ڈاکٹر انصاریؒ اورنظام تعلیم

 

تعلیم وتربیت کی اہمیت:

دورخواہ کوئی بھی رہا  ہوتعلیم وتربیت کی اہمیت ہمیشہ  مسلمہ رہی ہے ۔ جہاں تک تعلیم وتربیت کے مدارج اورمراحل کا بیان ہے وہ خواہ فرد سے متعلق ہو یا قوم وملت سے۔ یہ بہت ہی صبر آزما ،طویل المیعاداور کل وقتی کام ہے جو مہینوں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔ ہر شخص  اس کی اہمیت وضرورت  سے بخوبی واقف ہے۔ اگر انفرادی یاشخصی تعلیم کی ضرورت دیکھی جائے تو اس کے بغیر انسان کی شخصیت نامکمل اور ناتمام  رہ جاتی ہے۔اگر قومی یا ملی تربیت کی بابت غورکیاجائے تو اقوام کی زندگی میں بھی تعلیم و تربیت کو  بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ جس پر ان کی عمارت کابنیادی ڈھانچہ استوار ہوتا ہے۔ ان کے عروج و زوال اور تہذیب و شائستگی کی بقابھی تعلیم وتربیت ہی کی مرہون منت ہے۔  آج دنیا میں وہی اقوام برتر،غالب اورحاکم ہیں جو علم کی دولت سے مالامال ہیں یعنی جنہوں نے علم کی اہمیت کو پہچانا اورفلسفۂ تعلیم کے ذریعہ اپنے نصب العین، مقاصد ِ حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا تعین کیاپھرایسی راہ متعین کی جو ایک زندہ اور طاقتور قوم کی تخلیق کا باعث بن سکے ۔اس راہ کے تعین کے بعد عملِ پیہم،جہدِمتواتر، نظم وضبط،سلیقہ مندی اور اعلیٰ طریقہ کار کے ساتھ اسے فروغ دیا۔ مختصراًعصرِ حاضر میں اب قوموں کی بقاء اورترقی کا تمام تر دارومدارصرف تعلیم ہی پرہے۔

دینی اورلادینی نظام تعلیم:

قبل اس کے کہ ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کے دیئے گئے نظام تعلیم کوسمجھنے کی کوشش کی جائے  یہ جاننا  ضروری  ہوگا کہ جب آپ علیہ الرحمۃ نے آنکھیں کھولیں تو اس وقت برصغیر پاک وہند میں مروجہ نظام تعلیم کیاتھا۔آپ کے  زمانے میں(تاحال) برصغیر پاک وہند میں دومختلف  نظام تعلیم رائج تھے۔اولاً قدیم دینی نظام ِ تعلیم جو مدارس میں رائج تھا اورہے۔ یہ صدیوں پرانی روایات کا امین، اسلاف کے منہج کا تسلسل ہے۔  جب وضع کیا گیا تھا  اس وقت  کی ضروریات اور مصالح کے لحاظ سے بہترین تھا۔ وہ نصاب بیک وقت دینی بھی تھا اور دنیاوی بھی  یعنی اس وقت کے انسان کو درپیش تمام دینی ودنیاوی چیلنجز کاسامنا کرنے کے قابل بناتاتھا۔ اسلامی نصاب تعلیم کی اہم  بنیادبھی یہی تھی کہ ہماری دنیا بھی دین کا ایک جزوہے اور دین انسان کی سرشت میں شامل ہے  ۔ اسلام کا پورا فلسفہ حیات اسی نکتہ (اجتماع دین ودنیا)میں مستتر ہے کہ دنیا وی امور سے فرارنہیں بلکہ انہیں سرانجام دیتے ہوئے آخرت کی تیاری کرنا ہے لیکن دنیا کی محبت دل  میں نہیں بسانی۔اس طرح  یہ نہ راہبانہ زندگی کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی مادیت پرستی کی۔ جب کہ اس کے برعکس  آج  یہ نصاب بہت حدتک اصلاح کا متقاضی ہے۔ اس میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے خصوصا جبکہ یہ دورتخصص (Specialization)  کا دور بن چکا ہے جس میں ہر فن کے لیے ماہرین کی ضرورت ہے۔ اس لیے جب تک فن کے ماہرین تیار نہیں کیے جاتے تب تک  طلبہ اس نصاب سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود معاشرے کے جملہ مسائل کا ادراک  اور ان کا سدباب نہیں کرسکتے۔نہ ہی معاشرے کا سرگرم رکن اورحصہ بن سکتے ہیں بلکہ وہ صرف امامت و خطابت؂[1] یا پھر مدارس میں تدریس  تک ہی محدود رہیں گے اور ان کی معاشرے میں کوئی عزت و وقعت نہ  ہوگی۔

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیاہے

اس کو کیا سمجھیں یہ دو رکعت کے امام

یہاں عالم یہ ہے کہ اسی ایک نصاب پر صدیاں گزرنے ، عصرحاضر کے چیلنجز اور تقاضوں کے بدل جانے کے  باوجود اس میں نہ ہی کوئی تبدیلی رونماہوئی ہے اورنہ بظاہر مستقبل قریب میں کوئی  امکان ہے۔ اس پر یہ مثل صادق آتی ہے:"پرنالہ وہیں رہے گا "یا"زمین جنبد نہ جنبد گل محمد"زمین اپنی جگہ سے ہل جائے گی لیکن گل محمد اپنی جگہ سے نہ ہلے گا۔

ثانیاً:انگریزوں کا عطاکردہ  نظام تعلیم جس کا مقصد نوجوانوں کی ایسی کھیپ تیار کرناتھا  جو انتظامی مشینر ی کے کَل پرزے ڈھانچے  ہونے کے علاوہ حکمران قوم کی ذہنی غلام  ہو۔

