یہ سوال کہ "جب
اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری سے واقف تھا تو اس پر اتنا بھاری بوجھ کیوں ڈال دیا
جس کو پہاڑ بھی اٹھانے کے متحمل نہ تھے؟"
صدیوں سے انسانی فکر کا مرکز رہا ہے۔ بظاہر
انسان ایک ناتواں، ضعیف اور خواہشات کے جال میں پھنسا ہوا وجود معلوم ہوتا ہے، مگر
حقیقت اس سے کہیں زیادہ عمیق ہے۔ قرآن مجید میں انسان کی تخلیق کا مقصد اور اس کی
حیثیت صرف جسمانی کمزوری سے متعین نہیں ہوتی بلکہ اس کی اصل پہچان اس کی روحانی
عظمت، ذہنی وسعت اور اخلاقی صلاحیت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے
انسان کو محض ایک کمزور مخلوق کے طور پر نہیں بنایا بلکہ اس کے بارے میں آیت خلافت
میں اعلان فرمایا:
إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (سورۂ
البقرہ — آیت 30)
بیشک میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا
ہوں۔
یعنی انسان زمین
پر اللہ کا نائب اور نمائندہ ہے۔ یہ شرف کسی اور مخلوق کو عطا نہیں ہوا۔ یہی وجہ
ہے کہ فرشتوں کو بھی انسان کی تکریم کا حکم دیا گیا۔ انسان کو سمع، بصر اور فؤاد جیسی
صلاحیتیں، عقل و شعور، ارادہ و اختیار اور سوچنے کا لا محدود نظام عطا کیا گیا۔
اللہ کی نظر میں انسان کی وقعت اس کی کمزوری سے نہیں بلکہ اس امانت اٹھانے کی
استعداد سے جڑی ہے۔
اسی مناسبت سے
سورۂ احزاب میں ذکر آتا ہے کہ اللہ نے امانت کو پیش کیا تو آسمان، زمین اور پہاڑ
جیسے عظیم اجسام نے اسے اٹھانے سے انکار کیا؛ مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یہاں خدا
نے آیت امانت میں یہ بھی فرمایا:
إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (سورۂ
الاحزاب — آیت 72)
بیشک انسان بڑا ہی
ظالم اور سخت جاہل ہے۔
یہ وصف انسان کی
پستی کی طرف نہیں بلکہ اس کے مجموعی مزاج کی طرف اشارہ ہے۔ انسان بیک وقت اعلیٰ
ترین صلاحیتوں کا مالک بھی ہے اور جذبات، خواہشات اور کمزور ترجیحات کا شکار بھی
ہو سکتا ہے۔
اصل نکتہ یہ ہے کہ
انسان نے یہ امانت غرورِ قوت کے ساتھ قبول کی۔ اس نے اپنی ذہانت، اپنی شعوری وسعت
اور اپنی فکری صلاحیت کو تو اچھی طرح پہچانا، مگر خواہشاتِ نفس، ترغیباتِ دنیا،
اور جذباتی کمزوریوں کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکا۔ اس نے گمان کیا کہ ہدایت کو
پہچاننا اس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہوگی، وہ آسانی سے اپنی ترجیحات طے کر لے گا،
اور عقل کی روشنی میں حق کو پا لے گا۔ اس نے اپنی طاقت کو دیکھا مگر کمزوری کا
درست اندازہ نہ کیا—اسی لیے اسے ’’ظلوم‘‘ اور ’’جہول‘‘ کہا گیا۔
یہاں ظلم سے مراد
بدنیتی نہیں بلکہ ترجیحات کی غلطی ہے، اور جہالت سے مراد علم کی کمی نہیں بلکہ انسانی
جذبات اور نفسانی میلانات کا صحیح ادراک نہ کرنا ہے۔ یوں کہیے کہ انسان نے اپنی
قوت پہ بھروسا کیا مگر اپنی کمزوری سے بے خبر رہا۔ اللہ نے بوجھ انسان پر اس لیے
ڈالا کہ وہ اس بوجھ کو اٹھانے کی اصل قابلیت رکھتا ہے۔ اگر انسان کمزور اور ناتواں
محض ہوتا تو اسے خلافتِ ارض نہ دی جاتی، نہ ہی وحی، شریعت اور ہدایت اس کے سپرد کی
جاتی۔
حقیقت یہ ہے کہ
انسان کو جو بوجھ دیا گیا ہے، وہ اس کی استعداد سے بڑھ کر نہیں۔ جیسا کہ اللہ رب
العزت نے آیت وسعت میں اعلان فرمایا:
لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (سورۂ
المؤمنون — آیت 62)
ہم کسی جان کو اُس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف
نہیں دیتے۔
انسان کو اختیار،
عقل، وحی اور انبیاء کی رہنمائی دے کر اسے اس قابل بنایا گیا کہ وہ اس ذمہ داری کو
نبھائے۔ اس کے اندر خیر بھی ہے اور شر کا امکان بھی، بلندی کی قوت بھی ہے اور پستی
کا خطرہ بھی۔ یہی تضاد اس کو آزمائش کا میدان اور کائنات کا سب سے عظیم کردار بناتا
ہے۔
درحقیقت اللہ نے
انسان پر بوجھ نہیں ڈالا بلکہ اسے عزت اور قابلیت کے اعلیٰ درجے تک اٹھایا ہے۔ انسان
کی کمزوری اس کی اصل نہیں؛ اصل اس کا وہ مقام ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا
گیا—خلافت، ذمہ داری اور اخلاقی بلندی کا مقام۔
Post a Comment