اپنی کمائی

(اردو اکیڈمی سندھ)

ایک امیر آدمی کا بیٹا بڑا نکما اورکھلنڈرا تھا۔ نہ اسکول جاتا اور نہ کوئی کام کرتا۔ امیر آدمی ہمیشہ نرمی سے سمجھایا کرتا کہ بیٹے ! دنیا میں بغیر کچھ سیکھے اور کام کیے گزارا نہیں ہو سکتا لیکن وہ ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے اُڑادیتا۔ ایک دن اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا، اگر تم کل کچھ کما کر نہیں لاؤ گے تو تمھیں کھانا نہیں ملے گا۔ وہ روتا  ہوا اپنی ماں کے پاس پہنچا اور اسے یہ بات سنائی۔ بھلا ماں سے اپنے بچے کے آنسو کہاں دیکھے جاتے ۔ اس نے

صندوق سے ایک روپیہ نکال کر اسے دے دیا۔ وہ روپیہ لے کر باپ کے پاس گیا۔ باپ نے کہا ' جاؤ اسے سامنے والے کنویں میں پھینک آؤ۔ وہ پھینک آیا۔

دوسرے دن امیر آدمی نے اپنی بیوی کو میکے بھیج دیا اور بیٹے سے کہا اگر تم کل کما کر نہیں لائے تو تمھیں گے سے نکال دوں گا۔

وہ رونے لگا لیکن آج سے اس سے ہمدردی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کی ماں تو دوسرے شہر میں تھی دن بھربستر میں منھ چھپائے روتا رہا۔

آخر شام کو وہ ہمت کر کے اُٹھا۔ قریب ہی ریلوے اسٹیشن تھا، وہاں چلا گیا۔ گاڑی آئی اور مسافراپنا اپنا سامان لے کر باہر نکلنے لگے تو وہ ایک ایک

مسافر سے پوچھتا رہا " کیا میں آپ کا سامان لے چلوں؟ آخر ایک مسافر نے کہا ایک روپیہ دوں گا۔ یہ صندوق اور بستر چوک بازار تک لے چلو۔

اس نے صندوق اوربستر اُٹھا لیا۔ بوجھ سےگردن ٹوٹی جارہی تھی اور باز وشکل ہور ہے تھے لیکن اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔

شام کو وہ روپیہ لے کر اپنے باپ کے پاس پہنچا۔ باپ نے کہا ” جاؤا سے سامنے والے کنویں میں پھینک آؤ۔

بیٹے نے کہا ابا جان! بوجھ اٹھانے سے میری گردن میں درد ہو رہا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ میں یہ روپیہ کنویں میں پھینک دوں۔

باپ نے بیٹے کو گلے سے لگالیا۔ کہنے لگا ” بیٹے ! اب تمھیں اندازہ ہوا کہ رو پے کتنی محنت سے کمایا جاتا ہے۔“ پھر اسے کئی نصیحتیں کیں ، جس کے بعد لڑکا اپنے باپ کی دکان پر کام کرنے لگا۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post