پرہیز گاری یا تقویٰ سے کیا مراد ہے؟ قرآن مجید اوراحادیث نبوی ﷺ میں متعدد مقامات پر اس کی رغبت دلائی گئی ہے ۔روشنی ڈالیں؟

تقوى کا لغوی معنی بچاؤ وحفاظت  ہے ۔ تقوى درحقیقت انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے بچاتا ہے ۔ معصیتوں سے  اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ ناجائز اموراور حرام کاموں کے سامنے ڈھال ہوتا ہے اسی لیے اس کو تقوى کہا جاتا ہے۔

اصطلاح شریعت میں  اللہ کے  جملہ احکام کو بجا لانا اور تمام  برائیوں سے دور رہنا۔ یعنی یہ اللہ رب العزت کی کامل اطاعت و بندگی کا نام ہے ۔  حضرت عبد اللہ بن عباس نے متقین کی تعریف کچھ یوں کی ہے:الذین یحذرون  من اللہ و عقوبتہ یعنی جو اللہ اور اس کی سزا سے ڈرتے ہیں۔

راغب اصفہانی  اپنی کتاب مفردات القرآن میں اس کی وضاحت کچھ اس طرح کرتے ہیں:

وقایة کے معنی ہیں کسی چیز کو نقصان دینے والی باتوں سے محفوظ رکھنا اور تقوی کا مطلب ہے ان باتوں سے بچنا جن کا خوف ہو لہذا شریعت کی اصطلاح میں تقوی کے معنی ہیں نفس کو گناہ سے محفوظ رکھنا (مفردات راغب مادہ وقی)

تقوی کا لفظ اپنی مختلف  صورتوں مثلا اتقوا، تتقون ،متقین  وغیرہ میں قرآن مجید میں 258 بار آیا ہے۔جس سے  اللہ رب العزت کے یہاں تقویٰ کی قدرومنزلت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔

      اسلام میں تقوى کی اہمیت و فضیلت، مقام و مرتبہ: دین اسلام میں تقوى کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے اور اس کا مقام  بہت ہی ارفع و اعلى ہے۔اس  کی شان بہت ہی عظیم ہے اور اس کا درجہ بہت ہی بلند ہے۔اور ہر مسلمان کو  اس کی شدید حاجت و ضرورت ہے۔

 اللہ رب العزت حکیم اور علیم ہے، ہر چیز کو اس ذات باری  نے کسی حکمت اور مقصد کے لیے پیدا کیا ہے، جنات اور انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنی عبادت کے لیے بنایا، ہر چیز جب تک اپنا مقصد اور وظیفہ ادا کرتی رہتی ہے، تب تک تو وہ محترم، مکرم اور محبوب ہوتی ہے، مالک کے ہاں اس کی قدر وقیمت اور عزت ہوتی ہے، جب وہ اپنا مقصد چھوڑدے یا اپنے عمل کو معطل کردے تو اس کی قدروقیمت کم ہوجاتی ہے اور مالک اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے۔ اسی طرح انسان ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اور اسے ایمان اور تقویٰ کا حکم دیا، جب انسان نے اپنا مقصد بھلادیا تو دنیا وآخرت میں اس کی کوئی قیمت نہیں رہی، بلکہ اس سے بڑھ کر قیامت کے دن اس سے محاسبہ  ہوگا اور اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔تقویٰ سے متعلق چند آیات قرآنیہ۔

ارشاد رباری تعالیٰ ہے:

 يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ (الحج: 1)

لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلا شبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے۔

ارشاد رباری تعالیٰ ہے:

يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ(النحل:2)

وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاھتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو۔

ارشاد رباری تعالیٰ ہے:

 إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ  (الحجرات: 3)

بے شک جو لوگ رسول اللہ ﷺکے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے ل جانچ لیا ہے۔ ان کے ل مغفرت اور بڑا ثواب ہے۔

ارشاد رباری تعالیٰ ہے:

 ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ  (الحج: 32)

یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے۔

ارشاد رباری تعالیٰ ہے:

 إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدة: 27)

اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔

ارشاد رباری تعالیٰ ہے:

 إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات: 13)

اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔

ارشاد رباری تعالیٰ ہے:

 وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الزمر: 61)

اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا، انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وه کسی طرح غمگین ہوں گے۔

تقویٰ پر احادیث مبارکہ

اتقوا الله ربكم وصلوا خمسكم وصوموا شهركم وادوا زكاة اموالكم واطيعوا ذا امركم تدخلوا جنة ربكم (ترمذی :حدیث 616)

آپﷺ نے فرمایا: ”تم اپنے رب اللہ سے ڈرو، پانچ وقت کی نماز پڑھو، ماہ رمضان کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکاۃ ادا کرو، اور امیر کی اطاعت کرو، اس سے تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے“۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہےکہ

رَأْسُ الحِكْمةِ مَخافةُ اللهِ (ابن أبي شيبة في المصنف (7/ 106)

 ''حکمت کی جڑ اللّٰہ کا خوف ہے۔''

أوصیک بتقوی اللہ فإنہ راس کل شئ (مسند أحمد: 3/82، مجمع الزوائد: 4/215)

میں تمہیں تقویٰ کا حکم دیتا ہوں پس وہ ہر شے کی بنیاد ہے۔

إن اللہ لا ینظر إلی صورکم وأموالکم ولکن ینظر إلی قلوبکم وأعمالکم(مسلم: 2564)

بےشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مال ودولت کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔

 تقویٰ انسانی زندگی وہ صفت ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔ تمام عبادات کا بنیادی مقصد بھی انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرنا ہےتقویٰ کا مطلب ہے پیرہیز گاری ، نیکی اور ہدایت کی راہ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو تڑپ ہوتی ہے۔  اللہ تعالیٰ کو تقویٰ پسند ہے۔ ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔  تقویٰ دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگانِ دین کا اولین وصف تقویٰ رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔ اور روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزے، خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائزاور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرے گا۔ تقویٰ اصل میں وہ صفت عالیہ ہے جو تعمیر سیرت و کردار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ عبادات ہوں یا اعمال و معاملات۔ اسلام کی ہر تعلیم کا مقصود و فلسفہ، روحِ تقویٰ کے مرہون ہے۔ خوفِ الٰہی کی بنیاد پر حضرت انسان کا اپنے دامن کا صغائر و کبائر گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے کا نام تقویٰ ہے۔اور اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی کاہر کام گناہ کہلاتا ہے۔


 

اعلیٰ درجہ کی دانائی تقویٰ ہے اوراگررمضان المبارک کے حوالے سے غور کریں تو روزے کا مقصود بھی حصول تقویٰ ہے کچھ اس حوالے سے ارشاد فرمائیں؟

سفر کے لیے زادِ راہ اپنے پاس رکھنا، یہ عقلاء کی شان ہے، جس سے آدمی مخلوق سے مستغنی ہوتا ہے، ان سے سوال کرنے سے بچتا ہے، توشہ اور زادِ راہ جتنا زیادہ ہو، اتنا ہی نفع زیاد ہ ہوتا ہے، دوسروں کی مدد کرسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کئی اور نیکی کے کام بھی اس دنیا میں انجام دے سکتا ہے، حقیقی زادِ راہ تقویٰ ہی ہے، جس سے انسان جنت اور جنت کی نعمتوں کو حاصل کرے گا، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى    وَاتَّقُوْنِ   يٰٓاُولِي   الْاَلْبَابِ۔    ( البقرۃ:۱۹۷)

اور زادِراہ لے لیا کرو کہ بے شک بہتر فائدہ زادِراہ کا بچنا ہے، مجھ سے ڈرتے رہو اے عقلمندو !۔

قَالَ : رَجُلٌ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , مَنْ أَكْيَسُ النَّاسِ وَأَحْزَمُ النَّاسِ؟ قَالَ : أَكْثَرَهُمْ ذِكْرًا لِلْمَوْتِ , وَأَشَدُّهُمُ اسْتِعْدَادًا لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِ الْمَوْتِ , أُولَئِكَ هُمُ الْأَكْيَاسُ ذَهَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْيَا وَكَرَامَةِ الْآخِرَةِ  (الطبرانى فى معجم الصغير )

