ہمارے عظیم
اطبا
ابن باجہ
- ایک معروف طبیب اور فلسفی
شہید حکیم
محمد
اُندلس کے مشہور اور نام ور سائنس دانوں میں ایک بڑا نام ابن باجہ کا بھی ہے۔ وہ فلسفیانہ علوم کے علاوہ عربی ادبیات کا بھی ماہر تھا اور شعر وسخن کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتا تھا۔
اس کا پورا
نام ابو بکر محمد ابن یحییٰ تھا۔ اُندلس کے ایک شہر سرقسطہ میں ۱۰۸۵ء میں پیدا ہوا اور ۲۰
سال
کی عمر میں سائنس اور فلسفے کی متعدد اہم کتابوں کے مصنف کی حیثیت سے ہمہ گیر شہرت
حاصل کی۔ اس کے بارے میں تذکرہ نگاروں کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ اسے مالی مشکلات
نے بے حد پریشان رکھا اور اس کی تحریروں سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے
اور حالات سے شاکی رہا، پھر بھی موسیقی، منطق، ہیئت ، ہندسہ اور فلسفے کی پینتیس کتابیں
اس سے منسوب ہیں اور تحقیق کاروں نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ ابن باجہ ذہنی طور پر فارابی
سے بہت متاثر تھا۔ شاید اسی لیے اس کا فلسفیانہ افکار میں نظم و ترتیب کی کمی کا احساس
شدت کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن ہیئت پر اس نے اپنے رسائل میں جس محققانہ انداز کے ساتھ
بطلیموس کے مفروضات اور غلط نظریات پر تنقید کی ، اس نے ابن طفیل اور البطر وجی کے
لیے ایک نئی شاہ راہ کھول دی۔ ہسپانوی حکما نے اس کی تحقیق سے استفادہ کر کے فلکیات
میں بڑی شہرت حاصل کی۔
ابن باجہ
نے تحقیق ادویہ کے میدان میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیے۔ اس کی طبی تصانیف سے ابن
رشد صرف متاثر ہی نہیں تھا ، بلکہ حقیقتاً اس کا پیرو اور شاگر د تھا اور طبی دنیا
میں یہ ابن باجہ کی عظمت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اہلِ تحقیق جہاں ابن
باجہ کے کمالات کا اعتراف کرتے ہیں ، وہاں اس کی کم زوری کا ذکر بھی برملا کرتے ہیں
کہ اس کے مزاج میں استقلال نہیں تھا اور وہ عموما افکار کی پراگندگی کا شکار رہتا تھا۔
وہ فلسفے کی راہ سے آنے والی یلغار پر قابو پانے کی ذمے داریوں سے پوری طرح عہدہ برآ
بھی نہیں ہو سکتا تھا اور اس سے یکسر کنارہ کشی بھی اس کے لیے ممکن نہ تھی۔ یہی وہ
ذہنی کشمکش تھی، جو اس کو امام غزالی کے نظریات کی تردید پر مجبور کرتی تھی ۔ بہر حال
وہ اپنی منطقی تصانیف میں اپنے ذہنی رہبر فارابی سے قریب تر نظر آتا ہے۔ اس کے طبیعی
مافوق الطبیعی نظریات فارابی سے بہت مطابقت رکھتے ہیں ، لیکن ندرت اور انفرادیت کی
جھلک نظر آتی ہے تو صرف ان نظریات میں جو انسانی نشو و نما اور علم و زندگی سے انسان
کے تعلق کے سلسلے میں اس نے پیش کیے۔
ابن باجہ کی بیشتر تالیفات ضائع ہو چکی ہیں، مگر ڈاکٹر عمر فرخ اور دیگر محققین کا یہ خیال درست ہے کہ اسپین ، مصر اور اوکسفرڈ میں اس کی تصانیف کے خطی نسخے آج بھی موجود ہیں۔ان کی بعض تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:
·
کلام علی شیء من کتاب الادویہ المفردہ
لجالینوس۔
·
کتاب التجربتین علی ادویہ وافد۔
·
رازی کی کتاب “الحاوی” کی اختصار
بعنوان “اختصار الحاوی”۔
·
کلام فی المزاج بما ہو طبی۔
اس کا باپ سنار تھا۔ المقری نے لکھا ہے کہ باجہ لغت فرنگ میں چاندی کو کہتے ہیں۔ اس کا آبائی پیشہ زرگری کا تھا، اسی لیے وہ ابن باجہ کے لقب سے مشہور ہوا ۔ اس عظیم فلسفی اور سائنس داں کا انتقال ۱۱۳۹ء میں ہوا۔
Post a Comment