علامہ مولانا محمد عبداللہ نورانی الرفاعی

رمضان کے بعد روزہ رکھنے کی توفیق ملنا رمضان کے روزوں کی قبولیت کی بھی علامت ہے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے نیک عمل کو قبول فرماتا ہے تو اسے مزید نیک اعمال کی توفیق عطافرماتاہے۔
رمضان کے بعد اس لیے  بھی روزے رکھنا چاہیے کہ عیدالفطر کی شب اللہ تعالیٰ روزہ رکھنے والوں کے تمام گناہوں کی بخشش فرمادیتاہے۔ اور گناہوں کی بخشش سے بڑی کونسی نعمت ہے؟ تو اس نعمت کی شکر گزاری کے طور پر وزے رکھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی اپنے بندوں کو رمضان کے روزوں کی نعمت پر شکر کے اظہار کا حکم دیا ہے۔
امام ابو عبداللہ بن اھمد بن محمد بن قدامہ حنبلی متوفیٰ ۶۲۰ھ لکھتے ہیں:
اور شوال کے چھ روزے بہت سے اہل علم کے نزدیک مستحب ہیں (معروف تابعی) حضر کعب احبار، حضرت شعبی، میمون بن مہران اور امام شافعی سے بھی ان کااستحباب منقول ہے۔ البتہ امام مالک نے انہیں مکروہ قرار دیا اورفرمایا کہ میں نے کسی ایک فقیہ کو بھی یہ روزے رکھتے نہیں دیکھا اور نہ ہی مجھے اسلاف میں سے کسی سے ان کا پتہ چلا ہے اور اہل علم انہیں مکروہ سمجھتے تھے۔ اور اس بدعت سے ڈرتے تھے کہ رمضان کے ساتھ وہ چیز لاحق و شامل کردی جائے جو اس میں سے نہیں ہے۔
اورہماری دلیل یہ حدیث ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے شوال کے چھ روزے رکھے گویا کہ اس نے زمانہ کے روزے رکھے ۔ اس حدیث کو امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے نقل کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔ (اسی طرح اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور امام احمد نے اپن مسند میں نقل کیا ہے)۔ امام احمد نے فرمایا کہ یہ حدیث تین طرح سے نبی ﷺ سے منقول ہے ۔ حضرت سعید نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ثوبان سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کا مہینہ روزہ رکھا اس نے دس مہینوں کے روزے رکھے اور چھ دن عید الفطر کے بعد روزے رکھے تو یہ پورا سال روزے رکھنا ہے۔ یعنی ایک نیکی اپنی جیسی دس نیکیوں کی طرح ہے تو ایک مہینہ دس مہینوں کی طرح ہے اور چھ دن ساٹھ دنوں کی طرھ ہوئے یہ کل بارہ مہینے ہوئے اور یہی مکمل سال ہے۔ اور یہ روزے رمضان سے مقد م روزوں کے قائم مقام نہیں ہیں۔ کیونکہ  ان کے اور رمضان کے درمیان عید کا دن ‘‘فاصل’’ کے طور پر آگیا ہے۔
اعتراض:
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس حدیث میں ان روزوں کی فضیلت پر کوئی دلیل نہیں ہے کیوں کہ نبی ﷺ نے ان روزوں کو ‘‘صوم الدھر’’ زمانہ بھر (یا ہمیشہ ) کے روزوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور صوم الدھر مکروہ ہے۔
جواب: تو اس کا جواب ہماری طرف سے یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ‘‘صوم الدھر’’ کو صرف اس لیے مکروہ قرار دیا کہ اس سے کمزوری لاحق ہوتی ہے۔ اور اس میں تبتل (ورہبانیت) کے ساتھ مشابہت بھی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ا س میں فضل عظیم (بہت بڑی فضیلت) ہے کیونکہ اس میں سارا زمانہ عبادت و نیکی میں مستغرق وڈوبے رہناہے۔
