مہمان نوازی جس سے خدا خوش ہوگیا(مہمان کی خاطر چراغ بجھادینا)

ہمارے پیارے نبیﷺپر درود اور سلام ہو ۔ آپ ﷺ کوغریبوں سے بہت محبت  تھی ۔ اسلامی حکومت کا خزانہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے پاس آتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں بانٹ دیتے اور اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے تھے ۔ کسی آدمی کو بھو کا دیکھتے تو گھر میں کھانے کی جو چیز ہوتی اسے کھلا دیتے اورخود بھوکے رہتے تھے۔

ایک دفعہ ایک صحابی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس وقت ان کا چہرہ کملا یا ہوا تھا اور آواز بہت کم زور تھی۔ ان کی حالت دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھ گئے کہ یہ بھو کے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا " میرے گھر جاؤ اور کھانے کی جو چیز موجود ہو، لے آؤ ۔ “ اس دن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں کچھ بھی نہیں تھا۔ آدمی خالی ہاتھ واپس آگیا تو حضورصلی الہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب سے فرمایا " کوئی آدمی ہے جو آج رات ان کی مہمانی کرے؟ ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں ۔" صحابی ، مہمان کو ساتھ لے کر گھر گئے ۔ بیوی سے کہا' یہ ہمارے نبی ﷺکے مہمان ہیں ، ان کی مہمانی میں کمی نہ کرنا ۔ بیوی نے کہا ' آج گھر میں تھوڑ اسا آٹا تھا، وہی پکا لیا ہے۔ اتنا کھانا تو صرف ہمارے بچوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے، مہمان کی میز بانی کیسے کروں؟" صحابی نے کہا بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو جب وہ سو جائیں تب ہمیں کھانا دے دینا۔ ہم دونوں کھانے کے لیے بیٹھ جائیں تو تم چراغ کی بتی درست کرنے کے بہانے اسے بجھا دینا۔

بیوی نے بات مان لی ۔ مہمان اور میزبان دونوں کھانے بیٹھے تو بیوی نے چراغ بجھا دیا۔ گھر میں گھپ اندھیرا ہو گیا۔ مہمان اندھیرے میں کھانے لگا اور میزبان ان کے ساتھ برتن سے خالی ہاتھ اٹھاتے اور خالی منھ چلاتے رہے۔ مہمان سمجھتا رہا کہ میرے ساتھ ہی کھا رہے ہیں۔ اس طرح مہمان نے پو را کھانا کھا لیا اور دونوں میاں بیوی اور ان کے بچے رات بھر بھر کے رہے۔

صبح ہوئی تو مہمان اور صحابی ، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺان کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ”تمھاری رات کی مہمانی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئی ۔"

یہ واقعہ درمنثور میں کچھ ان الفاظ میں نقل کیاگیاہے:

 ایک صحابی نبی کریم   کی  بارگاہ  میں حاضر ہوئے اوربھوک وپریشانی کے بارے میں عرض کیا، حضورنے اپنی ازواج مطہرات کے گھروں میں آدمی بھیجا، کہیں کچھ نہ مِلا، پھرحضور نے صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ: ’’کوئی شخص ہے جو اِن کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے؟‘‘ ایک انصاری صحابی نے عرض کیا کہ: یارسولَ اللہ(ﷺ)! مَیں مہمانی کروںگا۔

وہ انصاری صحابی اُن (مہمان رسول ﷺ)کوگھرلے گئے، اوربیوی سے فرمایا کہ: یہ حضورکے مہمان ہیں،جتنازیادہ سے زیادہ حق میزبانی ہم اداکرسکتے ہوں  اُس میں کَسَر نہ کرنا، اور کوئی چیز چھپا کرنہ رکھنا، بیوی نے کہا: خدا کی قَسم! بچوں کے قابل کچھ تھوڑا سا رکھا ہے، اَور کچھ بھی گھر میں نہیں، صحابی نے فرمایا: بچوں کو بہلا کر سُلا دیں ، اور جب وہ سوجائیں تومیں کھانالے کرمہمان کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا ، اور تُوچراغ کے درست کرنے کے بہانے سے اُٹھ کراُس کوبجھا دینا، چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا، اور دونوں میاں بیوی اور بچوں نے فاقے سے رات گزاری، جس پریہ آیت ﴿یُؤْثِرُوْنَ عَلیٰ أَنْفُسِہِمْ﴾نازل ہوئی، ترجَمہ: ترجیح دیتے ہیں اپنی جانوں پر اگرچہ اُن پرفاقہ ہی ہو۔ (بحوالہ ،دُرِّمنثور: ۶؍ ۲۸۸)


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post