(6) Facebook

                    اسد ہستم 


پردہ پوشی سیکھنی ہے گر تو قبرستان دیکھ

خاک نے کیسے چھپائی غفلت و عصیان دیکھ

 ڈھانپ کر عصیاں گروں کو سب کا پردہ رکھ لیا

 خاک کے پردوں میں لپٹے عنتر و ہامان دیکھ

 جو کبھی مٹی کا ذرہ پاؤں پر پڑنے نا دیں

اب وہی مٹی کی ڈھیری ان کی ہے پہچان دیکھ

سامری سی خواہشیں تھیں اور ارماں بے بہا

 وہ دبی ہیں خواہشیں اور وہ دبے ارمان دیکھ

 شاہ صاحب اب کہاں کے اب فقط میت ہیں یہ

 ہوگیا ہے خاکیوں کا خاک سے میلان دیکھ

 قبر نے پوچھا نہیں یہ خاص ہیں یا عام ہیں

 وہ بلا تخصیص ڈھانپے خصلت انسان دیکھ

گور کی خصلت خدا سی یہ بڑی ستار ہے

 سب کے پردے رکھ رہی ہے غور سے نادان دیکھ

 کس پہ کیا بیتی لحد میں قبر کچھ کہتی نہیں

 مرنے والوں پر لحد کا یہ بھی ہے احسان دیکھ

قبرکے اندر کے قصے گر لحد کرتی بیاں

بندکرتے ہی لحد اٹھتا نیا بحران دیکھ

 کب کیا اعلاں لحد نے فطرتِ مرحوم کا

خاک ڈھانپے کسطرح سے خصلتِ انسان دیکھ

 اور میں نے ہو کہ انساں، ہر بشر عریاں کیا

پردہ فاشی اک طرف ہے آ  کبھی بہتان دیکھ

 اس گناہِ خاص کی پاداش میں میرے لئے

 جا   زقوم و ہاویہ، نار و حمیمٍٍ اٰن دیکھ

 خاک کا تو ظرف ہے کہ ڈھانپتی ہے ہر خطا

 کیا تُرابی تو نہیں اے حضرتِ انسان دیکھ

 کچھ نیا کرنا نہیں بس لوٹ کر ماضی میں جھانک

 سیرتِ مرسل صحابہ و شہہ مردان دیکھ

 تو بھی سینے اور زبان کو گور سا ترتیب دے

 جوش کے در پر بٹھا کر ہوش کا دربان دیکھ

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post