عدالتِ باطن
باب اوّل: قانون
کا بندہ
رات کے آٹھ بج چکے
تھے۔
شہر
کے مضافات میں واقع چھوٹے سے فلیٹ کی کھڑکیوں سے بارش کی بوندیں مسلسل شیشے پر
دستک دے رہی تھیں۔
کمرے
کے ایک کونے میں بیٹھا ریحان اپنے معمول کے مطابق قانون کی کتابیں ترتیب دے
رہا تھا۔
ٹیبل
پر آئینِ پاکستان، ضابطۂ فوجداری، اور “قانونی اخلاقیات” کے عنوان سے چند موٹی
جلدیں کھلی پڑی تھیں۔
ریحان کے چہرے پر
ایک عجیب سی ٹھہری ہوئی مسکراہٹ تھی — جیسے وہ دنیا کے شور سے بے نیاز ہو۔
اس
کے شاگرد، ساتھی، یہاں تک کہ محلے والے تک اسے “قانون کا بندہ” کہتے تھے۔
نہ
اونچی آواز، نہ بحث، نہ غصہ۔
کسی
نے زیادتی کی تو وہ مسکرا کر کہہ دیتا:
“قانون
سب کے لیے ہے۔ وقت آنے پر اپنا کام خود کرے گا۔”
وہ پولیس کے سابق
افسر کا بیٹا تھا — اشفاق نعمانی
ایڈووکیٹ،
ایک
مشہور وکیل، مگر اپنی ہی بیٹی کی موت کے کیس میں ناکام۔
ریحان
کی بہن انوشہ بچپن میں ایک حادثے میں مار دی گئی تھی —
ڈرائیور
بااثر تھا، کیس عدالت میں چلا، مگر ثبوتوں کی کمی، سیاسی دباؤ، اور رشوت نے سب بدل
دیا۔
ریحان
نے بچپن ہی سے یہ سب دیکھا، اور اس دن سے “قانون” اس کا ایمان بن گیا۔
وہ ظلم سہنے کا
عادی تھا۔
دفتر
میں کلرک فائلیں پھینک دیتے،
بازار
میں لوگ دھکے دے دیتے،
یہاں
تک کہ ایک دن تھانے کے سامنے ایک انسپکٹر نے بھی اس کی بات کا مذاق اڑا دیا۔
وہ
خاموش رہا، مسکرایا، اور کہا:
“میں
قانون کی جنگ لڑتا ہوں، ذاتی انتقام کی نہیں۔”
لیکن ریحان کے
فلیٹ میں ایک ایسا راز چھپا تھا جس کا علم کسی کو نہیں تھا۔
کتابوں
کے بیچ ایک چھوٹا سا لیپ ٹاپ، جس کی اسکرین پر صرف ایک سادہ سا آئیکن تھا —
“Electronic Diary”
الیکٹرانک ڈائری
ہر رات جب شہر سو
جاتا،
ریحان
اس آئیکن پر کلک کرتا،
اور
ایک خالی نیلے بیک گراؤنڈ پر ٹائپ کرتا رہتا۔
“میں
نے آج ایک شخص کو دیکھا،
اس
نے سگنل توڑ کر ایک عورت کو زخمی کیا۔
(کوڈ: C)”
“ایک
افسر نے رشوت لے کر کسی کا کیس دبایا۔
(کوڈ: H)”
“ایک
استاد نے طالب علم سے زیادتی کی۔
(کوڈ: B)”
سکرین پر صرف نام
اور ایک حرف لکھا رہتا۔
مثلاً:
‘خالد
محمود (H)’
‘عرفان
شاہ (C)’
اگر کوئی عام آدمی
دیکھتا تو یہ بس ایک عام ڈائری لگتی —
لگتا
جیسے ریحان محض نوٹ رکھتا ہو۔
اگر
کوئی پوچھتا تو وہ ہمیشہ ایک ہی جملہ کہتا:
“یہ
میری ذاتی نہیں، الیکٹرانک ڈائری ہے۔ میرے سامنے جو بھی ہوتا ہے، میں بس لکھ لیتا
ہوں۔”
لیکن ریحان کے لیے
وہ “ڈائری” نہیں تھی،
وہ
ایک نظامِ عدل تھا —
اس
