مسجد كی اہمیت وفضیلت كے حوالے سے قرآن کریم  واحادیث مباركہ میں كیا ارشادات ملتے ہیں ؟

اللہ کے رسولﷺ مدینہ منورہ آنے کے بعد سب سے پہلے مسجد کا کام شروع کیا ہے۔قبامیں آپ چنددن ٹھرے اور وہاں مسجد کی بنیاد رکھی ۔پھر جب مدینہ منورہ منتقل ہوئے تو اپنے لئے گھر کی تعمیر سے قبل مسجد کی بنیاد رکھی ۔اور صحابہ کے ساتھ آپ خود بھی اسکی تعمیر میں شریک رہے ۔ مسجد کو اللہ تعالی کا گھر کہا گیا اور اسکی نسبت اللہ کی طرف کی گئی۔

ایک دورتھا جب مساجد رسمی وغیررسمی ہردوتعلیم کا مراکز تھیں۔ اب بھی بعض خطوں میں مسجد ان دونوں (رسمی اورغیررسمی تعلیم) کا ذریعہ ہے۔عہدنبویﷺ اورعہدخلفاء راشدین میں مسجد بطور عدلیہ، مقننہ، دیوان وغیرہ کی ذمہ داریاں بھی اداکرتی تھی۔ کسی ملک پر لشکر کشی کرنی ہوتو لشکرکی روانگی کا مقام مسجد ہوتا تھا، کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتومقام مسجد ہوتاتھا،کسی دوسرے ملک کے سفیر یانمائندہ سے ملاقات کا مقام مسجدتھا، شوریٰ کا اجلاس بلانا ہو تومقام مسجد تھا، طلبہ کی تعلیم کے لئے مقام مسجد تھا،کوئی اہم اعلان کرنا ہو تومقام مسجدتھا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا اللہ رب العزت کامحبوب ترین مقام یہی مسجد ہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتاہے:

عن ابی هریره ان رسول اللّٰهِ ﷺ قال احب البلاد الی اللّٰهِ تعالیٰ مساجدها وابغض البلاد الی اللّٰهِ اسواقها۔( صحیح مسلم(

حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کو تمام مقامات میں سب سے زیادہ محبوب مساجد ہیں اورسب سے زیادہ ناپسند جگہیں بازار ہیں۔

یقینی امر ہے کہ جب مساجد اللہ تعالیٰ کا محبو ب مقام ہیں تو ان کی تعمیر کرنے والے بھی اللہ رب العزت کے محبوب ہوں گے۔اسی لئے تاریخ وسیرکی کتب تعمیر مساجد کے سلسلے میں بھری ہوئی ملتی ہیں۔ جس کا آغاز حضور اکرم ﷺ کی مدینہ آمد کےفوراً بعد شروع ہوا۔جہاں آپ ﷺ نے سب سے پہلا کام مسجد قباء کی تعمیرکا کیاتھا۔جو 8 تا 11 ربیع الاول 1ہجری کو تعمیرکی گئی۔ مساجد تعمیرکرنے کی سنت متواترہ مسلمانوں میں اسی وقت سے رائج ہے۔ خلافت راشدہ سے لے کر تاحال مسلمان جب بھی کسی نئے خطے میں پہنچتے ہیں ان کا پہلا اوربنیادی کام وہاں مسجد کی تعمیرہی ہوتاہے۔ ایسا کیوں نہ ہومسجد کی تعمیر کرنے اوراس کی تعمیر میں تعاون کرنے والے کے لئے اللہ رب العزت نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے:

وقال النبي ﷺ : مَنْ بَنَى مَسْجِدًا بَنَى اللّٰهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ (رواه البخاري (450) ومسلم (533(

حضور اکرمﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جس نے مسجد تعمیر کی اللہ تعالیٰ اس کی مثل اس کے لئے جنت میں گھر تعمیر کرے گا۔

مسجد قرآن کریم میں

لفظ مسجد قرآن کریم میں مفرد یا جمع کی صورت میں ۲۸ بار ذکر ہوا ہے:۱۵ بار "الحرام" کے بعد، ۵ بار "مسجد" کے عنوان سے، ۱ بار "الاقصی" کے بعد، ۱ بار لفظ "ضرار" کے ساتھ، ۶ مقامات میں یہ لفظ، جمع "مساجد" کی صورت میں استعمال ہوا ہے۔چند آیات مذکور ہیں۔