دونوں نظامہائے تعلیم پر  ڈاکٹرانصاریؒ کاتبصرہ:

حضرت ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن الانصاری  علیہ الرحمہ ماہرتعلیم بھی تھے۔درس وتدریس کے ساتھ دیرینہ وابستگی اوراعلیٰ ذہانت کے حامل ہونے کی وجہ سےڈاکٹرصاحب نے برصغیر پاک وہند میں رائج نظام تعلیم پر اپنی جداگانہ  فکرو رائے کا اظہارکیااورمخلصانہ تجاویز بھی پیش کیں۔ان دونوں نظام ہائے تعلیم پر خود ڈاکٹر  انصاری علیہ الرحمہ ان الفاظ میں جامع وبلیغ تبصرہ فرماتے ہیں:

“I hold and believe that it is our present theological and secular systems of education which are mainly responsible for the creation of the present intellectual-emotional crisis in the world of Islam, for, the theological system has mostly helped only in preserving the interest of scholasticism and has utterly failed in creating those leaders of thought who could keep the banner of Islam aloft in the present universal clash of ideologies; while the secular system has worked only for de-Islamizing us culturally and has bestowed upon us nothing more than a hybrid mélange in the intellectual domain.”[2]

 "میں اسلامی دنیا کے اس ذہنی اورجذباتی بحران کا ذمہ دار دینی اور سیکولر نظام ہائے تعلیم کوقراردیتاہوں ۔اس لیے کہ دینی نظام ہائے تعلیم نے (ملک و ملت کے بجائے)صرف علماء کی ضرورتوں ودلچسپیوں کو مدنظررکھااور موجودہ عالمگیرنظریات کے تصادم کی صورتحال  میں ایسے قائد پیداکرنے میں مکمل طور پرناکام ہوگیاہے جو اسلام کے عَلم کو سر بلند رکھ سکیں ۔جب کہ سیکولر نظام نے ہماری ثقافت سے اسلامی عنصر کو ختم کرنے کی کوشش اورعلم دانش کے میدان میں ذہنی انتشار و قحط سالی کے سوا کچھ نہیں دیا۔"

اُٹھا میں مدرسہ و خانقا ہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ

اس عبارت سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ کے نزدیک دورجدید میں مدارس و علماء کا مجموعی کردار کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہ تھا۔یہی نہیں آپ من حیث القوم پاکستانیوں کی علمی،فکری،معاشی،سیاسی،اخلاقی اورروحانی حالت زار پر بھی نالاں تھے۔

ایک بار جب آپ سے مملکت پاکستان میں اسلام اورمسلمانوں کی حالت زار کے متعلق استفسار کیاگیا تو آپ علیہ الرحمہ نے بغیر کسی طعن وملامت کی پرواہ کئے، حق گوئی وبے باکی سے اس کا جواب عنایت فرمایا۔کیونکہ آپ علیہ الرحمہ کے سامنے قرآن مجید کی آیت مبارکہ "وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ"؂[3] وہ ملامت کرنے والوں کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ اسی آیت مبارکہ کی تفسیرمیں وارد ایک حدیث مبارکہ  "لا تاخذک فی اللہ لومۃ لائم "؂[4] (تمہیں اﷲ رب العزت  کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت (حق گوئی) سے نہ روک دے)۔اورحق گوئی کے متعلق ایک دوسری حدیث مبارکہ ۔"قل الحق ولوکان مراً"؂[5] ۔ (حق بات کہواگرچہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو)تھیں ۔آپ علیہ الرحمہ کاجواب کچھ یوں تھا:

"جب ایک عالم نے مجھ سے پاکستان میں اسلام اورمسلمانوں کی حالت دریافت کی تو میں نے دیانت داری سے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے میں اتنا مصروف ہیں کہ ہم میں سے کسی کو بھی اسلام کاکوئی  خیال نہیں ۔"؂[6]

بہرحال آپ  علیہ الرحمہ اس وقت علماء کے طبقہ میں معدودہ افراد کے علاوہ اکثریت سے مایوس تھے۔ جس کی وضاحت ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ ان الفاظ میں علماء کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کرتے ہیں:

“Surely in the ranks of the ‘Ulama there are even today such personalities, although very few, whose intellectual caliber or standard of piety can be a source of satisfaction to the Muslim community. The majority, however, consists of those whose short-comings and deficiencies stand in the way of the ‘Ulama- group in achieving its rightful role in Muslim Society. All in all, the ‘Ulama-group has become incapable of leading modern humanity.”[7]

" علماء کے طبقہ میں آج بھی ایسی شخصیات یقیناً موجود ہیں اگرچہ  قلیل (بہت کم)جن کی ذہنی صلاحیتیں ولیاقتیں اور تقویٰ کا معیار مسلمان معاشرے کے لیے اطمینان کا باعث ہوسکتاہے ۔ تاہم اکثریت ان پر مشتمل ہے جن کی اپنی کوتاہیاں اور خامیاں اسی علماء کے طبقہ کو جائز مقام دلانے میں رکاوٹ ہیں۔مختصراً علماء کا(دوسرا) گروہ دور جدید میں انسانیت کی قیادت کا اہل نہیں ہے۔"

شکایت ہے مجھے یارب! خداوندان مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