 حضرت عبداللہ بن عمر ﷠سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا کہ : اے اللہ کے پیغمبر ! بتلائیے کہ آدمیوں میں کون زیادہ ہوشیار اور دور اندیش ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : وہ جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے ، اور موت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے جو لوگ ایسے ہیں وہی دانشمند اور ہوشیار ہیں ، انہوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل کی ، اور آخرت کا اعزاز و اکرام بھی ۔

الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَالْعَاجِزُ ، مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا ، وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ (ابن ماجه)

 شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہوشیار اور توانا وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے ، اور موت کے بعد کے لئے ( یعنی آخرت کی نجات و کامیابی کے لئے ) عمل کرے ، اور نادان و ناتواں وہ ہے جو انے کو اپنی خواہشاتِ نفس کا تابع کر دے ( اور بجائے احکامِ خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے ) اور اللہ سے امیدیں باندھے ۔

نیز اگر رمضان المبارک کے حوالے سے دیکھا جائے تو روزہ کا اصل مقصد کیا ہے؟

روزہ محض کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ پورے جسم، ذہن اور روح کی پاکیزگی اور تمام قسم کے لغو، بیہودہ،فضول کاموں سے بچنے کانام ہے۔جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ﷜سے مروی ہے:جو شخص جھوٹ بولنا ،برے کام کرنا اورلغو بیہودہ کلام نہیں چھوڑتا اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ رب العزت کو کوئی حاجت نہیں ۔مزید یہ کہ روزہ دنیا میں گناہوں سے بچنے کے لئے اورآخرت میں عذاب جہنم سے بچنے کے لئے ایک ڈھال ہے۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے توباوجود آگ برساتے ہوئے سورج، جھلسادینے والی دھوپ ، دہکتی ہوئی زمین اور تپتے ہوئے عالم میں روزہ رکھنا اس قدر مشکل و دشوار نہیں جس قدر روزے کی حفاظت کرنا اور اس کو بحسن خوبی اختتام وتکمیل تک پہنچانا۔رسول اکرم کا فرمان مبارک ہے:

کل عمل ابن ادم لہ الااالصیام فانہ لی وانا اجزی بہ والصیام جنۃ فلایرفث ولایجھل وان امراء قاتلہ او شاتمہ فلیقل انی صائم۔(بخاری)

''ابن آدم کاہرعمل خود اس کا اپنا ہے ، سوائے روزے کے کہ وہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اس کابدلہ دوں گا، اورروزہ ایک ڈھال ہے اگر کوئی روزہ سے ہو تو بے ہودہ گوئی نہ کرے اور نہ شور مچائے اگر کوئی شخص اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑے تو اس کاجواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزے سے ہوں۔''

اس حدیث سے روزہ کافلسفہ واضح ہوگیا کہ پورے ایک ماہ تک ہر قسم کی بدزبانی ،بدکلامی اورشہوت رانی سے دو ررہ کر اپنے اخلاق اورروحانیت کوبلند کرنا۔اپنے آپ کو جفاکش بنانا۔ اس لئے کہ مسلماں کوہر قسم کے ماحول ،آب وہوا اور حالات میں مشقت کا عادی بننا ہے۔ اگر امن وخوشحالی وکشادگی میں اسے جفاکش نہ بنایاگیا تو وہ مصیبت ،سختی،تنگی اورحالت جنگ کی سختیاں نہ جھیل سکے گا۔بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کی روحانی قوتیں بلند ہوتی ہیں اورخاکی نفوس میں ملکوتی صفات پیداہوتی ہیں بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ کھانے پینے اوردوسری شہوات سے بے نیازی اللہ رب العزت کی صفات میں سے ہے توغلط نہ ہوگا۔جب بندہ رب کی بارگاہ میں ایسے وصف وعمل سے قرب چاہتا ہے جو اس رب عظیم کی صفات کے مشابہ ہو تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ بھی اس عمل کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے اور اس عمل کااجرخودبے حد وحساب دیتاہے۔حدیث نبوی ہے: الصوم لی وانا اجزی بہ۔''روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کی جزادوں گا''۔