یٰبَنِیْٓ ادَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ  (الاعراف:31)۔

اے بنی آدم! مسجد میں جاتے وقت زیب و زینت کو اپناؤ۔

اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ( سورہ توبہ:18(

"اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کوآباد کرنا ان ہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ تعالیٰ پر قیامت کے دن پر ایمان لائے۔

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَداً( سورہ جن، آیت 18)

اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔

مسجد احادیث مبارکہ میں

وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ ؛ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ (صحيح مسلم: حدیث نمبر:2699)

جو بھی لوگ اللہ کے گھر میں جمع ہوکر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور مذاکرہ کرتے ہیں، ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت ان کو گھیر لیتی ہے اور فرشتے ان کو ڈھانپ لیتے ہیں اور ان کا ذکر اللہ تعالی اپنے پاس کے لوگوں کے سامنے فرماتے ہیں ۔

 کسی علاقے میں مسجد کا نہ ہونا اور وہاں سے آذان کی آواز کا نہ آنا اس بات کی دلیل تھی کہ یہ بستی مسلمانوں کی نہیں ہے :

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا غَزَا بِنَا قَوْمًا لَمْ يَكُنْ يَغْزُو بِنَا حَتَّى يُصْبِحَ وَيَنْظُرَ ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا كَفَّ عَنْهُمْ ، وَإِنْ لَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ عَلَيْهِمْ (صحیح بخاری کتاب الآذان)

جب نبی کریم ﷺ ہمیں ساتھ لے کر کہیں جہاد کے لیے تشریف لے جاتے، تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے تھے۔ صبح ہوتی اور پھر آپ انتظار کرتے اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان کی آواز نہ سنائی دیتی تو حملہ کرتے تھے۔

مسجد میں جانے والوں کی ایک اہم فضیلت :

لَا یُوْطِنُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ الْمَسَاجِدَ لِلصَّلَاۃِ وَالذِّکْرِ إِلاَّ تَبَشْبَشَ اللّٰہُ بِہِ یَعْنِیْ حِیْنَ یَخْرُجُ مِنْ بَیْتِہِ کَمَا یَتَبَشْبَشُ أَھْلُ الْغَائِبِ بِغَائِبِہِمْ إِذَا قَدِمَ عَلَیْہِمْ۔ (مسند احمد: ۹۸۴۰)

سیّدناابو ہریرہ ﷜ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان آدمی نماز اور ذکر کے لیے مساجد کو اپنا ٹھکانہ نہیں بناتا مگر جب وہ اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایسے خوش ہوتے ہیں کہ غائب آدمی کے گھر والے اس کی آمد پر خوش ہوتے ہیں۔

 مسجد کی طرف جانا گویا اللہ کی ضیافت میں جانا ہے :

مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ وَ رَاحَ أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُ الْجَنَّۃَ نُزُلًا کُلَّمَا غَدَا وَرَاحَ۔ (مسند احمد: ۱۰۶۱۶)

سیّدناابوہریرہ ﷜ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے بیان فرمایا : جو شخص مسجد کی طرف آتا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے میزبانی (کا سامان) تیار کرتے ہیں، جب بھی وہ آتا جاتا ہے۔

اَلْمَسْجِدُ بَيْتُ کُلِّ تَقِيٍّ، وَ قَدْ ضَمَّنَ اﷲُ عزوجل لِمَنْ کَانَ الْمَسَاجِدُ بُيُوْتَهُ الرَّوْحَ وَالرَّحْمَةَ وَالْجَوَازَ عَلَی الصِّرَاطِ.( الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 254، الرقم : 6143)

حضرت ابو درداء ﷜ کا بیان ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مسجد ہر متقی کا گھر ہے اور مساجد جس شخص کے گھر ہوں اﷲ رب العزت نے اس کو راحت، رحمت اور پل صراط سے (سلامتی کے ساتھ) گزرنے کی ضمانت دے دی ہے۔

إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ يَعْتَادُ الْمَسْجِدَ، فَاشْهَدُوْا لَهُ بِالْإِيْمَانِ. قَالَ اﷲُ تَعَالٰی : ﴿إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اﷲِ مَنْ آمَنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ [التوبة، 9، 18[(ترمذی)

حضرت ابو سعید ﷜سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : جب کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد میں آنے جانے کا عادی ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اللہ کی مساجد کو صرف وہی شخص آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا۔

مسجد صدقہ جاریہ ہے :

إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ۔( سنن ابن ماجہ)

حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک مؤمن کے اعمال اورنیکیوں میں سے مرنے کے بعد جو اسے پہنچتاہے اس میں  علم جو اس نے پھیلایا ہو،نیک اورصالح بیٹا،قرآن کریم جو ورثہ میں چھوڑاہو،یا مسجد کی تعمیر کی ہو، یامسافرخانہ تعمیر کیاہو،یانہر جاری کی ہو، یا صدقہ مال سے نکالا ہو، اپنی صحت میں اور زندگی میں وہ مرنے کے بعد بھی اسے پہنچتارہے گا۔

 مسجد کا قصد کرنے والوں کی قیامت کے نرالی شان :

بَشِّرِ الْمَشَّائِيْنَ فِي الظُّلَمِ إِلَی الْمَسَاجِدِ بِالنُّوْرِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ابوداؤد، ترمذی)

حضرت بریدہ (اسلمی) ﷜ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خوشخبری ہو تاریکی میں مسجد کی جانب چلنے والوں کے لئے قیامت کے دن مکمل روشنی کی ۔

مسجد کی طرف جانا گناہ کاکفارہ اور درجات کی بلندی ہے:

صلاةُ الرجلِ في جماعةٍ تَزِيدُ على صلاتهِ في سُوقِهِ وبَيْتِهِ بِضْعًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً، وذلك أنَّ أحدَهُم إذا توضأَ فأَحْسَنَ الوُضُوءَ، ثُمَّ أتى المسجدَ لا يُرِيدُ إلا الصلاةَ، لا يَنْهَزُهُ إلا الصلاةُ لم يخطُ خطوةً إلا رُفِعَ له بها درجةٌ، وحُطَّ عنه بها خطيئةٌ حتى يدخلَ المسجدَ، فإذا دخل المسجد كان في الصلاةِ ما كانت الصلاةُ هي تَحْبِسُهُ، والملائكةُ يُصلونَ على أحدِكُم ما دَامَ في مَجْلِسِهِ الذي صَلَّى فيه، يقولون: اللهُمَّ ارْحَمْهُ، اللهُمَّ اغْفِرْ له، اللهُمَّ تُبْ عليه، ما لم يُؤْذِ فِيهِ، ما لم يُحْدِثْ فِيهِ {بخاری

ابوہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’آدمی کی جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز اس کی بازار یا اپنے گھر میں پڑھی گئی نماز سے بيس سے كچھ زیادہ درجے افضل ہے۔ کیوں کہ جب تم میں سے کوئی اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر مسجد میں صرف نماز کے ارادے سے آتا ہے۔ نماز کے سوا اور کوئی چیز اسے مسجد لے جانے کا باعث نہیں بنتی تو جو بھی قدم وہ اٹھاتا ہے اس سے اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے یا اس کی وجہ سے اس کا ایک گناہ معاف ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے۔جب وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ نماز میں سمجھا جاتا ہے جب تک کہ نماز اس کے وہاں رکنے کا سبب ہوتی ہے۔ تم میں سے جب تک کوئی اس جگہ رہتا ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہوتی ہے اس وقت تک فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: اے اللہ! اس پر رحم فرما، اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما، (وہ اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں) جب تک کہ وہ (کسی کو) اس میں تکلیف نہ دے، یہاں تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے‘‘۔