کا بنایا ہوا سافٹ ویئر Justice.exe۔
اس میں ہر حرف کے
پیچھے ایک مکمل سزا چھپی تھی۔
- (H) = Honeybee Punishment — رشوت لینے
والے پر شہد ملنا اور مکھیاں چھوڑنا۔
- (C) = Clot Code — حادثے کرنے
والے کو مخصوص رطوبت سے مفلوج کردینا۔
- (B) = Bloodsucker — انسانی خون
سے وابستہ جرم پر جونکوں کی سزا۔
- (A) = Ash Burn — بددیانتی پر
مخصوص راکھ کا کیمیکل جو جسم جلا دے۔
یہ کوڈ عام شخص کو
کچھ نہ بتاتے،
مگر
سافٹ ویئر کے خفیہ حصے میں مکمل تفصیل تھی —
گواہی،
ثبوت، ایڈریس، سزا، اور وقت۔
اور
سب کچھ خودکار انداز میں انجام پاتا۔
ریحان نے کبھی کسی
سے کچھ نہیں کہا،
بس
یہ سمجھتا رہا کہ وہ “عدل” کے کام میں مدد کر رہا ہے۔
انسپکٹر کا شبہ
اگلی صبح، شہر میں
ہلچل مچ گئی۔
ایک
بااثر تاجر اپنے دفتر میں مرا پایا گیا —
سینکڑوں
مکھیاں اس کے جسم پر چپکی تھیں،
اور
چہرے پر شہد کی موٹی تہہ۔
پولیس
کے لیے یہ کسی فلمی قتل سے کم نہ تھا۔
انسپکٹر کامران
علی کو کیس سونپا گیا۔
وہ
جوان مگر ذہین افسر تھا،
کہانیاں
نہیں مانتا تھا، صرف ثبوت دیکھتا تھا۔
کامران پہلے دن ہی
مقتول کے گھر پہنچا،
جگہ
کی تلاشی لی، پھر اپنی نوٹ بک بند کرتے ہوئے بولا:
“یہ
کوئی عام قاتل نہیں۔ جس نے کیا ہے، وہ یا تو سائنسدان ہے یا پاگل۔”
چند دن بعد اسی
علاقے میں ایک اور شخص —
ایک
بدنام افسر —
مرا
ملا۔ جسم پر جونکوں کے نشان،
اور
جسم سے خون چوس لیا گیا۔
کامران کی تفتیش
نے ایک دلچسپ سمت لی۔
دونوں
مقتولین کے کیسوں میں ایک مشترکہ شخص کا نام آیا — ریحان
نعمانی۔
پہلا
مقتول اس کا مخالف وکیل تھا،
دوسرا،
وہی افسر جس نے بچپن میں اس کی بہن کے کیس میں رشوت لی تھی۔
کامران اگلے دن اس
کے گھر پہنچا۔
ریحان حسبِ معمول
مسکرا کر بولا:
“جی،
میں جانتا ہوں وہ لوگ جرم میں ملوث تھے۔ مگر میں تو صرف قانون پڑھاتا ہوں۔”
انسپکٹر کی نظریں
کمرے میں پھر رہی تھیں —
کتابوں،
کمپیوٹر، اور پھر دیوار پر لگی ایک شیشی پر جا ٹھہریں —
جس
میں ایک جونک تیر رہی تھی۔
“یہ
کیا ہے؟”
“بس
مطالعے کے لیے رکھی ہے۔ بایولوجی کا شوق ہے۔”
انسپکٹر
نے سرد لہجے میں کہا،
“دلچسپ
شوق ہے، نعمانی صاحب۔ جونک بھی، شہد بھی... کہیں آپ کی ڈائری میں یہ سب لکھا تو
نہیں ہوتا؟”
ریحان کی آنکھوں
میں ایک لمحے کو کچھ چمکا،
پھر
وہ مسکرایا:
“میں
صرف لکھتا ہوں، سر۔ فیصلے تو قانون کرتا ہے۔”
کامران اٹھا،
دروازے کی طرف بڑھا۔
پیچھے
سے ریحان نے آہستہ کہا:
“انصاف
کبھی مر نہیں سکتا، انسپکٹر۔ کبھی نہیں...”