نیز رمضان المبارک یہ تربیت ومشق (Training & Exercise) کا مہینہ ہے۔جس طرح گاڑی کو اوورہالنگ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جسم اور روح دونوں کو اوورہالنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اوورہالنگ کا کام روزہ کرتاہے۔ جسم کی اس طرح کہ جب ایک ماہ تک معدہ کو چودہ، پندرہ گھنٹہ تک خالی رکھا جاتا ہے اس سے معدہ کو بھی تھوڑا آرام میسر آتا ہے۔ اور اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوتاہے جس کا اثرتمام بدن کی کارکردگی پر پڑتاہے اور روح کا اس لئے کہ نیکیاں اوراعمالِ خیرروح کی غذا ہیں جن سے روح قوی وطاقتور ہوتی ہے اور صبر(روزہ)کرنے کی وجہ سے انسان کے گناہ دھل جاتے ہیں ،بہ الفاظ دیگر اس مہینہ میں مسلمان اپنی زندگی کوصحیح اسلامی راہ اور طریق نبوی ﷺ پرلاسکتا ہے۔ اس لئے اگرایک مسلمان اس ایک ماہ میں اپنی تربیت کے ذریعہ خود کو اچھائی اورنیکی کے سانچے میں ڈھال کراپنی حیات فانی کوحیات جاودانی میں تبدیل کرسکتاہے۔

اس ماہِ رمضان میں روزوں کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تقویٰ اختیار کرنے اور دنیا وآخرت میں اس کے فوائد وثمرات اور فضائل حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا میں اپنے مقصدِ حیات پر عمل کرنے اور آخرت میں مواخذہ اور محاسبہ سے محفوظ ومامون فرمائے، آمین


 

پرہیزگاری یا تقویٰ کی برکات کیاہیں اورپرہیز گاروں کے لئے کیا انعامات ہیں؟

اللہ رب العزت جب انسان کو ایمان اورتقویٰ سے نوازتا ہے  تو اس کی قوتوں کو ایسے کاموں میں لگادیتا ہے جو اس انسان کو دنیا وآخرت میں آسانیوں کی طرف لے جائے اور اس کے برعکس  کو دنیا و آخرت کی صعوبتوں و سختیوں میں الجھادیتاہے۔  جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

 فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى  وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى  فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰى وَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰى        ( اللیل: ۵-۱۰)

’’سو جس نے دیا اور ڈرتا رہا اور سچ جانا بھلی بات کو، اس کو ہم آسان طریقے کی توفیق دیں گے ، اور جس نے نہ دیا اور بےپروا رہا ،اور جھوٹ جانا بھلی بات کو، اسے سختی میں پہنچائیں گے ۔ ‘‘

کسی انسان یا جماعت کے لیے اللہ تعالیٰ کی برکات کے دروازے کمالِ ایمان اور کمالِ تقویٰ کی بناپر ہی کھلتے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

 وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ         ( الاعراف: ۹۶)

 ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم کھول دیتے ان پر نعمتیں آسمان اور زمین سے، لیکن جھٹلایا انہوں نے، پس پکڑا ہم نے ان کو اُن کے اعمال کے بدلے۔ ‘‘

برکاتِ الٰہیہ حدّ وشمار سے باہر ہیں، من جملہ اُن میں عمر میں برکت، رزق میں برکت، وقت میں برکت، آل و اولاد میں برکت، مال میں برکت، اعمال میں برکت، اسی طرح اسباب کے بغیر ضرورتوں کا پورا ہونا، کسی درجہ میں جدوجہد، محنت ومشقت کے بغیر اموال، اشیاء اور روزی کا حصول، یہ سب ایمان اور تقویٰ کی بناپر ہی حاصل ہوتے ہیں۔

