محمد شاہد خان  
(لیکچررجامعہ علیمیہ اسلامیہ)
اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو فقط اپنی عبادت و ریاضت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا عرفان و پہچان حاصل کرسکیں۔ اس مقصدِ وحید کے لیے اللہ تعالیٰ نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا۔ تاکہ یہ پیکرانِ تسلیم و رضا اور اطاعت و انقیاد کے زیور سے مالا مال معتبر ترین شخصیات اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اپنے خالقِ حقیقی کی معرفت اور پہچان کراسکیں۔ مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر مختلف انبیائے کرام علیہم السلام نے لوگوں کی رشد و ہدایت کا صراطِ مستقیم دکھایا۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات و ہدایات ان کے دورِ مبارک تک ہی محدود تھی۔ اللہ تعالیٰ نے محمدِ مصطفیٰ ﷺ کو خاتم النبیین کے تاج سے سرفراز فرمایا۔ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ کی نبوت و رسالت اور خاتمیت قیامت تک کے لیے ہے۔ آپ ؐ کی پیش کردہ تعلیمات و احکامات بھی ابد الاباد ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں انسانوں کی آبادی ٧ ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ مسلمان پوری دنیا میں بستے ہیں۔ اور باقی ماندہ تقریباً ساڑھے پانچ ارب سے زائد غیر مسلموں کی تعداد ہے۔ صرف و صرف مسلمان خالصاً ایک خدا پر ایمان و ایقان رکھتے ہیں۔ آپ ؐ کی نبوت و رسالت اور خاتمیت پر بدرجہ اتم ایمان رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیائے انسانیت میں لوگوں کے مختلف النوع خیالات و نظریات اور عقائد کے حاملین ہیں۔ جہاں تک مذہبِ عیسائیت کا تعلق ہے تو وہ عقیدہئ تثلیث (Trinity) پر ایمان رکھتے ہیں۔یعنی ایک خدا کی ذات۔ خدا، دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں اور حضرت جبریل علیہ السلام کو بھی خدا مانتے ہیں اور یہ تینوں مل کر ایک خدا بنتے ہیں۔ الغرض عیسائی تین خداؤں کو مانتے ہیں۔
ہندو مت (Hinduism) میں ہر چیز اورہرمخلوق کو خدا کا درجہ دیا جاتا ہے۔ درختوں، چاند، سورج، ستارے، جانوروں میں ہاتھی، بندر گائے، وغیرہ۔ اس کے علاوہ صنم پرستی بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ خدا کا بندے کے جسم میں حلول کرجانا اس پر بھی یقین کرتے ہیں۔ شنٹو ازم (Shintoism)کے پیروکار کثرت سے صنم پرستی میں مبتلا ہیں۔ پتھر کے بت بناکر اس کی پوجا اور عبادت کرتے ہیں۔ مظاہر پرستی بہت عام ہے۔ سمندر ، پہاڑ، کھیتوں، درختوں، دریا، حیوانات، پودوں، پرندوں کی پوجا کرتے ہیں۔
سورج کو سب سے بڑا دیوتا مانتے ہیں۔چنگیز خان سورج کا پجاری تھا۔ شاہ پرستی بھی رائج ہے۔ بادشاہ کو سورج دیوتا کی دیوی کی اولاد مانتے ہیں۔ اور ان کو بھی خداکا درجہ دیتے ہیں۔
زرتشت مذہب کے ماننے والے آگ کی پوجا کرتے ہیں۔ سکھ مذہب کے ماننے والے بھی بت پرستی کی طرف مائل ہیں۔ بعض لوگ دنیا میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ وہ کسی خدا کو ہی نہیں مانتے ہیں۔ خدا کے وجود کا ہی انکار کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ دنیا حادثاتی طور پر خود بخود وجود میں آئی ہے۔ اس نظام کو چلانے والا کوئی خدا نہیں ہے۔ ان کو دہریہ (Atheist)کہا جاتا ہے۔ اور جو خدا کو تین مانتے ہیں یا ہر چیز کو خدا ما نتے ہیں تو وہ لادینیت کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ریاست میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتاہے۔ اس کے ذریعے عروج کی منازل طے کرنا ناقابلِ تصورہے۔ الغرض اس وقت پوری دنیا میں صرف و صرف مسلمان ایک خدا کو خالصاً مانتے ہیں۔اور خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے جس قابلِ احترام واکرام شخصیت پر عمل پیرا ہوتے ہیں وہ صرف وصرف محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات والا صفات ہے۔
اور ایک مسلمان کو رشد و ہدایت کی روشنی صرف و صرف بارگاہِ نبوت و رسالت مآب ؐ سے ہی ملے گی۔ آپ ؐ کفار و مشرکین سے فرمایا کرتے تھے کہ