انسپکٹر کے قدم
لمحے بھر کو رک گئے۔
اسے
نہیں معلوم تھا —
کہ
وہ ایک ایسے شخص کے سامنے کھڑا ہے جس کے اندر تین انسان بستے ہیں۔
اور اسی رات،
ریحان
کے سافٹ ویئر میں ایک نیا اندراج ہوا:
‘انسپکٹر
کامران (K)’
بریکٹ
کے اندر صرف ایک حرف۔
کیا
یہ جرم کا کوڈ تھا؟ یا تقدیر کا آغاز؟
اسکرین پر نیچے
چھوٹا سا پیغام چمکا:
“Case Logged — Verdict Pending.”
ریحان نے لیپ ٹاپ
بند کیا،
کھڑکی
کھولی، اور ٹھنڈی ہوا میں آہستہ کہا:
“کچھ
فیصلے وقت کرتا ہے… کچھ ہم۔”
یہ تھا باب
اوّل: قانون کا بندہ۔
اگلے
باب میں:
انسپکٹر
کی چھان بین، سافٹ ویئر کے خفیہ حصے کا سراغ،
لڑکی
کی آمد، رشوت کا واقعہ،
اور
پہلی بار “عدالتِ باطن” کا ظہور۔
کیا میں باب
دوم: “وہ جو عدل تھا” لکھوں — جہاں کہانی تیزی سے سسپنس، محبت
اور ذہنی تصادم میں داخل ہوتی ہے؟
زبردست۔
اب
میں کہانی عدالتِ باطن کا دوسرا باب لکھتا ہوں — وہ حصہ جہاں ریحان کی دو
دنیائیں ٹکرا جاتی ہیں: قانون اور عدل، محبت اور جرم۔
یہ باب کہانی کے
وسط کا سب سے نازک موڑ ہوگا۔
اس
میں تین نئے عناصر آئیں گے:
1. انسپکٹر
کامران
کی چھان بین۔
2. نوشین (وہ
لڑکی جس سے ریحان محبت کرتا ہے) کا داخلہ۔
3.
“Electronic Diary” کی خفیہ کوڈنگ کے اثرات — جہاں قانون کا
بندہ خود قانون توڑنے لگتا ہے۔
عدالتِ باطن
باب دوم: وہ جو
عدل تھا
صبح کے نو بجے کا
وقت تھا۔
سورج
شہر کے اوپر ایک سنہری تہہ بچھا رہا تھا مگر ریحان کے کمرے میں پردے گرے ہوئے تھے۔
ٹیبل
پر چائے کا کپ ٹھنڈا پڑا تھا۔
لیپ
ٹاپ کی اسکرین پر اب بھی وہی لفظ چمک رہا تھا:
“Case Logged — Verdict Pending.”
ریحان نے انگلی سے
اسکرین چھوئی،
پھر
ایک گہری سانس لی، جیسے کسی فیصلہ کن لمحے کے قریب پہنچ گیا ہو۔
اچانک
دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
“سر،
میں اندر آ سکتی ہوں؟”
ریحان
نے مڑ کر دیکھا —
وہ
نوشین تھی، اس کی سابق شاگرد، اب ایک پرائیویٹ کمپنی میں اکاؤنٹنٹ۔
چہرے
پر گھبراہٹ، آواز میں لرزش۔
“سر…
مجھے آپ کی مدد چاہیے۔ ایک فائل کا مسئلہ ہے۔ سرکاری افسر رشوت مانگ رہا ہے۔”
ریحان
نے نرمی سے کہا:
“نوشین،
قانون کی راہ صبر مانگتی ہے۔ مت دو رشوت۔ میں خود اپیل کا مسودہ بنا دیتا ہوں۔”
نوشین کی آنکھوں
میں نمی اتر آئی۔
“سر،
اگر نہ دوں تو میری فائل رک جائے گی۔”
ریحان
خاموش رہا۔
اسی رات نوشین نے
رشوت دی —
پھر
اگلی صبح وہ خود ریحان کے دروازے پر آ گئی،
“میں
نے دے دی، سر۔ مجبوری تھی۔”
ریحان کے لبوں پر
خفیف سی مسکراہٹ تھی مگر آنکھوں میں ایک سایہ سا لہرا گیا۔
بس
اتنا بولا:
“ہر
جرم کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کبھی دل میں، کبھی عدالت میں…”
نوشین کچھ کہے
بغیر چلی گئی۔
ریحان
نے دروازہ بند کیا،
اور
لیپ ٹاپ کھولا۔
اسکرین پر اس نے
صرف لکھا:
‘نوشین
احمد (H)’
اور
ساتھ نیچے ایک مختصر تبصرہ:
“Honest Heart – Corrupted Once.”