مذکورہ بالابیان کسی سیکولریالادین شخص کا نہیں بلکہ ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمن انصاری  علیہ الرحمہ کا ہے جو دینی و دنیاوی علوم کے جامع ،دینی مدارس وجامعات اوراسکول وکالجز کے اسرار ورموز پر مطلع ہونے کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے بھی خیرخواہ تھے ۔ڈاکٹر  انصاری علیہ الرحمہ کی پوری کوشش تھی کہ دینی مدارس کے علماء کرام کی معاشرتی اورملکی سطح پر  غیرفعالیت (عضو معطل) کوختم کرکے انہیں معاشرہ میں سرگرم کارکن کے بطورشامل کیاجائے۔ اس امرمہم کے لئے انہیں عصری تعلیم(علوم جدیدہ) سے روشناس کرایاجائے  اور دینی مدارس کے نصابِ تعلیم میں اس طرح  ترمیم و اضافہ کیاجائے کہ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ عصری علوم کے بھی ماہرہوں۔آپ علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں:

"ہماری دینی درسگاہیں ایساجامع نصاب تیار کریں جس کے ذریعے سے علوم دینیہ کی معیاری تعلیم کے ساتھ طلبہ کا تعارف افکار حاضرہ سے اس معیار علمی پر کیاجاسکے جس سے آراستہ ہوکرہمارے علماء دین جدید وقدیم دونوں طبقوں کی رہنمائی کا کام بصیرت اوروقار کے ساتھ انجام دے سکیں۔"؂[8]

دینی مدارس کے نظام تعلیم کے بارے میں آپ علیہ الرحمہ روایتی انداز کے بجائے  قدرےمختلف انداز سے سوچتے تھے۔آپ مدارس کی اساسی بنیادوں کو قائم رکھتے ہوئے اسے عصر حاضر سے ہم آہنگ کرناچاہتے تھے۔آپ کے خیال میں دینی مدارس کا موجودہ کردارقطعی حوصلہ افزاء نہ تھا ۔یہاں ایک جمود کی کیفیت طاری تھی۔ دینی طبقہ میں  مغربی تہذیب  اورباطل افکار کی یلغارکا نہ شعور تھا اورنہ ہی اس کے سدباب کا کوئی مناسب انتظام ۔ آپ علیہ الرحمہ افسوس اورتاسف سے لبریز الفاظ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

"مگرانتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم آج انتشار فکر وعمل میں بری طرح مبتلا ہوچکے ہیں۔ اس کا سبب منجملہ دیگر اسباب کے ،وہ فکری جمود ہے جو صدیوں سے ہم پر مسلط ہے۔الحکمۃ کے میدان میں ہم نے اپنے اسلاف  کی کاوشوں کوجاری نہ رکھا اورآج اس میدان کے ٹھیکیدار عملاً مغربی مفکرین بن گئے ہیں۔"؂[9]

مدارس کے نظام ونصاب پر نظرثانی:

دینی مدارس کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ کی فکر دینی مدارس وکالجز اور جامعات کے ساتھ طویل رفاقت اور تجربات کی پیداوارتھی۔ آپ علیہ الرحمہ  بہت غوروفکر کے بعد  دینی مدارس کے نظام پر نظرثانی اورنصاب میں ترمیم وتخفیف کے نتیجہ پر پہنچے تھے ۔

بالخصوص اس کی  منطقی ترتیب یعنی قرآن پھر حدیث پھر فقہ دوبارہ صحیح کرناچاہتے تھے۔  جب کہ ہمارے ہاں ترتیب کچھ یوں ہے کہ ہم فقہ کو اولیت دیتے ہیں،پھر حدیث میں بھی ہم عموماً صرف فقہی احکام کی تعلیم پر زور دیتے ہیں اور قرآن مجید کو بھی زیادہ تر اسی تناظر میں پڑھنے اورسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح ہمارا تمام تر زور صرف فقہ اور احکامات پر ہے اور قرآن وحدیث میں تدبر وتفکر کا تو سرے سے ہی وجود ناپید ہے۔یوں یہ تعلیم جس اسلوب وانداز سے دی جاتی ہے۔ وہ طلبہ کو ارکانِ اسلام اور فقہی مسائل سے تو آگا ہ کر دیتی ہے لیکن دین کی حقیقی روح (تفکر،تدبر،تعقل)سے آشنا نہیں کرتی ، مشاہدۂ کائنات اور تسخیر کائنات کے مضامین کا ان کے نصاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔؂[10] ان مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ زندگی کے گوناگوں مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت سے عاری رہتے ہیں۔ اور بدلتے ہوئے زمانہ کے تقاضوں کا جواب نہیں دے سکتے۔ آپ علیہ الرحمہ  اس بحث کو تفصیل کے ساتھ اپنی شہرہ آفاق کتاب قرآنک فاؤنڈیشن میں Why the Quran alone? کے عنوان کے تحت بیان فرماتے ہیں۔

سیکولر نظام تعلیم ڈاکٹرانصاری ؒ کی نظرمیں:

آپ جدید انگریز ی تعلیم سے بھی نالاں تھے کیونکہ یہ دین اسلام کے خلاف بطور سازش ہم پر مسلط کیاگیا۔یہ شباب امت کو اپنے اسلاف کی تاریخ، روایات،تہذیب ،تمدن،ثقافت واخلاقی  اقدار سے متنفر کرکے مغربی رہن سہن اور طرزِ زندگی کا دلدادہ بنا تی ہے۔ اور ان کے ابلیسی معیارزندگی، دجالی نظریات اور اقدار کے سحرمیں جکڑتے ہوئے ان کی  آزادی،  شجاعت اور بلند پروازی کو احساس ِ کمتری میں تبدیل کردیتی ہے ۔

اور     یہ      اہلِ     کلیسا     کا    نظامِ     تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف

اس سازش کا بنیادی نکتہ  مادیت پرستی تھی۔ یہ تعلیم سراسر مادیت پر مبنی تھی یعنی اس کا مطمحِ نظرمحض تن پروری اورحصول آسائش دنیوی تھا اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی نظر میں یہ نظام ِ تعلیم جوانوں کو اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم کر رہا تھا۔ یہ تعلیم عقل پرستی پر مبنی ہے اس نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔

