"شہرت کی دوقسمیں ہیں ۔ایک شہرت طلب ،کوششوں اورآرزوؤں کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے کہ فرد کا اس کامتمنی ہوتاہے۔ شہرت کی یہ حیثیت آزمائش کی سی ہے کہ فرد کو اس کے نفس کے رحم وکرم پرچھوڑدیاجاتا ہے ، اس سے اس کانفس شاداں وفرحاں ہوتاہے۔اس شہرت کے نتیجہ میں جو کردار وجود میں آتاہے اس کی علامتیں یہ ہیں ،فرد عام لوگوں سے کٹ جاتاہے، بڑے لوگوں تک محصورہوجاتاہے ،اسے اپنی حفاظت کی فکر لاحق ہوتی ہے، وہ پہروں میں رہنے لگتا ہے، وہ ذہنی نفسیاتی طور پر احساس برتری کا شکار ہوجاتاہے ، وہ بنگلوں میں رہتاہے۔آسائش کی زندگی گزارتا ہے ، وہ دولت سے کھیلنے لگتا ہے ۔ اس سے اللہ کے بندوں کا ملنا غیرمعمولی طورپر دشوار ہوتاہے ، وہ مزید شہرت کے لئے فکرمند رہتاہے اوراپنے متعلقین کے ذریعہ اس کی منصوبہ بندی کرتا رہتاہے۔ یہ شہرت آفت ہے ، جو فرد 
کو اپنی داخلی وباطنی بیماریوں کے ادراک سے محروم کردیتی ہے۔

شاید اس ہی شہرت کو مدنظررکھتے ہوئے کسی شاعر نے کہاتھا:

ہمارے عہد کے انسان ہیں ذہین بہت

ضمیر بیچ کر شہرت خرید لیتے ہیں 


اب تو بدنامی سے شہرت کا وہ رشتہ ہے کہ لوگ

ننگے ہو جاتے ہیں اخبار میں رہنے کے لیے

 


شہرت کی دوسری قسم 

دوسری شہرت اللہ کی طرف سے انعام ہوتی ہے  جو اللہ ،اپنے خاص الخاص دوستوں کو عطا فرماتارہتاہے ، اس شہرت سے مقصود یہ ہوتاہے کہ لوگ اللہ کے دوست سے محبت کرکے ، اس سے زیادہ سے زیادہ روحانی طورپراستفادہ کرسکیں،اس کے فیوض وبرکات سے بہرہ ور ہوکر،تقویٰ  اورتزکیہ کے مراحل طے کریں۔

اللہ کی طرف سے انعام کے طور پر حاصل ہونے والی اس شہرت کی علامتیں یہ ہیں۔  ایسا فرد عجز وانکساری کا مجسمہ ہوتاہے، اس پر فنائیت طاری ہوتی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو لاشے تصورکرتا ہے۔ اس سے ملنا آسان ہوتاہے، اس کی طرزمعاشرت سادہ ہوتی ہے ۔ وہ زہد وفقر کا صاحب ہوتاہے اوردولت سے اپنا دامن بچانے کے لئے کوشاں ہوتاہے ۔ وہ ہرطرح کی برتری وہ چاہے علمی ہو یا روحانی ، اس طرح کے احساسات برتری سے محفوظ ہوتاہے۔ وہ اللہ کے بندوں کے لئے شفیق ہوتاہے۔قرآن نے اس طرح کے خوش نصیب افراد کے بارے میں فرمایا ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا؂[1]

جو لوگ ایمان لائے اورنیک عمل سرانجام دیئے اللہ ان کی محبت (مخلوقات کے دل میں) پیداکردے گا۔"؂[2]

اس اقتباس کے آخر میں جو آیت مبارکہ پیش کی گئی ہے اس  کی تفسیر میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی جاسکتی ہے۔

إِذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَٰهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ۔؂[3]

"جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتاہے تو جبرئیل کوپکارتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتاہے پس تم اس سے محبت کرو،پس جبریل علیہ السلام اہل سماء میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے پس تم اس سے محبت کرو،پس اہل سماء اس سے محبت کرتے ہیں پھر اس کی محبت کو زمین میں بھی قبول عام مل جاتاہے۔"


آخر میں  شہرت کی ہوس پر ایک لطیفہ

اب یہ حال ہے کہ ایک دفعہ ایک یوٹیوبر کو سزائے موت سنادی گئی ۔ اس سے جب اس کی آخری خواہش دریافت کی تو اس نے فورا روانی میں کہا:  subscribe my channel , push bell button   and share it.

 مارکیٹ میں جھوٹ کی رفتار سچ سے کہیں زیادہ ہے۔ صحافت اب فیکٹری بن گئی ہے۔ آزادی صحافت کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے۔(وسعت اللہ خان سے ایک انٹرویو)



؂[1] ۔  سورہ مریم:96

؂[2] ۔  ملفوظات علامہ محمد یوسف بنوری

؂[3] ۔  صحیح بخاری

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post