آج کل مسلمانوں میں ایمانی ضعف اور تقویٰ کی کمی کی بناپر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند محسوس ہوتے ہیں اور اکثر مسلمان ان برکات سے محروم نظر آتے ہیں، اس لیے کہ جب ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو بھلادیا تو اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ چیزیں چھین لیں اور جو چیزیں ہمیں ملی ہوئی ہیں، وہ برکت سے خالی ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام کی محبت، حضور ﷺ کے کلام یعنی سنت اور احادیث کی محبت، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی محبت، اس کی اطاعت کی محبت، اولیاء کی محبت، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی محبت، دین کی محبت کو ہم سے چھین لیا ہے، اس لیے کہ جب گناہوں اور دین کی مخالفت کی کثرت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے خیرات اور برکات سے ہمیں محروم کردیا۔

انسان کی قدروقیمت ایمانی صفات، اعلیٰ اخلاق اور اعمالِ صالحہ کی بناپر ہی ہوتی ہے اور جب تک کسی چیز میں اس کی اعلیٰ صفات باقی رہتی ہیں، اس کی قدروقیمت باقی رہتی ہے اور جب کوئی چیز اعلیٰ صفات سے محروم ہوجاتی ہے تو اس کی قدروقیمت بھی ختم ہوجاتی ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کی معیت ونصرت اور مدد تب آئے گی جب ہمارے اندر ایمان، تقویٰ اور احسان جیسی صفات آجائیں گی، جو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو محبوب وپسند ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:

 اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ ۔ (النحل:۱۲۸)

 ’’ الله تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو پرہیز گار ہوتے ہیں اور جو نیک دار ہوتے ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح جب ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجالائیں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی معیت، قرب اور مددونصرت ہمارے شامل حال ہوگی، جیسا کہ ارشاد ہے:

 وَقَالَ اللهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ  ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ   ۚ  فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ۔(المائدۃ: ۱۲)

 ’’ اور کہا اللہ نے میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم قائم رکھو گے نماز اور دیتے رہو گے زکوٰۃ اور یقین لاؤ گے میرے رسولوں پر اور مدد کرو گے ان کی اور قرض دو گے اللہ کو اچھی طرح کا قرض تو البتہ دور کروں گا میں تم سے گناہ تمہارے اور داخل کروں گا تم کو باغوں میں کہ جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، پھر جو کوئی کافر ہوا تم میں سے اس کے بعد تو وہ بے شک گمراہ ہوا سیدھے راستہ سے۔‘‘

جب ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت ، نشرواشاعت اور حضور اکرم  ﷺ  کی سنتوں پر عمل کریں گے، تو اللہ تعالیٰ کی معیت ہم ایمان والوں کے شاملِ حال ہوگی، جیسا کہ فرمایا:

 لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى۔ ( طٰہٰ: ۴۶)

’’ نہ ڈرو، میں ساتھ ہوں تمہارے، سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔‘‘

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے لیے دو لباس نازل فرمائے ہیں، ایک ظاہری لباس جس سے انسان اپنے بدن کی صورت اور برہنہ پن کو چھپاتا ہے اور دوسرا تقویٰ کا لباس جس سے انسان اپنے باطن اور سیرت کو نکھارتا ہے، جس طرح ظاہری لباس سے انسان خوبصورت اور مزین نظر آتا ہے، اسی طرح تقویٰ کے لباس سے انسان کے اخلاق اور کردار خوبصورت ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

 يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًاوَلِبَاسُ التَّقْوٰى   ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ  ۭذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۔(الاعراف: ۲۶)

 ’’ اے اولاد آدم کی! ہم نے اُتاری تم پر پوشاک جو ڈھانکے تمہاری شرمگاہیں اور اُتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیزگاری کا وہ سب سے بہتر ہے، یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی، تاکہ وہ لوگ غور کریں۔ ‘‘

حقیقی کامیابی

اہلِ ایمان اور اہلِ تقویٰ ہی دنیا اور آخرت میں حقیقی کامیاب لوگ ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:

 اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ   ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللهِ   ۭ ذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (یونس: ۶۲-۶۴)