خوش تو  ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے  تھے  کہ لائے  گی  فراغت تعلیم
کیا  خبر تھی کہ  چلا  آئے گا الحاد بھی ساتھ

مندرجہ بالا بگاڑ اورمفاسد ہی کی وجہ سے مغربی تعلیمی نظام اورنصاب تعلیم مسلمانوں کے لیے زہر قاتل بن چکی تھی۔ یہ دھیرے دھیرے زہرخورانی (Slow Poison)ایک عام مسلم کی ذہنی کیفیت  کس طرح بدل کرذہین طبقہ کو ایمان کی روشنیوں سے الحادکی تاریکیوں میں لے جاتی ہے۔ مغربی نظام تعلیم یاسیکولر نظام تعلیم کی پرورش کردہ شخصیات  کی فکری وذہنی غلامی کے متعلق آپ  علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

For the last fifty years, The Muslim world has been rapidly and constantly traveling away from the Islamic ideals, and, as Professor Karl Becker once said, the Muslim peoples are trying to become more European than Europeans themselves.[11]

"پچھلے پچاس سالوں سے امت مسلمہ تیزی سے اسلامی نظریات سے دور جارہی ہے اوربقول پروفیسر کارل بیکر مسلمان یورپیوں سے زیادہ یورپی بننے کی کوشش کررہے ہیں"۔

یہی وہ افراد ہیں جو یورپ کے باشندوں سے زیادہ یورپین بننے کے خواہاں ہیں۔ اس اندھی  تقلید کی کوشش میں وہ مغرب کی خرابیوں کو اپنا لیتے ہیں اور خوبیوں  سے صرف نظر کرتے ہیں۔؂[12]لیکن یہ افراد مغرب کی اندھی تقلید میں بلاسوچے سمجھے تمام حدوں سے گزرجاتے ہیں۔ انہیں عرف عام میں کالے انگریز بھی کہا جاسکتاہے ۔جو بظاہر مسلمان ہیں،مشرقی ہیں،پاکستانی ہیں لیکن ان کے قلوب میں فرنگیت بسی ہوئی ہے۔ انہیں اردو بولنا معیوب لگتاہے،انہیں سنتوں پر عمل کرنا جہالت لگتاہے، یہ دراصل احساس کمتری  کے انتہاء درجہ کے مریض ہیں جن کے لیے" نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن "کی مثال ہے جن میں یہ خود کو شمار کرتے ہیں وہ ان کو لینا نہیں چاہتے جن میں یہ رہتے ہیں ان سے میل جول یہ رکھ نہیں سکتے ۔کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ایک حکایت پڑھی تھی کہ "کواموربنا"۔ایک کوا مور کے پر لگالیتا ہے پھر اسے نہ کوے قبول کرتے ہیں اورنہ مورکیونکہ عادات واطوار میں وہ کوا ہی رہتاہے لیکن شکل و صورت موروں جیسی۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔

یہ بتانِ عصر ِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ  ادائے   کافرانہ ،  نہ   تراش ِ   آزرانہ

مسلمانوں کے علمی زوال کے اسباب اوران کاسدباب:

آپ ان دونوں نظام ہائے تعلیم کے حسین امتزاج کے خواہاں تھے۔ آپ کے نزدیک اگر کسی شخص کے رگ وپاءمیں کلمہ طیبہ رچ بس جائے تو پھراسے دنیا کی کسی قوت،طاقت،دولت اورنشہ سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ اگرچہ وہ اپنے مخالفین اورمعاندین ہی کے اندر رہے اوران ہی سے ان ہی کی تعلیم حاصل کرے۔بلکہ اپنے معاندین، مخالفین  اوردشمنوں سے تعلیم اس کے مزاج ،عرفان اورصلاحیتوں کومزید نکھاردے گی۔ کیونکہ وہ اشیاء کی معرفت دوسروں کی بنسبت زیادہ رکھتا ہوگا۔ جیسا کہ ایک عربی محاورہ ہے: تعرف الاشیاء باضدادھا۔اشیاء اپنے نقیض سے پہچانی جاتی ہیں۔اپنی اضداد میں رہ کر یہ فرد بھی اورنمایاں ،جلی اورروشن  ہوجائے گا مثلِ چراغ جتنا زیادہ اندھیرا ہوگا وہ اتنا ہی جگمگارہا ہوگا اوردور تک روشنی پھیلائے گا۔جیسا کہ ان نفوسِ قدسیہ نے ثابت کیاہے:

جوہر میں ہو لاالہ تو کیا خوف
تعلیم   ہو    گو    فرنگیانہ

قوموں کے زوال کے اسباب  کی معرفت پیچیدہ اورباریک تر عمل ہے ۔ انہیں عوامی سطح پر کھول کربیان کرناانتہائی مشکل امر ہے ۔ہاں عمومیت کی سطح پر اتنا ضرور کہاجاسکتاہے کہ اسلام نے کبھی غلامی کی فکر نہیں دی ۔مسلمان ظاہری قید میں ہونے کے باوجود کسی دوسری قوم یا فرد کاغلام نہیں ہوسکتا۔اسلام غلاموں کا نہیں شیروں کا دین ہے آج اس کے  اماموں (حکمرانوں) نے بھیڑوں کا دین بنادیاہے۔جیسا کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

سخت  باریک  ہیں امراضِ اُمم کے اسباب                        کھول  کر  کہیے  تو  کرتا ہے  بیاں  کوتاہی

دینِ شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ                     دیکھتے   ہیں   فقط    ایک   فلسفہ    روباہی