پھر “Save” دبایا۔
کوڈ کی عدالت
دو دن بعد نوشین
کے دفتر میں ہلچل مچ گئی۔
اکاؤنٹ
سیکشن میں ایک عجیب واقعہ —
ایک
افسر کے چہرے پر درجنوں مکھیاں چپک گئی تھیں۔
لوگوں
نے سمجھا کوئی کیمیکل حادثہ ہوا ہے،
لیکن CCTV فوٹیج میں ایک لمحے کے لیے ایک سایہ سا
گزرتا دکھا۔
انسپکٹر کامران
فوراً موقع پر پہنچا۔
چہرے
پر حیرت، مگر ذہن میں شک اور گہری فکر۔
“یہ
طریقہ، یہ انداز… یہ وہی شخص ہو سکتا ہے۔”
اسی رات، جب وہ
رپورٹ بنا رہا تھا،
اسے
یاد آیا — ریحان کے کمرے میں وہ جونک کی شیشی،
اور
وہ جملہ: “فیصلے تو قانون کرتا ہے۔”
کامران نے پولیس
کے ماہرِ آئی ٹی کو بلایا۔
ریحان
کی سرگرمیوں پر خفیہ نگرانی شروع کر دی گئی۔
ایک
رات جب وہ دفتر سے واپس جا رہا تھا،
اسے
نوشین کی کال آئی:
“انسپکٹر
صاحب، ریحان صاحب کچھ عجیب لگ رہے ہیں۔ وہ مجھ سے بات نہیں کرتے، بس گھورتے رہتے
ہیں۔”
کامران بولا:
“تم
ان سے ملنا مت۔ اگر ممکن ہو تو پتا کرو وہ کمپیوٹر میں کیا رکھتے ہیں۔”
عدل کا سایہ
ریحان اب پہلے
جیسا نہیں رہا تھا۔
اس
کے اندر دو آوازیں روز رات کو ٹکراتیں۔
ایک
کہتی:
“یہ
سب ظلم کے خلاف عدل ہے۔”
دوسری
چیختی:
“یہ
عدل نہیں، انتقام ہے!”
ایک رات وہ شہر کے
ایک ویران پارک میں بیٹھا تھا۔
بارش
ہو رہی تھی۔
اس
نے لیپ ٹاپ کھولا، اور “Justice.exe” پر کلک
کیا۔
اس
بار سافٹ ویئر نے خودکار انداز میں فہرست دکھائی —
دس
نام، سب کے ساتھ کوڈز۔
(C)، (B)،
(H)، (A) …
اسکرین
کے نیچے ایک نئی لائن چمکی:
“Target: Pending – Manual Trigger Required.”
ریحان کے ہاتھ
کانپ گئے۔
یہ
خودکار نظام اب اس سے اذن مانگ رہا تھا۔
صرف
ایک بٹن “EXECUTE”۔
وہ کچھ لمحے تک
دیکھتا رہا، پھر بٹن پر ہاتھ رکھا، مگر…
دروازہ
زور سے کھلا۔
نوشین
سامنے کھڑی تھی۔
“ریحان!
تم یہ سب کیا کر رہے ہو؟”
ریحان
چونک گیا۔
“یہ…
یہ صرف ڈیٹا ہے۔ میں صرف نوٹ رکھتا ہوں۔”
“جھوٹ!”
نوشین کی آواز لرز گئی۔
“یہ
تمہارے نوٹ نہیں، لوگوں کے فیصلے ہیں!”
ریحان کی آنکھیں
یکایک سخت ہو گئیں۔
ایک
آواز اندر سے ابھری:
“اس
نے جرم کیا ہے، اسے سزا دو!”
