انسان کی خدا شناسی کا سفر اس کے اپنے انسانی تجربات، احساسات اور رشتوں سے شروع ہوتا ہے۔ وہ محبت، خلوص اور رحمت کو پہلے انسانوں کے رویّوں میں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ جب وہ کسی ماں کی بےغرض محبت، کسی باپ کی بےانتہا شفقت اور کسی دوست کی مخلصی کا تجربہ کرتا ہے تو یہ سب تجربے اس کے ذہن میں ایک سوال بیدار کرتے ہیں کہ جس ذات نے ان سب محبتوں کو پیدا کیا ہے، اس کی محبت کیسی ہوگی؟ جب مخلوق کی محبت اتنی گہری اور خالص ہو سکتی ہے تو خالق کی محبت کی وسعت اور خلوص کا عالم کیا ہوگا؟

پروفیسر عرفان شہزاد کے مطابق قرآن مجید میں خدا نے خود کو کہیں بھی "ماں جیسی ہستی" نہیں کہا بلکہ اپنا تعارف رب، بادشاہ اور معبود کے طور پر کرایا ہے۔ وہ اپنے بندوں کو اولاد نہیں بلکہ بندہ کہتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کا مقام اطاعت، شکر اور صبر ہے۔ وہ اپنی شرائط پر اپنی بندگی چاہتا ہے اور اس کی رحمت عدل کے دائرے میں ہے، بے اصولی میں نہیں۔ اس تصور میں خدا کا جلال اور اقتدار نمایاں ہے۔

تاہم دوسری طرف صوفیاء اور اہل دل نے ہمیشہ خدا کے جمالی پہلو کو اجاگر کیا۔ ان کے نزدیک خدا نہ صرف قہار و جبار ہے بلکہ “ارحم الراحمین” بھی ہے۔ حدیثِ صحیحین میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا"

یعنی "اللہ اپنے بندوں پر اس ماں سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے جو اپنے بچے پر کرتی ہے۔"

یہ حدیث خدا کی محبت کی انتہا کو ظاہر کرتی ہے۔ عربی محاورے میں اسے “ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا” کہا گیا — اور یہ تشبیہ صرف احساس کے اظہار کے لیے ہے، عقیدے کی تشکیل کے لیے نہیں۔

قرآن میں بھی خدا کا انداز محض بادشاہ کا نہیں، بلکہ ایک محبت کرنے والے رب کا ہے۔

"یَا أَیُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِيمِ"

اے انسان! تجھے اپنے کریم رب سے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا؟
یہ خطاب کسی مالک کا غلام سے نہیں بلکہ ایک محبوب کا اپنے روٹھے دوست سے معلوم ہوتا ہے۔

اسی لیے حدیثِ قدسی میں فرمایا: "أنا عند ظن عبدي بي" — "میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں۔"

اگر کوئی خدا کو قہار سمجھے تو وہ اس پر قہار بن کر ظاہر ہوگا، اور اگر کوئی اسے محبت کرنے والا دوست مانے تو وہ اسی محبت سے پیش آئے گا۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی حقیقت جلال اور جمال دونوں پہلوؤں کا حسین امتزاج ہے۔ فقہاء نے اس کے جلال کو نمایاں کیا تاکہ بندے میں خوفِ خدا پیدا ہو، اور صوفیاء نے اس کے جمال کو اجاگر کیا تاکہ بندے میں محبت و اُنس پیدا ہو۔ درحقیقت، بندگی کی تکمیل اسی وقت ہوتی ہے جب خوف اور محبت، عدل اور رحمت، جلال اور جمال — سب ایک ساتھ دل میں جمع ہوں۔

انسان کی مثال ایسی ہے جیسے ماں اپنے بگڑے ہوئے بچے کو بھی بار بار معاف کرتی ہے کیونکہ وہ "اپنا" ہے۔ خدا کی محبت اس سے کہیں بلند تر ہے، کیونکہ اسی نے یہ محبت پیدا کی ہے۔ یہی توازن انسان کو رب کے جلال سے جھکنے اور اس کے جمال سے اُٹھنے کا حوصلہ دیتا ہے — اور یہی معرفتِ الٰہی کا اصل دروازہ ہے۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post