قولوا لا الہ الااللّٰہ تفلحوا۔
"کہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوجاؤ"۔
اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور لب لباب اذان ہے۔ انسان جب اذان کے کلمات حسنہ میں غور و فکر کرتاہے۔ تو عرفان الٰہی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ آشکارا ہوجاتی ہے اور انسان کو سکون و اطمینان کی بے مثال و بے بدل دولت میسر ہوتی ہے۔
اسلام میں اذان کی بڑی اہمیت وحیثیت ہے۔ اذان ہجرت کے پہلے سال شروع ہوئی۔ اذان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی قدر و منزلت ، جاہ و جلال ، تعظیم و تکریم، کلمہ شہادت اور اسلامی شعائر کا ببانگ دْہل اعلان کیا جاتاہے۔ مسلمان اذان کے کلمات مبارکہ سماعت کرنے کے بعد نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ اسلام میں اذان کا حکم سنتِ مؤکدہ کا ہے۔ امام محمد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
"اگر کسی شہر کے لوگ اذان دینا ترک کردیں تو ان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا جائے گا"۔
امام ابو یوسف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
" ترکِ اذان کی وجہ سے ان کو سز ا دینا واجب ہے"۔
مؤذن کی فضیلت کے بارے میں حدیث مبارکہ میں آتاہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس مؤذن نے آکر ان کو نماز کے لیے بلایا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ
"قیامت کے دن جب مؤذن اٹھیں گے تو ان کی گردنیں سب سے بلند ہوں گی"
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ میدان حشر میں سب سے نمایاں اور ممتاز مقام و مرتبہ کے حامل ہونگے۔ دوسرا ان کے کثرتِ اعمال کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ مؤذن کی اذان سن کر نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں حاضر ہوتے ہیں یا گھروں میں نماز ادا کی جاتی ہے ان لوگوں کی نماز کا اجر و ثواب بھی مؤذن کو ملتا ہے۔ کیونکہ اس کا سبب و ذریعہ مؤذن ہوتا ہے۔ لہذا وہ نیکیاں ان کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ شیطان جب اذان سنتا ہے تو "گوز" (تیز آواز سے ریح خارج کرنا) لگاتا ہو ابھاگتا ہے۔ تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے۔ جب اذان پایہئ تکمیل کو پہنچ جاتی ہے تو پھر آکر لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ جب اقامت یا تکبیر کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ جاتا ہے تا کہ آواز نہ سن سکے۔ اقامت کے ختم ہوجانے کے بعد پھر لوگوں کے دلوں میں وساوس پیدا کرتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ شیطان اذان کے کلمات کو بہت زیادہ ناپسند کرتاہے۔ اور ڈرتا بھی ہے۔ اس لیے گوز مارتا ہوا بھاگ جاتاہے۔ اس لیے شیطان کے شر سے بچنے کے لیے مسلمان مختلف اوقات اور مختلف مقامات پر اذان دیتے ہیں۔ جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔ تاکہ وہ معصوم اور کمسن بچہ شیطان کے شر سے محفوظ ومامون رہے۔ گویا کہ ان کلماتِ حسنہ کے بے حد مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
راقم الحروف اس موضوعِ سخن کے توسط سے عالم انسانیت کے تمام مسلم اور غیر مسلم خواتین و حضرات کو دعوت فکر دیتا ہے کہ مؤذن دن میں پانچ مرتبہ کوثر و تسنیم سے دھلے ہوئے پاکیزہ کلمات حسنہ عالم انسانیت کے گوش گزار کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عرفان الٰہی کے لیے تخلیق فرمایا ہے۔ اور اس مقصد کی یاد دہانی کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ جس قوم کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ سے منقطع ہوجائے تو وہ قوم تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اور یہ بات روز ِروشن کی طرح عیاں ہے کہ درخت سے کٹی ہوئی شاخیں زیادہ دیر سبز نہیں رہتی ہیں۔ الغرض مؤذن کے پیغام کو دل و جان سے قبول کرنا اور عملی جامہ پہنانا ضرور ی ہے۔
