ہر حال میں خدا کا شکر

امتياز علی رند

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک انجنیئر کسی بلڈنگ کی دسویں منزل پر کام کر رہا تھا. ایک مزدور بلڈنگ کے عین  نیچے اپنے کام میں مصروف تھا. انجنیئر کو مزدور سے کام آن پڑا. اس نے بہت زور سے اس کو آواز دی لیکن اس نے نہیں سنی. انجنیئر نے جیب سے دس ڈالر کا نوٹ نکالا اور نیچے پھینکا تا کہ مزدور اوپر کی طرف متوجہ ہو جاۓ لیکن مزدور نے نوٹ اٹھا کر جیب میں ڈالا اور اوپر دیکھے بغیر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ دوسری دفعہ انجنیئر نے پچاس ڈالر کا نوٹ نکالا اور نیچے پھینکا کہ اب تو مزدور ضرور اوپر کی طرف دیکھے گا. مگر اس بار بھی مزدور نے پھر سے اوپر دیکھے بغیر پچاس ڈالر کا نوٹ جیب میں ڈال دیا. اب تیسری دفعہ انجنیئر کو ایک ترکیب سوجھی اس نے ایک چھوٹی سی کنکری اٹھائی اور اسے نیچے پھینک دیا۔ جو سیدھا جا کر مزدور کے سر پر لگی. اس نے فورا اوپر کی طرف نگاہ کی اور انجنیئر نے اسے اپنے کام کے بارے بتایا. دراصل یہی ہماری ہماری زندگی کی حقیقت ہے. ہمارا مہربان خدا ہمیشہ ہم پر نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے کہ شاید ہم سراٹھا کر اوپر دیکھیں یا جھک کر سجدے میں جاکر اس کا شکر ادا کریں مگر اس کی دی ہوئی لاتعداد نعمتوں سے بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور جوں ہی کوئی مصیبت یا پریشانی آتی ہے ہم فوراً اس کی ذات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں صرف مشکل میں ہی اس کی یاد آتی ہے

 اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے.:ترجمہ : "اور جب پہنچتی ہے انسان کو کوئی تکلیف (اس وقت) پکارتا ہے اپنے رب کو دل سے رجوع کرتے ہوئے اس کی طرف پھر جب عطا کرتا ہے اسے نعمت اپنی (جناب) سے تو بھول جاتا ہے اس تکلیف کو جس کے لیے فریاد کرتا رہا اس سے پہلے"(سورہ زمر آیت نمبر 8)

اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر نعمت کا ہر روز شکر ادا کریں ضروری نہیں کہ سر پر پتھر ہی لگیں تو ہی اس کا خیال آئے.

عارفوں کا قول ہے کہ شکر سابقہ انعامات کی زنجیر ہے اور مزید انعامات کا صیاد ہے.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم سے سنا،  آپ    نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہوگئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہوگیا اور چمڑی بھی اچھی ہوگئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی۔ چناچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہوجائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آگئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہوچکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کرسکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتہ نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آرہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہوچکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔(صحیح بخاری کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان حدیث نمبر: 3464)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور میرا شکر ادا کرتے رہو اور میری ناشکری نہ کرو۔۔ (البقرہ : ١٥٢)

 شکر کا معنی یہ ہے کہ انسان نعمت دینے والے کا احسان مند ہو ‘ اس کے احسان کی قدر کرے ‘ اس کی دی ہوئی نعمت کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرے اور وہ اپنے منعم اور اپنے محسن کا وفادار رہے اور کفران نعمت یہ ہے کہ یا تو انسان سرے سے اپنے محسن کا احسان ہی نہ مانے اور اس نعمت کو اپنی ذاتی قابلیت یا کسی اور کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے ‘ یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اس کو ضائع کردے یا منعم کی تعظیم نہ کرے یا اس کی نعمت کو اس کی مرضی کے خلاف استعمال کرے یا اس کے احسانات کے باوجود اس سے بےوفائی اور غداری کرے ‘ اس قسم کے کفر کو ہماری زبان میں بالعموم احسان فراموشی ‘ نمک حرامی ‘ غداری اور ناشکرے پن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم شکور ہے، اس کا معنی ہے وہ بندوں کے کم اعمال کو بڑھا کر دگنا چو گنا کردینے ولا ہے اور ان کی کم عبادت کی زیادہ جزا دینے والا ہے.

جس طرح شکر مزید انعام و اکرام کا باعث ہے اسی طرح ناشکری اور کفران نعمت محرومی کا سبب ہے.

 خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر حال میں خدا کا شکر ادا کریں کیونکہ اس کا لطف و کرم ہماری زندگی میں ہر وقت شامل حال رہتا ہے.

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post