اور روایت میں جو تشبیہ ہے اس سے مراد ان روزوں کے ذریعہ بغیر مشقت عبادت کا حصول ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جس نے ہر ماہ تین روزے رکھے تو یہ ایسا ہے کہ گویا اس نے زمانہ بھر روزے رکھے ۔ نبی ﷺ کا یہ فرمان ان روزوں پر آمادہ و راغب کرنے اور ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ اور ہر ماہ کے تین روزوں کے مستحب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نبی ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو تین دن سے کم میں قرآن مجید پڑھنے سے منع کیا اور فرمایا کہ جس نے ‘‘قل ھو اللہ احد’’ (سورہ اخلاص) کو پڑھا گویا کہ اس نے تہائی قرآن پڑھا۔ اس حدیث میں نبی ﷺ نے ثلث قرآن (تہائی قرآن) کے ساتھ فضیلت میں تشبیہ دی ہے اس پر کراہت کی زیادتی میں تشبیہ نہیں دی ہے۔
جب یہ ثابت ہوگیا تو پھر ان روزوں کے مسلسل یا جدا جدا ہونے یا شروع مہینہ یا آخر ماہ میں ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونک حدیث مبارک بغیر کسی قید کے مطلق ہے۔ اور اس لیے بھی کہ ان چھ دنوں کے روزوں کی فضیلت اس لیے ہے کہ مہینہ کے ساتھ چھ دن اور ہو کر چھتیس دن ہوجائیں اور ہر نیکی اپنے جیسی دس نیکیوں کی طرح ہے تو یہ تین سو ساٹھ دن ہووگئے اور یہی پورا سال ہے۔ پھر جب ہر سال اسی طرح اجر پائے گا تو یہ سارے زمانہ کے روزوں کی طرح ہوجائے گا۔ اور یہی مقصد الگ الگ رکھنے سے بھی حاصل ہوجاتاہے۔(المغنی مع شرح الکبیر، ج۳، ص ۲۰۲ تا ۴۰۱، مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت)
امام ابن رجب حنبلی متوفیٰ ۴۸۶ ھ لکھتے ہیں:
(آپ حضرت ایوب انصاری والی حدیث نقل کرنے کے بعد) اس حدیث کی تصحیح اور اس پر عمل میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث کو صحیح قرار دیاہے اور بعض نے اس حدیث کو موقوف کہا ہے۔ ابن عیینہ نے بھی یہی کہا ہے۔ امام احمد کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث کی سند میں کلام کیا ہے۔
رہی بات اس حدیث پر عمل کرنے کی تو اکثر علماء نے شوال کے چھ روزوں کو مستحب کہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، طاؤس بن کیسان، شعبی، میمون بن مہران سے یہی منقول ہے۔ اور امام شافعی ، امام احمد بن حنبل، امام عبداللہ بن مبارک، اسحٰق بن رہویہ کا بھی یہی کہنا ہے۔ دوسروں نے اس کا انکار کیا ہے ۔ حضرت حسن (بصری) کے سامنے جب ان چھ روزوں کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ رمضان کے مہینہ سے ہی سارے سال کے لیے راضی ہوگیا ہے۔ شاید حضرت حسن کا انکار ان لوگوں پر تھا جو رمضان کے روزوں کے ساتھ ساتھ ان روزوں کے وجوب کا بھی اعتقاد رکھتے تھے ۔ محض رمضان کے روزوں کے وجوب کو کافی نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے ظاہر کلام کا تقاضا یہی ہے۔ امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور سفیان ثوری نے بھی ان روزوں کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور دونوں کے تلامذہ نے اس کی علت اہل کتاب کے ساتھ مشابہت قرار دی ہے۔ اور ان کے اکثر متاخرین مشائخ نے کہا ہے ان روزوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور حرج نہ ہونے کی علتج یہ ہے کہ بے شک فطر (افطار کرنا) عید الفطر کے دن کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے۔ ان (احناف) میں سے صاحب کافی سے یہی منقول ہے اور عبدالرحمن مہدی ان روزوں کو مکروہ سمجھتے تھے لیکن ان سے  منع نہیں کرتے تھے۔ اامام مالک بھی انہیں مکروہ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے مؤطا میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اہل علم میں سے کسی کو ایسا نہیں کرتے دیکھا اور تحقیقاً یہ بھی کہا گیا ہے امام مالک خود تو یہ روزے رکھتے تھے لیکن اس خدشہ کے پیش نظر کہ کہیں ان کی فرضیت کا اعتقاد رکھ کر رمضان میں وہ چیز نہ بڑھادی جائے جو اس میں سے نہیں ہے ان کو مکروہ قرار دیتے تھے۔
