نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ۔اما بعد۔فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی قرآن المجید۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر:۹)

وقال : لَیْسُوْا  سَوَآءًؕ-مِنْ  اَهْلِ  الْكِتٰبِ  اُمَّةٌ  قَآىٕمَةٌ  یَّتْلُوْنَ  اٰیٰتِ  اللّٰهِ  اٰنَآءَ  الَّیْلِ  وَ  هُمْ  یَسْجُدُوْنَ (اٰل عمران ؛۱۱۳)            

وقال علیہ الصلوٰۃ والسلام: يَجِيئُ الْقُرْاٰنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ حَلِّهِ فَيُلْبَسُ تَاجَ الْکَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ زِدْهُ فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الْکَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ ارْضَ عَنْهُ فَيَرْضَی عَنْهُ فَيُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَارْقَ وَتُزَادُ بِکُلِّ اٰيَةٍ حَسَنَةً.( ترمذي، السنن، 5: 178، رقم: 2915، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)

صدق اللہ العظیم  وصدق رسولہ النبی  الامین الکریم

جناب صدر محفل و سامعین کرام!

آج  میرا موضوع " حفاظ کرام کا مقام و مرتبہ اورمعاشرے میں ان کا  کردار اورذمہ داریاں "ہے۔



محترم سامعین :

حافظ  قرآن کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ نسبت دیکھی جائے کہ اس کی نسبت کس سے ہے؟کیونکہ کسی چیز کے مقام ومرتبہ کا تعین اس کی نسبت سے ہوتا ہے ،آپ سب اصحابِ نسبت ہیں آپ جانتے ہیں کہ نسبت بڑی اونچی چیز ہے چوں کہ قرآن مجید کلام ربانی ہے ۔اللہ رب العزت کا کلام ہے جو تمام کلاموں میں اعلی و ارفع ہے ۔یہ آسمانی کتابوں کا تاج ہے ، اسلام کی حقانیت کی سندہے اورنبی اکرمﷺ کا زندہ و جاوید معجزہ ہے  جو  ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے۔  یہ وہ کتاب ہے جو رشد وہدایات کا  شعور ہے ، علم الاخلاق سے معمور  ہے،اس میں علم وآگہی کے رموز   ہیں ، حکمت و دانش مذکور ہے، تذکرہٴ   غِلمان و حور ہے، ذکر مباح و محذور ہے،قصہ مختصر یہ کتاب  حبل المتین  یعنی اللہ  رب العزت کی مضبوط ڈور ہے ۔لہذا اس سے تعلق رکھنے والا  یعنی اللہ کی ڈور کو پکڑنے والا ہر فرد بھی ارفع و اعلیٰ ہوگا۔اسے  پڑھنے والا ،یاد کرنے والا ، سینوں میں محفوظ کرنے والا  اور زبان سے اس کا ورد کرتے رہنے والا بھی خوش نصیب ہوگا ، جن کے لئے خود حضور ﷺ نے خوشخبری سنائی ہے۔ حدیث مبارکہ  ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه وْ يس قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ، قَالَتْ: طُوبَى لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا، وَطُوبَى لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا، وَطُوبَى لِأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا "( سنن الدارمی :3457)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول الله ﷺ نے فرمایا:الله تعالی نے زمین و آسمان کی تخلیق سے ہزار برس پہلے سورہ  طٰہٰ اور سورة یٰس کی تلاوت فرمائی،جب فرشتوں نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا:اس امت کے لیے خوشخبری ہو جس پر یہ اتارا جائے گا،ان مبارک دلوں کے لیے خوشخبری ہو جو اسے یاد کریں گے،اور اسے پڑھنے والی زبان کے لیے خوشخبری ہو۔

سامعین کرام!

احادیث مبارکہ میں قرآن مجید پڑھنے ،یاد رکھنے اور اس پر عمل کرنے والوں کو آخرت کے بیش بہا  انعامات اور خوشخبریاں سنائی گئیں ہیں۔ایک اور حدیث مبارکہ ہے:

يَجِيئُ الْقُرْاٰنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ حَلِّهِ فَيُلْبَسُ تَاجَ الْکَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ زِدْهُ فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الْکَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ ارْضَ عَنْهُ فَيَرْضَی عَنْهُ فَيُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَارْقَ وَتُزَادُ بِکُلِّ اٰيَةٍ حَسَنَةً.( ترمذي، السنن، 5: 178، رقم: 2915، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن صاحب قرآن آئے گا تو قرآن کہے گا اے رب! اسے جوڑا پہنا ،چنانچہ اسے عزت کا تاج پہنایا جائے گا۔قرآن پھر عرض کرے گا اے رب! اسے مزید پہنا پھر اسے عزت کا جوڑا پہنایا جائے گا،قرآن  پھر قرآن عرض کرے گا اے رب! تو اس سے راضی ہوجا تو تمام جہانوں کا خالق و مالک  اس سے راضی ہوجائے گا اورقاری  سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور ترقی کی منازل طے کرتا جا ہر آیت کے بدلے اس کی نیکی بڑھائی جائے گی۔