اللہ تعالیٰ  کامسجد میں رہنے والے سے خوشی کا اظہار

مَا تَوَطَّنَ رَجُلٌ مُسْلِمٌ الْمَسَاجِدَ لِلصَّلَاةِ وَالذِّکْرِ، إِلَّا تَبَشْبَشَ اﷲُ لَهُ کَمَا يَتَبَشْبَشُ أَهْلُ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ، إِذَا قَدِمَ عَلَيْهِمْ(ابن ماجہ)

حضرت ابو ہریرہ ﷜ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تک بندہ مساجد میں نماز اور اﷲ کے ذکر کے لیے ٹھہرا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بشاشت و مسرت کا اظہار فرماتا رہتا ہے جس طرح کسی گمشدہ کے گھر والے اس کے گھر واپس لوٹ آنے سے خوش ہوتے ہیں۔

مسجد  کے بے شمار فائدے ہیں (جیسا کہ پابندی وقت،تنظیمDiscipline ، اتحاد ،مساوات،طہارت،نظافت) کچھ اس  پر روشنی ڈالیں؟

ایک دورتھا جب مساجد رسمی وغیررسمی ہردوتعلیم کا مراکز تھیں۔ اب بھی بعض خطوں میں مسجد ان دونوں (رسمی اورغیررسمی تعلیم) کا ذریعہ ہے۔عہدنبویﷺ اورعہدخلفاء راشدین میں مسجد بطور عدلیہ، مقننہ، دیوان وغیرہ کی ذمہ داریاں بھی اداکرتی تھی۔ کسی ملک پر لشکر کشی کرنی ہوتو لشکرکی روانگی کا مقام مسجد ہوتا تھا، کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتومقام مسجد ہوتاتھا،کسی دوسرے ملک کے سفیر یانمائندہ سے ملاقات کا مقام مسجدتھا، شوریٰ کا اجلاس بلانا ہو تومقام مسجد تھا، طلبہ کی تعلیم کے لئے مقام مسجد تھا،کوئی اہم اعلان کرنا ہو تومقام مسجدتھا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا اللہ رب العزت کامحبوب ترین مقام یہی مسجد ہے۔

نا انصافی ہو گی اگر ہم مسجد کی سماجی اہمیت کے ضمن میں ان فوائد کثیرہ کا ذکر نہ کریں جو ایک معاشرے کو مسجد کے قیام سے صرف حاصل ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کے بغیر ایک صحیح معاشرہ پروان ہی نہیں چڑھ سکتا اور ترویج و ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے میں ناکام رہ جاتا ہے۔

پابندیٔ وقت:

وقت کی پابندی کسی قوم کی خوشحالی و ترقی کی ضامن ہے۔اور مسجد ہمیں پابندیٔ وقت کا درس بھی دیتی ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ اوقاتِ مقررہ پر اذان دے کر لوگوں کو مسجد میں بلایا جاتا ہے کہ تمام لوگ وقتِ مقررہ پر حاضر ہو کر فریضۂ نماز باجماعت ادا کریں اور اس نمازِ باجماعت کی آنحضور ﷺ نے نہایت سختی کے ساتھ تاکید فرمائی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:اگر مجھے عورتوں اور بچوں کا خیال نہ ہو تو میں اپنی جگہ کسی اور کو امام مقرر کر کے ان لوگوں کے گھروں کو جا کر آگ لگا دوں جو اذان سننے کے باوجود مسجد میں نہیں آئے۔'' (احمد)

تنظیم (Discipline):

تنظیم کے ضمن میں وہ سب چیزیں آتی ہیں جو کسی قوم کے زندہ رہنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ تنظیم اور نظم و ضبط کے بغیر کسی قوم یا معاشرے کی کامیابی کے متعلق سوچا تک نہیں جا سکتا اور اس نظم و ضبط کا درس ہمیں نماز اور مساجد ہی سے ملتا ہے۔ دن میں پانچ بار نمازی مسجد میں حاضر ہو کر ایک امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں اور ہر مقتدی پر یہ لازم ہے کہ امام کے اشاروں پر حرکت کرے۔ اس اقتداء میں نظم و ضبط کا اندازہ ذیل کے فرمانِ نبوی سے لگائیے، فرمایا:

لا تبادروا الإمام إذا كبر فكبروا وإذا قال ولا الضالين فقولوا اٰمين وإذا ركع فاركعوا (مسلم )