ان روزوں کو مستحب قرار دینے والوں کے اقوال بھی ان کے سلسلہ میں مختلف ہیں۔ اس سلسلہ میں تین قول ہیں۔
۱۔         امام شافعی اور امام عبداللہ بن مبارک کا فرمانا ہے کہ یہ روزے لگاتار مہینہ کے شروع میں ہی مستحب ہیں۔ کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے ۔جس نے (عید ) الفطر کے بعد لگاتار چھ روزے رکھے گویا کہ اس نے سال بھر کے روزے رکھے۔ امام طبرانی اور دوسرے آئمہ نے طرق ضعیفہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ اور یہ حدیث مرفوعاً بھی منقول ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی مفہوم کی حدیث سند ضعیف کے ساتھ منقول ہے۔
۲۔        یہ روزے لگاتار رکھے جائیں ا پورے مہینہ میں الگ الگ رکھے جائیں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ یہ امام وکیع بن الجراح اور امام احمد بن حنبل کا قول ہے۔
۳۔        یہ روزے عید الفطر کے بعد نہیں رکھے جائیں گے کیونکہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ البتہ یہ روزے ایام بیض سے تین دن پہلے اور تین دن ایام بیض کے رکھے جائیں یا پھر (پہلے کے بجائے) ایام بیض کے تین دن بعد رکھے جائیں‎۔ یہ قول معمر اور امام عبدالرزاق صنعائی کا ہے۔ اور عطاء سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ اور عطاء کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ جس کے اوپر رمضان کے قضاء روزے ہوں وہ رمضان کے قضاء روزے رکھنے کے بعد انکے ساتھ لگاتار نفلی روزے رکھے تو یہ مکروہ ہے۔ عطاء ان دنوں کے درمیان افطار (روزہ نہ رکھنے) کا کہتے تھے یہ شاذ قول ہے۔
اکثر علماء کا یہ کہنا ہے کہ عید الفطر کے دوسرے دن کا روزہ مکروہ نہیں ہے کیونکہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ۔ نبی ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا ‘‘جب تم افطار کرلوتو پھر روزہ رکھو’’۔ اس حدیث کو تفصیل کے ساتھ ہم نے شعبان کے آخر میں روزہ رکھنے کے مسئلہ میں ذکرکردیا ہے ۔ اور صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن علاوہ لگاتار اور مسلسل روزے رکھتی تھی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ وہ اپنے گھرانے والوں سے  فرماتی تھیں کہ جس پر رمضان کے روزے فرض ہیں وہ عید الفطر کے بعد والے دن سے روزے رکھے کیونکہ عید الفطر کے بعد والے دن روزہ رکھنا رمضان میں روزہ رکھنے ہی کی طرح ہے۔ اس کی سند میں ضعف ہے۔
حضرت امام شعبی کا فرمان ہے کہ مجھے رمضان کے بعد ایک روزہ رکھنا سارا زمانہ روزہ رکھنے سے زیادہ محبوب  و پسندیدہ ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سند ضعیف کے ساتھ منقول ہے کہ جس نےعید الفطر کے بعد ایک دن کا روزہ رکھا اس نے سال بھر کا روزہ رکھا اسی طرح سند ضعیف کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً منقول ہے کہ رمضان کے بعد روزہ رکھنے والا جنگ سے بھاگنے کے بعد اس میں استقامت و ثابت قدمی اختیار کرنے والے کی طرح ہے۔
