غم کے آداب

 اس دنیا میں جہاں انسان پر خوشی و مسرت کے لمحات آتے ہیں وہیں وہ  مختلف  قسم کی پریشانیوں اور مصائب سے  دوچار ہوتا رہتا ہے ،کبھی صحت، کبھی  مال میں  ، کبھی اولاد میں اور کبھی اعزہ وا قارب  میں  ناگوار و ناپسندیدہ  حالات سے  واسطہ  پڑتا ہے ۔ بعض اوقات  تو یہ  مصیبتیں  قابل برداشت  ہوتی ہیں  اور کبھی  ایسے مصائب سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ عالی سے عالی ہمت انسان بھی اس کے  بوجھ  اٹھانے سے عاجز نظر آتے ہیں ۔

درحقیقت یہ اللہ تعالی کی طرف سے    اپنے بندے کی آزمائش ہوتی ہے تاکہ مومن و منافق اورشکرگزار اورناشکرے میں فرق ہوسکے ، ارشاد باری تعالی ہے  :

 الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا. (الملک:2)

جس نے موت  و زندگی  کو اس لئے  پیدا کیا کہ  تمہیں آزمائے  کہ تم میں سے اچھا عمل کون کرتا ہے ۔

 نیز فرمایا :

كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةًؕ-وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(الانبیاء:۳۵)

ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور ہم برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں خوب آزماتے ہیں اور ہماری ہی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس﷠سے روا یت ہے،نبی اکرمﷺَنے ارشاد فرمایا :جسے چار چیزیں  عطا کی گئیں  اسے دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کی گئی :

(۱) شکر کرنے والا دل۔

(۲)  اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والی زبان۔

(۳) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن۔

 (۴) اس کے مال اور عزت میں  خیانت نہ کرنے والی بیوی۔( معجم الکبیر، طلق بن حبیب عن ابن عباس، ۱۱ / ۱۳۴، الحدیث: ۱۱۲۷۵)

(2)حضر ت انس ﷜سے روایت ہے، حضور ﷺنے ارشاد فرمایا:بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور  اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں  آزمائش میں  مبتلا کر دیتا ہے، تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، ۴ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۰۳۱)

غم و مصیبت کے موقعہ  پر ایک  مومن کو چاہئے  کہ وہ معلوم کرے کہ  مصائب  و پریشانیوں سے دو چار  ہونے کی صورت   میں اسے  کیا کرنا چاہئے ، ان مصائب  پریشانیوں  میں مبتلا کرنے والے نے  اسے اس موقعہ  پر کیا  آداب  سکھلائے ہیں ۔ ذیل میں نبوی تعلیمات  کی روشنی میں مصائب  و پریشانیوں  میں گھرے بندوں کے لئے چند آداب کا ذکر ہے :

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص گریبان پھاڑتا گالوں پر طمانچہ مارتا اور جاہلیت کی طرت چلاتا اور روتا دھوتا ہے وہ میری امت سے نہیں ہے۔

حضرت جعفر طیار ؓ جب شہید ہوئے اور ان کی شہادت کی خبر ان کے گھر پہنچی تو ان کے گھر کی عورتیں چیخنے چلانے لگیں اور ماتم کرنے لگیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے کہلا بھیجا کہ ماتم نہ کیا جائے مگر وہ باز نہ آئیں تو آپﷺ نے دوبارہ منع فرمایا پھر بھی وہ نہ مانیں تو آپﷺ نے حکم دیا ۔ ان کے منہ میں خاک بھر دو ۔ (صحیح بخاری)

 عام طور پر خوشی اور غم کی حالت میں انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور ایسی حرکتیں کرنے لگتا ہے جو آداب کے خلاف ہوتی ہیں اور بے کار بھی۔ ان کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہوتا ہے اور نہ مرنے کے بعد ان کا کوئی اجر و ثواب ملتا ہے۔ اسلام چوں کہ میانہ روی اور اعتدال کا درس دیتا ہے اس لیے اس نے ایسی بے اعتدالیوں سے منع کیا۔ حضور اکرم ﷺسے پہلے جاہلیت کے زمانے میں جب کوئی مر جانا تھا تو اس کے رشتے دار اور اعزہ  منہ پر تھپٹر مارتے تھے اور سینہ کوبی  کرتے تھے۔ سر کے بال کھول دینا اور انھیں نوچنا ایک عام رسم تھی۔ شاعر حضرات یا سرداران عرب مرتے وقت ہی وصیت کرتے تھے کہ ان کا ماتم ان کی شان کے مطابق کیا جائے۔

ایک شاعر نے اپنی بیوی سے کہا : جب میں مر جاؤں تو میرے لیے میرے درجے کے مطابق رونا اور میرے لیے گریبان چاک کر ڈالنا۔

 وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ میت پر رونے والے کثیر تعداد میں ہوں۔ چناں چہ دور دور سے عورتیں بلا کر لائی جاتی تھیں تاکہ وہ میت پر ماتم کریں۔ عام منادی کرائی جاتی تھی تاکہ لوگ زیادہ تعداد میں آئیں۔

آنحضرت ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام اس بارے میں بہت زیادہ احتیاط برتنے لگے۔ کسی عزیز اور رشتے دار کی موت پر آنکھوں سے آنسوؤں کا چھلک جانا ایک فطری بات ہے۔ اس میں کوئی گناہ نہیں البتہ زور زور سے چیخنے چلانے سے حضورﷺ نے سے منع فرمایا۔ ایک دفعہ جب ایک عورت نے حضور سے پوچھا کہ وہ کون سی بات ہے جس میں ہمیں  آپ کی نافرمانی نہیں کرنی ہوا ہے تو آپ نے فرمایا :(ماتم نہ کرو)

حضور کے اپنے صاحب زادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سے پانی کے قطرے نکل آئے اور فرمایا کہ اے ابراہیم تیری جدائی سے مغموم ہیں لیکن زبان سے  وہی نکلے گا جو رب کی مرضی ہے۔ معلوم ہوا کے غم میں خاموشی سے رونے میں کوئی حرج  نہیں۔ اس سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے مگر یہ اچھی بات نہیں کہ آدمی کپڑے پھاڑ ڈالے اورخود کو مار مار اپنی حالت خراب کرلے ۔غم کی شدت میں بھی کوئی ایسی حرکت نہ کیجیے جس سے نا شکری اور شکایت کی بو آئے اور جو شریعت کے خلاف ہو، دھاڑیں مارمار کر رونا، گریبان پھاڑنا اور گالوں پر طمانچے مارنا، چیخنا اورماتم میں سر سینہ پیٹنا، مومن کے لیے کسی طرح جائز نہیں ، نبیﷺ کا ارشاد ہے:

جو شخص گریبان پھاڑتا گالوں پر طمانچے مارتا اور جاہلیت کی طرح چیختا اور چلاتا، اور بین کرتا ہے وہ میری امت میں نہیں۔(ترمذی)

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایمان والوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ مصیبت میں  صبراور نماز کے ذریعے سے اللہ سے مدد طلب کرو اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اگر ایک آدی یہ یقین کر لے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ کے حکم اور مصلحت سے  تو وہ زیادہ پریشان نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے جب کسی آزمائش چار ہوتے ہیں تو کہتے ہیں :

اناللہ وانا الیہ راجعون(ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے۔)

جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ، فَيَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللهُ:إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللهُ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا   (  صحيح مسلم:918 الجنائز، سنن ابي داود:3119، سنن الترمذي:3511)

  حضرت  ام سلمہ ﷝سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ  جس مسلمان کو کوئی مصیبت  پہنچے  پھر وہ وہی کلمات دہرائے  جس کا  حکم اللہ تعالی نے دیا ہے۔ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ، اے اللہ میری اس مصیبت  میں مجھے  اجر دے اور اس کا اچھا بدل عطا فرما۔ پڑھ لے تو اللہ  تعالی اسے  [ اس کی مصیبت  میں اجر  عطا فرماتا ہے اور ]  اس کے  نعم البدل سے بھی  نوازتا ہے ۔ ( صحیح مسلم ) ۔

جب کوئی شخص وفات پا جاتا تو حضور اکرم اس کے گھر والوں کو صبر کی تلقین فرماتے ۔ اور ہمدردی اور غم گساری کا اظہار کر کے ان کو تسلی دیتے اور میت کے حق میں دعائے مغفرت کرتے۔ حضرت عبد الله بن مسعود کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ جو شخض کی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے گا اس کے لیے ایسا ہی اجر ہے جیسا کہ خود مصیبت زدہ کے لئے ہے ۔  حضرت معاذ فرماتے ہیں کہ ان کے لڑکے کا انتقال ہوا تو نبی اکرم نے ان کو جو تعزیت کی اس میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا :دعا کرتا ہوں کہ اللہ تم کو اس صدمے پر عظیم اجر سے نوازے اور میں مصیبت  برداشت کی قوت بخشے اور ہمیں وتمہیں شکر کی توفیق دے۔ آگے چل کر فرمایا :ایسا نہ ہو کہ تمہارا واویلا تمھارے اجر و ثواب کو غارت کر دے اور پھر تم پچھتاؤ ۔رونے پیٹنے سے کوئی مرا ہوا واپس نہیں آتا اور نہ اس سے غم دور ہوتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post