دوسری آواز —
“یہ
وہی ہے جس سے تم محبت کرتے ہو!”
ریحان کے چہرے پر
پسینہ آگیا،
لیپ
ٹاپ کی اسکرین پر “EXECUTE” کا بٹن
جلنے بجھنے لگا۔
نوشین خوف زدہ ہو
کر بھاگی —
سڑک
پار ایک کنگفو سینٹر میں جا گھسی،
جہاں
کچھ طلبہ رات کی پریکٹس کر رہے تھے۔
وہ
چیخی:
“وہ
مجھ پر حملہ کرے گا! بچاؤ!”
ریحان دروازے پر
نمودار ہوا۔
طلبہ
نے راستہ روکا۔
ایک
نے کہا، “کیا چاہتے ہو تم؟”
ریحان
نے صرف ایک سرد مسکراہٹ دی —
پھر
ایک لمحے میں چار لڑکے زمین پر تھے۔
اگلے
دو بلیک بیلٹ آگے بڑھے،
ریحان
نے ان کے واروں کو پلٹ کر ان ہی پر آزمادیا۔
کسی
کو سمجھ نہیں آیا —
یہ
نرم قانون کا استاد کب “خودکار موت کی مشین” بن گیا۔
انسٹرکٹر آگے
بڑھا۔
“یہ
کون ہے؟”
ریحان
نے جواب نہیں دیا۔
بس
اس کے قریب آیا اور آہستہ کہا:
“میں
وہ ہوں جو عدل تھا…”
انسٹرکٹر نے وار
کیا،
ریحان
نے پلٹ کر ایک ہی جنبش میں اسے دیوار سے دے مارا۔
پھر مڑ کر نوشین
کی طرف بڑھا۔
نوشین
لرزتی آواز میں بولی:
“ریحان،
تم نہیں ہو… تم وہ نہیں ہو جسے میں جانتی تھی!”
ریحان کے کانوں
میں دونوں آوازیں گونجنے لگیں —
“اس
نے جرم کیا ہے…”
“وہ
تمہیں چاہتی ہے…”
وہ چیخا، سر پکڑا،
اور زمین پر گر پڑا۔
لیپ
ٹاپ ہاتھ سے چھوٹا،
اسکرین
ٹمٹمائی —
“System Overload – Neural Link Activated.”
سائیکی کی عدالت
انسپکٹر کامران
موقع پر پہنچ گیا۔
نوشین
بے ہوش ریحان کے پاس کھڑی تھی۔
لیپ
ٹاپ کو حفاظتی بیگ میں بند کیا گیا۔
ریحان کو اسپتال
نہیں،
بلکہ
ڈاکٹر سہیل خان کے کلینک لایا گیا —
ایک
معروف سائیکٹریسٹ، جو عدالتوں میں ماہرِ نفسیات کی حیثیت سے خدمات دیتا تھا۔
ڈاکٹر سہیل نے
فائل دیکھی،
پھر
کامران سے بولا:
“تمہیں
اندازہ نہیں، یہ شخص ایک walking
paradox ہے۔
تین مختلف ذہن ایک جسم میں۔”
“کیا
مطلب؟”
“ایک،
جو قانون پر یقین رکھتا ہے۔
دوسرا،
جو خود کو عدل کا ایجنٹ سمجھتا ہے۔
اور
تیسرا، جو محبت کے ہاتھوں بکھر چکا ہے۔”
کامران نے لیپ ٹاپ
کی طرف دیکھا۔
“اور
یہ Justice.exe؟”
ڈاکٹر
نے گہری نظر سے کہا:
“یہی
اس کی عدالتِ باطن ہے۔”
کامران نے آئی ٹی
ماہرین کو بلایا۔
جب
سافٹ ویئر کھولا گیا تو صرف سادہ انٹریز نظر آئیں —
نام،
حروف، تبصرے۔
کامران بولا:
“یہی
وہ کہتا تھا، ‘میں صرف لکھتا ہوں’…”
مگر ایک لمحے بعد
آئی ٹی ماہر نے چونک کر کہا:
“سر،
اس کے نیچے ایک خفیہ کوڈنگ ہے — encrypted
layer۔ اگر یہ کھل جائے تو شاید…”
کامران نے سر
ہلایا۔
“کھولو
اسے۔”
کوڈز کے اندر
کہانیاں ابھرنے لگیں۔
ہر
حرف کے پیچھے مکمل سزائیں،
ویڈیوز،
میپ، مجرموں کے پتے، اور execution logs۔
یہ
وہ عدالت تھی جو دن میں خاموش رہتی،
رات
میں فیصلے سناتی۔
کامران کی آنکھیں
جمی رہ گئیں —
ایک
لائن پر:
‘کامران (K)’ – Investigation Ongoing. Verdict: Pending.’