 ’’یاد رکھو! جو لوگ اللہ کے دوست ہیں نہ ڈر ہے اُن پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے، جو لوگ کہ ایمان لائے اور ڈرتے رہے، اُن کے لیے خوشخبری دنیا کی زندگانی میں اور آخرت میں، بدلتی نہیں اللہ کی باتیں، یہی ہے بڑی کامیابی۔ ‘‘

رزق کا ملنا جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں

اہلِ تقویٰ کو دنیا میں جو نعمتیں نصیب ہوتی ہیں قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں ہے:

 وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا  وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۔‘‘   ( الطلاق:۲-۳)

 ’’اور جو کوئی ڈرتا ہے اللہ سے وہ کر دے اس کا گزراہ، اور روزی دے اس کو جہاں سے اس کو خیال بھی نہ ہو۔ ‘‘

نیکیوں کا بڑھنا اورگناہوں کا کفارہ

 وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ يُسْرًا ذٰلِكَ اَمْرُ اللهِ اَنْزَلَهٗٓ اِلَيْكُمْ   ۭ  وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَـيِّاٰتِهٖ وَيُعْظِمْ لَهٗٓ اَجْرًا۔   ( الطلاق: ۴-۵)

’’اور جو کوئی ڈرتا ہے اللہ سے کر دے وہ اس کے کام میں آسانی۔ یہ حکم ہے اللہ کا جو  اُتارا تمہاری طرف اور جو کوئی ڈرتا رہے اللہ سے اُتار دے اس پر سے اس کی برائیاں اور بڑھا دے اس کو ثواب۔ ‘‘

کاموں کا سنور جانا

 يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا اللهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ  وَمَنْ يُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا ( الاحزاب:۷۰-۷۱ )

 ’’ اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور کہو بات سیدھی کہ سنوار دے تمہارے واسطے تمہارے کام اور بخش دے تم کو تمہارے گناہ اور جو کوئی کہنے پر چلا اللہ کے اور اس کے رسول کے اس نے پائی بڑی مراد۔ ‘‘

آخری میں ملنے والی نعمتیں

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ تقویٰ کے لیے آخرت میں کیا تیار کررکھا ہے، اور کیا نعمتیں عطا فرمائیں گے، اس کا جواب قرآن کریم میں ہے:

 مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ    ۭ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ   ۭ  اُكُلُهَا دَاۗىِٕمٌ وَّظِلُّهَا   ۭ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِيْنَ اتَّقَوْا     ڰ   وَّعُقْبَى الْكٰفِرِيْنَ النَّارُ۔ (الرعد: ۳۵)

 ’’ حال جنت کا جس کا وعدہ ہے پرہیزگاروں سے، بہتی ہیں اس کے نیچے نہریں، میوہ اس کا ہمیشہ ہے اور سایہ بھی، یہ بدلہ ہے ان کا جو ڈرتے رہے اور بدلہ منکروں کا آگ ہے۔‘‘

جنت کا وعدہ

 قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ ۭ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ  ۭوَاللهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ‘‘(آل عمران: ۱۵)

ترجمہ: ’’کہہ دے: کیا بتاؤں میں تم کو اس سے بہتر؟ پرہیزگاروں کے لیے اپنے رب کے ہاں باغ ہیں جن کے نیچے جاری ہیں نہریں، ہمیشہ رہیں گے ان میں اور عورتیں ہیں ستھری اور رضامندی اللہ کی اور اللہ کی نگاہ میں ہیں بندے۔‘‘

وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا  ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِيْنَ ۔ (الزمر: ۷۳)

 ’’ اور ہانکے جائیں وہ لوگ جو ڈرتے رہے تھے اپنے رب سے جنت کو گروہ گروہ، یہاں تک کہ جب پہنچ جائیں اس پر اور کھولے جائیں اس کے دروازے اور کہنے لگیں ان کو داروغہ، اس کے سلام پہنچے تم پر، تم لوگ پاکیزہ ہو، سو داخل ہو جاؤ اس میں سدا رہنے کو۔‘‘