مؤذن کہتا ہے:
َاللّٰہُ اَکْبَرُ َاللّٰہُ اَکْبَرُ َاللّٰہُ اَکْبَرُ َاللّٰہُ اَکْبَرُ
"اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے"۔
گویا مؤذن پیغام دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا اور" اکبر" ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی "اکبر "نہیں ہے۔ اس کائنات کے نظام کو بحسن و خوبی چلانے والی ذات بابرکت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
جب انسا ن کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکبر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ تو انسان دنیا کی کسی بھی طاقت اور بڑے سے بڑے منصب پر فائز شخص سے بھی نہیں ڈرتا ہے۔ کیونکہ اس کو عرفان الٰہی حاصل ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکبر ہے نہ کہ کوئی بڑی سے بڑی طاقت اور نہ ہی کوئی بڑا شخص ہے۔
مؤذن کہتا ہے:
اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ،اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
"میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے"۔
پیغام یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کو ہی اکبر مانتا ہوں۔ اور اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ اور ببانگ دہل شہادت و گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت و الوہیت کے لائق ہی نہیں ہے۔ اور یہ اعلان مؤذن دن میں پانچ مرتبہ کرتاہے۔ کیونکہ اسلام ایک عالمگیر اور آفاقی دین ہے۔ اس کی تعلیمات و احکامات بھی آفاقی اور قیامت تک کے لیے ہیں۔ اسلام تمام انسانیت کو صلاح و فلاح کی دعوت دیتا ہے۔ اس دنیائے فانی میں لوگ "رب احد "کو فراموش کرکے اس کی مخلوق کو خدا کا درجہ دے بیٹھے ہیں۔ بعض لوگ عیسائیوں کی طرح اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا خداکا بیٹا مانتے ہیں۔ اور وہ عقیدہئ تثلیث پر ایمان رکھتے ہیں۔
بعض لوگ ہندوؤں کی طرح ہر چیز کو خدا مانتے ہیں۔ زرتشت مذہب کے ماننے والے آگ کی پوجا کرتے ہیں۔ بعض لوگ سورج کے پجاری ہیں۔ چنگیز خان سورج کی پوجا کیا کرتا تھا۔ اور بعض لوگ اس حد تک گمراہیت اور ضلالت کے دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ وہ خدا کے وجود کے ہی منکر ہیں۔ اور وہ خدا کو نہیں مانتے ہیں۔ جن کو دہریہ کہا جاتاہے۔ پوری عالم انسانیت کے سامنے مؤذن صاحب گواہی دیتے ہیں۔ اور ان کو واضح ترین پیغام دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پوجا کے لائق نہیں ہے مؤذن صاحب مسجد سے پیغام دیتے ہیں کہ جو لوگ مندروں، کلیساؤں، معبد خانوں اور عبادت گاہوں میں بت پرستی اور مشرکانہ رسم و رواج میں ملوث ہیں ان کے لیے واضح پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکبر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔
مؤذن کہتا ہے:
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ ،اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ
"میں شہادت دیتا ہوں کہ بلاشبہ محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں"۔
مؤذن عالمِ انسانیت کو پیغام دیتا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اللہ کی طرف سے مبعوث کیے گئے پیغمبرہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا پیغامِ ہدایت لے کر دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔ تاکہ تمام انسانیت کو وہ تمام رشدو ہدایت اور معرفت کے راستے کی نشاندہی فرمائیں کہ کس طرح رب کا عرفان حاصل ہوتاہے۔ عقائد ، عبادات و معاملات کو کس طرح بحسن و خوبی سرانجام دینا ہے۔ دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کی کنجی کس طرح نصیب ہوتی ہے۔ وہ تمام کی تمام ہدایت مرحمت فرمائی۔
مؤذن کہتا ہے:
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ
"میں شہادت دیتا ہوں کہ بلاشبہ محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں"۔