لیکن آپ ؒنے اپنی کتاب میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ برتی۔ بلکہ آپ غلاموں کے امام اورشیوخ کے برعکس فلسفہ روباہی (عیاری،مکاری،چالبازی) کو اپنانے کے بجائے اس کے خلاف سینہ سپر کھڑے ہوئے۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنی نابغہ روزگار کتاب "اسلامی دنیا کا موجودہ بحران"  میں مسلمانوں کی تعلیمی زبوں حالی، تذبذب کی کیفیت ، بحران کی نوعیت اور اس کی شدت  کا نہ صرف نقشہ کھینچا ہے بلکہ آپ نے اس بحران سے نکلنے کا راستہ اورطریق کار بھی  اپنی اسی تحریرمیں بیان  کیا ہے۔ یعنی جس طرح حاذق طبیب جو بیماری کے اسباب ،علامات،پھر ان کے سد باب اور علاج سے کماحقہ آگاہ ہو اورمریض کے لیے ایک ایسی گائیڈ لائن مہیا کرے جس پر عمل کرکے وہ اس بیماری (بحرانی کیفیت) سے چھٹکاراپاسکے۔

نیز آپ نے اس امت کے تعلیمی  بحران کے اسباب ،علامات اوران مسائل سے عہدہ برآں ہونے کے عملی احوال وضاحت سے پیش کیے ہیں۔اور اس  سلسلے میں آپ نے فرداًفرداًنصاب ،نظام تعلیم اوراساتذہ تمام امور سے بحث کی ہے۔ آپ نے پوری فیکلٹی کا نقشہ بھی  کھینچاہے جس میں اسکالرز(اساتذہ) کی تعداداور ان کے  لیے مطلوبہ تعلیمی قابلیت  اور ان کے لیے بنیادی تنخواہوں کی بھی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے۔نیز امت مسلمہ میں تحقیقی رجحان کا فقدان  ہونے کے باعث پیداہونے والے مسائل کا بھی اظہار کیا۔ اس کے بعد  تحقیق  کی ضرورت،اس کے مقاصد، اورفعالیت اور تحقیق کا الگ شعبہ قائم کرنے پر بھی اپنے قلم سے روشنی ڈالی ہے۔

ابتدائی جماعتوں میں کیاپڑھایا جائے ،متوسطہ،ثانوی،اعلیٰ ثانوی اوربی اے اورا یم  اے  اور ماسٹر اورپی ایچ ڈی کی سطح پر کیاکیسے تعلیم دی جائے۔اس سلسلے میں  آپ ؒ نے جامع نصاب سازی کی ہے ، تعلیم کا ایک مکمل نقشہ کھینچا ہے اورایک چارٹ پیش کیا ہے۔  جوشیرخوارگی، بچپن ،لڑکپن اورجوانی کے ادوار تک محیط ہے کہ ان ادوار میں تعلیم وتعلّم کا عمل کیونکراورکیسے ہو ۔ آپ نے نصاب سازی کرتے ہوئے تین فیکلٹیز بیان فرمائی ہیں۔ اسلامک اسٹڈیز، سائنس، آرٹس ( کامرس کے مضامین  بھی آرٹس ہی کے ضمن میں بیان کیے ہیں)۔آپ نے پہلے چودہ سال کے لیے جونظام تعلیم وضع کیا ہے اس میں ذریعہ تعلیم اردو زبان کو قراردیاہے۔ آپ نے بچوں اوربچیوں کے لیے الگ نصاب بیان کیا ہے۔ جس میں بچیوں کے لیے گھریلودستکاریوں کو بھی نصاب میں شامل فرمایا ہے۔

اسلامک اسٹڈیز کے طلبہ (علماء )کے لیے نصاب کا ایسا مکمل چارٹ پیش کیاہے۔ جو سات دہائیاں گزرجانے کے باوجود  آج بھی ہماری ضروریات پوراکرنے کے لیے کافی ہے۔اس ہی سلسلے کی ایک کڑی الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ ہے جس پر اگلے مضمون میں تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔

نیز The Present Crisis In Islam And Our Future Educational Programme  نامی کتاب میں آپ علیہ الرحمہ نے ایک مقام پر ڈاکٹرافضل حسین قادری کے پیش کردہ مونوگراف میں کچھ معمولی ترمیم واضافہ کے ساتھ ایک چارٹ پیش کیا ہے ۔جس میں آپ نے تعلیمی نظام  کی اصلاح،نصاب سازی،اساتذہ کی تربیت وتعلیم نسواں کے سلسلے میں ایک مکمل خاکہ پیش کیا ہے جن پر عمل کرتے ہوئے ہم آج اس تعلیمی بحران سے نکل سکتے ہیں۔موضوع کی مناسبت سے اس چارٹ کے ابتدائی نکات یہاں پیش خدمت ہیں:

·        تعلیم کی بنیادیں اسلام کے تقاضوں کے مطابق عالمگیر (کائنات کی سطح پر) ہونی چاہئیں۔

·        مسلمانوں کے یہاں تعلیم کی مذہبی اور غیر مذہبی بنیادوں پر تقسیم مستقل طور پر ترک کردینی چاہئے؂[13]، کیونکہ اسلام کا تصورِ دین زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے ۔ ایک مسلمان کے لئے تمام ترتعلیم دینی ہوجاتی ہےجب وہ مثالی دنیا (اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ) کی تکمیل کے لئے اس  تعلیم سے اسلام کی خدمت کا ارادہ رکھتا ہو ۔

·        سیکولر علوم کے امتزاج کے ساتھ ایک ایسااسلامی نصاب مدون کیا جائے جو ابتدائی مراحل کی تعلیم کا بڑا حصہ ترتیب وتشکیل دے۔نصاب تعلیم میں شامل تمام مضامین (دینی، لادینی)بایں طور اسلامی ہونے چاہئیں کہ سیکولر مضامین بھی مسلمانوں کے تاریخی  پس منظر ، اسلامی نقطہ نظر سے پڑھائیں جائیں۔