پرہیز گاری یا تقویٰ کیسے حاصل ہو؟؟

تقویٰ و پرہیزگاری ایسی دولت ہے جس کے ذریعہ انسان اللہ کا قرب پا لیتا ہے۔ حرام کاموں کے اِرتکاب سے گُریز کرتا ہے اور جائز  کاموں کی طرف نفس کو لگاتا ہے۔مَنْہِیَّات (شریعت کے منع کردہ کام)  سے بچ کرنیکی و بھلائی کے کاموں کی طرف تگ و دو (کوشش) کرتا ہے۔ ایسی عظیم دولت کو کیسے حاصل کیا جائے؟ آئیے!قراٰن و حدیث کے مہکتے مدنی پھولوں سے راہنمائی لیتے ہیں:

نبی کریم ﷺ  کی کامل اتباع سے:

اللہ  رب العزت  کا ارشاد ہے :

وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ (الزمر:33)

اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں۔

سچ لے کر تشریف لانے سے مراد حضور  ﷺہیں اورتصدیق(پیروی )کرنے والےتمام مؤمنین مراد ہیں۔(تفسیرِ کبیر ،تحت الآیۃ:33،ج9،ص452)

صالحین اورصادقین  کی صحبت سے :

 اللہ  کریم نے پہلے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم فرمایا، پھر طریقہ بتایا کہ سچوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(التوبۃ:119)

 اے ایمان والو  اللہ  سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو۔

عدل و انصاف سے:

 اللہ رب العزت  ارشاد فرماتاہے:

( اِعْدِلُوْا- هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘-)

انصاف کرو وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔ (المائدۃ :8 )

عدل و انصاف کا تعلُّق انسانی حقوق سے ہے اور انسانی حقوق کے تحفُّظ کا تقویٰ میں سب سے بڑا دخل ہے، اسی لیے عدل کو ” هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى “فرمایا ہے۔(تفسیر ِ مظہری ،تحت الآیۃ: 8،ج 4،ص315)

رضائے الہی کی خاطر عبادت کرنے سے :

 قراٰن کریم میں  ارشاد ہوتاہے:

 یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرۃ:21)

اے لوگو ! اپنے رب کو پوجو(عبادت کرو)جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیایہ  امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے ۔

تقویٰ کی دعا مانگنےسے:

" سیدنا زید بن ارقم ﷜نے کہا: میں تم سے وہی کہوں گا جو آپ ﷺ فرماتے تھے:

اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِى تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلاَهَا اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لاَ يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لاَ يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لاَ يُسْتَجَابُ لَهَا(صحیح مسلم،ج 2 ،ص 315،حدیث:6906)

 یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیزی عاجزی اور سستی اور نامردی اور بخیلی اور بڑھاپے سے اور قبر کے عذاب سے، یا اللہ! میرے نفس کو تقویٰ دے اور پاک کر دے اس کو، تو اس کا بہتر پاک کرنے والا ہے، تو اس کا آقا اور مولٰی ہے، یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری اس علم سے جو فائدہ نہ دے اور اس دل سے جو تیرے سامنے نہ جھکے اور اس جی جو آسودہ نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو۔“

حضور اکرم ﷺکا ادب کرنے  سے:

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-

 بے شک وہ جو اپنی آوازیں  پست کرتے ہیں  رسولُ اللہ کے پاس وہ ہیں  جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ  لیا ہے۔ (الحجرات:3)

جس طرح حضور ﷺ   کی حیاتِ طیّبہ میں آپ کے سامنے بلند آواز سے بولنا مکروہ تھا، اسی طرح قبر مبارک کے پاس بھی مکروہ ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ،تحت الآیۃ:3،ج4،ص615)

روزے رکھنے سے:

 اللہ رب العزت   نے قراٰنِ کریم میں روزے  کی فرضیت کے احکام صادر فرما  کر اس کا مقصود تقویٰ قرار دیا کیونکہ روزے اورتقوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے،اورروزہ متقین کا شِعار ہے۔ قراٰن مجید میں ارشاد ہوا:

( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرۃ:183)

 اے ایمان والو  تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے  کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے ۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post