کہ امام سے پہل نہ کرو، جب وہ اللہ اکبر کہے، تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ ''ولا الضالین'' کہے تو تم آمین کہو اور جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔

بلاشبہ یہ نظم و ضبط کی بہترین ٹریننگ ہے۔ پھر یہی نہیں کہ اس بات کو محض حکماً بیان کر دیا گیا ہو بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے متعلق سخت وعید آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ﷜ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

أما يخشى الذي يرفع رأسه قبل الإمام أن يُحَوِّلَ الله رأسه رأس حمار، أو يجعل صورته صُورة حمار؟

ابوہریرہ ﷜ سے مرفوعاً روایت ہے کہ ’’وہ شخص جو امام سے پہلے (رکوع و سجود میں) سر اٹھا لیتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کے سر میں یا اس کی شکل کو گدھے کی شکل میں تبدیل کر دے؟ 

اندازہ فرمائیے کہ جس معاشرہ کے افراد ایسے ہی تربیت یافتہ ہوں گے اور وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اسی نظم و ضبط کو اپنا شعار بنائیں گے تو کیا اس کے کامیاب و کامران ہونے میں کسی کو شبہ ہو سکتا ہے؟

اتحاد اور مساوات:

لسانی تعصبات اور طبقاتی کش مکش دنیا کی کسی بھی قوم کے لئے تباہی اور ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لئے اسلام نے اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ قرآن کریم میں ہے:إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ (سورة الحجرات:10) مسلمان آپس میں سگے بھائیوں کی طرح ہیں۔

بلاشبہ یہ وہ سبق ہے جو اتحاد، مساوات، اخوت، ہمدردی اور تعاون کے جذبات کا مرکزی نقطہ ہے۔ تمام مسلمان امیر ہوں یا غریب، سفید فام ہوں یا سیہ فام، حاکم ہوں یا محکوم، تاجر ہوں یا مزدور، دراز قد صحیح الجسم ہوں یا پستہ قد اپاہج اور معذور، بینا ہوں یا نابینا، کم سن ہوں یا عمر رسیدہ، پنجابی ہوں یا سندھی، بلوچی اور پٹھان، اذان سننے کے بعد سبھی مسجد میں آجاتے ہیں اور وضو کر کے ایک دوسرے کے شانہ سے شانہ ملاتے ہیں ایک ہی امام کی اقتداء میں رب العزت کی بارگاہ میں مؤدب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک اور ان کے خیالات میں یک جہتی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اخوت کا سنگ بنیاد ہے۔

طہارت و نظافت:

طہارت ، نظافت ، پاکیزگی  بھی کسی قوم یا معاشرہ کے مذہب اور باعزت ہونے کی دلیل ہے جبکہ گندے اور ناپاک رہنے والے لوگ نفرت کا نشانہ بنتے ہیں ۔مساجد کی وجہ سے ہمیں پاکیزگی و صفائی کی نعمت بھی میسر ہے۔ مسجد میں نماز کے لئے آنے والے ہر شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے وضو کرے (جس کے ساتھ مسواک مسنون ہے) بدبو دار چیز لہسن، پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آئے۔ بلکہ ہو سکے تو خوشبو یا عطر وغیرہ لگا کر آئے۔ کپڑے خواہ پھٹے پرانے ہی کیوں نہ ہوں۔ پاک اور صاف ضرور ہوں۔نیز نماز کی پابندی کرنے اور مسجد میں پانچ وقت حاضر دینے سے انسان میں طبی طور پر طہارت و نظافت کے احساسات کروٹ لیتے ہیں جو ایک معاشرہ کی عظمت اور سر بلندی کے امین ہیں۔

الغرض مساجد سے اپنا رشتہ جوڑ لینے میں اورنماز با جماعت ادا کرنے  کی بہت سے ایسے فوائد میسر ہیں کہ جن کا صحیح جائزہ لینے سے ہی اسلام کی حقانیت ہر ایک پر واضح ہو جاتی ہے۔ اور مسلمان بحیثیت قوم دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر اور برتر نظام کے حامل نظرآتے ہیں۔


 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post