تم بھی رسول اللہ کی نبوت و رسالت پر شہادت دو اور دنیاوی اور اخروی کامیابی حاصل کرو تاکہ رب کی رحمت و جنت واجب ہوجائے۔
مؤذن کہتا ہے:
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ ،حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ
"آؤ نماز کے لیے"
جب کوئی مسلمان اذان کے یہ متبرک کلمات سماعت کرنے کا شرف حاصل کرتا ہے تو وہ اگرچہ دنیا کا انتہائی اہم ترین کام ہی کیوں نہ سرانجام دے رہا ہو۔ وہ اس کام کو بالائے طاق رکھ کر اور تمام سرگرمیاں معطل کرکے نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کا راستہ اختیار کرتاہے۔ کیونکہ نماز کی طرف دعوت دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اور انسان کو تخلیق کرنے کا مقصدِ وحید بھی معرفتِ الٰہی اور اطاعتِ الٰہی ہے۔ پوری کائنات انسان کے لیے اور انسان رحمان کے لیے ہے۔
چاند ، سورج پیدا کیے تیری ضیاء کے واسطے
سرسبز ہیں کھیتیاں ، تیری غذا کے واسطے
جانور پیدا کیے تیری وفا کے واسطے
سارا جہاں بنایا تیرے لیے، تو ہے خدا کے واسطے
خالقِ کائنات ہی سب سے بہتر جانتا ہے کہ مخلوق کو سکون و اطمینان کی دولت کس طرح ملے گی؟؟؟ نماز دین کا ستون ہے جب انسان اس ستون سے اپنی زندگی کی عمارت کو مزین کرتاہے تو اس کی عمارت قائم و دائم رہتی ہے ورنہ وہ عمارت منہدم ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرِامی ہے کہ
إ نّ الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر
"بے شک نماز فحاشی اور برائی سے روکتی ہے"۔
بلاشبہ نماز انسان کو برائی و گناہ سے روکتی ہے۔ جب نماز مکمل خشوع و خضوع کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہو کر ادا کی جائے گی تو اس کا حسن و جمال سر چڑھ کر بولے گا اور اس کے ثمرات معاشرے میں نظر بھی آئینگے۔
تو مؤذن کہتا ہے:
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ
"آؤ نماز کے لیے"
اس وقت نماز کا وقت ہے آؤ نماز ادا کرو اور اس نیک عمل کا پھل دنیا و آخرت میں حاصل کرو۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ اسلام نہ صرف قول کا دین ہے بلکہ یہ عمل کی ترغیب و تحریک بھی دیتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں بعض مذاہب و ادیان اپنے ماننے والوں کو صرف اورصرف عقائد کی دنیا میں ہی مگن رکھتے ہیں اور عملی زندگی سے لاتعلق رکھتے ہیں۔
فجر کے وقت مؤذن کہتا ہے:
اَلصَّلوٰۃُْ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ،اَلصَّلوٰۃُْ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
"نماز نیند سے بہتر ہے"۔
بقدر ضرورت سونا بھی عبادت ہے لیکن فجر کے وقت جب نماز کا وقت ہوجائے گو یااس وقت نماز پڑھنا سب سے زیادہ خیر والا عمل ہوگا۔
مؤذن کہتا ہے:
حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ ،حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ
"آؤ کامیابی کی طرف"
انسان کو تخلیق کرنے والی ذات والا صفات سب سے بہتر جانتی ہے کہ انسان کی کامیابی کس چیز میں ہے ۔ جب بھی کوئی انسان کامیابی و کامرانی کا لفظ سنتاہے تو اس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ آخر زندگی میں کامیابی کس طرح حاصل کی جائے گی۔ ایک طالب علم تعلیمی میدان میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہے۔ ایک تاجر کامیاب تاجر بننے کے گر معلوم کرنے کے لیے ناجانے کتنے جتن کرتاہے۔ تاکہ دنیا میں ناموری کا تاج پہنے۔ گویا کہ انسان کامیابی و کامرانی اور فلاح و صلاح کا بدرجہ اتم طلبگار ہے۔ انسان کی اسی نفسیات کو مد نظر رکھ کر جس کلمہ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ وہ اہل عرب اور اہلِ لسان سے مخفی نہیں ہے۔ عربی دان اور عربی لسانیات سے شغف رکھنے والے اہلِ علم حضرات "کلمہئ الفلاح" کی فصاحت و بلاغت، لطافت و نزاکت، حلاوت و سلاست اور اس کلمہ کی جامعیت اور چاشنی سے آگاہ ہیں۔