اور رہا یہ معاملہ پوا شوال روزہ رکھنے کا تو اس سلسلہ میں امام احمد اور امام نسائی نے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے رمضان ، شوال اور بدھ جمعرات کا روزہ رکھا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ امام ابو داؤد ، ترمذی، نسائی اور امام احمد نے حضرت مسلم قرشی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے ‘‘صوم الدھر’’ کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ب شک تم پر تمہارے اہل خانہ کا بھی حق ہے ،پس تم رمضان اور اس متصل مہینہ اور ہر بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھو تو جب تم اس طرح روزہ رکھ لیا تو تم نے ‘‘صوم الدھر’’ رکھ لیا اور تم نے افطار بھی کرلیا۔ (ابوداؤد: ۲۴۳۲)
امام ابن ماجہ نے نقل کیا ہے کہ بے شک حضرت اسامہ بن زید تمام حرمت والے مہینوں کے روزے رکھتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: شوال کے روزے رکھو چنانچہ حضرت زید نے تمام حرمت والے مہینوں کے روزے چھوڑ دیئے اور مرتے دم تک وہ شوال کے  روزے رکھتے تھے۔ (اس کی سند منقطع ہے)
امام ابو یعلیٰ نے سند متصل کے ساتھ حضرت اسامہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ میں سال میں (رمضان کے علاوہ) ایک مہینہ مکمل روزے رکھتا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم شوال کو کیوں نظر انداز کرتے ہو؟ چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما عیدالفطر کے بعد اگلے دن سے شوال کے آخر تک روزہ رکھتے تھے اور شوال کے روزے بھی شعبان کے روزوں کی طرح ہیں اس لیے کہ یہ دونوں مہینہ رمضان کے اعزاز واکرام کا باعث ہیں اور دونوں رمضان سے متصل بھی ہیں۔
رمضان المبارک اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے سال بھر کے روزوں کے برابر ہیں اس لیے کہ نیکی اپنے جیسی دس نیکیوں کی مثل ہے۔ اور اس معاملہ کو یہ حدیث بالکل وضاحت کردیتی ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا‘‘ رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کی طرح ہیں اور چھ دن کے روزے دومہینوں کے روزوں کی طرح ہیں۔
تو یہ سال کے روزے ہوئے یعنی ایک مہینہ رمضان اور اس کے بعد چھ دن شوال کے۔ اس حدیث کو امام احمد اور امام نسائی نے نقل کیا ہے۔ اور یہ امام ابن حبان نے بھی اس کو اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ امام ابو حاتم رازی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ رازی کی اس سے زیادہ صحیح کوئی حدیث نہیں ہے۔
پھر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ فضیلت محض شوال کے ساتھ ہی کیوں خاص ہے کسی اور مہینہ اس طرح روزے رکھنے سے یہ فضیلت کیوں حاصل نہیں ہوسکتی؟
اسکا جواب یہ ہے کہ شعبان اور شوال کے روزہ رمضان کے لیے فرض نماز سے پہلے اور بعد کی سنتوں کی طرح ہیں جس طرح سنتیں فرض نمازوں کے نقص وخلل اور کمی و کوتاہی کو دورکرتی ہیں اسی طرح یہ روزے بھی رمضان کے روزہ  میں رہ جانے والے نقص وخلل اورکمی و کوتاہی کو دورکردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی  ﷺ نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ‘‘میں نے پورے رمضان کے (مکمل) روزے رکھ لیے یا میں نے سارا رمضان قیام کیا ہے’’ تو نبی ﷺ نے اس طرح کہنے سے منع فرمادیا، صحابی فرماتے ہیں کہ میں نہیں سمجھ پایا کہ آپ ﷺ نے اپنی پاکی ظاہر کرنے کی بنا پر اس طرح کہنے سے منع فرمایا یا اس بناپر کہ انسان سے بہرحال غفلت ہوہی جاتی ہے۔
