب الزہد والرقائق ، رقم 2957،ص 1133، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[31] ۔

؂[32] ۔ سنن ترمذی، الترمذی،ابوعیسی محمد بن عیسی،کتاب البر والصلۃ،باب  ما جاء فی النفقہ علی البنات والاخوات،رقم الحدیث 1916،ص471،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان،2008

؂[33] ۔

؂[34] ۔ سنن ترمذی، الترمذی،ابوعیسی محمد بن عیسی،کتاب البر والصلۃ،باب  ما جاء فی رحمۃ الیتیم وکفالتہ ،رقم الحدیث 1918،ص471،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان،2008

؂[35] ۔ سنن ترمذی، الترمذی،ابوعیسی محمد بن عیسی،کتاب الامثال ،باب  ما جاء فی مثل صلوت الخمس ،رقم الحدیث 2868،ص667،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان،2008

؂[36] ۔ سنن ترمذی، الترمذی،ابوعیسی محمد بن عیسی،کتاب الامثال ،باب  ما جاء فی مثل  المومن القاریء للقرآن وغیر القاریء ،رقم الحدیث 2865،ص667،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان،2008

؂[37] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب الطہارۃ ، باب فضل إسباغ الوضوء على المكاره ،رقم 251،ص 114، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[38] ۔ ایضاً

؂[39] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب البر وصلۃ والآداب ، باب تحریم الظلم ،رقم 2581،ص 1000، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[40] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب فضل سورۃ الکہف وآیۃ الکرسی،رقم 810،ص 291، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[41] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب العلم ،باب من اعاد الحدیث ثلاثا لیفہم عنہ،ص36، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[42] ۔ مناہج وآداب الصحابۃ ،للدکتور عبدالرحمن البر، ص 59۔60

؂[43] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب البر و الصلہ والآداب، باب تراحم المومنین وتعاطفہم وتعاضدھم،ص 1001، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[44] ۔ سنن ترمذی، الترمذی،ابوعیسی محمد بن عیسی،کتاب البر والصلۃ،باب  ما جاء فی رحمۃ الیتیم وکفالتہ ،رقم الحدیث 1918،ص471،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان،2008

؂[45] ۔ مناہج وآداب الصحابۃ ،للدکتور عبدالرحمن البر، ص 74

؂[46] ۔ سنن ابی داود،السجستانی، ابی داؤد سلیمان بن الاشعث،کتاب الطہارۃ ، باب کراہیۃ استقبال القبلۃ عند قضاء الحاجۃ،حدیث 8،ص18، سن طباعت 2007،الطبعۃ الثالثہ

؂[47] ۔ مناہج وآداب الصحابۃ ،للدکتور عبدالرحمن البر، ص 85

؂[48] ۔

؂[49] ۔ سورۃ الانعام:153

؂[50] ۔ مسند احمد ج1،435،مسند طیالسی،معجم کبیر، ابن حبان

؂[51] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب الجمعۃ،باب الخطبۃ علی المنبر،رقم 917،ص172، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[52] ۔  سنن ابی داود،السجستانی، ابی داؤد سلیمان بن الاشعث،کتاب اللباس ، باب فی الحریر فی الناس ،حدیث 4057،ص639، سن طباعت 2007،الطبعۃ الثالثہ

؂[53] ۔  الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب العلم ،باب من اعاد الحدیث  ثلاثا لیفہم عنہ،رقم 95،ص36، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[54] ۔ سورۃ العنکبوت 43

؂[55] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب الآداب ،باب رحمۃ الولد وتقبیلہ  ومعانقتہ ،رقم 5999،ص1105، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[56] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب الآداب ،باب رحمۃ الولد وتقبیلہ  ومعانقتہ ،رقم 5999،ص1105، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[57] ۔ الرسول المعلم ﷺ ،لعبد الفتاح ابی غدۃ، ص160

؂[58] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن،رقم الحدیث(236) 793،ص 286، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[59] ۔ مناہج وآداب الصحابۃ ،للدکتور عبدالرحمن البر، ص 86