·        اسلامی نصاب تعلیم (لازمی)ثانوی درجہ تک اردو زبان میں  اور اعلیٰ درجوں میں عربی زبان میں پڑھایا جائے ۔

·        اسلامی نصاب تعلیم (لازمی) کا بنیادی کردار ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے ذہنی اور اخلاقی رویہ کو مکمل طور پر اسلامی طرزپر استوارکرنا اور اسلامی اقدار کے جامع علم سے بہرہ مند کرنا ہے۔ جو مُلّاازم (Mullaism)اورلادینیت کی طبقاتی جدوجہد  کے موجودہ المیہ کے  حل میں مدد کرے۔ دیگر مضامین کی طرح  (اس نصاب کی تعلیم کے لئے بھی)اعلیٰ درجہ کے ماہرین اسلام رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے  جامع اور ضخیم مطالعہ کا نصاب  تیار کیاجانا لازمی ہوگا، ان کورسز میں داخلہ صرف انتہائی ذہین اورفرض شناس لوگوں تک محدود رکھا جائے اور تحقیق کے مرحلے (کی کامیاب تکمیل )کے بعد انہیں عالم دین کے معززخطاب  سے نوازا جائے۔  اس طرح ایک طرف نامکمل اورادھوری تعلیم حاصل کرنے والے (نیم مُلاخطرہ ایمان ) (اس گروہ سے) خارج کیئے جاسکیں جو (نادان دوست کی مانند)اسلام کی خدمت سے زیادہ نقصان کا باعث بن رہے ہوں اوردوسری طرف ایسے علماء تیار کیئے جاسکیں جو قوم کی قیادت وسیادت کا صحیح کردار بخوبی نبھاسکیں۔

·        ثانوی درجوں تک تعلیم مفت اورلازمی ہونی چاہئے اور اعلیٰ درجوں میں ارزاں (سستی) اورختیاری ہونی چاہئے۔

·        تعلیم نسواں کو مردوں کی تعلیم کے مساوی اہمیت دی جانی چاہئے۔

·        لڑکے اورلڑکیوں کے لئے اسلام کی ثقافتی اقدار کے مطابق علیحدہ ادارے قائم کیئے جانے چاہئیں۔

·        مطالعہ کا کورس تجویز کرنے اور نصابی کتب کی تیاری میں اس بنیادی مقصدکو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ تعلیمی نصاب  ہر جنس کے انفرادی اختلافات کومدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیا جائے  تاکہ اسلام کی روح کے مطابق مسلمان مرد اور عورتیں زندگی کے ڈرامے میں اپنا الگ الگ کردار نبھانے  اورمتوازن معاشرہ کی تشکیل کے قابل ہوسکیں۔ ۔

·        مسلم جوانوں کواسلامی تقاضوں کے مطابق  فنون سپہ سالاری  سے آراستہ کیا جائےاور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں جسمانی ثقافت کو اہمیت دیتے ہوئےاس کے تحفظ کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔

·        ہندوستانی مسلمانوں کا ذریعہ تعلیم اردو ہو جو کہ ان کی قومی زبان اورثقافتی مخزن  ہے۔

·        بچوں کی پرائمری تعلیمی اداروں کو" مکتب" کے نام سے موسوم کیاجائے،سیکنڈری ادارے مدرسہ کےنام سے،خصوصی تعلیم سے وابستہ اداروں کو کلیہ قراردینا چاہئے، تیسرے مرحلہ سے وابستہ تعلیمی ادارے "دارالتحقیق" کہلانے چاہئیں۔ ایسے ادارے جو تمام قسم کی جامع تعلیم فراہم کرنے  میں مصروف کار ہوں انہیں "جامعہ" کا لقب دیا جانا چاہئے۔

·        سیکنڈری اداروں سے فارغ طلباء  کو "عالم" کے سرٹیفیکٹ سے نوازا جائے ،اورطالبات کو" عالمہ" کے ۔ پہلے مرحلہ کی تعلیم مکمل کرنے پر فاضل /فاضلہ کی ڈگری دی جائے۔دوسرے مرحلہ کے اختتام پر کامل/کاملہ اورتیسرے اورآخری مرحلہ کی تعلیم مکمل کرنے پر انہیں "علامہ" کی ڈگری سے نوازا جائے۔

·                مسلم نوجوانوں کو سائنس کی طرف راغب کرنے کی کوششیں کی جائے،خاص طورپراطلاقی سائنس کی جانب۔ اورفنون کے میدانوں میں ،خاص طورپرسنجیدہ مضامین جیسا کہ فلسفہ،سیاسیات ،معاشیات وغیرہ۔"؂[14]

خلاصہ کلام:

آج کی مسلم دنیا کی خرابی علم کی قلت اورمسلم علماء کی علم پر کمزور گرفت کی وجہ سے ہے۔ ان کا علمی معیار اورعلم کا دائرہ کار بڑھنے اورپھیلنے کے بجائے آہستہ آہستہ سکڑ رہا ہے۔ معیارِ علم کے ساتھ ساتھ تقویٰ جو کہ علماء حق کا خاصہ ہواکرتاتھا گزشتہ چند صدیوں سے مفقود ہوتاجارہاہے ۔آج حالت یہ ہے کہ ایک صدی قبل پایا جانے والا علمی معیار اورتقویٰ بھی مشکل سے ملتا ہے۔ یہ بدترین صورتحال ہمارے آج کے دینی اورلادینی تعلیمی نظام میں مضمرخرابیوں کی بناء پر تھی جہاں تعمیر کے لئے اٹھایاگیا قدم بھی ظاہری و باطنی خرابیوں سے خالی نہ تھا۔بقول غالب