رمضان کے بعد روزہ رکھنے کی توفیق ملنا رمضان کے روزوں کی قبولیت کی بھی علامت ہے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے نیک عمل کو قبول فرماتا ہے تو اسے مزید نیک اعمال کی توفیق عطافرماتاہے۔
رمضان کے بعد اس لیے  بھی روزے رکھنا چاہیے کہ عیدالفطر کی شب اللہ تعالیٰ روزہ رکھنے والوں کے تمام گناہوں کی بخشش فرمادیتاہے۔ اور گناہوں کی بخشش سے بڑی کونسی نعمت ہے؟ تو اس نعمت کی شکر گزاری کے طور پر وزے رکھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی اپنے بندوں کو رمضان کے روزوں کی نعمت پر شکر کے اظہار کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: (البقرۃ:۱۸۵)
تاکہ تم گنتی کے دن پورے کرو اور اللہ تعالیٰ کی توفیق پر اس کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم اس کا شکر  اداکرو۔ اور بندہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رمضان کے روزوں  کی توفیق ملنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی بخشش کردیئے جانے کے بعد بندہ کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر روزے رکھے۔ اسلاف میں سے بعض حضرات کو جب رات میں قیام کی سعاد ملتی تو وہ صبح کو روزہ رکھتے تھے اور اپنے اس روزہ کو قیام کی توفیق کے لیے تشکر کا اظہار سمجھتے تھے۔ دین اور دنیا کی ہر نعمت پر بندہ اپنے رب کے شکر کا محتاج ہے اورپھر اس  پر شکر کی توفیق ملنا بندہ پر دوسری نعمت ہے۔ اور اس نعمت پر شکر ادا کرنا الگ نعمت ہے۔ اور یہ سلسلہ ہمیشہ برقرار رہتاہے۔
اسی لیے بندہ نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتا ہے اور شکر کی حقیقت بھی یہی ہے کہ بندہ اپنی بے بسی اور عاجزی کا اعتراف کرے۔
(لطائف المعارف فیما لمواسم من الوظائف، ص ۲۵۵ تا ۲۵۹، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
فضائل شھورو الایام للامام نابلسی، ص ۵۵،۵۶، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
امام مخدوم محمد ہاشم بن عبدالغفور حارثی سندھی حنفی متوفی ۱۱۷۴ھ لکھتے ہیں:
 عید الفطر کے بعد لگاتار چھ روزوں کو بعض نے مکروہ قرار دیا  ہے اور بعض نے مکروہ نہیں قرار دیا اور وجہ کراہت اہل کتاب کے ساتھ مشابہت ہے اور وجہ جواز یہ ہے کہ ان کے اور رمضان کے درمیان عید الفطر کے ذریعہ فاصلہ حاصل ہوگیا ہے اور اگر شوال میں متفرق طور پر یہ روزے رکھے جائیں تو یہ چیز کراہت سے اور نصاریٰ سے تشبیہ سے بہت زیادہ دور اور جواز کے زیادہ قریب ہوگی۔ ‘‘کافی’’ اور فتاویٰ قاضی خان میں اسی طرح ہے۔(مظہر الانوار، ص ۵۵۱، ۵۵۲، مطبوعہ دارالنعیمی لنشر والتوزیع ،کراتشی باکستان)
شیخ انور شاہ کشمیری متوفیٰ ہیں:
قال ابو یوسف یستحب ستۃ ایام متفرقاً ویجوز متوالیا ایضاً۔ (العرف الشذی مع الجامع الترمذی، ص ۲۷۵، مطبوعہ فاروقی  کتب خانہ، ملتان باکستان)امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ شوال کے چھ روزے متفرق رکھے جائیں تو مستحب ہیں، اسی طرح مسلسل اور لگاتار رکھنے بھی جائز ہیں۔





Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post