عربی زبان میں"الفَلَاح" کا مطلب دنیاوی و اخروی کا میابی و کامرانی مراد ہوتا ہے۔ عربی زبان میں "الفلَّاحْ" کسان کو کہا جاتاہے۔ کسان جو بوتاہے وہی کاٹتا ہے۔ لہذا حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ کے فوراً بعد حَیَّ عَلَی الْفَلاحِ  اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ نماز اعمال صالحہ میں سے ایک بیج ہے۔ اگر اس کو دنیا میں بویاجائے گا تو آخرت میں اس کو کاٹاجائے گا۔ اس سے استفادہ و مستفیض ہوگا۔اور قرآن و حدیث میں "الفَلَاحْ" سے مراد دنیا اورآخرت کی کامیابی مراد ہوتا ہے۔ اعمالِ صالحہ پر عمل کرنے سے نہ صرف دنیا میں فائدہ اور اس کے ثمرات و فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی رضائے الٰہی کا سبب بنے گا۔
مؤذن تمام عالم انسانیت کو واضح ترین اور جامع ترین پیغام دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت پر گواہی اور شہادت دو۔ اور نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں حاضر ہوجاؤ کیونکہ یہی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔
مؤذن پھر ان کلمات کا اعادہ کرتا ہے:
َاللّٰہُ اَکْبَرُ َاللّٰہُ اَکْبَرُ
"اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے"
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
"اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہی نہیں ہے"۔
راقم الحروف نے نو مسلم افراد کے قبول اسلام کے بے شمار ایمان افروز واقعات کا مطالعہ کیا ہے۔ اس میں سے ایک انتہائی ایمان افروز واقعہ آپ کی خدمتِ سامیہ میں پیش کرنے کی سعادت و شرف حاصل کررہا ہوں۔
"انسان کے لیے اس سے بڑی کوئی سعادت نہیں کہ اللہ عزوجل اسے راہِ ہدایت اور ایمان کی دولت سے نواز دے۔ ایمان ایسی لازوال نعمت ہے کہ جس کی ابدی حلاوت اسی کو نصیب ہوتی ہے جسے خدا چاہے۔۔۔۔ اور مجھ سے زیادہ خوش بخت اور سعید دنیا میں اور کون ہوگا جسے اللہ کریم نے صراطِ مستقیم یعنی اسلام اور ایمان کی راہ سجھائی اور ضلالت و گمراہی کی جہالت سے اور دوزخ کی آگ سے نجات دی؟"
ان کلماتِ تشکر کے ساتھ نو مسلم سناء کفر و شرک کی ضلالت کو چھوڑ کر اپنے قبولِ اسلام کا واقعہ بڑے پْرجوش انداز میں بیان کرتی ہے۔
سناء مصر کے ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئی۔ ہر عیسائی کی طرح ہر اتوار کو اپنے والدین کے ساتھ گرجا جانا اس کا معمول تھا۔ وہاں وہ پادری کے ہاتھ چومتی اور سب کے ساتھ مل کر یسوع مسیح کی حمد میں ترانے گاتی۔ پھر پادری سب کو اناجیلِ اربعہ کی کچھ عبارتیں سناتا اور یہ بڑے غور سے سنتی۔ پادری عقیدہئ تثلیث پر جمے رہنے کی یہاں تک تلقین کرتا کہ تثلیث پرعقیدہ رکھے بغیر کوئی غیر مسیح نیکی اور بھلائی کا کوئی بھی کام سرانجام دے وہ عنداللہ ماجور و مقبول نہیں بلکہ مغضوب ہے کیونکہ اس کے گمان کے مطابق یہ کفر و الحاد ہے۔
سناء پادری کے وعظ کو دوسرے بچوں کی طرح بے دھیانی سے سنتی اور پھر جیسے ہی گرجا سے نکلتی اپنی مسلمان سہیلی حناء کے ساتھ کھیلنے کے لیے دوڑ پڑتی۔ کیونکہ بچپن میں انسان کا ذہن صاف سلیٹ یا کورے کاغذ کی مانند ہوتاہے اس پر پادری کے وعظ بھی ایک دوسرے سے نفرت اور تعصب پیدا نہیں کرسکتے۔
سناء جب ذرا بڑی ہوئی تو اسکول میں داخل کرادی گئی جہاں اس کا واسطہ کئی مسلمان لڑکیوں سے پڑا جو پادری کے وعظ کے برعکس اس کے ساتھ بہنوں کا سا سلوک کرتیں اور اسے کبھی یہ احساس نہ ہونے دیتیں کہ وہ ایک غیر مسلم ہے۔ یہاں ان کے محبت و مؤدت اور انس بھرے سلو ک نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ ان میں سے ایک یعنی حناء کے ساتھ تو اس کے بہت گہرے مراسم ہوگئے اور ان دونوں میں اتنی گہری دوستی ہوگئی کہ وہ ایک لمحہ بھی اس سے جدائی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ سوائے اس پیریڈ کے جس میں ایک عیسائی معلمہ اسے مسیحی مذہب کی تعلیم دیتی تھی۔ اس پیریڈ میں بار بار سناء کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا کہ وہ اپنی معلمہ سے پوچھے کہ مسلمان اس قدر بااخلاق ، مہذب و متمدن اور غیر متعصب ہونے کے باوجود آخر کیسے غیر مومن اور ملحد و کافر ہیں جب کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں؟ لیکن استانی کے غیظ و غضب کے ڈر سے وہ یہ سوال نہ کرسکتی۔ تاہم ایک دن اس نے یہ بات کر ہی دی اور اس اچانک سوال نے استانی کو حیران و پریشان کردیا۔ اس نے اپنا غصہ دبانے اور چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اتنا کہا "سناء تم ابھی چھوٹی کمسن ہو یہ باتیں ابھی نہیں سمجھوگی۔ خبردار مسلمانوں کے اخلاق و مروت تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دیں، جب بڑی ہوگی تو ہماری طرح ان کی اصل حقیقت خود بخود تم پر آشکارا ہوجائے گی"۔
سناء کو معلمہ کا یہ غیر مناسب اور قطعی غیر منطقی جواب مطمئن نہ کرسکا۔
اسی اثنا میں سناء کی عزیز ترین سہیلی حناء کے والد کا تبادلہ قاہرہ میں ہوگیا اور وہ قاہرہ جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ جس دن حناء نے قاہرہ جانا تھا دونوں سہیلیاں جدائی کے غم میںآپس میں مل کر خوب روئیں۔ پھر اپنی دوستی کی یادگار کے طور پر دونوں نے تحائف کا تبادلہ کیا۔ حناء نے ایک خوبصورت ڈبے میں بڑے سلیقے اور احترام کے ساتھ قرآن مجید کا تحفہ سناء کو پیش کیا اور کہا "میں نے بہت سوچا اور غور کیا لیکن مجھے اس سے زیادہ قیمتی تحفہ اور کوئی نظر نہیں آیا"۔
سناء نے بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ اس انمول تحفے کو بوسہ دیا اور حناء کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ ظاہر ہے کہ اسے یہ تحفہ اپنے خاندان والوں کی نظروں سے چھپاکر رکھنا تھا۔
حناء کے قاہرہ چلے جانے کے بعد یہی تحفہ اس کا واحد سہارا رہ گیا تھا۔ جونہی پڑوس کی مسجد سے مسلمانوں کو نماز کی دعوت دینے کے لیے اذان کی آواز گونجتی، سناء قرآن مجید نکالتی اور اسے عقیدت سے چومتی اور ساتھ ہی اپنے ارد گرد تجسس کی نظر ڈالتی کہ گھر کا کوئی فرد اسے ایسا کرتے ہوئے دیکھ تو نہیں رہا۔ ایسا کرکے اسے ایک قسم کی ڈھارس سی ملتی۔ دن گزرتے رہے یہاں تک کہ سناء کی شادی کنواری مریم کے گرجا کے نگران سے ہوگئی۔ وہ اس قیمتی تحفے کو لیے پیاکے گھر سدھاری جہاں اسے اس تحفے کو خاوند کی نظروں سے بھی چھپانا تھا۔
پھر سناء کو محرمات کو روکنے والے دفتر میں ملازمت مل گئی جہاں باپردہ مسلمان لڑکیاں ملازم تھیں۔ یہاں سناء کی دوستی کا دائرہ اور وسیع ہوگیا اور حناء کی دوستی کا اثر اور گہرا ہوگیا۔ ان مسلمان سہیلیوں اور پڑوسیوں کے دین اور اخلاق و مروّت سے متاثّر ہو کر عیسائیوں کی زبان سے مسلمانوں اور اسلام کے متعلق جو کچھ سنتی اس کا موازنہ وہ مسلمان سہیلیوں اور پڑوسیوں کے حسنِ سلوک سے کرتی تو ان میں واضح تضاد نظر آتا۔ نیز نہ جانے کیوں جب بھی قریبی مسجد سے اذان گونجتی تو سناء اپنا دل خود بخود اس کی طرف کھنچتا ہوا محسوس کرتی۔ اس کا سبب اسے خود بھی معلوم نہ تھا۔
رفتہ رفتہ اس کے اندر حقیقتِ اسلام جاننے کا زبردست داعیہ پیدا ہوگیا۔ وہ خاوند کی عدم موجودگی میں ریڈیو اور ٹیلی وژن پر شیخ الشعراوی، شیخ النجار اور شیخ النمر جیسے مشائخ کی اسلام کے مختلف موضوعات پر تقریریں سنتی جن میں اس کے دل و دماغ میں ابھرنے والے پریشان کن سوالات کا شافی جواب ملتا۔ مزید برآں شیخ محمد رفعت اور قاری عبدالباسط عبدالصمد کی دل آویز تلاوتِ قرآن سنتی جو اسے بہت اچھی لگتی اور وہ دل ہی دل میں سوچتی کہ یہ دل نشین کلام کسی بشر کا نہیں ہوسکتا۔ (جیسا کہ پادری صاحبان کادعویٰ تھا کہ یہ قرآن محمد ؐ کا اپنا کلام ہے) بلکہ یہ اللہ کا کلام ہے ، یہ وحی الٰہی ہے۔
ایک روز جب کہ اس کا خاوند گرجا میں تھا، سنا ء نے ڈرتے کانپتے ہاتھوں سے وہ مخفی خزانہ یعنی قرآن مجید نکالا۔ جب اسے کھولا تو اس کی نظر اس آیتِ کریمہ پر پڑی:"بے شک مثال عیسیٰ علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم علیہ السلام کی مانند ہے۔ بنایا اسے مٹی سے پھر فرمایا اسے ہوجا تو وہ ہوگیا"۔
اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور پیشانی عرق آلود تھی بلکہ اس کے سارے بدن پر کپکپی طاری تھی۔ وہ خود حیران تھی کہ اس نے بارہا قرآن مجید ریڈیو، ٹیلی وژن اور اپنی مسلمان سہیلیوں سے سناتھا لیکن ایسی حالت اس کی کبھی نہ ہوئی تھی جو آج قرآن کی یہ آیت پڑھنے سے ہوئی تھی۔ وہ اور پڑھنا چاہتی تھی کہ اسے خاوند کے بیرونی دروازہ کھولنے کی آواز سنائی دی۔ اس نے جلدی سے قرآن کو چھپادیا اور کچن میں چلی گئی جہاں وہ اس کے خنزیر کے گوشت اس کی مرغوب ڈش تیار کررہی تھی۔
اس واقعے کے اگلے دن جب وہ اپنے دفتر گئی تو کئی سوالات اس کے دل و دماغ میں ایک عجیب ہلچل مچائے ہوئے تھے۔ اس آیتِ کریمہ نے اس قضیہ کا فیصلہ کردیا تھا۔ آیا عیسیٰ ابن اللہ تھے جیسا کہ عیسائی پادریوں کا عقیدہ تھا یا اللہ کے نبی جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔
اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی صْلب آدم سے تھے پھر وہ ابن اللہ کیسے ہوئے؟ اللہ تعالیٰ تو ان چیزوں سے پاک ہے۔ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ ۔ وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُواً أَحَدٌ ۔
اب سناء پر یہ حقیقت آشکار ہوچکی تھی کہ محمد ؐ بھی اللہ کے رسول ہیں۔ وہ دل میں کلمہ طیبہ پر ایمان لاچکی تھی۔
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُْ مْحَمَّدٌ رَّسْوْلْ اللّٰہِ
لیکن اپنے دفتر میں بیٹھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ کیا اس مرحلے پر وہ اپنے اسلام کا اعلان کرسکتی ہے؟ وہ انہی سوچوں میں مبتلاتھی کہ وہ اپنے اسلام کا اعلان کس طرح کرے؟ ابھی کرے کہ نہ کرے یا مزید انتظار کرے؟ حالات کے سازگار ہونے تک اسے ملتوی کردے؟ بظاہر وہ اپنے کام میں مشغول تھی لیکن اس کے دل و دماغ انہی سوچوں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے کہ اس کا یہ اقدام یعنی اعلانِ اسلام کا عمل اس کے خاوند ، چرچ اور اس کے خاندان کی طرف سے کس قسم کا ردعمل پیدا کرے گا۔
کئی ہفتے وہ اس قسم کے خیالات کے ادھیڑ بْن میں غلطاں و پیچاں رہی۔ عمل اور ردّعمل کے خوف میں مبتلا رہی۔ آخر وہ فیصلہ کن ساعت آہی گئی ، وہ گھڑی آگئی جب اس نے ضلالت و گمراہی کے کمر توڑ بوجھ سے آزادی کا فیصلہ کرلیا۔ وہ دفتر میں انہیں خیالات و تفکرات میں کھوئی ہوئی تھی کہ اس نے قریبی مسجد سے اذان کی آواز سنی جو مسلمانوں کو اپنے رب سے ملاقات اور نمازِ ظہر ادا کرنے کی دعوت دے رہی تھی۔ اس اذان نے اس کے اندر ایک طوفان بپا کردیا۔ اسے ایسا لگا کہ وہ ضلالت و جہالت اور باطل کے گراں بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور حق کو جان لینے کے بعد اور ایک عرصہ سے رواں رواں کے اندر حق کی طلب موجود ہونے کے باوجود حق کے اظہار سے گریز کرکے گناہِ عظیم کا ارتکاب کررہی ہے۔
جب مؤذن نے کہا
اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے بعد اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلَ اللّٰہِ
کے بعد کہا تو وہ دفعتاً اٹھ کھڑی ہوئی اور بلاجھجک بلند آواز سے گویا ہوئی:
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلَ اللّٰہِ ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلَ اللّٰہِ
اس کے کمرے میں موجود اس کی مسلمان سہیلیاں جو اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں، سناء کے منہ سے کلمہئ اسلام سن کے بے اختیار اس کی طرف بڑھیں۔ مبارک مبارک مرحبا کی آوازوں سے کمرہ گونج اٹھا۔ فرطِ مسرت سے ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے۔ ہر ایک نے مبارکباد دیتے ہوئے اسے گلے سے لگایا اور وہ بھی خوب بھینچ بھینچ کر انہیں گلے ملی۔ اس کی آنکھیں بھی خوشی سے پْر نم ہوگئیں۔ اس نے ان سے کہا سب میرے لیے دعا کرو اللہ کریم میری گزشتہ کوتاہیاں اور گناہ معاف کردے اور مجھے اسلام پر استقامت بخشے۔