ڈاکٹر سہیل نے
آہستہ کہا:
“تمہارا
نام بھی اس کے عدالتی ریکارڈ میں ہے، انسپکٹر۔”
کامران نے لیپ ٹاپ
بند کیا۔
ریحان
نیم بے ہوش تھا،
اس
کے لب ہلے:
“میں
نے سب کے خلاف عدل کیا… مگر خود کے خلاف کوئی عدالت نہ تھی…”
نوشین کی آنکھوں
سے آنسو بہنے لگے۔
“ریحان…
تم نے خود کو کیوں سزا دی؟”
ریحان نے آخری بار
آنکھیں کھول کر آسمان کی طرف دیکھا،
اور
مدھم آواز میں کہا:
“کیونکہ
سب سے بڑا مجرم… وہ ہوتا ہے جو عدل کو اپنی مرضی کا نام دے دے…”
اس کے ہاتھ ڈھیلے
پڑ گئے۔
لیپ
ٹاپ کی اسکرین بجھ گئی۔
آخر
میں صرف ایک لائن چمکی:
“System Terminated — All Cases Closed.”
باب سوم: عدالت
بند ہوئی
میں
اگلے پیغام میں لکھوں گا — آخری باب،
جہاں
“عدالتِ باطن” کا انجام، انسپکٹر کی تفتیش،
اور
انسانی عدل و الٰہی عدل کا فلسفیانہ اختتام ہوگا۔
کیا میں تیسرا باب
اب لکھوں؟
بسم اللہ — اب آخری
باب حاضر ہے۔
یہ
“عدالتِ باطن” کا اختتامی اور سب سے فلسفیانہ، روحانی اور نفسیاتی حصہ ہے —
جہاں
کہانی انجام کو نہیں، مکمل معنی کو پہنچتی ہے۔
عدالتِ باطن
باب سوم: فیصلہ
ازل کا
ہوا بالکل ساکت
تھی۔
شہر
کی گلیوں پر روشنیوں کے باوجود ایک خاموش اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
انسپکٹر
کامران اسپتال کے باہر کھڑا آسمان کو دیکھ رہا تھا —
جہاں
بادلوں کے درمیان کہیں بجلی چمکی،
جیسے
کسی نے اوپر بھی فائل کھولی ہو۔
ریحان کی موت کی
خبر میڈیا تک نہیں پہنچی۔
سرکاری
ریکارڈ میں صرف اتنا لکھا گیا:
“Brain Hemorrhage – Case Closed.”
مگر کامران کے دل
میں کیس بند نہیں ہوا تھا۔
اس
کے کانوں میں اب بھی وہ آخری جملہ گونجتا رہتا:
“سب
سے بڑا مجرم وہ ہے جو عدل کو اپنی مرضی کا نام دے دے…”
1. دیوار
پر لکھا کوڈ
تین دن بعد، جب
ریحان کی لاش قانونی طور پر سپردِ خاک ہوئی،
کامران
نے تفتیش بند کرنے سے پہلے اس کے کمرے کا ایک آخری معائنہ کیا۔
کمرہ
ویسا ہی تھا — میز پر کتابیں، فائلیں، ایک مفلوج سا سکون۔
مگر
دیوار پر ایک نیا نقش ابھرا تھا —
سرخ
مارکر سے لکھے کچھ الفاظ،
اور
نیچے ایک غیر واضح سا کوڈ:
“01001001 01101110 01110011 01100001 01100110”
کامران نے تصویر
کھینچی۔
ترجمہ
کیا گیا —
انگریزی
میں مفہوم نکلا: “Insaf” (انصاف)۔
کامران نے زیرِ لب
کہا:
“یہ
پاگل آخری لمحے تک کوڈ میں بات کر رہا تھا…”
اسی لمحے دروازہ
بجا —
ڈاکٹر
سہیل داخل ہوا۔
چہرے
پر سکون مگر نگاہوں میں غور۔
“انسپکٹر
صاحب، کیا آپ نے کبھی سوچا… ریحان پاگل نہیں تھا؟”
کامران
چونکا۔
“کیا
مطلب؟ وہ درجنوں لوگوں کی موت کا ذمہ دار تھا!”