؂[60] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب  المساجد ومواضع الصلوۃ ،باب تحریم الکلام فی الصلاۃ والنسخ ماکان اباحۃ ،رقم الحدیث537،ص 199، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[61] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب  الحیل ،باب احتیال العامل لیھدی لہ ،رقم 6979،ص1267، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[62] ۔ ایضا

؂[63] ۔ ( سنن الدارمی،126/1،449)

؂[64] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب العلم،باب الغضب فی موعظۃ والتعلیم اذا رای مایکرہ ،رقم90،ص35، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[65] ۔ سنن ابن ماجہ،85

؂[66] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب الایمان ،باب  قول النبی ﷺ :انااعلمکم باللہ ،رقم20،ص19، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[67] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب الایمان ،باب السوال عن اارکان الاسلام ،رقم الحدیث12،ص 29، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[68] ۔ الشمائل للترمذی،حدیث 351

؂[69] ۔ الرسول المعلمﷺ لعبد الفتاح ابی غدۃ،ص30

؂[70] ۔ (الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع للخطیب البغدادی86/2)

؂[71] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب الطلاق، باب  من اجاز طلاقا الثلاثۃ ،رقم5259،ص988، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[72] ۔ شرح النووی علی صحیح مسلم:741/3،طبعۃ الشعب

؂[73] ۔ سورۃ آل عمران:7

؂[74] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب تفسیر القرآن،باب منہ آیۃ محکمات راسخون فی العلم ،رقم4547،ص820، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[75] ۔ الشمائل للترمذی،حدیث 351

؂[76] ۔ سنن ابن ماجۃ ، 4281

؂[77] ۔ سورۃ مریم:71

؂[78] ۔ سورۃ مریم:72

؂[79] ۔ مسند احمد، 16042

؂[80] ۔ مسند احمد، 16042

؂[81] ۔ (سورۃ المومن 17)

؂[82] ۔ (مجمع الزوائد:159/1)

؂[83] ۔ سورۃالمائدۃ:102

؂[84] ۔ الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب ما یکرہ من کثرۃ السوال وتکلف مالایعنیہ ،رقم7289،ص1319، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[85] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب الایمان ،باب السوال عن ارکان الاسلام ،رقم12 ،ص 29، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[86] ۔ القرآن ،يوسف: ١٠٨ 

؂[87] ۔ ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد ،سنن ابن ماجه،رقم 53، دار إحياء الكتب العربية

؂[88] ۔ القرآن ،النور: ٢٧

؂[89] ۔ البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 8/ 68

؂[90] ۔ القرآن ،إبراهيم: ٤

؂[91] ۔ مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري ،صحیح مسلم (المسند الصحيح المختصر : 3/ 11

؂[92] ۔ البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي ،الجامع المسند الصحيح البخاري :۱؍۸۴۳

؂[93] ۔ القرآن ،لقمان: ١٩

؂[94] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري :ج ۱،ص۲۲۵)

؂[95] ۔ مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري ،صحیح مسلم (المسند الصحيح المختصر) : 1/ 9)

؂[96] ۔ جامع ترمذی: ۵؍۷۳ (۷۲۵ ۲) سنن ابی داود :۵؍۱۶۴(۴۸۲۵) الادب المفرد للبخاری :ص۲۹۲(۱۱۴۱)

؂[97] ۔  الجامع المسند الصحيح البخاري ؍۱۵۶(۶۶) البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[98] ۔  جامع الترمذی :۵؍۷۳ ( ۲۷۲۴)

؂[99] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري:۱؍۱۸۸ مع الفتح) البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[100] ۔ (الاذکار: ص۲۱۹ )

؂[101] ۔ سنن ترمذی، الترمذی،ابوعیسی محمد بن عیسی،رقم 149،ص278،،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت،لبنان،2008

؂[102] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري ۱؍۱۱۱[۳۱ ۶ ] ، البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[103] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري، البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي،رقم 917،ص9، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[104] ۔ مسند  احمد:،رقم 4090،ص364

؂[105] ۔ القرآن ،البقرة: ١٧

؂[106] ۔ القرآن ،البقرة: ٢٦١

؂[107] ۔ النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،صحيح مسلم،رقم 2586،(66)،ص1999، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[108] ۔(سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 4/ 406)