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی؂[15]

یہ  دینی اورلادینی  تقسیم معاشرے میں پائے جانے والے دوطبقوں کی نمائندگی کرتی تھی ۔ ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ نے تہذیبی تباہی(سیکولرنظام تعلیم) اور فکری جمود (دینی نظام تعلیم)کی اصلاح کی۔اوران دونوں نظام ہائے تعلیم کے نقائص وخرابیوں کو دورکرتے ہوئے ان کا ایک حسین امتزاج  وربط قائم  کیا۔ اس فکرکے تحت آپ نے نصاب میں جو بھی مضامین شامل کیے ہیں وہ اپنی جگہ پر دُرِّ بے بدل ہیں اور آج تقریباً چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود ہم اس نظام،نصاب  اورانداز تعلیم کے متعلق غوروفکر کریں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس دانا نے کوئی خلانہیں چھوڑ ا جسے پُر کیا جائے۔یوں آپ نے اس بگڑے ہوئے نظام میں اصلاح کرکے مسلمانوں کے لئے شاندار مستقبل کی داغ بیل ڈالی۔آپ علیہ الرحمہ جیسا دانا اورعقلمندشخص(فرزانہ) صدیوں بعد پیدا ہوتاہے جو بگڑے ہوئے نظام کو سمجھے اور اس کی اصلاح بھی کرے۔

بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا  فرزانہ         بدل  دیتا ہے  جو بگڑا  ہوا   دستورِ میخانہ



؂[1] ۔  امامت وخطابت اگرخلوص وللہیت سے اختیارکی جائے تو بطورمنصب بہت ہی عظیم ہے۔جس کی عظمت اس سے سوا کیابیان کی جاسکتی ہے کہ یہ تووہی  منبر  ہے جہاں  ہمارے آقائے نامدار حضور پرنورﷺ جلوہ فگن ہوتے تھے۔ لیکن  اگرکوئی اس انتہائی عظیم منصب کو بطور پیشہ  یا کسب مال کے لئے اختیار کرتاہے  تو یہ مقام تاسف ہے!کسی عاشق رسول ﷺ کو یہ ہرگززیب نہیں دیتا کہ وہ امامت وخطابت کو بطور پیشہ اختیار کرے۔آج بالخصوص بہت سے علم واخلاق سے عاری افراد کو ان مسندوں پر متمکن دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ امامت وپیشوائی کے لئے ہم نے کن افراد کا انتخاب کیا ہے۔  بقول شاعر

نہ شعور آگہی ہے نہ طریق بندگی ہے

یہاں میں پروفیشنلز م کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہوں گا۔ میرے ناقص فہم کے مطابق اسلام سے پروفیشنلزم اورکمرشلزم کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ہاں اگر پروفیشنلزم سے مرادکسب مال کے بجائے کسب کمال ہے اورمعیار زندگی میں ترقی کے بجائے کمال ہنر وعلم ہے یعنی مہارت کا حصول ہے توبایں معنی اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اسلام مہارتوں کے حصول پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔لیکن اگر اس سے مراد یہ ہے کہ بغیرکسی مادی منفعت کے  میرے ہاتھ کسی دوسرے شخص  کے لئے کیوں استعمال ہوں۔میں کسی کو کیوں کچھ سکھاؤں؟ یا کسی کے لئے کیوں خرچ کروں؟ یا اس کے لئے اپنے ہاتھ ہلاؤں تو ان تمام صورتوں میں میری جدوجہد سے  مجھے کیا حاصل ہوگا (مجھے کیا ملے گا؟)۔اگر یہی پروفیشنلزم ہے تو اس کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔افسوس! جیسا کہ آج ہورہاہے، بلکہ معاملات  اورفکرِ مادہ ومال اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ  اس ڈگر پرنہ سوچنے والوں کوہمارے معاشرے میں بیوقوف سمجھا جاتاہے۔معاشرے کے اس عمومی رویہ کی ایک شاعر خوب تصویرکشی کرتے ہیں کہ اب عاجزی انکساری چھوڑ کر شکاری کا مزاج بنالیجئے ،ہرایک کو تاک اوردھاک میں رکھیں:

گزرچکا ہے زمانہ وہ انکساری کا

کہ اب مزاج بنالیجئے شکاری کا

اسلامی معاشرہ کی بنیاد کمرشلزم یا پروفیشنلزم پرنہیں بلکہ خلوص وللہیت پر ہے۔لیکن افسوس کا مقام ہے مغربی معاشرہ کی طرح کہ ہمارے معاشرے میں بھی یہ ناسور دن بدن بڑھتا ہی جارہاہے۔اس پروفیشنل ازم  کی چکاچوند ( گلیمر) نے پورے معاشرے کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ عوام الناس تو ایک طرف  سوائے چند معدودہ علماء و مشائخ ، اکثر علماء ومشائخ بھی اس کا شکار ہوچکے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ ہمارا خلوص کے بجائے "فلوس "(مال ودولت)پر اور قلب کے بجائے جیب پر  نظررکھنا ہے۔ اس تہذیبی ڈھانچہ  میں سب سے بڑا چھید ان اولیول اسکولوں ،بینکنگ (خواہ کمرشل ہو یا اسلامی) نے ڈالا ہے۔وگرنہ ہمارے اسلاف کا معاملہ یکسر دیگرتھا۔ فارغ بیٹھنے کے بجائے دوسروں کی تعلیم وتربیت،رہنمائی  اورمدد پر وقت صرف کرناان کی عادت تھا۔کوئی بھی، کبھی بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ان کی خدمت میں تحصیل علم کے لئے حاضر ہوسکتا تھااوریہ حضرات گرامی اسے کبھی بھی انکارنہیں کرتے۔وہ تو اس مصرعہ کے مصداق تھے:

؎          مال و دولت کی کچھ مجھ کو چاہت نہیں، واہ واہ کی بھی مجھ کو ضرورت نہیں

  اللہ تعالیٰ ہمارے تہذیبی ڈھانچہ کی عمارت کو پھر سے خلوص وللہیت پر استوار کرے اور ہم ایک بارپھر Professional ہونے کے بجائے Devotional بن جائیں۔اورایک بار پھر صداقت ،عدالت اورشجاعت کواپناتے ہوئے دنیا کی امامت کے لئے خود کوتیارکرسکیں جس کے بارے میں ڈاکٹرعلامہ اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایاتھا:

سبق پھر پڑھ صداقت کاعدالت کا ،شجاعت  کا

لیا    جائے     گا     تجھ     سے     کام     دنیا    کی   امامت  کا

[2] The Present Crisis In Islam And Our Future Educational Programme,  Dr.  F R Ansari , pg 22

؂[3] ۔  سورۃ المائدۃ :54

؂[4] ۔  شرح اربعین النوویۃ،الحدیث الثانی عشر

؂[5] ۔  مسند احمد

؂[6]   Islamic Intellectual Revival of the Modern Mind,  (Our Concept of Islam)

Dr. Fazlur Rahman Ansari, pg 210

[7] Islamic Theological Education, Dr. Fazlur Rahman Ansari, (Minaret: (V3,No,6)June 1966)

؂[8] ۔  صقالۃ القلوب،دینی تعلیم ایک جائزہ، ص39

؂[9] ۔  صقالۃ القلوب،دینی تعلیم ایک جائزہ، ص20

؂[10] ۔  آپ علیہ الرحمہ اپنے ایک مضمون Islamic Theological Education میں اس نکتہ کی وضاحت  کرتے ہوئے مسلمانوں کی سائنسی مضامین سے بے رغبتی اور بے اعتنائی کو قومی سطح پر ایک بڑا جرم قراردیتے ہوئے اسے مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں شمار کرتے ہیں۔ آپ رقمطراز ہیں۔

" مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم طبعی سائنسی علوم  کو نظراندازکرناتھا۔ ایک  ایسا مقصد جسے اسلام نے مقدس قراردیا تھا ۔ایک مشن جسے ان کے آباؤاجداد کامیابی سے اداکرتے ہوئے  جدید سائنسی دور کے مجدد بنے۔ وہ مقصد جس کے بغیر سیاسی عظمت اورمادی خوشحالی ناممکن تھی۔ تاریخی طورپر اگردیکھا جائے تو اس بے اعتنائی کی وجہ سے مسلمان ٹیکنالوجی ،صنعتی پیداوار اورمعاشی تنظیم سازی میں بہت پیچھے رہ گئے۔  اس ہی وجہ سے مسلمان جدید ہتھیار بنانےمیں بھی پیچھے رہ گئے جس کی وجہ سے  مسلمان سیاسی طورپر کمزور ہوگئے اورنتیجتاً فکری اورمعاشی طور پر مفتوح ہوگئے۔"

 

[11] The Present Crisis In Islam And Our Future Educational Programme,

 Dr. F azlur Rahman Ansari , pg 17

؂[12] ۔  مغرب کی ترقی کا راز خاص قسم کی مادر پدرآزاد معاشرتی اقدار،مادہ پرستانہ ذہنیت اورکفرالحاد کے سبب نہیں ہے بلکہ بہترنصاب،بہتر نظام تعلیم، بہتر اساتذہ، بہتر طلبہ، بہتر ٹیکنالوجی اورسب سے بڑھ کراپنے ملک وقوم سے اخلاص ،محنت اوردیانت داری کی وجہ سے ہے ۔

؂[13] ۔  اس نکتہ کی مزیدوضاحت آپ علیہ الرحمہ کے ایک اورمضمون Islamic Theological Education سے ہوتی ہے۔جس میں آپ علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں:

"آپ تعلیم کے مذہبی اورلادینی بنیادوں کے مخالف تھے۔ آپ علیہ الرحمہ تاریخ اس اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں اسلامی تمدن کے پُرشکوہ  دور میں اسلامی دنیا کا تعلیمی نظام یکساں تھا۔ جو کہ اسلام کے بنیادی اصول توحید پر مبنی تھا اس نظام میں مذہبی تعلیم دوسرے مضامین (طبعی سائنس، ریاضی، فلسفہ، وغیرہ وغیرہ) کے ساتھ سکھایا جاتا تھا۔ لہذا اس دور کا ہر مسلمان ایک جامع العلوم وجامع الکمالات ہوا کرتا تھا۔پھر اس دور میں مروجہ  رسمی امتحانی نظام بھی موجود نہ تھا۔ اس لئے کسی بھی مضمون میں مہارت تامہ  اورمطلوبہ ذہنی اورروحانی نظم وضبط کے سند کا حصول ناممکن تھا۔ اوراس وقت  ہر ایک کو اس کی دانشورانہ صلاحیت دیکھتے ہوئے انفرادی سند سے نوازا جاتاتھا جو معاشرے میں  اس کے مقام کو متعین کرتی تھی۔"

[14]   The Present Crisis In Islam And Our Future Educational Programme,

         Dr. F azlur Rahman Ansari , pg 54-56 ,68

؂[15] ۔  اس شعر کا دوسرامصرعہ کچھ یوں ہے:              ہیولیٰ برق خرمن کا،ہے خون گرم دہقاں کا

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post