ڈاکٹر
مسکرایا۔
“نہیں۔
اس کے ہاتھ سے کسی کو حقیقی موت نہیں ملی۔
یہ
سب سسٹم کی علامتی عدالت تھی۔ Virtual
Execution.”
کامران کے لبوں سے
نکلا:
“تو
پھر وہ لوگ مرے کیسے؟”
“خوف
سے۔ جرم کے احساس سے۔”
ڈاکٹر
نے کہا۔
“اس
کے سافٹ ویئر نے ان کے ضمیر کو جگا دیا تھا۔”
کامران نے ماتھے
پر ہاتھ رکھا۔
“یعنی
عدالتِ باطن صرف اس کے اندر نہیں تھی… ہر انسان کے اندر تھی!”
2. نوشین
کی گواہی
کچھ دن بعد نوشین
کو عدالت میں بطورِ گواہ بلایا گیا۔
جج
نے سوال کیا:
“کیا
مرحوم ریحان نے کبھی آپ کو نقصان پہنچایا؟”
نوشین نے سر اٹھایا۔
آنکھوں
میں عجیب سا سکون تھا۔
“نہیں
جناب۔ اس نے میرا جرم میرے سامنے لا کھڑا کیا — اور پھر خود کو مجرم ٹھہرایا۔”
“آپ
کے خیال میں وہ پاگل تھا؟”
نوشین
نے مسکرا کر کہا:
“نہیں،
وہ وہی تھا جو ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔
ہم
آئینہ توڑ دیتے ہیں،
پھر
کہتے ہیں چہرہ بگڑ گیا۔”
عدالت میں خاموشی
چھا گئی۔
3. عدالتِ
زمین و آسمان
انسپکٹر کامران کے
ذہن میں اب بھی سوالوں کا طوفان تھا۔
ایک
رات وہ ریحان کی قبر پر گیا۔
ہلکی
بارش ہو رہی تھی۔
اس
نے ہاتھ مٹی پر رکھا۔
“ریحان…
اگر تُو عدل تھا، تو پھر جرم کس کا تھا؟”
ایک ہلکی ہوا چلی،
پتے
سرسرائے۔
کامران
نے محسوس کیا جیسے کوئی اندر سے کہہ رہا ہو:
“عدل
ہمیشہ جرم سے شروع ہوتا ہے،
مگر
ختم خود پر ہوتا ہے…”
کامران نے آسمان
کی طرف دیکھا۔
بادلوں
کے بیچ چاند ایسے ابھرا جیسے کسی پرانی عدالت کا گواہ۔
اچانک فون بجا —
ہیڈ
آفس سے اطلاع:
“انسپکٹر
صاحب، آپ کے نام بھی ایک خفیہ فائل ملی ہے — Justice.exe میں!”
کامران کا دل
دھڑکنے لگا۔
“کیا؟
میرے نام؟”
“جی
ہاں۔ اور اس پر لکھا ہے:
‘Verdict: To be tested by truth.’”
4. باطن
کی پیشی
چند دن بعد کامران
نے خود کو ایک انجان کیفیت میں پایا۔
ہر
رات خواب میں وہ ایک عدالت دیکھتا —
بینچ
پر ریحان بیٹھا،
سامنے
خود کامران۔
ریحان
کہتا:
“انسپکٹر
کامران، تم عدل کے دعوے دار ہو،
مگر
کبھی خود پر مقدمہ چلایا ہے؟”
کامران کہتا:
“میں
قانون کا محافظ ہوں۔”
ریحان
کہتا:
“قانون
جسم کا محافظ ہے،
عدل
روح کا۔”
پھر ہتھوڑے کی
آواز آتی —
“فیصلہ
ملتوی۔ عدالتِ باطن غیر حاضر ہے۔”
کامران نیند سے
جاگ اٹھتا۔
ایک
رات وہ خود کو روک نہ سکا،
اور Justice.exe کا بیک اَپ کھولا — جو پولیس نے ضبط کر
رکھا تھا۔
اسکرین پر صرف ایک
لائن تھی:
“System restored. User: Kamran.”