ان احادیث مبارکہ سے ہمیں معلوم  ہوتاہے کہ حافظ کرام دنیا میں مکرم و محترم ہوجاتاہے  اور ہر صاحب ایمان ،عاشق قرآن کے دلوں کا تارا بن جاتاہے اور آخرت میں انشاء اللہ وہ حضور اکرم ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے جام کوثر پانے والا خوش نصیب بھی بن جائے گا ۔ بقول شاعر

یہ حفظ کی دولت ہے حافظ

احسان خدائے برترہے

دنیا میں بڑا اکرام تیرا

عقبہ میں شراب کوثرہے

رہامسئلہ  حفاظ کرام کے معاشرے میں کردارکا تودنیا میں انسان جس قدر بلندی پر فائز ہو اس کے مطابق  اس کی ذمہ داریاں اورفرائض بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ حافظ کرام جنہیں اللہ رب العزت نے اس قدر اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے ان کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی عام عوام کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہیں اور ہونے بھی چاہئیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حفظ کی سعادت عظمی حاصل کرنے کے لئے  کس قدر سعی و جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔  سب سے پہلے وہ قرآن مجید کو کسی ماہر معلم کی نگرانی میں تجوید کے ساتھ سیکھنے کی کوشش کرتاہے ، دوم، اسے سینہ میں محفوظ کرنے  یعنی   حفظ کے  لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتا ہے ، ،سوم ،پوری زندگی یاد رکھنے کی فکر کرتا ہے اور چہارم ،اس کے مطابق عمل کرنے کی فکر کرتا ہے ۔اورہمہ وقت اس کے ہونٹوں پر کلام الٰہی ہی ہوتاہے ، بقول شاعر:

ہونٹوں پہ ترے تجوید بھی ہے

الحان بھی ہے ترتیل بھی ہے

سامعین کرام!

آج  کے منظرنامہ میں روز روشن کی طرح ہمارے سامنے آتاہے کہ  دنیا   فتنوں کی آماجگاہ  بن چکی ہے۔ظلمت و تاریکی کا  ہرسو بسیراہے۔ ان فتنوں اور ظلمتوں سے  محفوظ رہنے کا واحد راستہ قرآن اور وارثان ِقرآن کے ساتھ مضبوط نسبت اور ان کی صحبت ہے ۔اب یہ وارثان قرآن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانیں اورمعاشرے میں رول ماڈل بنیں۔اس کے لئے  انہیں خود کردار کی  بلندی پر ہونا چاہئے ۔ ذوق خود نمائی و فسادِ نیّت سے پرہیز کرنی چاہئے ۔ ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے۔ اور ظاہر و باطن میں  یکسانیت ہو۔ان کے آپس میں حسد و رقیبانہ کش مکش نہیں ہونی چاہئے۔

اللہ رب العزت نے انہیں منبر و محراب عطا کیا ہے اس کا صحیح  استعمال  ہونا چاہئے۔ اس کے ذریعے وہ  امت مسلمہ کی اصلاح اور سماج و معاشرہ کی بے دینی و اخلاقی بگاڑ کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور نوجوانوں میں دینی و ایمانی روح پیدا کرنے میں اپنا مثبت کردار اداکریں۔ اور عوام کی محبت و عقیدت کا  ناجائز استحصال نہ کریں ایسا نہ ہو کہ  وہ اسلام  اورمذہبی طبقہ ہی سے متنفر ہوجائیں۔بلکہ ان کا کردارایسا ہوکہ انہیں  دیکھ کر غیرمسلم بھی مسلمان ہوجائیں ، فُسّاق وفُجار راہ راست پر آجائیں۔ویسے بھی آخرت میں جب وہ دس ایسے عزیزوں کو جنت میں لے جانے والے بنیں گے جن پر دوزخ  واجب ہوچکی ہوگی تو دنیا میں بھی انہیں دیکھ اایسا ہی احساس ہونا چاہئے بقو ل شاعر

دس عزیزوں کی سفارش کا تمہیں مژدہ ملا

اس سے بڑھ کر حفظ قرآن کا بھلا کیا ہوصلہ

وما علینا الاالبلاغ المبین

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post