 

؂[109] ۔ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 7/ 68 , صحيح مسلم : 3/ 123)

؂[110] ۔ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 1/ 129 , صحيح مسلم : 8/ 20)

؂[111] ۔ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 7/ 68)

؂[112] ۔ (رواه الترمذي : 4/ 607 وصححہ)

؂[113] ۔ القرآن ،الأنعام: ١٥٣ (رواہ ابن ماجہ: ۱؍۲۴)

؂[114] ۔ (مسند احمد:۱؍۴۳۵،۴۶۵)

؂[115] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري ،۱۱؍۲۳۵۔۲۳۷، سنن ابن ماجہ:۲؍۱۴۱۴،رسول خدا کا طریق تربیت ص ۴۶،۴۹)

؂[116] ۔ (صحيح البخاري مع فتح الباري : 3/ 165)

؂[117] ۔ متفق علیہ(مشکوٰۃ:۱؍۵۵۵ ح ۱۷۷۲)

؂[118] ۔ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 4/ 79 , صحيح مسلم : 5/ 141) 

؂[119] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري، ۱؍۹۳)

؂[120] ۔

؂[121] ۔ (المعجم الأوسط للطبراني: 2/ 141 , المستدرك على الصحيحين للحاكم : 3/ 438)

؂[122] ۔ (مسند أحمد بن حنبل: 2/ 206)

؂[123] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري

؂[124] ۔ أبو بكر أحمد بن مروان الدينوري المالكي (المتوفى : 333هـ)،المجالسة وجواهر العلم،رقم:1766، دار ابن حزم (بيروت - لبنان)،ج4،ص515

؂[125] ۔ أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241ھ)،مسند الإمام أحمد بن حنبل، مؤسسة الرسالة،2001 م،ج7،ص180

؂[126] ۔ القرآن ،النحل: ٤٣

؂[127] ۔ شیخ امام بدرالدین محمد بن ابراہیم سعداللہ ابن جماعۃ الکنانی الشافعی،تذکر ۃ السامع والمتکلم فی ادب العالم والمتعلّم،دارالکتب العلمیہ،ص۲۹

؂[128] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن،رقم الحدیث(236) 793،ص 286، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[129] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب الایمان ،باب السوال عن اارکان الاسلام ،رقم الحدیث12،ص 29، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

؂[130] ۔ الشمائل للترمذی،حدیث 351

؂[131] ۔ عبد الفتاح ابی غدۃ،الرسول المعلمﷺ،ص30

؂[132] ۔ الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع للخطیب البغدادی364،363/1

؂[133] ۔ الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع،الخطیب البغدادی،86/2)

؂[134] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب الطلاق، باب  من اجاز طلاقا الثلاثۃ ،رقم5259،ص988، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[135] ۔ شرح النووی علی صحیح مسلم:741/3،طبعۃ الشعب

؂[136] ۔ القرآن ، سورۃ آل عمران:7

؂[137] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب تفسیر القرآن،باب منہ آیۃ محکمات راسخون فی العلم ،رقم4547،ص820، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[138] ۔ الشمائل للترمذی،حدیث 351

؂[139] ۔ سنن ابن ماجۃ ، 4281

؂[140] ۔ القرآن ،سورۃ مریم:71

؂[141] ۔ القرآن ،سورۃ مریم:72

؂[142] ۔ مسند احمد، 16042

؂[143] ۔ مسند احمد، 16042

؂[144] ۔ القرآن ،سورۃ المومن 17

؂[145] ۔ (مجمع الزوائد:159/1)

؂[146] ۔ القرآن ،سورۃالمائدۃ:102

؂[147] ۔ الجامع المسند الصحيح البخاري ،البخاری ،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب ما یکرہ من کثرۃ السوال وتکلف مالایعنیہ ،رقم7289،ص1319، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: السادسہ، 2009ـ

؂[148] ۔ صحیح مسلم، النیشا بوری،ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری،کتاب الایمان ،باب السوال عن ارکان الاسلام ،رقم12 ،ص 29، دارالکتب العلمیہ بیروت ،الطبعة: الرابعۃ، 2006ـ

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post