سناء کے قبولِ اسلام کی خبر آنا فاناً جنگلی کی آگ کی طرح تمام دفتر میں پھیل گئی اور اس کی عیسائی رفیقِ کار لڑکیوں نے یہ خبر اس کے خاندان تک پہنچانے میں ذرا دیر نہ لگائی اور غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ قبل اس کے کہ وہ عدالت میں جا کر باضابطہ طور پر اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کردے اسے اس فعل سے روکیں۔ ادھر سناء نے بھی فوراً عدالت میں جا کر باضابطہ طور پر اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کردیا کہ کہیں اس کا خاوند اور خاندان والے اسے جبراً اعلانِ اسلام سے روک نہ دیں۔ یہ سب کچھ کرکے جب وہ گھر گئی تو اسے یہ معلوم کرکے ذرا بھی ملال نہ ہوا کہ اس کے خاوند نے اس کے ملبوسات اور زیورات اور مال و متاع پر قبضہ کرلیا ہے۔ اسے اگر فکر تھی تو یہ کہ خاوند اس کے بچوں کی تربیت گرجا میں دی جانے والے عقیدہئ تثلیث کے مطابق نہ کرے اور انہیں بھی اپنی طرح جنہم کا ایندھن نہ بنائے۔
اللہ کریم نے اس کی یہ دعا قبول کی۔ مسلمانوں کی ایک انجمن نے اس کی طرف سے عدالت میں درخواست گزاری کہ بچے چونکہ کم سن ہیں، نابالغ ہیں ، تو والدہ کا حق ہے کہ ان کی پرورش کرے لہذا اس کے حق میں فیصلہ کیا جائے۔ عدالت نے اس کے خاوند کو بلا کر پوچھا : آیا وہ بھی اسلام قبول کرکے سناء کے ساتھ رہنا چاہتا ہے یا اپنے آبائی دین پر قائم رہ کر سناء سے علیحدگی چاہتا ہے کیونکہ قرآن کی رو سے ایک مسلمان عورت غیر مسلم خاوند کے نکاح میں نہیں رہ سکتی۔ اس کے خاوند نے قبولِ حق سے انکار کیا تو عدالت نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی اور نابالغ بچوں کی پرورش کا بھی سناء کے حق میں فیصلہ کردیا کیونکہ وہ فطری طور پر والدہ سے زیادہ مانوس ہونے کی وجہ سے اسی کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔
سناء کی مشکلات و مصائب اور ابتلاو آزمائش کا دور اب شروع ہونے والا تھا۔ اگر اس کا خاوند اور خاندان فیصلہ ہوچکنے کے بعد اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تو وہ کسی نہ کسی طرح اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال لیتی لیکن انہوں نے ایک طرف قطع تعلق کرلیا اور دوسرے اسے اپنے آبائی مذہب پر لوٹانے کے لیے حربے آزمائے اور بڑے جتن کیے۔ نیز اس کے جن مسلمان خاندانوں سے تعلقات تھے انہیں دھمکیاں دینی شروع کی کہ کسی طرح اس کی مدد نہ کریں لیکن انہیں شاید یہ علم نہیں تھا کہ اس کی مدد گار تو اللہ کریم کی ذاتِ عالی ہے۔ سناء نے اپنے رب سے دعا کی کہ اللہ کریم اسے ابتلاو آزمائش کی ہر گھڑی میں ثابت قدم رکھے اور مخالفین کی تمام مذموم کوششوں کو جو وہ اسے آبائی دین پر لوٹانے کے لیے کررہے تھے ناکام بنادے۔ اللہ کریم نے اپنی مومنہ کی دعا اس طرح قبول کر لی کہ ایک بیوہ خاتون جس کی اپنی چار بیٹیاں تھیں اور اس کا واحد کفیل اس کا جوا ن بیٹا تھا وہ سناء کے عزم و استقامت سے بہت متاثر ہوئی۔ اس نے سناء کے سرپر دستِ شفقت رکھا اور اپنے بیٹے محمد کا نکاح سناء سے کرنے کی پیش کش کی جو سناء نے کچھ غور و خوض کے بعد قبول کرلی اور اب وہ ہنسی خوشی اس کی چار بہنوں اور بیوہ ماں کے ساتھ پر مسرّت۔۔۔۔۔زندگی گزار رہی ہے۔ اور خدا سے ہر لحظہ اسلام پر استقامت کی دعا کرتی ہے"۔
قارئین کرام! پوری دنیا کے لوگ جب بھی اذان کے پر کشش اور موثر ترین کلمات مبارکہ سماعت کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں تو ان کے قلوب و اذہان کو سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ اور وہ اذان کے کلمات پرغور و فکر کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج ہی سے عہد کریں کہ وہ اذان کے کلمات حسنہ کو سماعت کرنے کے بعد اس پر غوروفکر کریں۔ اس کا قولی و عملی طور پر جواب دیں۔ بقولِ علامہ اقبال
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
ایک مسلمان کا مقصد حیات اللہ تعالیٰ کا عرفان ہے۔ اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔ بقول
 میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں ، میں اسی لیے نمازی



Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post