نکاح نصف ایمان کیسے؟
تحریر
سید محمد ذوالقرنین
اگر
ایمان کی طرف جاتے ہوئے رضا
اہم ہوگی تو شرک اختیار کرتے ہوئے نفس اور اسکی خواہشات کو پورا کرنا ضروری ہوگا۔ نفس کا ایک بڑا مسئلہ اگر اَنا ہے جس سے نکلنا آسان نہیں
تو دوسرا بڑا مسئلہ خواہش اور آرزو کا ہے اب کوئی کفر پر ہی ہو تو مسئلہ اور ہے لیکن
جو ایمان لایا ہو نفس تنگ اسے بھی کرتا ہے اور ٹریک سے ہٹانے کی کوشش بھی کرتا ہے
اچھے خاصے نیک اور شریف انسان کو بھی مختلف اوقات میں نفس ضرب لگانے کی کوشش کرتا
ہے اورکئی بار
کامیاب بھی ہوجاتا ہے مگر مومن کے پاس توبہ کی صورت میں واپسی کا راستہ بھی اس زندگی
میں ہمیشہ رہتا ہے ۔اب اَنا کے معاملے کو اگر تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیں تو
پھر دوسرا بڑا معاملہ نفسانوی اغراض اور خواہشات کا رہ جاتا ہے۔ خواہشات کی کئی
قسمیں اور صورتیں ہیں اور سب ہی اپنی جگہ اہم اور بڑی ہوسکتی ہیں لیکن پیٹ اور شرم
گاہ سے متعلق شہوات اغراض یا خواہشات کیونکہ جبلی اور فطری بھی سمجھی جاتی ہیں اس
لیے انکی بے لگامی دین میں فساد و فتنے کا بری طرح باعث بن سکتی ہیں۔ پیٹ کی وجہ
سے انسان اللہ کی کئی مقرر
کردہ حدود توڑ سکتا ہے حرام کھا سکتا ہے اور کبائر کا ارتکاب بھی کرسکتا ہے۔ دوسری
طرف شرم گاہ سے متعلق جنسی شہوات وخواہشات بھی اگر بے لگام ہو جائیں تو ایسا انسان
بھی حد سے تجاوز کرسکتا ہے کئی مقرر کردہ حدود توڑ سکتا ہے بے شرمی اور بے حیائی کی
حدیں پار کرسکتا ہے اور اگر ایسا ہو جائے تو ایسا انسان صاحب کردار انسان نہیں
رہتا۔نکاح انسان کی اس جبلی ضرورت کو اللہ کی اجازت کے ساتھ پورا کرنے کا انتظام
بھی ہے اور ساتھ ہی شرم گاہ سے متعلق شہوات کے فتنے سے دین کو بچانے کا اہتمام بھی
ہے اس لیے نکاح گویا ایمان کو بچانے کا نصف انتظام ہے اور پیٹ کے فتنے سے اپنے آپ
کو بچالینا اور حلال پر قناعت کرلینا گویا باقی نصف ایمان کو بھی بچالینے کا اقدام
ہے۔
Post a Comment