کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

حکیم نیر اپنے وقت کے بہت بڑے حکیم تھے۔ ایک دن اُن کے مطب میں ایک مفلوک الحال اور نادار قسم کا انسان آیا اور نہایت عاجزی سے کہنے لگا: "حکیم صاحب ! میری لڑکی بیمار ہے، اللہ کے لیے آپ اسے چل کر دیکھ لیں ۔ اس فقرے کے ادا کرتے کرتے اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں ۔ وہ ایک مزدور تھا، جو حکیم صاحب کے مطلب سے چار فرلانگ کے فاصلے پر رہتا تھا۔ حکیم نیر واسطی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور خاموشی سے اٹھ کر اس کے ساتھ ہو لیے ۔ لوگ حیران تھے کہ یہ تو بڑے بڑے اُمرا کے یہاں اس طرح نہیں جاتے اور پھر اس وقت ، جب مطب مریضوں سے بھرا ہوا ہے ۔ حکیم صاحب اس کے کوارٹر میں گئے ، میں (احسان دانش) ان کے ساتھ تھا، دیکھا کہ ایک انتہائی کم زور، مگر جوان لڑکی ایک جھلنگے (ایسی چار پائی جس کے بان ٹوٹ گئے ہوں اور جھولا ہوگئی ہو ) میں لیٹی ہوئی ہے اور ٹانگوں پر پرانے اخباری کا غذ ڈھکے ہوئے ہیں ۔ حکیم صاحب نے پوچھا: یہ اس کی ٹانگوں پر اخبار کیوں ڈالے ہوئے ہیں ۔ " پھر خفگی سے کہا : " ہٹاؤ انھیں ۔"

لڑکی کے باپ نے جھکی ہوئی آنکھوں سے جواب دیا: "حکیم جی ! بے پردگی کے خیال سے کاغذ ڈھک دیے ہیں ، بچی کا پاجامہ کئی جگہ سے پھٹا ہوا ہے۔ حکیم صاحب یہ سن کر سنائے میں آگئے ، کھڑے کھڑے آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور ہونٹ کا پننے لگے ، بہ مشکل ضبط کیا اور نبض دیکھ کر کچھ اور سوالات کیے ، جو لڑکی کی بیماری سے متعلق تھے ۔ اس کے فورا بعد لڑکی کے باپ کو ساتھ لے کر مطب گئے اور اپنے دوا ساز سے جلد دوا تیار کرنے کے لیے تاکید کر کے اپنے زنان خانے میں گئے اور دوا کے تیار ہونے تک اپنی بیگم کے دو نئے جوڑے، ایک چادر اوربیس روپے دیتے ہوئے لڑکی کے باپ سے کہا : " دیکھو گھر جا کر فورا یہ کپڑے اپنی بچی کو پہناؤ، چادر اڑھاؤ اور اس معمولی ہی رقم سے گھر میں کھانے پینے کا سامان لا کر رکھو ۔ بلاناغہ دواخانے سے آ کر دوا لے جانا اور بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو فوراً مجھے بتانا۔ پھر نہ جانے کب تک دوا جاتی رہی۔ ایسے عظیم لوگ اب کہاں: بہت جی خوش ہوا۔ابھی کچھ لوگ ہیں باقی جہاں میں (جہانِ دانش از احسان دانش)


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post