دعا میں عجز نہیں، عجز میں خلوص نہیں
افضل منهاس
جو سوچتا ہوں وہ لکھنے کی تاب کیسے ہو
یہ بزدلی ہے تو اس کا حساب کیسے ہو
کھلی فضا میں بھی حائل ہے آہنی دیوار
کوئی اُڑان مری کا میاب کیسے ہو
نمو کا ذائقہ ظالم خزاں نے چھین لیا
خزاں کے عہد میں کانٹا گلاب کیسے ہو
ہزاروں خواہشیں رنگین کاغذوں کی طرح
سجی ہوئی ہیں ، مگر انتخاب کیسے ہو
بدی نے اپنے بدن پر چڑھا لیا ہے غلاف
ا سے یہ دھن ہے کہ عزت مآب کیسے ہو
دعا میں عجز نہیں، عجز میں خلوص نہیں
مگریہ فکر ، دعا مستجاب ، کیسے ہو
ہر اک عمل کو ضرورت کی مل گئی ہے سند
تو پھر، تمیز گناہ و ثواب کیسے ہو
سُنا ہے ، رد بلا تو جہاں میں ممکن ہے
مگرعذاب میں ردّ عذاب کیسے ہو
زبان ہی ایسی نہیں ہے تو گفت گو کیسی؟
یہ خامشی ہے، یہ حاضر جواب کیسے ہو
ہر ایک لفظ میں آئینے جگمگانے لگے
غزل کہی ہے تو افضل حجاب کیسے ہو
Post a Comment