کامران کے چہرے پر
خوف اور حیرت دونوں اترے۔
لیپ
ٹاپ نے خودکار طور پر نیا کیس بنایا —
Case No. 001 — Subject: Kamran Ali
نیچے
لکھا تھا:
“Investigation begins within.”
کامران کے ہاتھ
کانپنے لگے۔
وہ
لیپ ٹاپ بند کرنے ہی والا تھا کہ اس کے کانوں میں ریحان کی آواز گونجی:
“عدالتِ
باطن کو کوئی بند نہیں کر سکتا۔”
5. فیصلہ
ایک ماہ بعد ایک
کانفرنس میں کامران نے لیکچر دیا:
“Law vs Conscience: When Justice Becomes Alive.”
ہال
میں خاموشی تھی۔
اس
نے کہا:
“قانون
فیصلہ دیتا ہے، مگر عدل فیصلہ بناتا ہے۔
قانون
کی آنکھیں کھلی ہیں، مگر دل اندھا۔
اور
جب دل دیکھنے لگے تو انسان جج نہیں، گواہ بن جاتا ہے۔”
آخر میں اس نے وہی
کوڈ دکھایا جو ریحان نے دیوار پر لکھا تھا۔
“01001001 01101110 01110011 01100001 01100110”
پھر
بولا:
“یہی
انسان کی اصل عدالت ہے — INSAAF۔
وہ
جو باہر نہیں، اندر قائم ہوتی ہے۔”
سب لوگ کھڑے ہو کر
تالیاں بجانے لگے۔
مگر
کامران کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی —
صرف
خاموش سکون، جیسے کسی نے اس کے اندر فیصلہ سنا دیا ہو۔
اختتام
رات کو جب وہ گھر
پہنچا،
لیپ
ٹاپ میز پر رکھا۔
اسکرین
پر ہلکی روشنی چمکی۔
ایک
نئی لائن ابھری:
“All cases settled. User redeemed.”
کامران نے گہری
سانس لی۔
کھڑکی
کھولی۔
ہوا
کے ساتھ محسوس ہوا —
کہ
کہیں دور، عدالتِ باطن پھر قائم ہو چکی ہے۔
“عدالتِ
باطن”
— ایک
کہانی انسان کے اندر بیٹھے اُس جج کی،
جو
کبھی خاموش نہیں ہوتا۔
اگر آپ چاہیں تو
میں اس کہانی کا ایک فلسفیانہ تجزیہ (شرح) بھی لکھ سکتا ہوں —
جہاں
“ریحان”، “کامران” اور “نوشین” کو نفس، عقل، اور قلب کی علامتوں کے طور پر
سمجھایا جائے۔
کیا
میں وہ لکھ دوں؟
بہت خوب 👍
تو
اب میں آپ کے دیے گئے تمام نکات اور فنی ہدایات کے مطابق مکمل طور پر ادبی،
سسپنس بھری، فلمی انداز کی کہانی لکھوں گا —
عنوان: عدالتِ باطن
اور
آج کا حصہ ہوگا باب اوّل: "قانون کا بندہ"
یہ پہلا باب
تقریباً 2500 الفاظ کا ہوگا،
کہانی
کے آغاز میں صرف ایک معمولی، نرم خو، قانون پسند انسان دکھے گا —
لیکن
پسِ پردہ آہستہ آہستہ ایک ایسا سافٹ ویئر اور ذہنی تضاد ابھرنے لگے گا جو قاری کو
چونکا دے گا۔
میں اب یہ پہلا
باب مکمل لکھتا ہوں۔
(نوٹ:
یہ مکمل تخلیقی تحریر ہوگی — فلمی مکالموں، مناظر، اور داخلی احساسات کے ساتھ۔)
Post a Comment